۲۱؍اپریل ۱۹۳۸ء کو علّامہ محمد اقبالؒ کے انتقال کے وقت مولانا مودودیؒ کی عمر تقریباً ۳۵سال تھی۔ یہ عین ان کی جوانی کا زمانہ تھا اور وہ اپنے افکار ونظریات کو بڑی حد تک مرتب کرچکے تھے، جن کی بنیاد پر انھوں نے آگے چل کر ایک فکری و نظریاتی تحریک کا آغاز کیا۔ ہمارا خیال ہےکہ مولانا کی مذکورہ تحریک کے پس منظر میں اقبالؒ کے افکار بڑے بھرپور طریقے سے کارفرما رہے ہیں اور اسی طرح دونوں شخصیات کے درمیان فکرونظر کی گہری ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
شخصی حوالے سے دیکھا جائے تو علّامہ اقبالؒ سے مولانا مودودیؒ کی پہلی ملاقات جنوری ۱۹۳۰ء میں ہوئی، جب علّامہ، مدراس [چنائے] میں تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ کے سلسلے کے تین انگریزی لیکچر (خطبات) دینے کے بعد، بنگلور اورمیسور سے ہوتے ہوئے حیدرآباد دکن پہنچے اور وہاں بھی تین خطبے دیے۔ سیّدصاحب اس وقت حیدرآباد ہی میں تھے۔ انھوں نے خطبات سنے تھے۔ ممکن ہے آخر میں کچھ سوال جواب بھی ہوئے ہوں، اورنوجوان سیّد نے کوئی استفسار بھی کیا ہو۔ یہ بعید از قیاس نہیں کیوں کہ سیّد مودودی اپنی عمر کے (۲۶ سال کے) نوجوانوں کی نسبت مشرقی و مغربی علوم کا بہت زیادہ مطالعہ کیے ہوئے تھے۔مولانا مودودیؒ نے خود لکھا ہے: ’’میری ان سے پہلی ملاقات وہاں [حیدرآباد دکن میں] ہوئی، دوسری ملاقات فروری مارچ ۱۹۳۷ء میں (خطوطِ مودودی، دوم، ص ۶۹) اور تیسری ملاقات [ستمبر یا] اکتوبر ۱۹۳۷ء (ایضاً، دوم،ص ۱۲۰) میں [لاہور میں] ہوئی۔
۱۹۳۷ء میں ہونے والی ان ملاقاتوں کا پس منظر یہ تھا کہ ایک دردمند مسلمان چودھری نیاز علی خاں (م: ۲۴ فروری ۱۹۷۶ء) نے اپنی جایداد واقع سرنا،جمال پور، پٹھان کوٹ، ضلع گورداس پور کا ایک حصہ خدمت ِ دین کے لیے وقف کرکے وہاں ایک درس گاہ قائم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، اور اس سلسلے میں متعدد زعما اورعلما سے راہ نمائی چاہی، جن میں مولانا اشرف علی تھانویؒ، علّامہ اقبالؒ ، سیّد سلیمان ندویؒ، عبدالماجد دریابادیؒ اور سیّدمودودیؒ شامل تھے۔{ FR 654 }
مولانا مودودی نے علمی کام کا ایک تفصیلی نقشہ بناکر چودھری نیاز علی صاحب کو پیش کیا۔ چودھری صاحب نے اس علمی منصوبے سے علّامہ اقبال کو آگاہ کیا۔ انھوں نے اسے پسند کیا اور فرمایا کہ ’’اس وقت کرنے کے یہی کام ہیں‘‘ (سیّارہ، لاہور، اقبال نمبر، مدیر: نعیم صدیقی، ۱۹۶۳ء)۔
دراصل علّامہ اقبالؒ اس زمانے میں مولانا مودودیؒ کے نام اور ان کی فکر سے واقف ہوچکے تھے۔ ماہ نامہ ترجمان القرآن ، حیدرآباد دکن اوائل ہی سے علّامہ کے ہاں جاتا تھا۔سیّد مودودی کے دورِ ادارت میں بھی رسالہ ان کے نام جاری رہا۔ سیّد نذیرنیازی کے مطابق ، علّامہ مرحوم ترجمان القرآن بڑے غور سے پڑھا کرتے تھے۔دراصل علّامہ، معروف مؤرخ اکبر شاہ خان نجیب آبادی سے ہندستان میں مسئلہ جہاد کی تاریخ لکھوانا چاہتے تھے۔ (انواراقبال، مرتب: بشیراحمد ڈار، اقبال اکادمی، پاکستان، کراچی ۱۹۶۷ء، ص ۳۱۸)۔اب جو اُنھیں، الجہادفی الاسلام پڑھنے یا پڑھوا کر سننے کا موقع ملا تو وہ سیّد مودودی سے بہت متاثر ہوئے۔ انھوں نے چودھری نیاز علی خاں سے کہا: [میں نے ترجمان القرآن] کے دو مضامین پڑھے ہیں۔ دین کے ساتھ ساتھ وہ [یعنی مولانا مودودی] مسائل حاضرہ پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ ان کی کتاب الجہادفی الاسلام مجھے بہت پسند آگئی ہے‘‘ (ہفت روزہ ایشیا، لاہور، مدیر: چودھری غلام جیلانی، ۷؍اپریل ۱۹۶۹ء)۔ ’’اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے معذرت خواہانہ لہجہ اختیار نہیں کیا بلکہ جنگ و جہاد کے متعلق اسلام کے جو نظریات ہیں، انھیں کسی تاویل یا تعبیر کے بغیر بڑے کرّوفر سے پیش کیا ہے‘‘ ( ہفت روزہ چٹان، لاہور، مدیر:آغا شورش کاشمیری، ۲۵؍اپریل ۱۹۵۴ء، بحوالہ اقبال اور مودودی،مرتبہ: ڈاکٹر سفیراختر، ص ۱۹)۔ چنانچہ انھوں نے چودھری نیاز علی خاں سے کہا: ’’آپ کیوں نہ انھیں دارالاسلام آنے کی دعوت دیں۔ میرا خیال ہے، وہ دعوت قبول کرلیں گے‘‘ ( ہفت روزہ ایشیا، ۱۷؍اپریل ۱۹۶۹ء)۔
مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں: ’’یہ مجھے بعد میں نذیر نیازی صاحب سے معلوم ہوا کہ علّامہ مرحوم ترجمان القرآن بڑے غور سے پڑھا کرتے تھے اور انھوں نے الجہاد فی الاسلام پڑھ کر سنی تھی (اقبال اور مودودی، ص۶۳)۔ یوں بقول چودھری نیاز علی خاں: ’’حضرتِ علّامہ کی نظرِ جوہرشناس بھی سیّدصاحب پر جاپڑی‘‘۔ (صحیفہ ، اقبال نمبر،مدیر: ڈاکٹر وحید قریشی، مجلس ترقی ادب، لاہور، اکتوبر ۱۹۷۳ء)
خود علّامہ اقبال نے ادارے کی سربراہی کے لیے مولانا مودودی ؒ کا نام تجویز کیا۔ مولانا فرماتے ہیں:’’۱۹۳۷ء کے آغاز میں ان کا عنایت نامہ ملا کہ مَیں حیدرآباد کو چھوڑ کر پنجاب چلا آئوں‘‘ (سیارہ،اقبال نمبر، فروری ۱۹۷۸ء)۔ پھر چودھری نیاز علی خاں نے بھی مسلسل اصرار کیا اور مولانا کو دعوت دی کہ وہ دکن سے ہجرت کرکے لاہور آجائیں۔ چنانچہ فروری مارچ ۱۹۳۷ء میں مولانا مودودیؒ لاہورآئے اور جیساکہ اُوپر ذکر آچکا ہے کہ علّامہ اقبالؒ سے ملے اور دوتین نشستوں میں تفصیلی تبادلۂ خیالات ہوا۔ اگرچہ اس سے پہلے بھی مولانا مودودیؒ ،علّامہ اقبالؒ اور ان کی شاعری سے بخوبی واقف تھےاور فکری سطح پر بہت قربت محسوس کرتے تھے۔ اب اس قربت میں مزید اضافہ ہوگیا۔ مولانا مودودیؒ کہتے ہیں: ’’ان ملاقاتوں میں ایسا محسوس ہوا کہ جیسے میری اور ان کی بہت پرانی واقفیت ہے اور ہم ایک دوسرے کےدل سے بہت قریب ہیں۔ یہاں میرے اور اُن کے درمیان یہ بات طے ہوگئی کہ میں پنجاب منتقل ہوجائوں اور پٹھان کوٹ کے قریب اس وقف کی عمارات میں، جس کا نام ہم نے بالاتفاق ’دارالاسلام‘ تجویز کیا تھا، ایک ادارہ قائم کروں، جہاں دینی تحقیقات اور تربیت کا کام کیا جائے‘‘(ایضاً)۔ بہرحال، ان ملاقاتوں کے بعد مولانا مودودی دکن کو چھوڑ کر پنجاب آنے کے لیے بالکل یکسو ہوگئے اور انھوں نے دکن سے ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا۔
لاہور سے واپس دکن پہنچے تو انھوں نے چودھری نیازعلی خاں کو جو خط لکھا، اس میں بتایا کہ میں نےیہاں پہنچتے ہی ہجرت کی تیاری شروع کردی ہے۔ اس کا ایک بڑا سبب یہ تھا کہ علّامہ اقبالؒ نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ اگر آپ یہاںآجائیں تو میں بھی ہرسال کچھ ہفتوں کے لیے یہاں آیا کروں گا۔ کچھ مشترکہ علمی منصوبے طے ہوئے تھے۔ اس کام کو وہ بلاتاخیر آگے بڑھانا چاہتےتھے۔ اس سلسلے میں مولانا مودودیؒ کا ایک خط ڈاکٹر سیّدظفرالحسنؒ (جوعلی گڑھ یونی ورسٹی میں شعبۂ فلسفہ کے پروفیسرتھے) کے نام لائقِ توجہ ہے، اس میں مولانانے یہ بتایا تھا کہ میرےاور علّامہ اقبالؒ کے درمیان کیا باتیں ہوئی تھیں۔ یہ خط اقبالؒ کی وفات کے بعد جون ۱۹۳۸ء میں لکھا گیا۔اس وقت تک ایک ادارہ ’دارالاسلام‘ کے نام سے قائم ہوچکا تھا، اور کچھ افرادِ کار اس سے منسلک تھے۔ ڈاکٹر سیّد ظفرالحسن نے بھی اس کی شوریٰ کی رکنیت قبول کرلی تھی۔ ان کے نام خط میں مولانا نے لکھا:
اس خط سے اندازہ ہوتا ہے کہ علّامہ اقبالؒ اور سیّد مودودیؒ کے درمیان بہت سے علمی مسائل اورفقہ اسلامی کی تشکیل کے منصوبے کے ساتھ دیگر موضوعات بھی زیربحث آئے ہوں گے اور اس وقت ہندستانی سیاست کا جو نقشہ مرتب ہورہا تھا، اس پربھی تبادلۂ خیال ہوا ہوگا۔
مولانا دکن سے ہجرت کرکے ۱۸مارچ ۱۹۳۸ء کو جمال پور (پٹھان کوٹ) پہنچے۔ایک نئی جگہ اور نئے مکان میں، اپنا سازوسامان اور متفرق معاملات ترتیب دے رہے تھے کہ نذیرنیازی نے ۱۸؍اپریل ۱۹۳۸ء کو لاہور سے انھیں ایک خط لکھا: ’’ڈاکٹرصاحب قبلہ کی حالت نہایت اندیش ناک ہے۔ ایک لمحے کا بھی بھروسا نہیں۔ بہتر یہی ہوگا کہ آپ جس قدر ہوسکے جلدی تشریف لے آئیں‘‘ (خطوطِ مودودی، دوم،ص ۱۹۰)۔ ڈاک سے خط۱۹ یا ۲۰؍اپریل کو پہنچا ہوگا۔ مولانا نے لاہور کا عزم کیا ہی تھا کہ اگلے روز خبرملی کہ ’علّامہ ۲۱؍اپریل کو فوت ہوگئے‘۔
مولانا مودودیؒ نے اقبال کی وفات پر اپنے دُکھ کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ اس کام کے لیے میں بالکل اکیلا رہ گیا ہوں جو ہم نے مل کر کرنے کا پروگرام بنایا تھا۔ اب معلوم نہیں وہ کس طرح سے ہوگا؟ نذیر نیازی کے نام ایک خط (مؤرخہ ۲۳؍اپریل ۱۹۳۸ء ) میں لکھتے ہیں:
اسی خط میں لکھتے ہیں کہ:
علّامہ اقبال کی وفات کے بعد مولانا مودودیؒ نے جس تحریکِ اسلامی کا احیا کیا، وہ رفتہ رفتہ پھیلتی گئی۔ اس کی توسیع و ترقی، کامیابی اورفروغ میں کلامِ اقبالؒ کی فکری راہ نمائی کا بھی بڑادخل ہے۔
حیاتِ اقبال کے آخری دنوں کی معروف رباعی ہے:
سُرودِ رفتہ باز آید کہ ناید؟
نسیمے از حجاز آید کہ ناید؟
سرآمد روزگارِ ایں فقیرے
دگر داناے راز آید کہ ناید؟
(اب گذشتہ سُرود واپس آئے یا نہ آئے؟ حجاز کی طرف سے ٹھنڈی ہوا چلے نہ چلے؟ اس فقیر [اقبال] کی زندگی تو ختم ہوئی، اب کوئی اور راز آشنا آئے یا نہ آئے؟)
بعض اصحاب کا خیال ہے اور بجا ہے کہ ’دگر داناے راز‘ کا مصداق سیّدابوالاعلیٰ مودودی ہیں۔ چنانچہ رزمی امروہوی ’مردِ امروز‘ کے عنوان سے اپنی ایک نظم میں کہتے ہیں:
روحِ اقبال از برائش مے تپید
آں دگر داناے راز آمد پدید
چشم حق بیں اندریں عصرِ جدید
ہم سرِ سیّد ابوالاعلیٰ ندید
(اقبال کی روح اس کے لیے تڑپتی تھی، ایک دوسرا داناے راز وجود میں آئے۔ حق بیں آنکھ [لوگوں] نے دورِحاضر میں سیّدابوالاعلیٰ مودودی جیسے مقام و مرتبے والا کوئی اور شخص نہیں دیکھا)
(ماہ نامہ چراغ راہ ، کراچی، اکتوبر و نومبر ۱۹۵۳ء،ص۴۵)
جماعت اسلامی کے علاوہ بیسویں صدی میں جو اسلامی تحریکیں دوسرے ممالک میںبرپا ہوئی ہیں اور پھر عالمِ اسلام میں بیداری کی جو لہریںپیدا ہوئیں (تاحال آخری: عرب بہار)، ان میں مولانا مودودیؒ اورعلّامہ اقبالؒ دونوں کا بڑا اثر ہے۔ عربوں میں حسن البنا اور سیّد قطب۔ انقلابِ ایران میں آیت اللہ خمینی اور علّامہ اقبالؒ کی شاعری اورسیّد مودودیؒ کی نثر کے اثرات کا خود ایرانی دانش ور اور علما اعتراف کرتے ہیں۔ اسی طرح وسطی ایشیا کے مسلم ملکوں میں مجاہدین افغانستان اور اسلامی بیداری میں اقبال کے فارسی کلام (تیز ترک گامزن ، منزلِ ما دور نیست) اور سیّد مودودی کے تراجم کے اثرات بھی برگ و بار لائے۔
اسلامی بیداری کی یہ صورتِ حال دونوں اکابر کی توقعات کے عین مطابق ہے۔ اِس وقت ’گیا دورِ گراں خوابی‘ کے بعد ’اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے،اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے‘ کی سی کیفیت ہے۔ مجموعی طور پر علّامہ اقبالؒ اور سیّد مودودیؒ، دونوں عالمِ اسلام کی بیداری اور تجدید و احیاے دین کے بارے میں بہت پُراُمید تھے۔ علّامہ اقبالؒ ، چودھری محمدحسین کے نام ۲؍اکتوبر ۱۹۲۲ء کے خط میں لکھتے ہیں: ’’اسلام، خلفا کے زمانے کی طرف آرہا ہے۔ خدا نےچاہا تو خلافت ِ اسلامیہ اپنے اصل رنگ میں عنقریب نظرآئے گی‘‘ (چودھری محمد حسین اور علّامہ اقبال، تحقیقی مقالہ ایم اے اُردو، ثاقف نفیس، ۱۹۸۴ء، ص ۶۵)۔ اسی طرح نورحسین کو ۱۷مارچ ۱۹۳۷ء کے خط میں لکھتے ہیں : ’’گذشتہ دس پندرہ سال میں کئی لوگوں نے مجھ سے ذکر کیا ہے کہ انھوں نے حضورِرسالت مآبؐ کو جلالی رنگ میں یا سپاہیانہ لباس میں خواب میں دیکھا ہے۔ میرے خیال میں یہ علامت احیاےاسلام کی ہے‘‘۔(انواراقبالاز بشیراحمد ڈار، ص ۲۱۶)
اس طرح کی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیداری کی لہراور احیاے اسلام کی تحریکوں کا برپا ہونا علّامہ اقبالؒ کی بصیرت میں موجود تھا اوروہ اس معاملے میں بڑے پُرامید تھے۔ سیّدمودودی نے بھی ایک موقعے پر کہا تھا: ’’جس طرح یہ بات یقینی ہے کہ کل صبح سورج مشرق سے طلوع ہوگا، بالکل اسی طرح مجھے یقین ہے کہ پاکستان میں اسلامی نظام غالب آئے گا‘‘۔ بہرحال، ’’اقبال کی فکری تحریک سے مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی نے احیاے اسلام کےکام کو آگے بڑھایا‘‘ (ڈاکٹرممتاز احمد، فنون لاہور، مدیر: احمد ندیم قاسمی، بحوالہ: اوراقِ گم گشتہ از پروفیسر رحیم بخش شاہین، ص ۸۷)۔
جب بھی ہم مولانا مودودیؒ کی فکرپر گفتگو یا بحث کرتے ہیں تو ہمیں یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ فکرمودودیؒ دراصل فکر ِ اقبالؒ ہی کا تسلسل اور اس کی توسیع ہے، اور جیساکہ اُوپر ذکر آچکا ہے، مختلف ممالک کی اسلامی تحریکوں کی پیش رفت میں اقبال اور سیّد مودودی دونوں کے اثرات کارفرما ہیں۔علّامہ اقبالؒ نے بجاطور پر کہا تھا :
وقت ِفرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نُورِ توحید کا اِتمام ابھی باقی ہے
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب راقم سیّد مودودی ؒکی تصانیف و تالیفات کی وضاحتی فہرست تیار کر رہا تھا (یہ ’کتابیاتِ مودودی: ایک مطالعہ‘ کے عنوان سے تذکرۂ سیّد مودودی، سوم میں شامل ہے اور الگ سے بھی شائع ہوئی)۔ اسی سلسلے میں تفہیم القرآن کے مختلف ایڈیشنوں کی تلاش تھی۔ ایک دن معلوم ہوا کہ ملک غلام علی صاحب کے کمرے میں تفہیم القرآن کے چند پرانے ایڈیشن رکھے ہوئے ہیں۔ اس لیے اِن اشاعتوں کے سنین و دیگر کوائف نوٹ کرنے وہاں چلا گیا۔ ملک صاحب کام میں مصروف تھے۔ معذرت چاہی اور مدّعا بیان کیا۔ انھوں نے اجازت دی۔ میں نے الماری سے تفہیم کے نسخے نکالے اور دیکھنے لگا۔
اسی دوران تفہیم سے ملک صاحب کا ذہن محمد فواد عبدالباقی [فروری ۱۸۸۲ء- فروری ۱۹۶۸ء] کے مرتب کردہ اشاریۂ قرآن المعجم المفھرس کی طرف منتقل ہوگیا۔ فرمایا: ’’مولانا محترم، ارض القرآن کے سفر پر گئے تو مصر سے میرے لیے قرآنِ پاک کا انڈکس لائے۔ محمدفواد عبدالباقی کا یہ انڈکس یہاں دستیاب نہ تھا۔ ابھی تک میرے پاس محفوظ ہے۔ یہ بڑا قیمتی تحفہ تھا، میرے لیے‘‘۔ یہ ۱۳۷۸ھ کا مطبوعہ نسخہ تھا۔ مولانا نے اسے ملک صاحب کو ان الفاظ میں ہدیہ کیا تھا:
ہدیہ برائے غلام علی صاحب، جو بلادِ عرب کے سفر کے دوران میں اُن کے لیے مصر سے خرید کیا گیا۔
ابوالاعلیٰ
۱۱جولائی ۶۰ء
مولانا کی مندرجہ بالا تحریر کے نیچے، ملک صاحب نے حسب ذیل عبارت رقم کی تھی:
بسم اللہ ہو الباقی
آج ۲۹ شوال ۹۹ھ (۲۲ستمبر ۱۹۷۹ء) کو صاحب ِہدیہ بان، میرے مرشد مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی انتقال فرما گئے بوقت ِشام مغرب و عشاء کے درمیان۔
اِنَّـا لِلّٰہِ وَ اِنَّـا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ
تَغَمَّدَ اللہُ بِغُفْرَانٍ وَسَقٰی ضَرِیْحَہٗ بِصَیِّبِ الرِّضْوَانِ
وہ جو بیچتے دیتے تھے دوائے دل، وہ دکان اپنی بڑھا گئے۔
غم زدہ عاجز
غلام علی
میں نے عرض کیا: ملک صاحب آپ کا خط ِتحریر مولانا کے خط سے خاصا مماثل ہے۔
ملک صاحب کہنے لگے: ’’جی ہاں، ابتدا میں، جب میں نے مولانا کے ساتھ کام کرنا شروع کیا تو میرا خط کچا تھا۔ میں جو کچھ لکھتا تھا، وہ بہت بدخط ہوتا تھا۔ میں نے کوشش سے اپنا خط بہتر بنایا ہے‘‘۔
قدرے توقّف سے فرمایا: ’’میرا خط بھی ٹھیک ہوگیا اور رفتہ رفتہ یہ ہوا کہ میری تحریر اور عبارت پر لوگوں کو یہ گمان گزرتا کہ مولانا کی ہے‘‘۔پھر کہنے لگے: ’’ایک بار مولانا نے فرمایا تھا: ’’اب تمھاری تحریر ایسی ہوگئی ہے کہ میں پڑھتا ہوں تو سمجھتا ہوں کہ میری تحریر ہے‘‘۔
بقول محترم میاں طفیل محمد: ’’مولانا غلام علی مرحوم و مغفور ہمارے مرشد و راہ نما سیّدابوالاعلیٰ مودودی کا ہرپہلو سے عکس اور نمونہ تھے‘‘۔
نام وَر اخبار نویس مصطفےٰ صادق صاحب [۱۹۲۶ء-۲۱نومبر ۲۰۱۱ء]کو سفروحضر میں ملک صاحب کے ساتھ ایک عرصہ گزارنے کا موقع ملا۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ملک غلام علی کے کردار، ان کی سیرت اور ان کی شخصیت، حتیٰ کہ اُن کی علمیّت پر مولانا مودودی کی گہری چھاپ تھی‘‘ (روزنامہ جسارت ، کراچی، ۸؍اکتوبر ۱۹۹۴ء)۔ یقینا اس لیے کہ ملک صاحب، سیّد مودودی کے فیض یافتہ تھے، جنھوں نے ایک طویل عرصہ مولانا مودودی کی صحبت اُٹھائی تھی۔
خلافت و ملوکیت پر اعتراضات کا جائزہ کے حوالے سے مولانا نے فرمایا:’’تم نے بڑی محنت کی ہے۔ ایسے حوالے تلاش کیے ہیں کہ مَیں بھی نہیں کرسکتا تھا‘‘۔
ملک صاحب نے فرمایا: ’’ہمارے ایک کاتب تھے، محمد صدیق صاحب ایک مرتبہ کہنے لگے کہ بعض اہلِ حدیث حضرات نے یہ کہنا شروع کیا ہے کہ مودودی صاحب خود لکھتے ہیں اور نام دوسروں کا دے دیتے ہیں___ تو میں نے کہا کہ میں ترجمان کا کاتب ہوں، اور مضامین خود لاتا ہوں، وہ مولانا کا نہیں بلکہ ملک غلام علی کا لکھا ہوا ہوتا ہے۔ خط ملتا جلتا ہے، اس لیے شبہہ پڑتا ہے‘‘۔
گفتگو جاری رکھتے ہوئے ملک صاحب نے بتایا: ’’بس جی، بات یہ ہے کہ یہ سب انھی کی صحبت کا نتیجہ ہے۔ شیخ سعدی نے گلستان میں کہا ہے:
گلے خوشبوے در حمام روزے
رسید از دستِ محبوبے بدستم
بدو گفتم کہ مشکی یاعبیری
کہ از بوے دلآویزے تو مستم
بگفتا من گلِ ناچیز بودم
و لیکن مدّتے با گل نشستم
جمالِ ہم نشیں در من اثر کرد
وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم
یہ مولانا مودودی کی صحبت کا فیضان ہے ___ یہ ’فیضان‘ والی بات اپنی جگہ بڑی اہم ہے۔ اقبال نے کہا ہے:
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیلؑ کو آدابِ فرزندی
کچھ رُک کر مولانا روم کا یہ شعر سنایا:
مولوی ہرگز نہ شُد مولائے رُوم
تا غلامِ شمسِ تبریز نہ شُد
پھر ایک سرد آہ بھر کر کہا: ’’تو یہ فیضان والی بات اہم ہے___ مگر وہ بات اب کہاں‘‘۔
میں خاموشی سے سُن رہا تھا ___ ملک صاحب کو جیسے کچھ یاد آگیا۔ کہنے لگے:
’’مکہ معظمہ میں فقہ کانفرنس ہونے والی تھی۔ مولانا کو دعوت نامہ آیا مگر ان کی صحت اچھی نہیں تھی۔ انھوں نے شرکت کے لیے مجھے بھیجا۔ یہ کانفرنس حج کے دنوں میں ہورہی تھی۔ میں گیا تو اس طرح مجھے حج کا موقع بھی مل گیا___ ‘‘
وفاقی شرعی عدالت کی ججی کا موضوع چھڑ گیا۔
فرمایا: ’’یہ بھی مولانا کی وجہ سے ہے___ ایک روز صدرمحمد ضیاء الحق [م: ۱۷؍اگست ۱۹۸۸ء] کا فون آیا کہ وفاقی شرعی عدالت کے لیے تین ججوں کی ضرورت ہے۔ دو تو مَیں منتخب کرچکا ہوں اور تیسرا نام تمھارا دیا گیا ہے۔ میں نے پوچھا کہ کن لوگوں کا انتخاب کیا ہے توضیاء الحق صاحب نے بتایا کہ ایک تو مولانا محمدتقی عثمانی صاحب اور دوسرے ___ ‘‘ [راقم نام بھول گیا ہے] خیر، میں نے کہا: ’’یہ تو آپ نے بہت اچھا انتخاب کیا ہے___ مگر میرا تو قانون کا کوئی تجربہ نہیں ہے اور میں عالم بھی نہیں ہوں، پھر مجھ سے کچھ زیادہ کام بھی نہیں ہوتا‘‘۔
ملک صاحب کے پاس بی اے کی ڈگری بھی نہ تھی۔ یہ بہت معروف قصّہ ہے، جو ملک صاحب کی زندگی میں سب سے اہم ڈرامائی تبدیلی تھی۔ ۱۹۳۹ء میں جب وہ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ، لاہور میں بی اے کے آخری سال میں تھے۔ پرنسپل(غالباً ایم اے غنی) نے سیّدمودودی کو کالج میں اسلامیات کی تدریس کی دعوت دی۔ حبیبہ ہال میں سیّد صاحب کے لیکچروں نے متعدد طلبہ (بشیر آزری، جیلانی بی اے، شیخ فقیرحسین، بشیراحمد ساجد) کو متاثر کیا بلکہ چونکا دیا مگر ملک صاحب کہتے ہیں کہ مولانا کی ایک آدھ تقریر سن کر ہی میں تو دل دے بیٹھا۔ انھوں نے سیّد صاحب کی تحریریں پڑھ کر بی اے کو ادھورا چھوڑا۔ ان کے اساتذہ ڈاکٹر سعید اللہ اور پروفیسر حمیداحمد خاں مرحوم نے انھیں سمجھایا، مگر وہ اپنے فیصلے پر قائم رہے، اور حینِ حیات مولانا اور جماعت سے وابستہ رہے۔
جملہ معترضہ قدرے طویل ہوگیا۔ ملک صاحب سے گفتگو کی طرف پلٹتے ہیں۔ ’’صدر ضیاء الحق صاحب اصرار کرنے لگے، تو مَیں نے کہا: اچھا، اس سلسلے میں مشورہ کرتا ہوں___ ساتھ ہی صدرصاحب سے یہ بھی کہا کہ آپ نے عائلی قوانین کی اصلاح نہیں کی___ وہ ہنس کرکہنے لگے: آہستہ آہستہ ہوجائے گا ___ یہ ’اپوا‘ والی عورتیں شور مچاتی ہیں___ اور آپ انکار کرتے ہیں‘‘۔
اب مولانا مرحوم کے آخری دور کا ذکر ہوا۔ ملک صاحب نے بتایا:
’’مولانا علاج کے سلسلے میں امریکا میں تھے۔ میں نے انھیں خط لکھا کہ مولانا، میں نے کافی عرصے تک آپ کے ساتھ کام کیا ہے۔ میرے کام میں جو کوتاہی ہوئی ہو یا کمی رہ گئی ہو، براہِ کرم درگزر فرمایئے اور مجھے بتا دیجیے کہ آپ مجھ سے خوش ہیں۔ مولانا کا جواب آیا، جس میں انھوں نے مجھ سے حُسنِ ظن کا اظہار کیا، حالانکہ میں اس کا مستحق تو نہیں تھا۔ بہرحال، مولانا نے لکھا: ’’مجھے تم سے جو محبت ہے، تم اس کا اندازہ ہی نہیں کرسکتے۔ اور اس طرح کی باتیں تھیں‘‘___
’’وہ خط آپ کے پاس محفوظ ہے؟‘‘ میں نے بڑے اشتیاق سے پوچھا۔
ملک صاحب نے فرمایا: ’’نہیں، وہ خط ملتے ہی میں نے ضائع کر دیا تھا‘‘۔
پھر فرمایا: ’’بس یہ اُن کا فیض ہے___ انھوں نے دین کی بڑی خدمت کی ، علمی اور عملی ہرلحاظ سے‘‘۔
اس نشست کے آخر میں عرض کیا: ’’ملک صاحب! میں نے آپ کا کافی وقت لیا ہے‘‘۔
ملک غلام علی صاحب نے جواب میں یہ شعر پڑھا اور گفتگو ختم ہوگئی :
غنیمت جان رَل مِل بیٹھنے کو
جدائی کی گھڑی سر پر کھڑی ہے
راقم نے ملک غلام علی صاحب کو سب سے پہلے ۱۹۶۲ء-۱۹۶۳ء میں دیکھا۔ اس زمانے میں ہم سرگودھا میں رہتے تھے۔ وہ اپنے گائوں کی سیاست کے حوالے سے ایک جھوٹے مقدمے میں ماخوذ ہوگئے تھے۔ مقدمہ سرگودھا کی عدالت میں چل رہا تھا۔ملک صاحب کو ہرپیشی پر لاہور سے سرگودھا آنا پڑتا۔ پیشی کے دن سے ایک روز پہلے شام کو وہ پبلک ٹرانسپورٹ پر سرگودھا آجاتے اور شب میں ہمارے ہاں، میرے والد صاحب کے کمرے میں قیام کرتے۔ صبح ناشتہ کرکے عدالت پہنچتے اور پیشی بھگتا کر اُسی روز واپس لاہور چلے جاتے۔کئی ماہ یا سال دو سال کی پیشیوں کے بعد، ایک روز وہ عدالت سے لوٹے تو یہ خوش خبری سنائی کہ مقدمہ خارج ہوگیا اور وہ بَری ہوگئے۔
عام طور پر لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ ملک صاحب کچھ عرصہ دعوتی اور تنظیمی فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ قیامِ پاکستان کے چند سال بعد وہ جماعت اسلامی حلقۂ لاہور کے قائم مقام امیر منتخب ہوئے اور مصطفیٰ صادق صاحب قیم تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ حلقۂ لاہور صرف لاہور شہر تک محدود نہ تھا، بلکہ پتوکی، چونیاں، قصور، للیانی اور بعض دوسرے قصبات بھی اس میں شامل تھے۔ قصبات کے ساتھ ملحقہ گائوں بھی۔ ہم دعوتی کاموں کے سلسلے میں گلی گلی اور قریہ قریہ جاتے۔ ملک صاحب درسِ قرآن و حدیث دیتے۔ کسی طرح کی سواری ہمارے پاس نہیں تھی، اس لیے سفر ہم بسوں میں کیا کرتے۔
جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی دفاتر، ۱۹۷۵ء میں اچھرہ سے منصورہ منتقل ہوگئے۔ عملے کے لیے چند مکانات بھی تعمیر ہوچکے تھے۔ ملک صاحب بھی اچھرہ سے منصورہ کے ایک کوارٹر میں منتقل ہوگئے۔ ملک صاحب مولانا کے معاونِ خصوصی تھے، اس لیے چند برس تک اچھرہ جاتے رہے، لیکن جب طبیعت زیادہ خراب ہوگئی تو پھر منصورہ ہی سے اپنی ذمہ داری ادا کرتے رہے۔
۸۰ء کے عشرے میں ملک صاحب وفاقی شرعی عدالت کے جج بن کر اسلام آباد چلے گئے، اور تقریباً چار سال تک خدمات انجام دیں۔ اس دوران میں وقتاً فوقتاً لاہور آتے، ملاقات ہوجاتی۔ ۱۹۸۵ء میں ججی سے سبک دوش ہوکر لاہور آگئے۔ اور ادارہ معارف اسلامی، منصورہ کے ایک کمرے میں بیٹھ کر کام کرنے لگے۔
شوگرکے مرض نے ان کی صحت کو بُری طرح متاثر کر دیا تھا۔ چلنا بھی دشوار ہوگیا۔ اس کے باوجود حسب ِ توفیق کچھ نہ کچھ چل لیتے اور کسی نہ کسی طرح ادارے میں پہنچ جاتے۔ آخری زمانے میں نماز کے لیے مسجد نہ آسکتے تھے۔ ایک دوبار ان کے بیٹے ملک ابراہیم صاحب ، والدماجد کو ویل چیئر پر نمازِ جمعہ پڑھوانے کے لیے لائے۔ ۲۶ستمبر ۱۹۹۴ء کو اپنے ربّ سے جاملے___ اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے، آمین!
