نومبر ۲۰۱۹

فہرست مضامین

عہدے امانت ہیں، خیانت نہ کریں!

ڈاکٹر محمد واسع ظفر | نومبر ۲۰۱۹ | اسلامی معاشرت

Responsive image Responsive image

کسی بھی معاشرے کو ظلم و زیادتی سے پاک کرنے، باہمی اعتماد و اعتبار اور عدل و انصاف کی فضا قائم کرنے کے لیے ایک اہم قدر امانت داری بھی ہے۔ یہ ایک ایسی بنیادی قدر ہے جسے کسی معاشرے کے ہر ایک فرد کے اندر پیدا کیے بغیر، اس معاشرے کو خوف، عدم اعتمادی، خیانت، دھوکا اور ظلم جیسی برائیوں سے پاک نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے ہر دور اور ہر معاشرے میں خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب اور تہذیب سے ہو ، امانت داری کو پسند کیا گیا ہے۔ اسلام چونکہ دینِ فطرت ہے اور دنیا کو زندگی گزارنے کے لیے ایک بہتر جگہ بنانا، اس کے مقاصد میں سے ہے۔ اس لیے انسانیت کی اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے امانت داری کو ایک اہم مقام عطا کیا گیا ہے۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امانت داری کو ایمان کا لازمی جزو قرار دیا ہے۔ آپؐ نے اکثر فرمایا : لَا إِیْمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَۃَ لَہُ وَ لَا دِیْنَ لِمَنْ لَا عَہْدَ لَہُ (مسند احمد، حدیث: ۱۲۳۲۴، بروایت انسؓ بن مالک) ’’ اس کا کوئی ایمان نہیں جو امانت دار نہیں اور اس کا کوئی دین نہیں جو عہد کا پابند نہیں ‘‘۔ 
 قرآن کریم میں بھی امانت کی ادایگی پر سخت تاکید کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:  اِنَّ اللہَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا۝۰ۙ وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِہٖ ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا۝ (النساء۴:۵۸) ’’بے شک اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انھیں پہنچاؤ اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل و انصاف سے فیصلہ کرو، یقیناً وہ بہتر چیز ہے جس کی نصیحت تمھیں اللہ کررہا ہے، بے شک اللہ سنتا ہے دیکھتا ہے‘‘۔
 نیز فرمایا:  اِنَّ  اللّٰہَ   لَا یُحِبُّ الْخَآئِنِیْنَ (الانفال ۸:۵۸)  ’’بے شک اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا‘‘۔ اس کے ساتھ ہی امانت داروں کے لیے قرآن میں جنت کی بشارت دی گئی ہے جو بڑی کامیابی کی ضمانت ہے۔ 
ارشاد ہے: وَالَّذِيْنَ ہُمْ لِاَمٰنٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رٰعُوْنَ۝۳۲۠ۙ وَالَّذِيْنَ ہُمْ بِشَہٰدٰتِہِمْ قَاۗىِٕمُوْنَ۝۳۳۠ۙ وَالَّذِيْنَ ہُمْ عَلٰي صَلَاتِہِمْ يُحَافِظُوْنَ۝۳۴ۭ اُولٰۗىِٕكَ فِيْ جَنّٰتٍ مُّكْرَمُوْنَ۝۳۵ۭۧ (المعارج۷۰:۳۲-۳۵) ’’اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی حفاظت کرنے والے ہیں، اور وہ جو اپنی گواہیوں پر قائم رہنے والے ہیں، اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، یہی لوگ ( بہشت کے) باغات میں مکرم و معزز ہوں گے‘‘۔ 

ان ارشادات سے یہ پتا چلتا ہے کہ صفت امانت داری اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک کتنی اہم اور پسندیدہ چیز ہے۔ لیکن دوسری اقوام کا تو کیا گلہ کیا جائے، خودمسلمانوں کے اندر اب یہ صفت عنقا ہوتی جارہی ہے۔ عوام تو عوام ، تعلیم یافتہ اور خواص کے طبقے میں بھی یہ صفت ناپید ہوتی جارہی ہے، جس کی وجہ سے پورا معاشرہ فسادات کی نذر ہو تا جارہا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ جہاں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے حوالے سے ہماری عدم وفاداری اور اسلامی اقدار سے مجرمانہ رُوگردانی ہے، وہیں اس کی دوسری وجہ اسلامی تعلیمات سے دُوری کی وجہ سے امانت داری کا ناقص فہم و تصور بھی ہے۔ 

  •  امانت کا جامع تصور:عام طور پر امانت اس چیز کو کہتے ہیں جس کا کسی کو ذمہ دار اور امین بنایا جائے یاجس کے سلسلے میں کسی پر اعتبار کیا جائے۔ اس لیے امانت داری کے سلسلے میں لوگوں کا ذہن صرف اس طرف جاتا ہے کہ اگر کسی نے کچھ روپیہ یا مال و اسباب یا دیگر کوئی اور چیزہمارے پاس رکھ چھوڑا ہے، توہم اس کے امین ہیں اور جب وہ اسے طلب کرے تو بلاکسی کمی کے ہم اسے واپس کردیں۔ بلاشبہہ یہ بھی امانت داری ہے، لیکن اسلام میں امانت داری کا تصور یہیں تک محدود نہیں ہے بلکہ انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے۔

