ڈاکٹر جاسم محمد مطوع


رات کا کوئی پہر تھا، کمرے میں گھپ اندھیرا تھا، اچانک ٹیلفون کی گھنٹی بجی۔ جمیل سمجھا کہ یہ فائر الارم کی آواز ہے، جو وہ خواب میں سن رہا ہے۔جمیل ٹیلی فون ٹٹولنے لگا کہ اسی دوران   آواز بند ہوگئی۔تھوڑی دیر بعد پھر گھنٹی بجی، اب وہ بیدار ہوچکا تھا، آنکھیں ملتے ہوئے اس کی  زبان پر دعا تھی، یا اللہ! خیر کر، اتنی رات گئے کون فون کررہا ہے؟ یا اللہ! میرے والدین خیریت کے ساتھ ہوں۔ یااللہ! ان کی حفاظت فرما۔
اس نے سوچا: یہ آوارہ نوجوانوں کی حرکت لگتی ہے، جو دن میں سوتے ہیں، اور رات میں جاگ کر شر پھیلاتے ہیں۔ موسم سرد تھا، اس لیے وہ پھر سونے کے لیے لیٹ گیا۔ ابھی وہ سونے کی کوشش کررہا تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی پھر بجنے لگی۔
اب کی بار وہ غصّے میں تیزی سے اٹھا اور ریسیور اٹھاکر سخت لہجے میں کہا: ’’کون ہے؟‘‘
ادھر سے درد بھری دھیمی سی آواز آئی: ’’مجھے ایسے شخص کی تلاش ہے جو میرا غم اور میرا درد بانٹ سکے‘‘۔
جمیل نے کہا: شاید آپ نے غلط نمبر ملادیا ہے۔
ادھر سے آواز آئی: نہیں ، نمبر درست ہے، تمھارا نام جمیل ہے؟
اپنا نام سن کر وہ حیران ہوا، اور آواز پر غور کرنے لگا، لیکن وہ آواز پہچان نہیں سکا۔
اس نے کہا: تم کون ہو؟
ادھر سے آواز آئی: میں ایک اجنبی ہوں، مجھے ایسے آدمی کی تلاش ہے، جس سے میں اپنے من کی بات کہہ سکوں اور وہ مجھ سے اپنے من کی بات کہہ سکے، تاکہ میرے غم کچھ ہلکے ہوجائیں، مجھے اس سے بات کر کے کچھ تسلی ہو۔ اسی لیے میں نے تمھیں فون کیا، اگر تمھیں ناگوار گزرا ہو تو معذرت چاہتا ہوں۔ میں تمھیں بات کرنے پر مجبور نہیں کروں گا۔
جمیل نے کہا: ٹھیک ہے، آپ بات بتایئے۔
(ادھر سے درد میں ڈوبی آواز آئی): میں حوصلہ ہوں، اسلامی تحریک کے کارکنوں کا حوصلہ، داعیان اسلام کا حوصلہ، جو اَب غم واندوہ میں ڈوبا ہوا ہے۔ کیونکہ وہ اب کمزور ہوچلا ہے۔
جمیل: تو کیا تمھیں لگتا ہے کہ میرا حوصلہ کمزورہوگیا ہے؟
حوصلہ: اگر تمھارا حوصلہ کمزور ہوگیا ہوتا، تو میں تمھیں اپنے غم میں شریک نہ کرتا۔ میں نے اپنا درد بیان کرنے کے لیے صرف تمھیں منتخب کیا ہے، کیونکہ تمھارے حوصلے ابھی بھی بلند ہیں۔
جمیل: ایک سوال مجھے بھی پریشان رکھتا ہے، کہ حوصلے کمزور کیسے ہوجاتے ہیں؟
حوصلہ: اس کے کچھ اسباب ہیں۔ بعض کا تعلق داعی کی ذاتی شخصیت سے ہے، اور بعض کا تعلق اس ماحول سے ہے جہاں وہ گزر بسر کرتا ہے۔
جمیل:داعی سے متعلق اسباب کیا ہیں؟
حوصلہ: وہ بہت سے ہیں، میں کچھ بتاؤں گا:

  • پہلا سبب تو یہ ہے کہ کہ بعض کارکن اس مشن کی حقیقت اور اس کے راز سے ناواقف ہوتے ہیں۔ اس لیے اس کام کے حوالے سے ان کی چلت پھرت ایسی ہوتی ہے، گویا کوئی جز وقتی مصروفیت ہو، یا بچپن کا کوئی تفریحی مشغلہ انجام دے رہے ہوں۔
  • دوسرا سبب یہ ہے کہ بعض کارکنوں کے دل میں ایمان کمزور رہ جاتا ہے، یا یوں کہیں کہ آخرت کی کامیابی کا سچاشوق نہیں بیدار ہوپاتا ہے۔ ان کی سرگرمیاںدوسرے دنیاوی مشاغل کی طرح ایک دنیاوی مشغلہ ہوتی ہیں۔ ان میں رضاے الٰہی پالینے کی دھن نہیں پائی جاتی۔
  •  تیسرا سبب یہ ہے کہ بعض کارکن اپنے آپ کو دنیا کے فتنوں سے محفوظ نہیں رکھ پاتے، اور زندگی کی چمک دمک سے مسحور ہونے لگتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک لمبی دعوتی زندگی گزارنے کے بعدان کے دلوں میں کمزوری آنے لگتی ہے، اور وہ راستے ہی میں پڑاؤ ڈال دیتے ہیں۔ 

جمیل:تمھاری باتیں درست لگتی ہیں، خاص طور سے دوسرا سبب تو میرے اندر بھی موجود ہے۔ یہ بتاؤ کہ دوسرے مشاغلِ زندگی سے تمھاری کیا مراد ہے؟ کیا یہ مطلب ہے کہ تعلیم یا نوکری حوصلوں پر اثر انداز ہوتی ہے؟
حوصلہ: نہیں، بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ باہر کی صورت حال کئی طرح سے کارکنوں کے حوصلوں پر اثر انداز ہوتی ہے، جیسے:

  •    پہلی چیز: اللہ کے دشمن مل کر اسلام اور اسلامی تحریکات کو ختم کرنے کے درپے ہیں، آزمایشیں شدید ہیں اور اللہ کی مدد صبر  کا امتحان لے رہی ہے۔ ایسے میں کچھ کارکنان اپنی سرگرمیوں سے اُکتا جاتے ہیں، اور ان کے حوصلے پست ہوجاتے ہیں۔
  •   دوسری چیز: کہیں ایسا ہوتا ہے کہ ایک سے زیادہ اسلامی جماعتیں میدان میں کام کررہی ہوتی ہیں۔ ان میں بسا اوقات ٹکراؤ کی نوبت آجاتی ہے، یا ایک ہی جماعت کے افراد میں گروہ بندی اور باہمی رسہ کشی کی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کا منفی اثر بہت سے کارکنوں پر پڑتا ہے، اور وہ دل گرفتہ ہوکر، میدانِ دعوت ہی سے کنارہ کشی اختیار کرلیتے ہیں۔
  •   تیسری چیز: کارکن جس میدان میں اصلاحی کوششیں کرنا چاہتا ہے، اس میدان میں بگاڑ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ ان کے حوصلے جواب دے جاتے ہیں۔

