مئی۲۰۰۷

فہرست مضامین

مردِ حق آگاہ

قاضی حسین احمد | مئی۲۰۰۷ | گزارشات

Responsive image Responsive image

کسی بھی تحریک کا مؤسس اپنے نظریات اور تحریک کا سب سے بہتر تعارف ہوتا ہے۔ جوشخص اپنے مقاصد سے جس قدر مخلص ہوگا اس پر، اس کے ساتھیوں پر، اور اس کی تحریک پر ان مقاصد کی چھاپ اُتنی ہی گہری ہوگی۔ امام حسن البنا شہید کی تمام تر جدوجہد کا اصل مقصد رب کی رضا کا حصول اور اللہ کے رنگ میں انفرادی و اجتماعی طور پر رنگ جانا تھا۔ ان کی پوری زندگی میں یہی پہلو سب سے نمایاں نظر آتا ہے۔

قرآن کریم اور سنت نبویؐ سے براہِ راست ربط و تعلق اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے مثل محبت اور وابستگی نے اخوان کو دعوت و تحریک کے مستقل مکتب کی حیثیت دے دی ہے۔ اخوان کا معروف شعار: اللہ ہمارا مقصود ہے، قرآن ہمارا دستور ہے، رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے راہ نما ہیں، جہاد ہمارا راستہ ہے، اور اللہ کے راستے میں موت ہماری سب سے بڑی آرزو ہے___ اس روحانیت کا جامع خلاصہ ہے۔ اسی شعار کو بنیاد بناکر انھوں نے اصلاحِ نفس، اصلاح اہل خانہ، اصلاحِ معاشرہ اور تعمیرملت کی مثالی جدوجہد کی۔

امام حسن البنا شہید نے اپنے ساتھیوں کی تربیت میں جہاد اور قربانی کو بہت اہمیت دی۔ انھوں نے اخوان کے کارکنان کو ہر طرح کے مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کیا۔ یہی وجہ ہے کہ شاہ فاروق کے مظالم ہوں یا جمال عبدالناصر کی بے وفائی اور ظلم و تشدد، انورسادات کا جبر ہو یا  حسنی مبارک کے غیرقانونی اقدامات، بیرونی سازشیں ہوں یا اندرونی حالات کی سنگینی، اخوان   ان تمام آزمایشوں میں سخت جان نکلے۔ انھیں ختم کرنے کی کوشش کرنے والے ایک ایک کرکے ختم ہوگئے، لیکن انھیں شہید، اسیر یا ملک بدر کرکے کبھی ختم نہ کیا جا سکا۔ یوں اخوان المسلمون کی تحریک کا دائرہ نہ صرف پورے عالمِ عرب پر محیط ہوگیابلکہ اس کے اثرات پورے عالم اسلام میں پھیل گئے۔

صہیونی طاقتوں کی خواہش اور کوشش تھی کہ مسلم دنیا بالخصوص مصر سے اسلامی روح کا خاتمہ کردیا جائے۔ مصر پر خصوصی توجہ اس لیے تھی کہ مصر، فلسطین پر صہیونی قبضے کے خلاف مزاحمت کی بنیادی کڑی کی حیثیت رکھتا ہے۔ مصر ہی سے اسرائیلی وجود کے خلاف عملی مزاحمت سامنے آئی تھی۔ اس مزاحمت کو ختم کرنے کے لیے بہت سی کاوشوں کا نقطۂ آغاز مصر ہی قرار پایا۔ فلسطین پر یہودی قبضے کو تسلیم کروانے کے لیے کیمپ ڈیوڈ معاہدہ ہو یا عالمِ اسلام کے خلاف دیگر ثقافتی، دفاعی، جاسوسی اور اقتصادی سازشیں، ان کی تنفیذ میں بنیادی خدمت عالمِ اسلام کے حکمرانوں بالخصوص فلسطین کے پڑوسی ممالک سے لی گئی۔ سازشی عناصر اور ان کے خدمت گار جانتے تھے کہ اس راہ کی بنیادی رکاوٹ اسلامی تحریکیں اور معاشرے کے متدین عناصر ہیں۔ اس رکاوٹ کے ازالے کے لیے اندرونی و بیرونی قوتوں نے ہرممکن ہتھکنڈا آزمایا۔ جھوٹے الزامات لگے، مہیب پروپیگنڈا ہوا،اور اندرونی و بیرونی فتنوں کو ہوا دی گئی۔ ملک بدری، اسیری اور پھر گولیاں اور پھانسی کے پھندے، اور ظلم و جور کے تمام ہتھکنڈے آزمائے گئے لیکن اللہ، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور جہاد فی سبیل اللہ کی محبت سے سرشار اور کتاب اللہ کے نور سے منور چراغوں کو بجھایا نہ جاسکا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چشمۂ فیض سے سیراب کھیتی، ہر آن اپنی بہار دکھاتی اور یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِھِمُ الْکُفَّارَ (الفتح: ۴۸:۲۹) ’’کاشت کرنے والوں کو وہ خوش کرتی ہے تاکہ کفار ان کے پھلنے پھولنے پر جلیں‘‘کا مصداق بنی رہی۔