 ’امانت‘ دراصل ایک وسیع مفہوم کا حامل لفظ ہے، جس کے دائرے میںاللہ کے وہ تمام حقوق بھی آتے ہیں، جو بندوں پر عائد ہیں، جیسے: نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، کفارہ، صدقات وغیرہ اور بندوں کے آپس کے وہ تمام حقوق بھی شامل ہیں، جو ایک دوسرے پر عائد ہیںجنھیں حقوق العباد کہاجاتا ہے۔ اس فکر پر سورۃ الانفال کی یہ آیت دلالت کرتی ہے: يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللہَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِكُمْ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝ (الانفال۸:۲۷)’’اے ایمان والو! خیانت نہ کرواللہ کی اور رسولؐ کی اور خیانت نہ کرو اپنی امانتوں میں، جب کہ تم جانتے ہو‘‘۔ 
یہاں اللہ اور رسولؐ کی خیانت کرنے سے باز رہنے سے مراد ان کے حقوق کو تلف کرنے سے باز رہنا ہے۔ درحقیقت انسان کامال واسباب ، اس کی صحت و تندرستی بلکہ پوری زندگی ہی اللہ کی امانت ہے کیوں کہ اللہ کا ارشاد ہے:  اِنَّ اللہَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ ط (التوبۃ ۹:۱۱۱) ’’بلاشبہہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جانوں اور ان کے مالوں کو اس بات کے عوض خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی‘‘۔ جب جان اور مال دونوںبک گئے، تواب جو یہ چیزیںہمارے پاس موجود ہیں، وہ اللہ کی امانت ہی ہوئیں اور اللہ نے اپنی عنایت سے ان میں تصرف کا اختیار دیا ہوا ہے، تو ان میں اللہ کی منشا کا خیال رکھنا واجب ہے۔

اسی طرح امانت داری کا اطلاق سیاسی اور انتظامی امور میں بھی ہے؛ ہر چھوٹا بڑا عہدہ امانت ہے اور ایک کلرک سے لے کر صدر مملکت تک ہر چھوٹے بڑے حکام، ملوک، رؤسا، وزرا، سب امانت دار ہیں۔ ان پر لازم ہے کہ جو عہدے انھوں نے اپنے ذمے لیے ہیں، ان کی ذمہ داری شریعت اسلامیہ کے دیے گئے اصولوں کی روشنی میں پوری کریں۔ ان سے عوام کے جو حقوق وابستہ ہیں، ان کا خیال رکھیں اور ان میں کسی قسم کی خیانت نہ کریں۔ ان میں جو کوئی بھی خیانت کا مرتکب ہوگا،گنہگارٹھیرے گا اور بوقت حساب پکڑا جائے گا۔ 
اسی طرح مسجدوں کے متولی، امام و مؤذن، مدرسوں کے مدرسین و مہتمم، عصری تعلیمی اداروں کے اساتذہ و سربراہان، دار القضاء کے قاضی، بیت المال کے نگران، اوقاف کے ذمہ داران، فلاحی اداروں کے سکریٹری و منتظمین، دینی و مذہبی جماعتوں کے چھوٹے بڑے عہدے دار اور شعبہ جات کے انچارج، یہ سب امانت دار ہیں۔ ان سب پر یہ لازم ہے کہ اپنے دائرۂ اختیار میں آنے والی ذمہ داریوں کو حسن و خوبی کے ساتھ ادا کریں بصورت دیگر اللہ کے سامنے جواب دہی کے لیے تیار رہیں۔

  • عہدوں کا امانت ہونا: یہ بات صرف منطقی طور پر ہی نہیں بلکہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے صراحتاً بھی ثابت ہے۔ مشہور صحابی ابوذرؓ نے ایک بار آپؐ سے امارت (سرکاری عہدہ) کی خواہش ظاہر کی تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: یَا أَبَا ذَرٍّ اِنَّکَ ضَعِیْفٌ وَ اِنّھَا أَمَانَۃٌ وَ  اِنّھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ خِزْیٌ وَنَدَامَۃٌ اِلَّا مَنْ أَخَذَھَا بِحَقِّھَا وَ أَدَّی الَّذِی عَلَیْہِ فِیْھَا (مسلم،کتاب الامارۃ، باب کَرَاھَۃِ الْاِمَارَۃِ بِغَیْرِ ضَرُورَۃٍ، بروایت ابوذرؓ) ’’اے ابوذرؓ! تو کمزور ہے اوربلاشبہہ یہ (امارت) امانت ہے اور یہ قیامت کے دن کی رسوائی اور شرمندگی ہے سوائے اس شخص کے جس نے اس کے حقوق پورے کیے اور اس سلسلہ میں جو ذمہ داریاں اس پر عائد تھیںاس کو ادا کیا‘‘۔ 