کمزوری کے یہ اسباب ہیں، اور میرے غم کی و جہ یہ ہے کہ یہ اسباب اہل دعوت کے درمیان پائے جاتے ہیں، لیکن پھر یہ سوچ کر تسلی ہوتی ہے کہ اللہ کا کام ہے تو وہ ضرور مدد بھیجے گا۔ دعوت وعزیمت کی راہ کے راہی امید کا بڑا مرکز ہیں، وہی انسانیت کا جمال ہیں۔
جمیل: تمھاری بات درست ہے، اور دل نشین بھی۔ اب میں سمجھ گیا کہ تمھارے غم کا سبب کیا ہے۔ لیکن اتنی رات مجھے فون کرنے کا مقصد ابھی تک سمجھ میں نہیں آیا۔
حوصلہ: بات دراصل یہ ہے، مجھے لگا کہ تمھارے حوصلے ابھی بلند ہیں، تمھارے سر میں بڑے کاموں کا سودا سمایا ہوا ہے، تمھیں دیکھ کر خوشی ہوتی ہے، تمھارے پہلو میں ایک درد مند دل ہے۔ میں نے سوچا کہ تمھارے ذریعے میری بے چینی اور فکرمندی دوسرے کارکنوں تک پہنچ سکتی ہے۔
جمیل: میں تمھارا پیغام ہر کارکن تک پہنچاؤں گا، لیکن یہ تو بتاؤ کہ کارکنوں کے دلوں میں حوصلہ کس طرح بڑھایا جاتا ہے؟
حوصلہ:اس سلسلے میں دو باتیں بہت اہم ہیں: 
پہلی بات یہ کہ کارکن اچھی طرح سمجھ لے کہ اس کی تخلیق کا مقصد، اور اس کے وجود کا اعلیٰ ترین ہدف یہ ہے کہ وہ اللہ کی طرف بلانے والا بن جائے، دل میں یہ شعور ہر وقت بیدار رہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس کا دل سوز وتپش سے تڑپ اٹھے۔ جب وہ ایک طرف بڑھتے ہوئے بگاڑ کو دیکھے، اور دوسری طرف مسلمانوں کی بدحالی اور کمزوری کو دیکھے، یہ سب دیکھ کر وہ بے چین ہو اٹھے، اور اصلاح ودعوت کے کام میں سرگرم ہوجائے۔
گویا اس کا شعور بیدا ر رہے، اور اس کا دل بے تاب رہے۔ شعور کی پختگی اور جذبے کی بے تابی کے ساتھ کارکن ہر وقت اصلاح وتعمیر کے کاموں میں سرگرم رہ سکتا ہے۔
جمیل: کارکنوں کے حوصلے ایک دوسرے سے متاثر ہوتے ہیں، یہ کیا چیز ہے؟
حوصلہ: تم نے میری دکھتی ہوئی رگ پر انگلی رکھ دی ہے۔ مجھے سب سے زیادہ تکلیف یہ دیکھ کر ہوتی ہے کہ اونچے حوصلے والے کارکن پست حوصلے والے کارکنوں سے متاثر ہوجاتے ہیں۔ اس طرح وہ بھی ہمت ہار جاتے ہیں، اورپڑاؤ ڈال دیتے ہیں۔
جمیل: یہ کیسے ہوجاتا ہے؟ ہمارے ہاں محاورہ مشہور ہے کہ پستی میں بھونکنے والے کتے اونچائی پر اڑنے والے بادلوں کا راستہ نہیں روک پاتے ہیں۔
حوصلہ: یہ صحیح ہے، لیکن یہاں معاملہ ذرا مختلف ہے۔ جب زمین کی پستیوں میں رینگنے والوں کی تعداد زیادہ ہوجاتی ہے، تو وہ آسمانی عزائم رکھنے والوں کو بھی متاثر کردیتے ہیں۔ اسی لیے بعض بزرگ کہا کرتے تھے: ’’کسی کند ذہن کی نشو ونما اگر اہل علم کے درمیان ہوئی ہو، تو وہ اس ذہین سے زیادہ قابل اعتماد ہے جس نے نادانوں اور جاہلوں کے بیچ رہ کے پرورش پائی ہو‘‘۔
اس سے سمجھ سکتے ہو کہ صحبت ورفاقت کا کتنا اثر ہوتا ہے۔
جمیل: کارکنانِ دعوت پر یہ بات کیسے صادق آتی ہے؟
حوصلہ: یوں سمجھو کہ دو کارکن ہیں۔ ایک کا حوصلہ آسمان کی بلندیوں کو چھوتا ہے، اور دوسرے کا حوصلہ زمین کی پستیوں میں قید ہے۔ یا تو آسمانی حوصلے والا اپنے دل کی تپش سے اپنے ساتھی کے حوصلوں کو بھڑکادے گا، اور وہ اس کے شانہ بہ شانہ سرگرم ہوجائے گا، یا پھر زمینی حوصلے والا اپنے دل کا جمود اپنے ساتھ والے کے دل میں منتقل کردے گا، اور اپنے دل کی طرح اس کے دل کی آگ بھی ٹھنڈی کردے گا۔
جمیل: اچھا، مجھے اعلیٰ حوصلے اور بھرپور سرگرمی کی کوئی مثال دے کر سمجھاؤ۔
حوصلہ: تم کو خود لوگوں کے لیے مثال بننا ہے، پھر بھی میں تمھیں ایک مثال دوں گا۔تصور کرو جب حضرت موسیٰ علیہ السلام مدین میں پانی کے پاس پہنچے، وہاں لوگ اپنے اپنے مویشیوں کو پانی پلارہے تھے، اور دو لڑکیاں الگ کھڑی انتظار کررہی تھیں۔ حضرت موسٰی کے پوچھنے پر انھوں نے کہا: جب تک سب لوگ پانی پلاکر ہٹ نہیں جائیںگے، ہم پانی نہیں پلاسکیں گی، اور ہمارے باپ بہت بوڑھے ہوگئے ہیں۔اس بارے میں سیدقطب شہیدؒ لکھتے ہیں: 
’’دیکھو موسیٰ علیہ السلام کو، تھکے ماندے، لمبا سفر کر کے پہنچے ہیں، سفر بھی ایسا کہ نہ کوئی سامان اور نہ کوئی تیاری، پیچھے سے بے رحم دشمنوں کے تعاقب کا اندیشہ۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ، لیکن انسانیت ، بھلائی، ہم دردی، حق کی ادائیگی اور مدد کے جذبوں نے آواز دی تویہ سب کچھ ذرا رکاوٹ نہ بنا، اور انھوں نے آگے بڑھ کردونوں لڑکیوں کے مویشیوں کو پانی پلادیا‘‘۔
جمیل: اللہ اکبر! یہ تو بڑے حوصلے کی بات ہے، اتنا تھکا ہونے کے باوجود اللہ کی خاطر اتنی سرگرمی!! واقعی یہ بہت خوب صورت مثال ہے۔ اب ایک مثال اس زمانے کی بھی دیجیے۔
حوصلہ: میں تمھیں ایک تحریکی بزرگ شیخ محمد محمود صواف کے بارے میں بتاتا ہوں۔ وہ خود لکھتے ہیں: ’’ ایک مرتبہ میرے کم سن بیٹے مجاہد نے مجھ سے شکایت کے لہجے میں پوچھا: ابوجان، آپ ہمارے ساتھ کب کھانا کھائیں گے؟
میں اسے کیا جواب دیتا، اللہ جانتا ہے، میں تحریک کے نوجوانوں اور بزرگوں کے ساتھ کس طرح ہر وقت مشغول رہتا ہوں۔ تحریک میں اگر زیر تربیت افراد سے مسلسل ملاقاتیں، اور مسلسل رابطے نہ رکھے جائیں تو رجال سازی اور مردان کار کی تیاری کا کا م نہیں ہوسکتا‘‘۔
داعی کی یہی شان ہے۔ اسے بلند حوصلہ ہونا چاہیے، نہ غفلت کا سایہ پڑے، اور نہ رفتار سست پڑے۔ کیونکہ شیخ محمد احمد راشد کے بقول: ’’داعی کی غفلت بڑی مصیبت ہے۔ اس سے    فتح ونصرت کے دروازے بند ہوجاتے ہیں، کیونکہ یہ دروازے جہد مسلسل سے کھلا کرتے ہیں۔ دوسری طرف اُخروی اجر وثواب سے محرومی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے کہ اس کے لیے محنت ضروری ہے‘‘۔
جمیل: یہ بہت خوب صورت تصویریں ہیں۔ دین کے داعیوں اور دینی تحریک کے کارکنوں کو اسی طرح طاقت ور جذبے اور بلند حوصلے سے آراستہ ہونا چاہیے۔
حوصلہ: بلا شبہہ، اور اسی لیے شیخ عبد اللہ علوان کہتے تھے: ’’جب ایک داعی اپنے مشن، اپنے معاشرے اور مسلم امت کی اتنی ہی فکر کرنے لگے، جس قدر فکر وہ اپنی روزی، اپنے گھر اور اپنے بیوی بچوں کی کرتا ہے، تو پھر ہم کہیں گے کہ اسلامی دعوت کا مشن اس کے فہم وشعور کے مرکز میں جاگزین ہوگیا، اور اس کے وجدان کی گہرائی میں اتر گیا‘‘۔
جمیل:(فجر کی اذان سنتے ہوئے) میں تمھارا احسان مند ہوں، تم نے مجھے بہت اہم سبق یاد دلائے ہیں۔ اب مجھے نماز کی تیاری کرنا ہے ، آخری نصیحت اور کردو۔
حوصلہ: میں تمھیں ایک قصہ سناتا ہوں۔اپنے حوصلوں کی انگیٹھی دہکانے میں تمھیں اس سے مدد ملے گی۔
 کہا جاتا ہے کہ ایک آدمی نے اپنے بیٹے کو کچھ پونجی دے کر تجارتی سفر پر روانہ کیا، مقصد یہ تھا کہ اسے آگے کے لیے تیار کرے۔
وہ سفر پر نکلا تو راستے میں دیکھا ایک لاغر سی لومڑی ایک طرف پڑی ہوئی ہے۔ اس نے سوچا کہ یہ بے چاری لومڑی کہاں سے روزی حاصل کرتی ہوگی؟ وہ رک کر سوچنے لگا۔ پھر اس نے دیکھا کہ ایک شیر اپنا شکار اٹھاکر لایا اور اسے پیٹ بھر کھایا اور باقی چھوڑ کر چل دیا، تب لومڑی نے آگے بڑھ کر اس بچے کھچے شکار میں سے کچھ حصہ کھالیا۔
 نوجوان نے دل میں سوچا کہ جب اللہ نے سب بندوں کے رزق کی ذمہ داری لے رکھی ہے تو میں کیوں خود کو تھکاؤں۔ وہ واپس گھر لوٹا اور اپنے باپ کو پوری بات بتائی۔ باپ نے کہا:
 ’’ بیٹامیں نے سوچا تھا کہ تم ایک شیر بنو گے کہ جس کی محنت سے لومڑیاں بھی اپنا پیٹ بھرسکیں گی،نہ کہ تم لومڑی بن کر شیروں کے بچے کھچے کی راہ تکو گے‘‘۔
(حوصلے نے ایک لمحے کا توقف کیا اور پھر کہا): بلند حوصلہ کارکن خود آگے بڑھ کر سرگرمی اور جدوجہد کی ذمہ داری اپنے سر لے لیتا ہے۔ وہ سرگرم کارکنوں کے قدم سے قدم ملا کر چلتا ہے۔
 وہ دوسرے ساتھیوں کی سرگرمیوں پر اپنا گزارا نہیں کرتا ہے۔ وہ کم پر راضی نہیں ہوتا۔     وہ پست ہمتی کو پسند نہیں کرتا۔وہ جمود کو گوارا نہیں کرتا۔لوگ اسے دیکھ کر اپنی رفتار بڑھاتے ہیں۔ وہ اپنی رفتار طے کرنے کے لیے لوگوں کو نہیں دیکھتا۔
اس کی دعا ہوتی ہے: وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا ۝ (الفرقان ۲۵:۷۴) ’’اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا‘‘۔
جمیل: اللہ تم پر اپنی برکت نازل کرے، مجھے آئندہ بھی یاد کرتے رہنا۔ 
جمیل نے فون رکھ دیا، اورنئے جوش کے ساتھ کہا: امت کی تعمیر حوصلوں کی بلندی سے ہوگی۔
وہ نماز کے لیے نکلا، اس کے لبوں پر دعا تھی: اللّٰھُمَّ اجْعَلْنِي لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَاماً،یا اللہ! مجھے متقیوں کا امام بنادے۔ آمین!

