اکتوبر ۲۰۱۷

فہرست مضامین

نیا ہجری سال ، اسوئہ رسولؐ اور تقاضے

عبد الغفار عزیز | اکتوبر ۲۰۱۷ | اشارات

Responsive image Responsive image

ہجرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو ۱۴۳۸ھ سال گزر گئے۔ صرف یہ عرصہ ہی نہیں، قیامت تک دنیا و آخرت میں کامرانی صرف اور صرف قرآن و نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور ان کے عطا کردہ نظام کے لیے ہے۔ قیامت تک صرف وہی حق اور خیر ہے، جسے قرآن و سنت نے درست فرمادیا۔ ان سے متصادم ہر نظام، نظریے، افراد اور اقوام نے بالآخر نامراد ہونا ہے۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ کبھی شر اس قدر غالب آجائے کہ ظلم و جبر، مکاری و منافقت اور خیانت و دھاندلی ہی کامیابی کی راہ قرار دی جانے لگے۔ ایک سے ایک بڑا قارون اُٹھے اور سب اسی جیسی دولت و شہرت کی تمنا کرنے لگیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک فرعون اور نمرود سامنے آئیں، اور خود کو موت و حیات کا مالک اور ربِّ اعلیٰ ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئےأَنَا أَحْیِیْ وَ أُمِیْتُ اور أَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی  کی صدائیں لگانے لگیں  لیکن بالآخر سب دعوے کھوکھلے اور ساری چکاچوند ماند پڑجائے گی۔

خود آپؐ کی بعثت اسی ابدی حقیقت کی ایک روشن مثال ہے۔آپ ایسے معاشرے میں تشریف لائے کہ جس میں صدیوں سے بیت اللہ تک کو اپنے تراشیدہ بتوں سے آراستہ کیا جارہا تھا۔ عریانی و بدکاری یوں مسلط تھی کہ خانہ کعبہ کا طواف بھی بے لباس ہوکر کیا جاتا تھا۔ دُعا و استغفار کے بجاے سیٹیاں اور تالیاں بجانا (مُکَاءً  وَّتَصْدِیَۃ) عبادت قرار دیا جاتا تھا۔ انسان اپنے ہی جیسے انسانوں کو اپنا غلام اور ’عبد‘ بنالیتے اور بھیڑ بکریوں کی طرح ان کی خریدو فروخت کیا کرتے تھے۔ آپؐ نے تمام بندگیاں چھوڑ کر صرف ’رب العالمین‘ کی بندگی کی دعوت دی تو آپؐ اور آپؐ کے ساتھیوں کو کیا کیا اذیت و عذاب نہ دیا گیا۔ آخر کار بیت اللہ کا سایہ اور آبا و اجداد کی سرزمین چھوڑ کر سیکڑوں میل دُور یثرب کی طرف ہجرت کرنا پڑی لیکن ابتلا کا یہ مرحلہ، نجات و فتح مبین کا اولیں باب ثابت ہوا۔ پھر اس دور کی عالمی قوتیں (Super Powers) روم و فارس بھی زیر ہوئیں، کعبۃ اللہ سب بتوں اور بت گروں سے پاک ہوا اور مکہ میں قیامت تک کے لیے اعلان کردیا گیا کہ جَآئَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ ط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا  O  (بنی اسرائیل ۱۷:۸۱) ’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے‘‘۔

۲۳سال پر مشتمل عہد نبوت نے قیامت تک معیار حق بننے والا نظام حیات ہی عطا نہیں کیا بلکہ اس نظام کو عملاً نافذ کرتے ہوئے ایک شان دار اسلامی ریاست بھی تشکیل کرکے دکھائی۔ رب ذو الجلال چاہتا تو عظیم تبدیلی کے یہ تمام مراحل صرف ایک حکم اور اشارے ہی سے طے ہوجاتے، لیکن بندوں کو اصلاح و انقلاب کے اصول و ضوابط بتانا اور سکھانا مقصود تھا۔

