اکتوبر ۲۰۱۰

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| اکتوبر ۲۰۱۰ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

سُنن عادیہ اور سُنن ترغیبی

سوال: سنن عادیہ اور ترغیبی سنت سے کیا مراد ہے؟ نبی کریمؐ عرب رسم و رواج کے مطابق عمل کیا کرتے تھے۔ آپؐ اُونٹ یا گھوڑے پر سفر کرتے تھے لیکن آج ہم گاڑی، ریل یا ہوائی جہاز میں سفر کرتے ہیں۔ آپؐ  نے تیروتلوار سے جنگ کی، جب کہ موجودہ زمانہ بندوق اور میزائل وغیرہ کا ہے۔ آپؐ  کا ایک مخصوص لباس اور رہن سہن تھا لیکن ہمارا طرزِعمل اس سے مختلف ہے۔ کیا سُنن عادیہ کا تقاضا نبی کریمؐ کے اسوہ کی پیروی نہیں؟

جواب: سنن عادیہ جن کو سنن زوائد بھی کہا جاتا ہے وہ سنتیں ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے عرف و رواج پر مبنی تھیں۔ ان کو قائم کرنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ یہ دین کا حصہ نہیں ہیں۔  سنن ترغیبی یا سنن ہدیٰ ان سنتوں کو کہا جاتا ہے جو دین کا حصہ ہیں اور ہمیں ان کے قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ پگڑی باندھنا، تہ بند باندھنا اور تیر وتلوار کا استعمال کرنا سنتِ رسولؐ اور سنت اصحابِ رسولؐ ہے، لیکن یہ چیزیں ان سنتوں میں شامل نہیں ہیں جو سنن ہدیٰ ہیں اور جن کو قائم کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے اور جن کو ترک کرنا بُرائی اور کراہیت کا سبب ہو بلکہ یہ سنن عادیہ ہیں۔ یہ آپؐ  کے دور کے رواج اور عرف پر مبنی تھے۔ تیروتلوار کا استعمال آپؐ  کے دور کے ذرائع تھے اور آج کے دور کے ذرائع راکٹ، میزائل اور جہاز وغیرہ جدید ذرائع ہیں۔ آج ہم تیروتلوار کو استعمال کرکے ثواب نہیں حاصل کرسکتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نشست و برخاست، آپؐ  کی چال ڈھال، آپؐ  کا لباس محبت کی بنیاد پر اختیار کرنا اور آپؐ  کے لباس، اور عاداتِ شریفہ، کھانے پینے کی چیزوں میں آپؐ  کی پسند و ناپسند کو اپنانا،  ان کا احترام کرنا قابلِ قدر ہے لیکن یہ سنن ہدیٰ میں شامل نہیں ہے بلکہ سنن عادیہ یا سنن زوائد ہیں۔ لباس اور کھانے پینے کے بارے میں عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا: ’’جو چاہو کھائو اور جو چاہو پہنو بشرطیکہ اسراف اور تکبر سے بچتے رہو‘‘ (بخاری، کتاب اللباس)۔ مراد یہ ہے کہ لباس اور کھانے پینے کے بارے میں شریعت نے حلال و حرام کی جو ہدایات دی ہیں، ان کی پابندی کرنا تو ضروری ہے اور یہ شرعی حکم ہے کہ لباس حلال ہو، حرام نہ ہو، ٹخنوں سے نیچے نہ ہو، بدن کو ڈھانپنے والا ہو اور موجب تکبر نہ ہو۔ آج مختلف ملکوں کے علما اور نیک لوگوں کے لباس اپنے اپنے ملکوں کے رواج کے مطابق ہیں۔ ان سب کے لباس اور کھانے پینے کی حلال چیزوں کی تیاری اور ذائقوں میں فرق ہے۔ یہ سب اسلامی لباس اور اسلامی کھانے ہیں۔ عرب گوشت تیار کرتے ہیں، اس میں مرچ مسالہ نہیں ہوتا، پاکستانی کھانے، مرچ مسالے والے اور چٹ پٹے ہوتے ہیں۔ بعض ممالک میں صرف ڈبل روٹی ہوتی ہے۔ پاکستانی اور عرب ممالک کی روٹی کی طرح روٹی نہیں ہوتی۔ یہ سب سنن زوائد اور سنن عادیہ ہیں۔

