مئی ۲۰۱۱

فہرست مضامین

نفاذِ شریعت کا راستہ؟ مسلح یا دعوتی اور انتخابی

مولانا گوہر رحمان | مئی ۲۰۱۱ | فقہ و اجتہاد

Responsive image Responsive image

یہ ایک کھلی حقیقت ہے اور روزِ روشن کی طرح عیاں کہ برسوں گزر جانے کے باوجود ہمارے حکمران اور سیاسی لیڈر غیر شرعی قوانین اور غیراسلامی نظام کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں اور نفاذ شریعت کے بجاے انسداد شریعت کی پالیسی پر گامزن ہیں… ستم ظریفی تو یہ ہے کہ پاکستان کا آئین بنیادی طور پر اسلامی ہے، سیکولر نہیں ہے، مگر عملاً ملک کا نظام سیکولرزم کے اصولوں پر چلایا جارہا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی حکومت کو طاغوتی حکومت ہی کہا جاسکتا ہے، اسلامی حکومت تو نہیں کہا جاسکتا۔ اگرچہ اس نظام کو چلانے والوں نے اسلام سے کھل کر انکار نہیں کیا، اس لیے وہ قانونی  طور پر مسلمان ہیں لیکن زبانی طور پر اقرار کے باوجود ان کا طرزِ حکومت کافرانہ ہے۔ شرعی احکام کی رُو سے ایسی حکومت کی اہلیت ختم ہوجاتی ہے اور اس کو معزول کرکے اس کی جگہ شریعت کی وفادار حکومت قائم کرنے کے لیے شرعی طریقۂ کار کے مطابق جدوجہد کرنا فرض ہوجاتا ہے۔۱؎

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ شرعی طریقۂ کار کیا ہے جس کے مطابق یہ جدوجہد کرنی چاہیے۔ انتخابی طریق کار کے نتیجہ خیز ثابت نہ ہونے کی وجہ سے اب مخلص مسلمانوں میں مسلح جدوجہد کی فکر فروغ پارہی ہے۔ یہ سوچ آج کل دینی حلقوں میں زیربحث رہتی ہے۔ اس بارے میں میری سوچی سمجھی راے یہ ہے کہ بگڑے ہوئے مسلم معاشرے میں نفاذِ شریعت کے لیے مسلح جدوجہد اگر جائز بھی ہو لیکن عملاً مفید اور نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکتی۔ پھر وہ طریق کار کیا ہے جس کے مطابق جدوجہد کرنا مسلم معاشرے اور مسلمان قوم میں مفید بھی ہے اور ممکن العمل بھی؟

یہاں دو بنیادی باتوں کی توضیح کرنا ہے۔ وہ دو باتیں یہ ہیں:

۱- کیا نفاذِ شریعت کے لیے مسلم معاشرے میں خروج جائز ہے؟

۲- کیا موجودہ حالات میں غیرحکومتی تنظیم کا خروج نتیجہ خیز ثابت ہوسکتا ہے؟

جہاں تک پہلے مسئلے کا تعلق ہے تو جو حکمران کھلے کفر کا ارتکاب کرے اور ملک کا نظام غیرشرعی قوانین پر چلا رہا ہو تو اس کے خلاف خروج [بغاوت] بالاجماع جائز ہے، بشرطیکہ اس کی جگہ اسلامی حکومت قائم کی جاسکتی ہو۔ لیکن جو حکمران مومن ہو اور جس کی حکومت میں عملاً شریعت نافذ ہو، مگر وہ اپنی شخصی زندگی میں منکرات و محرمات سے مجتنب اور فرائض و واجبات کا پابند نہ ہو، یعنی فسق و فجور میں مبتلا ہو، تو جمہور اہلِ سنت کے نزدیک اسے ہٹانے کے لیے قتال جائز نہیں ہے، اور بعض اہلِ سنت کے نزدیک کچھ شرائط کے ساتھ جائز ہے۔

خروج کے بارے میں جمھور کا مسلک

فاسق حکمران کے بارے میں جمہور فقہا اور اکثر ائمہ اہلِ سنت کی راے یہ ہے کہ ان کے خلاف خروج اور مسلح جدوجہد جائز نہیں ہے، بلکہ ان کی اصلاح کے لیے وعظ و نصیحت، دعوت و ارشاد اور جہاد باللسان سے کام لیا جائے، یا پھر راے عامہ کے دبائو اور دوسرے پُرامن ذرائع سے اس کو معزول کرنے کی کوشش کی جائے۔ امام طحاویؒ نے عقیدۂ طحاویہ میں اور شمس الائمہ سرخسیؒ نے مبسوط میں اسی طرح لکھا ہے۔۱؎

جمہور کی دلیل یہ ہے کہ چونکہ احادیث رسولؐ میں امیر کی اطاعت فی المعروف کی بڑی تاکید کی گئی ہے، اس لیے اس کے خلاف تلوار نہ اُٹھائی جائے، کیونکہ اس کی وجہ سے مسلمانوں میں خانہ جنگی، خوں ریزی اور فساد برپا ہوجائے گا اور فتنہ و فساد کا دروازہ کھل جائے گا جسے دوبارہ بند کرنا آسان نہ ہوگا۔ اس صورت حال سے فائدہ اُٹھا کر کچھ لوگ غارت گری اور رہزنی کا بازار گرم کریں گے اور فاسق و ظالم حکمران کے مظالم و مفاسد سے زیادہ تباہ کن مفاسد رونما ہوجائیں گے۔ اگرچہ فاسق کی حکمرانی ایک برائی ہے جس کو مٹانا ضروری ہے لیکن ایک برائی کو ختم کرنے کے لیے مسلمانوں کو اس سے کئی گنا بڑی برائی میں مبتلا کرنا نہ حکمت و دانش کا تقاضا ہے اور نہ دین و شریعت کا تقاضا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ مسجد بنانے کے لیے پوری بستی کو مٹا دیا جائے۔

