مئی۲۰۰۷

فہرست مضامین

فنا فی اللہ انسان، امام البنا

میاں طفیل محمد | مئی۲۰۰۷ | گزارشات

Responsive image Responsive image
  •  سوال: محترم میاں صاحب‘ آپ نے پہلی بار امام حسن البنا کا نام کب اور کیسے سنا ؟
  •  جواب: میاں طفیل محمد صاحب: یہ ۱۹۴۹ء کے اوائل کی بات ہے‘ جب میں‘ مولانا مودودی اور مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کے ہمراہ ملتان جیل میں قید تھا‘ اسی زمانے میں ان کی شہادت ہوئی۔ اسی وقت ہمیں ان کے بارے میںیہ معلومات حاصل ہوئی تھیں کہ سربازار ان کو گولی مار کر شہید کردیا گیا ہے۔ اُس وقت تک ہمارے اور ان کے درمیان براہ راست معلومات اور رابطے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔
  •  اخوان المسلمون کے جماعت سے پہلے رابطے کے بارے میں آپ کچھ بیان فرمائیں۔
  •  ہمیں خود تو معلوم نہیں تھا کہ اخوان کو کس زمانے میں ہمارے بارے میں معلومات ملیں‘ البتہ کویت کے ایک تاجر جو امام البنا کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے‘ جناب عبدالعزیز المطوع [م: ۱۹۹۶ء] نے ہمیں بتایا کہ: ’’۴۲-۱۹۴۱ء کے زمانے میں بمبئی میں میرا کاروبار تھا اور میں بمبئی ہی میں زیادہ وقت گزارتاتھا۔ اسی زمانے میں، ترجمان القرآن بھی پڑھتا تھا‘ اور اس کے مضامین کو عربی میں ترجمہ کرکے مرشدعام حسن البنا کوقاہرہ بھیجا کرتاتھا‘‘۔ تاہم حسن البنا کے بارے میں تو ان کی شہادت کے موقعے پر ہی پاکستان کے لوگوں کو زیادہ تر معلومات حاصل ہوئیں اورمولانا مودودی کو بھی اسی زمانے میں زیادہ تفصیلات ملی تھیں۔
  •  کیا عبدالعزیز مطوع  اُردو جانتے تھے؟
  •  بمبئی میں ان کا کاروبار تھا اور وہ اُردو جانتے تھے۔
  •  عبدالعزیز مطوع کا اس دور میں براہ راست جماعت یا آپ یا مولانا مودودی سے کوئی رابطہ نہیں ہواتھا ؟
  •   نہیں اس زمانے میں براہ راست رابطہ نہیں ہوا تھا۔
  •  مولانا محترم سے عبدالعزیز المطوع کی ملاقات ہوئی ہے؟

l ۱۹۴۷ء کے بعد کے زمانے میں ملاقات رہی۔ عبدالعزیز مطوع اور ان کے چھوٹے بھائی عبداللہ علی مطوع [م: ۲۰۰۶ء] بڑے مخیر انسان تھے۔ عبداللہ علی مطوع مولانا مودودی کی تعزیت کے لیے ۱۹۷۹ء میں لاہور تشریف بھی لائے تھے۔ ان سے تفصیلی ملاقاتیں رہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک روز انھوں نے اپنی چیک بک میرے سپرد کرتے ہوئے کہا :’’یہ آ پ کے حوالے ہے۔ آپ جوچاہیں ان کا استعمال کریں‘‘۔

میں نے ان سے کہا: ’’میں آپ سے کچھ اور تونہیں کہتا ہوں۔ البتہ منصورہ میں ہمارے دفاتر کے ہمسایے میں ثنائی فلم سٹوڈیو ہمارے سرپر سوار ہے‘اس سے ہمیں بہت زیادہ تکلیف ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ یہ لوگ اس کو بیچنا بھی چاہتے ہیں۔ اگر اس سلسلے میں آپ کوئی مدد کرسکیں تو میں آپ کا شکرگزار ہوں گا ‘‘۔ انھوں نے جواب میںکہا :’’ اس کا سودا کرلیں اور جتنا اس کا عوضانہ ہو وہ مجھے بتادیں‘‘۔چنانچہ ۵۷ لاکھ روپے میں متعلقہ ٹرسٹ نے ثنائی اسٹوڈیوکی یہ بلڈنگ خرید لی‘  اس کی بیش تر ادایگی عبدالعزیز مطوع اور عبداللہ علی المطوع نے کی۔ اس اسٹوڈیوکے بڑے ہال میں منصورہ ہسپتال،پروجیکشن ہال میں منصورہ آڈٹیوریم ،جب کہ لیبارٹری میں ادارہ معارف اسلامی کا دفتر اور ایک بڑی لائبریری قائم کی گئی۔

