مارچ ۲۰۲۲

فہرست مضامین

امارت اسلامی افغانستان کے چھے ماہ

ڈاکٹر محمد اقبال خلیل | مارچ ۲۰۲۲ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

؍اگست ۲۰۲۱ء کی شام کو امریکی سرپرستی میں قائم افغان آرمی نے کا بل کو خالی کردیا تھا۔ صدر اشرف غنی سمیت بیش تر حکومتی لوگ ملک چھوڑ گئے اور تحریک طالبان افغانستان کے رضاکاروں نے آگے بڑھ کر دارالحکومت کا انتظام سنبھال لیا تھا۔ ۱۵ فروری ۲۰۲۲ء کو ان کے اقتدار کو قائم ہو ئے چھے ماہ ہو چکے ہیں، جب کہ باقاعدہ حکومت کا قیام اور عبوری کا بینہ کا اعلان۲۸ ستمبر کو کیا گیا۔

تحریک طالبان افغانستان کاآغاز ۱۹۹۰ء کے عشرے میں ہوا۔جب ۱۹۹۲ء میں ڈاکٹر نجیب اللہ کی ماسکونواز حکومت کاخاتمہ ہوا اورافغانستان میں مجاہدین کے دھڑوں کی باہم لڑتی بھڑتی حکومت قائم ہوئی۔ باہم اختلافات، خانہ جنگی اور لاقانونیت کی وجہ سے صوبوں کی سطح پرمقامی کمانڈروں نے اپنی عمل داری قائم کرلی اور ملکی سطح پرمضبوط حکومتی کنٹرول قائم نہ ہوسکا۔ نتیجہ یہ کہ ملک میں بدامنی کاراج تھا۔عوام میں بے چینی اور عدم تحفظ کا احساس عام تھا۔ اس دور میں قندھار سے ملاعمراخوند کی قیادت میں تحریک طالبان کاظہورہوا۔ جس نے کچھ ہی عرصے میں ملک گیر مقبولیت حاصل کرلی۔۱۹۹۶ء میں تحریک طالبان نے کابل پر قبضہ کرکے افغانستان میں اپنی حکومت قائم کرلی اور امارت اسلامی افغانستان کے نام سے ملک کوایک اسلامی شناخت دی۔یہ حکومت ۲۰۰۱ء تک قائم رہی۔ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء میں امریکا میں تخریب کاری کا ایک بڑاواقعہ پیش آیا تو امریکا نے اس کی ذمہ داری القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن پر عائد کی، جو اس وقت افغانستان میں مقیم تھے۔ امریکا نے ملا عمرسے مطالبہ کیاکہ اسامہ بن لادن کو ان کے حوالے کیا جائے، لیکن انھوں نے انکار کیاچنانچہ امریکی اور ناٹو افواج نے افغانستان پرحملہ کرد یا۔ اور شمالی اتحاد کی مدد سے کابل پرقبضہ کرکے حامدکرزئی کی قیادت میں اپنی مرضی کی حکومت قائم کردی۔دسمبر۲۰۰۱ء سے لے کر فروری۲۰۲۰ء تک تحریک طالبان مسلسل غیرملکی افواج سے حالت ِ جنگ میں رہی اور بالآخر ۲۹فروری ۲۰۲۰ء کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں تحریک طالبان اور امریکی حکومت کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا، جس کی بنیاد پر افغانستان سے غیرملکی افواج کاانخلا عمل میں آنا تھا۔

 امریکی فو ج کا انخلا

جون۲۰۲۱ء میں امریکی صدر جوبائیڈن نے اچانک۳۱ ؍اگست ۲۰۲۱ء تک افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی کا اعلان کرکے جہاںدنیاکوحیران کردیا، وہاں مزاحمتی تحریک طالبان کو بھرپور اعتماد سے پیش قدمی کاموقع بھی فراہم ہوگیا۔ امریکی سرپرستی میں تشکیل کردہ افغان فوج ریت کا ڈھیر ثابت ہو ئی،افغان صدراور ان کی کابینہ ملک سے فرار ہو گئے اور ۱۵؍اگست کو طالبان کابل میں داخل ہوگئے۔۱۶ ؍ اگست سے ۳۱ ؍اگست کے دن تک کابل ائیرپورٹ پر انتہائی افسوس ناک واقعات ہوئے، جب کہ اس کا انتظام۵ ہزار سے زائدامریکی فوج کے پاس رہا۔ اس دوران ایک لاکھ ۲۰ہزار سے زائد غیر ملکی اور ان کاساتھ دینے والے مقامی افراد کا انخلا عمل میں آیا۔ انھی دنوں دہشت گرد تنظیم ’داعش‘ نے خودکش حملہ بھی کیا، جس میں ۱۳؍ امریکی فوجیوںسمیت ۲۰۰؍افغان مارے گئے۔ امریکی فوج نے جانے سے پہلے کابل ائیر پورٹ پر کھڑے تمام جنگی جہاز،ہیلی کاپٹر، گاڑیاں اور دیگر املاک تباہ و برباد کرکے ایک بدترین مثال قائم کی۔

