ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی


یہ نظم علامہ محمد اقبال نے اپنی والدہ کی وفات پر ان کی یاد میں لکھی تھی۔ بانگِ درا کی ترتیب کے وقت علامہ نے اس میں سے کئی اشعار حذف کردیے اور چند شعروں کا اضافہ بھی کیا اور ترتیب بھی بدل دی۔ موجودہ شکل میں نظم کُل تیرہ بندوں کے ۸۶؍اشعار پر مشتمل ہے۔

علامہ اقبال کی والدہ کا نام امام بی بی تھا۔ وہ ایک نیک دل، متقی اور سمجھ دار خاتون تھیں۔ ان کی پرہیزگاری کا یہ عالم تھا کہ علامہ کے والد شیخ نورمحمد جس زمانے میں سیالکوٹ کے ڈپٹی وزیرعلی بلگرامی کی ملازمت میں پارچہ دوزی کا کام کرتے تھے، وہ اپنے شوہر کی اس تنخواہ سے اجتناب کرتیں۔ کیونکہ ان کے خیال میں ڈپٹی وزیر علی کی آمدنی کا غالب حصہ شرعاً جائز نہ تھا۔ چنانچہ کچھ عرصے کے بعد شیخ نورمحمد نے ملازمت ترک کردی۔ گھر میں انھیں ’بے جی‘ کہا جاتا تھا۔ وہ بالکل اَن پڑھ تھیں مگر ان کی معاملہ فہمی، ملنساری اور حُسنِ سلوک کے باعث پورا محلہ ان کا گرویدہ تھا۔ اکثر عورتیں ان کے پاس اپنے زیورات بطورِ امانت رکھواجاتیں۔ برادری کے گھرانوں میںا گر کوئی جھگڑا اُٹھ کھڑا ہوتا تو ’بے جی‘ کو سب لوگ منصف ٹھیراتے اور وہ خوش اسلوبی سے کوئی فیصلہ کردیتیں۔ ’بے جی‘ غریبوں کی مدد کے لیے ہمیشہ تیاررہتیں۔ غریب گھرانوں کی مدد کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ محلے داری کے غریب مگر شریف گھرانوں کی دس بارہ سال کی عمر کی تین چار لڑکیاں اپنے گھر لے آتیں اور ان کی کفیل ہوجاتیں۔ تین چار سال تک ان کی پوری تربیت کرکے اپنی بیٹیوں کی طرح کسی مناسب جگہ ان کی شادی کردیتیں۔

اقبال کو اپنی والدہ سے شدید محبت اور بے حد لگائو تھا۔ والدہ بھی اقبال کو بہت چاہتی تھیں۔ زیرِنظر نظم سے معلوم ہوتا ہے کہ جب اقبال یورپ گئے تو والدہ ان کی بخیریت واپسی کے لیے دُعائیں مانگتیں اور ان کے خط کی ہمیشہ منتظر رہتیں۔ان کا انتقال ۷۸برس کی عمر میں ۹نومبر ۱۹۱۴ء کو سیالکوٹ میں ہوا۔ ان کی وفات پر لسان العصر اکبر الٰہ آبادی نے ایک قطعہ لکھا، جس کے چندشعر یہ ہیں:

مادرِ مرحومۂ اقبال جنّت کو گئیں
چشم تر ہے آنسوئوں سے قلب ہے اندوہ گیں

اکبرؔ اس غم میں شریکِ حضرتِ اقبال ہے
سال رحلت کا یہاں منظور اسے فی الحال ہے

واقعی مخدومۂ ملّت تھیں وہ نیکو صفات
رحلت ِ مخدومہ سے پیدا ہوا ہے تاریخِ وفات       [۱۳۳۳ھ]

اکبر کا ایک اور قطعۂ تاریخ وفات مرحومہ کے لوحِ مزار پر کندہ ہے۔

والدہ مرحومہ کی وفات پر اقبال کو سخت صدمہ ہوا اور وہ مہینوں دل گرفتہ رہے۔ مہاراجا کشن پرشاد کے نام ۲۳نومبر ۱۹۱۴ء کو خط میں لکھتے ہیں:

اس حادثے نے میرے دل و دماغ میں ایک شدید تغیر پیدا کردیا ہے۔ میرے لیے دُنیا کے معاملات میں دلچسپی لینا اور دُنیا میں بڑھنے کی خواہش کرنا صرف مرحومہ کے دم سے وابستہ تھا۔ اب یہ حالت ہے کہ موت کا انتظار ہے۔ دُنیا میں موت سب انسانوں تک پہنچتی ہے اور کبھی کبھی انسان بھی موت تک جاپہنچتا ہے۔ میرے قلب کی موجودہ کیفیت یہ ہے کہ وہ تو مجھ تک پہنچتی نہیں، کسی طرح مَیں اس تک پہنچ جائوں!(صحیفہ، اقبال نمبر ۱۹۷۳ء، (اوّل)،ص ۱۳۲)

شیخ نُورمحمد کو بھی اپنی رفیقۂ حیات کی جدائی کا قلق تھا۔ ایک روایت کے مطابق انھوں نے بھی اس موقعے پر دس بارہ اشعار کی ایک نظم لکھی تھی۔ اقبال نے زیرمطالعہ نظم کاتب سے خوش خط لکھوا کر اپنے والد ماجد کو بھیجی جسے وہ اکثر پڑھا کرتے تھے۔

اس نظم یا(مرثیے) کا اصل موضوع والدہ محترمہ کی وفات حسرت آیات پر فطری رنج و غم کا اظہار ہے۔ اس اظہار کے دو پہلو ہیں:۱- فلسفۂ حیات و ممات اور جبروقدر؛ ۲- والدہ سے وابستہ یادیں اور ان کی وفات کا ردعمل۔

پہلے موضوع کا تعلق فکر سے ہے اور دوسرے کا جذبات و احساسات سے۔ ’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘ اُردو میں اقبال کی شاید واحد نظم ہے، جس میں وہ پڑھنے والے فکر اور جذبے دونوں کے دام میں اسیر نظر آتے ہیں۔(سیّدوقار عظیم: اقبال، شاعر وفلسفی، ص۳۲۲)

  • فلسفۂ جبروقدر:موت کے تصوّر سے اور خاص طور پر اُس وقت جب انسان کی کسی عزیز ہستی کو موت اُچک کر لے گئی ہو، حسّاس قلب پر تقدیر کی برتری اور تقدیر کے مقابلے میں انسان کی بے بسی اور بے چارگی کا نقش اُبھرنا ایک قدرتی بات ہے۔ اس لیے اس نظم کا آغاز ہی فلسفۂ جبروقدر سے ہوتا ہے  ع

ذرّہ ذرّہ دہر کا زندانیِ تقدیر ہے

پہلے بند میں بتایا گیا ہے کہ سورج اور چاند ستارے، سبزہ و گُل اور بلبل، غرض دُنیا کی ہرشے فطرت کے جبری قوانین میں جکڑی ہوئی ہے اور قدرت کے تکوینی نظام میں ایک معمولی پُرزے کی حیثیت سے اپنا فرض ادا کرنے پر مجبور ہے۔

  • انسانی ذہن پر فلسفۂ جبر کاردِّعمل :تقدیر کے مقابلے میں اپنی بے چارگی پر رنج و غم کا احساس اور اس پر آنسو بہانا انسان کا فطری ردِّعمل ہے۔ مگر دوسرے بند میں اقبال کہتے ہیں کہ چونکہ جبروقدر مشیت ِ ایزدی ہے، اس لیے گریہ و زاری مناسب ہے۔ آلامِ انسانی کے اس راز کو پالینے کے بعد، کہ عیش و غم کا یہ سلسلہ خدا کے نظامِ کائنات کا ایک لازمی حصہ ہے، نہ میں زندگی میں انسان کی بے بسی و بے چارگی پر افسوس کرتا ہوں اور نہ کسی ردعمل کا اظہار کرتا ہوں۔ لیکن والدہ کی وفات ایسا سانحہ ہے کہ اس پر خود کو گریۂ پیہم سے بچانا اور خاموش رہنا میرے لیے ممکن نہیں ہے۔ یہاں (دوسرے بند کے آخری شعر میں) اقبال نے یہ حقیقت بیان کی ہے کہ انسان جس قدر بھی صابر و شاکر کیوں نہ واقع ہوا ہو، زندگی میں کسی نہ کسی موقعے پر اس کی قوتِ برداشت جواب دے جاتی ہے اور وہ بے اختیار آنسو بہانے پرمجبور ہوجاتا ہے۔ ایسے عالم میں زندگی کے سارے فلسفے، ساری حکمتیں اور محکم ضابطے، دُکھی دل کے ردعمل کو روکنے میں ناکام ثابت ہوتے ہیں اور والدہ مرحومہ کی وفات پر مجھ پر بھی یہی کچھ بیت رہی ہے۔
  • گریہ و زاری کا مثبت پہلو :گریہ و زاری کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اس سے زندگی کی بنیاد مضبوط اور مستحکم ہوتی ہے۔ روح کی آلودگی اور داخلی بے قراری ختم ہونے سے قبل قاری کو ایک گونہ طمانیت اور استحکام نصیب ہوتا ہے۔ جس سے انسان ایک نئے ولولے اور عزم کے ساتھ زمانے کی سختیوں سے نبردآزما ہونے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ نفسیات دان بھی یہ کہتے ہیں کہ رونے سے انسان کے جذبات کی تسکین (catharsis) ہوتی ہے۔ اقبال نے کہا ہے  ع

موجِ دُودِ آہ سے آئینہ ہے روشن مرا

  • والدہ اور بچّے کا باہمی تعلق : والدہ کی یاد میں بہائے جانے والے آنسوئوں نے دل کے بوجھ کو ہلکا کردیا ہے۔ اب وہ خود کو بالکل ہلکا پھلکا اور معصوم بچّے کی مانند محسوس کرتا ہے۔ شفیق والدہ کی یاد شاعر کو ماضی کے دریچوں میں لے گئی ہے۔ جب وہ چھوٹاسا تھا اور ماں اس ننھی سی جان کو اپنی گود میں لے کر پیار کرتی اور دودھ پلاتی تھی۔ اب وہ ایک نئی اور مختلف دُنیا میں زندگی بسر کر رہا ہے، جو علم و ادب اور شعروسخن کی دُنیا ہے اور ایک عالَم اس کی شاعری پر سر دُھنتا ہے۔ ماضی اور حال کی ان کیفیات میں اس زبردست تضاد کے باوجود، اقبال کے خیال میں ایک عمررسیدہ بزرگ یا عالم و فاضل شخص بھی جب اپنی والدہ کا تصوّر کرتا ہے تو اس کی حیثیت ایک سادہ بچّے کی رہ جاتی ہے جو ماں کی صحبت کے فردوس میں بے تکلف خوشی پاتا ہے (یہ مضمون تیسرے بند کے تیسرے شعر سے بند کے آخرتک بیان ہوا ہے)۔
  • والدہ اور بھائی سےوابستہ یادیں : والدہ کو یاد کرتے ہوئے گذشتہ دور اور اس سے متعلق حالات و واقعات کا یاد آنا سوچ کے سفر کا حصہ ہے۔ اقبال ۱۹۰۵ء سے ۱۹۰۸ء تک کے دور کو یاد کرتے ہیں، جب وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ میں مقیم تھے۔ اس زمانے میں امام بی بی، اقبال کی سلامتی کے لیے فکرمند رہتیں، راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر ان کی خیریت سے واپسی کے لیے دُعائیں مانگتیں۔ اُنھیں ہمیشہ اقبال کے خط کا انتظار رہتا۔ یہاں اقبال اپنی والدہ کی عظمت کے اعتراف میں بتاتے ہیں کہ میری تعلیم و تربیت، میری عظیم والدہ کے ہاتھوں میں ہوئی، جن کی مثالی زندگی میرے لیے ایک سبق تھی۔ مگر افسوس! جب مجھے والدہ کی خدمت کا موقع ملا تو وہ دُنیا سے رخصت ہوگئیں۔ البتہ بڑے بھائی شیخ عطا محمد نے ایک حد تک والدہ کی خدمت کی اور اب والدہ کی وفات پر وہ بھی بچوں کی طرح بلک بلک کر روتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ والدہ نے اپنے پیار اور خدمت کے ذریعے اپنی محبت کا جو بیج ہمارے دلوں میں بویا تھا، غم کا پانی ملنے پر اب وہ ایک پودے کی شکل میں ظاہر ہوکر اُلفت کا تناور درخت بنتا جا رہا ہے۔
  • زندگی اور موت کا فلسفہ : والدہ سے وابستہ باتوں کو یاد کرتے ہوئے شاعر کو تقدیر اور موت کی بے رحمی کا خیال آتا ہے۔ چنانچہ (چھٹے بند سے) سلسلۂ خیال زندگی اور موت کے فلسفے کی طرف مڑ جاتا ہے۔ نظم کے آغاز میں بھی اقبال نے فلسفۂ جبروقدر پر اظہارِخیال کیا تھا، مگر یہاں موت اور تقدیر کے جبر کا احساس نسبتاً شدید اور تلخ ہے۔ کہتے ہیں: دُنیا میں جبراور مشیّت کا پھندا اس قدر سخت ہے کہ کسی چیز کو اس سے مفر نہیں۔ قدرت نے انسانوں کی تباہی کے لیے مختلف عناصر (بجلیاں، زلزلے، آلام و مصائب، قحط وغیرہ) کو مامور رکھا ہے۔ ویرانہ ہو یا گلشن، محل ہو یا جھونپڑی، وہ اپنا کام کرجاتے ہیں۔ مجبور انسان اس پر آہ بھرنے کے سوا اور کیا کرسکتا ہے، نہ مجالِ شکوہ اور نہ طاقت ِ گفتار۔ غرض زندگی گلا گھونٹ دینے والے طوق کے سوا کچھ نہیں۔

لیکن تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ کائنات کے اندر موت کے مقابلے میں زندگی کا بھی بہرحال ایک مقام اور مرتبہ ہے۔ دُنیا کی ساری رنگینیاں اور رعنائیاں زندگی اور موت کی کش مکش  ہی سے قائم ہیں۔ چنانچہ ساتویں بند میں اقبال اسی دوسرے رُخ کو پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جبروقدر کی یہ حکمرانی دائمی نہیں بلکہ عارضی ہے۔ موت ،زندگی پر مستقل طور پر غالب نہیں آسکتی۔ کیونکہ اگر موت کو زندگی پر برتری ہوتی تو پھر زندگی کا نام و نشان بھی نظر نہ آتا اور یہ کارخانۂ کائنات نہ چل سکتا۔ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اصلاً زندگی اس قدر محبوب ہے کہ اس نے زندگی کو مغلوب نہیں، غالب بنایا ہے۔ لیکن انسان کو زندگی کے مقابلے میں موت اس لیے غالب نظر آتی ہے کہ اس کی ظاہردیکھنے والی نگاہیں اصل حقیقت تک پہنچنے سے قاصر رہتی ہیں۔ موت تو ایک عارضی کیفیت کا نام ہے، جس طرح انسان لمحہ بھر کے لیے نیندکرکے پھر اُٹھ کھڑا ہوتا ہے  ؎

مرگ اِک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
(میرتقی میر)

آٹھویں بند کے آخر میں اقبال دُنیا کی بے ثباتی اور زندگی کی ناپائیداری کی ایک توجیہ پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ فطرت ایک بااختیار خلاق کی حیثیت رکھتی ہے جسے، بنائواور بگاڑ پر پوری قدرت حاصل ہے۔فطرت کو چونکہ خوب سے خوب تر کی جستجو رہتی ہے، اس لیے اپنے بنائے ہوئے نقوش خود ہی مٹاتی رہتی ہے تاکہ اس تخریب سے تعمیر کا ایک نیا اور مطلوبہ پہلو برآمد ہوسکے۔ اس طرح موت اور تخریب کا جواز یہ ہے کہ اس سے حیاتِ نو کی ایک بہتر بنیاد فراہم ہوتی ہے۔

موت کو ایک عارضی کیفیت قرار دینے کے بعد اس سلسلۂ خیال کو ایک مثال کے ذریعے آگے بڑھاتے ہیں۔ نویں بند کو چھوڑ کر دسویں بند میں اقبال نے ایک بیج کی مثال دی ہے، جو مٹی کی تہہ میں دبا پڑا ہے۔ ظاہری طور پر وہ مُردہ حالت میں ہے، مگر درحقیقت وہ ایک نئی اور بہترشکل میں زمین پر نمودار ہونے کی تیاری کرر ہا ہے۔

اس مُردہ دانے میں بھی زندگی کا شعلہ چھپا ہوا ہے اور اسی کے بل بوتے پر وہ زندگی کی تجدید میں مصروف ہے، لہٰذا زندگی کو موت سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں___ فلسفۂ زندگی و موت سے متعلق یہ سلسلۂ خیال دسویں بند کے اختتام پر ختم ہوجاتا ہے۔

  • عظمتِ انسان :اس کے درمیان (نویں بند میں) اقبال نے نظامِ کائنات میں انسان کے مقام اور اس کی عظمت کے بارے میں اظہارِ خیال کیا ہے۔ آغاز، آسمان میں چمکتے ہوئے ستاروں کے ذکر سے ہوتا ہے۔ اقبال کے خیال میں ستارے اپنی تمام تر آب و تاب، چمک دمک اور عمر کی طوالت کے باوجود قدرت کے تکوینی نظام کے بے بس کارندے ہیں، اور نہ جانے کب سے ایک محدود دائرے کے اندر اپنا مقرر کردہ فرض ادا کر رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں انسان کے مقاصد کہیں زیادہ پاکیزہ تر، اس کی نگاہیں کہیں زیادہ وسیع تر ہیں اور وسیع اور اِس لامحدود کائنات میں اس کا مرتبہ کہیں زیادہ بلند تر ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ کائناتی نظام میں انسان کا مقام ایسا ہی ہے، جیسے نظامِ شمسی میں سورج کا مرتبہ___ اس لیے موت انسان کو فنا نہیں کرسکتی۔
  • غم و اندوہ کا ردِّعمل : گیارھویں بند میں اقبال نے انسانی قلب و ذہن پر رنج و غم کے ردِعمل کا اظہار کیا ہے۔ کہتے ہیں لوگوں کا خیال ہے کہ ’موت کے زہر کا کوئی تریاق نہیں۔ البتہ زخمِ جدائی کے لیے وقت مرہمِ شفا کی حیثیت رکھتا ہے‘۔ مگر اقبال کو اس بات سے اتفاق نہیں ہے۔ ان کا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ جب انسان کسی شدید مصیبت سے دوچار ہو اور مصیبت بھی ناگہاں ہو تو صبروضبط انسان کے اختیار میں نہیں رہتا۔ اس کی آنکھیں خون کا سرشک آباد بن جاتی ہیں۔ البتہ ایسے عالم میں انسان کے لیے تسکین کا صرف ایک پہلو ہوتا ہے (اور یہ وہی پہلو ہے جس کی طرف اقبال نے نظم کے آغاز میں ذکر کیا تھا) کہ موت کسی دائمی کیفیت کا نام نہیں بلکہ یہ ایک عارضی حالت ہے۔ انسان مرتا ہے لیکن فنا کبھی نہیں ہوتا اور نہ ہوسکتا ہے۔ تسکین کا دوسرا پہلو یہ ہے، جس طرح ہررات کی سحر ہوتی ہے (اور صبح کے وقت طائرانِ سرمست نوا، نیند کو عروسِ زندگی سے ہمکنار کردیتے ہیں)، بالکل اسی طرح موت کے وقفۂ ماندگی کے بعد انسان پھر بیدار ہوکر اُٹھ کھڑاہوگا۔ یہ اس کی زندگی کی نئی سحر ہوگی اور پھر وہ ایک نئے دور کا آغاز کرے گا (یہ بات بارھویں بند کے آخر تک بیان ہوئی ہے)۔
  • والدہ کے لیـے دُعا :نظم خاتمے کے قریب پہنچتی ہے۔ سلسلۂ خیال والدہ مرحومہ کی جانب مڑجاتا ہے۔ ابتدا میں شاعر نے والدہ کی رحلت پر جس بے قراری، اضطراب اور بے چینی کا اظہار کیا، وہ والدہ سے محبت رکھنے والے ایک مغموم و متاسّف بچّے کے درد و کرب اور تڑپ کا بے تابانہ اظہار تھا۔ لیکن فلسفۂ زندگی و موت پر غوروخوض کے بعد شاعر نے جو نتیجہ اخذ کیا وہ ایک پختہ کار مسلمان کی سوچ ہے۔ اقبال نے والدہ کی جدائی کے درد و غم کو اپنی ذات میں اس طرح سمولیا ہے کہ اب جدائی ایک مقدس اور پاکیزہ کیفیت بن گئی ہے  ع

جیسے کعبے میں دُعائوں سے فضا معمور ہے

یوں کہنا چاہیے کہ اقبال نے غم کا ترفّع (sublimation) کرلیا ہے۔ وہ والدہ کی وفات اور جدائی پر اس لیے متاسّف نہیں کہ موت کے بعد آخرت بھی زندگی ہی کی ایک شکل ہے۔ آخری تین اشعار دُعائیہ ہیں۔ اقبال دُعاگو ہیں کہ جس طرح زندگی میں والدئہ ماجدہ ایک مہتاب کی مانند تھیں، جن سے سب لوگ اکتسابِ فیض کرتے تھے، خدا کرے کہ ان کی قبر بھی نُور سے معمور ہو، اور خدا ان کی لحد پر بھی اپنی رحمت کا نزول فرماتا رہے۔ ’سبزئہ نُورستہ ‘خدا کی رحمت کی علامت ہے۔

  • لہجے کا تنوع : ’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘ ایک مرثیہ ہونے کی بنا پر یہ نظم اپنے موضوع کی مناسبت سے معتدل، نرم اوردھیما لہجہ رکھتی ہے۔ جن مقامات پر انسان کی بے بسی، قدرت کی جبریت او زندگی کی بے ثباتی کا ذکر ہوا ہے، وہاں لہجے کا سخت اور پُرجوش ہونا ممکن ہی نہیں۔ جن حصوں میں شاعر نے والدہ سے وابستہ یادِ رفتہ کو آواز دی ہے، وہاں اس کے لہجے میں درد و کرب اور حسرت کی ایک خاموش لہر محسوس ہوتی ہے۔ اس حسرت بھری خاموشی کو دھیمے پن سے بڑی مناسبت ہے۔ شاعر کے جذبات کے اُتارچڑھائو نے بھی اس کے دھیمے لہجے کا ساتھ دیا ہے۔ پھر الفاظ کے انتخاب، تراکیب کی بندش اور مصرعوں کی تراش سے بھی یہی بات نمایاں ہے۔ ملاحظہ ہو:

زندگی کی اوج گاہوں سے اُتر آتے ہیں ہم
صُحبتِ مادر میں طفلِ سادہ رہ جاتے ہیں ہم

_____

یاد سے تیری دلِ درد آشنا معمور ہے
جیسے کعبے میں دُعائوں سے فضا معمور ہے

_____

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزئہ نورُستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

اس لہجے میں شاعر کے دل کا درد، خستگی اور حرماں نصیبی گھل مل گئے ہیں۔

نظم میں بعض مقامات ایسے بھی ہیں جہاں شاعر کا لہجہ، مرثیے کے مجموعی لہجے سے قدرے مختلف ہے۔ یہ وہ مقامات ہیں جہاں شاعر نے فلسفۂ جبرواختیار اور زندگی و موت پر غوروخوض کے بعد اپنے مثبت نتائج پیش کیے ہیں۔ یہ نتائج یاس و نامرادی اور افسردگی کے بجائے تعمیری نقطۂ نظر کے مظہر ہیں۔ اس لیے ایسے مقامات پر شاعر کے ہاں جوش و خروش تو نہیں، البتہ زندگی کی ایک شان اور گرمجوشی کا لہجہ ملتا ہے، مثلاً:

شعلہ یہ کمتر ہے گردُوں کے شراروں سے بھی کیا
کم بہا ہے آفتاب اپنا ستاروں سے بھی کیا

_____

موت ، تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے
خواب کے پردے میں بیداری کا اِک پیغام ہے

_____

سینۂ بُلبل کے زِنداں سے سرود آزاد ہے
سیکڑوں نغموں سے بادِ صبح دم آباد ہے

  • سوز و گداز : زیرمطالعہ نظم اپنے تاثر کے اعتبار سے اقبال کے تمام مرثیوں میں ایک جداگانہ حیثیت رکھتی ہے۔ غلام رسول مہر کے بقول اس کے اشعار اتنے پُرتاثیر ہیں کہ الفاظ میں ان کی کیفیت بیان نہیں ہوسکتی۔غالباً یہ مرثیہ شعروادب کی پوری تاریخ میں بالکل یگانہ حیثیت رکھتا ہے اور شاید ہی کوئی دوسری زبان اس قسم کی نظم پیش کرسکے۔ اس انفرادیت اور اثرانگیزی کا سبب اس کا وہ سوز و گداز ہے جس سے نظم کے کسی قاری کا غیرمتاثر رہنا ممکن نہیں۔ روایت ہے کہ مرثیہ پڑھتے ہوئے اس کے سوزوگداز  سے ان پر گریہ طاری ہوجاتا، اور وہ دیر تک روتے رہتے۔ مرثیے میں یہ سوزوگداز اس وجہ سے پیدا ہوا کہ اقبال کے پیش نظر ایک جذباتی موضوع تھا۔
  • فارسیّت :یہ اقبال کی ان نظموں میں سے ہے، جن پر فارسی کا غالب اثر ہے۔  بعض مصرعے ایک آدھ حرف یا لفظوں کے سوا فارسی میں ہیں:

پردئہ مجبوری و بے چارگی تدبیر ہے

_____

علم و حکمت رہزنِ سامانِ اشک و آہ ہے

_____

ُخفتگانِ لالہ زار و کوہسار و رُود باد

_____

مثلِ ایوانِ سحر مرقد ُفروزاں ہو ترا

حُسنِ بیان کے چند پہلو : فنی اعتبار سے حُسنِ بیان کا خوب صورت نمونہ ہے۔ پروفیسر رشیداحمد صدیقی نے ’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’فن کا کمال ہی یہ ہے کہ فن کے سارے وسائل کام میں لائے گئے ہوں، لیکن ان میں ایک بھی توجہ پر بار نہ ہو‘‘۔

نظم میں زبان و بیان، صنائع بدائع اور حُسنِ بیان کے چند پہلو ملاحظہ ہوں:

تجھ کو مثلِ طفلکِ بے دست و پا روتا ہے وہ

_____

آسماں مجبور ہے، شمس و قمر مجبور ہیں
انجمِ سیماب پا رفتار پر مجبور ہیں

_____

زلزلے ہیں، بجلیاں ہیں، قحط ہیں، آلام ہیں
کیسی کیسی دُخترانِ مادرِ ایّام ہیں

_____

علم کی سنجیدہ گُفتاری، بُڑھاپے کا شعور
دُنیوی اعزاز کی شوکت ، جوانی کا غرور

_____

جانتا ہوں آہ! مَیں آلامِ انسانی کا راز
ہے نوائے شکوہ سے خالی مری فطرت کا ساز

_____

دفترِ ہستی میں تھی زرّیں ورق تیری حیات
تھی سراپا دین و دُنیا کا سبق تیری حیات

_____

مثلِ ایوانِ سحر مرقد ُفروزاں ہو ترا
نُور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا

_____

نظم کا اختتام دُعائیہ ہے۔ اقبال ایک مفکر و فلسفی کی نظر سے زندگی و موت اور جبروقدر کے مسئلے پر اظہارِ خیال کرتے ہیں اور ساتھ ہی دُنیا میں اپنی عزیز ترین ہستی ماں کی یاد میں مغموم اور مجبور انسان کی طرح آنکھوں سے آنسو بھی بہاتے ہیں۔ گویا یہاں:’’اقبال کی شخصیت دو مختلف اندازوں میں جلوہ گر ہوئی۔ ایک شخصیت تو اقبال کی وہی فلسفیانہ شخصیت ہے جس کی بدولت اقبال کو اُردو شاعری میں ایک منفرد حیثیت ملی ہے، اور دوسری شخصیت اس مجبورو مغموم انسان کی ہے، جو ماں کی یاد میں آنسو بہاتے وقت یہ بھول جاتا ہے کہ وہ ایک مفکر اور فلسفی بھی ہے۔(سیّدوقار عظیم، اقبال، شاعر اور فلسفی، ص ۱۶۳-۱۶۴)

آخر میں والدئہ مرحومہ کو خدا کے سپرد کرتے ہوئے دست بہ دُعا ہیں کہ باری تعالیٰ مرحومہ کی قبر کو نُور سے بھر دے اور اس پر اپنی رحمت کی شبنم افشانی کرتا رہے۔ یہاں اقبال کا طرزِ فکر اور پیرایۂ اظہار ایک سچّے مومن اور راسخ العقیدہ مسلمان کا ہے۔

علامہ اقبالؒ ہماری ملّی اور ادبی تاریخ کی ایک کثیرالجہات اور منفرد شخصیت ہیں۔ شاعر، مفکر، معلّم، وکیل، سیاست دان اور ملت اسلامیہ کے ہمدرد، بہی خواہ، غم گسار اور مربی…ان کی شاعری کا سب سے بڑا اور اہم ترین موضوع ملت اسلامیہ ہے۔

علامہ اقبال کی متذکرہ بالا مختلف حیثیتوں میں سب سے معروف حیثیت ایک شاعر ہی کی ہے۔تاہم، علامہ اقبال فقط ایک شاعر ہی نہ تھے بلکہ علمی مسائل پر نگاہِ عمیق رکھنے اور ان پر غوروفکر کرنے والے عالم، مفکر اور محقق و دانش وَر بھی تھے۔ اسی لیے انھیں بعض علمی موضوعات پر کچھ لکھنے اور کام کرنے کا خیال آتا رہا۔ خطبات سے قطع نظر، علامہ کی علمی تحقیق و جستجو کا ذکر ان کے تذکروں میں بہت کم ملتا ہے۔ ذیل میں ان کے بعض علمی منصوبوں کا ذکر کیا جاتا ہے:

۱- قرآن حکیم کے مطالعے اور اس پر برسوں کے فکروتدبر کے نتائج کو ’مقدمۃالقرآن‘ کے نام سے مرتب کرنا چاہتے تھے۔ ۱۹۲۳ء سے انھوں نے عزم کرلیا تھا کہ ’’تفسیر قرآن اَزبس ضروری ہے‘‘۔ اس عزم کا پس منظر ان کے ایک خط سے معلوم ہوتا ہے، لکھتے ہیں:’’حق بات یہ ہے کہ جب ہم وید، انجیل وغیرہ کتب مطالعہ کرنے کے بعد قرآن کا مطالعہ کریں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا خیالات کی ایک نئی فضا میں داخل ہوگئے ہیں۔ افسوس کہ مسلمانوں کو قرآن کی جدت کا کبھی احساس نہ ہوا، بلکہ انھوں نے اس جدید کتاب کے مطالب و حقائق کو قدیم اقوام کے خیالات کی روشنی میں تفسیر کرکے اس کے اصل مطلب و مفہوم کو مسخ کردیا‘‘۔ مگر عملاً اس موضوع پر قلم اُٹھانے میں ان کی کسرنفسی مانع رہی ہے اور اس موضوع پر وہ کچھ نہ لکھ سکے۔ اس تفسیر کے لیے انھوں نے مختلف اوقات میں تین مختلف نام تجویز کیے تھے:

1- An Introduction to the Study of Quran.

2- Aids to the Study of Quran.

3- An Interpretation of Holy Quran in the Light of Modern Philosophy.