انھی مفاسد کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

خِیَارُ اَئِمَّتِکُمُ الَّذِیْنَ تُحِبُّوْنَھُمْ وَیُحِبُّوْنَکُمْ وَتُصَّلُّوْنَ عَلَیْھِمْ وَیُصَلُّوْنَ عَلَیْکُمْ وَشِرَارُ اَئِمَّتِکُمُ الَّذِیْنَ تُبْغِضُوْنَھُمْ وَیُبْغِضُوْنَـکُمْ وَتَلْعَنُوْنَھُمْ وَیَلْعَنُوْنَکُمْ فَقُلْنَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اَفَلَا نُنَابِذُھُمْ بِالسَّیْفِ عِنْدَ ذٰلِکَ قَالَ لَا مَا اَقَامُوْا فِیْکُمُ الصَّلٰوۃَ اَلَامَنْ وُلِّیَ عَلَیْہِ وَالٍ فَرَاٰہُ یَاْتِیْ شَیْئًا مِّنْ مَّعْصِیَۃِ اللّٰہِ فَلْیَـکْرَہْ مَا یَاْتِیْ مِنْ مَّعْصِیَۃِ اللّٰہِ وَلَا یَنْزَعَنَّ یَدًا مِنْ طَاعَۃٍ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب خیار الائمہ وشرارھم) تمھارے بہترین حکمران وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں اور جن کے لیے تم دعا کرو اور وہ تمھارے لیے دعا کریں، اور تمھارے بدترین حکمران وہ ہیں جن سے تم نفرت کرو اور وہ تم سے نفرت کریں اور تم ان پر لعنت بھیجو اور وہ تم پر لعنت بھیجیں۔ ہم نے پوچھا کہ یارسولؐ اللہ کیا ایسی حالت میں ہم تلوار کے ذریعے ان کا مقابلہ نہ کریں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، جب تک وہ تمھارے درمیان نماز قائم کرتے رہیں اس وقت تک تم ان کے خلاف تلوار نہیں اُٹھا سکتے۔ سنو! جس شخص پر کوئی حکمران حکومت کر رہا ہو اور وہ اس میں اللہ کی نافرمانی دیکھے تو اللہ کی اس معصیت کو تو بُرا سمجھے (اور اس میں اس کی اطاعت بھی نہ کرے) لیکن معروف میں اس کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچے‘‘، یعنی خروج اور مسلح بغاوت نہ کرو۔

نماز چونکہ مومن کی پہچان اور ایمان کی علامت ہے، اس لیے فرمایا کہ جب تک وہ نماز قائم کرتے رہیں تو تم ان کے خلاف تلوار نہ اٹھائو۔ دوسری حدیث میں آیا ہے کہ جب تک تم ان کے اندر ایسا کھلا کفر نہ دیکھو جس کے کفر ہونے پر تمھارے پاس قطعی دلیل موجود ہو، اس وقت تک تم ان سے جھگڑا نہ کرو۔(بخاری ، کتاب الفتن، مسلم، کتاب الامارۃ)

اُم سلمہؓ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایسا زمانہ آرہا ہے کہ اس وقت تم پر ایسے لوگ حکومت کریں گے جن کے کچھ کام تم کو اچھے نظر آئیں گے اور کچھ کام بُرے نظر آئیں گے۔ پس جس نے ان کے بُرے کاموں کو بُرا سمجھا وہ بچ گیا اور جس نے ان پر اعتراض کیا وہ بھی بچ گیا لیکن جس نے ان کو پسند کیا اور ان کی پیروی کی وہ تباہ ہوگیا۔ صحابہؓ نے پوچھا: کیا ہم ان سے لڑائی شروع نہ کریں؟ آپؐ نے فرمایا: نہیں، جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں۔ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب وجوب الانکار علی الامراء فیما یخالف الشرع وترک قتالھم ما صَلُّوْا)

امام نوویؒ نے مسلم کی شرح میں اس جگہ لکھا ہے کہ: فَفِیْہِ مَعْنَی مَا سَبَقَ اَنَّہٗ لَا یَجُوْزُ الْخُرُوْجُ عَلَی الْخُلَـفَـآئَ بِمُجَرَّدِ الظُّلْمِ اَوِ الْفِسْقِ مَا لَمْ یُغَیِّرُوْا شَیْئًا مِّنْ قَوَاعِدِ الْاِسْلَامِ (نووی شرح مسلم)۔ اس حدیث میں وہی مفہوم بیان ہوا ہے جس کا ذکر پہلے ہوچکا ہے کہ امرا کے خلاف محض ان کے ظلم اور فسق کی وجہ سے خروج جائز نہیں ہے جب تک کہ وہ اسلام کے اصول و قواعد میں کوئی تغیر اور تبدیلی نہ کریں۔ مذکورہ احادیث اور اس مفہوم کی دوسری احادیث کی بنا پر امام نوویؒ نے لکھا ہے: ’’امرا کے خلاف خروج وقتال بالاجماع حرام ہے اگرچہ وہ ظالم اور فاسق ہوں‘‘۔

اجماع کا دعویٰ تو صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ امام نوویؒ نے اس کے بعد خود ہی قاضی عیاضؒ کا قول نقل کیا ہے کہ یہ اہلِ سنت کے جمہور فقہا، متکلمین اور محدثین کا مسلک تو ہے مگر یہ اجماعی مسئلہ نہیں ہے۔(نووی شرح مسلم، کتاب الامارۃ، باب وجوب طاعۃ الامراء)

کافر حکومت کے خلاف خروج

مذکورہ احادیث میں یہ استثنا بھی موجود ہے کہ حکمران اگر کھلے کفر کا ارتکاب کریں اور نماز تک قائم نہ کریں تو ان کے خلاف خروج جائز ہے۔ انھی احادیث اور اس مفہوم کی دوسری نصوص کی بناپر امام نوویؒ نے قاضی عیاض کا قول نقل کیا ہے کہ:

اَجْمَعَ الْعُلَمَآئُ عَلٰی اَنَّ الْاِمَامَۃَ لاَ تَنْعَقِدُ لِکَافِرٍ وَعَلٰی اَنَّـہٗ لَوْطَرَئَ عَلَیْہِ الْکُفْرُ اِنْعَزَلَ وَکَذَا لَوْ تَرَکَ اِقَامَۃَ الصَّلَوَاتِ وَالدُّعَائِ اِلَیْھَا فَلَوْطَرَئَ عَلَیْہِ کُفْرٌ وَتَغَیَّرَ لِلشَّرْعِ خَرَجَ عَنْ حُکْمِ الْوِلَایَۃِ وَسَقَطَتْ طَاعَتُہٗ وَوَجَبَ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ الْقِیَامُ عَلَیْہِ وَخَلْعُہٗ وَنَصْبُ اِمَامٍ عَادِلٍ اِنْ اَمْکَنَھُمْ ذٰلِکَ (نووی شرح مسلم) علمانے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ کافر کی حکومت منعقد ہی نہیں ہوسکتی اور علما کا اس پر بھی اجماع ہے کہ اگر حکمران پر بعد میں کفر چھا گیا ہو تو وہ معزول ہوجاتا ہے۔ پس اگر اس پر کفر چھا گیا ہو اور وہ شریعت میں تغیروترمیم کررہا ہو تو شرعاً اس کی حکومت ختم ہوجائے گی اور اس کی اطاعت ساقط ہوجائے گی اور مسلمانوں پر واجب ہوجائے گا کہ اس کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں۔ اس کو حکومت سے الگ کر دیں اور اس کی جگہ عادل حکومت قائم کریں بشرطیکہ وہ اس کی طاقت رکھتے ہوں۔

