نومبر ۲۰۱۲

فہرست مضامین

ڈاکٹر محمد عبد الحق انصاریؒ

محمد عبد اللہ جاوید | نومبر ۲۰۱۲ | یاد رفتگان

Responsive image Responsive image

۳؍اکتوبر ۲۰۱۲ء کی شام نماز عصرسے پہلے بڑی دل خراش اطلاع ملی کہ ڈاکٹر محمد عبد الحق انصاری انتقال فرماگئے،انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے، حسنات کو شرف قبولیت بخشے،جنت الفردوس عطا فرمائے،اور پسماندگان کو صبر جمیل عنایت فرمائے۔آمین!

موصوف طویل قیام کے بعد ۱۸؍ستمبر کو امریکا سے علی گڑھ واپس آگئے تھے۔ طبیعت ٹھیک ہی تھی البتہ پیروں میں درد کی شکایت تھی۔ ۳؍اکتوبر کو نماز ظہر ادا کی، دوپہر کے کھانے سے فراغت کے بعد سینے میں درد کی شکایت کی۔ دیکھتے ہی دیکھتے درد نے شدت اختیار کرلی اور موصوف پلنگ پر لیٹے لمبی سانسیں لینے لگے۔ دواخانے لے جارہے تھے کہ راستے ہی میں روح پرواز کرگئی۔ ۴؍اکتوبر کی صبح۳۰:۹بجے جامع مسجد، سرسید نگر ، میں محترم امیر جماعت مولانا سید جلال الدین عمری نے نمازِ جنازہ ادا فرمائی۔ اسی مسجد سے متصل شوکت منزل قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔ جس میں ذمہ داران مرکز ، شہر کی بااثر شخصیا ت کے علاوہ اطراف کے مقامات سے رفقاے تحریک نے شرکت کی۔  ڈاکٹر عبد الحق انصاری ؒ کے انتقال سے تحریک اسلامی کی علمی و فکر ی ضروریات کو پورا کرنے والی  ایک نہایت ہی معتبر شخصیت اب ہمارے درمیان نہیں رہی۔اللہ تعالیٰ اس کی تلافی فرمائے اور تحریک اسلامی کو ان کا نعم البدل عنایت کرے۔آمین!

ڈاکٹر محمد عبد الحق انصاری ،۱۹۳۱ء کو تمکوہی ، مشرقی یوپی میں پیدا ہوئے۔موصوف علیم الدین انصاری مرحوم کے بڑے صاحب زادے تھے۔ان کے علاوہ پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ ڈاکٹرصاحب ؒ کے دو بھائیوں اور ایک بہن کا انتقال ہوا ہے۔دو بھائی امریکا میں رہتے ہیں۔ ایک بھائی ان کے آبائی وطن میں ہیںاور ہمشیرہ کلکتہ میں مقیم ہیں۔ڈاکٹر صاحب ؒ کی اہلیہ محترمہ رابعہ ہیں۔اور چار بیٹیاں عذرا، زہرہ، سلمی، شیما، اور ایک بیٹاخالد ہے۔

ڈاکٹر صاحبؒ کی ابتدائی تعلیم گائوں کے مدرسہ میں ہوئی۔ ۱۹۴۹ء میں اسلامیہ کالج سے انٹر کیا۔اسی دوران تحریک اسلامی سے متعارف ہوئے۔پھر ندوۃ العلما سے عا لمیت کا کورس کیا۔ مرکز کی جانب سے رام پور میں قائم درس گاہ اسلامی میں تین سال(۵۳-۱۹۵۱)تعلیم کے حصول میں صرف کیے۔آپ کے اساتذہ میں مولانا صدرالدین اصلاحیؒ ، مولانا عبد السمیع قدوائی ؒ،    مولانا عبد الغفار ندویؒ ، مولانا اختر احسن اصلاحی ؒ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔۱۹۵۷ء میں علی گڑھ    سے بی اے کیا اور ۱۹۵۹ء میں فلسفے میں ایم اے۔ ابن مسکویہ کے فلسفہ اخلاق (Ethical Philosophy of Mishkawi) پر ڈاکٹریٹ کی ڈگر ی حاصل کی۔فراغت کے بعد شانتی نکیتن یونی ورسٹی، مغربی بنگال میں لیکچرر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اسی دوران مشہور مستشرق ولفریڈ کینٹ ول اسمتھ سے ملاقات ہوئی اور ان کی دعوت پر ۱۹۷۲ء میں آپ نے ہارورڈ یونی ورسٹی سے ’ماسٹرز ان تھیالوجی‘ کی ڈگری حاصل کی۔ آپ کی تدریسی خدمات ملک اور بیرون ملک میں رہی ہیں۔ سعودی عرب اور سوڈان قابل ذکر ہیں۔ اس دوران آپ نے کئی زبانوں کو ضرورت کے لحاظ سے سیکھا، جرمن ، فرنچ، سنسکرت،یونانی اور عبرانی۔ عربی، انگریزی اور ہندی زبانوںمیں تو آپ کو دست رس حاصل تھی۔

