اکتوبر ۲۰۱۲

فہرست مضامین

افغانستان میں بھارتی اثر و نفوذ

ڈاکٹر محمد اقبال خلیل | اکتوبر ۲۰۱۲ | عالم اسلام

Responsive image Responsive image
  •  تاریخی پس منظر : قدیم زمانے کے مقبول ہندو دانش ور اور فلسفی چانکیہ کوٹلیہ نے   جو مشہور مذہبی کتاب ارتھ شاستر کے مصنف ہیں، لکھا ہے کہ ’’پڑوسیوں کو اپنا دشمن سمجھو اور دشمن کے قریبی پڑوسی کے ساتھ دوستی بنائو‘‘۔ بھارت کی ہندو قیادت نے ۱۹۴۷ئمیں آزادی کے بعد سے اسی فلسفے پر عمل کرتے ہوئے پاکستان سے دشمنی اور افغانستان سے دوستی کی راہ اپنائی ۔ چونکہ افغانستان کی قیادت کو پاکستان کے ساتھ جغرافیائی سرحد جو ڈیورنڈ لائن کہلاتی تھی قبول نہیں تھی،  اس لیے اس نے پاکستان کی اقوام متحدہ میں شمولیت پر بھی اعتراض کیا تھا۔ اس لیے بھارت کو افغانستان کی صورت میں ایک حلیف مل گیا۔ چنانچہ ۱۹۵۰ئمیں افغانستان اور بھارت نے دوستی کے معاہدے پر دستخط کیے ۔ بھارت کی افغانستان کے شاہی خاندان سے دوستی اس وقت ختم ہوئی جب روس نے ۱۹۷۹ء میں افغانستان پر فوجی جارحیت کر کے کمیونسٹ راج قائم کیا ۔ اس کے بعد ۱۹۷۹ء سے تقریباً ۱۹۹۹ء تک بھارت آزاد دنیا کے ان چند ممالک میں شامل تھا جس نے ببرک کارمل کی انتظامیہ کو تسلیم کیے رکھا تھا، بلکہ آگے بڑھ کر زندگی کے مختلف شعبوں میں افغانستان میں ترقیاتی کام اور سرمایہ کاری بھی کرتا رہا۔

افغانستان سے روسی فوج کے انخلا اور نجیب انتظامیہ کے خاتمے کے بعد ایک ایسا دور آیا جس دوران بھارت افغانستان کے معاملات سے لاتعلق ہو گیا۔ لیکن ۱۹۹۲ء میں جب استاد  برہان الدین ربانی کی سربراہی میں ایک غیر پختون تاجک قیادت افغانستان میں برسرِ اقتدار آئی، تو بھارت نے پھر سے افغانستان میں دل چسپی لینا شروع کی اور اس حکومت کی حمایت میں مختلف شعبوں میں اپنی موجودگی کااحساس دلایا۔

ستمبر ۱۹۹۶ء میں جب طالبان نے کابل میں اپنا اقتدار قائم کیا ۔ ایک مرتبہ پھر بھارت افغانستان کو کھو بیٹھا۔ کابل میں بھارتی سفارت خانہ بند کر دیا گیا ۔ لیکن بھارتی حکومت نے افغانستان کو اپنے حلقۂ اثر سے نکلنے کے عمل کو پوری طرح تسلیم نہ کیا اور کھل کر شمالی اتحاد کی حمایت شروع کردی جو افغانستان کے تاجک ،ازبک اور ہزارہ قبائل کا اکٹھ تھا او ر شمالی افغانستان میںاثر و رسوخ رکھتا تھا۔ بھارت نے شمالی اتحاد کو اعلیٰ معیار کا اسلحہ فراہم کیا ۔ ان کی تربیت کی اور بھارتی خفیہ ایجنسی RAW (ریسرچ اینڈ سروے ونگ )کے توسط سے افغانستان میں اپنی تگ و دو جاری رکھی ۔ اس نے تاجکستان اور ازبکستان کی حکومتوں کے تعاون سے شمالی اتحاد کے ساتھ مدد کرنے کے ذرائع قائم کیے ۔ تاجکستان میں تو بعد ازاں ایک مستقل بھارتی عسکری اور فضائی اڈا اینی کے مقام پر قائم کیا گیا ۔ افغان تاجک سرحد پرفرخور کے مقام پر ایک ملٹری ہسپتال قائم کیا گیا جہاں بھارتی ڈاکٹر شمالی اتحاد کے زخمیوں کا علاج معالجہ کرتے تھے۔ بھارت نے طالبان کی مخالفت میں روس اور ایران کا تعاون بھی حاصل کیا جو مختلف وجوہ کی بنیاد پر خود بھی طالبان حکومت کے مخالف تھے۔

