افتخار گیلانی


بھارتی وزیراعظم نریندر مودی جنوبی ایشیا کے پہلے سربراہ مملکت ہیں، جنھوں نے اسرائیل کی سرزمین پر قدم رکھا۔ اگرچہ دونوں ملکوں کے درمیان فوجی تعلقات کی داغ بیل ۱۹۷۱ءکی بھارت-پاکستان جنگ کے دوران ہی پڑی تھی، البتہ حساس اداروں کے درمیان اشتراک ۱۹۵۳ء سے ہی جاری تھا، جب ممبئی میں اسرائیل کو قونصل خانہ کھولنے کی اجازت مل گئی تھی، مگر ان تعلقات میں سیاسی عنصر کی عدم موجودگی اسرائیل کو بُری طرح محسوس ہو رہی تھی۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی سیکورٹی کے انچارج رامیشور ناتھ کائو (جو بعد میں خفیہ ایجنسی ’ریسرچ اینڈ انالیسز وِنگ یعنی ’را‘ کے پہلے سربراہ بنے) نے ۵۰کے عشرے میں ہی افریقی ملک گھانا میں قیام کے دوران اسرائیلی خفیہ ایجنسی ’موساد‘ کے ساتھ تعلقات استوار کر لیے تھے۔باضابطہ سفارتی تعلقات کی پراو کیے بغیر ، ۱۹۷۱ءکی جنگ میں اسرائیل نے فوجی ماہرین کے ساتھ اسلحے کی ایک بڑی کھیپ بھارت روانہ کی۔ چوںکہ مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) میں بھارتی فوجی آپریشن کی قیادت ایک یہودی افسر میجر جنرل جے ایف آر جیکب کے سپرد تھی، تب اسرائیلی وزیر اعظم گولڈ امیئر نے ایران جانے والے اسرائیلی اسلحے کے ایک بڑے ذخیرہ کوبھارت کی طرف موڑ دیا۔

حال ہی میں عام کی گئی دستاویزات کے مطابق، اگست ۱۹۷۱ء میں ’را‘ کے سربراہ کاؤ نے وزیر اعظم اندرا گاندھی کے مشیر پی این ہکسر کو لکھے ایک تفصیلی خط میں بتایا کہ: ’’اسرائیلی اسلحے کو فوج اور مکتی باہنی کے گوریلا دستوں میں تقسیم کیا گیا ہے‘‘۔یاد رہے جنرل جیکب کا پچھلے سال ہی انتقال ہوا ۔ اکثر نجی ملاقاتوں میں جنرل جیکب بتایا کرتے تھے کہ: ’’اسرائیلی اسلحے کے بغیر مشرقی پاکستان میں آپریشن کی کامیابی ممکن نہ تھی‘‘۔ وہ اندرا گاندھی سے سخت ناراض تھے، کہ: ’’ایک تو اس نے مجھے فوجی سربراہ بننے نہیں دیا، اور دوسرا یہ کہ پاکستانی جنرل نیازی سے ہتھیار ڈلوانے کی تقریب کے لیے ایک سکھ افسر جنرل جگجیت سنگھ ارورا کو ڈھاکہ بھیجا، جب کہ ملٹری آپریشنز کی کمان میرے سپرد تھی‘‘۔ جنرل جیکب کے مطابق اندراگاندھی کو اسرائیل سے معاونت لینے میں کوئی لیت و لعل نہیں تھا، مگر اس ضمن میں وہ ایک یہودی افسر کی تشہیر نہیں چاہتی تھیں۔ انھیں اندیشہ تھا کہ پاکستان اس چیز کو عرب ممالک میں بھارت کے خلاف استعمال کرسکتا تھا۔

۷۰ءکے عشرے کے اواخر تک دونوں ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کا اشتراک اور محور پاکستان کے جوہری پروگرام کو سبوتاژ کرنا تھا۔ بھارت کے لیے تو پاکستانی ایٹمی پروگرام خطرہ تھا ہی، مگر اسرائیل اس کو ’اسلامی بم‘ سے تشبیہ دیتا تھا۔ فرانس کے اشتراک سے پاکستان میں ایٹمی ری پراسیسنگ پلانٹ کی خبر تو سبھی کو تھی،مگر چھن چھن کر یہ خبریں گشت کر رہی تھیں کہ: ’’پاکستانی سائنس دان یورونیم کی افزودگی پر بھی کام کر رہے ہیں، مگر کہاں او ر اس کا پلانٹ کدھر ہے؟ یہ پتا نہیں چل رہا تھا‘‘۔ منصوبہ یہ تھاکہ پلانٹ کا پتا چلتے ہی ’موساد‘ بھارتی سرزمین سے فضائی کارروائی کرکے اس کو تباہ کردے گا، جیساکہ بعد میں ۱۹۸۱ء میں اس نے اسی طرح کا آپریشن کرکے عراقی ایٹمی ریکٹر کو تباہ کردیا تھا۔