  •  سیرت طیبہ پہ نگاہ دوڑائیں تو عظیم اسباق میں سے اہم ترین سبق آپ کی جہد مسلسل تھی۔ آپؐ نے نہ تو صدموں اور زخموں کی وجہ سے مایوسی کو قریب پھٹکنے دیا اور نہ فتح و نصرت کو غرور و جمود کا باعث بننے دیا۔ رب کائنات نے نبوت کے عظیم ترین منصب پر فائز کرتے ہی حکم دیا: قُمْ فَاَنْذِرْ O وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ O  (المدثر ۷۴:۲-۳) ’’اُٹھیے اور لوگوں کو خبردار کردیجیے۔ اپنے رب کی کبریائی بیان کیجیے‘‘ اور قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًا O  اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیْلًا O (المزمل ۷۳:۲،۵) ’’رات کے کچھ پہر کے علاوہ ساری رات قیام اللیل کیجیے۔ ہم آپ پر ایک گراں قدر ذمہ داری ڈالنے والے ہیں‘‘ ۔ یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ ط(المائدۃ۵: ۶۷)   ’’اے پیغمبرؐ ، جو کچھ تمھارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو‘‘۔

یہ فرامینِ الٰہی سنتے ہی پوری زندگی کا دھارا بدل گیا۔ اب ایک ہی مقصد اور ایک ہی لگن تھی کہ ایک ایک فرد اور ایک ایک قبیلے کو رب کی طرف بلانا ہے۔ پھر مکہ آنے یا وہاں سے گزرنے والا کوئی فرد یا قافلہ ایسا نہ تھا کہ جس تک آپ نے دین کی دعوت اور اللہ کا پیغام نہ پہنچا دیا ہو۔ اسی لگن کا مظہر وہ منظر تھا کہ جب ایک روز صبح سے شام تک کارِ نبوت انجام دیتے رہے۔ تاریکی چھانے لگی تو گھر لوٹے، کمر بستر سے نہ لگی تھی کہ کانوں میں آواز آئی کہ کسی نئے قافلے نے پڑاؤ ڈالا ہے۔  فوراً اُٹھ کر دوبارہ باہر جانے لگے۔ اہل خانہ نے عرض کیا کہ کچھ آرام فرمالیجیے، صبح دم ملاقات کرلیجیے گا۔ چہرہ انور کا رنگ بدلا اور یہ فرماتے ہوئے باہر تشریف لے گئے کہ: ’’کیا آپ کو یقین ہے کہ قافلہ رات ہی کے کسی پہر کوچ نہ کرجائے گا؟

حج کا موقع ہو، سالانہ مجلس ادب و شاعری کا انعقاد یا کھیل کود کا میدان سجے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ نے دعوت دین اور تزکیہ و تربیت کا حق ادا کردیا۔ اس دوران میں آلِ یاسر کو شہید ہوتے، سیّدنا بلالؓ کو گرم ریت پر تڑپتے، شِعب ابی طالب میں بچوں کو بلکتے اور اپنی صاحب زادی سمیت کئی صحابہ کرامؓ کو ہجرت حبشہ پر مجبور ہوتے دیکھا۔ یہی نہیں اعلیٰ و ارفع مناصب، مال و دولت کے انباروں اور بتوں کی پوجا سے نہ روکنے کی شرط پر مفاہمت کی پیش کش بھی ہوئی لیکن آپؐ کا    ایک ہی پیغام تھا کہ ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً ص  (البقرہ ۲:۲۰۸) ’’تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو‘‘۔  وَ اَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ ج وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ   ط (الانعام ۶:۱۵۳) ’’اس کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے، لہٰذا تم اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ اُس کے راستے سے ہٹاکر تمھیں پراگندا کردیں گے‘‘۔

 اس دوران دار ارقم کی تربیت گاہ میں اہل ایمان کی تعلیم و تزکیہ کا سفر بھی جاری رہا اور  اللہ کے حضور دُعائیں بھی کہ پروردگار ،مکہ کے مؤثر ترین افراد کو بھی اس قافلۂ حق کا ساتھی بنادے۔ اللہ تعالیٰ نے جناب حمزہ و عمر رضی اللہ عنہما جیسی پُروقار ہستیاں بھی عطا کردیں۔ پھر مکہ ہی نہیں قریبی بستیوں کا رخ کیا، اس ضمن میں سفر طائف ایک مکمل داستان رکھتا ہے جس کا اختتام آپ کی اس دردبھری دُعا پہ ہوتا ہے کہ ’’اے اللہ! میں اپنی کمزوری، بے بسی اور لوگوں کی نظر میں بے وقعتی کا شکوہ صرف آپ ہی کی جناب میں کرتا ہوں۔ اے اللہ! مجھے کن کے سپرد کیا جارہا ہے، ان غیروں کے جو مجھے پہچان ہی نہیں رہے؟ یا ان اپنوں کے کہ جو پہچان کر بھی نادانیوں پر اترے ہوئے ہیں… پروردگار، لیکن اگر آپ مجھ سے ناراض نہیں تو پھر مجھے کسی تکلیف کی کوئی پروانہیں‘‘۔