نائن الیون کے سانحے نے صورتِ حال بدل کر رکھ دی اور افغانستان پر امریکا کی قیادت میںناٹو ممالک کے حملے نے بھارت کو ایک بار پھر وہا ںقدم جمانے کا ایک زریں موقع نصیب کیا جس کو نہ صرف اس نے خوش دلی سے قبول کیا، بلکہ آگے بڑھ کر ہر ممکن تعاون پیش کیا۔ بھارت کے وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے اکتوبر ۲۰۰۱ء میں امریکا کا دورہ کیا اور وہاں امریکی قیادت اور بین الاقوامی طاقتوں کو باور کرایا کہ وہ افغانستان میں شمالی اتحاد کی پشت پناہی کر یں۔

۲؍اکتوبر۲۰۰۱ء کو ایک ٹی وی انٹرویومیں جسونت سنگھ نے کہا کہ ’’بھارت نے کبھی بھی طالبان کی قیادت کوتسلیم نہیں کیا ہے ۔ وہ اب بھی صدر ربانی کی حکومت کو افغانستان کی قانونی حکومت تصور کرتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ پوری دنیا شمالی اتحاد اور ربانی حکومت کو قانوناً تسلیم کرے اور اس کی حمایت کرے‘‘۔ چنانچہ امریکی حملے اور کابل میں طالبان حکومت کے خاتمے اور شمالی اتحاد کے بر سر اقتدار آنے کے بعد دسمبر ۲۰۰۱ء میں جسونت سنگھ کابل پہنچتے ہیں اور کابل میں بھارتی سفارت خانے کو دوبارہ فعال کرتے ہیں۔ جب جرمنی کے شہر بون میں دسمبر ۲۰۰۱ئہی میں حامد کرزئی کی عبوری صدارت میں ایسی کابل انتظامیہ وجود میں لائی جاتی ہے جس میں شمالی اتحاد کا غلبہ ہے تو بھارت ان اولین ملکوں میں شامل تھا جس نے اس کے لیے ۱۰۰ملین امریکی ڈالر امداد کا اعلان کیا۔ اس کے بعد سے بھارت مسلسل افغانستان کی تعمیر و ترقی میں بھر پور کردار ادا کررہا ہے او ر افغانستان میں اس کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہو رہا ہے ۔

افغانستان میں بھارتی دل چسپی کثیر المقاصد ہے ۔ جن میں سے چند قابل ذکر ہیں :

oافغانستان کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرناoوسطی ایشائی ممالک کے ساتھ روابط بنانا  mافغانستان میں پاکستان کے کردار کی نفی کرناoایک بڑی علاقائی طاقت کے طور پر اپنے آپ کو منواناoافغانستان میں ایک ’انتہاپسند‘ اسلامی حکومت کا راستہ روکنا۔

آئیے ان مقاصد کے حصول کی کوششوں اور ان کے نتائج کا تفصیلی جائزہ لیں۔

  • افغانستان کی تعمیر و ترقی میں بہارتی کردار:۲۰۰۲ء کے بعد سے اب تک بھارت افغانستان میں ۲؍ ارب امریکی ڈالر سے زائد کی سرمایہ کار ی کر چکا ہے ۔ معروف معنوں میں بھارت ان ممالک میں شامل نہیں جو بین الاقوامی سطح پر امداد دیتے ہیں، جیسا کہ امریکا ، جاپان ، جرمنی ، کینیڈا، آسٹریلیا ، سعودی عرب وغیرہ ہیں۔ یہ سب مال دار ملکوں کی صف میں شامل ہیں اور براہ راست یا اقوام متحدہ کے اداروں کے ذریعے غریب ممالک کی امداد کرتے ہیں۔ بھارت کی اپنی ایک ارب ۲۰ کروڑ سے زائد آبادی غربت کا شکار ہے ۔ ۳۷فی صد آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ ایک بڑی آبادی تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ اس کے باوجود وہ ان چھے بڑے ملکوںمیں شامل ہے جو افغانستان کی تعمیر و ترقی اور بحالی کی سرگرمیوں میں بڑے پیمانے پر خرچ کر رہے ہیں۔ گویا یہ بھارت کی تزویراتی (اسٹرے ٹیجک) حکمت عملی ہے جس کے تحت وہ ایک ایسے ملک میں سرمایہ کاری کر رہا ہے جس سے اس کی اپنی سرحدیں نہیں ملتیں۔

