اکتوبر ۲۰۱۴

فہرست مضامین

سقوطِ یمن؟

عبد الغفار عزیز | اکتوبر ۲۰۱۴ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

چند سال قبل یمن جانا ہوا۔ یمنی تحریک اسلامی التجمع الیمنی للإصلاح کے ذمہ داران نمازِ مغرب کے لیے دار الحکومت صنعاء کے قلب میں واقع ایک تاریخی مسجد لے گئے۔ نماز میں حاضری غیر معمولی محسوس ہوئی۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ حاضری معمول کے مطابق ہے، ہمیں زیادہ اس لیے لگ رہی تھی کہ یمن میں ’زیدی‘ فرقے سے تعلق رکھنے والے شیعہ اور اہلسنت اکٹھے باجماعت نمازِ مغرب ادا کرتے ہیں۔ شافعی عقیدہ رکھنے والے اہل سنت حضرات سنتیں اور نوافل  ادا کرکے چلے جاتے ہیں، جب کہ زیدی حضرات کے مطابق نمازِ عشاء کا وقت مغرب سے آدھ گھنٹے بعد ہوتا ہے، وہ وہیں انتظار کرتے ہیں اور عشاء باجماعت ادا کرکے جاتے ہیں۔ مزید تقریباً ایک گھنٹے بعد انھی مساجد میں اہل سنت آبادی کے لیے باقاعدہ اذان اور نماز عشاء ہوتی ہے۔ یہی رواداری اور اخوت رکھنے والا یمن، گذشتہ کئی سال سے ’زیدی‘ عقیدہ رکھنے والے حُوثی قبائل اور ریاست کے مابین باقاعدہ جنگوں کا شکار ہوچکاہے۔

حالیہ ۲۱ ستمبر ان جنگوں کا عروج تھا۔ اس روز ’عبد الملک الحُوثی‘ کی سرپرستی میں خلیجی ممالک کی ایک قدرے نئی مسلح تنظیم ’انصار اللہ‘ نے اپنے اسلحے کے بل بوتے پر دارالحکومت صنعاء کا انتظام و انصرام سنبھال لیا۔ عالم عرب کے عوام میں تشویش کی گہری لہر دوڑ گئی، اور کہا جارہاہے کہ آج سقوط یمن کا سانحہ ہوگیا۔ اسی شام قصر صدارت میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی جمال بنعمر (مشکوک ماضی رکھنے والا مراکش کا سابق سیاستدان) کی زیر نگرانی عبوری صدر عبد ربہ ھادی منصور، حوثی نمایندوں اور دیگر یمنی جماعتوں کے مابین ایک دستاویز پر دستخط ہوئے۔ اس دستاویز کو  اتفاقیۃ السلم والشراکۃ (معاہدہ امن و اشتراک) کا نام دیا گیا۔ اس معاہدے کے مطابق یمنی حکومت کا خاتمہ ہوگیا ہے، اور اب چند روز میں ایک ٹیکنو کریٹ حکومت قائم ہونا ہے جس کا وزیراعظم حُوثی ہوگا۔ حُوثیوں نے اگرچہ امن معاہدے پر دستخط کردیے ہیں، لیکن فوجی اور دفاعی امور سے متعلق دستاویز کو قبول نہیں کیا۔ دارالحکومت پر قبضے کے اگلے روز ۲۲ ستمبر کی شب زبردست آتش بازی اور فائرنگ کرتے ہوئے ’’انقلاب آزادی‘‘ کی کامیابی کا جشن منایا اور وزارت دفاع، داخلہ، فوجی مراکز سمیت دارالحکومت کے تمام حساس علاقوں پر اپنا قبضہ مستحکم کرلیا۔ اسی اثنا میں اہم فوجی چھاؤنیوں سے ٹینکوں، توپوں اور بکتربندگاڑیوں پر مشتمل بھاری اسلحہ اپنے قبضے میں لیتے ہوئے، شمال میں واقع اپنے فوجی ٹھکانوں میں منتقل کردیا۔ آگے بڑھنے سے پہلے، آئیے ذرا حُوثیوں اور زیدی فرقے کا تھوڑا سا مزید تعارف حاصل کرلیں۔

زیدی:

یہ اہم شیعہ فرقہ، حضرت زید بن علی زین العابدینؒ ]ولادت ۸۰ہجری- شہادت ۱۲۲ ہجری [ سے منسوب ہے۔زیدی اپنے عقائد کے اعتبار سے اہل سنت سے انتہائی قریب ہیں۔ حضرت ابوبکرصدیق، حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان غنی (رضی اللہ عنہم) کی خلافت کو درست تسلیم کرتے ہوئے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ’افضل‘ کی موجودگی کے باوجود ’مفضول‘ کی امامت تسلیم کی جاسکتی ہے۔ تمام صحابہ کرامؓ کا احترام کرتے ہیں اور ان میں سے کسی پر تبرا بھیجنا گناہ سمجھتے ہیں۔ ۱۲۲ ہجری میں اہل کوفہ نے جناب زید بن علی زین العابدین کو اُموی خلیفہ ہشام بن عبد الملک کے خلاف خروج کے لیے قائل کرلیا، لیکن عین میدان میں یہ کہتے ہوئے تنہا چھوڑ گئے کہ آپ  ابوبکرؓ اور عمرؓ پر تبرا نہیں بھیجتے۔ آپ اپنے باقی ماندہ ۵۰۰ جاں نثاروں کے ہمراہ میدان میں اُترے اور پیشانی پر تیر لگنے سے شہید ہوگئے۔ آپ کی شہادت کے بعد آپ کے صاحبزادے جناب یحی بن زیدؒ اور پیروکار مختلف ممالک میں مقیم رہے اور بالآخر یمن میںمستقل سکونت اختیار کی۔ مختلف اَدوار میں اقتدار بھی قائم ہوا جس کی آخری کڑی عثمانی خلافت کے خلاف امام یحیٰ بن منصور کی بغاوت تھی۔ یہ آخری زیدی ریاست گذشتہ صدی میں ۱۹۶۲ء تک قائم رہی۔

یمن:

تقریباً ۲۸ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل جمہوریہ یمن، سعودی عرب کے جنوب اور سلطنت عمان کے مغرب میں واقع ہے۔ اڑھائی کروڑ پر نفوس مشتمل آبادی کا تقریباً ۵۰ فی صد خط غربت سے نیچے زندگی گزارتا ہے۔ اہم جغرافیائی اہمیت رکھتا ہے۔ سعودی عرب کی ڈیڑھ ہزار کلومیٹر  طویل سرحد یمن سے ملتی ہے۔ اس لیے سعودیہ کا وسیع جنوبی علاقہ اس سے براہِ راست متأثر ہوتا ہے۔ بحیرۂ احمر کی اہم گزرگاہ باب المندب بھی یمنی ساحل ہے۔ ملک کی ۸۵فی صد آبادی مختلف قبائل پر مشتمل ہے اور تقریباً ہر شخص مسلح ہے۔ آبادی کا ۷۰  فی صد اہل سنت (امام شافعی کے پیروکار)  ہیں اور ۳۰ فی صد زیدی شیعہ ہیں۔ براے نام تعداد میں اسماعیلی بھی ہیں۔۲۰۱۱ء  میں عالم عرب میں طویل آمریت کے خلاف اٹھنے والی عوامی تحریکوں کا اثر یمن بھی پہنچا اور علی عبد اللہ صالح کا ۳۳سالہ اقتدار ختم ہوا۔ نائب صدر عبدربہ ھادی منصور کی سربراہی میں ایک عبوری حکومت قائم ہوئی، جس میں الاصلاح تحریک (اخوان) سمیت تقریباً تمام پارٹیوں کو حصہ ملا۔ عبوری فارمولے کے مطابق ۲۰۱۵ء میں نئے دستور پر ریفرنڈم اور پھر عام انتخابات ہونا تھے، لیکن اب سارا نقشہ تبدیل ہوگیا ہے۔

’انصار اللّٰہ‘ تحریک اور حوثی:

شمالی یمن میں واقع زیدی اکثریت کے پہاڑی علاقے ’صعدہ‘ میں ایک مسلح دینی تحریک ’تحریک مؤمن نوجوانان‘ کے نام سے فعال تھی۔  ۱۹۹۲ء میں اسے ’انصار اللہ‘ کا نام دے دیا گیا۔ بانی کا نام حسین بدر الدین الحوثی تھا۔ انھی کی نسبت سے پوری تحریک کو حوثیوں کی تحریک کہا جاتا ہے۔ تحریک نے آغاز ہی سے اپنے مذہبی تشخص اور  مسلح تربیت پر زیادہ توجہ دی اور دعویٰ کیا کہ حکومت نے زیدیوں کے حقوق سلب کررکھے ہیں۔ ۲۰۰۴ء میں صدر علی عبد اللہ حکومت کے ساتھ ان کی باقاعدہ مسلح جھڑپیں شروع ہوگئیں۔ تحریک کا بانی حسین الحوثی ایک لڑائی میں مارا گیا تو اس کے بھائی عبدالملک حوثی نے سربراہی سنبھال لی، جو تاحال جاری ہے۔ ۲۰۱۰ء  تک یمنی حکومت اور انصار اللہ کے مابین چھے باقاعدہ جنگیں ہوئیں۔ ۲۰۰۹ء  میں ایک جنگ خود سعودی عرب سے بھی ہوگئی۔ اسی اثنا میں حوثیوں کے کئی ذمہ داران زیدی شیعہ سے اثنا عشری عقیدے کی طرف منتقل ہوگئے اور کئی حوالوں سے شدید تعصب کا شکار بھی۔

علی عبد اللہ صالح کی حکومت ختم ہونے کے بعد عبوری حکومت قائم ہوئی تو حوثی اس کا حصہ نہ بنے۔ البتہ جب حکومت نے ’’قومی مذاکرات‘‘ کے نام سے تمام سیاسی قوتوں سے مشاورت شروع کی تو حُوثی بھی اس میں شریک ہوئے۔ مذاکرات ابھی تکمیل کو نہ پہنچے تھے، کہ حُوثیوں نے پھر سے مسلح کارروائیاں شروع کردیں اور ایک ایک کرکے مختلف علاقوں پر اپنی بالادستی قائم کرتے ہوئے دار الحکومت صنعاء کے قریب آن پہنچے۔ مالی مشکلات کی شکار حکومت کو گذشتہ جولائی میں   وہ مشکل قدم بھی اٹھانا پڑا، جس کے بارے میں وہ شدید تردد کا شکار تھی۔ پٹرول اور اس کی مصنوعات کو دی گئی سرکاری سب سڈی کا ۵۰ فی صد ختم کردیا گیا۔ عسکری لحاظ سے مضبوط تر اور  فرقہ واریت کی بنیاد پر قائم جماعت نے موقع غنیمت جانا، اپنی تحریک کا فیصلہ کن اقدام اٹھاتے ہوئے تین مطالبات کا نعرہ لگادیا: ۱- حکومت مستعفی ہو اور ٹیکنو کریٹ حکومت بنائی جائے۔۲- سب سڈی ختم کرنے کا فیصلہ واپس لیا جائے ۳- قومی مذاکرات کی سفارشات پر عمل درآمد کیا جائے (حالانکہ اس کی سفارشات پر دستخط ہی نہیں ہوئے)۔ چند ہفتوں کی مزید فوجی کارروائیوں، وزیراعظم ہاؤس کے سامنے خوں ریز جھڑپوں، اور سیاسی مطالبات کی تشہیر کے بعد ۱۷؍ اگست کو دار الحکومت کے چاروں اطراف میں دھرنا دے دیا گیا۔ بالآخر یہی دھرنا اور خوں ریز جھڑپیں ۲۱ ستمبر کو دارالحکومت پر ’انصار اللہ‘ کے قبضے، حکومت کے خاتمے اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں ایک معاہدے پر منتج ہوا۔

