نومبر ۲۰۱۲

فہرست مضامین

اقبال اور سیکولرزم

بشیراحمد ڈار | نومبر ۲۰۱۲ | اقبالیات

Responsive image Responsive image

لفظ’ سیکولر‘اپنے لغوی اور اصطلاحی مفہوم میں یورپ کے مذہبی ماحول کی پیداوار ہے۔ عیسائی مذہب کی جو تشریح اور تعبیر پولوس نے کی،اس میں چند اخلاقی اصول تو موجود تھے، لیکن شریعت کی اس میں کوئی گنجایش نہ تھی۔ اس زمانے کے مروجہ باطنی مذاہب اور اسرار میں یہ تصور موجود تھا کہ انسانی روح ایک پاکیزہ شے ہے، جو بدقسمتی سے اس مادی دنیا کی قید میں اسیر ہوگئی ہے۔ اس لیے انسان کا نصب العین یہ ہے کہ جہاں تک ہوسکے، اس دنیاوی زندگی کی آلایش سے اپنے آپ کو پاک رکھا جائے۔ انھی تصورات کے زیراثر پولوس نے حضرت عیسٰی ؑکی تعلیم کو اس طرح پیش کیا کہ گویا وہ بھی اسی مقصد کی خاطر اس دنیا میں آئے تھے۔ چنانچہ پہلی دو تین صدیوں تک عیسائیوں کی کثیرتعداد اپنی انفرادی نجات کی کوششوں میں منہمک رہی۔ معاشرتی اور تمدنی ذمہ داریاں ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھیں۔ عیسائیت ایک نظامِ رہبانیت تھا، جو اس ناپاک دنیا میں قائم کیا گیا اور جس کا مدنی اُمور میں کوئی دخل نہیں تھا۔ چنانچہ جہاں تک عملی زندگی کا تعلق ہے، وہ ہرمعاملے میں رومی حکومت کے زیرفرمان رہی۔ قسطنطین نے بادشاہ بننے کے بعد عیسائیت قبول کرلی۔ اس نے کوشش کی کہ اس نئے مذہب کی بنیاد پر رومی سلطنت میں اتحاد و یگانگت پیدا کرسکے لیکن حقیقت میں عیسائیت بطور نظامِ اجتماع نہ اُس وقت کارآمد تھی اور نہ اس وقت کارآمد ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قسطنطین کے جانشین جولین نے پھر سے دیوتا پرستی کی طرف رجوع کیا اور اس کی فلسفیانہ تاویلات سے لوگوں میں وحدتِ افکار و کردار پیدا کرنے کی کوشش کی۔

انھی قدیم باطنی اَسرار اور عیسائیت کے تصورات کی آمیزش سے مانی نے اپنا فلسفۂ حیات پیش کیا۔ اس کی نمایاں خصوصیت جسم و روح، مادیت و روحانیت، یزدان و اہرمن کی مطلق ثنویت ہے جن میں کسی قسم کا نقطۂ اتصال موجود نہیں۔ اس مانوی تحریک نے عیسائیت کے ارتقا پر بڑا اثر ڈالا۔ اگستائن جس نے کلیسا کی ابتدائی تاریخ میں ایک مؤثر کردار ادا کیا ہے، عیسائیت قبول کرنے سے پہلے مانوی مذہب ہی کا پیرو تھا۔ محققین کا خیال ہے کہ نوروظلمت کی مانوی ثنویت کے افکار اس کے باعث عیسائیت میں رائج ہوئے۔ جیساکہ اقبال نے خود ایک جگہ کہا ہے کہ ’’مغرب نے مادے اور روح کی ثنویت کا عقیدہ مانویت کے زیراثر قبول کرلیا ہے۔ اس کے برعکس اسلام کے نزدیک ذات انسانی بجاے خود ایک وحدت ہے۔ وہ مادے اور روح کی کسی ناقابلِ اتحاد ثنویت کا قائل نہیں۔ اسلام کی رُو سے خدا اور کائنات، روح اور مادہ ایک ہی کُل کے مختلف اجزا ہیں۔ انسان کسی ناپاک دنیا کا باشندہ نہیں جس کو اسے ایک روحانی دنیا کی خاطر ترک کردینا چاہیے۔ اسلام کے نزدیک مادہ، روح کی اس شکل کا نام ہے جس کا اظہار قیدمکانی و زمانی میں ہوتا ہے۔