طالبان تحریک نے دارالحکومت کابل پرقبضہ کے بعد صوبہ پنج شیر کے علاوہ پورے ملک کا کنٹرول حاصل لیا۔احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود اور نائب صدر امراللہ صالح نے واد یِ پنج شیر میں چند روز مزاحمت کے بعد راہ فرار اختیار کی۔

 ۱۷؍ اگست کے فوراً بعد طالبان نے حکومت سازی کے لیے مشاورت کا آغاز کیا۔قندھار میں تحریک طالبان کے امیر مُلّا ہیبت اللہ کی زیر صدارت رہبری شوریٰ کا تین روزہ اجلاس ہوا۔ پہلے مرحلے میں مختلف محکموں،کابل انتظامیہ اور مرکزی بنک کے صدر کے طور پر ۱۲ شخصیات کا اعلان کیا گیا۔اس دوران کابل میں سابق صدرحامدکرزئی،ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور انجینیر گلبدین حکمت یار سے مشاورت کی گئی، جس سے یہ خیال پیدا ہو ا کہ ایک وسیع البنیاد حکومت کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے۔ اس دوران طالبان کے ترجمان سہیل شاہین، ذبیح اللہ مجاہد، اور دیگر زعماء نے میڈیا پر بہترین ترجمانی کی۔عام معافی کا اعلان ،تعلیمی اداروں میں تعلیم کا آغاز اور بازاروں اور بنکوں میں لین دین کا آغاز ہوا۔ محرم الحرام میں اہل تشیع کے جلوس اور خواتین کے مظاہروں کی اجازت دی گئی۔البتہ جس عبوری کابینہ کا اعلان کیا گیا، اس میں صرف طالبان رہنما ئوں کو شامل کیا گیا ہے۔

مُلّامحمد حسن اخوند کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا ہے، جب کہ ملاعبدالغنی برادر اور ملا عبدالسلام حنفی کو نائب وزیر اعظم کے عہدے سونپے گئے ہیں۔ دیگر اہم شخصیات میں ملاعمر کے صاحبزادے ملایعقوب کو وزیر دفاع،سراج الدین حقانی کو وزیرداخلہ، ملاامیر خان متقی وزیر خارجہ اور ملافصیح الدین بدخشانی کو چیف آف آرمی سٹاف مقرر کیا گیا ہے۔ اب تک ۶۷؍افراد کو وزارتیں و دیگر اہم مناصب دیئے جاچکے ہیں۔ یہ اعلان کیاگیا تھا کہ ۱۱ستمبر کو تقریب حلف برداری ہوگی۔لیکن پھر اس کو ملتوی کردیا گیا۔ مرکز کے علاوہ افغانستان کے ۳۴صوبوں اور ۴۰۰ اضلاع میں بھی تمام مناصب پر تعیناتی کی جا چکی ہے اور ملک کے طول و عرض پر امارت اسلامی کا کنٹرول قائم ہو چکا ہے۔

طالبان حکومت کے لیے چیلنج

اس سب کے باوجود افغانستان میں طالبان حکومت کو سخت چیلنجوں اور مسائل کا سامنا ہے:

  • بین الاقوامی سطح پرامریکی اور یورپی اقوام اور پڑوسی ممالک کا رسمی طور پر اس حکومت کو تسلیم نہ کرنا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ پاکستان نے بھی اب تک طالبان حکومت کو رسمی طور پر تسلیم نہیں کیا۔جس کی وجہ سے امارت اسلامی کو عالمی سطح پر تنہائی کا سامناہے۔
  • اقتصادی صورتحال کو کنٹرول کرنا ،پابندیوں اور عدم تعاون سے عہدہ برآ ہونا۔ گذشتہ حکومت کے خاتمے سے شہروں میںبڑے پیمانے پربے روزگاری پیدا ہوئی ہے۔ سامان خوراک کی طلب میں اضافہ اور گرانی اور مہنگائی میں اضافے کا مسئلہ فوری طور پر حل طلب ہے۔
  •  بچیوں کی تعلیم اور خواتین کے تعلیمی اداروں کی بندش بھی ایک قابل توجہ مسئلہ ہے۔
  • تجربہ کار،تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد کا ملک چھوڑنا بھی تشویش ناک عمل ہے۔
  • حکومت سازی میںطالبان کے علاوہ دیگر اہم شخصیات کو اقتدارمیںشامل نہ کرنابھی مشکلات میں اضافہ کر سکتا ہے،اورمختلف عناصر کو دوبارہ منظم کرنے کا موقع فراہم کر سکتا ہے۔

 طالبان حکومت کے اقدامات

گذشتہ چھے ماہ میں امارت اسلامی افغانستان کی قیادت نے کئی ایسے ٹھوس اور مؤثر اقدامات کیے ہیں جس سے موجودہ حالات کے تقاضوں کو پورا کرنے اور افغان عوام کے مسائل حل کرنے میں واضح پیش رفت نظر آرہی ہے۔ ان میں سے چند اقدامات درج ذیل ہیں :

