مارچ ۲۰۲۳

فہرست مضامین

سیرت نبویؐ اور آبی وسائل کا نظم و نسق-۱

ڈاکٹر اللہ دتہ قادری | مارچ ۲۰۲۳ | اسوہ حسنہ

Responsive image Responsive image

دورِ حاضر میں جن مسائل کو پوری دنیا نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، ان میں آبی بحران کا مسئلہ سرِ فہرست ہے۔ اس کی ہولناکیوں سے کرۂ ارض کا ہر شخص اس سے کسی نہ کسی درجے میں متاثر ہے، حتیٰ کہ شدید خدشات لاحق ہیں کہ اب مستقبل میں جنگوں کی بنیاد بھی آبی وسائل پر ہو گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ آبی وسائل کے انتظام و انصرام کی طرف توجہ کی جائے اور آبی مسائل کو حل کیا جائے۔ سیرت النبیؐ کو قرآن حکیم نے اسوۂ حسنہ و کاملہ قرار دیا ہے اور سیرت کے گوناگوں گوشوں میں ہر لحاظ سے رہنمائی موجود ہے اور ہمارے تمام مسائل کا حل بھی سیرت النبیؐ سے ہدایت و رہبری میں پوشیدہ ہے۔

انتظامِ آب (Water Management)سے مرادپانی کے انتظام کی منصوبہ بندی ،اس کی بہتری و ترقی اور تقسیم کی حکمت عملی کے ذریعے آبی قواعد و ضوابط کے تحت پانی کے وسائل کا زیادہ سے زیادہ بہترین استعمال ہے۔ اس میں پینےکے پانی ، صنعتی پانی ، نکاسی آب یا گندے پانی کی صفائی کا انتظام ، آبی وسائل کا نظم و نسق ، سیلاب سے بچاؤ کا انتظام ، آبپاشی کا انتظام اور پانی کا انتظام شامل ہیں۔

یعنی انتظامِ آب سے مرادپانی کے ذرائع کی تضبیط اوران کی نقل و حرکت کو اس انداز میں منظم کیا جائے کہ وہ زندگی و املاک کے لیے کم سے کم ضرر رساں ہوں اورزیادہ سے زیادہ فائدہ مندہوں۔ ڈیموں اور بندکے اچھے انتظام کی بدولت سیلاب کی وجہ سے ہونے والے نقصان کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔

انتظامِ آب سیرت النبیؐ کی روشنی میں

اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو جن اعزازات و اکرا مات سے نوازا ۔ ان میں سے ایک خاص انعام حوض کوثر ؎۱کا بھی ہے۔ ارشاد ربانی ہے:

اِنَّـآ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ۝۱ۭ  (الکوثر۱۰۶:۱)بے شک ہم نے آپ کو کوثر عطا کر دیا۔

اسی وجہ سے آپؐ کے ہاتھ پر بکثرت پانی کے معجزات کا ظہور ہوا۔ اگرچہ یہ آیت آخرت میں آپؐ کی شرف و عزت اور وجاہت و کرامت کو ظاہر کرتی ہے مگر اس زمین پر بھی آپ ؐنے پانی کے انتظام و انصرام پر خصوصی توجہ مرکوز کی اور مدینہ کی ریاست میں اس بہترین انتظام کی عملی شکل اپنے کمال اور جوبن پر نظر آتی ہے۔ ویسے بھی آبی انتظامات کی تعلیم و تربیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ورثے میں ملی تھی۔ حاجیوں کے لیے پانی کے انتظامات کی ذمہ داری قصی کے سپرد تھی۔ ؎۲ پھر یہ خدمت عبد مناف، ہاشم ،مطلب، عبد المطلب، اور پھر آپؐ کے چچا عباس کے سپرد ہوئی۔ ؎۳  اس وجہ سے آبی انتظامات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہارت مسلّم تھی جس کا عملی ظہور مدینہ منورہ میں ہوا۔ ان اقدامات کے ضمن میں آپؐ نے بہت سی تدبیروں سے کام لیا، جنھیں درج ذیل اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

