مئی ۲۰۱۱

فہرست مضامین

امریکی جارحیت: پاکستان کے لیے فیصلہ کن لمحہ

پروفیسر خورشید احمد | مئی ۲۰۱۱ | اشارات

Responsive image Responsive image

۲مئی ۲۰۱۱ء پاکستان کی ۶۴سالہ تاریخ کے سیاہ ایام میں سیاہ ترین دن کی حیثیت رکھتا ہے۔ امریکا کی دوستی کی چھتری کے تلے چلائے جانے والے نیزوںکے زخم اس ملک کے جسم کے ایک ایک حصے میں پیوست ہیں لیکن ڈرون حملوں کی نہ ختم ہونے والی بوچھاڑ کے ساتھ جو     فوجی کارروائی یکم اور ۲مئی کی درمیانی شب ایبٹ آباد کے حسّاس علاقے میں امریکا کے چار ہیلی کاپٹروں اور ۲۴خصوصی کمانڈوز (SEALS) کے ذریعے ہوئی___ جس کے نتیجے میں مبینہ طور پر نہتے    شیخ اسامہ بن لادن، اس کے غیرمسلح صاحب زادے حمزہ بن لادن، اس کے دو رفقاے کار اور   ان میں سے ایک کی اہلیہ کو شہید کیا گیا اور ان کے مکان سے اپنے مطلب کا قیمتی سامان اور شیخ اسامہ اور حمزہ کی لاشوں کو بے دردی سے گھسیٹتے ہوئے ساتھ لے جایا گیا___ وہ پاکستان کی آزادی، حاکمیت، خودمختاری اور عزت پر حملہ ہے۔ بین الاقوامی قانون کی زبان میں اسے ایک نوعیت کا اعلانِ جنگ بھی تصور کیا جاسکتا ہے۔ اس جرم کے مختلف پہلوئوں پر گفتگو کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مختصراً ان اُمور کو ذہن میں تازہ کرلیا جائے جو اس فوجی اقدام کی اصل حقیقت کو سمجھنے میں مدد دے سکتے ہیں۔

نائن الیون کے الم ناک اور قابلِ مذمت واقعے کے بعد، امریکا نے اپنے ایجنڈے کے مطابق القاعدہ کی سرکوبی کے عنوان سے افغانستان اور پھر عراق کو یک طرفہ جنگ کی آگ میں جھونک دیا اور پاکستان کو تباہ کرنے اور پتھر کے زمانے میں پہنچا دینے کی دھمکی دے کر سات شرم ناک مطالبات کے ذریعے اس وقت کے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔خود کو ’کمانڈو صدر‘ کہنے والے سربراہِ مملکت نے امریکی غلامی کا نیا طوق بخوشی پہن لیا اور امریکا کو فوجی اڈے، راہداری اور وہ تمام سہولتیں اور مراعات دے دیں جن کا امریکا نے مطالبہ کیا اور اس طرح ایک ہمسایہ مسلمان ملک پر امریکی فوج کشی کے لیے اپنے کندھے پیش کر دیے۔ جس جنگ کا ہم سے کوئی دُور و نزدیک کا واسطہ بھی نہ تھا، یوں اس میں ہم امریکا کے طفیلی کی حیثیت سے شریک ہوگئے۔ جس پالیسی کا آغاز پرویز مشرف نے کیا تھا، ۲۰۰۷ء کے این آر او اور ۲۰۰۸ء کے انتخابات کے نتیجے میں برسرِاقتدار آنے والی سول حکومت نے بھی اسی غلامانہ پالیسی کو جاری رکھا۔

اس کے نتیجے میں ملک کے طول و عرض میں دہشت گردی اور لاقانونیت کا دور دورہ ہوگیا۔ امریکا نے پورے ملک میں اپنے جاسوسوں اور فوجی اور کرایے کے سورمائوں (private security personnel) کا جال بچھا یا۔ ملک کی معیشت اس پالیسی کے نتیجے میں تباہ و برباد ہوئی۔ سرکاری اداروں کے اندازے کے مطابق ۴۰ہزار سے زیادہ عام شہری اور فوجی اس جنگ میں لقمۂ اجل بن چکے ہیں، اس سے دگنی تعداد میں زخمی ہوئے ہیں اور صرف پہلے آٹھ برسوں میں عملاً معیشت کو ۶۸ ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے جس میں ۸۲ ارب روپے کا وہ نقصان شامل نہیں ہے جو راہداری کی سہولت دینے کی وجہ سے ملک کی سڑکوں، پُلوں اور انفراسٹرکچر کو ہوا ہے۔ اس سب کے باوجود امریکا کی ’ڈو مور‘ کی رَٹ میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے اور سول اورفوجی دونوں قیادتوں اور سرکاری سراغ رساں ایجنسیوں پر عدمِ اعتماد، منافقت اور دوغلے پن کے الزامات کی صبح و شام بوچھاڑ ہوتی رہتی ہے۔ امریکا کی پالیسی کو اگر تین الفاظ میں سمیٹنے کی کوشش کی جائے تو اسے 3-Bs کہا جاسکتا ہے، یعنی:

  • ... Bully (دھونس ، دھمکی ) 
  • ... Blackmail (بلیک میل ) 
  • ... Bribery ( رشوت) 