  • باقاعدہ افغان فوج کا قیام: گذشتہ دور میں بننے والی افغان فوج اور پولیس تو طالبان حکومت کے قائم ہو تے ہی تحلیل ہوگئی تھی،لیکن اسلحہ اور گولہ بارود کی بڑی مقدار طالبان کے ہاتھ آئی۔ طالبان حکومت نے نہ صرف مال غنیمت میں ملنے والے تمام فوجی ساز و سامان کی حفاظت کی بلکہ فوجی چھاؤنیوں ،ہوائی اڈوں اور اسلحہ خانوں کی فہرستیں مرتب کرکے ان کو منظم کیا ۔ پورے ملک کے طول وعرض میں قائم عسکری اڈوں اور تنصیبات کے لیے ذمہ دار مقرر کیے گئے اور کہیں بھی افراتفری، ہڑبونگ کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا۔فوجی تنصیبات کے ساتھ اضلاع کی سطح پر پولیس کے محکمے کو بھی اسی طرح فعال رکھا گیا۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق ایک لاکھ ۷۰ ہزار افراد پر مشتمل باقاعدہ فوج تشکیل دی گئی ہے۔ اسی طرح سرحدی علاقوں کی حفاظت کے لیے بھی علیحدہ فورس قائم کی گئی ہے۔ جنگی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں پر مشتمل فضائی فوج بھی تشکیل دی گئی ہے۔ البتہ پائلٹوں کی کمی، پرزہ جات اور ناکارہ جہازوں کو کارآمد بنانے کا مسئلہ درپیش ہے۔
  • تعلیم  اورصحت کے  شعبہ جات میں اقدامات: عوامی خدمات فراہم کرنے والے اداروں میں ’محکمۂ تعلیم‘ اور ’محکمۂ صحت‘ بہت اہمیت کے حامل ہیں، جس کو جاری رکھنا حکومت کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے۔ طالبان حکومت کے لیے اول روز سے یہ کام ایک چیلنج کے طور پر سامنے آیا۔طالبان کے گذشتہ دور میں بھی ان پر زیادہ تنقید اس حوالے سے ہورہی تھی۔ اس لیے اس بار انھوں نے کوشش کی ہے کہ یہ ادارے بند نہ ہو نے پائیں۔ اس میں سب سے بڑا مسئلہ اساتذہ اور دیگر عملہ کی تنخواہوں کی ادائیگی کا تھا۔ ابتدائی چند ماہ میں ان کو جزوی ادائیگی ہو تی رہی، جب کہ اب اقوام متحدہ کے ادارے ’یونیسیف‘ اور دیگر عالمی امدادی اداروں کے تعاون سے واجبات کی ادائیگی باقاعدگی سے جاری ہے۔ سردی سے متاثرہ علاقوں کے علاوہ پورے ملک میں تمام سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے فعال ہیں ۔نجی تعلیمی اداروں کو زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔ اندازاً ۴۰ فی صد طلبہ کم ہو گئے ہیں ۔جس کی بڑی وجہ معاشی مسائل ہیں۔

ہسپتالوں اور طبی مراکز کو بھی پوری طرح فعال کر دیا گیا اور ان کے عملے کی تنخواہیں بھی عالمی ادارے IRCRC  (عالمی ادارہ صحت) وغیرہ دے رہے ہیں ۔البتہ ڈاکٹروں اور طبّی عملے کی کمی اور ادویات کی نایابی کا مسئلہ کئی جگہ موجود ہے۔مریضوں کے علاج معالجے کے لیے پشاور،ایران اور بھارت جانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

  • خواتین کی تعلیم: طالبان کو خاص طور پر خواتین کی تعلیم کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ طالبان کا موقف یہ ہے کہ طالبات کی تعلیم کے خلاف نہیں لیکن مخلوط تعلیم برداشت نہیں کر سکتے کیونکہ یہ اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔اس وقت پرائمری سے یونی ورسٹی کی سطح پر علیحدہ کلاسوں کا بندوبست کر لیا گیا ہے۔ہر تعلیمی ادارے میں صبح کے وقت لڑکوں کی کلاسیں ہو تی ہیں، جب کہ دوپہر کے وقت طالبات پڑھتی ہیں اور پردہ کی پابندی کرتی ہیں۔ خاتون اساتذہ کی کمی کا مسئلہ درپیش ہے۔ طالبان نے خواتین ملازمین کے بارے میں بھی پہلے کے مقابلے میں نرم رویہ اختیار کیا ہے، اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں خواتین کو کام کرنے کی اجازت دی ہے ۔
  • اقتصادی چیلنج کا سامنا : امارت اسلامی افغانستان کو سب سے بڑا چیلنج اقتصادی میدان میں درپیش ہے۔گذشتہ ۲۰سال میں امریکا کی قیادت میں اتحادی ممالک نے افغانستان پر کھربوں ڈالر خرچ کیے اور صرف امریکا نے دو کھرب ڈالر خرچ کرڈالے۔ افغانستان میں ایک طرح سے یہ بہت بڑی سرمایہ کاری ہوئی ۔صرف فوج اور پولیس کے شعبوں میں چار لاکھ کے لگ بھگ افغانی بھرتی ہو ئے اور ان کو ڈالروں میں تنخواہیں ملتی تھیں ۔اسی طرح حکومت کے تمام شعبوں میں ملازمین کو تنخواہیں غیر ملکی فنڈز سے ادا کی جاتی تھیں۔ روسی تسلط کے زمانے میں یہی کام ماسکو حکومت کرتی تھی۔ امریکی انخلا کے بعد امریکی تنخواہیں نہ ملنے سے لاکھوں افغانی بے روزگار ہوگئے،معاشی سر گرمیاں ختم ہوگئیں اور کئی بنک اور کاروباری ادارے دیوالیہ ہو گئے۔