اس حدیث میںرسول اللہﷺ نے نہ صرف عہدوں کو امانت بتایا بلکہ اس بات کی طرف اشارہ بھی دیا کہ جو شخص کسی منصب کی متعلقہ ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو، اسے اس منصب سے باز رہنا چاہیے کیوں کہ آخرت میں وہ اس کی رسوائی کا سبب بن سکتا ہے۔ بروز جزا اللہ رب العزت ایک ایک عہدہ دار اور ذمہ دار سے اس کی ذمہ داریوں کے سلسلے میںحساب لینے والا ہے۔ 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: کُلُّکُمْ رَاعٍ وَ کُلُّکُمْ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ، فَالْاَمِیْرُ الَّذِی عَلَی النَّاسِ رَاعٍ عَلَیْھِمْ وَ ھُوَ مَسْؤُوْلٌ  عَنْھُمْ، وَ الرَّجُلُ رَاعِی اَھْلَ بَیْتِہٖ وَھُوَ مَسْؤُوْلٌ  عَنْھُمْ، وَالْمَرْاَۃُ رَاعِیَۃٌ عَلٰی بَیْتِ بَعْلِھَا وَ وَلَدِہِ وَ ھِیَ مَسْؤُولَۃٌ عَنْھُمْ، وَ عَبْدُ الرَّجُلِ رَاعٍ عَلٰی مَالِ سَیِّدِہِ وَ ھُوَ مَسْؤُوْلٌ  عَنْہُ، فَکُلُّکُمْ رَاعٍ وَ کُلُّکُمْ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ  یعنی  ’’تم میں سے ہر شخص نگران ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کے ماتحتوں کے بارے میںسوال کیا جائے گا۔ لوگوں کا حکمران ان کا نگران ہے اور اس سے ان لوگوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا، اور آدمی اپنے گھر والوں کا نگران ہے اس سے ان کے بارے میں سوال کیا جائے گا، اورعورت اپنے شوہر کے گھر کی اور اس کی اولادکی نگران ہے اس سے ان کے بارے میںسوال کیا جائے گا، اور آدمی کا غلام( خادم) اپنے آقا کے مال کا نگران ہے اس سے اس کے بارے میں سوال کیا جائے گا، پس تم میں سے ہر ایک شخص نگران ہے اوراس سے اس کے ماتحتوں کے بارے میںسوال کیا جائے گا‘‘۔ (صحیح ابن حبان، کتاب السیر، باب ذِکْرُ الْبَیَانِ بِاَنَّ الْاِمَامَ مَسْؤُوْلٌ  عَنْ رَعِیَّتِہِ الَّتِیْ ھُوَ عَلَیْھِمْ رَاعِی، بروایت عبداللہ بن عمرؓ)
دوسری حدیث میں ان سوالات کی نوعیت کو بھی واضح کردیا گیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اِنَّ اللّٰہَ سَائِلٌ کُلَّ رَاعٍ عَمَّا اسْتَرْعَاہُ اَحَفَظَ اَمْ ضَیَّعَ (صحیح ابن حبان، کتاب السیر، باب ذِکْرُ الْاِخْبَارِ بِسُؤَالِِ اللہِ جَلَّ وَ عَلَاَ کُلَّ مَنِ اسْتَرْعَی رَعِیَّۃً عَنْ رَعِیَّتِہِ ، بروایت انسؓ) ’’بے شک اللہ تعالیٰ ہر نگران سے اس کی نگرانی کے بارے میں سوال کرے گا کہ کیا اس نے اس کی حفاظت کی ہے یا اسے ضائع کردیا ہے؟‘‘۔ 

  • اسلامی اور غیراسلامی نظامِ حکومت میں امتیاز:معاشرتی، سیاسی اور انتظامی اُمور میں امانت داری کا یہی وہ تصور ہے، جو اسلامی اور غیر اسلامی معاشرت و نظام حکومت میں امتیاز پیدا کرتا ہے۔ اسلامی نظام میں جہاں عہدے اور ذمہ داریاں امانت تصور کیے جاتے ہیں، وہیں غیر اسلامی نظام میں انھیں مراعات (Privilege) سمجھا جاتا ہے، جو خدا کے سامنے جواب دہی کا تصور نہ ہونے کی وجہ سے لازماً خیانت کی طرف لے جاتا ہے۔ حکومتی عہدوں میں رہ کر جو لوگ عدل و انصاف کا معاملہ نہیں کرتے، عوام کے جو حقوق ان سے وابستہ ہیں انھیں ادا نہیں کرتے اور ان کے ساتھ احسان و خیرخواہی کا معاملہ نہیں کرتے ان کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات بہت سخت ہیں۔ 