اس کے ساتھ جسے معاشی امداد اور فوجی تعاون اور ٹریننگ کہا جاتا ہے، اس کے ذریعے ایک طرف ملک کی معیشت پر امریکا نے اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے تو دوسری طرف زندگی کے ہرشعبے میں اپنے اثرونفوذ کو بڑھانے اور اپنے ہرکاروں کو آگے بڑھانے کا کام انجام دیا ہے۔ یہ سیاسی اور معاشی غلامی کا ایک نیا بندوبست ہے جسے ماضی کے سامراجی نظام کی ایک صاف ستھری شکل (refined version) کہا جاسکتا ہے۔

اس سلسلے میں پاکستان کی سالمیت پر سب سے بڑا وار ڈرون حملوں کے ذریعے کیا گیا جس کا آغاز ۲۰۰۴ء میں ہوا۔ ۲۰۰۴ء سے ۲۰۰۷ء تک ۹ حملے ہوئے جن میں ۱۱۲؍افراد شہید کیے گئے۔ ۲۰۰۸ء میں یہ تعداد ۳۳، ۲۰۰۹ء میں ۵۳، اور ۲۰۱۰ء میں ۱۱۸ ہوگئی۔ ۲۰۱۱ء کے پہلے تین مہینوں میں ۲۴ حملے ہوئے۔ ان حملوں میں ۲۵۰۰؍ افراد ہلاک اور ۱۰ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے۔ امریکا کے تھنک ٹینک بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں ایک مبینہ دہشت گرد کے مقابلے میں ۱۰ عام معصوم شہری، مرد، خواتین اور بچے نشانہ بنے ہیں، جب کہ کچھ دوسرے آزاد اداروں کے مطابق یہ تناسب ایک اور ۵۰ کا ہے۔ ان ڈرون حملوں کی ملک کے تمام حلقوں، اور پارلیمنٹ کی متفقہ قراردادوں میں بھرپور مذمت کی گئی اور انھیں ملک کی حاکمیت پر حملہ، معصوم انسانوں کا قتلِ ناحق اور سیاسی اعتبار سے امریکی مخالفت کے رجحان کو تقویت دینے کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ دنیا بھرمیں بشمول امریکا بنیادی حقوق کے تحفظ کے اداروں نے ان کی مذمت کی ہے اور اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی ان کو عالمی قانون کے خلاف اور امنِ عالم کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے لیکن امریکا کے رویے میں نہ صرف کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ اس نے اس سے آگے بڑھ کر تین بار اپنے فوجیوں کے ذریعے مختصر کارروائیاں کی ہیں۔

اب حکومت کی بے حسی سے شہ پاکر ۲مئی کو وہ کارروائی کی ہے جسے ہراعتبار سے ایک آزاد اور خودمختار ملک پر (جسے امریکا اپنا حلیف اور اسٹرے ٹیجک پارٹنر بھی کہتا ہے) حملہ اور بین الاقوامی قانون کی زبان میں کھلی جارحیت اور جنگی کارروائی (act of war) قرار دیا جائے گا۔ یہ اقدام پوری منصوبہ بندی کے ساتھ ہوا اور امریکی صدر کے باقاعدہ احکام کے تحت انجام دیا گیا۔ اس میں چار فوجی ہیلی کاپٹر جدید ترین ٹکنالوجی سے مسلح تھے جسے سٹیلتھ (stealth) ٹکنالوجی کہا جاتا ہے۔  یہ صرف امریکا کے پاس ہے اور اسے عام ریڈار سے دیکھا نہیں جاسکتا۔ یہ ہیلی کاپٹر بگرام کے  ہوائی اڈے سے روانہ ہوئے۔ پاکستان میں غالباً تربیلا کے آس پاس ان میں ایندھن بھرا گیا۔ دوہیلی کاپٹروں نے عملاً حملے میں شرکت کی اور دو حفاظتی کردار ادا کرتے رہے۔ ۲۴ خصوصی کمانڈوز نے جو بشمول میزائلز ہرطرح کے اسلحے سے لیس تھے، زمینی کارروائی میں حصہ لیا، پانچ افراد کو ہلاک کیا، ایک خاتون کو زخمی کیا، اپنے ہی ایک ہیلی کاپٹر کو جو فنی خرابی یا زمین سے گولی لگنے سے گر کر نذرِآتش ہوگیا تھا، مزید تباہ کرکے ضروری سامان کو لوٹ کر اپنے ساتھ لے گئے۔ اس آپریشن میں تقریباً دوگھنٹے لگے۔ ۴۰ منٹ ایبٹ آباد کے آپریشن میں اور ۸۰ منٹ آنے اور جانے میں۔ اس پورے عرصے میں افغانستان کی فضائی حدود میں ایف-۱۶ طیارے اس لیے موجود رہے کہ اگر پاکستان کی طرف سے کوئی مزاحمت ہو تو پاکستانی ایئرفورس کے جہازوں پر حملہ کیا جاسکے۔ اس کے لیے امریکا نے حفاظت خوداختیاری کا بہانہ تراشا اور دعویٰ کیا کہ اس نے اپنی اس اعلان شدہ پالیسی پر عمل کیا ہے کہ وہ اپنے مطلوبہ افراد کو دنیا کے جس گوشے میں بھی پائیں گے، فوجی کارروائی کر کے اپنے قبضے میں لے لیں گے، حالانکہ نہ اقوام متحدہ نے ان کو یہ حق دیا ہے اور نہ بین الاقوامی قانون اور روایات نے، جن کی رُو سے صرف اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل ۷ کے تحت یا قانونی طور پر دو ملکوں کے درمیان معاہدے (treaty) کے تحت ایسی کارروائی جائز ہوسکتی ہے۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان کوئی معاہدہ موجود نہیں، اس لیے کہ پاکستان کے دستور کے تحت کوئی معاہدہ اس وقت تک قانون کا درجہ حاصل نہیں کرتا جب تک کابینہ نے اس کی توثیق نہ کی ہو۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے افغانستان میں فوجی کارروائی کے لیے جو قرارداد منظور کی ہے، اس کا اطلاق صرف افغانستان کی حدود پر ہوتا ہے، اس کی حدود سے باہر نہیں اور دہشت گردی کے مقابلے کے لیے جو قرارداد منظور کی گئی ہے اس میں تمام ممالک کو ایک دوسرے سے تعاون کے لیے کہا گیا ہے ۔ اس قرارداد میں کسی ایک ملک کی طرف سے یک طرفہ کارروائی کی گنجایش نہیں ہے،  مگر امریکا نے اس قرارداد کی کھلی کھلی خلاف ورزی کی ہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی اور حکومت تمام معلومات امریکا کو دیتے رہے لیکن امریکا نے اس اقدام سے پہلے کسی طرح کی اطلاعات و معلومات میں پاکستان کو شریک نہیں کیا، بلکہ اس ذلت آمیز دعوے کے ساتھ کہ اگر پاکستان کو معلومات میں شریک کیا گیا تو وہ مطلوبہ عناصر کو اس کی اطلاع دے دے گا، پاکستان پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔ یوں امریکا نے پاکستان کے سارے تعاون پر پانی پھیر دیا اور اقوام متحدہ کی قرارداد کے برعکس یک طرفہ کارروائی کرکے ایک آزاد ملک کی حاکمیت اور خودمختاری کی کھلی کھلی خلاف ورزی کی۔