طالبان کی قیادت نے کمال حکمت و فراست کا مظاہرہ کرتے ہو ئے ملکی معیشت کو ایک حد سے گرنے نہیں دیا ۔ملک میں امن و امان قائم کرنے اور مواصلاتی نظام کو بر قرار رکھنے کے ساتھ ساتھ بنک کاری کے نظام کو بھی سہارا دیا ۔ افغان مرکزی بنک کا سربراہ حاجی محمد ادریس کو پہلے ہی مرحلے میں مقرر کیا گیا اور انھوں نے بنک کا انتظام سنبھالتے ہی تمام بنکوں کو روزانہ کم از کم سرمایہ فراہم کرنا شروع کردیا، البتہ یہ پابندی لگائی کہ ہر فرد اپنے کھاتے سے ہفتے میں دو سو ڈالر یا اس کے برابر افغان کرنسی نکال سکتا ہے،اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ انھوں نے تمام نجی بنکوں کے سربراہوں کو ہدایت کی کہ وہ اپنے ملازمین کو فارغ نہیں کریں گے اور کم از کم نصف تنخواہ کی ادائیگی جاری رکھیں گے ۔اس کے علاوہ کاروباری حضرات کو مزید سہولتیں بھی دی گئیں اور سرکاری ملازمین کو پہلے چند ماہ نصف تنخواہ اور اب مکمل تنخواہیں دینے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے ۔ اس طرح لاکھوں افراد بے روزگار ہونے سے بچ گئےاور اندرون ملک کاروباری ماحول بحال ہو چکا ہے ۔ بڑے پیمانے پر تعمیراتی کام، خصوصاً شاہراہوں کی تعمیر و مرمت کچھ حد تک بحال ہو چکی ہے اور سرکاری ٹھیکے بھی جاری ہو گئے ہیں ۔البتہ مکمل طور پر اقتصادی ترقی بحال نہیں ہو ئی اور ملک میں مجموعی طور پر غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ بنکوں میں ATM کی سہولت ابھی تک بحال نہیں کی جاسکی ہے۔

  • بیرونِ ملک تجارت: بین الاقوامی سطح پر پابندیوں اور بنکاری کی سہولتوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے جہاں اندرونِ ملک اقتصادی سرگرمیاں ماند پڑ گئی ہیں، وہاں بیرونِ ملک تجارت بھی بُری طرح متاثر ہوئی۔افغانستان کو چونکہ سمندر تک رسائی حاصل نہیں ہے،اس لیے اس کا انحصار پاکستان اور ایران کی بندرگاہوں پر ہے اور پوری دنیا سے درآمدات و برآمدات کے لیے وہ کراچی اور بندر عباس اور چاہ بہار کو استعمال کرتا ہے۔ علاوہ ازیں پڑوسی ممالک تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان کے ساتھ زمینی تجارت بھی ہوتی ہے۔ یاد رہے ابتدائی کچھ عرصے میں باہمی تجارت بندرہی۔ اب ملک میں اشیائے خورد و نوش، غذائی اجناس،تعمیراتی اور دیگر ساز و سامان کی فراہمی جاری ہے۔ خاص طور پر پاکستان کے ساتھ افغانستان کی تجارت تقریباً بحال ہو چکی ہے اور روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں ٹرک طورخم ، چمن و دیگر سرحدی گزرگاہوں سے سامان لے جارہے ہیں۔

 بیرونی تجارت میں اس وقت سب سے بڑی رکاوٹ بنک کاری کی سہولتوں کی کمی ہے۔ جس سے تاجروں کو بیرونی کرنسی کے کاروباری معاملات میں مشکل درپیش ہے۔سب سے بڑا مسئلہ افغان مرکزی بنک کے بیرونی اثاثہ جات ہیں، جو ۹ ؍ارب ڈالر سے زیادہ ہیں اور جو امریکی بنکوں میں منجمد کردیئے گئے ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے حال ہی میں اس رقم کو اپنے استعمال میں لانے کا عندیہ دیا ہے ۔اور اس میں سے یک طرفہ اور جبری طور پر نصف رقم ۲۰۰۱ء میں امریکا میں دہشت گردی کے واقعے میںہلاک ہو نے والے امریکی شہریوں کے لواحقین کو دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ ایک بہت بڑی نا انصافی اور سنگین جرم ہے جس کا امریکی حکومت ارتکاب کرنے جارہی ہے۔ اس اعلان سے قبل اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری اناتیونیو گیوٹریس نے کئی بار امریکی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ یہ پابندی ختم کر دے اور افغان قوم کی یہ امانت اسے واپس دے ۔