کفر سے مراد صرف یہ نہیں ہے کہ کلمہ پڑھنا چھوڑ دے اور اسلام سے بالکل منکر ہوجائے، بلکہ یہ بھی کفر ہے کہ غیرشرعی قوانین پر فیصلے کیے جا رہے ہوں، شرعی احکام کا استخفاف کیا جارہا ہو اور حکومت کا پورا نظام عملاً سیکولرزم اور لادینیت کے اصولوں پر چلایا جا رہا ہو۔ ایسی حکومت کے خلاف خروج و قیام کے وجوب پر قاضی عیاض نے اجماع نقل کیا ہے، بشرطیکہ یہ قیام و خروج ممکن العمل ہو اور قیام کرنے والے اس کی قدرت اور مطلوبہ وسائل رکھتے ہوں اور مقصد عادل حکومت قائم کرنا ہو۔ صرف چہرے بدلنا مقصد نہ ہو کہ ایک شخص کی کافرانہ حکومت تبدیل کرکے دوسرے شخص کی کافرانہ حکومت قائم کی جائے۔ جس خروج کو جمہور نے حرام قرار دیا ہے، اور بعض اہلِ سنت نے جائز قرار دیا ہے، اس سے مراد اُس حکومت کے خلاف خروج ہے جس میں شریعت نافذ ہو مگر امیر اور حکمران اپنی شخصی زندگی میں فسق و فجور کا ارتکاب کر رہا ہو۔

خروج کے بارے میں امام ابوحنیفہؒ کا مسلک

اہلِ سنت والجماعت کے امام الائمہ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک ظالم اور فاسق حکمران کے خلاف خروج جائز ہے، بشرطیکہ یہ خروج ایک ایسے عادل امیر کی قیادت میں کیا جائے جس کے پاس اتنی افرادی اور مادی قوت موجود ہو جس کو استعمال کر کے وہ کوئی نتیجہ خیز اور مفید اسلامی انقلاب لاسکتا ہو۔ لیکن اگر خروج کا نتیجہ محض خوں ریزی اور جانوں کا ضیاع نظر آرہا ہو تو پھر ایسا اقدام نہ کیا جائے، بلکہ مناسب موقع کا انتظار کیا جائے اور اصلاح امیر کے دوسرے ذرائع اختیار کیے جائیں۔

امام ابوبکر رازی جصاصؒ (متوفی ۳۷۰ھ) نے امام ابوحنیفہؒ کے مسلک اور دلیل کا خلاصہ اس طرح پیش کیا ہے: لَا یَنَالُ عَھْدِیْ الظّٰلِمِیْنَ سے ثابت ہوتا ہے کہ فاسق کی امامت و امارت باطل ہے۔ کچھ لوگوں نے زرقان کے حوالے سے کہا ہے کہ ابوحنیفہ کے نزدیک فاسق کی امامت جائز ہے، البتہ وہ قاضی نہیں بن سکتا۔ مگر زرقان نے جھوٹ بولا ہے اور یہ اس قابل بھی نہیں ہے کہ اس کی روایت کو قبول کیا جائے۔ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک فاسق نہ خلیفہ بن سکتا ہے، نہ قاضی بن سکتا ہے، نہ اس کی روایت قبول کی جاسکتی ہے اور نہ اس کی گواہی قبول کی جاسکتی ہے۔ امام ابوحنیفہؒ کا قول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا زبان کے ذریعے فرض ہے، لیکن اگر زبانی نصیحت قبول نہ کی جائے تو پھر تلوار سے روکنا واجب ہے۔ ظاہر ہے کہ جس شخص کا مسلک امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بارے میں یہ ہو وہ کس طرح کہہ سکتا ہے کہ فاسق کی امامت جائز ہے، البتہ امام ابوحنیفہؒ اور فقہاے عراق کہتے ہیں کہ  فاسق کی اقتدا میں نماز جائز ہے اور اس کے مقرر کردہ قاضیوں کے شرعی فیصلے نافذ ہیں مگر یہ     اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ فاسق کی حکومت جائز ہے اور اس کے خلاف خروج ناجائز ہے‘‘۔ (احکام القرآن للجصاص، بیروت، ۱۹۸۵ء، ج۱، البقرہ ۱۲۴، ص ۸۶-۸۷)

امام حسینؓ کے پوتے زید بن علی بن حسین نے جب صفر ۱۲۲ھ میں اموی بادشاہ ہشام بن عبدالملک کے خلاف خروج کیا تو امام ابوحنیفہؒ نے ۱۰ ہزار روپے کی مالی اعانت کی اور اس کو جہاد قرار دیا اور فرمایا:

خُرُوْجُہٗ یُضَاھِیْ خُرُوْجُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہِ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ یَوْمَ بَدْرٍ (مناقب الامام للمکی، ج۱،ص ۲۶۰، اور مناقب الامام الکردری، ج ۱، ص۲۵۵) ان کا خروج بدر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خروج کے مشابہ ہے۔

۱۴۵ھ میں جب حسنؓ بن علی کے پوتوں محمد بن عبداللہ اور ابراہیم بن عبداللہ نے عباسی بادشاہ منصور کے خلاف خروج کیا تو امام ابوحنیفہؒ نے اس کو نفلی حج سے ۵۰ گنا زیادہ اجروثواب کا جہاد قرار دیا اور لوگوں کو اس جہاد میں شرکت کرنے اور ابراہیم کا ساتھ دینے کی ترغیب دلائی۔ (المکی، ج۲، ص ۸۱-۸۲، الکردری،ج۲، ص ۷۱-۷۲)

حسن بن قحطبہ منصور کے معتمد سپہ سالار تھے مگر امام ابوحنیفہؒ کے گرویدہ تھے۔ منصور نے جب اس کو ابراہیم بن عبداللہ کے مقابلے کے لیے بھیجنا چاہا تو اس نے امام ابوحنیفہؒ کے کہنے پر ابراہیم کا مقابلہ کرنے سے انکار کردیا۔

اس موقع پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ خروج و قتال امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک جہاد تھا تو انھوںنے خود زید بن علی اور ابراہیم بن عبداللہ.ؒ کے اس جہاد میں حصہ کیوں نہیں لیا تھا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حصہ لینا صرف لڑنے کا نام نہیں ہے۔ مالی مدد فراہم کرنا، حمایت میں تحریک چلانا اور لوگوں کو ترغیب دلانا بھی حصہ لینا ہے۔ عملاً جنگ میں حصہ نہ لینے کے لیے ان کے پاس کچھ عذر ہوںگے اور ان کی کچھ مجبوریاں ہوں گی۔

امام ابوحنیفہؒ کے دلائل

امام ابوحنیفہؒ کی ایک دلیل تو یہ ہے کہ قرآن و سنت کی نصوص سے ثابت ہوتا ہے کہ ظالم اور فاسق مسلمانوں کی امامت و امارت کا اہل نہیں ہے، اس لیے اس کو معزول کرنا مسلمانوں کا فرض ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: ’’قریش کے امرا کی اطاعت کرتے رہو جب تک وہ حق پر قائم رہیں لیکن اگر وہ حق پر قائم نہ رہیں تو پھر اپنی تلواریں کاندھوں پر رکھو اور ان کے سربرآوردہ لوگوں کو ہلاک کر دو‘‘۔