امریکا نے ایک نہیں، پانچ جرائم کا ارتکاب کیا:

۱- پاکستان کی حاکمیت پر حملہ اور اس کی فضائی حدود (air space) اور آباد زمینی علاقے کی خلاف ورزی، فوجی کارروائی کی شکل میں۔

۲- نہتے انسانوں (مرد، عورتوں اور بچوں) پر حملہ، پانچ افراد کا قتل، ایک کو زخمی کرنا۔

۳- دو مقتول انسانوں کی لاشیں غیرقانونی طور پر اپنے قبضے میں لینا اور انھیں ملک سے باہر لے جانا اور غیرمصدقہ اطلاعات کے مطابق ایک شخص کو اغوا بھی کرنا۔

۴-شہری جایداد اور گھریلو سامان کی تباہی۔

۵- لوٹ اور غصب___  دوسروں کی املاک کو نہ صرف تباہ کرنا بلکہ محض جبر اور قوت کے بل پر ان کی املاک کو اپنے ساتھ لے جانا۔


یہ پانچوں جرم ایک ایسے ملک نے کیے ہیں جو اپنے آپ کو تہذیب کا گہوارہ، جمہوریت کا    علَم بردار، انسانی حقوق کا محافظ اور عالمی امن کا پرچارک قرار دیتا ہے۔ جو اقوام متحدہ کا رکن ہے اور اس جارحیت کا نشانہ اقوام متحدہ کے ایک دوسرے رکن ملک کو بناتا ہے جسے وہ اپنا اتحادی بھی کہتا ہے۔ اس کی حدود اور سرزمین کی کھلے بندوں پوری فوجی تیاری اور قوت کے بے محابا استعمال کے ذریعے خلاف ورزی کرتا ہے اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کرتا ہے۔ امریکا نے اپنے اس اقدام کی وجہ سے پاکستان، پوری عالمی برادری اور خود اقوام متحدہ کے مجرم ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ امریکا نے اپنے اس کارنامے کو اپنی فتح قرار دیا ہے۔ اس پر خوشیوں کے شادیانے بجا رہا ہے اور      ستم بالاے ستم یہ کہ اپنے اس گھنائونے جرم پر ’’ہم نے انصاف کردیا‘‘ کا لیبل لگا رہا ہے۔ امریکا اور اس کے میڈیا نے جھوٹ کا ایک طوفان برپا کر دیا ہے اور اس کے خوشامدی اور کاسہ لیس اس کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں لیکن جن کا ضمیر بیدار ہے، وہ امریکا کے اس جرم کا اعتراف کررہے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ نائن الیون کے سانحے میں جو ہلاک ہوئے ہیں، ان کے ورثا میں بھی   ایسے لوگ موجود ہیں جو اسے انصاف نہیں انصاف کا خون قرار دے رہے ہیں۔

دی گارڈین لندن کی ۳مئی ۲۰۱۱ء کی اشاعت میں نائن الیون کے سانحے کے نتیجے میں بیوہ ہونے والی ایک خاتون کا یہ چشم کشا تاثر شائع ہوا ہے جو اس نے پھولوں کے گلدستے کے ساتھ نیویارک میں گرائونڈ زیرو پر بن لادن کے حادثے کے بعد رکھا ہے:

مَیں اور نائن الیون کے ہلاک شدگان کے رشتہ دار اُمید کرتے ہیں کہ ہم اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے امریکا کو جنگ کے بجاے انصاف کی راہ پر لائیں گے۔