یہ بات یاد رکھیں کہ کوئی شخص محبت رسولؐ کی بنا پر اسی طرز کا لباس پہنتا ہو جس طرز کا رسولؐ اللہ پہنتے تھے، مثلاً سر پر عمامہ باندھتا ہو، تہ بند باندھتا ہو، پائوں میں اسی قسم کے نعلین پہنتا ہو، مٹی کے برتنوں میں فرش پر بیٹھ کر کھاتا ہو، اسے آپؐ  کی محبت کا اجر مل جائے گا لیکن یہ کوئی حکمِ شرعی نہیں ہے۔ اسی لیے پاکستان اور دوسرے اسلامی ممالک کے علما کو آپ دیکھتے ہیں کہ ان کے لباس آپؐ  کے لباس اور ان کے جوتے آپؐ  کے جوتوں اور ان کے کھانے رسولؐ اللہ کے کھانوں کی طرح نہیں ہیں۔ اس لیے کہ آپؐ  نے یہ لباس اور کھانے اور تیروتلوار کا استعمال اپنے دور کے عرف و عادت کے مطابق کیا تھا، ثواب اور حکمِ الٰہی کی بنیاد پر نہیں کیا تھا۔(مولانا عبدالمالک)


سود پر قرض کے لیے تصدیق کرنا

س: ایک شخص کو سود پر قرض حاصل کرنا ہے۔ قرض لینے کے لیے اسے زمین کی فرد تقسیم یا سونا طلائی زیور بنک میں جمع کروانا ہوتے ہیں۔ کیا فرد تقسیم فراہم کرنے اور اس کی تصدیق کرنے والا اس گناہ میں شریک ہیں؟ کیا طلائی زیور کا وزن کرنے اور سونے کے کھرا ہونے کی تصدیق کرنے والا سنار مذکورہ گناہ میں شریک ہوں گے یا نہیں؟

ج: سود کا عمل زمین کی فرد نکالنے اور اس کی تصدیق کے بعد اور سونے کے زیور کے کھرا ہونے کی تصدیق کے بعد شروع ہوتا ہے۔ فرد کی تصدیق اور سونے کے کھرا ہونے کی تصدیق کے بعد مالکِ زمین اور مالکِ زیور کو اختیار ہے کہ اسے بنک میں جمع کرا کر قرض حاصل کرے یا دونوں چیزوں کی تصدیق کروانے کے بعد انھیں اپنے پاس رکھے اور قرض حاصل کرنے کے لیے بنک میں جمع نہ کرائے۔ جب ایسی صورت حال ہو تو تصدیق سودی قرض لینے میں تعاون شمار نہیں ہوتی۔ اس لیے تصدیق کرنے والے گنہگار نہیں ہوں گے۔ البتہ تصدیق کرنے والے کو سودی قرض لینے کی نیت سے تصدیق کرانے والے کو تنبیہہ کرنی چاہیے کہ ہماری تصدیق کو سودی قرض کے حصول کے لیے استعمال نہ کریں۔ اس کے باوجود،وہ باز نہ آئے تو وہ خود مجرم ہوگا۔ تصدیق کرنے والے کو اس کا گناہ نہ ہوگا۔ اس لیے قرض لینا اور سود دینا دونوں کام تصدیق کے بعد قرض خواہ کا انفرادی اور خود اختیاری عمل ہے(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، جواہر الفقہ،  مفتی محمد شفیعؒ مفتی اعظم پاکستان)۔ (ع - م)


سورج یا چاند گرہن کے موقع پر عبادت

س: سورج گرہن اور چاند گرہن کے موقع پر ایک مسلمان کو کیا کرنا چاہیے؟ اس موقع کی مخصوص کوئی دعا اور نماز ہو تو اس کی بھی وضاحت کردیں؟