دوسری دلیل یہ ہے کہ فاسق و ظالم کی حکومت ایک برائی اور منکر ہے اور برائی کا مٹانا فرض ہے۔ اگر وعظ و نصیحت، دعوت و ارشاد اور دوسرے پُرامن ذرائع سے اس برائی کا ازالہ نہ ہوسکے تو جہاد بالید کے ذریعے یہ فرض انجام دیا جائے۔ نہی عن المنکر اور تغیر بالید سے متعلق تمام نصوص امام صاحب کے دلائل ہیں۔

تیسری دلیل یہ ہے کہ یزید کے خلاف امام حسینؓ نے خروج کیا تھا۔ اس کے بعد عبداللہ بن مطیع قرشی اور عبداللہ بن حنظلہ کی قیادت میں اہلِ مدینہ نے یزید کے خلاف خروج کیا تھا۔ پھر عبداللہ بن زبیرؓ نے یزید کے خلاف خروج کرکے مکہ مکرمہ میں اپنی خلافت قائم کی تھی، اور حجاج بن یوسف کے خلاف بھی مسلمانوں نے ممتاز فقہا کی قیادت میں خروج کیا تھا، ان سب مواقع پر   جن صحابہ و تابعین نے خروج سے روکنے کی کوشش کی تھی اور ساتھ نہیں دیا تھا، ان کی راے یہ تھی کہ حالات اور وسائل سازگار نہیں ہیں۔ عوام ساتھ نہیں دیں گے۔ ان کا تجزیہ یہ تھا کہ فاسق کی قیادت سے آزادی حاصل کرنا اور عادل کی حکومت قائم کرنا اگرچہ دینی فریضہ ہے لیکن اس کے لیے جس قسم کی قوت و استطاعت ضروری ہے وہ فی الحال حاصل نہیں ہے۔ اس لیے یہ خروج نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوگا اور اس کا نتیجہ اموال و انفس کے ضیاع کے علاوہ اور کچھ نہیں نکلے گا۔ لہٰذا دوسرے پُرامن ذرائع سے اصلاح امیر کی کوشش کرنی چاہیے اور قتال نہیں کرنا چاہیے۔ دوسری طرف خروج کرنے والوں کی راے یہ تھی کہ حالات سازگار ہیں اور بقدر ضرورت قوت و جماعت موجود ہے، اس لیے اقدام کرلینا چاہیے۔ دونوں طرف کے صحابہ و تابعین کے درمیان حالات کے تجزیے کا اختلاف تھا ورنہ فاسق کو ہٹانے اور عادل کو لانے کی اہمیت و ضرورت پر سب متفق تھے۔

باغی کون ھوتا ھے؟

سورئہ حجرات میں اللہ نے جو یہ حکم دیا ہے کہ باغیوں کے خلاف لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئیں (الحجرات ۴۹:۹)، اسی طرح متعدد احادیث میں امیر کی اطاعت سے ہاتھ کھینچنے اور اس کے خلاف خروج کرنے سے جو ممانعت آئی ہے اور اسے جاہلیت قرار دیا گیا ہے، تو امام ابوحنیفہؒ اور جمہور فقہا کے نزدیک یہ ممانعت اور مذمت ان باغیوں اور خارجیوں کے بارے میں ہے جو عادل اور صالح امیر سے بغاوت کرتے ہوں اور اس کی عادلانہ حکومت کا تختہ اُلٹ کر اپنی فاسقانہ حکومت قائم کرنا چاہتے ہوں۔ اور جو لوگ ایک عادل امیر کی قیادت میں فاسقانہ اور ظالمانہ حکومت کا تختہ اُلٹنے اور اس کی جگہ عادل حکومت قائم کرنے کے لیے قیام و اقدام کرتے ہوں وہ باغی اور خارجی نہیں ہوتے بلکہ مجاہد ہوتے ہیں۔ ابن الہامؒ، ابن نجیمؓ اور ابن عابدینؒ تینوں نے لکھا ہے: ھُمُ الْخَارِجُوْنَ عَنِ الْاِمَامِ الْحَقِّ بِغَیْرِ الْحَقِّ (فتح القدیر، باب البغات، البحر الرائق باب البغات، رد المختار، باب البغات) ’’باغی وہ ہوتے ہیں جو حکومت بالحق کے خلاف بغیر الحق بغاوت کرتے ہیں‘‘۔

مالکیہ کے ممتاز فقیہ قاضی ابن عربی نے امام مالکؒ کی راے اس طرح نقل کی ہے: ’’سحنون کی روایت کے مطابق ہمارے امام نے کہا ہے کہ جنگ صرف عادل امام کی قیادت میں کی جاسکتی ہے خواہ پہلا امام عادل ہو یا وہ جس نے خروج کیا ہو، اور اگر دونوں عادل نہ ہوں تو دونوں سے الگ رہو۔ ہم اسی عادل و صالح شخص کی قیادت میں جنگ کریں گے جسے اہلِ حق    نے امامت کے لیے آگے بڑھایا ہو‘‘۔ (احکام القرآن لابن العربی، بیروت، ۱۹۸۸ء، ج۴،  الحجرات۴۹:۹، ص ۱۵۳)

حنابلہ کا اصل مسلک تو یہ ہے کہ عادل اور فاسق دونوں کے خلاف خروج جائز نہیں ہے لیکن شیخ الاسلام علائوالدین مرداوی حنبلی نے لکھا ہے: وَجَوَّزَ اِبْنُ عَقِیْلٍ وَابْنُ الْجَوْزِی الْخُرُوْجَ عَلٰی اِمَاٍم غَیْرِ عَادِلٍ وَذَکَرَا خُرُوْجُ الْحُسَیْن عَلَی یَزِیْدٍ لِاَقَامَۃِ الْحَقِّ (الانصاف للمرداوی، بیروت، ۱۹۵۷ء، ج ۱۰، ص ۳۱۱، باب البغات) ’’ابن عقیلؒ اور ابن جوزیؒ (دونوں حنبلی ہیں) نے غیرعادل امام کے خلاف خروج کو جائز قرار دیا ہے اور دلیل کے طور پر انھوں نے یزید کے خلاف امام حسینؓ کے خروج کو پیش کیا ہے جس کا مقصد حق کو قائم کرنا تھا‘‘۔

اصل میں بغاوت اللہ کے احکام سے تجاوز کرنے اور اس کی نافرمانی کو کہتے ہیں۔ اس لیے کہ حاکمِ حقیقی تو وہی ہے باقی تو سب بندے اور غلام ہیں، لہٰذا جو بھی فسق و فجور اور سرکشی میں مبتلا ہو، وہی باغی ہے، خواہ پہلا امام ہو یا وہ امام ہو جس نے اس کے خلاف خروج کیا ہو۔