آپؐ نے فرمایا: مَا مِنْ عَبْدٍ اسْتَرْعَاہُ اللّٰہُ رَعِیَّۃً فَلَمْ یَحُطْھَا بِنَصِیْحَۃٍ اِلَّا لَمْ یَجِدْ رَائِحَۃَ الْجَنَّۃِ   (بخاری، کتاب الاحکام، باب مَنِ اسْتُرْعِیَ رَعِیَّۃً فَلَمْ یَنْصَحْ، بروایت معقل بن یسارؓ) ’’جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ کو کسی رعیت کا حاکم بناتا ہے اور وہ خیرخواہی کے ساتھ اس کی حفاظت نہیں کرتاتو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا‘‘۔
ایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا: مَا مِنْ وَالٍ یَلِی رَعِیَّۃً مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ فَیَمُوتُ وَھُوَ غَاشٌّ لَھُمْ اِلَّا حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ (بخاری، کتاب الاحکام، باب مَنِ اسْتُرْعِیَ رَعِیَّۃً فَلَمْ یَنْصَحْ، بروایت معقل بن یسارؓ)’’ اگر کوئی شخص مسلمانوں میں سے کچھ لوگوں کا والی (حاکم) بنایا گیا اور اس نے ان کے معاملے میں خیانت کی اور اسی حالت میں مرگیا تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت کو حرام کردیتا ہے‘‘۔ 
یہاں خیانت سے مراد عہدے کی ذمہ داریوں کو پورا نہ کرنا ہے جس کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں؛ مثلاًان کے حقوق پورے طور پر نہیں دیے، یارعایا کا جو کام ان کے ذمے تھا، اسے نہیں کیا، یا جتنا وقت حکومت کی طرف سے رعایا کے لیے متعین تھا اس میں کمی کی، یا دوسرے کاموں میں ضائع کردیا اور کام کا حق ادا نہیں کیا، یا متعلقہ شعبے کے اشیا و اموال کا جو درحقیقت عوام کا سرمایہ ہیں، بے جا یا ضرورت سے زیادہ استعمال کیا، یا بیت المال سے اپنی مقرر شدہ تنخواہ اور مراعات (Allowances) سے زیادہ لے لیا وغیرہ۔ 
آخرالذکر صورت کے سلسلے میں نبی کریم ﷺ کا واضح ارشاد موجود ہے کہ آپ ؐنے فرمایا: مَنِ اسْتَعْمَلْنَاہُ عَلٰی عَمَلٍ فَرَزَقْنَاہُ رِزْقًا فَمَا أَخَذَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَھُوَ غُلُولٌ (سنن ابی داؤد، کتاب الخراج و الفيء و الامارۃ، باب فِي أَرْزَاقِ الْعُمَّالِ،بروایت بریدہؓ ) ’’ہم جس کو کسی کام کا عامل بنائیںاور ہم اس کی کچھ روزی (تنخواہ) مقرر کردیں پھر وہ اپنے مقرر ہ حصے سے جو زیادہ لے گا، وہ خیانت ہے‘‘۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ حکومت کے وہ عہدے جو وعدوں کی بنیاد پر لیے جاتے ہیںجیسا کہ ہمارے جمہوری نظام میں رواج ہے، ان کی ذمہ داریوں سے رُوگردانی کرنادوہرے وبال کا باعث ہے۔ ایک تو یہ خیانت ہے اور دوسرے وعدہ خلافی بھی۔

  • رشوت ستانی کا انسداد: اسی طرح رشوت ستانی کے ذریعے متعلقہ ادارے اور عوام کے مفاد کو نقصان پہنچانا بھی خیانت کی ایک شکل ہے۔ نیز کسی سرکاری محکمے کا ملازم اگر رشوت لے کر کوئی ایسا کام کرے، جو حکومت کے طے شدہ اصول و ضوابط کے خلاف ہو، تو یہ بھی خیانت ہے کیوں کہ جس کام کے لیے حکومت نے اسے متعین کیا اور جس کام کی اسے تنخواہ دی جاتی ہے، وہ کام اس نے نہیں کیا۔ اور اگر رشوت کسی جائز کام کے لیے لی، تو یہ اس فرد پر ظلم بھی ہے جس سے رشوت لی۔ 

ایک روایت میں ہے: لَعَنَ رَسُولُ اللّٰہِ الرَّاشِي والْمُرْتَشِي (سنن ابی داؤد، کتاب الاقضیۃ، باب فِي کَرَاھِیَۃِ الرِّشْوَۃِ، بروایت عبداللہ بن عمروؓ) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت دینے اور رشوت لینے والے (دونوں) پر لعنت فرمائی ہے‘‘۔ آپؐ سے یہ بھی روایت ہے: الرَّاشِي والْمُرْتَشِي فِي النَّارِ (کنزالعمال فی سنن الاقوال والافعال، حدیث: ۱۵۰۷۷، بروایت ابن عمروؓ)’’رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں جہنم میںہیں‘‘۔ 

  • تحائف رشوت کی ایک صورت: اس لیے ہراس شخص کو جو آخرت پر ایمان رکھتا ہو اور کسی دنیوی عہدے پر فائز ہو، اسے نہ صرف رشوت بلکہ تحفے تحائف کو قبول کرنے سے بھی گریز کرنا چاہیے کیوں کہ عموماً وہ کسی مقصد کے تحت ہی دیے جاتے ہیں اور انسان ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سرکاری ملازم کا اپنے فرض منصبی کی ادایگی کے دوران کسی صاحب ِمعاملہ سے تحفہ قبول کرنے کوسخت ناپسند کیاہے۔ 