موصوفؒ اپنے طالب علمی ہی کے زمانے سے جماعت اسلامی سے وابستہ تھے، اور اپنے تعلیمی ارتقا کی طرح تحریکی سرگرمیو ں کو بھی اسی نہج پر جاری رکھا۔ مغربی بنگال کے اس وقت کے امیر حلقہ جناب عبد الفتاح ؒ سے بڑا خصوصی لگائو تھا۔ انھی کی ہدایت کے مطابق مختلف سرگرمیاں انجام دیتے۔ قریبی حلقوں ، بہا ر اور یوپی کے بھی مختلف اجتماعات میں شرکت ہوتی۔

  • علمی خدمات: ڈاکٹر صاحب ؒ نے فلسفہ، اخلاق، تصوف، تزکیہ نفس، احیاے دین جیسے موضوعات کے علاوہ مختلف تحریکی ضروریات کے تحت کئی کتابیں اردو، انگریزی اور عربی زبانوں میںتصنیف فرمائی ہیں۔مختلف یونی ورسٹیوں اور اداروں کے خصوصی مجلّوں کے لیے تحریریں تصنیف کی ہیں۔تحقیقی مقالہ جات بھی متنوع موضوعات پر تصنیف فرمائے ہیں، جن میں اسلامی فلسفہ اخلاق، تصوف، مذہبیات، مجددین اُمت اور صوفیاے کرام، ابن مسکویہ کے تصورات، تقابلی مطالعہ، ادیان اور دعوت قابل ذکر ہیں۔مختلف قومی اور بین الاقوامی سیمی ناروں اور مذاکروں میں شرکت کے ذریعے انھی موضوعات کے مختلف پہلوئوں کو اُجاگر فرمایا ہے۔

ڈاکٹر عبد الحق ؒ اصلاً ایک محقق تھے جنھوں نے صرف نری تحقیق پر انحصار نہیں کیا کہ کسی موضوع کی تہہ تک جاکر اس کی گتھیاں سلجھانے کی حد تک اپنے کام کو محدود رکھتے، بلکہ اپنی تحقیق کو مقصدیت سے ہم آہنگ کرنے کی سعی کی،اور یہی آپ کے علمی کارناموں کا طرہ ٔ امتیاز ہے۔اصل میں کسی فرد کے کارناموں کو ایک صحت مند نظریہ ہی تاریخی بناسکتا ہے۔ علامہ اقبالؒ اور مولانامودودیؒ کے کارناموں کی آفاقیت کی وجہ ان کا صاف و شفاف نظریہ ہی تو ہے۔ اس لیے بجاطور پر ڈاکٹر عبدالحق ؒ کو ایک نظریہ شناس محقق کہا جاسکتا ہے جن کے علمی وتحقیقی کارنامے ،ان شاء اللہ تحریک اسلامی کی علمی ضروریات کی تکمیل کرتے رہیں گے۔اس امر کی مزید صراحت مرحوم کی تصانیف کے جائزے سے ہوتی ہے۔