  • نئے آبی ذخائر کی تلاش
  • ترغیبات
  • پانی پلانا بہترین صدقہ
  • آبی وسائل میں تعاون کے فروغ کے لیے بھائی چارہ کا قیام
  • پانی کے ذرائع پر اجارہ داری کا خاتمہ
  • پانی کی خرید و فروخت کی ممانعت
  • زائد پانی کو روکنے کی ممانعت
  • آبی ضیاع کی ممانعت
  • آبی آلودگی کو روکنے کے اقدامات
  • انتظامی اقدامات
  • بہتر انتظامِ آب پر حوصلہ افزائی
  • آب پاشی کے عملی اقدامات
  • دیگر قبائل سے معاہدات
  • پانی سے متعلقہ معجزات

اب ذیل میں ان امور کی تفصیل بیان کی جاتی ہے:

نئے آبی ذخائر کی تلاش

عہد رسالتؐ کے آبی ذخائر میں کنوؤں اور چشموں کو خاص اہمیت حاصل تھی اگرچہ دریا، ندی نالے، تالاب ، چشمے اور وادیاں بھی پائی جاتی تھیں۔؎۴  اس زمانے میں چونکہ آبادی کم ہوا کرتی تھی اس لیے کنوؤں سے بآسانی گزارہ ہو جاتا تھا بلکہ ایک کنویں کی مدد سے پورا شہر پانی پی سکتا تھا۔ جیسا کہ احادیث میں ذکر کیا گیا ہے کہ بیر رومہ میٹھے پانی کا صرف ایک کنواں تھا، لیکن اس سے پورا مدینہ پانی استعمال کرتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ کنویں کی مدد سے لوگ اپنا روزگار بھی چلاتے تھے اور یہ مال و دولت اور متمول ہونے کی بھی ایک نشانی تھا۔اس لیے اسلام کے ابتدائی دور میں کنوؤں اور چشموں کا بکثرت ذکر ملتا ہے کہ پانی کی کمی کو دور کرنے کے لیے مختلف کنویں کھودے گئے۔ ہرچند کہ کنویں کھودنے کا رواج زمانۂ قدیم سے چلا آ رہا تھا۔

مکہ کی مقدس سرزمین میں سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے شعب حرا میں ایک کنواں کُرّآدم کھودا تھا جس کا پانی لوگ استعمال کرتے تھے۔ اسی طرح مرۃ بن کعب لوی نے رُمّ، کلاب بن مرہ نے بنی مخزوم کے لیے خُمّ، اور ہاشم بن عبد مناف نے صفا اور مروہ کے درمیان سجلہ نامی کنواں کھودا تھا ، بعد میں یہ کنواں جبیر بن مطعم کے نام سے مشہور ہوا۔ عبد الشمس بن عبد مناف نے الطَّوِیّ بنوایا تھا، جو بعد میں عقیلؓ بن ابی طالب نے بحال کیا تھا۔ امیہ بن عبد الشمس نے الجفر نامی کنواں جیاد میں کھودا۔ بنی عبدالشمس کے اُمّ جعلان اور علوق نامی کنویں بھی تھے۔ ام ہانی کے مکان والی جگہ قصی بن کلاب نے النجول کھودا تھا۔؎۵ مدینہ میں صرار نامی کنواں دور جاہلیت میں کھودا گیا۔ ؎۶

اس لیے آپؐ نے بھی ان روایات کو قائم رکھا اور پانی کی کمی کو دور کرنے کے لیے بہت سے کنویں کھدوائے گئے۔غزوہ مریسیع سے واپسی پر اسلامی افواج کا گزر نقیع کے مقام سے ہوا جہاں متعدد تالاب اور خوب صورت قطعات تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی خوب صورتی، وسعت اور سر سبزی سے بہت متاثر ہوئے۔ آب و ہوا اور پانی کی فراہمی کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ آپؐ کو بتایا گیا کہ موسم گرما میں یہاں پانی کم ہو جاتا ہے کیونکہ تالاب سوکھ جاتے ہیں۔ چنانچہ آپؐ نے ایک مشہور صحابی حاطب بن ابی بلتعہؓ کو وہاں ایک کنواں کھودنے کا حکم دیا۔ ظاہر ہے کہ یہ کنواں متعدد مسلمانوں کی مدد سے کھودا گیا۔؎۷  جس کی وجہ سے وہاں قلت ِآب کے مسئلے پر بآسانی قابو پا لیا گیا۔

