جون ۲۰۲۳

فہرست مضامین

پاکستانی خارجہ پالیسی کی قومی بنیادیں

قمرافضل رضوی | جون ۲۰۲۳ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

کسی ملک کی خارجہ پالیسی، اس کے نظریاتی، جغرافیائی، اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی تقاضوں کی مجسم صورت ہوتی ہے، جو اس کے قومی مفادات کی حفاظت کرتی ہے۔ اس تناظر میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی مقصد اپنے تزویراتی (اسٹرے ٹیجک) اہداف کا تحفظ اور دفاع کرنا ہے اور سب سے بڑھ کر، اس بدلتی ہوئی گلوبلائزڈ دنیا میں، پاکستان کی خارجہ پالیسی میں اسٹرے ٹیجک خودمختاری کے تصور کو اپنانے کی پُرجوش خواہش ہے۔ یہ خواہش اور اُمنگ کسی ریاست کی صلاحیت کو اپنے قومی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرنے اور اپنی ترجیحی خارجہ پالیسی کو اپنانے کی دلیل ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے برعکس پاکستان دیگر غیر ملکی ریاستوں پر بہت زیادہ انحصار کرتا دکھائی دیتا ہے۔

نظریاتی طور پر، خارجہ پالیسی کی حکمت عملی کا تعین اس ملک کے اہل حل و عقد کے انتخاب کا جوہر ہوتا ہے۔ اس تناظر میں خارجہ پالیسی کی حکمت عملی کا انتخاب بین الاقوامی نظام کے تناظر میں کیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کی بدلتی ہوئی حرکیات کو سامنے رکھیں تو پاکستان کی خارجہ پالیسی ان اہم بنیادوں (پیرامیٹرز)پر مرکوز ہے: نظریہ، سلامتی، ڈیٹرنس، امن، جغرافیائی سیاست، اقتصادیات، تجارت اور موسمیاتی سفارت کاری۔ تاہم، قومی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کو برقرار رکھنا ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ہے۔

سات عشروں سے، کشمیر پاکستان کی خارجہ پالیسی کا سنگ بنیاد ہے۔ ہمارے سویلین اور فوجی اداروں نے کشمیری عوام کی آزادی اور حق خودارادیت کی حمایت کے غیر متزلزل عزم کو قومی میثاق (چارٹر) کا درجہ دیا ہے۔ جموں و کشمیر کا مسئلہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا کلیدی ستون رہے گا۔ ماضی کی تمام حکومتوں کی طرح، موجودہ حکومت پاکستان کے وزیرخارجہ بلاول زرداری نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ ہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت کے حصول تک کشمیری عوام کی بلاامتیاز اخلاقی، سفارتی اور سیاسی حمایت جاری رکھیں گے۔

بلاشبہہ خارجہ پالیسی اور سلامتی کا ستون دوسرے ستونوں کے ساتھ پوری قوت سے کھڑا ہے تاکہ ہمارے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے ایک جامع اور مربوط نقطۂ نظر کو آگے بڑھایا جاسکے۔ پاکستان کی قومی سلامتی پالیسی (NSP) میں تسلیم کیا گیا ہے کہ ’’روایتی اور غیر روایتی خطرات اور مواقع مل کر مجموعی قومی سلامتی کو متاثر کرتے ہیں‘‘۔ اس ضمن میں باضابطہ طور پر معاشی سلامتی کو قومی سلامتی کا مرکز قرار دینا ایک اہم پیش رفت ہے، کیونکہ اس سے ملک کو معاشی استحکام حاصل کرنے میں مدد ملے گی، جس کے حصول کے لیے وہ طویل عرصے سے کوشاں ہے۔