’را‘ کے ذمے اس پاکستانی پلانٹ کا پتا لگانا تھا۔ جب کئی آپریشنز ناکام ہوگئے، تو بتایا جاتا ہے کہ بھارتی خفیہ اہل کاروں نے پاکستان کے مختلف علاقوں سے حجاموں کی دکانوں سے بکھرے بالوں کے نمونے اکٹھے کرنے شروع کر دیے۔ ان کو ٹیسٹ ٹیوبوں میں محفوظ اور لیبل لگا کر بھارت بھیجا جاتا تھا، جہاں انتہائی باریک بینی سے ان میں جوہری مادہ یا تابکاری کی موجودگی کی جانچ ہوتی تھی۔ سالہا سال پر پھیلے اس آپریشن میں ایک دن ایک سیمپل میں یورینیم-۲۳۵  کی تابکاری کے ذرات پائے گئے۔ حالاں کہ یہ سیمپل اسلام آباد کے نواح میں کہوٹہ کے پاس ایک حجام کی دکان سے حاصل کیا گیا تھا۔ یہ تقریباً ثابت ہوگیا کہ پاکستان ۹۰ فی صد افزودگی حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کر چکا ہے، جو بم بنانے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ نیوکلیر پاور پلانٹ کے لیے ۴/۵فی صد افزودگی ہی کافی ہوتی ہے، مگر یہ خبر ہونے تک بھارت میں اندرا گاندھی حکومت سے بے دخل ہوگئی تھی۔

۱۹۷۷ء میں نئے بھارتی وزیر اعظم مرارجی ڈیسائی کے پاس جب ’را‘ کے افسران یہ منصوبہ لے کر پہنچے، تو انھوں نے نہ صرف اس کی منظوری دینے سے انکار کیا، بلکہ پاکستانی صدرجنرل محمدضیاء الحق کو فون کرکے بتایا کہ ’’بھارت کہوٹہ پلانٹ کی سرگرمیوں سے واقف ہے‘‘۔’را‘ نے ڈیسائی کو اس کے لیے کبھی معاف نہیں کیا کہ اس کے مطابق مرارجی ڈیسائی نے پاکستانی صدر کو یہ بتاکر ’را‘ کے ایجنٹوں کے لیے مشکلات کھڑی کر دیں۔ اس کے بعد برسوں تک ’را‘ اس طرح کا نیٹ ورک پاکستان میں دوبارہ قائم نہیں کرسکا۔ پھر پاکستان نے کہوٹہ کو فضائی حملوں سے بھی محفوظ بنالیا۔

پاکستانی صدرجنرل پرویز مشرف کے دور میں جب بھارت اور امریکا کے درمیان ’سویلین جوہری معاہدے‘ کے خدو خال طے ہورہے تھے، تو واشنگٹن میں طاقت ور یہودی لابی کو اس کی حمایت سے باز رکھنے کے لیے پاکستانی وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے اسرائیلی وزیر خارجہ سے استنبول میں ملاقات کی تھی۔ ۲۰۱۵ء میں قصوری صاحب نے مجھے ایک انٹرویو میں بتایا کہ: ’’یہ میٹنگ کسی جیمز بانڈ فلم کے اسکرپٹ سے کم نہیں تھی۔ ترکی میں اس وقت کے وزیر اعظم (اور موجودہ صدر) رجب طیب اردوان نے یہ میٹنگ طے کی تھی‘‘۔ قصوری صاحب کے مطابق: ’’میرا جہاز پاکستان سے لیبیا کے لیے روانہ ہوا، بعد میں مالٹاسے ہوتا ہوا استنبول میں اُترا۔ جہاز کو ایئرپورٹ کی بلڈنگ سے دُور لینڈنگ کی اجازت مل گئی، جہاں پر طیب اردوان کے ایک معتمد نے میرا استقبال کیا۔  اسی دوران پورے استنبول شہر کی بتیاں گل کر دی گئیں۔ سرکاری طور پر بتایا گیا کہ پاور سپلائی میں خرابی آگئی ہے۔ گھپ اندھیرے میں پاکستانی اور اسرائیلی وزراے خارجہ کی میٹنگ ہوئی۔ خدشہ تھا کہ اگر یہ خبر میڈیا تک پہنچ گئی، تو پاکستان میں سیاسی اور عوامی سطح پر قیامت آجائے گی۔ قصوری صاحب کے بقول: ’’یہ میٹنگ کچھ زیادہ کامیاب نہیں رہی۔ اسرائیل نے فوجی اور دیگر ٹکنالوجی دینے کی پیش کش کی،مگر مَیں نے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ باضابطہ تعلقات اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتے، جب تک وہ مسئلۂ فلسطین کے حوالے سے اُردن کے شاہ عبداللہ کے فارمولے کو تسلیم نہیں کرتا‘‘۔