وہ کارواں جو امام حسن البنا اور ان کے چند مخلص ساتھیوں کی جدوجہد سے شروع ہوا تھا، تمام تر چرکے سہنے کے باوجود آج کہیں حماس کی صورت ناقابلِ شکست ہے، کہیں اخوان المسلمون کی پے درپے کامیابیوں کی صورت مخالفین کو لرزہ براندام کیے ہوئے ہے۔ کہیں الجزائر کے ۸۰ فی صد راے دہندگان کے نقارے کی صورت سنائی دیتا ہے۔ عالمِ عرب ہی نہیں، جہاں جہاں بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی جمع ہیں، اخوان غلبۂ اسلام کی اس جدوجہد کے دست و بازو بنے   ہوئے ہیں۔ اُمت کی اُمیدوں کے ترجمان ہیں، اور اس یقین سے سرشار ہیں کہ حق کو بالآخر غالب ہونا ہے اور باطل کو مغلوب۔

مسلسل قربانیوں اور ہمہ وقت جدوجہد سے اسلامی تحریکوں نے پوری دنیا پر یہ حقیقت آشکار کردی ہے کہ قربانیاں اور مشکلات کبھی کسی تحریک کے خاتمے کا باعث نہیں ہوتیں۔ قربانیوں نے ہمیشہ تحریک کو مزید تقویت و زندگی بخشی ہے۔ جہاد کی فصل جتنی کٹتی ہے اتنی ہی مزید پھلتی پھولتی ہے۔ہاں، قربانیوں سے اجتناب، مشکلات کا خوف اور خطرات کے اندیشہ ہاے دُوردراز، تحرک کے بجاے تساہل و تکاسل ضرور ایساوقت لاتے ہیں کہ پھر تحریک تحریک نہ رہے، تعفن زدہ تالاب بن جائے۔ اقبال نے بھی اپنے اشعار سے یہی پیغام دیا اور حسن البنا کی شہادت سے اخوان اور اسلامی تحریک کو ملنے والی حیاتِ تازہ سے بھی یہی پیغام ملا:

ساحل افتادہ گفت‘ گرچہ بسے زیستم
ہیچ نہ معلوم شد آہ کہ من چیستم
موج زخود رفتۂ تیز خرامید و گفت
ہستم اگر مے روم، گر نہ روم نیستم!

(پڑے ہوئے ساحل نے کہا کہ: اگرچہ میںبڑی دیر زندہ رہا ہوں، لیکن افسوس! مجھے کچھ معلوم نہیں ہوا کہ میں کیا ہوں۔ اپنی جان سے گزرنے والی موج تیزی سے لپکی اور اس نے کہا، اگر میں حرکت میں ہوں تو زندہ ہوں، اگر نہیں ہوں تو نہیں ہوں،گویا زندگی حرکت اور جدوجہد کا نام ہے۔)

یہی مطلب مرزا بیدل کے ایک شعر میں اس طرح ادا ہوا ہے:

ما زندہ ازانیم کہ آرام نہ گیرم
موجیم کہ آسودگی ما عدم ماست

(ہم اس لیے زندہ ہیں کہ رکتے نہیں ہیں۔ ہم ایسی موج ہیں کہ ہمارا ٹھیرنا ہماری موت ہے۔)