  •  امام البنا کی شہادت کے بعد‘ اخوان سے رابطہ کیسے ہوا؟
  •  قیامِ پاکستان کے بعد جماعت کے شعبہ عربی کے سربراہ مولانا مسعود عالم ندوی صاحب نے جب عرب ممالک کا کئی ماہ کا دورہ [۲۸ اپریل -۱۳ دسمبر ۱۹۴۹ء] کیا تھا ، اس وقت انھوں نے حسن البنا اوراخوان المسلمون کے بارے معلومات حاصل کی تھیں اور عرب کے جو اصحاب علم و فہم تھے، ان کے ساتھ رابطہ بھی قائم ہوا تھا۔ مسعود عالم ندوی صاحب نے اپنی کتاب دیار عرب میں چند ماہمیںان مشاہدات اور روابط کا ذکر کیاہے۔
  •  مصر میں اخوان پر توڑے جانے والے مظالم کے باعث حسن البنا شہید کے داماد سعید رمضان  جب پاکستان آئے تھے ان سے آپ کی کوئی ملاقات ہوئی ؟
  •  جی ہاں‘ سعید رمضان مرحوم [م: ۱۹۹۵ء] سے ملاقاتیں رہی ہیں۔
  •  مولانا مودودی سے سعید رمضان کی ملاقات ہوئی تھی؟
  •  بہت سی ملاقاتیں ہوئیں۔مولانا ان سے محبت کرتے اور عقیدت رکھتے تھے۔
  •  آپ نے اخوان پر مظالم کے خاتمے کے لیے حکومت مصر کے ساتھ رابطہ کرکے اس آزمایش سے کچھ نکالنے کے لیے کاوش کی تھی ؟
  •  میں نے ازخود مصری حکومت سے کوئی رابطہ نہیں کیاتھا،بلکہ حکومت مصر نے مجھ سے رابطہ کیاتھا۔ یہاں پاکستان میں مصر کے سفیر نے مجھ سے متعدد ملاقاتیں کیں۔
  •  یہ کب کا ذکر ہے ؟
  •  یہ ۱۹۸۲ء کا زمانہ تھا۔ اسلام آباد میں مصر کے سفیرصاحب نے مجھ سے ملاقات کے دوران میں کہا : ’’ہماری حکومت چاہتی ہے کہ آپ مصر کا دورہ کریں۔ آپ کو ہم وزیر کے درجے کا پروٹوکول دیں گے۔ ہماری کوشش ہے کہ اخوان کے ساتھ رابطے کی کوئی صورت پیدا ہو‘‘۔  حسنی مبارک صاحب ہی اس وقت مصر کے صدر تھے۔میں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا:    ’’اس خدمت کے لیے میں تیار ہوں‘‘۔ چنانچہ میرے ہمراہ پروفیسر برہان الدین ربانی صاحب، پروفیسر خورشید احمد صاحب اور خلیل احمدحامدی صاحب پر مشتمل وفد مصر گیا۔ مصری حکام نے کھلے دل سے ہماری میزبانی کی۔

