اکتوبر ۲۰۱۲

فہرست مضامین

ہندوئوں کی سندھ سے نقل مکانی اصل محرکات

قمر میمن | اکتوبر ۲۰۱۲ | شذرات

Responsive image Responsive image

قیامِ پاکستان کے وقت بڑی تعداد میں نقل مکانی ہوئی۔ ہندستان کے مختلف علاقوں سے مسلمانوں نے پاکستان ہجرت کی، جب کہ بالخصوص سندھ سے ہندو بڑی تعداد میں ہندستان منتقل ہوگئے۔ اس وقت سندھ میں تقریباً ۶ سے ۷ فی صد آبادی ہندوئوں پر مشتمل ہے۔ انھیں پوری طرح مذہبی آزادی حاصل ہے۔ ہرجگہ ان کے مندر ہیں۔ کراچی سے لے کر کشمور تک یہ باآسانی سفر کرسکتے ہیں۔ کہیں بھی عام مسلمان آبادی کی جانب سے انھیں کوئی تکلیف نہیں پہنچائی جاتی اور نہ ان کی ترقی کے راستے میں کوئی رکاوٹ ڈالی جاتی ہے۔ سابقہ و موجودہ حکومت نے ہندوئوں کی عبادت گاہوں کی مرمت کے لیے خطیر رقم رکھی ہے جو کہ انھیں برابر دی جاتی ہے۔

ہندو تجارت کے میدان میں بہت آگے ہیں۔ اناج، الیکٹرانکس، بیج، کھاد، زرعی ادویات کے کاروبار پر ان کی اجارہ داری ہے۔ سندھ کے کئی علاقوں میں بڑے بڑے زمین داروں اور وڈیروں کے پورے کاروبار اور زراعت کی نگرانی ہندو کرتے ہیں۔ اسی لیے انھیں بااثر افراد کی پوری سرپرستی حاصل ہے۔ اس وقت ہندوئوں کی نقل مکانی کے حوالے سے جو صورت حال سامنے آئی ہے، اس کو سمجھنے کے لیے کچھ حقائق کو پیش نظر رکھنا ہوگا:

l بدامنی: سندھ میں بدامنی اپنے عروج پر ہے۔ نہ راستے محفوظ ہیں نہ گھر، اور قبائلی جھگڑے عام ہیں۔ شہر، دیہات اور گائوں کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے۔ اس صورت حال میں ہرآدمی  خواہ وہ ہندو ہو یا مسلمان، پریشان ہے۔ سندھی مسلمان کے مالی وسائل چونکہ محدود ہیں، اس لیے وہ    اپنا گائوں چھوڑ کر قریب کے شہر میں منتقل ہو رہا ہے۔ ہندو آبادی چونکہ مالی طور پر مستحکم ہے، اس لیے وہ اپنا سرمایہ بچانے کے لیے کراچی، حیدرآباد اور سکھر کا رُخ کررہی ہے۔ جن کے وسائل اور زیادہ ہیں، وہ بھارت منتقل ہوجاتے ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے کوٹہ سسٹم رائج کیا، اس کا سب سے زیادہ فائدہ ہندو آبادی کو ہوا۔ بیسیوں ڈاکٹر، سندھ کے میڈیکل کالجوں سے فارغ ہونے کے بعد بھارت منتقل ہوگئے، اور اپنے ملک کا خطیر سرمایہ جو ان کی تعلیم پر خرچ کیا گیا اس کا ثمر بھارت کے حوالے کر دیا۔ درحقیقت بدامنی کی اس لہر سے سندھ کا ہر باسی پریشان ہے۔