وقت کے ساتھ ساتھ ’مقدمۃ القرآن‘ لکھنے کی آرزو بڑھتی گئی۔ اس کا اندازہ بعض مکاتیب، بنام ڈاکٹر تاثیر، بنام سر راس مسعود اور بنام نذیر نیازی اور بعض گفتگوئوں (مثلاً عبدالرشید طارق) سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے، اور پھر جب ان کی صحت رفتہ رفتہ خراب ہوتی گئی تو وہ سر راس مسعود کو ۳۰مئی ۱۹۳۵ء کو لکھتے ہیں:’’چراغ سحر ہوں، بجھا چاہتا ہوں، تمنا ہے کہ مرنے سے پہلے قرآن کریم سے متعلق اپنے افکار قلم بند کرجائوں۔ جو تھوڑی سی ہمت و طاقت ابھی مجھ میں باقی ہے، اسے اسی خدمت کے لیے وقف کر دینا چاہتا ہوں، تاکہ (قیامت کے دن) آپ کے جدامجد(حضور نبی کریمؐ) کی زیارت مجھے اس اطمینانِ خاطر کے ساتھ میسر ہو کہ اس عظیم الشان دین کی، جو حضوؐر نے ہم تک پہنچایا، کوئی خدمت بجا لاسکا‘‘۔

 سیّد نذیر نیازی لکھتے ہیں:’’اس سلسلے کی ان کی ایک دو تحریریں ضرور دستیاب ہوئیں (مگر) حضرت علامہ نے ان تحریروں میں صرف چند الفاظ مستفسرانہ انداز میں لکھے ہیں‘‘۔

نہیں کہا جاسکتا کہ موعودہ کتاب میں اقبال کیا طریق تفسیر اختیار کرتے، لیکن اس سلسلے کی بعض تحریروں اور گفتگوئوں سے واضح ہوتا ہے کہ ’مقدمۃ القرآن‘ لکھنے سے اقبال کی بنیادی غایت خدمت ِدین تھی اور اپنی اس کتاب میں وہ اُمت مسلمہ کو قرآنی رُموز و نکات سے آگاہ کرنا چاہتے تھے، تاکہ مسلمانانِ عالم اس کی روشنی میں اپنے سیاسی اور معاشی مسائل حل کرسکیں۔ وہ یہ بھی ارادہ رکھتے تھے کہ اسلام اور قرآن پر یورپ کے متعصبانہ اور بے بنیاد اعتراضات کا مدلل جواب دیا جائے۔ اگر اقبال ’مقدمۃ القرآن‘ لکھتے تو بلاشبہہ عصرحاضر میں یہ ان کا ایک بڑاعلمی کارنامہ ہوتا۔

۲- دوسرا بڑا منصوبہ ’اسلامی فقہ کی جدید تدوین‘ کا تھا۔ اسے علامہ ’اسلام کی سب سے بڑی خدمت‘ سمجھتے تھے۔ صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کے نام ۲ستمبر۱۹۲۵ء کے خط میں لکھتے ہیں: ’’میرا عقیدہ ہے کہ جو شخص اس وقت قرآنی نگاہ سے زمانۂ حال کے اصولِ قانون (Jurisprudence) پر ایک تنقیدی نگاہ ڈال کر احکامِ قرآنیہ کی ابدیت ثابت کرے گا، وہی اسلام کا مجدد ہوگا اور بنی نوع انسان کا سب سے بڑا خادم وہی شخص ہوگا‘‘۔

اسی طرح وہ فقہ اسلامی کی مفصل تاریخ کی’سخت ضرورت‘ پر بھی زور دیتے تھے بلکہ ابتدائی زمانے میں انھوں نے فقہ اسلام پر ’اپنے فن میں ایک بے نظیر کتاب‘ بزبانِ انگریزی لکھنا شروع کردی تھی۔ یہ معلوم نہ ہوسکا کہ اس کا انجام کیا ہوا، تاہم بعد میں علامہ نے Islam and I Understand it  کے نام سے ایک کتاب کا خاکہ بھی تیار کیا تھا، لیکن یہ تصنیفی منصوبہ بھی عملی صورت اختیار نہ کرسکا۔

فقہ اسلام کی تاریخ و تدوین کے سلسلے میں انھوں نے سیّد سلیمان ندوی اور سیّدانورشاہ کاشمیری کو لاہور بلانا چاہا، مگر ایسا نہ ہوسکا۔

۳- اسرارِ خودی کی اشاعت (۱۹۱۵ء) پر اقبال کے خلاف ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا۔ بعض غلط فہمیوں کے ازالے کےلیے انھوں نے تصوف کی تاریخ پر ایک مبسوط مضمون لکھنا شروع کیا، جو بعد میں پھیل کر ایک کتاب کی شکل اختیار کرگیا۔ محمد اسلم جیراج پوری کو لکھتے ہیں: ’’میں نے ایک تاریخ تصوف کی لکھنی شروع کی تھی، ایک دو باب لکھ کر رہ گیا‘‘۔ یہ علمی منصوبہ بھی ناتمام رہا۔

۴- اقبال کے دیگر علمی منصوبوں اور تصنیفات و تالیفات میں: قلب و دماغ کی سرگزشت، ایک فراموش شدہ پیغمبر کی کتاب، فصوص الحکم پر تنقید، تاریخ ادب اُردو، کچھ دیگر متفرق چیزیں اور بعض تراجم شامل تھے۔

اقبال کے ان منصوبوں کا اہم ترین محرک ملّی انحطاط کا وہ شدید احساس تھا، ان تصانیف کے ذریعے وہ قارئین میں دین کا فہم پیدا کرکے تجدید و احیائے اسلام کی راہ ہموار کرنا چاہتے تھے۔ اپنے تصنیفی منصوبوں کا مقصد ان کے لیے ان کے اپنے بقول یہ تھا کہ ’’میں اپنے ملک کے تعلیم یافتہ لوگوں پر دین کے اسرار منکشف کرجائوں، تاکہ وہ دین کے قریب آجائیں‘‘۔

متذکرہ بالا عزائم اور ارادوں کے باوجودعلامہ کو بجاطور پر احساس تھا اور برعظیم کی تاریخ اس کی مؤید ہے کہ بسااوقات علمی منصوبے فردِ واحد کے بجائے اجتماعی کاوشوں اور علمی اداروں کے ذریعے ہی بروئے کار آسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں علامہ یورپ کے علمی اداروں اور دانش گاہوں کا براہِ راست مشاہدہ کرچکے تھے۔

خواجہ عبدالوحید [مشفق خواجہ مرحوم کے والد گرامی] نے بعض دوسرے دوستوں سے مل کر ۱۹۲۸ءمیں ’اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ مقصد یہ تھا کہ مسلمان نوجوانوں کو اسلامی تمدن و تاریخ کے مطالعے کی طرف راغب کیا جائے۔ وہ بتاتے ہیں کہ علامہ اقبال اس ادارے کی سرگرمیوں میں دل چسپی لیتے تھے اور بعض کاموں میں عملی تعاون بھی کرتے تھے۔ اسی ضمن میں خواجہ عبدالوحید بتاتے ہیں کہ ۱۹۳۱ء میں علامہ کی تجویز اور انھی کی رہنمائی میں علومِ اسلامیہ کی ترویج و تحقیق کے لیے لاہور میں ’ادارہ معارفِ اسلامیہ‘ قائم کیا گیا۔ اس ادارے سے علامہ کا کوئی تنظیمی تعلق تو نہ تھا، لیکن یہ انھی کی تجویز اور انھی کی رہنمائی میں قائم کیا گیا تھا۔ وہی اس کے روحِ رواں تھے اور تمام کام انھی کے مشوروں سے انجام پاتے تھے۔ اقبال اس ادارے کو ایک معیاری تحقیقی ادارہ بنانے کے خواہش مند تھے۔ انھوں نے اپنے اثرورسوخ سے ریاست حیدرآباد دکن سے اس ادارے کے لیے سالانہ مالی امداد بھی منظور کرائی تھی۔

علمی منصوبوں کی تکمیل کے لیے کوئی ایک ادارہ کافی نہیں ہوتا۔ خاطرخواہ نتائج مختلف النوع کاوشوں کے ذریعے ہی ممکن ہوتے ہیں۔ علامہ علمی تحقیق کے مسئلے پر وقتاً فوقتاً بعض احباب سے تبادلۂ خیال کرتے رہتے تھے۔ اس سلسلے میں عبدالمجیدسالک لکھتے ہیں:

’’مدت دراز سے علامہ کے دماغ میں یہ تجویز گردش کر رہی تھی کہ ایک علمی مرکز قائم کیا جائے، جہاں دینی و دُنیاوی علوم کے ماہرین جمع کیے جائیں اور ان ماہرین کو خورونوش کی فکر سے بالکل آزاد کردیا جائے، تاکہ وہ ایک گوشے میں بیٹھ کر علامہ کے نصب العین کے مطابق اسلام، تاریخ اسلام اور شرعِ اسلام کے متعلق ایسی کتابیں لکھیں جو آج کل کی دُنیائے فکر میں انقلاب پیدا کردیں۔ چنانچہ ایک دفعہ مرزا جلال الدین بیرسٹر سے ذکر آیا تو انھوں نے ریاست بہاول پور میں سرکار بہاول پور کے زیرسرپرستی اس قسم کے ادارے کے قیام کا سروسامان درست کیا، لیکن ریاستوں کے معاملات ایسے ہی ہوتے ہیں، معاملہ جو تعویق میں پڑا تو پھر اس کا کوئی سراغ ہی نہ ملا‘‘۔

مختلف علوم و فنون میں تحقیق و تصنیف کے ضمن میں علامہ کا ایک نہایت مفصل خط بنام صاحبزادہ آفتاب احمد خاں بھی اہمیت رکھتا ہے، جس میں وہ ’اسلامی تاریخ، آرٹ، قانون اور تہذیب و تمدن کے مختلف پہلوئوں پر حاوی عالموں کی تیاری، ان کی تعلیم و تربیت اور اسلامی افکار اور ادبیات میں تحقیق کی ضرورت‘ کا ذکر کرتے ہیں۔

۹جنوری ۱۹۳۸ء کو ہندستان کے طول و عرض میں ’یومِ اقبال‘ منایا گیا۔ لاہور میں یہ تقریب انٹرکالجیٹ مسلم برادرہڈ کے زیراہتمام مینارڈ ہال میں منعقد ہوئی۔ متعدد اکابر ِ سیاست کی طرح پنجاب کے وزیراعظم سرسکندر حیات نے بھی اقبال کے لیے نیک تمنائوں کا پیغام بھیجا، جس میں یہ تجویز بھی پیش کی کہ جہاں جہاں ’یومِ اقبال‘ منایا جائے، وہاں کے باشندے شاعراعظم کی خدمت میں ایک تھیلی نذر کریں۔ علامہ اقبال نے یہ تجویز مسترد کردی۔ فرمایا: ’بہتر ہوگا اسلامیہ کالج لاہور میں اسلامی علوم کی تحقیق کے لیے ایک خصوصی شعبہ یا ایک خاص چیئر قائم کی جائے اور سرمایہ اس کے لیے فراہم کیا جائے‘۔

ڈاکٹر جاوید اقبال کہتے ہیں کہ اقبال کی بہت سی تمنائوں میں ایک تمنا یہ بھی تھی کہ ’’کسی مسلم یونی ورسٹی کے اندر یا کسی پُرسکون مقام پر ایک چھوٹی سی بستی کی صورت میں ایسا ادارہ قائم کیا جائے، جس میں بہترین دل ودماغ کے مسلم نوجوان خالص اسلامی ماحول میں اسلامی ریاضیات، طبیعیات، کیمیا، تاریخ، فقہ اور دینیات کی تعلیم حاصل کرکے علومِ جدید کا علومِ قدیمہ سے تعلق دریافت کرسکیں‘‘۔

یہ ایک حُسنِ اتفاق ہے کہ اسی زمانے میں ایک دردمند مسلمان چودھری نیاز علی خاں نے اپنی جائیداد، واقع جمال پور، پٹھان کوٹ، ضلع گورداس پور کا ایک حصہ خدمت ِ دین کے لیے وقف کرکے وہاں ایک درس گاہ قائم کرنے کا منصوبہ بنایا اور اس سلسلے میں متعدد زعما اور علما سے رہنمائی چاہی، جن میں مولانا اشرف علی تھانوی، علامہ اقبال، عبدالماجد دریابادی، سیّد سلیمان ندوی اور مولانا مودودی شامل تھے۔ مجوزہ ادارے کے سلسلے میں مولانا مودودی نے انھیں ایک تفصیلی نقشہ بناکر پیش کیا، جس میںا نھوں نے علمی کام کے لیے چار پانچ شعبوں (فقہ، معاشیات، فلسفہ، علومِ عمران اور نظری سائنس)کی نشان دہی کی تھی۔ مولانا مودودی نے لکھا:’’سب علمی و تحقیقی کام اس بنیادی نظریے کے ساتھ کیا جائے کہ قرآن و سنت ہی علم کا اصل منبع ہے۔ سب کچھ ہم کو اسی سے لینا ہے‘‘۔

عبدالمجید سالک لکھتے ہیں: اس پر چودھری صاحب نے علامہ کی خدمت میں حاضر ہوکر بتایا کہ میں نے ادارے کے لیے ایک بڑا قطعۂ اراضی وقف کردیا ہے، جس پر کتب خانہ، دارالمطالعہ اور مکانات تعمیر کیے جائیں گے، تاکہ علما اور مصنّفین یہاں رہ کر علومِ اسلامی کی خدمت کے لیے اپنی زندگیاں وقف کریں۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے مولانا مودودی کے علمی منصوبے سے بھی علامہ کو آگاہ کیا اور بتایا کہ ’دارالاسلام‘ کے نام سے ادارہ قائم کرنے کا ارادہ ہے۔ حضرت علامہ، چودھری نیاز علی خاں کی دین پروری سے بے حد خوش ہوئے اور انھیں دارالاسلام کے منصوبے میں اپنے خواب کی تعبیر نظر آئی۔

پٹھان کوٹ کے مجوزہ علمی مرکز کے لیے علامہ کو مصر سے کسی عالمِ دین کو بلانے کا خیال آیا۔ اس سلسلے میں انھوں نے الازہر یونی ورسٹی کے شیخ الجامعہ، علامہ مصطفیٰ المراغی کو ایک خط لکھا۔ یہ خط اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس سے علامہ کے مجوزہ تحقیقی ادارے کے مقاصد اور اس کی صحیح نوعیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ علامہ، مذکورہ خط میں لکھتے ہیں: ’’ہم نے ارادہ کیا ہے کہ ہم پنجاب کی ایک بستی میں ایک اہم ادارے کی بنیاد رکھیں کہ اب تک کسی اور نے ایسا ادارہ قائم نہیں کیا اور ان شاء اللہ اسے اسلامی دینی اداروں میں بہت اُونچی حیثیت حاصل ہوگی۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ کچھ ایسے لوگوں کو، جو جدید علوم سے بہرہ ور ہوں، کچھ ایسے لوگوں کے ساتھ یک جا کردیں، جنھیں دینی علوم میں مہارت حاصل ہو۔ جن میں اعلیٰ درجے کی ذہنی صلاحیت پائی جاتی ہو اور جو اپنا وقت دین اسلام کی خدمت میں لگانے کو تیار ہوں اور ہم ان لوگوں کے لیے نئی تہذیب اور جدید تمدن کے شوروشغب سے دُور ایک دارالاقامت بنادیں، جو ان کے لیے ایک اسلامی علمی مرکز کا کام دے اور اس میں ہم ان کے لیے لائبریری ترتیب دیں، جس میں وہ تمام قدیم و جدید کتابیں موجود ہوں، جن کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔ مزیدبرآں ان کے لیے ایک کامل اور صالح گائڈ کا تقرر کیا جائے، جسے قرآن حکیم پر بصیرت تامہ حاصل ہو اور جو دنیائے جدید کے احوال و حوادث سے بھی باخبر ہو، تاکہ وہ ان لوگوں کو کتاب اللہ اور سنت ِ رسولؐ اللہ کی روح سمجھا سکے اور فلسفہ و حکمت اور اقتصادیات و سیاست کے شعبوں میں فکر اسلامی کی تجدید کے سلسلے میں انھیں مدد دے سکے، تاکہ یہ لوگ اپنے علم اور اپنے قلم سے اسلامی تمدن کے احیا کے لیے کوشاں ہوسکیں‘‘۔

’’آپ جیسے فاضل شخص کے سامنے اس تجویز کی اہمیت واضح کرنے کی چنداں ضرورت نہیں، چنانچہ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ ازراہِ کرم ایک روشن دماغ، مصری عالم کو جامعہ ازہر کے خرچ پر بھجوانے کا بندوبست فرمائیں،تاکہ وہ اس کام میں ہمیں مدد دے سکے۔  لازم ہے کہ یہ شخص علومِ شرعیہ، نیز تاریخ تمدنِ اسلامی میں کامل دستگاہ رکھتا ہو اور یہ بھی لازم ہے کہ اُسے انگریزی زبان پر قدرت حاصل ہو‘‘۔

اس کے جواب میں شیخ الازہر نے لکھا کہ ’’ہمارے ہاں علمائے ازہر میں کوئی ایسا شخص موجود نہیں، جو انگریزی زبان میں قدرت رکھتا ہو‘‘۔ اس سے مسلم دُنیا کی علمی زبوں حالی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہ ۱۹۳۷ء کی بات ہے سیّد نذیرنیازی اورمیاں محمد شفیع کہتے ہیں کہ علامہ کی نظر سے مولانا مودودی کی تحریریں گزری تھیں اور ان کی الجہاد فی الاسلام بھی علامہ نے دیکھی تھی۔ چنانچہ وہ ان کی علمیت اور ان کے فہمِ اسلام سے متاثر تھے۔ انھوں نے چودھری نیازعلی خاں کو مشورہ دیا کہ وہ مولانا مودودی کو حیدر آباد سے دارالاسلام بلالیں۔ چودھری نیازعلی خاں کہتے ہیں: ’’حضرت علامہ کی نظر جوہر شناس بھی سیّدصاحب پر جاپڑی‘‘۔ مختصر یہ کہ مولانامودودیؒ نے لاہور آکر، چودھری نیازعلی خاں اور علامہ محمد اسد کی معیت میں علامہ اقبالؒسے ملاقات کی۔ مجوزہ ادارے کے آیندہ منصوبوں، منہاج اور طریقۂ کار وغیرہ کے بارے میں تفصیلی گفتگو کے بعد، وہ مارچ۱۹۳۸ء میں حیدرآباد دکن سے جمال پور، پٹھان کوٹ منتقل ہوگئے۔

علامہ کا ارادہ تھا کہ وہ بھی ہرسال چند ماہ کے لیے وہاں آکر قیام کریں گے۔ مولانا مودودی مزید مشوروں اور رہنمائی کے لیے لاہور جانے کا پروگرام بنا ہی رہے تھے کہ انھیں سیّد نذیرنیازی کا خط موصول ہوا، جس میں نیازی صاحب نے لکھا تھا:’’جس قدر جلد ممکن ہو، لاہور آیئے، کیونکہ علامہ اقبال کی حالت اچھی نہیں ہے‘‘۔ اس خط کے تیسرے روز علامہ اقبال عالمِ فانی سے عالمِ جاودانی کو سُدھار گئے۔

ایک اسلامی تحقیقی ادارے کا جو خواب علامہ اقبال اور سیّد مودودی نے دیکھا تھا، وہ ہنوز شرمندئہ تعبیر ہے۔ تاہم، علامہ اقبال کی اچانک رحلت کے بعد مولانا مودودی نے اپنی انفرادی حیثیت میں اُن عام علمی کاموں کے سلسلے میں جو علامہ کے پیش نظر تھے، ایک غیرمعمولی مجتہدانہ بصیرت اور خداداد صلاحیت کے ساتھ جو علمی کارنامہ انجام دیا، وہ ہماری تاریخ کا ایک اہم سرمایہ ہے۔  اس کے بہت سے پہلو ہیں، مثلاً: تفہیم القرآن وغیرہ۔ اس کا تذکرہ ایک الگ مقالے کا متقاضی ہے جو آیندہ کسی موقعے پر پیش کیا جائے گا۔

پہلا وہ گھر خدا کا....

مسجد حرام میں قدم رکھا تو ایک عجیب سی طمانیت کا احساس ہوا۔ راستہ ڈھلواں ہے، دونوں طرف فرشِ مسجد پر قیمتی قالین بچھے ہیں۔ سامنے کعبہ کی مختصر سی عمارت ہے۔ اتنی وسیع کائنات کے مالک کا اتنا چھوٹا سا گھر اگر تصویروں اور فلموں میں پہلے نہ دیکھتا ہوتا تو یقینا حیرت ہوتی۔ اس گھر کے اردگرد کا صحن بہت وسیع ہے۔ صحن میں سفید سنگ ِ مرمر کا فرش ہے اور اس پتھر کی خاصیت یہ ہے کہ یہ سخت دھوپ میں بھی گرم نہیں ہوتا۔ گرم ہونا تو درکنار اس کی خنکی میں ذرہ بھر فرق نہیں آتا۔ صحن حرم میں قدم رکھا تو تلوئوں کو اتنی خنکی کا احساس ہوا جیسے کسی نے ان پر ملائی کے پھاہے رکھ دیے ہوں۔

حرم شریف نشیب میں واقع ہے۔ ایک پیالہ ساکہ جس کے کناروں پر مسجدالحرام کی دومنزلہ عمارت ہے۔ حرم کے مینار اتنے اُونچے نہیں کہ پگڑی سنبھالنی پڑے۔ اس لمحے میں نے صرف اتنا کچھ دیکھا یا دیکھ سکا۔ میں حرمِ کعبہ کے پہلے نظارے میں یوں کھوگیا تھا کہ ماحول کی ہرتفصیل نگاہوں سے اوجھل ہوگئی تھی۔ یہ لمحہ بہت عظیم تھا اور اب بھی ہے۔ (ارضِ تمنا)


میں باب السلام کے سامنے کھڑا تھا۔ حرم میں داخل ہوا اور کعبہ کی کشش کو دل میں محسوس کرتے ہوئے بیرونی ہال سے گزرتے ہوئے ان سیڑھیوں کے پاس جاپہنچا جو کھلے آسمان تلے موجود اس وسیع احاطے تک جاتی ہیں جس کے بیچوں بیچ، سیاہ غلاف میں ملفوف، وہ مکعب عمارت ہے جسے کوئی چار ہزار سال قبل حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کی مدد سے تعمیر کیا تھا اور جو سیکڑوں سال سے اربوں انسانوں کی روحانی زندگی کا مرکز رہی ہے۔

سنگ ِ مرمر سے بنے احاطے کے وسط میں، اَن گنت ستاروں سے مزین آسمان تلے، اپنے سیاہ لبادے میں ملفوف، خاموش، اَزلی برکتوں سے معمور ایک سادہ سی عمارت میں جواَب دل میں یوں دھمک پیدا کررہی تھی جیسے ابھی اسے اس کے پنجر سے رہا کردے گی۔ پھر زبان نے اقرار کیا: اللہُ اَکْبَرُ، اللہُ اَکْبَرُ، اللہَ اَکْبَرُ، لَا اِلٰہ اِلَّا اللہَ   وَاللہُ اَکْبَرُ ،اور دل نے گواہی دی کہ یقینا اللہ کی ذات عظیم ترین ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔

آنکھیں سیاہ پوش عمارت پر مرتکز اور دل ایک عجیب سُرور سے سرشار، پائوں سرد، سنگ ِ مرمر پر یوںجیسے اس سحرانگیز لمحے میں جسم کے وزن سے آزاد ہوچکے ہوں۔ نہ جانے کتنا وقت گزرگیا۔ بالآخر دل میں کوئی چیز پگھلی، آنکھوں سے آنسو بہنے لگے جیسے کوئی چشمہ خاموشی سے جاری ہوگیا ہو۔

ہزاروں مرد، عورتیں اور بچّے صحن میں موجود تھے۔ ان میں طواف کرنے والے بھی تھے اور وہ بھی جورات کے اس اوّل پہر میں کعبہ کے گرد عبادت میں مصروف تھے۔ طواف کرنے والوں میں احرام میں ملبوس زائر بھی تھے اور عام کپڑوں میں ملفوف مکین بھی، سب کعبہ سے نکلنے والی پُراسرار جذبی شعاعوں کی غیرمرئی کشش میں محصور، متحرک بچّے، عورتیں، مرد اور فرشتے جو اس رات بیت اللہ کی زیارت کے لیے بلائے گئے تھے۔ نظردرِ کعبہ پر مرتکز کیے، صحن کی طرف اُترنے والی سیڑھیوں پر کھڑا ایک حاجت مند فقیر جس کا دل اب کعبہ کی بڑھتی ہوئی کشش سے یوں دھڑک رہا تھا جیسے ابھی پھٹ جائے گا اور اپنے قفس کو توڑ کر کسی پرندے کی طرح پھڑک کر ڈھیر ہوجائے گا۔(سحرِمدینہ)


یہ سیاہ پتھروں سے بنا ہوا چوکور کمرہ حرم شریف کی عالی شان دومنزلہ عمارت کے درمیان اس طرح مسند نشیں ہے جیسے کسی قیمتی انگوٹھی میں کوئی بیش قیمت سیاہ پتھر آویزاں ہو، جس سے بے شمار کرنیں پھوٹ رہی ہیں۔ میں اور میری اہلیہ عجب عالمِ استغراق میں تھے۔ دُعا کے لیے ہاتھ بلند تھے۔ سارے اعزا، اقربا، احباب جو دُنیا میں تھے یا دُنیا سے جاچکے تھے، ایک ایک کرکے یاد آرہے تھے۔ بیت اللہ کے سنہرے دروازے پر نگاہ ٹکی ہوئی تھی کہ کاش! یہ کھل جاتا اور کاش! ہم اندر کا منظر بھی دیکھ لیتے۔ میں سوچ رہا تھا کہ اللہ کا گھر تو بالکل ایک عام انسان کے گھرسے بھی معمولی ہے مگر اس کے اردگرد بقعہ نُور بنی ہوئی بلندوبالا عمارتیں حقیر محسوس ہورہی تھی۔ اللہ کے گھر میں کوئی چمک دمک نہ تھی مگر مسجد حرام کی پُرشکوہ محرابیں، سلیٹی دھاریوں والے سنگ مرمر کی بلندوبالا دیواریں، پُروقار و چمک دار ستون جن کو بڑے بڑے روشن فانوس اپنی شعاعوں سے جگمگا رہے تھے، لیکن کسی زائر کی نگاہ اللہ کے گھر کے سامنے ان عمارات پر نہیں ٹکتی تھیں۔ سب کی نگاہوں کا محور وہ سیاہ غلاف سے ڈھکا ہوا چوکور کمرہ تھا جو ہر طرح کی زیبائش سے بے نیاز تھا۔ اس گھر کے جاںنثار اگر اجازت ہوتی تو اسے سونے کی چادروں سے ڈھک دیتے مگر اس گھر کے مالک کی یہی مرضی تھی کہ اس کا گھر بھی عام انسانوں کے گھر جیسا نظر آئے اور اسی صورت میں برقرار رہے جس شکل میں اسے معمارِاوّل حضرت ابراہیم ؑ نے تعمیر کیا تھا۔ (جلوے ہیں بے شمار)


حرم کا صحن بقعۂ نُور بنا ہوا ہے۔ برآمدوں میں فروزاں ہزاروں یا شاید لاکھوں برقی قمقموں اور فانوسوں کی روشنی خانۂ خدا کی طرف لپک رہی ہے۔ قطار اندر قطار بیٹھے ان ہزاروں لاکھوں زائرین میں سے کچھ اللہ کے ایسے پُراسرار بندے بھی ہیں جن کے زمانے عجیب اور جن کے فسانے غریب ہیں۔

مغرب کی نماز سے ذرا پہلے ایک ایرانی نوجوان میرے پہلو میں بیٹھا تھا۔ اذان کی آواز بلند ہوتے ہی اُس نے جھٹ سے کوئی نمبر ملایا، لمحہ بھر کو بات کی اور پھر فون بند کیے بغیر ہاتھ میں پکڑے رکھا۔ اذان ختم ہوئی تو اُس نے فون بند کردیا اور میری طرف دیکھ کر بولا: ’’میری ماں نے کہا تھا کہ مجھے حرم شریف کی اذان ضرور سنانا‘‘۔ واقعی ساری دُنیا کی مائیں ایک جیسی ہوتی ہیں۔

میں مسلسل کعبے کے غلاف کو دیکھ رہا ہوں۔ حجراَسود کے عین اُوپر ، چھت کے قریب سنہری ریشے سے بنے الفاظ یَاحَیُّیْ یَاقُیُّوْمُ،میری نگاہوں کے سامنے ہیں۔ شام، رات میں تحلیل ہورہی ہے، لیکن ہزاروں لاکھوں برقی قمقموں کی روشنی نے حرم کے دالان کو نُور میں نہلا دیا ہے۔ ایک دودن بعد جب مَیں یہاں سے چلا جائوں گا تو بھی یہ دالان، یہ روشنیاں، یہ بیت اللہ اِسی طرح موجود ہوں گے۔

یَاحَیُّیْ یَاقُیُّوْمُ،میں تو شاید پھر سے دُنیا کے جھمیلوں میں تجھے بھول جائوں، لیکن تو مجھے یاد رکھنا، تو نے بھلا دیا تو میں کہاں جائوں گا؟

اللہ کے گھر کے سامنے ہم نہ جانے کتنی دیر دست بہ دُعا رہے، یاد نہیں۔ سفر کی تکان غائب ہوچکی تھی اور ہم مطاف میں داخل ہوکر عشاق کے اس سیل رواں کا ایک حصہ بن گئے تھے جو مصروفِ طواف تھا۔ کبھی نگاہ ملتزم پر جاکر رُک جاتی، کبھی حجراَسود کو دُور سے بوسہ دیتی، کبھی رکن یمانی پر دل اٹک جاتا اور کبھی حطیم کے اندر داخل ہوکر نماز ادا کرنے کی اُمنگ دل پر چھا جاتی۔طواف تھا کہ جاری تھا۔ میری اہلیہ اپنے گھٹنوں کے درد کو بھول کر اس طرح چل رہی تھی گویا جنّت کی کسی کیاری میں گلگشت کر رہی ہوں۔ ہمارے آگے پیچھے، دائیں بائیں،کبھی ایرانی، کبھی ترکی، کبھی مصری، کبھی شامی، کبھی امریکی و یوروپین، کبھی وسط ایشیا و چین کے مخصوص رنگ و بناوٹ کے مرد وعورت اس طرح چل رہے تھے جیسے سمندر میں بے شمار موجیں اُٹھ رہی ہوں مگر ہرشخص اسی فکر میں غلطاں کہ اس کی وجہ سے دوسرے کو تکلیف نہ پہنچے، سب کی زباں پر دُعائیں ، کوئی بآواز بلند اور کوئی دھیرے دھیرے اللہ کے کلام اور مسنون دُعائوں کے ورد میں مصروف ہے۔(جلوے ہیں بے شمار )


رکن یمانی کے پاس سے گزرتے ہوئے مَیں کعبہ کی دیوار سے متصل اس قطار میں جاکھڑا ہوا جو حجراَسود کی طرف بڑھ رہی تھی۔ لبوں پر یہ دُعا تھی:

اے ہمارے ربّ! ہمیں عنایت فرما، دُنیا اور آخرت کی بھلائی، اور بچا ہمیں آیندہ کے عذاب سے، اور داخل فرما ہمیں جنّت میں، نیک لوگوں کے ساتھ، اے بڑے غالب، بڑی بخشش والے، اے تمام جہانوں کے پالنے والے۔

قطار زیادہ طویل نہ تھی اور اس وقت قطار کے باہر سے حجراَسود کی طرف آنے والوں پر سخت پہرہ تھا۔ اس لیے لوگ تیزی سے سیاہ پتھر تک پہنچ رہے تھے۔ وہ آگے بڑھتے، ہونٹوں کو حجراَسود پر رکھتے اور دوتین ثانیوں میں پہرے دار ان کے سر کو پیچھے دھکیل دیتا۔ ایک شخص پیچھے ہٹایا جاتا تو فوراً دوسرا اس کی جگہ لے لیتا۔ میری باری آئی، میں نے سرجھکا کر چاندنی کے طاقچے میں رکھے ہوئے پتھر پر ہونٹ رکھے، پتھر چمکا، اس کے اندر ہزارہا سفید اور سبز لکیریں پل بھر کو جگمگائیں، پھر ایک سخت اور کھردرے ہاتھ نے میرے سر کو پیچھے دھکیل دیا، اور ایک ہجوم مجھے اپنے ساتھ لیتا ہوا ملتزم کی طرف بڑھا۔

درِ کعبہ اور حجراَسود کے درمیان واقع دیوار کے قریب کھڑے پندرہ بیس آدمی،کچھ گریہ کناں، کچھ خاموش، کچھ ذرا بلندآواز میں رحمت ِ خداوندی کے خواستگار اور ان میں شامل ایک فقیر جو طواف کے بعد کعبہ کے ربّ کی خوشنودی اور اعانت کا طالب تھا۔ کچھ دیر کے بعد وہ ادھیڑعمر آدمی جس کے پیچھے کھڑا میں دیوارِ کعبہ کو چھونے کا منتظر تھا، آہستگی سے پیچھے ہٹا ، ایک نظر مجھ پر ڈالی اور اپنی آنسوئوں سے تر داڑھی اور چہرے کے نقوش کی اَنمٹ یاد چھوڑتے ہوئے ہجوم میں اوجھل ہوگیا۔

میں آگے بڑھا، کعبہ کے غلاف کو چھوا اور پھر غلاف کے نیچے موجود پتھروں کو۔ جیسے ہی ہاتھ پتھروں سے مَس ہوئے، سارے وجود میں ایک غیرمرئی طاقت ور لہر دوڑ گئی، جسم کپکپایا اور دل نے التجا کی:

یااللہ! اے اس قدیم گھر کے ربّ! آزاد فرما ہماری اور ہمارے آبا کی گردنوں کو، اور ہماری مائوں اور بھائیوں کی اولاد کی گردنوں کو، اے صاحب جُود و کرم و فضل و عطا! اے احسان کرنے والے! اے اللہ! ہمارے تمام کاموں کا انجام اچھا فرما اور ہمیں بچالے دُنیا کی رُسوائی سے اور آخرت کے عذاب سے۔ اے اللہ! میں تیرا بندہ، تیرے بندے کا بیٹا، تیرے گھرکے نیچے، تیرے دَر سے لپٹا، گریۂ کناں ہوں، تیری رحمت کا اُمیدوار اور تیرے عذابِ نار سے خائف، اے قدیم الاحسان! اے اللہ! تجھ سے التجا ہے کہ میرے ذکر کو قبول فرما، اورمیرے بوجھ کو ہلکا کردے، میرے کاموں کی اصلاح فرما اور میرے قلب کو پاک و صاف کردے، اور روشن کردے میرے لیے میری قبر کو اور بخش دے میرے گناہوں کو، سوال کرتا ہوں میں تجھ سے جنت میں اعلیٰ درجات کا۔

نہ جانے کتنا وقت گزر گیا۔ ہاتھ دیوارِ کعبہ پر، ذہن ماضی و حال و مستقبل کی قید سے آزاد، اور دل ایک عجب سُرور میں مگن، ایک سُرور جس میں حُزن بھی تھا اور طمانیت بھی ، اور ایک غالب احساس جو سارے وجود میں دوڑ رہا تھا۔میرے اردگرد ہزاروں انسان دائرہ در دائرہ کعبہ کے گرد  محوِ طواف تھے۔ ان سے پرے، صحنِ کعبہ میں بیٹھے ہوئے کئی ہزارمردو زن اور بچّے تھے۔ پھر حرم کی وسیع عمارات میں موجود لوگ اور اس سے پرے اربوں انسان زمین کے طول و عرض میں پھیلے، اپنے اپنے روزمرہ کے دھندوں میں مصروف تھے۔ کتنی بڑی دُنیا ہے، کتنا وسیع کاروبارِ حیات ہے، اور اس سے الگ، اس مقام پر کھڑا، ایک تنہا انسان، ہزاروں انسانوں کے درمیان، دو سادہ چادروں میں ملبوس، ایک زائر، اپنے رب سے گریہ کرتا ہوا، اس کا بندہ!