علامہ تقی فاسی نے صرف مکہ معظمہ میں ۵۸ کنوئوں کی موجودگی بیان کی ہے۔ جن میں سے باب معلاء سے منٰی تک۱۷ ، منٰی میں ۱۵ اور مزدلفہ میں تین کنویں پائے جاتے تھے۔ عرفات میں زیادیۃ الکبری، زیادیۃ الصغری اور الشمروقیہ کا ذکر کیا ہے اور باب الشبیکہ سے تنعیم تک ۲۳کنویں بیان کیے ہیں۔

چونکہ ابتدا میں آبادی تھوڑی اور حجاج کرام کی تعداد بھی زیادہ نہیں ہوتی تھی، اس لیے کنویں کے پانی سے گزر ہو جاتی تھی لیکن جب آبادی اور زائرین کی تعداد میں اضافہ ہو گیا تو پھر مزید انتظام کی شدید ضرورت درپیش ہوئی۔ اس لیے بعد کے ادوار میں نہریں اور برساتی تالاب بھی بنائے جانے لگے۔؎۸  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بنو حرام کی غار کے قریب ایک چشمہ بھی کھدوایا تھا۔؎۹   یوں مکہ معظمہ میں بھی بہتر انتظامِ آب کی بدولت نہ صرف یہ کہ مکہ میں رہنے والوں کی مشکلات میں کمی واقع ہوئی بلکہ حجاج اور معتمرین کو بھی آسانیاں میسر آئیں۔

ترغیبات

رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کرکے مدینہ میں تشریف فرما ہوئے تو اس وقت مدینہ شریف میں میٹھے پانی کی سخت قلت تھی ۔ مسجد قبلتین کے شمال مغرب میں زغابہ کے مقام پر صرف ایک بیر رومہ کا کنواں واقع تھا جس کا مالک یہودی تھا اور پانی قیمتاً فروخت کرتا تھا۔ اس کنویں کے علاوہ تمام کنویں کھاری تھے۔ امیر لوگ پانی خرید لیتے مگر نادار و غریب لوگ سخت بے بس اور مجبور تھے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جو شخص اس کنویں کو خرید کر وقف کر دے گا اسے اس کے بدلے جنت ملے گی‘‘۔ آپؐ کی ترغیب کی وجہ سے سیدنا عثمانؓ نے ۳۵ہزار درہم میں کنواں خرید کر وقف کر دیا۔ ؎   ۱۰ بعد ازاں کچھ نئے کنویں کھودے گئے اور کچھ کنوؤں کا پانی نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزہ کی وجہ سےمیٹھا ہو گیا۔یوں مدینہ کے لوگوں کی ضروریات پوری ہوتی رہیں ۔

حضرت طلحہ بن عبید اللہ ؓنے میٹھے پانی کے کئی کنویں تیار کروائے۔ ۱۱؎ اور پھر وہاں سے زراعت کے لیے کئی نالے بنائے گئے۔ جس سے پہلی دفعہ مدینہ میں کنویں کے پانی سے گندم کاشت کی گئی۔ آپؐ پینے کے پانی کے لیے کنویں کو دھونے کی ترغیب دیا کرتے تھے۔۱۲؎

پانی پلانا بہترین صدقہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی پلانے کو بہترین صدقہ قرار دیا۔ اس طرح لوگوں کو  ترغیب ملی کہ وہ دوسرے لوگوں کو پانی پلا کر اُخروی ثواب اور رضائے الٰہی کو حاصل کرسکیں۔ حضرت سعید بن المسیبؓ سے روایت ہے کہ حضرت سعد بن عبادہؓ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور پوچھا: ’’سب سے زیادہ پسندیدہ صدقہ کون سا ہے ؟ فرمایا: ’’پانی پلانا‘‘۔ ۱۳؎