اس قیام کے دوران میں صدرحسنی مبارک سے بھی ہماری ملاقات ہوئی۔ انھوں نے کہا: ’’آپ اخوان کے قائد عمر تلمسانی سے ملیں اور ان کو اس بات کے لیے آمادہ کریں کہ وہ تصادم کے بجاے کوئی راستہ نکالیں اور اس طرح ایک دوسرے کو گرانے کی یہ صورت ختم ہو‘‘۔ چنانچہ میں نے اخوان کے تیسرے مرشدعام عمر تلمسانی سے ملاقاتیں کیں ، اور ان سے کہا :’’ بھائی‘ یہ جو صورت ہے‘ یہ نہ آپ کے لیے مفید ہے اور نہ ان کے لیے مفید ہے۔ کوئی ایساراستہ نکالنا چاہیے کہ وہ بھی کچھ ڈھیلے پڑیں اورآپ بھی کچھ اپنی سختی کو کم کریں، تا کہ دعوتی سرگرمیوں کے لیے بہتر صورت پیدا ہوسکے‘‘۔ اس مذاکراتی عمل کے نتیجے میں کوئی براہ راست ملاقات عمر تلمسانی اور حسنی مبارک کے درمیان تو نہیں ہوئی،تاہم ہمارے ذریعے غائبانہ طور پر اُن دونوں کی بات، ایک دوسرے تک پہنچی۔

اپنی ملاقات میں‘ مَیں نے صدر حسنی مبارک سے کہا:’’معاملات کو مثبت رخ دینے کے لیے آپ اخوان کو اخبار نکالنے کی اجازت دے دیں‘‘۔ حسنی مبارک اس پر راضی ہوگئے اور کہا :’’وہ اس پرچے میں زیادہ سختی نہ کریں، ہم بھی کوئی ایسی بات نہیں کریں گے۔وہ کوئی اخبار نکال کر کام شروع کردیں‘‘۔ چنانچہ اس طرح سے انھوں نے اخوان کو اخبار نکالنے کی اجازت دے دی۔   اسی سفر کے دوران میں عمر تلمسانی کے علاوہ مصطفی مشہور سے قاہرہ میں میری ملاقاتیں ہوئیں۔   عمر تلمسانی کے بعد حامد ابو النصر مرشدعام بنے تھے‘ وہ بھی ان ملاقاتوں میں موجود تھے۔