اسرائیلوں کا کہنا ہے: ’’جب عرب ممالک اس کے ساتھ رشتے بنا سکتے ہیں، تو باقی ممالک کو آخر کیوں اعتراض ہے؟ تل ابیب سے ۱۵کلومیٹر دور سوریک کا سمند ر سے صاف پانی کشید کرنے کا پلانٹ ہی اردن کو پانی مہیا کرتا ہے۔ مصر صحراے سینا میں سیکورٹی کو کنٹرول کرنے کے لیے اسرائیل سے اشتراک کر رہا ہے۔گوکہ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات نہیں ہیں، مگر کچھ عرصے سے خبریں گشت کر رہی ہیں کہ پس پردہ دونوں ممالک کے درمیان سلسلہ جنبانی جاری ہے۔ اور یہ خبر عام ہے کہ سعودی حکومت بطور خادمِ حرمین، قبلہ اوّل کی خدمت کا ذمہ لینا چاہتی ہے (یاد رہے اس وقت مسجد اقصیٰ کی خدمت اُردن کے محکمہ اوقاف کے تحت ہے)۔

اب سوال یہ ہے، کہ آخر مودی کے اسرائیل دورے سے اس خطے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ وہ بھارت کے ایسے پہلے سیاسی لیڈرہیں، جو اس دورے کے دوران فلسطینی لیڈروں سے نہیں ملے۔ ماضی میں چاہے بھارتی وزیرداخلہ لال کشن ایڈوانی ہو یا بھارتی صدر پرناب مکرجی، سبھی اسرائیلی دورے کے دوران فلسطینی علاقوں میں بھی جاتے تھے۔ بھارت اور چین نے تقریباً ایک ہی سال، یعنی۱۹۹۲ء میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کیے تھے۔ دونوں ممالک کو اسرائیل سے دفاعی ٹکنالوجی درکار تھی، جو انھیں امریکا براہِ راست فراہم نہیں کرسکتا تھا۔ اگر موجودہ عالمی صورت حال کا جائزہ لیا جائے، تو معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل کو بھی اس وقت بھارت کی ضرورت ہے۔ یورپی ممالک میں اسرائیل کا قد خاصا چھوٹا ہے۔ فلسطینیوں پر اس کے مظالم کی آوازیں یو رپی شہروں میں اب واضح طور پر سنائی دے رہی ہیں۔ ایسے وقت، عالمی اداروں میں اسرائیل کو سیاسی اور سفارتی دوستوں کی اشد ضرورت ہے۔ پھر اسلحے کی خریداری میں بھارت، اسرائیل کا سب سے بڑا خریدار ہے اور یوں اس کی اقتصادیات کا ایک بڑا سہارا ہے۔

اسرائیل میں طرزِ زندگی خاصا مہنگا ہے۔ یورپی ممالک اسرائیل سے اس لیے بھی خار کھائے ہوئے ہیں، کہ وہ ’القاعدہ‘ اور ’داعش‘ (ISIS) کو لگام دینے میں اتنی مستعدی نہیں دکھا رہا ، جتنا کہ ’حماس‘ یا ’حزب اللہ‘ کے خلاف اس کی ایجنسیاں برسر پیکار ہیں۔ جب یہی سوال میں نے دہلی میں اسرائیلی سفیر ڈینیل کارمون سے کیا تو موصوف کا برجستہ جواب تھا: ’’ان کی مستعدی ان تنظیموں کے خلاف ہے، جو اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ ہیں‘‘۔ دو سال قبل یہ خبریں بھی شائع ہوئی تھیں کہ داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کا علاج ایک اسرائیلی ہسپتال میں چل رہا تھا۔میں نے اس حوالے سے جب اسرائیلی سفیر سے استفسار کیا ، تو ان کا گو ل مول جواب تھا کہ: ’’ہمارا ملک ڈاکٹری اصولوں کے مطابق کسی بھی زخمی یا بیمار شخص کے علاج کا پابند ہے، جو سرحد عبور کرکے اسرائیل کی پناہ میں آیا ہو‘‘۔ تاہم، اس سوال کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوسکتا کہ: ’’کیا     یہ ڈاکٹری اصول حزب اللہ یا حماس کے زخمیوں پر بھی لاگو ہوگا؟‘‘