سید قطب کے الفاظ میں کہ: ’’شہید کے ہزاروں خطاب اور ہزاروں کتابیں بھی اخوان کے دلوں میں تحریک و دعوت کے وہ الائو روشن نہیں کرسکتے تھے جو ان کے پاکیزہ خون سے منور ہونے والے چراغوں نے دہکا دیے تھے‘‘۔ اپنے مقصد سے مضبوط وابستگی اور نیت و عمل میں  کامل اخلاص نے حسن البنا کو اُمت کی اُمیدوں کا مرکز بنا دیا۔ وہ خود بھی ایک مؤثر قوتِ محرکہ تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی دعوت کے گرد علماے کرام اور عظیم مفکرین کی ایک کثیرتعداد جمع کردی۔ امام نے زیادہ کتابیں تونہیں لکھیں لیکن ان کے الفاظ:  اصنف الرجال (میں مردان کار تصنیف کرتا ہوں)۔ ایسی حقیقت بن گئے کہ سیدقطب، سید سابق، عبدالفتاح ابوغدہ، محمدالغزالی، علامہ یوسف القرضاوی، استاذعبدالمعز عبدالستار، استاذ مصطفی مشہور، استاذ کمال الدین سنانیری اور اسی پایے کے لاتعداد جلیل القدر علماے کرام ان کے حلقۂ عمل میں شامل ہوگئے۔ ان بزرگ علماے کرام کی روحانی تربیت کرکے انھوں نے عالم اسلام کو ایک ایسے مبارک گروہ کا تحفہ دیا جو علم و عمل اور تقویٰ و للہیت کا نمونہ تھا، اور جنھوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت اورقرآن کی تعلیمات کو اپنی شخصیت میں جذب کرلیا تھا۔اس مبارک گروہ سے آج عالم اسلام میں زندگی کی لہر دوڑ رہی ہے۔ قرآن کریم میں مؤمنین کی جو صفات بیان ہوئی ہیںاور اللہ کے ولیوں کے جو اوصاف بیان کیے گئے ہیں، ان بزرگ شخصیتوں میں ہم نے اس کا پرتو دیکھا ہے۔ یہ وہ چلتی پھرتی کتابیں ہیں جو امام حسن البنا شہید نے تصنیف کی ہیں اور ان سے آج پورا عالم روشن ہے۔

اخوان المسلمون کے ساتھ طالب علمی کے زمانے ہی سے میرا تعلق اتنا گہرا تھا کہ جب میں اپنی زندگی کے ان چند واقعات کو یاد کرتا ہوں جب میں شدید صدمے اور حزن سے دوچار ہوا،تو ان میں سے ایک عبدالقادر عودہ شہید اور ان کے ساتھیوں کی سزاے موت کا واقعہ ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میں اپنے علاقے کے ایک چھوٹے سے قصبے کے ریلوے اسٹیشن کی مسجد میں اس روز کتنی دیر تک آنسو بہاتا رہا اور رو روکر اپنے رب کے سامنے اپنے درد و حزن کا اظہار کرتا رہا۔اس کے بعد  لمحہ بہ لمحہ ہم سید قطب اور اخوان کے دوسرے راہ نماؤں پر ہونے والے مظالم کی روداد سنتے اور پڑھتے رہے، اور اس پورے عرصے میں براہ راست ملاقات نہ ہونے کے باوجود ہمارے دل    ان کے ساتھ جڑے رہے، بلکہ یہ رودادیں ہماری تربیت کا ذریعہ بنیں۔ انھی دنوں ہم ذہناً  اس تعذیب کو سہنے اور اس کی سختیوں کو برداشت کرنے کی تیاری کرتے رہے جن سے ہمارے  اخوانی بھائی گزرے تھے۔

                 ۷۳-۱۹۷۲ء میں پہلی بار میں نے سفرحج کیا۔ اس سال منیٰ میں اخوان کا باقاعدہ کیمپ لگا تھا۔ ان دنوں پشاور شہر کی جماعت اسلامی کی ذمہ داری میرے سپرد تھی۔ قومی یا عالمی سطح پر میرا تعارف نہیں تھا۔ ایک عام کارکن کی حیثیت سے میں تھوڑی دیر کے لیے ان اللہ والوں کے ساتھ بیٹھ گیا۔ استاد حسن الہضیبی طویل قید سے [ناصر کے زمانے میں] رہائی کے بعد کیمپ میں شریک تھے۔ انتہائی ضعف کی حالت میں جب انھیں اپنی کرسی پر بٹھایا گیا تو اخوان کے دکھی دلوں کے زخم تازہ ہوگئے،اور سب پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔جب تھوڑا قرار آیا تو رونے پر قابو پا کر بلند آواز سے سب نے مل کرذکر شروع کر دیا: سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَاسْتَغْفِرُاللّٰہَ الَّذِیْ لاَ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَ اَتُوْبُ اِلَیْہِ- دیر تک اللہ والے یہ ورد کرتے رہے۔ بعد میں کیمپ میں کئی اخوانی ساتھیوں کے علاوہ اردن کے اخوانی راہ نما استاذ عبدالرحمن خلیفہ سے بھی پہلی ملاقات ہوئی۔

