مئی ۲۰۱۴

فہرست مضامین

کتاب نما

| مئی ۲۰۱۴ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

علم جرح و تعدیل، ڈاکٹر سہیل حسن۔ ناشر: ادارہ تحقیقاتِ اسلامی ،بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد۔ فون: ۲۲۵۴۸۷۴-۰۵۱۔صفحات: ۴۶۰۔ قیمت: ۵۰۰ روپے۔

احادیث کی صحت اور سند کے حوالے سے اعتراضات اُٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ حدیث محفوظ ہے اور جتنی بھی احادیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں ان سب کے بارے میں فیصلہ ہوچکا ہے کہ کون سی احادیث صحیح ہیں اور کون سی حسن کے درجے میں ہیں، اور کون سی ضعیف اور کون سی موضوع ہیں۔ وہ جن اسانید اور راویوں کے ذریعے روایت کی گئی ہیں ان سب کے حالات کی تحقیق اور تفتیش ہوچکی ہے۔ ان سب کے بارے میں معلوم کرلیا گیا ہے کہ ان میں سے کون عادل، ثقہ اور معتبر ہے اور کون غیرعادل، غیرثقہ اور غیرمعتبر۔ ہرراوی کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ سچا ہے یا جھوٹا، وہ حافظہ رکھتا تھا یا نہیں۔ اس نے کون سی احادیث روایت کی ہیں اور ان کی حیثیت کیا ہے۔

اس کے لیے محدثین کرام نے بڑی محنت کی ہے۔ بڑی مشقتیں اُٹھائی ہیں، دُوردراز کے سفر کیے ہیں اور اُمت مسلمہ کی ایک بے نظیر و بے مثال تاریخ مرتب ہوگئی ہے۔ لاکھوں انسان جنھوں نے احادیث روایت کی ہیں، ان کی زندگیاں بھی محفوظ ہوگئی ہیں اور علم اسماء الرجال وجود میں آگیا ہے۔ علم اسماء الرجال میں راویوں کے حالات بیان کردیے گئے ہیں اور ان کا عادل اور مجروح ہونا بھی پوری تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور اس کے لیے علم جرح و تعدیل وجود میں آگیا ہے۔

زیرنظرکتاب اس موضوع پر ایک جامع دستاویز ہے۔ اس میں حدیث اور اس کی سند کی تعریف، حدیث کی اقسام، اسناد اور علم جرح و تعدیل کی اہمیت، علم حدیث روایت و درایت، طلب ِحدیث کے لیے علمی اسفار، جرح و تعدیل کی شرعی حیثیت، جرح و تعدیل راوی، ضبط راوی، طبقات راویان حدیث، احکام جرح و تعدیل ، جرح و تعدیل کے مشہور نقاد کرام، جرح و تعدیل کے بارے میں تصنیفات، صحاح ستہ اور دیگر راویوں کے بارے میں تصنیفات ، ثقہ راویوں کے بارے میں تصانیف، ضعیف راویوں کے بارے میں تصانیف، سب موضوعات پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر سہیل حسن صاحب، جیسی علمی شخصیت نے جو علومِ حدیث میں مہارت تامہ رکھتے ہیں، اس موضوع پر بحث کا حق ادا کردیا ہے اور علمِ حدیث کے طالب علم کے لیے ایک مستند راہنما کی حیثیت رکھنے والی عظیم کتاب مرتب کردی ہے اور علمِ حدیث سے شغف رکھنے والوں کو بڑی بڑی کتب سے بے نیاز کردیا ہے۔ بے شک علمِ حدیث جو قرآن پاک کی تفسیر اور تشریح بھی ہے، اس کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام فرما دیا ہے کہ قیامت تک کے لیے احادیث رسولؐ سے استفادہ ہوتا رہے۔ قرآن و سنت فقہ اسلامی کا بنیادی مآخذ ہیں اور فقہاے اسلام نے ان کی روشنی میں فقہ اسلامی کا عظیم الشان ذخیرہ مستنبط کیا ہے کہ قانون کی دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے عاجز ہے۔ اسی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن و سنت کو اپنا دائمی معجزہ قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ دونوں وحی ہیں اور دونوں اپنے اندر معجزانہ شان رکھتے ہیں اور قیامت تک کے لیے لوگوں کو دائرۂ اسلام میں داخل کرنے کا ذریعہ بنتے رہیں گے، اور انھی دونوں کے سبب قیامت کے روز میرے پیروکار زیادہ ہوں گے۔