امام ابوحنیفہؒ اور مشائخ حنفیہ کی آرا کے درمیان مطابقت

مذکورہ بحث سے معلوم ہوا کہ امام ابوحنیفہؒ کی راے بلادلیل بھی نہیں ہے اور وہ اس راے کو اختیار کرنے میں اکیلے بھی نہیں ہیں بلکہ یہ اور بھی بہت سے اکابر فقہا کی راے ہے۔ لیکن دوسری صدی ہجری کے اختتام تک اہلِ سنت کی غالب ترین اکثریت کی راے یہ بن گئی کہ امام کے خلاف خروج اور بغاوت جائز نہیں ہے۔ یہاں تک کہ مشائخ حنفیہ کی بھی یہی راے بن گئی اور عملاً حنفی مسلک بھی یہی قرار پایا کہ فاسق و ظالم حکمران کی اصلاح کرنے اور اگر اصلاح پذیر نہ ہو تو پُرامن ذرائع سے اسے معزول کرنے کی کوشش کرنا تو ضروری ہے لیکن مسلح بغاوت جائز نہیں ہے جیساکہ طحاویؒ اور سرخسیؒ کے حوالے پہلے دیے جاچکے ہیں۔ مولانا مودودیؒ نے مسلک ابوحنیفہ اور مشائخ حنفیہ کی راے کے درمیان موافقت اس طرح بیان کی ہے کہ عدم جواز کی راے کی مقبولیت دراصل نصوص قطعیہ پر مبنی نہیں ہے، بلکہ ان تلخ تجربات کا اس میں بہت بڑا دخل ہے جو خروج کے واقعات کے سلسلے میں مسلسل ہوتے رہے تھے۔ اس بنا پر مصالح شرعیہ کا تقاضا وہی کچھ سمجھا گیا جو فقہاے کرام نے بیان کیا ہے۔ (تفہیمات، ج۳،ص ۳۱۹)

یہاں پر کوئی سوال اُٹھا سکتا ہے کہ عدم جواز کی راے تو مصلحت پر مبنی نہیں ہے بلکہ ان آیات و احادیث پر مبنی ہے جن میں اطاعت امیر کی تاکید کی گئی ہے اور اس کے خلاف تلوار اُٹھانے سے ممانعت کی گئی ہے۔ لیکن اس کا جواب انھی احادیث میں موجود ہے کہ امیر کی اطاعت اسی وقت تک کی جاسکتی ہے جب تک کہ وہ دین کو قائم کرتا ہو اور مسلمانوں کی قیادت اللہ کی کتاب کے مطابق کر رہا ہو۔ (بخاری، مسلم)

خروج کی بحث کا خلاصہ

اب تک جو بحث کی گئی ہے اس کا تعلق خروج کے جواز اور عدمِ جواز سے ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس پوری بحث کا خلاصہ چند سطور میں دہرا دیا جائے تاکہ اگلی بحث کو سمجھنے میں آسانی ہو۔

ا- کفر بواح کی مرتکب اور سیکولرزم کے اصول پر چلنے والی حکومت کے خلاف خروج بالاجماع جائز ہے، اگرچہ اس کا سربراہ قانونی طور پر مسلمان ہو بشرطیکہ اس کی جگہ اسلامی حکومت قائم کرنا مقصود ہو۔

ب- جو حکومت شریعت کی بالادستی تسلیم کرتی ہو اور عملاً اس میں شریعت نافذ ہو، مگر حکمران فاسق و فاجر اور ظالم ہو تو جمہور اہلِ سنت کے نزدیک اس کی اصلاح کی کوشش کرنا تو ضروری ہے اور پُرامن طریقے پر اس کو معزول کرنے کی جدوجہد بھی ضروری ہے، لیکن اس کا تختہ اُلٹنے کے لیے خروج و قتال حرام ہے۔ مگر امام ابوحنیفہؒ اور بعض دوسرے ائمہ اہلِ سنت کے نزدیک فاسق اور ظالم حکمران کے خلاف خروج و قتال جہاد ہے بشرطیکہ کامیاب اسلامی انقلاب لایا جاسکتا ہو اور عادل حکومت قائم کی جاسکتی ہو لیکن مشائخ حنفیہ نے بعد میں عدم جواز کا فتویٰ دیا ہے۔ اس لیے کہ تجربوں سے ثابت ہوگیا تھا کہ یہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکتا اور انفس و اموال کے ضیاع کے علاوہ اس سے کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔

ج- ہرقسم کے خروج کے لیے شرط یہ ہے کہ ایک ایسے عادل و صالح امیر کی امارت و قیادت میں خروج کیا جائے جس کی پشت پر معتدبہ اور مناسب حال افرادی اور مادی قوت موجود ہو۔ انفرادی طور پر یا غیر منظم اور غیرمربوط گروپوں کی شکل میں قیام و قتال جائز نہیں ہے۔

موجودہ حالات میں خروج کا قابلِ عمل ھونا؟

خروج کے جائز ہونے یا جائز نہ ہونے سے قطع نظر دورِحاضر کی حکومتوں کے وسائل و ذرائع کے تناظر میں سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا آج کے دور میں کسی غیرحکومتی تنظیم کا خروج نتیجہ خیز ثابت ہوسکتا ہے؟

اس سوال کا جب ہم ٹھنڈے دل و دماغ اور ہوش مندی و دانش مندی کے ساتھ حقیقت پسندانہ جائزہ لیتے ہیں تو صاف طور پر نظر آجاتا ہے کہ مسلم معاشرے میں کسی قانونی مسلمان کی مسلم حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد قابلِ عمل اور نتیجہ خیز نہیں ہے بلکہ قریب قریب ناممکن نظر آرہی ہے۔ بنواُمیہ اور بنوعباس کے دور میں جو مسلح جدوجہد کی گئی تھی اس میں اور موجودہ دور میں بہت بڑا فرق ہے۔اس دور میں حکومتوں کے پاس منظم ہمہ وقتی فوجیں بہت کم ہوتی تھیں، جب کہ موجودہ دور میں حکومتوں کے پاس لاکھوں کی تعداد میں منظم، جدید ترین اسلحے سے مسلح اور جدید ترین جنگی مہارت و تربیت رکھنے والی فوج ہروقت تیار اور مستعد رہتی ہے۔ اُس دور میں جو اسلحہ حکومت کے پاس ہوتا تھا، تقریباً اسی نوع کا اسلحہ عوام کے پاس بھی ہوتا تھا لیکن آج کل حکومتوں کے پاس ایسے جدید ترین سائنٹیفک ہتھیار ہوتے ہیں جن کے حصول کا کوئی غیرحکومتی تنظیم تصور بھی نہیں کرسکتی۔ جنگ کے دوران مربوط نظام کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے اور آج کل حکومتوں کے پاس مواصلات و مخابرات کا وہ جدید ترین نظام ہروقت موجود رہتا ہے جو غیر حکومتی تنظیم کے لیے ممکن ہی نہیں ہے۔ عوام کی اکثریت کی تائید کے بغیر اگر کوئی غیرحکومتی تنظیم اور غیرمقتدر جماعت اپنے محدود کارکنوں اور رضاکاروںکے ذریعے منظم حکومت کی فورسز کے خلاف مسلح تصادم کا راستہ اختیار کرتی ہے، تو اس کا یہ اقدام فائدے کے بجاے اُلٹا اسلام کی دعوت کو نقصان پہنچانے کا ذریعہ ثابت ہوگا، اور جہاں پر یہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے وہاں پر نقصانات آنکھوں سے دکھائی دے رہے ہیں۔

