اکتوبر ۲۰۱۰

فہرست مضامین

استحکامِ پاکستان اور قوم کی ذمہ داری

پروفیسر محمد منور مرزا | اکتوبر ۲۰۱۰ | پاکستانیات

Responsive image Responsive image

کوئی بھی پاکستانی خواہ وہ زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو قومی مسائل سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ اس لیے کہ خوش بختی سب کی خوش بختی ہے، بدبختی سب کی بدبختی ہے۔ سارے   اہلِ قوم اس ملک کی بنا و تعمیر کے ذمہ دار تھے اور بقا و توقیر کے ذمہ دار ہیں۔ افراد کے عزائم کا اتحاد اجتماعی قوت کی اساس ہے   ع

ہر فرد ہے ملّت کے مقدر کا ستارا

اس اعتبار سے اجتماعی فلاح و بہبود اور استقلال و خلود کے معاملے میں سیاست دان اور غیرسیاست دان کی تفریق ایک ’فرقہ وارانہ‘ بات ہوگی۔

حصولِ پاکستان کی جدوجہد کی روح باعزت بقا کا جذبہ تھا۔ یہ وہی جذبہ تھا جس کے تحت حضرت عالم گیر نے اکبری روایات میں یک سر تبدیلی پیدا کردینی چاہی تھی اور خاصے کامیاب بھی رہے تھے۔ یہ وہی جذبہ تھا جس نے سراج الدولہ، حیدر علی اور بطور خاص ابوالفتح ٹیپو کو انگریزوں سے متصادم کر دیا تھا، اوریہ وہی جذبہ تھا جس کی تسکین کی خاطر اللہ والے سروں سے کفن باندھے بنگال، بہار، اڑیسہ، یوپی، مدراس اور دکن سے کبھی پیدل، کبھی سوار نکلتے تھے جن کا زادِ راہ تقویٰ تھا، جن کا مقصود اعلاے کلمۃ الحق یا شہادت تھا۔ وہ مجاہدین اسلام برعظیم پاک و ہند کے شمال مغربی کونے میں پہنچتے تھے۔ کبھی سندھ کی راہ سے، کبھی کشمیر کے راستے سے، تاکہ پنجاب و سرحد کے علاقوں کو غیروں کے پنجۂ استبداد سے چھڑا کے اس کے نواح میں مضبوط اسلامی مرکز باقاعدہ قائم کریں اور پھر باقی برعظیم کی بازیابی کا پروگرام بنائیں۔ روح ایک تھی، بدن جدا جدا تھے۔ زبانیں جدا جدا تھیں، نسلیں اور علاقے جدا جدا تھے۔ وہ بظاہر ناکام ہیں مگر ہر معنوں میں ناکام نہیں رہے، روحانی اعتبار سے   ان کا جہاد جاری رہا۔ مسلمانوں نے آزادی کے تصور کو کبھی پسِ پشت نہ ڈالا۔

داستانِ مجاہدین لکھنے اور بیان کرنے والے جانتے ہیں کہ پاکستان انھی مجاہدین کے ارادوں کی تکمیل کا مظہر ہے۔ وہ تلوار سے لڑے تھے، جنوبی اور مشرقی ہونے کے باوصف شمالی اور مغربی بھائیوں کی خاطر قربان ہوگئے تھے۔ ان کے اخلاف نے بھی شمالی، مغربی اور مشرقی اقطاع کے لیے اپنے آپ کو قربان کر دیا۔ جنگ کا انداز بدل گیا تھا، روح وہی تھی۔ بزرگ تلوار سے لڑے، عزیزوں نے آئینی جنگ لڑی، مگر باضابطہ مرنے مارنے کے جذبے کو آئینی جنگ کے پسِ پشت رکھ کر۔ یہ جذبہ بے اختیار اسلامی حمیت کا جذبہ تھا، آزادی واستقلال کا جذبہ تھا۔ مجاہدین کے جہاد کو کسی نے غیروں کے خوف کا نتیجہ نہ کہا، اسے دیوانگی و جنون تو کہا جاسکتا تھا۔ وہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے دیوانے لوگ تھے۔ وہ سر کٹا سکتے تھے سر جھکا نہ سکتے تھے۔ اسی جذبے نے ہمیں ہمارے زمانے میں سرشار کیا، بیدار کیا اور ہم سرگرم پیکار ہوگئے۔ مگر بعض حقیقت فراموش ’اہلِ اخلاص‘ نے کہا: اے مسلمانو! تم ہندو کے ڈر سے پاکستان مانگ رہے ہو۔ پاکستان کا مطالبہ بزدلی کی نشانی ہے اور مسلمان بزدل نہیں ہے۔ دُکھ تو اس بات کا ہے کہ آج بھی اس طرح کی آواز کبھی کبھی سننے   میں آجاتی ہے کہ پاکستان کی تخلیق ہندو کے خوف کی وجہ سے عمل میں آئی تھی۔ یہ عجیب و غریب  اُلٹی منطق ہے۔