ایک ایسا ماحول جہاں زندگی کا مقصد واضح نہیں، اور اگر ہے بھی تو افراط وتفریط کا شکار،     اس تناظر میں ’مقصد زندگی کا اسلامی تصور‘ کو موصوفؒ نے بڑے ہی توازن کے ساتھ بیان کیا ہے، جس کو پڑھنے کے بعد کسی قسم کی الجھن باقی نہیں رہتی۔تصوف میں غلو اور روحانیت کے غیرمتوازن تصورات کے برعکس بڑے پُرزور انداز سے تصوف کے ان قابل تقلید پہلوئوں کو اُبھارا جو فی الواقع روحانی ضرورتوں کی تکمیل کرتے ہیں۔ تصوف اور شریعت اس لحاظ سے ان کی ایک معرکہ آرا تصنیف قرار دی جاسکتی ہے جس میں بڑے ہی مدلل انداز سے اسلام مخالف پہلوئوں کی وضاحت بھی ہے اور بڑی صراحت کے ساتھ اچھے پہلوئوں کو ابھارابھی گیا ہے۔ملت اسلامیہ اور بالخصوص جماعت اسلامی کے حلقوں میں جو روایتی انداز سے مصلحین امت کے سلسلے میں راے قائم ہے، اور ان سے عقیدت و محبت کا جو تعلق ہے، اس تناظر میں مجددین امت کا مختلف پہلوئوں سے    تعارف کرایا۔ امام ابن تیمیہ ؒ ،امام غزالی، ؒمجدد الف ثانیؒ، شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ وغیرھم سے  متعلق انھوں نے بڑے ہی واضح انداز سے ان امور و مسائل کو بیان کیا ہے جس سے ملت میں   ان حضرات سے معنوی استفادے کا ایک فطری جذبہ بیدار ہوتا ہے۔ مجدیدین اُمت اور تصوف

اس موضوع پر ایک اہم اضافہ مانا جاسکتا ہے۔ آگے چل کر آپ نے مجددین کی فہرست میں مولانا مودودیؒ کو بھی شامل کرلیا، اور افادات مودودیؒ اس ضمن میں ایک بامعنی تصنیف ہے۔ آپؒ کے نزدیک قریبی دور میں چار اہم مجددین قرار پائے۔امام ابن تیمیہؒ، امام غزالیؒ، شاہ ولی اللہ    محدث دہلویؒ اور مولانا مودودیؒ ۔نوجوانوں کی تربیت کے لیے ان چاروں مجددین کاتفصیلی مطالعہ کرایا ۔ اس تاکید کے ساتھ کہ ان کے افکار و خیالات کا مطالعہ، احیاے اسلام کے لیے کیا جانا چاہیے ۔ کسی شخص کے افکار کو قطعی نہ سمجھنا چاہیے، جہا ں کھٹک محسوس ہو،وہاں ٹھیر کر غور وفکر کرنااور صحت مند تبادلۂ خیال کا ایک ماحول بنانا چاہیے۔ ہندستا ن جیسے تکثیری سماج میں قومی یک جہتی کا  کیا مفہوم اور تقاضے ہیں، ان کی کتاب قومی یک جہتی اور اسلام، بخوبی واضح کرتی ہے۔  ڈاکٹر صاحب ؒ کا امام ابن تیمیہ ؒکا انتخاب بڑا بامعنی محسوس ہوتا ہے،جن کے معاشرت و سیاست سے متعلق افکار و خیالات سے استفادے کے لیے آپ نے قابل قدر کوشش کی ہے۔

  • دعوت: ڈاکٹر صاحب ؒ ایک لمبی مدت تک بیرون ممالک میں رہے ہیں ۔ہندستا ن آنے کے بعد دعوتی ترجیحات کا جس انداز سے ذکر فرمایا کرتے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ یہاں کے حالات سے اچھی واقفیت رکھتے ہیں۔اپنے وطن واپس آنے کے بعد موصوف نے یہ جاننے اور سمجھنے کے لیے کہ دعوتی کام کن حلقوں میں کس نہج پر انجام پارہا ہے، ملک کے مختلف مقامات کا دورہ کیا ۔ انھوں نے بحیثیت امیر جماعت ،دعوت دین کے سلسلے میں جو ترجیحات متعین فرمائیں وہ اسی کی غماز ہیں۔دعوت دین پہنچانے کے معنی کیا ہیں اور اس میں کون کون سے کام اور مراحل شامل ہیں،بخوبی واضح کیا۔موصوف چونکہ تقابل ادیان کے میدان سے بھی متعلق رہے ہیں اس لیے وہ بطور خاص ہندومت اور عیسائیت سے متعلق بتاتے جاتے کہ ان ان پہلوئوں سے اسلام کا مطالعہ اور کام ہونا چاہیے۔ہندومت کے متعلق بنیادی عقائد کی دعوت، غلط فہمیوں کا جواب،مذہب، زندگی بعد الموت وغیرہ کے سلسلے میں پائے جانے والے غلط تصورِات کا ازالہ ان کا خاص ہدف تھا۔ عیسائیت سے متعلق تصور تثلیت پر زیادہ زور دیا کرتے ۔ قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ ؑ کاابن مریم ؑکی حیثیت سے ذکرکن حکمتوں سے کیا گیا اس کی وضاحت کرتے۔