بھارت اور اسرائیل تعلقات کے حوالے سے ایک اور بحث کشمیر پر اس کے اثرات کی مناسبت سے زبانِ زد خاص و عام ہے۔ بھارت میں سخت گیر عناصر کشمیر میں اسرائیلی طرز اپنانے پر زور دے رہے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ۲۰۱۰ء میں کشمیر میں حالات انتہائی خراب تھے۔ اسی دوران بھارت کے سینر صحافیوں کے ہمراہ مجھے اسرائیل اور فلسطین کے دورے کا موقع ملا۔ تل ابیب میں اسرائیلی وزیر اعظم کے مشیر ڈیوڈ رائزنر بریفنگ دے رہے تھے۔ وہ اسرائیلی فوج میں اہم عہدے دار رہ چکے تھے، لبنان کی جنگ میں ایک بریگیڈ کی کمان بھی کی تھی۔ اس کے علاوہ ’انتفاضہ‘ [’حماس‘ کی عوامی تحریکِ آزادی] کے دوران بھی فوج اور پولیس میں اہم عہدوں پر براجمان رہ چکے تھے، اس لیے بھارتی صحافی ان سے یہ جاننے کے لیے بے تاب تھے کہ آخر وہ غیرمسلح فلسطینی مظاہرین سے کیسے نمٹتے ہیں؟ ڈیوڈ رائزنر نے کہا:’’ ۱۹۸۷ء کے ’انتفاضہ‘ کے دوران ہماری فوج اور پولیس نے پوائنٹ ۴ کے پیلٹ گن استعمال کیے تھے، مگر اس کے نتائج کا تجزیہ کرنے کے بعد  ان پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ ان ہتھیاروں کی کھیپ اسلحہ خانے میں زنگ کھا رہی تھی ۔ جس کمپنی نے یہ ہتھیار بنائے، اس نے حکومت کو پیش کش کی تھی کہ وہ پوائنٹ ۹ کے پیلٹ سپلائی کرے گی، جو نسبتاً کم خطرناک ہوں گے، مگر اس وقت تک اسرائیلی حکومت نے کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا‘‘۔ رائزنر نے تسلیم کیا کہ مسلح جنگجوؤں کے برعکس مظاہرین سے نمٹنا آسان نہیں ہوتا، خصوصاً جب عالمی میڈیا اس کی رپورٹنگ بھی کر رہا ہو‘‘۔

 حیرت کی بات ہے کہ ہمارے دورے کے چند ماہ بعد ہی یہ ہتھیا ر،جو اسرائیل کے اسلحہ خانوں میں زنگ آلود ہو رہے تھے،کشمیر میں استعمال کرنے کے لیے بھارت کی وزارت داخلہ نے درآمد کر لیے۔ اور لائسنس ایگریمنٹ کے تحت خود بھارت کے دفاعی ادارے اب یہ تیار کرتے ہیں۔ ڈیوڈ رائزنرنے بتایا تھا کہ : ’’ہم نے ربر سے لپٹی ہوئی اسٹیل کی گولیوں اور بے ہوش کرنے والی گیس کا بھی تجربہ کیا تھا، مگر نشانہ بننے والے بچوں پر ان کے مہلک اثرات کے سبب ان پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ بھارت میں پیلٹ گنوں کے بعد اب یہ دونوں ہتھیارکشمیر میں استعمال ہورہے ہیں‘‘۔ اس اسرائیلی افسر نے بھارتی صحافیوں کو ششدر اور رنجیدہ کردیا، جب اس نے کشمیر میں تعینات ’بھارتی فوج کے افسروں کے کارنامے‘ سنانے شروع کیے۔ اس نے کہا: ’’بھارتی افسر اس بات پر سخت بے زاری کا اظہار کرتے ہیں کہ:’’ شورش زدہ علاقوں میں مسلح اور غیر مسلح کی تفریق کیوں کی جائے؟ حال ہی میں اسرائیل کے دورے پر آئے ہوئے ایک بھارتی جنرل نے مجھ کو بتایا کہ کشمیر میں ہم پوری آبادی کوگھیرکرگھروں میں گھس کر تلاشی لیتے ہیں، کیوںکہ    ان کے لیے کشمیر کا ہردروازہ دہشت گردکی پناہ گاہ ہے‘‘۔ ڈیوڈ رائزنر نے سلسلۂ کلام جوڑتےہوئے کہا: ’’ہم نے بھارتی جنرل کو جواب دیا کہ اسرائیل پوری دنیا میں بدنام سہی، مگر اس طرح کے آپریشن اور وہ بھی بغیر کسی انٹیلی جنس کے، ہماری جوابی کارروائیوں میں شامل نہیں ہیں‘‘۔ یاد رہے رائزنر، اسرائیلی وزیراعظم یہود برک کے اس وفد کے بھی رکن تھے، جس نے کیمپ ڈیوڈ میں فلسطینی رہنماؤں کے ساتھ جولائی ۲۰۰۰ء میں گفت و شنید کی تھی۔