  • اغوا براے تاوان: اغوا براے تاوان کا آغاز ۸۰ کے عشرے میں ہوا۔ آگے چل کر    یہ باقاعدہ ایک کاروبار کی صورت اختیار کرگیا۔ بااثر لوگ ڈاکوئوں کے سرپرست بن گئے ہیں۔ مسلمان ہو یا ہندو، کسی کی جان و مال محفوظ نہیں ہے۔ یہاں ججوں کو اغوا کیا گیا۔ ہندو چونکہ چھوٹے شہروں اور دیہات میں اپنی مالی حیثیت کے لحاظ سے نمایاں ہوتے ہیں، اس لیے وہ بھی اغوا ہوتے رہے ہیں۔ ریاست کے بنیادی فرائض میں اپنے تمام شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کرنا شامل ہے۔ حکومت اپنے اس فرض کی ادایگی میں مکمل طور پر ناکام ہوگئی ہے۔
  •  بہتہ خوری:بھتہ خوری کا کلچر کراچی سے شروع ہوا اور اب سندھ کے دیہات تک پہنچ گیا ہے۔ یہ بھی سندھ کا عمومی مسئلہ ہے، سب اس کا نشانہ ہیں۔ہرجگہ تاجر برادری اس پر سراپا احتجاج ہے۔ سندھی اخبارات میں اس طرح کی خبریں آئی ہیں جن میں ہندو آبادی کے ذمہ داران نے کہا ہے کہ ہمیں ڈاکوئوں اور قوم پرست تنظیموں کے کارکنان نے مجبور کیا ہے کہ ہم سندھ چھوڑ کر چلے جائیں۔ یہ بالکل اس طرح ہے جیسے اطلاعات کے مطابق کراچی کی بھتہ خوری سے تنگ آکر وہاں کے تاجر و صنعت کار ملک کے دیگر حصوں یا بیرونِ ممالک اپنا سرمایہ منتقل کر رہے ہیں اور خود بھی منتقل ہورہے ہیں۔
  • زبردستی مذھب کی تبدیلی کا الزام:کچھ حلقوں کی جانب سے یہ باور کرایا جارہا ہے کہ سندھ میں ہندوئوں کو خاص طور پر ہندو لڑکیوں کو مذہب کی تبدیلی پر زبرستی مجبور کیا جاتا ہے اور سندھ میں مذہبی انتہا پسندی ہے۔ یہ بات خلافِ حقیقت اور مبالغہ آمیز ہے۔ اس سلسلے میں یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ بھارت میں ’بابری مسجد‘ کی شہادت جیسا سانحۂ ارتحال ہوا لیکن سندھ میں ایک بھی مندر کو جلانے کا واقعہ نہیں ہوا۔ بھارت میں آئے روز گجرات اور دیگر علاقوں میں مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن ہمارے یہاں کوئی ہندو مسلم فساد نہیں ہوا۔ اقلیتیں آزادی سے اپنی تمام عبادات کرتی ہیں۔ عام آبادی یا کسی تنظیم کی جانب سے اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جاتی۔ سندھ کا مسلمان رواداری سے ہندوئوں کی تمام رسومات کا احترام کرتا ہے۔

جہاں تک لڑکیوں کے مسلمان ہونے کا تعلق ہے اس سلسلے میں یہ امر سامنے رہنا چاہیے کہ ہمارا معاشرہ اور اس کا خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ مسلمان گھرانوں کی لڑکیاں اور لڑکے بھی اپنی روایات سے بغاوت کرکے کورٹ میرج کرلیتے ہیں۔ اس سلسلے میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۲۰۱۱ء میں صرف سکھر ڈویژن میں ۲۹۶ جوڑوں نے مبینہ طور پر ’محبت کی شادی‘ کی۔  ان میں ۲۹۰ جوڑے مسلمان تھے، جب کہ فقط چھے جوڑے نومسلم لڑکیاں تھیں۔ لاڑکانہ ڈویژن میں ۲۵۹ جوڑوں نے والدین کی مرضی کے بغیر شادیاں کیں، ان میں سے ۲۵۸ مسلمان جوڑے، جب کہ فقط ایک ہندو لڑکی نے اسلام قبول کیا اور مسلمان لڑکے سے شادی کی۔ ۲۰۱۲ء میں اب تک سکھر ڈویژن میں ۳۰۰ ’محبت کی شادیاں‘ ہوئی ہیں جن میں فقط دو ہندو لڑکیوں نے اسلام قبول کرکے مسلمان لڑکوں سے شادی کی ہے۔