ایک روایت میں ہے کہ حضرت سعد بن عبادہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ ! میری ماں کا انتقال ہوگیا ہے۔ اس کے ایصال ثواب کی غرض سے کون سا صدقہ افضل ہے ؟ فرمایا: ’پانی‘۔ راوی کا بیان ہے کہ حضرت سعد نے ایک کنواں کھدوایا اور کہا یہ ام سعد کے (ایصالِ ثواب کے) لیے ہے۔  ۱۴؎

کسی دوسرے مسلمان بھائی کے برتن میں اپنے برتن سے پانی ڈالنے کو بھی صدقہ قرار دیا گیا ہے۔ ۱۵؎ ایک دوسری روایت میں ہے کہ جو مسلمان کسی مسلمان کو پیاس کی حالت میں پانی پلائے گا اللہ رب العزت اس کو مہر لگی ہوئی شراب پلائیں گے۔ ۱۶؎ اور جہاں پانی ہو وہاں کوئی مسلمان کو ایک گھونٹ پانی پلائے تو گویا اس نے ایک غلام آزاد کیا، اور جہاں پانی نہ ہو وہاں کوئی مسلمان کو پانی پلائے تو گویا اس نے ایک جان کو زندگی بخشی۔ ۱۷؎  مومن کے مرنے کے بعد بھی جن اعمال اور نیکیوں کا ثواب اسے ملتا رہتا ہے، ان میں سے ایک عمل نہر  ۱۸؎ یا کنواں ۱۹؎ جاری کرنا روایت کیا گیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کی بدولت سب لوگوں کو یہ ترغیب ملی کہ وہ دوسرے مسلمان بھائیوں کو اور دیگر ذی روحوں کو بوقت ضرورت پانی صدقہ کریں۔ اس طریقے سے نہ صرف یہ کہ ضرورت مندوں کی ضروریات پوری ہوئیں بلکہ قلتِ آب کے مسئلے پر قابو پانے میں بھی مدد ملی۔

آبی وسائل میں تعاون کے فروغ کے لیے بھائی چارہ کا قیام

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ تشریف لاتے ہی انصار و مہاجرین کے درمیان مواخات قائم کروائی۔ مواخات کے ذریعے نہ صرف یہ کہ تعاون کو فروغ ملا بلکہ تمام سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل کا حل کرنے میں بھی مدد ملی۔ مواخات کے قیام کی بدولت آبی مسائل پر بآسانی قابو پا لیا گیا ۔

صفی الرحمٰن مبارک پوری لکھتے ہیں: اس طرح کی کوششوں کی بدولت نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے اندر ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے میں کامیاب ہو گئے، جو تاریخ کا سب سے زیادہ باکمال اور شرف سے بھر پور معاشرہ تھا اور اس معاشرے کے مسائل کا ایسا خوشگوار حل نکالا کہ انسانیت نے ایک طویل عرصہ تک زمانے کی اتھاہ تاریکیوں میں ہاتھ پاؤں مار کر تھک جانے کے بعد پہلی بار چین کا سانس لیا۔ اس نئے معاشرے کے عناصر ایسی بلند و بالا تعلیمات کے ذریعے مکمل ہوئے، جس نے پوری پامردی کے ساتھ زمانے کے ہر جھٹکے کا مقابلہ کرکے اس کا رخ پھیر دیا اور تاریخ کا دھارا بدل دیا۔ ۲۰؎

پانی کے ذرائع پر اجارہ داری کا خاتمہ

آبی قلت کو دُور کرنے اور پانی کے دستیاب وسائل سے بہترین طریق پر استفادہ کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے اقدامات کی ممانعت کر دی اور پانی کے حصول کے لیے عامۃ الناس کی سہولت کے لیے ہر قسم کی اجارہ داری کو آپؐ نے ختم کر دیا ۔اسی طرح آپؐ نے گھاس پر مشتمل چراگاہوں اور پانی دونوں کو ہر شخص کے لیے مباح قرار دیا ۔ آپؐ نے ان دونوں کو قدرتی عطیہ قرار دیا اور ہر ضرورت مند کواس سے استفادہ کرنے کی عام اجازت دے دی۔ حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین چیزیں یعنی پانی، گھاس اور آگ ایسی ہیں، جن میں تمام مسلمان شریک ہیں ۔ ۲۱؎ اس حدیث میں اللہ کی ان نعمتوں کا ذکر ہے جو کائنات کے ہر فرد کے لیے ہے۔ ان میں کسی کی ذاتی ملکیت وخصوصیت کا کوئی دخل نہیں ہے۔ پانی سے مراد دریا ، تالاب اور کنویں وغیرہ کا پانی ہے اور وہ پانی مراد نہیں ہے جو کسی شخص کے برتن میں بھرا ہوا ہو۔

