اکتوبر ۲۰۱۰

فہرست مضامین

کتاب نما

| اکتوبر ۲۰۱۰ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

حیات النسائ: (مناکحات)، میاں مسعود احمد بھٹہ ۔ ناشر: آہن ادارہ اشاعت و تحقیق، لاہور۔ ملنے کا پتا: ۳-انجمن اسلامیہ بلڈنگ، ۳۹-لوئرمال، لاہور۔ صفحات: ۷۸۱۔ قیمت (مجلد): ۸۰۰ روپے۔

دورِ جدید کے مسائل میں جہاں معیشت بنیادی اہمیت اختیار کرگئی ہے وہاں معاشرتی مسائل بالخصوص اسلامی نظامِ حیات سے مناسب واقفیت نہ ہونے کے سبب ازدواجی زندگی افراط و تفریط کا شکار ہوگئی ہے۔ وہ گھرانے بھی جو بظاہر دین دار شمار کیے جاتے ہیں، بہت سی ایسی رسومات و رواج کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں جو اسلام کی روح کے منافی ہیں۔ ایک جانب ایمان و تقویٰ پر   درس ہوتا ہے تو دوسری جانب ’برادری کی عزت‘ کے نام پر ان جاہلی رسوم پر عمل بھی ہوتا ہے جنھیں دور کرنے کے لیے اسلام آیا تھا۔

اسلام سے عمومی ناواقفیت کی بنا پر آج بھی عالمِ اسلام بشمول پاکستان میں خاندانی زندگی اور معاملات میں بے شمار غیراسلامی روایات پر عمل کیا جا رہا ہے۔ اس لیے اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ سرکاری اور غیرسرکاری نظامِ تعلیم میں خاندان کی اہمیت، مرکزیت اور اس کے قیام و بقا کے حوالے سے مفصل ابواب شامل کیے جائیں، تاکہ آنے والی نسلیں وہ غلطیاں اور حماقتیں نہ کریں جو ان کے بزرگ عرصے سے کرتے چلے آرہے ہیں۔

میاں مسعود احمد بھٹہ صاحب کی تالیف حیات النساء (مناکحات) اس حیثیت سے ایک بروقت تالیف ہے جس میں آدابِ زوجیت، نکاح، حق مہر، طلاق و عدت اور شوہر اور بیوی کے باہمی حقوق پر بہت مفید مواد جمع کر دیا گیا ہے۔ زیرتبصرہ کتاب حیات النساء کے زیرعنوان مجوزہ تین جلدوں پر مبنی تالیف کی جلد دوم ہے جسے جلد اوّل اور سوم سے قبل طبع کر دیا گیا ہے۔

کتاب سلیس زبان میں لکھی گئی ہے اور مناکحات کے باب میں پیش آنے والے اکثر مسائل و معاملات پر قیمتی مواد یک جا کر دیا گیا ہے۔ گو قرآن و حدیث کے حوالے مکمل دیے گئے ہیں لیکن دیگر ذرائع سے اخذ کردہ معلومات کے حوالوں میں علمی تحقیق کے رویے کو بنیاد نہیں بنایا گیا ہے۔ اگر ہر حوالہ مکمل ہوتا تو پڑھنے والوں کو مزید لوازمے تک پہنچنے میں آسانی ہوتی اور کتاب کی تحقیقی قدرو قیمت میں اضافہ ہوجاتا۔ بعض مقامات پر غیرضروری معلومات بھی دے دی گئی ہیں جنھیں باآسانی حذف کیا جاسکتا تھا۔

بعض مقامات پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ کتاب کے آغاز میں زوجیت اور مقاصدِ حیات کے زیرعنوان شوہر اور بیوی کے درمیان ’مساویانہ‘ رویے پر زور دیا گیا ہے (ص ۴) جو بادی النظر میں بالکل درست ہے، لیکن اس کا یہ مدعا لینا غلط ہوگا کہ اسلام مغربی تہذیب کی طرح عورت اور مرد کی مساوات کا قائل ہے۔ بلاشبہہ، انسانی بنیاد پر سورئہ نساء نے بات کو واضح کر دیا کہ چونکہ دونوں کو ایک نفس سے پیدا کیا گیا ہے اس لیے ان میں خون، رنگ، نسل وغیرہ کی تفریق نہیں کی جاسکتی اور دونوں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی مخلوق ہیں جن سے وہ یکساں محبت کرتا ہے لیکن یہ کہنے کے ساتھ ساتھ قرآن کریم ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت بھی دیتا ہے اور ’فرائض‘ میں واضح طور پر فرق کرتا ہے۔ دراصل اس موضوع اور اس جیسے دیگر موضوعات پر مغربی اور مشرقی اقوام کے اعتراضات سے بلند ہوکر صرف اور صرف قرآن و سنت کی بنیاد پر ان مسائل کا حل اور تعبیر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں کسی قسم کے سمجھوتے کی ضرورت نہیں۔