اس جملۂ معترضہ کے علی الرغم آئیے دیکھیں کہ بھارت کس طرح افغانستان میں بڑے پیمانے پر ترقیاتی منصوبے مکمل کر رہا ہے ۔ چار بڑے ترقیاتی منصوبے قابل ذکر ہیں:

  • دلآرام -  زرانج ھائی وے کی تعمیر : ۲۱۸ کلو میٹر لمبی اس شاہراہ کی تعمیر بھارتی عسکری تعمیراتی کمپنی India Border Road Organization نے تین سال کے عرصے میں ۲۰۰۸ء میں مکمل کی ۔ یہ شاہراہ افغانستان کے اہم شہروں بشمول کابل کو ایرانی بندرگاہ چابایار سے ملاتی ہے۔ایران نے سڑک کا بقیہ حصہ خود مکمل کیا جو اس کی ملکی حدود میں شامل ہے ۔ اس طرح اس بندرگاہ کے ذریعے بھارتی مصنوعات کو بحری راستوں سے افغانستان اور وسط ایشیا کی منڈیوں میں پہنچایا جا سکے گا (اس طرح افغانستان کا اب تک جو پاکستان کی کراچی کی بندرگاہ پر مکمل انحصار تھا وہ ختم ہو گیا)۔ بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے سڑک کی تکمیل کی تقریب  کے موقع پر جو بیا ن دیا اس کا ایک جملہ یوں ہے: ’’یہ ہمارے مشترکہ حوصلے کا ایک کڑا امتحان تھا اور اس سڑک نے دواقوام کو ایک دوسرے سے قریب کر دیا‘‘۔ یاد رہے کہ اس سٹرک کی تعمیر کے دوران طالبان کے مسلسل حملوں میں بیسوں بھارتی انجینیراورمزدور مارے گئے تھے۔
  •  ازبکستان سے کابل تک برقی سپلائی : کابل کو بجلی کی کمی کا مسئلہ درپیش رہا ہے ۔ سردی کے شدید موسم میں خاص طور پر برقی سپلائی منقطع رہتی تھی جس سے شہریوں کو شدید   مشکلات درپیش تھیں۔ بھارت نے ۲۵۰ ملین ڈالر کے خرچے سے ازبکستان اور کابل کے درمیان   ۲۰۲ Kms بجلی کی تار بچھانے کا کام اپنے ذمے لیا جو پل خمری سے کابل تک ہے ۔ اس کے علاوہ چاریکار اور دوشی کے علاقوں کو بھی بجلی فراہم کی۔ ۶۱۳ بجلی کے ٹاور بحری راستے سے ایران کے ذریعے افغانستان پہنچائے گئے کیونکہ پاکستان نے راہداری فراہم کرنے سے معذرت کی تھی۔
  • سلمہ ڈیم :بھارت نے ہرات صوبے میں سلمہ ڈیم دوبارہ تعمیر کر دیا ہے جو ۱۹۷۶ء میں بنایا گیا تھا لیکن بعد میں ناکارہ ہو گیا تھا۔ دریاے ہاروی پر تعمیر کردہ اس ڈیم سے ۴۲ میگاواٹ بجلی ہرات کو سپلائی کی جائے گی اور ۴۰ ہزار ہیکٹرز مین سیراب ہو گی۔ اس کی تعمیر کی لاگت ۸۵ ملین ڈالر لگائی گئی تھی جو عملاً بڑھ کر ۱۸۰ ملین ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے ۔ بعض وجوہ سے ایرانی حکومت اس منصوبے پر خوش نہیں ہے کیونکہ دریاے ہاروی رود ایران کی طرف جا نکلتا ہے۔ اس سال کے آخر تک اس منصوبے کی تکمیل متوقع ہے ۔
  • پارلیمنٹ ھاؤس کی تعمیر:کابل میں نئے پارلیمنٹ ہاؤس کی تعمیر بھارت کی طرف سے افغانستان کے لیے ایک اور قیمتی تحفہ ہے جو C&C کنسٹرکشن کمپنی تعمیر کر رہی ہے۔ یہ منصوبہ بھی اس سال مکمل ہو جائے گا۔ تخمینہ۱۷۸ ملین ڈالر ہے۔ بھارتی حکومت نے پارلیمنٹ کی اس نئی عمارت کو افغانستان میں جمہوریت کے فروغ اور استحکام کے لیے بھارتی کوششوں کی ایک واضح علامت قرار دیا ہے۔