ہمارے آج کے دانش وروں،خصوصاً’روشن خیال‘ دانش وروں کویہ بات مان لینی چاہیے کہ پوری بیسویں صدی میں اقبال سے بڑا کوئی صاحب ِدانش نہیں تھا،اوردانش حاضر اور اس کی گہرائیوں اور پیچیدگیوں سے بھی ان سے بڑھ کر کوئی واقف نہ تھا۔
اقبال کے ہاں’عقل‘اور’دانش‘مترادف کے طور پر بھی استعمال ہوتے ہیں اورعقل کے کچھ محدودسے فوائد بھی علامہ نے بتائے ہیں، مگراس مضمون میں’دانشِ حاضر‘کی ترکیب اُس دانش اور عقل عیار کے معنی ومفہوم میں استعمال کی گئی ہے، جس کے بارے میں اقبال نے کہا تھا:
تو اے مولائے یثرب آپ میری چارہ سازی کر
مری دانش ہے افرنگی ، مرا ایماں ہے زُنّاری
یا ؎
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
دانشِ حاضر کی ترکیب تو اقبال نے دوچار جگہ ہی استعمال کی ہے مگرزمانۂ حاضر،تہذیب حاضر،علم حاضر،دورِحاضر،دانشِ فرنگ،سرمۂ افرنگ،عقلِ ذوفنوں،فکرِخداداد ،فلسفہ وحکمت اور آزادیِ افکارجیسی تراکیب اورخرد،خبر،علم ،ظن،تخمین عقل،دانش اور فرنگ جیسے الفاظ ان کے ہاں بکثرت ملتے ہیں۔ اگر ہم اس طرح کے اشعار کونگاہ میں رکھیں:
برا نہ مان ذرا آزما کے دیکھ
فرنگ دل کی خرابی ، خرد کی معموری
______
نہ کر افرنگ کا اندازہ اس کی تابناکی سے
کہ بجلی کے چراغوں سے ہے اس جوہر کی بَرّاقی
______
ڈھونڈھ رہا ہے فرنگ ، عیشِ جہاں کا دوام
وائے تمنائے خام ، وائے تمنائے خام
تو اندازہ ہوگا کہ وہ اُس تہذیب،طرزِعمل اور فکر سے بے اطمینانی اور بے زاری کااظہارکررہے ہیں جو عقل پرستی کی بنیاد پروجود میںآنے والی دانش حاضر کاشاخسانہ ہے اور جس کے بارے میں علامہ نے کہا:
عذاب دانشِ حاضر سے باخبر ہوں میں
کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثلِ خلیل
صرف اقبال ہی نہیں،عہداقبال کاہرشخص دانشِ حاضر کے عذاب سے باخبر تھا بلکہ مابعدِ اقبال عہد کی دنیا بھی اس عذاب کوبھگت رہی ہے اور جانے کب تک اس عذاب کی آگ میں جلتی رہے گی۔
دانشِ حاضر چالاکی وعیاری،مکاری وفریب کاری،پُرکاری وسخن سازی اورچرب زبانی میں اپنی مثال آپ ہے۔ عہدحاضر میں دانشِ حاضر نے ساحرالموط کی سی حیثیت اختیارکرلی ہے۔ جو لوگ اس کے فریب میں آجاتے ہیں اور اس کے جال میں گرفتارہوجاتے ہیں، عہدِجدیدکا یہ ساحران کے سامنے ایسے حسین وجمیل،چمکنے دمکنے اور نظر کو خیرہ کرنے والے بت تراش دیتا ہے کہ نوگرفتار، ان کی چکاچوند کے سامنے بے اختیارسجدہ ریز ہوجاتے ہیں۔ان بتوں میں چھوٹے بڑے، مختلف شکل وصورت کے اورکئی قسموں کے بہت سے بت شامل ہیں، مثلاً:
یہ سب معبودانِ فرنگی اُسی دانش حاضرکے تراشیدہ ہیںاور،میں بڑی معذرت کے ساتھ عرض کررہاہوں کہ ہمارے بہت سے پاکستان ہی کے نہیں،مسلم دنیا کے دانش وربھی( ادیب ،صحافی خصوصاًکالم نگار،قلم کار،اساتذہ اورایک نئی مخلوق جسے ’اینکرپرسن‘کانام دیاجاتاہے،یہ سب)، اِلّاماشاء اللہ اسی دانش حاضرکے پھندے میں گرفتارہیں اور انھی معبودان فرنگی کے سامنے سجدہ ریز ہیں، جن سے بچنے کاعلامہ اقبال نے مشورہ دیاتھااوران سے ہوشیار رہنے کی تنبیہ بھی کی تھی مگر دانشِ حاضرکے بیچارے یہ نوگرفتار سمجھتے ہیں کہ ’وحیِ ولایت‘ کے ہرہرحرف پر آمنّاوصدّقنا کہنا ہی زندگی میں کامیابی کی کلید ہے۔ یہاںمشکل تویہ ہے کہ جن کی تعریف میں ہمارے دانش وَر رطب اللّساں ہیں،ان میں سے کسی ایک بت نے بھی بنی نوع انسان کی مسیحائی نہیں کی بلکہ اس کے برعکس سو سو طرح سے مرنے والی مخلوقِ خداکوہمیشہ بے اطمینانی اوربے حضوری اور بے یقینی اور محرومی ہی سے دوچارکیاہے۔دانش حاضرکے زائیدہ تما م فلسفوں، اِزموں، بتوں اورمعبودوں نے انسان کے اعتماد …خداپرایمان، کائنات پر یقین، کسی مذہب پر(یعنی زندگی بسرکرنے کے لیے کسی ضابطے، راستے اورعقیدے پر)ایمان،اورانسان کاخوداپنے اوپریقین اوراعتماد…دانش حاضر نے ان سب کوٹھیس پہنچائی ہے،کمزورکیاہے اورانسان کوتشکیک اور تذبذب میں مبتلاکیاہے۔
علامہ فرماتے ہیں:
علمِ حاضر پیشِ آفل در سجود
شک بیفزود و یقیں از دل ربود
اور اسی لیے عصر حاضر کاانسان’’بوعلی اندرغبارناقہ گم‘‘کی سی کیفیت سے دوچار ہے۔
علامہ اقبال نہایت دیانت داری سے سمجھتے تھے کہ دانش حاضر نہ صرف خودگم کردہ راہ ہے بلکہ گمراہی پھیلاتی بھی ہے اور اس نے ایک دنیا کو راہِ راست سے بھٹکایاہے۔اس گمراہی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دانش ِحاضر فیضانِ سماوی سے محروم ہے۔ اس نے مشرقی اقوام پر مغربی استعمار کی سامراجی گرفت کو مضبوط ترکرنے کانامسعودکارنامہ سرانجام دیاہے۔علامہ اقبال کے نزدیک دانش حاضرکے ڈانڈے ابلیس سے ملتے ہیں:
گو فکرِ خداداد سے روشن ہے زمانہ
آزادیِ افکار ہے ابلیس کی ایجاد
ابلیس کے علاوہ دوسری ہستی میکاولی کی ہے جسے دانش حاضر نے اپنا مرشد بنارکھاہے۔اس ابلیسیت اورمیکاولیت کی بنیاد پر دانش حاضرنے جو گل کھلائے،ہم اقبال کی وفات کے پون صدی بعدبھی اس کے ’’فیوض وبرکات‘‘کی زدسے باہر نہیں نکل سکے۔عہدحاضرمیںآزادی فکر،آزادی نسواں،مساوات مردوزن،رواداری،دوستی ، روشن خیالی اورنظریہ پاکستان کے مفہوم کے ازسرنوتعین کے سلسلے میں سیکولرزم پراصراراورایک خاص مفہوم اورپس منظر میں’عوام کی عدالت ‘کواسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستوراوراس کی مقننہ اورعدلیہ سے بھی بالاترقراردینے کانعرہ ۔ یہ سب جیساکہ اُوپرعرض کیاگیا،دانش حاضرکے زائیدہ مسائل اور امراض ہیں۔عہداقبال میں بھی یہ سب موجود تھے اور علامہ کو ان کاپوراادراک تھا۔اس کے بعض پہلوؤں کا اظہار انھوںنے ’بالِ جبریل‘ کی نظم’’لینن‘‘میں کیاہے۔ چنداشعارملاحظہ فرمائیے:
یورپ میں بہت روشنیِ علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمۂ حیواں ہے یہ ظلمات
رعنائیِ تعمیر میں ، رونق میں ، صفا میں
گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات
ظاہر میں تجارت ہے ، حقیقت میں جوا ہے
سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات
یہ علم ، یہ حکمت ، یہ تدبر ، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو ، دیتے ہیں تعلیم مساوات
بیکاری و عریانی و مے خواری و اِفلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات
فرنگی مدنیت کی فتوحات کی پوری فہرست بہت طویل ہے ۔جنسی بے راہ روی نے کنواری ماؤں، ناجائزبچوںاورشادی کے رجحان میں بتدریج کمی کی منازل سے گزر کرفرنگی معاشرے کوخاندانی اکائی سے محروم اورخاندانی نظام کی تباہی سے دوچار کردیا ہے اوراب دانش حاضرہم جنس پرستی پر مصر ہے۔ جب دانشِ حاضر نے عالم انسانی کو اتنی ساری مہلک بیماریوں میں مبتلاکردیاتو انسانیت کیسے پنپ سکتی ہے۔ اقبال نے خطبات میںایک جگہ کہاہے:
Believe me, Europe to-day is the greatest hindrance in the way of man's ethical advancement
خیر،یہ توفرنگی مدنیت کاایک پہلوہے۔اس کاسب سے روشن اورقابل قدرچہرہ تو’’یہ علم ،یہ حکمت،یہ تدبر،یہ حکومت‘‘قراردیاجاتاتھا مگر اب مغرب کا علم و ہنر،تعلیم وتعلم،حکمت وحکومت اورتدبروتفکر وغیرہ سب کچھ دانش حاضر سے مسموم ہوچکاہے۔اب علم’تخمین وظن‘ اور ’سراپاحجاب‘ بن چکاہے۔اقبال نے اس ظلمات اوران فتنوں سے باخبررہنے کی تلقین کی ہے۔
اے مسلماناں ! فغاں از فتنہ ہائے علم و فن
اہرمن اندر جہاں ارزاں و یزداں دیریاب
خیال رہے کہ دانش حاضرکی زائیدہ بہت سی بیماریوں میں سے روشن خیالی کی بیماری، ہمارے ایک طبقے کوعہداقبال ہی سے لاحق ہوچکی تھی۔پنڈت نہروکے ساتھ قادیانیت کے مسئلے پرقلمی مناقشے میں ایک جگہ اقبال نے لکھاہے:
The so-called "enlightened" Muslim has seldom made an attempt to understand the real cultural significance of the idea of Finality in Islam and a process of slow and imperceptible Westernisation has further deprived him even of the instinct of self-preservation.
یہself-preservationسے محرومی کیاہے؟ اس کی وضاحت علامہ نے مثنوی’پس چہ باید کرداے اقوامِ شرق‘ میں بایں الفاظ کی ہے:
اے تہی از ذوق و شوق و سوز و درد
می شناسی عصرِ ما با ما چہ کرد
عصرِ ما ما را زِ ما بیگانہ کرد
از جمالِ مصطفیٰؐ بیگانہ کرد
سوزِ او تا از میانِ سینہ رفت
جوہرِ آئینہ از آئینہ رفت
باطنِ ایں عصر را نشناختی
داوِ اوّل خویش را درباختی
علّامہ نے صرف تشخیصِ مرض ہی پر اکتفا نہیںکیا،دانش حاضر کی اس بیماری کا علاج بھی بتایاہے اوروہ ہے: ع
اندر ایں کشور مقامِ خود شناس
پھروہ کہتے ہیں کہ یہ خودشناسی لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہَ کی طرف مراجعت ہی سے ممکن ہے اوریہی دانش حاضرکے زہرکاتریاق ہے۔اسی مثنوی میں ایک جگہ کہتے ہیں:
نکتۂ می گویم از مردانِ حال
اُمتاں را لا جلال اِلَّا جمال
لا و اِلَّا احتسابِ کائنات
لا و اِلَّا فتحِ بابِ کائنات
ہر دو تقدیرِ جہانِ کاف و نوں
حرکت از لا زاید از اِلَّا سکوں
تا نہ رمزِ لَا اِلَہ آید بدست
بند غیر اللہ را نتواں شکست
یہ رمزلَااِلٰہ کیاہے؟ا س کی وجہ علامہ نے لَااِلٰہ اِلَّااللّٰہَ کے عنوان سے ضرب کلیمکی پہلی نظم میں بیان کی ہے۔ خیال رہے کہ ۱۹۳۶ء میںضرب کلیم کی اشاعت کو اقبال نے دانش حاضر کے فتنے کے خلاف ’اعلانِ جنگ‘قراردیاتھا __ یہ نظم خود شناسی کی وضاحت بھی ہے اور رمز لَااِلٰہ کامفہوم بھی کھولتی ہے__فرماتے ہیں:
خودی کا سرِّ نہاں لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہَ
خودی ہے تیغ ، فساں لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہَ
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں ، لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہَ
خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زُنّاری
نہ ہے زماں نہ مکاں ، لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہَ
۲۱؍اپریل ۱۹۳۸ء کو علامہ اقبالؒ کے انتقال کے وقت مولانا مودودیؒ کی عمر تقریباً ۳۵سال تھی۔ یہ عین ان کی جوانی کا زمانہ تھا اور وہ اپنے افکار ونظریات کو بڑی حد تک مرتب کرچکے تھے، جن کی بنیاد پر انھوں نے آگے چل کر ایک فکری و نظریاتی تحریک کا آغاز کیا۔ ہمارا خیال ہےکہ مولانا کی مذکورہ تحریک کے پس منظر میں اقبالؒ کے افکار بڑے بھرپور طریقے سے کارفرما رہے ہیں اور اسی طرح دونوں شخصیات کے درمیان فکرونظر کی گہری ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
شخصی حوالے سے دیکھا جائے تو علامہ اقبالؒ سے مولانا مودودیؒ کی پہلی ملاقات جنوری ۱۹۲۹ء میں ہوئی، جب علامہ، مدراس (چنائے) میں تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ کے سلسلے کے تین انگریزی لیکچر (خطبات) دینے کے بعد، بنگلور اورمیسور سے ہوتے ہوئے حیدرآباد دکن پہنچے اور وہاں بھی تین خطبے دیے۔ مولانا مودودیؒ نے خود لکھا ہے کہ ’’میری ان سے پہلی ملاقات وہاں ہوئی، دوسری ملاقات فروری مارچ ۱۹۳۷ء میں (خطوط مودودی، دوم،ص ۶۹) اور تیسری ملاقات اکتوبر ۱۹۳۷ء (ایضاً، دوم،ص ۱۲۰) میں (لاہور میں) ہوئی۔ ان ملاقاتوں کا پس منظر یہ تھا کہ ایک دردمند مسلمان چودھری نیاز علی خاں (م: ۲۴ فروری ۱۹۷۶ء) نے اپنی جایداد واقع جمال پور، پٹھان کوٹ ضلع گورداس پور کا ایک حصہ خدمت ِ دین کے لیے وقف کرکے وہاں ایک درس گاہ قائم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اور اس سلسلے میں متعدد زعما اورعلما سے راہ نمائی چاہی، جن میں مولانا اشرف علی تھانویؒ، علامہ اقبالؒ ، سیّد سلیمان ندویؒ، عبدالماجد دریابادی اور سیّدمودودیؒ شامل تھے (چودھری نیاز علی خاں اور مولانا مودودی کی باہمی خط کتابت کے لیے دیکھیے: سیّد اسعد گیلانی کی تصنیف اقبال، دارالاسلام اور مودودی۔اسلامی اکادمی لاہور، ۱۹۷۸ء)۔ مولانا مودودی نے علمی کام کا ایک تفصیلی نقشہ بناکر چودھری صاحب کو پیش کیا۔ چودھری صاحب نے اس علمی منصوبے سے علّامہ اقبال کو آگاہ کیا۔ انھوں نے اسے پسند کیا اور فرمایا کہ ’’اس وقت کرنے کے کام یہی ہیں‘‘ (سیّارہ، لاہور، اقبال نمبر ۱۹۶۳ء)۔
دراصل علّامہ اقبالؒ اس زمانے میں مولانا مودودیؒ کے نام اور ان کی فکر سے واقف ہوچکے تھے۔ الجہاد فی الاسلام پڑھ چکے تھے اور ترجمان القرآن بھی ان کے زیرمطالعہ رہتا تھا۔ چنانچہ بقول چودھری نیاز علی خاں: ’’حضرتِ علامہ کی نظر جوہر شناس بھی سیّد صاحب پر جاپڑی‘‘۔ (صحیفہ لاہور، اقبال نمبر، اکتوبر ۱۹۷۳ء، ص ۲۳)
علّامہ اقبال نے ادارے کی سربراہی کے لیے مولانا مودودی ؒ کا نام تجویز کیا۔ مولانا فرماتے ہیں:’’۱۹۳۷ء کے آغاز میں ان کا عنایت نامہ ملا کہ مَیں حیدرآباد کو چھوڑ کر پنجاب چلا آؤں‘‘ (سیارہ،اقبال نمبر، فروری ۱۹۷۸ء)۔ پھر چودھری نیاز علی نے بھی مسلسل اصرار کیا اورمولانا کو دعوت دی کہ وہ دکن سے ہجرت کرکے لاہور آجائیں۔ چنانچہ فروری مارچ ۱۹۳۷ء میں مولانا مودودیؒ لاہورآئے اور جیساکہ اُوپر ذکر آچکا ہے کہ علامہ اقبالؒ سے ملے اور دوتین نشستوں میں تفصیلی تبادلۂ خیالات ہوا۔ اگرچہ اس سے پہلے بھی مولانا مودودیؒ ،علامہ اقبالؒ اور ان کی شاعری سے بخوبی واقف تھےاور فکری سطح پر بہت قربت محسوس کرتے تھے۔ اب اس قربت میں اور اضافہ ہوگیا۔ مولانا مودودیؒ کہتے ہیں: ’’ان ملاقاتوں میں ایسا محسوس ہوا کہ جیسے میری اور ان کی بہت پرانی واقفیت ہے اور ہم ایک دوسرے کےدل سے بہت قریب ہیں۔ یہاں میرے اور اُن کے درمیان یہ بات طے ہوگئی کہ میں پنجاب منتقل ہوجاؤں اور پٹھان کوٹ کے قریب اس وقف کی عمارات میں، جس کا نام ہم نے بالاتفاق ’دارالاسلام‘ تجویز کیا تھا، ایک ادارہ قائم کروں، جہاں دینی تحقیقات اور تربیت کا کام کیا جائے‘‘(ایضاً)۔ بہرحال، ان ملاقاتوں کے بعد مولانا دکن کو چھوڑ کر پنجاب آنے کے لیے بالکل یکسو ہوگئے اور انھوں نے دکن سے ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا۔
لاہور سے واپس دکن واپس پہنچے تو انھوں نے چودھری نیازعلی خاں کو جو خط لکھا، اس میں بتایا کہ میں نےیہاں پہنچتے ہی ہجرت کی تیاری شروع کردی ہے۔ اس کا ایک بڑا سبب یہ تھا کہ علامہ اقبالؒ نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ اگر آپ یہاںآجائیں تو میں بھی ہرسال کچھ ہفتوں کے لیے یہاں آیا کروں گا۔ کچھ مشترکہ علمی منصوبے طے ہوئے تھے۔ اس کام کو وہ بلاتاخیر آگے بڑھانا چاہتےتھے۔ اس سلسلے میں مولانا مودودیؒ کا ایک خط ڈاکٹر سیّدظفرالحسنؒ کے نام ملتا ہے (جوعلی گڑھ یونی ورسٹی میں شعبۂ فلسفہ کے پروفیسرتھے)۔ اس میں مولانانے یہ بتایا تھا کہ میرےاور علامہ اقبالؒ کے درمیان کیا باتیں ہوئی تھیں۔ یہ خط اقبالؒ کی وفات کے بعد جون ۱۹۳۸ء میں لکھا گیا۔اس وقت تک ایک ادارہ ’دارالاسلام‘ کے نام سے قائم ہوچکا تھا، اور کچھ افرادکار اس سے منسلک تھے۔ ڈاکٹر سیّد ظفرالحسن نے بھی اس کی شوریٰ کی رکنیت قبول کرلی تھی۔ خط میں مولانا نے لکھا کہ ’’آپ نے ہماری معنوی قوت میں بہت کچھ اضافہ کردیا ہے‘‘ اور پھر بتایا کہ ’’اکتوبر۱۹۳۷ء میں خاص طور پر انھی مسائل پر بحث کرنے کے لیے مَیں علامہ اقبالؒ سے لاہور میں ملا تھا… ان سے مفصل گفتگو ہوئی تھی۔ خوب غوروخوض کے بعد جس نتیجے پر پہنچے، وہ مختصراً مَیں یہاں عرض کرتا ہوں:
’’حالات کی رفتار نے خود بخود مسلمانوں کو گھیر گھیر کر ایک اجتماعی ہیئت کی طرف لانا شروع کردیا ہے،ہندستان کے مختلف حصوں میں ان کو جو پیہم ضربات لگ رہی ہیں، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہرطرف سے بھاگ بھاگ کر مسلم لیگ کی طرف آرہےہیں۔ اگرچہ ابھی تک ان میں ایک تنظیمی ہیئت پیدا نہیں ہوئی ہے، جو فکر اور وحدتِ عمل کا نتیجہ ہوتی ہے بلکہ درحقیقت ان کے سامنے اپنا نصب العین بھی واضح نہیں ہے۔مختلف خیالات، مختلف مقاصد اور مفادات اور خصائل رکھنے والے لوگ اس طرح جمع ہوگئے ہیں جیسے جنگل میں آگ لگنے پر مختلف گلے ہرطرف سے بھاگ کر ایک جگہ جمع ہوجاتے ہیں، تاہم یہ تنظیمی ہیئت پیدا کرنے کا ابتدائی مرحلہ ہے اور اس وقت کوئی الگ جھنڈا بلند کرنا، بجاے مفید ہونے کے، اس تالیفی عمل میں مانع ہوجائے گا جو کسی طرح مناسب نہیں ہے۔
’’ مسلم لیگ کے مرکز پر جو طاقتیں جمع ہورہی ہیں، ان کے بنیادی نقائص کو دُور کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ ان کے تصورات میں جو ابہام اس وقت پایا جاتا ہے، اس کو دُور کیا جائے تاکہ واضح طور پر اس موجودہ پوزیشن کوسمجھ لیں اور اپنی ایک قومی غایت متعین کرلیں۔ یہ چیز جتنی زیادہ واضح ہوتی جائے گی، اتنی ہی تیزرفتاری کے ساتھ عامۃ المسلمین کا ترقی پسند اور اقدام پسند عنصر مسلم لیگ کی صفوں میں آگے بڑھتا جائے گا، اورخودغرض،نمایشی اور آرام طلب عناصر پیچھے رہ جائیں گے۔ اس کا ایک لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ مسلمانوں کے وہ تمام بے چین عناصر جو محض مسلم لیگ کی بے عملی سے بے زارہوکر مختلف راستوں پر بھٹک گئے ہیں، رفتہ رفتہ پلٹنے شروع ہوجائیں گے، اور تھوڑی مدت بھی نہ گزرے گی کہ یہ جماعت جمہور مسلمین کی ایک مرکزی جماعت بن جائے گی۔
’’سردست ہم مسلم لیگ سے، اس سے بڑھ کر کوئی توقع نہیں کرسکتے کہ وہ موجودہ غیراسلامی نظامِ سیاست میں مسلمانوں کی قومی پوزیشن کو بیش از بیش محفوظ کرنے کی کوشش کرے گی۔ ہمارے لیے صحیح پالیسی یہ ہے کہ rear guard میں رہیں اور ایک طرف تو اپنے خیالات کی اشاعت سے مسلم لیگ کو بتدریج اپنے نصب العین کے قریب تر لانے کی کوشش کرتے رہیں اور دوسری طرف مردانِ کار کی ایسی طاقت ور جماعت تیار کرنے میں لگےرہیں جو دارالاسلام کی فکری بنیاد بھی مستحکم کرے اور اس مفکورے کو جامۂ عمل پہنانے کے لیے بھی مستعد ہو۔ جب تک یہ انقلابی جماعت میدان میں آنے کے لیے تیار ہوگی، اس وقت تک ان شاء اللہ میدان ہموار ہوچکا ہوگا کیونکہ انقلابی تصورات کی تبلیغ سے ہم پہلے ہی مسلمانوں کے کارکن اور کارفرما عناصر کو اپنے سے قریب تر لاچکے ہوں گے‘‘۔(خطوطِ مودودی، دوم، ص ۱۹۸-۲۰۴)
اس خط سے اندازہ ہوتا ہے کہ علامہ اقبالؒ اور سیّد مودودیؒ کے درمیان بہت سے علمی مسائل اورفقہ اسلامی کی تشکیل کے منصوبے کے ساتھ دیگر موضوعات بھی زیربحث آئے ہوں گے اور اس وقت ہندستانی سیاست کا جو نقشہ مرتب ہورہا تھا، اس پربھی تبادلۂ خیال ہوا ہوگا۔
مولانا ۱۸مارچ ۱۹۳۸ء کو دکن سے جمال پور (پٹھان کوٹ) پہنچے (ابوالاعلیٰ مودودی، علمی و فکری مطالعہ، ص ۵۶۸)۔ اگلے ماہ وہ لاہور آنے کے لیے بالکل تیار تھے۔ نذیرنیازی نے ۱۸؍اپریل کو انھیں ایک خط لکھا کہ’’ ڈاکٹرصاحب فرماتے ہیں کہ اگر آپ کا ارادہ فی الواقع لاہور آنے کا ہے تو جلدی تشریف لایئےتاکہ ملاقات ہوجائے۔ اپنی طرف سے یہ گزارش ہے کہ ڈاکٹرصاحب قبلہ کی حالت نہایت اندیش ناک ہے۔ ایک لمحے کا بھی بھروسا نہیں۔ بہتر یہی ہوگا کہ آپ جس قدر ہوسکے جلدی تشریف لے آئیں‘‘ (خطوطِ مودودی، دوم،ص ۱۹۰)۔ اس خط کا ڈاکٹر جاویداقبال نے زندہ رُود ، سوم میں بھی ذکر کیا ہے۔ علامہ ۲۱؍اپریل کو فوت ہوگئے، اس پر مولانا مودودیؒ کو شدید صدمہ ہوا اور انھوں نے اقبال کی وفات پر اپنے دُکھ کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ اس کام کے لیے میں بالکل اکیلا رہ گیا ہوں جو ہم نے مل کر کرنے کا پروگرام بنایا تھا۔ اب معلوم نہیں وہ کس طرح سے ہوگا۔ دیکھیے کہ نذیر نیازی کے نام ایک خط (مورخہ ۲۳؍اپریل ۱۹۳۸ء ) میں وہ صدمے کا اظہار کس طرح کرتے ہیں:
علامہ اقبال کے انتقال کی خبر پہنچی، دفعتاً دل بیٹھ گیا۔سب سے زیادہ رنج مجھے اس بناپر ہوا کہ کتنا قیمتی موقع میں نے کھو دیا… میں اس کو اپنی انتہائی بدنصیبی سمجھتا ہوں کہ اس شخص کی آخری زیارت سے محروم رہ گیا، جس کا مثل شاید اب ہماری آنکھیں نہ دیکھ سکیں گی‘‘(خطوطِ مودودی، دوم، ص ۱۸۹)۔