امام شمس الائمہ لکھتے ہیں کہ تمام لوگ ان تینوں چیزوں میں برابر کے حصہ دار ہیں اور یہ پہلی روایت( ابوداؤد کی روایت )سے عام ہے کہ اس میں تمام انسانوں کی شرکت کا اعلان ہے، خواہ مسلمان ہو یا کافر، اور پانی کے بارے میں یہ شرکت وادیوں، دریاؤں سے متعلق ہے، جیسے دریائے سیحون، جیحون، دجلہ، فرات اور نیل وغیرہ۔ اس لیے کہ ان سے فائدہ اٹھانا ایسا ہے، جیسے سورج کی دھوپ اور ہوا سے فائدہ حاصل کرنا ۔اس میں تمام کائنات انسانی برابر کی شریک ہے۔ کسی کو حق نہیں کہ دوسرے کو روک سکے۔اس کی مثال شارع عام کی سی ہے کہ اس پر ہر مسلمان و کافر سب کو چلنے کا حق ہے اور لفظ شرکت سے اصل اباحت اور انتفاع میں تمام انسانوں کا مساوی ہونا مراد ہے ۔ یہ مراد نہیں کہ وہ ان کی ملکیت ہے کہ وادیوں اور دریاؤں میں موجود پانی کسی کی ملکیت نہیں ہوتا۔  ۲۲؎

قدرتی وسائل پر انفرادی ملکیت کی ممانعت

موجودہ زمانے میں بھی بکثرت ایسا ہے کہ کثیر قدرتی وسائل پر کوئی فردِ واحد قابض ہے اور وہ دوسرے لوگوں کو ان قدرتی وسائل کے استفادہ سے روکتا ہے، یا کسی شخص کے پاس بہت بڑی جاگیر یا دولت ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ شخص توفائدے میں ہوتا ہے لیکن دوسرے لوگوں کو اس کی وجہ سے ضرر کا سامنا ہوتا ہے۔ شریعت، مفادِ عامہ کو نقصان پہنچانے اور تنگی پیدا کرنے والی ایسی ملکیت کو روکتی ہے کہ کوئی ایسا سرچشمہ جس کا تعلق مفادِ عامہ سے ہو اور وہ کسی فردِ واحد کی ملکیت میں ہو ۔ اگر انفرادی ملکیت کی وجہ سے باقی عوام کو تکلیف یا ضررکا سامنا ہو تو ایسی ملکیت کو ختم کیا جا سکتا ہے ۔ اس کی دلیل حضرت بلال بن حارثؓ کا وہ واقعہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ایک وسیع جاگیر عطا فرمائی تھی اور بعدمیں آپؐ نے خود ہی مفادِ عامہ کے تحت اس کی ملکیت کو  منسوخ قرار دیا تھا ۔  ۲۳؎ اور آپؐ نے اس کے بدلے میں حضرت بلالؓ کو جرف مراد میں زمین اور کھجور کے درخت بطور جاگیر عطا فرمائے۔ ۲۴؎  پھر ضرورت کے تحت حضرت عمرؓ نے وہ زمین بھی حضرت بلالؓ بن حارث سے واپس لے لی۔ ۲۵؎