عہد مکہ ہی نہیں، مدینہ پہنچ کر اور اولیں اسلامی ریاست کے قیام کے بعد بھی پے در پے آزمایشیں اور مہمات درپیش رہیں۔ کبھی مشرکین مکہ کے پے درپے حملے بدرو اُحد اور احزاب کا عنوان بنے۔ کبھی عمرے کی ادایگی کی نیت سے مکہ داخل ہونے سے روک دیا گیا اور کبھی خود مدینہ کے اندر بیٹھے منافقین نے بدترین الزامات، تہمتوں اور دشمن سے گٹھ جوڑ کرنے کی شرمناک مثالیں قائم کیں۔ مدینہ کے قرب و جوار میں بیٹھے یہودی قبائل نے بھی آپؐ کو شہید کرنے کی سازش کی اور آپؐ کے ہر دشمن کو شہ دی۔ جزیرۂ عرب کے منافق قبائل نے ایمان لانے کا ڈھونگ رچا کر ۷۰،۷۰ حفاظ کرام شہید کردیے۔ کبھی شمالی سرحدوں پر ایک سوپر پاور قیصر روم نے فوجیں جمع کردیں اور کبھی مشرق میں دوسری عالمی طاقت کسریٰ فارس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارسال کردہ مکتوب مبارک ٹکڑے ٹکڑے کرکے حقارت سے پاؤں میں روند دیا۔ صفحات سیرت کا مطالعہ کرتے ہوئے انسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے کہ خالق کائنات کا محبوب، ساری انسانیت کے لیے پیغام رحمت،  تمام انبیا کی جدوجہد کا نقطۂ کمال اور اسراء و معراج جیسے منفرد و بے مثال معجزات کا حامل، لیکن ایسی جہدمسلسل، ایسی پُرمشقت صبح و شام… سبحان اللہ۔

غزوۂ اُحد کے زخم اور سیّد الشہداء حضرت حمزہؓ سمیت ۷۰ شہدا کا غم دلوں میں لیے مغرب کے بعد مدینہ واپس لوٹتے ہیں۔ مدینہ کا کوئی گھر نہ تھا جہاں سے کوئی نہ کوئی شہید نہ ہوا ہو یا زخموں کا کوئی اعزاز نہ ملا ہو۔ اسی مدینے میں اگلی ہی صبح آپ کی طرف سے منادی کروائی جارہی تھی کہ ’’مشرکین کے لشکر کا پیچھا کرنے کے لیے فوری طور پر نکلنا ہے‘‘۔ یہی نہیں بلکہ فرمایا: لَا یَخْرُجَنَّ مَعَنَا أَحَدٌ اِلَّا مَنْ حَضَرَ یَوْمَنَا بِالْأَمْسِ (ہمارے ساتھ صرف وہی لوگ جائیں گے جو کل ہمارے ساتھ میدان میں لڑے تھے)۔ اپنوں اور پرایوں کے لیے پیغام تھا کہ ہم کل کے زخموں کی وجہ سے کمزور یا شکستہ خاطر اور پست ہمت نہیں ہوئے۔ رب ذو الجلال کو یہ عزم و عزیمت اتنی پسند آئی کہ پورا واقعہ قرآن کریم میں ثبت فرمادیا۔ لشکر حمراء الاسد پہنچا۔ تین روز وہاں قیام کیا، معلوم ہوا کہ مشرکین مکہ کا لشکر اُحد کے اگلے ہی روز واپس پلٹ کر مدینے پر ہلہ بولنے کی تیاریاں کررہا تھا، آپؐ اور آپؐ کے صحابہ کرامؓ کی آمد کی خبر سن کر ہی خوف زدہ ہوکر بھاگ نکلا۔