ج: سورج اور چاند دونوں اللہ تعالیٰ کی عظمت کی نشانیوں میں سے ہیں۔ دونوں ایک خاص ضابطے کے پابند ہیں۔ سورج اور چاند دونوں پر زمین کا سایہ پڑنے کے خاص مواقع ہوتے ہیں جو باقاعدہ ایک قانون اور ضابطے کی پابندی کے نتیجے میں وجود میں آتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں سورج یا چاند گرہن لگتا ہے۔ جب سورج پر زمین کا سایہ پڑتا ہے تو اس حالت کو کسوف، یعنی سورج گرہن کہا جاتا ہے، اور جب چاند پر زمین کا سایہ پڑتا ہے تو اس کو خسوف، یعنی چاند گرہن سے تعبیر کیا جاتاہے۔ رسولؐ اللہ کا فرمان ہے: سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ یہ کسی کی موت یا زندگی نہیں گہناتے ہیں۔ اگر تم انھیں گہناتا دیکھو، تو نماز پڑھو اور دعا مانگو یہاں تک کہ یہ کیفیت دُور، یعنی ختم ہوجائے (مسلم)۔ رسولؐ اللہ کے اس فرمان میں اُس وقت کے عامۃ الناس میں پھیلی ہوئی اس غلط سوچ کی تردید کی گئی ہے کہ سورج اور چاند شاید کسی کی موت یا زندگی پر گہناتے ہیں، یا کسی کے غم میں یہ سیاہ ہوجاتے ہیں، یا ان کی روشنی کسی مصیبت اور پریشانی کی وجہ سے ماند پڑتی ہے۔

اس حدیث سے یہ بات لوگوں پر واضح کردی گئی ہے کہ دراصل سورج اور چاند دونوں  اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانیوں میں سے ہیں۔ دونوں عظیم نعمتیں ہیں جن پر مخلوقات کی زندگی کا دارومدار ہے۔ گرہن سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ نعمتیں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں، اوراتنی بڑی دو نشانیاں بھی اللہ کے قبضۂ قدرت سے باہر نہیں ہیں۔ وہی عطا کرنے والا ہے،و ہی سلب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بڑی سے بڑی چیز اجرامِ فلکی، ستارے اور سیارے بھی اُس کی گرفت سے آزاد نہیں ہیں، انسان تو بہت معمولی مخلوق ہے۔ اس کو اپنے پروردگار کے سامنے عاجزی، بے بسی اور بندگی کا اظہار کرنا چاہیے اور ان کیفیات کا اظہار نماز، سجدے اور رکوع کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے۔

سورج گرہن کے موقع پر رسولؐ اللہ سے دو رکعت نماز پڑھنا ثابت ہے۔ یہ نماز عام طور پر ادا کی جانے والی دورکعت نماز کے طرز پر ہوتی ہے۔ چار رکعت پڑھنا بھی جائز ہے۔ قراء ت کرنا سنت ہے۔ رکوع اور سجدے بھی طویل ہونے چاہییں اور اپنے گناہوں پر ندامت، توبہ تائب ہونے کے جذبے کے ساتھ خوب رو رو کر گڑگڑا کر اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کی جانی چاہییں۔ سورج گرہن کی نماز کے لیے اذان و اقامت نہیں، صرف الصلٰوۃ جامعۃ ، یعنی نماز تیار ہے، کا اعلان کیا جاتا ہے اور جماعت کھڑی کی جاتی ہے۔ مسلمانوں کے سیاسی اور انتظامی ذمہ داروں کی امامت میں نماز کا ہونا زیادہ پسندیدہ اور مستحسن ہے۔ یہ نماز مسجد میں بھی پڑھی جاسکتی ہے، اور باجماعت انتظام نہ ہونے کی صورت میں تنہائی میں انفرادی طور پر بھی ادا کی جاسکتی ہے۔ سورج گرہن کی نماز کے لیے ممنوعہ اوقات کا لحاظ رکھا جائے۔ ان اوقات میں نماز کے بجاے صرف دعا پر اکتفا کیا جائے۔

سورج گرہن اور چاند گرہن دونوں موقعوں پر گرہن کی نماز ادا کی جاتی ہے، البتہ چاند گرہن کے موقع پر گھروں میں انفرادی نماز کو ترجیح دی جائے گی۔ ان دونوں نمازوں کی کوئی قضا نہیں ہے۔ اگر بروقت یہ نماز نہ پڑھی گئی تو بعد میں اس کی ادایگی نہیں ہے، البتہ نوافل پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس طرح سورج گرہن اور چاند گرہن دونوں مواقع پر اللہ تعالیٰ کے حضور دو چار رکعت نماز ادا کرنا چاہیے۔گرہن کو کسی کی موت و پیدایش یا حادثے اور المیے کے ساتھ منسلک نہیں سمجھنا چاہیے۔ (مصباح الرحمٰن یوسفی)