  • حاجی گاک میں لوھے کے ذخائر کا ٹہیکہ:افغانستان معدنی وسائل سے مالامال ملک ہے لیکن اس سے استفادہ کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔   بامیان صوبے کے حاجی گاک علاقے میں بڑے پیمانے پر لوہے کے ذخائر موجود ہیں جس کا اندازہ ۸ئ۱ارب ٹن کا ہے ۔ بھارت کی سات کمپنیوں کو یہ ٹھیکہ دیا گیا ہے جس کا تخمینہ ۱۱؍ارب ڈالر کا ہے۔ وہاں پاور پلانٹ ، اسٹیل مل لگائے جائیں گے اور ذرائع مواصلات ،سڑکوں وغیرہ کو ترقی دی جائے گی۔
  • افغانستان اور بہارت کی باھمی تجارت: بھارت اور افغانستان کے درمیان تجارتی حجم میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔۲۰۱۰ء میں بھارت نے ۴۱۴ملین ڈالر کی مصنوعات افغانستان کو درآمد کیں جو افغانستان کی کل برآمدات کا ۵ فی صد بنتا ہے ، جب کہ افغانستان سے ۱۲۵ملین ڈالر کی اشیا بھارت کو درآمد کی گئیں۔ بھارت اور افغانستان کے درمیان ترجیحی تجارت کے کئی معاہدوں پر دستخط ہو چکے ہیں جس کی رُو سے انھوں نے ایک دوسرے پر محصولات معاف کر دیے ہیں، بلکہ بھارت کو وسطی ایشیائی منڈیوں میں اپنی مصنوعات پہنچانے کے لیے بھی رعایتیں دی گئی ہیں۔
  •  تعلیم ، صحت ، سماجی ودیگر شعبوں میں ا مداد :بھارت نے افغانستان میں صرف بڑے منصوبوں پر توجہ نہیں دی بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں سرمایہ کاری اور امداد کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ شعبہ تعلیم میں یونی ورسٹیوں، کالجوں ، اسکولوں اور دیگر تربیتی اداروں کی تعمیر وترقی ، شعبہ صحت میں ہسپتالوں ، ڈسپنسریوں ،میڈیکل سنٹروں اور ایمبولینسوں کی فراہمی، زراعت کے شعبے میں کابل میں جامعہ زرعیہ کا قیام، آبی گزرگاہوں کی تعمیر ، ٹریکٹر اور بیجوں کی فراہمی ، ٹیوب ویلوں کی تعمیر اورڈھائی لاکھ ٹن گندم کی فراہمی۔ افغان فضائی کمپنی آریانہ ائر لائن کو تینبڑے ہوائی جہازوں (ائربس) کی فراہمی ، ملی بس سروس کو ۴۰۰اور کابل میونسپلٹی کو ۱۰۵ بسوں کی فراہمی ، ۱۰۰ ماڈل دیہات اور عجائب گھروں کی تعمیر وترقی، ملک بھر میں ٹیلی فون کے نظام کا قیام، کابل میں ستور محل کی بحالی،  قندہار میں کولڈ اسٹوریج کی تعمیر، فنی اداروں اور کمپیوٹر سنٹروں کا قیام وغیرہ ۔غرضیکہ زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جہاں بھارت نے چھوٹے بڑے منصوبوں میں مدد نہ دی ہو۔ 