بھائیو! اگر ہم بزدل ہوتے تو اپنے طاقت ور رفقا کی مرضی کے خلاف کیوں کر آواز اُٹھاتے؟ مجاہدین نے آزادی کے لیے علَم اُٹھایا تو وہ بزدل نہ قرار دیے گئے اور ہم نے آزادی کے لیے علَم اُٹھایا تو بزدلی کا طعنہ دیا جانے لگا۔ یہ طعنہ دینے والے بزرگ کس غفلت، یا مروت، یا ضد کا شکار ہوگئے؟ کسی قوت کے خلاف آواز بلند کرنا بزدلی ہے یا اس قوت کے خوف سے اس کی منشا کے خلاف لب نہ کھول سکنا بزدلی ہے ؟ اگر ہم ہندو کی عددی کثرت اور مالی وسائل کی وسعت کو دیکھ کر دبک جاتے اور اس کی مرضی کے خلاف لب کھولنے کی جرأت نہ کرتے تو یہ بزدلی ہوتی، مگر ہم نے تو طاقت ور اکثریت کی مرضی ٹھکرا دی___ ہم نے یہ اقدام جس خوف کے باعث کیا تھا وہ ہندو کا خوف نہ تھا وہ غلامی کا خوف تھا۔ وہ آزادی سے محرومی کا خوف تھا، وہ غیرت و حمیت کی موت کا خوف تھا، وہ اپنی قومی انفرادیت کے فنا کا خوف تھا۔ یہ بات اتنی باریک نہیں کہ سمجھ میں نہ آسکے، ہاں نیت کا پیچ نظر کی ڈوری کو اُلجھا دے تو جدا معاملہ ہے۔

اس کے باوصف آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ مسلمانوں نے برعظیم پاک و ہند کے معاملات میں کسی مرحلے پر اکثریت کو لائق اعتماد نہیں جانا۔ ہم نے اعتماد بھی کیا، اس انداز میں کہ آزادی ملے تو دونوں قوموں کو ملے، دونوں آزادی کے نتائج سے برابر نفع اندوز ہوں، دونوں جملہ کاروبار آزادی میں ایک دوسرے کے شریک و سہیم ہوں، مگر اکثریت نے دل شکنی کی، بار بار دل شکنی کی۔ اکثریت کو ہماراوجود ہی گوارا نہ تھا۔ وہ گروہ یہ چاہتا تھا کہ انگریز کے نکلنے تک مسلمانوں کو بھی نڈھال کر دیا جائے اور برابر کا ساتھی اور رفیق بنانے کی جگہ خادم و غلام کے درجے پر پہنچا دیا جائے۔ مسلمانوں نے اس بات کو بھانپ لیا، احتجاج کیا، جواباً مہاتمائی کلمات ملے جو ’اگرچہ‘ تاہم ’بہرحال‘، ’چنانچہ‘، ’چونکہ‘، ’البتہ‘ میں ملفوف تھے۔ جب احتجاج کا لہجہ سخت ہوا تو الزام لگا تم تنگ دل ہو، فرقہ پرست ہو۔ جو قوم ہمراہی قوم سے اپنے جائز حقوق کا تعین چاہے وہ فرقہ پرست اور جو قوم اپنے ہمراہی مخلص رفقا کا خون پیتی چلی جائے اور ان کی تباہی کے درپے رہے، وہ ’عالی ظرف‘۔  ہم ساتھیوں کی نیت دیکھ کر چونکے۔ حضرت قائداعظم یا دیگر زعما نے علیحدگی کا نعرہ آناً فاناً نہیں  بلکہ باقی ہر طریق عمل کی کامرانی سے مایوس ہوکر بلند کیا تھا۔ ہم ہندو اور انگریز کی مرضی کے خلاف     کا مگار ہوئے تھے، اور ان علاقوں کے مسلمانوں نے جو پاکستان کا حصہ نہ بن سکتے تھے سوچ سمجھ کر پاکستان کے قیام کی جدوجہد کی تھی۔ انھوں نے سیداحمد شہید کے متبعین کی طرح مسلم اکثریت کے علاقوں کی خاطر قربانی دی تھی، نہ انھوں نے دھوکا کھایا تھا، اور نہ اکثریت کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں نے انھیں دھوکا دیا تھا۔

