مراد علی


غزہ پر اسرائیلی جارحیت پر مغربی اور امریکی الیکٹرانک میڈیا نے واضح طور پر اسرائیل کی طرف داری کی ہے۔ اس میڈیا وار کی فکری بنیادیں نوم چومسکی اپنی کتاب Manufacturing Consent: The Political Economy of the Mass Media  میں چار عشرے قبل واضح کرچکے ہیں۔ کتاب کے آخر میں وہ (ص۴۰۲ ) اپنے مقدمے کا لب لباب پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امریکی میڈیا ایک مؤثر اور طاقت ور ادارہ ہے، جو جارحانہ طاقت کے نظام کی معاونت میں پروپیگنڈے کی خدمت انجام دیتا ہے۔ یہ بات انھوں نے ۱۹۸۸ء میں لکھی تھی کہ یہ پروپیگنڈا سسٹم ٹی وی نیٹ ورکس کے ذریعے مزید مؤثر ہوگیا ہے۔

اسرائیلی بمباری کے حوالے سے مغربی میڈیا بہت 'محتاط رہا۔ مثال کے طور پر جب ۱۷؍اکتوبر کو غزہ میں ’الاہلی العربی ہسپتال‘ پر بمباری ہوئی، جس میں ۵۰۰ سے زیادہ لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ نیویارک ٹائمز نے بھی خبر لگائی کہ اسرائیل نے ہسپتال پر بمباری کی۔ اس پر اسرائیل نے وضاحتی بیان جاری کیا کہ ’’یہ ’جہاد اسلامی‘ تنظیم کا گائڈڈ میزائل تھا جو ہسپتال پر گرا ہے، ہم نے کوئی حملہ نہیں کیا‘‘ ۔ ۲۳؍اکتوبر کو نیویارک ٹائمز نے یوٹرن لیتے ہوئے ادارتی نوٹ میں لکھا کہ ہسپتال پر حملے کی خبر حماس کے دعوؤں پر مبنی ہے اور اس کی تصدیق نہیں کی جاسکتی۔ بعد میں نیویارک ٹائمز میں کم و بیش درجن تجزیے شائع ہوئے جس میں اسرائیل کے دعوے کی حمایت واضح نظر آرہی تھی۔

اسرائیل کے اس جھوٹے دعوے کی تصدیق یا تائید امریکا اور مغربی ممالک کے ابلاغی اداروں اور کارپوریشنوں نے بھی کی، جن میں نیو یارک ٹائمز کے علاوہ، ایسوسی ایٹ پریس،  سی این این، وال سٹریٹ جرنل اور بی بی سی بھی شامل ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ’مہذب مغرب‘ نے پہلے اپنے فارنزک تجزیوں سے حملے کو متنازع بنایا اور بعد میں کھل کر اسرائیلی بیانیے کی حمایت اور تائید کی۔ اگر چہ اسرائیل اپنےدعوے کےلیے کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہ کرسکا، لیکن میڈیا سمیت امریکا اور دیگر مغربی ممالک نے آنکھیں بند کرکے اس کی تصدیق بھی کرلی۔

جس وقت بمباری ہوئی، اس کی فوٹیج اسی وقت الجزیرہ کے رپورٹر نے بنائی۔ اس فوٹیج کے علاوہ دیگر وڈیو سے الجزیرہ کی سند نے اس پورے واقعے کابہت باریک بینی سے فارنزک تجزیہ کیا اور اسرائیل کے دعوے کو مسترد کردیا۔ یہ وڈیو الجزیزہ کی ویب سائٹ پر Video investigation: What hit al-Ahli Hospital in Gaza? کے عنوان سے موجود ہے۔ قارئین دونوں جانب کے دعوؤں کو دیکھ سکتے ہیں۔

مغربی میڈیا کے واضح جھکاؤ کے علاوہ بین الاقوامی میڈیا میں جہاں اس کے برعکس موقف پیش ہو رہا تھا اور جو مغرب کی عمل داری سے باہر تھا، انھیں خاموش کرانے کی بھی کوششیں کی گئیں۔ مثال کے طور پراس جنگ میں بڑے میڈیا مراکز اور ذرائع میں الجزیرہ کا کردار غیر معمولی اور بہت نمایاں رہا۔ امریکی سیکرٹری خارجہ ٹونی بلنکن نے تلملا کر قطری حکومت سے خصوصی طور پر ’جنگ کی کوریج کے حجم کو کم کرنے اور 'اعتدال ' سے کام لینے‘ کا کہا۔

دوسری جانب اس جنگ میں سوشل میڈیا کا کردار بہت اہم رہا۔ سوشل میڈیا آؤٹ لیٹس میں صرف ایکس (سابق ٹوئیٹر) کی پالیسی: فیس بک، لنکڈ ان اور انسٹاگرام وغیرکی بہ نسبت 'سخت ' نہیں تھی۔ اس کا پہلا نتیجہ یہ نکلا کہ یورپ میں ایلون مسک کو’’ ایکس پر اسرائیل -حماس جنگ کی غلط معلومات پھیلانے کی وجہ سے جواب دینے کے لیے ۲۴ گھنٹے کا وقت دیا گیا‘‘۔