  • افغان حکام اور عوام کو فنی وپیشہ ورانہ تربیت:تربیت کے میدان میں بھی بھارت افغانستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ بھارت نے جہاں اپنے ملکی تعلیمی اداروں اور یونی ورسیٹوں کے دروازے افغان طالب علموں کے لیے کھول دیے ہیں، وہاں افغانستان میں بھی بڑے پیمانے پر فنی اور پیشہ ورانہ تربیت کے ادارے بنا رہا ہے جہاں ہزاروں کی تعداد میں افغان نوجوان نسل اس سے استفادہ کر سکے گی۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں کے لیے سیکڑوں کی تعداد میں تعلیمی وظائف کا اجرا کیا گیا ہے ۔ بھارت کے اعلی تعلیم یافتہ ماہرین  افغانستان پہنچ کر  ان تربیتی وتعلیمی سرگرمیوں میں براہ راست شامل ہیں۔ ووکیشنل ٹریننگ سنٹر کھولے جا رہے ہیں جہاں افغان نوجوانوں کو فنی تعلیم دی جائے گی ۔ افغان سرکاری افسروں کے لیے اعلیٰ تربیتی کورسوں کا اہتمام جس میں خاص طور پر سفارت کاری کے شعبے میں تربیت شامل ہے جس کے لیے خود بھارت دنیا بھر میں مشہور ہے۔ عسکری تربیتی اداروں کا قیام بھی اس میں شامل ہے جہاں فوجی افسروں کو افغانستان اور بھارت میں بیک وقت تربیت کی سہولت بہم پہنچائی جائے گی۔
  •   وسطی ایشیائی ممالک میں معاشی روابط :سوویت یونین کے زوال کے بعد وسطی ایشیائی ممالک کو ایک موقع ملا کہ وہ نسبتاً آزادی سے اپنے سیاسی واقتصادی نظام کو   سابقہ سوشلسٹ نظریے سے آزاد کر کے جمہوری طور طریقے اورکھلی تجارت کی فکر کو اپنا سکیں۔ اس  نئی صورت حال سے دنیا کے دیگر آزاد ممالک کو بھی موقع ملا کہ وہ ان ممالک سے آزادانہ تجارت کرسکیں جو پہلے مکمل طور پر ماسکو کی پالیسیوں کا محتاج تھے۔ امریکی اوریورپی ممالک نے اس موقع سے خوب فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی تیارکردہ مصنوعات کے لیے نئی منڈیاں تلاش کیں۔ بھارت بھی جو ایک ترقی پذیر بڑی کاروباری ومعاشی طاقت ہے اس موقع پر پیچھے نہ رہا لیکن مشکل ان ممالک تک رسائی تھی ۔ پاکستان کے ذریعے افغانستان تک تجارتی مال کی ترسیل چونکہ اس کی قدرت میں نہیں تھی، اس لیے اس نے بحری راستوں سے ایران اور پھر افغانستان کے ذریعے ان ممالک تک رسائی حاصل کی۔ آذربائیجان ، قازقستان ، ترکستان ، ازبکستان ، تاجکستان ، کرغیزستان وغیرہ کی نئی تجارتی منڈیاں، خلیجی ممالک کے بعد اس کے لیے زبردست کاروباری مواقع فراہم کرسکتی ہیں۔ چنانچہ افغانستان کے مواصلاتی ذرائع اس کے لیے اہمیت اختیار کر گئے جس میں اس نے سرمایہ کاری کی۔ اپریل ۲۰۰۶ء میں جب حامد کرزئی نے بھارت کا دورہ کیا تو اس نے جہاں بھارتی کمپنیوں کو افغانستان میں سرمایہ کاری کی ترغیب دی، وہاں اس نے یہ بھی کہا کہ’’ میں چاہتا ہوں کہ آپ افغانستان کو وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارت کے لیے ایک اسٹور کے طور پر استعمال کریں‘‘۔