ایک بزرگ بنانؒ کہتے ہیں: میں علامہ ابن عربیؒ کے یہاں گیا، وہ اپنے گھر پہ چاروں طرف کتابوں میں گھرے رہتے تھے۔ میں نے ان سے کہا: ’’ان تمام کتابوں کا خلاصہ مجھے دو مفید جملوں میں بتادیجیے‘‘۔ 
انھوں نے کہا: ’’تمھاری ساری کی ساری فکرمندی اس بارے میں رہے جس سے اللہ وحدہٗ لاشریک راضی ہو، اگر دل پر کوئی اور چیز آپڑے تو اسی وقت توبہ کرلو‘‘۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مجلس سے اٹھتے تو ساتھیوں کے ساتھ یہ دعا عموماً پڑھا کرتے تھے:
اَللّٰہُمَّ اقْسِمْ لَنَا مِنْ خَشْیَتِکَ مَا تَحُولُ بِہِ بَینَنَا وَبَینَ مَعَاصِیکَ، وَمِنْ طَاعَتِکَ مَا تُبَلِّغُنَا بِہِ  جَنّٰتِکَ وَمِنْ الْیَقِینِ مَا تُہَوِّنُ بِہِ عَلَیْنَا مُصِیْبَاتِ الدُّنْیَا وَمَتِّعْنَا بِأَسْمَاعِنَا وَأَبْصَارِنَا وَقُوَّتِنَا مَا أَحْیَیْتَنَا وَاجْعَلْہُ الْوَارِثَ مِنَّا وَاجْعَل ثَأرَنَا  عَلٰی مَنْ ظَلَمَنَا وَانْصُرْنَا عَلٰی مَن عَادَانَا  وَلَا تَجْعَلْ مُصِیْبَتَنَا فِی دِیْنِنَا وَلَا تَجْعَلِ الدُّنْیَا اَکْبَرَ  ہَمِّنَا وَلَا مَبْلَغَ عِلْمِنَا وَلَا تُسَلِّطْ عَلَیْنَا مَن لَا یَرْحَمُنَا [رواہ الترمذی، حدیث ۳۵۰۲]اے اللہ ہمیں اپنے ڈر کا وہ حصہ دے جو ہمارے اوپر تیری نافرمانیوں کے بیچ حائل ہوجائے، اپنی اطاعت کا وہ حصہ دے جس سے تو ہمیں اپنی جنت تک پہنچا دے، یقین کا وہ حصہ دے جس سے دنیا کی مصیبتیں ہمارے لیے آسان ہوجائیں، ہماری سماعت اور بصارت اور قوت کو جب تک ہم زندہ ہیں باقی رکھ۔ ہمارے وارث ہم ہی میں سے بنا، ہمارا انتقام ان کے خلاف کر جنھوں نے ہم پر ظلم کیا۔ جو ہم سے دشمنی کرے اس کے خلاف ہماری مدد کر اور دین کے معاملے میں ہمیں مصیبت میں نہ ڈال، اور دنیا کو ہماری سب سے بڑی فکر نہ بنادے اور نہ اسے ہمارے علم کی منزل بنا، اور نہ ہم پر انھیں مسلط کر جو ہم پر رحم کے روادار نہ ہوں۔
میں نے جب یہ دعا پڑھی تو میری روح سرشار ہوگئی۔ میں نے دہرا دہرا کر اسے یاد کرلیا۔ اب کیفیت یہ ہے کہ دعا کا ایک جملہ ہمیشہ رُکنے پر مجبور کردیتا ہے : ’’دنیا کو ہماری سب سے بڑی فکر نہ بنا‘‘۔
پھر ایک دن میں نے اپنے دل سے فکر مندی کو آواز دی کہ خود اسی سے اس کے بارے میں اور اپنے متعلق گفتگو کروں۔ یوں فکر مندی دل سے نکل کر میرے سامنے آن کھڑی ہوئی اور گفتگو شروع ہوگئی۔

میں: فکر کی تمھارے یہاں کتنی قسمیں ہیں؟

فکرمندی: دو قسمیں ہیں: دنیا کی فکر اور آخرت کی فکر۔رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی بتایا ہے: ’’جس کی فکر مندی آخرت کے لیے ہو، اللہ اس کے دل کو مال دار بنا دیتا ہے، اس کے کاموں کو اس کے لیے جمع کردیتا ہے، دنیا بے بسی کی حالت میں اس کے پاس آتی ہے۔ اور جس کی فکرمندی دنیا بن جائے اللہ اس کی محتاجی کو اس کی نگاہوں کے سامنے کردیتا ہے، اس کے کاموں کو بکھیر دیتا ہے اور دنیا سے اس کو وہی ملتا ہے جو اس کے مقدر میں ہوتا ہے‘‘۔
میں: میں اپنے آپ کو کیسے جانوں؟ اور اپنی فکرمندی کو کیسے پرکھوں، سمجھوں؟
فکرمندی:رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں جو نشانیاں بتائی گئی ہیں ان سے بھی تم جان سکتے ہو۔ اسی طرح علامہ ابن قیمؒ کی اس عبارت سے بھی رہنمائی لے سکتے ہو:
 ’’جب بندہ صبح و شام کرے اور اس کی فکر صرف اللہ وحدہ ہو تو :
¤ اللہ سبحانہٗ اس کی تمام ضروریات کا ذمہ لے لیتا ہے۔ ¤ اس کی ہر فکر مندی کو اٹھا لیتا ہے۔ ¤ اس کے دل کو اپنی محبت کے لیے خالی کردیتا ہے۔ ¤ اس کی زبان کو اپنی یاد کے لیے یکسوکردیتا ہے۔ ¤ اس کے اعضا وجوارح کو اپنی اطاعت کے لیے فراغت دے دیتا ہے۔
میں: اپنے روزمرہ کو ذہن میں لا رہا ہوں تو مجھے شرمندگی اور گھبراہٹ نے آن گھیرا ہے۔
فکرمندی: گھبراہٹ مسئلے کا حل نہیں، بلکہ یہ سوچو کہ جس  کی فکر پر دنیا سوار ہوتی ہے، وہ اسی میں اُلجھا رہتا ہے۔ اسی کے لیے منصوبہ بناتا ہے، آخرت پر اسے ترجیح دیتا ہے ۔
میں: اس نامناسب کیفیت کو کس طرح جان سکتا ہوں؟
فکرمندی: اسے جاننے کی نشانیاں یہ ہیں:
¤ اللہ اس پر دنیا کی فکروں، الجھنوں اور غموں کو مسلط کردیتا ہے۔¤ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے ۔¤ اللہ اس کا دل اپنی محبت سے ہٹا کر مخلوقات کی محبت میں گرفتار کردیتا ہے۔¤ اس کی زبان کو اپنے ذکر کے بجاے دوسروں کے ذکر میں مصروف کردیتا ہے۔¤ اس کی صلاحیتوں کو اغیار کی خدمت میں مصروف کردیتا ہے۔ پھر وہ جانوروں کی طرح مارا مارا پھرتا ہے۔ (’’جوشخص رحمٰن کے ذکر سے تغافل برتتا ہے، ہم اس پر ایک شیطان مسلط کر دیتے ہیں اور وہ اس کا رفیق بن جاتا ہے‘‘۔(الزخرف۴۳:۳۶)
میں: مجھے تو لگتا ہے کہ میرے اندر دونوں طرح کی باتیں ہیں؟
فکرمندی: تمھارا احساس درست نہیں ہے۔ اللہ انسان کے دل میں دونوں فکروں کو جمع نہیں کرتا ہے: تو دنیا کی فکر ہوگی یا پھر آخرت کی فکر۔ تم شاید کہنا چاہتے ہو کہ کبھی کبھی آخرت کی فکر کی علامت کی جگہ تم فکر دنیا کی کوئی علامت اپنے اندر پاتے ہو،یہ کوتاہی انسان میں ہوجایا کرتی ہے۔
عبدالقادر جیلانیؒ نے ایک لڑکے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’اے لڑکے تیری فکرمندی کی چیزیں کھانا پینا، پہننا،شادی کرنا،گھر بنانا ،مال جمع کرنا نہ ہوں۔ یہ سب تو نفس اور طبیعت کی فکریں ہیں‘‘۔ 
اُس نے پوچھا: یاشیخ! پھر دل کی فکرمندی کہاں ہے؟
فرمایا : ’’تمھاری فکرمندی وہ ہے جو تمھیں پریشان رکھے، تمھاری فکر تمھارا ربّ ہو اور ربّ سے ملاقات کی فکر ہو اور ربّ سے ملاقات ایک فکرمند دل ہی کے نصیب میں ہے‘‘۔
میں (جھجکتے ہوئے): آخرت کے لیے فکرمند دل کے اوصاف کیا ہیں؟
فکرمندی: امام محاسبیؒ نے اس کا بہت عمدہ جواب اشعار میں دیا ہے۔ (ترجمہ عربی اشعار):
نادان اسے خاموش اور گونگا سمجھتا ہے، ارے دانائی نے اسے خاموش رہنے کو کہا ہے۔بے وقوف اسے محض بکنے والا سمجھتا ہے، تاہم اللہ کے لیے، خیرخواہی اسے بولنے کو کہتی ہے اور وہ لایعنی باتوں سے مطلب نہیں رکھتا ہے۔ لوگ اس سے آرام پاتے ہیں، وہ اپنے آپ میں تھکتا رہتا ہے۔ اس نے خواہش کو اللہ کی مرضی کے تابع بنادیا اور لالچ کی سرکوبی پرہیزگاری سے کردی۔
میں: اللہ یہ صفات میرے اندر پیدا فرمائے۔جس کے اندر یہ صفات ہوں وہ تو ہمیشہ اللہ کو یاد کرتا ہوگا؟
فکرمندی: ہاں، یہ درست ہے۔ دن میں پانچ نمازیں اسی لیے فرض کی گئی ہیں کہ دل دو ہی حالتوں میں رہے: نماز یا نماز کا انتظار۔ ہمیشہ اللہ کے ساتھ رہے ۔ ہمیشہ اللہ کی فکر میں ڈوبا رہے، اسی لیے تو جس کا دل مسجد میں نماز یا نماز کے انتظار میں اَٹکا رہتا ہے، اسے رحمان کے عرش کا سایہ ملے گا، اس دن جب اس کے سایے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہوگا۔
میں: فکر آخرت سے کیا مراد ہے؟
فکرمندی: آخرت قبر سے شروع ہوکر جنت یا دوزخ پر ختم ہوتی ہے۔ تم روزانہ بلکہ ہروقت اپنے دل اور اپنی فکر سے قبر کی زیارت کرسکتے ہو۔ امام محاسبیؒ نے نصیحت کی تھی: ’’ اپنی فکرمندی کے ذریعے قبروں میں ہو آیا کرو، اپنے دل پر سوار ہوکر میدان حشر میں ٹہل آیا کرو‘‘۔
میں: صالح فطرت لوگ آخرت کے لیے کس طرح فکر مند رہتے تھے؟
فکرمندی: توجہ  سے سنو!
…  ابراہم یمنیؒ کا بیان ہے:دو چیزوں نے دنیا کی لذت مجھ سے کاٹ دی، موت کی یاد اور اللہ عزوجل کے سامنے کھڑے ہونے کی فکر۔
…  کعبؒ کہتے ہیں: جو موت کو سمجھ لے، دنیا کی مصیبتیں اور فکریں اس کے لیے آسان ہوجائیں۔
صحابہ کرامؓ تو ہر آن آخرت کے بارے میں فکرمند اور جنت کے مشتاق رہا کرتے تھے۔
میں: لیکن میں دنیا کی فکر کو دل سے کیسے نکالوں؟
فکرمندی: تم ایسا نہیں کرسکتے۔ کیوں کہ تم دنیا میں رہتے ہو ، اور قدرت حق کے قانون کے تحت اس کے ساتھ میل جول رکھنا ناگزیر ہے۔ تاہم، اسے اپنے ہاتھ میں لو، اپنے دل میں مت بٹھائو۔ پانی کی طرح کہ کشتی میں بھرجائے تو اسے ڈبودے اور کشتی کے نیچے رہے تو اسے سہارا دے۔
میں: مگر میں اس سے پوری طرح چھٹکارا پانا چاہتا ہوں؟
فکرمندی: تم ناممکن کی بات کررہے ہو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا پر غور نہیں کیا: ’’دنیا کو میری سب سے بڑی فکر نہ بنا‘‘۔ 
فکریں بہت ساری ہوسکتی ہیں، ان کا تعلق مفید امور سے ہوسکتا ہے، البتہ یہ خیال رہے کہ دنیا سب سے بڑی فکرمندی نہ بن جائے۔
حکیم ابن مقفع کی یہ بات سنا کر فکرمندی دوبارہ میرے دل میں اپنا نقش ثبت کرکے چلی گئی: ’’کتنے لوگ ہیں کہ جنھوں نے دنیا حاصل کرنا چاہی اور اس کے لیے یکسو ہوگئے، مگر پھر دنیا ان سے چھین لی گئی۔ کوششیں ان کے اعمال نامے میں لکھ دی گئیں، دنیا دوسروں کے قبضے میں چلی گئی، اور ان کا مال ان ہاتھوں میں چلا گیا جو انھیں پسند بھی نہیں تھے‘‘۔