اپنے اس مختصر نوٹ میں وہ لکھتی ہے:

بن لادن کی موت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تشدد سے تشدد جنم لیتا ہے۔ مَیں اور میرے ساتھی پُرامن مستقبل کے لیے چاہتے ہیں کہ نائن الیون کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ انصاف عدالت کے کمرے میں ملتا ہے، میدانِ جنگ میں نہیں۔ مجھے انتقام نہیں، انصاف چاہیے اور یہ دو بالکل مختلف چیزیں ہیں۔ ساڑھے نو برس سے میں نائن الیون کی انسانی قیمت کے بارے میں سوچ رہی ہوں۔ یہ صرف وہی زندگیاں نہیں ہیں جو اس روز لی گئیں بلکہ وہ سب فوجی اور شہری جن کی جانیں ان دو جنگوں کی نذر ہوئیں اور جن کی زندگیاں اب بھی خطرے میں ہیں اور ۱۱ستمبر کے نام پر برباد کی جارہی ہیں، سب اس میں شامل ہیں۔

کیوبا کے سربراہ فیڈل کاسٹرو نے ۴ مئی کو اپنے تاثرات کا ان الفاظ میں اظہار کیا ہے:

بن لادن کئی برس تک امریکا کا دوست رہا۔ اسی نے اسے فوجی تربیت دی۔ وہ روس اور سوشلزم کا دشمن تھا۔ اس پر خواہ کوئی بھی الزام لگائے جائیں لیکن عزیزوں کے سامنے ایک غیرمسلح شخص کا قتل، ایک قابلِ نفرت بات ہے۔ بظاہر یہ تاریخ کی سب سے زیادہ طاقت ور قوم کی حکومت نے کیا ہے۔ اوباما نے اپنے ۳ہزار شہریوں کی ہلاکت پر غم کا اظہار کیا ہے لیکن دیانت دار انسان یہ نہیں بھول سکتے کہ امریکا نے عراق اور افغانستان میں جو غیرمنصفانہ جنگیں مسلط کیں، ان کے نتیجے میں لاکھوں بچے اپنے ماں باپ کے بغیر بڑے ہوئے،اور لاکھوں والدین اپنے بچوں کے لمس سے محروم کردیے گئے۔ لاکھوں شہری عراق، افغانستان، ویت نام، لائوس، کمبوڈیا اور کیوبا اور دنیا کے بہت سے دوسرے ملکوں کے دیہاتوں سے لے جائے گئے۔ لاکھوں انسانوں کے ذہنوں میں ابھی تک وہ ہولناک مظالم محفوظ ہیں جو کیوبا کے مقبوضہ علاقے گوانتاناموبے میں برسوں قید رکھے جانے والے قیدیوں پر ناقابلِ برداشت تعذیب کی صورت میں ڈھائے گئے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اغوا کیا گیا اور نام نہاد مہذب معاشروں کی ملی بھگت سے خفیہ قیدخانوں میں منتقل کیا گیا۔

امریکا کا مشہور دانش ور چوم نومسکی ۶مئی کو اپنے تاثرات کا اظہار ان الفاظ میں کرتا ہے:

اسامہ کی حیثیت ایک مشتبہ کی تھی۔ طالبان کی حکومت امریکا سے ثبوت مانگتی رہی لیکن امریکا کے پاس ثبوت نہیں تھے، چنانچہ اب اوباما کا اپنے بیان میں یہ کہنا کہ ’’جلد ہی معلوم ہوگیا کہ نائن الیون کے حملے القاعدہ نے کیے تھے‘‘، سراسر جھوٹ ہے۔ بعد میں بھی ابھی تک کوئی سنجیدہ ثبوت پیش نہیں کیے جاسکے۔ بن لادن کے اقبالی بیان کا بہت ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ میں یہ اعتراف کرلوں کہ میں نے بوسٹن میراتھن جیتی ہے۔ ہمیں اپنے آپ سے یہ پوچھنا چاہیے کہ اگر عراقی کمانڈو جارج بش کے کمپائونڈ میں اُتریں، اس کو قتل کردیں اور اس کی لاش کو بحراوقیانوس میں پھینک دیں تو ہمارا کیا ردعمل ہوگا؟ اس کے جرائم بلاکسی خوف تردید بن لادن سے بہت زیادہ ہیں اور اس کی حیثیت ایک مشتبہ کی نہیں بلکہ فیصلہ کرنے والے کی ہے جس نے بین الاقوامی جرم کرنے کا حکم دیا۔ یہ وہ جرائم ہیں جن پر نازی مجرموں کو پھانسیاں دی گئیں۔

برطانیہ کا چوٹی کا وکیل جیفرے رابرٹسن  لندن کے اخبار دی انڈی پنڈنٹ کی ۳مئی ۲۰۱۱ء کی اشاعت میں اپنے ایک طویل مضمون میں جس کا عنوان Why it is Absurd to claim that Justice has been done ہے، یہ لکھتا ہے:

امریکا میں مشرق کے چالاک جادوگر کی موت پر خوشیاں منائی جارہی ہیں۔ یہ ایک ایسے قتل کی تائید کرنا ہے جس کا ایک صدر نے حکم دیا جو قانون کے ایک سابق پروفیسر کی حیثیت سے جانتا ہے کہ اس کا یہ بیان کہ ’انصاف ہوگیا‘ واہیات بات ہے۔ بن لادن کے قتل کی تائید کی جارہی ہے کیونکہ گرفتاری، مقدمہ اور پھر فیصلہ دینے میں بڑی مشکلات تھیں لیکن ایک بہتر دنیا کے مفاد میں کیا اس کی کوشش نہیں کی جانا چاہیے تھی؟ مقابلے کی تفصیلات بھی واضح نہیں۔ قانون اپنے دفاع میں مجرم کو مارنے کی اجازت دیتا ہے۔ ممکن ہو تو ہتھیار ڈالنے کا موقع دینا چاہیے اور اگر وہ ہاتھ نہ بھی اُٹھائیں تو کسی اندیشے کے بغیر ممکن ہو تو انھیں زندہ گرفتار کرنا چاہیے۔ بن لادن کو گولی کیسے ماری گئی؟ خصوصاً اگر سر کے پچھلی جانب ماری گئی ہے تو اس کی وضاحت کی ضرورت ہے۔  پوسٹ مارٹم کے بغیر جو کہ قانون کا تقاضا تھا سمندربرد کرنے کی آخر کیا جلدی تھی؟ جو لوگ مقدمے کو غیرضروری، مشکل اور خطرناک سمجھتے ہیں وہ یہ بات نظرانداز کردیتے ہیں کہ بن لادن کے قتل نے اسے شہید بنا دیا ہے۔ وہ بعد موت کے اس کردار میں زیادہ خطرناک ہے، اور اس پر مقدمہ نہ چلنے کے نتیجے میں اس کے افسانوی کردار اور نائن الیون کے بارے میں سازشیں تصفیہ طلب ہی رہیں گی۔

دی انڈی پنڈنٹ کی ایک اور مضمون نگار جوڈی می انٹائر ۳مئی ۲۰۱۱ء کے شمارے میں لکھتی ہے:

میں سمجھتی تھی کہ انصاف یہ ہے کہ جرم کرنے والوں کو عدالت میں لایا جائے نہ کہ انھیں ہدف بنا کر ختم کردیا جائے۔ اب معلوم ہوا ہے کہ میں غلطی پر تھی۔ اگر ہم اس منطق کو مان لیں کہ بن لادن نامی ایک آدمی کو قتل کرنے سے نائن الیون کے ہزاروں مقتولین سے انصاف ہوگیا تو امریکا اور برطانیہ کے عراق پر حملے کے بعد اندازاً ۱۰لاکھ عراقیوں کے خون کا انصاف کس طرح ہوگا؟ حقیقت یہ ہے کہ وہ حالات اب بھی موجود ہیں جن سے بن لادن کا نظریہ پھیلتا ہے۔ فلسطین پر اسرائیل کا قبضہ اب بھی قائم ہے۔ عراق اور افغانستان پر قبضہ اب بھی برقرار ہے۔ لیبیا پر بم باری جاری ہے۔ اگر آج اسامہ بن لادن مارا جاچکا ہے تو کیا دنیا ایک بہتر جگہ بن گئی ہے؟ کیا ہم زیادہ محفوظ ہوگئے ہیں؟ اس صورت میں کہ ایک ایسے ملک میں جو اپنے آپ کو دنیا کا تھانے دار بھی سمجھتا ہے اور دنیا بھر میں ایک ہزار سے زائد فوجی اڈے رکھتا ہے، میں اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتی۔

انگلستان کے اہم ترین مذہبی رہنما آرچ بشپ آف کینٹربری ڈاکٹر روان ولیمز نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ:

Killing Bin Laden when he was not carrying a weapon meant that justice could not  be seen to be done.

ہم نے امریکا اور یورپ کی چند اہم شخصیات کے ان واضح خیالات کو اس لیے پاکستان کے سوچنے سمجھنے والے حضرات کے غوروفکر کے لیے پیش کیا ہے کہ اسلام اور پاکستان کے بارے میں ساری غلط فہمیوں کے باوجود، امریکا کے ان جارحانہ، غیرقانونی، غیراخلاقی اور غیرانسانی اقدامات اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ہرقانون کو پامال کرنے، دوسروں کی حاکمیت اور سلامتی کو محض قوت کے زعم پر پامال کرنے پر گرفت کرنے والے بھی موجود ہیں۔ شرم کا مقام ہے کہ وہ ملک جس کی آزادی، حاکمیت اور خودمختاری کو اس دیدہ دلیری کے ساتھ پامال کیا گیا، اس کی قیادت، حتیٰ کہ اس کا صدر، وزیراعظم اور وزارتِ خارجہ بھی ۴۸گھنٹے تک مذمت کا ایک لفظ کہنے کی جرأت نہ کرسکے، بلکہ صدر اور وزیراعظم نے امریکا کے اس جارحانہ اقدام پر مبارک باد دی اور وزارتِ خارجہ کے سرکاری ردعمل میں پہلا جملہ ہی یہ تھا کہ:

یہ آپریشن امریکا کی اعلان شدہ پالیسی کے مطابق تھا کہ اسامہ بن لادن دنیا میں جہاں بھی پایا جائے گا، براہِ راست فوجی کارروائی کر کے اسے ختم کردیا جائے گا۔