وہ ایک نرم ہاتھ تھا لیکن اس کے اندر نہ جانے کیا پکار تھی کہ جیسے ہی مَیں نےاسے اپنے شانے پر محسوس کیا، میں دیوار سے پیچھے ہٹ آیا اور احرام میں ملبوس ادھیڑ عمر آدمی، جس نے مجھ سے کامل خاموشی کے ساتھ دیوارِ کعبہ کے قرب میں کھڑے ہونے کی فہمائش کی تھی، میری جگہ پر جاکھڑا ہوا۔ اس خاموش تبادلے میں ایک خوبی تھی، ایک بہائو تھا، ایک باہمی رشتے کی خوشبو تھی، ایک نسبت تھی جو دین حنیف سے منسلک انسانوں کو ایک دوسرے کا مونس بناتی ہے۔

چند قدم پیچھے مقامِ ابراہیم تھا اور شیشے کے فریم میں بند وہ پتھر جس پر دو پائوں یوں ثبت تھے جیسے ابھی ان میں زندگی کی لہر دوڑ جائے گی۔مقامِ ابراہیم ؑ کے پاس دو رکعت نماز ادا کرنے کے بعد میں نے کعبہ کی طرف نگاہ اُٹھائی۔ وہاں وہی قدیم دستور تھا، اسی قدیم رسم کی رونق تھی جو ہزاروں برس سے جاری ہے، دائرہ دَر دائرہ ، دیوارِ کعبہ سے متصل مردو زن کا ہجوم، درِ کعبہ کے قریب کھڑے گریہ کناں ملتجی!(سحرِمدینہ)


اللہ کا گھر ہرلمحہ، ہرثانیہ، ہرپل یونہی آباد رہتا ہے۔ کعبۃ اللہ کے گرد، دن رات اور دُھوپ چھائوں کی تمیز کے بغیر خلق خدا کا دائرہ پیہم حرکت میں رہتا ہے۔ رُکن یمانی کی طرف لپکتے ہاتھ کبھی ساکت نہیں ہوتے۔ حجراَسود کے رخساروں پر عشق کی تمازت سے دہکتے بوسوں کی برسات کبھی نہیں تھمتی۔ ملتزم سے لپٹے سینہ چاکان حرم کی وارفتگی میں کبھی فرق نہیں آتا۔ مقامِ ابراہیم ؑ سے قریب تر ہوکر سجدہ ریز ہونے کے آرزو مند آج بھی ٹوٹے پڑتے ہیں۔ تشنگانِ عشق آبِ زمزم سے سیراب ہونے کے لیے مچلتے رہتے ہیں۔ میزابِ رحمت کے عین نیچے، حطیم کے نیم دائرے میں نوافل ادا کرنے والوں کی بے کلی کا چودہ سو سال سے یہی عالم ہے۔ صفاومروہ کی عفت مآب پہاڑیوں کے درمیان قافلہ شوق صدیوں سے رواں دواں ہے۔

لبیک اللھم لبیک کی صدائیں گونج رہی ہیں۔ چہرے عقیدت کی آنچ سے تمتما رہے ہیں۔ آنکھوں سے آنسوئوں کے سیلاب جاری ہیں۔ آہیں اور سسکیاں تھمنے میں نہیں آرہیں۔ مرد بھی، عورتیں بھی، بچّے بھی، بڑے بھی، جوان بھی اور لب گور پہنچ جانے والے بھی۔ کچھ طواف کررہے ہیں، کچھ نوافل ادا کررہے ہیں اور کچھ سعی میں مصروف ہیں۔ کچھ تسبیح پر اَوراد و وظائف پڑھ رہے ہیں۔ کچھ قرآن کریم کی تلاوت کر رہے ہیں اور کچھ گردوپیش سے بے نیاز خانہ کعبہ پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ ان سب کے دل عبودیت اور بندگی کے احساس سے لبالب بھرے ہیں۔ سب اپنی خطائوں پر نادم ہیں۔ سب خدائے رحیم و کریم سے عفو و درگزر کے خواستگار ہیں۔ سب کی گردنیں عجز و انکسار سے جھکی جارہی ہیں۔ سب آلائشوں بھری دُنیا سے کٹ کر ایک ایسے جزیرئہ عافیت میں آبیٹھے ہیں جہاں زندگی کا انداز و اُسلوب بدل گیا ہے۔ جہاں فکر ایک فرحت بخش آسودگی اور روح ایک طمانیت بھری بالیدگی محسوس کررہی ہے۔ جہاں نئے انسان تخلیق ہورہے ہیں جہاں آلودگیوں سے پاک اور منزہ مخلوق سانچے میں ڈھل رہی ہے۔ اللہ کی کبریائی کا دم بھرنے والی ہرسانس اُس کی خوشنودی اور رضاجوئی کی ڈُور سے باندھے رکھنے والی ماضی پہ شرمسار، حال پر نادم اور مستقبل کے لیے نیکوکاری کا عہد کرنے والی مخلوق، انڈونیشیا سے مراکش تک پھیلی مسلم ریاستوں میں بسنے والے، غیرمسلم ممالک میں اقلیتوں کی زندگی گزارنے والے سب کھنچے چلے آرہے ہیں۔ چودہ سو سال سے صحن حرم یونہی آباد ہے۔ فجر کی اذان کے ساتھ ہی ابابیلوں کے جھنڈ اسی طرح اُمنڈ اُمنڈ کر آرہے ہیں اور حرم کا معطر دالان سرمئی کبوتروں سے لبالب بھرا ہے۔ (سحرمدینہ)


اس گھر کے گرد جتنے طواف کرو، کم ہیں ۔ بلکہ میں تو یہی کہوں گا کہ جتنا وقت بھی تمھیں اس کے جوار میں گزارنے کے لیے ملے، اور جتنی محبت و استطاعت اللہ تمھیں دے، سب طواف کرنے میں لگادینا۔ نماز، رکوع، سجدہ، تلاوت، سب عبادات ہرجگہ ہوسکتی ہیں، اگرچہ مسجدالحرام میں ان عبادات کا ثواب لاکھوں گنا زیادہ ہے، لیکن طواف کی نعمت تو اور کہیں بھی میسر نہیں آسکتی۔ طواف میں جو والہیت ہے، وارفتگی ہے، عشق و محبت ہے، وہ اور کسی عبادت میں نہیں۔ طواف کی ہمت نہ ہو، تو اس محبوب اور حُسن و جمال میں یکتا گھر کو جی بھر کے دیکھنا، اس کے گرد نثار ہوتے ہوئے پروانوں کو دیکھنا۔ دل کے کیف و لذت کا یہ سرمایہ بھی اور کہیں میسر نہ آئے گا۔ (حاجی کے نام)


لیکن ایسا کیوں ہے کہ ہم لوگ جو حرم میں داخل ہوتے ہی اپنے اندر ایک جہانِ نو کروٹیں لیتا محسوس کرتے ہیں اور ہمارے احساس و خیال کی دُنیا میں زلزلہ سا بپا ہوجاتا ہے۔ حرم سے نکلتے اور اپنے آشیانوں کو لوٹتے ہی، سارے لطیف احساسات اور ساری منور سوچوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔ ایک اُجاڑ اور سوکھا سڑا پیڑ یکایک ہرے بھرے پتوں، خوش رنگ پھولوں اور رسیلے پھلوں سے بھرجاتا ہے اور پھر ایکاایکی اس کے برگ و ثمر جھڑنے لگتے ہیں اور وہ پہلے جیسا ٹنڈ منڈ خزاں رسیدہ درخت بن جاتا ہے۔

مسلم ممالک مسلسل گرداب بلا کے تھپیڑے کھارہے ہیں۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے افغانستان آگ اور خون میں نہا گیا۔ ہماری آنکھوں کے سامنے بصرہ و بغداد پر قیامت ٹوٹ گئی۔ فلسطین، کشمیر اور چیچنیا میں درندہ صفت سامراجوں کی بھوک مٹنے میں نہیں آرہی۔ ہم کہ سوا ارب سے زائد سر اور اس سے دُگنے ہاتھ رکھتے ہیں، بے چارگی اور بے بسی کی تصویر بنے تماشا دیکھ رہے ہیں۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عشق کی آگ بجھ چکی ہے اور مسلمان راکھ کا ڈھیر بن کر رہ گیا ہے۔ ہماری صفیں کج، دل پریشاں اور سجدے بے ذوق ہیں۔ ہمارے دلوں میں ایمان کی حرارت سرد پڑتی جارہی ہے اور ہمارا کردار و عمل ان تعلیمات سے دُورہوتا جارہا ہے جو اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم تک پہنچائیں۔ اسلام نے فوز و فلاح اور فتح و نصرت کے لیے بعض کڑی شرائط رکھی ہیں۔ حلقہ بگوشِ اسلام ہونے والے ہرفرد پر ان شرائط کی پابندی لازم ہے اور اگر وہ اپنے آپ کو ان شرائط کے سانچے میں نہیں ڈھالتا، تو وہ اللہ کی تائید و حمایت کے استحقاق سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔ پھر وہ بندۂ مومن کے معیار پر پورا نہیں اُترتا۔ اُس کا ہاتھ، اللہ کا ہاتھ نہیں رہتا۔ نہ غالب و کارآفریں نہ کا رکشائو کارساز۔

میں حجراَسود کے عین سامنے بیٹھا، غلافِ کعبہ پر نظریں جمائے سوچتا رہا کہ ایسی ہریالی، ایسی زرخیزی اورایسی شادابی کے بعد بھی ہمارے دل و نگاہ کا شجر یکایک ٹنڈ منڈ کیوں ہوجاتا ہے؟ حج اور عمرے، طواف اور سعی، اَوراد و وظائف، عبادتیں اور زیارتیں، سب کچھ پُربہار موسم کی خوشبو بھری پھوار کی طرح آتے اور گزر جاتے ہیں اور ہم ایک بار پھر دُنیاداری کے لق و دق صحرا میں غرق ہوجاتے ہیں۔ جہاز کی سیڑھیاں چڑھتے وقت ہمارے ایک ہاتھ میں آب زم زم اور دوسرے ہاتھ میں کھجوروں کی پوٹلی ہوتی ہے اور [افسوس کہ]صحن حرم میں عطا ہونے والے جذب و کیف اور رُوح و فکر میں بپا ہونے والے انقلاب کی گٹھڑی ہم اُسی میقات پر چھوڑ آتے ہیں ، جہاں سے احرام باندھ کر حدودِ حرم میں داخل ہوتے ہیں۔(مکّہ مدینہ)


آں خنک شہر سے…

مدینہ کی فضا کافی خوشگوار تھی۔ بادل آسمان پر آتے تھے اور گاہے گاہے بارش ہوتی تھی۔ مکہ کی فضا میں عجب جاہ و جلال تھا۔ چٹانوں اور پہاڑوں، وادیوں اور گھاٹیوں کے بیچ میں کھردرے سیاہ پتھروں کے نہایت سادہ سودہ گھر کے سامنے سارے انسان حقیر نظر آتے ہیں جووالہانہ اس گھر کا طواف کرتے ہیں۔ بڑے بڑے کج کلاہوں اور ارباب جُبہ و دستار کی پگڑیاں یہاں اُتر جاتی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس گھر کے مالک کو تزک و احتشام اور شان و شوکت اپنے کسی بندے کی پسند نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اسے فقر سے بے حد اُنس ہے اور اسی فقر کے جلوے اس کے گھر کی دَر و دیوار سے چھلکتے ہیں۔ لیکن مدینہ میں انسان خود کو ہر طرح کے بوجھ سے آزاد اور ایک عجیب دوستانہ ماحول میں خود کو محسوس کرتا ہے۔ ہرشے سے اُنس و محبت کی خوشبو آتی ہے۔ ہر طرف لطافت اور خوش گواری کے منظر نظر آتے ہیں۔ حرمِ نبویؐ کے ساتھ ہی مدینہ شہر اور اس کے مضافات کا گوشہ گوشہ اپنی حیات افروز تاریخ چھپائے ہوئے ہے۔(جلوے ہیں بے شمار)


مسجد نبویؐ کے اس حصے میں جو روضۂ اطہر سے ملحق ہے اور جہاں حجرئہ عائشہ صدیقہؓ اور حضور اکرمؐ کا مصلیٰ و منبر تھا، قدم رکھتے ہوئے احساس ہوتا کہ کہیں ہمارے ناپاک وجود، ناپاک قدم اس مقام کے تقدس کو مجروح تو نہیں کر رہے ہیں۔ مسجد نبویؐ اور روضۂ اطہر ایک دوسرے سے جدا نہیں۔ مسجد کی عمارت بے حد وسیع و شان دار ہے۔ بے حد کشادگی ہے۔ سب کو نماز ادا کرنے کی جگہ آسانی سے حاصل ہوجاتی ہے۔ بقول مولانا ماجد حُسن و جمال کے لحاظ سے، خوبی و محبوبی کے لحاظ سے، زیبائی و دل کشی کے لحاظ سے ،پردئہ زمین پر اس مسجد کا جواب نہیں۔ بس یہ جی چاہتا ہے کہ ہروقت صحن میں بیٹھے ہوں اور عمارت مسجد کی طرف ٹکٹکی لگی رہے۔ تصور میں ۱۴سو سال کی تاریخ پھرجاتی ہے۔ دورِ صحابہؓ، تابعین و تبع تابعین اور اہل اللہ اور اہلِ حق کی ایک طویل قطار سامنے آتی ہے جنھوں نے تاریخ میں اس مسجد کے صحن و محراب میں آکر خدا کے حضور رکوع وسجود کیا ہوگا۔ روضۂ اطہر پر درود و سلام کا نذرانہ پیش کیا ہوگا۔ ہرمسلمان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ایسی متبرک جگہ بیٹھ کر اپنی لغزشوں اور خطائوں کے لیے استغفار کرے اور اپنی باقی زندگی میں اسلام کی اُولوالعزم ہستیوں کے نقش قدم پر چلنے کا عہد تازہ کرے۔ اللہ اللہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم خود دورِ نبویؐ میں آگئے ہیں۔(جلوے ہیں بے شمار)


روضۂ رسولؐ کے سامنے کھڑا فرد عجیب کیفیتوں سے دوچار ہوتا ہے۔ وہ ہیبت، خوف اور تلاطم جو کعبہ کے قرب سے دل میں پیدا ہوتا ہے، نبیؐ کی قبر کے پاس محبت، نرمی اور سکون سے بدل جاتا ہے۔ کوئی دومیٹر چوڑاراستہ، جو زائرین کو سبز جالیوں کے پیچھے موجود ان تین قبروں کے قریب لاتا ہے جن میں حضوؐر اور ان کے دو اصحابؓ مدفون ہیں ، نسبتاً خالی ہوا تو میں اس قطار میں جاکھڑا ہوا جو آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی اور جس میں شامل لوگ اس عظیم تجربے کے منتظر تھے جو روضۂ رسولؐ کے قرب سے دلوں میں تغیر پیدا کرتا ہے۔

روضہ کے قریب پہنچ کر میں قطار سے نکل کر اس چھوٹے سے ہجوم میں شامل ہوگیا جو رواں قطار کے پیچھے کھڑا تھا۔ اس ساکت گروہ میں موجود لوگ نبیؐ پر درود و سلام بھیج رہے تھے، دعاگو تھے اور اپنی اپنی کیفیت و حالت و مقام کے مطابق اس مبارک مقام سے فیض حاصل کررہے تھے۔ ان میں سے اکثر کے لبوں سے سلام و درود کی صدائیں اُبھر رہی تھیں۔(سحرِمدینہ)


اس حجرے سے متصل چبوترے پر بیٹھ کر میں نے قرآن شریف کا ربع پڑھا۔ یہ جگہ وہ ہے جو مسجد نبویؐ کے صحن میں اصحابِ صفہ کے لیے مخصوص تھی۔ قرآن شریف میں نے ریک میں رکھ دیا اور سرجھکا کر بیٹھ گیا۔ میں یہ دعویٰ نہیں کروں گا کہ مجھ پر استغراق کی حالت طاری ہوئی اور میں چودہ سوسال پیچھے چلا گیا.....میں نے ایک انقلاب کو مدینے میں مکمل ہوتے ہوئے دیکھا، جس کا آغاز مکہ میں ہوا تھا۔ آغاز اور انجام کے درمیان صرف ۲۳سال کا زمانہ حائل تھا۔ یہ ایک مکمل و اکمل انقلاب تھا جس میں انسانیت کے ہرپہلو کی تنقیح و تہذیب ہوگئی تھی۔ معاشرت انسانی کی ایک نئی تعبیر وجود میں آئی تھی۔ دین و دُنیا میں ہم آہنگی کی ایک نئی تصویر اُبھری تھی اور ایک نہایت خوبصورت متوازن، مہذب اور متمدن معاشرہ قیام پذیر ہوگیا تھا۔ (ارضِ تمنا)


مدینہ منورہ، چمنستان کا ایک سدابہار پھول ہے جس کی لطافت سب سے جدا، جس کے رنگ سب سے منفرد اور جس کی خوشبو سب سے مسحورکن ہے۔ اس کی ہوائوں میں کچھ ایسا جادو اور فضائوں میں کچھ ایسا حُسن ہے کہ کسی بھی خطۂ ارضی سے آنے والا انسان اپنے جذبات و احساسات پر قابو نہیں رکھتا۔ مکہ مکرمہ کے پُرشکوہ جلال کے دائرے سے نکل کر مسجدنبویؐ کے احاطۂ جمال میں داخل ہوتے ہی قلب و نظر ایک سراسر مختلف کیفیت سے ہم کنار ہوجاتے ہیں۔ اس کیفیت کی سرشاری اور سرمستی کا اندازہ وہی کرسکتا ہے جو برسوں کوچۂ جاناں تک پہنچنے کی آرزو میں سلگتا رہا، جس کی زندگی کا ہرلمحہ حضوری و حاضری کی تمنائے بے تاب سے مہکتا رہا ہو، جس نے انتظار کی لمبی راتیں اور آتشیں دن گزارے ہوں، جو صرف اس لیے جیتا رہا کہ مرنے سے قبل اپنی آنکھوں کو گنبد خضریٰ کے عکس جمیل سے منور کرلے۔(مکہ مدینہ)


ذیقعدہ کی پہلی تھی، جب اس پھاٹک سے اس نُور و برکت والے شہر میں داخل ہوئے تھے۔ ذی الحجہ کی چوتھی کو اسی پھاٹک سے اس رحمت و مغفرت والے شہر سے باہر نکلے۔ جہاں ایک دن کا بھی قیام اگر میسر آجائے تو تقدیر کی یاوری اور اَبرار و متقین کی نصیبہ وری ہے، وہاں ایک دن نہیں، دو دن نہیں، اکٹھے ۳۳دن کی حاضری نصیب ہوگئی۔ (سفرحجاز)


حج کے اس سفر سے بڑا سکون ، بڑی طمانیت حاصل ہوئی ۔ دل میں یہ خواہش باربار کروٹ بدلتی رہی کہ کاش! اسی طرح بار بار جوارِ حرم اور دیارِ حبیب کی حاضری کا شرف حاصل ہوتا رہے، مگر پھر یہ خیال آیا کہ اس حرم کے مالک اور اسی دیار کے حبیب نے یہ بھی ہدایت کی ہے کہ ہرمومن کو اپنے گردوپیش سے باخبر رہنے والے اور اسے صالحیت کی طرف موڑنے کی ہرآن فکر کرنی چاہیے۔ حج اگر فرض کی ادائیگی کے بجائے سیاحی و تفریح بن جائے تو یہ پسندیدہ بات نہیں۔ افسوس کہ کتنے اہل ثروت اپنی ملّت کے غریب و پس ماندہ لوگوں کی ضرورتوں کی طرف توجہ نہیں کرتے اور کرتے بھی ہیں تو اس طرح کہ اپنے وسائل کے سمندر سے چند قطرے ملّت کے پریشاں لوگوں کی طرف بھی ٹپکا دیتے ہیں۔ چنانچہ اسلامی معاشرے میں عدم توازن اور اسلام کی قوت و شوکت کے فقدان کے مظاہر ہروقت سامنے آتے رہتے ہیں۔ کاش! حج ہرانسان کو ایک انقلابی انسان، ایک مردِمجاہد اور دین کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردینے والا حوصلہ مند انسان بنائے۔ کاش! یہ ملّت کے مقدر کو تبدیل کرنے کا ایک ذریعہ بن سکے۔ کاش! یہ بھی ہماری دیگر عبادتوں کی طرح ایک بے روح عبادت بن کر نہ رہ جائے۔ (جلوے ہیں بے شمار )


ہم حج بھی کریں، عمروں کے لیے بھی جائیں، منہ کعبہ شریف کی طرف کرکے نمازیں بھی پڑھیں ، مگر ہم پر وہ رنگ نہ چڑھے جو حضرت ابراہیم ؑ کا رنگ تھا، تو اس سے بڑھ کر ہماری حرماں نصیبی اور کیا ہوسکتی ہے، اور جو حرماں نصیبی ہمارا مقدر بن گئی ہے اس کا سبب اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔ ہم سے دُنیا میں جو وعدے ہیں___ استخلاف فی الارض کا وعدہ ہے، غلبۂ دین کا وعدہ ہے، خوف سے نجات اور امن سے ہم کنار کرنے کا وعدہ ہے___وہ سب وعدے اس شرط کے ساتھ مشروط ہیں کہ ہم اللہ کے ایسے بندے بن جائیں کہ بندگی اور کسی کے لیے نہ ہو: يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْـرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا۝۰ۭ (النور۲۴:۵۵)۔ (حاجی کے نام)

۲۱؍اپریل ۱۹۳۸ء کو علّامہ محمد اقبالؒ کے انتقال کے وقت مولانا مودودیؒ کی عمر تقریباً ۳۵سال تھی۔ یہ عین ان کی جوانی کا زمانہ تھا اور وہ اپنے افکار ونظریات کو بڑی حد تک مرتب کرچکے تھے، جن کی بنیاد پر انھوں نے آگے چل کر ایک فکری و نظریاتی تحریک کا آغاز کیا۔ ہمارا خیال ہےکہ مولانا کی مذکورہ تحریک کے پس منظر میں اقبالؒ کے افکار بڑے بھرپور طریقے سے کارفرما رہے ہیں اور اسی طرح دونوں شخصیات کے درمیان فکرونظر کی گہری ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔

شخصی حوالے سے دیکھا جائے تو علّامہ اقبالؒ سے مولانا مودودیؒ کی پہلی ملاقات جنوری ۱۹۳۰ء میں ہوئی، جب علّامہ، مدراس [چنائے] میں تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ کے سلسلے کے تین انگریزی لیکچر (خطبات) دینے کے بعد، بنگلور اورمیسور سے ہوتے ہوئے حیدرآباد دکن پہنچے اور وہاں بھی تین خطبے دیے۔ سیّدصاحب اس وقت حیدرآباد ہی میں تھے۔ انھوں نے خطبات سنے تھے۔ ممکن ہے آخر میں کچھ سوال جواب بھی ہوئے ہوں، اورنوجوان سیّد نے کوئی استفسار بھی کیا ہو۔ یہ بعید از قیاس نہیں کیوں کہ سیّد مودودی اپنی عمر کے (۲۶ سال کے) نوجوانوں کی نسبت مشرقی و مغربی علوم کا بہت زیادہ مطالعہ کیے ہوئے تھے۔مولانا مودودیؒ نے خود لکھا ہے: ’’میری ان سے پہلی ملاقات وہاں [حیدرآباد دکن میں] ہوئی، دوسری ملاقات فروری مارچ ۱۹۳۷ء میں (خطوطِ مودودی، دوم، ص ۶۹) اور تیسری ملاقات [ستمبر یا] اکتوبر ۱۹۳۷ء (ایضاً، دوم،ص ۱۲۰) میں [لاہور میں] ہوئی۔

۱۹۳۷ء میں ہونے والی ان ملاقاتوں کا پس منظر یہ تھا کہ ایک دردمند مسلمان چودھری نیاز علی خاں (م: ۲۴ فروری ۱۹۷۶ء) نے اپنی جایداد واقع سرنا،جمال پور، پٹھان کوٹ، ضلع گورداس پور کا ایک حصہ خدمت ِ دین کے لیے وقف کرکے وہاں ایک درس گاہ قائم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، اور اس سلسلے میں متعدد زعما اورعلما سے راہ نمائی چاہی، جن میں مولانا اشرف علی تھانویؒ، علّامہ اقبالؒ ، سیّد سلیمان ندویؒ، عبدالماجد دریابادیؒ اور سیّدمودودیؒ شامل تھے۔{ FR 654 }

مولانا مودودی نے علمی کام کا ایک تفصیلی نقشہ بناکر چودھری نیاز علی صاحب کو پیش کیا۔ چودھری صاحب نے اس علمی منصوبے سے علّامہ اقبال کو آگاہ کیا۔ انھوں نے اسے پسند کیا اور فرمایا کہ ’’اس وقت کرنے کے یہی کام ہیں‘‘ (سیّارہ، لاہور، اقبال نمبر، مدیر: نعیم صدیقی، ۱۹۶۳ء)۔

دراصل علّامہ اقبالؒ اس زمانے میں مولانا مودودیؒ کے نام اور ان کی فکر سے واقف ہوچکے تھے۔ ماہ نامہ ترجمان القرآن ، حیدرآباد دکن اوائل ہی سے علّامہ کے ہاں جاتا تھا۔سیّد مودودی کے دورِ ادارت میں بھی رسالہ ان کے نام جاری رہا۔ سیّد نذیرنیازی کے مطابق ، علّامہ مرحوم ترجمان القرآن بڑے غور سے پڑھا کرتے تھے۔دراصل علّامہ، معروف مؤرخ اکبر شاہ خان نجیب آبادی سے ہندستان میں مسئلہ جہاد کی تاریخ لکھوانا چاہتے تھے۔ (انواراقبال، مرتب: بشیراحمد ڈار، اقبال اکادمی، پاکستان، کراچی ۱۹۶۷ء، ص ۳۱۸)۔اب جو اُنھیں، الجہادفی الاسلام  پڑھنے یا پڑھوا کر سننے کا موقع ملا تو وہ سیّد مودودی سے بہت متاثر ہوئے۔ انھوں نے چودھری نیاز علی خاں سے کہا: [میں نے ترجمان القرآن] کے دو مضامین پڑھے ہیں۔ دین کے ساتھ ساتھ وہ [یعنی مولانا مودودی] مسائل حاضرہ پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ ان کی کتاب الجہادفی الاسلام مجھے بہت پسند آگئی ہے‘‘ (ہفت روزہ ایشیا، لاہور، مدیر: چودھری غلام جیلانی، ۷؍اپریل ۱۹۶۹ء)۔ ’’اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے معذرت خواہانہ لہجہ اختیار نہیں کیا بلکہ جنگ و جہاد کے متعلق اسلام کے جو نظریات ہیں، انھیں کسی تاویل یا تعبیر کے بغیر بڑے کرّوفر سے پیش کیا ہے‘‘ ( ہفت روزہ چٹان، لاہور، مدیر:آغا شورش کاشمیری، ۲۵؍اپریل ۱۹۵۴ء، بحوالہ اقبال اور مودودی،مرتبہ: ڈاکٹر سفیراختر، ص ۱۹)۔ چنانچہ انھوں نے چودھری نیاز علی خاں سے کہا: ’’آپ کیوں نہ انھیں دارالاسلام آنے کی دعوت دیں۔ میرا خیال ہے، وہ دعوت قبول کرلیں گے‘‘ ( ہفت روزہ ایشیا، ۱۷؍اپریل ۱۹۶۹ء)۔

مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں: ’’یہ مجھے بعد میں نذیر نیازی صاحب سے معلوم ہوا کہ علّامہ مرحوم ترجمان القرآن بڑے غور سے پڑھا کرتے تھے اور انھوں نے الجہاد فی الاسلام پڑھ کر سنی تھی (اقبال اور مودودی، ص۶۳)۔ یوں بقول چودھری نیاز علی خاں: ’’حضرتِ علّامہ کی    نظرِ جوہرشناس بھی سیّدصاحب پر جاپڑی‘‘۔ (صحیفہ ، اقبال نمبر،مدیر: ڈاکٹر وحید قریشی، مجلس ترقی ادب، لاہور، اکتوبر ۱۹۷۳ء)

خود علّامہ اقبال نے ادارے کی سربراہی کے لیے مولانا مودودی ؒ کا نام تجویز کیا۔ مولانا فرماتے ہیں:’’۱۹۳۷ء کے آغاز میں ان کا عنایت نامہ ملا کہ مَیں حیدرآباد کو چھوڑ کر پنجاب چلا آئوں‘‘ (سیارہ،اقبال نمبر، فروری ۱۹۷۸ء)۔ پھر چودھری نیاز علی خاں نے بھی مسلسل اصرار کیا اور  مولانا کو دعوت دی کہ وہ دکن سے ہجرت کرکے لاہور آجائیں۔ چنانچہ فروری مارچ ۱۹۳۷ء میں  مولانا مودودیؒ لاہورآئے اور جیساکہ اُوپر ذکر آچکا ہے کہ علّامہ اقبالؒ سے ملے اور دوتین نشستوں میں تفصیلی تبادلۂ خیالات ہوا۔ اگرچہ اس سے پہلے بھی مولانا مودودیؒ ،علّامہ اقبالؒ اور ان کی شاعری سے بخوبی واقف تھےاور فکری سطح پر بہت قربت محسوس کرتے تھے۔ اب اس قربت میں مزید اضافہ ہوگیا۔ مولانا مودودیؒ کہتے ہیں: ’’ان ملاقاتوں میں ایسا محسوس ہوا کہ جیسے میری اور  ان کی بہت پرانی واقفیت ہے اور ہم ایک دوسرے کےدل سے بہت قریب ہیں۔ یہاں میرے اور اُن کے درمیان یہ بات طے ہوگئی کہ میں پنجاب منتقل ہوجائوں اور پٹھان کوٹ کے قریب اس وقف کی عمارات میں، جس کا نام ہم نے بالاتفاق ’دارالاسلام‘ تجویز کیا تھا، ایک ادارہ قائم کروں، جہاں دینی تحقیقات اور تربیت کا کام کیا جائے‘‘(ایضاً)۔ بہرحال، ان ملاقاتوں کے بعد مولانا مودودی دکن کو چھوڑ کر پنجاب آنے کے لیے بالکل یکسو ہوگئے اور انھوں نے دکن سے ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا۔

لاہور سے واپس دکن پہنچے تو انھوں نے چودھری نیازعلی خاں کو جو خط لکھا، اس میں بتایا کہ میں نےیہاں پہنچتے ہی ہجرت کی تیاری شروع کردی ہے۔ اس کا ایک بڑا سبب یہ تھا کہ علّامہ اقبالؒ نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ اگر آپ یہاںآجائیں تو میں بھی ہرسال کچھ ہفتوں کے لیے یہاں آیا کروں گا۔ کچھ مشترکہ علمی منصوبے طے ہوئے تھے۔ اس کام کو وہ بلاتاخیر آگے بڑھانا چاہتےتھے۔ اس سلسلے میں مولانا مودودیؒ کا ایک خط ڈاکٹر سیّدظفرالحسنؒ (جوعلی گڑھ یونی ورسٹی میں شعبۂ فلسفہ کے پروفیسرتھے) کے نام لائقِ توجہ ہے، اس میں مولانانے یہ بتایا تھا کہ میرےاور علّامہ اقبالؒ کے درمیان کیا باتیں ہوئی تھیں۔ یہ خط اقبالؒ کی وفات کے بعد جون ۱۹۳۸ء میں لکھا گیا۔اس وقت تک ایک ادارہ ’دارالاسلام‘ کے نام سے قائم ہوچکا تھا، اور کچھ افرادِ کار اس سے منسلک تھے۔ ڈاکٹر سیّد ظفرالحسن نے بھی اس کی شوریٰ کی رکنیت قبول کرلی تھی۔ ان کے نام خط میں مولانا نے لکھا:

  • ’’آپ نے ہماری معنوی قوت میں بہت کچھ اضافہ کردیا ہے‘‘ اور پھر بتایا کہ ’’اکتوبر ۱۹۳۷ء میں خاص طور پر انھی مسائل پر بحث کرنے کے لیے مَیں علّامہ اقبالؒ سے لاہور میں ملاتھا… ان سے مفصل گفتگو ہوئی تھی۔ خوب غوروخوض کے بعد جس نتیجے پر پہنچے، وہ مختصراً مَیں یہاں عرض کرتا ہوں:
  • ’’حالات کی رفتار نے خود بخود مسلمانوں کو گھیر گھیر کر ایک اجتماعی ہیئت کی طرف لانا شروع کردیا ہے۔ہندستان کے مختلف حصوں میں ان کو جو پیہم ضربات لگ رہی ہیں، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہرطرف سے بھاگ بھاگ کر مسلم لیگ کی طرف آرہےہیں۔ اگرچہ ابھی تک ان میں ایک تنظیمی ہیئت پیدا نہیں ہوئی ہے، جو فکر اور وحدتِ عمل کا نتیجہ ہوتی ہے بلکہ درحقیقت ان کے سامنے اپنا نصب العین بھی واضح نہیں ہے۔مختلف خیالات، مختلف مقاصد اور مفادات اور خصائل رکھنے والے لوگ اس طرح جمع ہوگئے ہیں جیسے جنگل میں آگ لگنے پر مختلف گلے ہرطرف سے بھاگ کر ایک جگہ جمع ہوجاتے ہیں، تاہم یہ تنظیمی ہیئت پیدا کرنے کا ابتدائی مرحلہ ہے اور اس وقت کوئی الگ جھنڈا بلند کرنا، بجاے مفید ہونے کے، اس تالیفی عمل میں مانع ہوجائے گا جو کسی طرح مناسب نہیں ہے۔
  • ’’ مسلم لیگ کے مرکز پر جو طاقتیں جمع ہورہی ہیں، ان کے بنیادی نقائص کو دُور کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ ان کے تصورات میں جو ابہام اس وقت پایا جاتا ہے، اس کو دُور کیا جائے تاکہ واضح طور پر اس موجودہ پوزیشن کوسمجھ لیں اور اپنی ایک قومی غایت متعین کرلیں۔ یہ چیز جتنی زیادہ واضح ہوتی جائے گی، اتنی ہی تیزرفتاری کے ساتھ عامۃ المسلمین کا ترقی پسند اور اقدام پسند عنصر مسلم لیگ کی صفوں میں آگے بڑھتا جائے گا، اورخودغرض،نمایشی اور آرام طلب عناصر پیچھے رہ جائیں گے۔ اس کا ایک لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ مسلمانوں کے وہ تمام بے چین عناصر جو محض مسلم لیگ کی بے عملی سے بے زارہوکر مختلف راستوں پر بھٹک گئے ہیں، رفتہ رفتہ پلٹنے شروع ہوجائیں گے، اور تھوڑی مدت بھی نہ گزرے گی کہ یہ جماعت جمہور مسلمین کی ایک مرکزی جماعت بن جائے گی۔
  • ’’سردست ہم مسلم لیگ سے، اس سے بڑھ کر کوئی توقع نہیں کرسکتے کہ وہ موجودہ غیراسلامی نظامِ سیاست میں مسلمانوں کی قومی پوزیشن کو بیش از بیش محفوظ کرنے کی کوشش کرے گی۔ ہمارے لیے صحیح پالیسی یہ ہے کہ rear guard میں رہیں اور ایک طرف تو اپنے خیالات کی اشاعت سے مسلم لیگ کو بتدریج اپنے نصب العین کے قریب تر لانے کی کوشش کرتے رہیں اور دوسری طرف مردانِ کار کی ایسی طاقت ور جماعت تیار کرنے میں لگےرہیں جو دارالاسلام کی فکری بنیاد بھی مستحکم کرے اور اس مفکورے کو جامۂ عمل پہنانے کے لیے بھی مستعد ہو۔ جب تک یہ انقلابی جماعت میدان میں آنے کے لیے تیار ہوگی، اس وقت تک ان شاء اللہ میدان ہموار ہوچکا ہوگا کیونکہ انقلابی تصورات کی تبلیغ سے ہم پہلے ہی مسلمانوں کے کارکن اور کارفرما عناصر کو اپنے سے قریب تر لاچکے ہوں گے‘‘۔(مجلہ المعارف، مدیر: سراج منیر، ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور، اپریل ۱۹۸۵ء/ خطوطِ   مودودی، دوم، ص ۱۹۸-۲۰۴)

اس خط سے اندازہ ہوتا ہے کہ علّامہ اقبالؒ اور سیّد مودودیؒ کے درمیان بہت سے علمی مسائل اورفقہ اسلامی کی تشکیل کے منصوبے کے ساتھ دیگر موضوعات بھی زیربحث آئے ہوں گے اور اس وقت ہندستانی سیاست کا جو نقشہ مرتب ہورہا تھا، اس پربھی تبادلۂ خیال ہوا ہوگا۔

مولانا دکن سے ہجرت کرکے ۱۸مارچ ۱۹۳۸ء کو جمال پور (پٹھان کوٹ) پہنچے۔ایک نئی جگہ اور نئے مکان میں، اپنا سازوسامان اور متفرق معاملات ترتیب دے رہے تھے کہ نذیرنیازی نے ۱۸؍اپریل ۱۹۳۸ء کو لاہور سے انھیں ایک خط لکھا: ’’ڈاکٹرصاحب قبلہ کی حالت نہایت اندیش ناک ہے۔ ایک لمحے کا بھی بھروسا نہیں۔ بہتر یہی ہوگا کہ آپ جس قدر ہوسکے جلدی تشریف لے آئیں‘‘ (خطوطِ مودودی، دوم،ص ۱۹۰)۔ ڈاک سے خط۱۹ یا ۲۰؍اپریل کو پہنچا ہوگا۔  مولانا نے لاہور کا عزم کیا ہی تھا کہ اگلے روز خبرملی کہ ’علّامہ ۲۱؍اپریل کو فوت ہوگئے‘۔

مولانا مودودیؒ نے اقبال کی وفات پر اپنے دُکھ کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ اس کام کے لیے میں بالکل اکیلا رہ گیا ہوں جو ہم نے مل کر کرنے کا پروگرام بنایا تھا۔ اب معلوم نہیں وہ کس طرح سے ہوگا؟ نذیر نیازی کے نام ایک خط (مؤرخہ ۲۳؍اپریل ۱۹۳۸ء ) میں لکھتے ہیں:

  • علّامہ اقبال کے انتقال کی خبر پہنچی، دفعتاً دل بیٹھ گیا۔سب سے زیادہ رنج مجھے اس بناپر ہوا کہ کتنا قیمتی موقع میں نے کھو دیا… میں اس کو اپنی انتہائی بدنصیبی سمجھتا ہوں کہ اس شخص کی آخری زیارت سے محروم رہ گیا، جس کا مثل شاید اب ہماری آنکھیں نہ دیکھ سکیں گی‘‘۔(وثائق مودودی،ص ۹۶/خطوطِ مودودی، دوم، ص ۱۸۹)

اسی خط میں لکھتے ہیں کہ:

  • ’’کچھ خبر نہیں، اللہ کو کیا منظورہے۔ بظاہر تو ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ مسلمان قوم کو اس کی ناقدری اور نااہلی کی سزا دی جارہی ہے کہ اس کے بہترین آدمی عین اس وقت پر اُٹھا لیے جاتے ہیں، جب ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے ۔اب سارے ہندستان پر نگاہ ڈالتا ہوں تو کوئی ایک شخص بھی ایسا نظر نہیں آتا جس کی طرف ہدایت حاصل کرنے کے لیے رجوع کیا جاسکے۔ ہرطرف تاریکی چھائی ہوئی ہے، ایک شمع جو ٹمٹما رہی تھی، وہ بھی اُٹھا لی گئی۔
  • ’’مجھے جو چیز پنجاب کھینچ کر لائی تھی، وہ دراصل اقبالؒ ہی کی ذات تھی۔ میں اس خیال سے یہاں آیا تھا کہ ان سے قریب رہ کر ہدایت حاصل کروں گا اور ان کی رہنمائی میں جو کچھ مجھ سے ہوسکے گا، اسلام اورمسلمانوں کے لیے کروں گا۔ اب میں ایسامحسوس کررہاہوں کہ اس طوفانی سمندر میں، میں بالکل تنہا رہ گیا ہوں، دل شکستگی اپنی آخری انتہا کو پہنچ گئی ہے۔ صرف اس خیال سے اپنے دل کوڈھارس دےرہا ہوں کہ اقبالؒ مرگئے تو کیا ہوا، خدا تو موجود ہے، سب مرجانے والے ہیں، زندہ رہنے والا وہی حی و قیوم ہے، اوراگر وہ تجھ سے کوئی کام لینا چاہے گا تو تیری مدد کے لیے اورکچھ سامان کرے گا‘‘۔ (خطوطِ مودودی، دوم، ص ۱۸۹- ۱۹۱)