مارچ۲۰۱۶ءمیں ایک اسرائیلی سپاہی ایلور ارزانیہ نے زمین پر گرے ایک فلسطینی زخمی شخص کے سرکو نشانہ بناکر ہلاک کردیا تھا۔ اگرچہ اسرائیلی فوج کے مطابق یہ شخص ان پر حملہ کرنے کی نیت سے آیا تھا اور اس کی شناخت ایک دہشت گرد کے طور پر کی گئی تھی، مگر ارزانیہ پر ملٹری کورٹ میں مقدمہ چلا اور اس کو ۱۸ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔ اس پر پورے اسرائیل میں دائیں بازو کی جماعتوں نے ہاہا کار مچادی، کہ ایک دہشت گرد کو ہلاک کرنے کے الزام میں فوجی کو کس طرح سزا ہوسکتی ہے۔ اس ہا ہا کار میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو بھی شریک تھے، مگر اسرائیلی فوج نے عوامی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر سزا کو عمر قید میں تبدیل کرنے کے لیے اعلیٰ عدالت میں اپیل دائر کی۔

ان واقعات کو بیان کرنے کا مقصد کسی بھی طور پر اسرائیلی جرائم کا دفاع کرنا نہیں بلکہ صرف یہ باورکرانا ہے کہ کشمیرکس حد تک عالمی ذرائع ابلاغ میں اور سفارتی سطح پر ناقص ابلاغِ عامہ (under reporting) کا شکار رہا ہے اور فوجی مظالم کی تشہیرکس قدر کم ہوئی ہے۔ ڈیوڈ رائزنرنے جنرل کا نام تو نہیں بتایا مگر کہا کہ: ’’ہم نے بھارتی فوجی وفد کو مشورہ دیا تھا کہ : عسکری اور غیرعسکری میں تفریق نہ کرکے آپ کشمیر میں صورت حال کو پیچیدہ بنا رہے ہیں‘‘۔

بھارت میں شہریانِ کشمیر پہ ڈھائے جانے والے مظالم پر، مظلوموں کی اَشک شوئی اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے چاروناچار کمیشن بنتے ہیں۔ مگر کمیشنوں کا کھیل دیکھنے کے لیے تاریخ کا یہ ورق ملاحظہ فرمایئے۔ ادارہ

یوں تو پچھلے کئی عشروں سے کشمیر کی ہرگلی میں آگ اور خون کی داستانیں رقم ہورہی ہیں، مگر ۶جنوری ۱۹۹۳ء کا دن ریاست کے تجارتی مرکز سوپور کے لیے قیامت صغریٰ سے کم نہیں تھا۔ بھارت کی نیم فوجی تنظیم بارڈر سیکورٹی فورس (BSF) کی ۹۴ویں بٹالین جو قصبے میں تعینات تھی، اس نے شہر کے مرکز میں آگ و خون کی ہولی کھیل کر ۶۰معصوم افراد کو گولیوں سے بھون ڈالا،  کئی افراد کو زندہ جلایا، جب کہ ۳۰۰ سے زائد رہایشی اور تجارتی عمارات کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا۔

کشمیر کے لیے سوپور کی وہی اہمیت رہی ہے، جو بھارت کے لیے ممبئی یا پاکستان کے لیے کراچی کی ہے۔ یہ نہ صرف شمالی کشمیر کے لیے راہداری ہے، بلکہ ریاست کے اکثر متمول گھرانوں اور معروف کاروباری شخصیات کا تعلق بھی اسی قصبہ سے رہا ہے۔ جب آس پاس کی زمینیں زرخیز ہوں اور باشندوں کی گھٹی میں تجارتی فراست اور محنت شامل ہو، تو اس علاقے کا فی کس آمدنی کی شرح میں اوّل آنا لازمی تھا۔ اسی لیے سوپور کو ’چھوٹا لندن‘ کی عرفیت اور اعلیٰ سیبوں کے مرکز کے نام سے بھی یاد کیا جاتا رہا ہے۔