اس سے زیادہ معذرت خواہانہ بلکہ غلامانہ ردعمل اور کیا ہوسکتا ہے۔ شرم کا مقام ہے کہ ہماری وزارتِ خارجہ یہ بیان دے رہی ہے اور بھارت کا ایک نام ور کالم نگار پرافل بڈوال اس واقعے پر Did the US serve Justice? کے عنوان سے لکھتا ہے:

کیا امریکا نے، جیساکہ صدر بارک اوباما نے کہا ہے، اسامہ بن لادن کو قتل کرکے  نائن الیون کے ہلاک شدگان کا انصاف حاصل کرلیا ہے___ دیانت داری سے اس کا جواب ’نہیں‘ ہے۔ امریکا نے انتقام لیا ہے، انصاف نہیں کیا۔ مکمل انصاف کا مطلب  یہ ہوگا کہ نائن الیون کے تمام مجرموں پر کھلا مقدمہ چلایا جائے۔ اس کا یہ بھی تقاضا ہوگا کہ جہادی دہشت گرد جن جائز شکایات کو استعمال کرتے ہیں ان کو انسانی بنیادوں پر دُور کیا جائے، جن کا تعلق مغرب کی بالادستی کے منصوبوں اور اسلام کو مجسم شر کی حیثیت سے پیش کرنے، اور فلسطین پر اسرائیل کے قبضے سے ہے۔

ہم نے اپنے تجزیے کے اس حصے میں امریکا کے جارحانہ اقدام، پاکستان کی حاکمیت، آزادی اور خودمختاری کی بدترین پامالی اور بین الاقوامی قانون، اور انسانی حقوق، قانون کی حکمرانی اور انصاف کے بنیادی اصولوں کی پوری دیدہ دلیری، اور رعونت سے بربادی اور پامالی کے کچھ پہلوئوں پر روشنی ڈالی ہے۔ یہ معاملے کا صرف ایک پہلو ہے۔


دوسرا الم ناک پہلو پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کے کردار کا ہے۔ امریکا نے تو وہ کیا جو وہ کرنا چاہتا تھا اور اس کے عزائم اور ہتھکنڈے کوئی ڈھکی چھپی چیز نہ تھے۔ سوال یہ ہے کہ ہماری انٹیلی جنس اور دفاع کے ذمہ داروں کا کیا کردار رہا؟ امریکا کو اتنی ہولناک کارروائی کرنے کا موقع کیوں حاصل ہوا؟ ہماری خفیہ ایجنسیاں کیا کر رہی تھیں کہ نہ ان کو یہ معلوم ہوسکا کہ اسامہ بن لادن کب سے کہاں مقیم ہے؟ آئی ایس آئی، ایم آئی، ایف آئی اے، صوبائی پولیس اور اسپیشل برانچ یہ سب کہاں غائب تھے؟ پھر اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ امریکی ہیلی کاپٹر کم از کم دو گھنٹے ہمارے ملک میں دندناتے پھرتے رہے، ایندھن بھی بھرا گیا، حملہ آور بھی ہوگئے، ایک ہیلی کاپٹر گر گیا یا گرا لیا گیا اور اس کے شعلے بلند ہوگئے۔ محلے کے سارے لوگ اُٹھ کھڑے ہوئے، چھتوں پر شوروغوغا ہوا مگر ہماری سرحدوں کے محافظ اور ہمارے شہروں کے پاسبان دشمن کے اپنا مشن پورا کرنے کے بعد حرکت میں آئے اور صرف ہاتھ مَلتے رہ گئے۔ ہماری نگاہ میں اس کے کم ازکم آٹھ پہلو ہیں جن پر گفتگو کی ضرورت ہے، یعنی:

۱- انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناکامی___ غفلت، یا اہلیت کی کمی۔

۲- دفاعی نظام کی کمزوری اور ناکامی کہ بروقت اقدام سے عاجز رہا، خصوصیت سے  مسلسل دو گھنٹے تک کارروائی جاری رہنا اور جوابی ردعمل میں کوتاہی۔

۳- خطرات کا ادراک (perception) اور اس کے مطابق دفاعی حکمت عملی کی خامیاں۔

۴- ملک کی سلامتی کی پوری صورت حال کا جائزہ کہ اس میں کہاں خلا ہے اور کون کون سے وہ پہلو ہیں جن کا لحاظ نہیں رکھا گیا اور اتنی بڑی چوٹ کھانی پڑی۔

۵- ان سب کی روشنی میں سب سے بنیادی مسئلہ امریکا سے تعلقات کی نوعیت، اس کے اور ہمارے مقاصد، مفادات اور تحفظات کا ادراک، پاکستان میں امریکا کا کردار۔ پرویز مشرف کے دور سے اب تک کیا مراعات اور مواقع ان کو دیے گئے ہیں جن کا کوئی ریکارڈ نہیں۔ باہمی تعامل کے قواعد کیا ہیں اور کن حدود میں رہ کر ایک غیرملک اور اس کے اداروں کو کام کی اجازت اور مواقع ہیں؟ ان کی نگرانی کا کیا نظام ہے اور خلاف ورزی کو چیک کرنے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کیا نظامِ کار بنایا گیا ہے؟ اگر نہیں بنایا گیا تو کیوں اور اگر ہے تو اس میں کیا خامیاں اور خلا ہیں؟