آپؐ نے ایک شخص کو زکوٰۃ، جزیہ اور ٹیکس وغیرہ وصول کرنے کے لیے عامل مقرر کیا۔ اپنے کام پورے کرکے جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لوٹے تو عرض کیا کہ یارسولؐ اللہ ! یہ مال آپؐ کا ہے اور یہ مال مجھے تحفہ دیا گیا ہے۔ اس پر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سخت نالاں ہوئے اور فرمایا: أَفَلَا قَعَدْتَّ فِي بَیْتِ أَبِیْکَ وَ أُمِّکَ، فَنَظَرْتَ أَیُھْدٰی لَکَ أَم لَا  ’’پھر تم اپنے ماں باپ کے گھر ہی میں کیوں نہیںبیٹھے رہے اور پھر دیکھتے کہ تمھیں کوئی تحفہ دیتا ہے یا نہیں؟‘‘۔ آپؐ نے اتنے ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مسجد میںخطبہ دیا اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد ان ہی باتوں کا مجلس عام میں اعادہ کیا اور لوگوں کو خیانت کے وبال سے خوف دلایا۔ (بخاری، کتاب الایمان و النذور، باب کَیْفَ کَانَتْ یَمِیْنُ النَّبِيِّ ، بروایت ابوحمید ساعدیؓ)

  • غلط مشورہ دینے کی ممانعت: خیانت کی ایک اور شکل ہے ادارہ یا محکمے کے سربراہ کو غلط مشورے دینا۔ ایک موقعے پرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اَلْمُسْتَشَارُ مُؤتَمَنٌ  (سنن ابن ماجہ، ابواب الادب، باب اَلْمُسْتَشَارُ مُؤتَمَنٌ، بروایت ابوہریرہؓ) ’’جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امانت دار ہے ‘‘۔ گویا اسے امانت داری کالحاظ کرتے ہوئے صحیح اور مفید مشورہ دینا چاہیے۔ جس طرح امانت میں خیانت جائز نہیں، اسی طرح کسی کو غلط مشورہ دینا بھی جائز نہیں۔ 

اس حدیث پاک کا سیدھا اطلاق سرکاری محکموں اور غیر سرکاری تنظیموں کے مشاورتی بورڈوں (Advisory Boards) پر بھی ہوگا،یعنی وہ سب بھی امانت دار قرار پائیں گے۔ مثال کے طور پر کابینہ، پارلیمنٹ، پارلیمانی کمیٹی ، اسمبلی، دستور ساز کونسل، مجلس شوریٰ، یونی ورسٹیوں کی اکیڈمک کونسل ، سینیٹ اورسنڈیکیٹ کے ممبران اور اسی طرح مساجد، مدارس، اوقاف کی کمیٹیوں وغیرہ کے ارکان، یہ سب امانت دار ہیں اور ان سے ان کی امانتوں کے سلسلے میں پوچھا جائے گا۔ ان سب کو چاہیے کہ ذاتی مفاد سے اُوپر اُٹھ کر اپنے اپنے اداروں اور قوم و ملت کی فلاح کو پیش نظر رکھ کر اپنے سربراہان کو مشورے دیا کریں۔

  • نااہل افراد کی تعیناتی: خیانت کی ایک اور بھی شکل ہے؛ وہ ہے کام، منصب یا ذمہ داری کسی ایسے شخص کو سپرد کرنا جو اس کا اہل نہ ہو۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب امانت ضائع کی جائے تو قیامت کا انتظار کرو‘‘۔ پوچھا: یارسول ؐاللہ ! امانت کس طرح ضائع کی جائے گی ؟ (آپؐ نے ) فرمایا : ’’جب کام نااہل لوگوں کے سپرد کردیے جائیں تو قیامت کا انتظار کرو‘‘۔ (بخاری، کتاب الرقاق، باب رفع الامانۃ)