 علّامہ اقبال کی وفات کے بعد مولانا مودودیؒ نے جس تحریکِ اسلامی کا احیا کیا، وہ رفتہ رفتہ پھیلتی گئی۔ اس کی توسیع و ترقی، کامیابی اورفروغ میں کلامِ اقبالؒ کی فکری راہ نمائی کا بھی بڑادخل ہے۔

حیاتِ اقبال کے آخری دنوں کی معروف رباعی ہے:

سُرودِ رفتہ باز آید کہ ناید؟
نسیمے از حجاز آید کہ ناید؟

سرآمد روزگارِ ایں فقیرے
دگر داناے راز آید کہ ناید؟

(اب گذشتہ سُرود واپس آئے یا نہ آئے؟ حجاز کی طرف سے ٹھنڈی ہوا چلے نہ چلے؟ اس فقیر [اقبال] کی زندگی تو ختم ہوئی، اب کوئی اور راز آشنا آئے یا نہ آئے؟)

بعض اصحاب کا خیال ہے اور بجا ہے کہ ’دگر داناے راز‘ کا مصداق سیّدابوالاعلیٰ مودودی ہیں۔ چنانچہ رزمی امروہوی ’مردِ امروز‘ کے عنوان سے اپنی ایک نظم میں کہتے ہیں:

روحِ اقبال از برائش مے تپید
آں دگر داناے راز آمد پدید

چشم حق بیں اندریں عصرِ جدید
ہم سرِ سیّد ابوالاعلیٰ ندید

(اقبال کی روح اس کے لیے تڑپتی تھی، ایک دوسرا داناے راز وجود میں آئے۔ حق بیں آنکھ [لوگوں] نے دورِحاضر میں سیّدابوالاعلیٰ مودودی جیسے مقام و مرتبے والا کوئی اور شخص نہیں دیکھا)

(ماہ نامہ چراغ راہ  ، کراچی، اکتوبر و نومبر ۱۹۵۳ء،ص۴۵)

 جماعت اسلامی کے علاوہ بیسویں صدی میں جو اسلامی تحریکیں دوسرے ممالک میںبرپا ہوئی ہیں اور پھر عالمِ اسلام میں بیداری کی جو لہریںپیدا ہوئیں (تاحال آخری: عرب بہار)، ان میں مولانا مودودیؒ اورعلّامہ اقبالؒ دونوں کا بڑا اثر ہے۔ عربوں میں حسن البنا اور سیّد قطب۔  انقلابِ ایران میں آیت اللہ خمینی اور علّامہ اقبالؒ کی شاعری اورسیّد مودودیؒ کی نثر کے اثرات کا خود ایرانی دانش ور اور علما اعتراف کرتے ہیں۔ اسی طرح وسطی ایشیا کے مسلم ملکوں میں مجاہدین افغانستان اور اسلامی بیداری میں اقبال کے فارسی کلام (تیز ترک گامزن ، منزلِ ما دور نیست) اور سیّد مودودی کے تراجم کے اثرات بھی برگ و بار لائے۔

 اسلامی بیداری کی یہ صورتِ حال دونوں اکابر کی توقعات کے عین مطابق ہے۔ اِس وقت ’گیا دورِ گراں خوابی‘ کے بعد ’اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے،اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے‘ کی سی کیفیت ہے۔ مجموعی طور پر علّامہ اقبالؒ اور سیّد مودودیؒ، دونوں عالمِ اسلام کی بیداری اور تجدید و احیاے دین کے بارے میں بہت پُراُمید تھے۔ علّامہ اقبالؒ ، چودھری محمدحسین کے نام ۲؍اکتوبر ۱۹۲۲ء کے خط میں لکھتے ہیں: ’’اسلام، خلفا کے زمانے کی طرف آرہا ہے۔ خدا نےچاہا تو خلافت ِ اسلامیہ اپنے اصل رنگ میں عنقریب نظرآئے گی‘‘ (چودھری محمد حسین اور علّامہ اقبال، تحقیقی مقالہ ایم اے اُردو، ثاقف نفیس، ۱۹۸۴ء، ص ۶۵)۔ اسی طرح نورحسین کو ۱۷مارچ ۱۹۳۷ء کے خط میں لکھتے ہیں : ’’گذشتہ دس پندرہ سال میں کئی لوگوں نے مجھ سے ذکر کیا ہے کہ انھوں نے حضورِرسالت مآبؐ کو جلالی رنگ میں یا سپاہیانہ لباس میں خواب میں دیکھا ہے۔ میرے خیال میں یہ علامت احیاےاسلام کی ہے‘‘۔(انواراقبالاز بشیراحمد ڈار، ص ۲۱۶)

اس طرح کی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیداری کی لہراور احیاے اسلام کی تحریکوں کا برپا ہونا علّامہ اقبالؒ کی بصیرت میں موجود تھا اوروہ اس معاملے میں بڑے پُرامید تھے۔ سیّدمودودی نے بھی ایک موقعے پر کہا تھا: ’’جس طرح یہ بات یقینی ہے کہ کل صبح سورج مشرق سے طلوع ہوگا، بالکل اسی طرح مجھے یقین ہے کہ پاکستان میں اسلامی نظام غالب آئے گا‘‘۔ بہرحال، ’’اقبال کی فکری تحریک سے مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی نے احیاے اسلام کےکام کو آگے بڑھایا‘‘ (ڈاکٹرممتاز احمد، فنون لاہور، مدیر: احمد ندیم قاسمی، بحوالہ: اوراقِ گم گشتہ از پروفیسر رحیم بخش شاہین، ص ۸۷)۔

جب بھی ہم مولانا مودودیؒ کی فکرپر گفتگو یا بحث کرتے ہیں تو ہمیں یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ فکرمودودیؒ دراصل فکر ِ اقبالؒ ہی کا تسلسل اور اس کی توسیع ہے، اور جیساکہ اُوپر ذکر آچکا ہے، مختلف ممالک کی اسلامی تحریکوں کی پیش رفت میں اقبال اور سیّد مودودی دونوں کے اثرات کارفرما ہیں۔علّامہ اقبالؒ نے بجاطور پر کہا تھا :

وقت ِفرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نُورِ توحید کا اِتمام ابھی باقی ہے

یہ اُن دنوں کی بات ہے جب راقم سیّد مودودی ؒکی تصانیف و تالیفات کی وضاحتی فہرست تیار کر رہا تھا (یہ ’کتابیاتِ مودودی: ایک مطالعہ‘ کے عنوان سے تذکرۂ سیّد مودودی، سوم میں  شامل ہے اور الگ سے بھی شائع ہوئی)۔ اسی سلسلے میں تفہیم القرآن کے مختلف ایڈیشنوں کی تلاش تھی۔ ایک دن معلوم ہوا کہ ملک غلام علی صاحب کے کمرے میں تفہیم القرآن کے چند پرانے ایڈیشن رکھے ہوئے ہیں۔ اس لیے اِن اشاعتوں کے سنین و دیگر کوائف نوٹ کرنے وہاں چلا گیا۔ ملک صاحب کام میں مصروف تھے۔ معذرت چاہی اور مدّعا بیان کیا۔ انھوں نے اجازت دی۔ میں نے الماری سے تفہیم  کے نسخے نکالے اور دیکھنے لگا۔

 اسی دوران تفہیم سے ملک صاحب کا ذہن محمد فواد عبدالباقی [فروری ۱۸۸۲ء- فروری ۱۹۶۸ء] کے مرتب کردہ اشاریۂ قرآن المعجم المفھرس کی طرف منتقل ہوگیا۔ فرمایا: ’’مولانا محترم، ارض القرآن کے سفر پر گئے تو مصر سے میرے لیے قرآنِ پاک کا انڈکس لائے۔ محمدفواد عبدالباقی کا یہ انڈکس یہاں دستیاب نہ تھا۔ ابھی تک میرے پاس محفوظ ہے۔ یہ بڑا قیمتی تحفہ تھا، میرے لیے‘‘۔ یہ ۱۳۷۸ھ کا مطبوعہ نسخہ تھا۔ مولانا نے اسے ملک صاحب کو ان الفاظ میں ہدیہ کیا تھا:

ہدیہ برائے غلام علی صاحب، جو بلادِ عرب کے سفر کے دوران میں اُن کے لیے مصر سے خرید کیا گیا۔

ابوالاعلیٰ

۱۱جولائی ۶۰ء

مولانا کی مندرجہ بالا تحریر کے نیچے، ملک صاحب نے حسب ذیل عبارت رقم کی تھی:

بسم اللہ ہو الباقی

آج ۲۹ شوال ۹۹ھ (۲۲ستمبر ۱۹۷۹ء) کو صاحب ِہدیہ بان، میرے مرشد مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی انتقال فرما گئے بوقت ِشام مغرب و عشاء کے درمیان۔

اِنَّـا لِلّٰہِ    وَ  اِنَّـا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ ۝

تَغَمَّدَ اللہُ   بِغُفْرَانٍ   وَسَقٰی ضَرِیْحَہٗ   بِصَیِّبِ  الرِّضْوَانِ ۝

وہ جو بیچتے دیتے تھے دوائے دل، وہ دکان اپنی بڑھا گئے۔

غم زدہ عاجز
غلام علی

میں نے عرض کیا: ملک صاحب آپ کا خط ِتحریر مولانا کے خط سے خاصا مماثل ہے۔

ملک صاحب کہنے لگے: ’’جی ہاں، ابتدا میں، جب میں نے مولانا کے ساتھ کام کرنا شروع کیا تو میرا خط کچا تھا۔ میں جو کچھ لکھتا تھا، وہ بہت بدخط ہوتا تھا۔ میں نے کوشش سے اپنا خط بہتر بنایا ہے‘‘۔

قدرے توقّف سے فرمایا: ’’میرا خط بھی ٹھیک ہوگیا اور رفتہ رفتہ یہ ہوا کہ میری تحریر اور عبارت پر لوگوں کو یہ گمان گزرتا کہ مولانا کی ہے‘‘۔پھر کہنے لگے: ’’ایک بار مولانا نے فرمایا تھا: ’’اب تمھاری تحریر ایسی ہوگئی ہے کہ میں پڑھتا ہوں تو سمجھتا ہوں کہ میری تحریر ہے‘‘۔

بقول محترم میاں طفیل محمد: ’’مولانا غلام علی مرحوم و مغفور ہمارے مرشد و راہ نما سیّدابوالاعلیٰ مودودی کا ہرپہلو سے عکس اور نمونہ تھے‘‘۔

نام وَر اخبار نویس مصطفےٰ صادق صاحب [۱۹۲۶ء-۲۱نومبر ۲۰۱۱ء]کو سفروحضر میں   ملک صاحب کے ساتھ ایک عرصہ گزارنے کا موقع ملا۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ملک غلام علی کے کردار، ان کی سیرت اور ان کی شخصیت، حتیٰ کہ اُن کی علمیّت پر مولانا مودودی کی گہری چھاپ تھی‘‘ (روزنامہ جسارت ، کراچی، ۸؍اکتوبر ۱۹۹۴ء)۔ یقینا اس لیے کہ ملک صاحب، سیّد مودودی کے فیض یافتہ تھے، جنھوں نے ایک طویل عرصہ مولانا مودودی  کی صحبت اُٹھائی تھی۔

خلافت و ملوکیت پر اعتراضات کا جائزہ کے حوالے سے مولانا نے فرمایا:’’تم نے بڑی محنت کی ہے۔ ایسے حوالے تلاش کیے ہیں کہ مَیں بھی نہیں کرسکتا تھا‘‘۔

ملک صاحب نے فرمایا: ’’ہمارے ایک کاتب تھے، محمد صدیق صاحب ایک مرتبہ کہنے لگے کہ بعض اہلِ حدیث حضرات نے یہ کہنا شروع کیا ہے کہ مودودی صاحب خود لکھتے ہیں اور نام دوسروں کا دے دیتے ہیں___ تو میں نے کہا کہ میں ترجمان کا کاتب ہوں، اور مضامین خود لاتا ہوں، وہ مولانا کا نہیں بلکہ ملک غلام علی کا لکھا ہوا ہوتا ہے۔ خط ملتا جلتا ہے، اس لیے شبہہ پڑتا ہے‘‘۔

گفتگو جاری رکھتے ہوئے ملک صاحب نے بتایا: ’’بس جی، بات یہ ہے کہ یہ سب انھی کی صحبت کا نتیجہ ہے۔ شیخ سعدی نے گلستان میں کہا ہے:

گلے خوشبوے در حمام روزے
رسید از دستِ محبوبے بدستم
بدو گفتم کہ مشکی یاعبیری
کہ از بوے دلآویزے تو مستم
بگفتا من گلِ ناچیز بودم
و لیکن مدّتے با گل نشستم
جمالِ ہم نشیں در من اثر کرد
وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم

یہ مولانا مودودی کی صحبت کا فیضان ہے ___ یہ ’فیضان‘ والی بات اپنی جگہ بڑی اہم ہے۔ اقبال نے کہا ہے:

یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیلؑ کو آدابِ فرزندی

کچھ رُک کر مولانا روم کا یہ شعر سنایا:

مولوی ہرگز نہ شُد مولائے رُوم
تا غلامِ شمسِ تبریز نہ شُد

پھر ایک سرد آہ بھر کر کہا: ’’تو یہ فیضان والی بات اہم ہے___ مگر وہ بات اب کہاں‘‘۔

میں خاموشی سے سُن رہا تھا ___ ملک صاحب کو جیسے کچھ یاد آگیا۔ کہنے لگے:

’’مکہ معظمہ میں فقہ کانفرنس ہونے والی تھی۔ مولانا کو دعوت نامہ آیا مگر ان کی صحت اچھی نہیں تھی۔ انھوں نے شرکت کے لیے مجھے بھیجا۔ یہ کانفرنس حج کے دنوں میں ہورہی تھی۔ میں گیا تو اس طرح مجھے حج کا موقع بھی مل گیا___ ‘‘

وفاقی شرعی عدالت کی ججی کا موضوع چھڑ گیا۔

فرمایا: ’’یہ بھی مولانا کی وجہ سے ہے___ ایک روز صدرمحمد ضیاء الحق [م: ۱۷؍اگست ۱۹۸۸ء] کا فون آیا کہ وفاقی شرعی عدالت کے لیے تین ججوں کی ضرورت ہے۔ دو تو مَیں منتخب کرچکا ہوں اور تیسرا نام تمھارا دیا گیا ہے۔ میں نے پوچھا کہ کن لوگوں کا انتخاب کیا ہے توضیاء الحق صاحب نے بتایا کہ ایک تو مولانا محمدتقی عثمانی صاحب اور دوسرے ___ ‘‘ [راقم نام بھول گیا ہے] خیر، میں نے کہا: ’’یہ تو آپ نے بہت اچھا انتخاب کیا ہے___ مگر میرا تو قانون کا کوئی تجربہ نہیں ہے اور میں عالم بھی نہیں ہوں، پھر مجھ سے کچھ زیادہ کام بھی نہیں ہوتا‘‘۔

ملک صاحب کے پاس بی اے کی ڈگری بھی نہ تھی۔ یہ بہت معروف قصّہ ہے، جو ملک صاحب کی زندگی میں سب سے اہم ڈرامائی تبدیلی تھی۔ ۱۹۳۹ء میں جب وہ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ، لاہور میں بی اے کے آخری سال میں تھے۔ پرنسپل(غالباً ایم اے غنی) نے سیّدمودودی کو کالج میں اسلامیات کی تدریس کی دعوت دی۔ حبیبہ ہال میں سیّد صاحب کے لیکچروں نے متعدد طلبہ (بشیر آزری، جیلانی بی اے، شیخ فقیرحسین، بشیراحمد ساجد) کو متاثر کیا بلکہ چونکا دیا مگر ملک صاحب کہتے ہیں کہ مولانا کی ایک آدھ تقریر سن کر ہی میں تو دل دے بیٹھا۔ انھوں نے سیّد صاحب کی تحریریں پڑھ کر بی اے کو ادھورا چھوڑا۔ ان کے اساتذہ ڈاکٹر سعید اللہ اور پروفیسر حمیداحمد خاں مرحوم نے انھیں سمجھایا، مگر وہ اپنے فیصلے پر قائم رہے، اور حینِ حیات مولانا اور جماعت سے وابستہ رہے۔

جملہ معترضہ قدرے طویل ہوگیا۔ ملک صاحب سے گفتگو کی طرف پلٹتے ہیں۔ ’’صدر ضیاء الحق صاحب اصرار کرنے لگے، تو مَیں نے کہا: اچھا، اس سلسلے میں مشورہ کرتا ہوں___ ساتھ ہی صدرصاحب سے یہ بھی کہا کہ آپ نے عائلی قوانین کی اصلاح نہیں کی___ وہ ہنس کرکہنے لگے: آہستہ آہستہ ہوجائے گا ___ یہ ’اپوا‘ والی عورتیں شور مچاتی ہیں___ اور آپ انکار کرتے ہیں‘‘۔

اب مولانا مرحوم کے آخری دور کا ذکر ہوا۔ ملک صاحب نے بتایا:

’’مولانا علاج کے سلسلے میں امریکا میں تھے۔ میں نے انھیں خط لکھا کہ مولانا، میں نے کافی عرصے تک آپ کے ساتھ کام کیا ہے۔ میرے کام میں جو کوتاہی ہوئی ہو یا کمی رہ گئی ہو، براہِ کرم درگزر فرمایئے اور مجھے بتا دیجیے کہ آپ مجھ سے خوش ہیں۔ مولانا کا جواب آیا، جس میں انھوں نے مجھ سے حُسنِ ظن کا اظہار کیا، حالانکہ میں اس کا مستحق تو نہیں تھا۔ بہرحال، مولانا نے لکھا: ’’مجھے تم سے جو محبت ہے، تم اس کا اندازہ ہی نہیں کرسکتے۔ اور اس طرح کی باتیں تھیں‘‘___

’’وہ خط آپ کے پاس محفوظ ہے؟‘‘ میں نے بڑے اشتیاق سے پوچھا۔

ملک صاحب نے فرمایا: ’’نہیں، وہ خط ملتے ہی میں نے ضائع کر دیا تھا‘‘۔

پھر فرمایا: ’’بس یہ اُن کا فیض ہے___ انھوں نے دین کی بڑی خدمت کی ، علمی اور عملی ہرلحاظ سے‘‘۔

اس نشست کے آخر میں عرض کیا: ’’ملک صاحب! میں نے آپ کا کافی وقت لیا ہے‘‘۔

ملک غلام علی صاحب نے جواب میں یہ شعر پڑھا اور گفتگو ختم ہوگئی :

غنیمت جان رَل مِل بیٹھنے کو
جدائی کی گھڑی سر پر کھڑی ہے


راقم نے ملک غلام علی صاحب کو سب سے پہلے ۱۹۶۲ء-۱۹۶۳ء میں دیکھا۔ اس زمانے میں ہم سرگودھا میں رہتے تھے۔ وہ اپنے گائوں کی سیاست کے حوالے سے ایک جھوٹے مقدمے میں ماخوذ ہوگئے تھے۔ مقدمہ سرگودھا کی عدالت میں چل رہا تھا۔ملک صاحب کو ہرپیشی پر لاہور سے سرگودھا آنا پڑتا۔ پیشی کے دن سے ایک روز پہلے شام کو وہ پبلک ٹرانسپورٹ پر سرگودھا آجاتے اور شب میں ہمارے ہاں، میرے والد صاحب کے کمرے میں قیام کرتے۔ صبح ناشتہ کرکے عدالت پہنچتے اور پیشی بھگتا کر اُسی روز واپس لاہور چلے جاتے۔کئی ماہ یا سال دو سال کی پیشیوں کے بعد، ایک روز وہ عدالت سے لوٹے تو یہ خوش خبری سنائی کہ مقدمہ خارج ہوگیا اور وہ بَری ہوگئے۔

عام طور پر لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ ملک صاحب کچھ عرصہ دعوتی اور تنظیمی فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ قیامِ پاکستان کے چند سال بعد وہ جماعت اسلامی حلقۂ لاہور کے قائم مقام امیر منتخب ہوئے اور مصطفیٰ صادق صاحب قیم تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ حلقۂ لاہور صرف لاہور شہر تک محدود نہ تھا، بلکہ پتوکی، چونیاں، قصور، للیانی اور بعض دوسرے قصبات بھی اس میں شامل تھے۔ قصبات کے ساتھ ملحقہ گائوں بھی۔ ہم دعوتی کاموں کے سلسلے میں گلی گلی اور قریہ قریہ جاتے۔ ملک صاحب درسِ قرآن و حدیث دیتے۔ کسی طرح کی سواری ہمارے پاس نہیں تھی، اس لیے سفر ہم بسوں میں کیا کرتے۔

جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی دفاتر، ۱۹۷۵ء میں اچھرہ سے منصورہ منتقل ہوگئے۔ عملے کے لیے چند مکانات بھی تعمیر ہوچکے تھے۔ ملک صاحب بھی اچھرہ سے منصورہ کے ایک کوارٹر میں منتقل ہوگئے۔ ملک صاحب مولانا کے معاونِ خصوصی تھے، اس لیے چند برس تک اچھرہ جاتے رہے، لیکن جب طبیعت زیادہ خراب ہوگئی تو پھر منصورہ ہی سے اپنی ذمہ داری ادا کرتے رہے۔

۸۰ء کے عشرے میں ملک صاحب وفاقی شرعی عدالت کے جج بن کر اسلام آباد چلے گئے، اور تقریباً چار سال تک خدمات انجام دیں۔ اس دوران میں وقتاً فوقتاً لاہور آتے، ملاقات ہوجاتی۔ ۱۹۸۵ء میں ججی سے سبک دوش ہوکر لاہور آگئے۔ اور ادارہ معارف اسلامی، منصورہ کے ایک کمرے میں بیٹھ کر کام کرنے لگے۔

شوگرکے مرض نے ان کی صحت کو بُری طرح متاثر کر دیا تھا۔ چلنا بھی دشوار ہوگیا۔ اس کے باوجود حسب ِ توفیق کچھ نہ کچھ چل لیتے اور کسی نہ کسی طرح ادارے میں پہنچ جاتے۔ آخری زمانے میں نماز کے لیے مسجد نہ آسکتے تھے۔ ایک دوبار ان کے بیٹے ملک ابراہیم صاحب ، والدماجد کو ویل چیئر پر نمازِ جمعہ پڑھوانے کے لیے لائے۔ ۲۶ستمبر ۱۹۹۴ء کو اپنے ربّ سے جاملے___ اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے، آمین!

ہمارے آج کے دانش وروں،خصوصاً’روشن خیال‘ دانش وروں کویہ بات مان لینی چاہیے کہ پوری بیسویں صدی میں اقبال سے بڑا کوئی صاحب ِدانش نہیں تھا،اوردانش حاضر اور اس کی گہرائیوں اور پیچیدگیوں سے بھی ان سے بڑھ کر کوئی واقف نہ تھا۔

اقبال کے ہاں’عقل‘اور’دانش‘مترادف کے طور پر بھی استعمال ہوتے ہیں اورعقل کے کچھ محدودسے فوائد بھی علامہ نے بتائے ہیں، مگراس مضمون میں’دانشِ حاضر‘کی ترکیب اُس دانش اور عقل عیار کے معنی ومفہوم میں استعمال کی گئی ہے، جس کے بارے میں اقبال نے کہا تھا:

تو اے مولائے یثرب آپ میری چارہ سازی کر
مری دانش ہے افرنگی ، مرا ایماں ہے زُنّاری

یا    ؎

خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف

دانشِ حاضر کی ترکیب تو اقبال نے دوچار جگہ ہی استعمال کی ہے مگرزمانۂ حاضر،تہذیب حاضر،علم حاضر،دورِحاضر،دانشِ فرنگ،سرمۂ افرنگ،عقلِ ذوفنوں،فکرِخداداد ،فلسفہ وحکمت اور آزادیِ افکارجیسی تراکیب اورخرد،خبر،علم ،ظن،تخمین عقل،دانش اور فرنگ جیسے الفاظ ان کے ہاں بکثرت ملتے ہیں۔ اگر ہم اس طرح کے اشعار کونگاہ میں رکھیں:

برا نہ مان ذرا آزما کے دیکھ
فرنگ دل کی خرابی ، خرد کی معموری

______

نہ کر افرنگ کا اندازہ اس کی تابناکی سے
کہ بجلی کے چراغوں سے ہے اس جوہر کی بَرّاقی

______

ڈھونڈھ رہا ہے فرنگ ، عیشِ جہاں کا دوام
وائے تمنائے خام ، وائے تمنائے خام

تو اندازہ ہوگا کہ وہ اُس تہذیب،طرزِعمل اور فکر سے بے اطمینانی اور بے زاری کااظہارکررہے ہیں جو عقل پرستی کی بنیاد پروجود میںآنے والی دانش حاضر کاشاخسانہ ہے اور جس کے بارے میں علامہ نے کہا:

عذاب دانشِ حاضر سے باخبر ہوں میں
کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثلِ خلیل

صرف اقبال ہی نہیں،عہداقبال کاہرشخص دانشِ حاضر کے عذاب سے باخبر تھا بلکہ مابعدِ اقبال عہد کی دنیا بھی اس عذاب کوبھگت رہی ہے اور جانے کب تک اس عذاب کی آگ میں جلتی رہے گی۔

دانشِ حاضر چالاکی وعیاری،مکاری وفریب کاری،پُرکاری وسخن سازی اورچرب زبانی میں اپنی مثال آپ ہے۔ عہدحاضر میں دانشِ حاضر نے ساحرالموط کی سی حیثیت اختیارکرلی ہے۔ جو لوگ اس کے فریب میں آجاتے ہیں اور اس کے جال میں گرفتارہوجاتے ہیں، عہدِجدیدکا یہ ساحران کے سامنے ایسے حسین وجمیل،چمکنے دمکنے اور نظر کو خیرہ کرنے والے بت تراش دیتا ہے کہ نوگرفتار، ان کی چکاچوند کے سامنے بے اختیارسجدہ ریز ہوجاتے ہیں۔ان بتوں میں چھوٹے بڑے، مختلف شکل وصورت کے اورکئی قسموں کے بہت سے بت شامل ہیں، مثلاً:

  • وطنیت اور قوم پرستی کا بت
  • دین وسیاست کی مغائرت کا بت
  • عقیدوں،روایات اوراقدارمیں تشکیک اوران سے بغاوت کابت
  • ماد ہ پرستی اورفلزات پرستی کابت
  • ملحدانہ سوشلزم کابت
  • عوام کی حاکمیت کابت
  • آزادیِ افکارکابت
  • مردوزن کی مساوات اورنام نہاد آزادی نسواںکابت،وغیرہ۔

یہ سب معبودانِ فرنگی اُسی دانش حاضرکے تراشیدہ ہیںاور،میں بڑی معذرت کے ساتھ عرض کررہاہوں کہ ہمارے بہت سے پاکستان ہی کے نہیں،مسلم دنیا کے دانش وربھی( ادیب ،صحافی خصوصاًکالم نگار،قلم کار،اساتذہ اورایک نئی مخلوق جسے ’اینکرپرسن‘کانام دیاجاتاہے،یہ سب)، اِلّاماشاء اللہ اسی دانش حاضرکے پھندے میں گرفتارہیں اور انھی معبودان فرنگی کے سامنے سجدہ ریز ہیں، جن سے بچنے کاعلامہ اقبال نے مشورہ دیاتھااوران سے ہوشیار رہنے کی تنبیہ بھی کی تھی مگر  دانشِ حاضرکے بیچارے یہ نوگرفتار سمجھتے ہیں کہ ’وحیِ ولایت‘ کے ہرہرحرف پر آمنّاوصدّقنا       کہنا ہی زندگی میں کامیابی کی کلید ہے۔ یہاںمشکل تویہ ہے کہ جن کی تعریف میں ہمارے دانش وَر رطب اللّساں ہیں،ان میں سے کسی ایک بت نے بھی بنی نوع انسان کی مسیحائی نہیں کی بلکہ اس کے برعکس سو سو طرح سے مرنے والی مخلوقِ خداکوہمیشہ بے اطمینانی اوربے حضوری اور بے یقینی اور محرومی ہی سے دوچارکیاہے۔دانش حاضرکے زائیدہ تما م فلسفوں، اِزموں، بتوں اورمعبودوں نے انسان کے اعتماد …خداپرایمان، کائنات پر یقین، کسی مذہب پر(یعنی زندگی بسرکرنے کے لیے کسی ضابطے، راستے اورعقیدے پر)ایمان،اورانسان کاخوداپنے اوپریقین اوراعتماد…دانش حاضر نے ان سب کوٹھیس پہنچائی ہے،کمزورکیاہے اورانسان کوتشکیک اور تذبذب میں مبتلاکیاہے۔

علامہ فرماتے ہیں:

علمِ حاضر پیشِ آفل در سجود
شک بیفزود و یقیں از دل ربود

 اور اسی لیے عصر حاضر کاانسان’’بوعلی اندرغبارناقہ گم‘‘کی سی کیفیت سے دوچار ہے۔

علامہ اقبال نہایت دیانت داری سے سمجھتے تھے کہ دانش حاضر نہ صرف خودگم کردہ راہ ہے بلکہ گمراہی پھیلاتی بھی ہے اور اس نے ایک دنیا کو راہِ راست سے بھٹکایاہے۔اس گمراہی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دانش ِحاضر فیضانِ سماوی سے محروم ہے۔ اس نے مشرقی اقوام پر مغربی استعمار کی سامراجی گرفت کو مضبوط ترکرنے کانامسعودکارنامہ سرانجام دیاہے۔علامہ اقبال کے نزدیک دانش حاضرکے ڈانڈے ابلیس سے ملتے ہیں:

گو فکرِ خداداد سے روشن ہے زمانہ
آزادیِ افکار ہے ابلیس کی ایجاد

ابلیس کے علاوہ دوسری ہستی میکاولی کی ہے جسے دانش حاضر نے اپنا مرشد بنارکھاہے۔اس ابلیسیت اورمیکاولیت کی بنیاد پر دانش حاضرنے جو گل کھلائے،ہم اقبال کی وفات کے پون صدی بعدبھی اس کے ’’فیوض وبرکات‘‘کی زدسے باہر نہیں نکل سکے۔عہدحاضرمیںآزادی فکر،آزادی نسواں،مساوات مردوزن،رواداری،دوستی ، روشن خیالی اورنظریہ پاکستان کے مفہوم کے ازسرنوتعین کے سلسلے میں سیکولرزم پراصراراورایک خاص مفہوم اورپس منظر میں’عوام کی عدالت ‘کواسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستوراوراس کی مقننہ اورعدلیہ سے بھی بالاترقراردینے کانعرہ ۔ یہ سب جیساکہ اُوپرعرض کیاگیا،دانش حاضرکے زائیدہ مسائل اور امراض ہیں۔عہداقبال میں بھی یہ سب موجود تھے اور علامہ کو ان کاپوراادراک تھا۔اس کے بعض پہلوؤں کا اظہار انھوںنے ’بالِ جبریل‘ کی نظم’’لینن‘‘میں کیاہے۔ چنداشعارملاحظہ فرمائیے:

یورپ میں بہت روشنیِ علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمۂ حیواں ہے یہ ظلمات
رعنائیِ تعمیر میں ، رونق میں ، صفا میں
گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات
ظاہر میں تجارت ہے ، حقیقت میں جوا ہے
سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات
یہ علم ، یہ حکمت ، یہ تدبر ، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو ، دیتے ہیں تعلیم مساوات
بیکاری و عریانی و مے خواری و اِفلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات

 فرنگی مدنیت کی فتوحات کی پوری فہرست بہت طویل ہے ۔جنسی بے راہ روی نے کنواری ماؤں، ناجائزبچوںاورشادی کے رجحان میں بتدریج کمی کی منازل سے گزر کرفرنگی معاشرے کوخاندانی اکائی سے محروم اورخاندانی نظام کی تباہی سے دوچار کردیا ہے اوراب دانش حاضرہم جنس پرستی پر مصر ہے۔ جب دانشِ حاضر نے عالم انسانی کو اتنی ساری مہلک بیماریوں میں مبتلاکردیاتو انسانیت کیسے پنپ سکتی ہے۔ اقبال نے خطبات میںایک جگہ کہاہے:

Believe me, Europe to-day is the greatest hindrance in the way of man's ethical advancement

خیر،یہ توفرنگی مدنیت کاایک پہلوہے۔اس کاسب سے روشن اورقابل قدرچہرہ تو’’یہ علم ،یہ حکمت،یہ تدبر،یہ حکومت‘‘قراردیاجاتاتھا مگر اب مغرب کا علم و ہنر،تعلیم وتعلم،حکمت وحکومت اورتدبروتفکر وغیرہ سب کچھ دانش حاضر سے مسموم ہوچکاہے۔اب علم’تخمین وظن‘ اور ’سراپاحجاب‘  بن چکاہے۔اقبال نے اس ظلمات اوران فتنوں سے باخبررہنے کی تلقین کی ہے۔

اے مسلماناں ! فغاں از فتنہ ہائے علم و فن
اہرمن اندر جہاں ارزاں و یزداں دیریاب

خیال رہے کہ دانش حاضرکی زائیدہ بہت سی بیماریوں میں سے روشن خیالی کی بیماری، ہمارے ایک طبقے کوعہداقبال ہی سے لاحق ہوچکی تھی۔پنڈت نہروکے ساتھ قادیانیت کے مسئلے پرقلمی مناقشے میں ایک جگہ اقبال نے لکھاہے:

The so-called "enlightened" Muslim has seldom made an attempt to understand  the real cultural significance of the idea of Finality in Islam and a process of slow and imperceptible Westernisation has further deprived him even of the instinct  of self-preservation.