اسی خط میں لکھتے ہیں کہ ’’کچھ خبر نہیں، اللہ کو کیا منظورہے۔ بظاہر تو ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ مسلمان قوم کو اس کی ناقدری اور نااہلی کی سزا دی جارہی ہے کہ اس کے بہترین آدمی عین اس وقت پر اُٹھا لیے جاتے ہیں، جب ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے ۔اب سارے ہندستان پر نگاہ ڈالتا ہوں تو کوئی ایک شخص بھی ایسا نظر نہیں آتا جس کی طرف ہدایت حاصل کرنے کے لیے رجوع کیا جاسکے۔ ہرطرف تاریکی چھائی ہوئی ہے، ایک شمع جو ٹمٹما رہی تھی، وہ بھی اُٹھا لی گئی۔
’’مجھے جو چیز پنجاب کھینچ کر لائی تھی، وہ دراصل اقبالؒ ہی کی ذات تھی۔ میں اس خیال سے یہاں آیا تھا کہ ان سے قریب رہ کر ہدایت حاصل کروں گا اور ان کی رہنمائی میں جو کچھ مجھ سے ہوسکے گا، اسلام اورمسلمانوں کے لیے کروں گا۔ اب میں ایسامحسوس کررہاہوں کہ اس طوفانی سمندر میں، میں بالکل تنہا رہ گیا ہوں، دل شکستگی اپنی آخری انتہا کو پہنچ گئی ہے۔ صرف اس خیال سے اپنے دل کوڈھارس دےرہا ہوں کہ اقبالؒ مرگئے تو کیا ہوا، خدا تو موجود ہے، سب مرجانے والے ہیں، زندہ رہنے والا وہی حی و قیوم ہے، اوراگر وہ تجھ سے کوئی کام لینا چاہے گا تو تیری مدد کے لیے اورکچھ سامان کرے گا‘‘ (خطوطِ مودودی، دوم، ص ۱۸۹- ۱۹۱)۔
علامہ اقبالؒ کی وفات کے بعد مولانا مودودیؒ نے جس تحریک اسلامی کا احیا کیا، وہ رفتہ رفتہ پھیلتی گئی۔ اس کی توسیع و ترقی، کامیابی اورفروغ میں علامہ اقبالؒ کی رہنمائی کا بھی بڑادخل ہے۔ جماعت اسلامی کے علاوہ جو اسلامی تحریکیں دوسرے ممالک میںبرپا ہوئی ہیں اور پھر عالمِ اسلام میں بیداری کی جو لہرپیدا ہوئی، اس میں مولانا مودودیؒ اورعلامہ اقبالؒ دونوں کا بڑا اثر ہے۔ آیت اللہ خمینی کے انقلابِ ایران میں علامہ اقبالؒ کی شاعری اورسیّد مودودیؒ کی نثر کے اثرات کا خود ایرانی دانش ور اور علما اعتراف کرتے ہیں۔ اسی طرح وسطی ایشیا میں اسلامی بیداری میں بھی ان کے اثرات برگ و بار لائے۔
بحیثیت مجموعی علامہ اقبالؒ اور سیّد مودودی، دونوں عالمِ اسلام کی بیداری اور تجدید و احیاے دین کے بارے میں بہت پُراُمید تھے۔ علامہ اقبالؒ ، چودھری محمدحسین کے نام ۲؍اکتوبر ۱۹۲۲ء کے خط میں لکھتے ہیں: ’’اسلام خلفا کے زمانے کی طرف آرہا ہے۔ خدا نےچاہا تو خلافت ِ اسلامیہ اپنے اصل رنگ میں عنقریب نظرآئے گی‘‘(چودھری محمد حسین اور علامہ اقبال، تحقیقی مقالہ ایم اے اُردو، ثاقف نفیس، ۱۹۸۴ء، ص ۶۵)۔اسی طرح نورحسین کو ۱۷مارچ ۱۹۳۷ء کے خط میں لکھتے ہیں : ’’گذشتہ دس پندرہ سال میں کئی لوگوں نے مجھ سے ذکر کیا ہے کہ انھوں نے حضورِرسالت مآبؐ کو جلالی رنگ میں یا سپاہیانہ لباس میں خواب میں دیکھا ہے۔ میرے خیال میں یہ علامت احیاےاسلام کی ہے‘‘(انواراقبال، ص ۲۱۶)۔
اس طرح کی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیداری کی لہراور احیاے اسلام کی تحریکوں کا برپا ہونا علامہ اقبالؒ کی بصیرت میں موجود تھا اوروہ اس معاملے میں بڑے پُرامید تھے۔ سیّد مودودی نے بھی ایک موقعے پر کہا تھا کہ جس طرح یہ بات یقینی ہے کہ کل صبح سورج مشرق سے طلوع ہوگا، بالکل اسی طرح مجھے یقین ہے کہ پاکستان میں اسلامی نظام غالب آئے گا۔ بہرحال اس میں کوئی شک نہیں کہ ’’اقبال کی فکری تحریک سے مولانا سیّدابواالاعلیٰ مودودی نے احیاے اسلام کےکام کو آگے بڑھایا‘‘ (ڈاکٹرممتاز احمد فنون لاہور، بحوالہ: اوراقِ گم گشتہ، ص ۸۷) یہی اثرات ہمیں جدید عالمی تحریکوں میں بھی نظر آتے ہیں۔ اس اعتبار سے میں سمجھتا ہوں کہ جب بھی ہم مولانا مودودیؒ کی فکرپر گفتگو یا بحث کرتے ہیں تو ہمیں یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ فکرمودودیؒ دراصل فکر ِ اقبالؒ ہی کا تسلسل اور اس کی توسیع ہے۔ اور تحریک اسلامی کی پیش رفت میں اقبال کے اثرات کارفرما ہیں۔علامہ اقبالؒ نے بجاطور پر کہا تھا :
وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نُورِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے
_______________
حاشیہ
۱ معروف صحافی میاں محمدشفیع (م ش۔ م: یکم دسمبر ۱۹۹۳ء)نے اپنی عمر کے آخری زمانے میں لکھا تھا: ’’علامہ اقبال اس امرپر نوحہ کناں تھے کہ ہند میں حکمت ِ دین سیکھنے کے لیے اُنھیں دُوردُور تک کوئی فرد یا ادارہ نظرنہیں آتا تھا۔ انھوں نے بڑی تلاش کے بعد مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ کو حیدر آباد(دکن) سے ڈھونڈ نکالا تھا۔ ان سے خط کتابت کرکے انھیں پنجاب کو اپنی جولان گاہ بنانے کی دعوت دی۔ اس دعوت پر مولانا نے پٹھان کوٹ میں چودھری نیاز علی صاحب (جو کہ ایک مخلص مومن اور ریٹائرڈ سرکاری ملازم تھے) کے بھرپور تعاون سے دارالاسلام کی بنیاد رکھی‘‘… لیکن جب مولانا مرحوم مسائل نظری میں اُلجھ کر اپنی منطق کا شکارہوگئے تو میں نے حضرتِ علّامہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ مولانا مودودی بھی ملّا ہی برآمد ہوئے‘‘۔ (نوائے وقت، لاہور، ۲۶؍اگست ۱۹۸۶ء)
اس کالم کے حوالے سے نوائے وقت لاہور (۸ستمبر۱۹۸۶ء) میں پروفیسرآسی ضیائی کا ایک مراسلہ بہ عنوان ’م ش کی خدمت میں‘ شائع ہوا، جس میں وہ لکھتے ہیں: ’’میرے لیے یہ بات بڑی حیرت انگیز ہے کہ جن علامہ اقبال نے مولانا مرحوم کوخود ہی دکن سے پنجاب آنے کی دعوت دی تھی (اور آپ [م ش] ہی راوی ہیں کہ اس دعوت کا خط انھوں نے آپ ہی سے لکھوایا تھا) وہ مولانا کی طرف سے اتنے مایوس ہوگئے؟ ریکارڈ پر شہادت تو یہ ہے کہ علامہ کی دعوت پر مولانا ۱۶مارچ [صحیح:۱۸مارچ]۱۹۳۸ءکو پٹھان کوٹ پہنچے تھے اور اس کے بعد علامہ سے ان کا ملنا نہ ہوسکا تھا۔ البتہ اس دوران میں علامہ اپنی تشویش ناک علالت کےپیش نظر ، مولانا کو بار بار ملنے کے لیے بلواتے رہے۔ ا ن کی وفات سے صرف تین دن قبل سیّدنذیرنیازی مرحوم نے علامہ کی طرف سے بھی مولانا کو جلد آنے کے لیےخط لکھا تھا، اوراسی خط میں اپنی طرف سے بھی یہ اضافہ کیا تھا کہ علامہ کی غیریقینی صحت کے پیش نظر، آپ جلدلاہور آکر علامہ سے مل لیجیے۔ (یہ خط بھی محفوظ ہے)۔ گویا ۱۸؍اپریل [۱۹۳۸ء] تک تو علامہ کو مولانا سے بڑی اُمیدیں وابستہ تھیں، لیکن بعد کے تین دنوں میں مولانا مودودی سے وہ کون سا قصور سرزد ہوگیا کہ علامہ نے انھیں بھی مُلّا قرار دے ڈالا؟ اب کم از کم ہم نیازمندوں کو یہ تو بتا دیا جائے کہ ان تین دنوں میں علامہ کی راے مولانا کے متعلق یکایک کیوں اور کیسے بدل گئی؟ خصوصاً جب کہ یہ وہ دن تھے جب علامہ کی علالت پورے اشتداد پرتھی، اور وہ ہرقسم کی نوشت و خواند سے معذور ہوگئے تھے؟ اس کالم سے پہلے آپ نے (یا کسی اورشخص نے) علامہ کی اس راے کا اظہار نہیں فرمایا، حالا نکہ یہ بہت ہی اہم تبصرہ تھا اوراسے مولانا تک جلد سے جلد پہنچاناضروری تھا۔ آج جب نہ مولانا اس دنیا میں موجود ہیں، نہ علامہ، آپ ہمیں بتارہے ہیں کہ اقبال کے نزدیک مودودی بھی نرا مُلّا ہی نکلا۔ پھر یہ سوچنے کی بات ہے کہ وہ کون سے’نظری مسائل‘ تھے جن میں مولانا اُلجھ کر ’اپنی منطق کا شکار‘ ہوگئے؟ستمبر ۱۹۳۷ء میں جب مولانا، لاہورآکر علامہ سے ملے ،فروری ۳۸ء تک وہ سلسلہ مضامین لکھا جارہا تھا جو اسی فروری میں ترجمان القرآن اورپیغام حق پٹھان کوٹ میں مسلمان اورموجودہ سیاسی کش مکش (حصہ اوّل) کے نام سے شائع ہوا تھا، جسے علامہ نے پسند بھی فرمایا تھا۔ اس کے بعد تواپریل تک کچھ لکھنے کی نوبت ہی نہیںآئی، کیونکہ مولانا حیدرآباد سے پٹھان کوٹ منتقل ہونے کی تیاریوں میں مصروف تھے اور وہاں پہنچ کر ٹھکانے سےبیٹھتے بیٹھتے بھی انھیں خاصا عرصہ لگ گیا ہوگا‘‘۔
راقم کا خیال ہے کہ میاں صاحب کوعلامہ کی بات سننےیا اس کو روایت کرنے میں تسامح ہوا ہے۔ انھوں نے ایک بار لکھا تھا کہ علامہ اقبال رسالہ ترجمان القرآن پڑھوا کر سننے کے عادی تھے۔اور مَیں نے حضرتِ علامہ اقبال کی زبان سے کم و بیش اس قسم کے الفاظ سنے تھے کہ ’’مودودی کانگریسی مسلمانوں کی خبر لیں گے‘‘۔ مولانا کے بارے ایسی توقع رکھنے والے (اقبال) سے یہ بعید ہے کہ انھوں نےمولانا مودودی پر کوئی منفی ریمارک دیا ہو۔چنانچہ یہ کہ سیاق و سباق میں م ش کی روایت کا وہ حصہ درست معلوم نہیں ہوتا ، جس سے منفی تاثر پیدا ہوتا ہے۔یہ امربھی تعجب خیز ہے کہ ۱۹۳۷ء سے ۱۹۸۶ء تک میاں صاحب نے سیکڑوں کالم لکھے، مگر کبھی اس روایت کا ذکر نہیں کیا۔ کم و بیش نصف صدی تک معلوم نہیں کس مصلحت کے تحت ’پردۂ خِفا‘ میں رکھا ؟
۲۲ فروری ۲۰۲۰ء بروز ہفتہ ،بوقتِ سحر حفیظ الرحمٰن احسن اپنے ربّ کے پاس چلے گئے، اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔ احسن ان کا تخلص تھا،وہ شاعر تھے مگر شاعر کے علاوہ اور بھی بہت کچھ تھے۔ استاد، ادیب، نقاد، مقرر،منتظم۔ابتدائی دور میں وہ ـ’حفیظ الرحمٰن غازی پسروری‘ کے نام سے لکھتے تھے۔ وہ ۱۹؍اکتوبر ۱۹۳۴ء کو پسرور (ضلع سیالکوٹ) میں پیدا ہوئے۔
ان کا علمی و ادبی ذوق پروان چڑھانے میں زیادہ دخل دو شخصیتوں کا رہا۔اوّل: اسکول کے زمانے میں جناب طاہر شادانی(استاد گورنمنٹ ہائی سکول پسرور)اور مرے کالج سیالکوٹ کے دورِ طالب علمی میں پروفیسر آسی ضیائی۔
انٹر میڈیٹ کے زمانے (۱۹۵۰ء-۱۹۵۲ ء)میں اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہو گئے۔ یہ وابستگی،جماعت اسلامی میں باقاعدہ شمولیت پر منتج ہوئی۔بی اے میں انھوں نے عربی کے مضمون میں (علامہ اقبال کی طرح)یونی ورسٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔مزید تعلیم کے لیے وظیفہ ملا۔ انھوں نے(بوساطت اسلامیہ کالج لاہور)۱۹۵۹ء میں یونی ورسٹی اورینٹل کالج سے ایم اے عربی کا امتحان پاس کیا اورتیسری پوزیشن حاصل ہوئی۔بعد ازا ں ایم اے اردو بھی کر لیا۔گورنمنٹ کالج لائل پور[فیصل آباد]، گورنمنٹ کالج سرگودھا،مرے کالج سیالکوٹ اوراشاعتِ تعلیم کالج لاہور میں عربی اور اردو کے استاد رہے ۔۱۹۶۶ء میں وہ مستقلاً لاہور آگئے اور باقاعدہ درس و تدریس چھوڑ کر امین جاوید صاحب کے تعاون سے اشاعتی ادارے ’ایوانِ ادب‘کی بنیاد رکھی۔تعلیم و تعلّم سے ان کا رشتہ اس صورت میں برقرار رہاکہ انھوں نے انٹر میڈیٹ کے لازمی مضمون اردو کے لیے تحسینِ اردو مرتب کی، اور بچوں کے لیے بھی نظم و نثر کی چندخوب صورت کتابیں شائع کیں۔
حفیظ صاحب کا سب سے اہم کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے دروسِ قرآن و حدیث کو فیتہ بند (taperecord) کرنے کا اہتمام بڑی محبت اور ثابت قدمی سے کیا۔ پھر ان دروس کو کیسٹ کے ذریعے مولانا کی آواز میں ہزاروں لاکھوں افراد تک پہنچایا۔ مولانا سے محبت کے اس تعلق کو انھوں نے اپنے ایک مضمون میں اس طرح واضح کیا ہے: ’’دسمبر۱۹۴۶ء کے آخری ایام میں سیالکوٹ کے قصبے مرادپور میں جماعت اسلامی لاہور کمشنری کا دوروزہ اجتماع ہوا اور مَیں داداجان کے ساتھ اس اجتماع میں شریک ہوا۔ اس اجتماع میں مولانا کا تاریخی خطبہ ’شہادتِ حق‘ (۱۳دسمبر ۱۹۴۶ء) سننے کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ اس اجتماع کی بدولت مجھے مولانا کو مسلسل دو روز تک دیکھنے اور سننے کا موقع ملا، اور اس طرح ان کی شخصیت کا ایک گہرا نقش میرے نہاں خانۂ شعور میں ثبت ہوگیا‘‘۔
راقم اپریل ۱۹۶۴ء میں سرگودھا سے لاہور آکر پنجاب یونی ورسٹی ایم اے اردوکی جماعت اوّل میں داخل ہوا۔باری تعالیٰ ہفت روزہ آئین لاہور کے مدیر مظفر بیگ (۱۹۳۵ء-۱۹۹۹ء)کو غریقِ رحمت کرے (آمین)،انھوں نے راقم الحروف کو مولانامودودیؒ کے دروس قرآن و حدیث اور دیگر خطبات کو قلم بند (رپورٹنگ)کرنے پر مامور کیا۔اس سلسلے میں راقم کے مرتب کردہ چند دروس اور خطبے آئین میں شائع ہوئے۔چند ایک تحریریں ماہنامہ ترجمان القرآن لاہور میں بھی نقل ہوئی ہیں۔
غالباً ۱۹۶۶ء سے حفیظ صاحب مولانا کے دروس فیتہ بند (ٹیپ) کرنے لگے تھے۔ ان کے پاس جہازی سائز کا ایک ٹیپ ریکارڈر تھا،جو باہر سے گراموفون معلوم ہوتا تھا۔ان کے مرتب کردہ دروس آئین میں شائع ہونے لگے۔ بعض جلسوں میں مولانا کے خطبات وہ ٹیپ کرتے اور راقم انھیں مرتب کرنا اور آئین میں شائع ہوتے۔ترتیب و تدوین کا کام کبھی تو راقم ۲۳ وُولنر ہاسٹل میں کرتا اور جب کبھی ہاسٹل بند ہوتا (جیسے جنوری ۱۹۶۶ ء میں اعلانِ تاشقند پر ایوب خان کے خلاف ہنگامے ہونے پر ہوسٹل بند کر دیے گئے تھے)تو پھر یہ کام حفیظ صاحب کے دفتر نسبت روڈ میں ہوتا تھا۔
مظفر بیگ مرحوم نے ۱۹۶۵ء میں راقم کو سید مودودی کی عصری مجالس کی رپورٹنگ کی ذمہ داری سونپی۔بعد ازاں ’۵ اے ذیلدار پارک ‘کے اس سلسلے میں خود بیگ صاحب اور حفیظ الرحمٰن صاحب بھی شامل ہو گئے۔ان مجالس کی رُودادیں تین حصوں میں بارہا چھپ چکی ہیں۔غالباً ۱۹۷۶ ء میں حفیظ صاحب ،جناب نعیم صدیقی مرحوم کے علمی و ادبی رسالے سیارہ سے رضاکارانہ طور پر وابستہ ہوگئے اور انھوں نے نعیم صاحب کاخوب ہاتھ بٹایا۔یہاں تک کہ نعیم صاحب نے رسالہ مستقلاً ان کے سپرد کر دیااور انھوں نے اسے بڑی مہارت اور کامیابی سے جاری رکھا۔سیارہ نے بعض یادگار نمبر شائع کیے(اقبال نمبر تین بار،سید مودودی نمبر ایک بار)۔ اسلامی اور تعمیری ادب کے فروغ میں مجلّہ سیارہ لاہور کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ سیارہ کے سلسلے میں وہ اپنے حلقۂ احباب سے بھی مدد لیتے۔ مثال کے طور پر ایک بار مجھے خط میں لکھا کہ جگن ناتھ آزاد اور معین الدین عقیل سے مضامین کا تقاضا کیجیے اور کرتے رہیے کہ ان دونوں سے راقم کا مسلسل رابطہ رہتا تھا۔
۱۹۸۹ ء کی بات ہے ۔احباب میں سیارہ کا نعیم صدیقی نمبر نکالنے کی تجویز گردش کر رہی تھی۔ ظفر حجازی صاحب نے ’نعیم صدیقی نمبر‘ کا ایک مفصل خاکہ بنا کر حفیظ صاحب کو ارسال کیا۔ حفیظ صاحب نے جواب میں لکھا:’’آپ نے جو سنہری تجاویز پیش کر کے مجھے ان پہ عمل در آمد کا ذمہ دار ٹھیرایا ہے،اسے آپ کے حُسنِ ظن یا پھر حُسنِ تخیل کا شاہکار قرار دیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔اگر اسی طرح کی مکتوب آرائی منصوبوں کی تکمیل کا کبھی بھی وسیلہ بن سکتی تو میں بخوشی روزانہ آپ کی خدمت میں ایک ایسا ہی طویل محبت نامہ لکھنے کی ذمہ داری قبول کر لیتا‘‘۔
احسن صاحب زبان و بیان اور قواعد و انشا پر بخوبی دسترس رکھتے تھے۔اشاعت کے لیے موصول ہونے والے شعری اور نثری مسوًدوں کی نوک پلک سنوارنے میں خاصا وقت صرف کرتے تھے۔اس ضمن میں اگر کہیں اپنی معلومات میں کمی محسوس کرتے تو بلاتکلف اپنے دوستوں سے تبادلۂ خیال بھی کرتے تھے۔ایوان ادبِ میں بعد دوپہر ان کے قریبی احباب جمع ہوتے ، پروفیسر جعفر بلوچ،ڈاکٹر تحسین فراقی،افضل آرش، شیدا کاشمیری،انور میر،طاہر شادانی اور کبھی کبھار راقم بھی حاضری دیتا۔ سیارہ یا حلقہ ادب یا کسی اور موضوع پر مشاورت کے لیے وہ احباب کو ازخود بھی بلالیتے اور احباب بڑی مسرت سے حاضر ہو جاتے۔
مولانا مودودی کے دروسِ قرآن و حدیث کی نشرواشاعت میں ،ایک مرحلہ ایسا آیا، جب انھوں نے پروفیسر خورشید احمد صاحب کے مشورے اور اعانت سے الابلاغ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ مگر چند کرم فرماؤں نے اسے مقدموں میں اُلجھا دیا۔ بہرحال اعلیٰ عدلیہ نے حفیظ الرحمٰن صاحب کے حق میں فیصلہ دیا۔ اس طرح خاصا وقت ضائع ہوجانے کے بعد مولانا مودودی کی آواز میں کیسٹوں کی نشرواشاعت ہونے لگی۔لیکن کیسٹ کا دور ختم ہوا اور یہ ادارہ بھی تعطل کا شکار ہو گیا۔
ہمارے ایک مشترکہ دوست تھے عبدالرحمٰن بزمی(م: ۱۴نومبر ۲۰۰۵ء) شاعر اور ادیب اور حفیظ صاحب کی طرح ہی اعلیٰ درجے کا علمی و ادبی ذوق رکھتے تھے۔ ان کے ورثا نے بزمی صاحب کا مجموعۂ کلام چھپوانا چاہا۔لندن ہی میں مقیم ایک مشترکہ دوست (جاوید اقبال خواجہ، م:۸؍اپریل ۲۰۱۹ء)کی وساطت سے ترتیب و تدوین اوراہتمام اشاعت کا قرعہ میرے نام نکلا۔ حفیظ صاحب فنِ شاعری کے کم و کیف سے بخوبی واقف تھے اور راقم اناڑی۔ چنانچہ راقم نے تدوین کی ذمہ داری حفیظ صاحب کو سونپ دی۔انھوں نے بڑی محنت سے مجموعہ:حرفِ تمنا مرتب کیا ،جو ۲۰۱۱ء میں منشورات لاہور سے شائع ہوا۔
مرحوم پروفیسر فروغ احمد (م:۲نومبر ۱۹۹۴ء)بھی اپنی وفات سے دو تین برس پہلے اپنے کلام کی تدوین و اشاعت کی ذمہ داری مجھے سونپ گئے تھے۔ حفیظ صاحب نے اس کی پروف خوانی کے علاوہ حسب ضرورت اصلاح و تصحیح بھی کر دی۔میری مصروفیات کی وجہ سے ’کلیاتِ کلام فروغ احمد‘ ابھی تک شائع نہیں ہو سکا(پروف محفوظ ہیں مگر کمپوزنگ تلاش طلب ہے)۔
غالباً ۱۹۸۱ء میں لاہور کے بعض ادب دوستوں نے ،حلقۂ ارباب ذوق کے باوجود، اسلام دوست اور تعمیر پسند مصنّفین کا ایک نیا ادبی فورم بنانے کی ضرورت محسوس کی ۔ان میں ڈاکٹر تحسین فراقی، جناب حفیظ الرحمٰن احسن، افضل آرش اور جعفر بلوچ پیش پیش تھے۔چند ایک مشاورتوں کے نتیجے میں ’حلقۂ ادب ‘قائم ہو گیااور اس کے ہفتہ وار تنقیدی اجلاس ہر منگل کی شام چائنیز لنچ ہوم میں ہونے لگے۔اس کی مجلسِ عاملہ میں ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا ،حفیظ صاحب ،سراج منیر،شہباز ملک اور راقم شامل تھے(شاید کچھ اور احباب بھی)۔پروفیسر آسی ضیائی حلقے کے صدراور حفیظ الرحمٰن احسن نائب صدر ، تحسین فراقی سیکرٹری اورسلیم منصور خالدجائنٹ سیکرٹری مقرر ہوئے، جو مسلسل تین برس تک باقاعدگی سے اجلاسوں کی کارروائی قلم بند کر کے پیش کرتے رہے۔پھر آفتا ب ثاقب اور ان کے بعد اصغرعابدنے یہ ذمہ داری سنبھال لی۔ اس حلقے کو چلانے میں حفیظ الرحمٰن احسن کا بنیادی اور فعال کردار رہا۔ان کا دفتر(ایوانِ ادب، حبیب بلڈنگ، اردو بازار لاہور) سیارہکے ساتھ حلقے کا دفتر بھی تھا۔وہیں دو ماہی یا سہ ماہی پروگرام بناتے اور اس کا سائیکلوسٹائل نکلوا کر یا کتابت کرا کے، نقول پھیلاتے ۔ وہ خود بھی اجلاسوں میں باقاعدگی سے شریک ہوتے تھے۔اکثر وبیش تر وہ مقررہ وقت سے پہلے مجلس گاہ میں پہنچ جاتے۔ حلقہ ۱۹۸۹ء تک چلتا رہا۔
حالیہ دنوں میں مجھے حلقے کے ۱۹۸۱ء تا ۱۹۸۹ء دو ماہی پروگراموں پر مشتمل کاغذات دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ان سے پتا چلتا ہے کہ لاہور کے بیش تر اہم اور سینئر مصنّفین اور شعرا حسب پروگرام اپنی نگارشات پیش کرتے رہے۔چند نام:میرزا ادیب،جیلانی بی اے،عبداللہ قریشی،نعیم صدیقی، شیخ منظور الٰہی، عبدالعزیز خالد، انجم رومانی، ڈاکٹر وحید قریشی، صلاح الدین محمود، عبدالکریم عابد، حفیظ تائب، حمیدجالندھری، جیلانی کامران،پروفیسر فروغ احمد،انتظار حسین، سیّد امجد الطاف، مقبول بیگ بدخشانی، رحمان مذنب، غلام الثقلین نقوی، اکرم جلیلی،سائرہ ہاشمی، سراج منیر، ہارون الرشید، سہیل عمر، عطاء الحق قاسمی، فضل الرحمان، یونس احقر، امجد طفیل وغیرہ۔
ادارہ معارفِ اسلامی لاہور نے سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی تحریروں سے سیرتِ سرورِ عالم ؐ کے مدنی دور پر مشتمل ،سیرت کاتیسرا حصہ مرتب کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ابتدائی مرحلے پر لوازمہ مولانا عبدالوکیل علوی [م:۱۱جنوری ۲۰۱۶ء] نے جمع کیا، جسے حفیظ صاحب نے مرتب و مدوّن کیا اور حد درجہ تحقیق و تدقیق سے کام لیتے ہوئے نہایت محنت سے اس میں نیا لوازمہ شامل کیا ۔نظر ثانی کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں آخری تدوین کی ذمے داری مجھے سونپی گئی، جس پر خاصا وقت صرف کیا اور مزید لوازمے کی شمولیت سے اسے حتمی شکل دی۔
۴۰برس کی رفاقت کے بعد اپریل ۱۹۹۴ء میں جماعت اسلامی سے الگ ہوکر ’تحریک اسلامی‘ تنظیم میں شامل ہوگئے۔ تاہم، اہل جماعت سے بھی تعلق برقرار رکھا، اور اس دیرینہ تعلق کو آخر وقت تک بڑے اعتدال سے نبھاتے رہے۔ مولانا مودودی کے ریکارڈ شدہ خطبات پر مشتمل انھوں نے کتاب الصوم ، فضائلِ قرآن مرتب کی۔ علاوہ ازیں ۵-اے ذیلدار پارک، سوم اسلام کا سرچشمہ قوت جماعت اسلامی اور مشرقی پاکستان ان کی اہم مرتبات ہیں۔
علّامہ اقبال، مہاراجا سرکشن پرشاد کے نام ۳۱ ؍اکتوبر ۱۹۱۶ء کے خط میں لکھتے ہیں: ’’صبح چار بجے، کبھی تین بجے اٹھتا ہوں، پھر اس کے بعد نہیں سوتا‘ سواے اس کے کہ مصلّے پر کبھی اُونگھ جاؤں‘‘۔(اقبال بنام شاد، ص ۱۸۸)