اس حدیث سے بالکل واضح ہے کہ ذمہ داری نااہلوں کے سپرد کرنا بھی خیانت ہے اور دورِ حاضر میں تو یہ ایک بڑا فتنہ ہے کہ حکومت کے اہم مناصب، یا تو تعلقات کی بنیاد پر دیے جاتے ہیں، یا سیاسی ہم فکری کی بنیاد پر، یا کبھی اس میں اقربا پروری کو دخل ہوتا ہے تو کبھی رشوت ستانی کو۔ اس سلسلے میں ان افراد کے ساتھ ظلم ہوجاتا ہے جو حقیقتاً اس منصب کے اہل ہوتے ہیں اور نااہلوں کو منصب دیے جانے کے نتائج بد کو ایک عرصے تک پوری قوم بھگتتی ہے۔ 
اس لیے حاکم اعلیٰ کو چاہیے کہ اپنے دائرۂ اختیار میں لائق ترین افراد کو تلاش کرکے انتظامی اختیارات ان کے سپرد کرے اور ایسے افراد کو تو بالکل نہ سونپے جو عہدے کے حریص ہوں۔  رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے ہمیں یہی تعلیم ملتی ہے۔ آپؐ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا: لَنْ (أَوْ ) لَا  نَسْتَعْمِلُ عَلٰی عَمَلِنَا مَنْ أَرَادَہُ  (بخاری، کتاب اسْتِتَابَۃِ الْمُرتَدِّیْنَ وَالْمُعَانِدِیْنَ وَقِتَالِھِمْ، باب حُکْمِ الْمُرْتَدِّ وَالْمُرْتَدَّۃِ ، بروایتِ ابوموسیٰ اشعریؓ )’’ہم ہرگز کسی ایسے شخص کو عامل مقرر نہیں کریں گے جو عامل بننا چاہے‘‘۔ 
 صحیح ابن حبان کے الفاظ اس طرح ہیں: اِنَّا وَ اللّٰہِ لَا نُوَلِّي عَلٰی ھٰذَا الْعَمَلِ اَحَدًا سَاَلَہٗ، وَ لَا اَحَدًا حَرَصَ عَلَیْہِ  ’’اللہ کی قسم ! ہم اس کام کا نگراں کسی ایسے شخص کو مقرر نہیں کریں گے جو اسے مانگتا ہو، اور نہ کسی ایسے شخص ہی کو مقرر کریں گے جو اس کا لالچ کرتا ہو‘‘۔ (صحیح ابن حبان، کتاب السیر، باب فی الخلافۃ والامارۃ ، بروایت ابوموسیٰ اشعریؓ)۔

  • عہدہ و منصب طلب کرنے کا جواز: یہاں ایک مسئلے کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ مذکورہ بالا احادیث اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے طرزِعمل (یعنی عہدہ طلب کرنے والوں یا اس کی خواہش رکھنے والوں کو عہدہ نہ دینا ) سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کا کوئی عہدہ خود طلب کرنا جائز ہی نہیں لیکن جمہوری نظام میں توبہت سے سرکاری مناصب (مختلف شعبوں کی ملازمت وغیرہ ) بغیر درخواست کے مل ہی نہیں سکتے، تو کیا ان سب سے دست بردار ہوجانا چاہیے ؟ ظاہر ہے کہ دست برداری کا موقف اختیار کرنا پوری قوم وملت کو سختی میں ڈالنے سے تعبیر کیا جائے گا۔ ہمیں اس سلسلے میں فقہا کے ان اصولوں کومدنظر رکھنا چاہیے، جو ان لوگوں نے سرکاری عہدے اور منصب کو طلب کرنے کے جواز کے سلسلے میں اختیار کیے۔

اس کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی سرکاری عہدے اور منصب کو طلب کرنا اس صورت میں جائزہے جب انسان یہ محسوس کرے کہ اس کے فرائض اور ذمہ داریوں کو صحیح طور سے انجام دینے والا کوئی دوسرا شخص موجود نہیں ہے، اور خود اپنے بارے میں اسے اندازہ ہو کہ وہ اس ذمہ داری کو بحسن و خوبی انجام دے سکے گا اور اس کی نیت (جسے اللہ ہی بہتر جانتا ہے) جاہ و مال کی نہ ہو بلکہ خلق اللہ کی صحیح خدمت اور انصاف کے ساتھ ان کے حقوق کی حفاظت کی ہو ۔ نیز اسے کسی گناہ میں مبتلا ہونے کا خطرہ بھی نہ ہو۔ فقہا نے اپنے اس موقف پر سورئہ یوسف کی آیت ۵۵ سے استدلال کیا ہے جس میں حضرت یوسفؑ کا بادشاۂ مصر سے امور خزانہ پر مامور کرنے کی درخواست کرنے کا ذکر ہے اور یہ راے قائم کی ہے کہ یوسفؑ کا عہدے کا طلب کرنا انھی بنیادوں پر تھا۔ (معارف القرآن از مفتی محمد شفیع ؒ، مکتبہ معارف القرآن، ج۵، ص۹۰-۹۱)

  • منصبِ قضا کا تقاضا:اسی طرح جو لوگ نظام قضا (Judiciary) یامنصب قضا (Post of Adjudicator) سے وابستہ ہوں، وہ بھی بدرجۂ اولیٰ امانت دار ہیں۔ ان پر یہ ذمہ داری عائد ہے کہ قوانین و شواہد کی روشنی میںسیاسی دباؤ اور ذاتی مفادات سے بلند ہوکر عدل و انصاف کو قائم کریں۔ یہ کوئی معمولی کام نہیں بلکہ بہت بڑی ذمہ داری ہے، جس پر ملک میں امن و سکون کے قیام کاانحصار ہے۔ اس میں خیانت کی وجہ سے انصاف سے محروم افراد قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے پر مجبور ہوسکتے ہیں اورمختلف قسم کے فساد پھیلا کر ملک کا امن و سکون غارت کرسکتے ہیں جیساکہ موجودہ عالمی منظرنامہ عکاسی کررہا ہے۔ 