  •  مصر میں آپ کے مذاکرات میں اخبار نکالنے کے علاوہ دیگر کون سے نکات زیر بحث  آئے؟
  •  بس ہم نے ان کو یہی سمجھایا ،بھائی‘ وہ بھی کچھ نرم پڑیں اورآپ بھی کچھ نرم پڑیں۔ اس طرح سے کہ اخوان کو بھی کام کرنے کی آسانی ملے اور حکومت بھی اپنے مظالم سے باز آئے۔
  •  اخوان کے گرفتارکارکنوں کی رہائی کا معاملہ بھی یقینًا زیر غور آیا ہوگا؟
  •  بات عمومی نوعیت کی تھی‘ کہ رویوں میں تبدیلی آنا چاہیے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے زیرحراست افراد پر گفتگو نہیں ہوئی۔
  •  کیا یہ معاملات کسی معاہدے کی صورت میں طے ہوئے تھے؟
  •  تحریری تو نہیں ، لیکن باہم اعتماد کے ساتھ یہ چیزیں طے ہوئی تھیں۔ بات یہ ہے کہ اخوان نے تو ہمیشہ سے مذاکرات کے عمل کو خوش آمدید کہا ہے۔ ظلم تو حکومت کی طرف سے ہوتا آیا ہے۔ اسلامی تحریکوں کا یہ اصول کہ ہم پر امن جدوجہد کریں گے اور یہ فہم و شعور کہ ہم پُرامن رہیں گے میرا خیال ہے کہ اسلامی تحریکوں پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہے۔
  •  اس کے بعد صدر حسنی مبارک یا حکومت مصر کے ساتھ آپ کاکوئی رابطہ نہیں ہوا ؟
  •  نہیں اس کے بعد کم ازکم میرا کوئی رابطہ مصری حکومت سے نہیں ہوا۔
  •  برہان الدین ربانی صاحب کو وفد میں آپ  نے شریک کیا تھا؟
  •  جہاں تک یاد پڑتا ہے کہ مصری حکومت ہی نے ان کو بھی دعوت دی تھی۔
  •  کتنے دن آپ مصر میں مصروف رہے ؟
  •  غالباً پانچ چھے دن رہے تھے ،جس کے بعد میں اور خلیل صاحب توکینیا چلے گئے جب کہ خورشید صاحب واپس پاکستان آگئے۔ کینیا میں ہم ۱۲‘۱۳ دن تک رہے‘ جہاں عبداللہ علی مطوع صاحب نے کئی مساجد تعمیر کرائی تھیں۔ ہم نے وہ مساجد اور ان کے دیگر رفاہی پراجیکٹ دیکھے۔
  •  پُرامن جدوجہد اور مسلح جدوجہد  میں آ پ کیا فرق دیکھتے ہیں۔ دونوں کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ؟
  •   مولانا مودودی اور امام البنا نے دعوتِ دین اور اقامتِ دین کے لیے جو راستہ ہمیں دکھایا ہے‘ وہ یہی ہے کہ پرامن اور بغیر تشدد کے تحریک کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جائے۔ خفیہ طریقوں سے آگے بڑھنے کے بجاے کھلے عام سرگرمیاں کی جائیں۔ افہام وتفہیم کا راستہ ہی درحقیقت کامیابی کا راستہ ہے اور اسی سے آگے بڑھنے کا کوئی راستہ بن سکتا ہے۔تشدد اور مسلح کارروائیوں کے ذریعے سے کام خراب توہوسکتا ہے ، بنتا نہیں ہے۔تشددکے واقعات کو مدمقابل قوتیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں اور اندھادھند ظلم و زیادتی کرتی ہیں۔ جب کہ تشدد کا راستہ اختیار کرنے والوں کے ہاتھ میں سواے تباہی اور انتشار کے کچھ نہیں آتا۔
  •  فلسطین میں اخوان کے جہاد کے حوالے سے کوئی بات آپ فرمائیں گے؟
  •  اخوان نے جہاد فلسطین میں بہت زبردست کردار ادا کیا ہے۔ بڑی قربانیاں ہیں    ان کی، بہت سارے لوگ شہید ہوئے اور جگہ جگہ سے انھوں نے جہاد میں حصہ  لینے کے لیے رضاکار بھیجے۔ اس اعلیٰ درجے کی تنظیم کوجو عرب ممالک میں مقبولیت حاصل ہوگئی تھی‘ اسی وجہ سے مغربی سامراج کے آلہ کار‘ کمیونسٹ‘ عرب قوم پرست اور پھر وہاں کافوجی ڈکٹیٹرجمال ناصر‘ وغیرہ ان کے دشمن بن گئے تھے۔ ناصر نے اخوان کے کارکنوں، جن میں مرد، نوجوان اور خواتین شامل ہیں، ان پر بے انتہا ظلم کیا۔ انھوں نے جتنی سختیاں برداشت کی ہیں، میرا خیال ہے کہ تاریخ میں اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ نہ اس قدر بڑے پیمانے پرایسی صورت حال سے کسی کو سابقہ پیش آیااور نہ کسی نے اتنی تکالیف اور مشکلات برداشت کیں۔ بلاشبہہ اخوان نے راہ عزیمت کی تاریخ میںکمال درجے کی مثال قائم کی۔

ان تمام مظالم کے باوجود اخوان کی قیادت اور اس کے کارکنوں نے کوئی کمزوری نہیں دکھائی۔ان سے وابستہ مردوں،عورتوں اور نوجوانوں نے ان تکلیفوں اور اذیتوں کا بڑی جرأت اور بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا۔ زمین میں گاڑ کر ان بے گناہوں پر کتے تک چھوڑے گئے۔ حکمرانوں کے مظالم کبھی کسی تحریک اور فکرکو ختم نہیں کرسکتے۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی اور ان سے پیش ترانبیا پر بھی ظلم ہوئے ہیں اور وہ جواب میں اتنے ہی زیادہ مضبوط ہوئے ہیں۔

یہاں بھی آپ دیکھیں‘ الحمدللہ زیادہ مضبوط تو جماعت اسلامی ہی ہوئی ہے۔اللہ تعالیٰ نے اسلام کو اور مسلمانوں کو یہ قوت اور ہمت عطا فرمائی ہے کہ یہ ایسی صورت حال کا مقابلہ کرتے ہیں۔ اس کے برعکس باقی تحریکیں چند دن کے لیے اٹھتی ہیں، زور دکھاتی ہیں اور اس کے بعد ختم ہوجاتی ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ اخوان جب سے شروع ہوئے مسلسل چل رہے ہیں۔ مولانا مودودی نے بھی جو تحریک شروع کی ہے الحمدللہ وہ بھی مسلسل آگے ہی بڑھ رہی ہے‘ پیچھے نہیں ہٹ رہی۔