مبارک باد کی مستحق ہیں وہ شخصیات جنھوں نے کسی بھی درجے میں قرآن و حدیث کے کسی شعبے کی خدمت کی ہے۔ڈاکٹر سہیل حسن صاحب ایک علمی خاندان کے چشم و چراغ ہیں اور  علمِ حدیث کی خدمت میں زندگی کا طویل عرصہ کھپا دیا ہے۔وہ اس پر اہلِ علم کی طرف سے مبارک باد کے مستحق ہیں۔ یہ کتاب علما اور طلبہ کے لیے ان کی طرف سے ایک نادر تحفہ ہے۔

ادارہ تحقیقاتِ اسلامی اور اس کے سابق مدیر ڈاکٹر ظفراسحاق انصاری نے اس کتاب کی ترتیب و اشاعت میں بڑی دل چسپی لی ہے۔ اس پر وہ اور ان کا ادارہ بھی مبارک باد کا مستحق ہے۔(مولانا عبدالمالک)


Legislation on Women & Family in Pakistan: Trends and Approaches [پاکستان میں خواتین اور خاندان پر قانون سازی، رجحانات اور نقطہ ہاے نظر]،مدیران: خالد رحمن، ندیم فرحت۔ ناشر: انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، سٹریٹ نمبر۸، ایف ۳/۶، اسلام آباد۔فون : ۸۴۳۸۳۹۱-۰۵۱۔ صفحات: ۲۰۷۔ قیمت: ۵۰۰ روپے۔

آج کی دنیا میں خواتین اور ان کے حقوق کا تذکرہ تو بہت ہے، تاہم مشرق ہو یا مغرب، خواتین کو وہ حقوق یقینا حاصل نہیں ہیں جن کی وہ حق دار ہیں۔ جہاں تک قانون، پارلیمنٹ اور آئینی و دستوری تحفظ کا معاملہ ہے ، صورت حال اس سے بھی زیادہ گمبھیر ہے۔

انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ڈائرکٹر جنرل خالد رحمن اور ریسرچ اسکالر ندیم فرحت نے پاکستانی خاتون، قانون سازی اور موجود طرزِفکر کو سمجھنے کے لیے اصحاب علم و دانش کو اکٹھا کیا۔ ۲۰۰۸ء-۲۰۱۳ء تک کام کرنے والی قومی اسمبلی میں خواتین اور خاندان کے حوالے سے جو بل پیش کیے گئے اُن کا تجزیہ ایک نئے انداز سے کیا، اور ہر بل کے حوالے سے مختصر سفارشات اِس پہلو سے مرتب کیں کہ آیا، بل مؤثر تھے یا غیرمؤثر، ان پر عمل درآمد ہوسکا یا نہیں، آیندہ بہتری کے کیا امکانات ہیں۔ اِس نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو سائنٹی فک اپروچ کی حامل کتاب منظرعام پر آئی ہے۔

کتاب کے پیش لفظ میں مرتبین تحریر کرتے ہیں: پاکستان میں خواتین کے حقوق کا جائزہ لیا جائے تو بنیادی ضروریات کی عدم فراہمی سے اقتصادی میدان میں کارکردگی تک کتنے ہی چیلنج سامنے آتے ہیں۔ ان مسائل کے حل کے لیے جہاں یہ ضروری ہے کہ بیداری کی مہمات چلائی جائیں، تعلیم، ملازمت اور ترقی کے اقدامات کیے جائیں وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ قانون سازی کی جائے تاکہ معاشرے میں تبدیلی پیدا ہو۔(ص ۱۱)