ظاہر ہے یہ اسلام کے ایک بنیادی مقصد، یعنی ’’دنیا کو زندگی گزارنے کے لیے ایک بہتر جگہ بنانا‘‘ کے خلاف ہے۔ اس لیے اس میں خیانت اللہ اور اس کے رسول کو کیسے پسند ہوسکتی ہے؟ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر دور میں اس ذمہ داری کو پورا کرنا ایک مشکل امر رہا ہے۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ جُعِلَ قَاضِیًا بَیْنَ النَّاسِ، فَقَدْ ذُبِحَ بِغیْرِ سِکِّیْنٍ  (سنن ابی داؤد، کتاب الاقضیۃ، باب فِي طَلَبِ الْقَضَاءِ، بروایت ابوہریرہؓ)’’جو شخص لوگوں کے درمیان قاضی بنا دیا گیا (گویا) وہ بغیر چھری کے ذبح کردیا گیا‘‘۔ بغیر چھری کے ذبح کرنے میں جانور کو تکلیف اورمشقت چھری سے ذبح کرنے کے مقابلے میں یقیناً زیادہ ہوگی۔ 
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ ہے کہ جسے قاضی بنایا گیا اسے انتہائی مشقت اور آزمایش میں ڈال دیا گیا۔ آپ ؐ نے یہ بھی فرمایا: ’’قاضی تین طرح کے ہوتے ہیں: ایک جنتی اور دو جہنمی۔ رہا جنتی تو وہ ایسا شخص ہوگا جس نے حق کو جانا اور اسی کے موافق فیصلہ کیا، اور وہ شخص جس نے حق کو جانا اور اپنے فیصلے میں ظلم کیا وہ جہنمی ہے۔ اور وہ شخص جس نے نادانی سے لوگوں کا فیصلہ کیا وہ بھی جہنمی ہے‘‘۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الاقضیۃ، باب فِي الْقَاضِي یُخْطِیُٔ، بروایت ابوہریرہؓ)۔ 
اس کے بالمقابل حکمت اور حق کے ساتھ فیصلہ کرنے والے قاضی کی آپؐ نے تعریف بھی کی۔ 
ارشاد فرمایا: لَا حَسَدَ اِلَّا فِي اثْنَتَیْنِ: رَجَلٌ آتَاہُ اللّٰہُ مَالًا فَسَلَّطَہُ عَلٰی ھَلَکَتِہِ فِي الْحَقِّ وَآخَرُ آتَاہُ اللّٰہُ حِکْمَۃً فَھُوَ یَقْضِي بِھَا وَ یُعَلِّمُھَا (بخاری، کتاب الاحکام ، باب أَجْرِ مَنْ قَضَی بِالْحِکْمَۃِ ، بروایت عبد اللہ بن مسعودؓ)’’رشک بس دو آدمیوں پر ہی کیا جانا چاہیے۔ ایک وہ شخص جسے اللہ نے مال دیا پھر اس نے اسے حق کے راستے میں خرچ کیا، اور دوسرا وہ شخص جسے اللہ نے حکمت (قرآن ، حدیث و فقہ کا علم) عطا کی اور وہ اس کے موافق فیصلے کرتا ہے اور اس کی لوگوں کو تعلیم دیتا ہے‘‘۔ 
ایک اور روایت میں ہے کہ آپؐ نے ان کے تعلق سے فرمایا: الْمُقْسِطُونَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلٰی مَنَابِرٍ مِّنْ نُورٍ عَنْ یَّمِیْنِ الرَّحْمٰنِ، وَ کِلْتَا یَدَیْہِ یَمِیْنٌ، الْمُقْسِطُونَ عَلٰی اَہْلِیْھِمْ وَاَوْلَادَھُمْ وَ مَا وَلُّوا (صحیح ابن حبان، کتاب السیر، باب فِی الخلافۃ والامارۃ، ذِکْرُ وَصْفِ الْاَئِمَّۃِ  فِي  الْقِیَامَۃِ   اِذَا کَانُوا عُدُولًا فِی الدُّنْیَا، بروایت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ) ’’(دنیا میں ) انصاف کرنے والے لوگ قیامت کے دن رحمان کے دائیں طرف نور کے ممبروں پر ہوں گے حالانکہ اس (رحمٰن) کے دونوں طرف دائیں ہیں، وہ لوگ جو اپنی بیویوں کے ساتھ اور اپنی اولاد کے ساتھ اور جس معاملے کے وہ نگراں بنتے ہیں اس کے ساتھ انصاف سے کام لیتے ہیں‘‘۔ 
اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ جن سات قسم کے لوگوں کو اللہ پاک قیامت کے دن عرش کے سایے میں جگہ دیں گے ان میں ایک عادل حکمران بھی ہوگا۔ (صحیح ابن حبان، کتاب السیر، باب ذِکْرُ اِظْلَالِ اللّٰہِ جَلَّ وَ عَلَا الْاِمَامَ الْعَادِلَ فِیْ ظِلِّہِ یَومَ لَا ظِلَّ اِلَّا ظِلُّہُ، بروایت ابوہریرہؓ)