تلخ حقائق، اثرات و نتائج

یہ امر اب ایک کھلا راز ہے کہ حُوثیوں کو پہلے روز سے ایران کی مکمل سرپرستی حاصل ہے۔ یمنی افواج سے چھے اور سعودی عرب سے ایک جنگ کے دوران اسے سمندری راستے سے ایرانی اسلحے کی مسلسل ترسیل جاری رہی اور اسے زیادہ چھپایا بھی نہیں گیا۔ ادھر سعودی عرب نے بھی اپنے گھوڑے صدر علی عبد اللہ صالح کی بھرپور پشتیبانی کی۔ یہ جاننے کے باوجود کہ ۳۳ سالہ بانجھ دورِاقتدار کے بعد، اسے یمنی عوام کی غالب اکثریت مسترد کرچکی ہے، اسی کو باقی رکھنے کی کوشش کی گئی۔ بالآخر جب وہ اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا تو سعودی عرب نے یمن کی جغرافیائی، تاریخی اور سیاسی اہمیت کے باوجود، وہاں وہ دل چسپی نہ لی جس کے حالات متقاضی تھے۔ خود علی عبداللہ صالح جس نے حوثیوں سے کئی جنگیں لڑی تھیں، موجودہ یمنی حکومت سے انتقام کی آگ میں جھلستے ہوئے حوثیوں کی حوصلہ افزائی کرنے لگا۔ فوج اور بیوروکریسی میں موجود اپنے سب نمک خواروں کو بھی یہی پالیسی اختیار کرنے کا کہا۔

یہ تلخ حقیقت یقینا اپنی جگہ درست ہے کہ حوثیوں نے دارالحکومت کو اسلحے، بیرونی سرپرستی اور اندرونی سازشوں کے بل بوتے پر زیر کیا ہے لیکن بعض اہم ترین حقائق اور بھی ہیں۔ مثلاً یہ کہ یمن کی عبوری حکومت میں مؤثر ترین عوامی حکومت وہاں کے ’اخوان‘ ہیں۔ مصر میں اخوان کی  منتخب حکومت کے خاتمے اور لیبیا میں اخوان کی ممکنہ کامیابی کو خانہ جنگی کی نذر کردینے کے بعد یمن سے بھی ان کا اقتدار ختم کرنا بعض عرب ممالک کے لیے تمام اہداف سے زیادہ اہم ہدف ٹھیرا۔ یمن میں نہ صرف الاصلاح (یعنی اخوان) کا اقتدار ختم کرنا اصل مقصود قرار پایا، بلکہ نقشہ یوں بنایا گیا کہ اپنی قیادت کے ایک اشارے پر جان تک قربان کرنے کے لیے تیار لاکھوں اخوانی کارکنان کو براہِ راست مسلح حُوثیوں کے سامنے لاکھڑا کیاجائے۔ دارالحکومت صنعاء سے پہلے جہاں جہاں حُوثیوں نے قبضہ کیا، وہاں الاصلاح کے ذمہ داران اور ان کے مختلف اداروں کو بالخصوص نشانہ بنایا گیا۔ دارالحکومت کا محاصرہ کیا گیا تو الاصلاح کے وزرا اور ذمہ داران کو دھمکیاں ہی نہیں دی گئیں، ان کے بعض نوجوان قائدین کو شہید بھی کردیا گیا۔ صنعاء میں قائم ان کی بین الاقوامی یونی ورسٹی (الایمان یونی ورسٹی) جہاں ہزاروں ملکی و غیر ملکی طلبہ زیر تعلیم تھے پر قبضے کی دھمکیاں دی گئیں۔ اور مختلف اطراف سے ایسے بیانات آنے لگے کہ حکومت ریاست اور فوج تو بہت کمزور ہوگئے ہیں، اب اگر یمن کو حوثی خطرے سے کوئی بچا سکتا ہے تو وہ ’الاصلاح‘ ہے۔ یہ مہم اتنی وسیع تر تھی کہ ہمیں پاکستان میں بھی اس طرح کے ایس ایم ایس موصول ہونے لگے کہ: ’’آج یمنی اسلامی تحریک کے فلاں ذمہ دار شہید کردیے گئے، الاصلاح کب تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہے گی؟‘‘ خدا کا شکر ہے کہ الاصلاح کسی اشتعال انگیز مہم کا شکار نہیں ہوئی۔ اس نے مسلسل یہی کہا کہ حکومت اور فوج کی ذمہ داریاں، ہم اپنے سر نہیں لیں گے۔ ہم کسی مسلح تصادم کا حصہ نہیں بنیں گے خواہ حوثی ہمارے گھروں پر ہی کیوں نہ قابض ہوجائیں۔ پھر جیسے ہی دارالحکومت پر چڑھائی شروع کی گئی تو حیرت انگیز طور پر کہیں کسی ریاستی ادارے فوج، پولیس، پیرا ملٹری فورسز نے حوثیوں کے سامنے مزاحمت نہ کی۔ منصوبہ بندی کرنے والوں کا مقصد یہ تھا کہ یمن جیسے مسلح معاشرے میں خانہ جنگی شروع کرواتے ہوئے، جہاں ایک طرف ایک مستقل شیعہ سنی تنازعہ کھڑا کردیا جائے وہیں سب سی بڑی عوامی قوت الاصلاح کو حوثیوں کے مہیب اسلحے کے ذریعے کچل دیا جائے۔ اگر ایسا نہ ہوسکے تب بھی انھیں حکومت سے تو بے دخل کر ہی دیا جائے۔ فی الوقت یہ دوسرا ہدف حاصل کیا جاچکا ہے۔

یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ یمن میں ’انصار اللہ‘ اور حوثیوں کا اقتدار بنیادی طور پر  ایران کا اقتدار ہے۔ ایرانی اخبارات ہی نہیں، ذمہ داران بھی اس کا کھلم کھلا اعلان کررہے ہیں۔ تہران سے منتخب رکن اسمبلی علی رضازاکانی کا یہ بیان عالم عرب میں بہت نمایاں ہورہا ہے کہ  ’’ایران اب چار عرب دارالحکومتوں پر اختیار رکھتا ہے۔ بغداد، دمشق، بیروت اور اب صنعاء‘‘۔ اگر یہ بیان حکومتی کارپردازان کے دل کی آواز سمجھا جائے، تو اس کا مطلب ہے کہ تمام خلیجی ریاستیں تین اطراف سے ایرانی گھیرے میں آگئی ہیں۔ بدقسمتی سے سیاسی نفوذ کی اس لڑائی پر فرقہ وارانہ تیل کی بارش بھی کی جارہی ہے۔ طرفین کے ذرائع ابلاغ اشتعال انگیز سرخیاں جمارہے ہیں: ’’انقلابیونِ یمن پاکسازی تکفیری ھا را آغاز کردند‘‘ (ایرانی روزنامہ کیہان)، یمنی انقلابیوں نے تکفیریوں کا صفایا شروع کردیا۔ ’’حوثیوں کی صفوی یلغار کو ناکام کرنا، یمن کا ہی نہیں، مکہ اور مدینہ کا دفاع ہے‘‘ (معروف کویتی دانشور ڈاکٹر عبداللہ نفیسی)۔

اگرچہ سرکاری سطح پر کئی عرب ممالک نے اقوام متحدہ کی سرپرستی میں ہونے والے امن معاہدے کی تائید کی ہے، لیکن عوامی سطح پر اسی معاہدے سے مزید شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا میں سوال اٹھائے جارہے ہیں کہ متعدد مسلم ممالک کی طرح یمن میں کوئی نامعلوم بم دھماکے نہیں، حوثی بھاری اسلحہ لیے پھرتے ہیں، لیکن کسی مغربی ملک کو ’دہشت گردی‘ یا ’’داعش‘‘ جیسے نام یاد نہیں آرہے۔ کسی مغربی ملک نے اپنے شہریوں کو وہاں سے نہیں نکالا۔ جامعہ الایمان ہی نہیں اس کے ہاسٹل میں مقیم طلبہ تک کا سامان لوٹ لیا گیا۔ لیکن قریب ہی واقع امریکی سفارتخانہ بلاخوف و خطر حسب معمول کام کرتا رہا۔ معاہدہء امن پر دستخط کرنے کے ۴۸گھنٹے بعد یمنی صدر عبدربہ کے اس بیان نے عوام کے ان شکوک شبہات کو زبان دی ہے کہ ’’یمن میں جو کچھ ہورہاہے وہ ایک خوف ناک عالمی سازش اور ملک کے اندر سے کئی عناصر کی خیانت کا نتیجہ ہے‘‘۔