تزکیۂ نفس سے متعلق بنیادوں کی وضاحت کے لیے ڈاکٹر صاحب ؒ نے انسان کے حقیقی تصور پر زور دیا ہے کہ وہ زمین پر اللہ کا خلیفہ ہے۔ امام ابن تیمیہؒ کے حوالے سے فرماتے کہ علم اور خیروشر کی تمیزسے انسان خلیفہ بنتا ہے۔ اس ضمن میں دوسرا اہم پہلو قرآنی اصولوں کی وضاحت تھاجس کے تحت وہ سورئہ حدید کی آیت ۱۰ کا ذکر فرماتے۔اور تیسرا اہم پہلورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقۂ تزکیہ سے متعلق تھا۔ آپ کے علمی کارناموں میںفارابیؒ، ابن تیمیہ ؒ ،ابن مسکویہؒ اور طحاویؒ پر کام قابلِ قدر ہے۔ آپ کی انگریزی تصانیف میں بڑی گہرائی و گیرائی محسوس ہوتی ہے بہ نسبت اردو زبان میں لکھی گئی کتابوں کے۔ آپ کے مختلف مقالہ جات ملک کی نام وَر یونی ورسٹیوں کے علاوہ امریکا اور لندن کے معروف اداروں سے بھی شائع ہوتے رہے ہیں۔پنجاب یونی ورسٹی کے ربع صدی کے تقریب کے موقع پر جو خصوصی مجلہ شائع ہوا اس میں ڈاکٹر صاحب ؒ کا مضمون Mysticism and Islamکو بڑا نمایاں مقام حاصل ہوا جس کو بعد میںمزید اضافے کے ساتھ شائع کیا گیا۔

  •  اخلاق حسنہ: ڈاکٹرصاحبؒ کو دیکھ کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ذہنوں میں تازہ ہوتا تھا،  اَلْمُؤْمِنَ غِرٌّ کَرِیْم،مومن شریف النفس اور بھولا بھالا ہوتا ہے۔نرم مزاج،  کم گو اور دھیمی انداز میں گفتگو کرنے والے۔ شخصیات سے متعلق بڑے محتاط انداز سے گفتگو فرماتے۔ تحریکی ضرورتوں کا واضح شعور اور ان کی تکمیل کی پر عز م کوشش،یہ اور اس طرح کی کئی خوبیوں سے آپ کی شخصیت منزہ تھی۔کبھی غصہ بھی کرتے تھے۔ کسی کام کی تکمیل کے لیے زیادہ انتظار یا تاخیر پسند نہیں تھی۔تحریک کے تقاضوں کو بیک وقت اڈریس کرنے کو پسند کرتے۔جب وہ دیکھتے کہ کسی ایک ہی تقاضے پر زیادہ زور دیا جارہا ہے تو وہ اپنے مخصوص انداز سے ناراضی کا اظہار فرماتے۔ ایسے وقت آپ کی باڈی لینگویج سے شخصیت کی جو نرم مزاجی ہے وہ نگاہوں سے اوجھل ہوجاتی۔تحریکی ضروریات کے تحت ہمیشہ افراد کی علمی وفکری تیاری پر زیادہ زور دیا کرتے تھے۔ جب بھی ملاقات ہوتی، گفتگو کا ایک مشترک امر تحریکی ضروریات ہوتا۔