حضرت عبداللہ بن ابوبکرؓ فرماتے ہیں : بلال بن حارث مزنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپؐ سے زمین بطور جاگیر مانگی۔ آپؐ نے انھیں لمبی چوڑی زمین دے دی۔ جب حضرت عمرؓ خلیفہ بنے تو آپؓ نے کہا : اے بلالؓ ! تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے   لمبی چوڑی زمین حاصل کی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی سوال کرنے والے کو خالی نہ لوٹاتے تھے اور تو اس کی طاقت نہیں رکھتا جو تیرے پاس ہے۔ بلال ؓنے کہا : ’ہاں‘۔ عمرؓ نے کہا : تو اس کو دیکھ جو طاقت رکھتا ہے اتنی رکھ لے اور باقی دے دے۔ ہم مسلمانوں میں تقسیم کردیں۔ بلالؓ نے کہا : میں ایسا نہ کروں گا، جو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔ حضرت عمرؓ نے کہا : تجھے ایسا ضرور کرنا پڑے گا، پھر حضرت عمرؓ نے اس سے زمین لے لی اور مسلمانوں میں تقسیم کردی۔  ۲۶؎  آج اگر ان اصولوں سے استفادہ کیا جائے تو نہ صرف یہ کہ قدرتی وسائل و دولت کی تقسیم کوعدل کے اصولوں کے تحت بہتر بنا یا جا سکتا ہے بلکہ سسکتی ہوئی انسانیت کی مشکلات کو دور کر کے غربت و افلاس کو ختم کیا جا سکتا ہے۔

اسی اصول کا اطلاق آبی وسائل کے ضمن میں کر کے آبی وسائل کی تقسیم بھی بہتر کی جا سکتی ہے۔ اس کی دلیل یہ روایت بھی ہے کہ حضرت حصین بن مشمتؓ فرماتے ہیں کہ وہ وفد کی صورت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور اسلام قبول کرنے کی بیعت کی اور آپؐ کی خدمت میں اپنے مال کے صدقات پیش کیے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں جائیداد میں مختلف علاقے دیئے، جن میں بہت سارے چشمے بھی تھے۔ ان کا نام لیا، لیکن ہمارے شیخ ان ناموں کو یاد نہ رکھ سکے۔ راوی کہتے ہیں : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر شرط لگائی جو ابن مشمت کو دیا ہے وہ اس کا پانی فروخت نہ کرے گا اور اس کی چراگاہ کو نہ کاٹے گا اور نہ اس کے درختوں کو کاٹےگا۔ ۲۷؎

پانی کی خرید و فروخت کی ممانعت

انتظامِ آب کے ضمن میں ایک اقدام نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اٹھایا کہ پانی کی خرید و فروخت سے منع فرما دیا۔ ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے غلام نے ان کو خط لکھا کہ میں نے آپؓ کی زمینوں کی سیرابی کے بعد باقی پانی کو ۳۰ ہزار درہم میں فروخت کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اب آپؓ کی اجازت درکار ہے۔ آپ نے جواب دیا کہ میں نے تمھارا مطلب سمجھ لیا ہے لیکن میرے پیش نظر وہ حدیث، جس میں ضرورت سے زیادہ پانی اور گھاس کو روکنے اور دوسروں کو فائدہ نہ پہنچانے والے شخص کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ناراضی کا ذکرہے، کہ ایسا شخص روز قیامت خدا کے فضل سے محروم ہوگا، تو جب تیرے پاس میرا یہ خط پہنچے تو اس پر عمل کرتے ہوئے پہلے اپنے باغوں، کھیتوں اور زمینوں کو سیراب کرواور جو فالتو پانی ہو اسے بیچنے کے بجائے اپنے اس پڑوسی کو دو، جو تمھارے سب سے زیادہ قریب ہو اور پھر اسے جو اس کے بعد قریب ہو۔ ۲۸؎

حضرت عبداللہ بن عمروؓ کے آزادکردہ غلام سالم فرماتے ہیں کہ انھوں نے مجھے اپنی زمین کا زائد پانی ۳ ہزار میں دیا جو گڑھے میں تھا، چنانچہ میں نے یہ بات عبداللہ بن عمروؓ کو بتائی تو انھوں نے میری طرف جوابی خط میں لکھا :اسے مت بیچ تو باری مقرر کردے، پھر اپنے قریب والوں کو پانی دے کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ : ضرورت سے زائد پانی نہ بیچو۔ ۲۹؎

 حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد اور دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ان کا ایک غلام تھا جوان کے چشمہ کا زائد پانی ۲۰ ہزار میں فروخت کرتا۔ حضرت عبداللہ بن عمرو نے اس سے فرمایا : اس کو فروخت نہ کرو، بیشک اس کی بیع جائز نہیں۔ ۳۰؎  اور یہ روایت بہت جامع ہے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم نے سوائے اس پانی کے جس کو اٹھا کر لایا جائے ہر قسم کے پانی کی فروخت سے منع فرمایا ہے۔ ۳۱؎  پانی کی خرید و فروخت کی ممانعت کر دینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں کا ذہن تجارت و مالی فوائد کی طرف جانے کے بجائے خیر خواہی و بھلائی کی طرف منتقل ہوا، نیز اس جذبے کی بدولت لوگوں کے آبی قلت کے مسائل میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی۔

زائد پانی کو روکنے کی ممانعت

لوگوں کے پاس بکثرت چیزیں موجود ہوتی ہیں، لیکن وہ ضرورت سے زائد اشیا کسی دوسرے فرد کو دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے، حتیٰ کہ وہ چیزیں ضائع ہو جاتی ہیں یا گل سڑ جاتی ہیں۔

اس عملِ بد کو روکنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں دیگر زائد اشیا اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کو دے دینے کی ترغیب دلائی، وہیں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ’’کوئی شخص اپنے پاس زائد پانی نہیں رکھے گا بلکہ اپنے دوسرے مسلمان بھائی کو دے دے گا‘‘۔

اسی طرح حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تین آدمیوں کی طرف نہ دیکھے گا اور نہ انھیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے: اوّل وہ شخص جس کے پاس ضرورت سے زائد پانی راستہ میں ہو اور وہ اسے مسافر کو نہ دے، دوسرے وہ شخص جس نے کسی امام سے بیعت صرف دنیا کی خاطر کی کہ اگر اس کو کوئی دنیوی چیز دیتا ہے تو راضی ہے اور نہ دے تو ناراض ہوجاتا ہے، تیسرے وہ شخص کہ اپنا سامان عصر کے بعد لے کر کھڑا ہو اور کہے کہ اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں مجھے اس کی قیمت اتنی اتنی مل رہی تھی، (لیکن میں نے نہیں دیا) اور کوئی شخص اس کو سچا بھی سمجھے پھر یہ آیت پڑھی :  اِنَّ الَّذِيْنَ يَشْتَرُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَاَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيْلًا (اٰل عمرٰن ۳:۷۷) ’’بے شک جو لوگ بیچتے ہیں اللہ کے عہد کو اور اپنی قسموں کو ایک حقیر قیمت کے‘‘۔ ۳۲؎   (جاری)

حوالہ جات

۱-    بخاری، الجامع الصحیح، حدیث : ۶۵۸۱۔ ایک روایت میں ہے کہ حوضِ کوثر تین مہینوں کی مسافت کے برابر ہے۔ اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور مشک سے زیادہ خوشبودار ہے، اس کے کوزے آسمان کے ستاروں کی طرح ہیں، جو شخص اس سے پی لے اس کو کبھی پیاس نہ لگے گی۔ بخاری، الجامع الصحیح، حدیث۶۵۷۹

۲-    ا بن کثیر ، البداية والنهاية: بیروت، ج۲،ص ۲۶۳

۳-    ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون،ج۲،ص ۳۹۹-۴۰۴؛ طبری، تاریخ طبری، ج۲،ص ۲۴۸-۲۵۴

۴-    ڈاکٹر محمدالیاس عبدالغنی ، تاریخ مدینہ منورہ،لاہور ،ص۱۲۰

۵-    عبدالمعبود، محمد، تاریخ مکۃ المکرمہ،لاہور ، ج۱،ص ۳۴۱

۶-    السمہودی، نورالدین، وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفٰى، لاہور،ج۴،ص ۱۰۵

۷-    ڈاکٹریٰسین مظہر صدیقی، عہد نبوی میں تنظیم ریاست و حکومت، مشمولہ نقوش رسولؐ نمبر، مرتب محمدطفیل ،لاہور ، ج۵، ص ۶۹۲

۸-    محمد عبدالمعبود، تاریخ مکۃ المکرمہ، ج۱،ص ۳۴۲

۹-    محب الدین ابو عبد الله محمد بن محمود بن الحسن ،الدرة الثمينة في أخبار المدينة،ص۶۴

