جون ۲۰۲۳

فہرست مضامین

پاکستان میں سیاسی رسہ کشی اور ملّی مفاد

پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد | جون ۲۰۲۳ | اشارات

Responsive image Responsive image

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کی قوم اور خصوصیت سے موجودہ قیادت کو قطعاً احساس نہیں کہ پاکستان کتنی قربانیوں اور جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے۔ اس کے قیام کی جدوجہد میں لاکھوں انسانوں نے جان کا نذرانہ پیش کیا ہے اور بڑے نامساعد حالات میں قائداعظم محمدعلی جناح ؒکی بصیرت اور عوام کی جدوجہد کے نتیجے میں یہ ملک قائم ہوا جوہمارے ہاتھوں میں امانت ہے۔ یہ ہمارا پاکستان ہے، یہ میرا پاکستان ہے۔

مَیں نے ۴دسمبر ۱۹۴۷ء کو اپنی آنکھوں سے قرول باغ، دہلی میں اپنے گھر کو بلوائیوں کے ہاتھوں لُٹتے دیکھا ہے۔ مجھ پر اور میرے خاندان پر ایک رات ایسی بھی گزری ہے کہ جان بچانے کے لیے پانچ جگہیں تبدیل کرنا پڑیں۔ انسانوں کی جلتی ہوئی لاشوں کی بُو سونگھی ہے۔ایک مہینہ مہاجرین کے کیمپ قلعہ شیرشاہ میںزمین پر، دریوں پر زندگی گزاری ہے۔ میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے کہ ہرسطح پر کارفرما موجودہ قیادت   کس غفلت ، فکری انحطاط، بے فکرے پن، اور ذاتی مفادات کی خاطر ملک کے مسائل کو یکسرنظرانداز کر رہی ہے اور ملک مسائل اور بحرانوں کی دلدل میں دھنس رہا ہے۔ ان حالات میں اجتماعی زندگی کے پانچ اہم پہلوئوں کے بارے میں اس مضمون میں ڈاکٹر انیس احمد نے بنیادی نقشۂ کار کی طرف متوجہ کیا ہے، جس پر عمل کرکے بحران سے نکلنے کا سامان فراہم ہوسکتا ہے۔مدیر]

ملک عزیز کے ۷۰سالہ اُتار چڑھاؤ کی تاریخ پر اگر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو ایک غیرجانب دار مبصر یہ کہنے پر مجبور ہوتا ہے کہ کہ ملک کی بار بار آزمائی ہوئی سیاسی جماعتیں    ملّی مفاد کی جگہ انتخابی سیاست کی شطرنجی بساط کو زیادہ اہمیت دیتی رہی ہیں۔ آج ملک جس سیاسی ، معاشی، دفاعی اور سب سے زیادہ اخلاقی بحران کا شکار ہے، وہ ان کی ا نتخابی سیاست کا ایک منطقی نتیجہ ہے۔ہر وہ جماعت جو کسی اتحاد کی بنا پر یا کسی حوالے سے اپنی اکثریت کی بنا پر برسرِ اقتدار آئی، اس نے یہی سمجھا کہ اب نہ صرف سیاست بلکہ پوری ریاست بھی صرف اس کی میراث ہونی چاہیے۔ اس کی مثال ان دوسگے لیکن خود غرض بھائیوں کی طرح ہے، جو زمین کی تقسیم پر ایک دوسرے کی کردار کشی ، الزام تراشی اور اتہام بازی سے دریغ نہیں کرتے۔ یہ وہ گھنائونی حرکت ہے جسے قرآن کریم نے انفرادی اور اجتماعی طور پر ملت کے وجود کے کے لیےزہر قاتل قرار دیا ہے۔   افسوس ہے کہ بڑی سیاسی جماعتیں پوری تندہی کے ساتھ یہ کام کرنے میں مصروف ہیں اورقوم کے مستقبل سے بے نیاز ہوکر ملک کو تباہی کی طرف لے جانے کی دوڑ میں لگی ہوئی ہیں۔ آج جو ہنگامی سیاست کی فضا ملک میں قائم ہے اور ہر فریق دوسرے کی ذات، عزّت، شخصیت اور وقار کو نشانہ بنارہا ہے، اس کے نتیجے میں انتشار اور توڑ پھوڑ کے لیے کسی بیرونی دشمن کے حملے کی ضرورت باقی نہیں رہی ۔