۶- جو کچھ ہو رہا ہے اس کا بڑا گہرا تعلق امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اس میں پاکستان کے پھنس جانے کا بڑا اہم کردار ہے۔ دوسروں کی جنگ نے کس طرح ہماری سرزمین کو جنگ کے میدان میں تبدیل کر دیا۔ جہاں سے کبھی کوئی خطرہ نہ تھا وہ اب خطرات کا جنگل بن گیا ہے۔ دوست دشمن بن گئے اور جن کو دوست سمجھا وہ دشمنوں سے بھی کچھ سوا نکلے۔ پورے علاقے کے امن کو کس چیز نے تہ و بالا کر دیا ہے اور کس طرح اس جنگ کی آگ کو ٹھنڈا کیا جائے اور جو اسباب، بگاڑ اور تصادم کے ذمہ دار ہیں، ان کو کس طرح دُور کیا جائے۔ ایبٹ آباد کا واقعہ اس پورے سلسلے کی ایک کڑی ہے اور ضرورت اس پورے مسئلے پر ازسرنو غور کرنے اور نئی پالیسی اور نئی حکمت عملی بنانے کی ہے۔


ایک اور بڑا اہم پہلو سول اور فوجی نظام کے تعلق کا ہے جس کا اس پورے معاملے سے بڑا گہرا اور قریبی تعلق ہے۔ عوام اور حکومت کی سوچ اور عزائم میں فرق، سول اور فوجی اداروں کے درمیان پالیسی اور دوسرے تمام متعلقہ امور کے بارے میں ہم آہنگی اور عوام کی توقعات اور سول اور فوجی قیادت کی کارکردگی میں فرق۔ عوام کی نظریاتی، سیاسی اور تہذیبی اُمنگیں اور عوام کے سیاسی، معاشی، معاشرتی، تہذیبی مسائل، نیز قومی وسائل کے منصفانہ اور حکیمانہ استعمال کا مسئلہ جس کے نتیجے میں عوام کو خوش حالی، امن اور انصاف میسر آسکے۔ معیشت کا قرضوں کے بوجھ تلے دب کر امریکا پر ایسا انحصار جو ملک کی آزادی اور سالمیت کو متاثر کر رہا ہے، ایک بڑا بنیادی ایشو بن گیا ہے۔ دفاع اور عوام کی ضروریات کی تسکین کے تقاضے کہاں ہم آہنگ ہیں اور کہاں متصادم ہیں۔ ان میں صحیح تناسب کس طرح قائم ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی، عسکری اور معاشی امور باہم مربوط ہیں اور حالات کے صحیح تجزیے اور مناسب پالیسیوں کی تشکیل کے لیے ان تمام امور پر غور ضروری ہے۔

ان تمام امور کے ساتھ ایک بڑا اہم مسئلہ ہمارے قومی موقف، ہمارے اہداف، حکمت عملی اور جائز مفادات کے صحیح صحیح ابلاغ (communication) سے متعلق ہے۔ ایک طرف پاکستان کو ساری دنیا میں ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے، ہماری صورت کو بگاڑ کر پیش کیا جا رہا ہے، ہمیں مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا ہے، اور دوسری طرف ہماری حکومت ہمارے سفارتی نمایندے اور ہمارا میڈیا اپنے اپنے چکروں میں پھنسے ہوئے ہیں اور پاکستان کے موقف کو دلیل اور قوت کے ساتھ پیش نہیں کیا جا رہا۔ بلاشبہہ صحیح پالیسی کی تشکیل اولین ضرورت ہے لیکن اپنی پالیسی اور اپنے نقطۂ نظر کو مؤثرانداز میں پیش کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ ہمیں افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ بہت سی وہ باتیں جو ہمیں اعتماد کے ساتھ پیش کرنی چاہییں، دوسرے اپنے الفاظ میں اور اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر پیش کر رہے ہیں اور ہمارا مقدمہ مناسب پیروی نہ ہونے کے باعث کمزوری کا شکار ہے اور ہم کوتاہی کی وجہ سے نقصان اُٹھا رہے ہیں۔ اس لیے ابلاغ بھی ایک اہم ضرورت ہے جس کے تقاضوں کو پورا کرنا وقت کی ضرورت ہے۔

ان امور کی روشنی میں اصل چیلنج یہ ہے کہ آیندہ کے لیے قومی پالیسیاںا ور دفاع اور ترقی کی ایسی حکمت عملی کا تعین کیا جائے جو ملک کو موجودہ دلدل سے نکالنے میں ممدومعاون ہو۔ ہم کوشش کریں گے کہ ان تمام امور پر آیندہ اشارات میں اپنی معروضات پیش کریں۔ وما توفیقی الا باللّٰہ۔