تقریباً دو سال بعد ‘ ۱۱ جون ۱۹۱۸ء کے خط میں پھر لکھتے ہیں: ’’بندۂ رو سیاہ کبھی کبھی تہجّد کے لیے اٹھتا ہے اور بعض دفعہ تمام رات بیداری میں گزر جاتی ہے۔ سو، خدا کے فضل و کرم سے، تہجّد سے پہلے بھی اور بعد میں بھی، دعا کروں گا کہ اس وقت عبادتِ الٰہی میں بہت لذت حاصل ہوتی ہے‘‘۔(ایضاً، ص ۲۴۵)
ان بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ علّامہ اقبال اوائلِ عمر ہی سے سحرخیزی کا ایک طبعی ذوق رکھتے تھے اور یورپ کے نسبتاً مختلف اور ناسازگار ماحول میں بھی، ان کا یہ ذوق برقرار رہا:
زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی
نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آداب سحرخیزی
(بالِ جبریل ، ص ۴۰)
سوال یہ ہے کہ اقبال کے ذوقِ سحر خیزی کی اس تربیت و تشکیل میں کن عناصر کو دخل رہا اور اس کی وجوہ کیا تھیں؟ اس سلسلے میں علّامہ کے اسلوبِ زندگی، ان کی افتادِ طبع اور ان کے ذخیرۂ نظم و نثر کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے۔
اول تو یہی بات کچھ کم اہم نہیں کہ ہمارے ہاں سحر خیزی کو خوش بختی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اسلامی اور مشرقی روایات کے مطابق علی الصّباح جاگنا اور جگانا ایک مبارک اور قابلِ قدر فعل ہے۔ اقبال اس سحرخیز خورشید کو بھی خوش آمدید کہتے ہیں جو نیند کے ماتوں کو جگاتا ہے:
خورشید ، وہ عابدِ سحر خیز
لانے والا پیام ’بر خیز‘
(بانگِ درا ، ص ۱۲۷)
علّامہ، قرآن حکیم کے مفاہیم و معانی پر گہری نظر رکھتے تھے۔ قرآن حکیم میں قیام اللّیل اور عبادتِ شب کی بہت تلقین کی گئی ہے۔ اسے اہلِ تقویٰ اور ’عبادُ الرحمٰن‘ کی نشانی بتایا گیا ہے، فرمایا:
وَالَّذِیْنَ یَبِـیْتُوْنَ لِرَبِّہِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًا (الفرقان۲۸: ۶۴) (رحمٰن کے اصلی بندے) وہ (ہیں جو) اپنے رب کے حضور سجدے اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں۔ وَبِالْاَسْحَارِھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ (الذاریات۵۱: ۱۸) وہ سحر کے اوقات میں استغفار کیا کرتے تھے۔ o اَلصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰدِقِیْنَ وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْمُنْفِقِیْنَ وَالْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِ(اٰلِ عمران ۳: ۱۷) یہ لوگ صبر کرنے والے ہیں، راست باز ہیں، فرماں بردار اور فیاض ہیں اور رات کی آخری گھڑیوں میں اللہ سے مغفرت کی دعائیں مانگا کرتے ہیں۔
ظاہر ہے یہاں رات کی عبادت سے مراد تہجّد کی نماز ہے۔ اللہ جلّ شانہ، نے براہِ راست رسولِ اکرمؐ کو عبادتِ شب یعنی نمازِ تہجّد کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:وَمِنَ الَّیْلِ فَتَہَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ ق عَسٰی اَنْ یَّـبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا(بنی اسرائیل ۱۷: ۷۹) اور رات کو تہجّد پڑھو۔ یہ تمھارے لیے نفل ہے۔ بعید نہیں کہ تمھیں تمھارا رب مقامِ محمود پر فائز کر دے۔
ایک اور مقام پر آپ ؐکو اس طرح تاکید فرمائی: یٰاَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ o قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًا o نِّصْفَہٗ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلًا o اَوْ زِدْ عَلَیْہِ وَرِتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا (المزمل: ۱-۴) اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے! رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو، مگر کم۔ آدھی رات یا اس سے کچھ کم کر لو یا اس سے کچھ زیادہ بڑھا دو، اور قرآن کو خوب ٹھیر ٹھیر کر پڑھو۔
یہاں اگرچہ خطاب براہِ راست نبی اکرمؐ سے ہے لیکن بالواسطہ عبادتِ شب کی تاکید، امّت کو بھی کی گئی ہے کیونکہ نبی کے ہر چھوٹے بڑے عمل میں امّت کو ان کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے۔
علّامہ اقبال کے والد شیخ نور محمد نہایت نیک نفس اور متقی بزرگ تھے۔ پابندِ صوم و صلوٰۃ اور عبادتِ الٰہی کے مشتاق---کچھ تعجب نہیں کہ تہجّد اور قیام اللیل ان کے معمولات میں داخل ہو۔ اقبال کی شخصیت کی تشکیل و تعمیر میں شیخ نور محمد کی روحانیت کے اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اقبال کے لیے شیخ نورمحمد کی حیثیت، ایک مثالی شخصیّت کی تھی۔ عبادتِ شب کے ضمن میں بھی، انھوں نے یقینا اپنے والد سے اثرات قبول کیے ہوں گے۔ یہ فطری امر تھا۔
اصل میں تو یہ سنّتِ نبویؐ کا اِتباع تھا۔ نبی کریمؐ سے شیخ نور محمد اور خود اقبال کی وابستگی و شیفتگی محتاجِ بیان نہیں۔ اقبال نے جب بھی سحرخیزی اور عبادتِ شب کا اہتمام کیا تو قیام اللیل کے وہ تمام فوائد و ثمرات ان کے ذہن میں مستحضر ہوں گے، جن کی نشان دہی نبی کریمؐ نے فرمائی ہے۔ شب بیداری اور نمازِ تہجّد کی تاکید کے سلسلے میں چند احادیثِ نبویؐ ملاحظہ کیجیے:
عَنْ اَبِیْ اُمَامَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ : عَلَیْکُمْ بِقِیَامِ اللَّیْلِ فَاِنَّہٗ دَأْبُ الصَّالِحِیْنَ قَبْلَکُمْ وَھُوَ قُرْبَۃٌ لَکُمْ اِلٰی رَبِّکُمْ وَمُکَفِّرَۃٌ لِلسَّیِّآتِ وَمَنْھَاۃٌ عَنِ الْاِثْمِ (ترمذی)، حضرت امامہؓ کا بیان ہے کہ نبی کریم نے فرمایا: نمازِ تہجّد کا التزام کیا کرو۔ یہ تم سے پہلے کے نیک لوگوں کی خصلت ہے اور خدا سے تمھیں قریب کرنے والی اور گناہوں کے برے اثرات مٹانے والی اور معاصی سے روکنے والی چیز ہے۔
عَـنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَـالَ قَـالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ : اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ بَعْدَ الصَّلٰوۃِ الْمَکْتُوْبَۃِ الصَّلٰوۃُ فِیْ جَوْفِ اللَّیْلِ (مسلم)، حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: فرض نماز کے بعد، سب سے افضل نماز، نصف شب میں پڑھی جانے والی (تہجّد کی) نماز ہے۔
وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ یَقُوْلُ اِنَّ فِی اللَّیْلِ لَسَاعَۃً لَایُوَافِـقُھَا رَجُلٌ مُسْلِمٌ یَسْئَلُ اللّٰہَ فِیْھَا خَیْرًا مِنْ اَمْرِ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ اِلَّا اَعْطَاہُ اِیَّاہُ وَذٰلِکَ کُلَّ لَیْلَۃٍ (مسلم)، حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ نبی ؐنے فرمایا: رات میں ایک ساعت ہے۔ اگر اس میں کوئی مسلمان، دین و دنیا کی بھلائی کی دعا مانگے تو اللہ اس کو عطا فرما دیتا ہے اور یہ ساعت ہررات میں ہوتی ہے۔
عَنْ اَبِیْ سَعِیْد الْخُدْرِیِّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ثلثۃ یضحکَ اللّٰہُ اِلَیْہِمْ: الرَّجُلْ اِذَا قَامَ بِاللَّیْلِ یُصَلِّیْ وَالْقَوْمُ اِذَا صَفُّوْا فِی الصَّلٰوۃِ وَالْقَوْمُ اِذَا صَفُّوْا فِی قِتَالِ الْعَدُوِّ (مسنداحمد)، حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول ؐاللہ نے فرمایا: تین شخص ہیں جنھیں دیکھ کر اللہ خوش ہوتا ہے اور ان سے راضی رہتا ہے: ایک تو وہ شخص جو رات کو اٹھ کر نماز پڑھے، دوسرے وہ لوگ جو نماز کے لیے صفوں کو برابر درست کریں اور تیسرے وہ لوگ جو دشمن کے مقابلے پر لڑنے کے لیے صفوں کو ترتیب دیں۔
عَنْ اَبِی ہُرَیْرَۃَ قَـالَ قَـالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ یَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَکَ وَتَعَالٰی کُلَّ لَیْلَۃٍ اِلٰی السَّمَاءِ الدُّنْیَا حِیْنَ یَبْقٰی ثُلُثُ اللَّیْلِ الْاٰخِرُ یَقُوْلُ مَنْ یَدْعُوْنِی فَاَسْتَجِیْبُ لَہٗ مَنْ یَسْاَلُنِیْ فَاُعْطِیْہِ مَنْ یَسْتَغْفِرُنِیْ فَاَغْفِرُلَہٗ (بخاری، مسلم)، حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ عزوجل روزانہ (رات کے وقت) دنیا کے آسمان پر نزول فرماتا ہے اور فرماتا ہے: کون ہے جو مجھ سے دعا کرے اور میں اس کی دعا قبول کروں، کون ہے جو مجھ سے مانگے اور میں اس کو عطا کروں، کون ہے جو مغفرت چاہے اور میں اسے بخش دوں۔
حضرت سیّد علی ہجویریؒ نے ایک جگہ فرمایا ہے: علم کے ساتھ فکر بھی ضروری ہے۔ کیونکہ فکر اور تدبر کے بغیر نہ تو آدمی کے اندر صحیح فہم بیدار ہوتا ہے اور نہ اس کے بغیر علم، آدمی کی زندگی پر کوئی گہرا اور دیرپا اثر ڈال سکتا ہے۔(کشف المحجوب ،اردو ترجمہ: میاں طفیل محمد، ص ۷۸)
ظاہر ہے کہ غوروفکر کی یہ تاکید، حیات و کائنات کی حقیقت و ماہیت تک پہنچنے کے لیے ہے۔ یہ مسلّم ہے کہ علّامہ اقبال محض شاعر نہ تھے، ایک مفکّر اور فلسفی شاعر تھے۔ تفکّر، ان کی شخصیت کا جز اور سوچ بچار اور غوروفکر ان کی عادتِ ثانیہ تھی۔ اگر ہم کچھ پیچھے چلیں اور اقبال کے ابتدائی دور کی شاعری پر نظر ڈالیں تو ہمیں شاعر کے ہاں حیات و کائنات کے بارے میں اس تفکّرکے بطن سے پھوٹتا ہوا، ایک استفہامیہ لہجہ ملتا ہے۔ پھر اسی ضمن میں ان کے ہاں ایک اضطراب، سکوں ناآشنائی، تنہائی کا الم انگیز احساس، اور ان احساسات کی تسکین کے لیے فطرت کے مناظر و مظاہر کی طرف رجوع اور شہروں اور آبادیوں سے ویرانوں اور صحراؤں کی طرف گریز کا رجحان بھی نمایاں ہے:
شورش سے بھاگتا ہوں، دل ڈھونڈتا ہے میرا
ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو
مرتا ہوں خامشی پر، یہ آرزو ہے میری
دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو
(بانگِ درا، ص ۴۷)
وہ خموشی شام کی، جس پر تکلّم ہو فدا
وہ درختوں پر تفکّر کا سماں چھایا ہوا
(ایضاً، ص ۲۳)
کشتۂ عُزلت ہوں، آبادی میں گھبراتا ہوں میں
شہر سے سودا کی شدّت میں نکل جاتا ہوں میں
(ایضاً، ص ۷۷)
دن کی نسبت رات زیادہ پرسکون ہوتی ہے اور شب کے خاموش لمحوں میں غوروفکر کے لیے ماحول بہت سازگار ہوتا ہے۔ اس لیے آبادی سے گریز، تنہائی کی تلاش اور خاموشی کو پسند کرنے کا رجحان، بیداریِ شب تک پہنچتا ہے اور شاعر رات کی تنہائیوں میں حیات و کائنات کے متعلق ان سوالات پر غور کرتا ہے جو بہت ابتدا سے اس کے دل و دماغ پر چھائے ہوئے تھے:
سمجھ میں آئی حقیقت نہ، جب ستاروں کی
اسی خیال میں راتیں گزار دیں میں نے
(ایضاً، ص ۸۲)
تلاشِ حقیقت کے ضمن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھائی ہوئی یہ دعا ہے: اَرِنَا الْاَشْیَاءَ کَمَاہِیَ (اے اللہ)! ہمیں اس قابل بنا کہ ہم ہر چیز کو اس طرح دیکھیں جیسا کہ وہ فی الواقع ہیں۔
احادیثِ مذکورہ کی روشنی میں شب بیداری کا ایک محرک اور عبادتِ شب کی غرض و غایت، اقبال کے نزدیک، حیات و کائنات کی حقیقت و ماہیت پر تفکّر اور دنیا و مافیہا کے مسائل پر غور کرنا ہے اور یہ بھی کہ ہم حقیقت آشنا ہو کر صراطِ مستقیم کو پالینے کے لیے حضورِ ایزدی میں دست بہ دُعا ہوں۔
شب کی تنہائیوں میں تفکّر، رجوع الی القرآن اور عبادتِ شب کے نتیجے میں شاعر کے حسّاس دل کو کچھ ایسا سکون و ثبات نصیب ہوا کہ اس کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہ نکلے۔ یہ تشکّر کے آنسو تھے۔ اس خدا کی بارگاہ میں عقیدت کے آنسو، جس نے شاعر کو طمانیت کی ویسی ہی کیفیت عطا کی تھی، جو صحرا کے ایک مسافر کو اچانک کسی نخلستان میں پہنچنے کے بعد نصیب ہوتی ہے۔ چنانچہ شب کی تنہائیوں میں جاگ جاگ کر آنسو بہانا اور آہ و فغاں کرنا اس کا مستقل شِعار بن گیا۔ یہ شِعار، اقبال کے ہاں ابتدائی دور کی شاعری سے لے کر آخری دور کی شاعری تک، ہر مرحلے اور ہر دور میں ایک مستقل رجحان کی شکل میں موجود ہے:
پچھلے پہر کی کوئل، وہ صبح کی مؤذّن
میں اس کا ہم نوا ہوں، وہ میری ہم نوا ہو
پھولوں کو آئے جس دم، شبنم وضو کرانے
رونا مرا وضو ہو، نالہ مری دعا ہو
(ایضاً، ص ۴۷)
دن کی شورش میں نکلتے ہوئے شرماتے ہیں
عُزلتِ شب میں مرے اشک ٹپک جاتے ہیں
(ایضاً، ص ۱۷۳)
لیکن شب کی تنہائیوں میں بیدار رہ کر آنسو بہانا بجاے خود مقصود نہ تھا۔ جو کچھ مطلوب و مقصود تھا، اس کی طرف علّامہ اقبال نے ایک دو جگہ اس طرح اشارہ کیا ہے:
سکوتِ شام سے تا نغمۂ سحرگاہی
ہزار مرحلہ ہاے فغانِ نیم شبی
(ایضاً، ص ۲۲۳)
کٹی ہے رات تو ہنگامہ گستری میں تری
سحر قریب ہے، اللہ کا نام لے ساقی
( ایضاً، ص ۲۰۸)
اقبال کی فغانِ نیم شب اور آہِ سحرگاہی کا رشتہ شب بیداری کی مذہبی روایت سے وابستہ ہے جیساکہ انھوں نے خود واضح کیا ہے: ’سحر قریب ہے، اللہ کا نام لے ساقی‘۔ گویا شب بیداری اور عبادت گزاری کا مقصد یہ تھا کہ اللہ کے حضور عجز و نیاز کے ساتھ دستِ دعا دراز کیا جائے۔
دعا وسیلۂ قربِ الٰہی ہے، جس کے نتیجے میں مومن خدا سے مزید توفیق و عنایت کی دعا مانگتا ہے۔ مناظر و مظاہر فطرت کے مطالعے کا دعا پر منتج ہونا اور اس ذریعے سے قربِ الٰہی کا حصول، ایک فطری اور تدریجی امر ہے۔ اقبال کے نظامِ فکر میں دعا کی خاص اہمیت ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
Religion is not satisfied with mere conception; it seeks a more intimate knowledge of and association with the object of its persuit. The agency through which this association is achieved is the act of worship or prayer. (Reconstruction, p 70-71)
مذہب کے لیے یہ ممکن نہیں کہ صرف تصورات پر قناعت کر لے۔ وہ چاہتا ہے کہ اپنے مقصود و مطلوب کا زیادہ گہرا علم حاصل کرے اور اس سے قریب تر ہوتا چلا جائے لیکن یہ قرب حاصل ہوگا تو دعا کے ذریعے۔(تشکیلِ جدید ،ص ۱۳۳)
Prayer, then, whether individual or associative, is an expression of man's inner yearning for a response in the awful silence of the universe. It is a unique process of discovery. (Reconstruction, p 74)
دعا خواہ انفرادی ہو، خواہ اجتماعی، ضمیرِ انسانی کی اس نہایت درجہ پوشیدہ آرزو کی ترجمان ہے کہ کائنات کے ہولناک سکوت میں وہ اپنی پکار کا کوئی جواب سنے۔ یہ انکشاف و تجسس کا (ایک) عدیم المثال عمل ہے۔(تشکیلِ جدید، ص ۱۳۹)
گویا وہ رجحان، جس نے تلاشِ حقیقت میں آبادی سے ویرانے اور انسان سے فطرت کی طرف گریز کیا تھا، اب فطرت اور ویرانے سے بھی کنارہ کشی کر کے گوشۂ قلب میں سمٹ آیا ہے اور نالۂ نیم شب، گریۂ سحری، فغانِ صبح گاہی اور دعا کے ذریعے قربِ الٰہی حاصل کر کے ان سوالات کا جواب چاہتا ہے، جو عرصۂ دراز سے اس کے قلبی اضطراب کا سبب بنے ہوئے ہیں:
چہ پرسی از طریق جستجویش
فرو آدر مقام ہاے و ہویش
شب و روزے کہ داری بر ابد زن
فغانِ صبح گاہی بر خرد زن
(زبور عجم ، ص ۱۶۴)
نگہ الجھی ہوئی ہے رنگ و بو میں
خرد کھوئی گئی ہے، چارسو میں
نہ چھوڑ اے دل! فغانِ صبح گاہی
اماں شاید ملے اللہ ہُو میں
(بالِ جبریل ، ص ۸۳)
اقبال کا نظامِ فکر اپنے اندر ایک وحدت رکھتا ہے اور اس کے جملہ تصورات و نظریات باہم دگر مربوط ہو کر اس وحدت کو مکمل کرتے ہیں۔ اس نظام فکر کی اساس اقبال کے نظریۂ خودی پر ہے اور فکرِاقبال کا کوئی معمولی سے معمولی رجحان بھی خودی سے الگ یا علاحدہ نہیں ہے۔ اقبال کا تصوّرِ سحرخیزی بھی علمی، عقلی اور عملی اعتبار سے ان کے نظریۂ خودی سے وابستہ ہے۔
نفسیاتی اور عملی اعتبار سے دیکھا جائے تو شب بیداری، سحرخیزی، عبادتِ شب اور دعا انسانی شخصیت میں بعض ایسے اخلاقی اوصاف کا باعث بنتی ہے جن کا حصول کسی دوسرے ذریعے سے ممکن نہیں۔ اول تو یہ کہ انسان ایک ایسے نازک مرحلے سے گزرتاہے جو ’دوچار سخت مقامات، سے کم نہیں۔ سحرخیزی ایک نہایت سخت اور نفس کو تکلیف دینے والا عمل ہے جسے قرآن پاک میں اَشَدُّ وَطْئًا، یعنی نفس کو خوب روندنے والا عمل۔(المزمل :۶) قرار دیا گیا ہے۔ نفس کو روندنے کے علاوہ باقاعدگی، مستعدی، فرض شناسی، قوتِ برداشت اور ضبطِ نفس بھی بیداریِ شب کے ثمرات میں شامل ہیں۔ پھر طبّی نقطۂ نظر سے دیکھیے تو مسلم ہے کہ سحرخیز انسان لطیف الطبع اور ذہین ہوتا ہے۔ بیسیوں مفکّرین و فلاسفہ اور ادبا و شعرا کے ہاں سحرخیزی کا اہتمام رہا اور ان کی بہترین قلمی کاوشیں اور تخلیقاتِ ذہنی، اہتمامِ سحرخیزی کا نتیجہ ہیں۔ سحرخیز انسان بالعموم ایسی بہت سی ذہنی بیماریوں سے بھی محفوظ رہتا ہے جن میں گراں خواب اور نیند میں مدہوش لوگ اکثروبیشتر مبتلا ہو جاتے ہیں۔ گویا شب زندہ دار اور سحرخیز انسان ایک ایسے راستے پر چل رہا ہوتا ہے جو اسے خود شناسی اور عرفان نفس کی منزل تک پہنچاتا ہے۔ اقبال کی اصطلاح میں اسی کا نام خودی ہے۔ ’گریۂ سحرگاہی‘ اولادِ آدم کے لیے حضرت آدم ؑکی میراث ہے۔ جنت سے بوقتِ رخصت فرشتے آدم ؑسے کہتے ہیں:
گراں بہا ہے ترا گریۂ سحر گاہی
اسی سے ہے تیرے نخلِ کہن کی شادابی
(بالِ جبریل، ص ۱۳۱)
یہ ’گریۂ سحر گاہی‘ درحقیقت دعا ہی کا دوسرا نام ہے۔ اقبال اپنے انگریزی خطبات میں ایک جگہ کہتے ہیں:
The act of worship or prayer ending in spirtual illumination --- affects different varieties of consciousness differently. (Reconstruction, pg 71)
دعا وہ چیز ہے جس کی انتہا، روحانی تجلّیات پر ہوتی ہے اور جس سے مختلف طبیعتیں مختلف اثرات قبول کرتی ہیں۔(تشکیلِ جدید ، ص ۱۳۳)
___ psychologically speaking, prayer is instinctive in its origion. The act of prayer as aiming at knowledge, resembles reflection. Yet prayer at its highest is much more than abstract reflection. Like reflection, it too is a process of assimilation, but the assimilative process in the case of payer draws itself closely together and thereby acquires a power unknown to pure thought. (Reconstruction, p 71)
بہ اعتبارِ نفسیات، دعا یا عبادت، ایک جبلّی امر ہے اور پھر جہاں تک حصولِ علم کا تعلق ہے، ہم اسے غوروتفکّر سے مشابہ ٹھہرائیں گے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس کا درجہ غوروتفکّر سے کہیں اونچا ہے مگر پھر غوروفکر کی طرح وہ بھی تحصیل و اکتساب ہی کا ایک عمل ہے جو بہ حالتِ عمل، ایک نقطے پر مرکوز ہو جاتا ہے اور کچھ ایسی طاقت اور قوت حاصل کرلیتا ہے جو فکرِ محض کو حاصل نہیں۔(تشکیلِ جدید ، ص ۱۳۵)
ظاہر ہے کہ اقبال نے جس چیز کو ’کچھ ایسی طاقت‘ اور ’روحانی تجلّیات‘ کہا ہے، وہ خودی کے سوا کچھ اور نہیں، لیکن خودی کا حصول کچھ ایسا آسان نہیں۔ اس منزل تک رسائی کے لیے پہلے انسان کو بے خودی کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے جسے قرآنِ پاک نے ’نفس کو روندنے والا‘ قرار دیا ہے۔ شاید یہ حیاتِ انسانی کے ’دوچار بہت سخت مقامات‘ ہی میں سے ایک مقام ہے۔ اقبال کے الفاظ میں ایک ’مشکل مقام‘:
مجھے آہ و فغانِ نیم شب کا پھر پیام آیا
تھم، اے رہ رَو کہ شاید پھر کوئی مشکل مقام آیا
(بالِ جبریل ، ص ۵۷)
گویا عرفانِ ذات کے لیے نفیِ ذات کا معرکہ سر کرنا ضروری ہے۔ اقبال لکھتے ہیں:
It is a unique process of discovery, whereby the searching ego affirms itself in the very moment of self-negation, and thus discovers its own worth and justification as a dynamic factor in the life of the universe. (Reconstruction, pg 74)
یہ [دعا] وہ عدیم المثال عمل ہے جس میں طالبِ حقیقت کے لیے نفیِ ذات ہی کا لمحہ، اثباتِ ذات کا لمحہ بن جاتا ہے اور جس میں وہ اپنی قدروقیمت سے آشنا ہو کر بجا طور پر سمجھتا ہے کہ اس کی حیثیت، کائنات کی زندگی میں، سچ مچ ایک فعّال عنصر کی ہے۔(ایضاً، ص ۱۳۹)