گفتگو: بدی سے

اتوار کی رات، ٹھیک گیارہ بجے، میں ہفتہ بھر کی مصروفیات سے فارغ ہوچکا تھا۔
اب میں کیا کروں؟ میرے پاس فرصت کے طویل اوقات تھے۔ میں کمرے میں تنہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ میں کیا کروں؟
میرے دل میں ایک بُرے کا م کا خیال آیا اور اسی لمحے میں اس پر آمادہ ہوگیا۔ دروازہ اور کھڑکیاں بند کرلیں۔ اب کمرے میں مجھے دیکھنے والا کوئی نہیں تھا۔ 
میں اس بُرے کام کو کرنے ہی والا تھا کہ میرے کانوں سے ایک آواز ٹکرائی:
 ’’افسوس ہے اس بندے پر جس کے گناہ بڑھتے جارہے ہیں اور توبہ کم ہوتی جارہی ہے۔ وہ قبر سے جتنا نزدیک ہورہا ہے، اس کی غفلت میں اور اضافہ ہورہا ہے۔
 اے گناہ گار! تجھے شرم نہیں آتی۔ تیری تنہائی میں بھی اللہ تیرے ساتھ ہے۔ 
تیرا ربّ تجھے ڈھیل دے رہا ہے اور تیرے گناہوں پر پردہ ڈالے ہوئے ہے مگر تُو اور زیادہ ڈھیٹ ہوگیا ہے‘‘۔
میں چونک پڑا۔ خوف سے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ کون ہے؟ یہ کس کی آواز ہے؟
یکایک مجھے ایک سیاہ سی مخلوق نظر آئی، میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا تم کون ہو؟
اس نے کہا: ’’میں تمھاری بدی ہوں‘‘۔
میں: تم رات گئے کیوں آئی ہو؟
بدی: تمھیں نصیحت کرنے۔
میں: بدی اور نصیحت؟
بدی: ہاں، سمجھ دار کے لیے بدی میں بھی نصیحت کا سامان ہے۔
میں: تمھیں کیا کہنا ہے؟
بدی: کیا تم سمجھتے ہو کہ تم یہاں تنہا ہو؟
میں: کیا مطلب؟
بدی: تم جب گناہ کرنے جارہے تھے تو بڑے مطمئن لگ رہے تھے ۔ کیا تمھیں حساب کے دن کا خوف نہیں ہے؟ تم دیواروں کی آڑ میں انسانوں سے تو چھپ سکتے ہو، مگر کاش! تمھیں احساس ہوتا کہ تم اللہ کی نگاہ میں ہر وقت رہتے ہو۔
میں: مگر میں تو نیکی کے کام بھی کرتا ہوں، جن سے اللہ خوش ہوتا ہے۔
بدی: تنہائی میں گناہ کرنے سے اللہ کے ساتھ بندے کا تعلق خراب ہوجاتاہے اور اس کی نیکیاں مٹی میں مل جاتی ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
’’میں اپنی امت کے ایسے بہت سارے لوگوں کو اچھی طرح جانتا ہوں، جو قیامت کے دن اتنی نیکیاں لائیں گے جیسے کہ تہامہ کے سفید پہاڑ، مگر اللہ ان سب کو راکھ کی طرح اڑا دے گا‘‘۔ 
صحابی رسول ثوبانؓ نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسولؐ! ہمیں ان کے بارے میں بتائیے، وہ کیسے لوگ ہیں؟ کہیں انجانے میں ہم بھی انھی میں شامل نہ ہوجائیں‘‘۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سنو! وہ تمھارے ہی بھائی ہیں، تمھاری طرح رہتے ہیں، تمھاری طرح شب بیداری بھی کرتے ہیں، لیکن ان کا حال یہ ہے کہ تنہائی میں گناہ کرنے کا موقع ملتا ہے تو کرڈالتے ہیں‘‘۔
میں: یہ حدیث تو دل دہلادینے والی ہے۔
بدی: اسی لیے میں تمھیں خبردار کررہی ہوں، اور یہ بھی سن لو کہ جب تم تنہائی میں گناہ کرتے ہو تو خدا کے ساتھ خلق خدا سے بھی تمھارا تعلق بگڑ جاتا ہے۔ لوگ تم سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔
میں: لیکن لوگوں کو کیا پتا کہ میں تنہائی میں کیا کرتا ہوں؟
بدی: یہ بات صحابی رسول حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے بتائی ہے۔ وہ کہتے ہیں:  ’’بندہ تنہائی میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنا غصّہ مومنوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے اور اس کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا‘‘۔
میں: لیکن میرے گناہ تو بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اتنے چھوٹے چھوٹے گناہوں سے میرا اعمال نامہ خراب نہیں ہوگا۔
بدی: قطرے قطرے سے دریا بن جاتا ہے اور میں تو خود بدی ہوں،میں تم سے زیادہ جانتی ہوں کہ انسانوں کے نامۂ اعمال کو قیامت کے روز کتنا خراب کردوں گی۔ ظاہر ہے چیونٹی اپنے گھر کے بارے میں جتنا جانتی ہے، اُونٹ چیونٹی کے گھر کے بارے میں اتنا نہیں جان سکتا۔
میں: یہ سب باتیں پہلے میری سمجھ میں کیوں نہیں آئیں؟ میں تو بڑی خطرناک غفلت میں اوندھے منہ پڑا تھا۔ میں تو دنیا کی رنگینیوں سے دھوکا کھا گیا۔
بدی:اللہ کے بندے، اٹھو، ابھی گنجایش ہے، تم تلافی کرسکتے ہو۔ مجھے اچھی طرح پہچان لو، میں بدی ہوں۔ قیامت کے دن ہلاکت کا سبب، بندوں کے بغض ونفرت کی و جہ، نیکیوں میں سے برکت اٹھانے والی، حافظے اور علم دونوں کے لیے مہلک۔
میں: اوہ، تو یہ سب کچھ تمھاری ہی و جہ سے ہے۔
بدی: یہی نہیں، اس سے بھی زیادہ۔ یہ سمجھ لو کہ ہر بدی دوسری بدی کو جنم دیتی ہے۔نیکی کا ثواب یہ بھی ہے کہ اس کے بعد دوسری نیکی کی توفیق ملے، اور بدی کی سزا یہ بھی ہے کہ اس کے بعد دوسری بدی سرزد ہو۔
میں: مگریہ بتائو کہ اب میں کیا کروں؟ 
میں تو گناہ کا ارادہ کرچکا ہوں ، اسے کرنے کے لیے کمرے کا دروازہ اور کھڑکیاں بند کرچکا ہوں۔ میرا یہ گناہ تو درج ہو ہی گیا ہوگا؟
بدی: نہیں، ایسا نہیں ہے بلکہ بندہ جب بدی کا ارادہ کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ڈر سے اسے نہیں کرتا ہے تو اس کے نامۂ اعمال میں ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے۔ حدیث قدسی میں ہے: ’’جس نے بدی کا ارادہ کیا مگر اس کا ارتکاب نہیں کیاتو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک مکمل نیکی اپنے پاس لکھ لیتا ہے‘‘۔
اس لیے توبہ کا دروازہ کھٹکھٹائو۔ اپنے کمرے کا دروازہ اور کھڑکیاں بند رہنے دو۔ کمرے میں اندھیرا کرلو ،مگر کس لیے ؟ 
اللہ کی عبادت کے لیے۔کیوں کہ تنہائی کی بدی کو تنہائی کی نیکی سے مٹایا جاتا ہے۔