یہاں پھر یہ بات دہرائوں گاکہ یہ کام محض سیاست دانوں کا نہ تھا، پوری قوم کا تھا۔ سیاست دان اور غیرسیاست دان بے معنی تفریق ہے۔ امتیاز فقط قائدین کو حاصل ہے۔ ورنہ سیاست دان تو قوم کا ہر فرد تھا اور آج بھی ہے، نہیں تو ہونا چاہیے۔ آپ کو یاد ہے کہ اس طوفان تمنا میں جہاں وکلا شریک تھے وہاں سول افسر، پولیس افسر، تاجر اور اساتذہ بھی شامل تھے، فوجی سپاہی بھی مضطرب تھے اور پولیس کے سپاہی بھی، کلرک بھی سرگرم تھے اور طلبہ بھی۔ قائدین نے متنبہ کیا، قوم متنبہ ہوگئی، اور منزل پر پہنچ گئی مگر جہاد ختم نہیں ہوا۔ ابھی کمر کھولنے کا وقت نہیں آیا، بلکہ زندہ قوموں کے لیے ایسا وقت کبھی آیا ہی نہیں۔

اگر اس وقت آزادی و استقلال کی تمنا نے پوری قوم کو ہوشیار و مستعد کر دیا تھا تو آج قوم کیوں سُست پڑ رہی ہے؟ آج کیوں قوم بقاے پاکستان کی ذمہ داری محض لیڈروں کے سر تھوپ کر سو رہی ہے؟ جن مخالف قوتوں نے پاکستان کے وجود میں آنے کی مخالفت کی تھی وہ تو بدستور برسرِ عداوت ہیں بلکہ مقابلے اور رقابت کی تلخی پہلے سے بھی زیادہ ہے۔ پھر آج قوم کا فرد فرد کیوں حالات کی نزاکت کے مطابق چوکس نہیں؟ پہلے مقابلہ فقط برعظیم کی حدود کے اندر تھا۔ اب مقابلہ بین الاقوامی حیثیت اختیار کرگیا ہے، لہٰذا آج پہلے سے بھی زیادہ بیداری اور اتحاد کی ضرورت ہے۔ قائدین کا فرض ہے کہ قوم کو غافل نہ ہونے دیں اور قوم کا فرض ہے کہ اپنے قائدین کو جھنجھوڑتی رہے۔

اسلام اور کفر دو الگ ملتیں ہیں۔ ان میں سمجھوتہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ظلمت نور کے درپے رہے گی، باطل حق کے گریباں گیر رہے گا، اس لیے ہمیں ہندوئوں سے کوئی شکایت نہیں۔ وہ اگر آسام، بھوپال، جبل پور، میرٹھ، ممبئی، کلکتہ وغیرہ میں مسلمانوں کو پامال کریں تو وہ فطرت سے مجبور ہیں۔ اگر واہگہ کی راہ سے پاکستان پر چڑھ دوڑیں اور یہاں پہنچ کر مسلم معاشرے کو کچل دینے کا تہیہ کریں تو جب بھی وہ مجبور ہیں۔ ان کے ڈنک کو کند کرنے یا توڑ دینے کا بندوبست ہمارا کام ہے۔ ہم بھی اسی صورت میں چین سے جی سکیں گے اور بھارت میں بسنے والے مسلمان بھی!

پاکستان بننے کے ساتھ ہی ہندوئوں نے اس کو تباہ کرنے کے منصوبے بھی بنانے شروع کردیے تھے۔ مگر شاید وہ نہ جانتے تھے کہ حضرت قائداعظم کے بقول ’’پاکستان مرضی مولا‘‘ ہے، وہ بن کر رہا اور تن کر رہ رہا ہے، وہ مٹنے کے لیے وجود میں نہیں آیا۔ آپ کو یاد ہے کہ ۱۹۶۵ء کی جنگ کے فوراً بعد جسٹس مہرچند مہاجن کا بیان ہندستانی اخبارات میں چھپا تھا جس میں مذکور تھا کہ پاکستان بنتے ہی ہم نے ایک اہم اجتماع منعقد کیا، جس میں سردار پٹیل، مہاراجا پٹیالہ، مہرچند خود، بخشی غلام محمد (یادش بخیر) جنرل تھمایا وغیرہ شامل ہوئے تھے اور طے پایا تھا کہ اس نوزائیدہ مملکت کو کاری ضرب لگا دی جائے، مگر حکومت نے ساتھ نہ دیا۔ آج وہ فتنہ یوں آنکھیں دکھا رہا ہے‘‘___ اس امر کی تصدیق اپنی کتاب میں جنرل کول نے بھی کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے یہ تجویز پنڈت نہرو کی خدمت میں پیش کی تو وہ بولے: پاکستان وہ ڈھانچا ہے جو خود ہی گرنے کو ہے، اسے ہم  گرا کے دنیا کی نگاہوں میں کیوں بُرے بنیں‘‘۔

