نومبر ۲۰۱۹

فہرست مضامین

کشمیری عورت: مظلوم ترین ہستی

طلعت عمران | نومبر ۲۰۱۹ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کے بعد جب سے بھارتی حکومت نے غیرقانونی اور غیراخلاقی طور پر، مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے اور وہاں پورے ہند کو غیرمنقولہ جایداد خریدنے کا حق دیا ہے، تین ماہ ہونے کو آئے ہیں کہ وہاں بھارتی مسلح افواج کے زیرِ تسلّط خطّے میں کرفیو نافذ ہے۔

یہاں اس صورتِ حال سے دوچار اور حالات کی شاہد چند خواتین کے مشاہدات پیش ہیں:

 سری نگر کی رہایشی، عظمیٰ جاوید خوف و دہشت کے مارے گھر سے باہر نہیں نکلی۔ البتہ وہ ہرتھوڑی دیر بعد صورتِ حال کا جائزہ لینے کے لیے اپنے دو منزلہ مکان کی کھڑکی سے باہر ضرور جھانکتی ہے۔یہ ۲۰سالہ طالبہ تعلیم کے سلسلے میں زیادہ تر کیرالہ ہی میں رہتی ہے ، مگر اس بار اپنے والدین اور دوسرے رشتے داروں کے ساتھ عیدالاضحی سے کچھ عرصہ قبل سری نگر آئی تھی۔ تاہم، یہاں پہنچ کر عید کی خوشیاں منانے کے بجاے ایک ایسے پنجرے میں قید کر دی گئی، جس کے باہر سنسان گلیوں میں مسلّح بھارتی فوجی گشت کر رہے ہیں۔ عید کے روز چند کشمیریوں نے اپنے رشتے داروں سے ملنے کے لیے سڑک پار کرنے کی اجازت طلب کی، تو بھارتی فوجیوں نے سختی سے انکار کر دیا۔
عظمیٰ نے معروف خبر رساں عالمی ادارے، الجزیرہ کے نمایندے سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ: ’’ یوں تو اس وقت کشمیر میں ہر فرد ہی مغلوب و معتوب ہے، لیکن کشمیری خواتین اس غیر انسانی محاصرے کا سب سے بڑا نشانہ ہیں۔مواصلاتی نظام ٹھپ ہونے کی وجہ سےمَیں نے پچھلے کئی روز سے قریب ہی رہنے والی اپنی سہیلی کی آواز تک نہیں سُنی اور نہ یہ جانتی ہوں کہ اس وقت منزیٰ کس حال میں ہے۔ ہمارے مَرد تو پھر بھی کسی نہ کسی طرح کبھی کبھار نماز کے لیے گھروں سے نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، لیکن ہم خواتین تو یہ بھی نہیں کر سکتیں‘‘۔ 
عظمیٰ کا مزید کہنا تھا: ’’ مسلّح بھارتی سپاہیوں کی وحشت ناک، ہوس ناک نظریں مجھ سمیت دوسری لڑکیوں اور خواتین کو خوف کے مارے بے جان و مفلوج کر دیتی ہیں۔ مَیں چاہتی ہوں کہ میرے والد اور بھائی بھی باہر نہ نکلیں کہ کہیں وہ بھارتی فوج کی سفّاکیت کی بھینٹ نہ چڑھ جائیں۔ لیکن اُن کے