میرا سایہ اچانک پکار اٹھا : میں تمھارے ساتھ چلتے چلتے اُکتا چکا ہوں۔
میں: کیوں؟
سایہ: کیوں کہ تم مجھے وہاں وہاں لیے پھرتے ہو، جہاں جانا میری فطرت کے خلاف ہے۔ تمھارے کاموں پر بظاہر خوب صورتی اور چمک دکھائی دیتی ہے، لیکن اندرون میں ریاکاری کا اندھیرا ہوتا ہے۔ کاش میں تمھارا سایہ نہ ہوتا!
میں: تم مجھے چھوڑنا چاہتے ہو، لوگ تو مجھ سے ملنے کے خواہاں رہتے ہیں۔ حیرت ہے تمھاری راے پر!
سایہ: اخلاق کے جوہر تو ساتھ رہنے پر ہی کھلتے ہیں۔ لوگ میری طرح تمھارے ساتھ نہیںرہتے۔ تم اپنے دل میں دیکھو گے تو سیاہی ہی نظر آئے گی۔
میں: اس سیاہی کا سبب کیا ہے؟
سایہ: جب کاموں سے اخلاص رخصت ہوجائے اور معاملات میں دکھلاوا اور ریاکاری شامل ہوجائے تو دل سیاہ ہوجاتے ہیں۔
میں: کیا یہ چیز واقعی دل پر اس درجہ اثر کرتی ہے؟
سایہ: ہاں! اخلاص ہی تو عمل کی اساس ہے۔ اسی لیے کہا گیا ’جو انسان اخلاص سے خالی ہو، اس سے کہہ دو کہ اپنے آپ کو تھکانے کی کوئی ضرورت نہیں‘‘۔اللہ تعالیٰ نے بھی اس کا حکم دیا ہے: ’’انھیں تو صرف اس بات کا حکم دیا گیا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں، دین کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے‘‘۔(البینۃ ۹۸:۵)
امام محاسبیؒ بیان کرتے ہیں: ’’ جب درخت کی جڑیں باہر نظر آنے لگتی ہیں تو وہ سیراب ہونا بند کردیتا ہے۔ پھر اس کے پتّے سوکھنے لگتے ہیں، وہ پھل دینا بند کردیتا ہے اور اس کی قدر وقیمت گھٹ جاتی ہے۔ لیکن اگر اس کی جڑیں زمین کے اندر ہوں تو وہ خوب سیراب ہوتا ہے خوب سرسبز و شاداب رہتا ہے اور اچھے پھل دیتا ہے۔ یوں اس کی قدروقیمت بھی بڑھ جاتی ہے‘‘۔
میرے دوست اسی طرح جب تمھارا عمل اللہ کے لیے خالص ہوگا، اللہ کی شریعت میںاس کی جڑیں ہوں گی، تو انجام بھی خوب ہوگا۔
میں: لیکن یہ کام تو میرے لیے بہت دشوار ہے۔
سایہ: تم صحیح کہہ رہے ہو، اس کی و جہ یہ ہے کہ نیت وہ سب سے بڑا دروازہ ہے، جس سے شیطان کو آنے کا موقع ملتا ہے۔ وہیں سے وہ آدمی کے عمل کو بگاڑتا ہے۔ امام سفیانؒ نے اسی لیے تو کہا تھا: ’’ مجھے سب سے زیادہ دشواری اور مشکل اپنی نیت کی اصلاح میں پیش آتی ہے‘‘۔
میں: لیکن لوگ تو نہیں جانتے کہ میں ریاکار ہوں؟
سایہ: ذرا سوچو، کیا تمھارا معاملہ لوگوں کے ساتھ ہے یا لوگوں کے ربّ کے ساتھ ہے؟  اور پھر اللہ تعالیٰ سے تو کوئی چیز چھپنے والی نہیں ہے۔ سیدقطب شہیدؒنے تو لکھا ہے:
اس کے یہاں قیامت کے دن ہر چیز بے نقاب ہوگی۔ جسم بے نقاب، نفس بے نقاب، ضمیر بے نقاب، عمل بے نقاب، انجام بے نقاب، رازوں پر سے تمام پردے گرپڑیں گے، اور جسموں کی طرح روحیں بھی بے لباس ہوجائیں گی۔
اس دن لوگ تمھارے کام نہیں آسکیں گے میرے دوست۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ اپنے عمل میں اخلاص پیدا کرو۔ چھپ کر عبادت کرو، تاکہ شیطان تمھاری نیکیاں چوری نہ کرلے۔
 میں تمھیں ایک بزرگ کاواقعہ سنائوں: ’’انھوں نے چالیس سال ایسے روزہ رکھنے کا اہتمام کیا کہ کوئی نہیں جان سکا۔ گھر سے روز روٹیاں لے کر بازار کے لیے نکلتے تھے۔ وہاں انھیں صدقہ کرکے خود روزے سے رہتے تھے۔ گھر والے سمجھتے تھے کہ بازار میں جاکر کھالیا اور بازار والے سمجھتے رہے کہ گھر سے کھا کر نکلے ہیں‘‘۔
میں: میرے سایے ،تو نے میرے سوچنے کا زاویہ ہی بدل دیا لیکن یہ تو بتا کہ ریاکار اور ظاہردار کی علامتیں کیا ہیں؟
سایہ: حضرت علیؓ فرماتے ہیں: 
ریاکار کی تین نشانیاں ہیں: جب وہ تنہا ہوتا ہے تو سستی کرتا ہے۔ لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے تو چاق وچوبند ہوجاتا ہے۔ تعریف ہو تو عمل زیادہ کرتا ہے ، مذمت ہو تو عمل کم کرتا ہے۔
میں: افسوس صد افسوس! میرے تو سارے کام بے کار اور برباد گئے۔
سایہ: نیا عزم کرو، اللہ کے ساتھ اپنے عہد کی تجدید کرو۔ عمل میں اخلاص کے لیے ہمیشہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ تمھارے عمل میں بھی وہی برکت دے، جو اس نے عمر بن عبدالعزیزؒ کے عمل میں دی تھی۔
میں: اخلاص نے عمر بن عبدالعزیزؒ کی شخصیت کو کیسے بابرکت بنا دیا تھا؟
سایہ: عمر بن عبدالعزیزؒ کے چچا زاد بھائی ہشام بن عبدالملک ان کے بارے میں کہتے تھے: ’’میں سمجھتا ہوں کہ عمر کے ہر قدم کے ساتھ نیک نیتی کارفرما ہوتی تھی‘‘۔
 اس پر شیخ راشد لکھتے ہیں:’’ اسی لیے عمر بن عبدالعزیزؒ نے دو سال سے بھی کم مدت میں دونسلوں کے ٹیڑھ کو درست کردیا‘‘۔
 آج بھی داعی اسلام کو چاہیے کہ وہ اس بگاڑ کو بہت بڑا نہ سمجھے جو پورے عالم اسلام پر چھایا ہوا ہے، کیوںکہ اگر اس کے بھی ہر قدم کے ساتھ خلوص نیت شاملِ حال رہا تو اللہ کے حکم سے دو سال سے کم عرصے میں وہ دونوں طاقتوں کو شکست دے سکے گا۔
میں: تمھاری بات تو پہاڑوں کو ہلا ڈالنے والی ہے۔ میں بھی ان شاء اللہ اب نیک نیتی کے ساتھ حرکت وعمل کے میدان میں کود پڑوں گا۔
سایہ: میرے دوست اپنے آپ کو اخلاص کے لیے آمادہ کرنا شروع کردو اور حسن نیت کے ساتھ میدان عمل میں آجائو، قبل اس کے کہ تمھارا سایہ تمھیں جلا ڈالے۔
میں: کیا کہا آپ نے؟ سایہ اور جلاڈالے؟
سایہ: ہاں میرے دوست! سایے بھی دو طرح کے ہوتے ہیں:
عذاب کا سایہ، جب قیامت کے دن اللہ پاک کہے گا:
اِنْــطَلِقُوْٓا اِلٰى مَا كُنْتُمْ بِہٖ تُكَذِّبُوْنَ۝۲۹ۚ اِنْطَلِقُوْٓا اِلٰى ظِلٍّ ذِيْ ثَلٰثِ شُعَبٍ۝۳۰ۙ  لَّا ظَلِيْلٍ وَّلَا يُغْنِيْ مِنَ اللَّہَبِ۝۳۱ۭ [المرسلات۷۷: ۲۹-۳۱] چلو اس سایے کی طرف جو تین شاخوں والا ہے، نہ ٹھنڈک پہنچانے والا اور نہ آگ کی لپٹ سے بچانے والا۔
دوسرا رحمت کا سایہ جس کے بارے میں رب کریم نے فرمایا: 
وَاَصْحٰبُ الْيَمِيْنِ۝۰ۥۙ مَآ اَصْحٰبُ الْيَمِيْنِ۝۲۷ۭ  فِيْ سِدْرٍ مَّخْضُوْدٍ۝۲۸ۙ  وَّطَلْحٍ مَّنْضُوْدٍ۝۲۹ۙ  وَّظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ۝۳۰ۙ  وَّمَاۗءٍ مَّسْكُوْبٍ۝۳۱ۙ [الواقعہ ۵۶:۲۷ - ۳۱] اور دائیں بازو والے، دائیں بازو والوں کی خوش نصیبی کاکیا کہنا، وہ بے خار بیریوں اور تہہ بہ تہہ چڑھے ہوئے کیلوں اور دو رتک پھیلی ہوئی چھائوں اور ہردم رواں پانی میں ہو ں گے۔
امام قرطبیؒ کہتے ہیں:’’جنت میں دھوپ نہیں ہوگی، جنت میں تو سایہ ہی سایہ ہوگا‘‘۔
تو میرے ساتھی خود ہی طے کرو تم کون سا سایہ پسند کرو گے؟