ڈاکٹر انیس احمد ’عورت، معاشرہ اور قانون سازی‘ کے تحت لکھتے ہیں کہ اسلام نے مسلمان خواتین کو تمام مناسب اور ضروری حقوق دیے ہیں۔ اگرچہ ہرمعاشرے میں اس پر عمل درآمد کی کیفیت مختلف رہی۔ اُنھوں نے حقوقِ نسواں کی تحریک پر بھی روشنی ڈالی ہے اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ’’پاکستان میں موجود قوانین، بلکہ دنیا بھر میں موجود قوانین کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے--- نیز مغرب نے صنف کی بنیاد پر کش مکش کا جو نظریہ دیا ہے، اُس کے مقابلے میں اخلاقیات پر مبنی، اسلام کے نظام براے خواتین و حضرات کو تمام عالم کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے‘‘۔ (مقدمہ)

کتاب میں ۲۰۰۲ء-۲۰۰۷ء کے دوران خواتین و خاندان کے حوالے سے پرائیویٹ بل، حکومتی بل اور عمل درآمد نیز قانون سازی کا بھی جامع انداز میں مختصر جائزہ لیا گیا ہے۔ اُس وقت متحدہ مجلس عمل ایک اہم سیاسی گروپ کے طور پر پارلیمنٹ میں موجود تھی، اگر اس کا بھی تفصیلی جائزہ لیا جاتا تو مفید ہوتا۔ پاکستان میں جو اقلیتیں ہیں اُن کی خواتین کس حالت میں ہیں، اس کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

شادی اور خاندان خصوصاً تعدد ازواج کے حوالے سے پیش کیے جانے والے بلوں کا متن شاملِ اشاعت ہے اور اس حوالے سے پیچیدگیوں کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ ’قرآن سے شادی‘ جیسی ناقابلِ فہم رسم کے خلاف پیش کیے جانے والے بل، بچوں کے نان نفقے کے بل کی تفصیلات پیش کرنے کے بعد اُمید ظاہر کی گئی ہے کہ آیندہ پارلیمنٹ ان پر عمل درآمد کو یقینی بنائے گی۔ انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے پیش کیے گئے بل (ص ۱۲۹)، وراثت کے قوانین کے ساتھ ساتھ ، غیرسرکاری طور پر بزرگوں کے ذریعے خاندانوں کے باہمی اور مسلسل میل ملاپ کے ذریعے طلاق کی شرح کم کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔مسلم معاشرے میں خواتین کے لیے مہمات کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔

مرتبین یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ پاکستان میں حکمران کوئی بھی جماعت ہو، خواتین کو حقوق صرف ایک حد تک دینے پر ہی اتفاق پایا جاتاہے۔ اپنے موضوع پر یہ جامع کتاب خواتین کے مسائل پر غوروفکر اور تحقیق کے کئی نئے پہلو سامنے لاتی ہے۔ (محمد ایوب منیر)


سیدابوالاعلیٰ مودودی بحیثیت نثرنگار، ڈاکٹر محمد جاوید اصغر۔ ناشر: منشورات، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲۔ صفحات: ۴۲۸۔ قیمت: ۴۲۵ر وپے۔

مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی نے تحریر، تقریر اور تربیت کے ذریعے دین اسلام کا پیغام پھیلانے کے لیے زندگی بھر جدوجہد کی۔ بیسویں اور اب اکیسویں صدی میں متلاشیانِ حق ان کے چشمۂ فیض سے حیات آفرین پیغام حاصل کر رہے ہیں۔

زیرنظر کتاب درحقیقت، مذکورہ بالا موضوع پر ڈاکٹریٹ کے لیے لکھا گیاتحقیقی مقالہ ہے۔  ڈاکٹریٹ کے مقالوں کے بارے میں آج کل اچھا تاثر نہیں پایا جاتا کیوں کہ زیادہ تر فارمولا قسم کے غیرمعیاری مقالے سامنے آرہے ہیں۔ لیکن امرِواقعہ ہے کہ اس کتاب کا درجہ ہمارے بھیڑچال ڈاکٹریٹ یا ایم فل مقالات سے بہت بلند ہے۔ فاضل محقق نے بڑی لگن سے یہ کوشش کی ہے کہ  وہ موضوع کا حق اداکرنے کے لیے اپنی توانائیاں لگادیں۔ اقتباسات سے بقدر ضرورت ہی استفادہ کیا ہے، اور باقی معاملہ تجزیاتی اور تخلیقی سطح پر پہنچ کر کیا ہے۔