  • ہوائی اڈوں اورملکی و غیر ملکی پروازوں کی بحالی:  افغانستان میں موجود دو درجن کے لگ بھگ ائرپورٹوں پر امریکی انخلا کے بعد پروازوں کی آمدورفت رک گئی تھی۔ ان ہوائی اڈوں کا انتظام اور پروازوں کی رہنمائی میں مدد دینے والا تکنیکی عملہ بھی غائب ہو گیا تھا، لیکن طالبان نے بڑے شہروں پر قبضے کے بعد سب سے پہلے ہوا ئی اڈوں کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لیا تھا اور پوری کو شش کی گئی ہے کہ وہاں موجود جہازوں ، ورکشاپوں ،مشینری و دیگر تنصیبات کو کسی بھی قسم کا نقصان نہ پہنچنے پائے۔ اس مقصد میں وہ بڑی حد تک کامیاب ہو ئے ۔اس طرح دو ماہ کے عرصے میں انھوں نے ملکی سطح پر تمام ہوائی اڈوں اور پروازوں کو بحال کر لیا اور اس وقت افغان قومی ائیرلائن اور نجی کمپنیوں کی پروازوں کا سلسلہ جاری ہے ۔بیرون ملک پروازوں کا سلسلہ بھی کافی حد تک بحال ہو چکا ہے ۔پاکستان، متحدہ عرب امارات ،ایران ،ترکی، قطر و دیگر ممالک سے جہازوں کی آمدورفت شروع ہو چکی ہے ۔اسی طرح اقوام متحدہ کے اداروں اور انٹرنیشنل ریڈ کراس کے جہازوں کی آمد و رفت بھی جاری ہے ۔امدادی سامان بھی ہوائی جہازوں کے ذریعے سے آرہا ہے۔ پاکستان سے پی آئی اے کی کمرشل پروازیں بھی بحال ہوچکی ہیں۔
  • بین الاقوامی سفارتکاری اور پابندیاں : عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی ایک قابل شخصیت ہیں اور گذشتہ طالبان دور میں بھی اہم حکومتی مناصب پر رہے ہیں۔ انھوں نے وزارت خارجہ کا چارج سنبھالتے ہی بیرونی رابطوں کے لیے بھر پور سرگرمی دکھائی۔ ان سے پہلے نائب صدر مُلّا عبدالغنی برادر اور نائب وزیر خارجہ عباس ستانکزئی نے بھی دوحہ مذاکرات کے دوران اور اس کے بعد عالمی سطح پر بہترین سفارت کاری کا مظاہرہ کیا تھا ۔امریکا کے علاوہ دوسری عالمی طاقتوں چین اور روس سے بھی بڑے پیمانے پر مذاکرات کیے اور کئی اہم کانفرنسوں میں تحریک طالبان افغانستان کی ترجمانی کی ۔اس وقت بھی وزیر خارجہ امیر خان متقی اور ان کی ٹیم تمام اہم بیرونی طاقتوں کے ساتھ رابطے میں ہیں،اور افغانستان کے مسائل کے حل اور اقتصادی معاملات میں تعاون کے حصول میں کامیابی حاصل کر رہے ہیں۔ انھوں نے مسلم ممالک کی نمایندہ تنظیم اسلامی کانفرنس کے حالیہ اجلاس منعقدہ اسلام آباد میں شرکت کی اور ناروے میں یورپی ممالک کی تنظیم یورپی یونین کے ساتھ بھی مذاکرات کیے ہیں ۔اس وقت اقوام متحدہ کے تمام ذیلی اداروں UNICEF ،  WHO اور ICRC  وغیرہ کے دفاتر کابل میں فعال ہیں اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر افغان عوام کے لیے ریلیف سرگرمیوں میں مصروفِ عمل ہیں،جب کہ یورپی یونین،روس، چین، ترکی،پاکستان ،ایران و دیگر کئی ممالک کے سفارتخانے کابل میں کام کر رہے ہیں ۔
  • امارت اسلامی کو رسمی طور پر تسلیم نہ کرنا : ابھی تک کسی بھی ملک نے ’امارت اسلامی افغانستان‘ کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ اقوام متحدہ میں بھی افغانستان کی نمایندگی طالبان کو نہیں ملی ہے۔ گذشتہ دور میں پاکستان،سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اس کو تسلیم کیا تھا۔ لیکن اب تک ان ممالک نے بھی رسمی طور پر امارت اسلامی افغانستان کو سفارتی درجہ نہیں دیا ہے ۔ اسی طرح دیگر پڑوسی ممالک ،تاجکستان ،ازبکستان،ترکمانستان اور ایران نے باقاعدہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔ پھر روس اور چین نے مذاکرات کے باوجود تسلیم نہیں کیا ہے۔ ترکی، قطر،آذربائیجان اور ملائیشیا سمیت کسی بھی مسلم ملک نے خیر سگالی کے جذبات کے اظہار کے باوجود اس کو تسلیم نہیں کیا۔۲۹ فروری ۲۰۲۰ء کو امریکی حکومت نے طالبان کی قیادت کے ساتھ طویل مذاکرات کے بعد صلح اور امن کا معاہدہ کیا اور اسی معاہدے کی بنیاد پر امریکی ونیٹو افواج کا افغانستان سے پُرامن انخلا وقوع پذیر ہوا۔ اس کے باوجود امریکا اور اس کے زیر اثر اہم ممالک برطانیہ، جرمنی، جاپان و دیگر یورپی ممالک، امارت اسلامی افغانستان کو تسلیم نہیں کررہے ہیں۔