غزوۂ احزاب، ایک فیصلہ کن اور اس قدر خوف ناک معرکہ تھا کہ قرآن کریم کے الفاظ میں اِذْ جَآئُ وْکُمْ مِّنْ فَوْقِکُمْ وَ مِنْ اَسْفَلَ مِنْکُمْ وَ اِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَ بَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّوْنَ بِاللّٰہِ الظُّنُوْنَاO (احزاب۳۳: ۱۰) ’’جب دشمن اُوپرسے اور نیچے سے تم پر چڑھ آئے، جب خوف کے مارے آنکھیں پتھرا گئیں، کلیجے منہ کو آگئے اور تم لوگ اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے‘‘۔لیکن بالآخر اللہ کی نصرت آئی۔ طوفانی آندھیوں اور برفانی سردی نے دشمن کے لشکر اُلٹ دیے۔ تمام تر مہیب لمحات اور آزمایش کی گھڑیاں ختم ہوئیں، جزیرۂ عرب سے اکٹھے ہوکر آنے والے سب سفاک دشمن نامراد ہوکر لوٹ گئے۔

آپؐ اور صحابہ کرامؓ بھی ظہر کے بعد گھروں میں واپس پہنچے۔ آپؐ ابھی کمر کھول ہی رہے تھے کہ جبریل امینؑ تشریف لاتے اور فرماتے ہیں: ’’اے اللہ کے رسولؐ! آپؐ کے ساتھ غزوۂ احزاب میں شریک فرشتوں نے تو ابھی کمر نہیں کھولی اور آپؐ ہتھیار کھول رہے ہیں؟ معاہدہ ہونے کے باوجود دوران جنگ آپؐ کی مدد کرنے کے بجاے، حملہ آور فوجوں کی مدد کرنے والے بنوقریظہ سے بھی ابھی نجات حاصل کرنا ہوگی‘‘۔ آپؐ نے فوراً منادی کروادی: مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلَا یُصَلِّیْنَّ الْعَصْرَ اِلَّا فِی بَنِیْ قُرَیْظَۃ،’’جو بھی اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے، بنوقریظہ تک پہنچنے سے پہلے نماز عصر ادا نہ کرے‘‘۔ صحابہ کرامؓ فوراً پھر روانہ ہوئے اور اسلامی ریاست کو بنی قریظہ کے خطرے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کردیا۔

 پھر فتح مکہ کی لازوال تاریخ رقم ہوتی ہے… لیکن اسے بھی آخری فتح یا حصول منزل نہیں قرار دیا، فوراً ہی غزوۂ حنین اور ساتھ ہی فتح طائف کا آغاز ہوجاتا ہے۔ گویا ایک مہم کے ساتھ ہی اگلی منزلوں کی جانب سفر شروع ہوجاتا ہے۔ تکمیل دین بھی انھی معرکوں اور میدانوں میں ہوتی ہے۔ احکامِ شریعت بھی ساتھ ساتھ صادر ہورہے ہیں۔ شراب و سود اور جوے کی حرمت ہوتی ہے۔    فتح مکہ کے بعد ۸ ہجری میں پہلی بار اسلام کے بتائے اصولوں کے مطابق اسلام کا پانچواں رکن حج ادا کیا جاتا ہے۔ ۹ ہجری میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امیر حج بناکر بھیجا جاتا ہے اور ۱۰ہجری کو آپؐ خود حج کی ادایگی کے لیے تشریف لے جاتے ہیں۔ خطبۂ حجۃ الوداع کی صورت میں حقوقِ انسانی کا جامع ترین اور ابدی چارٹر جاری کردیا جاتا ہے۔ حج کی فرضیت اور اہمیت جاننے کے لیے آپؐ کا یہ فرمان ہی کافی ہے کہ حج سے واپس جانے والا تمام گناہوں سے پاک ہو کر یوں واپس لوٹتا ہے، جیسے آج ہی جنم لیا ہو لیکن حکیم و خبیر ہستی نے اپنے حبیب کو زندگی کے آخری سال فریضۂ حج ادا کروایا۔ اُمتیوں کو یہ پیغام بھی دے دیا گیا کہ ترجیحات کے تعین میں اقامتِ دین، ریاست اسلامی کے قیام اور تبدیلی و انقلاب کا کیا مقام و مرتبہ ہے۔