گویا نفی ذات کا پُل صراط عبور کرتے ہی فی الفور انسان اثباتِ ذات کی اس جنت میں داخل ہو جاتا ہے جس کا نام خودی ہے۔ جنت کی ہر شے عبادُالرحمن کے لیے مسخرّاور مطیع ہوگی۔ صاحبِ خودی (سحرخیز) انسان بھی حیات و کائنات کو اپنا مطیع و منقاد پاتا ہے۔ اسے ہر طرح کی قوت و سطوت، شان و شوکت اور عظمت حاصل ہوتی ہے۔ فطرت کے وہ مظاہر و مناظر، جن سے وہ رازِ کائنات پوچھتا پھرتا تھا، اب اسے اپنی گردِ راہ محسوس ہوتے ہیں۔ اس کے نالۂ سحرگاہی اور فغانِ صبح گاہی میں ایک ایسی قوت پیدا ہو جاتی ہے جس سے نہ صرف فرد کی اپنی قسمت، بلکہ قوموں کی اجتماعی تقدیر بھی منقلب ہو سکتی ہے۔ علّامہ اقبال اپنی ہمشیرہ کریم بی بی کو ایک خط میں لکھتے ہیں:
مسلمان کی بہترین تلوار دعا ہے، سو اسی سے کام لینا چاہیے۔ ہر وقت دعا کرتے رہنا چاہیے اور نبی کریمؐ پر درود بھیجنا چاہیے۔ کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ اس امّت کی دعا سن لے اور اس کی غریبی پر رحم فرمائے۔(مظلوم اقبال ،شیخ اعجاز احمد، ص ۲۸۱)
اقبال کی شاعری میں ’نالہ بے باک‘ ، ’آہ صبح گاہی‘ ، ’اشک سحرگاہی‘ ، ’گریۂ نیم شب، وغیرہ دعا ہی کے مترادف ہیں۔ علّامہ، دعا کے اندر مضمر باطنی قوت کی غیر معمولی تاثیر سے بہ خوبی واقف ہیں:
نہ ستارے میں ہے، نے گردش افلاک میں ہے
تیری تقدیر، مرے نالۂ بے باک میں ہے
(بالِ جبریل ،ص ۶۵)
تلاش، اس کی فضاؤں میں کر، نصیب اپنا
جہانِ تازہ مری آہِ صبح گاہ میں ہے
( ایضاً، ص ۶۹)
میں نے پایا ہے اسے اشکِ سحرگاہی میں
جس دُرِ ناب سے خالی ہے صدف کی آغوش
(ایضاً، ص ۷۵)
عطّار ہو، رومی ہو، رازی ہو، غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا، بے آہِ سحرگاہی
(ایضاً، ص ۵۶)
تاکِ خویش از گریۂ ہاے نیم شب سیراب دار
کز درونِ او شعاعِ آفتاب آید بروں
(زبورِ عجم ، ص ۹۷)
بروں زیں گنبدِ در بستہ پیدا کردہ ام راہے
کہ از اندیشہ برتر می پرد آہِ سحرگاہے
(ایضاً، ص ۱۰۰)
ز اشکِ صبح گاہی، زندگی را برگ و ساز آور
شود کشتِ تو ویراں تا نہ ریزی دانہ پے در پے
(ایضاً، ص ۱۰۷)
افرادِ ملّت سے اقبال کو یہی شکوہ ہے کہ انھوں نے سحرخیزی کی عادت ترک کی، گریۂ ہاے صبح گاہی کو چھوڑا اور اس طرح خودی سے دست کش ہو کر ذلّت ونُکبت کا شکار ہوگئے۔ یہ شکوہ مختلف مقامات پر مختلف انداز سے سامنے آتا ہے:
کس قدر تم پہ گراں، صبح کی بیداری ہے
ہم سے کب پیار ہے؟ ہاں نیند تمھیں پیاری ہے
(بانگِ درا، ص ۲۰۱)
فغانِ نیم شب شاعر کی بارِ گوش ہوتی ہے
نہ ہو جب چشمِ محفل، آشناے لطفِ بے خوابی
(ایضاً، ص ۲۳۸)
خال خال اس قوم میں، اب تک نظر آتے ہیں وہ
کرتے ہیں اشکِ سحرگاہی سے جو ظالم، وضو
(ارمغانِ حجاز ، مشمولہ : کلیاتِ اقبال، اردو، ص ۱۲/۶۵۴)
بہ خواب رفتہ جوانان و مردہ دل پیراں
نصیبِ سینۂ کس، آہِ صبح گاہے نیست
(پیامِ مشرق ، ص ۱۸۱)
دورِ جدید میں مختلف اور متضاد علمی و سائنسی اور انقلابی نظریات کے درمیان ٹکراؤ اور تہذیبوں کے درمیان کش مکش تیز تر ہوتی جا رہی ہے۔ امّت ِمسلمہ اپنی تاریخ کے دامن میں علوم و فنون اور تہذیب و ثقافت کا ایک عظیم الشان سرمایہ رکھتی ہے۔ اس اعتبار سے عصرِحاضر کے چیلنج کا سامنا کرتے ہوئے اس پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اقبال کے نزدیک اس چیلنج کا جواب صرف اس داخلی اور روحانی قوت اور فقروقناعت پسندی کے ذریعے دیا جا سکتا ہے جو کارزارِ حیات میں مردِ مومن کا اصل سرمایہ اور کش مکش و کشاکش میں کامیابی کے لیے اس کا کارگر ہتھیار ہے۔ روحانی قوت اور فقر کا سرمایہ، ذوقِ سحرخیزی کے ذریعے ہی فراہم ہو سکتا ہے اور یہی تقویمِ خودی کا راز ہے۔
اقبال ،امّتِ مسلمہ کے نوجوانوں کے لیے بطورِ خاص دعاگو ہیں کہ خدا انھیں ذوقِ سحرخیزی کی دولت سے نوازے:
بے اشکِ سحرگاہی، تقویمِ خودی مشکل
یہ لالۂ پیکانی، خوش تر ہے کنارِ جو
(ضرب کلیم ، ص ۱۷۳)
جوانوں کو مری آہِ سحر دے
پھر، ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
(بالِ جبریل ، ص ۸۶)
جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے
مرا عشق، میری نظر بخش دے
مرے دیدۂ تر کی بے خوابیاں
مرے دل کی پوشیدہ بے تابیاں
مرے نالۂ نیم شب کا نیاز
مری خلوت و انجمن کا گداز
(ایضاً، ص ۱۲۴، ۱۲۵)
سوزِ او را از نگاہِ من بگیر
یا ز آہِ صبح گاہِ من بگیر
(جاوید نامہ ، ص ۱۹۹)
ہر درد مند دل کو، رونا مرا رلا دے
بے ہوش جو پڑے ہیں، شاید انھیں جگا دے
(بانگِ درا، ص ۴۸)
بالِ جبریل میں ’اذان‘ کے عنوان سے ایک چھوٹی سی نظم ہے۔ اس میں اقبال نے مسلمانوں کے ذوقِ سحرخیزی کو ازسرِنو تازہ کرنے اور ان پر شب بیداری کی اہمیت کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ چاند ستاروں کا ایک مکالمہ ہے۔ انداز نہایت حکیمانہ ہے۔ مسلمانوں کو ان کی غفلت کا احساس دلانے کے ساتھ ساتھ ان کے مقام و مرتبے کی عظمت کا اظہار و اعتراف بھی کیا ہے۔ چاند، انسان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ستاروں سے مخاطب ہے:
واقف ہو اگر لذّتِ بیداریِ شب سے
اونچی ہے ثرّیا سے بھی یہ خاکِ پُراسرار
آغوش میں اس کی وہ تجلّی ہے کہ جس میں
کھو جائیں گے افلاک کے سب ثابت و سیّار
(بالِ جبریل ،ص ۱۴۵)
جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، شب بیداری، سحرخیزی اور آہِ صبح گاہی کا منطقی نتیجہ تقویمِ خودی ہے۔ اقبال اپنی بے خوابیوں اور شب بیداریوں کے نتیجے میں ’اس لذتِ آہِ سحرگاہی‘ سے بہرہ ور تھے، جس کا ثمر قیام و استحکامِ خودی ہے، لیکن اگر ایسا نہ ہو سکے تو پھر یہ ساری مشق ’مذہب ملّا و جمادات‘ کا حصہ شمار ہو گی جس کا حاصل کچھ بھی نہیں۔ گویا سحرخیزی، شب بیداری اور فغان و فریاد ایک ظاہری عمل ہے، تو استحکام خودی اس کی روح ہے۔ روح کے بغیر ظاہری عمل، ایک مردہ جسم ہے جس سے اقبال تو کیا، کسی بھی ہوش مند شخص کو ذرّہ برابر دل چسپی نہیں ہو سکتی۔ اگر شب بیداری ایک رسم یا دین داری کی نمایش بن کر رہ جائے تو یہ محض ریاکاری ہو گی جس کا حاصل حصول کچھ نہ ہوگا۔ علّامہ اقبال ایسی عبادت اور سحرخیزی کو مردود قرار دیتے ہیں:
یہ ذکرِ نیم شبی، یہ مراقبے، یہ سرور
تری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں
(ضربِ کلیم، ص ۳۴)
کر سکتی ہے بے معرکہ جینے کی تلافی
ممکن نہیں تخلیقِ خودی خانقہوں سے
اے پیرِ حرم! تیری مناجاتِ سحر کیا؟
اس شعلۂ نم خوردہ سے ٹوٹے گا شرر کیا!
(ایضاً، ص ۱۷۳)
مست رکھو ذکر و فکرِ صبح گاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاجِ خانقاہی میں اسے
(ارمغانِ حجاز ، مشمولہ : کلیاتِ اقبال، اردو، ص ۱۵/۶۵۷)
کارگاہِ حیات میں اگر شیطانی اور طاغوتی طاقتوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے تو صرف اس طرح کہ نالہ ہاے سحری سے خودی کو تقویت پہنچائی جائے۔ دنیا کی باطل قوتیں، بشمولِ ابلیس، اسی سحرخیز مسلمان سے خوفزدہ ہیں۔ ابلیس اپنے مشیروں کو یہ فرمان جاری کرتا ہے کہ مسلم شب زندہ دار کو خانقاہی رنگ کے ذکرِ صبح گاہی میں مست و مدہوش رکھو۔ پیرانِ حرم کو بھی خدشہ ہے کہ سحرخیز مردِمومن، ان کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں:
حریف اپنا سمجھ رہے ہیں خدایانِ خانقاہی
انھیں یہ ڈر ہے کہ میرے نالوں سے شق نہ ہو سنگِ آستانہ
(ایضاً، ص ۴۴/۶۸۶)
مگر علّامہ اقبال کی یہی تلقین ہے کہ:
از خوابِ گراں، خوابِ گراں، خوابِ گراں خیز
از خوابِ گراں خیز
(زبورِ عجم ،ص ۸۱)
علّامہ اقبال عمر بھر جس ’جہانِ تازہ‘ کی تلاش و تشکیل کے لیے آرزومند اور اس کی فکر میں جس طرح غلطاں و پیچاں رہے، اس کی رمز اسی ذوقِ سحرخیزی اور نواہاے سحرگاہی میں پوشیدہ ہے:
نہ ستارے میں ہے، نے گردشِ افلاک میں ہے
تیری تقدیر مرے نالۂ بے باک میں ہے
کیا عجب میری نواہاے سحرگاہی سے
زندہ ہو جائے، وہ آتش کہ تری خاک میں ہے
(بالِ جبریل ، ص ۶۵)
]ہم چین کی ترقی، یک جہتی اور دوستی کے قدر دان ہیں۔ یہی قدردانی اور دوستی تقاضا کرتی ہے کہ عوامی جمہوریہ چین کی سیاسی قیادت کے سامنے یہ حقیقت واضح کی جائے کہ: ’’دنیا کے مختلف حصوں میں بسنے والے مسلمان، محض علاقائی یا نسلی اقلیت یااکثریت نہیں ہیں بلکہ (مسلمان ایک نبی کی ایک ہی اُمت کی حیثیت سے شناخت رکھتے ہیں)۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا مغربی و امریکی سامراج، مسلمانوں کو علاقوں، ملکوں اور نسلوں کی بنیاد پر دیکھنے کے بجاے، انھیں صرف مسلمان کی حیثیت سے مخاطب کرتاہے۔ اس ابدی حقیقت اور تاریخی سچائی کی طرف متوجہ کرتے ہوئے یہ بات عرض کرنا چاہتے ہیں کہ چین کی جہاں دیدہ سیاسی قیادت کو ایغور مسلمانوں کے حوالے سے بھی یہی حقیقت پیش نظر رکھنی چاہیے۔ یہ امرواقعہ بھی ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہیے کہ چین، تجارت اور اسٹرے ٹیجک تعلقات کے حوالے سے، سب سے زیادہ قریب مسلم ممالک ہی سے ہے۔ وہ اپنے ہاں بسنے والے مسلمانوں کے مسائل کو فوجی یا جبری انداز سے حل کرنے کے بجاے، وہاں رہنے والے مسلمانوں کے دینی، سماجی اور معاشی مفادات کو حق و انصاف کی بنیاد پر حل کرتا ہے اور ان کی تہذیب و ثقافت کا احترام کرتا ہے تو یہ بات خود چین کے مفاد میں ہوگی۔ اس طرح ایک جانب وہ مسلمان حکومتوں سے بڑھ کر ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے دل میں جگہ بنا سکے گا تو دوسری جانب اپنے لیے ملک اور ملک سے باہر خیرسگالی کے جذبات کو پروان چڑھاپائے گا۔ س م خ
یہ ایک دل چسپ اور رُلا دینے والا رپورتاژ ہے ___ رپورتاژ کو اہل نقد بالعموم افسانوی ادب (fiction) میں شمار کرتے ہیں، مگر زیر نظر کتاب میں حقیقت ہی حقیقت ہے، افسانہ نہیں ہے۔ قاری مطالعے کے دوران ڈاکٹر شفیق انجم کی خوب صورت نثر کی بے ساختہ داد دیتا ہے۔
مصنف کو ملازمتی مصروفیات کے سلسلے میں کچھ عرصہ سنکیانگ میں رہنے کا موقع ملا۔ وہ لکھتے ہیں :’’مختصر مدّت کی یہ رفاقت عمر بھر کی رفاقت محسوس ہوتی ہے ۔ میں نے اسے صرف دیکھا ہی نہیں، سوچا، سمجھا، چکھااور بھگتا بھی ہے۔ اس قربت و رفاقت کے کچھ زاویے میں نے اپنی نظمیہ کہانیوں میں نقش کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ نظمیہ کہانیاں: جلا وطن، خود کلامی اور سنکیانگ میں محبت کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہو چکی ہیں۔ زیر نظر تحریر سنکیانگ نامہ میں کچھ مزید زاویوں کو سمیٹنے اور بیان کرنے کی کوشش کی ہے‘‘۔ (ص۶)
یہ کتاب سنکیانگ کے ایغور مسلمانوں کے شان دار ’ماضی‘ اور درد ناک ’حال‘ کی رُودادِ زندگی ہے۔ جہاں تک سنکیانگ میں ایغور وں کے ’مستقبل‘ کا تعلق ہے: ’’زمین اس کی ہوتی ہے جس کے پاس طاقت ہو‘‘ (ص ۷)۔ اس اعتبار سے ایغوروں کا ’مستقبل‘ بظاہر دکھائی نہیں دیتا، کیوں کہ موجودہ حکومت ان سے جس طرح معاملہ کر رہی ہے، کوئی دن جاتا ہے (اور یہ چند برسوں کی بات ہے ) کہ وہ نابود کردیے یا دُور دُور بکھیر دیے جائیں گے۔ پھر وجود کہاں؟ اور زمین کا ذکر کہاں؟
مصنف کہتے ہیں : ’’چین سے ہمارا دوستی کا ایک مضبوط رشتہ قائم ہے، یہ رشتہ قائم رہنا اور پھلنا پھولنا چاہیے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان پہلوئوں پر ضرور بات ہونی چاہیے، جو اس پُر خلوص رشتے میں دُکھ اور تکلیف کے عناصر شامل کیے جا رہے ہیں، انھی میں سے ایک سنکیانگ ہے‘‘۔ (ص ۱۲)
اس طرح یہ کتاب سنکیانگ کے ایغوروں کے دکھوں کی کہانی ہے۔ سنکیانگ ۱۶لاکھ ۶۴ہزار ۸سو ۹۷مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ چین نے جس کثرت سے یہاں سٹرکیں، پُل اور عمارتیں بنائی ہیں، اسی کثرت سے چین کے مختلف علاقوں سے چینی باشندوں کو لا لا کر سنکیانگ میں بسا یا ہے۔ بقول مصنف: ’’کسی زمانے میں یہاں مسلمان واحد اکثریت تھے، لیکن چینی عمل داری کے بعد منظم آباد کاری کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اب یہ تناسب ۴۵/۵۵ کا ہو گیا ہے اور آنے والے برسوں میں مسلم اکثریت آٹے میں نمک کے برابر رہ جائے گی‘‘۔ (ص۱۸)
مصنف نے سنکیانگ کے مختلف شہروں کے محل وقوع کے ساتھ ان کا تعارف کرایا ہے ۔ مختلف علاقوں کے لوگوں سے تبادلۂ خیال کیا ، ان کے ناگفتہ بہ حالات سنے اور ان میں سے بعض واقعات نقل کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’سنکیانگ مکمل طور پر ایک پولیس اسٹیٹ ہے۔ غیر ملکی سیّاح بکثرت آتے ہیںمگر ایک دودن کے قیام سے انھیں اصلیت کا پتا نہیں چلتا، ہاں طویل قیام سے بخوبی سمجھ لیتے ہیں کہ سنکیانگ میں ایغور ہونے کا مطلب سسکتی موت ہے ۔ بظاہر یہ لوگ زندہ ہیں لیکن انھیں اندر سے مار دیا گیا ہے۔ یہ خبریں تو اب عالمی میڈیا پر بھی عام ہیں کہ سنکیانگ میں ایغوروں کے لیے بڑے بڑے ’حراستی کیمپ‘ بنائے گئے ہیں، جہاں لاکھوں کی تعداد میں لوگ لائے جاتے اور انھیں اذیت ناک مراحل سے گزار کر وفا دار بننے کی تربیت دی جاتی ہے۔ ان کیمپوں کی موجودگی سے چینی حکومت انکاری ہے اور اسے چین دشمن عناصر کا پروپیگنڈا کہہ کر رد کیا جاتا ہے۔ لیکن واقفانِ حال جانتے ہیں کہ ’حراستی کیمپ‘ ہونے نہ ہونے کی بات ایک طرف، یہاں تو گھر گھر ، گلی گلی، کوچہ کوچہ حراست معصوم لوگوں کو دبوچے بیٹھی ہے۔ ہر ایغور ’مشکوک‘ ہے، ہر ایغور ’دہشت گرد‘ ہے اور ہرایغور پر لازم ہے کہ وہ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے چینی حکومت سے وفاداری کا ورد کرتا رہے۔ پولیس کی نگرانی کے ساتھ ہر ایغور گھرانے پر ایک چینی گھرانا مامور ہے۔ نجی معاملات میں یہ چینی گھرانا دوستی کے لیبل اور باہمی تعاون ومدد کے سلوگن کے ساتھ ایغور گھرانے کی کوتوالی کرتا ہے۔ باہمی شادیوں اورثقافتی اشتراک کی راہ نکالتا ہے اور اگر کہیں کسی طرح کی کم آمادگی یا گریز کی صورت دیکھتا ہے تو نہ جانے پولیس کو کیسے معلوم ہو جاتا ہے کہ فلاں ایغور گھرانے کے فلاں فرد یا پورے گھرانے کو ’خصوصی تربیت کی ضرورت ہے‘۔ پس ’تربیت‘ دی جاتی ہے ، اور ایسی کہ دائیں بائیں والوں کے بھی اوسان خطا ہوجاتے ہیں‘‘ ۔ (ص۵۳)
ایک اور جگہ کہتے ہیں: ’’ارومچی کے جنوبی علاقے میں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ یہاں مساجد موجود ہیں، جن کا احاطہ محدود کر کے ان کے گرد باڑیں لگا دی گئی ہیں۔ گیٹ میں سکینر اور کیمرے ، ہر مسجد کے سامنے پولیس بکتر بند گاڑیاں چوبیس گھنٹے کھڑی رہتی ہیں۔ مسجد صرف نماز کے وقت کھلتی ہے اور پھر مقفل۔ ہر نمازی کی شناخت نوٹ ہوتی ہے ۔ پس، گنے چنے بوڑھے ہی نماز کے اوقات میں نظر آتے ہیں۔ مساجد کے علاوہ گھروں میں قرآن شریف یا کوئی بھی مذہبی متن یا آثار رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ داڑھی رکھنے پر پابندی، روزے پربھی پابندی ، رمضان میں جان بوجھ کر دفتروں میں آفیشل لنچ رکھے جاتے ہیں۔ جو ایغور ملازمت میں ہیں، ان کی جامع رپورٹ بنتی ہے ، نگرانی ہوتی ہے۔ رات دن سولی پر لٹکتے رہتے ہیں، پھر بھی اعتباری قرار نہیں پاتے ‘‘ (ص۵۴- ۵۵) ۔اسی طرح: ’’مسلم ثقافت کا زور توڑنے کے لیے بدھ مذہبی ثقافت کو مقابل لایا جارہاہے‘‘ (ص۶۶)۔’’چینی حلقوں میں ان [ایغور مسلمانوں]کی کوئی عزت نہیں۔ یہ لوگ حکومتی مشینری میں اعلیٰ عہدے بھی رکھتے ہیں اور بہت قابل پروفیسر ، ڈاکٹر اور انجینیر اور کاروباری لوگ بھی ہیں، لیکن نسلاً ایغور ہونا ان کے لیے ایک تہمت بنا رہتا ہے‘‘۔ (ص۷۷)
مصنف نے اپنے مشاہدے کو صرف ایغوروں کی مظلومیت تک محدود نہیں رکھا، بلکہ ان کی ثقافت، تعلیم اور ان کے خوردو نوش کی عادت کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ ریستورانوں میں چائے ، کھانے، چکن تکے، سیخ کباب ، نمکین اور میٹھے بسکٹ ، کلچے ، کرانچی جلیبی، پیزہ اور یہاں کے پھل___ جو ایغور دُور دراز دیہی علاقوں میں رہتے ہیں ، وہ قدر ے عافیت میں ہیں (مگر تابکے ؟)۔ لوگ حلیم اور خوش گفتار ہیں۔ دھول مٹی سے اَٹے ، لتھڑے، لیکن دل کے غنی وباد شاہ اور مہمان نوازی میں بے مثل ۔ مسافروں کے پہنچتے ہی ہر ایک بقدرِ استطاعت خدمت میں جُت جاتا ہے ۔ پانی، دودھ اور میوے پیش کیے جاتے ہیں ۔ رسم کے مطابق بھیڑ یا دنبہ ذبح کر کے خوان سجایا جاتا ہے۔ اپنے پاس بھیڑ میسر نہ ہو تو ساتھ والوں سے اُدھار لے لی جاتی ہے۔ زبان اجنبی ہے، چہرے اجنبی ہیں، منظر وماحول اجنبی ہے، لیکن خلوص وایثار ومحبت کے جذبے اپنے اپنے سے ہیں۔
ایغوروں اور چینیوں کے عقائد و تجربات، نظریہ ہاے زندگی اور رسومات و مشاغل الگ الگ ہیں۔ مصنف کا اخذ کردہ نتیجہ انھی کے الفاظ میں درج ذیل ہے:
’’چین، سنکیانگ سے جانے کا نہیں۔ سرحدیں سیل ہیں اور ایسی سیل کہ کوئی پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا ہے ۔ شہروں شہر نا کہ بندی اور ایسی ناکہ بندی کہ ایک شہر کی ہوا بھی دوسرے شہر جانے سے گریز کرتی ہے۔ شہروں اور قصبوں کے اندر ہر ہر کالونی کی الگ الگ ناکہ بندی ہے۔ ہر کالونی کی ہر منزل کی الگ ناکہ بندی ۔ ہر منزل کے ہر گھر کی الگ ناکہ بندی ۔اور ہر گھر کے ہر فرد کی الگ ناکہ بندی۔ اتنے حصار اور اتنے کڑے حصار ہیں کہ بے بسی سینہ پیٹتی ، بین کرتی رہتی ہے، لیکن کوئی نہیں سنتا۔ جب جس کو اٹھانا ہو، اٹھا لیا جاتا ہے۔ ایک ایک قیدی کے لیے چھے چھے بم پروف گاڑیوں کا قافلہ چلتا ہے، اور معلوم نہیں جانے والا کہاں جاتا ہے۔ شہروں شہر بکتر بند گاڑیوں میں دہشت گشت کرتی رہتی ہے۔ ٹینک اور راکٹ بردار گاڑیاں چوک چوراہوں میں کھڑے ہیں۔ جگہ جگہ پولیس سٹیشن ہیں۔ فوج الگ سے تیارو چوکس کھڑی ہے۔ تو ایسے میں یہ کہنا کہ یہ سارا اہتمام حفاظت کے لیے ہے، کتنا مضحکہ خیز لگتا ہے۔ کیا حفاظت کا یہ اہتمام چین کے باقی شہروں میں بھی ہے؟ کیا [اُن] عالمی اہمیت کے حامل شہروں میں بھی ہے؟ کیا بیجنگ ، شنگھائی اور گوانگ زو جیسے عالمی اہمیت کے حامل شہروں میں اس سے زیادہ اہتمام کی ضرورت نہیں ؟ جواب ملتا ہے: ’نہیں، کیونکہ وہاں ایغور نہیں‘۔توگویا ایغوروں کا ہونا چین کی سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ سمجھ لیا گیا ہے‘‘۔ (ص۷۸)
مصنف نے آخر میں لکھا ہے:’’سنکیانگ چینیوں کا ہے اور سنکیانگ کے باشندے بھی چینیوں کے ۔ کوئی کچھ نہیں کر سکتا___ مگر دوست کو دوستی کا حوالہ دے کر، درخواست تو کی جا سکتی ہے اگرچہ واضح ہے کہ شنوائی کی کوئی صورت نہیں۔ کسی طور کسی کا دل نہیں پسیجے گا، کسی طور کوئی آمادۂ رحم نہ ہو گا کہ طاقت ، بے مہار طاقت فریادیں نہیں سنتی، حکم لگاتی ہے، حکم نافذ کرتی ہے۔ اور مظلوم وبے کس لوگ مرتے ، اذیت ناک موت مرتے رہتے ہیں___ تاریخِ انسانی میں ایسا ہوتا رہا ہے اور ہرجغرافیے سے جڑی کہانیوں میں یہ بات مشترک ہے کہ زور والے زیر دستوں پر چڑھ دوڑے اور انسانیت انھیں دیکھ دیکھ شرماتی رہی۔ ترقی اور ارتقا کے خروش میں خون کی ندیاں بہائی جاتی رہیں اور کوئی کسی کے لیے کچھ بھی نہ کرسکا۔ دُکھ ہوتا ہے اور سوچ غالب آتی ہے کہ آخر انسان ترقی اور کمال کی منزلوں پر پہنچ کر بھی دوسروں کو معاف کرنا اور جینے کا حق دینا کیوں نہیں سیکھ پاتا؟ اپنے بچے اپنے ہیں تو دوسروں کے بچے بھی اپنوں کی طرح کیوں نہیںلگتے؟ رنگ، نسل، قوم، قبیلے اگر تفاخر کا باعث ہیں تو اپنے تفاخر کے ساتھ دوسروں کے تفاخر کا احترام کیوں نہیں کیا جاتا؟ تجارت ، کاروبار اور مال واسباب کی دوڑ دھوپ اگر زندگی کے لیے ہے تو پھر یہ سب کچھ پانے کی خواہش میں زندگی ، زندگی کو کیوں کاٹ کھاتی ہے؟ شاید انسان طاقت کے نشے میں اندھا ہو جاتا ہے۔ شاید انسان خدا بننا چاہتا ہے؟ لیکن جان لینا چاہیے کہ زمین حاکم تو پالتی ہے لیکن کسی کو خدا نہیں بننے دیتی ___ یہ زمین کی سرشت ہے۔ اور یقینا آسمان کی سرشت بھی یہی ہے___ ایسے میں کیا ہی اچھا ہو کہ حاکم، محکوموں پر مہربانی کریں تو سب کی زندگیوں میں خوشیوں کے پھول کھل سکتے ہیں‘‘۔(ص ۷۹-۸۰)
مصنف کی اس درد بھری اپیل پر دوستوں کو بھی دھیان دینا چاہیے اور اپنے آپ کو اُمت ِ مسلمہ سے منسوب کرنے والے حاکموں کو بھی سفارتی اور اخلاقی سطح پر اپنا فرض ادا کرنا چاہیے۔ اس رُودادِ اَلم کو پڑھنے کے لیے ملاحظہ ہو:سنکیانگ نامہ ،ڈاکٹر شفیق انجم ۔ الفتح پبلی کیشنز، ۳۹۲-اے ،گلی نمبر ۵۔اے، لین نمبر ۵، گل ریز ہائوسنگ سکیم۔۲ ، راولپنڈی ۔ صفحات : ۸۰ ۔ قیمت :۲۵۰ روپے۔