پچھلے دنوں جن پانچ لڑکیوں کے مسلمان ہونے کے واقعات نے شہرت حاصل کی اور ان کو خوب اُچھالا گیا، اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے: رینکل کماری، اسلامی نام فریال بی بی کا تعلق میرپور ماتھیلو ضلع گھوٹکی سے ہے۔ اس نے بھر چونڈی شریف کی درگاہ میں اسلام قبول کیا۔ ڈاکٹر لتاکماری، اسلامی نام حفصہ کا تعلق جیکب آباد سے ہے۔ یہ آغاخان ہسپتال میں ڈاکٹر ہے۔ اس ڈاکٹر نے اپنی مرضی سے کیماڑی کراچی کے ایک امام مسجد کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ انیتہ نامی لڑکی کا تعلق بولاخان کے علاقے سے ہے۔ اس نے بھرچونڈی شریف میں اسلام قبول کیا۔ رچند دیوی، اسلامی نام عصمہ کا تعلق جیکب آباد سے ہے۔ اس نے گول مسجد سکھر کے امام کے ہاں اسلام قبول کیا۔ یہی حال آشہ کماری کا ہے۔ ان تمام واقعات میں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ نچلی عدالتوں سے لے کر اعلیٰ عدالت تک ہرجگہ ان لڑکیوں نے بیان دیا کہ ان پر کوئی زبردستی اور جبر نہیں ہے۔ وہ اپنی مرضی سے اسلام قبول کر رہی ہیں۔ عدالت نے انھیں کئی روز سرکاری تحویل میں رکھا، انھیں والدین سے ملنے دیا گیا۔ اس کے بعد بھی انھوں نے عدالت میں اپنا پرانا بیان دہرایا اور اسلام پر قائم رہیں۔ آئینِ پاکستان کے بنیادی حقوق کے باب۲ میں عاقل بالغ غیرمسلم کو اپنا مذہب تبدیل کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ یہ بات مسلّمہ ہے کہ اسلام دین حق ہے، جب کہ اس کے مقابلے میں تمام ادیان باطل ہیں۔ ہندو لڑکیوں میں تعلیم کا تناسب زیادہ ہے۔ وہ جب اسلام کو پڑھتی ہیں، تو متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتیں اور اس کو قبول کرلیتی ہیں۔

سندھ میں رُونما ہونے والے مختلف واقعات کا انفرادی پس منظر ہے۔ یہاں مَیں ضلع شکارپور کے ایک قصبے ’چک‘ میں دو ہندو ڈاکٹروں کے قتل کی مثال دیتا ہوں۔یہ ایک انفرادی فعل تھا۔ اس کا محرک بھیہ قبیلے کی ایک لڑکی کے ساتھ ہندو ڈاکٹر کی مبینہ زیادتی بتایا جاتا ہے۔ اس کا بدلہ لینے کے لیے قبیلے کے کچھ افراد نے اس جگہ کارروائی کی اور واقعے کے اصل ذمہ دار افراد جو کہ موقع سے فرار ہوگئے تھے، کے بجاے وہاں موجود افراد کو قتل کر دیا۔ ہم کسی بھی انسان کے قتلِ ناحق کو خلافِ اسلام اور خلافِ قانون سمجھتے ہیں۔ لیکن بعض حلقوں کی جانب سے اس کو عمومی طور پر ہندوئوں کے ساتھ ظلم سے تعبیر کیا گیا اور مذہبی انتہاپسندی کا رنگ دیا گیا، جب کہ اس کا تعلق کسی طرح بھی مذہب سے نہیں بنتا۔ یہ ایک جرم ہے اور قانون کے مطابق ذمہ داران کو سزا ملنی چاہیے۔

امرِواقعہ یہ ہے کہ سندھ میں حکومت مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔ کسی کی جان و مال اور عزت و آبرو محفوظ نہیں ہے۔ اس عمومی بدامنی کی لہر کو مخصوص رنگ دینا انصاف نہیں ہے۔ ان واقعات کے حقیقی اسباب کو دیکھتے ہوئے اصلاحِ احوال کی کوشش جب تک نہیں ہوگی سندھ میں امن و امان کی صورت حال بہتر نہیںہوگی اور سندھ کے عوام کو، چاہے وہ کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتے ہوں، امن و سکون نصیب نہیں ہوگا۔

مزید یہ کہ جس طرح ان واقعات کو عمومی رنگ دے کر اُبھارا جا رہا ہے، اس سے اس راے کو تقویت ملتی ہے کہ یہ بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے جو بین الاقوامی طاقتوں خصوصاً امریکا اور مغرب کی جانب سے مسلمانوں کو ’دہشت گرد‘ اور ’مذہبی انتہاپسند‘ ثابت کرنے کے لیے ایک عرصے سے جاری ہیں۔ ضروری ہے کہ اس پسِ پردہ سازش کو بھی پیش نظر رکھا جائے۔