۱۹۸۹ء کے اواخر میں جب بھارتی حکومت نے جگ موہن کو گورنر بنا کر بھیجا تاکہ عسکری تحریک، جو ابھی ابتدا میں ہی تھی کو لگام دی جاسکے۔ جگ موہن کی تجویز تھی کہ سب سے پہلے آزادی پسند حلقوں اور تحریک ِ کشمیر کو ملنے والی مالی اعانت کی روک تھام ہونی چاہیے۔ جگ موہن جو بعد میں مرکز میں وزیر بھی رہے، انھوں نے اس سلسلے میں خاص طور پر سوپور کی نشان دہی کی۔ ان کا خیال تھا کہ اگر سوپور میں تجارتی سرگرمیوں کو نشانہ بنایا جائے یا ان کی کڑی نگرانی کی جائے تو یہ قصبہ تحریک کی مالی معاونت کے قابل نہیں رہے گا۔ اس سلسلے میں جگ موہن نے بھارتی وزارتِ داخلہ کو یہ بھی مشورہ دیا کہ دہلی میں آزادپور فروٹ منڈی کے آڑھتیوں کو قائل کیا جائے کہ وہ اس علاقے سے سیبوں کی خرید بند یا کم کردیں۔

چندماہ گزرے تو میرواعظ مولوی محمد فاروق کی ہلاکت اور ان کے جنازے پر فائرنگ کے واقعہ کے بعد حکومت نے جگ موہن کو معزول کرکے ان کی جگہ انٹیلی جنس کے ایک گھاگ افسر گریش چندر سکسینہ کو بطور گورنر بھیجا۔ مگر حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ نئے گورنر نے کم و بیش اپنے پیش رو کی پالیسی کو برقرار رکھا۔ دہلی میں پالیسی سازوں کا خیال تھا کہ اگر سیاسی آگہی کے  اس مرکز کو صدیوں پہلے چانکیہ کی تجویز کی ہوئی پالیسی: سام (گفتگو)، دھام (لالچ)، ڈھنڈ (سزا) اور بھید (بلیک میل) سے قابو کرلیا جائے ، تو بقیہ ریاست سے بھی تحریک کا آسانی سے صفایا ہوسکتا ہے۔ ۶جنوری ۱۹۹۳ء کا قتل عام اسی کی ایک کڑی تھا۔

مجھے یاد ہے کہ اس ہولناک دن یخ بستہ ہوائیں چل رہی تھیں۔ آسمان اَبرآلود تھا، گویا کسی غیریقینی صورتِ حال کی عکاسی کر رہا تھا۔ صبح ساڑھے دس بجے مرکزی چوک کی ایک گلی میں تعینات بی ایس ایف کے اہلکار پر جنگجوئوں نے حملہ کرکے اسے ہلاک کر دیا اور اس کی رائفل بھی چھین لی۔ بس پھر کیا تھا، قصبے میں تعینات بی ایس ایف کے اہلکاروں کی بندوقوں نے ہرگلی، ہرنکڑ، ہر چوراہے اور ہرسڑک پر آگ برسانی شروع کی۔ دکان دار اپنی دکانوں میں پھنس کر رہ گئے۔ پورے قصبے میں اتھل پتھل مچ گئی اور لوگ چیخ پکار کرکے اپنی جان بچانے کی کوشش کرنے لگے۔

اس وقت بانڈی پورہ جانے والی ایک مسافر بس وہاں سے گزر رہی تھی۔ یہ بس مسافروں کے لیے تابوت بن گئی۔ جموں و کشمیر سول سوسائٹی کے ذریعے جمع کی گئی تفصیلات کے مطابق ،   اس واقعے سے کئی روز قبل  نیشنل کانفرنس سے تعلق رکھنے والے ایک کارکن عبدالاحد کنجوال کے گھر جاکر چند فوجیوں نے ان کو ہدایت کی تھی کہ وہ اس علاقے سے ہجرت کرجائیں، جس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ قتلِ عام کی پہلے سے ہی منصوبہ بندی کرلی گئی تھی اور یہ فقط ایک سپاہی کی ہلاکت سے پیدا شدہ وقتی اشتعال نہیں تھا۔

پورے قصبے میں آگ لگانے کی یہ ہولناک کارروائی پورے چار گھنٹے جاری رہی۔  بانڈی پورہ سے آنے والی موٹرکار میں ایک فیملی سفر کر رہی تھی، ایک اہلکار نے ان کے شیرخوار بچے کو ہوا میں لہرا کر آگ کے حوالے کر دیا، بقیہ افراد کو بھی گولیوں سے نشانہ بنا کر تڑپتے ہوئے آگ میں دھکیل دیا۔ اس خونیں رقص کے بعد معلوم ہوا کہ کئی سو دکانیں ، عمارتیں اور مال سے بھرے ہوئے سیکڑوں گودام اور زنانہ کالج مکمل طور پر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکے ہیں۔