اس نازک صورتِ حال میں بلاتاخیر ذاتی اور اجتماعی احتساب کی فکر کرنی چاہیے اور اس کے ساتھ ، رب کریم کے حضور استغفار اور اجتماعی توبہ اور رجوع الی اللہ کی ضرورت ہے ۔ حالات میں بہتری کے لیے ضروری ہے کہ ہر طبقۂ خیال کے افراد یکسو اور یکجا ہو کر پانچ اہم اُمور کے لیے صف بستہ ہوجائیں، جس میں ابلاغ عامہ اپنی سنسنی خیزیت کو ملتوی کرتے ہوئے ملک و ملت کو ایک تعمیری راستے کی طرف لانے کی کوشش میں تعاون کرے :

  • پہلا اہم امر ملک کے دستور کی روشنی میں ملک و ملت کی نظریاتی اساس کا تحفظ ہے ۔ قائداعظم ؒنے پاکستان کا مقصدِ وجود ’اسلام اور مسلمانوں کے تحفظ‘ کو قرار دیا تھا اور فرمایا تھا کہ اگر یہ ملک نہ بنا تو یہ سانحہ اسلام اور مسلمانوں دونوں کے لیے تباہ کن ہو گا۔ موجودہ صورتِ حال میں جس طرح مسائل کو گڈ مڈ کر کے افواہوں کا بازار گرم کیا جارہا ہے، یوں دوسرے لفظوں میں یہ منفی پیغام دیا جارہا ہے کہ سیاسی آزادی نے نہ ہمیں معاشی استحکام دیا، نہ سیاسی قوت ۔ اس لیے گویا قائد اعظمؒ کا ملک کو الگ سے وجود میں لانا ہی درست نہ تھا، اورمسلمان ہندو اکثریت کے غلام رہ کر شاید زیادہ بہتر زندگی بسر کرتے! اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی دُہرائی جا رہی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کو بدلنے کی ضرورت ہے ۔ گویا سارا قصور یا تو قائد اعظمؒ کا ہے یا پھر دستور کا، اور ۷۰ سال سے اقتدار پر قابض رہنے والی جماعتیں اور ان کے معروف ذاتی مفاد پرست سربراہ تو بے چارے معصوم اور بے گناہ ہیں اور کسی برائی کے مرتکب نہیں ہیں ۔

اس تناظر میں ملک و ملت کو دستور پاکستان کی حرمت و تحفظ کو اوّلیت دینے کی ضرورت ہے ۔ یہ دستور ملکی اتحاد، نظریاتی تحفظ اور جمہوری روایات کا امین ہے ۔ امرواقعہ یہ ہے کہ ہماری کمزوری دستور نہیں ہے بلکہ دستور سے مذاق و انحراف کرنے والے افراد اور ادارے ہیں ۔اس خرابی کی ذمہ داری کسی دوسرے پر منتقل کرنے سے یہ صداقت تبدیل نہیں ہو سکتی ۔

  • دوسری اہم ضرورت عقل و شعور کے راستے کو اختیار کرنا اور اپنی اَنا یا اپنی بات پر اصرار اور ضد، ہٹ دھرمی اور ملکی اداروں کے ناجائز استحصال کے ذریعے سے اپنی بات منوانے کی جگہ مشاورت ، گفتگو ، مکالمہ ، تبادلۂ خیالات یا شورائی فکر کو اختیار کرنا ہے ۔ شوریٰ کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی مسئلے کے مثبت ، منفی ، اچھے بُرے پہلوؤں پر ہرزاویے سے غور کیا جائے اور پھر پارٹی یا ذاتی مفاد سے بالا تر ہو کر اجتماعی ملّی مفاد کو ملحو ظ رکھتے ہوئے آئین کی روشنی میں اتفاق رائے حاصل کیا جائے کہ اسی اتفاق رائے میں برکت ہے۔ اس کے برعکس ہر ایک کا اپنی اپنی ڈفلی بجانا نقارخانے میں شور و غل اور ہنگامہ تو پیدا کرسکتا ہے لیکن اس سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکتے۔
  • تیسرا اہم قومی کام عدلیہ کی مکمل آزادی اور اسے دستور کا محافظ اور شارح تسلیم کیا جانا اور عدلیہ کا عملاً اس کردار کوپوری ذمہ داری اور دستور کی متعین کردہ حدود میں ادا کرنا ہے۔ عین ممکن ہے کہ کسی خاص موقعے پر بعض ایسےا فراد عدلیہ میں ہوں جو انسانی کمزوری کی بنا پر کوئی غلط فیصلہ کر دیں،اور ایسا ہونا بعید از امکان نہیں ہے، مگر اس کے باوجود عدلیہ کا وقار، معروضیت اور سیاسی دباؤ سے آزاد ہونا اور آزاد رہنا، نہ صرف دستور کی روح ہے بلکہ ملکی سالمیت کے لیے شرطِ اوّل ہے۔ ہر اس رویے سے بچنے کی ضرورت ہے، جس سے عدلیہ کی آزادی ، احترام اور کردار کو نقصان پہنچتا ہو۔
  • چوتھا اہم کام اس پورے عمل میں دفاعی اداروں کا ملک کے دفاع کو اوّلیت دینا اور ملکی سیاست میں کسی جانب داری کا اختیار نہ کرنا ہے۔ جس طرح عدل کے بغیر ملک میں امن نہیں ہو سکتا، ایسے ہی جب تک دفاعی ادارے غیر جانب دارنہ ہوں، ملک میں امن و سکون نہیں ہو سکتا اور ان پرعوام کا اعتماد بحال نہیں ہو سکتا ۔