مولانا مودودی کی تقریر سننے والے چند لاکھ ہوں گے اور وہ بھی ان کے معاصرین، مگر  ان کی نثر: رنگوں کی بوقلمونی، استدلال کی گرفت، منطق کی عظمت، اسلام کے سرمدی پیغام کی خوشبو سے، ہر زمانے کے قاری کو صراطِ مستقیم سے جوڑتی ہے کہ پڑھتے ہوئے حق سے وابستہ ہونے پر دل لبیک کہہ اُٹھتا ہے۔

مصنف نے تنقید کے مسلّمہ ضابطوں سے مولانا مودودی کی نثر کو پرکھا اور وسیع بنیادوں پر اس کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ خود کتاب کی نثر اور احتیاط نگاری میں فاضل محقق کے استادگرامی ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا رنگ جابجا گواہی دیے بغیر نہیں رہتا۔ اس موضوع پر بھارت میں بھی ڈاکٹریٹ کا ایک مقالہ لکھا جاچکا ہے، اس پر ترجمان کے زیرنظر صفحات میں تبصرہ بھی ہوا تھا مگر محمد جاوید اصغر کی یہ کاوش اس سے کہیں زیادہ بلندپایہ اور معیاری ہے۔(سلیم منصور خالد)


یاد نامۂ لالہ صحرائی، مرتب: ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی۔ ملنے کا پتا: کتاب سراے، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۳۲۰۳۱۸-۰۴۲۔صفحات:۴۲۴۔ قیمت: ۶۰۰ روپے۔

لالہ صحرائی (اصل نام: چودھری محمد صادق، ۱۹۲۰ء-۲۰۰۰ء) افسانہ و ڈراما نگار اور ادیب تھے۔ آخری عمر میں ان کے دل میں نعت گوئی کی تمنّا بیدار ہوئی، دعاگو رہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف ِ خاص سے انھیں حرمین شریفین میں حاضر ہونے کا شرف بخشا۔ وہاں مبارک لمحوں میں، دوسری دعائوں کے علاوہ وہ یہ دعا بھی کرتے رہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے مجھے نعت کہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اس کے فضل و کرم کا کرشمہ ملاحظہ ہو کہ جولائی ۱۹۹۱ء کی ایک چمکتی صبح کو ان پر یکایک نعتوں کا نزول شروع ہوگیا۔

زیرنظر کتاب انھی نعت گو لالہ صحرائی کی شخصیت، سوانح اور نعت گوئی پر مضامین اور تاثرات کا مجموعہ ہے، جسے معروف محقق، نقاد اوراقبال شناس ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے مرتب کیا ہے۔کتاب کو ۱۰ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس میں لالہ صحرائی کے ساتھ مصاحبے(انٹرویو)، ان کی شخصیت اور فکروفن، اہلِ علم و ادب کے مضامین ، ان کے اہلِ خانہ کے تاثرات، ان کی وفات پر ان کے احباب اور مداحوں کے تاثرات، ان کی کتب پر تبصرے اور دیباچے، ان کی خدمت میں منظوم خراجِ تحسین اور ان کی وفات پر تعزیت نامے شامل ہیں۔ یوں ہاشمی صاحب نے سارے دستیاب لوازمے کو  مختلف عنوانات کے تحت تقسیم کر کے ایک گل دستہ مرتب کیا ہے۔ اس میں لالہ صحرائی کے متعلق پروفیسر خورشیداحمد، الطاف حسن قریشی، مجیب الرحمن شامی، مشفق خواجہ، احمدندیم قاسمی، حفیظ تائب، اسلم انصاری، عاصی کرنالی، خورشید رضوی اور حفیظ الرحمن احسن جیسے اکابر علم و ادب کے مضامین شامل ہیں۔مرحوم کے اہلِ خانہ اور بعض اعزہ کی تحریروں سے ان کے ایسے معمولات اور عادات و خصائل کا پتا چلتا ہے جو کسی اور ذریعے سے معلوم نہ ہوسکتی تھیں۔

