مارچ ۲۰۲۱

فہرست مضامین

نیکوکاروں کی تین صفات!

سیّد ابوالاعلیٰ مودودی | مارچ ۲۰۲۱ | ۶۰ سال پہلے

Responsive image Responsive image

[قرآن کریم میں] ’نیکوکار‘ لوگوں کی تین صفات کا خاص طور پر ذکر کیا گیا، جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ باقی ساری نیکیوں کا دارومدار انھی تین چیزوں پر ہے:

  • وہ نماز قائم کرتے ہیں ، جس سے خدا پرستی و خدا ترسی ان کی مستقل عادت بن جاتی ہے۔
  • وہ زکوٰۃ دیتے ہیں، جس سے ایثار و قربانی کا جذبہ ان کے اندر مستحکم ہوتا ہے، متاعِ دُنیا کی محبت دبتی ہے اور رضائے الٰہی کی طلب اُبھرتی ہے۔
  • اور وہ آخرت پریقین رکھتے ہیں، جس سے ان کے اندر ذمہ داری و جواب دہی کا احساس اُبھرتا ہے۔ جس کی بدولت وہ اس جانور کی طرح نہیں رہتے، جو چراگاہ میں چُھوٹا پھر رہا ہو، بلکہ اس انسان کی طرح ہوجاتے ہیں، جسے یہ شعور حاصل ہو کہ مَیں خودمختار نہیں ہوں، کسی آقا کا بندہ ہوں اور اپنی ساری کارگزاریوں پر اپنے آقا کے سامنے مجھے جواب دہی کرنی ہے۔

ان تین خصوصیات کی وجہ سے یہ ’نیکوکار‘ اس طرح کے نیکوکار نہیں رہتے جن سے اتفاقاً نیکی سرزد ہوجاتی ہے اور بدی بھی اسی شان سے سرزد ہوسکتی جس شان سے نیکی سرزد ہوتی ہے۔ اس کے برعکس یہ خصوصیات ان کے نفس میں ایک مستقل نظام فکرواخلاق پیدا کردیتی ہیں، جس کے باعث ان سے نیکی کا صدور باقاعدہ ایک ضابطے کے مطابق ہوتا ہے اور بدی اگر سرزد ہوتی بھی ہے تو محض ایک حادثے کے طور پر ہوتی ہے۔ کوئی گہرے محرکات ایسے نہیں ہوتے جو ان کے نظام فکرواخلاق سے اُبھرتے اور ان کو اپنے اقتضائے طبع سے بدی کی راہ پر لے جاتے ہوں۔(’تفہیم القرآن‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۵۵، عدد۶، مارچ ۱۹۶۱ء، ص۱۱)