موجودہ صورت حال میں ایک پھل فروش سے لے کر کالج کے ایک طالب علم اور کسان تک یہ یقین رکھتا ہے کہ اداروں کے دائرہ کار اور حدود پر عمل کرنے میں توازن کافقدان ہے۔ خاص طور پر الیکشن کمیشن بظاہر اپنی دستوری ذمہ داری ادا کرنے پر آمادہ نظر نہیں آرہا۔ کراچی کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں مشکوک انتخابی عمل اور حکمران سیاسی جماعت کو کامیاب بنانے کے لیے کی جانے والی انتخابی بے ضابطگیوں نے الیکشن کمیشن کی ساکھ پر سنجیدہ سوالات کو جنم دیا ہےاوراس ادارے کی غیر جانب داری کو مشتبہ نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے ۔ الیکشن کمیشن اور پارلیمان کے نمایندوں نے قوم کےا عتماد کو نقصان پہنچایا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام دستوری اداروں پر قوم کے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں ۔

  • پانچواں اہم معاملہ انتخابات کا وقت پر ہونا ہے۔قوم اس وقت جس جذباتی تقسیم اور تضاد بلکہ ٹکراؤ کے راستے کی طرف جا رہی ہے،اس سے بچاؤ کے لیے انتخابات کا وقت پر اور غیرجانب داری کے ساتھ کیا جانا ایک لازمی ضرورت ہے ۔ اپنی تما م تر کمزوریوں کے باوجود، اس قوم میں بھلائی اور برائی میں امتیاز کرنے کی صلاحیت موجود ہے ۔ اگر انتخابات کے ذریعے کوئی ملک مخالف عناصر اقتدار میں آنا چاہیں، تو یہ قوم ابھی اتنی اندھی نہیں ہے کہ انھیں اپنے اُوپر مسلط کر لے۔ اصل چیز جمہوری انتخابی عمل کا بلا انقطاع جاری رہنا ہے ۔ یہ ایک فطری عمل ہے اور یہ حق و باطل میں تمیز کو جلد یا بدیر واضح کر دیتا ہے ۔

ملک کے ایک حصے میں لسانیت اور علاقائیت کو مسلسل فروغ دیا جا تا رہا ہے، لیکن ملک کی آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے شہر میں جب تحریک اسلامی نے صحیح حکمت عملی اور زمینی حقائق کی روشنی میں دعوت کو اختیار کیا، تو اس شہرکے عوام نے عصبیتوں کو رَد کر کے تحریک پر اعتماد کا اظہار اپنے ووٹ سے کیا ۔ یہ اس بات کی واضح علامت ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں اگر قوم کو صیحح حکمت عملی سے متوجہ کیا جائے، تو وہ حق و باطل کے درمیان فرق کرنا جانتی ہے اور انتخابات میں اپنا حق اعتماد سے استعمال کرسکتی ہے۔