عزمِ نو

ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن  آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ الابلاغ ٹرسٹ کے زیراہتمام ماہنامہ ترجمان القرآن مارچ ۲۰۱۱ء تک جاری رہا۔ اب بوجوہ اسی ادارت اور انتظام کے تحت ایک نئے نام سے آغاز کیا جا رہا ہے۔ یہ رسالہ کسی تجارتی مقصد یا ذاتی غرض سے نہیں نکالا جارہا ہے بلکہ ایک فکری تحریک کا نقیب اور ایک دعوت اور تحریک کا داعی اور ایک نظریاتی، اخلاقی، انفرادی اور اجتماعی انقلاب کے لیے جرسِ کارواں کا کردار ادا کرنے والا رسالہ ہے۔ سیدمودودیؒ کے الفاظ میں: ہمارے پیش نظر صرف ایک مقصد ہے، اور وہ مسلمانوں کو قرآن کی طرف دعوت دینا ہے۔ رسالے کی اشاعت فی نفسہٖ مقصود نہیں بلکہ محض اس دعوت کی اشاعت کے لیے ہے۔ ہر داعی و مبلغ کی طرح ہماری بھی یہ دلی خواہش ہے کہ زیادہ سے زیادہ آدمیوں تک ہمارا پیغام پہنچے۔ ہمیں خریداروں کی ضرورت نہیں، پڑھنے والوں کی ضرورت ہے۔ اگر ایک رسالے کو ہزار ہزار آدمی بھی پڑھیں، تو ہمیں رنج نہ ہوگا بلکہ مسرت ہوگی۔ اگر ہمارے مضامین اخباروں اور رسالوں میں نقل کیے جائیں تو ہم اُن کا شکریہ ادا کریں گے کہ انھوں نے اس دعوت میں ہمارا ہاتھ بٹایا۔

عالمی ترجمان القرآن قرآنی افکارو تہذیب کا نقیب ہے۔ ہمارا تعلق اسی فکری اور نظریاتی تحریک سے ہے جس کا آفتاب حرا اور فاران کی چوٹیوں سے طلوع ہوا تھا اور جس کا مقصدِوحید قرآن و سنت کی روشنی میں اور اپنے دور کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر زندگی کے ہر شعبے کی تشکیلِ نو اور اسلامی نشاتِ ثانیہ ہے۔ اسلام کسی ایسے مذہب کا نام نہیں جو صرف انسان کی نجی اور انفرادی اصلاح کرتا ہو اور جس کا کُل سرمایۂ حیات کچھ عبادات، چند اذکار اور رسوم و رواج کے ایک مجموعے پر مشتمل ہو۔ اسلام تو ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو خالقِ کائنات اللہ رب العالمین کی ہدایت اور اس کے نبی صادق علیہ السلام کے نمونے کی روشنی میں زندگی کے تمام شعبوں کی صورت گری کرتا ہے اور حیاتِ انسانی کے ہر پہلو کو اللہ کے نور سے منور کرتا ہے، خواہ وہ پہلو انفرادی ہو یا اجتماعی، معاشرتی ہو یا تمدنی، مادی ہو یا روحانی، معاشی ہو یا سیاسی، ملکی زندگی سے متعلق ہو یا بین الاقوامی اور عالمی امور سے۔ اسلام کی اصل دعوت ہی یہ ہے کہ خدا کی زمین پر خدا کا قانون جاری و ساری ہو اور دل کی دنیا سے لے کر تہذیب و تمدن کے ہر گوشے تک خالق کائنات کی مرضی پوری ہو___ یہی وجہ ہے کہ مسلمان نام ہے اس نظریاتی انسان کا جو ایک طرف خود اپنی پوری زندگی کو خدا کی اطاعت کے لیے خالص کرلے اور دوسری طرف خدا کے دین کو اپنے گھر، اپنے معاشرے، اپنی معیشت، اپنی سیاست اور ریاست اور بالآخر تمام روے زمین پر غالب کرنے کی جدوجہد کو اپنی زندگی کا مشن بنا لے ، اس لیے کہ: اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ (اٰل عمرٰن۳:۱۹) ’’اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے‘‘۔ اس دین کا اپنے تمام پیروکاروں سے مطالبہ ہی یہ ہے کہ زندگی کو خانوں میں تقسیم نہ کریں اور پوری زندگی کو اپنے رب کی مرضی کے تابع کر دیں، تاکہ زندگی کی تمام وسعتوں کے لیے روشنی اور ہدایت صرف اس دین سے حاصل کی جائے، اور طاغوت کو زندگی کے کسی بھی گوشے میں اپنے پنجے گاڑنے کا موقع نہ ملے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً ص وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ط اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ o (البقرہ ۲:۲۰۸) اے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔

عالمی ترجمان القرآن اس دعوت کا داعی ہے اور آنے والے دنوں میں حالات کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسے نہ صرف پاکستان، بلکہ دنیا بھر میں اس پیغام کو ہرایک تک پہنچائے گا۔

آیئے! اس موقع پر عزمِ نو کے ساتھ ساتھ دل کی گہرائیوں سے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں: اے اللہ! تو ہمارا حامی و ناصر ہوجا، ہم صرف تیری رضا کے لیے، تیرے دین کی سربلندی کے لیے، تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو عام کرنے کے لیے، تیرے بندوں کو تیری بندگی کے راستے پر گامزن کرنے کے لیے اور انسانیت کو طاغوت کی مسلط کردہ تاریکیوں سے نکال کر تیری ہدایت کی روشنی کی طرف لانے کے لیے، تیری مدد، توفیق اور استعانت کے طالب ہیں۔

ہمارا سہارا تو اور صرف تو ہے اور تیرے سوا کوئی نہیں جو ہم جیسے کمزور انسانوں کو سہارا دے سکے، بلاشبہہ تو ہی  نعم المولٰی ونعم النصیر ہے___  وما توفیقی الا باللّٰہ!


الابلاغ ٹرسٹ کے پاس جن خریداروں کا زرتعاون جمع ہے ، ان کی خریداری میں ایک ماہ کا اضافہ کردیا جائے گا___ انتظامیہ الابلاغ ٹرسٹ