  •  مصر میں جب اخوان پر حکومت نے  ہرراستہ بند کردیا توایک گروہ اخوان کے مرکزی دھارے سے الگ ہو کر ردعمل میں مسلح راستے پر چل پڑا کہ: حکمران طبقے ویسے بھی ہمیں مار رہے ہیں تو کیوں نہ انھیں مارکر مریں ؟
  •  بلاشبہہ سیاسی ، علاقائی اور مذہبی جماعتوں کے اندر کچھ تشدد پسند لوگ اپنی جگہ بنا لیتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ سختی کا جواب سختی میں ہے اور اسی راستے کام آگے بڑھے گا۔ حالانکہ آنکھیں بند کرکے یہ نتیجہ نکالنا کوئی درست طرز عمل نہیں ہے۔ ایک تعمیری اور اصلاحی تحریک کو دراصل اپنے اصل ہدف‘ اپنے کام کے پھیلائو اور اس معاشرے کے احوال وظروف کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگانا چاہیے۔
  •  امام البنا کی شخصیت ، زندگی اور  تحریک کا جائزہ لیں تو آپ کے ذہن میں ان کا کیا خاکہ بنتا ہے ؟
  •  مولانا سید ابوالاعلیٰ کی طرح مرشد عام حسن البنا شہید بھی درحقیقت ایک فنا فی اللہ انسان تھے۔ ان کا جو بھی دعوتی،تحریکی اور اجتماعی کام تھا‘ اس میں تشددکا کوئی عنصر شامل نہیں تھا۔ اپنی زندگی میں انھوں نے کبھی بھی اپنے ساتھیوں کواس راستے پر نہیں ڈالا۔ وہ کھلے عام دعوت‘ تزکیے‘ خدمت اور راے عامہ ہموار کرنے کے راستے پر گام زن رہے۔ تاہم جہاد فلسطین اور نہرسویز پر سے برطانیہ کے قبضے کوختم کرانے کے لیے انھوں نے کھلے عام اعلان کرکے رضاکاروں کی تنظیم اور فکری تربیت کا کام کیا تھا‘ جسے مغربی مصنفین اور سیاسی قائدین نے اپنے غاصبانہ قبضے کے برعکس دوسرا نام دیا۔ اسی طرح ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ مولانا مودودی اور حسن البنا‘ مسلم ممالک کے اندر ایسی کسی کارروائی کے طرف دار نہیں تھے جو تشدد اور انارکی کی طرف لے جاتی ہو۔
  •  اخوان کے  نظام تربیت کے بارے میںآپ کی کیا راے ہے؟
  •  اخوان کے طریق تربیت میں ایک طرح سے صوفیانہ اثرات بھی موجود رہے ہیں۔  ان کے برعکس مولانا مودودی کا طریقہ یہ رہا ہے کہ انسان کے فہم کو درست کیا جائے۔ ایمان اور جواب دہی کے احساس کی حقیقت کو انسان اپنے اندرجذب کرلے اورکسی حالت میں بھی اس سے نہ ہٹنے پائے۔ سختی میں بھی اور نرمی میں بھی‘ کسی بھی حالت میں زیادتی نہ کی جائے۔
  •  مولانا نے کبھی یہ ہدایت فرمائی کہ اخوان کا لٹریچر اردو میں آنا چاہیے، یا اس سے ہم فائدہ اٹھا سکتے ہیں ؟