اور غفلت

میں دار المطالعے میں داخل ہوا تو کیا دیکھا کہ ایک کتاب زمین پر پڑی ہوئی ہے۔ میں نے تعجب سے سوچا، اسے یہاں کس نے ڈال دیا ہے؟ میں تو کتابیں سلیقے سے رکھنے کا شوقین ہوں، پھر اسے زمین پر کس نے گرادیا؟ کیا یہ خود ہی گرپڑی ہے یا کسی اور نے میری کتاب کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی ہے؟ میں نے کتاب اٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ کتاب میں سے یکایک ایک لفظ زمین پر گرپڑا۔ میں نے اسے اٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا، تو اس نے کہا: ’مجھے مت پکڑو‘۔ میں نے تعجب سے دیکھا تو یہ لفظ تھا: ’غفلت‘۔
میں:کیا الفاظ بھی بولتے ہیں؟
کتاب : ہاں، جب غفلت حد سے بڑھ جاتی ہے تو الفاظ بھی پکاراٹھتے ہیں۔
میں: کیا مطلب؟ کیا میں غافل ہوں؟
غفلت: تمھارا دل ایمانی کیفیات سے غافل ہے۔ اب دیکھو نا، تمھارے اندر مراقبے اور غوروفکر کی کمی ہے ۔ مجاہدے کی کمی ہے۔ نہ احتساب ہے اور نہ توبہ اور انابت ہے۔
میں: ہاں تمھاری بات تو صحیح ہے۔ میں فکری اور تحریکی لحاظ سے تو ٹھیک ہی ہوں، لیکن میری زندگی کا ایمانی پہلو کمزور ہے، روحانی غفلت میری زندگی کا حصہ بن چکی ہے۔ لیکن اے غفلت! یہ تو بتا اس کا سبب کیا ہے؟
غفلت: آہ! غافلوں کے ساتھ رہنا ہی اس کا سبب ہے۔ وہ بدی کو اچھا بنا کر پیش کرتے ہیں اور برائیوں کو خوبصورت لباس میں دکھاتے ہیں۔ اسی لیے تو اللہ نے ان کے ساتھ رہنے اور ان کی بات سننے سے منع فرمایا ہے:
وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوٰىہُ وَكَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًا۝۲۸ (الکہف۱۸:۲۸)اس کی بات مت مانو جس کے دل کو ہم نے غافل کردیا اور اس نے اپنی خواہشِ نفس کی پیروی کی۔ 
میں: کیسے معلوم ہو کہ دل غفلت کا شکار ہے؟
غفلت: سید قطب شہیدؒ کے الفاظ میں: ’’جب انسان کی پوری توجہ اس کی ذات، اس کے مال، اس کے بچوں، اس کے سازوسامان اور شہوتوں کی طرف ہوجائے اور وہ اپنے دل میں اللہ کے لیے کوئی جگہ نہیں چھوڑے‘‘۔
میں: تمھارا خیال ہے کہ غفلت والوں کی صحبت کا بھی اثر پڑتاہے، حالاںکہ جو خود غافل ہیں وہ دوسروں پر کیا اثر ڈالیں گے؟
غفلت: ارے اللہ کے بندے! لمحے بھر کے لیے سوچو کہ، دھواں گھر کو جلاتا نہیں مگر کالا تو کردیتا ہے۔
میں: یہ مثال تو بڑی پیاری ہے، لیکن یہ بتائو کہ ایمان کے تقاضوں سے غفلت کا، زندگی پر کیا اثر پڑتا ہے؟
غفلت: غافل کا حال یہ ہوتا ہے کہ جب اسے اللہ کے ساتھ تنہائی حاصل ہوتی ہے تو اس کے دل میں خوشی اور انبساط کا احساس نہیں پیدا ہوتا۔
اللہ کی یاد اور قرآن کی تلاوت اسے مسرور اور سرشار نہیں کرتے۔
اللہ کے دیدار کا شوق اس کے دل کو بے تاب نہیں کرتا۔
اسی لیے تو اللہ رب العزت نے کہا ہے:
وَاذْكُرْ رَّبَّكَ فِيْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّخِيْفَۃً وَّدُوْنَ الْجَــہْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ وَلَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِيْنَ۝۲۰۵  (اعراف۷:۲۰۵) اپنے رب کو صبح وشام یاد کیا کرو ،دل ہی دل میں زاری اور خوف کے ساتھ اور زبان سے بھی، ہلکی آواز کے ساتھ۔ تم ان لوگوں میں سے نہ ہوجائو جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔
میں: (پُرجوش ہوکر): ارے ہاں، یہی تو میری پریشانی ہے۔
میں لوگوں کی بھیڑ میں مل جل کر رہنا ہی پسند کرتا ہوں، اور مجھے اب اسی کی عادت پڑگئی ہے۔ اب اللہ کے ساتھ خلوت میں اور اس کی یاد میں مشغول رہنا مجھے راس ہی نہیں آتا۔ غفلت کے بارے میں مجھے کچھ اور بتائو۔
غفلت: تھوڑی دیر کے لیے مان لو کہ تم ایک بے آب وگیاہ صحرا میں گم ہوگئے ہو۔ کھانا پانی ختم ہوگیا ہے اور تم موت کے منہ کے قریب پہنچ گئے ہو اور پھر مایوس ہوکر اپنے آپ کو موت کے حوالے بھی کردیا ہے۔ابھی تم موت کا انتظار ہی کررہے ہو کہ دور ایک قافلہ نظر آیا اور تم اُٹھ کر اس کی جانب دوڑ پڑے۔ دوڑتے میںایک کانٹا تمھارے تلوے میں چبھ گیا اور تم رُک کر اسے دیکھنے لگے۔ اسی دوران میں پھر جو نظر اٹھائی تو دیکھا کہ قافلہ تو کسی ٹیلے کی آڑ میں چلاگیا ہے۔نظروں سے گم ہوگیا ہے۔
میں: اس میں بھلا غفلت کی کون سی بات ہے؟
غفلت: یہی کہ دنیا کے کانٹوں میں مصروف ہوجانا۔
میں:دنیا کے کانٹے کیا ہیں؟
غفلت: یہ کانٹے ہیں: دنیا سے وابستہ ہوجانا، دل کو پوری طرح مال ومنصب، زن اور زیب و زینت کی طرف جھکا دینا، اور ان چیزوں کو اللہ کے حقوق سے بھی بڑھ کر سمجھ لینا۔ 
یاد رکھو! جب غفلت چھاجاتی ہے ، خواہ وہ دل کی ہو یا زبان کی ، کان کی ہو یا آنکھ کی، تو اس وقت انسان کی سخت آزمایش ہوتی ہے۔
میں: مجھے ایک بزرگ کی بات یاد آگئی۔ ایک روز انھوں نے کہا تھا: ’’جب تم آزمایش زدہ کو دیکھو تو اللہ سے عافیت کی دعا مانگو‘‘۔ پھر مجھ سے کہنے لگے: ’’جانتے ہو آزمایش زدہ کون ہوتے ہیں؟ وہ جو اللہ سے غافل ہوں‘‘۔
غفلت: ہاں، یہ بہت سچی بات ہے۔ امام ابن جوزیؒ کہتے ہیں: 
خوش خبری اس کے لیے ہے جو نیند سے بیدار ہوجائے، ماضی کے بگاڑ پر آنسو بہائے اور پھر نافرمانی کے دائرے سے نکل کر نیکی کے دائرے میں آجائے۔ ہوسکتا ہے اس کا صحیح اعترافِ گناہِ، اس کے بُرے ارتکابِ گناہ کو مٹا دے۔ لیکن یہ اس دن سے پہلے ہو، جب اس کی بات بے سود اور اس کا عذر بے وزن ہوگا۔
یہ سن کر میری آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔
غفلت: کبھی کبھی داعی حق کے راستے کی ایک ٹھوکر اسے چونکا دیتی ہے کہ: ’’راستہ تو ابھی بہت کم طے ہوا ہے‘‘ اور پھر وہ عمل اور تقویٰ میں مزید اضافے کے لیے کوشاں ہوجاتا ہے۔ لیکن میں تمھیں یہ خوشی کی بات بھی بتائوں کہ ہر غفلت قابل مذمت نہیں ہوتی۔ غفلت کی ایک قسم پسندیدہ بھی ہے۔
میں: کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے؟
غفلت: ہاں، اور اسی کے بارے میں امام مطرف بن عبداللہؒ فرماتے ہیں کہ: ’’اگر مجھے یہ معلوم ہوجاتا کہ مجھے موت کب آئے گی، تو خوف سے میرا دماغ خراب ہوجاتا۔ یہ تو اللہ کا اپنے بندوں پر احسان ہے کہ وہ موت سے تھوڑا سا غافل بھی ہوجاتے ہیں، اور اگر ایسا نہ ہو تو نہ انھیں زندگی کا کوئی لطف ملے اور نہ زندگی کا کاروبار چل سکے‘‘۔میرے نام کا یہی ایک اچھا مفہوم ہے، لیکن لوگ اس سے بھی غافل ہیں۔
میں: قسم سے، تم نے سچ کہا۔
غفلت: ایک اور مفہوم بھی ہے غفلت کا، جس پر میں نے اب تک بات نہیں کی۔
میں: وہ کیا ہے؟ بتاؤ، آج میں غفلت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہتا ہوں۔
غفلت: لوگوں کا مذاق اڑانے اور ان کے عیبوں کو تلاش کرنے کا اصل سبب خود اپنے آپ سے غفلت ہے۔ امام عونؒ بن عبداللہ کے الفاظ میں:’’جس نے اپنے آپ کولوگوں کی عیب جوئی کے لیے فارغ کررکھا ہے، میں نے دیکھا کہ وہ اپنے آپ سے غافل ہے‘‘۔
سو، ا ے بندۂ خدا ہوشیار رہو، غفلت کو دل کے قریب بھی نہ پھٹکنے دو، تمھارا شمار متقیوں میں ہوگا اور متقیوں کی دعوت میں تمھیں بلایا جائے گا۔
میں: متقیوں کی کیسی دعوت؟
غفلت: قیامت کے دن متقی مومنوں کی تقریبِ دعوت۔ اس دن غافلوں سے کہہ دیا جائے گا : ’’آج ہم انھیں فراموش کردیں گے، کیوںکہ انھوں نے اس دن کی ملاقات کو فراموش کردیا تھا‘‘۔ (اعراف۷:۵۱)
میں نے کتاب کھولی اور گرے ہوئے لفظ ’غفلت‘ کو اُٹھا کر اس کی جگہ پر چسپاں کیا۔ کتاب اور اس کے الفاظ مطمئن تھے کہ انھوں نے ہوشیار کرنے کی ذمہ داری ادا کر دی اور میری زبان پر یہ دعا تھی: اللہم لا تجعلنی من الغافلین،’’ اے اللہ مجھے غافلوں میں مت بنا۔‘‘