یورپی کمشنر برائے انٹرنل مارکیٹ، تھیری بریٹن نے ۱۰؍ اکتوبر کو ایلون مسک کو لکھے گئے ایک خط میں کہا: ’’اس امرکے ’اشارے‘ ملے ہیں کہ ایکس پر غزہ کے حوالے سے غلط معلومات اور ’پُرتشدد‘ مواد پھیلا یا جا رہا ہے، مسک ۲۴ گھنٹوں کے اندراس کی وضاحت کرے‘‘۔ ساتھ یہ بھی کہا گیا: ’’یورپی قانونی ضوابط کی تعمیل نہ کرنے کے نتیجے میں ایکس کی سالانہ آمدنی کا چھ فی صد جرمانہ بھی عائد ہوسکتا‘‘۔

جب اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں غزہ میں انٹرنیٹ اور اس کے علاوہ پورا مواصلاتی نظام منقطع ہوگیا تو سوشل میڈیا پر ایک مہم میں ایلون مسک سے مطالبہ کیا گیاکہ وہ غزہ میں اسٹار لنک انٹرنیٹ بحال کرے۔ تاہم، جیسے ہی ٹرینڈنے زور پکڑا، مسک نے اعلان کیا کہ وہ سٹار لنک کے ذریعے غزہ میں کام کرنے والی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ امدادی تنظیموں کےلیے انٹرنیٹ فراہم کرے گا۔ اس کے رد عمل میں اسرائیلی وزیر مواصلات شلومو نے کہا: ’’اسرائیل سٹار لنک کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات منقطع کر دے گا‘‘۔ مسک کو دھمکی بھی دی گئی۔

جب یہ ساری کوششیں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئیں اوراسرائیلی موقف اس کے باوجود ناکامی سے دوچار ہوا، تو وہ سوشل میڈیا پر مختلف ذرائع سے اپنا بیانیہ پیش کرنے پر مجبور ہوگیا، جس کےلیے اسرائیل نے کئی ملین ڈالر مختص کیے۔ یہ منصوبہ بھی کامیاب نہ ہوسکا اور پوری دنیا میں لاکھوں لوگ اسرئیلی جارحیت کے خلاف نکلے، تو پچھلے ہفتے وزیر اعظم نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ ہم بھی ۷؍اکتوبر کی وڈیوز جاری کریں گےتاکہ عالمی رائے عامہ میں توازن آجائے۔ لیکن ابھی تک یہ بھی ناکام ہی معلوم ہوتا ہے۔

میڈیا وار میں اب ایک نیا اضافہ یہ ہوا ہے کہ ۱۲ نومبر کو سیمافور (Semafor) نے ایک رپورٹ شائع کی ہے، جس میں بتایا گیا کہ وال اسٹریٹ اور ہالی ووڈکے ارب پتی امریکی عوام کو حماس بطور ایک دہشت گرد تنظیم اور اسرائیل کے حق میں مہم چلانے کےلیے ۵۰ ملین ڈالر خرچ کرنے کے منصوبے پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔ اس منصوبے کے روح رواں بیری سٹرنلچٹ ہے، جس نے یہ مہم ۷؍اکتوبر کے بعد شروع کی۔ سیمافور کے مطابق سٹرنلچٹ نے دنیا بھر کے درجنوں امیر ترین کاروباری لوگوں کو ای میل کیا، جس میں ان میں سے ہر فرد سے دس دس لاکھ ڈالر کے عطیہ کا مطالبہ کیا گیا۔

سٹرنلچٹ نے لکھا کہ ’’سی این این کے مالک اور اینڈی وور (جو کہ ایک بڑا میڈیا گروپ ہے) سے اس کی ’بہت اچھی گفتگو‘ ہوئی ہے اور دونوں اس مہم میں ہمارا ساتھ دینے پر متفق ہیں‘‘۔ سٹرنلچٹ کے مطابق: ’’اس مہم کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ غزہ میں ہونے والی اموات کی کوریج کے نتیجے میں اسرائیل عالمی سطح پر ہمدردی اور حمایت کھو رہا ہے اور ہمیں اس نقصان کا ازالہ کرنے کے لیے اپنا بیانیہ تشکیل دینا چاہیے۔

اس مہم سے رائے عامہ یقیناً تبدیل ہوجائے گی، کیوں کہ فلسطینیوں کےلیے حماس جو پروپیگنڈا کر رہا ہے اس سے اسرائیل کےلیے ہمدردی ختم ہورہی ہے۔ اس لیے اب ہمیں اپنا بیانیہ تشکیل دینے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔

یہ ای میل اس نے ۵۰ سے زیادہ لوگوں کو بھیجی ہے، جو دنیا کے امیر ترین لوگ ہیں، اور جن کا مجموعی نیٹ ورک پانچ سو بلین ڈالر ہے۔

اسرائیل کی تائید کے لیے میدانِ میں اُتر کر میڈیا کو استعمال کرنے کی یہ ایک معمولی سی جھلک ہے۔ یہ بھی صرف وہ خاکہ ہے ، جو سامنے آیا ہے۔ اس بیانیے کےلیے کروڑوں ڈالر خرچ کیے جارہے، سیاسی اور سفارتی دباؤ سے بھی کام لیا جارہا ہے، دھمکیوں سے بھی دریغ نہیں کیا جا رہا، اور خلافِ واقعہ پروپیگنڈا اس کے بہت اہم عنصر کے طور پر سامنے آیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ کوششیں بار آور ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