یہself-preservationسے محرومی کیاہے؟ اس کی وضاحت علامہ نے مثنوی’پس چہ باید کرداے اقوامِ شرق‘ میں بایں الفاظ کی ہے:

اے تہی از ذوق و شوق و سوز و درد
می شناسی عصرِ ما با ما چہ کرد
عصرِ ما ما را زِ ما بیگانہ کرد
از جمالِ مصطفیٰؐ بیگانہ کرد
سوزِ او تا از میانِ سینہ رفت
جوہرِ آئینہ از آئینہ رفت
باطنِ ایں عصر را نشناختی
داوِ اوّل خویش را درباختی

علّامہ نے صرف تشخیصِ مرض ہی پر اکتفا نہیںکیا،دانش حاضر کی اس بیماری کا علاج بھی بتایاہے اوروہ ہے:   ع

اندر ایں کشور مقامِ خود شناس

پھروہ کہتے ہیں کہ یہ خودشناسی لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہَ کی طرف مراجعت ہی سے ممکن ہے اوریہی دانش حاضرکے زہرکاتریاق ہے۔اسی مثنوی میں ایک جگہ کہتے ہیں:

نکتۂ می گویم از مردانِ حال
اُمتاں را لا جلال اِلَّا جمال
لا و اِلَّا احتسابِ کائنات
لا و اِلَّا فتحِ بابِ کائنات
ہر دو تقدیرِ جہانِ کاف و نوں
حرکت از لا زاید از اِلَّا سکوں
تا نہ رمزِ لَا اِلَہ آید بدست
بند غیر اللہ را نتواں شکست

یہ رمزلَااِلٰہ  کیاہے؟ا س کی وجہ علامہ نے لَااِلٰہ اِلَّااللّٰہَ کے عنوان سے ضرب کلیمکی پہلی نظم میں بیان کی ہے۔ خیال رہے کہ ۱۹۳۶ء میںضرب کلیم کی اشاعت کو اقبال نے دانش حاضر کے فتنے کے خلاف ’اعلانِ جنگ‘قراردیاتھا __  یہ نظم خود شناسی کی وضاحت بھی ہے اور رمز لَااِلٰہ کامفہوم بھی کھولتی ہے__فرماتے ہیں:

خودی کا سرِّ نہاں لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہَ
خودی ہے تیغ ، فساں لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہَ
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں ،  لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہَ
خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زُنّاری
نہ ہے زماں نہ مکاں ،  لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہَ

۲۱؍اپریل ۱۹۳۸ء کو علامہ اقبالؒ کے انتقال کے وقت مولانا مودودیؒ کی عمر تقریباً ۳۵سال تھی۔ یہ عین ان کی جوانی کا زمانہ تھا اور وہ اپنے افکار ونظریات کو بڑی حد تک مرتب کرچکے تھے، جن کی بنیاد پر انھوں نے آگے چل کر ایک فکری و نظریاتی تحریک کا آغاز کیا۔ ہمارا خیال ہےکہ مولانا کی مذکورہ تحریک کے پس منظر میں اقبالؒ کے افکار بڑے بھرپور طریقے سے کارفرما رہے ہیں اور اسی طرح دونوں شخصیات کے درمیان فکرونظر کی گہری ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔

شخصی حوالے سے دیکھا جائے تو علامہ اقبالؒ سے مولانا مودودیؒ کی پہلی ملاقات جنوری ۱۹۲۹ء میں ہوئی، جب علامہ، مدراس (چنائے) میں تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ کے سلسلے کے تین انگریزی لیکچر (خطبات) دینے کے بعد، بنگلور اورمیسور سے ہوتے ہوئے حیدرآباد دکن پہنچے اور وہاں بھی تین خطبے دیے۔ مولانا مودودیؒ نے خود لکھا ہے کہ ’’میری ان سے پہلی ملاقات وہاں ہوئی، دوسری ملاقات فروری مارچ ۱۹۳۷ء میں (خطوط مودودی، دوم،ص ۶۹) اور تیسری ملاقات اکتوبر ۱۹۳۷ء (ایضاً، دوم،ص ۱۲۰) میں (لاہور میں) ہوئی۔ ان ملاقاتوں کا پس منظر یہ تھا کہ ایک دردمند مسلمان چودھری نیاز علی خاں (م: ۲۴ فروری ۱۹۷۶ء) نے اپنی جایداد واقع جمال پور، پٹھان کوٹ ضلع گورداس پور کا ایک حصہ خدمت ِ دین کے لیے وقف کرکے وہاں ایک درس گاہ قائم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اور اس سلسلے میں متعدد زعما اورعلما سے راہ نمائی چاہی، جن میں مولانا اشرف علی تھانویؒ، علامہ اقبالؒ ، سیّد سلیمان ندویؒ، عبدالماجد دریابادی اور سیّدمودودیؒ شامل تھے (چودھری نیاز علی خاں اور مولانا مودودی کی باہمی خط کتابت کے لیے دیکھیے: سیّد اسعد گیلانی کی تصنیف اقبال، دارالاسلام اور مودودی۔اسلامی اکادمی لاہور، ۱۹۷۸ء)۔ مولانا مودودی نے علمی کام کا ایک تفصیلی نقشہ بناکر چودھری صاحب کو پیش کیا۔ چودھری صاحب نے اس علمی منصوبے سے علّامہ اقبال کو آگاہ کیا۔ انھوں نے اسے پسند کیا اور فرمایا کہ ’’اس وقت کرنے کے کام یہی ہیں‘‘ (سیّارہ، لاہور، اقبال نمبر ۱۹۶۳ء)۔

دراصل علّامہ اقبالؒ اس زمانے میں مولانا مودودیؒ کے نام اور ان کی فکر سے واقف ہوچکے تھے۔ الجہاد فی الاسلام پڑھ چکے تھے اور ترجمان القرآن  بھی ان کے زیرمطالعہ رہتا تھا۔ چنانچہ بقول چودھری نیاز علی خاں: ’’حضرتِ علامہ کی نظر جوہر شناس بھی سیّد صاحب پر جاپڑی‘‘۔ (صحیفہ لاہور، اقبال نمبر، اکتوبر ۱۹۷۳ء، ص ۲۳)

علّامہ اقبال نے ادارے کی سربراہی کے لیے مولانا مودودی ؒ کا نام تجویز کیا۔ مولانا فرماتے ہیں:’’۱۹۳۷ء کے آغاز میں ان کا عنایت نامہ ملا کہ مَیں حیدرآباد کو چھوڑ کر پنجاب چلا آؤں‘‘ (سیارہ،اقبال نمبر، فروری ۱۹۷۸ء)۔ پھر چودھری نیاز علی نے بھی مسلسل اصرار کیا اورمولانا کو دعوت دی کہ وہ دکن سے ہجرت کرکے لاہور آجائیں۔ چنانچہ فروری مارچ ۱۹۳۷ء میں مولانا مودودیؒ لاہورآئے اور جیساکہ اُوپر ذکر آچکا ہے کہ علامہ اقبالؒ سے ملے اور دوتین نشستوں میں تفصیلی تبادلۂ خیالات ہوا۔ اگرچہ اس سے پہلے بھی مولانا مودودیؒ ،علامہ اقبالؒ اور ان کی شاعری سے بخوبی واقف تھےاور فکری سطح پر بہت قربت محسوس کرتے تھے۔ اب اس قربت میں اور اضافہ ہوگیا۔ مولانا مودودیؒ کہتے ہیں: ’’ان ملاقاتوں میں ایسا محسوس ہوا کہ جیسے میری اور ان کی بہت پرانی واقفیت ہے اور ہم ایک دوسرے کےدل سے بہت قریب ہیں۔ یہاں میرے اور اُن کے درمیان یہ بات طے ہوگئی کہ میں پنجاب منتقل ہوجاؤں اور پٹھان کوٹ کے قریب اس وقف کی عمارات میں، جس کا نام ہم نے بالاتفاق ’دارالاسلام‘ تجویز کیا تھا، ایک ادارہ قائم کروں، جہاں دینی تحقیقات اور تربیت کا کام کیا جائے‘‘(ایضاً)۔ بہرحال، ان ملاقاتوں کے بعد مولانا دکن کو چھوڑ کر پنجاب آنے کے لیے بالکل یکسو ہوگئے اور انھوں نے دکن سے ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا۔

لاہور سے واپس دکن واپس پہنچے تو انھوں نے چودھری نیازعلی خاں کو جو خط لکھا، اس میں بتایا کہ میں نےیہاں پہنچتے ہی ہجرت کی تیاری شروع کردی ہے۔ اس کا ایک بڑا سبب یہ تھا کہ علامہ اقبالؒ نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ اگر آپ یہاںآجائیں تو میں بھی ہرسال کچھ ہفتوں کے لیے یہاں آیا کروں گا۔ کچھ مشترکہ علمی منصوبے طے ہوئے تھے۔ اس کام کو وہ بلاتاخیر آگے بڑھانا چاہتےتھے۔ اس سلسلے میں مولانا مودودیؒ کا ایک خط ڈاکٹر سیّدظفرالحسنؒ کے نام ملتا ہے (جوعلی گڑھ یونی ورسٹی میں شعبۂ فلسفہ کے پروفیسرتھے)۔ اس میں مولانانے یہ بتایا تھا کہ میرےاور علامہ اقبالؒ کے درمیان کیا باتیں ہوئی تھیں۔ یہ خط اقبالؒ کی وفات کے بعد جون ۱۹۳۸ء میں لکھا گیا۔اس وقت تک ایک ادارہ ’دارالاسلام‘ کے نام سے قائم ہوچکا تھا، اور کچھ افرادکار اس سے منسلک تھے۔ ڈاکٹر سیّد ظفرالحسن نے بھی اس کی شوریٰ کی رکنیت قبول کرلی تھی۔ خط میں مولانا نے لکھا کہ ’’آپ نے ہماری معنوی قوت میں بہت کچھ اضافہ کردیا ہے‘‘ اور پھر بتایا کہ ’’اکتوبر۱۹۳۷ء میں خاص طور پر انھی مسائل پر بحث کرنے کے لیے مَیں علامہ اقبالؒ سے لاہور میں ملا تھا… ان سے مفصل گفتگو ہوئی تھی۔ خوب غوروخوض کے بعد جس نتیجے پر پہنچے، وہ مختصراً مَیں یہاں عرض کرتا ہوں:

’’حالات کی رفتار نے خود بخود مسلمانوں کو گھیر گھیر کر ایک اجتماعی ہیئت کی طرف لانا شروع کردیا ہے،ہندستان کے مختلف حصوں میں ان کو جو پیہم ضربات لگ رہی ہیں، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہرطرف سے بھاگ بھاگ کر مسلم لیگ کی طرف آرہےہیں۔ اگرچہ ابھی تک ان میں ایک تنظیمی ہیئت پیدا نہیں ہوئی ہے، جو فکر اور وحدتِ عمل کا نتیجہ ہوتی ہے بلکہ درحقیقت ان کے سامنے اپنا نصب العین بھی واضح نہیں ہے۔مختلف خیالات، مختلف مقاصد اور مفادات اور خصائل رکھنے والے لوگ اس طرح جمع ہوگئے ہیں جیسے جنگل میں آگ لگنے پر مختلف گلے ہرطرف سے بھاگ کر ایک جگہ جمع ہوجاتے ہیں، تاہم یہ تنظیمی ہیئت پیدا کرنے کا ابتدائی مرحلہ ہے اور اس وقت کوئی الگ جھنڈا بلند کرنا، بجاے مفید ہونے کے، اس تالیفی عمل میں مانع ہوجائے گا جو کسی طرح مناسب نہیں ہے۔

’’ مسلم لیگ کے مرکز پر جو طاقتیں جمع ہورہی ہیں، ان کے بنیادی نقائص کو دُور کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ ان کے تصورات میں جو ابہام اس وقت پایا جاتا ہے، اس کو دُور کیا جائے تاکہ واضح طور پر اس موجودہ پوزیشن کوسمجھ لیں اور اپنی ایک قومی غایت متعین کرلیں۔ یہ چیز جتنی زیادہ واضح ہوتی جائے گی، اتنی ہی تیزرفتاری کے ساتھ عامۃ المسلمین کا ترقی پسند اور اقدام پسند عنصر مسلم لیگ کی صفوں میں آگے بڑھتا جائے گا، اورخودغرض،نمایشی اور آرام طلب عناصر پیچھے رہ جائیں گے۔ اس کا ایک لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ مسلمانوں کے وہ تمام بے چین عناصر جو محض مسلم لیگ کی بے عملی سے بے زارہوکر مختلف راستوں پر بھٹک گئے ہیں، رفتہ رفتہ پلٹنے شروع ہوجائیں گے، اور تھوڑی مدت بھی نہ گزرے گی کہ یہ جماعت جمہور مسلمین کی ایک مرکزی جماعت بن جائے گی۔

’’سردست ہم مسلم لیگ سے، اس سے بڑھ کر کوئی توقع نہیں کرسکتے کہ وہ موجودہ غیراسلامی نظامِ سیاست میں مسلمانوں کی قومی پوزیشن کو بیش از بیش محفوظ کرنے کی کوشش کرے گی۔ ہمارے لیے صحیح پالیسی یہ ہے کہ rear guard میں رہیں اور ایک طرف تو اپنے خیالات کی اشاعت سے مسلم لیگ کو بتدریج اپنے نصب العین کے قریب تر لانے کی کوشش کرتے رہیں اور دوسری طرف مردانِ کار کی ایسی طاقت ور جماعت تیار کرنے میں لگےرہیں جو دارالاسلام کی فکری بنیاد بھی مستحکم کرے اور اس مفکورے کو جامۂ عمل پہنانے کے لیے بھی مستعد ہو۔ جب تک یہ انقلابی جماعت میدان میں آنے کے لیے تیار ہوگی، اس وقت تک ان شاء اللہ میدان ہموار ہوچکا ہوگا کیونکہ انقلابی تصورات کی تبلیغ سے ہم پہلے ہی مسلمانوں کے کارکن اور کارفرما عناصر کو اپنے سے قریب تر لاچکے ہوں گے‘‘۔(خطوطِ   مودودی، دوم، ص ۱۹۸-۲۰۴)

اس خط سے اندازہ ہوتا ہے کہ علامہ اقبالؒ اور سیّد مودودیؒ کے درمیان بہت سے علمی مسائل اورفقہ اسلامی کی تشکیل کے منصوبے کے ساتھ دیگر موضوعات بھی زیربحث آئے ہوں گے اور اس وقت ہندستانی سیاست کا جو نقشہ مرتب ہورہا تھا، اس پربھی تبادلۂ خیال ہوا ہوگا۔

مولانا ۱۸مارچ ۱۹۳۸ء کو دکن سے جمال پور (پٹھان کوٹ) پہنچے (ابوالاعلیٰ مودودی، علمی و فکری مطالعہ، ص ۵۶۸)۔ اگلے ماہ وہ لاہور آنے کے لیے بالکل تیار تھے۔ نذیرنیازی نے ۱۸؍اپریل کو انھیں ایک خط لکھا کہ’’ ڈاکٹرصاحب فرماتے ہیں کہ اگر آپ کا ارادہ فی الواقع لاہور آنے کا ہے تو جلدی تشریف لایئےتاکہ ملاقات ہوجائے۔ اپنی طرف سے یہ گزارش ہے کہ ڈاکٹرصاحب قبلہ کی حالت نہایت اندیش ناک ہے۔ ایک لمحے کا بھی بھروسا نہیں۔ بہتر یہی ہوگا کہ آپ جس قدر ہوسکے جلدی تشریف لے آئیں‘‘ (خطوطِ مودودی، دوم،ص ۱۹۰)۔ اس خط کا ڈاکٹر جاویداقبال نے زندہ رُود ، سوم میں بھی ذکر کیا ہے۔ علامہ ۲۱؍اپریل کو فوت ہوگئے، اس پر مولانا مودودیؒ کو شدید صدمہ ہوا اور انھوں نے اقبال کی وفات پر اپنے دُکھ کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ اس کام کے لیے میں بالکل اکیلا رہ گیا ہوں جو ہم نے مل کر کرنے کا پروگرام بنایا تھا۔ اب معلوم نہیں وہ کس طرح سے ہوگا۔ دیکھیے کہ نذیر نیازی کے نام ایک خط (مورخہ ۲۳؍اپریل ۱۹۳۸ء ) میں وہ صدمے کا اظہار کس طرح کرتے ہیں:

علامہ اقبال کے انتقال کی خبر پہنچی، دفعتاً دل بیٹھ گیا۔سب سے زیادہ رنج مجھے اس بناپر ہوا کہ کتنا قیمتی موقع میں نے کھو دیا… میں اس کو اپنی انتہائی بدنصیبی سمجھتا ہوں کہ اس شخص کی آخری زیارت سے محروم رہ گیا، جس کا مثل شاید اب ہماری آنکھیں نہ دیکھ سکیں گی‘‘(خطوطِ مودودی، دوم، ص ۱۸۹)۔

اسی خط میں لکھتے ہیں کہ ’’کچھ خبر نہیں، اللہ کو کیا منظورہے۔ بظاہر تو ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ مسلمان قوم کو اس کی ناقدری اور نااہلی کی سزا دی جارہی ہے کہ اس کے بہترین آدمی عین اس وقت پر اُٹھا لیے جاتے ہیں، جب ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے ۔اب سارے ہندستان پر نگاہ ڈالتا ہوں تو کوئی ایک شخص بھی ایسا نظر نہیں آتا جس کی طرف ہدایت حاصل کرنے کے لیے رجوع کیا جاسکے۔ ہرطرف تاریکی چھائی ہوئی ہے، ایک شمع جو ٹمٹما رہی تھی، وہ بھی اُٹھا لی گئی۔

’’مجھے جو چیز پنجاب کھینچ کر لائی تھی، وہ دراصل اقبالؒ ہی کی ذات تھی۔ میں اس خیال سے یہاں آیا تھا کہ ان سے قریب رہ کر ہدایت حاصل کروں گا اور ان کی رہنمائی میں جو کچھ مجھ سے ہوسکے گا، اسلام اورمسلمانوں کے لیے کروں گا۔ اب میں ایسامحسوس کررہاہوں کہ اس طوفانی سمندر میں، میں بالکل تنہا رہ گیا ہوں، دل شکستگی اپنی آخری انتہا کو پہنچ گئی ہے۔ صرف اس خیال سے اپنے   دل کوڈھارس دےرہا ہوں کہ اقبالؒ مرگئے تو کیا ہوا، خدا تو موجود ہے، سب مرجانے والے ہیں، زندہ رہنے والا وہی حی و قیوم ہے، اوراگر وہ تجھ سے کوئی کام لینا چاہے گا تو تیری مدد کے لیے اورکچھ سامان کرے گا‘‘ (خطوطِ مودودی، دوم، ص ۱۸۹- ۱۹۱)۔

 علامہ اقبالؒ کی وفات کے بعد مولانا مودودیؒ نے جس تحریک اسلامی کا احیا کیا، وہ رفتہ رفتہ پھیلتی گئی۔ اس کی توسیع و ترقی، کامیابی اورفروغ میں علامہ اقبالؒ کی رہنمائی کا بھی بڑادخل ہے۔ جماعت اسلامی کے علاوہ جو اسلامی تحریکیں دوسرے ممالک میںبرپا ہوئی ہیں اور پھر عالمِ اسلام میں بیداری کی جو لہرپیدا ہوئی، اس میں مولانا مودودیؒ اورعلامہ اقبالؒ دونوں کا بڑا اثر ہے۔ آیت اللہ خمینی کے انقلابِ ایران میں علامہ اقبالؒ کی شاعری اورسیّد مودودیؒ کی نثر کے اثرات کا خود ایرانی دانش ور اور علما اعتراف کرتے ہیں۔ اسی طرح وسطی ایشیا میں اسلامی بیداری میں  بھی ان کے اثرات برگ و بار لائے۔

 بحیثیت مجموعی علامہ اقبالؒ اور سیّد مودودی، دونوں عالمِ اسلام کی بیداری اور تجدید و احیاے دین کے بارے میں بہت پُراُمید تھے۔ علامہ اقبالؒ ، چودھری محمدحسین کے نام ۲؍اکتوبر ۱۹۲۲ء کے خط میں لکھتے ہیں: ’’اسلام خلفا کے زمانے کی طرف آرہا ہے۔ خدا نےچاہا تو خلافت ِ اسلامیہ اپنے اصل رنگ میں عنقریب نظرآئے گی‘‘(چودھری محمد حسین اور علامہ اقبال، تحقیقی مقالہ ایم اے اُردو، ثاقف نفیس، ۱۹۸۴ء، ص ۶۵)۔اسی طرح نورحسین کو ۱۷مارچ ۱۹۳۷ء کے خط میں لکھتے ہیں : ’’گذشتہ دس پندرہ سال میں کئی لوگوں نے مجھ سے ذکر کیا ہے کہ انھوں نے حضورِرسالت مآبؐ کو جلالی رنگ میں یا سپاہیانہ لباس میں خواب میں دیکھا ہے۔ میرے خیال میں یہ علامت احیاےاسلام کی ہے‘‘(انواراقبال، ص ۲۱۶)۔

اس طرح کی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیداری کی لہراور احیاے اسلام کی تحریکوں کا برپا ہونا علامہ اقبالؒ کی بصیرت میں موجود تھا اوروہ اس معاملے میں بڑے پُرامید تھے۔ سیّد مودودی نے بھی ایک موقعے پر کہا تھا کہ جس طرح یہ بات یقینی ہے کہ کل صبح سورج مشرق سے طلوع ہوگا، بالکل اسی طرح مجھے یقین ہے کہ پاکستان میں اسلامی نظام غالب آئے گا۔ بہرحال اس میں کوئی شک نہیں کہ ’’اقبال کی فکری تحریک سے مولانا سیّدابواالاعلیٰ مودودی نے احیاے اسلام کےکام کو آگے بڑھایا‘‘ (ڈاکٹرممتاز احمد فنون لاہور، بحوالہ: اوراقِ گم گشتہ، ص ۸۷) یہی اثرات ہمیں جدید عالمی تحریکوں میں بھی نظر آتے ہیں۔ اس اعتبار سے میں سمجھتا ہوں کہ جب بھی ہم مولانا مودودیؒ کی فکرپر گفتگو یا بحث کرتے ہیں تو ہمیں یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ فکرمودودیؒ دراصل فکر ِ اقبالؒ ہی کا تسلسل اور اس کی توسیع ہے۔ اور تحریک اسلامی کی پیش رفت میں اقبال کے اثرات کارفرما ہیں۔علامہ اقبالؒ نے بجاطور پر کہا تھا :

وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے

نُورِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے

_______________

حاشیہ

۱               معروف صحافی میاں محمدشفیع (م ش۔ م: یکم دسمبر ۱۹۹۳ء)نے اپنی عمر کے آخری زمانے میں لکھا تھا: ’’علامہ اقبال اس امرپر نوحہ کناں تھے کہ ہند میں حکمت ِ دین سیکھنے کے لیے اُنھیں دُوردُور تک کوئی فرد یا ادارہ نظرنہیں آتا تھا۔ انھوں نے بڑی تلاش کے بعد مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ کو حیدر آباد(دکن) سے ڈھونڈ نکالا تھا۔ ان سے خط کتابت کرکے انھیں پنجاب کو اپنی جولان گاہ بنانے کی دعوت دی۔ اس دعوت پر مولانا نے پٹھان کوٹ میں چودھری نیاز علی صاحب (جو کہ ایک مخلص مومن اور ریٹائرڈ سرکاری ملازم تھے) کے بھرپور تعاون سے دارالاسلام کی بنیاد رکھی‘‘… لیکن جب مولانا مرحوم مسائل نظری میں اُلجھ کر اپنی منطق کا شکارہوگئے تو میں نے حضرتِ علّامہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ مولانا مودودی بھی ملّا ہی برآمد ہوئے‘‘۔ (نوائے وقت، لاہور، ۲۶؍اگست ۱۹۸۶ء)

                  اس کالم کے حوالے سے نوائے وقت لاہور (۸ستمبر۱۹۸۶ء) میں پروفیسرآسی ضیائی کا ایک مراسلہ بہ عنوان ’م ش کی خدمت میں‘ شائع ہوا، جس میں وہ لکھتے ہیں: ’’میرے لیے یہ بات بڑی حیرت انگیز ہے کہ جن علامہ اقبال نے مولانا مرحوم کوخود ہی دکن سے پنجاب آنے کی دعوت دی تھی (اور آپ [م ش] ہی راوی ہیں کہ اس دعوت کا خط انھوں نے آپ ہی سے لکھوایا تھا) وہ مولانا کی طرف سے اتنے مایوس ہوگئے؟ ریکارڈ پر شہادت تو یہ ہے کہ علامہ کی دعوت پر مولانا ۱۶مارچ [صحیح:۱۸مارچ]۱۹۳۸ءکو پٹھان کوٹ پہنچے تھے اور اس کے بعد علامہ سے ان کا ملنا نہ ہوسکا تھا۔ البتہ اس دوران میں علامہ اپنی تشویش ناک علالت کےپیش نظر ، مولانا کو بار بار ملنے کے لیے بلواتے رہے۔ ا ن کی وفات سے صرف تین دن قبل سیّدنذیرنیازی مرحوم نے علامہ کی طرف سے بھی مولانا کو جلد آنے کے لیےخط لکھا تھا، اوراسی خط میں اپنی طرف سے بھی یہ اضافہ کیا تھا کہ علامہ کی غیریقینی صحت کے پیش نظر، آپ جلدلاہور آکر علامہ سے   مل لیجیے۔ (یہ خط بھی محفوظ ہے)۔ گویا ۱۸؍اپریل [۱۹۳۸ء] تک تو علامہ کو مولانا سے بڑی اُمیدیں وابستہ تھیں، لیکن بعد کے تین دنوں میں مولانا مودودی سے وہ کون سا قصور سرزد ہوگیا کہ علامہ نے انھیں بھی مُلّا قرار دے ڈالا؟  اب کم از کم ہم نیازمندوں کو یہ تو بتا دیا جائے کہ ان تین دنوں میں علامہ کی راے مولانا کے متعلق یکایک کیوں اور کیسے بدل گئی؟ خصوصاً جب کہ یہ وہ دن تھے جب علامہ کی علالت پورے اشتداد پرتھی، اور وہ ہرقسم کی نوشت و خواند سے معذور ہوگئے تھے؟ اس کالم سے پہلے آپ نے (یا کسی اورشخص نے) علامہ کی اس راے کا اظہار نہیں فرمایا، حالا نکہ یہ بہت ہی اہم تبصرہ تھا اوراسے مولانا تک جلد سے جلد پہنچاناضروری تھا۔ آج جب نہ مولانا اس دنیا میں موجود ہیں، نہ علامہ، آپ ہمیں بتارہے ہیں کہ اقبال کے نزدیک مودودی بھی نرا مُلّا ہی نکلا۔ پھر یہ سوچنے کی بات ہے کہ وہ کون سے’نظری مسائل‘ تھے جن میں مولانا اُلجھ کر ’اپنی منطق کا شکار‘ ہوگئے؟ستمبر ۱۹۳۷ء میں جب مولانا، لاہورآکر علامہ سے ملے ،فروری ۳۸ء تک وہ سلسلہ مضامین لکھا جارہا تھا جو اسی فروری میں ترجمان القرآن اورپیغام حق پٹھان کوٹ میں مسلمان اورموجودہ سیاسی کش مکش (حصہ اوّل) کے نام سے شائع ہوا تھا، جسے علامہ نے پسند بھی فرمایا تھا۔ اس کے بعد تواپریل تک کچھ لکھنے کی نوبت ہی نہیںآئی، کیونکہ مولانا حیدرآباد سے پٹھان کوٹ منتقل ہونے کی تیاریوں میں مصروف تھے اور وہاں پہنچ کر ٹھکانے سےبیٹھتے بیٹھتے بھی انھیں خاصا عرصہ لگ گیا ہوگا‘‘۔

                  راقم کا خیال ہے کہ میاں صاحب کوعلامہ کی بات سننےیا اس کو روایت کرنے میں تسامح ہوا ہے۔ انھوں نے ایک بار لکھا تھا کہ علامہ اقبال رسالہ ترجمان القرآن  پڑھوا کر سننے کے عادی تھے۔اور مَیں نے حضرتِ علامہ اقبال کی زبان سے کم و بیش اس قسم کے الفاظ سنے تھے کہ ’’مودودی کانگریسی مسلمانوں کی خبر لیں گے‘‘۔ مولانا کے بارے ایسی توقع رکھنے والے (اقبال) سے یہ بعید ہے کہ انھوں نےمولانا مودودی پر کوئی منفی ریمارک دیا ہو۔چنانچہ  یہ کہ سیاق و سباق میں م ش کی روایت کا وہ حصہ درست معلوم نہیں ہوتا ، جس سے منفی تاثر پیدا ہوتا ہے۔یہ امربھی تعجب خیز ہے کہ ۱۹۳۷ء سے ۱۹۸۶ء تک میاں صاحب نے سیکڑوں کالم لکھے، مگر کبھی اس روایت کا ذکر نہیں کیا۔ کم و بیش نصف صدی تک معلوم نہیں کس مصلحت کے تحت ’پردۂ خِفا‘ میں رکھا ؟

۲۲ فروری ۲۰۲۰ء بروز ہفتہ ،بوقتِ سحر حفیظ الرحمٰن احسن اپنے ربّ کے پاس چلے گئے، اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔ احسن ان کا تخلص تھا،وہ شاعر تھے مگر شاعر کے علاوہ اور بھی بہت کچھ تھے۔ استاد، ادیب، نقاد، مقرر،منتظم۔ابتدائی دور میں وہ ـ’حفیظ الرحمٰن غازی پسروری‘ کے نام سے لکھتے تھے۔ وہ ۱۹؍اکتوبر ۱۹۳۴ء کو پسرور (ضلع سیالکوٹ) میں پیدا ہوئے۔

ان کا علمی و ادبی ذوق پروان چڑھانے میں زیادہ دخل دو شخصیتوں کا رہا۔اوّل: اسکول کے زمانے میں جناب طاہر شادانی(استاد گورنمنٹ ہائی سکول پسرور)اور مرے کالج سیالکوٹ کے دورِ طالب علمی میں پروفیسر آسی ضیائی۔

 انٹر میڈیٹ کے زمانے (۱۹۵۰ء-۱۹۵۲ ء)میں اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہو گئے۔ یہ وابستگی،جماعت اسلامی میں باقاعدہ شمولیت پر منتج ہوئی۔بی اے میں انھوں نے عربی کے مضمون میں (علامہ اقبال کی طرح)یونی ورسٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔مزید تعلیم کے لیے وظیفہ ملا۔ انھوں نے(بوساطت اسلامیہ کالج لاہور)۱۹۵۹ء میں یونی ورسٹی اورینٹل کالج سے ایم اے عربی کا امتحان پاس کیا اورتیسری پوزیشن حاصل ہوئی۔بعد ازا ں ایم اے اردو بھی کر لیا۔گورنمنٹ کالج لائل پور[فیصل آباد]، گورنمنٹ کالج سرگودھا،مرے کالج سیالکوٹ اوراشاعتِ تعلیم کالج لاہور میں عربی اور اردو کے استاد رہے ۔۱۹۶۶ء میں وہ مستقلاً لاہور آگئے اور باقاعدہ درس و تدریس چھوڑ کر امین جاوید صاحب کے تعاون سے اشاعتی ادارے ’ایوانِ ادب‘کی بنیاد رکھی۔تعلیم و تعلّم سے ان کا رشتہ اس صورت میں برقرار رہاکہ انھوں نے انٹر میڈیٹ کے لازمی مضمون اردو کے لیے تحسینِ اردو مرتب کی، اور بچوں کے لیے بھی نظم و نثر کی چندخوب صورت کتابیں شائع کیں۔

حفیظ صاحب کا سب سے اہم کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے دروسِ قرآن و حدیث کو فیتہ بند (taperecord) کرنے کا اہتمام بڑی محبت اور ثابت قدمی سے کیا۔ پھر ان دروس کو کیسٹ کے ذریعے مولانا کی آواز میں ہزاروں لاکھوں افراد تک پہنچایا۔ مولانا سے محبت کے اس تعلق کو انھوں نے اپنے ایک مضمون میں اس طرح واضح کیا ہے: ’’دسمبر۱۹۴۶ء کے آخری ایام میں سیالکوٹ کے قصبے مرادپور میں جماعت اسلامی لاہور کمشنری کا دوروزہ اجتماع ہوا اور مَیں داداجان کے ساتھ اس اجتماع میں شریک ہوا۔ اس اجتماع میں مولانا کا تاریخی خطبہ ’شہادتِ حق‘ (۱۳دسمبر ۱۹۴۶ء) سننے کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ اس اجتماع کی بدولت مجھے مولانا کو مسلسل دو روز تک دیکھنے اور سننے کا موقع ملا، اور اس طرح ان کی شخصیت کا ایک گہرا نقش میرے نہاں خانۂ شعور میں ثبت ہوگیا‘‘۔

راقم اپریل ۱۹۶۴ء میں سرگودھا سے لاہور آکر پنجاب یونی ورسٹی ایم اے اردوکی جماعت اوّل میں داخل ہوا۔باری تعالیٰ ہفت روزہ آئین لاہور کے مدیر مظفر بیگ (۱۹۳۵ء-۱۹۹۹ء)کو غریقِ رحمت کرے (آمین)،انھوں نے راقم الحروف کو مولانامودودیؒ کے دروس قرآن و حدیث اور دیگر خطبات کو قلم بند (رپورٹنگ)کرنے پر مامور کیا۔اس سلسلے میں راقم کے مرتب کردہ چند دروس اور خطبے آئین میں شائع ہوئے۔چند ایک تحریریں ماہنامہ ترجمان القرآن  لاہور میں بھی نقل ہوئی ہیں۔

غالباً ۱۹۶۶ء سے حفیظ صاحب مولانا کے دروس فیتہ بند (ٹیپ) کرنے لگے تھے۔ ان کے پاس جہازی سائز کا ایک ٹیپ ریکارڈر تھا،جو باہر سے گراموفون معلوم ہوتا تھا۔ان کے مرتب کردہ دروس آئین  میں شائع ہونے لگے۔ بعض جلسوں میں مولانا کے خطبات وہ ٹیپ کرتے اور راقم انھیں مرتب کرنا اور آئین  میں شائع ہوتے۔ترتیب و تدوین کا کام کبھی تو راقم ۲۳ وُولنر ہاسٹل میں کرتا اور جب کبھی ہاسٹل بند ہوتا (جیسے جنوری ۱۹۶۶ ء میں اعلانِ تاشقند پر ایوب خان کے خلاف ہنگامے ہونے پر ہوسٹل بند کر دیے گئے تھے)تو پھر یہ کام حفیظ صاحب کے دفتر نسبت روڈ میں ہوتا تھا۔

مظفر بیگ مرحوم نے ۱۹۶۵ء میں راقم کو سید مودودی کی عصری مجالس کی رپورٹنگ کی ذمہ داری سونپی۔بعد ازاں ’۵ اے ذیلدار پارک ‘کے اس سلسلے میں خود بیگ صاحب اور حفیظ الرحمٰن صاحب بھی شامل ہو گئے۔ان مجالس کی رُودادیں تین حصوں میں بارہا چھپ چکی ہیں۔غالباً ۱۹۷۶ ء میں حفیظ صاحب ،جناب نعیم صدیقی مرحوم کے علمی و ادبی رسالے سیارہ سے رضاکارانہ طور پر وابستہ ہوگئے اور انھوں نے نعیم صاحب کاخوب ہاتھ بٹایا۔یہاں تک کہ نعیم صاحب نے رسالہ مستقلاً ان کے سپرد کر دیااور انھوں نے اسے بڑی مہارت اور کامیابی سے جاری رکھا۔سیارہ نے بعض یادگار نمبر شائع کیے(اقبال نمبر تین بار،سید مودودی نمبر ایک بار)۔ اسلامی اور تعمیری ادب کے فروغ میں مجلّہ سیارہ  لاہور کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ سیارہ  کے سلسلے میں وہ اپنے حلقۂ احباب سے بھی مدد لیتے۔ مثال کے طور پر ایک بار مجھے خط میں لکھا کہ جگن ناتھ آزاد اور معین الدین عقیل سے مضامین کا تقاضا کیجیے اور کرتے رہیے کہ ان دونوں سے راقم کا مسلسل رابطہ رہتا تھا۔

 ۱۹۸۹ ء کی بات ہے ۔احباب میں سیارہ  کا نعیم صدیقی نمبر نکالنے کی تجویز گردش کر رہی تھی۔ ظفر حجازی صاحب نے ’نعیم صدیقی نمبر‘ کا ایک مفصل خاکہ بنا کر حفیظ صاحب کو ارسال کیا۔ حفیظ صاحب نے جواب میں لکھا:’’آپ نے جو سنہری تجاویز پیش کر کے مجھے ان پہ عمل در آمد کا ذمہ دار ٹھیرایا ہے،اسے آپ کے حُسنِ ظن یا پھر حُسنِ تخیل کا شاہکار قرار دیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔اگر اسی طرح کی مکتوب آرائی منصوبوں کی تکمیل کا کبھی بھی وسیلہ بن سکتی تو میں بخوشی روزانہ آپ کی خدمت میں ایک ایسا ہی طویل محبت نامہ لکھنے کی ذمہ داری قبول کر لیتا‘‘۔