آگ اور خون کی اس ہولی کے اگلے روز بی ایس ایف کے اس وقت کے سربراہ پرکاش سنگھ قصبہ میں وارد ہوئے اور معززین شہر کو اپنے دربار میں طلب کیا۔ قتل گاہ کا معائنہ کرتے ہوئے اس نے پنجابی میں اہلکاروں سے مخاطب ہوکر کہا کہ: ’’کس پنجابی شیر نے بازو آزمانے میں پوری کسر نکال دی ہے؟‘‘۔ ایک اوباش لڑکے نے فخراً بتایا کہ میں نے کئی افراد کو ہلاک کیا ہے۔ پرکاش سنگھ نے سب کے سامنے اس کی پیٹھ تھپتھپائی۔ قرونِ وسطیٰ کی وہ تاریخ شاید دہرائی جارہی تھی،  جب منگول حکمران چنگیز خان جنگ کے میدان کا معائنہ کرتے ہوئے لاشوں کے انبار اور کھوپڑیوں کے مینار دیکھ کر جرنیلوں کو شاباشی دیتا تھا۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ پرکاش سنگھ آج بھارت میں پولیس میں اصلاحات اور فورسز میں انسانی حقوق کے تئیں بیداری لانے کے بڑے نقیب ہیں۔

کئی روز بعد دلّی سے مرکزی وزرا مکھن لال فوطیدار، غلام نبی آزاد، مرحوم غلام رسول کی معیت میں وارد ہوئے اور ہرممکن امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔ لیکن سوپور کے باشندوں نے حکومتی امداد قبول نہیں کی، بلکہ عوامی سطح پر جو ریلیف جمع کیا گیا تھا، وہی متاثرین میں تقسیم ہوا۔ انشورنس کمپنیوں نے بھی منہ موڑ لیا۔ جس کے بعد ا س وقت کے مرکزی وزیرخزانہ اور سابق وزیراعظم   من موہن سنگھ کی مداخلت کے بعد انشورنس کمپنیوں نے معاوضہ واگزار کرنے کا یقین دلایا، تاہم یہ وعدہ بھی کبھی ایفا نہ ہوسکا۔ مقامی تجارتی انجمن نے عدالت سے رجوع کرکے انشورنس کمپنیوں سے معاوضہ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی مگر اس میدان میں چند ہی دکان دار خوش نصیب نکلے۔

عوامی دبائو کے تحت حکومت نے ۹۴بٹالین بی ایس ایف کے کمانڈنٹ کو پانچ دیگر اہلکاروں سمیت معطل کیا۔ ۹جنوری کو واقعے کی جوڈیشل انکوائری کے احکامات بھی صادر کیے گئے اور ۳۰جنوری کو جسٹس امرسنگھ چودھری کو تحقیقاتی آفیسر مقرر کیا گیا۔ اس تحقیقاتی عمل کو کبھی آگے بڑھایا نہ جاسکا، بلکہ دو سال گزرجانے کے بعد کمیشن کو تحلیل کر دیا گیا۔ محکمہ قانون، جسٹس چودھری کو مسلسل لکھتا آیا کہ وہ ریاست بالخصوص سری نگر کا گرمیوں میں دورہ کریں تاکہ گواہ جن میں سینیرافسران شامل ہیں، ان کے بیانات قلم بند کیے جاسکیں۔ مگر کمیشن سری نگر آنے سے گریزاں رہا، تاہم جموں آنے پر آمادگی ظاہر کی اور گواہوں کے بیانات قلم بند کرنے کے لیے ۱۵سے۱۷دسمبر ۱۹۹۳ء کا وقت دیا۔ کمیشن کی میعاد جو پہلےہی ختم ہوچکی تھی، ۳۰جنوری ۱۹۹۴ء تک بڑھادی گئی۔ کمیشن کی میعاد بڑھتے ہی جسٹس چودھری نے مجوزہ دورہ پھر منسوخ کر دیا اور اطلاع دی کہ سماعت کی اگلی تاریخ سے ریاستی حکومت کو مطلع کیا جائے گا۔ اس کے بعد کمیشن نے مطلع کیا کہ وہ اپنی کارروائی ۲۱ سے ۲۵مارچ تک جموں میں چلائے گا اور خواہش ظاہر کی کہ گواہوں کی شرکت کو یقینی بنانے کے علاوہ کمیشن کے عملے کی سیکورٹی کا معقول بندوبست کیاجائے گا، لیکن یہ دورہ بھی منسوخ کر دیا گیا اور اطلاع دی گئی کہ اب وہ سماعت مارچ ۱۹۹۴ء کے دوسرے ہفتے میں کرے گا۔ وہ اس کے بعد بھی وعدے سے مکر گیا اور یوں اپریل ۱۹۹۴ء میں کمیشن کی میعاد پھر ختم ہوگئی۔