بھارت نے گذشتہ بیس سال میں صدر اشرف غنی اورحامد کرزئی کی حکومتوں کے ساتھ قریبی تعلقات قائم رکھے اور افغانستان میں اپنے مخصوص مفادات کو تحفظ دینے کے لیے بڑے پیمانے پر تعمیراتی اور رفاہی کام کیے، جس کے نتیجے میں افغان عوام میں بالعموم بھارت کے لیے مثبت جذبات پائے جاتے ہیں، جو اس کی سفارتی حکمت عملی کی کامیابی ہے ۔ بھارت نے سفارتی سطح پر رابطوں کے باوجود اب تک طالبان حکومت کو تسلیم نہیںکیا ۔ یہ بڑی عجیب و غریب صورتِ حال ہے کہ ایک ایسی حکومت کو تسلیم نہیں کیا جا رہا، جس نے گذشتہ چار عشروں سے ایک شورش زدہ ملک میں مکمل امن و امان اور مرکزی حکومت کی رٹ قائم کردی ہے، جو اس سے پہلے ظاہر شاہ کی بادشاہت کے بعدکبھی بھی قائم نہیں ہوئی تھی۔ درحقیقت حکومت کو اپنی تمام تر صلاحیتوں اور خوبیوں کے باوجود صرف اس لیے تسلیم نہیں کیا جا رہا کہ وہ اسلامی نظریے اور عقیدے کی بنیاد پر قائم ہے۔

  • پاک افغان تعلقات: افغانستان کی پاکستان کے ساتھ ۲۶۰۰ کلو میٹر طویل سرحد ہے، جب کہ دونوں ممالک کے گہرے دینی، تہذیبی اور جغرافیائی رشتے ہیں ۔ پاکستان کے لیے افغانستان میں یہ تبدیلی بہت اہم ہے۔ایک طویل عرصے سے افغانستان کی سرزمین پاکستان مخالف تحریکوں اور تخریب کاری کے لیے استعمال ہو تی رہی ہے۔ بھارت نے بھی وہاں پر پاکستان دشمن عناصر کو منظم کیا تھا اور تربیتی اڈے قائم کیے۔ ’تحریک طالبان پاکستان‘ اور ’داعش‘ نے بھی افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا ہے۔اب ممکن ہے کہ ان تمام عناصر کے ساتھ سرحدی تخریب کاری کا قلع قمع کیاجاسکے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ افغانستان کی رائے عامہ میں پاکستان مخالف جذبات پائے جاتے ہیں۔ جن پاکستانی اخبار نویسوں نے حال ہی میں افغانستان کادورہ کیا ہے، انھوں نے بھی اس کو محسوس کیا ہے۔ بھارتی سرپرستی میں قائم افغان ٹی وی چینل اور اٖفغان قوم پرست حلقے اور کمیونسٹ عناصر بھی اس میں فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔

پاکستانی حکومت کے علاوہ تمام سیاسی و دینی جماعتوں ،خدمت خلق کی تنظیموں ،سماجی اداروں اور کاروباری تنظیموں اور شخصیات کو اس نازک موقع پر افغانستان کے عوام کا ساتھ دینا چاہیے۔ افغان عوام ایک عرصے سے پاکستان میں مہاجرین کی حیثیت سے رہتے چلے آ رہے ہیں۔ ان میں سے اب کئی خاندانوں کا دوسرا گھر پاکستان ہی ہے۔ اس طرح ہزاروں پاکستانی بھی افغانستان میں ملازمت یا کاروبار کرتے ہیں ۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان صدیوںسے ثقافتی ،مذہبی،قبائلی اور تجارتی روابط ہیں۔ضرورت اس امرکی ہے کہ ان روابط کو مزید مستحکم کیا جائے۔ اس کی ایک بہترین مثال حال ہی میں خیبر میڈیکل یونی ورسٹی، پشاور کا اقدام ہے کہ اس کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیا ء الحق نے افغان حکومت کے محکمۂ تعلیم کے وفد کی آمد کے موقعے پر اعلان کیا کہ وہ کابل میں افغان طلبہ و طالبات کی پیشہ ورانہ تربیت کے لیے میڈیکل اور نرسنگ کالجز پر مشتمل کیمپس قائم کریں گے ۔اس کے علاوہ پاکستان میں میڈیکل اداروں میں زیر تعلیم افغان طلبہ و طالبات کو فیسوں میں رعایت دینے کا بھی وعدہ کیا گیا ہے۔لازماً یہ اقدام اُٹھانے چاہییں کہ پاکستان کے تمام اعلیٰ تعلیمی اداروں میں افغان طلبہ و طالبات کو تعلیمی وظائف پر داخلے دیئے جائیں۔ اسی طرح عسکری اور دیگر تربیتی اداروں میں بھی افغانو ں کو آنے کا موقع دیا جائے۔تجارتی سرگرمیاں بڑے پیمانے پر بحال کی جائیں، اور ہر ممکن طریقے سے پاکستانی اور افغان تاجروں کو آسانیاں فراہم کی جائیں تاکہ افغانستان میں معاشی استحکام پیدا ہوسکے۔ وزارتِ خزانہ کا یہ فیصلہ قابل قدر ہے کہ افغانستان کے ساتھ تجارت میں غیر ملکی کرنسی کے بجائے ملکی کرنسی استعمال کی جائے گی ۔

 گذشتہ دنوں پاک افغان سرحد پر باڑھ لگانے کے معاملے پر دو مقامات پر افغان طالبان کی جانب سے مزاحمت کے واقعات سامنے آئے، جس سے تنائو کی کیفیت پیدا ہوئی۔ لیکن طالبان کی مر کزی قیادت نے فراست سے ان واقعات کا بر وقت نوٹس لیتے ہو ئے ذمہ دار افراد کو سزا دی۔ پاک افغان تعلقات میں ایک اور اہم مسئلہ ’تحریک طالبان پاکستان‘ (ٹی ٹی پی)کی جانب سے پاکستان میں تخریب کاری اور دہشت گردی کے واقعات ہیں، جس میں خاص طور پر پاکستانی فوج اور پولیس کے جواانوں کو نشانہ بنایا جار ہا ہے۔ ان واقعات میں اضافہ قابلِ تشویش ہے، جس کی روک تھام کے لیے ’امارت اسلامی افغانستان‘ کے قائدین بالخصوص وزیر داخلہ سراج الدین حقانی اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔ انھی کے ایما پر حکومت پاکستان اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا سلسلہ بھی چلتا رہا اور ایک موقعے پر سیز فائر کا اعلان بھی ہوا ۔لیکن اب تک صلح کی شرائط پر عدم اتفاق کی وجہ سے کو ئی باقاعدہ معاہدہ وجود میں نہیں آسکا ہے۔

  • موسم سرما کی شدت: افغانستان میں ہر سال موسم سرما بڑی مشکلات کا باعث بنتا ہے۔ ایک وسیع علاقے میں دارالحکومت کابل سمیت برف باری کا سلسلہ ماہ دسمبر سے شروع ہوجاتا ہے اور برف باری کی وجہ سے راستے بند ہو جاتے ہیں اور کئی صوبوں میں قحط سالی کی صورتِ حال پیدا ہوجاتی ہے۔اس لیے اس موسم میں امداد اور سامان خوراک کی ضرورت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ یقینا امارت اسلامی کی قیادت اس صورت حال سے عہدہ برآ ہونے کی پوری کوشش کررہی ہے۔ عالمی سطح پر بھی اس انسانی المیہ کو اجا گر کرنے کی تگ ودو میں مصروف ہے۔ورلڈ فوڈ پروگرام کے ذریعے افغانستان کے دور دراز علاقوں کو غذائی اشیا کی فراہمی جاری ہے۔پاکستان نے پہلے مرحلے میں پچاس ہزار ٹن گندم افغانستان روانہ کی ہے ۔ بھارت نے بھی پانچ لاکھ ٹن گندم کا اعلان کیا تھا۔ سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات ،ترکی ،قطر و دیگر کئی ممالک نے بھی امداد فراہم کی ہے ۔

 پاکستان کے کئی فلاحی اداروں اور مخیر حضرات نے افغانستان کے عوام کی مدد کی ہے، جن  میں ’الخدمت فائونڈیشن پاکستان‘ نمایاں ہے، اور اب تک ۲۱کروڑ مالیت کا سامان، جس میں غذائی اجناس ،گرم ملبو سات اور ادویات ٹرکوں کے ذریعے افغانستان بھیجا جا چکا ہے، جب کہ کابل میں یتیموں کی دیکھ بھال کے لیے آغوش مرکز کے قیام کا منصوبہ بھی بنایا گیا ہے۔ الخدمت فائونڈیشن اور اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (PIMA) کے تین رکنی وفدنے گذشتہ ماہ کابل کا تفصیلی دورہ کیا اور امارت اسلامی کے وزرا سے ملاقاتیں کیں۔الخدمت نے امدادی سامان کی ایک کھیپ افغانستان روانہ کی ہے۔ لیکن یہ کافی نہیں ہے،مزیدامداداورتعاون درکار ہے۔