یہ تحریر آپ تک پہنچنے تک یمن میں ٹیکنو کریٹس پر مشتمل ایک نئی عبوری حکومت تشکیل پاچکی ہوگی، لیکن لگتا ہے کہ خطے میں بڑی بڑی تبدیلیوں کا سلسلہ تھمنے کے بجاے، مزید تیز تر ہوجائے گا۔ یمن کی تبدیلی مشرق وسطیٰ کے باقی ممالک کی تبدیلیوں سے الگ نہیں دیکھی جاسکتی۔ عراق اور شام میں ’داعش‘ جیسے پراسرار دیو کے خلاف امریکی کارروائی شروع ہوگئی ہے۔ اس ڈرامے کا اصل راز اسی بات سے معلوم ہورہا ہے کہ امریکی افواج کی موجودگی میں چند روز کے اندر اندر عراق اور شام کے وسیع رقبے پر قبضہ کرلینے والی اس تحریک کے خلاف جنگ کے لیے، امریکی وزیر دفاع چک ہیگل (Chuck Hagel) نے پانچ سو پچاس ارب ڈالر کا تقاضا کیا ہے۔ یقین نہیں آرہا تو رقم دوبارہ پڑھ لیجیے، اتنی ہی رہے گی۔ صاحب بہادر نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ یہ جنگ تین سال تک جاری رہ سکتی ہے۔ کچھ دیگر ذرائع ۱۰ سال کی مدت بھی دے رہے ہیں۔ کیا یہ باعثِ حیرت نہیں کہ  گذشتہ تین سال میں ۳لاکھ سے زائد بے گناہ شامی عوام کے قتل پر تو خالی خولی بیانات، اور اب دومغویوں کے قتل کے بعد اتنی بڑی جنگ ...؟ قتل ہونے والے برطانوی شہری کے اہلِ خانہ نے تو ایک پریس کانفرنس میں یہ بھی بتایا ہے کہ ہم کئی بار اغواکاروں سے معاہدے کے قریب پہنچے لیکن برطانوی حکومت رکاوٹ بنتی رہی۔اکثر مسلمان ممالک اس جنگ کے ’بجٹ شریک‘ حصہ بن گئے ہیں۔ ترکی پر بھی مسلسل اور شدید دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ اس نے کسی زمینی جنگ کا حصہ بننے سے انکار کیا، تو اس پر ’داعش‘ اور ’دہشت گردی‘ کی امداد کے الزامات عائد ہونا شروع ہوگئے ہیں۔

عرب ممالک سے شام کا جلاد بشار الاسد قبول کروانے کے لیے ایک پتّا یہ بھی پھینکا جارہا ہے کہ ’’یمن سے حوثیوں کااقتدار ختم کروانے کے بدلے، شام میں بشار کی تائید کرو‘‘۔ ۷۰ فی صد آبادی اور مسلح قبائل پر ویسے بھی حُوثی کتنی دیر تک مسلط رہ سکیں گے؟ لیکن یہ امر طے شدہ ہے کہ پورے خطے پر مسلط کیا جانے والا مسلح گروہوں کا منصوبہ تیزی سے پایۂ تکمیل کو پہنچایا جارہا ہے۔ اس نازک موقعے پر ہر صاحب خرد کو اپنی اپنی جگہ اس آگ کو بجھانے میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔ امریکی، اسرائیلی یا بھارتی استعمار کے خلاف جہاد پر پوری اُمت کا اجماع ہے۔مسلمانوں کو مسلمانوںکے خون کا پیاسا بنا دینے کے انوکھے فارمولے کا اکلوتا فائدہ ، صرف اور صرف امریکا اور صہیونی ریاست اور بے گناہ عوام کی گردنوں پر مسلط ظالم درندوں ہی کو پہنچے گا۔

’داعش‘ ہی کو دیکھ لیجیے، نام تو ریاست اسلامی رکھا ہے لیکن اب تک کی سب سے کامیاب کارروائی گذشتہ تین برس سے بشارالاسد کے خلاف برسرِپیکار مخلص مجاہدین ہی کے خلاف کی ہے۔ ’احرار الشام‘ کی مجلس شوریٰ کا خفیہ اجلاس شام کے اِدلب میں ایک زیرزمین خفیہ مقام پر ہورہا تھا کہ ان پر حملہ کر کے تحریک کے سربراہ سمیت مجلس شوریٰ کے ۴۵ مخلص ترین ارکان شہید کردیے۔ سیکڑوں ارب ڈالر کا بجٹ اور جنگ کی طویل مدت کا اعلان ہی بتا رہا ہے کہ اس کے خلاف جنگ کرنے والے ہی اسے باقی رکھیں گے۔