مولانا عبد المالک


حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کے اسلام کے حسن میں یہ بات شامل ہے کہ وہ بے فائدہ کام چھوڑ دے۔ (ابن ماجہ، ترمذی)

لایعنی اور بے مقصد، بے فائدہ کام اور سرگرمیاں ہماری قومی زندگی اور مشغولیت کا کتنا بڑاحصہ بن چکی ہیں، نئی نسل کی ترجیحات کیا ہیں؟ ہرشخص جائزہ لے کر دیکھ سکتا ہے۔ وقت ضائع کرنے میں تکلف کرنے والے بہت کم لوگ ملتے ہیں۔ اس حدیث میں اللہ کے رسولؐ نے بڑے پیارے انداز سے بتایا ہے کہ جتنا انسان لایعنی مشاغل سے پرہیز کرے، اس کا اسلام اتنا ہی خوب صورت یعنی بہتر ہوتا ہے، زیادہ اجر دلاتا ہے اور یہاں کی زندگی بھی عزت اور سکون سے گزرتی ہے۔ رمضان المبارک کے مہینے میں بطور خاص کوشش کرنا چاہیے کہ زندگی کو ___ اپنے وقت کو___ مثبت مقاصد کے لیے منظم کر کے گزاریں اور اپنے اسلام کے حسن کو خوب سے خوب تر کریں۔ رمضان المبارک کا مہینہ اسی حسن کو بڑھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے۔ اس مہینے میں ذکرواذکار، تلاوتِ قرآن پاک، خدمت ِ خلق، دین کی اشاعت، دروس قرآن و حدیث اور اشاعت لٹریچر کے ذریعے اپنے حسن کو بڑھانے کی کوشش کی جائے۔ ٹی وی ڈراموں، فحش فلموں اور لغو قسم کے ناولوں سے اپنے ایمان و عمل کو برباد نہ کیا جائے۔

اچھا کیا ہے اور بُرا کیا ہے؟ جانتے سب ہیں۔ مسئلہ تو بُرے کو چھوڑنا اور اچھے کو اختیار کرنا ہے۔     اس رمضان میں اس ارادے کو مضبوط اور توانا کیجیے کہ نیکی اختیار کریں گے، بُرائی سے بچیں گے،  وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا پر عمل کریں گے۔


حضرت سہل بن سعدؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت کے  آٹھ دروازے ہیں: ان میں سے ایک دروازہ ’ریان‘ ہے۔ سیر کرنے والا دروازہ، اس سے نہیں داخل ہوں گے مگر روزے دار۔ (متفق علیہ)

روزہ دراصل اپنی خواہشات اور دوسرے لوگوں کی خواہشات اور شیطان کے احکام کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنے کی تربیت حاصل کرنا ہے۔ اس بات کو یاد کرنا اور یاد رکھنا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے حکم کا پابند ہوں۔ حلال کھانا، حلال پینا اور حلال طریقے سے شہوت پورا کرنا، سب    اس وقت ممنوع ہوجاتے ہیں جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ممانعت آجائے۔ ساری حلال چیزیں   صبحِ صادق سے لے کر غروبِ شمس تک حرام ہوجاتی ہیں۔ اس لیے کہ احکم الحاکمین نے حرام کردی ہیں، اور یہی حلال چیزیں رات کے وقت حلال ہوجاتی ہیں، اس لیے کہ رب تعالیٰ نے انھیں رات کو حلال قرار دے دیا ہے۔ رمضان المبارک کے پورے مہینے میں مسلمان اس بات کو تازہ کرتے ہیں۔ رمضان المبارک جب ختم ہوجاتا ہے، عیدالفطر آتی ہے تو اس دن روزہ رکھنا حرام ہے۔ اس دن روزہ رکھنے والا شیطان کا پیروکار ہوتا ہے اور کوئی مسلمان اس بات کی جرأت نہیں کرسکتا کہ اس دن روزہ رکھے۔ روزے میں زیادہ تکلیف پیاس کی ہوتی ہے۔ اس لیے روزے دار کے لیے اللہ تعالیٰ نے خصوصی دروازہ مقرر فرمایا ہے۔ وہ ریان کا دروازہ ہے، یعنی وہ دروازہ جس سے گزرنے والے کو ٹھنڈے اور میٹھے جاموں سے سیراب کیا جائے گا۔

روزے کی یہ حقیقت تقاضا کرتی ہے کہ مسلمان معاشرے میں قرآن و سنت کی حکمرانی ہو اور وہ تمام قوانین جو خلافِ شرع ہوں بلاتاخیر ختم کردیے جائیں اور احکم الحاکمین کے نازل کردہ نظام کو نافذ کردیا جائے۔ جب تک روزے کے اس تقاضے کو پورا نہیں کیا جاتا اس وقت تک روزہ بے اثر رہے گا اور اس سے وہ اثرات مرتب نہ ہوں گے جو روزے سے مرتب ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی روزہ دار بننے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!


حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب رمضان شریف کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیطان جکڑ دیے جاتے ہیں اور سرکش جن بھی بند کردیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ نہیں کھلتا۔ اور جنت کے تمام دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں ہوتا۔ بلانے والا بلاتا ہے، اے خیر کے طلب گار! آگے بڑھ اور اے شر کے طلب گار! رُک جا، اور اللہ تعالیٰ ہر رات لوگوں کو دوزخ کی آگ سے آزاد کرتے ہیں۔ (ترمذی،ابن ماجہ)

ماہِ رمضان چونکہ حکومت الٰہیہ کے قیام کی تربیت کا مہینہ ہے، اس لیے اس میں شیطان جو تمام لادینی نظاموں کا سربراہ ہے، کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں، اور مسلمان اپنے نفس کو اپنی خواہشات سے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں روک دیتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہماری تذکیر کے لیے پورا مہینہ رکھ دیا اور اس مہینے میں عبادت ہمارے لیے آسان بنا دی کہ شیطان کو بیڑیاں پہنا دیں تاکہ وہ کسی بھی قسم کی رکاوٹ نہ ڈال سکے۔ یہی وجہ ہے کہ رمضان المبارک میں مسجدیں آباد ہوتی ہیں، خواتین مسجدوں میں تراویح پڑھنے آتی ہیں تاکہ قرآن پاک مردوں سے آکر سن لیں۔ خواتین اپنے گھروں میں نماز، تلاوتِ قرآنِ پاک اور ذکر کا زیادہ اہتمام کرتی ہیں۔ یوں بندگیِ رب کا ایک موسم بہار آجاتا ہے جو پورے معاشرے کو دین کی خوشبو سے معطر کردیتا ہے۔ یہ مہینہ اس حال میں گزرنا چاہیے کہ   ہم اپنے گناہوں کو معاف کروا لیں اور آیندہ کے لیے بندگیِ رب کے فریضے کے لیے تازہ دم ہوجائیں کہ یہی اس مہینے کا مقصود ہے۔


حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے رمضان کے روزے ایمان کی بنیاد پر ثواب حاصل کرنے کے لیے رکھے تو اس کے تمام گزرے ہوئے گناہ معاف کردیے جائیں گے، اور جس نے رمضان کی راتوں میں ایمان کے جذبے اور ثواب کی خاطر قیام کیا اس کے تمام گذشتہ گناہ معاف کردیے جائیں گے، اور جس نے لیلۃ القدر میں جذبۂ ایمانی اور ثواب کی نیت سے قیام کیا اس کے تمام گذشتہ زمانے کے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ (مشکوٰۃ، کتاب الصوم)

ایک مسلمان اگر پاک صاف ہونا چاہے تو اس کے لیے رمضان المبارک کے مہینے میں دوہرا نہیں بلکہ کئی گنا کا انتظام موجود ہے۔ اللہ رب العالمین کی ذات کتنی زیادہ مہربان ہے۔ اس نے بندوں کے تزکیے کا کس قدر وسیع انتظام فرما دیا ہے۔ دن کو روزہ رکھ کر، رات کو تراویح پڑھ کر اور لیلۃ القدر میں بیدار رہ کر انسان گناہوں کے میل کچیل کو پوری طرح صاف کرسکتا ہے بشرطیکہ ایمانی جذبہ موجود ہو اور اسے ثواب حاصل کرنے اور تزکیے کی فکرمندی نے بے قرار کیا ہوا ہو۔

بلاشبہہ رمضان المبارک تزکیے اور تطہیر کا مہینہ ہے اور اس میں تزکیے کا پورا پورا سامان کیا گیا ہے۔ انسان چاہے تو اپنے آپ کو گناہوں کے بوجھ سے آزاد کرے، روحانی قوت کو اوجِ کمال پر پہنچا کر بندگیِ رب میں مصروف ہوجائے اور قربِ الٰہی کی منازل برق رفتاری سے طے کرنا شروع کردے۔


حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابن آدم کے ہرعمل کی نیکی دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک پہنچتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا مگر روزہ، وہ میرے لیے ہے اور میں براہِ راست اس کی جزا دوں گا، وہ اپنے کھانے اور شہوتوں کو میرے لیے چھوڑتا ہے۔ روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہیں: ایک خوشی افطار کے وقت اور دوسری خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت۔ روزے دار کے منہ کی مہک اللہ تعالیٰ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے زیادہ خوشبودار ہے اور روزہ ایک ڈھال ہے۔ پس جب تم میں سے ایک آدمی کا روزہ ہو تو وہ فحش بات نہ کرے اور شوروغوغا نہ کرے۔ اگر اس سے کوئی آدمی گالی گلوچ سے پیش آئے یا لڑائی لڑے تو وہ جواب میں یہ کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔ (مشکوٰۃ، متفق علیہ)

شہوت سب سے بڑا بت ہے۔ روزے کے ذریعے اسے توڑا جاتا ہے۔ اس لیے روزہ دار کی جزا بے حساب ہے۔ اسے اللہ رب العالمین براہِ راست جزا عنایت فرمائیں گے کہ اس نے سب سے بڑھ کر عبادت کی ہے اور اس بت کو توڑا ہے جو براہِ راست اللہ تعالیٰ کے مدمقابل ہے۔ اس شہوت کو شیطان ذریعہ بناتا ہے، اسی کو طاغوتی قوتیں آلۂ کار بناتی ہیں۔ جب یہ ٹوٹ جائے تو پھر شیطان بھی مایوس ہوجاتا ہے اور طاغوتی قوتیں بھی ناکام ہوجاتی ہیں لیکن یہ اس وقت ہوگا جب ایک انسان  حقیقی معنی میں روزہ دار ہو۔ اس نے اس عزم کے ساتھ روزہ رکھا ہو کہ مجھے اپنی خواہشات کی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے نظام کی حکمرانی قائم کرنی ہے اور تمام حکمرانیوں اور نظاموں کو مٹا کر اللہ کے نظام کو قائم اور نافذ کرنا ہے۔ ایسا شخص اللہ کا پیارا ہے۔اس کے منہ کی مہک بھی اللہ تعالیٰ کو پیاری ہے۔ پھر اس کے لیے روزہ ڈھال بھی ہے۔ گناہوں سے بچانے والا ہے اور روزہ افطار کرتے وقت بھی اسے خوشی حاصل ہوتی ہے۔ پانی اور کھانے سے سیراب ہوتا ہے، یہ جسمانی خوشی ہے۔ حکم الٰہی کو سرانجام دینے کی خوشی نصیب ہوتی ہے، یہ ایمانی خوشی ہے۔ پھر آخرت میں رب سے ملاقات کے وقت اس کی رضا سے سرفراز ہونے کی خوشی جو سیدھا جنت میں داخلے کا ذریعہ ہے۔ روزہ دار اپنی تمام منازل سے شاداں و فرحاں ہوکر آخری منزل پر پہنچ کر خوشیوں اور راحتوں میں مگن ہوگا۔ آیئے! اپنے روزے کو حقیقی روزہ بناکر دنیا و آخرت کی نعمتوں سے مالا مال ہوجائیں۔

 

حضرت معاویہ بن حکمؓ سے روایت ہے ، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میری ایک لونڈی میری بکریاں چرا رہی تھی، میں اس کے پاس آیا تو میں نے اپنی ایک بکری کو گم پایا۔ میں نے اس سے اس کے بارے میں پوچھا تو اس نے جواب دیا: اسے بھیڑیے نے کھا لیا ہے۔ یہ سن کرمجھے لونڈی پر غصہ آیا اور میں نے اس کے چہرے پر تھپڑ ماردیا۔ میں انسان تھامجھ سے یہ بشری کمزوری صادر ہوگئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے  سن کر فرمایا: تم نے لونڈی کو اس کے کسی قصور کے بغیر تھپڑ مار کر بہت بڑی زیادتی کی۔ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں اسے اس زیادتی کے عوض آزاد کرنا چاہتا ہوں۔ ویسے بھی مجھ پر بطور کفارۂ ظہار یا کفارۂ قسم، ایک غلام آزاد کرنا واجب ہے، تو کیا اس کو اس کفارے کے عوض میں آزاد کردوں تو کفارہ ادا ہوجائے گا؟ رسول ؐ اللہ نے فرمایا: اسے بلائو۔ اسے بلایا گیا تو آپؐ نے اس سے پوچھا: اللہ کہاں ہے؟ اس نے جواب دیا: آسمان میں۔ پھر پوچھا: میں کون ہوں، اس نے جواب دیا: آپؐ اللہ کے رسولؐ ہیں۔ اس پر آپؐ نے فرمایا: اسے آزاد کردو، یہ مومنہ ہے۔ (موطا امام مالک، مسلم)