  •  مطالعۂ سیرت سے دوسرا اہم پیغام یہ سامنے آتا ہے کہ اگرچہ ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا، لیکن نوجوان (بیٹے اور بیٹیاں) اُمت کا اہم ترین اثاثہ و سرمایہ ہیں۔ آپؐ کی دعوت پر لبیک کہنے والے اولیں افراد میں نوجوانوں کی تعداد نمایاں تھی۔ اُم المومنین حضریت خدیجہؓ کے علاوہ چاروں بنات النبی رضی اللہ عنہن حضرت علیؓ (دس سال) اور حضرت زید بن ثابتؓ (گیارہ سال) شامل تھے۔ حضرت زبیر بن العوام (۱۲ سال) حضرت طلحہ بن عبید اللہ (۱۳ سال) حضرت سعد بن ابی وقاص (۱۷ سال) حضرت عبدالرحمٰن بن عوف (۳۰ سال) حضرت عثمان بن عفان (۳۴سال) رضوان اللہ علیہم اجمعین پانچ ابتدائی ساتھی تھے۔ پھر حضرت مصعب بن عمیرؓ جیسے نوجوان بھی آئے جن کی والدہ مکہ کی امیر ترین تاجر خاتون تھیں اور جو مکہ کی جس گلی سے گزر جاتے، وہ دیر تک ان کے لگائے عطر سے مہکتی رہتی۔ عمار بن یاسر، بلال بن رباح اور صہیب رضی اللہ عنہم جیسے غلام بھی تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اہم موقعے پر ان نوجوانوں کو اہم ذمہ داریاں سونپیں جو انھوں نے بدرجۂ کمال ادا کیں۔ بیعت عقبۂ اولیٰ کے فیصلہ کن موڑ پر اہل یثرب نے درخواست کی کہ ہمارے ساتھ اپنا کوئی نمایندہ، کوئی معلم بھیج دیجیے جو ہمیں دین کی تعلیم دے سکے۔ آپؐ کی نگاہِ انتخاب حکیم و دانا اور سراپا قربانی حضرت مصعب بن عمیرؓ پر پڑی۔ انھوں نے بھی آپؐ کی اُمیدوں کو یوں پورا کیا کہ ایک ہی برس میں یثرب کا کوئی گھر ایسا باقی نہ بچا کہ جہاں نور اسلام نے اُجالا نہ کردیا ہو۔ اہلِ یثرب بیعت عقبۂ ثانیہ کے لیے آئے تو گذشتہ برس ۱۲ ؍افراد تھے اب    دو خواتین سمیت ۷۵ ہوگئے۔ اللہ کی نصرت و مشیت کے بعد یہ مصعب بن عمیرؓ کی حکمت و دعوت ہی تھی کہ سرزمین یثرب آپؐ کے استقبال کے لیے بے تاب ہوگئی۔

مدنی دور کے کئی اہم واقعات کے بعد فتح مکہ کے موقعے پر بھی یہی حکمت نبیؐ سامنے آئی اور آپؐ نے ۲۰ سالہ عتاب بن اُسید ؓکو مکہ کا گورنر مقرر کردیا۔ اہلِ عرب قریش مکہ کے بعد بنوثقیف کو سب سے معزز قبیلہ قرار دیتے تھے۔ پورا جزیرۂ عرب اسلام کے زیر سایہ آنے لگا تو بنوثقیف نے بھی اپنا وفد مدینہ بھیجا۔ آپؐ نے مسجد نبویؐ کے باہر ان کے لیے خیمہ لگوادیا کہ اہل ایمان کو   نماز پڑھتے دیکھتے اور قرآن کی تلاوت سنتے رہیں۔ وہ ظہر سے قبل مسجد میں آکر آپؐ سے مکالمہ و مذاکرات کرتے اور اپنے سامان کے پاس ایک نوجوان عثمان بن ابی العاصؓ کو چھوڑ آتے۔ ظہر کے بعد واپس آتے تو جناب عثمان دوڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کرنے پہنچ جاتے۔ آپ نہ ملتے تو حضرت ابوبکر صدیقؓ سے رجوع کرتے۔ جب بنوثقیف نے طویل مذاکرات کے بعد بالآخر اسلام قبول کرلیا تو آپ نے اسی ۲۰سالہ نوجوان عثمان بن ابی العاصؓ کو ان کا سربراہ مقرر فرما دیا کہ ان کے دل میں شوق ایمان اور سوالات میں حکمت و دانائی فراواں تھی۔ دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے بھی آپؐ نے اپنا آخری لشکر ۲۰ سالہ اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی زیر قیادت ہی ترتیب دیا، جس میں جناب صدیق و عمرفاروق رضی اللہ عنہما سمیت تمام جلیل القدر صحابہ شامل تھے۔ آپؐ بار بار لشکر اُسامہ کی روانگی کی بابت دریافت فرماتے رہے جو آپ کے مرض کو دیکھ کر تاخیر کا شکار ہورہا تھا۔