علامہ اقبال ۱۹۳۳ء میں نادر شاہ کی دعوت پر افغانستان گئے۔ اس سفر میں سیّد راس مسعود اور سیّد سلیمان ندوی بھی ان کے ہم رکاب تھے۔ موٹر کار کے ذریعے پشاور ،جلال آباد کے راستے کابل پہنچے تھے مگر واپسی پر غزنین ،قندھار اور چمن کوئٹہ کا راستہ اختیار کیا۔ پورے سفر کی رُوداد سیرافغانستان کے نام سے سیّد سلیمان ندوی نے قلم بند کی تھی۔
چمن سے کوئٹہ آتے ہوئے علامہ سے ان کی جو گفتگو ہوئی، اس کے ذکر میں سیّد صاحب لکھتے ہیں: ’’ڈاکٹر صاحب نے اپنے آغازِ زندگی اور طالب علمانہ عہد کا ذکر چھیڑا، پھر اپنے والد مرحوم کا تذکرہ کیا کہ وہ خود ایک صاحبِ دل صوفی تھے اور دین دار علما کی صحبت میں رہتے تھے ۔ اس ضمن میں یہ معلوم ہوا کہ ہمارے جلیل القدر اسلامی شاعر کے حسّیاتِ خفتہ کے تاروں میں جس مضراب نے حرکت پیدا کی، وہ خود ان کے والد ماجد کی ذاتِ بابر کات تھی۔
’’اثناے گفتگو میں ڈاکٹر صاحب نے اپنے طالب علمی کے عہد کے ایک قصے میں اپنے والدمرحوم کا ایک ایسا فقرہ سنایا جس نے میرے دل پر بے حد اثر کیا۔ فرمایا کہ اپنے وطن سیالکوٹ میں صبح کی نماز کے بعد قرآن پاک کی تلاوت کیا کرتا تھا۔ [خیال رہے کہ مسلم گھرانوں میں، صدیوں سے علی الصبح تلاوتِ قرآن کی روایت چلی آ رہی ہے۔ علامہ کے زمانے تک یہ روایت باقی تھی، اور اب بھی بعض گھرانوں میں موجود ہے، چنانچہ اپنے لڑکپن میں، اقبال نماز فجر کے بعد معمولاً تلاوت کیا کرتے تھے ]۔ایک صبح کو نماز کے بعد حسب دستورِ مَیں تلاوت میں مصروف تھا کہ والدِمرحوم ادھر آئے اور دریافت کیا کہ کیا کرتے ہو ؟ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ مَیں اس وقت تلاوت کرتا ہوں۔ فرمایا : ’’جب تک تم یہ نہ سمجھو کہ قرآن تمھارے قلب پر بھی اسی طرح اترا ہے جیسے محمد ؐ کے قلبِ اقدس پر نازل ہوا تھا، تلاوت کا مزا نہیں‘‘۔ یعنی اپنے اندر احساس پیدا کرو کہ گویا قرآن تم پر نازل ہو اہے۔ علامہ اقبال نے بہت بعد میں اپنے شعر میں اس واقعے کی طرف اشارہ کیا ہے:
ترے ضمیر پر جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی ، نہ صاحبِ کشاف
(بالِ جبریل، ص ۷۸)
اقبال نے والد کی یہ نصیحت پلے باندھ لی اور قرآن حکیم کے ساتھ ایسی وابستگی پیدا کر لی کہ بقول سیّد مودودی ؒ :’’دنیا نے دیکھا کہ [وہ] قرآن حکیم میں گم ہو چکا ہے اور قرآن سے الگ اس کا کوئی فکری وجود باقی نہیں رہا ‘‘ ۔ اقبال کی انقلاب انگیز شاعری اور ان کے افکار وتصورات اس پر گواہی دے رہے ہیں۔
اقبال اوائلِ عمر ہی سے تلاوتِ قرآن پاک کے عادی تھے۔ تلاوت بہت خوش الحانی سے کرتے۔ کبھی کبھی وہ رات کو اپنے دوست مرزا جلا ل الدین کے ہاں ہی ٹھیر جاتے۔ مرزا صاحب ، ان ایام کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب جب رات میرے پاس گزارتے تھے تو صبح اُٹھ کر نماز پڑھتے اور اس کے بعد بڑی خوش الحانی سے دیر تک قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے۔ ان کی تلاوت سن کر بڑا لطف آتا تھااور ایک کیفیت طاری ہو جاتی تھی ۔ پھر چائے پی کر وہ اپنے دفتر یا گھر چلے جایا کرتے تھے۔
اقبال کا خادمِ خاص ، علی بخش تقریباً ۳۵ برس تک اقبال کے شب وروز اور سفر وحضر کا رفیق رہا۔ اس کی روایت ہے کہ صبح کی نماز اور قرآن خوانی مدت سے ان کا معمول تھا۔ قرآن بلند آواز سے پڑھتے تھے۔ آواز ایسی شیریں تھی کہ ان کی زبان سے قرآن سن کر پتھروں کے دل پانی ہو جاتے تھے۔ بیماری کے زمانے میں قرآن پڑھنا چھوٹ گیا اور عمر بھر کا معمول باقی نہ رہا۔ اس بات کا انھیں شدید قلق تھا:
در نفس سوزِ جگر باقی نماند
لطفِ قرآنِ سحر باقی نماند
(پس چہ باید کرد،ص۵۰ )
جب خود تلاوت نہ کر سکتے تو کوشش ہوتی تھی کہ کسی اچھے قاری کی تلاوت سنیں۔ ڈورس احمد بتاتی ہیں: ایک روز ایک عرب ،علامہ سے ملنے آیا ۔ اس موقعے پر ڈاکٹر صاحب نے مجھے کہا کہ بچوں کو میرے پاس لے آئیے ۔ عرب مہمان ابھی قرآنِ پاک کی تلاو ت کریں گے۔ اگر آپ بھی تلاوت سننا پسند کریں تو سامعین میں شامل ہو سکتی ہیں۔ ڈورس احمد کہتی ہیں: عرب مہمان نہایت خوش الحان تھے۔ جب تک وہ آیاتِ مقدسہ کی تلاوت کرتے رہے ، ڈاکٹر صاحب برابر روتے رہے۔ اگرچہ میں آیات کا مفہوم سمجھنے سے قاصر تھی، لیکن قاری صاحب کے حسنِ قراء ت نے جو سماں باندھ دیا، میں اس سے بہت متاثر ہوئی۔ بچے مسحور تھے اور ڈاکٹر صاحب تو وجد میں تھے۔
اقبال کو ’ترجمان القرآن‘ بھی کہا جاتا ہے اور یہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں۔ علی بخش کا بیان ہے کہ جب شعر کہنے ہوتے تو بیاض اور قلم دان کے ساتھ، قرآن حکیم بھی منگاتے۔ اس طرح عمر بھر وہ قرآن کی تعلیمات وافکار کو اپنی شاعری میں سمو کر پیش کرنے کی سعی کرتے رہے۔ ان کی یہ کاوش ارادی اور شعوری تھی۔ رموزبے خودی کے آخر میں تو بہت کھل کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور عرض کیا کہ اگر میرے اشعار میں قرآن حکیم (کے مطالب ) کے علاوہ یا خلافِ قرآن کوئی بات ہے تو آپ دنیا کو میرے کانٹے سے پاک کر دیجیے اور قیامت کے دن مجھے بوسۂ پا سے محروم کرکے، خوار و رُسوا کیجیے.... پھر کہا: حقیقتِ حال تو یہ ہے کہ میں نے اپنی شاعری میں قرآن پاک کے موتی پروئے ہیں۔
اقبال کا یہ دعویٰ (کہ میں نے سراسر قرآنِ حکیم کی ترجمانی کی ہے) قرآن حکیم پر پورے شعور کے ساتھ ان کے ایک گہرے ایمان وایقان کا نتیجہ تھا۔ ایک بار ایف سی کالج لاہور کے پرنسپل لوکس نے ان سے پوچھا : تمھارے پیغمبر ؐ پر قرآن کا مفہوم نازل ہوا تھااور انھوں نے اسے عربی میں منتقل کر لیا یا یہ قرآن پاک کی موجودہ عبارت ہی ہوبہو اُتری تھی ؟ علامہ نے کہا: یہ اسی طرح اتری تھی ۔ پرنسپل لوکس کو کچھ تعجب ہوا کہ یہ ایم اے، پی ایچ ڈی، بیرسٹرایٹ لا، یورپ کا تعلیم یافتہ فلسفی بھی دقیانوسی باتوں پر یقین رکھتا ہے۔ اقبال نے کہا: میرا تجربہ ہے کہ مجھ پر پورا شعر اترتا ہے، تو پیغمبر پر یہ پوری عبارت کیوں نہ اُتری ہو گی۔
رُموز بے خودی کے ایک باب کا عنوان ہے :’’آئینِ ملتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم قرآن است‘‘۔ اس میں پہلے وہ افرادِ اُمت سے سوال کرتے ہیں: کیا تم جانتے ہو کہ تمھارا آئین کیا ہے؟ پھر خود ہی جواب دیتے ہیں :قرآن حکیم ۔فرماتے ہیں:
آں کتابِ زندہ قرآنِ حکیم
حکمتِ او لایزال است و قدیم
نسخۂ اسرارِ تکوینِ حیات
بے ثبات از قوتش گیرد ثبات
نوعِ انساں را پیامِ آخریں
حاملِ او رحمتہً للعالمیں
(رموز بے خودی ،ص ۱۲۳)
[ یہ قرآن حکیم ہے جو ایک زندہ کتاب ہے جس کی حکمت قدیم بھی ہے اور کبھی نہ ختم ہونے والی ہے۔ یہ تخلیق حیات کے اسرار ظاہر کرنے والا نسخہ ہے۔ اس کی قوت اور بل بوتے پر کمزور، ثبات وقوت اور پایداری حاصل کرتے ہیں۔ یہ بنی نوع انسان کے لیے آخری پیغام ہے ، جسے رحمتہ للعالمین لائے ہیں۔ قرآن پاک کی برکت سے ایک بے وقعت شخص بھی قدرو منزلت حاصل کر لیتا ہے]۔
اس کے بعد دور حاضر کے مسلمان اور بحیثیت مجموعی امت مسلمہ سے کہتے ہیں کہ اگر تم پستی وزبوں حالی کی دلدل سے نکلنا چاہتے ہو اور سر بلندی وعروج کے راستے پر گامزن ہونا چاہتے ہو تو اس کا ایک ہی راستہ ہے:
گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآں زیستن
(ایضاً)
[اگر مسلمان بن کر زندہ رہنا چاہتے ہو تو قرآن حکیم پر عمل پیرا ہوئے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔]
جاوید نا مہ میں کہتے ہیں کہ اگر دل کی بات پوچھتے ہو تو قرآن حکیم عام کتابوں کی طرح فقط ایک کتاب نہیں ، کچھ اور ہی چیز ہے:
ایں کتابے نیست ، چیزے دیگر است
(جاوید نامہ ،ص ۸۱)
جب اس کا اثر جان کے اندر داخل ہوتا ہے تو وہ جان بدل جاتی ہے (اس میں انقلاب آجاتا ہے ) اور جان بدل جائے تو جہان بد ل جاتا ہے ۔
جاوید نا مہ میں وہ ’پیغامِ افغانی با ملّتِ روسیہ ‘ کے زیر عنوان قرآنِ حکیم کے ذکر سے بات کا آغاز کرتے ہیں:
منزلِ مقصودِ قرآں دیگر است
رسم و آئین مسلماں دیگر است
(ایضاً،ص ۷۸)
[قرآن پاک کی منزل اور اس کا مقصود اور ہے مگر (آج کل کے ) مسلمان کے طور طریقے اور اُصولِ (حیات ) مختلف ہیں] ___پھر فرماتے ہیں : یہ مسلمان قرآن سے فائدہ نہیں اٹھاتا، حالاں کہ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن نے فقر کا جوتصور دیا ہے ، وہ فقر ہی اصل شہنشاہی ہے۔ قرآن پاک ظالم آقائوں کے لیے تو موت کا پیغام ہے اور بے سروساماں انسانوں کا دستگیر اور بہت بڑا سہارا ۔ اس انقلابی کتاب میں مشرق ومغرب کی تقدیریں پنہاں ہیں، لہٰذا اے مسلمان! نور قرآن پر غور کرو، زندگی کے نشیب وفراز سے اور تقدیر حیات سے آگاہی ،قرآن حکیم سے وابستگی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ مسلمان کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں: تم اور طرح کی شرع اور (غیرقرآنی ) قوانین اپنا کر کسی اور راستے پر چل پڑے ہو۔ ذرا رُک کر قرآن پاک پر غور کرو۔ پھر علامہ، اُمت مسلمہ کو خبر دار کرتے ہیں کہ اگر تم نے غفلت برتی اور قرآن پاک کو چھوڑ دیا اور اس سے منہ موڑ لیا تو اللہ پاک قرآن پاک کو کسی اور قوم کے سپرد کر دیں گے:
حق اگر از پیش ما برداردش
پیشِ قومے دیگرے بگزاردش
(ایضاً،ص ۸۲)
یہ قرآن حکیم کی اس آیت کی ترجمانی ہے :وَ اِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِ لْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ۰ۙ ثُمَّ لَا يَكُوْنُوْٓا اَمْثَالَكُمْ۳۸ۧ ( محمد ۴۷:۳۸) ’’اگر تم منہ موڑو گے تو اللہ تمھاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گااور وہ تم جیسے نہ ہوں گے‘‘۔
جاوید نا مہ کے آخری حصے (خطاب بہ جاوید ) کے تحت کہتے ہیں :
سینۂ ہا از گرمیِ قرآں نہی
از چنیں مرداں چہ اُمید بہی
(ایضاً،ص ۲۰۰)
مسلمانوں کے سینے قرآن حکیم کی حرارت سے خالی ہیں تو قرآن سے غافل لوگوں سے اصلاحِ احوال کی کیا اُمید ہو سکتی ہے:
صاحبِ قرآن وبے ذوقِ طلب
العجب ، ثم العجب ، ثم العجب
(ایضاً،ص ۲۰۱)
تعجب تو یہ ہے اور انتہا درجے کا تعجب ہے کہ قرآن جیسی نعمت میسر ہے مگر اس سے فائدہ اٹھانے کا خیال ہی نہیں ہے ___ وہی بات کہ جزدان میں لپیٹ کر طاق میں رکھ دیا ہے (ماہرالقادری کی نظم ’قرآن کی فریاد‘ میں اس مفہوم کی بہت عمدہ ترجمانی ملتی ہے ۔ )
اس غفلت کا ایک سبب مسلمانوں کی فرنگیت زدگی ہے:
ہم مسلمانانِ افرنگی مآب
چشمۂ کوثر بجوئندہ از سراب
(ایضاً،ص ۲۰۶)
یعنی افرنگ زدہ (تہذیب مغر ب سے مرعوب ) مسلمان ، سراب میں سے چشمۂ کوثر ڈھونڈتے ہیں۔ علامہ ایک اور جگہ اظہار افسوس کرتے ہیں کہ :
افرنگ زخود بے خبرت کرد وگرنہ
اے بندۂ مومن تو بشیری ، تو نذیری
(ضرب کلیم ، ص ۱۷۵)
[اے مسلمان ! تہذیبِ مغرب نے تمھیں اتنا مدہوش کر دیا ہے کہ تمھیں اپنی (اصلیت کی) خبر ہی نہیں ، ورنہ دنیا میں تو ہی بشیر ہے اور نذیر بھی ۔]
جاوید اقبال سے خطاب کرتے ہوئے یہ بھی فرماتے ہیں کہ: عوام الناس سے کیا شکوہ ، خود علما ، قرآنِ حکیم کے علم سے لاپروا ہیں (یعنی قرآن حکیم پر خاطر خواہ غور نہیں کرتے، اور تدبّر وتفکّر کر کے اسے سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے ۔ اس لیے ان کے وعظ ، بے تاثیر وبے نتیجہ ہیں ) ۔
خیال رہے کہ علامہ اقبال نے اپنی اردو اور فارسی شاعری میںقرآن حکیم کا ذکر بار بار اور مختلف اسالیب وانداز میں کیا ہے۔ پھر ان کے نمایاں افکار وتصورات، یعنی فلسفۂ خودی ، تصور بے خودی ، عقل وعشق ، مرد کامل ، فقر ، تصوف وغیرہ ، اصلاً قرآنی تعلیمات کی بنیاد پر ہی تشکیل پذیر ہوئے ہیں۔ شعر اقبال کے سیکڑوں مضامین براہ راست قرآن حکیم سے اخذ کیے گئے ہیں۔ اُردو کلام میں ایک جگہ کہتے ہیں:
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدّتِ کردار
(ایضاً،ص ۱۳۶)
قرآن حکیم سے علامہ اقبال کی وابستگی اور رجوع الی القرآن کی تلقین خالی خولی شاعرانہ بات نہ تھی۔ اقبال حتی الوسع خود بھی قرآن حکیم کو راہ نما ے حیات بنانے کی سعی وکاوش کرتے رہے، مثلاً حیاتِ اقبال کی تقریباً ساری کتابوںمیں یہ واقعہ ملتاہے کہ علامہ کی بہن کریم بی بی ، ایک عرصے سے خوش دامن کے نامناسب رویے کی بنا پر ، میکے میں آ کر رہ رہی تھیں۔ خوش دامن فوت ہو گئیں تو ان کا خاوند (اقبال کا بہنوئی ) انھیں لینے آیا ؛ اقبال کے والدین تو رضا مند ہو گئے مگر اقبال، مصالحت پر راضی نہ تھے ۔ والدین نے بہت سمجھایا مگر وہ کسی طرح نہ مانے۔ اصرار کرنے لگے کہ بہنوئی اور ان کے ساتھ آنے والوں کو واپس کر دیا جائے ۔ اب شیخ نور محمد نے اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں اقبال سے کہا: بیٹے، اللہ پاک نے قرآن پا ک میں فرمایا ہے:وَالصُّلْحُ خَیْر ۔یہ سننا تھا کہ اقبال خاموش ہو گئے ، چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا، جیسے کسی نے سلگتی آگ پر برف کی سل رکھ دی ہو ۔کچھ توقف کے بعد ، والد نے پوچھا : اب کیا کیا جائے ؟ اقبال نے کہا: وہی جو قرآن کہتا ہے، چنانچہ مصالحت ہو گئی اور بہن کو رخصت کر دیا۔
قرآن حکیم سے اقبال کی وابستگی تادم آخر برقرار رہی۔ تلاوت تو ان کا عمر بھر کا معمول رہا۔ کبھی کبھی تلاوت کرتے وقت ان پر رقت طاری ہو جاتی اور بے اختیار رونے لگتے۔ نوجوانوں کو علی الصبح تلاوت کی تلقین کیا کرتے ، مثلاً ایک بار فرمایا: ’’مسلمانوں کے لیے جاے پناہ صرف قرآنِ کریم ہے۔ میں اس گھر کو صد ہزار تحسین کے قابل سمجھتا ہوں جس گھر سے علی الصبح تلاوت قرآنِ مجید کی آواز آئے ‘‘۔ تلاوت کے ساتھ ساتھ وہ قرآن حکیم کے معانی ومفاہیم پر بھی برابر فکرو تدبر کرتے رہے۔ خواجہ حسن نظامی کے نام ایک خط میں اعتراف کرتے ہیں کہ میرا ابتدائی میلان تصوف کی طرف تھا اور یورپ کا فلسفہ پڑھنے سے یہ میلان اور بھی قوی ہو گیا کہ یورپ کا فلسفہ بحیثیت مجموعی وحدت الوجود کی طرف رُخ کرتا ہے مگر قرآن پر تدبر کرنے اور تاریخ اسلام کا مطالعہ کرنے سے مجھے اپنی غلطی معلوم ہوئی اور میں نے محض قرآن کی خاطر اپنے قدیم خیال کو ترک کردیا۔ قرآنِ پاک کی تفہیم وتعبیر پر کچھ لکھنا بھی چاہتے تھے، مگر خرابیِ صحت نے انھیں اس کا موقع نہیں دیا۔
قرآن سے ان کے دیرینہ تعلق کو مولانا مودود ی ؒ نے ایک جگہ بڑے مؤثر الفاظ میں، اس طرح بیان کیا ہے: ’’ وہ جو کچھ سوچتا تھا، قرآن کے دماغ سے سوچتا تھا، جو کچھ دیکھتا تھا ، قرآن کی نظر سے دیکھتا تھا۔ حقیقت اور قرآن اس کے نزدیک شے واحد تھی اور اس شے واحد میں وہ اس طرح فنا ہوگیا تھا کہ اس کے دور کے علماے دین میں بھی مجھے کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا جو فنائیت فی القرآن میں اس امام فلسفہ اور اس ایم اے، پی ایچ ڈی، بارایٹ لا سے لگّا کھاتا ہو.... آخری دور میں اقبال نے تمام کتابوں کو الگ کر دیا تھا اور سوائے قرآن کے، اور کوئی کتاب وہ اپنے سامنے نہ رکھتے تھے۔ سالہا سال تک علوم وفنون کے دفتروں میں غرق رہنے کے بعد جس نتیجے پر پہنچے تھے، وہ یہ تھا کہ اصلِ علم قرآن ہے۔ اور یہ جس کے ہاتھ آ جائے ، وہ دنیا کی تمام کتابوں سے بے نیاز ہے ‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو ذہنی اور جسمانی صلاحیتیں عطا کی ہیں، وہ اس قدر ہمہ گیر ، بے پایاں اور مختلف النوع ہیں کہ انھیں پوری طرح احاطۂ تحریر میں لانا ممکن نہیں ہے۔ دیکھنے، بولنے اور چلنے پھرنے کی صلاحیت ، سننے ، چکھنے اور سونگھنے کی صلاحیت ‘ حسب منشا اُٹھنے بیٹھنے اور آزادانہ حرکت کرنے کی صلاحیت ، اپنے ذہن سے سوچنے ، طرح طرح کے منصوبے تیار کرنے اور انھیں رُوبۂ عمل لانے کی صلاحیت___ ان صلاحیتوں کا مثبت پہلو یہ ہے کہ انسان نے زمین کو گلِ گلزار بنادیا ہے۔ دورِ جدید کی راحتوں اور آسایشوں بھری زندگی، انسان کی انھی دماغی کاوشوں کی مرہونِ منت ہے ، لیکن اسی انسانی دماغ کی منفی سوچ کا نتیجہ ہے کہ انسان نے تخریب وہلاکت کے خوف ناک وسائل بھی مہیا کر لیے ہیں اور آج روے زمین کے بعض خطے جہنم زاربنے ہیں۔ اسے انسان کی بدبختی کے سوا ور کیا کہا جائے۔
تحریر ، بالفاظ دیگر فکرو سوچ یا خیالات واحساسات کو بذریعہ قلم، صفحۂ قرطاس پر منتقل کرنا بھی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ، ایک بہت بڑی صلاحیت ہے اور نعمت بھی۔بیش تر انسانی صلاحیتوں کی طرح یہ بھی ایک وہبی صلاحیت ہے، تا ہم کوئی بھی شخص جو لکھنا پڑھنا جانتا ہو، مطالعے ، مشق اور کاوش وکوشش کے ذریعے ، اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کر سکتا ہے، اور اسے نشو ونما دے کر ، اس سے مفید کام لے سکتا ہے۔
جو لوگ کسی تحریک سے وابستہ ہو کر، ایک بڑے مقصد کے لیے کام کررہے ہوں، ان کے لیے تو قلم وقرطاس کا فن جاننا ازبس ضروری ہے۔ دورِحاضر میں کتابیں ، رسائل اور اخبارات مختلف نظریات وخیالات کی تبلیغ واشاعت میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ اگر آپ اپنی بات کو تحریر کا رُوپ دینے پر قادر ہیں اور آپ کی بات میں وزن ہو گا، دلیل ہو گی تو بہتوں کو متاثر کرے گی، قائل کرے گی، اورا س سے کئی ایک آپ کے ہم آواز اور ہم سفر ہو جائیں گے۔ دورِ حاضر میں تو لکھنے لکھانے کا اقتصادی پہلو بھی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ اس وقت لکھنے والوں کی کثیر تعداد نے تحریر کو ذریعۂ معاش بھی بنا رکھا ہے۔ مغرب میں تو لکھنے والوں کو تحریر کا نہایت معقول معاوضہ ملتا ہے ، مگر ہمارے ہاں کتابوں اور رسالوں کی اشاعت نسبتاً کم ہے، اس لیے معاوضہ ملتا ہی نہیں یا بہت کم ملتا ہے۔ اس کے باوجود لکھنے لکھانے سے ادیب کو کچھ نہ کچھ یافت ہو سکتی ہے، اور ہمارے معاشرے میں کئی لوگ اپنے قلم کی کمائی پر گزر بسر کر رہے ہیں۔
انسان کے اندر بہت سی صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں،مگر بسا اوقات وہ پوری طرح ان سے باخبر نہیں ہوتا--- ہم میںسے ہر شخص اپنے ما فی الضمیر کو زبان پر لانے اور بذریعہ گفتگو یا اسے دوسروں کے سامنے بیان کرنے پر قادر ہے۔ عمر ، تجربے، تعلیم یا مشق کے مطابق ہر شخص کی گفتگو یا بیان کا معیار تو مختلف ہو سکتا ہے، مگر جسے خدا نے زبان دی ہے، وہ اپنی ضرورت یا احساس کو بیان کرنے پر یقینا قادر ہے۔ اب اگر آپ سے کہا جائے کہ ابھی آپ نے جو کچھ کہا ہے ، اسے لکھ کر بتائیے تو آپ کو تعمیل میں، شاید بہت مشکل پیش آئے گی۔ آپ کہیں گے میں نے تو کبھی لکھا ہی نہیں (گویا لکھنا بھی ایک لحاظ سے پیراکی کے مترادف ہوا۔ جو شخص کبھی پانی میں نہ اترا ہو، اسے کہا جائے یہ ندی نالہ پار کر کے دکھائو، تو وہ آپ کا منہ تکے گا کہ یہ فرمایش ، اور مجھ سے؟) ۔
ہم کیسے لکھیں ؟---یہ صرف آپ کا نہیں ، ان سب لوگوں کا مسئلہ ہے، جو لکھتے نہیں۔ اور جو لکھتے ہیں ان کے لیے لکھنا کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ اگر آپ بھی لکھنا شروع کر دیں تو یہ آپ کے لیے کوئی مسئلہ نہیں رہے گا،ان شا اللہ العزیز۔ لکھنا آپ کے لیے ویسا ہی روز مرہ یا روٹین کا عمل ہوگا، جیسے آپ روزانہ گھر سے نکل کر سکول یا کالج جاتے ہیں یا کپڑے بدلتے ہیں یا حسب ضرورت گفتگو کرتے ہیں۔ اگر آپ لکھنا جان جائیں ، اور آپ کے اندر یہ اعتماد پیدا ہو جائے کہ میں جو چاہوں ، جب چاہوں اور جس طرح چاہوں، لکھ سکتا ہوں تو بس یہی مطلوب ہے۔
نثر لکھنے کی صلاحیت ہر اس شخص کے اندر موجود ہوتی ہے، جو معمولی املا لکھ سکتا ہے اور یہ صلاحیت ہرتعلیم یافتہ (کم یا زیادہ)کے اندر موجود ہوتی ہے۔یہ صلاحیت یقینا آپ کے اندر بھی موجود ہے۔ سب سے پہلے تو آپ کو اپنے اندر ، تحریر کی ضرورت واہمیت کا احساس پیدا کرنا ہے۔ اگر آپ ذہناً اس کی افادیت کے قائل ہو جائیں تو پھر اس عزم کو تازہ کیجیے کہ آپ کو لکھنا سیکھنا ہے، کچھ نہ کچھ لکھنا ہے، اور بذریعہ تحریر اپنی سوچ ، اپنی بات اور اپنا تاثر دوسروں تک پہنچانا ہے۔ مثبت اقدار کی حمایت میں قلم اٹھانا ، اور کسی بھی تحریر (ناول ، افسانہ ، ڈراما، شاعری، مضمون ، تنقید، طنزومزاح، حالات حاضرہ پر تبصرہ ، حتیٰ کہ کسی اخباری مراسلے) کے ذریعے اپنے مقصد ونصب العین کو قارئین تک پہنچانے کی کوشش شہادتِ حق اور جہاد فی سبیل اللہ ہی کی ایک صورت ہے۔