خطبات میں فرماتے ہیں کہ ’’اسلام نے روحانی اور مادے کی تفریق کبھی روا نہیں رکھی۔ کسی عمل کی ماہیت کا فیصلہ اس لحاظ سے نہیں کیا جاتا کہ اس کا تعلق کسی حد تک حیاتِ دنیوی یا سیکولر سے ہے، بلکہ اس کا انحصار صاحب ِ عمل کے ذہنی رجحان پر ہے۔اگر زندگی کی مقصدیت کو سامنے نہیں رکھا جاتا تو ہمارا عمل دنیوی ہے، اور اگر یہ مقصدیت ہماری آنکھوں سے اوجھل نہیں تو ہمارا عمل روحانی ہے۔ قرآن پاک کے نزدیک حقیقت مطلقہ محض روح ہے اور اس کی زندگی عبارت ہے اُس فعالیت سے جس کو ہم زمانے میں جلوہ گر دیکھتے ہیں۔ لہٰذا یہ طبیعی اور مادی اور دنیوی ہی تو ہے جس میں روح کو اپنے اظہار کا موقع ملتا ہے اور اس لیے ہر وہ شے جسے اصطلاحاً سیکولر کہا جاتا ہے اپنی اصل میں روحانی تسلیم کی جائے گی‘‘۔(تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ،ص ۲۳۷- ۲۳۹)

تن و جاں را دوتا گفتن کلام است

تن و جاں را دوتا دیدن حرام است

بہ جاں پوشیدہ رمزِ کائنات است

بدن حالے ز احوالِ حیات است

(تن و جاں کو الگ الگ کہا تو جاسکتا ہے، مگر انھیں الگ الگ سمجھنا حرام ہے۔ جان کے اندر کائنات کا راز پوشیدہ ہے، بدن احوالِ حیات میں سے ایک حال ہے)۔

زندگی کے اس غلط نقطۂ نظر کے باعث عیسائی مذہب میں شروع ہی سے کلیسا اور ریاست کے درمیان ایک قسم کا بُعد اور تفریق پیدا ہوگئی۔ یہ صحیح ہے کہ کلیسائی اقتدار اور حاکمیت نے کافی عرصے تک یورپ کے مختلف ملکوں میں خالص دینی بنیاد پر اتحاد و یگانگت قائم رکھی لیکن لوتھر کی بغاوت سے یہ حالات یکسر بدل گئے۔ ہزار برائیوں کے باوجود کلیسائی اقتدار نے مذہبی اور اخلاقی اقدار کو انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا نصب العین بنایا ہوا تھا۔ لوگ زندگی کے ہر پہلو کو مذہبی اور اخلاقی نقطۂ نگاہ کے مطابق ڈھالتے تھے۔ ان کی معاشرتی طرزِ زندگی، ان کا اقتصادی اور معاشی نظام، سلطنتوں کے باہمی میل جول سبھی اخلاقی اصولوں کی روشنی میں طے پاتے تھے۔ لیکن لوتھر نے جب کلیسا کے خلاف آواز اُٹھائی تو اس سے بہت سے دیگر نتائج کے علاوہ دو باتیں خاص طور پر ظاہر ہوئیں۔ پروٹسٹنٹ راہنمائوں نے مروجہ مذہبی رسوم پر بڑی سخت تنقید کی۔ ان کا موقف یہ تھا کہ کلیسا کی حاکمیت کے زیراثر افراد کی آزادی اور اختیار ختم ہوچکا ہے۔ وہ مذہبی اور اخلاقی معاملات کا فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں۔ آخری فیصلہ ہرمعاملے میں کلیسا کا ہوتا ہے۔ اس کے خلاف ان راہنمائوں کا موقف یہ تھا کہ اخلاق کا آخری معیار ہر انسان کا اپنا دل اور ضمیر ہے۔ چنانچہ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مذہب کی سماجی اہمیت ختم ہوگئی۔ ہرآدمی کو اجازت تھی کہ وہ اپنی داخلی زندگی میں مذہب سے وابستگی قائم رکھتے ہوئے زندگی کے دوسرے شعبوں میں جس طرح چاہے عمل کرے۔ مذہب محض ایک شخص کا ذاتی معاملہ ہے۔ اس کا کوئی تعلق اس کی باقی ماندہ زندگی سے کچھ نہیں اور نہ ہونا چاہیے۔ اس اصول کے تحت مذہب اور ریاست میں مکمل علیحدگی اور تفریق پیدا ہوگئی۔ یہ تفریق ایک معنی میں اسی فلسفیانہ ثنویت کا منطقی نتیجہ تھی جو مغربی حکما نے بقول اقبال مانی کے زیراثر اختیار کی تھی:

بدن را تا فرنگ از جاں جدا دید

نگاہش ملک و دیں راہم دوتا دید

کلیسا سبحۂ پطرس شمارد

کہ او با حاکمی کارے ندارد

بہ کارِ حاکمی مکر و فنے بیں

تنِ بے جان و جان بے تنے بیں

(جب فرنگ نے بدن کو روح سے الگ دیکھا تو پھر اس نے حکومت اور مذہب کو بھی جدا جدا کردیا۔ کلیسا صرف پطرس کی تسبیح شمار کرتا رہا، اسے حکومت سے کوئی سروکار نہ رہا۔ اس کا نتیجہ ہے کہ وہاں حکومت مکروفن پر مبنی ہے، تن بے جان ہوگیا، اور جان بے تن)۔

ملک و دین ___ ریاست اور مذہب، مملکت اور اخلاق کی اس جدائی کا علَم بردار میکیاولی تھا جس نے اپنی کتاب پرنس(شہزادہ) میں حکومت کے معاملات میں مذہب اور اخلاق کو برطرف کرکے خالص ابن الوقتی حکمت عملی کی تلقین کی۔ اس باطل پرست اطالوی مفکر کے نزدیک مملکت ہی ’معبود‘ یعنی نصب العین ہے ،جس کی ضروریات کسی قانونِ اخلاق کے تابع نہیں:

باطل از تعلیم او بالیدہ است

حیلہ اندازی فنے گردیدہ است

طرحِ تدبیرِ زبوں فرجام ریخت

ایں خسک در جادۂ ایام ریخت

شب بچشم  اہلِ عالم چیدہ است

مصلحت تزویر را نامیدہ است

(اس کی تعلیم سے باطل نے فروغ پایا اور حیلہ اندازی نے فن کی صورت اختیارکرلی۔اس نے ایسے مسلک کی بنیاد رکھی جس کا انجامِ بہت بُرا تھا اور اس طرح زمانے کی راہ میں کانٹے بکھیردیے۔ اس نے دنیا والوں کی آنکھوں کے سامنے رات کی تاریکی پھیلا دی اور مکروفن کا نام مصلحت رکھ دیا)۔

اس ’حیلہ اندوز‘ اور ’پُر از تزویر سیاست کو اقبال ’لادین سیاست‘ یعنی سیکولرزم کا نام دیتا ہے:

مری نگاہ میں ہے یہ سیاستِ لادین

کنیزِ اہرمن و دوں نہاد و مُردہ ضمیر

ہوئی ہے ترکِ کلیسا سے حاکمی آزاد

فرنگیوں کی سیاست ہے دیوبے زنجیر

دین و اخلاق سے بے نیازی کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ لوگ بھی جو اپنی انفرادی زندگی میں اخلاق کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں اور مذہب کے احکام کی پیروی کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتے، لیکن جب وہی افراد ریاست و حکومت کے معاملات اور بین الاقوامی مسائل پر غوروخوض شروع کرتے ہیں تو ہرقسم کے اخلاقی تقاضوں سے بے نیاز ہوکر فیصلہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی سیاست فساد فی الارض کا ایک بدترین سرچشمہ ہے۔ اقتدار کسی ایک مطلق العنان بادشاہ کے ہاتھ میں ہو یا عوام کے ہاتھوں میں، جب بھی سیاست کو اخلاق سے علیحدہ رکھا جائے گا تو اس سے فتنہ و فساد ہی پیدا ہوگا   ؎

جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

ا س چنگیزی کے باعث انسان کی تمدنی زندگی تباہی سے دوچار ہے۔ ہرقسم کی ترقی کے باوجود انسان اپنی زندگی کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہیں۔ معاشی زندگی میں استحصال و لُوٹ، سماجی زندگی میں بے چینی اور خودغرضی، بین الاقوامی سطح پر باہمی بداعتمادی، جنگ کی خوف ناک تیاریاں، یہ سب پریشان کن حالات اقبال کے خیال میں صرف سیکولر نقطۂ نگاہ اختیار کرنے کا نتیجہ ہیں:

یورپ از شمشیرِ خود بسمل فتاد

زیر گردوں رسمِ لادینی نہاد

گرگے اندر پوستینِ برۂ

ہر زماں اندر کمینِ برۂ

مشکلاتِ حضرتِ انساں ازو ست

آدمیت را غم پنہاں ازو ست

(یورپ اپنی تلوار سے خود ہی گھائل ہوچکا ہے۔ اس نے دنیا میں رسمِ لادینی کی بنیاد رکھ دی ہے۔ اس کی حالت اس بھیڑیئے کی سی ہے جس نے بکری کے بچے کی کھال اُوڑھ رکھی ہے۔ وہ ہرلمحے ایک نئے برہ کی گھات میں ہے۔ نوعِ انسان کی ساری مشکلات اس کی وجہ سے ہیں۔ اسی کی وجہ سے انسانیت غمِ پنہاں میں مبتلا ہے)۔

یہاں تک کہ وہ علم و تحقیق جو اقبال کے نزدیک انسانی خودی کے استحکام کے لیے ضروری ہے، اس لادین نقطۂ نگاہ کے زیراثر قومی خودی کی موت کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ تسخیرکائنات کا مقصد انسان کو اس دنیا میں صحیح معنوں میں نائب حق کے منصب کا اہل بنانا تھا لیکن بدقسمتی سے اس سیکولر رجحان نے اس میں وہ زہر ملا دیا ہے جس کے باعث خود ’مارہا در پیچ و تاب‘:

علم اشیا خاکِ ما را کیمیا ست

آہ! در افرنگ تاثیرش جدا ست

آہ! از افرنگ و از آئینِ او

آہ از اندیشۂ لادینِ او

اے کہ جاں را باز می دانی ز تن

سحرِ ایں تہذیبِ لادینے شکن

(علم اشیا کائنات نے ہماری خاک کو کیمیا بنادیاہے مگر افسوس کہ اہلِ فرنگ پر اس کی تاثیر مختلف انداز میں ظاہر ہوئی۔ افسوس ہے افرنگ پر اوراس کے طریق کار پر ، اس کی لادین فکر پر بھی افسوس ہے۔اے مسلمان! تو جو رُوح کو بدن سے الگ سمجھتا ہے اُٹھ اور اس لادین تہذیب کے جادو کو توڑ دے)۔