احسن صاحب زبان و بیان اور قواعد و انشا پر بخوبی دسترس رکھتے تھے۔اشاعت کے لیے موصول ہونے والے شعری اور نثری مسوًدوں کی نوک پلک سنوارنے میں خاصا وقت صرف کرتے تھے۔اس ضمن میں اگر کہیں اپنی معلومات میں کمی محسوس کرتے تو بلاتکلف اپنے دوستوں سے تبادلۂ خیال بھی کرتے تھے۔ایوان ادبِ میں بعد دوپہر ان کے قریبی احباب جمع ہوتے ، پروفیسر جعفر بلوچ،ڈاکٹر تحسین فراقی،افضل آرش، شیدا کاشمیری،انور میر،طاہر شادانی اور کبھی کبھار راقم بھی حاضری دیتا۔ سیارہ  یا حلقہ ادب یا کسی اور موضوع پر مشاورت کے لیے وہ احباب کو ازخود بھی بلالیتے اور احباب بڑی مسرت سے حاضر ہو جاتے۔

 مولانا مودودی کے دروسِ قرآن و حدیث کی نشرواشاعت میں ،ایک مرحلہ ایسا آیا، جب انھوں نے پروفیسر خورشید احمد صاحب کے مشورے اور اعانت سے الابلاغ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ مگر چند کرم فرماؤں نے اسے مقدموں میں اُلجھا دیا۔ بہرحال اعلیٰ عدلیہ نے حفیظ الرحمٰن صاحب کے حق میں فیصلہ دیا۔ اس طرح خاصا وقت ضائع ہوجانے کے بعد مولانا مودودی کی آواز میں کیسٹوں کی نشرواشاعت ہونے لگی۔لیکن کیسٹ کا دور ختم ہوا اور یہ ادارہ بھی تعطل کا شکار ہو گیا۔

ہمارے ایک مشترکہ دوست تھے عبدالرحمٰن بزمی(م: ۱۴نومبر ۲۰۰۵ء) شاعر اور ادیب اور حفیظ صاحب کی طرح ہی اعلیٰ درجے کا علمی و ادبی ذوق رکھتے تھے۔ ان کے ورثا نے بزمی صاحب کا مجموعۂ کلام چھپوانا چاہا۔لندن ہی میں مقیم ایک مشترکہ دوست (جاوید اقبال خواجہ، م:۸؍اپریل ۲۰۱۹ء)کی وساطت سے ترتیب و تدوین اوراہتمام اشاعت کا قرعہ میرے نام نکلا۔ حفیظ صاحب فنِ شاعری کے کم و کیف سے بخوبی واقف تھے اور راقم اناڑی۔ چنانچہ راقم نے تدوین کی ذمہ داری حفیظ صاحب کو سونپ دی۔انھوں نے بڑی محنت سے مجموعہ:حرفِ تمنا مرتب کیا ،جو ۲۰۱۱ء میں منشورات لاہور سے شائع ہوا۔

مرحوم پروفیسر فروغ احمد (م:۲نومبر ۱۹۹۴ء)بھی اپنی وفات سے دو تین برس پہلے اپنے کلام کی تدوین و اشاعت کی ذمہ داری مجھے سونپ گئے تھے۔ حفیظ صاحب نے اس کی پروف خوانی کے علاوہ حسب ضرورت اصلاح و تصحیح بھی کر دی۔میری مصروفیات کی وجہ سے ’کلیاتِ کلام فروغ احمد‘ ابھی تک شائع نہیں ہو سکا(پروف محفوظ ہیں مگر کمپوزنگ تلاش طلب ہے)۔

غالباً ۱۹۸۱ء میں لاہور کے بعض ادب دوستوں نے ،حلقۂ ارباب ذوق کے باوجود، اسلام دوست اور تعمیر پسند مصنّفین کا ایک نیا ادبی فورم بنانے کی ضرورت محسوس کی ۔ان میں ڈاکٹر تحسین فراقی، جناب حفیظ الرحمٰن احسن، افضل آرش اور جعفر بلوچ پیش پیش تھے۔چند ایک مشاورتوں کے نتیجے میں ’حلقۂ ادب ‘قائم ہو گیااور اس کے ہفتہ وار تنقیدی اجلاس ہر منگل کی شام چائنیز لنچ ہوم میں ہونے لگے۔اس کی مجلسِ عاملہ میں ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا ،حفیظ صاحب ،سراج منیر،شہباز ملک اور راقم شامل تھے(شاید کچھ اور احباب بھی)۔پروفیسر آسی ضیائی حلقے کے صدراور حفیظ الرحمٰن احسن نائب صدر ، تحسین فراقی سیکرٹری اورسلیم منصور خالدجائنٹ سیکرٹری مقرر ہوئے، جو مسلسل تین برس تک باقاعدگی سے اجلاسوں کی کارروائی قلم بند کر کے پیش کرتے رہے۔پھر آفتا ب ثاقب اور ان کے بعد اصغرعابدنے یہ ذمہ داری سنبھال لی۔ اس حلقے کو چلانے میں حفیظ الرحمٰن احسن کا بنیادی اور فعال کردار رہا۔ان کا دفتر(ایوانِ ادب، حبیب بلڈنگ، اردو بازار لاہور) سیارہکے ساتھ حلقے کا دفتر بھی تھا۔وہیں دو ماہی یا سہ ماہی پروگرام بناتے اور اس کا سائیکلوسٹائل نکلوا کر یا کتابت کرا کے، نقول پھیلاتے ۔ وہ خود بھی اجلاسوں میں باقاعدگی سے شریک ہوتے تھے۔اکثر وبیش تر وہ مقررہ وقت سے پہلے مجلس گاہ میں پہنچ جاتے۔ حلقہ ۱۹۸۹ء تک چلتا رہا۔

 حالیہ دنوں میں مجھے حلقے کے ۱۹۸۱ء تا ۱۹۸۹ء دو ماہی پروگراموں پر مشتمل کاغذات دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ان سے پتا چلتا ہے کہ لاہور کے بیش تر اہم اور سینئر مصنّفین اور شعرا حسب پروگرام اپنی نگارشات پیش کرتے رہے۔چند نام:میرزا ادیب،جیلانی بی اے،عبداللہ قریشی،نعیم صدیقی،   شیخ منظور الٰہی، عبدالعزیز خالد، انجم رومانی، ڈاکٹر وحید قریشی، صلاح الدین محمود، عبدالکریم عابد، حفیظ تائب، حمیدجالندھری، جیلانی کامران،پروفیسر فروغ احمد،انتظار حسین، سیّد امجد الطاف، مقبول بیگ بدخشانی، رحمان مذنب، غلام الثقلین نقوی، اکرم جلیلی،سائرہ ہاشمی، سراج منیر، ہارون الرشید، سہیل عمر، عطاء الحق قاسمی، فضل الرحمان، یونس احقر، امجد طفیل وغیرہ۔

ادارہ معارفِ اسلامی لاہور نے سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی تحریروں سے سیرتِ سرورِ عالم ؐ کے مدنی دور پر مشتمل ،سیرت کاتیسرا حصہ مرتب کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ابتدائی مرحلے پر لوازمہ مولانا عبدالوکیل علوی [م:۱۱جنوری ۲۰۱۶ء] نے جمع کیا، جسے حفیظ صاحب نے مرتب و مدوّن کیا اور حد درجہ تحقیق و تدقیق سے کام لیتے ہوئے نہایت محنت سے اس میں نیا لوازمہ شامل کیا ۔نظر ثانی کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں آخری تدوین کی ذمے داری مجھے سونپی گئی، جس پر خاصا وقت صرف کیا اور مزید لوازمے کی شمولیت سے اسے حتمی شکل دی۔

۴۰برس کی رفاقت کے بعد اپریل ۱۹۹۴ء میں جماعت اسلامی سے الگ ہوکر ’تحریک اسلامی‘ تنظیم میں شامل ہوگئے۔ تاہم، اہل جماعت سے بھی تعلق برقرار رکھا، اور اس دیرینہ تعلق کو آخر وقت تک بڑے اعتدال سے نبھاتے رہے۔  مولانا مودودی کے ریکارڈ شدہ خطبات پر مشتمل انھوں نے کتاب الصوم ، فضائلِ قرآن مرتب کی۔ علاوہ ازیں   ۵-اے ذیلدار پارک، سوم اسلام کا سرچشمہ  قوت جماعت اسلامی اور مشرقی پاکستان ان کی اہم مرتبات ہیں۔

علّامہ اقبال، مہاراجا سرکشن پرشاد کے نام ۳۱ ؍اکتوبر ۱۹۱۶ء کے خط میں لکھتے ہیں: ’’صبح چار بجے، کبھی تین بجے اٹھتا ہوں، پھر اس کے بعد نہیں سوتا‘ سواے اس کے کہ مصلّے پر کبھی اُونگھ جاؤں‘‘۔(اقبال بنام شاد، ص ۱۸۸)

تقریباً دو سال بعد ‘ ۱۱ جون ۱۹۱۸ء کے خط میں پھر لکھتے ہیں: ’’بندۂ رو سیاہ کبھی کبھی تہجّد کے لیے اٹھتا ہے اور بعض دفعہ تمام رات بیداری میں گزر جاتی ہے۔ سو، خدا کے فضل و کرم سے، تہجّد سے پہلے بھی اور بعد میں بھی، دعا کروں گا کہ اس وقت عبادتِ الٰہی میں بہت لذت حاصل ہوتی ہے‘‘۔(ایضاً، ص ۲۴۵)

ان بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ علّامہ اقبال اوائلِ عمر ہی سے سحرخیزی کا ایک طبعی ذوق رکھتے تھے اور یورپ کے نسبتاً مختلف اور ناسازگار ماحول میں بھی، ان کا یہ ذوق برقرار رہا:

زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی

نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آداب سحرخیزی

(بالِ جبریل ، ص ۴۰)

سوال یہ ہے کہ اقبال کے ذوقِ سحر خیزی کی اس تربیت و تشکیل میں کن عناصر کو دخل رہا اور اس کی وجوہ کیا تھیں؟ اس سلسلے میں علّامہ کے اسلوبِ زندگی، ان کی افتادِ طبع اور ان کے ذخیرۂ نظم و نثر کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے۔

اول تو یہی بات کچھ کم اہم نہیں کہ ہمارے ہاں سحر خیزی کو خوش بختی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اسلامی اور مشرقی روایات کے مطابق علی الصّباح جاگنا اور جگانا ایک مبارک اور قابلِ قدر فعل ہے۔ اقبال اس سحرخیز خورشید کو بھی خوش آمدید کہتے ہیں جو نیند کے ماتوں کو جگاتا ہے:

خورشید ، وہ عابدِ سحر خیز

لانے والا پیام ’بر خیز‘

(بانگِ درا ، ص ۱۲۷)

علّامہ، قرآن حکیم کے مفاہیم و معانی پر گہری نظر رکھتے تھے۔ قرآن حکیم میں قیام اللّیل اور عبادتِ شب کی بہت تلقین کی گئی ہے۔ اسے اہلِ تقویٰ اور ’عبادُ الرحمٰن‘ کی نشانی بتایا گیا ہے، فرمایا:

وَالَّذِیْنَ یَبِـیْتُوْنَ لِرَبِّہِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًا (الفرقان۲۸: ۶۴) (رحمٰن کے اصلی بندے) وہ (ہیں جو) اپنے رب کے حضور سجدے اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں۔ وَبِالْاَسْحَارِھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ (الذاریات۵۱: ۱۸) وہ سحر کے اوقات میں استغفار کیا کرتے تھے۔ o اَلصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰدِقِیْنَ وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْمُنْفِقِیْنَ وَالْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِ(اٰلِ عمران ۳: ۱۷) یہ لوگ صبر کرنے والے ہیں، راست باز ہیں، فرماں بردار اور فیاض ہیں اور رات کی آخری گھڑیوں میں اللہ سے مغفرت کی دعائیں مانگا کرتے ہیں۔

ظاہر ہے یہاں رات کی عبادت سے مراد تہجّد کی نماز ہے۔ اللہ جلّ شانہ، نے براہِ راست رسولِ اکرمؐ کو عبادتِ شب یعنی نمازِ تہجّد کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:وَمِنَ الَّیْلِ فَتَہَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ ق عَسٰی اَنْ یَّـبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا(بنی اسرائیل ۱۷: ۷۹) اور رات کو تہجّد پڑھو۔ یہ تمھارے لیے نفل ہے۔ بعید نہیں کہ تمھیں تمھارا رب مقامِ محمود پر فائز کر دے۔

ایک اور مقام پر آپ ؐکو اس طرح تاکید فرمائی: یٰاَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ o قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًا o نِّصْفَہٗ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلًا o اَوْ زِدْ عَلَیْہِ وَرِتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا (المزمل: ۱-۴) اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے! رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو، مگر کم۔ آدھی رات یا اس سے کچھ کم کر لو یا اس سے کچھ زیادہ بڑھا دو، اور قرآن کو خوب ٹھیر ٹھیر کر پڑھو۔

یہاں اگرچہ خطاب براہِ راست نبی اکرمؐ سے ہے لیکن بالواسطہ عبادتِ شب کی تاکید، امّت کو بھی کی گئی ہے کیونکہ نبی کے ہر چھوٹے بڑے عمل میں امّت کو ان کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے۔

علّامہ اقبال کے والد شیخ نور محمد نہایت نیک نفس اور متقی بزرگ تھے۔ پابندِ صوم و صلوٰۃ اور عبادتِ الٰہی کے مشتاق---کچھ تعجب نہیں کہ تہجّد اور قیام اللیل ان کے معمولات میں داخل ہو۔ اقبال کی شخصیت کی تشکیل و تعمیر میں شیخ نور محمد کی روحانیت کے اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اقبال کے لیے شیخ نورمحمد کی حیثیت، ایک مثالی شخصیّت کی تھی۔ عبادتِ شب کے ضمن میں بھی، انھوں نے یقینا اپنے والد سے اثرات قبول کیے ہوں گے۔ یہ فطری امر تھا۔

اصل میں تو یہ سنّتِ نبویؐ کا اِتباع تھا۔ نبی کریمؐ سے شیخ نور محمد اور خود اقبال کی وابستگی و شیفتگی محتاجِ بیان نہیں۔ اقبال نے جب بھی سحرخیزی اور عبادتِ شب کا اہتمام کیا تو قیام اللیل کے وہ تمام فوائد و ثمرات ان کے ذہن میں مستحضر ہوں گے، جن کی نشان دہی نبی کریمؐ نے فرمائی ہے۔ شب بیداری اور نمازِ تہجّد کی تاکید کے سلسلے میں چند احادیثِ نبویؐ ملاحظہ کیجیے:

عَنْ اَبِیْ اُمَامَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ : عَلَیْکُمْ بِقِیَامِ اللَّیْلِ فَاِنَّہٗ  دَأْبُ الصَّالِحِیْنَ قَبْلَکُمْ وَھُوَ  قُرْبَۃٌ  لَکُمْ اِلٰی رَبِّکُمْ وَمُکَفِّرَۃٌ  لِلسَّیِّآتِ وَمَنْھَاۃٌ عَنِ الْاِثْمِ (ترمذی)، حضرت امامہؓ کا بیان ہے کہ نبی کریم نے فرمایا: نمازِ تہجّد کا التزام کیا کرو۔ یہ تم سے پہلے کے نیک لوگوں کی خصلت ہے اور خدا سے تمھیں قریب کرنے والی اور گناہوں کے برے اثرات مٹانے والی اور معاصی سے روکنے والی چیز ہے۔

عَـنْ  اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ  قَـالَ  قَـالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ : اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ بَعْدَ الصَّلٰوۃِ الْمَکْتُوْبَۃِ الصَّلٰوۃُ  فِیْ  جَوْفِ اللَّیْلِ (مسلم)، حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: فرض نماز کے بعد، سب سے افضل نماز، نصف شب میں پڑھی جانے والی (تہجّد کی) نماز ہے۔

 وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ یَقُوْلُ اِنَّ  فِی اللَّیْلِ لَسَاعَۃً لَایُوَافِـقُھَا رَجُلٌ مُسْلِمٌ یَسْئَلُ  اللّٰہَ  فِیْھَا خَیْرًا مِنْ اَمْرِ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ  اِلَّا اَعْطَاہُ  اِیَّاہُ  وَذٰلِکَ کُلَّ لَیْلَۃٍ (مسلم)، حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ نبی ؐنے فرمایا: رات میں ایک ساعت ہے۔ اگر اس میں کوئی مسلمان، دین و دنیا کی بھلائی کی دعا مانگے تو اللہ اس کو عطا فرما دیتا ہے اور یہ ساعت ہررات میں ہوتی ہے۔

عَنْ اَبِیْ  سَعِیْد  الْخُدْرِیِّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ  اللّٰہِ ثلثۃ یضحکَ اللّٰہُ اِلَیْہِمْ: الرَّجُلْ اِذَا قَامَ  بِاللَّیْلِ یُصَلِّیْ وَالْقَوْمُ اِذَا صَفُّوْا فِی الصَّلٰوۃِ  وَالْقَوْمُ اِذَا صَفُّوْا فِی قِتَالِ الْعَدُوِّ (مسنداحمد)، حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول ؐاللہ نے فرمایا: تین شخص ہیں جنھیں دیکھ کر اللہ خوش ہوتا ہے اور ان سے راضی رہتا ہے: ایک تو وہ شخص جو رات کو اٹھ کر نماز پڑھے، دوسرے وہ لوگ جو نماز کے لیے صفوں کو برابر درست کریں اور تیسرے وہ لوگ جو دشمن کے مقابلے پر لڑنے کے لیے صفوں کو ترتیب دیں۔

عَنْ اَبِی ہُرَیْرَۃَ  قَـالَ  قَـالَ  رَسُوْلُ  اللّٰہِ  یَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَکَ وَتَعَالٰی کُلَّ لَیْلَۃٍ اِلٰی السَّمَاءِ الدُّنْیَا حِیْنَ یَبْقٰی ثُلُثُ اللَّیْلِ الْاٰخِرُ یَقُوْلُ مَنْ یَدْعُوْنِی  فَاَسْتَجِیْبُ  لَہٗ   مَنْ  یَسْاَلُنِیْ فَاُعْطِیْہِ مَنْ یَسْتَغْفِرُنِیْ  فَاَغْفِرُلَہٗ (بخاری، مسلم)، حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ عزوجل روزانہ (رات کے وقت) دنیا کے آسمان پر نزول فرماتا ہے اور فرماتا ہے: کون ہے جو مجھ سے دعا کرے اور میں اس کی دعا قبول کروں، کون ہے جو مجھ سے مانگے اور میں اس کو عطا کروں، کون ہے جو مغفرت چاہے اور میں اسے بخش دوں۔

حضرت سیّد علی ہجویریؒ نے ایک جگہ فرمایا ہے: علم کے ساتھ فکر بھی ضروری ہے۔ کیونکہ فکر اور تدبر کے بغیر نہ تو آدمی کے اندر صحیح فہم بیدار ہوتا ہے اور نہ اس کے بغیر علم، آدمی کی زندگی پر کوئی گہرا اور دیرپا اثر ڈال سکتا ہے۔(کشف المحجوب ،اردو ترجمہ: میاں طفیل محمد، ص ۷۸)

ظاہر ہے کہ غوروفکر کی یہ تاکید، حیات و کائنات کی حقیقت و ماہیت تک پہنچنے کے لیے ہے۔ یہ مسلّم ہے کہ علّامہ اقبال محض شاعر نہ تھے، ایک مفکّر اور فلسفی شاعر تھے۔ تفکّر، ان کی شخصیت کا جز اور سوچ بچار اور غوروفکر ان کی عادتِ ثانیہ تھی۔ اگر ہم کچھ پیچھے چلیں اور اقبال کے ابتدائی دور کی شاعری پر نظر ڈالیں تو ہمیں شاعر کے ہاں حیات و کائنات کے بارے میں اس تفکّرکے بطن سے پھوٹتا ہوا، ایک استفہامیہ لہجہ ملتا ہے۔ پھر اسی ضمن میں ان کے ہاں ایک اضطراب، سکوں ناآشنائی، تنہائی کا الم انگیز احساس، اور ان احساسات کی تسکین کے لیے فطرت کے مناظر و مظاہر کی طرف رجوع اور شہروں اور آبادیوں سے ویرانوں اور صحراؤں کی طرف گریز کا رجحان بھی نمایاں ہے:

شورش سے بھاگتا ہوں، دل ڈھونڈتا ہے میرا

ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو

مرتا ہوں خامشی پر، یہ آرزو ہے میری

دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو

(بانگِ درا، ص ۴۷)

وہ خموشی شام کی، جس پر تکلّم ہو فدا

وہ درختوں پر تفکّر کا سماں چھایا ہوا

(ایضاً، ص ۲۳)

کشتۂ عُزلت ہوں، آبادی میں گھبراتا ہوں میں

شہر سے سودا کی شدّت میں نکل جاتا ہوں میں

(ایضاً، ص ۷۷)

دن کی نسبت رات زیادہ پرسکون ہوتی ہے اور شب کے خاموش لمحوں میں غوروفکر کے لیے ماحول بہت سازگار ہوتا ہے۔ اس لیے آبادی سے گریز، تنہائی کی تلاش اور خاموشی کو پسند کرنے کا رجحان، بیداریِ شب تک پہنچتا ہے اور شاعر رات کی تنہائیوں میں حیات و کائنات کے متعلق ان سوالات پر غور کرتا ہے جو بہت ابتدا سے اس کے دل و دماغ پر چھائے ہوئے تھے:

سمجھ میں آئی حقیقت نہ، جب ستاروں کی

اسی خیال میں راتیں گزار دیں میں نے

(ایضاً، ص ۸۲)

تلاشِ حقیقت کے ضمن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھائی ہوئی یہ دعا ہے: اَرِنَا الْاَشْیَاءَ کَمَاہِیَ (اے اللہ)! ہمیں اس قابل بنا کہ ہم ہر چیز کو اس طرح دیکھیں جیسا کہ وہ فی الواقع ہیں۔

احادیثِ مذکورہ کی روشنی میں شب بیداری کا ایک محرک اور عبادتِ شب کی غرض و غایت، اقبال کے نزدیک، حیات و کائنات کی حقیقت و ماہیت پر تفکّر اور دنیا و مافیہا کے مسائل پر غور کرنا ہے اور یہ بھی کہ ہم حقیقت آشنا ہو کر صراطِ مستقیم کو پالینے کے لیے حضورِ ایزدی میں دست بہ دُعا ہوں۔

شب کی تنہائیوں میں تفکّر، رجوع الی القرآن اور عبادتِ شب کے نتیجے میں شاعر کے حسّاس دل کو کچھ ایسا سکون و ثبات نصیب ہوا کہ اس کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہ نکلے۔ یہ تشکّر کے آنسو تھے۔ اس خدا کی بارگاہ میں عقیدت کے آنسو، جس نے شاعر کو طمانیت کی ویسی ہی کیفیت عطا کی تھی، جو صحرا کے ایک مسافر کو اچانک کسی نخلستان میں پہنچنے کے بعد نصیب ہوتی ہے۔ چنانچہ شب کی تنہائیوں میں جاگ جاگ کر آنسو بہانا اور آہ و فغاں کرنا اس کا مستقل شِعار بن گیا۔ یہ شِعار، اقبال کے ہاں ابتدائی دور کی شاعری سے لے کر آخری دور کی شاعری تک، ہر مرحلے اور ہر دور میں ایک مستقل رجحان کی شکل میں موجود ہے:

پچھلے پہر کی کوئل، وہ صبح کی مؤذّن

میں اس کا ہم نوا ہوں، وہ میری ہم نوا ہو

پھولوں کو آئے جس دم، شبنم وضو کرانے

رونا مرا وضو ہو، نالہ مری دعا ہو

(ایضاً، ص ۴۷)

دن کی شورش میں نکلتے ہوئے شرماتے ہیں

عُزلتِ شب میں مرے اشک ٹپک جاتے ہیں

(ایضاً، ص ۱۷۳)

لیکن شب کی تنہائیوں میں بیدار رہ کر آنسو بہانا بجاے خود مقصود نہ تھا۔ جو کچھ مطلوب و مقصود تھا، اس کی طرف علّامہ اقبال نے ایک دو جگہ اس طرح اشارہ کیا ہے:

سکوتِ شام سے تا نغمۂ سحرگاہی

ہزار مرحلہ ہاے فغانِ نیم شبی

(ایضاً، ص ۲۲۳)

کٹی ہے رات تو ہنگامہ گستری میں تری

سحر قریب ہے، اللہ کا نام لے ساقی

( ایضاً، ص ۲۰۸)

اقبال کی فغانِ نیم شب اور آہِ سحرگاہی کا رشتہ شب بیداری کی مذہبی روایت سے وابستہ ہے جیساکہ انھوں نے خود واضح کیا ہے: ’سحر قریب ہے، اللہ کا نام لے ساقی‘۔ گویا شب بیداری اور عبادت گزاری کا مقصد یہ تھا کہ اللہ کے حضور عجز و نیاز کے ساتھ دستِ دعا دراز کیا جائے۔

دعا وسیلۂ قربِ الٰہی ہے، جس کے نتیجے میں مومن خدا سے مزید توفیق و عنایت کی دعا مانگتا ہے۔ مناظر و مظاہر فطرت کے مطالعے کا دعا پر منتج ہونا اور اس ذریعے سے قربِ الٰہی کا حصول، ایک فطری اور تدریجی امر ہے۔ اقبال کے نظامِ فکر میں دعا کی خاص اہمیت ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

Religion is not satisfied with mere conception; it seeks a more intimate knowledge of and association with the object of its persuit. The agency through which this association is achieved is the act of worship or prayer. (Reconstruction, p 70-71) 

مذہب کے لیے یہ ممکن نہیں کہ صرف تصورات پر قناعت کر لے۔ وہ چاہتا ہے کہ اپنے مقصود و مطلوب کا زیادہ گہرا علم حاصل کرے اور اس سے قریب تر ہوتا چلا جائے لیکن یہ قرب حاصل ہوگا تو دعا کے ذریعے۔(تشکیلِ جدید ،ص ۱۳۳)

Prayer, then, whether individual or associative, is an expression  of man's inner yearning for a response in the awful silence of the universe. It is a unique process of discovery. (Reconstruction, p 74) 

دعا خواہ انفرادی ہو، خواہ اجتماعی، ضمیرِ انسانی کی اس نہایت درجہ پوشیدہ آرزو کی ترجمان ہے کہ کائنات کے ہولناک سکوت میں وہ اپنی پکار کا کوئی جواب سنے۔ یہ انکشاف و تجسس کا (ایک) عدیم المثال عمل ہے۔(تشکیلِ جدید، ص ۱۳۹)

گویا وہ رجحان، جس نے تلاشِ حقیقت میں آبادی سے ویرانے اور انسان سے فطرت کی طرف گریز کیا تھا، اب فطرت اور ویرانے سے بھی کنارہ کشی کر کے گوشۂ قلب میں سمٹ آیا ہے اور نالۂ نیم شب، گریۂ سحری، فغانِ صبح گاہی اور دعا کے ذریعے قربِ الٰہی حاصل کر کے ان سوالات کا جواب چاہتا ہے، جو عرصۂ دراز سے اس کے قلبی اضطراب کا سبب بنے ہوئے ہیں:

چہ پرسی از طریق جستجویش

فرو آدر مقام ہاے و ہویش

شب و روزے کہ داری بر ابد زن

فغانِ صبح گاہی بر خرد زن

(زبور عجم ، ص ۱۶۴)

نگہ الجھی ہوئی ہے رنگ و بو میں

خرد کھوئی گئی ہے، چارسو میں

نہ چھوڑ اے دل! فغانِ صبح گاہی

اماں شاید ملے اللہ ہُو میں

(بالِ جبریل ، ص ۸۳)

اقبال کا نظامِ فکر اپنے اندر ایک وحدت رکھتا ہے اور اس کے جملہ تصورات و نظریات باہم دگر مربوط ہو کر اس وحدت کو مکمل کرتے ہیں۔ اس نظام فکر کی اساس اقبال کے نظریۂ خودی پر ہے اور فکرِاقبال کا کوئی معمولی سے معمولی رجحان بھی خودی سے الگ یا علاحدہ نہیں ہے۔ اقبال کا تصوّرِ سحرخیزی بھی علمی، عقلی اور عملی اعتبار سے ان کے نظریۂ خودی سے وابستہ ہے۔

نفسیاتی اور عملی اعتبار سے دیکھا جائے تو شب بیداری، سحرخیزی، عبادتِ شب اور دعا انسانی شخصیت میں بعض ایسے اخلاقی اوصاف کا باعث بنتی ہے جن کا حصول کسی دوسرے ذریعے سے ممکن نہیں۔ اول تو یہ کہ انسان ایک ایسے نازک مرحلے سے گزرتاہے جو ’دوچار سخت مقامات، سے کم نہیں۔ سحرخیزی ایک نہایت سخت اور نفس کو تکلیف دینے والا عمل ہے جسے قرآن پاک میں اَشَدُّ وَطْئًا،  یعنی نفس کو خوب روندنے والا عمل۔(المزمل :۶) قرار دیا گیا ہے۔ نفس کو روندنے کے علاوہ باقاعدگی، مستعدی، فرض شناسی، قوتِ برداشت اور ضبطِ نفس بھی بیداریِ شب کے ثمرات میں شامل ہیں۔ پھر طبّی نقطۂ نظر سے دیکھیے تو مسلم ہے کہ سحرخیز انسان لطیف الطبع اور ذہین ہوتا ہے۔ بیسیوں مفکّرین و فلاسفہ اور ادبا و شعرا کے ہاں سحرخیزی کا اہتمام رہا اور ان کی بہترین قلمی کاوشیں اور تخلیقاتِ ذہنی، اہتمامِ سحرخیزی کا نتیجہ ہیں۔ سحرخیز انسان بالعموم ایسی بہت سی ذہنی بیماریوں سے بھی محفوظ رہتا ہے جن میں گراں خواب اور نیند میں مدہوش لوگ اکثروبیشتر مبتلا ہو جاتے ہیں۔ گویا شب زندہ دار اور سحرخیز انسان ایک ایسے راستے پر چل رہا ہوتا ہے جو اسے خود شناسی اور عرفان نفس کی منزل تک پہنچاتا ہے۔ اقبال کی اصطلاح میں اسی کا نام خودی ہے۔ ’گریۂ سحرگاہی‘ اولادِ آدم کے لیے حضرت آدم ؑکی میراث ہے۔ جنت سے بوقتِ رخصت فرشتے آدم ؑسے کہتے ہیں:

گراں بہا ہے ترا گریۂ سحر گاہی

اسی سے ہے تیرے نخلِ کہن کی شادابی

(بالِ جبریل، ص ۱۳۱)

یہ ’گریۂ سحر گاہی‘ درحقیقت دعا ہی کا دوسرا نام ہے۔ اقبال اپنے انگریزی خطبات میں ایک جگہ کہتے ہیں:

The act of worship or prayer ending in spirtual illumination --- affects different varieties of consciousness  differently. (Reconstruction, pg 71) 

دعا وہ چیز ہے جس کی انتہا، روحانی تجلّیات پر ہوتی ہے اور جس سے مختلف طبیعتیں مختلف اثرات قبول کرتی ہیں۔(تشکیلِ جدید ، ص ۱۳۳)

___ psychologically speaking, prayer is instinctive in its origion. The act of prayer as aiming at knowledge, resembles reflection. Yet prayer at its highest is much more than abstract reflection. Like reflection, it too is a process of assimilation, but the assimilative process in the case of payer draws itself closely together and thereby acquires a power unknown to pure thought. (Reconstruction, p 71) 

بہ اعتبارِ نفسیات، دعا یا عبادت، ایک جبلّی امر ہے اور پھر جہاں تک حصولِ علم کا تعلق ہے، ہم اسے غوروتفکّر سے مشابہ ٹھہرائیں گے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس کا درجہ غوروتفکّر سے کہیں اونچا ہے مگر پھر غوروفکر کی طرح وہ بھی تحصیل و اکتساب ہی کا ایک عمل ہے جو بہ حالتِ عمل، ایک نقطے پر مرکوز ہو جاتا ہے اور کچھ ایسی طاقت اور قوت حاصل کرلیتا ہے جو فکرِ محض کو حاصل نہیں۔(تشکیلِ جدید ، ص ۱۳۵)

ظاہر ہے کہ اقبال نے جس چیز کو ’کچھ ایسی طاقت‘ اور ’روحانی تجلّیات‘ کہا ہے، وہ خودی کے سوا کچھ اور نہیں، لیکن خودی کا حصول کچھ ایسا آسان نہیں۔ اس منزل تک رسائی کے لیے پہلے انسان کو بے خودی کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے جسے قرآنِ پاک نے ’نفس کو روندنے والا‘ قرار دیا ہے۔ شاید یہ حیاتِ انسانی کے ’دوچار بہت سخت مقامات‘ ہی میں سے ایک مقام ہے۔ اقبال کے الفاظ میں ایک ’مشکل مقام‘:

مجھے آہ و فغانِ نیم شب کا پھر پیام آیا

تھم، اے رہ رَو کہ شاید پھر کوئی مشکل مقام آیا

(بالِ جبریل  ، ص ۵۷)

گویا عرفانِ ذات کے لیے نفیِ ذات کا معرکہ سر کرنا ضروری ہے۔ اقبال لکھتے ہیں:

It is a unique process of discovery, whereby the searching ego affirms itself in the very moment of self-negation, and thus discovers its own worth and justification as a dynamic factor in the life of the universe.  (Reconstruction, pg 74) 

یہ [دعا] وہ عدیم المثال عمل ہے جس میں طالبِ حقیقت کے لیے نفیِ ذات ہی کا لمحہ، اثباتِ ذات کا لمحہ بن جاتا ہے اور جس میں وہ اپنی قدروقیمت سے آشنا ہو کر بجا طور پر سمجھتا ہے کہ اس کی حیثیت، کائنات کی زندگی میں، سچ مچ ایک فعّال عنصر کی ہے۔(ایضاً، ص ۱۳۹)

گویا نفی ذات کا پُل صراط عبور کرتے ہی فی الفور انسان اثباتِ ذات کی اس جنت میں داخل ہو جاتا ہے جس کا نام خودی ہے۔ جنت کی ہر شے عبادُالرحمن کے لیے مسخرّاور مطیع ہوگی۔ صاحبِ خودی (سحرخیز) انسان بھی حیات و کائنات کو اپنا مطیع و منقاد پاتا ہے۔ اسے ہر طرح کی قوت و سطوت، شان و شوکت اور عظمت حاصل ہوتی ہے۔ فطرت کے وہ مظاہر و مناظر، جن سے وہ رازِ کائنات پوچھتا پھرتا تھا، اب اسے اپنی گردِ راہ محسوس ہوتے ہیں۔ اس کے نالۂ سحرگاہی اور فغانِ صبح گاہی میں ایک ایسی قوت پیدا ہو جاتی ہے جس سے نہ صرف فرد کی اپنی قسمت، بلکہ قوموں کی اجتماعی تقدیر بھی منقلب ہو سکتی ہے۔ علّامہ اقبال اپنی ہمشیرہ کریم بی بی کو ایک خط میں لکھتے ہیں:

مسلمان کی بہترین تلوار دعا ہے، سو اسی سے کام لینا چاہیے۔ ہر وقت دعا کرتے رہنا چاہیے اور نبی کریمؐ پر درود بھیجنا چاہیے۔ کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ اس امّت کی دعا سن لے اور اس کی غریبی پر رحم فرمائے۔(مظلوم اقبال ،شیخ اعجاز احمد، ص ۲۸۱)

اقبال کی شاعری میں ’نالہ بے باک‘ ، ’آہ صبح گاہی‘ ، ’اشک سحرگاہی‘ ، ’گریۂ نیم شب، وغیرہ دعا ہی کے مترادف ہیں۔ علّامہ، دعا کے اندر مضمر باطنی قوت کی غیر معمولی تاثیر سے بہ خوبی واقف ہیں:

نہ ستارے میں ہے، نے گردش افلاک میں ہے

تیری تقدیر، مرے نالۂ بے باک میں ہے

(بالِ جبریل ،ص ۶۵)

تلاش، اس کی فضاؤں میں کر، نصیب اپنا

جہانِ تازہ مری آہِ صبح گاہ میں ہے

( ایضاً، ص ۶۹)

میں نے پایا ہے اسے اشکِ سحرگاہی میں

جس دُرِ ناب سے خالی ہے صدف کی آغوش

(ایضاً، ص ۷۵)

عطّار ہو، رومی ہو، رازی ہو، غزالی ہو

کچھ ہاتھ نہیں آتا، بے آہِ سحرگاہی

(ایضاً، ص ۵۶)

تاکِ خویش از گریۂ ہاے نیم شب سیراب دار

کز درونِ او شعاعِ آفتاب آید بروں

(زبورِ عجم ، ص ۹۷)

بروں زیں گنبدِ در بستہ پیدا کردہ ام راہے

کہ از اندیشہ برتر می پرد آہِ سحرگاہے

(ایضاً، ص ۱۰۰)

ز اشکِ صبح گاہی، زندگی را برگ و ساز آور

شود کشتِ تو ویراں تا نہ ریزی دانہ پے در پے

(ایضاً، ص ۱۰۷)

افرادِ ملّت سے اقبال کو یہی شکوہ ہے کہ انھوں نے سحرخیزی کی عادت ترک کی، گریۂ ہاے صبح گاہی کو چھوڑا اور اس طرح خودی سے دست کش ہو کر ذلّت ونُکبت کا شکار ہوگئے۔ یہ شکوہ مختلف مقامات پر مختلف انداز سے سامنے آتا ہے:

کس قدر تم پہ گراں، صبح کی بیداری ہے

ہم سے کب پیار ہے؟ ہاں نیند تمھیں پیاری ہے

(بانگِ درا، ص ۲۰۱)

فغانِ نیم شب شاعر کی بارِ گوش ہوتی ہے

نہ ہو جب چشمِ محفل، آشناے لطفِ بے خوابی

(ایضاً، ص ۲۳۸)

خال خال اس قوم میں، اب تک نظر آتے ہیں وہ

کرتے ہیں اشکِ سحرگاہی سے جو ظالم، وضو

(ارمغانِ حجاز ، مشمولہ : کلیاتِ اقبال، اردو، ص ۱۲/۶۵۴)

بہ خواب رفتہ جوانان و مردہ دل پیراں

نصیبِ سینۂ کس، آہِ صبح گاہے نیست

(پیامِ مشرق ، ص ۱۸۱)

دورِ جدید میں مختلف اور متضاد علمی و سائنسی اور انقلابی نظریات کے درمیان ٹکراؤ اور تہذیبوں کے درمیان کش مکش تیز تر ہوتی جا رہی ہے۔ امّت ِمسلمہ اپنی تاریخ کے دامن میں علوم و فنون اور تہذیب و ثقافت کا ایک عظیم الشان سرمایہ رکھتی ہے۔ اس اعتبار سے عصرِحاضر کے چیلنج کا سامنا کرتے ہوئے اس پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اقبال کے نزدیک اس چیلنج کا جواب صرف اس داخلی اور روحانی قوت اور فقروقناعت پسندی کے ذریعے دیا جا سکتا ہے جو کارزارِ حیات میں مردِ مومن کا اصل سرمایہ اور کش مکش و کشاکش میں کامیابی کے لیے اس کا کارگر ہتھیار ہے۔ روحانی قوت اور فقر کا سرمایہ، ذوقِ سحرخیزی کے ذریعے ہی فراہم ہو سکتا ہے اور یہی تقویمِ خودی کا راز ہے۔

اقبال ،امّتِ مسلمہ کے نوجوانوں کے لیے بطورِ خاص دعاگو ہیں کہ خدا انھیں ذوقِ سحرخیزی کی دولت سے نوازے:

بے اشکِ سحرگاہی، تقویمِ خودی مشکل

یہ لالۂ پیکانی، خوش تر ہے کنارِ جو

(ضرب کلیم ، ص ۱۷۳)

جوانوں کو مری آہِ سحر دے

پھر، ان شاہیں بچوں کو بال و پر  دے

(بالِ جبریل ، ص ۸۶)

جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے

مرا عشق، میری نظر بخش دے

مرے دیدۂ تر کی بے خوابیاں

مرے دل کی پوشیدہ بے تابیاں

مرے نالۂ نیم شب کا نیاز

مری خلوت و انجمن کا گداز

(ایضاً، ص ۱۲۴، ۱۲۵)

سوزِ او را از نگاہِ من بگیر

یا ز آہِ صبح گاہِ من بگیر

(جاوید نامہ ، ص ۱۹۹)

ہر درد مند دل کو، رونا مرا رلا دے

بے ہوش جو پڑے ہیں، شاید انھیں جگا دے

(بانگِ درا، ص ۴۸)

بالِ جبریل میں ’اذان‘ کے عنوان سے ایک چھوٹی سی نظم ہے۔ اس میں اقبال نے مسلمانوں کے ذوقِ سحرخیزی کو ازسرِنو تازہ کرنے اور ان پر شب بیداری کی اہمیت کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ چاند ستاروں کا ایک مکالمہ ہے۔ انداز نہایت حکیمانہ ہے۔ مسلمانوں کو ان کی غفلت کا احساس دلانے کے ساتھ ساتھ ان کے مقام و مرتبے کی عظمت کا اظہار و اعتراف بھی کیا ہے۔ چاند، انسان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ستاروں سے مخاطب ہے:

واقف ہو اگر لذّتِ بیداریِ شب سے

اونچی ہے ثرّیا سے بھی یہ خاکِ پُراسرار

آغوش میں اس کی وہ تجلّی ہے کہ جس میں

کھو جائیں گے افلاک کے سب ثابت و سیّار

(بالِ جبریل ،ص ۱۴۵)

جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، شب بیداری، سحرخیزی اور آہِ صبح گاہی کا منطقی نتیجہ تقویمِ خودی ہے۔ اقبال اپنی بے خوابیوں اور شب بیداریوں کے نتیجے میں ’اس لذتِ آہِ سحرگاہی‘ سے بہرہ ور تھے، جس کا ثمر قیام و استحکامِ خودی ہے، لیکن اگر ایسا نہ ہو سکے تو پھر یہ ساری مشق ’مذہب ملّا و جمادات‘ کا حصہ شمار ہو گی جس کا حاصل کچھ بھی نہیں۔ گویا سحرخیزی، شب بیداری اور فغان و فریاد ایک ظاہری عمل ہے، تو استحکام خودی اس کی روح ہے۔ روح کے بغیر ظاہری عمل، ایک مردہ جسم ہے جس سے اقبال تو کیا، کسی بھی ہوش مند شخص کو ذرّہ برابر دل چسپی نہیں ہو سکتی۔ اگر شب بیداری ایک رسم یا دین داری کی نمایش بن کر رہ جائے تو یہ محض ریاکاری ہو گی جس کا حاصل حصول کچھ نہ ہوگا۔ علّامہ اقبال ایسی عبادت اور سحرخیزی کو مردود قرار دیتے ہیں:

یہ ذکرِ نیم شبی، یہ مراقبے، یہ سرور

تری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں

(ضربِ کلیم، ص ۳۴)

کر سکتی ہے بے معرکہ جینے کی تلافی

ممکن نہیں تخلیقِ خودی خانقہوں سے

اے پیرِ حرم! تیری مناجاتِ سحر کیا؟

اس شعلۂ نم خوردہ سے ٹوٹے گا شرر کیا!

(ایضاً، ص ۱۷۳)

مست رکھو ذکر و فکرِ صبح گاہی میں اسے

پختہ تر کر دو مزاجِ خانقاہی میں اسے

(ارمغانِ حجاز ، مشمولہ : کلیاتِ اقبال، اردو، ص ۱۵/۶۵۷)

کارگاہِ حیات میں اگر شیطانی اور طاغوتی طاقتوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے تو صرف اس طرح کہ نالہ ہاے سحری سے خودی کو تقویت پہنچائی جائے۔ دنیا کی باطل قوتیں، بشمولِ ابلیس، اسی سحرخیز مسلمان سے خوفزدہ ہیں۔ ابلیس اپنے مشیروں کو یہ فرمان جاری کرتا ہے کہ مسلم شب زندہ دار کو خانقاہی رنگ کے ذکرِ صبح گاہی میں مست و مدہوش رکھو۔ پیرانِ حرم کو بھی خدشہ ہے کہ سحرخیز مردِمومن، ان کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں:

حریف اپنا سمجھ رہے ہیں خدایانِ خانقاہی

انھیں یہ ڈر ہے کہ میرے نالوں سے شق نہ ہو سنگِ آستانہ

(ایضاً، ص ۴۴/۶۸۶)

مگر علّامہ اقبال کی یہی تلقین ہے کہ:

از خوابِ گراں، خوابِ گراں، خوابِ گراں خیز

از خوابِ گراں خیز

(زبورِ عجم ،ص ۸۱)

علّامہ اقبال عمر بھر جس ’جہانِ تازہ‘ کی تلاش و تشکیل کے لیے آرزومند اور اس کی فکر میں جس طرح غلطاں و پیچاں رہے، اس کی رمز اسی ذوقِ سحرخیزی اور نواہاے سحرگاہی میں پوشیدہ ہے:

نہ ستارے میں ہے، نے گردشِ افلاک میں ہے

تیری تقدیر مرے نالۂ بے باک میں ہے

کیا عجب میری نواہاے سحرگاہی سے

زندہ ہو جائے، وہ آتش کہ تری خاک میں ہے

(بالِ جبریل ، ص ۶۵)

]ہم چین کی ترقی، یک جہتی اور دوستی کے قدر دان ہیں۔ یہی قدردانی اور دوستی تقاضا کرتی ہے کہ عوامی جمہوریہ چین کی سیاسی قیادت کے سامنے یہ حقیقت واضح کی جائے کہ: ’’دنیا کے مختلف حصوں میں بسنے والے مسلمان، محض علاقائی یا نسلی اقلیت یااکثریت نہیں ہیں بلکہ (مسلمان ایک نبی کی ایک ہی اُمت کی حیثیت سے شناخت رکھتے ہیں)۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا مغربی و امریکی سامراج، مسلمانوں کو علاقوں، ملکوں اور نسلوں کی بنیاد پر دیکھنے کے بجاے، انھیں صرف مسلمان کی حیثیت سے مخاطب کرتاہے۔ اس ابدی حقیقت اور تاریخی سچائی کی طرف متوجہ کرتے ہوئے یہ بات عرض کرنا چاہتے ہیں کہ چین کی جہاں دیدہ سیاسی قیادت کو ایغور مسلمانوں کے حوالے سے بھی یہی حقیقت پیش نظر رکھنی چاہیے۔ یہ امرواقعہ بھی ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہیے کہ چین، تجارت اور اسٹرے ٹیجک تعلقات کے حوالے سے، سب سے زیادہ قریب مسلم ممالک ہی سے ہے۔ وہ اپنے ہاں بسنے والے مسلمانوں کے مسائل کو فوجی یا جبری انداز سے حل کرنے کے بجاے، وہاں رہنے والے مسلمانوں کے دینی، سماجی اور معاشی مفادات کو حق و انصاف کی بنیاد پر حل کرتا ہے اور ان کی تہذیب و ثقافت کا احترام کرتا ہے تو یہ بات خود چین کے مفاد میں ہوگی۔ اس طرح ایک جانب وہ مسلمان حکومتوں سے بڑھ کر ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے دل میں جگہ بنا سکے گا تو دوسری جانب اپنے لیے ملک اور ملک سے باہر خیرسگالی کے جذبات کو پروان چڑھاپائے گا۔ س م خ


یہ ایک دل چسپ اور رُلا دینے والا رپورتاژ ہے ___ رپورتاژ کو اہل نقد بالعموم افسانوی ادب (fiction) میں شمار کرتے ہیں، مگر زیر نظر کتاب میں حقیقت ہی حقیقت ہے، افسانہ نہیں ہے۔ قاری مطالعے کے دوران  ڈاکٹر شفیق انجم کی خوب صورت نثر کی بے ساختہ داد دیتا ہے۔
مصنف کو ملازمتی مصروفیات کے سلسلے میں کچھ عرصہ سنکیانگ میں رہنے کا موقع ملا۔ وہ لکھتے ہیں :’’مختصر مدّت کی یہ رفاقت عمر بھر کی رفاقت محسوس ہوتی ہے ۔ میں نے اسے صرف دیکھا ہی نہیں، سوچا، سمجھا، چکھااور بھگتا بھی ہے۔ اس قربت و رفاقت کے کچھ زاویے میں نے اپنی نظمیہ کہانیوں میں نقش کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ نظمیہ کہانیاں: جلا وطن، خود کلامی اور سنکیانگ میں محبت کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہو چکی ہیں۔ زیر نظر تحریر سنکیانگ نامہ میں کچھ مزید زاویوں کو سمیٹنے اور بیان کرنے کی کوشش کی ہے‘‘۔ (ص۶) 
یہ کتاب سنکیانگ کے ایغور مسلمانوں کے شان دار ’ماضی‘ اور درد ناک ’حال‘ کی رُودادِ زندگی ہے۔ جہاں تک سنکیانگ میں ایغور وں کے ’مستقبل‘ کا تعلق ہے: ’’زمین اس کی ہوتی ہے جس کے پاس طاقت ہو‘‘ (ص ۷)۔ اس اعتبار سے ایغوروں کا ’مستقبل‘ بظاہر دکھائی نہیں دیتا، کیوں کہ موجودہ حکومت ان سے جس طرح معاملہ کر رہی ہے، کوئی دن جاتا ہے (اور یہ چند برسوں کی بات ہے ) کہ وہ نابود کردیے یا دُور دُور بکھیر دیے جائیں گے۔ پھر وجود کہاں؟ اور زمین کا ذکر کہاں؟
مصنف کہتے ہیں : ’’چین سے ہمارا دوستی کا ایک مضبوط رشتہ قائم ہے، یہ رشتہ قائم رہنا اور پھلنا پھولنا چاہیے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان پہلوئوں پر ضرور بات ہونی چاہیے، جو اس پُر خلوص رشتے میں دُکھ اور تکلیف کے عناصر شامل کیے جا رہے ہیں، انھی میں سے ایک سنکیانگ ہے‘‘۔ (ص ۱۲)
اس طرح یہ کتاب سنکیانگ کے ایغوروں کے دکھوں کی کہانی ہے۔ سنکیانگ ۱۶لاکھ ۶۴ہزار ۸سو ۹۷مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ چین نے جس کثرت سے یہاں سٹرکیں، پُل اور عمارتیں بنائی ہیں، اسی کثرت سے چین کے مختلف علاقوں سے چینی باشندوں کو لا لا کر سنکیانگ میں بسا یا ہے۔ بقول مصنف: ’’کسی زمانے میں یہاں مسلمان واحد اکثریت تھے، لیکن چینی عمل داری کے بعد منظم آباد کاری کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اب یہ تناسب ۴۵/۵۵ کا ہو گیا ہے اور آنے والے برسوں میں مسلم اکثریت آٹے میں نمک کے برابر رہ جائے گی‘‘۔ (ص۱۸)
 مصنف نے سنکیانگ کے مختلف شہروں کے محل وقوع کے ساتھ ان کا تعارف کرایا ہے ۔ مختلف علاقوں کے لوگوں سے تبادلۂ خیال کیا ، ان کے ناگفتہ بہ حالات سنے اور ان میں سے بعض واقعات نقل کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’سنکیانگ مکمل طور پر ایک پولیس اسٹیٹ ہے۔ غیر ملکی سیّاح بکثرت آتے ہیںمگر ایک دودن کے قیام سے انھیں اصلیت کا پتا نہیں چلتا، ہاں طویل قیام سے بخوبی سمجھ لیتے ہیں کہ سنکیانگ میں ایغور ہونے کا مطلب سسکتی موت ہے ۔ بظاہر یہ لوگ زندہ ہیں لیکن انھیں اندر سے مار دیا گیا ہے۔ یہ خبریں تو اب عالمی میڈیا پر بھی عام ہیں کہ سنکیانگ میں ایغوروں کے لیے بڑے بڑے ’حراستی کیمپ‘ بنائے گئے ہیں، جہاں لاکھوں کی تعداد میں لوگ لائے جاتے اور انھیں اذیت ناک مراحل سے گزار کر وفا دار بننے کی تربیت دی جاتی ہے۔ ان کیمپوں کی موجودگی سے چینی حکومت انکاری ہے اور اسے چین دشمن عناصر کا پروپیگنڈا کہہ کر رد کیا جاتا ہے۔ لیکن واقفانِ حال جانتے ہیں کہ ’حراستی کیمپ‘ ہونے نہ ہونے کی بات ایک طرف، یہاں تو گھر گھر ، گلی گلی، کوچہ کوچہ حراست معصوم لوگوں کو دبوچے بیٹھی ہے۔ ہر ایغور ’مشکوک‘ ہے، ہر ایغور ’دہشت گرد‘ ہے اور ہرایغور پر لازم ہے کہ وہ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے چینی حکومت سے وفاداری کا ورد کرتا رہے۔ پولیس کی نگرانی کے ساتھ ہر ایغور گھرانے پر ایک چینی گھرانا مامور ہے۔ نجی معاملات میں یہ چینی گھرانا دوستی کے لیبل اور باہمی تعاون ومدد کے سلوگن کے ساتھ ایغور گھرانے کی کوتوالی کرتا ہے۔ باہمی شادیوں اورثقافتی اشتراک کی راہ نکالتا ہے اور اگر کہیں کسی طرح کی کم آمادگی یا گریز کی صورت دیکھتا ہے تو نہ جانے پولیس کو کیسے معلوم ہو جاتا ہے کہ فلاں ایغور گھرانے کے فلاں فرد یا پورے گھرانے کو ’خصوصی تربیت کی ضرورت ہے‘۔ پس ’تربیت‘ دی جاتی ہے ، اور ایسی کہ دائیں بائیں والوں کے بھی اوسان خطا ہوجاتے ہیں‘‘ ۔ (ص۵۳) 
ایک اور جگہ کہتے ہیں: ’’ارومچی کے جنوبی علاقے میں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ یہاں مساجد موجود ہیں، جن کا احاطہ محدود کر کے ان کے گرد باڑیں لگا دی گئی ہیں۔ گیٹ میں سکینر اور کیمرے ، ہر مسجد کے سامنے پولیس بکتر بند گاڑیاں چوبیس گھنٹے کھڑی رہتی ہیں۔ مسجد صرف نماز کے وقت کھلتی ہے اور پھر مقفل۔ ہر نمازی کی شناخت نوٹ ہوتی ہے ۔ پس، گنے چنے بوڑھے ہی نماز کے اوقات میں نظر آتے ہیں۔ مساجد کے علاوہ گھروں میں قرآن شریف یا کوئی بھی مذہبی متن یا آثار رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ داڑھی رکھنے پر پابندی، روزے پربھی پابندی ، رمضان میں جان بوجھ کر دفتروں میں آفیشل لنچ رکھے جاتے ہیں۔ جو ایغور ملازمت میں ہیں، ان کی جامع رپورٹ بنتی ہے ، نگرانی ہوتی ہے۔ رات دن سولی پر لٹکتے رہتے ہیں، پھر بھی اعتباری قرار نہیں پاتے ‘‘ (ص۵۴- ۵۵) ۔اسی طرح: ’’مسلم ثقافت کا زور توڑنے کے لیے بدھ مذہبی ثقافت کو مقابل لایا جارہاہے‘‘ (ص۶۶)۔’’چینی حلقوں میں ان [ایغور مسلمانوں]کی کوئی عزت نہیں۔ یہ لوگ حکومتی مشینری میں اعلیٰ عہدے بھی رکھتے ہیں اور بہت قابل پروفیسر ، ڈاکٹر اور انجینیر اور کاروباری لوگ بھی ہیں، لیکن نسلاً ایغور ہونا ان کے لیے ایک تہمت بنا رہتا ہے‘‘۔  (ص۷۷)
مصنف نے اپنے مشاہدے کو صرف ایغوروں کی مظلومیت تک محدود نہیں رکھا، بلکہ ان کی ثقافت، تعلیم اور ان کے خوردو نوش کی عادت کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ ریستورانوں میں چائے ، کھانے، چکن تکے، سیخ کباب ، نمکین اور میٹھے بسکٹ ، کلچے ، کرانچی جلیبی، پیزہ اور یہاں کے پھل___ جو ایغور دُور دراز دیہی علاقوں میں رہتے ہیں ، وہ قدر ے عافیت میں ہیں (مگر تابکے ؟)۔ لوگ   حلیم اور خوش گفتار ہیں۔ دھول مٹی سے اَٹے ، لتھڑے، لیکن دل کے غنی وباد شاہ اور مہمان نوازی میں بے مثل ۔ مسافروں کے پہنچتے ہی ہر ایک بقدرِ استطاعت خدمت میں جُت جاتا ہے ۔ پانی،   دودھ اور میوے پیش کیے جاتے ہیں ۔ رسم کے مطابق بھیڑ یا دنبہ ذبح کر کے خوان سجایا جاتا ہے۔ اپنے پاس بھیڑ میسر نہ ہو تو ساتھ والوں سے اُدھار لے لی جاتی ہے۔ زبان اجنبی ہے، چہرے اجنبی ہیں، منظر وماحول اجنبی ہے، لیکن خلوص وایثار ومحبت کے جذبے اپنے اپنے سے ہیں۔ 
ایغوروں اور چینیوں کے عقائد و تجربات، نظریہ ہاے زندگی اور رسومات و مشاغل الگ الگ ہیں۔ مصنف کا اخذ کردہ نتیجہ انھی کے الفاظ میں درج ذیل ہے: 
’’چین، سنکیانگ سے جانے کا نہیں۔ سرحدیں سیل ہیں اور ایسی سیل کہ کوئی پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا ہے ۔ شہروں شہر نا کہ بندی اور ایسی ناکہ بندی کہ ایک شہر کی ہوا بھی دوسرے شہر جانے سے گریز کرتی ہے۔ شہروں اور قصبوں کے اندر ہر ہر کالونی کی الگ الگ ناکہ بندی ہے۔ ہر کالونی کی ہر منزل کی الگ ناکہ بندی ۔ ہر منزل کے ہر گھر کی الگ ناکہ بندی ۔اور ہر گھر کے ہر فرد کی الگ ناکہ بندی۔ اتنے حصار اور اتنے کڑے حصار ہیں کہ بے بسی سینہ پیٹتی ، بین کرتی رہتی ہے، لیکن کوئی نہیں سنتا۔ جب جس کو اٹھانا ہو، اٹھا لیا جاتا ہے۔ ایک ایک قیدی کے لیے چھے چھے بم پروف گاڑیوں کا قافلہ چلتا ہے، اور معلوم نہیں جانے والا کہاں جاتا ہے۔ شہروں شہر بکتر بند گاڑیوں میں دہشت گشت کرتی رہتی ہے۔ ٹینک اور راکٹ بردار گاڑیاں چوک چوراہوں میں کھڑے ہیں۔ جگہ جگہ پولیس سٹیشن ہیں۔ فوج الگ سے تیارو چوکس کھڑی ہے۔ تو ایسے میں یہ کہنا کہ یہ سارا اہتمام حفاظت کے لیے ہے، کتنا مضحکہ خیز لگتا ہے۔ کیا حفاظت کا یہ اہتمام چین کے باقی شہروں میں بھی ہے؟ کیا [اُن] عالمی اہمیت کے حامل شہروں میں بھی ہے؟ کیا بیجنگ ، شنگھائی اور گوانگ زو جیسے عالمی اہمیت کے حامل شہروں میں اس سے زیادہ اہتمام کی ضرورت نہیں ؟ جواب ملتا ہے: ’نہیں، کیونکہ وہاں ایغور نہیں‘۔توگویا ایغوروں کا ہونا چین کی سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ سمجھ لیا گیا ہے‘‘۔ (ص۷۸)
مصنف نے آخر میں لکھا ہے:’’سنکیانگ چینیوں کا ہے اور سنکیانگ کے باشندے بھی چینیوں کے ۔ کوئی کچھ نہیں کر سکتا___ مگر دوست کو دوستی کا حوالہ دے کر، درخواست تو کی جا سکتی ہے اگرچہ واضح ہے کہ شنوائی کی کوئی صورت نہیں۔ کسی طور کسی کا دل نہیں پسیجے گا، کسی طور کوئی آمادۂ رحم  نہ ہو گا کہ طاقت ، بے مہار طاقت فریادیں نہیں سنتی، حکم لگاتی ہے، حکم نافذ کرتی ہے۔ اور مظلوم وبے کس لوگ مرتے ، اذیت ناک موت مرتے رہتے ہیں___ تاریخِ انسانی میں ایسا ہوتا رہا ہے اور ہرجغرافیے سے جڑی کہانیوں میں یہ بات مشترک ہے کہ زور والے زیر دستوں پر چڑھ دوڑے اور انسانیت انھیں دیکھ دیکھ شرماتی رہی۔ ترقی اور ارتقا کے خروش میں خون کی ندیاں بہائی جاتی رہیں اور کوئی کسی کے لیے کچھ بھی نہ کرسکا۔ دُکھ ہوتا ہے اور سوچ غالب آتی ہے کہ آخر انسان ترقی اور کمال کی منزلوں پر پہنچ کر بھی دوسروں کو معاف کرنا اور جینے کا حق دینا کیوں نہیں سیکھ پاتا؟ اپنے بچے اپنے ہیں تو دوسروں کے بچے بھی اپنوں کی طرح کیوں نہیںلگتے؟ رنگ، نسل، قوم، قبیلے اگر تفاخر کا باعث ہیں تو اپنے تفاخر کے ساتھ دوسروں کے تفاخر کا احترام کیوں نہیں کیا جاتا؟ تجارت ، کاروبار اور مال واسباب کی دوڑ دھوپ اگر زندگی کے لیے ہے تو پھر یہ سب کچھ پانے کی خواہش میں زندگی ، زندگی کو کیوں کاٹ کھاتی ہے؟ شاید انسان طاقت کے نشے میں اندھا ہو جاتا ہے۔ شاید انسان  خدا بننا چاہتا ہے؟ لیکن جان لینا چاہیے کہ زمین حاکم تو پالتی ہے لیکن کسی کو خدا نہیں بننے دیتی ___  یہ زمین کی سرشت ہے۔ اور یقینا آسمان کی سرشت بھی یہی ہے___  ایسے میں کیا ہی اچھا ہو کہ حاکم، محکوموں پر مہربانی کریں تو سب کی زندگیوں میں خوشیوں کے پھول کھل سکتے ہیں‘‘۔(ص ۷۹-۸۰)
مصنف کی اس درد بھری اپیل پر دوستوں کو بھی دھیان دینا چاہیے اور اپنے آپ کو اُمت ِ مسلمہ سے منسوب کرنے والے حاکموں کو بھی سفارتی اور اخلاقی سطح پر اپنا فرض ادا کرنا چاہیے۔ اس رُودادِ اَلم کو پڑھنے کے لیے ملاحظہ ہو:سنکیانگ نامہ ،ڈاکٹر شفیق انجم ۔ الفتح پبلی کیشنز، ۳۹۲-اے ،گلی نمبر ۵۔اے، لین نمبر ۵، گل ریز ہائوسنگ سکیم۔۲ ، راولپنڈی ۔ صفحات : ۸۰ ۔ قیمت :۲۵۰ روپے۔ 

علامہ اقبال ۱۹۳۳ء میں نادر شاہ کی دعوت پر افغانستان گئے۔ اس سفر میں سیّد راس مسعود اور سیّد سلیمان ندوی بھی ان کے ہم رکاب تھے۔ موٹر کار کے ذریعے پشاور ،جلال آباد کے راستے کابل پہنچے تھے مگر واپسی پر غزنین ،قندھار اور چمن کوئٹہ کا راستہ اختیار کیا۔ پورے سفر کی رُوداد سیرافغانستان کے نام سے سیّد سلیمان ندوی نے قلم بند کی تھی۔

چمن سے کوئٹہ آتے ہوئے علامہ سے ان کی جو گفتگو ہوئی، اس کے ذکر میں سیّد صاحب لکھتے ہیں: ’’ڈاکٹر صاحب نے اپنے آغازِ زندگی اور طالب علمانہ عہد کا ذکر چھیڑا، پھر اپنے والد مرحوم کا تذکرہ کیا کہ وہ خود ایک صاحبِ دل صوفی تھے اور دین دار علما کی صحبت میں رہتے تھے ۔ اس ضمن میں یہ معلوم ہوا کہ ہمارے جلیل القدر اسلامی شاعر کے حسّیاتِ خفتہ کے تاروں میں جس مضراب نے حرکت پیدا کی، وہ خود ان کے والد ماجد کی ذاتِ بابر کات تھی۔

’’اثناے گفتگو میں ڈاکٹر صاحب نے اپنے طالب علمی کے عہد کے ایک قصے میں اپنے والدمرحوم کا ایک ایسا فقرہ سنایا جس نے میرے دل پر بے حد اثر کیا۔ فرمایا کہ اپنے وطن سیالکوٹ میں صبح کی نماز کے بعد قرآن پاک کی تلاوت کیا کرتا تھا۔ [خیال رہے کہ مسلم گھرانوں میں، صدیوں سے علی الصبح تلاوتِ قرآن کی روایت چلی آ رہی ہے۔ علامہ کے زمانے تک یہ روایت باقی تھی، اور اب بھی بعض گھرانوں میں موجود ہے، چنانچہ اپنے لڑکپن میں، اقبال نماز فجر کے بعد معمولاً تلاوت کیا کرتے تھے ]۔ایک صبح کو نماز کے بعد حسب دستورِ مَیں تلاوت میں مصروف تھا کہ والدِمرحوم ادھر آئے اور دریافت کیا کہ کیا کرتے ہو ؟ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ  مَیں اس وقت تلاوت کرتا ہوں۔ فرمایا : ’’جب تک تم یہ نہ سمجھو کہ قرآن تمھارے قلب پر بھی  اسی طرح اترا ہے جیسے محمد ؐ کے قلبِ اقدس پر نازل ہوا تھا، تلاوت کا مزا نہیں‘‘۔ یعنی اپنے اندر احساس پیدا کرو کہ گویا قرآن تم پر نازل ہو اہے۔ علامہ اقبال نے بہت بعد میں اپنے شعر میں اس واقعے کی طرف اشارہ کیا ہے:

ترے ضمیر پر جب تک نہ ہو نزولِ کتاب

گرہ کشا ہے نہ رازی ، نہ صاحبِ کشاف

(بالِ جبریل، ص ۷۸)

اقبال نے والد کی یہ نصیحت پلے باندھ لی اور قرآن حکیم کے ساتھ ایسی وابستگی پیدا کر لی کہ بقول سیّد مودودی ؒ :’’دنیا نے دیکھا کہ [وہ] قرآن حکیم میں گم ہو چکا ہے اور قرآن سے الگ اس کا کوئی فکری وجود باقی نہیں رہا ‘‘ ۔ اقبال کی انقلاب انگیز شاعری اور ان کے افکار وتصورات اس پر گواہی دے رہے ہیں۔

اقبال اوائلِ عمر ہی سے تلاوتِ قرآن پاک کے عادی تھے۔ تلاوت بہت خوش الحانی سے کرتے۔ کبھی کبھی وہ رات کو اپنے دوست مرزا جلا ل الدین کے ہاں ہی ٹھیر جاتے۔ مرزا صاحب ، ان ایام کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب جب رات میرے پاس گزارتے تھے تو  صبح اُٹھ کر نماز پڑھتے اور اس کے بعد بڑی خوش الحانی سے دیر تک قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے۔ ان کی تلاوت سن کر بڑا لطف آتا تھااور ایک کیفیت طاری ہو جاتی تھی ۔ پھر چائے پی کر وہ اپنے دفتر یا گھر چلے جایا کرتے تھے۔

اقبال کا خادمِ خاص ، علی بخش تقریباً ۳۵ برس تک اقبال کے شب وروز اور سفر وحضر کا رفیق رہا۔ اس کی روایت ہے کہ صبح کی نماز اور قرآن خوانی مدت سے ان کا معمول تھا۔ قرآن بلند آواز سے پڑھتے تھے۔ آواز ایسی شیریں تھی کہ ان کی زبان سے قرآن سن کر پتھروں کے دل پانی ہو جاتے تھے۔ بیماری کے زمانے میں قرآن پڑھنا چھوٹ گیا اور عمر بھر کا معمول باقی نہ رہا۔ اس بات کا انھیں شدید قلق تھا:

در نفس سوزِ جگر باقی نماند

لطفِ قرآنِ سحر باقی نماند

(پس چہ باید کرد،ص۵۰ )

جب خود تلاوت نہ کر سکتے تو کوشش ہوتی تھی کہ کسی اچھے قاری کی تلاوت سنیں۔ ڈورس احمد بتاتی ہیں: ایک روز ایک عرب ،علامہ سے ملنے آیا ۔ اس موقعے پر ڈاکٹر صاحب نے مجھے کہا کہ بچوں کو میرے پاس لے آئیے ۔ عرب مہمان ابھی قرآنِ پاک کی تلاو ت کریں گے۔ اگر آپ بھی تلاوت سننا پسند کریں تو سامعین میں شامل ہو سکتی ہیں۔ ڈورس احمد کہتی ہیں: عرب مہمان نہایت خوش الحان تھے۔ جب تک وہ آیاتِ مقدسہ کی تلاوت کرتے رہے ، ڈاکٹر صاحب برابر روتے رہے۔ اگرچہ میں آیات کا مفہوم سمجھنے سے قاصر تھی، لیکن قاری صاحب کے حسنِ قراء ت نے جو سماں باندھ دیا، میں اس سے بہت متاثر ہوئی۔ بچے مسحور تھے اور ڈاکٹر صاحب تو وجد میں تھے۔

اقبال کو ’ترجمان القرآن‘ بھی کہا جاتا ہے اور یہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں۔ علی بخش کا بیان ہے کہ جب شعر کہنے ہوتے تو بیاض اور قلم دان کے ساتھ، قرآن حکیم بھی منگاتے۔ اس طرح عمر بھر وہ قرآن کی تعلیمات وافکار کو اپنی شاعری میں سمو کر پیش کرنے کی سعی کرتے رہے۔ ان کی یہ کاوش ارادی اور شعوری تھی۔ رموزبے خودی کے آخر میں تو بہت کھل کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور عرض کیا کہ اگر میرے اشعار میں قرآن حکیم (کے مطالب ) کے علاوہ یا خلافِ قرآن کوئی بات ہے تو آپ دنیا کو میرے کانٹے سے پاک کر دیجیے اور قیامت کے دن مجھے بوسۂ پا سے محروم کرکے، خوار و رُسوا کیجیے.... پھر کہا: حقیقتِ حال تو یہ ہے کہ میں نے اپنی شاعری میں قرآن پاک کے موتی پروئے ہیں۔

اقبال کا یہ دعویٰ (کہ میں نے سراسر قرآنِ حکیم کی ترجمانی کی ہے) قرآن حکیم پر پورے شعور کے ساتھ ان کے ایک گہرے ایمان وایقان کا نتیجہ تھا۔ ایک بار ایف سی کالج لاہور کے پرنسپل لوکس نے ان سے پوچھا : تمھارے پیغمبر ؐ پر قرآن کا مفہوم نازل ہوا تھااور انھوں نے اسے عربی میں منتقل کر لیا یا یہ قرآن پاک کی موجودہ عبارت ہی ہوبہو اُتری تھی ؟ علامہ نے کہا: یہ اسی طرح اتری تھی ۔ پرنسپل لوکس کو کچھ تعجب ہوا کہ یہ ایم اے، پی ایچ ڈی، بیرسٹرایٹ لا، یورپ کا تعلیم یافتہ فلسفی بھی دقیانوسی باتوں پر یقین رکھتا ہے۔ اقبال نے کہا: میرا تجربہ ہے کہ مجھ پر پورا شعر اترتا ہے، تو پیغمبر پر یہ پوری عبارت کیوں نہ اُتری ہو گی۔