پاس اس کے علاوہ کوئی اور چارہ بھی نہیں، کیوں کہ اشیاے خورد و نوش اور روزمرّہ کی دوسری ضروریات پوری کرنے کے لیے انھیں چار دیواری چھوڑنی ہی پڑتی ہے‘‘۔ 
’’غیر کشمیریوں کی آبادکاری پر عاید پابندی ختم کرنے کے محرکات کا اندازہ آر ایس ایس کے ان اوباش عناصر کے اسکرین شاٹس سے لگایا جا سکتا ہے، جن میں ایسے انتہا پسند ہندوئوں کی عامیانہ پوسٹوں نے بھی کشمیری خواتین کو کرب کا شکار کردیا ہے۔پچھلے دنوں ہمارے گھر کے باہر ایک بہت بڑا مظاہرہ ہوا، جو آناً فاناً مظاہرین اور بھارتی افواج کے درمیان تصادم کی وجہ سے پُرتشدد ہو گیا۔ تب مَیں اور میری والدہ گھر میں اکیلی تھیں، جب کہ میرے والد اور بھائی مظاہرین میں شامل تھے۔ جب اس مظاہرے نے تصادم کی شکل اختیار کی، تو مجھے اُن کی فکر ستانے لگی۔   دل میں طرح طرح کے وسوسے آنے لگے۔ خوف و پریشانی سے حالت غیر ہو گئی۔ رات گئے جب میرے والد اور بھائی گھر لوٹے، تو میرا بلڈ پریشر اس قدر شُوٹ کر چکا تھا کہ اُنھیں مجھے دکھانے کے لیے ڈاکٹر تک رسائی کے لیے تدابیر سوچنا پڑیں‘‘۔
غیر کشمیریوں کو مقبوضہ کشمیر میں بسانے کی غرض سے بھارتی آئین کے آرٹیکل ۳۵-اے میں ترمیم کی راہ ہموار کرنے کے لیے بی جے پی کی حکومت نے یہ جواز گھڑا کہ: ’’اس فیصلے سے مسلم اکثریتی خطے میں نہ صرف صنفی مساوات قائم ہو گی، بلکہ مسلمان خواتین کو ’آزادی‘ بھی     مل جائے گی‘‘۔ حالانکہ اس اعلان کے چند روز بعد ہی بھارت کی ہندو قوم پرست حکمران جماعت، بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے متعدد سیاست دانوں نے کشمیری خواتین سے متعلق نازیبا بیانات دینا شروع کر دیے۔مثال کے طور پر کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے پانچ روز بعد ۱۰؍اگست کو بھارتی ریاست، ہریانہ کے وزیر اعلیٰ، منوہر لال نے یہ بیان دیا کہ: ’’جونہی کشمیر کُھلے گا، تو وہ وہاں سے دُلہنیں لے کر آئیں گے‘‘۔ قبل ازیں، بی جے پی ہی سے تعلق رکھنے والے   ایک رُکن اسمبلی، وکرم سینی نے کہا تھا کہ: ’’اب کشمیر کی گوری خواتین سے بیاہ رچا سکتے ہیں‘‘۔
بی جے پی سے وابستہ سیاسی رہنمائوں کے اس چھچھورے پَن اور نازیبا بیانات پر نئی دہلی کی جواہر لال نہرو یونی ورسٹی سے وابستہ خاتون پروفیسر اور حقوقِ نسواں کی محافظ، نیو دتیہ مینن کا    یہ بیان سامنے آیا کہ: ’’اس قسم کے بیانات دراصل فتح اور لُوٹ مار کا علانیہ اظہار ہیں، جن سے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے محرّکات بھی عیاں ہوتے ہیں‘‘۔