یہی علم خیرِکثیر ہے۔ اگر اس کا تعلق حق تعالیٰ سے ہو۔ اگر دین و اخلاق کے سرچشمے سے رابطہ موجود ہو تو یہ علم پیغمبری کے ہم پایہ ہے۔ لیکن جب یہ علم سوزِ دل سے عاری ہوجائے اور حق سے بیگانگی کا مظہر ہو، تو یہ بجاے خیرِکثیر کے شرِّاعظم بن جاتا ہے، جس کے فساد کی لپیٹ میں اس وقت ساری دنیا پھنسی ہوئی ہے۔ اس کا واحد علاج اقبال کی نگاہ میں لادینیت کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنا ہے۔ انسانی زندگی میں سکون و اطمینان، راحت و سعادت تبھی ممکن ہے کہ دین و دنیا کی دوئی ہمیشہ کے لیے ختم کردی جائے۔ اخلاق اور سیاست کی بے تعلقی کے باعث جو غیرمتوازن حالات پیدا ہوئے ہیں، اس کو اقبال نے بڑے عمدہ انداز میں یوں پیش کیا ہے:

کلیسا کی بنیاد رہبانیت تھی

سماتی کہاں اس فقیری میں میری

خصومت تھی سلطانی و راہبی میں

کہ وہ سربلندی ہے، یہ سربنریری

سیاست نے مذہب سے پیچھا چھڑایا

چلی کچھ نہ پیرِ کلیسا کی پیری

ہوئی دین و دولت میں جس دم جدائی

ہوس کی امیری، ہوس کی وزیری

دوئی ملک و دیں کے لیے نامرادی

دوئی چشمِ تہذیب کی نابصیری

یہ اعجاز ہے ایک صحرا نشیں کا

بشیری ہے آئینہ دارِ نذیری

اسی میں حفاظت ہے انسانیت کی

کہ ہوں ایک جنّیدی و اردشیری

جب علم و قوت، لادینی سے متاثر ہوں تو زہر ہلاہل سے زیادہ خوف ناک ہیں لیکن جب یہی علم و قوت، دین و اخلاق سے مربوط ہوں تو زہر کا تریاق اسی سے حاصل ہوتا ہے۔ ایوبی اور   نگاہ بایزید ایک ذات میں موجودہونا ہی انسانیت کی بقا کا ضامن ہے۔ جب انسان اس نہ سُپہر کے طلسم کو توڑ دیتا ہے لیکن اس کے نشیب و فراز، رنج و راحت سے متاثر نہیں ہوتا تبھی دنیا فساد و فتنہ سے محفوظ رہ سکتی ہے    ؎

شکوہِ خسروی این است این است

ہمیں ملک است کوتوام بہ دین است

(بس یہی شکوہ خسروی ہے، یہی سلطنت ہے جو دین کے ساتھ جڑواں ہے)۔

لادینیت کا ایک دوسرا مظہر وطن کا غلط تصور ہے۔ بدقسمتی کہنا چاہیے کہ اس خطرناک نظریے کا آغاز بھی تحریک اصلاحِ کلیسا کے ہاتھوں ہوا۔ جیساکہ اُوپر ذکر کیا جاچکا ہے۔ کلیسائی حاکمیت کے باعث تمام عیسائی ممالک ایک رشتۂ اخوت میںمنسلک تھے اور اس اتحاد و اخوت کی بنیاد مذہبی اور اخلاقی یگانگت پر تھی۔ جب لوتھر نے کلیسا کے اس عالم گیر نظام کو ختم کردیا تو ہرملک کو اپنی انفرادیت قائم رکھنے کے لیے کسی نفسیاتی بنیاد کی ضرورت تھی۔ یہ نفسیاتی بنیاد نظریۂ وطن و نسل نے فراہم کی۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ لوتھر کی یہ بغاوت درحقیقت جرمن قومیت کی سرفرازی کے لیے تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسیح کے عالم گیر نظامِ اخلاق کے بجاے بے شمار اخلاقی نظام وجود میں آئے۔ چنانچہ اہلِ مغرب کی نگاہیں اس عالم گیر انسانی نصب العین سے ہٹ کر اقوام و ملل کی تنگ حدود میں اُلجھ کر رہ گئیں۔ اس کے لیے انھیں وطنیت کے تصور سے زیادہ اور کوئی بہتر اساس میسر نہ آئی۔