اس کا چہرہ گرد سے اَٹا پڑا تھا۔ کپڑوں پر جگہ جگہ پیوند تھے۔ بھوک اور بدحالی چہرے سے صاف جھلک رہی تھی۔میں نے اسے بنک کی دہلیز پر سوتے ہوئے دیکھا۔ سورج کی کرنیں قریب تر ہوتے ہوتے اس کے سینے تک جاپہنچی تھیں۔ لیکن ان کی گرمی ابھی اسے محسوس نہیں ہوئی تھی۔ شاید بھوک کے مارے وہ رات بھرسو نہیں سکا تھا۔
میں اسے دیکھ کر گہری سوچ میں ڈوب گیا:’’اس فقیر کے اور دولت کے خزانے کے درمیان صرف چند میٹر کی دوری ہے۔ بخدا ہم تضادات کی دنیا میں جی رہے ہیں‘‘۔
میں نے جیب میں حرکت محسوس کی۔ ہاتھ ڈالا تو گرم اور متحرک سی چیز ہاتھ آگئی۔    نکال کردیکھا تو حیرت کی انتہا نہ رہی، یہ تو روپیہ ہے۔
میں نے کہا: میری جیب میں تمھیں کیا پریشانی تھی جونکلنے کے لیے یوں بے چین تھے؟
روپیہ : میں مدت سے تمھاری جیب میں ہوں، مگر تم نے میرے مقصد ِوجود کے مطابق کبھی میرے ساتھ معاملہ نہیں کیا۔
مـیں: تمھارے وجود کا کیا مقصد ہے؟
روپیہ : یہی کہ ذاتی ضروریات پر خرچ کرنے کے علاوہ اللہ کے بندوں کی مدد کی جائے۔ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں مجھے خرچ کیا جائے۔
مـیں:لیکن یہ بھی تو بتائو کہ تم میرے پاس کس طرح پہنچے؟
روپیہ : میری کہانی بہت لمبی ہے۔ میںبہت سے ہاتھوں میں گھومتا رہا ہوں۔ ایک شخص نے میرے بدلے شراب خریدی، دوسرے نے مجھے دے کر گندی فلمیں خریدیں،تیسرے نے چوتھے کو رشوت میں پیش کیا۔ اس نے تم سے ایک سامان خریدا اور میں تمھاری جیب میں آگیا۔   وہ سب دولت کے پجاری تھے، البتہ ابھی تمھارے بارے میں زیادہ کچھ معلوم نہیں ہے۔
مـیں: تمھیں کیسے پتا چلا کہ وہ دولت کے پجاری تھے؟
روپیہ : ان کا میرے ساتھ سلوک اس پر گواہ ہے۔ اسی لیے امام حسن بصریؒ نے کہا تھا: ’’ہر قوم کا ایک بت ہوتا تھا جسے وہ لوگ پوجتے تھے ۔اس قوم کا بت درہم و دینار [روپیہ] ہیں‘‘۔
 اور یہ بھی سن لو کہ اگر تم نے مجھے بھلائی کے کاموں میں خرچ نہیں کیا تو میں تمھیں جلادوں گا۔
مـیں: ارے یہ کیا کہہ رہے ہو؟
روپیہ : ہاں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’دردناک سزا کی خوش خبری دو ان کو جو سونے اور چاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اور انھیں خداکی راہ میں خرچ نہیں کرتے؟ ایک دن آئے گا کہ اسی سونے اور چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اسی سے ان لوگوں کی پیشانیوں ، پہلوئوں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا‘‘۔
مـیں: تم تو بہت خطرناک چیز ہو۔
روپیہ : ان کا حال دیکھو، جن کے پاس میں پہلے تھا۔ وہ برائیاں بوتے تھے اور نیکی کے پھلوں کی اُمید رکھتے تھے۔ کیا ببول کے درخت سے انگور بھی ملا کرتے ہیں۔ ان کے راستے سے ہوشیار رہو۔دیکھو، یہ بے چارا بھوک کا مارا فقیر جو تمھارے سامنے ہے، مجھے ا س کے حوالے کردو ۔ میں قیامت کے روز تمھارے حق میں گواہی دوں گا۔ تم اپنے اندر سفیانؒ ابن عیینہ جیسا احساس پیداکرو۔
مـیں: ابن عیینہ کون تھے اور ان کا احساس کیسا تھا؟ کچھ بتائو بھی تو سہی۔
روپیہ : وہ عظیم تابعی تھے ۔ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں آگے آگے رہتے تھے۔ ایک بار اپنے شاگرد کے ساتھ جارہے تھے کہ راستے میں ایک سائل ملا۔ اس دن ان کے پاس اسے دینے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ وہ رونے لگے۔ شاگرد نے کہا: ’’استاد محترم آپ رو کیوں رہے ہیں؟ ‘‘  انھوں نے جواب دیا: ’’کسی آدمی کے لیے اس سے بڑی مصیبت کیا ہوگی کہ اس سے بھلائی کی توقع کی جائے اور وہ توقع پوری نہ ہوسکے‘‘۔
مـیں: یہ تو بڑا لطیف احساس ہے۔
روپیہ : یہ احساس پیدا کرواور اپنی جوانی کے ان سنہرے اوقات کی قدر کرو، تاکہ اجر وثواب میں کئی گنا اضافہ ہو۔
مـیں: تو کیا بھلائی کے کاموں پر بڑھاپے اور جوانی کا فرق بھی اثر انداز ہوتا ہے؟
روپیہ : ہاں، ایک شخص رسول پاکؐ کے پاس آیا اور پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ سب سے عظیم صدقہ کیا ہے؟ 
آپؐ نے جواب دیا : وہ صدقہ جو تم تندرستی کی حالت میں دو ، دل میں مال کی محبت ہو اور فقیر ہوجانے کا اندیشہ ہو۔ 
علامہ ابن بطالؒ اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں: ’’چونکہ صحت ہوتی ہے تو مال سے محبت بھی بڑھ جاتی ہے۔ اسی لیے اس وقت صدقہ کرنا سچی نیت کی علامت اور زیادہ ثواب کا باعث قرار پایا۔ اس کے برخلاف ایک وہ آدمی ہوتا ہے جو اپنی زندگی سے مایوس ہوچکا ہوتا ہے اور اسے صاف نظر آتا ہے کہ اس کا مال اب دوسرے کی جھولی میں جانے والا ہے‘‘۔
مـیں: بخدا تم نے میرے ذہن کے کئی بند گوشے کھول دیے۔ لیکن کیا تمھیں ایسا نہیں لگتا کہ تم فتنے کا سبب ہو؟
روپیہ : یقینا میں ایک فتنہ ہوں۔ عام لوگوں کی بات چھوڑو۔ کتنے عالم، زاہد اور دین کے داعی ہیں جو میرے جال میں پھنس گئے۔ تم بہت سارے لوگوں سے ملوگے، جن کا لباس دین دارانہ اور جن کا دسترخوان زاہدانہ نظر آئے گا، لیکن وہ میری چمک اور کھنک برداشت نہیں کرپاتے۔
مـیں: تم درست کہہ رہے ہو۔ خدا مجھے فتنوں سے محفوظ رکھے اور قناعت کی دولت نصیب کرے۔پھر میں آہستہ سے فقیر کے قریب جابیٹھا۔اپنا ہاتھ اس کے شانے پر رکھا۔ وہ چونک کر  اُٹھ بیٹھا۔ میں نے کہا:
ڈرو مت، میں بھلا آدمی ہوں۔ یہ روپیہ لو اور اپنی مصیبتوں سے مقابلہ کرو۔
اس نے بے نیازی سے روپے لینے سے انکار کردیا اور بولا میں بھکاری نہیں ہوں۔
میں نے کہا: تم بھکاری نہیں ہو، لیکن ضروت مند توہو۔
میرے اصرار پر اس نے وہ روپیہ لے لیا۔

جا نماز سے

فجر سے کچھ پہلے اس کی آنکھ کھلی۔ اسے شدید پیاس کا احساس ہو رہا تھا۔ وہ بستر سے باہر نکلا۔ یکایک اسے فرش کی طرف سے کراہنے کی آواز آئی ۔ وہ غور سے دیکھنے لگا۔ آواز غائب ہوگئی۔  وہ پانی کے جگ کی طرف گیا، ایک گلاس پانی پیا اور دوبارہ آکر بستر میں گھس گیا۔ 
سردی اچھی خاصی تھی۔ کراہنے کی آواز دوبارہ سنائی دی۔ اس مرتبہ آواز اور تیز تھی۔ لگ رہا تھا کہ کوئی رو رہا ہے۔ اس نے لیٹے ہی لیٹے فرش کو ٹٹولا اس کے ہاتھ میں وہاں رکھی ہوئی جانماز آگئی۔ جانماز ہاتھ آتے ہی آواز بند ہوگئی۔
اس نے تعجب سے کہا: کیا تم ہی کراہ رہی تھیں؟
جانماز: ہاں۔
وہ: لیکن کیوں؟
جانماز:تمھیں تو تمھاری پیاس نے جگادیا۔ تم پانی پی کر سیر بھی ہوگئے۔ مجھے بھی تو پانی کی ضرورت ہے، لیکن مجھے سیراب کرنے والا کوئی نہیں ملتا۔
وہ: تو کیا تم چاہتی ہو کہ میں ایک گلاس پانی تمھارے اوپر لا کر انڈیل دوں؟
جانماز:نہیں یہ پانی میری پیاس نہیں بجھائے گا، میری پیاس تو عبادت وانابت کرنے والے اللہ کے نیک بندوں کے آنسوئوں سے بجھے گی۔
وہ: میں تمھیں ایسے آنسو کہاں سے لاکر دو ں، میری جانماز؟
جانماز:یہی تو میرے رونے کی وجہ ہے۔ اُٹھو رات کے اس اندھیرے میں دو رکعت نماز اللہ کے حضور ادا کرو۔ یہ نماز قبر کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اُجالا کرے گی۔ رات تھوڑی سی ہی بچی ہے۔ وقت کم ہے ۔ پھر فجر کا مؤذن اذان دے دے گا۔
وہ: تم مجھے میرے حال پر چھوڑ دو (وہ سوجاتا ہے)۔
جانماز: اٹھو فجر کی نماز تو پڑھ لو کہ فجر کی نماز قلب وروح کی زندگی ہے۔ دیکھو، مؤذن پکار رہا ہے: الصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ ’’نماز نیند سے بہتر ہے‘‘۔ تم … تم دن رات دنیا کی پکار پر دوڑتے رہتے ہو مگر خداے ذوالجلال کی پکار پر تمھارے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ آخر تمھیں کیا ہوگیا ہے؟
وہ: (جھنجھلاہٹ سے) مجھے سونے دو۔ تم روز مجھے دیکھتی ہو میں رات کو تھکا ہوا آتا ہوں، مجھے جی بھر کر سو لینے دو۔ وہ پھر نیند کی آغوش میں چلا گیا۔
جانماز: سنو! کیا تم اپنی زندگی، دین سے زیادہ دنیا کی نذر کردو گے؟
وہ: (سختی سے) اب خاموش ہوجائو۔ میں تھکا ہوا ہوں، مجھے سونے دو۔
جانماز: (غمگین لہجے میں) آہ کہاں گئے وہ فجر کے نمازی! کہاں گئے وہ فجر والے!
سنو! کیا تم نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ خوش خبریاں نہیں سنیں:

  • جس نے سورج نکلنے سے پہلے اور سورج ڈوبنے سے پہلے (یعنی فجر اور عصر کی ) نماز پڑھی، وہ جہنم کی آگ میں نہیں جائے گا۔
  • جس نے ٹھنڈک والی (فجر اور عصر) دونوں نمازیں پڑھیں وہ جنت میں جائے گا۔
  • اندھیرے میں مسجد کی طرف جانے والوں کو قیامت کے دن مکمل نور کی خوش خبری سنادو۔ 
  • منافقوں پر فجر اور عشاء سے زیادہ گراں اور کوئی نماز نہیں ہے اور اگر وہ ان کے ثواب کو جان لیں تو گھسٹتے ہوئے آئیں۔

وہ: چونک پڑا! اس کا مطلب ہے کہ فجر کی نماز بہت اہم ہے۔
جانماز: یہی تو بات ہے۔ اب اُٹھو ، اٹھ کر نماز کی تیاری کرو۔
وہ: دیکھو میں کل سے ضرور نماز شروع کردو ں گا لیکن آج مجھے سونے دو۔ آج تھکا ہوا ہوں۔
جانماز: (افسوس سے) جسے عمل کے ثواب کا یقین نہ ہو، اس پر ہر حالت گراں ہوتی ہے۔ سونے کے لیے قبر کی کوٹھری بہت کافی ہے، مدتوں سوتے رہو گے، پھر میری نصیحت یاد آئے گی۔
جانماز خاموش ہوگئی۔ وہ دوبارہ سوگیا۔ لیکن یہ کیا! یہ تو اس کی آخری نیند تھی۔ وہ سویا مگر پھر اس کی آنکھ نہیں کھل سکی…!