رُموز بے خودی کے ایک باب کا عنوان ہے :’’آئینِ ملتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم قرآن است‘‘۔ اس میں پہلے وہ افرادِ اُمت سے سوال کرتے ہیں: کیا تم جانتے ہو کہ تمھارا آئین کیا ہے؟ پھر خود ہی جواب دیتے ہیں :قرآن حکیم ۔فرماتے ہیں:

آں کتابِ زندہ قرآنِ حکیم

حکمتِ او لایزال است و قدیم

نسخۂ اسرارِ تکوینِ حیات

بے ثبات از قوتش گیرد ثبات

نوعِ انساں را پیامِ آخریں

حاملِ او رحمتہً للعالمیں

(رموز بے خودی ،ص ۱۲۳)

[ یہ قرآن حکیم ہے جو ایک زندہ کتاب ہے جس کی حکمت قدیم بھی ہے اور کبھی نہ ختم ہونے والی ہے۔ یہ تخلیق حیات کے اسرار ظاہر کرنے والا نسخہ ہے۔ اس کی قوت اور بل بوتے پر کمزور، ثبات وقوت اور پایداری حاصل کرتے ہیں۔ یہ بنی نوع انسان کے لیے آخری پیغام ہے ، جسے رحمتہ للعالمین لائے ہیں۔ قرآن پاک کی برکت سے ایک بے وقعت شخص بھی قدرو منزلت حاصل کر لیتا ہے]۔

اس کے بعد دور حاضر کے مسلمان اور بحیثیت مجموعی امت مسلمہ سے کہتے ہیں کہ اگر تم پستی وزبوں حالی کی دلدل سے نکلنا چاہتے ہو اور سر بلندی وعروج کے راستے پر گامزن ہونا چاہتے ہو تو اس کا ایک ہی راستہ ہے:

گر تو می خواہی مسلماں زیستن

نیست ممکن جز بہ قرآں زیستن

(ایضاً)

[اگر مسلمان بن کر زندہ رہنا چاہتے ہو تو قرآن حکیم پر عمل پیرا ہوئے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔]

جاوید نا مہ میں کہتے ہیں کہ اگر دل کی بات پوچھتے ہو تو قرآن حکیم عام کتابوں کی طرح فقط ایک کتاب نہیں ، کچھ اور ہی چیز ہے:

ایں کتابے نیست ، چیزے دیگر است

(جاوید نامہ ،ص ۸۱)

جب اس کا اثر جان کے اندر داخل ہوتا ہے تو وہ جان بدل جاتی ہے (اس میں انقلاب آجاتا ہے ) اور جان بدل جائے تو جہان بد ل جاتا ہے ۔

جاوید نا مہ میں وہ ’پیغامِ افغانی با ملّتِ روسیہ ‘ کے زیر عنوان قرآنِ حکیم کے ذکر سے بات کا آغاز کرتے ہیں:

منزلِ مقصودِ قرآں دیگر است

رسم و آئین مسلماں دیگر است

(ایضاً،ص ۷۸)

[قرآن پاک کی منزل اور اس کا مقصود اور ہے مگر (آج کل کے ) مسلمان کے طور طریقے اور اُصولِ (حیات ) مختلف ہیں] ___پھر فرماتے ہیں : یہ مسلمان قرآن سے فائدہ نہیں اٹھاتا، حالاں کہ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن نے فقر کا جوتصور دیا ہے ، وہ فقر ہی اصل شہنشاہی ہے۔ قرآن پاک ظالم آقائوں کے لیے تو موت کا پیغام ہے اور بے سروساماں انسانوں کا دستگیر اور  بہت بڑا سہارا ۔ اس انقلابی کتاب میں مشرق ومغرب کی تقدیریں پنہاں ہیں، لہٰذا اے مسلمان! نور قرآن پر غور کرو، زندگی کے نشیب وفراز سے اور تقدیر حیات سے آگاہی ،قرآن حکیم سے وابستگی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ مسلمان کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں: تم اور طرح کی شرع اور (غیرقرآنی ) قوانین اپنا کر کسی اور راستے پر چل پڑے ہو۔ ذرا رُک کر قرآن پاک پر غور کرو۔  پھر علامہ، اُمت مسلمہ کو خبر دار کرتے ہیں کہ اگر تم نے غفلت برتی اور قرآن پاک کو چھوڑ دیا اور اس سے منہ موڑ لیا تو اللہ پاک قرآن پاک کو کسی اور قوم کے سپرد کر دیں گے:

حق اگر از پیش ما برداردش

پیشِ قومے دیگرے بگزاردش

(ایضاً،ص ۸۲)

یہ قرآن حکیم کی اس آیت کی ترجمانی ہے :وَ اِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِ لْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ۝۰ۙ  ثُمَّ لَا يَكُوْنُوْٓا اَمْثَالَكُمْ۝۳۸ۧ   ( محمد ۴۷:۳۸) ’’اگر تم منہ موڑو گے تو اللہ تمھاری جگہ کسی اور  قوم کو لے آئے گااور وہ تم جیسے نہ ہوں گے‘‘۔

جاوید نا مہ کے آخری حصے (خطاب بہ جاوید ) کے تحت کہتے ہیں :

سینۂ ہا از گرمیِ قرآں نہی

از چنیں مرداں چہ اُمید بہی

(ایضاً،ص ۲۰۰)

مسلمانوں کے سینے قرآن حکیم کی حرارت سے خالی ہیں تو قرآن سے غافل لوگوں سے اصلاحِ احوال کی کیا اُمید ہو سکتی ہے:

صاحبِ قرآن وبے ذوقِ طلب

العجب ، ثم العجب ، ثم  العجب

(ایضاً،ص ۲۰۱)

تعجب تو یہ ہے اور انتہا درجے کا تعجب ہے کہ قرآن جیسی نعمت میسر ہے مگر اس سے فائدہ اٹھانے کا خیال ہی نہیں ہے ___ وہی بات کہ جزدان میں لپیٹ کر طاق میں رکھ دیا ہے (ماہرالقادری کی نظم ’قرآن کی فریاد‘ میں اس مفہوم کی بہت عمدہ ترجمانی ملتی ہے ۔ )

اس غفلت کا ایک سبب مسلمانوں کی فرنگیت زدگی ہے:

ہم مسلمانانِ افرنگی مآب

چشمۂ کوثر بجوئندہ از سراب

(ایضاً،ص ۲۰۶)

یعنی افرنگ زدہ (تہذیب مغر ب سے مرعوب ) مسلمان ، سراب میں سے چشمۂ کوثر ڈھونڈتے ہیں۔ علامہ ایک اور جگہ اظہار افسوس کرتے ہیں کہ :

افرنگ زخود بے خبرت کرد وگرنہ

اے بندۂ مومن تو بشیری ، تو نذیری

(ضرب     کلیم ، ص ۱۷۵)

[اے مسلمان ! تہذیبِ مغرب نے تمھیں اتنا مدہوش کر دیا ہے کہ تمھیں اپنی (اصلیت کی)  خبر ہی نہیں ، ورنہ دنیا میں تو ہی بشیر ہے اور نذیر بھی ۔]

جاوید اقبال سے خطاب کرتے ہوئے یہ بھی فرماتے ہیں کہ: عوام الناس سے کیا شکوہ ، خود علما ، قرآنِ حکیم کے علم سے لاپروا ہیں (یعنی قرآن حکیم پر خاطر خواہ غور نہیں کرتے، اور تدبّر وتفکّر کر کے اسے سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے ۔ اس لیے ان کے وعظ ، بے تاثیر وبے نتیجہ ہیں ) ۔

خیال رہے کہ علامہ اقبال نے اپنی اردو اور فارسی شاعری میںقرآن حکیم کا ذکر بار بار   اور مختلف اسالیب وانداز میں کیا ہے۔ پھر ان کے نمایاں افکار وتصورات، یعنی فلسفۂ خودی ،   تصور بے خودی ، عقل وعشق ، مرد کامل ، فقر ، تصوف وغیرہ ، اصلاً قرآنی تعلیمات کی بنیاد پر ہی تشکیل پذیر ہوئے ہیں۔ شعر اقبال کے سیکڑوں مضامین براہ راست قرآن حکیم سے اخذ کیے گئے ہیں۔ اُردو کلام میں ایک جگہ کہتے ہیں:

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں

اللہ کرے تجھ کو عطا جدّتِ کردار

(ایضاً،ص ۱۳۶)

 قرآن حکیم سے علامہ اقبال کی وابستگی اور رجوع الی القرآن کی تلقین خالی خولی شاعرانہ بات نہ تھی۔ اقبال حتی الوسع خود بھی قرآن حکیم کو راہ نما ے حیات بنانے کی سعی وکاوش کرتے رہے، مثلاً حیاتِ اقبال کی تقریباً ساری کتابوںمیں یہ واقعہ ملتاہے کہ علامہ کی بہن کریم بی بی ، ایک عرصے سے خوش دامن کے نامناسب رویے کی بنا پر ، میکے میں آ کر رہ رہی تھیں۔ خوش دامن فوت ہو گئیں تو ان کا خاوند (اقبال کا بہنوئی ) انھیں لینے آیا ؛ اقبال کے والدین تو رضا مند ہو گئے مگر اقبال، مصالحت پر راضی نہ تھے ۔ والدین نے بہت سمجھایا مگر وہ کسی طرح نہ مانے۔ اصرار کرنے لگے کہ بہنوئی اور ان کے ساتھ آنے والوں کو واپس کر دیا جائے ۔ اب شیخ نور محمد نے اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں اقبال سے کہا: بیٹے، اللہ پاک نے قرآن پا ک میں فرمایا ہے:وَالصُّلْحُ خَیْر ۔یہ سننا تھا کہ اقبال خاموش ہو گئے ، چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا، جیسے کسی نے سلگتی آگ پر برف کی سل رکھ دی ہو ۔کچھ توقف کے بعد ، والد نے پوچھا : اب کیا کیا جائے ؟ اقبال نے کہا: وہی جو قرآن کہتا ہے، چنانچہ مصالحت ہو گئی اور بہن کو رخصت کر دیا۔

قرآن حکیم سے اقبال کی وابستگی تادم آخر برقرار رہی۔ تلاوت تو ان کا عمر بھر کا معمول رہا۔ کبھی کبھی تلاوت کرتے وقت ان پر رقت طاری ہو جاتی اور بے اختیار رونے لگتے۔ نوجوانوں کو علی الصبح تلاوت کی تلقین کیا کرتے ، مثلاً ایک بار فرمایا: ’’مسلمانوں کے لیے جاے پناہ صرف قرآنِ کریم ہے۔ میں اس گھر کو صد ہزار تحسین کے قابل سمجھتا ہوں جس گھر سے علی الصبح تلاوت قرآنِ مجید کی آواز آئے ‘‘۔ تلاوت کے ساتھ ساتھ وہ قرآن حکیم کے معانی ومفاہیم پر بھی برابر فکرو تدبر کرتے رہے۔ خواجہ حسن نظامی کے نام ایک خط میں اعتراف کرتے ہیں کہ میرا ابتدائی میلان تصوف کی طرف تھا اور یورپ کا فلسفہ پڑھنے سے یہ میلان اور بھی قوی ہو گیا کہ یورپ کا فلسفہ بحیثیت مجموعی وحدت الوجود کی طرف رُخ کرتا ہے مگر قرآن پر تدبر کرنے اور تاریخ اسلام کا مطالعہ کرنے سے مجھے اپنی غلطی معلوم ہوئی اور میں نے محض قرآن کی خاطر اپنے قدیم خیال کو ترک کردیا۔  قرآنِ پاک کی تفہیم وتعبیر پر کچھ لکھنا بھی چاہتے تھے، مگر خرابیِ صحت نے انھیں اس کا موقع نہیں دیا۔

قرآن سے ان کے دیرینہ تعلق کو مولانا مودود ی ؒ نے ایک جگہ بڑے مؤثر الفاظ میں،  اس طرح بیان کیا ہے: ’’ وہ جو کچھ سوچتا تھا، قرآن کے دماغ سے سوچتا تھا، جو کچھ دیکھتا تھا ،  قرآن کی نظر سے دیکھتا تھا۔ حقیقت اور قرآن اس کے نزدیک شے واحد تھی اور اس شے واحد میں وہ اس طرح فنا ہوگیا تھا کہ اس کے دور کے علماے دین میں بھی مجھے کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا جو فنائیت فی القرآن میں اس امام فلسفہ اور اس ایم اے، پی ایچ ڈی، بارایٹ لا سے لگّا کھاتا ہو.... آخری دور میں اقبال نے تمام کتابوں کو الگ کر دیا تھا اور سوائے قرآن کے، اور کوئی کتاب وہ اپنے سامنے نہ رکھتے تھے۔ سالہا سال تک علوم وفنون کے دفتروں میں غرق رہنے کے بعد جس نتیجے پر پہنچے تھے، وہ یہ تھا کہ اصلِ علم قرآن ہے۔ اور یہ جس کے ہاتھ آ جائے ، وہ دنیا کی تمام کتابوں سے بے نیاز ہے ‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو ذہنی اور جسمانی صلاحیتیں عطا کی ہیں، وہ اس قدر ہمہ گیر ، بے پایاں اور مختلف النوع ہیں کہ انھیں پوری طرح احاطۂ تحریر میں لانا ممکن نہیں ہے۔ دیکھنے، بولنے اور چلنے پھرنے کی صلاحیت ، سننے ، چکھنے اور سونگھنے کی صلاحیت ‘ حسب منشا اُٹھنے بیٹھنے اور آزادانہ حرکت کرنے کی صلاحیت ، اپنے ذہن سے سوچنے ، طرح طرح کے منصوبے تیار کرنے اور انھیں رُوبۂ عمل لانے کی صلاحیت___ ان صلاحیتوں کا مثبت پہلو یہ ہے کہ انسان نے زمین کو   گلِ گلزار بنادیا ہے۔ دورِ جدید کی راحتوں اور آسایشوں بھری زندگی، انسان کی انھی دماغی کاوشوں کی مرہونِ منت ہے ، لیکن اسی انسانی دماغ کی منفی سوچ کا نتیجہ ہے کہ انسان نے تخریب وہلاکت کے خوف ناک وسائل بھی مہیا کر لیے ہیں اور آج روے زمین کے بعض خطے جہنم زاربنے ہیں۔ اسے انسان کی بدبختی کے سوا ور کیا کہا جائے۔

تحریر ، بالفاظ دیگر فکرو سوچ یا خیالات واحساسات کو بذریعہ قلم، صفحۂ قرطاس پر منتقل کرنا بھی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ، ایک بہت بڑی صلاحیت ہے اور نعمت بھی۔بیش تر انسانی صلاحیتوں کی طرح یہ بھی ایک وہبی صلاحیت ہے، تا ہم کوئی بھی شخص جو لکھنا پڑھنا جانتا ہو، مطالعے ، مشق اور کاوش وکوشش کے ذریعے ، اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کر سکتا ہے، اور اسے نشو ونما دے کر ، اس سے مفید کام لے سکتا ہے۔

جو لوگ کسی تحریک سے وابستہ ہو کر، ایک بڑے مقصد کے لیے کام کررہے ہوں، ان کے لیے تو قلم وقرطاس کا فن جاننا ازبس ضروری ہے۔ دورِحاضر میں کتابیں ، رسائل اور اخبارات مختلف نظریات وخیالات کی تبلیغ واشاعت میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ اگر آپ اپنی بات کو تحریر کا رُوپ دینے پر قادر ہیں اور آپ کی بات میں وزن ہو گا، دلیل ہو گی تو بہتوں کو متاثر کرے گی،  قائل کرے گی، اورا س سے کئی ایک آپ کے ہم آواز اور ہم سفر ہو جائیں گے۔ دورِ حاضر میں تو لکھنے لکھانے کا اقتصادی پہلو بھی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ اس وقت لکھنے والوں کی کثیر تعداد نے تحریر کو ذریعۂ معاش بھی بنا رکھا ہے۔ مغرب میں تو لکھنے والوں کو تحریر کا نہایت معقول معاوضہ ملتا ہے ، مگر ہمارے ہاں کتابوں اور رسالوں کی اشاعت نسبتاً کم ہے، اس لیے معاوضہ ملتا ہی نہیں یا بہت کم ملتا ہے۔ اس کے باوجود لکھنے لکھانے سے ادیب کو کچھ نہ کچھ یافت ہو سکتی ہے، اور ہمارے معاشرے میں کئی لوگ اپنے قلم کی کمائی پر گزر بسر کر رہے ہیں۔

انسان کے اندر بہت سی صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں،مگر بسا اوقات وہ پوری طرح ان سے باخبر نہیں ہوتا--- ہم میںسے ہر شخص اپنے ما فی الضمیر کو زبان پر لانے اور بذریعہ گفتگو یا اسے دوسروں کے سامنے بیان کرنے پر قادر ہے۔ عمر ، تجربے، تعلیم یا مشق کے مطابق ہر شخص کی گفتگو یا بیان کا معیار تو مختلف ہو سکتا ہے، مگر جسے خدا نے زبان دی ہے، وہ اپنی ضرورت یا احساس کو بیان کرنے پر یقینا قادر ہے۔ اب اگر آپ سے کہا جائے کہ ابھی آپ نے جو کچھ کہا ہے ، اسے لکھ کر بتائیے تو آپ کو تعمیل میں، شاید بہت مشکل پیش آئے گی۔ آپ کہیں گے میں نے تو کبھی لکھا ہی نہیں (گویا لکھنا بھی ایک لحاظ سے پیراکی کے مترادف ہوا۔ جو شخص کبھی پانی میں نہ اترا ہو، اسے کہا جائے یہ ندی نالہ پار کر کے دکھائو، تو وہ آپ کا منہ تکے گا کہ یہ فرمایش ، اور مجھ سے؟) ۔

ہم کیسے لکھیں ؟---یہ صرف آپ کا نہیں ، ان سب لوگوں کا مسئلہ ہے، جو لکھتے نہیں۔  اور جو لکھتے ہیں ان کے لیے لکھنا کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ اگر آپ بھی لکھنا شروع کر دیں تو یہ آپ کے لیے کوئی مسئلہ نہیں رہے گا،ان شا اللہ العزیز۔ لکھنا آپ کے لیے ویسا ہی روز مرہ یا روٹین کا عمل ہوگا، جیسے آپ روزانہ گھر سے نکل کر سکول یا کالج جاتے ہیں یا کپڑے بدلتے ہیں یا حسب ضرورت گفتگو کرتے ہیں۔ اگر آپ لکھنا جان جائیں ، اور آپ کے اندر یہ اعتماد پیدا ہو جائے کہ میں جو چاہوں ، جب چاہوں اور جس طرح چاہوں، لکھ سکتا ہوں تو بس یہی مطلوب ہے۔

نثر لکھنے کی صلاحیت ہر اس شخص کے اندر موجود ہوتی ہے، جو معمولی املا لکھ سکتا ہے اور   یہ صلاحیت ہرتعلیم یافتہ (کم یا زیادہ)کے اندر موجود ہوتی ہے۔یہ صلاحیت یقینا آپ کے اندر بھی موجود ہے۔ سب سے پہلے تو آپ کو اپنے اندر ، تحریر کی ضرورت واہمیت کا احساس پیدا کرنا ہے۔ اگر آپ ذہناً اس کی افادیت کے قائل ہو جائیں تو پھر اس عزم کو تازہ کیجیے کہ آپ کو لکھنا سیکھنا ہے، کچھ نہ کچھ لکھنا ہے، اور بذریعہ تحریر اپنی سوچ ، اپنی بات اور اپنا تاثر دوسروں تک پہنچانا ہے۔ مثبت اقدار کی حمایت میں قلم اٹھانا ، اور کسی بھی تحریر (ناول ، افسانہ ، ڈراما، شاعری، مضمون ، تنقید، طنزومزاح، حالات حاضرہ پر تبصرہ ، حتیٰ کہ کسی اخباری مراسلے) کے ذریعے اپنے مقصد ونصب العین کو قارئین تک پہنچانے کی کوشش شہادتِ حق اور جہاد فی سبیل اللہ ہی کی ایک صورت ہے۔

اگر آپ کے اندر یہ عزم راسخ ہو جائے کہ مجھے اپنے مثبت اور سچے محسوسات دوسروں تک پہنچانے ہیں تو ہر روز دس مرتبہ آپ کا جی چاہے گا کہ یہاں مجھے اپنی بات کہنی چاہیے، اپنا موقف پیش کرنا چاہیے۔ ہم ایک نا ساز گار ماحول میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور حالات ومعاملات کو قدم قدم پر اپنی طبیعت ، اپنے مقاصد اور اپنے اصولوں کے خلاف پاتے ہیں۔ حق وانصاف کا خون ہوتا دیکھتے ہیں۔ بددیانتی اور بے اصولی فروغ پذیر ہے۔ خیرو شر کے درمیان چہارسُو، ایک معرکہ اور ایک کش مکش برپا ہے ۔ ہمارے ایمان کی کسوٹی یہ ہے کہ ہم شر اور باطل کے خلاف کس حد تک آواز بلند کرتے ہیں۔ اس کا ایک ذریعہ ، اور بہت مؤثر ذریعہ یہ ہے کہ ہم بذریعہ تحریر (اس کی کوئی بھی صورت ہو، کوئی بھی صنف سخن ہو ) حق وراستی کی حمایت میں اور باطل کے خلاف آواز بلند کریں۔ کوئی مضمون لکھیں ، یا اخبار کو ایک مختصر مراسلہ ہی بھیج دیں۔ کسی اور صنف نثر میں دسترس ہے تو اسے  ذریعۂ اظہار بنائیں، یعنی آپ اپنا ردعمل ضرور ظاہر کریں۔ خبریں سنتے ہوئے یا اخبار پڑھتے ہوئے، یا اسکول کالج،ملازمت یا بازار سے واپسی پر آپ کچھ محسوس کر رہے ہیں اور ذہن میں لاوا پک رہا ہے، قلم پکڑ ئیے ، کاغذ اٹھائیے اور اپنے تاثرات قلم بندکر ڈالیے ۔ اب تو سوشل میڈیا بھی اظہار راے کا اہم ذریعہ ہے۔

جب آپ لکھنا شروع کریں گے (اور اگر آپ، لکھنے کی اچھی خاصی مشق نہیں رکھتے تو ) آپ کو کچھ دقت محسوس ہو گی۔ ممکن ہے، الفاظ ، خیالات کا ساتھ نہ دیں۔ اپنے محسوسات کے مناسب جملے بنانے میں آپ کو مشکل پیش آئے یا آپ اپنی بات کو مؤثر انداز میں اور صحیح ترتیب کے ساتھ پیش کرنے میں کامیاب نہ ہوں--- کوئی حرج نہیں ، اہم تو یہ ہے کہ آپ جو کچھ محسوس کرتے ہیں، اسے سوچ ساچ کر، اپنے تئیں بہتر سے بہتر انداز میں مناسب سے مناسب تر الفاظ کے ذریعے کاغذ پر منتقل کر دیں۔یہ عمل وقتاً فوقتاً دہرائیے ۔ رفتہ رفتہ آپ محسوس کریں گے کہ مشکلات کم ہو رہی ہیں اور اب آپ کے لیے ما فی الضمیر کو ادا کرنا آسان تر ہوتا جا رہا ہے۔

درحقیقت مشق ، تحریر کو بہتر اور مؤثر بنانے کا نہایت کار گر اور کامیاب ذریعہ ہے۔ خوش نویسی (کتابت ) کے حوالے سے ایک شعر ہے:

گر تو می خواہی کہ باشی خوش نویس

مے نویس و مے نویس و مے نویس

(اگر تو چاہتا ہے کہ خوش نویس بن جائے تو لکھتا رہ ، لکھتا رہ ، لکھتا رہ )۔

ادیب، مضمون نویس یا نثر نگار بننے کے لیے مسلسل لکھتے رہنا از بس ضروری ہے۔ بعض معروف اور نامور ادیب بھی مسلسل مشق کے اس عمل سے گزر کر ہی بلند پایہ نثرنویس بنے ہیں، مثلاً: محمد حسین آزاد کے صاحب ِطرز ادیب اور منفرد نثرنویس ہونے میں کسے کلام ہے، مگر ایک زمانے میں وہ اپنی معمولی تحریروں کو بھی لکھتے ، پھاڑ دیتے ، پھر لکھتے اور پھاڑ دیتے اور اس طرح متعدد کاوشوں کے بعد تحریر کو حتمی شکل دیتے تھے۔ اپنی تحریر کو تنقیدی نظر سے دیکھنا ، جانچنا اور اسے بہتر بنانے کے لیے اس میں ترامیم کرنا خرابی کی نہیں ، خوبی کی بات ہے۔ محنت ومشکلات کا یہ عمل ’خونِ جگر‘ صرف کرنے کے مترادف ہے۔ ادیب، بلکہ ہر فن کار خونِ جگر صرف کر کے اپنی تخلیق کو زیادہ معیاری بنا سکتا ہے۔ مشق اور محنت کے بغیر کوئی انسانی کاوش پختگی اور معیار حاصل نہیں کر سکتی ۔ بقول علامہ اقبال :

نقش ہیں سب نا تمام خون جگر کے بغیر

نغمہ ہے سوداے خام خون جگر کے بغیر

خود علامہ اقبال نے اپنے بعض اشعار کو تین تین چار چار بار کاٹ کر، بہتر بنایا۔ (اقبال اکادمی پاکستان لاہور میں محفوظ ان کے قلمی مسودوں سے اس بات کا ثبوت فراہم ہوتا ہے ۔ )

مشق کے مرحلے میں، اگر ممکن ہو تو اپنی تحریر کسی کو دکھا لیں۔ کسی استاد یا بزرگ کی اصلاح، آپ کے لیے مفید رہنمائی کا باعث ہوگی۔ وہ آپ کی تحریر میں جو حذف وترمیم کریں، جملوں کی ترتیب بدلیں ، لفظوں میں کانٹ چھانٹ کریں، اس پر خوب غور کر کے ، اپنی خامی کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اگر سمجھ نہ آئے تو دریافت کرنے میں عار محسوس نہ کریں۔

اب اگر آپ کچھ نہ کچھ لکھنے کی افادیت وضرورت کے قائل ہو چکے ہیں تو اللہ کا نام لے کر، آج ہی سے تحریری مشق شروع کر دیجیے ۔ لکھنے کی مشق کے ساتھ ، درج ذیل نکات بھی آپ کی توجہ کے لائق ہیں:

  • مسلسل مطالعہ : ایک اچھا لکھنے والا، معیاری تحریروں اور کتابوں کے مطالعے سے کبھی غافل نہیں ہوتا۔ صاحبِ طرز ادیبوں اور صاف ستھری خوب صورت نثر لکھنے والوں کی کتابیں مسلسل زیر مطالعہ رکھیے، جیسے الطاف حسین حالی، شبلی نعمانی، پریم چند ،خواجہ حسن نظامی، شاہداحمد دہلوی ، سیّد ابو الاعلیٰ مودودی، رشید احمد صدیقی، صلاح الدین احمد، فضل کریم احمد فضلی ، مختارمسعود، شیخ منظور الٰہی ، نعیم صدیقی ، جیلانی بی اے اور رضا علی عابدی وغیرہ (یہ فہرست مکمل نہیں ہے )۔ انھیں مطالعہ کرتے ہوئے دیکھیے کہ زبان کیسی بامحاورہ ہے ؟ الفاظ وتراکیب کا استعمال کیسا ہے ؟ جملوں کی ساخت کیسی ہے ؟ تشبیہ واستعارہ اور صنائع و بدائع کی صورت کیا ہے ؟آپ کسی سے متاثر ہوکر اس کی نقل نہ کیجیے کیوں کہ صاحب اسلوب ادیب کی تقلید آسان نہیں ہوتی، ہاں اس مثال کو ذہن میں رکھیے اور دیکھیے کہ آپ کو بھی اسی طرح صحیح اور دل کش زبان میں لکھنا ہے۔ بہرحال آپ معیاری تحریروں کا جس قدر وسیع مطالعہ کریں گے ، غیر شعوری طور پر، آپ کی تحریر بھی بہتر ہوتی جائے گی۔
  • لوازمہ و معلومات : جب آپ کسی خاص موضوع پر کچھ لکھنا چاہیں تو ممکنہ حد تک ، متعلقہ معلومات اور لوازمہ فراہم کر لیں ۔ کتابوں سے ، رسالوں سے اور انسائیکلو پیڈیا سے۔ اسی طرح بزرگوں یا اس شعبے کے ماہرین سے استفسار اور مشورہ بھی کیجیے۔ جس قدر مفصل معلومات فراہم ہوں گی ، آپ کی تحریر اس قدر جامع اور بھر پور ہو گی۔ ناکافی یا غلط معلومات کی بنیاد پر لکھی جانے والی تحریر ناقص ہو گی اور بعض صورتوں میں گمراہ کن بھی۔
  • سوچ بچار : اپنے ارد گر د پھیلی ہوئی زندگی ، اس کے نشیب وفراز ، اس کے خیرو شراور اس کے وقوعات وحادثات پر غور وفکر کی عادت ڈالیے ۔ کسی صورت حال کے اسباب ، اس سے  عہدہ بر آ ہونے کی تدابیر، مسائل حل کرنے کے طریقے اور مختلف مسائل کو سلجھانے کی صورتیں ، ان پہلوئوں کے بارے میں آپ جس قدر سوچ بچار سے کام لیں گے اور معاملات کی ماہیت اور تصویر کے دونوں رخ آپ کے زیر غور رہیں گے، آپ کے لیے حقائق تک پہنچنا اور اصلیت کو  جان لینا آسان ہو گا اور آپ کے ذہن میں مسائل ومعاملات کو سلجھانے کی صلاحیت پیدا ہو گی ۔ اس طرح آپ کی تحریر تفکرو تدبر کی حامل اور قارئین کے لیے کہیں زیادہ افادیت کا باعث ہو گی۔
  • ابتدائی خاکہ اور ترتیب : آپ جو کچھ لکھنا چاہیں اور موضوع کاا نتخاب کر لیں (موضوع کا انتخاب اپنی مخصوص افتادِ طبع، Aptitudeاور صلاحیت کے مطابق کیجیے )توتحریر یا مضمون کا ایک ابتدائی خاکہ بنائیے ۔ آغاز کیسے ہو گا ؟ کیا کیا نکات، کس ترتیب سے پیش کریں گے؟ دلائل ؟موضوع کی مناسبت سے اقوال ، فرمودات ، ضرب الامثال ، اشعار بھی جمع ونوٹ کر لیں اور ان کی ترتیب بھی قائم کر لیں۔ پھر اختتام کیسے ہو گا ؟ خاکے پر بارد گر غور کیجیے ۔ کیا یہ ترتیب مناسب اور منطقی ہے ؟ اگر نہیں تو اس میں مناسب رد وبدل کر کے خاکے کو زیادہ سلیقے اور ہنر مندی سے مرتب کیجیے۔ جب آپ کو خاصا تجربہ ہوجائےگا تو پھر آپ کو خاکہ بنانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔
  • اسلوب و انداز: کسی تحریر کی دل کشی اور مقبولیت میں عبارت کا انداز واسلوب بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ اسلوب جس قدر جان دار، توانا اور خوب صورت ہو گا ، آپ کی تحریر اس قدر جذب وتوجہ سے پڑھی جائے گی اور بلند پایہ شمار ہوگی۔ معروف عمرانی مفکر اور تاریخ نویس ابن خلدون کا کہنا ہے کہ الفاظ پیالہ ہیں، اور معانی پانی ---اب اگر پانی ، کسی بد نما اور بھدے پیالے یا برتن میں ہوگا تو قدرتی طور پر پینے والے کو کچھ اِبا محسوس ہو گا۔ بعض اوقات خیالات کی بلندی اور معلومات کی وسعت کے باوجود اسلوب کی خشکی اور بے کیفی مضمون کا معیار گرا دیتی ہے۔ اس ضمن میں حسب ذیل امور پیش نگاہ رہیں تو فائدہ ہو گا:

(الف ) جملے مختصر اور سادہ ہوں۔ طویل فقروں اور قدیم انداز کی شاعرانہ اور مسجع ومقفیٰ زبان آج کے اسلوب سے مطابقت نہیں رکھتی۔ علاوہ ازیں حتی الامکان انگریزی الفاظ وتراکیب کے استعمال سے احتراز کیجیے ، خصوصاً جہاں اُردو مترادفات موجود ہوں۔

(ب ) صحتِ زبان کا خاص خیال رکھیے ۔ اس ضمن میں یوں تو بہت سی مفید کتابیں آپ کی رہنمائی کر سکتی ہیں۔ تا ہم، پروفیسر آسی ضیائی کی کتاب درست اُردو  زیر مطالعہ رکھیے ۔ اسی طرح رشیدحسن خاں کی انشاء اور تلفظ  ، اور عبارت کیسے لکھیں کے مطالعے سے بھی ان شا اللہ فائدہ ہو گا۔ اشعار یا اقوال بالکل صحیح ہونا ضروری ہے۔ جہاں شبہہ ہو ، اصل کتاب دیکھ کر درست صورت اختیار کیجیے۔

(ج ) جہاں تک ممکن ہو، اختصار ملحوظ رکھیے ۔ اپنے ما فی الضمیر کو کم سے کم لفظوں میں ادا کرنے کی کوشش کیجیے۔ کفایتِ لفظی ، اچھی تحریر کی بنیادی خوبی ہے اور تکرارِ لفظی عیب ہے--- تاہم اختصار وکفایتِ لفظی کا اہتمام مناسب حد تک ہونا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ لفظوں کی کفایت کرتے کرتے عبارت چیستان بن جائے اور قاری مفہوم سمجھنے سے قاصر رہے۔

(د) تحریر کا اسلوب ، موضوع کے حسب حال ہونا چاہیے، یعنی ناول وافسانہ ہے تو افسانوی انداز، سماجی وعمرانی مسائل ہوں تو عالمانہ اسلوب ، ادبی تنقیدی موضوع ہوتو تنقیدی اسلوب ---! تحریر طلبہ کے لیے ہو تو نسبتاً آسان اور تشریحی انداز، روز مرہ کے مسائل ہوں اور اخباری تحریر ہو تو عام فہم اور سلیس عبارت ہونی چاہیے تا کہ کم پڑھے لوگ بھی سمجھ سکیں۔ پھر تحریر کے اندر مثالیں بھی حسب معیار وماحول ہونی چاہییں۔

  • نظرثانی: تحریر مکمل ہونے پر ، اسے دوبارہ دیکھیے ، بلکہ سہ بارہ اس پر نظر ڈالیے ۔  کیا عبارت صاف ہے ؟ جملوں کا باہمی ربط ٹھیک ہے ؟ لفظوں کا انتخاب واستعمال مناسب ہے؟ تحریر پڑھتے ہوئے کوئی ابہام یا اُلجھن تو محسوس نہیں ہوتی ؟ اگر مضمون میں حوالے دیے گئے ہیں تو کیا یہ مکمل ہیں ؟ ادھورے اور غیر معتبر یا مشکوک حوالے نکال دیجیے۔ حسب ِ ضرورت عبارت بڑھائیے یا کم کر دیجیے ، ترمیم وتنسیخ یا حذف واضافہ کیجیے---غرض بہ اطمینان ،اپنی تحریر پر پوری طرح نظرثانی کیجیے ۔

اب اپنی تحریر کی ایک نقل بنوا کر، اسے اشاعت کے لیے بھیج دیجیے ۔ مضمون شائع ہونے میں تاخیر ہو تو گھبرائیے نہیں۔ ایک اور کاوش کیجیے،کوئی اور چیز لکھیے اور یہ سلسلہ مستقلاً جاری رکھیے۔ رفتہ رفتہ آپ کی تحریریں شائع ہونے لگیں گی، اور ایک روز آپ کا شمار لکھنے والوں کی اس فہرست میں ہو گا ، جو شاید اس وقت آپ کے لیے باعثِ رشک ہیں۔