کرنے کا کام

ایک ایسے سیاسی بیانیے کی ضرورت ہے جو ملک کے معاشی، سیاسی اور اخلاقی انتشار کو دُور کرنے کے لیے ان اقدامات پر مبنی ہو جو قابل عمل ہوں ، متعین ہوں، عمومی نوعیت کے نہ ہو ں بلکہ مقرر اہداف کی شکل میں ہوں۔ مروجہ سیاسی زبان میں دوسری جماعتوں پر الزام تراشی اورا نھیں بدعنوانی کا ذمہ دار ٹھیرا کر مخالفت برائے مخالفت کی جاتی ہے ، اس کی جگہ دعوتی اور اصلاحی زبان میں شائستگی سے اختلاف کی روایت کو فروغ دیا جائے ۔ اہل اور ایمان دار افراد کو تلاش کیا جائے اور ایک قابلِ عمل معاشی ترقی کے پروگرام کو عزم و ہمت اور نوجوان نسل سے تعلق رکھنے والے افراد کے ذریعے بنیاد بنایا جائے۔ ملک کے سیاسی منظرنامے میں متحرک نوجوان قیادت میں باصلاحیت افراد کی کمی نہیں ہے اور وہ زیادہ فعال اور سرگرم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ ایسے نوجوانوں کی ہمت افزائی کی جائے جو ۳۰ تا ۳۵ سالہ عمر کے ہوں اور قیادت کی صلاحیت رکھتے ہوں ۔ معاشرتی فلاحی کاموں میں شریک ہوں، جیسے الخدمت فائونڈیشن کام کر رہی ہے۔

گذشتہ دو عشروں میں قوم بہت تیزی کے ساتھ اخلاقی زوال کا شکار ہوئی ہے۔ سیاسی، معاشرتی، حتیٰ کہ مسلکی زبان میں بھی شائستگی کی جگہ بد تہذیبی کو عام کیا گیا ہے ۔ اس کے ساتھ ملک کے تعلیم یافتہ افراد مایوسی اور لاتعلقی کا شکار ہوئے ہیں اور انھیں مسائل کو حل کرنے کے لیے کسی مسیحا کی شدت سے تلاش ہے ۔ مسائل کے گھنے بادلوں میں وہ امید کی کوئی کرن دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس معاشرتی نااُمیدی کو دُور کرنے کے لیے تحریک اسلامی ایک مثبت اور تعمیری سمت فراہم کر سکتی ہے، اور اپنے عام فہم اور قابل عمل معاشی ، سیاسی اور اخلاقی حل کے ذریعے تعلیم یافتہ طبقے کو اپنے ساتھ شامل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی کا منشور جو حال ہی میں جاری کیا گیا ہے، ایک قیمتی رہنما دستاویز ہے۔

 اس صورتِ حال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ دین کے فلاحی کردار کو اجاگر کیا جائے اور حقوق العباد کے کاموں میں الخدمت کی طرح زیادہ سے زیادہ سرگرمی کی طرف توجہ دی جائے، لیکن اس نیت کے ساتھ کہ ہم اس کا اجر صرف اللہ سے چاہتے ہیں ۔ اگر نیت درست ہوگی تو وہ جو دلوں کے حال سے آگاہ ہے، اپنے بندوں سے (جو نماز اور زکوٰۃ اور جہاد فی سبیل اللہ پر عامل ہوں)  وعدہ فرماتاہے کہ انھیں میراث میں جنت دی جائے گی ۔ گویا اصل کامیابی پارلیمنٹ کی کرسی نہیں بلکہ جنت کا حصول ہے ۔اس دنیا کی ساری کوششوں کا محور و مرکز دنیا کی شان وشوکت نہیں ہو نا چاہیے بلکہ آخرت ہونا چاہیے، ہاں اگر وہ جو ہر شے کا مالک ہے، اپنے بندوں کے خلوص سے خوش ہو کر انھیں یہاں بھی میراث میں سے کچھ دے دے تو یہ اس کا خاص فضل و کرم ہے۔

اقامت دین کی جدوجہد کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے اس سرزمین کے عطیے کو جو اس نے اپنے دین کے قیام و فروغ کے لیے دیا ہے، اس کی سالمیت ا ور یہاں پر دستور کی بالادستی، عدلیہ کی آزادی، عوام کو درپیش معاشی اور اخلاقی مسائل کا ایک قابل عمل حل پیش کرنا اور اس کے لیے عوام کو منظم اور متحرک کرنا تحریک اسلامی کی خصوصی ذمہ داری ہے۔تحریک اسلامی اس حیثیت سے اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہے کہ اس نے ملک کی سالمیت اور مظلوم عوام کے مسائل کو حل کرنے میں کیا کردار ادا کیا؟ا صل جواب دہی اس دنیا کی پارلیمنٹ میں نہیں بلکہ مالک کائنات کے حضور پیشی کے وقت ہے۔ اللہ تعالیٰ تحریک اسلامی اور اس کے ہر کارکن کو اس بڑی پیشی میں سرفراز فرمائے،آمین!

اس سلسلے میں علما، والدین، میڈیا اور سوشل میڈیا کو بھی خصوصی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے کے ہر طبقے اور ہرحصے میں وقت کی ضرورت کے مطابق دعوت اور اصلاح کے کام کو منظم اور متحرک کیا جاسکے۔