آغاز ہی میں ایک راے کا اظہار کیا گیا ہے: ’’ہمیں جدید زوجیت کی ابتدا میں آدم و حوا کی صورت میں انسانی جوڑے کی خوب صورت پہچان ملتی ہے جس میں (عورت) حوا نے جنت سے نکالے جانے کے بعد زمین میں ایک طویل عرصے تک اپنے ساتھی ’زوج‘، یعنی آدم ؑ کا انتظار کیا۔ اس طرح عورت میں مرد کے ساتھ وفاداری کے جذبے کی شناخت ہوئی اور عورت (حوا) کے اس انتظار نے اپنے جوڑے سے تعلق اور محبت کا عملی ثبوت فراہم کیا، اور آج بھی حوا کی بیٹیاں اپنے جوڑے، یعنی مرد کے لیے صبر اور شکر اور محبت کے حقیقی جذبات لیے انتظار کرتی رہتی ہیں۔ آدم ؑ و حواؑ کا جوڑا زوجیت کی اوّلین بہترین مثال ہے‘‘۔ (ص ۵)

مؤلف نے بغیر کسی قرآنی آیت اور حدیث یا آثار کے حوالے کے یہ کہنا چاہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب یہ فرمایا: قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْھَا جَمِیْعًا (البقرہ۲:۳۸) ،یعنی تم سب یہاں سے اُتر جائو تو یہ کام قسطوں میں ہوا۔ پہلے سیدہ حواؑ کو بھجا گیا چنانچہ وہ عرصے تک حضرت آدمؑ کی منتظر رہیں اور پھر حضرت آدمؑ کو نیچے اُتارا گیا۔ حالانکہ بات واضح ہے کوئی وجہ نہیں کہ پہلے سیدہ حواؑ کو دنیا میں بھیجا جاتا اور اس کے کچھ عرصے بعد حضرت آدمؑ کو، جب کہ دونوں کو بیک وقت عفو و درگزر کے بعد جس مقصد کے لیے پیدا کیا گیا تھا اس کی تکمیل، یعنی زمین پر اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی خلافت اور     امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضے کی ادایگی کے لیے ایک مقررہ مدت کے لیے اُتارا گیا۔

کتاب بحیثیت مجموعی مفید ہے۔ اگر اختصار کا پہلو اختیار کیا جاتا تو یہ قیمتی مواد کم صفحات میں بھی آسکتا تھا اور زیادہ آسانی سے مطالعہ کیا جاتا۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


رُک جایئے(منہیات کا انسائی کلوپیڈیا) الشیخ ابوذر محمد عثمان۔ ناشر: مکتبہ اسلامیہ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۲۴۴۹۷۳-۰۴۲۔ صفحات: ۲۴۸۔ قیمت: درج نہیں۔

دین کی اصل تعلیم احکامات ہیں جن کی دو صورتیں ہیں: امر اور نہی، یعنی ایسے کام جن کے انجام دینے کا حکم دیا گیا ہے اور ایسے کام جن کے کرنے سے روکا گیا ہے۔ ان احکامات کی بجاآوری کے پیش نظر علماے دین نے ان کی درجہ بندی بھی کی ہے، مثلاً: حرام، مکروہ، مکروہِ تحریمی، مکروہِ تنزیہی اور حلال، جائز، مباح وغیرہ۔ اس موضوع پر اُردو میں شائع ہونے والی مفصل کتاب علامہ یوسف القرضاوی کی الحلال والحرام فی الاسلام کا ترجمہ ہے (حلال و حرام، مطبوعہ اسلامک پبلی کیشنز)۔ اب کئی کاوشیں سامنے آئی ہیں۔ ان میں سے ایک رُک جایئے بھی ہے جس کا ذیلی عنوان ہے: ’’اللہ اور اس کے رسولؐ نے منع کیا ہے‘‘، اور اسے ’منہیات کا انسائی کلوپیڈیا‘ قرار دیا گیا ہے۔ مصنف نے قرآنِ مجید اور احادیث نبویؐ میں وارد اوامر و نواہی کو فقہی ترتیب اور عنوانات کے تحت اختصار کے ساتھ مرتب کیا ہے۔ طہارت، نماز، جنازہ، زکوٰۃ، روزہ، حج، تجارت، نکاح و طلاق، جہاد، کھانے پینے، قسموں، نذروں، طب، لباس اور آداب کے مسائل سے متعلق ممنوعات کو بیان  کیا گیا ہے۔ بنیادی طور پر یہ کتاب اُن بڑے بڑے امور کی نشان دہی کرتی ہے جن سے ایک مسلمان کو اجتناب کرنا چاہیے۔