پاکستان عالمی طاقتوں بالخصوص امریکا، چین اور روس کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن برقرار رکھنے کا پرجوش حامی نظر آتا ہے۔ ہمیں عالمی طاقتوں کی مخالفت کے بجائے ان کو زیادہ سے زیادہ حمایتی بنانا ہوگا۔ اس تناظر میں اسلام آباد کو بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان کسی سرد جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ چین کے ساتھ ہمارے تزویراتی تعلقات کے بڑھتے ہوئے دائرہ کار کے باوجود، پاکستان چین، امریکا اور روس کے ساتھ دوطرفہ دوستی کے قابل عمل اور پائیدار رشتوں کو جوڑنے کی عملی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے۔ ’پاکستان روس تیل معاہدے‘ کے حوالے سے امریکا کی جانب سے کسی قسم کے تحفظات کا نہ ہونا اچھی علامت ہے۔ گلوبلائزڈ دنیا کے اس دور میں، پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کے تصور سے جڑا ہوا ہے جس کی بنیاد اسٹرے ٹیجک خود مختاری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یورپی کلب (EUC) میں GSP+ جوں کی توں صورتِ حال کو بحال کرنا پالیسی کی ترجیحی لائن ہے۔ اسی طرح عرب لیگ کے بیش تر رکن ممالک کے ساتھ بھی پاکستان کے وسیع ثقافتی اور دفاعی تعلقات ہیں، بالخصوص سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ وسیع تجارتی تعلقات ہیں۔

۲۰۲۱ء میں، چین اور پاکستان نے اپنے دوطرفہ تعلقات کے ۷۰سال مکمل کر لیے۔ ایک وژن اور آئیڈیلزم ان تعلقات میں گہرے رشتے کی رہنمائی کرتا ہے۔ دونوں ممالک نہ صرف باہمی مفادات میں ایک دوسرے کے ساتھ عملی یک جہتی کا مظاہرہ کرتے ہیں بلکہ اس شراکت داری کو مزید وسعت دینے کی بھرپور خواہش بھی رکھتے ہیں۔ پاکستان چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو اپنی خارجہ پالیسی کا سنگ بنیاد سمجھتا ہے،جب کہ چین پاکستان کو قابلِ اعتماد بھائی کہتا ہے۔  ’چین پاکستان اقتصادی راہداری‘ درحقیقت علاقائی رابطے کا فریم ورک ہے۔ ’چین پاکستان اقتصادی راہداری‘ سے نہ صرف چین اور پاکستان کو فائدہ پہنچے گا بلکہ ایران، افغانستان، بھارت، وسطی ایشیائی جمہوریہ اور خطے پر بھی اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

اسٹرے ٹیجک استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے، پاکستان نے کم از کم ڈیٹرنس کی پالیسی اپنائے رکھی جسے بعدازاں ۲۰۰۱ء میں انڈیا کے ’کولڈ سٹارٹ نظریے‘ کی وجہ سے مکمل اسپیکٹرم ڈیٹرنس میں تبدیل کر دیا گیا۔ یوں پاکستان کی جوہری حکمت عملی، جنوبی ایشیائی خطے میں تزویراتی عدم استحکام کا مقابلہ کرنے پر مرکوز ہے۔ اگرچہ نسل پرست نریندرا مودی کی خارجہ پالیسی خطے میں اسٹرے ٹیجک امن کے مستقبل کے لیے سنگین خطرہ ہے، لیکن پاکستان اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن کو فروغ دینے پر یقین رکھتا ہے۔ اس وقت پاکستان، عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ معاہدے تک پہنچنے میں مصروف ہے، لیکن یہ ادارے ایک بے رُخی کا رویہ اپناتے نظر آرہے ہیں۔

’سندھ طاس معاہدے‘ (IWT )میں طے شدہ شرائط کو برقرار رکھنا پاکستان کی خارجہ پالیسی کی نمایاں ترین ضرورت ہے۔ لیکن ’سندھ طاس معاہدے‘ کے مقابلے میں تسلط پسندانہ اور غیر قانونی بھارتی پالیسی جس میں بھارت کی بدتہذیبی اور انسانیت دشمنی بھی شامل ہے، بھارت اور پاکستان کے متنازعہ تعلقات کا سبب بنی ہے۔

اس حقیقت کے باوجود کہ اگست ۲۰۲۱ء میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد، پاکستان کو افغانستان میں دہشت گردوں کی جانب سے مسلسل نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ افغانستان کے ساتھ پُرامن تعلقات برقرار رکھنا پاکستان کی حکومت کی ترجیح رہی ہے اور پاکستان، طالبان کے ساتھ اعتماد پیدا کرنے کی توقع رکھتا ہے۔