  •  مولانا مودودی نے اخوان سے وابستہ حضرات کی تحریروں کے ترجمے کی حوصلہ افزائی فرمائی ، اور بعض کتب کے ترجمے بھی کرائے، مثلاً عبدالقادر عودہ شہیدکی معروف کتاب التشریع الجنائی فی الاسلام (اسلام کا قانونِ فوج داری)کے  ترجمے کے لیے مولانا مسعود عالم ندوی صاحب سے کہا اور پھر متعدد کتابوں کے ترجمے خلیل احمد حامدی مرحوم اور پروفیسر عبدالحمید صدیقی مرحوم نے کیے‘ جنھیں مولانا مودودی نے اپنے  ماہ نامے ترجمان القرآن میں بڑے تسلسل سے شائع کیا۔ مولانا مودودی خود ایک معلم تھے‘ اس لیے انھوں نے لوگوں کو سکھایا ہے۔ مولانا مودودی فرمایا کرتے تھے میں نے جو کچھ پایا ہے قرآن ہی سے پایا ہے اور قرآن کو جب میں نے آنکھیں کھول کر پڑھا تو معلوم ہوا کہ انسان کی بنیادی رہنمائی کے لیے سب کچھ اسی میں موجود ہے۔ مولانا مودودی کا استاد قرآن مجید تھااور شارح صرف حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک تھی۔
  •  آپ نے شروع میں فرمایا ہے کہ عبدالعزیز المطوع ترجمان القرآن کے مضامین ترجمہ کر کے حسن البنا شہید کو بھیجتے تھے۔گویا  کہ امام حسن البنا‘ مولانا مودودی اور جماعت کی فکر سے واقف ہوئے ہوں گے اور استفادہ بھی کیا ہوگا؟
  •  حسن البنا شہید بہت مخلص‘ فنا فی الدعوت اور فنا فی التحریک انسان تھے۔ یقینا ان کو ایسی جو بھی معلومات ملی ہوں گی‘ انھوں نے ضرور استفادہ کیا ہوگا۔
  •  آپ مصر اور دیگر مسلم ممالک میں اسلامی تحریکوں کا کیا مستقبل دیکھتے ہیں؟
  •  مصر اور عرب دنیا میں یہودیوں اور ان کے سرپرست عیسائی حکمرانوںنے اودھم مچا رکھا ہے اور تمام کفار اور ظالم قوتیں ان کی پشت پر ہیں۔
  •  اللّٰہ تعالٰی اس مساعی کو قبول فرمائے۔ الحمد للّٰہ دنیا بھر میں اسلامی تحریکوں سے وابستہ حضرات آپ کی اس مساعی کے  معترف اور احسان مند ہیں‘ اور اللّٰہ تعالٰی سے اس کی قبولیت کے لیے دعاگو ہیں۔
  •  میں نے مولانا مودودی کی رہنمائی میں اپنا سارا وقت جماعت کے تنظیمی‘ دعوتی اور تربیتی کام کو آگے بڑھانے کے لیے صرف کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے نہ کوئی بہت زیادہ مطالعہ کرسکا ہوں اور نہ کوئی دوسرا کام کیا۔ بس اسی کام کو مضبوط کرنے ، بڑھانے اور اسی پر توجہ دینے میں لگا رہا ہوں۔ میرے پاس کوئی خاص قابلیت بھی نہیں ہے۔ بس‘ مولانا مودودی مرحوم و مغفور نے صرف ایک مرتبہ کہا: ’’دعوت‘ تنظیم اور تربیت کا یہ کار عظیم تمھارے سپرد کر رہا ہوں‘ اس کے اوپر اپنی تمام توجہات کومرکوزکیے رکھو‘‘۔ جہاں تک یاد پڑتا ہے میں نے مولانا مودودی کو کبھی پریشان نہیں کیا، غمگین نہیں کیا، الحمدللہ کبھی کمزوری نہیں دکھائی اور حتی المقدور ان کا ہاتھ بٹانے کی کوشش کی ہے۔بلاکسر نفسی مجھے اعتراف ہے کہ نہ میرے اندر کوئی قابلیت ہے اور نہ میرے اندر کوئی خاص فہم و فراست ہے۔ میں جتناقرآن و سنت کے مطالعے کے بعد اور جو کچھ مولانا مودودی سے سمجھا ہوں اسی کو مضبوط کرنے اور اسی کو پھیلانے کی کوشش کرتا رہا ہوں۔