کتاب وسنت کی منہیات سے آگاہی یقینا ہر مسلمان کو ہونا چاہیے۔ اس اعتبار سے یہ مختصر ضخامت کی کتاب بہت سے مسائل کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ مصنف نے جہاں ضروری سمجھا ہے آیت یا حدیث کی وضاحت بھی کردی ہے۔ اطاعتِ رسولؐ پر بہت مؤثر مقدمہ شامل کتاب ہے۔ بیرونی اور اندرونی بہت سی خوبیوں کی حامل یہ کتاب کچھ عربی طرزِ تصنیف کا رنگ لیے ہوئے ہے۔  بعض مسائل کی ممانعت درج کرنے کے ساتھ ہی اُن کا جواز بھی درج کردیا گیا ہے۔ یوں عمل کا فیصلہ قاری کے لیے مشکل ہوجاتا ہے۔ کئی جگہوں پر حدیث کے مدعا کی تفہیم میں ابہام موجود ہے۔ کچھ مسائل کی تکرار بھی ہے، تاہم دیدہ زیب سرورق، عمدہ کاغذ، بہترین طباعت اور مضبوط جلد     و ڈسٹ کور سے مزین یہ کتاب ناشر کے حسنِ ذوق کی آئینہ دار ہے۔ (ارشاد الرحمٰن)


یہودی مذہب، مہد سے لحد تک، رضی الدین سیّد۔ ناشر: بیت السلام، شان پلازہ، نزد مقدس مسجد، اُردو بازار، کراچی۔ فون: ۲۰۳۸۱۶۳- صفحات: ۲۷۲۔ قیمت: درج نہیں۔

ہم اُردو قارئین بخوبی جانتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ایٹمی قوت اور نام اسرائیل و صہیونیت کی ہٹ لسٹ پر، سب سے اُوپر ہے اور یہ کہ آشوبِ عراق و افغانستان (اور اب پاکستان) کے پس پردہ یہود کی مسلم دشمنی ہی کام کر رہی ہے۔ چنانچہ بقول مصنف: ’’معاملاتِ عالم کو تباہی و بربادی کی جانب دھکیلنے میں اصل ہاتھ صہیونیوں کا ہے‘‘۔

لیکن خود یہودی کون ہیں؟ ان کے عقائد، ان کا مذہب اور روز مرہ معاشرتی طور طریقے کیا ہیں؟ اس بارے میں ہماری معلومات درجۂ سوم کے طلبہ کے برابر بھی نہیں ہیں۔ جناب رضی الدین سیّد نے مقدس صحیفوں (زبور و تورات) کے ساتھ یہودیوں کی بعض قدیم اور مستند کتابوں کو کھنگال کر ایسی معلومات فراہم کی ہیں جو آج تک اُردو میں، اتنی عمدگی اور خوبی کے ساتھ کسی نے پیش نہیں کیں۔

یہود و یہودیت کے اس تعارف میں، مصنف نے ان کے عقیدۂ توحید، تصورِ خدا، قربانی، نمازوں، یومِ سبت، مختلف تہواروں، روزوں، شادی بیاہ، طلاق، تبدیلی مذہب، میت کے کفن دفن وغیرہ، یعنی یہودی شریعت اور یہودی فقہ کی جزئیات اور تفصیل مہیا کردی گئی ہے۔