صحابہ کرامؓ کی جو ایمانی تربیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی اس کے نتیجے میں اگر کبھی ان سے کسی کے ساتھ کوئی زیادتی یا گناہ ہوجاتا تھا تو جلد ہی انھیں اپنی غلطی اور زیادتی کا احساس ہوجاتا تھا اور وہ اس پر نادم ہوجاتے تھے۔ حضرت معاویہ بن حکمؓ سے اپنی لونڈی کے ساتھ زیادتی ہوئی۔ انھوں نے اسے جو تھپڑ مارا وہ بلاوجہ تھا، بکری کو بھیڑیا کھا گیا، اس میں لونڈی کی غفلت کو دخل نہ تھا۔ وہ بکریوں کی نگرانی اور رکھوالی کر رہی تھی کہ اس دوران میں بھیڑیئے نے اچانک حملہ کیا اور ایک بکری کو لے گیا۔ لونڈی نے چھڑوانے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکی۔ حضرت معاویہ بن حکمؓ کو احساس ہوگیا کہ انھوں نے بشری کمزوری کی بناپر بلاوجہ لونڈی پر غصہ نکالا اور بلاوجہ تھپڑ مارا۔ لہٰذا لونڈی کو آزاد کردینے کاارادہ کرلیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضری کا مقصد یہ تھا کہ ان پر اس سے پہلے ایک کفارہ بھی واجب ہوگیا تھا، قسم توڑنے کا یا بیوی کے ساتھ ظہار کرنے کا۔ انھوں نے پوچھا کہ اس لونڈی کو اگر مَیں اس کفارے کے عوض آزاد کردوں، تو کفارہ ادا ہوجائے گا؟ اور جو مجھ سے زیادتی ہوئی ہے اس کا مداوا بھی ہوجائے گا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈی کو بلاکر دو سوال کیے۔ ان سوالات کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ وہ مومنہ ہے یا نہیں، کہیں زمینی معبودوں کی بندگی کی قائل تونہیں۔ جب اس کے جواب سے آپؐ کو اطمینان ہوگیا کہ وہ مومنہ ہے تو آپؐ نے اسے آزاد کر دینے کا حکم فرما دیا۔ اس لیے کہ کفارۂ قسم اور کفارۂ ظہار میں اس غلام کو آزاد کرنا کفارہ بنتا ہے جو مسلمان ہو، غیرمسلم غلام اور لونڈی کو آزاد کردینے سے کفارئہ قسم اور کفارئہ ظہار ادا نہیں ہوتا۔آپؐ کے فرمانے کا مطلب یہ تھا کہ اس لونڈی کو آزاد کردینے سے کفارئہ قسم یا کفارئہ ظہار بھی ادا ہوسکتا ہے اور جو زیادتی تجھ سے ہوگئی ہے اس کا ازالہ بھی ہوجائے گا اور آخرت میں تم سے اس کا مواخذہ نہ ہوگا۔ صحابہ کرامؓ آخرت میں سزا بھگتنے کے بجاے دنیا میں اپنے آپ کو سزا کے لیے پیش کرکے اُخروی سزا سے بچنے کی تدبیر کیا کرتے تھے۔ آج ہم غفلت کا شکار رہتے ہیں۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کو تلف کردینے کے باوجود پروا نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرامؓ کی طرح کا احساس اور فکرمندی عطا فرما دے، آمین!