۱۰-  ترمذی، جامع ترمذی، بَابٌ فِي مَنَاقِبِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، حدیث۳۶۹۹، ج۵، ص۶۲۵

۱۱-  حضرت طلحہ ابن عبید اللہ التیمیؓ مشہور صحابی ہیں، جن کاشمار عشرہ مبشرہ میں ہوتا ہے۔ جنگ جمل میں شہید ہوئے۔ البخاری، التاريخ الکبیر، ج۴،ص ۳۴۴

۱۲- محمد مہربان باروی، عہد رسالت میں مملکت کا بنیادی تصور: ایک تحقیقی جائزہ، ششماہی التفسیر کراچی، شمارہ۳۵، جنوری ۲۰۲۰ء،ص ۱۹۴

 ۱۳- ابن ماجہ، سنن ابن ماجہ ،بیروت، حدیث ۳۶۸۴؛ النسائی ، السنن الصغرى للنسائي،  حدیث۳۶۶۵؛ ابو داؤد، سنن ابو داؤد، حدیث ۱۶۷۹

۱۴- النسائی ، السنن الصغرىٰ للنسائي، حدیث ۳۶۶۴؛ ابو داؤد،سنن ابوداؤد،حدیث ۱۶۸۱

 ۱۵- ترمذی، جامع ترمذی، حدیث۱۹۵۶

۱۶-  ابو داؤد، سنن ابو داؤد، حدیث ۱۶۸۲؛ ترمذی، جامع ترمذی، حدیث۲۴۴۹

۱۷-  ابن ماجہ، سنن ابن ماجہ، حدیث ۲۴۷۴

۱۸-  ابن ماجہ، سنن ابن ماجہ، حدیث ۲۴۲

۱۹-  ابو الحسن نور الدین الہیثمی ، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، القاہرہ،حدیث ۷۶۹

۲۰- علامہ صفی الرحمٰن مبارکپوری، الرحيق المختوم،بیروت، ص ۱۷۲

۲۱-  ابوداؤد، سنن ابوداؤد، حدیث ۳۴۷۷؛ ابن ماجہ، سنن ابن ماجہ، حدیث۲۴۷۲

۲۲-  محمد بن احمد، السرخسی، المبسوط،بیروت ، ج۲۳،ص ۱۶۴

۲۳-  ابن ماجہ، سنن ابن ماجہ، حدیث ۲۴۷۵

 ۲۴- احمد بن حنبل، مسند احمد، حدیث۲۷۸۵۔حضرت عمرو بن عوف مزنی سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال بن حارث مزنی کو قبلیہ نامی گاؤں کی بالائی اور نشیبی کانیں اور قدس نامی پہاڑ کی قابلِ کاشت زمین بطور جاگیر کے عطا فرمائی اور یہ کسی مسلمان کا حق نہیں تھا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دے دیا ہو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے یہ تحریر لکھوا دی، جس کے شروع میں بسم اللہ کے بعد یہ مضمون ہے کہ یہ تحریر جو محمدالرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال بن حارث مزنی کے لیے لکھی ہے۔

 ۲۵- البیہقی، السنن الکبرٰی، حدیث۷۶۳۷، علی متقی ہندی، کنز العمال،حدیث۹۱۶۵

۲۶-  البيہقی ، سنن البيہقی الکبرٰی ، حدیث۱۱۶۰۵

 ۲۷- البيہقی ، سنن البيہقی الکبرٰی، حدیث ۱۱۵۷۱؛ علی متقی، کنزالعمال، حدیث۳۰۳۲۰

۲۸-  یعقوب بن ابراہیم، ابویوسف، الخراج ،القاہرہ، ص ۹۶

۲۹-  البيہقی ، سنن البيہقی الکبرٰی ،حدیث ۱۱۰۶۲

۳۰-  ابوبکر عبداللہ، ابن ابی شیبہ،المصنف، جدۃ، حدیث۲۱۳۴۳

 ۳۱- القاسم بن سلاّم، ابو عُبيد،کتاب الاموال ،بیروت،حدیث ۷۵۵

۳۲-بخاری، الجامع الصحیح ،بیروت، حدیث ۲۳۵۸