موسوی شریعت میں ان کی تحریفوں اور محمدی شریعت سے مماثلتوں کا ذکر بھی کیا ہے۔ بتایا ہے کہ مسلمانوں اور یہودیوں میں مماثلت کے پہلو موجود ہیں۔ مثلاً: یہودی بھی مسلمانوں کی طرح خدا اور بندے کے درمیان کسی واسطے کے قائل نہیں ہیں۔ یہودی مذہب بھی ایک مکمل نظامِ زندگی ہے۔ نماز، روزہ لازمی ہے (تفصیل میں اختلاف ہے۔ مردوں کے لیے دن میں تین نمازیں اور عورتوں کے لیے صرف دو نمازیں فرض ہیں۔ نماز باجماعت کو ترجیح حاصل ہے۔ لازمی روزے سال بھر میں صرف چھے ہیں)۔بچوں کا ختنہ ضروری ہے۔ وہ ذبیحے کے قائل ہیں۔ سود کو حرام سمجھتے ہیں۔ ہدایت ہے کہ میت کی تدفین میں جلدی کی جائے۔ کفن سفید ہو۔ مرنے والے کی طرف سے صدقہ و خیرات کریں۔ یہودی بچوں کو صبح بیداری اور سوتے وقت کی جو دعائیں سکھاتے ہیں، وہ مسلم دعائوں سے بڑی حد تک مماثل ہیں وغیرہ۔ ان وجوہ سے یہودی کی ’بہت سی خوبیاں‘ انھیں ’اسلام سے قریب تر‘ کردیتی ہیں (ص ۱۳)۔ اور ’اس لحاظ سے یہودیوں کو فی الاصل مسلمانوں ہی کا دوست اور خیرخواہ ہونا چاہیے لیکن تین ہزار سالہ ہٹ دھرمی اور اپنی نسل کے اعلیٰ و ارفع ہونے کے تصور نے انھیں مسلمانوں کا دشمن بنا دیا ہے‘‘ (ص ۱۳)۔ تمام غیر یہودیوں کو ’جاہل اور وحشی‘ سمجھتے ہیں۔ پس خدائی چہیتے اوراعلیٰ ترین نسل ہونے کے خبط ہی نے انھیں ’دوسری قوم سے برتر‘ بنا کر گمراہی کے راستے پر ڈالا۔ اس گمراہی کے کئی پہلو ہیں، مثلاً: یہودی اپنی تقریبات بلکہ عبادات تک میں، شراب کا استعمال ضروری سمجھتے ہیں۔ سودی کاروبار پھیلانے میں انھی کا ہاتھ ہے۔ اِسی طرح ’تقیّہ‘ کو بھی جائز سمجھتے ہیں۔ اور اسی تقیّے کے تحت غیریہودیوں کو نقصان پہنچانے کے لیے اپنے شرعی احکام سے تجاوز اور نتیجتاً اُن پر ظلم و زیادتی بھی اُن کے نزدیک بالکل جائز ہے (ص ۱۱۱)۔ جس کی ایک واضح مثال، فلسطینیوں سے ان کا نفرت انگیز رویّہ ہے۔

مصنف نے کتاب کے آخری حصے میں یہودیوں کی تاریخ اور اسرائیل کے قیام کے بارے میں ضروری کوائف شامل کیے ہیں۔ مزیدبرآں عبرانی زبان، یہودی کیلنڈر، یومِ سبت، ہولوکاسٹ، اسرائیل کا قومی ترانہ، قومی پرچم، دیوار گریہ کی وضاحت کی گئی ہے (یومِ سبت کو حسب ِ ہدایت ’منانا‘ اچھا خاصا گورکھ دھندا معلوم ہوتا ہے)۔

مصنف کہتے ہیں کہ ’’بہت سے مسلمانوں کی طرح، یہودیوں میں بھی مذہب پر عمل پیرا (practicing) یہودی کم ہیں اور اُن میں بھی دورِ جدید کی وبا کی طرح سیکولرزم اور لبرل ازم در آیا ہے جس کی بنیاد پر، وہ بڑی حد تک مذہب سے بیزار نظر آتے ہیں، تاہم یہ بات طے ہے کہ یہودی چاہے لبرل ہوں، قدامت پرست ہوں یا دہریہ، وہ بہرحال یہودی رہتے ہیں‘‘۔ (ص ۲۶۴)۔ ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر اور مفتی ابولبابہ شاہ منصور نے تقریظات میں جناب رضی الدین سیّد کی زیرنظر کاوش کو بجا طور پر مستحسن قرار دیا ہے۔ معیارِ اشاعت بھی اطمینان بخش ہے البتہ آیاتِ قرآنی پر اعراب کا اہتمام ضرور کرنا چاہیے، نیز: ’زکریا‘ درست ہے نہ کہ ’ذکریا‘ (ص ۲۰)۔ (رفیع الدین ہاشمی)


عزیمت کے راہی، دوم، حافظ محمد ادریس۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ صفحات: ۳۲۰۔ قیمت (مجلد): ۲۳۵ روپے

برعظیم پاک و ہند میں تحریکِ اسلامی کا موجودہ قافلہ سیدابوالاعلیٰ مودودی علیہ الرحمہ کا صدقۂ جاریہ ہے، جس نے لاکھوں انسانوں کی زندگیوں کو ایمان کی دولت سے مالا مال اور عمل کی لذت سے سرشار کیا ہے۔ اس تحریک کے بے شمار وابستگان کی زندگیاں کئی حوالوں سے شان دار مثالوں کا عنوان ہیں۔ اس دنیا میں آنے والے ہر فرد نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے، اسی قانونِ قدرت کے تحت اس قافلے کے رفتگان بھی اپنی یادوں کا سرمایہ چھوڑ کر آخرت کو سدھارتے ہیں۔