حضرت عمران بن حطان سے روایت ہے کہ میں حضرت ابوذرؓ کے پاس آیا تو انھیں مسجد میں سیاہ چادر اُوڑھے تنہا بیٹھا ہوا پایا۔ میں نے عرض کیا: ابوذرؓ! یہ تنہائی کیسی ہے؟ انھوں نے جواب دیا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تنہائی بُرے ہم نشین کے مقابلے میں بہتر ہے اور صالح ہم نشین تنہائی کے مقابلے میں بہتر ہے، اور خیر کی بات کرنا خاموشی سے بہتر ہے اور خاموشی بُری بات پھیلانے سے بہتر ہے۔ (بیہقی فی شعب الایمان)

کیسی عمدہ اور جامع نصیحتیں ہیں۔ ان پر عمل پیرا ہونے والا اپنی جھولیاں نیکی سے بھرے گا اور بُرائیوں سے محفوظ رہے گا۔ تنہائی میں اللہ کا ذکر ہو یا پھر صالح ہم نشین ہو تو اس کی صحبت سے فیض یاب ہوکر ایمان اور عمل میں اضافہ کرے گا ۔ اگر صالحین کی جماعت میسر ہوجائے جو اقامت ِ دین کی جدوجہد  میں مصروفِ عمل ہو تو پھر انسان اس مقصد کو حاصل کرنے میں مصروف ہوجائے گا جس کے لیے انبیاے علیہم السلام مبعوث ہوئے ہیں، یعنی غلبۂ دین اور حکومت الٰہیہ یا دوسرے الفاظ میں خلافت ِ راشدہ کا قیام۔ پھر خیر کی اشاعت امربالمعروف اور نہی عن المنکر میں مصروف رہنا وہ سعادت ہے جو  انبیاے علیہم السلام کے بعد اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں کو نصیب ہوتی ہے۔ اس حدیث پر ہرمسلمان عمل کرے تو اُمت میں عظیم انقلاب برپا ہوجائے گا۔


حضرت انسؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: غیبت کا ایک کفارہ  یہ ہے کہ آدمی اس شخص کے لیے استغفار کرے جس کی غیبت کی ہے۔ کہے: اے اللہ! ہماری اور   اس کی مغفرت فرما۔ (رواہ البیہقی فی الدعوات)

جس کی غیبت کی جائے اس کا اصل کفارہ تو یہ ہے کہ آدمی اس سے معافی طلب کرے۔ اگر یہ نہ کہہ سکتا ہو کہ میں نے جو آپ کی غیبت کی ہے وہ معاف کردیں تو یوں کہہ دے کہ مجھ سے آپ کا جو حق تلف ہوا ہو، جو زیادتی ہوئی ہو وہ معاف کردیجیے، اور اگر متعلقہ شخص فوت ہوگیا ہو تو پھر غیبت کا کفارہ اس شخص کے لیے دعاے مغفرت ہے جس کی غیبت کی گئی۔ غیبت گناہِ کبیرہ ہے۔ قرآن پاک میں اسے اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس لیے غیبت کے گناہ کے ازالے کے لیے آدمی کو فکرمند ہونا چاہیے۔ دنیا میں اس کا ازالہ نہ کیا جاسکا تو آخرت میں اس کا عوض دینا بہت مشکل ہوگا۔  اللہ تعالیٰ ہمیں بندوں کے حقوق ادا کرنے اور ان کو دنیا میں راضی رکھنے کی توفیق سے نوازے، آمین!


ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ دو آدمیوں نے ظہر یا عصر کی نماز پڑھی۔ وہ دونوں روزے سے تھے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کرلی تو ان دونوں سے فرمایا: تم دوبارہ وضو کرو، دوبارہ نماز پڑھو، اور جو روزہ رکھا ہے، اسے مکمل کرو لیکن اس کی قضا بھی کرو۔ انھوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! کس وجہ سے؟ آپؐ نے فرمایا: تم نے فلاں آدمی کی غیبت کی ہے۔ (بیہقی فی شعب الایمان)