آپ کی شخصیت میں روحانی پہلوبڑا نمایاں محسوس ہوتا تھا۔ علم اور عمل کا ایک حسین امتزاج تھے، اور یہی تاثر مرحوم کے دیرینہ رفقا کا بھی ہے۔علم و عمل کے اس تال میل کا بعض معاملات میں ہم نے بھی مشاہدہ کیا ہے۔ جیسے اللہ سے گہرا تعلق ،جو مختلف اوقات میں ظاہر ہوتا تھا۔ راہِ خدا میں سرگرمی کا ذکر ہوتو خدا کی مدد کا دل نشین انداز سے ذکر فرماتے۔ علم و فہم کے لیے فضل ربانی کا بڑی اہمیت سے ذکر فرماتے۔فرائض کی ادایگی کے بعد بڑی دیر تک اپنی جگہ بیٹھے تسبیح و تہلیل میں مصروف رہتے۔

 کسی اجتماع میں ڈاکٹر صاحبؒ کی آنکھوںمیں کم ہی آنسو آتے تھے ،لیکن جہاں تعلق باللہ سے متعلق کوئی واقعہ ہو تو آنکھیں فوری نم ہوجاتیں۔دوران تعلیم حضرت ابراہیم ؑکے آگ میں ڈالے جانے کا واقعہ ذکر کرتے تو آپ پررقت طاری ہوجاتی ،خصوصاً اس وقت جب یہ ذکر ہوتا کہ حضرت ابراہیم ؑ آگ میں ہیں اور فرشتہ اللہ تعالیٰ سے دعا کی تلقین کرتا ہے، تو آپؑ فرماتے ہیں کہ میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے۔ اسی طرح غار ثور میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو کہنا لاتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا،آپ کے اوپر اسی طرح کی کیفیت طاری کرتا۔آپ کے علمی سفر کو دیکھ کر بجا طور پر کہاجا سکتا ہے کہ اس کے مطابق عمل ہی نے آپ کو ایک بلند مرتبہ عنایت فرمایا ہے۔ علمی و فکری ارتقا کے لیے لازم علم و عمل کا حسین امتزاج کیا ہی خوب راز ہے،جسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم واضح فرماتے ہیں: اَلْعِلْمُ اِمَامُ الْعَمَلِ وَاْلعَمَلُ تَاِبعُہٗ،علم ، عمل کا امام ہے اور عمل اس کا تابع۔

  •  افراد کی تیاری کا منصوبہ: تحریک اسلامی کی علمی و فکری برتری قائم رکھنے کے لیے نوجوانوں کی تیاری،آپ کے خاص کاموں میں سے ایک ہے۔ اس کے لیے عربی زبان ، اسلامیات اور مختلف ادیان کے مطالعے پر مشتمل ایک جامع منصوبہ تیار کیا تھا،جس سے عصری علوم سے فارغ نوجوانوں کو گزارنا چاہتے تھے۔ ۱۹۹۰ء کے اواخر میں سعودی عرب سے ہندستا ن آنے سے قبل ہی اس کے بعض اجز ا پر کام شروع کیا تھا۔ جب ہندستان آمد ہوئی توعلی گڑھ میں مرکز براے مذہبی تحقیقات ورہنمائی (Centre for Religious Studies and Guidance - CRSG)قائم کیاجس کاہمیں طالب علم ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔سعودی عرب میں قیام کے دوران موصوف نے قرآن فہمی اور عربی زبان سے واقفیت کے لیے کوششیں شروع کردی تھیں۔ عربی زبان سکھانے کے لیے خصوصی اسباق مرتب کیے اور ان کے مطابق منتخب لوگوں کی تعلیم کا انتظام فرمایا۔ اس تجربے کی بنیاد پر آپ نے Learning the Langauage of Quran کتاب تصنیف کی۔ اسی کے اسباق CRSGمیں پڑھائے جاتے تھے۔ کبھی ڈاکٹر صاحبؒ خود پڑھاتے اور کبھی مسلم یونی ورسٹی کے پروفیسروں کی خدمات لی جاتیں۔عربی زبان کی تعلیم کے علاوہ نوجوانوں کی تیاری کے لیے آپ نے ہمہ جہت منصوبہ بنایا تھاجس کے تین حصے تھے۔پہلا حصہ عربی زبان اور ادب ، تفاسیر قرآن ،شروح احادیث وغیرہ پر مشتمل تھا۔دوسرے حصے میں اسلامیات، جس کے تحت بنیادی عقائد، جمع وتدوین قرآن، علم الحدیث ،خلفاے راشدین و تابعین کی زندگیاں، معاشرت، معیشت، فلسفہ، سیاسیاست، تاریخ، تصوف، فقہ، تحریکات اسلامی جیسے مضامین شامل تھے۔ تیسرا حصہ مذہبیات پر مشتمل تھا جس کے تحت دنیا کے چھے بڑے مذاہب اسلام،ہندومت، عیسائیت ،یہودیت،جین مت اور بدھ مت کے افکار، عقائد، کلچر، تہذیب وغیرہ کا تقابلی مطالعہ کرایا جاتا ۔
  •  استاد و مزکی: ڈاکٹر عبد الحق ؒ ہمارے استاد ومربی تھے۔ بڑی شفقت اور محبت سے انھوں نے تعلیم وتربیت دی اور تحریک اسلامی کے لیے زندگی وقف کرنے کا جذبہ پروان چڑھایا۔استاد محترمؒ ، قرآن و حدیث سے براہ راست استفادے کی صلاحیت پیدا کرنے پر بھرپور توجہ فرماتے تھے،اور کہتے تھے کہ اسلام کی نمایندگی کے لیے یہ لازمی ہے۔ انھوں نے کہیں سنا یا پڑھا تھاکہ مولانا مودودیؒ کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص چھے ماہ سنجیدہ کوشش کرے تو اتنی عربی سیکھ سکتا ہے کہ قرآن مجید سے براہ راست استفادہ کرسکے۔مولانامودودیؒ کے اس قول کو پرکھنے کا انھوں نے مجھے ایک بہترین ذریعہ سمجھا۔ جس کا ذکرخود انھوں نے CRSG کورس کی تکمیل سے پہلے تحدیث ِنعمت کے طور پر کیا۔کیونکہ میرے علاوہ بقیہ سات طلبہ عربی تعلیم حاصل کیے ہوئے تھے۔