یہ کتاب درحقیقت لالہ صحرائی کی متواضع، سادہ، منکسرالمزاج اور محبت ِ رسولؐ میں ڈوبی ہوئی شخصیت کو ہمارے سامنے لاتی ہے۔ اس موضوع پر کام کرنے والے محققین کے لیے یہ    ایک مستند مآخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اتنی خوب صورت، عمدہ اور معلومات افزا کتاب کی اشاعت کا سہرا فرزند ِ لالہ صحرائی، ڈاکٹر جاوید احمد صادق کے سر ہے۔(قاسم محموداحمد)


زندگی کے عام فقہی مسائل (حصہ دوم)، ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، کراچی۔ ملنے کا پتا: اکیڈمی بک سنٹر، ڈی-۳۵، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی-۷۵۹۵۰۔ فون: ۳۶۸۰۹۲۰۱-۰۲۱۔صفحات: ۲۳۸۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

انسانی زندگی سے وابستہ مختلف روزمرہ مسائل پر مبنی سوالات و استفسارات کے شافی جوابات پر مبنی ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی کا یہ دوسرا مجموعہ ہے۔ یہ سوالات و جوابات جماعت اسلامی ہند کے ترجمان زندگی نو میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ اب ان کو کتابی شکل میں شائع کیا گیا ہے۔ اس سے قبل پہلا مجموعہ شائع کیا گیا تھا۔ اس مجموعے میں کُل ۶۱موضوعات ہیں جن میں زندگی کے عام فقہی مسائل بالخصوص بے وضو قرآن کو چھونا، قرآن کے بوسیدہ اَوراق کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟ چُھوٹی ہوئی نمازوں کا کفّارہ، مساجد میں عورتوں کی حاضری، تعمیر مسجد میں غیرمسلم کا مالی تعاون، زکوٰۃ سے اساتذہ کی تنخواہوں کی ادایگی، حج، حجِ بدل، قربانی، شادی کی رسمیں، مصنوعی استقرارِ حمل، بگڑے ہوئے شوہر کی اصلاح کا طریقہ، تحریکی خواتین کا دائرۂ عمل، چہرے اور آواز کا پردہ، سودی کاروبار، کالے خضاب کی شرعی حیثیت وغیرہ شاملِ اشاعت ہیں۔

اسی طرح بعض علمی مسائل جن میں آیاتِ قرآنی، حدیث نبویؐ سے متعلق اشکالات، سیرتِ رسولؐ، سیرتِ صحابہؓ ، تاریخِ اسلام جیسے موضوعات بالخصوص سورئہ توبہ کے شروع میں بسم اللہ نہ پڑھنے کی وجہ، قرآنی بیانات میں اختلاف و تضاد؟ علمِ غیب کی کنجیاں، کیا رسولؐ اللہ کا مشن لوگوں کو بہ جبر مسلمان بنانا تھا؟ضعیف اور موضوع احادیث، گمراہ فرقے اور سزاے جہنم، صحابہ کرام کے کرداروں پر مبنی اداکاری،طبی اخلاقیات جیسے اہم موضوعات شامل ہیں۔

بنیادی طور پر مسائل کو قرآن و سنت کی روشنی میں حل کرنے کا رجحان غالب ہے، جب کہ اس دوران علماے سلف اور فقہاے کرام کی آرا بھی نظرانداز نہیں کی گئیں، نیز مسائل سے متعلق جدیدمعلومات اور سائنسی علوم و اعدا و شمار کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے۔ مسائل پر اختلافی نقطۂ نظر کے ساتھ ساتھ اعتدال کے پہلو کو بھی اُجاگر کیا گیا ہے۔ روز مرہ زندگی میں پیش آنے والے مسائل اور الجھنوں کے شافی اور اطمینان بخش جواب دیے گئے ہیں۔(عمران ظہور غازی)


ایامِ خلافت ِ راشدہ ، مولانا عبدالرئوف رحمانی۔ ناشر: مکتبہ قدوسیہ، رحمن مارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۳۷۶۔ قیمت:۴۰۰ روپے۔

زیرتبصرہ کتاب میں مصنف نے ایسے سچے واقعات جمع کیے ہیں جو خلافت ِ راشدہ کے دور میں وقوع پذیر ہوئے۔ ا ن واقعات میں سماجی بہبود، عدل و انصاف اور فلاح انسانیت کے ایسے نقوش نمایاں ہیں جو آج بھی ہمارے لیے لائق تقلید ہیں، اور آج کے حکمرانوں کے لیے چراغِ راہ ہیں۔

