مئی ۲۰۱۴

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| مئی ۲۰۱۴ | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

بیگم  بینا حسین خالدی ، صادق آباد

ڈاکٹر انیس احمد کی تحریر ’اسلامی نظام: سیاسی ذرائع سے قیام ممکن ہے؟‘ (اپریل ۲۰۱۴ء) نے بہت متاثر کیا۔ اس وقت ، جب کہ مصر اور بنگلہ دیش کی صورت حال پر دنیا بھر کی نظریں جمی ہوئی ہیں، حالاتِ حاضرہ کی صحیح منظرکشی اور تجزیہ نگاری کی اشد ضرورت ہے۔ڈاکٹر صاحب نے ’’تبدیلی صرف جہاد سے آئے گی‘‘ کے نعرے کی شرعی حیثیت کے بارے میں بصیرت افروز مواد فراہم کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق اجتہاد، قیاس، اجماع  اور باہم مشاورت، صبرواستقامت اور قربانی کے ساتھ دعوتی کام کرتے رہنا، یہی وہ ذرائع ہیں جو اسوئہ نبویؐ کے مطابق تبدیلی کا سبب بن سکتے ہیں، اور تمام دعوتی مراحل سے گزرنے کے بعد جب یہ یقین ہوجائے کہ یہاں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی، تو پھر وہاں سے ہجرت (لیکن عجلت والی ہجرت نہ ہو) کی جائے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ مصر اور بنگلہ دیش کی ہنگامی صورت حال میں، جب کہ خانہ جنگی چھڑ چکی ہے اور ہزاروں جانی قربانیوں کے بعد واپسی کے رستے بند ہوچکے ہیں، کیا ایسی صورت حال میں دعوتی و تبلیغی طریق کار ، اور اجتہاد کے راستے کھلے رہ سکتے ہیں؟ کیا طاغوتی طاقتیں محض دعوت و تبلیغ اور گفت و شنید سے اقتدار چھوڑ کر جاسکتی ہیں؟ یا بصورتِ دیگر ہجرت ایسے مسئلے کا حل ہوسکتی ہے؟


عاشق علی فیصل ، فیصل آباد

’بچوں کی تربیت محبت سے‘ (اپریل ۲۰۱۴ء) میں ڈاکٹر سمیریونس نے خوب صورت انداز میں اہم موضوع کی طرف توجہ دلائی ہے۔ آج کے نونہال ہی کل کے اچھے مسلمان اور پاکستانی بن سکتے ہیں۔ یہ تحریر تحریکی ساتھیوں کے لیے بالخصوص اور عمومی قارئین کے لیے ایک انمول تحفہ ہے۔ اللہ رب العزت مولاناعبدالمالک مدظلہٗ العالی کو جنھوں نے ہمارے قلوب و اذہان کو کلامِ نبویؐ کی کرنوں سے منور کیا، جزاے خیر دے۔


عبدالرحمٰن ،  لاہور

’بچوں کی تربیت محبت سے‘(اپریل ۲۰۱۴ء) مفید مضمون ہے اور عملی پہلو سامنے آئے ہیں۔ تاہم ڈاکٹرسمیر یونس نے بچھو کے بار بار کاٹنے پر اسے بچانے کی جو حکایت بیان کی ہے وہ اسلامی نقطۂ نظر سے درست نہیں۔ شریعت میں موذی جانوروں کو مارنے کا حکم ہے۔


عبدالرشید صدیقی ، برطانیہ

ڈاکٹر انیس احمد کا مضمون: ’مطالعے کی عادت__  ایک تحریکی زاویہ‘ (مارچ ۲۰۱۴ء) بہت اہم اور بروقت ہے جس کی طرف سے اکثر لوگ غافل ہیں۔ خاص طور پر نئی نسل میں مطالعے کے شوق کا فقدان ہے۔ ان کی تمام معلومات کا مخزن انٹرنیٹ ہے۔ عام طور پر لوگ علم کے بجاے معلومات ہی حاصل کرنا چاہتے ہیں، یا پھر وڈیو اور آڈیو دیکھ اور سن کر سمجھتے ہیںکہ انھوں نے علم حاصل کرلیا۔ مذکورہ مضمون میں اہم مسئلے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔

پروفیسر شہزاد الحسن چشتی کا گراں قدر مضمون : ’ہگز بوسن یا خدائی ذرّہ‘ (فروری ۲۰۱۴ء) نظر سے گزرا۔ اس میں موصوف نے اہم معلومات پیش کی ہیں، البتہ ان کی ایک فروگزاشت کی تصحیح کرنا ضروری خیال کرتا ہوں۔ سرن(cern) کو انھوں نے تجربہ گاہ کا جاے وقوع بتایا ہے حالانکہ CERN اس تحقیقی ادارے کے نام کا مخفف ہے جو فرانسیسی میں یہ ہے: Conseil Europeen Pour la Rechard Nucleaire ۔ اس کا انگریزی نام ہے: European Council for Nuclear Research ۔یہ جنیوا کے قریب فرانس، سوئٹزرلینڈ کی سرحد میں واقع ہے، جو ۱۹۵۴ء میں ۲۱ممالک کے تعاون سے قائم ہوا تھا۔ قارئین کے لیے یہ جاننا باعث دل چسپی ہوگا کہ بوسن کا لفظ جو اس ذرے کا نام ہے ،مشہور ہندستانی ماہر طبیعات ستیندرا ناتھ بوسن کے اعزاز میں پال ڈارک ( Paul Dirac) نے رکھا تھا۔

اپنے مضمون میں فاضل مقالہ نگار نے اللہ کے عرش کے پانی پر ہونے کی یہ تاویل کی ہے کہ پانی سے مراد توانائی ہے۔ میرے خیال میں قرآن کے الفاظ کو ان کے اُسی مفہوم میں رکھنا چاہیے۔ یہ زیادہ بہتر ہے۔


مہر محمد سعید احمد ، فیصل آباد

عالمی ترجمان القرآن کے مطالعے سے تزکیہ و تربیت کا سامان ہوتا ہے اور ملکی و عالمی حالات سے آگہی ملتی رہتی ہے۔ دیہات میں دعوتی کام کے لیے رہنمائی اور لائحہ عمل پیش کرنے کی بھی ضرورت ہے،    نیز زرعی مسائل کو بھی زیربحث لانا مفید ہوگا۔ دیہی پس منظر کے پیش نظر بعض مضامین مشکل محسوس ہوتے ہیں۔