انتہا پسند ہندو رہنماؤں کے ان خیالات نے بھارتی سوشل میڈیا پر ایک طوفان کھڑا کردیا اور مختلف سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر کشمیری خواتین سے شادی سے متعلق پوسٹوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس سلسلے میں بھارتی ذرائع ابلاغ میں شائع اور نشر ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، ۵؍اگست کے بعد گوگل پر اس سوال کا جواب تلاش کرنے والے بھارتی صارفین کی تعداد میں حد درجہ اضافہ دیکھا گیا: ’’ کشمیری خواتین سے شادی کیسے کی جا سکتی ہے؟‘‘
انتہا پسند ہندوئوں کی جانب سے ایسے سفلی جذبات کے اظہار نے کشمیری خواتین کے احساسِ عدم تحفظ میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ سری نگر کی ۲۲سالہ ثمرین کہتی ہیں کہ: ’’ بھارت میں جس انداز سے کشمیری خواتین کو روزانہ کی بنیاد پر محض ایک جنس کے طور پر اپنانے، کم زور مخلوق سمجھ کر اُن کی نمایش کرنے اور اُن میں خوف و دہشت پھیلانے کا سلسلہ جاری ہے، اُس کے سبب کشمیری خواتین میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم خود کو مَردوں سے بھی زیادہ ستم رسیدہ محسوس کرتی ہیں۔ مواصلاتی نظام معطل ہونے کی وجہ سے ہمیں دُہری اذیّت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اب ہم دوسرے شہروں اور علاقوں میں مقیم اپنے عزیز و اقارب، حتیٰ کہ بہن، بھائیوں تک کی خیریت دریافت نہیں کرسکتے۔ گذشتہ کئی روز سے فون اور انٹرنیٹ کی سروس معطّل ہونے کی وجہ سے مَیں نئی دہلی میں رہایش پذیر اپنی بہن سے رابطہ نہیں کر سکی۔ مَیں اُس سے ملنے کے لیے ٹکٹ بُک کروانا چاہتی تھی، لیکن یہ بھی ممکن نہ ہو سکا، کیوں کہ اس مقصد کے لیے ہمیں اپنی رہایش گاہ سے ۲۰کلو میٹر دُور واقع ایئر پورٹ جانا ہے، جو کرفیو نافذ ہونے کے سبب نا ممکن ہے۔مستقل پریشانی لاحق ہونے کی وجہ سے میری والدہ بیمار ہوگئی ہیں۔
دوسری جانب سری نگر کی رہایشی ۲۲سالہ مصباح رئیس کو بھارت میں کشمیری خواتین کے ساتھ بڑھتے صنفی تعصّب پر کوئی حیرانی نہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت کی خود کو مسلمان کشمیری خواتین کا محافظ و نگہبان قرار دینے کی کوشش کا حقیقت سے دُور دُور تک کوئی تعلق نہیں۔  تاہم، مَیں اس بات کی توقع رکھتی ہوں کہ بھارت کا ایک باشعور طبقہ مودی سرکار میں پائے جانے والے صنفی تعصب سے کماحقہٗ واقفیت رکھتا ہے۔ نیز، انھیں اس امر کا بھی ادراک ہے کہ کشمیری خواتین کو ’محفوظ بنانے کی کوششوں‘ کے پیچھے درحقیقت کون سے عزائم کار فرما ہیں‘‘۔ 
بدقسمتی سے دورانِ جنگ خواتین کے ساتھ جنسی تشدد کی دیگر صورتوں کو عموماً ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی خدشے کے پیشِ نظر ہی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی رُکن، کویتا کرشنن ۵؍اگست کے بعد چند سماجی کارکنوں کے ساتھ خواتین کی حالتِ زار جاننے کے لیے مقبوضہ کشمیر پہنچیں۔