  • خلاصۂ کلام: آخرت میںصرف وہ لوگ سرخرو ہوں گے، جنھوں نے دنیا میں اپنے منصب اور عہدوں کو امانت سمجھ کر اس کی ذمہ داریوں کوعدل و احسان کے ساتھ انجام دیا ہوگا جو کہ آسان کام نہیں ہے، اور جس نے اپنی ذمہ داریوں میں خیانت کی ہوگی وہ وہاں رسوا اور ذلیل کیا جائے گا اور جہنم اس کا ٹھکانہ ہوگا۔ اس لیے اوّل تو ہمیں جاہ طلبی کے مرض سے ہی چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے کہ اکثر اوقات یہ دنیا میں بھی آزمایش اور رسوائی کا سبب ہوجاتا ہے جیساکہ آج کل عام طور پر دیکھنے کو ملتا ہے اور آخرت کا معاملہ تو فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی کی صورت میں اور بھی سنگین ہے۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیارے صحابی عبدالرحمٰن بن سمرہؓ کو ان الفاظ میں نصیحت فرمائی: یَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ سَمُرَۃَ، لَا تَسْأَلِ الْاِمَارَۃَ، فَاِنَّکَ اِنْ أُعْطِیتَھَا عَنْ مَسْأَلَۃٍ وُکِلْتَ اِلَیْھَا، وَ اِنْ أُعْطِیتَھَا عَنْ غَیْرِ مَسْأَلَۃٍ أُعِنْتَ عَلَیْھَا (بخاری، کتاب الاحکام، باب  مَنْ سَأَلَ الْاِمَارَۃَ    وُکِلِ    اِلَیْھَا، بروایت عبد الرحمٰن بن سمرہؓ) ’’اے عبد الرحمٰن بن سمرہ! کبھی امارت (حکومت کے کسی عہدے) کی درخواست نہ کرنا، کیوں کہ اگر تمھیں یہ مانگنے کے بعد ملے گا تو تم اسی کے حوالے کردیے جاؤگے (اللہ پاک اپنی مدد تجھ سے اٹھالے گا کہ تو جانے تیرا کام جانے)۔ اور اگر وہ عہدہ تمھیں بغیر مانگے مل گیا تو اس میں (اللہ کی طرف سے ) تمھاری اعانت کی جائے گی‘‘۔ 
اس حدیث میں ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ ہے کہ عہدہ طلب کرنے پر اللہ کی طرف سے مدد بھی اُٹھ جاتی ہے اورا نسان آزمایش میں ڈال دیا جاتا ہے اور اگر عہدہ بغیر طلب کیے ملتا ہے تو اللہ کی مدد شامل حال ہوتی ہے۔ اس لیے جہاں تک ممکن ہو خود عہدہ طلب کرنے سے ہمیں پرہیز کرنا چاہیے اور جب حکومتی یا ملی سطح سے کسی منصب کی پیش کش کی جائے تو اپنی صلاحیت اور حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس بات کا جائزہ ضرور لینا چاہیے کہ اس کی ذمہ داریوں کو ہم کماحقہٗ ا دا کرسکیں گے یا نہیں۔ اگر نہیںتو ہمیں وہ منصب قبول ہی نہیںکرنا چاہیے، تاکہ دنیا و آخرت کی رسوائی سے محفوظ رہ سکیں، اور اگر قبول کریں تو عہدے کو امانت سمجھ کر اس کی ذمہ داریوں کو ادا کرنا چاہیے۔ ہمیں اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ بروزِ حساب کہیں ہم ان لوگوں میں نہ شامل ہوں، جن کے بارے میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں پیش گوئی کی ہے: 
وَیْلٌ لِلْاُمَرَائِ، لَیَتَمَنَّیَنَّ اَقْوَامٌ اَنَّھُمْ کَانُوا مُعَلَّقِیْنَ بِذَوَائِبِھِمْ بِالثُّرَیَّا، وَ اَنَّھُمْ لَمْ یَکُوْنُوا وُلُّوْا شَیْئًا قَــطُّ(صحیح ابن حبان، کتاب السیر، باب  فی الخلافۃ  دارالامارۃ، ذِکْرُ الْاِخْبَارِ عَمَّا یَتَمَنَّی ائُ الْأُمْرَاءُ  اَنَّھُمْ مَا وَلَّوْا مِمَّا وُلُّوْا شَیْئًا  ، بروایت ابوہریرہؓ) ’’ سرکاری   اہل کاروں کے لیے خرابی ہے۔ عنقریب کچھ لوگ اس بات کی آرزو کریں گے کہ انھیں ان کے بالوں کے ساتھ اوج ثریا پر لٹکا دیا جاتا، لیکن انھیں کسی چیز (حکومتی عہدے) کا اہل کار مقرر نہ کیا جاتا‘‘۔ 
اللہ سے دعا ہے کہ وہ اس سیہ کار کی لغزشوں کو بھی معاف فرمائے اور اپنی منشا کے مطابق بقیہ زندگی گزارنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ نیز امت کے اندر امانت داری کے مٹتے ہوئے احساس کو بیدار فرمائے۔ آمین!