وطنیت کی یہ اساس اپنے بنیادی مفہوم میں انسانی جماعت کی ہیئت کا ایک سیاسی اصول ہے، جس کے مطابق ایک خاص جغرافیائی حدود میں رہنے والے لوگ جو ایک ہی زبان اور نسل سے تعلق رکھتے ہیں، اس وطن کو اپنا معبود اور نصب العین قرار دیتے ہیں۔ وطن ہی ان کی تمام وفاداریوں کا مرکز ہے اور وہی نیکی اور بدی، خیروشر کا آخری معیار۔ اس لیے اقبال نے مختلف جگہ ’وطن‘ کو دیوتا اور خدا کے نام سے پکارا ہے۔ ع  ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے۔

اقبال کا خیال ہے کہ وطنیت کا یہ سیاسی نظریہ انسانیت کے لیے سمِّ قاتل ہے کیونکہ اس کے باعث انسان آدمیت سے محروم ہوکر اسفل السافلین تک جا پہنچتا ہے:

آں چناں قطع اخوت کردہ اند

بر وطن  تعمیرِ ملّت کردہ اند

تا وطن را شمعِ محفل ساختند

نوعِ انسان را قبائل ساختند

ایں شجر جنت ز عالم بردہ است

تلخیِ پیکارِ بار آوردہ است

مردمی اندر جہاں افسانہ شد

آدمی از آدمی بیگانہ شد

(اہلِ مغرب نے ا س طرح اخوت کی جڑ کاٹی ہے کہ وطن کی بنا پر قوم کی تعمیر کی ہے۔ وطن کو شمع محفل بنانے سے نوعِ انساں مختلف قبائل میں تقسیم ہوگئی ہے۔ انھوں نے جہنم میں جنت تلاش کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کوشش میں اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر تک پہنچا دیا ہے۔ وطنیت کے شجر نے  دُنیا سے جنت (امن و سُکون) رخصت کردیا ہے۔ اس درخت کا پھل جنگ کی تلخی کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ دونوں عالمی جنگیں وطنیت کی بناپر لڑی گئیں۔ انسانیت دُنیا میں افسانہ بن کر رہ گئی۔ آدمی آدمی سے بیگانہ ہوگیا)۔

اسلام کا مقصد محض انسانوں کی اخلاقی اصلاح نہیں بلکہ ان کی اجتماعی زندگی میں ایک تدریجی مگر اساسی انقلاب پیدا کرنا ہے جو قومی اور نسلی نقطۂ نگاہ کو بدل کر خالص انسانی شعور پیدا کرے۔ ’’اسلام نے بنی نوعِ انسان کو سب سے پہلے یہ پیغام دیا کہ دین نہ قومی ہے نہ نسلی، نہ انفرادی اور نہ پرائیویٹ، بلکہ خالصتاً انسانی ہے اور اس کا مقصد تمام فطری امتیازات کے باوجود  عالمِ بشریت کو متحد اور منظم کرنا ہے۔ ایسا نظام صرف عقائد کی بناپر ہی قائم ہوسکتا ہے۔ صرف یہی وہ طریقہ ہے جس سے عالمِ انساں کی جذباتی زندگی اور اس کے افکار میں یک جہتی اور ہم آہنگی پیدا ہوسکتی ہے‘‘۔(حرف اقبال، ص ۲۵۱-۲۵۲)