 فوکس، علم کے حصول کے لیے یہ آپ کا ہم سب سے بڑا خاص مطالبہ تھا۔ اس کے لیے موصوف کبھی کبھی سنجیدگی کے الفاظ بھی کہا کرتے۔ صرف پڑھا ئی پر دھیان دینے کی تاکید کرتے۔اگر کسی وجہ سے ٹیسٹ میں نمبر کم آتے تو فوری اپنے چیمبر میں طلب کرتے اور خوب ڈانٹتے۔ پھر وہی یکسوئی کی تلقین فرماتے۔ ادھر ادھر گھومنے کی اجازت بالکل نہیں تھی۔ اور کہتے کہ ہم تمھیں تحریک کے لیے ہی تیار کررہے ہیں ،کورس بڑا بھاری ہے، اس لیے ہر دن کو اہم سمجھو،پڑھائی پر دھیان دو۔ ہم تمام طلبہ کی خواہش تھی کہ پٹنہ میںمنعقد ہونے والی اسلامک اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (ISO) کی پہلی نارتھ انڈیاکانفرنس (نومبر۱۹۹۶ئ)میں شریک ہوں لیکن موصوف نے منع فرمایا اور کہا کہ یہ وقت اپنے آپ کو تحریک کے لیے تیار کرنے کا ہے۔فلاں فلاں مضامین باقی ہیں اور فلاں مقام سے فلاں صاحب پڑھانے آرہے ہیں۔پڑھائی پر توجہ دو۔