۱۶ ذی الحجہ ۱۳۸۲ھ کو مکہ معظمہ کی مسجد دہلوی میں اسلامی تحریک کے کارکنوں اور عرب ممالک کے نوجوانوں کو خطاب کرتے ہوئے مولانا مودودیؒ نے فرمایا تھا: ’’اسلامی تحریک کے کارکنوں کو میری آخری نصیحت یہ ہے کہ انھیں خفیہ تحریکیں چلانے اور اسلحے کے ذریعے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ کرنی چاہیے۔ یہ بے صبری اور جلدبازی کی ایک صورت ہے اور نتائج کے اعتبار سے دوسری صورتوں کی بہ نسبت زیادہ خراب ہے‘‘۔(تفہیمات، ج۳،ص ۳۶۲)

مولانا مودودیؒ نے خروج کے مسئلے میں امام ابوحنیفہؒ کے مسلک کی تائید کی ہے، لیکن باوجود اس کے انھوں نے مسلم معاشرے میں مسلح جدوجہد سے نہ صرف یہ کہ پاکستان میں اجتناب کیا ہے بلکہ عالمِ اسلام کی اسلامی تحریکوں کو بھی اسلحے کے ذریعے اسلامی انقلاب لانے کی جدوجہد سے باز رہنے کا ہر موقعے پر مشورہ دیا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ موجودہ حالات میں منظم حکومتوں کے خلاف غیرحکومتی تنظیم کی مسلح جدوجہد نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکتی۔

جھاد افغانستان اور ایرانی انقلاب کی کامیابی

افغانستان کے جہاد کامیابی کی وجہ یہ ہے کہ روسی فوجوں نے جب اپنے کمیونسٹ ایجنٹوں کے ذریعے کابل پر قبضہ کرلیا اور مجاہدین نے اپنے ملک کو آزاد کرانے کے لیے جہاد شروع کر دیا تو پورے ملک کے عوام مجاہدین کی پشت پر کھڑے ہوگئے۔ عالمِ اسلام بھی جہاد افغانستان کی حمایت اور تائید میں متحد ہوگیا اور پاکستان کی حکومت اور عوام نے تو اس جنگ کو اپنی جنگ سمجھ لیا۔ اس کے علاوہ کمیونزم کے نظریاتی دشمنوں نے بھی اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے وسائل فراہم کیے۔     یہ سارے عوامل جب جمع ہوگئے تو کامیابی نصیب ہوئی اور مجاہدین کی عظیم قربانیوں کا یہ نتیجہ تو دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ روسی فوجیں نہ صرف یہ کہ پسپا ہوگئیں بلکہ بڑی ذلت و رسوائی کے ساتھ افغانستان سے نکلنے پر مجبور ہوگئیں اور سوویت یونین کا وجود ہی صفحۂ ہستی سے مٹ گیا۔ البتہ مجاہدین افغانستان کے نظمِ جہاد میں ایک خامی رہ گئی تھی جس کا خمیازہ وہ آج تک بھگت رہے ہیں۔ وہ خامی یہ تھی کہ وہ ایک امیر کی امارت میں نہیں لڑتے تھے اور ان کا ’واحد نظامِ امر‘ نہیں تھا بلکہ مختلف جہادی تنظیمیں اپنے اپنے تنظیمی امیر کی امارت میں لڑ رہی تھیں اور جو تنظیم جو علاقہ آزاد کرا لیتی وہاں پر اپنے امیر یا اپنے کمانڈر کی حکومت قائم کرلیتی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کمیونسٹ فوجوں کی پسپائی اور ڈاکٹر نجیب اللہ کے سقوط کے بعد مجاہدین کا نہ کوئی واحد مربوط نظام تھا جو اس خلا کو پُر کرتا اور نہ کوئی واحد امیر تھا جو کابل میں اپنی حکومت قائم کرتا۔ اس کے نتیجے میں جہادی تنظیموں اور ان کے امرا کے درمیان مسابقت و منافست پیدا ہوئی۔ کمیونسٹوں نے اور اسلام دشمن قوتوں نے سازشیں شروع کیں اور اقتدار کی جنگ شروع ہوگئی جو آج تک جاری ہے اور ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔

حقیقت یہ ہے کہ اچھے سے اچھا کام اور بڑی سے بڑی عبادت بھی اگر اس کے مقرر کردہ آداب و احکام کے مطابق ادا نہ کی جائے تو وہ بے اثر اور بے ثمر ہوجاتی ہے۔ جس طرح نماز کے کچھ آداب اور شرائط ہیں، اور ان کو ملحوظ رکھے بغیر اور نماز کی شرائط پوری کیے بغیر نماز بے اثر ہوجاتی ہے، اسی طرح جہاد کے بھی کچھ آداب و شرائط ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ جہاد کا واحد امیر اور واحد شورائی نظام ہو جس کی نگرانی میں جہاد کا عمل جاری رکھا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اِنَّمَا الْاِمَامُ جُنَّـۃٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِہٖ، یعنی امام اور امیر سَپَر اور ڈھال کی طرح ہے جس کے پیچھے لڑائی لڑی جاتی ہے۔ افغان مجاہدین کی متعدد تنظیمیں اور متعدد امرا تھے جن کا کوئی مربوط شورائی نظام بھی نہیں تھا جس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے۔ باقی رہا ایرانی انقلاب تو وہ بھی فوج کے ساتھ لڑائی کے نتیجے میں نہیں آیا بلکہ عوامی تائید کے نتیجے میں آیا ہے۔ ایران کی پوری شیعہ قوم خمینی کی قیادت میں متحد ہوگئی۔ اس عوامی دبائو کے مقابلے میں ایرانی شہنشاہیت بے بس ہوگئی۔

نفاذِ شریعت اور اسلامی انقلاب کا طریقہ

اب میں آخری نکتے کی طرف آتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ بگڑے ہوئے مسلم معاشرے میں نفاذِ شریعت اور اسلامی انقلاب کا قابلِ عمل طریقۂ کار کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پوری شریعت کا نفاذ اور مکمل اسلامی نظام کا قیام اسلامی حکومت کے قیام کے بغیر ممکن نہیں ہے، اور اسلامی حکومت عوام کی طلب و تائید کے بغیر قائم نہیں ہوسکتی اور اگر ان کی تائید کے بغیر کسی نہ کسی طرح قائم ہو بھی جائے تو وہ چل نہیں سکے گی، اور جس مصنوعی راستے سے آئی تھی اسی راستے سے واپس چلی جائے گی۔