اگر آپ کے اندر یہ عزم راسخ ہو جائے کہ مجھے اپنے مثبت اور سچے محسوسات دوسروں تک پہنچانے ہیں تو ہر روز دس مرتبہ آپ کا جی چاہے گا کہ یہاں مجھے اپنی بات کہنی چاہیے، اپنا موقف پیش کرنا چاہیے۔ ہم ایک نا ساز گار ماحول میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور حالات ومعاملات کو قدم قدم پر اپنی طبیعت ، اپنے مقاصد اور اپنے اصولوں کے خلاف پاتے ہیں۔ حق وانصاف کا خون ہوتا دیکھتے ہیں۔ بددیانتی اور بے اصولی فروغ پذیر ہے۔ خیرو شر کے درمیان چہارسُو، ایک معرکہ اور ایک کش مکش برپا ہے ۔ ہمارے ایمان کی کسوٹی یہ ہے کہ ہم شر اور باطل کے خلاف کس حد تک آواز بلند کرتے ہیں۔ اس کا ایک ذریعہ ، اور بہت مؤثر ذریعہ یہ ہے کہ ہم بذریعہ تحریر (اس کی کوئی بھی صورت ہو، کوئی بھی صنف سخن ہو ) حق وراستی کی حمایت میں اور باطل کے خلاف آواز بلند کریں۔ کوئی مضمون لکھیں ، یا اخبار کو ایک مختصر مراسلہ ہی بھیج دیں۔ کسی اور صنف نثر میں دسترس ہے تو اسے ذریعۂ اظہار بنائیں، یعنی آپ اپنا ردعمل ضرور ظاہر کریں۔ خبریں سنتے ہوئے یا اخبار پڑھتے ہوئے، یا اسکول کالج،ملازمت یا بازار سے واپسی پر آپ کچھ محسوس کر رہے ہیں اور ذہن میں لاوا پک رہا ہے، قلم پکڑ ئیے ، کاغذ اٹھائیے اور اپنے تاثرات قلم بندکر ڈالیے ۔ اب تو سوشل میڈیا بھی اظہار راے کا اہم ذریعہ ہے۔
جب آپ لکھنا شروع کریں گے (اور اگر آپ، لکھنے کی اچھی خاصی مشق نہیں رکھتے تو ) آپ کو کچھ دقت محسوس ہو گی۔ ممکن ہے، الفاظ ، خیالات کا ساتھ نہ دیں۔ اپنے محسوسات کے مناسب جملے بنانے میں آپ کو مشکل پیش آئے یا آپ اپنی بات کو مؤثر انداز میں اور صحیح ترتیب کے ساتھ پیش کرنے میں کامیاب نہ ہوں--- کوئی حرج نہیں ، اہم تو یہ ہے کہ آپ جو کچھ محسوس کرتے ہیں، اسے سوچ ساچ کر، اپنے تئیں بہتر سے بہتر انداز میں مناسب سے مناسب تر الفاظ کے ذریعے کاغذ پر منتقل کر دیں۔یہ عمل وقتاً فوقتاً دہرائیے ۔ رفتہ رفتہ آپ محسوس کریں گے کہ مشکلات کم ہو رہی ہیں اور اب آپ کے لیے ما فی الضمیر کو ادا کرنا آسان تر ہوتا جا رہا ہے۔
درحقیقت مشق ، تحریر کو بہتر اور مؤثر بنانے کا نہایت کار گر اور کامیاب ذریعہ ہے۔ خوش نویسی (کتابت ) کے حوالے سے ایک شعر ہے:
گر تو می خواہی کہ باشی خوش نویس
مے نویس و مے نویس و مے نویس
(اگر تو چاہتا ہے کہ خوش نویس بن جائے تو لکھتا رہ ، لکھتا رہ ، لکھتا رہ )۔
ادیب، مضمون نویس یا نثر نگار بننے کے لیے مسلسل لکھتے رہنا از بس ضروری ہے۔ بعض معروف اور نامور ادیب بھی مسلسل مشق کے اس عمل سے گزر کر ہی بلند پایہ نثرنویس بنے ہیں، مثلاً: محمد حسین آزاد کے صاحب ِطرز ادیب اور منفرد نثرنویس ہونے میں کسے کلام ہے، مگر ایک زمانے میں وہ اپنی معمولی تحریروں کو بھی لکھتے ، پھاڑ دیتے ، پھر لکھتے اور پھاڑ دیتے اور اس طرح متعدد کاوشوں کے بعد تحریر کو حتمی شکل دیتے تھے۔ اپنی تحریر کو تنقیدی نظر سے دیکھنا ، جانچنا اور اسے بہتر بنانے کے لیے اس میں ترامیم کرنا خرابی کی نہیں ، خوبی کی بات ہے۔ محنت ومشکلات کا یہ عمل ’خونِ جگر‘ صرف کرنے کے مترادف ہے۔ ادیب، بلکہ ہر فن کار خونِ جگر صرف کر کے اپنی تخلیق کو زیادہ معیاری بنا سکتا ہے۔ مشق اور محنت کے بغیر کوئی انسانی کاوش پختگی اور معیار حاصل نہیں کر سکتی ۔ بقول علامہ اقبال :
نقش ہیں سب نا تمام خون جگر کے بغیر
نغمہ ہے سوداے خام خون جگر کے بغیر
خود علامہ اقبال نے اپنے بعض اشعار کو تین تین چار چار بار کاٹ کر، بہتر بنایا۔ (اقبال اکادمی پاکستان لاہور میں محفوظ ان کے قلمی مسودوں سے اس بات کا ثبوت فراہم ہوتا ہے ۔ )
مشق کے مرحلے میں، اگر ممکن ہو تو اپنی تحریر کسی کو دکھا لیں۔ کسی استاد یا بزرگ کی اصلاح، آپ کے لیے مفید رہنمائی کا باعث ہوگی۔ وہ آپ کی تحریر میں جو حذف وترمیم کریں، جملوں کی ترتیب بدلیں ، لفظوں میں کانٹ چھانٹ کریں، اس پر خوب غور کر کے ، اپنی خامی کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اگر سمجھ نہ آئے تو دریافت کرنے میں عار محسوس نہ کریں۔
اب اگر آپ کچھ نہ کچھ لکھنے کی افادیت وضرورت کے قائل ہو چکے ہیں تو اللہ کا نام لے کر، آج ہی سے تحریری مشق شروع کر دیجیے ۔ لکھنے کی مشق کے ساتھ ، درج ذیل نکات بھی آپ کی توجہ کے لائق ہیں:
(الف ) جملے مختصر اور سادہ ہوں۔ طویل فقروں اور قدیم انداز کی شاعرانہ اور مسجع ومقفیٰ زبان آج کے اسلوب سے مطابقت نہیں رکھتی۔ علاوہ ازیں حتی الامکان انگریزی الفاظ وتراکیب کے استعمال سے احتراز کیجیے ، خصوصاً جہاں اُردو مترادفات موجود ہوں۔
(ب ) صحتِ زبان کا خاص خیال رکھیے ۔ اس ضمن میں یوں تو بہت سی مفید کتابیں آپ کی رہنمائی کر سکتی ہیں۔ تا ہم، پروفیسر آسی ضیائی کی کتاب درست اُردو زیر مطالعہ رکھیے ۔ اسی طرح رشیدحسن خاں کی انشاء اور تلفظ ، اور عبارت کیسے لکھیں کے مطالعے سے بھی ان شا اللہ فائدہ ہو گا۔ اشعار یا اقوال بالکل صحیح ہونا ضروری ہے۔ جہاں شبہہ ہو ، اصل کتاب دیکھ کر درست صورت اختیار کیجیے۔
(ج ) جہاں تک ممکن ہو، اختصار ملحوظ رکھیے ۔ اپنے ما فی الضمیر کو کم سے کم لفظوں میں ادا کرنے کی کوشش کیجیے۔ کفایتِ لفظی ، اچھی تحریر کی بنیادی خوبی ہے اور تکرارِ لفظی عیب ہے--- تاہم اختصار وکفایتِ لفظی کا اہتمام مناسب حد تک ہونا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ لفظوں کی کفایت کرتے کرتے عبارت چیستان بن جائے اور قاری مفہوم سمجھنے سے قاصر رہے۔
(د) تحریر کا اسلوب ، موضوع کے حسب حال ہونا چاہیے، یعنی ناول وافسانہ ہے تو افسانوی انداز، سماجی وعمرانی مسائل ہوں تو عالمانہ اسلوب ، ادبی تنقیدی موضوع ہوتو تنقیدی اسلوب ---! تحریر طلبہ کے لیے ہو تو نسبتاً آسان اور تشریحی انداز، روز مرہ کے مسائل ہوں اور اخباری تحریر ہو تو عام فہم اور سلیس عبارت ہونی چاہیے تا کہ کم پڑھے لوگ بھی سمجھ سکیں۔ پھر تحریر کے اندر مثالیں بھی حسب معیار وماحول ہونی چاہییں۔
اب اپنی تحریر کی ایک نقل بنوا کر، اسے اشاعت کے لیے بھیج دیجیے ۔ مضمون شائع ہونے میں تاخیر ہو تو گھبرائیے نہیں۔ ایک اور کاوش کیجیے،کوئی اور چیز لکھیے اور یہ سلسلہ مستقلاً جاری رکھیے۔ رفتہ رفتہ آپ کی تحریریں شائع ہونے لگیں گی، اور ایک روز آپ کا شمار لکھنے والوں کی اس فہرست میں ہو گا ، جو شاید اس وقت آپ کے لیے باعثِ رشک ہیں۔
پاکستان میں علمی وادبی تحقیق زوال کاشکار ہے۔ اس زوال کاپاکستان کی سیاسی تاریخ سے گہرا تعلق ہے۔ سیاسی نشیب وفراز(فراز سے نشیب کی طرف سفر)اورحکمرانی کا (گوارا یا بہتر معیار سے پست ہوتا ہوا)معیار، زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح علم وتحقیق اورعلمی وتحقیقی اداروں پر بھی اثر انداز ہواہے۔
قیامِ پاکستان کے اوائل میں نئی یونی ورسٹیوںاورمتعددعلمی اداروں کے قیام کی صورت میں بعض خوش آیند اقدام کیے گئے ،جس کے نتائج حوصلہ افزاتھے(اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض پہلوؤں سے چند اداروں کی کارکردگی مایوس کن تھی)۔
جس طرح ملک میں جمہوریت صحیح معنوں میں جڑنہیںپکڑسکی اور جمہوریت کے پودے کو بار بارنوچ کر،جڑسے اُکھاڑپھینکاجاتارہا،اسی طرح اداروں میں بھی من پسنداورنااہل افراد کا تقرر کیا جاتا رہا،خصوصاً ۱۹۷۲ء کے بعد کے اَدوار میں تواہلیت اورمیرٹ کوایک طرف ہی نہیں، بالاے طاق رکھ دیاگیا۔ مثال کے طور پر کم و بیش تمام ہی وفاقی تحقیقی و ادبیاتی اداروں کے سربراہان کچھ ایسا تعارف رکھتے ہیں کہ جنھیں تحقیق و تفکر سے کم ہی واسطہ ہے۔اسی طرح بیرون ملک (برطانیہ، جرمنی وغیرہ)پاکستان اوراقبال مسندوں(chairs)پرمیرٹ سے ہٹ کر ایسے من پسند افراد کا تقرر کیا جاتا رہا جواِن مسندوںکے لیے مقررہ ضابطوں اور شرائط ومعیارپرقطعی پورے نہیں اُترتے تھے (یا پھر ایسی متعدد مسانیدِ دانش (chairs) آج تک خالی پڑی ہیں)۔
ایسے سربراہ اور’عالم‘اپنے مربیّوں کی خوش نودی کو مقدم سمجھتے تھے چنانچہ لاہور کے ایک علمی ادارے کے سربراہ نے حاکمِ وقت کے اشارۂ ابرو پرپہلے توملّاپر چاند ماری کی اور کندھا علّامہ اقبال کا استعمال کیا۔پھرانھیں اقبال کی شاعری میں بھی کیڑے نظرآنے لگے۔مغربی تہذیب پراقبال کی تنقیدان کی آنکھوںمیںکانٹے کی طرح کھٹکنے لگی اورانھوں نے بڑے بھد ّے انداز میںاقبال پر بھی تبر ّا کیا۔
اقبال کا ذکرہواتو سمجھ لینا چاہیے کہ تخیل پاکستان، تشکیل پاکستان اور پھر تعمیرپاکستان میں اقبال کے کلام و پیغام کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ وہ محض ایک شاعر نہیں بلکہ پاکستان کے وجود کو تقویت عطا کرنے کا ایک زندہ و توانا حوالہ بھی ہیں۔ اس لیے آج ۷۰برس گزرنے کے بعد ہمیں اقبال کے حوالے سے روا رکھے جانے والے طرزِعمل کا توجہ سے جائزہ لینا چاہیے۔
اقبال کے فکرپرتحقیق اوران کے پیغام کی نشرواشاعت کے لیے حکومتی سطح پر لاہورمیںدوادارے قائم ہیں:اقبال اکادمی پاکستان وفاقی حکومت کاادارہ ہے اور بزم اقبال پنجاب کی صوبائی حکومت کا۔ دونوں اداروں نے سیکڑوں کتابیں چھاپی ہیں،مگرفروغِ اقبالیات کے ضمن میں صرف کتابیں چھاپناہی کافی نہیں،اقبال کے فکراورپیغام کی نشرواشاعت کے لیے دوسرے ذرائع اختیار کرناناگزیرہے مگر ایسا کچھ نہیں کیاگیا (البتہ ایک استثنیٰ ہے۔اقبال اکادمی نے خصوصاً محمد سہیل عمرکے زمانۂ نظامت میں، ابلاغِ فکراقبال کے لیے کتابوں کی اشاعت کے علاوہ نشرواشاعت کے جدید برقی ذرائع بھی اختیار کیے،جن میں آڈیو کیسٹ،وڈیوکیسٹ،سی ڈی، نمایشیں، اقبالیات کے مختلف النّوع مقابلوں اورمذاکروں کا انعقاد وغیرہ شامل ہیں)۔تاہم ان اداروں میں بہ حیثیت ِمجموعی تنظیم،ترتیب اورمنصوبہ بندی کی خاصی ضرورت ہے۔
یہ منصوبہ بندی کی کمی ہی تھی، جس کی وجہ سے ، مثلاً اقبال کے صدسالہ جشنِ ولادت تک علامہ اقبال کی کوئی ڈھنگ کی سوانح عمری نہ لکھی جاسکی تھی۔ پچاس کے عشرے میں بزمِ اقبال نے یہ منصوبہ ابتدامیں غلام رسول مہرکے سپرد کیا، پھر ان سے واپس لے کرعبدالمجیدسالک کودے دیا۔ انھوں نے۱۹۵۵ء میں ذکراقبال لکھ دی تو اس پرشدیدتنقید ہوئی۔بعض افراد نے اپنے طورپر سوانح عمریاں لکھیں، مگر اداروں کی سطح پرمزیدکوئی کوشش نہ کی گئی۔اسی لیے ۱۹۷۷ء کی صدسالہ جشن اقبال کمیٹی نے ایک مفصّل اورمعیاری سوانح عمری لکھنے کاکام پہلے سید نذیر نیازی، بعد ازاں ڈاکٹرعبدالسلام خورشید کے ذمے لگایا مگر بات نہیں بنی۔آخر علامہ کے فرزندِارجمندجاویداقبال مرحوم نے زندہ رود لکھ کر اس کمی کوپوراکیا۔
میراتاَثّر یہ ہے(اوراکثرحضرات اس سے اتفاق کریں گے)کہ اقبالیات ہو،غالبیات ہو یا تاریخِ ادب یاادبِ اردو کا کوئی شعبہ،جوچند ایک قابل ِقدرکام ہوئے ،بیش تروہ انفرادی کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔ اداروں کی کارکردگی بالعموم ناقص رہی ہے،حالاںکہ وسائل،بہ نسبت افراد کے، اداروں کو میسرہوتے ہیں۔
ڈاکٹرعطاء الرحمٰن ہائرایجوکیشن کمیشن کے سربراہ مقرر ہوئے، توعلمی وادبی تحقیق میں تیزی و تیزرفتاری آئی، مگرمعیار،مقدارکاساتھ نہ دے سکا۔ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے ایما پر پی ایچ ڈی اورایم فل کے وظائف دینے کے مثبت قدم نے، عملاً معیارکونیچے کھینچنے میں حصہ لیا ہے اوراب تو جامعات میںتحقیقی مقالے یوں دھڑادھڑ تصنیف ہورہے ہیں، جس طرح کسی فیکٹری سے خاص وضع قطع کے بُرے بھلے پُرزے تھوک کے حساب سے ڈھل ڈھل کر نکلتے چلے آتے ہیں۔ تحقیق کرانے والے اساتذ ہ کی کمی نہیں مگر محنت کرنے اور کرانے والے اساتذہ بہت کم ہیں۔ آج ایک اخبار نویس نے اپنے بقول’انکشاف‘کیاہے کہ پاکستانی جامعات میں۱۱ہزار پی ایچ ڈی اسکالر (اساتذہ) اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں، جب کہ مزید۳۰ہزار اسکالروں کی ضرورت ہے۔ ہائرایجوکیشن کمیشن کی کوشش ہے کہ اگلے سال میں مزید۲۰ہزار اسکالرتیارکیے جائیں (روزنامہ۹۲نیوز،۲۳؍جولائی ۲۰۱۷ء)۔ گویاکمیشن مقداربڑھانے کی فکر میںہے، حالاںکہ ضرورت ان ’خدمات‘ کا معیار بڑھانے کی ہے، جو موجودہ ۱۱ہزار اسکالرانجام دے رہے ہیں۔
بقول رشیدحسن خاں: ’’ہمارے اساتذہ (اسکالر)کو ترقی کے ہجے کرنے سے فرصت نہیں ہے‘‘۔ چمک نے چندھیادیاہے۔ تحقیق کا معیار بلندہوتوکیسے؟ معیار تو بعدکی بات ہے، اب تو پی ایچ ڈی اور ایم فل اسکالر موضوعاتِ تحقیق کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں، کیوں کہ ان کے اساتذہ نے موضوعات کی تلاش بھی شاگردوںکے ذمے ڈال دی ہے(حقیقت یہ ہے کہ موضوعات موجود ہیں، مگر ان پر کام کرانے کے لیے اساتذہ کو خود بھی محنت کرنی پڑتی ہے،دل جمعی سے مطالعہ کرنا پڑتا ہے، اس لیے وہ ان مشکل موضوعات کے قریب نہیں پھٹکتے)۔
پاکستان کامستقبل تعلیم(تحقیق جس کالازمی جزوہے)کے اچھے معیاراورانصاف کی بلاتاخیر فراہمی پرمنحصر ہے، اور یہی دوچیزیں ہمیں نظرنہیں آتیں۔مگرخوش آیندبات یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میںشایدپہلی باراحتساب کاسلسلہ شروع ہوا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوکہ علمی تحقیق خصوصاً جامعات کے تحقیقی مقالوں کا بھی جائزہ لیا جائے(خصوصاً سماجی و ادبیاتی علوم)۔ جامعات کے تحقیقی مقالوں کے پست معیار کاایک سبب ہائرایجوکیشن کمیشن کی غفلت بھی ہے۔ وہ کم ہی اس بات کااہتمام کرتی ہے کہ تحقیقی مقالات کے لیے اس نے جو اصول اورضابطے مقرر کیے ہیں، یہ دیکھے کہ کیا تحقیقی مقالوں میں ان کی پابندی کی جارہی ہے؟ ماضی قریب میںہائرایجوکیشن کمیشن نے ضابطہ جاری کیاتھاکہ مقالہ نگاروں کا زبانی امتحان (viva)کھلے بندوں لیاجائے گا اور مقالہ نگار اپنے مقالے کا کھلا دفاع (open defence)کریںگے۔شعبوںسے کہاگیاتھاکہ وہ اس کے لیے امتحان کاوقت اورتاریخ میڈیاپرنشرکرانے کااہتمام کریں ،عنوان بھی بتایا جائے اورعوام النّاس کو دعوت دی جائے کہ وہ اس موقعے پر زبانی امتحان کا مشاہدہ کریںاور امیدوار سے سوالات کریں۔ اگر مقالہ نگار، تسلی بخش جواب نہ دے سکے تواسے تیاری کاایک اورموقع دے کردوبارہ امتحان لیا جائے۔ افسوس ہے کہ ہماری جامعات میں اِلاّماشاء اللہ ،اس کااہتمام نہیں کیاجاتا۔ شعبے اخبارات میں اطلاع نہیں بھیجتے۔ خانہ پُری کے لیے متعلقہ شعبے میں فقط ایک نوٹس لگا دیا جاتا ہے، بسااوقات اسی روزیاایک آدھ روز پہلے۔ یہ کمیشن کے ضابطے کا مذاق اُڑانے والی بات ہے مگر کمیشن نے مذاق اُڑانے والوں کاشاید ہی کبھی احتساب کیاہو۔ اگر کمیشن غفلت نہ برتے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ کھلے بندوں دفاع کے ضابطے پرپابندی سے عمل کیاجارہاہے تواس سے مقالات کامعیاربہتر ہوگا۔
بہرحال، اُمیدرکھنی چاہیے کہ حالات بہترہوں گے۔ ہمیںایک لمبافاصلہ طے کرنا ہے، تب کہیں جاکرقیام پاکستان کے مقاصد پایۂ تکمیل کوپہنچیں گے۔
افغانستان ، ایران اور ترکی سے اسلامیانِ ہند کا تعلق اور رابطہ دورِ غلامی ہی سے رہا ہے۔ بعض وجوہ سے، افغانستان اور ایران کی نسبت ترکی سے تعلق اُستوار تر ہوتا گیا اور آج پاکستان کا جتنا گہرا ربط وتعلق ترکی کے ساتھ ہے، کسی اور مسلمان ملک سے نہیں ہے (حرمین شریفین سے عقیدت کی بنا پر سعودی عرب سے تعلق ایک دوسری نوعیت رکھتا ہے )۔ ۲۰ویں صدی کے ابتدائی عشروں میں بر عظیم کے مسلمانوں نے جس والہانہ انداز میں دامے ، درمے، سخنے ترکوں کی مدد کی، اس نے ترکوں کے دل جیت لیے اور ان ترک دلوں میں ہمیشہ کے لیے ایک جگہ بنا لی۔ برعظیم کے مسلمانوں خصوصاً پاکستان کے لیے ترکوں کے دل آج بھی دھڑکتے ہیں۔
ترکی سے متعلق حال ہی میں دو کتابیں نظر سے گزریں۔ مندرجہ بالا پس منظر کے حوالے سے ذیل میں ان کتابوں کا تعارف پیش کیا جا رہا ہے۔
1
ڈاکٹر نثار کا تعلق بہار سے تھا۔ پہلی ہجرت کر کے مشرقی پاکستان اور دوسری ہجرت کے نتیجے میں کراچی پہنچے ۔ ۱۹۶۵ء میں آر سی ڈی کے وظیفے پر انقرہ یونی ورسٹی سے ایم اے کیا اور ۱۹۷۱ء میں استنبول یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ پھر انقرہ منتقل ہو گئے اور وہیں پیوند ِخاک ہوئے ۔ وہ چار زبانوں (ترکی ، اُردو ، انگریزی اور جرمن ) پر دسترس رکھتے تھے۔ ۳۶سال ترکی ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی غیر ملکی نشریات سے وابستہ رہے، اور ۳۶ سال تک پاکستانی سفارت خانے میں’ افسرِ اطلاعات‘ کے طور پر خدمات انجام دیں۔ کچھ عرصہ درس وتدریس اور صحافت میں بھی گزرا۔
ان متنوّع مصروفیات کے ساتھ ، ڈاکٹر نثار نے قلم وقرطاس سے بھی تعلق بر قرار رکھا۔ مصروفیت کیسی ہی ہو، ان کا قلم برابر رواں رہتا تھا۔ ان کی ۵۰ سے زائد تصانیف وتالیف اور کتب ِ تراجم، قلم وقرطاس سے ان کے گہرے تعلق کو ظاہر کرتی ہیں۔(کتب ِ تراجم میں تفہیم القرآن، سیرتِ سرورِ عالم ، سود، سنت کی آئینی حیثیت ، مسئلہ جبرو قدر ، تعلیمات اور علامہ اقبال کا منتخب اردو کلام شامل ہے )۔ وہ ہفت روزہ اخبار جہاں اور ہفت روزہ تکبیر کراچی میں کئی سال تک ’مکتوب ترکی ‘ لکھا کرتے تھے۔ ڈاکٹر حافظ محمد سہیل شفیق کی مرتبہ زیر نظر کتاب انھی مکاتیب کا مجموعہ ہے۔ تقدیم نگار جناب محمد راشد شیخ نے انھیں یاد کرتے ہوئے متأسفانہ لکھا ہے کہ ڈاکٹر اسرار کی خدمات کا اعتراف نہیں کیا گیا۔ راشد صاحب کے نام اسرار صاحب کے ۲۱خطوط بھی شاملِ کتاب ہیں۔
۴۳ مکاتیب (یا راشد شیخ کے بقول ’رپورٹوں‘ ) میں خاصا تنوع ہے۔ بنیادی موضوع ترک، ترک قوم ، ترک عوام وخواص ، ترک مشاہیر، ترک معاشرہ ، ترک صحافت اور ترک سیاست ہے۔ مضامین پڑھتے ہوئے ترکی کے بارے میں بہت سی ایسی چیزوں کا پتا چلتا ہے جن سے تاریخ کے عام طالب علم بھی واقف نہیں ہوں گے، مثلاً: ’’ترکی تضادات کا ملک ہے بلکہ یوں کہہ لیجیے کہ اجتماعِ ضدّین ہے___ ترکی واحد سیکولر ریاست ہے جس کی ۹۸ فی صد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے اور جہاں ۶۵ سال کے لادینی نظام اور مذہب دشمن ظالمانہ قوانین کے باوجود، لوگوں کا اسلامی جذبہ سرد نہیں ہوا بلکہ نمایاں طور پر ابھرا ہے۔ علاوہ ازیں ترکی اکیلا مسلمان ملک ہے جہاں سے پلے بوائے اور پلے مَین جیسے بین الاقوامی شہرت کے فحش رسائل کے ترکی اڈیشن نکلتے ہیں اور مقامی اخبار ورسائل میں بھی مخر ّب ِ اخلاق تصویریں اور مضامین شائع ہوتے ہیں اور جہاں اسلام نام کا ماہنامہ اور بعض دوسرے اخبارات وجرائد لاکھوں کی تعداد میں چھپتے ہیں ۔ ایک طرف ننگوں کے کلب قائم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے اور دوسری طرف مذہبی ذہن کی خواتین کے سر ڈھانپنے یا پردہ کرنے پر ایک طوفانِ بد تمیزی اٹھایا جا رہا ہے۔ ان تضادات کی تازہ ترین مثال عیسائیوں کی مشنری سرگرمیاں ہیں۔ واضح رہے کہ ترکی میں ساری آئینی اورقانونی پابندیاں مسلمانوں کے لیے ہیں۔ غیر مسلم اس سے بَری ہیں ‘‘ ۔ ( ص۵۳-۵۴، ۳ مارچ ۱۹۸۸ء کی تحریر ) ۔ ڈاکٹر نثار کا خیال ہے کہ عیسائیت کے پرچار کا راستہ اتاترک اور عصمت انونو کی مذہب دشمنی نے ہموار کیا: مساجد کی بے حُرمتی، مدارس بند، حج ممنوع اور عربی میں اذان پر پابندی۔ عصمت انونوکے ایک چہیتے وزیر سراچ اوغلو نے پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا:’’حضرات آپ مجھے ۳۰سال کی مہلت دیجیے، اس ملک سے مذہب کا نام و نشان مٹا دوں گا‘‘۔ یہ مذہب دشمنی ۱۹۴۵ء تک جاری رہی۔