بھارتی تیل کمپنیاں اس وقت ازبکستان اور قازقستان میں سرگرم عمل ہیں۔ترکمانستان سے افغانستان، پاکستان اور بھارت تک گیس کی پائپ لائن بچھانے کا کام ہو رہاہے، جو ایشین ترقیاتی بنک کا منصوبہ ہے اور بھارت اس میں بھرپور دل چسپی لے رہا ہے ۔تاجکستان میں بھارت اپنا عسکری مرکز قائم کر چکا ہے جہاں اس نے جنگی ہیلی کاپٹر رکھے ہوئے ہیں اور مگ ۲۹ جہازوں کی بھی گنجایش ہے ۔ اس طرح وسطی ایشیائی ممالک میں بھارت کو اپنے قدم جمانے کا پورا موقع مل رہا ہے جس میں افغانستان کلیدی کردار ادا کر رہا ہے ۔

  • پاکستان کے کردار کو محدود کرنا:نائن الیون کے بعد بھارت کو موقع ملا کہ وہ افغانستان میں پاکستان کے اثرات کو کم کر کے اپنی جگہ بنائے ۔ شمالی اتحاد اس کا فعال پارٹنر ہے جس کے بل بوتے پر وہ ایک مضبوط پاکستان مخالف لابی کی حمایت حاصل کرچکا ہے۔ افغان عوام میں پاکستان مخالف جذبات صرف تاجک، ازبک اور ہزارہ نسلوں تک محدود نہیں ہیں بلکہ قوم پرست پختون عناصر بھی اس میںشامل ہیں۔ طالبان کے حامی بھی حکومت پاکستان اور عسکری قیادت کی امریکا نواز پالیسی پر شاکی ہیں۔ اس کے مقابلے میںبھارت کو ایک پسندیدہ اور دوست ملک سمجھاجاتا ہے اور وہ اس صورت حال سے پورا فائدہ اٹھا رہا ہے ۔ چانکیہ کوٹلیہ جو ۳۰۰قبل مسیح عظیم ہندو راجا چندرا گپتا کا مشیر تھا، نے اپنی کتاب ارتھ شاستر میںتین قسم کی جنگوں کا ذکر کیاہے ۔ ایک کھلی جنگ ہے، دوسری خفیہ جنگ، اور تیسری غیر علانیہ جنگ ۔دوسری قسم کی جنگ میں آپ  خفیہ ایجنٹ ،مذہبی آڑ ،توہمات اور عورت کا استعمال کرتے ہیں۔ بھارت پاکستان سے دوسری اور تیسری قسم کی جنگ لڑ رہا ہے ۔ وہ افغانستان میں اپنا عمل دخل قائم کیے ہوئے ہے اور پاکستان کے لیے قبائلی پٹی اور بلوچستان میں حالات خراب کر رہا ہے ۔ بھارتی سفارت خانہ کابل میں اور اس کے قونصل خانے خاص طور پر قندھار اور جلال آبادمیں پاکستان کے معاملات میں ملوث ہیں۔

بھارت نے ۲۰۱۰ء کی لندن کانفرنس میںکوشش کی کہ افغانستان کے مسائل کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھیراتے ہوئے اس کو افغانستان کے معاملے سے باہر کیا جا سکے لیکن اس کو کامیابی نصیب نہ ہوئی ۔ دوسری طرف پاکستانی حکومت نے بھی حامد کرزئی سے رابطے استوار رکھے اور دیگر گروپوں سے بھی تعلقات قائم کر کے مثبت پیغامات دینے کی کوشش کی ۔