اس لیے کرنے کا کام یہ ہے کہ ’نسلی‘ مسلمانوں کو ’اصلی‘ مسلمان بنانے اور ’رسمی‘ مسلمانوں کو ’شعوری‘ مسلمان بنانے کی تحریک چلائی جائے، اور ان کے اندر دین کا فہم، دین کی محبت، دین پر عمل کرنے کا جذبۂ صادقہ اور نفاذِ شریعت کے لیے جدوجہد کا عزم پیدا کیا جائے۔ جب مسلمانوں کی اکثریت یا ان کی معتدبہ تعداد میں شریعت کا صحیح تصور، اس پر غیرمتزلزل ایمان، اس پر عمل کرنے کا شوق، اس کے نفاذ کے لیے تڑپ، لگن اور پیاس پیدا ہوجائے گی، اور وہ یہ عزم کریں گے کہ ہم غیراسلامی نظام اور غیرشرعی قوانین کو چلنے نہیں دیں گے، تو ایسی صورت حال میں یا تو حکمران شریعت نافذ کردیں گے اور یا اسلامی حکومت کے لیے جگہ خالی کردیں گے۔ لیکن جب تک یہ صورت حال پیدا نہیں ہوتی تو ان ’رسمی‘ اور ’نسلی‘ مسلمانوں کی اکثریت، بلکہ غالب اکثریت سیکولرزم کے علَم برداروں اور کرپٹ لیڈروں کی حمایت پر کمربستہ رہے گی۔ ’نسلی‘ مسلمانوں کو ’شعوری‘ مسلمان بنانے کا طریقہ سواے دعوت و تربیت اور تعلیم و تبلیغ کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اسی طریقے سے ’شعوری اسلامی انقلاب‘ آسکتا ہے۔

اس طریقے کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں:

کھلے بندوں عام دعوت پھیلایئے۔ بڑے پیمانے پر اذہان اور افکار کی اصلاح کیجیے۔ لوگوں کے خیالات بدلیے، اخلاق بدلیے، اخلاق کے ہتھیاروں سے دلوں کو مسخر کیجیے اور اس کوشش میں جو خطرات اور مصائب بھی پیش آئیں ان کا مردانہ وار مقابلہ کیجیے۔ اس طرح بتدریج جو انقلاب برپا ہوگا وہ ایسا پایدار اور مستحکم ہوگا جسے مخالف طاقتوں کے ہوائی طوفان محو نہ کرسکیں گے۔ جلدبازی سے کام لے کر مصنوعی طریقوں سے اگر کوئی انقلاب برپا ہو بھی جائے تو جس راستے سے وہ آئے گا اسی راستے سے وہ مٹایا بھی جاسکے گا۔(تفہیمات، ج۳،ص ۳۶۲)

۱۹۷۴ء میں مولانا مودودیؒ نے راولپنڈی کی شریعت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’اب جب آپ یہ سوچنے کے لیے بیٹھیں گے کہ ہم یہاں نفاذ شریعت کیسے کریں؟ تو آپ کو ایک طرف لوگوں کے دلوں میں ایمان اُتارنا پڑے گا۔ تمام شکوک و شبہات کے کانٹے جو ان کے اندر چبھے ہوئے ہیں، نکالنے پڑیںگے۔ ان کو مطمئن کرنا پڑے گا، پڑھے لکھوں کو بھی اور عوام کو بھی۔ اس کے بعد ان کے اخلاق کی طرف توجہ کرنی پڑے گی۔ اس سارے کام کے دوران ہرقسم کی مصیبتوں، تکلیفوں اور نقصانات کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا پڑے گا۔ اسی طرح آپ کو عوام کی راے اس طرح بدلنی پڑے گی کہ وہ سوچ ہی نہ سکیں کہ ہم کسی ایسے شخص کو بھی ووٹ دے سکتے ہیں جس کی اپنی زندگی میں اسلامی نظام کی کوئی جھلک دکھائی نہ دیتی ہو، جس کا عمل اسلامی نہ ہو اور جو اسلام کو جانتا ہی نہ ہو۔

اگر اس حالت میں منصفانہ انتخابات ہوں تو بہت اچھا، ہم نہیں چاہتے کہ ٹیڑھی انگلیوں سے گھی نکالا جائے۔ اگر قوم کے اندر یہ عزم پیدا ہوجائے کہ ہمیں یہ نظام یہاں نافذ کرنا ہے تو پھر کوئی دھن، دھونس، دھاندلی، اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔ لیکن یہ بات یاد رکھیے کہ آپ کو جان مار کر ایک مدت دراز تک کام کرنا ہوگا۔ یہاں تک کہ وہ مرحلہ آجائے جس میں لوگ ازخود ہٹ جاتے ہیں کہ اب ہمارا چراغ اس قوم میں جل نہیں سکتا۔ اگر نہ ہٹیں تو ان کو ہٹانا کوئی مشکل کام نہیں رہ جاتا بشرطیکہ قوم کے اندر پورا عزم پایا جائے۔ لیکن اگر قوم اپنے آپ کو فساق و فجار کے لیے تیار کرے اور چاہے کہ فساق و فجار ہی ان کے معاملات چلانے والے ہوں تو اللہ تعالیٰ زبردستی ان کو صالح اور متقی نہیں دیں گے۔

اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ کیا پاکستان میں نفاذِ شریعت کا امکان ہے؟ اس سوال کے دو جواب ہیں: ایک یہ کہ اگر انسان سوچ سمجھ کر عقل مندی کے ساتھ پیہم اور مسلسل سعی اور محنت کرے تو بڑے بڑے پہاڑوں کے اندر سرنگ پیدا کرسکتا ہے۔ اور دوسرا جواب یہ ہے کہ مومن کا کام تو یہ ہے کہ اگر شریعت نافذ ہونے کا ایک فی صد امکان بھی نہ ہو بلکہ ایک فی ہزار امکان بھی نہ ہو، تب بھی وہ اس کے لیے جان لڑائے۔ اس راستے میں کوشش کرتے ہوئے جان دے دینا کامیابی ہے اور کسی غلط راستے پر جاکر وزیراعظم یا صدر مملکت بن جانا بھی کھلی ناکامی ہے‘‘۔(تفہیمات، ج۵، ص۱۷-۱۸)

انبیاے کرام علیہم السلام اور اُمت مسلمہ کے دعاۃ الاسلام کا یہی طریقہ رہا ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۱۳ سال تک مکہ مکرمہ میں دعوت و تعلیم کا کام بھی جاری رکھا اور تعلیم و تربیت بھی دیتے رہے۔ اس دعوت کے اثرات مدینہ تک پہنچے اور انھی اثرات کے نتیجے میں مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست قائم ہوئی۔ بعد میں اس ریاست کے استحکام اور توسیع کے لیے جہاد بالسیف اور قتال کا حکم نازل ہوا اور یہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا جس کی اسلام میں بہت زیادہ اہمیت اور تاکید ہے لیکن ابتدا میں اسلامی حکومت دعوت کے ذریعے قائم ہوئی تھی۔ اِس وقت بھی بگڑی ہوئی اُمت کی اصلاح کا طریقہ وہی ہوسکتا ہے جس کے ذریعے ابتدا میں اصلاح ہوئی تھی۔ اصلاحِ حکومت اور اصلاحِ معاشرہ دونوں محاذوں پر حکمت و دانش مندی اور اعتدال و توازن کے ساتھ پیہم جدوجہد اور سعی و محنت کی ضرورت ہے اور یہی دعاۃ الاسلام اور مصلحین کا طریقہ رہا ہے۔