ریاستی چیف سیکرٹری بی کے گوسوامی نے فائل میں اپنے تاثرات کچھ یوں لکھے: ’’ہمیں یہ ڈراما ختم کرنا چاہیے، گذشتہ ۱۵ماہ سے کوئی سماعت نہیں ہوئی ا ور ۱۸؍اپریل ۱۹۹۵ء کو مرکز کے داخلہ سیکرٹری کے پدمنا بھیا کو لکھا: ’’کمیشن کی جانب سے جموں میں سماعت کا انعقاد عوامی مفاد میں پہلے ہی نہیں تھا لیکن اس کے بعد کمیشن کا رویہ سراسر حوصلہ شکن رہا اور تین ماہ میں انکوائری مکمل نہ کرنے سے لوگوں میں حکومت کے اعتبار کو شدید صدمہ پہنچا ہے‘‘۔ گوسوامی نے پدمنا بھیا کے نام مزید لکھا کہ کمیشن کے قیام کا چوں کہ مقصد ہی فوت ہوچکا ہے اس لیے اب اسے تحلیل کر دینا چاہیے‘‘۔ اس مکتوب کے بعد مذکورہ کمیشن کا باب بند کر دیا گیا۔

بتایا جاتا ہے کہ بعد میں ایک سب انسپکٹر اور دواسسٹنٹ سب انسپکٹروں کو معطل کیا گیا جب کہ ۹۴بٹالین کو سوپور سے تبدیل کرکے پلوامہ تعینات کیا گیا، جہاں انھوں نے پہنچتے ہی لوگوں کو سوپور سانحے جیسے انجام کی دھمکیاں دیں، جس کے کچھ عرصے بعد انھیں راجستھان منتقل کر دیا گیا۔ اس سانحے سے متعلق دو کیس پولیس اسٹیشن سوپور میں درج کیے گئے تھے اور وہاں سے ۲۳جنوری کو انھیں تحقیقات کے لیے مرکزی تفتیشی ایجنسی کو سونپا گیا۔ سی بی آئی کی رپورٹ کے مطابق: دورانِ تحقیقات عینی گواہوں اور مقامی لوگوں کے بیانات لینے کی ازخود کوشش کی، تاہم کسی زخمی یا کسی گواہ نے بی ایس ایف اہلکاروں کی شناخت نہیں کی اور نہ مطلوبہ معلومات فراہم کیں، جس کے نتیجے میں اس سانحے میں ملوث لوگوں کی نشان دہی ناممکن بن گئی اور یہ پتا نہ چل سکا کہ کس نے  عام لوگوں کی جان لی اور آتش زدگی کے لیے کون ذمہ دار ہے‘‘۔ مزید لکھا: ۹۴بٹالین بی ایس ایف کی جانب سے درج کی گئی ایف آئی آر کی تحقیقات کے سلسلے میں بھی حملہ آوروں کی شناخت نہ ہوسکی کہ جس سے یہ معلوم نہ ہوسکا کہ اس سانحہ کے دوران کس نے پہلے فائرنگ کی تھی‘‘۔

یوں کیس لٹکتا ہی رہا اور انصاف کا خون ہوتا رہا۔ حکومت کے اس رویے کی وجہ سے سوپور کے مکین ۲۴برس بعد انصاف کی تمام اُمیدیں کھو بیٹھے ہیں۔ تقریباً چوتھائی صدی بیت گئی ہے،   مگر دل پر لگے زخم آج بھی تازہ ہیں۔ جب تک بھارت اور پاکستان وجۂ نزاع معاملات کا حل تلاش نہیں کرتے، اور خطے میں پاے دار امن و خوش حالی کا ماحول پیدا کرنے کے لیے اقدامات نہیں کرتے، تب تک سوپور جیسے قتل عام ہوتے رہیں گے اور ایسے زخم ہرے ہوتے رہیں گے۔

یہ حقیقت بہرحال تسلیم کرنا پڑے گی کہ ان تمام اَلمیوں کا ماخذ کشمیر کا حل طلب مسئلہ ہے۔ لہٰذا، بہتری اسی میں ہے کہ حقائق سے انکار کے بجاے اس مسئلے کے حل کی سبیل کی جائے۔ کوئی ایسا حل جو تمام فریقوں کے لیے قابلِ قبول ہو، تاکہ برعظیم میں امن و خوش حالی کے دن لوٹ سکیں۔ سوپور کے شہیدوں کے لیے بھی یہ ایک طرح سے خراجِ عقیدت ہوگا۔ اس حیات پرور اور زندہ دلوں کی بستی کی رونقیں بھی لوٹ آئیں گی۔