کُل ہند تربیتی اجتماع منعقدہ چینئی (۲تا ۴جنوری۲۰۱۲ئ)میں منتظمین نے ہمارے قیام کا انتظام استاد محترمؒ کے ساتھ فرمایاتھا۔ یہ قیام موصوف سے تفصیلی استفادے کا آخری موقع تھا۔  اس وقت ڈاکٹرصاحب ؒکی طبیعت ناساز تھی۔ کمرے میں زیادہ تر خاموش ہی رہا کرتے تھے۔ پیروں میں شدید درد رہتا،پائوں دبانے کی خواہش ظاہر کی تو منع کرتے۔ اس دوران ویلفیئر پارٹی کے قیام، وابستگان جماعت کی تربیت، علمی وفکری برتری کے لیے ترجیحات کا تعین، اسلام کو ایک متبادل کی حیثیت سے پیش کرنے کے طریقوں پر گفتگو کا موقع ملتا رہا۔ طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے ان ثقیل موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کا موقع نہ مل سکا، البتہ جو بھی آپ سے سنا اس سے بڑی حد تک اطمینان ہوا۔اس موقع پر موصوف ؒ نے قرآن اور احادیث رسولؐ پر ہمارا جو کام ہوا ہے اس سے متعلق استفسار کیا، مسودہ دیکھ کر انتہائی مسرت کا اظہار فرمایا اور دعا دی۔ ان کا ایک خاص وصف نوجوان کی تربیت اور ان کی پیش رفت دیکھ کر انتہائی خوشی کا اظہار کرناتھا۔ یہ موضوع انھیں اتنا عزیز تھا کہ اس کا ذکر جب ایس آئی او کے اجتماعات میں کرتے توآپ کی آنکھوں سے آنسو نکل آتے۔استادمحترم ؒکی نصیحتوں میں تین باتیں بڑی تکرار سے بیان ہوتی تھیں۔ انھی باتوں کو آپ نے بحیثیت امیر جماعت ،تمام ہی وابستگان کے لیے مختلف اوقات میں بیان فرمایا : ۱- تعلق باللہ ۲-علمی وفکری برتری ۳- اخلاقی برتری۔

ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی ؒکے بعد ڈاکٹر محمد عبد الحق انصاری ؒکا انتقال ، تحریک اسلامی کی   علمی و فکری برتری کے لیے مطلوب افراد کی شدید قلت کا تقاضا کر رہا ہے۔ہمارے سابقین نے اپنے میدان میں مہارت حاصل کرتے ہوئے دین اسلام کی جس باوقار انداز سے ،ملک اور بیرونِ ملک نمایندگی فرمائی، وہی اب تحریک اسلامی کی تیسری نسل کا طرہ ٔ امتیاز ہونا چاہیے۔بلاشبہہ تحریک اسلامی اپنے افکار کی گہرائی، اپنی حکمت عملی کی بالیدگی کے ذریعے جس تیزی سے وسعت اختیارکرتی جارہی ہے، ’جیالوں‘ کی ضرورت کا احساس کراتی ہے۔ ایسے لوگ جن کے لیے تحریک ایک جنون بن جائے۔ جن کے لیے تحریک سے وابستگی رات اوردن ان تھک جدوجہد کے ہم معنی ہوجائے ۔  نصب العین کے واضح شعور سے سرشار اپنے مستقبل سے بڑھ کرتحریک کے مستقبل کی فکر کرنے والے ہوجائیں ۔ا ستاد محترم ؒ کی رحلت سے یہی سبق ملاکہ تحریک اسلامی سے والہانہ شغف ہو اور اپنی تمام تر صلاحیتوں سے اسے تقویت پہنچانے کی ہر دم فکر و کوشش۔آج تحریک اسلامی جن حالات میں اقامت دین کی جدوجہد میں مصروف ہے اس کے لیے فضل الرحمن فریدی ؒ اور عبد الحق انصاری ؒ جیسے اپنے میدان کے ماہرین کی ضرورت ہے۔دونوں کی رحلت کے بعد تحریک میں اس بات پر سنجیدگی سے غوروفکر ہونا چاہیے کہ کس طرح مختلف سطحوں پر افراد کی تربیت کا نظم ہوسکتا ہے۔     اس کے بغیر تحریک کا اپنے مقصد کے حصول میں محسوس پیش رفت کرنا ممکن نہیں۔