انتخابات میں حصہ لینے کا مقصد

یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب معاشرہ بگڑا ہوا بھی ہے اور استحصالی طبقے کی زنجیروں میں جکڑا ہوا بھی ہے، عوام کی اکثریت نے اپنی لاعلمی، اخلاقی گراوٹ، مفاد پرستی، دینی شعور کی کمی اور دوسرے بہت سے عوامل کی وجہ سے موجودہ لادین سیاست اور استحصالی نظام کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ اور مفاہمت کرلی ہے، اور جب تک عوام کی اکثریت یا کم از کم معتدبہ تعداد کی اصلاح نہیں ہوتی، اس وقت تک انتخابات میں دینی جماعتوں کو ناکامی ہی کا سامنا کرنا پڑے گا، تو آخر دینی جماعتیں ان انتخابات میں حصہ لیتی ہی کیوں ہیں؟ اور چند افراد کا نااہل ارکان پر مشتمل اسمبلیوں میں بٹھانے کا فائدہ کیا ہے؟

اس سوال کا جو جواب مولانا مودودیؒ نے ۱۹۵۷ء میں جماعت اسلامی کے اجتماعِ ارکان میں دیا تھا وہ کافی و شافی اور تسلی بخش ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے: ’’یہ ایک غلط مفروضہ ہے کہ ہم اصلاحِ معاشرہ کا کام چھوڑ کر صرف انتخابات کے ذریعے قیادت کی تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ہمارے لائحہ عمل کے چار میں سے تین اجزا اصلاحِ معاشرہ ہی کا دائمی پروگرام ہے جس پر ہمیں سال کے ۳۶۵دن کام کرنا ہے، خواہ انتخابات ہوں یا نہ ہوں… پھر ووٹر کو صحیح انتخاب کے لیے تیار کرنا، اسے اسلامی نظام کے لیے تیار کرنا، اس کے اندر اسلامی نظام کی طلب پیدا کرنا، اس کو صالح اور غیرصالح کی تمیز دینا، اس کو یہ احساس دلانا کہ ملک کی بھلائی اور برائی کا ذمہ دار وہ خود ہے۔ اس میں اتنی اخلاقی طاقت اور سمجھ بوجھ پیدا کرنا کہ وہ دھن دھونس، دھوکے، دھاندلی کا مقابلہ کرسکے اور اپنا ووٹ صحیح طور پر استعمال کرے___ یہ سارے کام کیا اصلاحِ معاشرہ کے کام نہیں ہیں؟ اگر ہیں تو یہی کام ہم انتخابات میں حصہ لے کر کرتے ہیں…

انتخابات سے الگ رہ کر آپ عقائد، اخلاق اور معاملات کی اصلاح کا کام تو کرسکتے ہیں لیکن صالح قیادت کو اُوپر لانے کے لیے ووٹروں کی سیاسی تربیت انتخابات میں بالواسطہ یا بلاواسطہ حصہ لیے بغیر نہیں ہوسکتی۔ ووٹروں کو فاسد اور نااہل امیدواروں کے حوالے کرکے اور ان کے لیے میدان خالی چھوڑ کر آخر انتخابی عمل کی اصلاح کیسے ہوگی؟ جب نااہل کے مقابلے میں اہل اور فاسد کے مقابلے میں صالح موجود نہیں ہوگا تو ووٹر کے درمیان صالح اور غیرصالح کے درمیان تمیز کیسے پیدا ہوگی؟

رہی یہ بات کہ چند نشستیں حاصل کرنے کا فائدہ کیا ہوگا؟ تو میں عرض کروں گا کہ اس سے بہت کچھ حاصل ہوگا۔ اب تک آپ صرف پبلک میں آواز اٹھاتے رہے ہیں، ایوانِ حکومت میں آپ کی کوئی آواز نہیں ہے۔ وہاں پہنچ کر آپ کی آواز دونوں جگہ بلند ہوگی۔ آپ کے چند لوگ بھی جب اربابِ اقتدار کے سامنے کلمۂ حق کہیں گے، غلط چیزوں پر صاف صاف تنقید کریںگے،  دلیل کے ساتھ صحیح بات پیش کریں گے، تو یہ آواز بڑے انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوگی‘‘۔ (تحریکِ اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل، ص ۱۳۶، ۱۳۸، ۱۳۹، ۱۴۹-۱۵۰)

مولانا مرحوم کا مقصد یہ ہے کہ اگر ہم دعوت اور اصلاحی کام چھوڑ کر صرف ’سیاسی‘ اور  ’انتخابی پارٹی‘ بن کر رہ جائیں تو پھر معترضین کا اعتراض درست ہے لیکن یہ تو ایک غلط مفروضہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم انتخابات کے موقع پر انتخابی مہم کے دوران اسلام کی سیاسی اور انتخابی دعوت ہی کا کام کرتے ہیں اور دین کی آواز کو قومی اداروں کے ایوان تک پہنچانے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جو دعوت و تبلیغ عوام میں کی جاتی ہے وہی دعوت جب اربابِ اقتدار کے سامنے پیش  کی جائے تو اس کی افادیت بہت زیادہ ہے۔ باقی رہی یہ بات کہ نظام غیر اسلامی ہے، اسمبلیاں فساق و فجار سے بھری ہوئی ہیں اور حکومتیں اسلام سے باغی لوگوں کی ہیں، تو اس نظام کے تحت انتخابات میں حصہ لینا کس طرح جائز ہوسکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جو لوگ اس طاغوتی نظام کو بحال رکھنا چاہتے ہیں، ان کو ووٹ دینا اور ان کے لیے ووٹ مانگنا تو تعاون علی الاثم والعدوان ہے اور حرام ہے، لیکن جو لوگ اس غیراسلامی نظام کو بدلنا چاہتے ہیں، اسلامی نظام کا قیام اور شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں اور شریعت کی آواز کو اسمبلیوں تک اور حکومت کے ایوانوں تک پہنچانے کے لیے انتخابات میں حصہ لیتے ہیں اور اپنی پوری انتخابی مہم اسلامی آداب و احکام کے مطابق چلاتے ہیں، ان کو ووٹ دینا اور ان کے لیے ووٹ مانگنا آخر کس دلیل کی بنیاد پر حرام ہوسکتا ہے۔ البتہ اگر شریعت کے نام پر انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتیں اپنی مہم غیرشرعی طریقے پر چلاتی ہیں اور اسمبلیوں میں شریعت کی آواز نہیں اُٹھاتیں بلکہ طاغوت کے ساتھ مفاہمت کرلیتی ہیں تو ان کی حمایت نہیں کرنی چاہیے۔(تفہیم المسائل، جلدسوم، ص ۲۸۰-۳۰۲)