بچوں اور نوجوانوں پر آپؐ کی خصوصی توجہ میں خود نوجوانوں کی لیے ایک پیغام عظیم ہے۔ آپؐ نے متعدد بار صرف نوجوانوں سے خطاب فرمایا۔ احادیث میں یَا مَعْشَرَ الشَّبَاب، اے نوجوانو! یَا بُنَّی، اے میرے مُنے! یَا غُلَام، اے بیٹے جیسے الفاظ نوجوانوں کو مسلسل ان فرمانات نبویؐ کی جانب بلارہے ہیں۔ آپؐ نے سات طرح کے افراد کو روز محشر اس وقت    اللہ کے عرش کے سایے تلے جگہ ملنے کا ذکر فرمایا، جب اس کے علاوہ کوئی اور سایہ نہ ہوگا۔ ان  سات افراد کا ذکر بھی  امام عادل، انصاف کرنے والے حکمران کے بعد دوسرے نمبر پر شَابٌّ نَشَأَ فِی طَاعَۃِ اللہِ ، ’’وہ نوجوان جس نے اللہ کی اطاعت کے سایے میں پرورش پائی‘‘ سے کیا۔

ایک جانب یہ سایۂ رحمت اور دوسری جانب آج کی یا کسی بھی زمانے کی شیطانی دنیا کو دیکھیں، تو ان کا سب سے بڑا ہدف بھی یہی نوجوان ہیں۔ دور رسالت میں قرآن و رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دُور کرنے کے لیے مشرکین مکہ دور دراز سے لونڈیاں، گویّے اور موسیقی کے آلات منگوایا کرتے تھے۔ قرآن میں بیان کیے گئے سابقہ اقوام کے عبرت ناک واقعات کے مقابلے میں قصہ گو مرد اور عورتیں بلایا کرتے تھے۔ آج ان سب شیطانی ہتھکنڈوں سے کہیں زیادہ خطرناک اور مہلک راستے کھول دیے گئے ہیں۔ ایک ایک بچے اور بڑے کے ہاتھ میں، موبائل فون کے نام پر تباہی اور غلاظت کا بارود تھما دیا گیا ہے۔ یقینا یہ ایک سہولت، مفید ٹکنالوجی اور کسی حد تک ضرورت بھی ہے، لیکن اس کی سنگینی کا اندازہ لگانے کے لیے صرف موبائل فون اور مختلف سروسز پیش کرنے والی کمپنیوں کے اشتہارات ملاحظہ کرنا ہی کافی ہے۔ اشتہار کم اور کھلم کھلا بلکہ زبردستی دعوتِ گناہ زیادہ ہوتی ہے۔ تیز رفتار دنیا سے پیچھے رہ جانا ممکن ہے، نہ دین کا تقاضا لیکن گزرجانے والے ۱۴۳۸ سال جہاں تیزی سے گزرتے وقت کی اہمیت یاد دلا رہے ہیں، وہیں آپؐ کے مبارک الفاظ میں راہ نجات بھی واضح کررہے ہیں۔ آپؐ نے دل کی جانب اشارہ فرماتے ہوئے بار بار فرمایا کہ التقویٰ ھٰہُنا، ’’اصل تقویٰ تو یہا ں ہے‘‘۔ مزید فرمایا: الاِیْمَانُ مَا وَقَرَ فِی الْقَلْبِ وَصَدَّقَہٗ الْعَمَل،’’ حقیقی ایمان وہ ہے جو دل میں راسخ ہوگیا اور عمل نے اس کی تصدیق کردی‘‘۔ دل میں اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت جتنی سچی ہوگی، ہر شیطانی یلغار کا مقابلہ اتنا ہی آسان و ممکن ہوجائے گا۔