ایک مکتوب (۱۲ مارچ ۱۹۹۸ء ) بہ عنوان: ’’ترک ذرائع ابلاغ فحاشی کی تمام حدود پھلانگ گئے ‘‘ سے اندازہ ہوتا ہے کہ ترکی کے سرکاری نشریاتی اداروں کے علاوہ تقریباً ۳۰ ٹیلی ویژن چینل انتہا درجے کی آزادی سے چل رہے ہیں۔ ڈاکٹر اسرار بڑے تأسف کے ساتھ لکھتے ہیں: ’’میڈیا کو اپنی آزادی کا گہرا شعور اور احساس ہے اور اس آزادی پر ذرا سی آنچ آتے ہی وہ فوراً ڈٹ جاتے ہیں ۔ صدرِ مملکت اور وزیر اعظم پر بھی تنقید کے تیر چلاتے ہیں۔تا ہم بامقصد صحافت ، سنجیدہ اور صحیح رپورٹنگ ، معتبر اور بے لاگ تبصرے کا شدید فقدان ہے‘‘ (ص ۶۴ )۔ مصنف نے زیرِ نظر مکتوب میں ترکی میڈیا (۱۹۸۸ء )کی جو کیفیت بتائی ہے وہ پاکستان کے ۲۰۱۷ ء کے میڈیا سے بڑی مماثلت رکھتی ہے۔ ٹی وی چینلوں کو حدود میں رکھنے کے لیے ادارے اور قوانین ترکی میں بھی موجود تھے اور پاکستان میں بھی موجود ہیں لیکن دونوں جگہ عموماً یہ غیر فعاّل ہیں، اور مجرمین کے خلاف کوئی مؤثر تا دیبی کارروائی کرنے سے قاصر ہیں۔
2
تحریکِ خلافت کے زمانے میں ہندستانی مسلمانوں نے ’’ جان، بیٹا! خلافت پہ دے دو ‘‘ کے جذبے سے ترکوںکے ساتھ جذبۂ اخوت کا حق ادا کیا ۔ شعرا نے نظمیں لکھیں اور عوام الناس نے درہم ودینار ارسال کیے۔ مگر زیر نظر کتاب دفتر اعانۂ ہند (مرتبہ: ڈاکٹر خلیل طوق آر) سے پتا چلتا ہے کہ جذبۂ اخوت کا اظہار ما قبل انیسویں صدی میں بھی اُسی طرح ہوتا رہا ہے۔ ۷۸-۱۸۷۷ء میں روس اور ترکی میں جنگ کی خبریں ہندستان پہنچیں تو یہاں کی انجمنوں اور اداروں نے چندہ جمع کر کر کے ترکی بھیجنا شروع کیا۔ چوں کہ ہندستانی باشندے ، ترکوں کو مظلوم سمجھتے تھے اس لیے : ’’نہ صرف ہندستان کے مسلمان بلکہ ہندو، پارسی، عیسائی، یہاں تک کہ انگریز افسر بھی [شاید روس دشمنی میں] ان چندوں میں پیسے دیتے تھے۔ امیر تو امیر ، غریب بھی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ترکوں سے تعاون کرنے کے لیے پیش پیش تھے۔ نواب سے لے کر حجام تک، ملکہ سے لے کر اپنی کمائی چندے میں دینے والی بیوہ خواتین اور حتیٰ کہ بالا خانوں کی طوائفوں اور دلّالوں تک ہرہندستانی اس کارِ خیر میں حصّہ لینا چاہتا تھا‘‘(ص xii)۔چندہ دینے والوں میں ریاستوں کے نواب ، انجمنوں کے صدور ، انگریزی فوج کے مسلمان سپاہی ، مدرسوں کے مولوی اور سرکاری ملازم بھی شامل تھے۔ ان لوگوں میں بڑے شہروں اور قصبوں کے علاوہ ہندستان کے مختلف صوبوں اور دُور دراز واقع دیہاتوں میں رہنے والے بھی تھے۔ جن جن اداروں یا افراد کے تو سّط سے جتنا جتنا چندہ آتا تھا، ترکی میں اس کا ریکارڈ تحریری طور پر رکھا جاتا تھا۔ بعدازاں اس ریکارڈ کو دفتر اعانۂ ہند کے نام سے کتابی شکل میں شائع کر دیا گیا ۔ کتاب کا ایک نسخہ استنبول یونی روسٹی میں موجود ہے۔
ڈاکٹر خلیل طوق آر ( استاد شعبۂ اردو ، استنبول یونی ورسٹی ) نے مذکورہ کتاب کی عکسی نقل، ایک سیرحاصل مقدمے کے ساتھ شائع کی ہے۔ جملہ اندراجات بزبانِ ترکی خطِ نستعلیق میں ہیں ۔ رقوم کی صراحت ’روپیہ، آنہ ،پائی ‘ سے کی گئی ہے۔ اگر یہی کتاب یا ایسی ہی کوئی کتاب ، اتا ترک کے دور میں تیار کی گئی ہوتی تو ہم اردو قارئین نہ جان سکتے کہ کیالکھا ہے کیوں کہ اتا ترک (ترکوں کا باپ) نے رسم الخط تبدیل کر کے اپنے ’بیٹوں‘ (ترکوں) کو مسلمانانِ عالم سے کاٹ دیا اور رومن (انگریزی) رسم الخط کے ذریعے یورپی بننے کی کوشش کی، مگر ما بعد حکمرانوں کی پوری کوششوں کے باوجود ، یورپی یونین ترکی کو رکنیت دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ زیرنظر کتاب، ادارۂ تالیف وترجمہ، پنجاب یونی ورسٹی کے ناظم ڈاکٹر محمد کامران نے شیخ الجامعہ ( ڈاکٹر مجاہد کامران ) کی منظور کردہ خاص گرانٹ سے شائع کی ہے۔ (صفحات : ۳۶۰ ، قیمت: ۵۰۰ روپے )
ڈاکٹر صفدر محمود سیاسیات اور تاریخ کے معلّم رہے ہیں۔ سیاست اور تاریخ کا آپس میں گہرا تعلق ہے، چنانچہ ہماری سیاسی اور ملّی تاریخ کے دو بڑے کرداروں (اقبال اور جناح)اور ایک بڑے محور (پاکستان) سے ان کی دل چسپی فطری ہے___ اگر معلّم صاحب ِ نظر ہو اور قلم و قرطاس سے بھی علاقہ رکھتا ہو، تو وہ معلّمی کی ملازمت سے سبک دوش ہونے کے بعد بھی، اپنے خیالات کے اظہار سے کبھی سبک دوش نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر صفدر محمود صاحب گذشتہ ڈیڑھ دو عشروں سے ہزاروں قارئین کو قومی، ملّی،علمی، تہذیبی اور تعلیمی زندگی کے مختلف پہلوئوں کے متعلق اپنے خیالات سے مستفید کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں انھوں نے سیکڑوں ہی کالم لکھے ہوں گے۔
ڈاکٹر موصوف کے نسبتاً مفصل مضامین کا مجموعہ اقبال، جناح اور پاکستان کے عنوان سے چند برس پہلے شائع ہوا تھا، جس کا مطالعہ پیشِ نظر ہے۔ قائداعظم محمدعلی جناح کی شخصیت بلاشبہہ بہت دل کش تھی۔ انھوں نے پاکستان کا مقدمہ جس قانونی اور سیاسی مہارت سے لڑا اور برعظیم کی ملّت ِاسلامیہ کی ڈولتی ہوئی کشتی کو کھینچ کر سلامتی سے ساحل پر لے آئے، اس نے انھیں لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کا محبوب لیڈر بنا دیا۔ قائداعظم، ڈاکٹر صفدر محمود کے بھی محبوب لیڈر ہیں۔
جب انسان کسی شخصیت کا گرویدہ ہو تو وہ کوئی نہ کوئی ’اتفاق‘ یا ’مناسبت‘ تلاش کر لیتا ہے۔ جس کی بظاہر تو کوئی اہمیت نہیں ہوتی مگر وہ اسے اپنی عقیدت اور گرویدگی کو مستحکم کرنے کا ذریعہ بنالیتا ہے۔ دیکھیے، صفدر محمود نے ایک ’اتفاق‘ اور ’مناسبت‘ تلاش کی ہے۔ لکھتے ہیں: ’’یہ ایک دل چسپ اتفاق ہے کہ قائداعظم کی واحد اولاد، یعنی ان کی بیٹی دِینا جناح نے ۱۴؍اور۱۵؍اگست ۱۹۱۹ء کی درمیانی شب کو جنم لیا۔ ان کی دوسری اولاد اس کے صحیح ۲۸برس بعد ۱۴؍ اور ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء کی درمیانی شب کو معرضِ وجود میں آئی اور اس کا نام ’پاکستان‘ رکھا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ قائداعظم اپنی اولاد کو دل و جان سے چاہتے تھے‘‘۔ (ص ۳۰)
قائداعظم مغربی تعلیمی اداروں کے تعلیم یافتہ تھے اور اپنی ظاہری وضع قطع، رہن سہن اور لباس و اَطوار سے وہ ایک جدید اور تہذیبِ مغرب میں ڈھلے ہوئے ماڈرن قسم کے شخص معلوم ہوتے تھے۔ صفدر محمود صاحب نے ان کے کچھ ایسے پہلو دکھائے ہیں جن سے وہ پکّے پیڈے، اوّل و آخر اور مذہبی فرقوں سے ماورا خالص مسلمان نظر آتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ محمد علی جناح نے اپنا نکاح ایک سُنّی عالم مولانا نذیراحمد صدیقی سے پڑھوایا (جو مولانا شاہ احمد نورانی کے سگے تایا تھے)۔ یہ معلوم ہے کہ قائداعظم کا خاندانی تعلق اِثناعشری فرقے سے تھا مگر ان کے نزدیک فرقوں کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ زیرنظر کتاب میں بتایا گیا ہے کہ ایک بار کسی نے قائداعظم سے پوچھا: آپ کا تعلق کس فرقے سے ہے؟ قائداعظم نے جواباً سائل سے پوچھا: آں حضور نبی کریمؐ کا مذہب کیا تھا؟ ظاہر ہے قائداعظم کا جواب بہت معنی خیز اور بلیغ تھا۔
ڈاکٹر صفدر محمود نے بجا طور پر قائداعظم کو ایک سچا، کھرا اور باوقار انسان قرار دیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ قائداعظم کے ہاں راست گوئی اور عظمت ِکردار سیرت النبیؐ کے گہرے مطالعے کا اعجاز تھی۔ وہ کہتے ہیں: قائداعظم کی تقریریں پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ مسلمانوں سے محبت، اسلام کی بقا اور عظمت، اسوۂ حسنہ، اپنے ضمیر اور اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی جیسے احساسات و تصورات، اُن کے خون میں شامل تھے۔ ڈاکٹر موصوف، قائداعظم کی ۱۹۳۹ء کی ایک تقریر کے حوالے سے کہتے ہیں کہ انھیں برعظیم کے مسلمانوں کے مسلّمہ راہنما کا مقام اور مرتبہ اس وجہ سے ملا کہ وہ خدا کے حضور سرخرو ہونے اور کفر کی طاقتوں کے غلبے میں اسلام کو سربلند رکھتے ہوئے مرنے کی آرزو اور رضاے الٰہی کی تمنا رکھتے تھے (ص ۳۶)۔ وہ سرتاپا سچے مسلمان اور پکّے مومن تھے۔ صفدر محمود صاحب مولانا اشرف علی تھانوی کے ایک خواب کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’میرا دل گواہی دیتا ہے کہ یہ خواب سچا ہے‘‘۔ وہ خواب کیا تھا؟ لکھتے ہیں:
مولانا اشرف علی تھانوی نہ صرف عالم و فاضل شخصیت اور مفسر قرآن تھے بلکہ ایک بلند روحانی مرتبہ بھی رکھتے تھے اور ان کے لاکھوں معتقدین ہندو پاکستان میں بکھرے ہوئے ہیں۔ تعمیر پاکستان اور علماے ربانی کے مصنف منشی عبدالرحمن نے [قائداعظم کا مذہب و عقیدہ کے] ص ۱۱۱ پر لکھا ہے کہ مولانا اشرف علی تھانوی کے خواہر زادے مولانا ظفر احمد عثمانی فرماتے ہیں کہ ایک روز حضرت تھانوی نے مجھے بلایا اور فرمایا: ’’میں خواب بہت کم دیکھتا ہوں مگر آج میں نے ایک عجیب خواب دیکھا ہے۔ ایک بہت بڑا مجمع ہے گویا کہ میدانِ حشر معلوم ہو رہا ہے۔ اس مجمع میں اولیا، علما اور صلحا کرسیوں پر بیٹھے ہیں اور مسٹر محمد علی جناح بھی عربی لباس پہنے ایک کرسی پر تشریف فرما ہیں۔ میرے دل میں خیال گزرا: یہ اس مجمعے میں کیسے شامل ہوگئے؟ تو مجھ سے کہا گیا کہ محمدعلی جناح آج کل اسلام کی بڑی خدمت کر رہے ہیں، اسی واسطے ان کو یہ درجہ دیا گیا ہے‘‘۔ یقینا اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کا اتنا سا صلہ تو ضرور ہوگا۔ انھی مولانا اشرف علی تھانوی نے ۴جولائی ۱۹۴۳ء کو مولانا شبیراحمد عثمانی اور مولانا ظفر احمد عثمانی کو طلب کیا اور فرمایا: ’’۱۹۴۰ء کی قراردادِ پاکستان کو کامیابی نصیب ہوگی۔ میرا وقت آخری ہے۔ میں زندہ رہتا تو ضرور کام کرتا۔ مشیت ِایزدی یہی ہے کہ مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن قائم ہو۔ قیامِ پاکستان کے لیے جو کچھ ہوسکے، کرنا اور اپنے مریدوں کو بھی کام کرنے پر اُبھارنا۔ تم دونوں عثمانیوں میں سے ایک میرا جنازہ پڑھائے گا اور دوسرا عثمانی جناح صاحب کا جنازہ پڑھائے گا‘‘۔
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی قیامِ پاکستان سے کئی برس قبل اللہ کو پیارے ہوگئے لیکن چشم فلک نے دیکھا کہ پاکستان قائم ہوا، مولانا ظفر عثمانی نے تھانوی صاحب کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور سوا پانچ سال قبل کی گئی پیشین گوئی کے مطابق قائداعظمؒ کی نمازِ جنازہ مولانا شبیراحمد عثمانی نے پڑھائی۔ (ص ۳۵-۳۶)
ان دنوں ڈاکٹر صفدر محمود ایک کثیر الاشاعت اخبار میں کالم لکھتے ہیں۔ اسی اخبار کے کچھ بزعمِ خویش دانش ور کالم نویس وقتاً فوقتاً ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں کہ قائداعظم ایک سیکولر شخص تھے اور وہ پاکستان کو بھی سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے۔ انھوں نے اس موضوع پر بھی بحث کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قائداعظم نے اپنی تقریروں یا تحریروں میں کبھی لفظ ’سیکولرازم‘ استعمال نہیں کیا۔ ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر (جس کا سیکولرسٹ دانش ور سہارا لیتے ہیں) فی البدیہہ تھی اور خود قائد نے کہا تھا کہ یہ کوئی سوچا سمجھا بیان نہیں ہے۔
جب انھوں نے یہ کہا کہ آپ آزاد ہیں، مندر میں پوجا کریں، یا مسجد میں عبادت کریں۔ آپ کا کس مذہب، ذات یا عقیدے سے تعلق ہے، اس سے حکومت کو سروکار نہیں (ص۴۲)، تو اس کے یہ معنٰی نہیں کہ پاکستان سے اسلام کو بے دخل کردیا جائے گا بلکہ مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ بطور شہری، مسلمان، ہندو، سکھ، عیسائی وغیرہ برابر کا درجہ رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر صفدرمحمود کہتے ہیں کہ قائداعظم کو اسلام سے گہرا لگائو تھا۔ اسلام ان کے تیقّن اور باطن کا حصہ تھا۔ انھوں نے قرآن اور سیرت کا گہرا مطالعہ کر رکھا تھا۔ اس ضمن میں انھوں نے قائداعظم کی تقریروں کے کچھ حوالے بھی دیے ہیں، مثلاً:
۱- ’’اسلام پاکستان کے قانون کی بنیاد ہوگا اور پاکستان میں کوئی قانون اسلام کے خلاف نہیں ہوگا‘‘۔ (پشاور، نومبر ۱۹۴۵ئ)
۲- ’’میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اسوئہ حسنہ پر چلنے میں ہے جو ہمیں قانون عطا کرنے والے پیغمبرؐ اسلام نے دیا ہے‘‘۔ (سبّی، بلوچستان، ۱۴فروری ۱۹۴۷ئ)
۳- ’’میرا آپ تمام لوگوں سے یہی مطالبہ ہے کہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کے لیے بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہ کریں‘‘ ۔ (لاہور، ۳۰؍اکتوبر ۱۹۴۷ئ)
۴- ’’میں ان لوگوں کے عزائم کو نہیں سمجھ سکا جو جان بوجھ کر شرارت کر رہے ہیں اور یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ پاکستان کے آئین کی بنیاد شریعت پر نہیں ہوگی۔ ہماری زندگی پر آج بھی اسلامی اصولوں کا اسی طرح اطلاق ہوتا ہے جس طرح ۱۳۰۰ سال پہلے ہوتا تھا‘‘۔ (کراچی، ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ئ)
اس طویل مضمون کے آخر میں ڈاکٹر صفدر محمود نے قارئین سے سوال کیا ہے: ’’اب آپ خود فیصلہ کرلیجیے کہ کیا قائداعظم ذہنی طور پر سیکولر تھے اور کیا وہ پاکستان کے لیے کسی سیکولر نظام کا خواب دیکھتے تھے؟‘‘
زیرنظر کتاب میں مصنف نے تصورِ پاکستان کے مختلف پہلوئوں، تعبیرات اور تحریکِ پاکستان کے مختلف عنوانات (تقسیم ہند کی تجویز، خطبۂ الٰہ آباد، قراردادِ لاہور، کابینہ مشن پلان) پر بھی بحث کی ہے۔ ان سب مباحث میں قائداعظم کی ذات، ان کی شخصیت اور ان کے بیانات و تقاریر کا حوالہ بار بار آیا ہے۔ آٹھویں مضمون بہ عنوان: ’قائداعظم سے منسوب غلط بیانات و احکامات‘ میں بعض بے بنیاد اور مشکوک روایات کو دلائل کے ساتھ رد کیا ہے، مثلاً قائداعظم سے ایک جملہ منسوب ہے: ’’پاکستان میں نے اور میرے ٹائپ رائٹر نے بنایا‘‘۔ ڈاکٹر صفدر محمود لکھتے ہیں کہ اس کی کوئی اصل ہے، نہ کوئی حوالہ۔ ڈاکٹر مبارک علی نے ۲۵دسمبر ۲۰۰۱ء کو روزنامہ ڈان میں اپنے ایک مضمون میں قائداعظم سے یہ جملہ منسوب کیا تھا: He said that he and his typwriter made Pakistan۔ ڈاکٹر صفدر محمود کہتے ہیں کہ جب میں نے سوال کیا کہ حوالہ کیا ہے؟ تو جواب میں ڈاکٹر مبارک علی نے اعتراف کیا کہ اس جملے کی صحت کے لیے ان کے پاس کوئی تحریری ثبوت نہیں ہے، البتہ میں نے یہ بات مسلم لیگی لیڈر احمد سعید کرمانی سے سنی تھی۔ صفدر محمود صاحب کرمانی صاحب کے پاس پہنچے تو کرمانی نے مکمل نفی میں جواب دیا۔ وہ کہتے ہیں: میں نے اپنی گفتگو لکھ کر ڈاکٹر مبارک علی کو بھیجی مگر انھوں نے چپ سادھ لی۔
راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ ڈاکٹر مبارک علی جیسے غالی اشتراکی کو ایسی ہی حرکت زیبا ہے۔ اس سے پہلے وہ اصلاحِ احوال کے لیے سرسیّداحمد خاں،شبلی اور اقبال جیسے اکابر کی کاوشوں کو رد کرچکے ہیں۔ ان کے خیال میں سرسیّداحمد خاں جاگیردارانہ ذہن رکھتے تھے اور ان کی تمام تر کاوشوں کا مقصود مسلم عوام کی بھلائی نہیں،بلکہ امرا، زمین داروں اور جاگیرداروں کے مفادات کا تحفظ تھا۔ انھیں تو یہ بات بھی کھٹکتی اور بُری لگتی ہے کہ شبلی نے الفاروق، النعمان اور المامون لکھ کر مسلمانوں کو ان کے ماضی کی عظمت کا احساس دلا کر اپنی شان دار روایات پر ’ بے جا فخر‘ کرنا سکھایا۔ اور عبدالحلیم شرر نے تاریخی ناول لکھ کر ان میں مسلمانوں کی عظمت اور برتری کو پیش کیا‘۔ وہ مسلم فتوحات کو بھی ’سامراجیت‘ کے ذیل میں شمار کرتے ہیں۔
علامہ اقبال کی شاعری، ڈاکٹر مبارک علی کے نزدیک ’مغرب کے خلاف نفرت کے جذبات‘ پیدا کرتی ہے۔ اقبال جمہور دشمن تھے، معاشرے میں عورت کے صحیح مقام کا تعین نہیں کرسکے اور معاشرے کو کوئی مثبت پیغام دینے میں ناکام رہے۔ بحیثیت مجموعی ان کے افکار اور شاعری معاشرے کی ترقی اور شعور بیدار کرنے میں قطعی ناکام رہی ہے۔ (ملاحظہ ہو: ڈاکٹر مبارک علی کا کتابچہ سرسیّد اور اقبال: آگہی پبلی کیشنز، حیدرآباد، سندھ، ۱۹۸۴ئ)
وہ سندھ یونی ورسٹی میں تاریخ کے استاد تھے مگر وہاں ان کی دال نہیں گلی۔ لاہور کے بائیں بازو والوں نے انھیں خوش آمدید کہا۔ درحقیقت مبارک علی کا شمار قائداعظم کے بقول ’جان بوجھ کر شرارت‘ کرنے اور یہ پروپیگنڈا کرنے والوں میں ہونا چاہیے جو یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے آئین کی بنیاد شریعت پر نہیں ہوگی (ص ۴۷)۔ صفدر محمود صاحب نے مبارک علی کے اس جھوٹ کی بھی تردید کی ہے کہ قائداعظم کہتے تھے کہ میں پاکستان کا واحد خالق (sole creator) ہوں۔
اسی مضمون میں صفدر محمود صاحب نے قائداعظم سے منسوب اس فقرے ’’میری جیب میں کھوٹے سکّے ڈال دیے گئے ہیں‘‘ پر بھی بحث کرتے ہوئے کہا ہے کہ قائداعظم نے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کی۔
راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ مذکورہ بالا جملے کے راوی میاں عبدالعزیز مالواڈہ ہیں، اور ان کا بیان قلم بند کرنے والے سابق سیکرٹری مالیات حکومت ِ پاکستان جناب ممتاز حسن تھے، جو تحریکِ پاکستان کے پُرجوش مؤیّد اور محب ِ وطن پاکستانی تھے اور قائداعظم اور اقبال سے بے پایاں عقیدت رکھتے تھے۔ اس کا حوالہ ہے: نقوش لاہور کا اقبال نمبر، حصہ دوم،ص ۶۲۶،۱۹۷۷ئ۔
پروفیسر محمد منور نے بھی اس فقرے کو صحیح سمجھتے ہوئے اپنے مضامین میں اس کا حوالہ دیا ہے۔ صفدر محمود صاحب غور فرمائیں کہ اِنھی کھوٹے سکّوں کی کثرت کی وجہ سے آج پاکستان اس حال کو پہنچا ہوا ہے، لہٰذا قائداعظم نے جب اور جس مناسبت سے بھی کھوٹے سکّوں کا ذکر کیا تو کچھ غلط نہیں کیا۔کتاب کے آخر میں تین ضمیمے شامل ہیں۔
چودھری رحمت علی، تحریکِ آزادیِ ہند کے ایک اہم کردار تھے۔ جنوری ۱۹۳۳ء میں انھوں نے Now or Never (اب یا کبھی نہیں) نامی کتابچہ شائع کیا تھا جو ڈاکٹر صفدر محمود کے بقول: ’’پاکستان کے مقدمے کی ایک مکمل دستاویز‘‘ ہے۔ کتاب کے ضمیمہ نمبر ایک میں انھوں نے چودھری رحمت علی مرحوم کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ مسلمانوں کے لیے ایک نازک اور ایک حد تک مایوسی کے دور میں، وہ ایک پُرخلوص والہانہ جذبے سے برطانیہ کے مقتدر حلقوں تک پاکستان کا جواز ثابت کرنے اور پیغام پہنچانے میں لگے رہے۔ باستثناے اقبال اس وقت تک مسلمانوں نے ایک الگ اور آزاد مسلم ریاست کے بارے میں سوچا نہ تھا۔ ’’ Now or Never ہماری تحریکِ آزادی میں جلنے والا وہ چراغ ہے جس نے نہ صرف مسلمانوں کی منزل کی نشان دہی کی بلکہ مسلمانوں کی اجتماعی سوچ کی سمت بھی متعین کردی۔ اس لحاظ سے ہم بہ حیثیت قوم چودھری رحمت علی کے احسان مند ہیں‘‘ (ص۱۴۷)۔ آخر میں مصنف اظہار افسوس کرتے ہیں کہ چودھری رحمت علی کی جذباتی افتادِ طبع سے معاملہ بگڑ گیا۔ انھیں زمینی حقائق کا احساس نہ ہوا (انھوں نے ۳جون ۱۹۴۷ء کے تقسیم ہند منصوبے کو The greatest betrayal (عظیم ترین غداری) قرار دیا۔ انھوں نے قائداعظم کے خلاف زہر اُگلا۔ کاش تقسیم سے قبل وہ ہندستان آکر عملاً تحریکِ آزادی میں حصہ لیتے۔ تقسیم کے بعد وہ پاکستان آئے تو قدرتی طور پر خفیہ اداروں نے ان کی نگرانی کی، مایوس ہوکر واپس برطانیہ چلے گئے۔
ضمیمہ نمبر۲ میں قائداعظم کے اے ڈی بریگیڈیئر نوراے حسین کا ایک مضمون نقل کیا ہے جس میں انھوں نے قائداعظم سے منسوب بعض بے بنیاد باتوں کی تردید کی ہے۔
ڈاکٹر صفدر محمود کے یہ مضامین ان کے برسوں کے غوروفکر اور تحقیق کا ثمر ہیں۔ جیساکہ انھوں نے دیباچے میں لکھا ہے: ان کے اظہارخیال کا انداز واسلوب غیر روایتی ہے۔ بلاشبہہ قاری اس کتاب کے مطالعے سے بہت کچھ حاصل کرتا ہے۔ یہ احساس نہیں ہوتا کہ روپے کے ساتھ، وقت بھی ضائع کیا ہے۔
آخر میں صاحب ِ کتاب سے ایک شکوہ: کتاب کے عنوان میں لفظ ’اقبال‘ سب سے پہلے مگر آزادی یا قیامِ پاکستان میں ان کے حصے اور خدمات پر کوئی مکمل مضمون کتاب میں شامل نہیں ہے۔ قاری کو تیسرے ضمیمے میں خطبۂ الٰہ آباد پر صرف پروفیسر شریف المجاہد کا مضمون میسر آتا ہے۔ قیامِ پاکستان کے ضمن میں کیا علامہ اقبال کی خدمات، قائداعظم سے کم ہیں؟
(اقبال، جناح اور پاکستان، ڈاکٹر صفدر محمود۔ ناشر: سنگِ میل پبلی کیشنز، لوئرمال، لاہور)