یہ اساسی عقیدہ اقبال کے خیال میں صرف توحید ہے جس کی بنا پر انسانی سوسائٹی کو ایک بہتر طریقے سے منظم کیا جاسکتا ہے۔ توحید کا مفہوم یہ ہے کہ ہماری وفاداریاں ملوک و سلاطین    اور دیگر سارے مفادات سے ہٹ کر صرف ذاتِ الٰہی سے مخصوص ہوجائیں۔ چونکہ یہ ذات الٰہیہ  فی الحقیقت زندگی کی روحانی اساس ہے، اس لیے اللہ کی اطاعت دوسرے لفظوں میں انسان کی اپنی فطرتِ صحیحہ کی اطاعت ہوئی۔ جب اس اصل توحید کو سیاسی اصولِ عمل کی حیثیت دی جاتی ہے تو اس سے انسان کو بحیثیت انسان دیکھا جاتا ہے۔ اس وقت ملک، قوم، رنگ نسل وغیرہ کے امتیاز بالکل ختم ہوجاتے ہیں۔ قرآن کے نزدیک قابلِ امتیاز اگر کوئی شے ہے تو وہ انسانی اعمال کا اچھا اور بُرا ہونا ہے نہ کہ اس کا رنگ و نسل وغیرہ۔ ’’وحدت صرف ایک ہی معتبر ہے اور وہ بنی نوع انسان کی وحدت ہے، جو نسل و زبان و رنگ سے بالا ہو۔ جب تک جغرافیائی وطن پرستی اور رنگ و نسل کے اعتبارات کو نہ مٹایا جائے گا اس وقت تک انسان اس دنیا میں فلاح و سعادت کی زندگی بسر نہ کرسکے گا‘‘ (ایضاً،ص ۲۴۷)    ؎

برتر از گردوں مقامِ آدم است

اصلِ تہذیب احترامِ آدم است

(آدم کا مقام آسمان سے بھی بلند تر ہے، احترامِ آدم ہی تہذیب کی بنیاد ہے)۔

اقبال نے جب بین الاقوامی سطح پر جمعیت اقوام کی مخالفت کی تو اس کا باعث بھی اس نظریۂ وطنیت کی مخالفت تھی۔ اس کے خیال میں کوئی ایسا بین الاقوامی ادارہ جس کی بنیاد انسانوں کے اجتماع کے بجاے محض اقوام کا اجتماع ہو، کبھی خیروسعادت کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔ اس کے نزدیک صحیح نصب العین جمعیت اقوام کے بجاے جمعیت آدم ہونا چاہیے    ؎

تفریق ملل حکمتِ افرنگ کا مقصود

اسلام کا مقصود فقط ملّتِ آدم

اقبال نے اپنے کلام میں لادینی جمہوریت کی سخت مخالفت کی ہے جس کی بنا پر لوگوں نے اس پر فسطائیت کا الزام لگایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال کی مخالفت کا باعث جمہور دشمنی نہیں بلکہ جمہوریت دشمنی ہے۔ وہ عام لوگوں کی صلاحیت کا نہ منکر ہے اور نہ ان کو آزادیِ راے اور صحیح اختیارات دینے کے خلاف ہے۔ اس کے خیال میں ہر بنی آدم تکریم و عظمت کا حامل ہے۔ نیٹشے کے خیال میں عوام صحیح معنوں میں ’انام‘ ہیں اور اس لیے اس نے تمام اختیارات و حقوق ان سے لے کر فوق البشر کے سپرد کردیے۔ ان کے لیے سواے تقلید اور پیروی کے اور کوئی چارئہ کار نہیں۔ لیکن اقبال کے ذہن میں عوام سے متعلق کوئی ایسا پست تخیل موجود نہیں۔ ’’اسلامی جمہوریت ایک روحانی اصول ہے جس کی بنیاد اس مفروضے پر ہے کہ ہرانسان چند بالقوہ صفات کا حامل ہے جو ایک خاص قسم کی سیرت کی تشکیل سے بروے کار آسکتی ہیں۔ اسلام کے ابتدائی دور میں جن لوگوں نے بہترین کارنامے پیش کیے وہ بھی عوام ہی تھے‘‘۔ (دیباچہ اسرار خودی، انگریزی ترجمہ، ص ۱۹، لاہور ۱۹۵۰ئ)