میں دنیا سے بے زارہوچکا ہوں،اس سے دور کہیں بھی بھاگ جانا چاہتا ہوں، لیکن کوئی راہ نظر نہیں آتی۔ ملازمت بدلوں، گھر بدلوں، محلہ اور شہر بدلوں، یا ملک چھوڑ دوں، آخر کیسے جیتے جی اس دنیا سے پیچھا چھڑاؤں، کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ دنیا میرے ساتھ سایے کی طرح لگی رہتی ہے، اور میرے ہر فیصلے پر حاوی رہتی ہے۔ میرے مسائل اور پریشانیوں کی جڑ یہی دنیا نظر آتی ہے۔ 
دل میں اکثر خیال آتا کہ کسی طرح یہ دنیا میرے سامنے اس طرح آجاتی کہ میں اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتا اور اس کا گلا گھونٹ کر اس سے چھٹکارا پالیتا۔ آخر ایک دن تنہائی میں بیٹھاہوا تھا کہ مجھے یوں لگا جیسے دنیا میرے سامنے کھڑی ہے:
دنیا: تمھیں مجھ سے کس بات کا گلہ ہے، بولو، میں تمھارے سامنے ہوں؟
مـیں  : مجھے غم اس بات کا ہے کہ تم سے چھٹکارا پانے کا مجھے کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔
دنیا: دیکھو، مجھ سے تعلق رکھنا تمھاری ایک فطری ضرورت ہے۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ میرے بغیر جی سکتا ہے۔ میں اللہ کی مخلوق ہوں، اور میرے اندر دل موہ لینے کی صفت رکھی گئی ہے۔
مـیں: یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ تم سے تعلق رکھنا ضروری ہو؟
دنیا: ہاں، ایسا ہی ہے۔ اس زندگی میں کوئی مجھ سے لاتعلق نہیں رہ سکتا، میں زندگی کی ضرورت ہوں، یہ فطرت کا قانون ہے۔ دراصل مجھ سے تعلق ہونا غلطی نہیں ہے، غلطی یہ ہے کہ مجھ کو آخرت پر ترجیح دے دی جائے۔ یہی وہ غلطی ہے جس کا ارتکاب اکثر لوگ کرتے ہیں۔
مـیں: تمھاری حقیقت کیسے معلوم ہوسکتی ہے؟
دنیا: میری حقیقت اللہ کے رسول ﷺ نے بہت اچھی طرح سمجھائی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’دنیا حلاوت سے بھرپور اور سرسبزوشاداب ہے‘‘۔ البتہ اس کا دوسرا پہلو یہ بھی آپؐ نے بتایا کہ: ’’دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے‘‘۔
مـیں: لیکن میں تو دیکھتا ہوں کہ بہت سے اہل ایمان بھی اس دنیا میں بڑی آسایشوں اور راحتوں میں رہتے ہیں۔
دنیا: قید خانے سے مراد کوئی آ ہنی قفس یا تعذیب خانہ نہیں ہے، کہ جہاں وحشیانہ سزائیں دی جاتی ہیں۔ قید خانے سے مراد یہ ہے کہ مومن اپنے آپ کو اللہ کے احکام کا پابند بنا کر رکھتا ہے، اور نفس کو آزاد نہیں چھوڑ دیتا ہے۔ ویسے دیکھو تو دنیا میں ہر شخص کسی نہ کسی طرح پابندیوں میں گھرا ہوا ہے۔ شیخ محمد بن سماک رحمۃ اللہ علیہ کی بات پر غور کرو، انھوں نے فرمایا: ’’ اے آدم کے بیٹے! تم ہمیشہ سے قید میں ہو۔ پہلے پیٹھ کی قید میں ، پھر پیٹ کی قید میں، پھراس کپڑے کی قید میں جس سے بچوں کو کس کر لپیٹ دیا جاتا ہے۔ پھر مکتب کی قید میں، پھر گھریلو ذمہ داریوں کی قید میں، پس کوشش کرلو کہ موت کے بعد آرام مل جائے، ورنہ پھر ایک انتہائی تکلیف دہ قید تمھاری منتظر ہے‘‘۔
مـیں: یہ بہت سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ اچھا یہ تو بتاؤ کہ تمھارا نام دنیا کیوں پڑا ہے؟
دنیا: اگر میرے نام کا مطلب لوگ سمجھ لیں، تو میری چمک دمک کے دام میں نہ آئیں۔ میرے نام کے دو مطلب ہیں: l ایک مطلب یہ ہے کہ میں عارضی ہوں، میری عمر بہت کم ہے، بہت جلدی فنا ہوجانے والی ہوں۔ lدوسرا مطلب یہ ہے کہ میں ایک معمولی اور بے وقعت چیز ہوں، آخرت کے مقابلے میں میری کوئی قیمت نہیں ہے۔
مـیں: میں تمھارے دام سے بچ کر زندگی گزاروں، اس کے لیے مجھے کیا کرنا ہوگا؟
دنیا: یہ بہت خطرناک سوال ہے۔ تم مجھ سے میرا راز اُگلوانا چاہتے ہو۔ میں لوگوں کو مختلف طرح سے اپنے جال میں پھنساتی ہوں۔ کسی کو مال ودولت کے جال میں، تو کسی کو جاہ ومنصب کے جال میں، اور یہ سب میری آرایش و زیبایش کا کمال ہے۔ پھر یہ بات تو تم بھی جانتے ہو کہ آرایش و زیبایش کتنی ہی دل کش ہو، وہ عارضی ہی ہوتی ہے۔ کیا تم نے کبھی کسی دلہن کی آرایش،   یا کسی شادی کے گھر کی سجاوٹ کو دیکھا ہے؟ کیا وہ کبھی ہمیشہ کے لیے باقی رہی ہے؟
مـیں: اے دنیا! تم میرے سوال سے فرار مت اختیار کرو، میرے سوال کا جواب دو۔
دنیا: جلدی مت مچاؤ، میں ضرور جواب دوں گی۔ دیکھو تمھیں یہاں میرے ساتھ ہی جینا ہے، لیکن میرے فتنوں سے بچتے ہوئے جینا ہے۔ یہی تمھاری نجات کا راستہ ہے۔ اس کے لیے سب سے ضروری صفت ہے ، ہوشیاری اور بیداری۔ میں لذتوں اور شہوتوں کے جلو میں رہتی ہوں، جو مجھے آخرت کی گزرگاہ سمجھ کر آخرت کی طرف چلتا رہتا ہے، وہ بچ نکلتا ہے اور منزل کو پالیتا ہے، اور جو مجھے مستقل ٹھکانہ سمجھتا ہے، وہ میرے جال میں پھنس جاتا ہے اور نامراد ہوجاتا ہے۔  میں منزل نہیں گزر گاہ ہوں۔ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے خبردار کیا تھا:
دیکھو ان چیزوں سے پرہیز کرو جو تمھیں دنیا میں مصروف کردیں، کیونکہ دنیا کی مصروفیتیں بہت زیادہ ہیں۔ انسان مصروفیت کا ایک دروازہ اپنے لیے کھولتا ہے، اور اس دروازے سے دس دروازے اور کھل جاتے ہیں۔
مـیں: تب تو میں تم سے بالکل قطع تعلق کرلوں گا،جبھی تو مجھے تم سے نجات مل سکے گی۔
دنیا: یہ نہ ممکن ہے اور نہ مطلوب ہے، البتہ ہوشیار ضرور رہو۔ جب بھی دنیا کی مصروفیت کا کوئی دروازہ تمھارے لیے کھلے، تم آگے بڑھ کر آخرت کی مصروفیت کا ایک دروازہ بھی اپنے لیے کھول لو، تاکہ آخرت کے سفر پر بھی گامزن رہو اور دنیا میں جو تمھارے حصے کا ہے وہ بھی تمھیں    مل جائے۔ اس طرح اعتدال اور توازن کے ساتھ زندگی گزارو۔ یہی خالق کی ہدایت اور منشا ہے۔
مـیں: لیکن مجھے ڈر لگتا ہے۔
دنیا: ڈرو نہیں، بس اس کا خیال ہمیشہ رکھو کہ دنیا کی زندگی کس طرح ہوشیاری کے ساتھ گزارنی ہے۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی ایک بات ہمیشہ یاد رکھو۔
مـیں: وہ کیا بات ہے؟
دنیا: حضرت ابن مسعودؓ نے فرمایا:’’ تم میں سے کسی کو میں ہرگز اس طرح نہیں پاؤں کہ گویا رات میں مُردہ لاش ہے، اور دن میں پھدکنے والا کیڑا ہے‘‘۔
یہ حال بہت سے لوگوں کا ہے، راتیں غفلت بھری نیند کی نذر ہوجاتی ہیں، اور دن  غفلت بھری بھاگ دوڑ میں گزرتے ہیں۔ آخرت کی تیاری کا خیال نہ دن میں آتا ہے اور نہ رات میں۔ کسی نے بہت صحیح کہا ہے: ’’آدم کا بیٹا مسکین ہے، وہ جتنا فقر وفاقے سے ڈرتا ہے، اگر وہ اتنا ہی دوزخ کی آگ سے بھی ڈر جائے، تو جنت میں داخل ہوجائے‘‘۔
مـیں: تمھاری باتیں دل پر اثر کر رہی ہیں، مجھے کچھ اور نصیحت کرو۔
دنیا: اللہ کے اس فرمان کو ہمیشہ یاد رکھو:  
وَاضْرِبْ لَہُمْ مَّثَلَ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا كَمَاۗءٍ اَنْزَلْنٰہُ مِنَ السَّمَاۗءِ فَاخْتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ ہَشِيْمًا تَذْرُوْہُ الرِّيٰحُ ۝۰ۭ وَكَانَ اللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ مُّقْتَدِرًا۝۴۵ (الکہف۱۸: ۴۵) اور ان سے دنیا کی زندگی کی مثال بھی بیان کرو (وہ ایسی ہے)  جیسے پانی جسے ہم نے آسمان سے برسایا تو اُس کے ساتھ زمین کی روئیدگی مل گئی۔ پھر  وہ چُورا چُورا ہو گئی کہ ہوائیں اسے اڑاتی پھرتی ہیں اور اللہ تو ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے۔
اور دیکھو اگر پہلے تم مجھ سے ایک بار ہوشیار رہتے تھے تو آج کے بعد ہزار بار ہوشیار رہو۔
مـیں: کیا اتنی صاف صاف باتیں ہونے کے بعد بھی تم مجھے اپنے دام میں پھنساؤ گی؟ کیا مجھے تمھارے بارے میں مطمئن نہیں ہوجانا چاہیے؟
دنیا: دیکھو ایک کہاوت ہے کہ لوگوں نے کوّے سے پوچھا کہ تم آخر صابن کیوں اُچک لیتے ہو؟ کوّے نے جواب دیا: ’’کیونکہ ستانا میری فطرت ہے‘‘۔ میں بھی تم سے کہتی ہوں کہ دیکھو، پھنسانا میری فطرت ہے۔ اس لیے دنیا کے عاشق کبھی مت بننا، دنیا تمھاری وفادار نہیں ہوسکتی ہے۔ 
پھر دنیا اچانک غائب ہوگئی۔میں پکارتا رہ گیا، اس کے بعد میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے مجھے دنیا کی حقیقت سمجھنے کا موقع دیا۔
واقعی دنیا کی زندگی محض گھڑی بھر کی ہے۔ کیوں نہ اسے سنبھال کر نیکی کی راہ میں گزار دیا جائے۔