پاکستان کو ڈھا دینے یا اس کے خود بخود ڈھے جانے کی تمنا ہندو کا ایک خوش آیند خواب تھا اور ہے۔ اگرچہ انگریز نے ہندو کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے ہمیں کمزور سے کمزور تر پاکستان مہیا کرنے کی کوشش کی تھی، اس کے باوصف یہ ڈھانچا روز بروز مضبوط تر ہوتا چلا گیا۔ بھارت نے بارہا ٹھوکر لگائی اور ہمیشہ منہ کی کھائی۔ ۱۹۶۵ء میں جو کچھ ہوا وہ ساری دنیا کے سامنے ہے۔ مگر ایک غلط نتیجہ یہ نکلا کہ ہم اس جنگ کے بعد غافل سے ہوگئے، خوداعتمادی نے دشمن کو ہماری نظروں میں حقیر بنا دیا، یہ رویہ بڑا خطرناک ہے۔ اس لیے کہ دشمن برسرِ انتقام ہے، وہ دیکھ چکا ہے کہ پاکستان نہ خودبخود ختم  ہوا اور نہ اس کے ضرب لگانے پر اسے کوئی نقصان پہنچا، لہٰذا اب وہ آخری بھرپور وار کرنے کا خواہاںہے۔ وہ زخمی سانپ کی طرح بل کھا رہا ہے۔ اس نے بین الاقوامی سطح پر ہمارے خلاف    محاذ در محاذ کھول رکھے ہیں، شب و روز سازش اور پروپیگنڈا جاری ہے تاکہ وہ ہمارے دوستوں کو ہم سے بدگماں کرے اور بدخواہوں کو مزید بدخواہ بنائے۔ وہ ہرلحظہ طاقت بڑھانے میں مصروف ہے۔ وہ اقتصادی طاقت ہو خواہ عسکری، امریکا اور روس کھلے بندوں اس کی مدد کر رہے ہیں۔ اندریں حالات ہم کیا فیصلہ کریں؟ کیا ہم ہندستان کی لیڈرشپ قبول کرلیں؟ یا کیا ہم کشمیر کو ہضم ہوجانے دیں؟ یا کیا ہم اپنے وجود کو ختم کرلیں؟ ہرگز نہیں۔

یہ بات تو صاف ہے کہ ہندو نے برعظیم کی تقسیم کو گئوماتا کی تقسیم قرار دیا تھا۔ وہ پاکستان کے وجود میں آنے اور اس کے باقی رہنے کو ہرگز برداشت نہیں کرسکتا، تاوقتیکہ پاکستان اتنا مضبوط ہوجائے کہ وہ اس چٹان سے ٹکرا ٹکرا کر آخر مایوس ہوکر بیٹھ جائے۔ یہ قوت پاکستان کے اندر   اتحادِ عمل اور اتحادِ خیال کے بغیر بیدار نہ ہوگی۔ ہر میدان میں ترقی کا قدم آگے بڑھانے کے ساتھ ساتھ لازم ہے کہ قوم کا بچہ بچہ سپاہی بھی ہو اور اسلامی حمیت کے جذبے سے سرشار بھی۔ اسی جذبے نے پاکستان کو جنم دیا تھا، وہی جذبہ اس کی مدافعت بھی کرے گا۔ کوئی بھی متبادل قدر اسلامی حمیت کی قائم مقام نہیں ہوسکتی۔ موٹی سی بات ہے کہ ہم نے آزادی اسلام کی خاطر اور اسلام کے نام سے حاصل کی تھی۔ یہ کہنا کہ یہ فقط اقتصادی ضرورت تھی بے بنیاد خیال ہے۔ ویسے میں اتنا    پوچھتا ہوں کہ یہ اقتصادی ضرورت کس گروہ کی تھی جس نے مجبور کیا کہ الگ گھر بنائو؟ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے گروہ کی، تو یہ گروہ کیوں توجہ طلب تھا؟ اس لیے توجہ طلب تھا کہ یہ اسلام کا نام لیوا تھا۔ گویا نام و بنیاد مخاصمت تو پھر بھی اسلام ہی رہا۔ بہرحال اسلامی حمیت کی تقویت اور پرورش لازم ہے ۔ ایسے جملہ عناصر اور جملہ اعمال کی سرکوبی ناگزیر ہے جو ملّت پاکستان کے دل میں اس حمیت کو کمزور کردینے کا باعث بنیں۔ حضرت قائداعظمؒ نے اگر قوم سے یہ وعدہ کیا تھا کہ پاکستان اسلام کا گھر اور وطن ہوگا جہاں شریعت ِ محمدیؐ کارفرما ہوگی، تو وہ وعدہ سرتاسر مبنی براخلاص تھا۔ اخلاص کی نصرت اسی خلوصِ پیمان کے باعث تھی۔ اگر ہم خدا کو بھلا دیں گے اور عہدشکنی کریں گے تو مکافاتِ عمل کی اجتماعی سزا کا سدِباب مشکل ہوگا۔ (انتخاب: پاکستان، حصارِ اسلام، ص ۱۳۴-۱۳۹)