مقبوضہ وادی میں مختلف مسلمان خواتین سے ملاقاتوں کے بعد کویتا کرشنن کا کہنا تھا کہ: ’’انڈین ملٹری اور پیرا ملٹری فورسز کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے کشمیری خواتین اور لڑکیوں کی  بے چینی و اضطراب میں اضافہ ہوا ہے‘‘۔ اپنے دورے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کویتا کا کہنا تھا کہ ’’کشمیری خواتین نے ہمارے وفد کو بتایا کہ کرفیو نافذ ہونے کی وجہ سے اُنھیں اپنے بچّوں کے لیے دودھ اور کھانے پینے کی دیگر اشیا لانے میں انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ علاوہ ازیں، وہ ۱۰برس سے کم عُمر بچّوں کی غیر قانونی قید پر بھی بہت زیادہ فکر مند ہیں۔ نیز، بعض خواتین اور لڑکیوں نے بھارتی مسلّح افواج کے گھروں پر چھاپوں کے دوران اپنی آبروریزی کے خدشات کا بھی ذکر کیا‘‘۔
عالمی ذرائع ابلاغ نے تسلیم کیا ہے کہ ’’بھارتی افواج ماضی میں بھی کشمیری خواتین کی عصمت دری کے واقعات میں ملوّث رہی ہیں۔ انٹرنیشنل میڈیا کے مطابق، ۲۳فروری ۱۹۹۱ء کو جب قابض بھارتی افواج نے وادی میں ایک بڑا ملٹری آپریشن کیا، تو اس دوران سیکورٹی فورسز نے ضلع کپواڑہ کے دو دیہات، کونان اور پوش پورہ میں درجنوں خواتین کو اپنی درندگی کا نشانہ بنایا۔ اس قسم کے واقعات وقتاً فوقتاً مقبوضہ کشمیر میں رُونما ہوتے رہتے ہیں ، مگر بھارتی فوج انھیں ہمیشہ رد کر دیتی ہے‘‘۔
تاہم، جولائی ۲۰۱۹ء میں سامنے آنے والی اقوامِ متّحدہ کی ایک خصوصی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ: ’’ فی الوقت ۱۹۹۱ء میں کونان اور پوش پورہ میں بڑے پیمانے پر رُونما ہونے والے خواتین کی آبرو ریزی کے واقعات کے مقدّمے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ بھارتی حکام، متاثرہ خواتین اور اُن کے اہلِ خانہ کی حصولِ انصاف کی کوششوں میں رُکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں‘‘۔ 
اسی رپورٹ میں بھارت پر یہ زور بھی دیا گیا ہے کہ: ’’مقبوضہ کشمیر میں جنسی تشدد پر مبنی جرائم کے مرتکب ریاستی و غیر ریاستی عناصر کے خلاف تحقیقات کی جائے اور متاثرین کو انصاف فراہم کیا جائے۔ تاہم، اس کے برعکس بھارتی فوج کی جنونیت میں روز بہ روز اضافہ ہی ہو رہا ہے اور عفت مآب کشمیری خواتین خود کو پہلے سے زیادہ آفت رسیدہ تصوّر کر رہی ہیں‘‘۔
اس سلسلے میں سری نگر کی رہایشی ۲۲سالہ طالبہ، جانیس لنکر نے بتایا ہے ’’ بی جے پی رہنمائوں اور انتہا پسند ہندوئوں کے مسلمان کشمیری خواتین سے متعلق تضحیک آمیز بیانات اور نازیبا رویہ ہی مقبوضہ کشمیر میں کشیدگی میں اضافے اور مظاہروں، احتجاج اور لاک ڈائون کے دوران بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کی اصل جڑ ہے‘‘۔ 

کشمیری طالبہ نے اس صورتِ حال کا ذمّے دار بھارت کے بعض سیاسی طبقات کی جانب سے سِفلی جذبات کی حوصلہ افزائی کے علاوہ بھارتی سنیما گھروں میں کشمیری خواتین کے کرداروں کی نمایش کو بھی ٹھیرایا۔ اس بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ: ’’بھارت میں کشمیری عورت کو انتہائی سادہ لوح، بے ضرر، نادان اور ایسی گڑیا کے طور پر پیش کیا جاتا ہے کہ جس سے صرف دل بہلایا جا سکتا ہے۔ مَیں باقاعدگی سے سوشل میڈیا استعمال کرتی ہوں۔ مَیں نے مختلف سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ایسی متعدد توہین آمیز اور مضحکہ خیز پوسٹس دیکھی ہیں کہ جن میں باحجاب کشمیری خواتین سے متعلق انتہائی نازیبا تبصرے کیے گئے ہیں، جو ایک نفرت انگیز عمل ہے‘‘۔
کشمیری خواتین سے متعلق بی جے پی کے دریدہ دہن رہنماؤں کے ایسے انتہائی گھٹیا بیانات پر نئی دہلی سے معروف دانش ور عرفان حبیب کا کہنا ہے کہ ’’یوں اگرچہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے   بعض رہنماؤں کے ایسے نازیبا کلمات قوم پرست ہندوؤں کی حمایت حاصل کرنے کا حربہ ہے، لیکن اگر وسیع تناظر میں دیکھا جائے، تو یہ درحقیقت مسلمانوں سے صدیوں پر محیط دَور کا شدید انتقام لینے کی کوششوں کا ایک حصّہ ہے۔ حالاں کہ انتہا پسندہندوئوں کی جانب سے بیان کردہ تاریخ کا نصف سے بھی زائد حصّہ کذب بیانی، افسانہ سازی اور مبالغہ آ رائی پر مشتمل ہے‘‘۔