  • نصرتِ دین ھی دنیا کا سب سے بڑا کام:ڈاکٹر محمد عبد الحق انصاری ؒ کے اساتذہ میں مولانا صدرالدین اصلاحی ؒکا نام نامی بڑا نمایا ں ہے۔موصوف ان کے طریقۂ تربیت پر روشنی ڈالا کرتے تھے۔ مولانا صدرالدین اصلاحیؒ نے بڑے پرزور انداز میں جو بات کہی ہم نے اس کا اثر ان کے شاگر د رشید کی زندگی میں نمایاں طور پرمحسوس کیا ہے،یعنی دنیا میں نصرتِ دین سے بڑھ کر کوئی اور کام نہیں۔انتقال کے بعدڈاکٹرصاحبؒ کا چہرہ بڑا مطمئن نظر آرہا تھا۔چہرے کے آثار اسی طرح نمایاں محسوس ہو رہے تھے، جس طرح کسی اہم کام کی تکمیل کے بعد آرام سے سوتے ہوئے محسوس ہوتے تھے۔ بلاشبہہ موصوف نے ایک لمبی عمر پائی، آخیر دم تک کارخیر میں مصروف رہتے ہوئے اپنے دانا ہونے کا ثبوت دیا۔ تدفین کے بعد محترم امیر جماعت سید جلال الدین عمری نے گھر والوں کو صبر کی تلقین فرمائی،ڈاکٹرصاحبؒ سے اپنی جدائی کے صدمے کا اظہار فرمایا،تحریک کے لیے ان کے بے مثال کارناموں کا ذکر فرمایا۔اس موقع پر رابعہ روتے روتے کہتی جارہی تھیں کہ ہاں، انھیں تو بس جماعت، جماعت، جماعت ہی کاکام عزیز تھا۔یہ کہنے میں دکھ نہیں بلکہ رشک جھلک رہا تھا۔افسوس نہیں بلکہ فخر اُجاگر ہورہا تھا۔ اللہ کی راہ میں سرگرم رہنے والوں کے لیے جو انعامات ملتے ہیں ان کے سلسلے میں ہمیں اکثر ڈاکٹرصاحبؒ اِنْ تَنْصُرُ وْا اللّٰہَ یَنْصُرْکُم وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ کہہ کر تلقین فرمایا کرتے۔آج، جب کہ موصوف ۸۱سالہ جدوجہد کے بعد رب کریم سے ملاقات کے لیے رخصت ہوئے ہیں تو ان کی اہلیہ کے تاثرات اور مرحوم کے بھائی ظفر الحق کا کہنا کہ تمام بھائیوں کی نگاہ میں ڈاکٹرصاحبؒ کی بڑی عزت تھی،اور سبھی انھیں ٹوٹ کر چاہتے تھے ،معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کے خدمت گزاروں کے لیے ماحول کو سازگار بناتا ہے،اور لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا کرتا ہے۔اللہ تبارک وتعالیٰ ڈاکٹرمحمد عبد الحق انصاری ؒ کو غریقرحمت فرمائے۔ اللّٰھُمَّ  اغْفِرْ لَہٗ وَارْحَمْہٗ وَاعْفُ عَنْہٗ وَادْخِلْہٗ فِیْ الْجَنَّۃِ-  آمین یا رب العالمین!
  •  زوجۂ مومنہ: ڈاکٹر عبد الحق مرحوم کے اس علمی و تحقیقی کارناموں میں ان کی شریک حیات کا بڑا غیر معمولی کردار رہاہے۔آپؒ کی اہلیہ محترمہ رابعہ بڑی خوش مزاج اور گھر یلو کام کاج میں مکمل یکسو ایک صالحہ ہیں۔جیسے ہمیں ڈاکٹر صاحب ؒ تحریک میں یکسو نظر آتے تھے، بالکل اسی طرح موصوفہ گھر کا محاذ اور ڈاکٹر صاحب ؒ کی صحت کی نگہداشت میں یکسو نظرآتیں۔ گھر کے کاموں کے لیے ڈاکٹر صاحب ؒکو کم ہی زحمت اٹھانی پڑتی تھی۔اللہ تعالیٰ رابعہ کوصبر و استقامت عطا فرمائے اور بہترین اجر سے نوازے۔ رسول اکرمؐ کا فرمان کہ دنیا کی بہترین متاع نیک بیوی ہے، اور اگر بیوی کی یہ خوبی ہو کہ وہ اپنے شوہر کے نیک کاموں میں تعاون دے(زَوْجَۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ تُعِیْنُہٗ عَلیٰ اِیْمَانِہٖ)، ایسی خاتون کے بلند درجات کے کیا کہنے۔ بلاشبہہ تحریک اسلامی کے لیے مثالی جدوجہد اسی وقت ممکن ہے، جب کہ شوہر کے ساتھ بیوی بھی نصب العین کے تعاون میں جٹ جائے۔