کتاب کی ابتدا میں حضور اکرمؐ کے اسوئہ حسنہ سے کی گئی ہے اور آپؐ کے حُسنِ سلوک اور سادگی کے واقعات لکھے گئے ہیں۔ انعقادِ خلافت کی ضرورت بیان کرنے کے بعد خلفاے راشدین کے عہد میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات، ان کی سادہ زندگی، امانت و دیانت، رعایا کی جان و مال کی حفاظت، ان کی عادلانہ زندگی، سخاوت اور بیت المال میں پوری رعایا کے استحقاق کا خیال، حُسنِ سلوک، کنبہ پروری سے پرہیز اور مستحق لوگوں کے وظائف مقرر کرنے کے واقعات نہایت سلیس انداز میں بیان کیے گئے ہیں۔ رفاہِ عامہ کے کاموں میں دل چسپی، مفتوحہ زمینوں پر لگان اور جزیے کی وصولی میں نرمی کے واقعات بھی خلفاے راشدین کی رعایاپروری کی دلیل ہیں۔ کتاب دل چسپ واقعات کا مجموعہ ہے۔ یہ واقعات تاریخ و سیرت کی متعدد کتابوں سے ماخوذ ہیں۔(ظفرحجازی)


رُوداد: جماعت اسلامی کی خواتین اسمبلی و سینیٹ کی کارکردگی، مرتبہ: روبینہ فرید، افشاں لئیق، نگہت احد، ندیم فرحت۔ ناشر: سیاسی سیل حلقہ خواتین، آر۷۷۲، سیکٹر ۱۴-اے، شادمان ٹائون، شمالی کراچی۔ فون: ۳۶۳۶۱۷۳۴-۰۲۱۔ صفحات: ۱۶۰۔ قیمت: ۱۳۰ روپے۔

خواتین کے لیے دینی حدود و قیود میں رہتے ہوئے، اجتماعی جدوجہد کرنا کتنا مشکل کام ہے، اس کا اندازہ شاید عام خواتین نہ لگاسکیں، اور اُن خواتین کے لیے بھی اس بات کا اِدراک کرنا مشکل ہے جو خواتین سے متعلقہ شعبہ جات سے منسلک ہیں کہ جماعت اسلامی کی اجتماعی جدوجہد سے وابستہ خواتین کن مشکل حالات میں کام کررہی ہیں۔

اگرچہ دعوت، تبلیغ، تربیت، خدمت ِ خلق اور قرآن کلاسوں کی سرگرمیاں تو گذشتہ ۶۰برسوں سے حلقہ خواتین کے تجربات کا حصہ ہیں، مگر سیاسی جدوجہد میں، خاص طور پر پارلیمنٹ کے مختلف ایوانوں میں درپیش چیلنجوں سے نمٹنا ایک بالکل نیا امتحان تھا۔ ۲۰۰۲ء میں جب جنرل پرویزمشرف کے  مارشل لا نے تمام پارلیمانی ایوانوں میں خواتین کی نشستوں کو بڑھا دیا تو حلقہ خواتین کے لیے ایک نیا چیلنج تھا۔ مگر پارلیمنٹ کی ان رکن خواتین نے دستور سازی، انسانی حقوق کے تحفظ اور قومی و ملّی مسائل پر بڑی فہم و فراست، مہارت اور مستعدی سے نمایندگی کا حق ادا کیا۔ خواتینِ جماعت اسلامی کی اس پارلیمانی کارکردگی کا خود مدِمقابل لابی کی خواتین نے بھی اعتراف کیا ہے۔کتاب کے مطالعے سے قیمتی معلومات سے مستفید ہونے کا موقع ملتا ہے۔

کتاب کا اسلوب ایک جامع رپورٹ کا سا ہے، تاہم اس میں ایک کمی رہ گئی ہے کہ    اس سے قبل جماعت کے حلقہ خواتین نے پارلیمنٹ میں جو نمایندگی کی تھی، اس کا تذکرہ بھی شامل ہونا چاہیے تھا۔ اگلے ایڈیشن میں وہ دے دینا چاہیے۔(سلیم منصور خالد)