اسی سال حج کے بعد میں نے عالم اسلام کا سفر کیا۔ مصر بھی گیا لیکن اخوان کے دور ابتلا کی وجہ سے وہاں اس کا موقع نہیں ملا کہ اخوان کے کسی راہ نما سے ملاقات کا شرف حاصل کر سکوں۔ البتہ قاہرہ اور سکندریہ کے گلی کوچوں میں امام حسن البنا اور ان کے شہید ساتھیوں کے آثار کی تلاش میں رہا۔  اس سفر کے دوران لبنان اور شام کے بعض اخوانی راہ نماؤں سے ابتدائی ملاقاتیں رہیں۔

زمانہ طالب علمی سے ہی امام حسن البنا اور سید مودودی کی محبت یکساں طور پر میرے دل میں موجود رہی ہے۔ امام حسن البنا اورمولانا مودودی کے درمیان ملاقات یاکسی قسم کے رابطے کے کوئی شواہد موجود نہیں ہیں، مگر دونوں کی شخصیت، فکر اور تحریک میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔ اس کا بنیادی سبب قرآن و سنت کی مشترکہ بنیاد ہے۔اخوان المسلمون نے ہمیشہ جماعت اسلامی کو برعظیم پاک و ہند کی تحریکِ اخوان ہی سمجھا، اور ہم نے ہمیشہ اخوان المسلمون کو عالمِ عرب میں جماعت اسلامی ہی کی قائم مقام تحریک کے طور پر دیکھا ہے۔ یہ حیرت انگیز تعلق خاطر اور افکار کی یکسانیت عصرِحاضر میں وحدت اُمت کی مضبوط ترین اساس ہے۔

اخوان کی قیادت اور ہم نے مل کر فرقہ بندی، ذات پات، لسانیت یا علاقائیت سے بالاتر ہوکر دینی و ملّی مشترکات پر اُمت کو جمع کرنے کی کوشش کی ہے۔ مجھے اس ضمن میں اخوان المسلمون کے متعدد ذمہ داران سے تبادلۂ خیالات کا موقع بھی ملا ہے۔ اخوان کے سابق مرشدعام مصطفی مشہور سے اکثر و بیش تر ملاقاتیں رہیں۔ وہ کئی بارپشاور میں ہمارے مہمان رہے۔ وہ مکمل طور پر فنا فی اللہ، اخلاص و جذبے سے معمور، اخوت سے سرشار اور دانا وبینا انسان تھے۔ یہی عالم بالترتیب تیسرے، چوتھے اور پانچویں مرشدعام عمرتلمسانی، محمد حامد ابوالنصر اور مامون الہضیبی کا تھا۔ معروف محدث اور بزرگ عالمِ دین عبدالفتاح ابوغدہ (مرحوم) میرے بڑے بھائی مولانامحمد عبدالقدوس (مرحوم) کے قریبی دوست اور ساتھی تھے۔ وہ علم و تقویٰ اور تحریکی شعور کا خوب صورت مرقع تھے۔ ان سے ملاقات علمی ذوق و شوق میں ترقی اور تحریکی وابستگی میں پختگی اور یک سوئی کا سبب بنتی تھی۔