  •  داعش کا مسئلہ اور تخریب کاری : شام اور عراق سے نمودار ہو نے والی بین الاقوامی تنظیم داعش (ISIS) نے افغانستان میں بھی اپنی شاخ قائم کردی تھی۔ افغانستان کے صوبے ننگرہار، پغمان اور کابل میں داعش کی موجودگی گذشتہ حکومت کے دور میں بھی منظر عام پر آچکی تھی ۔ اس کی جانب سے بڑے پیمانے پر خودکش حملے اور بم دھماکوں کا سلسلہ جاری تھا ۔انھوں نے خاص طور پر افغانستان کی شیعہ ہزارہ برادری کو نشانہ بنایا تھا ۔۱۷ ؍اگست ۲۰۲۱ء کو کابل ائیرپورٹ پر داعش کی جانب سے حملہ ہوا تھا۔ اس کے بعد کابل، قندھار ،اور قندوز میں خود کش حملے کیے گئے لیکن اب یہ سلسلہ کچھ تھم گیا ہے۔گذشتہ سال طالبان کی آمد کے موقعے پر افغانستان کی پل چرخی جیل سے عام قیدیوں کی رہا ئی کے موقعے پر داعش کے ایک رہنما کو ہلاک کر دیا گیا تھا، جس کی وجہ سے طالبان اور داعش کے درمیان کش مکش پید اہو ئی۔ موجودہ حکومت نے داعش کی سرگرمیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کیے ہیں، جس کا نتیجہ سامنے آرہا ہے ۔
  • افغان میڈیا کا کردار: طالبان کے دوبارہ برسراقتدار آنے کے بعد ایک اہم شعبہ جو متاثر ہوا ہے، وہ نشریاتی شعبہ ہے۔ آج کے دور میں یہ ایک طاقتور عنصر ہے، جو عوام اور ریاستوں کو متاثر کرتا ہے۔دینی قوتوں کے لیے آزاد میڈیا سے معاملہ کرنا ایک نازک مسئلہ ہے۔ الیکٹرانک میڈیا چینلز اور سوشل میڈیا کی مقبولیت نے طالبان حکومت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔ ٹی وی پر خواتین کی موجودگی اور موسیقی کا استعمال قابلِ اعتراض پہلو ہیں ۔گذشتہ دور میں ۶۰سے زائد ٹی وی چینلز معرض وجود میں آئے جن کو زیادہ تر بھارتی نشریاتی ادارے، دور درشن نے سٹیلائٹ سہولت فراہم کی اور پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کے لیے بھرپور انداز سے استعمال بھی کیا۔ طالبان نے میڈیا پر پابندی تو نہیں لگائی، لیکن ان کے لیے ضابطۂ اخلاق جاری کیا ہے۔

 اشتہارات کی کمی اور دیگر معاشی مسائل کی وجہ سے نشریات بھی متاثر ہو ئی ہیں ۔نائب وزیر نشریات ذبیح اللہ مجاہد اور ان کے ساتھیوں نے بڑی خوبصورتی سے ملکی اور بین الاقوامی صحافیوں سے معاملات کیے ہیں۔ غیر ملکی خواتین صحافی بھی افغانستان میں موجود ہیں اور بین الاقوامی نشریاتی ادارے براہ راست افغانستان کے شہروں اور دیہات سے رپورٹیں نشر کر رہے ہیں ۔پاکستانی صحافی بھی بڑی تعداد میں افغانستان جارہے ہیں، اور عوامی جذبات کے اظہار پر کوئی پابندی نہیں ہے۔

 مستقبل کے امکانات

 افغانستان ایک خوب صورت ملک ہے۔ اس میںسیاحت کے فروغ کے لیے اچھے مواقع ہیں، لیکن بدقسمتی سے امریکی پابندیوں،بین الاقوامی پروازوں کی بندش اور بنکاری کی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے حالات معمول پرنہیں آ رہے ۔ افغانستان، پاکستان ،ایران اور وسطی ایشیائی ممالک مل کر ایک وسیع و عریض خطۂ ارضی ہے، جو مستقبل میں بڑے انسانی، مالی اور جغرافیائی وسائل کی بنیاد پر دنیا میں ایک اہم سیاسی و نظریاتی کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔

 افغانستان میں معاشی بحالی اور امن و امان کا قیام طالبان حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ طالبان کی قیادت راسخ العقیدہ علما پر مشتمل ہے اور موجودہ دور کے تقاضوں ،عالمی سیاست کی پیچیدگیوں اور اسلام دشمن قوتوں کی سازشوں سے عہدہ برآ ہو ناان کے لیے ایک مشکل اور صبرآزما جدوجہد کا تقاضا کرتا ہے۔