رب ذو الجلال نے اسی محبت اور ایمان کی تجدید کے لیے دن میں پانچ بار مسجد حاضری کا اہتمام کیا۔ نماز جمعہ کی صورت میں ہفت روزہ اجتماع کا شان دار انتظام کیا۔ رمضان اور روزوں کے ذریعے ایک ماہ کی سالانہ تربیت گاہ کا حکم نازل فرمایا اور حج کی صورت میں ایک عالمی مشاورت اور اجتماع اُمت کا حکم دیا۔ان عبادات کی اصل روح دلوں میں اسی صورت اتر سکتی ہے کہ بندہ ہر وقت آپؐ اور آپؐ کی لائی ہوئی تعلیمات کے اصل ہدف سے وابستہ اور مخلص رہے۔

آپؐ کا مقصد ِبعثت ہی انسان کے لیے فائدہ مند، ہر پاکیزہ چیز کی حفاظت و نمو اور انسان کے لیے تباہ کن ہر بات اور ہر کا م کی بیخ کنی اور اس سے بچاؤ تھا۔ یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ ط (اعراف۷: ۱۵۷)’’وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے، اور ان پر سے وہ بوجھ اُتارتاہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندش کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے‘‘۔

مغربی پالیسی ساز اداروں کے الفاظ میں آج کے ذرائع ابلاغ، ان کی خوفناک خفیہ جنگ کے خاموش ہتھیار ہیں، (Silent Weapons of a Quiet War)۔ یہ جنگ دل و دماغ کو  مسحور و مقید کرنے والی جنگ ہے (War of Hearts and Minds) ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت دلوں میں جو پاکیزگی، مقصد حیات کی تازگی اور زندگی مابعد الموت میں ابدی جنتوں کی طلب پیدا کرتی ہے، جب کہ آج اپنے عروج پر پہنچی دل و دماغ کی جنگ اسی پاکیزہ دلی کو ہر نوع کے جرائم سے معمور کردینا چاہتی ہے۔ مغربی دنیا خود اس تباہی کو بری طرح بھگت رہی ہے۔   ایف بی آئی کی رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۶ء کے دوران صرف امریکا میں زبردستی بدکاری کے ۹۵ہزار ۷سو۳۰  واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ یہ تو وہ واقعات ہیں جو رپورٹ ہوئے اور جو زبردستی بدکاری کے زمرے میں آتے ہیں، اپنی مرضی سے غلاظت پھانکنا تو ان کے ہاں جرم ہی نہیں قرار پاتا۔ اس عرصے کے دوران لوٹ مار کے ۸۰ لاکھ واقعات رپورٹ ہوئے اور ۱۷ہزار ۲سو۵۰  افراد قتل ہوئے۔ یہ تو صرف ایک پہلو اور ایک جھلک ہے۔ اس تہذیب کے دیگر اثرات جس میں ایڈز جیسی ہلاکتوں، مختلف نفسیاتی بیماریوں ، منشیات کے پھیلاؤ، رشتوں اور خاندانوں کے بکھر جانے کے واقعات، ماں باپ کے جھگڑوں یا علیحدگی کے باعث تنہا رہ جانے والے بچوں کی تعداد جیسے اعداد و شمار پر نگاہ دوڑائیں تو اوسان خطا ہونے لگتے ہیں۔ بدقسمتی مگر یہ ہے کہ ان تمام تباہیوں کی دلدل میں ڈوبتی بزعم خود مہذب دنیا، ان تباہیوں سے نجات پانے کے لیے سایۂ رحمت میں پناہ لینے کے بجاے ہم سب سے بھی یہ سایہ چھین لینا چاہتی ہے۔

  •  اس ایجنڈے پر وہ کس طرح عمل کر رہے ہیں ذرا اس کی ایک جھلک ملاحظہ کیجیے:

۲۲ستمبر کو مصر کی ایک جیل میں اللہ کے ایک ولی ۸۹ سالہ محمد مہدی عاکف اللہ کو پیارے ہوگئے۔ ۱۹۲۸ء میں پیدا ہونے والے جناب عاکف جوانی ہی سے دل میں حبیب خدا کی محبت بسائے ہوئے تھے۔ ۱۹۴۸ء میں اہلِ مغرب نے قبلۂ اوّل پر صہیونی قبضہ کرواکے اسے اسرائیل بنانے کا اعلان کردیا تو نوجوان محمد عاکف بھی الاخوان المسلمون کے نوجوانوں کے ہمراہ، مصری افواج کے شانہ بشانہ جہاد کے لیے فلسطین چلا گیا۔ اس ’گناہ‘ کی پاداش میں واپسی پر گرفتار کرلیا گیا۔ تقریباً دوسال گرفتار رہا۔ ۱۹۵۴ء میں پھر گرفتار کیا اور پورے ۲۰ برس جیل میں رکھا گیا۔ ۱۹۹۶ء میں پھر گرفتار کرلیے گئے اور تین برس بلاوجہ قید رکھے گئے۔ ۲۰۱۳ء میں جنرل سیسی کا  خونیں انقلاب آیا تو پھر گرفتار کرلیے گئے اور ۲۲ ستمبر بروز جمعہ زندان ہی سے رب کے حضور پہنچ گئے۔ تدفین بھی رات کی تاریکی میں عمل میں لائی گئی۔ اہلیہ، صاحبزادی، داماد اور وکیل کے سوا کسی کو قبرستان تک نہ آنے دیا گیا، نہ نماز جنازہ ہی کی اجازت دی گئی۔ اور تو اور اگلے روز ملک بھر میں غائبانہ نماز جنازہ پر بھی پابندی لگادی گئی۔ اب اصل المیہ ملاحظہ فرمائیے۔ محمد مہدی عاکف کا ایک ہی جرم تھا کہ وہ مصر میں اللہ اور اس کے رسول کا نظام اور شریعت چاہتے تھے۔ وہ اپنے دل میں نبی رحمتؐ کی سچی محبت رکھتے تھے۔ لیکن جس وقت اس عاشق صادق کی نماز جنازہ تک پر پابندی تھی، عین اس وقت قاہرہ کی ایک شاہراہ پر ’ہلا گلا نائٹ‘ مناتے ہوئے ہم جنس پرستوں کا ایک جشن ہورہا تھا۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہم جنس پرستوں کے معروف پرچم لہراتے، سرعام خرمستیاں کرتے خود کو ترقی یافتہ ثابت کرنے کی بھونڈی کوشش کررہے تھے۔ انھیں جنرل سیسی، عالمی ذرائع ابلاغ اور موبائل انٹرنیٹ فراہم کرنے والی مختلف کمپنیوں کی سرپرستی حاصل تھی۔

محمد مہدی عاکف کو جب سپردخاک کیا گیا تو یہ نئے ماہ کی دوسری شب تھی۔ ان کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ جب رات کے سناٹے میں شہید کا جسد ِ خاکی قبر میں اتارا جارہا تھا، مجھ سمیت سب حاضرین نے محسوس کیا کہ تاریک راتیں ہونے کے باوجود پورے ماحول پر جیسے چودھویں کے چاند کا نور چھایا ہوا ہے۔ میں نے محاصرہ کیے ہوئے پولیس اور فوج کو متوجہ کرتے ہوئے کہا: ’’الحمد للہ! یہ نور میرے مرحوم شوہر اور ہم سب کے لیے راحت و تشفی کا باعث بن رہا ہے‘‘۔ سنتے ہی پیچھے کھڑا ہوا ایک فوجی اپنے ضمیر پر طاری بوجھ کی تاب نہ لاتے ہوئے گرا اور بے ہوش ہوگیا۔

یہ نُور اللہ کی جانب سے ظالم نظام کے لیے کوئی پیغام اور استعارہ تھا ؟ اخوان کے بانی امام حسن البنا کو فروری ۱۹۴۹ء کی ایک شام شہید کیا گیا تھا، اس وقت مصر میں اسلامی تحریک کے ارکان کی تعداد چند ہزار تھی ۔ تقریباً سب گرفتار کر لیے گئے ۔ ۶۲برس بعد ڈکٹیٹرشپ سے نجات ملی تو صرف اس کے ارکان و امیدواران رکنیت کی تعداد ۲۰ لاکھ سے متجاوز ہوچکی تھی ۔ آج ایک بار پھر مصر ، بنگلہ دیش ، شام اور لیبیا سمیت کئی ممالک میں تحریکات اسلامی کے لاکھوں کارکنان جیلوں میں ہیں اور قرآن و سیرت حتمی پیغام سنارہے ہیں کہ :

اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ O (البقرہ ۲:۲۱۴) ’’واضح رہے کہ اللہ کی نصرت بہت قریب ہے‘‘۔ شرط صرف اتنی ہے کہ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے صبرواستقامت سے اپنے اپنے حصے کا کام کرتے رہیں۔