  • ’انتھا پسند‘ اسلامی حکومت کے قیام کو روکنا: افغانستان میںبھارتی حکمت عملی کا یہ بھی ایک بنیادی جزو ہے ۔وہ سمجھتا ہے کہ اگر طالبان یا اس قسم کا کوئی ’انتہا پسند‘ اسلامی گروپ کابل بر سر اقتدار آگیا تو اس کے لیے افغانستان سے اچھے تعلقات قائم رکھنا ممکن نہ ہوگا۔ وہ طالبان کو پاکستانی ایجنٹ قرار دیتا ہے اور اس پر بھارت میں دہشت گردی پھیلانے کا الزام دھرتاہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ ایسی حکومت کے قیام سے اس کے لیے کشمیر میں حریت پسندی پر قابو رکھنا ممکن نہیں ہوگا، اور صرف کشمیر ہی نہیں بلکہ پورے بھارت میںدہشت گردی کو مہمیز ملے گی ۔ جسونت سنگھ نے اکتوبر ۲۰۰۱ء میں واشنگٹن میں جو پالیسی بیان دیا تھا اس میں اس نے واضح طور پر کہا تھا کہ’’افغانستان اور پاکستان میںدہشت گردوں نے اپنے اڈے قائم کر رکھے ہیں جس سے وسط ایشیا اور ایران کو بھی اسی طرح کے خطرات لاحق ہیں‘‘۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلے مجاہدین اور پھر طالبان کے دور میں کشمیری مجاہدین کو افغانستان کی حمایت حاصل تھی ۔ اسی طرح روس کے مسلمان مقبوضات بشمول شیشان اور وسط ایشیائی ممالک میں بھی اسلامی تحریکات کو اس کا فائدہ تھا۔ انھی خدشات کو بھارتی حکمت عملی میں بہت اہمیت حاصل ہے اور اس کی روک تھام کے لیے بھارت ہر حد پھلانگ سکتاہے ۔ یہ سوال بہت اہم ہے کہ کیا امریکی انخلا کے بعد کی صورت حال میں بھارت افغانستان میں فوجی مداخلت کے لیے بھی تیار ہو گا؟
  •  بہارت ایک علاقائی سوپر پاور کے روپ میں:ایک ارب ۲۰کروڑ آبادی کا ملک بھارت ،۱۲لاکھ زمینی فوج اور ایک بڑی بحری اور فضائی قوت رکھنے والا ،اپنے آپ کو علاقائی طاقت سمجھتا ہے اور عالمی سطح پر سوپر پاور کا کردار ادا کرنے کا خواہاں ہے ۔ بھارت ۱۱۸ ٹریلین ڈالر کی بہت بڑی تجارتی منڈی ہے جو امریکا،یورپی یونین اور چین سب کے لیے بے پناہ ترغیبات رکھتی ہے ۔ بھارت کی خواہش ہے کہ اس کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل نشست دی جائے، اور عالمی ایٹمی کلب میں نیوکلیر طاقت کے طور پر تسلیم کیا جائے ۔ وہ اپنا موازنہ اپنے روایتی حریف پاکستان سے نہیںبلکہ چین سے کرتا ہے ۔اس کی یہ خواہش ہے کہ تمام علاقائی مسائل اور تنازعات میں اس کا اہم کردار ہو۔ وہ افغانستان اور دیگر وسطی ایشیائی ممالک کو اپنا توسیع شدہ پڑوسی سمجھتا ہے۔ اس نے کوشش شروع کر رکھی ہے کہ افغانستان کو سارک ممالک کی تنظیم میں رکنیت دلائی جائے۔ وہ اس پورے خطے کی قیادت کرنا چاہتا ہے ۔ وہ وسط ایشیا کے تیل و گیس کے ذخائر سے استفادہ کرنا چاہتا ہے ۔علاقائی طاقت بننے کے لیے اقتصادی صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے ۔وہ افغانستان کے لیے ایک بڑے ڈونر ملک کی حیثیت اختیار کر چکا ہے لیکن ایک مستحکم مسلم افغانستان اس کے مفاد میں نہیںہے ۔ اس لیے وہ وہاں امریکی فوج کی مزید لمبے عرصے تک موجودگی کا خواہش مند ہے ۔ ۲۰۱۴ء میں مجوزہ امریکی انخلا پر وہ شدید تحفظات رکھتا ہے ۔ اس کی اب تک کی ’نرم طاقت‘کی پالیسی شائد زیادہ عرصے تک اس کے مفادات کو تحفظ نہ دے سکے ۔

افغانستان میں بھارت کو ایک پسندیدہ ملک کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے ۔ اس کے    ٹی وی پروگرام اور فلمیں یہاں بہت شوق سے دیکھی جاتی ہیں۔ اس نے افغان ٹی وی چینلوں کو اپنے مواصلاتی سیارے کے ذریعے خصوصی سہولتیں بہم پہنچائی ہیں۔ لیکن عالمی طاقتیں بشمول امریکا اس کو افغانستان میں کوئی کلیدی کردار عطا کرنے سے قاصر ہیں۔ زمینی حقائق کو ئی اور رخ اختیار کررہے ہیں۔ بھارتی حکمت عملی اپنے مقاصد کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔ یہ بھارتی دانش وروں ،عسکری ماہرین اور پالیسی سازوں کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے ۔   دیکھتے ہیں وہ مستقبل میں ان چیلنجوں کا سامنا کس طور پر کرتے ہیں، اور چانکیہ کوٹلیہ کی کتاب  ارتھ شاستر سے کیا نئی تدبیر اخذ کرتے ہیں ۔

ماخذ

The role of India & Pakistan in Afghanistan's development & Natural resources. Eray Basar,CFC

Towards a Stable Afghanistan. The way forward by VIF & Rusl

India- Afghanistan Relation : Post 9/11 by Fahimda Ashraf

India in Afghanistan: A Rising Power or a Hesitant Power by Harsh Pant- CEPSI/CIPSS

India Economy

Indian-Strategic-Thinking-Reflection-Kautilya-s-six-fold-policy