یہ ۱۹۸۷ء کی بات ہے میں اپنے آپ کو بہت کمزور محسوس کرتاتھا کہ اب میرے اندر کام کرنے کی زیادہ طاقت نہیں رہی، جماعت کے چند مخلص ساتھیوں نے مجھ سے کہا: ’’جس طرح مولانامودودی نے اپنی زندگی میں ہی ذمہ داریاں منتقل کردی تھیں، اس طرح کسی کو آگے لانے کی کوشش کریں‘‘۔ میں نے ارکان جماعت سے درخواست کی کہ دوبارہ مجھے منتخب نہ کیا جائے‘ ارکانِ جماعت نے قاضی صاحب کو امیرجماعت منتخب کرلیا جو میرے ساتھ سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔

  •  اس ضعیفی کی حالت میں بھی آپ کے جو معمولات ہیں، جو فکری یک سوئی ہے، تحریک کے ساتھ جس درجہ وابستگی ہے اور پھر صحت کی خرابی کے باوجود نماز کی جس طرح سے پابندی ہے۔ فرمائیے آپ کو کیا چیز مدد دیتی ہے؟
  •  اور کچھ نہیں صرف احساسِ فرض ہی ہے جی!میں کہتا ہوں کہ تادم آخر اس طرح سے اپنا کا م کرتا رہوں۔ اب میری دعا زیادہ یہی ہوتی ہے کہ یا اللہ چند روز بعد آنے والا صیامِ رمضان مجھے نصیب کر اورمجھے قیامِ رمضان کی توفیق دے‘ پھر اس کے بعد جو بھی آپ کا فیصلہ ہو…    میں یہی دعا کرتا رہتا ہوں ، یا اللہ اس رمضان میں مجھے پوری طرح سے حاضری کی توفیق عطا کر، صیام رمضان کی بھی اور قیام رمضان کی بھی۔ یہ روز ے میں خیریت سے پورے کرلوں، یا اللہ اس کے بعد جو آپ کا فیصلہ ہو سو ہو۔
  •  اللّٰہ تعالٰی آپ کی عمر میں‘ آپ کے معمولات میں اور عبادات میں برکت دے اور اسے قبول فرمائے۔
  •  میں اپنے رب سے یہی دعا کرتا ہوں کہ یا اللہ تو میری آنکھوں کواتنی بصارت دے کہ میں مسجد خو د چلاجایا کروں، دوسروں کو میں یہ تکلیف نہ دوں کہ وہ مجھے مسجد میں لے جایا کریں ۔یا اللہ‘ مجھے خود مسجد آنے جانے کے قابل بنادے۔
  •  سبحان اللّٰہ ،یہ سب بچے بھی آپ کی آنکھیں ہیں۔
  •   جی الحمدللہ‘ میرے اوپر اللہ تعالیٰ نے اتنا فضل کیا ہے اور میں کہتا ہوں کہ شاید ہی کسی کے اوپر ایسا کرم ہو‘ کوئی حد نہیں اس کے فضل اور احسان کی۔میری آٹھ بیٹیاں ہیں اور چار بیٹے ہیں۔ خد ا کے فضل سے سب نیک ہیں ،تابع فرمان ہیں، خدمت گزار ہیں ، محبت کرنے والے ہیں اور کبھی کسی نے اُف تک نہیں کی ہے۔
  •  اللّٰہ تعالٰی ان سب کو آپ کے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔ یہ سب آپ کی طرح اسلامی تحریک کی تقویت کا باعث بنیں۔
  •  دنیا کے معیار کے حوالے سے اگر یہ کہوں کہ ایک پیسہ بھی میرے پاس نہیں ہے اور ایک پیسہ بھی کمانے کے قابل میں نہیں ہوں۔ لیکن میرے لیے یہ امر نہ کسی حسرت کا باعث ہے اور نہ کسی محرومی کا ذریعہ‘ بلکہ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے مجھے سب کچھ دیا ہوا ہے۔ یہ ایمان کی دولت‘     یہ مکان اور یہ ساری نعمتیں ، الحمدللہ‘ الحمدللہ۔
  •  جماعت اسلامی کے ساتھ وابستگی کے اس ۶۵ برس کے پورے زمانے میں آپ کی  سب سے  قیمتی یاد اور قیمتی اثاثہ کیا ہے؟
  •  جی سچی بات یہ ہے کہ ایمان کی دولت کے بعد میں مولانا مودودی کی رفاقت سے زیادہ کس چیز کو قیمتی کہوں؟ دین کی راہ پر چلتے ہوئے مولانا مودودی نے ساری عمر کبھی ایک منٹ کے لیے بھی مجھ سے کسی خفگی یا کسی ناراضی کا اظہار نہیںکیا۔ وہ ہمیشہ محبت سے پیش آئے اور ہمیشہ بھائی کی حیثیت سے میرے ساتھ حسن سلوک کیا کہ جیسے میں ان کا رفیق کارہوں، کوئی شاگر د اور ماتحت نہیں ہوں۔ اپنے ایک عزیز رفیق کی حیثیت سے ہی ہمیشہ انھوں نے میرے ساتھ معاملہ کیا۔ میں نے مولانا مودودی کو اخلاق میں‘ کردار میں‘ گفتار میں‘ احسان میں اور سلوک میںحضرت محمد صلی اللہ   علیہ وسلم کے اسوہ پر عمل کرنے والا ایک اُمتی ہی پایا ہے۔
  •  اس وقت ساری عالمی شیطانی قوتوں کا اصل ہدف بالخصوص اسلامی تحریک اور بالعموم عالم اسلام کے نوجوان ہیں،اس صورت حال کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟
  •  بس جی‘ انھیں قرآن ،سنت اور سیرت طیبہ سے جوڑا جائے۔ میرے فہم کی حد تک اس مقصد کے لیے ان کو مولانا مودودی کا لٹریچر پڑھایا اور اس سے وابستہ کیا جائے۔ اس کے لیے جو بھی ذرائع ہیں ان کوبڑے پیمانے پر استعمال کیا جائے‘ بلکہ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے  بیت المال کی کچھ مدات میں کفایت کر کے وسائل خرچ کرنے چاہییں۔ یہ لٹریچر انھیں ایمان‘ قرآن، سنت، اسوۂ نبویؐ ، امت مسلمہ اور اُمت کے مفاد سے جوڑدے گا۔