حافظ محمد ادریس کے رواں قلم نے ان افراد کی زندگیوں کی یادوں کو قلم بند کرنے کے لیے مقدور بھر کاوش کی ہے۔ ان کی یہ یادداشتیں اور تاثرات ہفت روزہ ایشیا لاہور میں اشاعت پذیر ہوتے رہے ہیں۔ اب نظرثانی اور اضافوں کے بعد انھیں کتابی شکل دی گئی ہے۔ مصنف ان مرحومین کے ساتھ اپنے کسی نہ کسی ذاتی تعارف یا شخصی ربط کے حوالے سے تذکرے کا باب کھولتے ہیں، پھر شخصیت کی دینی خدمات، پُرکشش کردار اور وسیع اثرات کو موضوعِ تحریر بناتے ہیں۔ اس طرح یہ مختصر اور درمیانی ضخامت پر پھیلے ہوئے تذکرے درحقیقت دین سے وابستگی کی بنیاد پر متشکل ہوتے ہیں۔ جن کو روشن مثالوں اور زندہ جذبوں کے آئینے میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ان تذکار کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ مذکورہ مرحومین کے اہلِ خاندان، برادریاں اور علاقے کے لوگ بھی ان سے نسلی یا علاقائی وابستگی کے باعث ایک ذاتی کشش، زندہ کسک اور عمل کی دعوت کو محسوس کرسکتے ہیں۔

کتاب میں حسب ذیل حضرات کا تذکرہ ہے: مولانا جان محمد عباسی، محمد مامون الہضیبی،   ملک غلام علی، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا فتح محمد، مولا محمد سلطان، میاں فیض الدین، طالب الہاشمی، آسی ضیائی، زیلم خان شہید، حافظ محمد سرور، ملک ظفراللہ خان، چودھری سلطان احمد، مختار حسن، خالد بزمی، ڈاکٹر محمد سعید، ڈاکٹر جمیل الرحمن، مولانا شمس الدین، ضیاء الرحمن، عبیدالرحمن مدنی، شیخ عبدالرشید، سوہنے خاں، جب کہ خواتین میں ساجدہ زبیری، عطیہ راحت، زیب النسائ۔ بنیادی طور پر یہ تذکرہ  مولانا مودودی علیہ الرحمہ کی برپا کردہ تحریکِ اسلامی سے وابستہ شخصیات کا ہے، تاہم اس میں بعض ایسی شخصیات کا ذکر بھی آگیا ہے، جن کا شخصی تعلق اگرچہ مولانا مودودی سے، یا جماعت اسلامی سے نہ تھا،  مگر بالواسطہ ان کا تعلق قافلۂ احیاے اسلامی ہی سے ہے۔(سلیم منصور خالد)


تعارف کتب

  • حج و عمرہ کی قبولیت ___ مگر کیسے؟ ڈاکٹر رحمت الٰہی۔ الفوزاکیڈمی، سٹریٹ ۱۵، E-4/11، اسلام آباد۔ فون: ۲۵۱۸۸۲۹- ۲۲۲۲۴۱۸-۰۵۱۔ صفحات: ۱۲۲۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔ [مصنف نے اپنے ۲۰۰۸ء کے سفرِحجاز کے تجربات و مشاہدات کی مدد سے زائرین حج و عمرہ کے لیے ایک مفید کتاب تیار کی ہے جس میں بقول مصنف: ’’کوشش کی گئی ہے کہ دعائوں اور اس کی روح کے ساتھ حج پر لکھی گئی تمام کتب کا نچوڑ آجائے‘‘۔ کتاب میں ضروری مسائل، زائرین کے لیے ہدایات اور دعائیں بھی شامل ہیں۔ تیسرا باب (حج کا حاصل) اہم اور  توجہ طلب ہے۔ مصنف کا موقف یہ ہے کہ زائرین، مناسکِ حج و عمرہ ’’ان کی اصل روح کے ساتھ ادا کریں تاکہ وہ گوہرمقصود ہاتھ آئے، جس کے لیے بہت بڑے پیمانے پر لگایا جانے والا سرمایہ، گھر اور بچوں سے دور اُٹھائی جانے والی پُرمشقت قربانیاں، رائیگاں نہ جائیں‘‘ (ص ۱۱)۔ یہی ’’قبولیت کیسے؟‘‘ کا جواب ہے۔]