اخوان کے بزرگ راہ نماؤں سے قریبی ملاقاتوں اور کسب فیض کا موقع اس وقت ملا جب جہادافغانستان [۹۲ء-۱۹۷۸ء]میں اخوان المسلمون نے باقاعدہ دل چسپی لینی شروع کی اور پشاور میں میرا غریب خانہ افغانوں اور اسلامی تحریکوں کامرکز بن گیا۔ اخوان المسلمون کے کئی راہ نما اس دوران ہمارے ہاں قیام پذیر ہوئے ۔ سابق مرشد عام استاذمصطفی مشہور، استاذ کمال الدین سنانیری اور نائب مرشد عام ڈاکٹر احمدالملط کی میزبانی کا شرف مجھے حاصل ہوا ،اوران کے ساتھ سفر کرنے کا بھی موقع ملا۔ انھی دنوں سفر میں استاذ عبدالمعز عبدالستار کا ساتھ نصیب ہوا۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے براہ راست امام حسن البنا شہید سے فیض حاصل کیا تھا۔جوانی ہی میں امام شہید نے ان کے دل مٹھی میں لے لیے تھے اور اُن کے گہرے روحانی نقوش ان کی شخصیتوں پر ثبت ہو گئے تھے۔میں نے ان کی خلوت و جلوت کا مشاہدہ کیا ہے۔ ان لوگوں پر اللہ کا رنگ( صبغۃ اللّٰہ) مکمل طور پر چڑھا ہواتھا۔ان کی باتیں ذکر کی باتیں تھیں، ان کی خاموشی اللہ کی یاد میں خاموشی تھی،اور ان کی معیت میں ایک گہرا روحانی سکون محسوس ہوتا تھا۔

استاذ کمال الدین سنانیری تقریباً ۱۵ دن ہمارے گھر میں مہمان رہے۔ میں نے اپنی تحریکی زندگی میں ان جیسا للہیت سے سرشار انسان کم ہی دیکھا ہوگا۔غیر محسوس طور پر ایک دن چھوڑ کر روزے سے رہتے تھے لیکن گھر کے لوگوں کے سوا کسی کو بھی ان کے روزے کا اندازہ نہیں ہوتا تھا۔ جب لطیف پیراے میں کھانے پینے سے معذرت کرتے تو معلوم ہوتا کہ روزے سے ہیں۔ استاذ کمال الدین مرشدعام کے خصوصی نمایندے کی حیثیت سے افغان مجاہدین کی خدمت اور     افغان قائدین میں مصالحت و یک جہتی کی خاطر آئے تھے، اور اپنی تمام تر توجہ اسی ایک مقصد کے حصول پر مرکوز رکھی۔ میں نے انھیں کبھی فارغ نہیں دیکھا۔ جب بھی فرصت کا کوئی لمحہ میسر آتا، وہ جیب سے قرآن کریم نکالتے اور تلاوت میں مشغول ہوجاتے۔ بدقسمتی سے مصر واپسی پر اس فنا فی اللہ، ربانی شخصیت کو سرکاری گماشتوں نے اذیتیں دے دے کر شہید کردیا، اور دنیا سے جاتے ہوئے بھی وہ اپنے مرشدعام امام حسن البنا شہید سے مشابہ ٹھیرے۔استاذ مصطفی مشہور ہر فارغ لمحے میں کتاب اللہ کی تلاوت میں مشغول رہتے تھے۔ استاذ عبدالمعزعبدالستار کے روحانی اثر کو میں آج ہزاروں میل کی طویل مسافت کے باوجود محسوس کرتا ہوں۔

اسی لیے میں نے آغاز میں عرض کیا کہ تحریک کا حقیقی تعارف اس سے وابستہ افراد کے اخلاق و کردار سے ہوتا ہے، اور تحریک کا بانی اپنی تحریک اور تحریکی افراد پر اپنے گہرے نقوش مرتب کرتا ہے۔امام شہید کی روحانی کشش اس قدر شدید تھی کہ جس کا بھی ان کے ساتھ تعارف ہوا،  اس کا دل ان کے ساتھ جڑ گیا۔ ان کے قریبی ساتھیوں میں ان کی تربیت کی وجہ سے ایسی جاذبیت پیدا ہو گئی تھی کہ عالم اسلام کے ہزاروںلاکھوں نوجوانوں کے دلوں میںان کی محبت کے دیرپا نقوش ثبت ہو گئے ہیں۔

ترجمان القرآن کی اس ’اشاعت خاص‘ میں اخوان المسلمون کے بانی، اور مرشد ربانی کی فکر، شخصیت اور کردار و اثرات کا مطالعہ پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے___ یہ نہ صرف اسلامی تحریک کی بنیادی ضرورت تھی بلکہ امام حسن البنا شہید کا ہم سب پر حق بھی تھا۔ میں اس اہم علمی و تحریکی خدمت پر اس کی تیاری میں حصہ لینے والے تمام ساتھیوں کے لیے قبولیت کی دعا کرتا ہوں۔ خدا کرے کہ اس میں شامل تحریریں ہمیں ایک تازہ جذبۂ عمل سے سرشار کریں۔ آمین!