m کیا شیطانی قوتیں اور ان کے آلہ کار کامیاب ہوجائیں گے ؟

  •  یہ کیسے ممکن ہے۔ اسلام نے تو غالب آنا ہے‘ ان شاء اللہ اسلام ہی غالب آئے گا۔
  •  اخوان اور عرب دنیا میں اسلامی تحریک سے رابطے یا کسی اور پہلو پر آپ روشنی ڈالنا پسند فرمائیں گے؟
  •  مولانا مسعودعالم ندوی بڑے مخلص، بڑ ے جاںنثار اور بڑے فاضل انسان تھے۔   علما میں ان سے زیادہ مخلص‘ مولانا کا مداح‘ مددگارمیں نے کوئی اور نہیںدیکھا۔ اسی طرح محمد عاصم الحداد مرحوم نے مولانا مودودی کی کتب کے ترجمے کے لیے بڑی گراں قدر خدمات انجام دیں۔ پھر  خلیل احمدحامدی صاحب نے اپنی ساری زندگی اس کام میں لگادی۔ عملاً ان تین افراد نے عالمِ عرب میں اسلامی تحریک سے تعلق کو تقویت دی ،علمی رابطے بڑھائے اور دعوت دین کی سرگرمیوں میں بنیادی نوعیت کا کام کیا، اور ان کے ساتھ ہمارے چوتھے ساتھی چودھری غلام محمد مرحوم کی خدمات بڑی ہی گراں مایہ ہیں۔اللہ تعالیٰ ان احباب کی خدمات کو قبول فرمائے۔
  •  میاں صاحب کوئی اور بات جو آپ اسلامی تحریکوں کے حوالے سے فرمانا چاہیں ؟
  •  اس وقت فوری طور پر میرے ذہن میں کوئی بات نہیں آرہی‘ البتہ پروفیسر خورشید احمد تحریک اسلامی کا بڑا قیمتی سرمایہ ہیں۔میں ترجمان القرآن پورا اوّل سے لے کر آخر تک    حرف بہ حرف سنتا ہوں۔ ما شا اللہ‘ خورشید صاحب اشارات بڑی محنت سے‘ جرأت سے اور کسی خوف کو خاطر میں لائے بغیر لکھتے ہیں۔ صحت پتا نہیں کیسی ہے ، خورشید صاحب کی ؟ میں رات دن ان کی صحت کے لیے دعا کرتا ہوں۔اللہ تعالیٰ انھیں جزاے خیرعطا فرمائے‘ صحت اور طاقت دے‘   اپنے دین کی خدمت کے لیے زندہ سلامت رکھے۔