اقبال نے جب جمہوریت پر اعتراض کیا ہے تو اس سے اس کی مراد جمہوریت کی وہ شکل ہے، جو مغرب میں موجود ہے جس کی اساس وطن و قوم کے غلط تصور پر قائم ہے اور جس نے لوگوں کو اخلاق اور انسانیت کا پیغام دینے کے بجاے فتنہ و فساد، خون ریزی اور ہلاکت،استحصال اور لُوٹ مار کے بازار گرم کیے ہیں۔ یہ سرمایہ داروں کی جنگ زرگری ہے۔ قیصریت اور استبداد کا ایک پردہ ہے۔ اس ’شرابِ رنگ و بو‘ کو اختیار کرنے سے سواے نامرادی کے اور کچھ حاصل نہیں:

فرنگ آئینِ جمہوری نہاد است

رسن از گردنِ دیوے کشاد است

ز باغش کشتِ ویرانے نکوتر

ز شہر او بیابانے نکوتر

گروہے را گروہے در کمین است

خدایش یار اگر کارش چنیں است

(فرنگ نے جمہوری آئین کی بنیاد رکھ کر دیو کی گردن کو زنجیر سے آزاد کردیا ہے۔اس کے باغ سے ویران کھیتی اور اس کے شہروں سے بیاباں بہتر ہیں۔ ہر گروہ دوسرے گروہ کی گھات میں ہے، اگر معاملہ یہی رہا، تو پھر ان سے بھلائی کی کوئی اُمید نہ رکھ)۔

جمہوریت کی حقیقی غلطی اقبال کے نزدیک یہ ہے کہ لادینی نقطۂ نگاہ کے زیراثر مغرب نے لوگوں کو ہرمعاملے میں مطلق العنان بنا دیا ہے۔ ان کے نزدیک اگر کوئی مقصد و مطلب ہے تو صرف مادی منفعت نہ کہ انسانی بھلائی۔ صحیح روحانی جمہوریت وہ ہے جس میں اقتدار کا مآخذ عوام کے بجاے ذاتِ باری ہو   ؎

سروری زیبا فقط اُس ذات بے ہمتا کو ہے

حکمراں ہے اِک وہی، باقی بتانِ آذری

جاوید نامہ میں اس سلسلے میں کہتے ہیں:

غیرِ حق چوں ناہی و آمر شود

زور ور بر ناتواں قاہر شود

زیر گردوں آمری از قاہری است

آمری از ماسوا اللہ کافری است

(جب اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا حکم دیتا ہے تو اس سے طاقت ور کمزور پر مسلط ہوجاتا ہے۔ روے زمین پر حکومت جبر سے قائم ہوتی ہے۔ اس لیے ماسوا اللہ کی حکومت کافری ہے)۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسانوں کو اجتماعی طور پر کسی نظام کی ضرورت نہیں بلکہ صرف وہی نظام مملکت عدل و انصاف قائم کرسکتا ہے جس کی بنیاد اخلاقی اور روحانی اصولوں پر ہو۔ الحکم للّٰہ اور الملک للّٰہ۔ جب تک انسانی تمدن کی بنیاد عالم گیر روحانی اصولوں پر نہ رکھی جائے تب تک امن و عافیت ممکن نہیں۔ مغرب کی لادینی مادیت نے مختلف شکلیں اختیار کی ہیں۔ کبھی وہ جمہوری قبا میں ظاہر ہوتی ہے، کبھی وہ اشتراکیت کی شکل میں جلوہ فگن ہوتی ہے۔ لیکن درحقیقت یہ سب قدیم جاہلیت ہی کی تازہ شکلیں ہیں اور ان سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اسی روحانی ماخذ کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے جس نے پہلے بھی اس جاہلیت کے طلسم کو توڑا تھا     ؎

تازہ پھر دانشِ حاضر نے کیا سحر قدیم

گزر اس عہد میں ممکن نہیں بے چوبِ کلیم

(اقبال ریویو، لاہور، جولائی ۱۹۶۲ء تا جنوری ۱۹۶۳ئ)۔( انتخاب: اقبالیات کے سو سال، مرتبین: ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، محمد سہیل عمر، ڈاکٹر وحید عشرت، ص ۴۷۱-۴۷۸)