غیبت کرنے والے کا وضو، نماز اور روزہ سب ناقص ہوتے ہیں۔ ان سے وہ اثرات مرتب نہیں ہوتے جو ان عبادات سے مرتب ہونے چاہییں۔ تزکیۂ نفس اور ایمان میں اضافہ او رتعلق باللہ حاصل نہیں ہوتے۔ اس لیے کہ غیبت گناہِ کبیرہ ہے، اور گناہِ کبیرہ کے مرتکب شخص کی نیکیاں اللہ تعالیٰ کے ہاں قابلِ قبول نہیں ہیں۔ لوگ اس حقیقت سے بے خبری کی وجہ سے ایک طرف نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور دوسری طرف کبیرہ گناہوں میں بھی مبتلا ہوتے ہیں اور مطمئن رہتے ہیں کہ عبادات تو ادا کر رہے ہیں۔ تاجر ہو تو مال میں ملاوٹ کرتے ہیں۔ دودھ میں پانی، ناقص گوشت اور کم تولنا، دیگر اشیاے خوردونوش میں ایسی چیزوں کی ملاوٹ جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ کسی محکمے کا افسر ہے تو خیانت اور کرپشن اور رشوت کے ذریعے مال بنا رہا ہے۔ ہاتھ میں تسبیح پکڑی ہے، لیکن دل دنیا پرستی، زرپرستی اور شاہ پرستی کے مرض میں مبتلا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کہ روزے کو مکمل کرو اور اس کی جگہ ایک روزہ قضا بھی کرو، کا معنی یہ ہے کہ روزہ غیبت کے باوجود ٹوٹتا نہیں ہے لیکن ناقص ہوتا ہے۔ اس لیے ایک ایسا روزہ رکھو جو غیبت اور دوسرے کبیرہ گناہوں سے پاک ہو۔ دوبارہ وضو کرنے، دوبارہ نماز پڑھنے اور روزہ قضا کرنے سے غیبت کا گناہ ختم نہیں ہوتا۔ غیبت کا گناہ اس وقت ختم ہوگا جب اس شخص سے جس کی غیبت کی گئی ہے معافی طلب کی جائے اور اگر وہ فوت ہوگیا ہو تو اس کے لیے دعاے مغفرت کی جاتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دوسرے ارشادات میں اس کی وضاحت فرما دی ہے۔ اس کو اس حدیث کے ساتھ شامل سمجھا جائے۔


حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اگر میرے بندے میری اطاعت کریں تو میں ان پر رات کے وقت بارشیں برسائوں اور دن کے وقت سورج طلوع کروں اور انھیں گرج کی آواز نہ سنائوں۔ (مسند احمد)

جب بندے اللہ تعالیٰ کے مطیع فرمان ہوجائیں، اور اس کے کام کرنے لگیں تو اللہ بندوں کے کام خود کرنے لگتا ہے۔ ہوائیں ان پر بارشیں برساتی ہیں، سرسبز ی و شادابی ملتی ہے، خوش حالی حاصل ہوتی ہے، معاشی حالت مضبوط اور مستحکم ہوتی ہے۔ دنیا میں کسی قسم کی پریشانی لاحق نہیں ہوتی، رات کو بارشیں اور دن کو سورج نمایاں نظر آتا ہے اور گرج و چمک کی تکلیف سے بھی محفوظ ہوتے ہیں۔ دنیا میں انسانوں کا سب سے بڑا مسئلہ معاشی خوش حالی اور معاشی استحکام کا حصول اور تکالیف اور پریشانیوں سے نجات ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے ہوجاتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی دنیا بھی بناتے ہیں اور آخرت بھی سنوار دیتے ہیں۔ ان کی دنیا کی ہر طرح کی پریشانیاں دُور ہوجاتی ہیں۔ وہ کسی معمولی تکلیف سے بھی دوچار نہیں ہوتے، سورج کو بادل نہیں چھپاتے اور بارش پھر گرج اور چمک کے ساتھ برستی ہے۔ وہ اپنے گھروں میں آرام اور سکون کی نیند سوتے ہیں۔ تب اللہ تعالیٰ کی بندگی میں کیوں سستی کی جائے، اس کے کاموں کے ذوق و شوق اور جذبے میں کیوں کمی ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے مقبول بندوں میں شامل فرمائے، آمین!

 

حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساحلِ سمندر کی جانب ایک لشکر بھیجا جس میں ۳۰۰ مسلمان شامل تھے۔ آپؐ نے حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓکو ان کا امیر بنایا۔ میں بھی ان ۳۰۰ میں شامل تھا۔ ہم نکل کھڑے ہوئے، ہم راستے میں تھے کہ زادِراہ ختم ہونے کے قریب ہوگیا۔ تب ابوعبیدہ بن جراحؓ نے فوج کو حکم دیا کہ ہرآدمی وہ سب کچھ ایک جگہ لے آئے جو اس کے پاس ہے۔ چنانچہ سب نے اس پر عمل کیا، جس کے نتیجے میں کھجوروں کے دو بورے بھر گئے۔ حضرت ابوعبیدہ ان بوروں میں سے ہر دن ہر فوجی کو ایک کھجور کھانے کے لیے دیتے تھے یہاں تک کہ وہ دونوں بورے بھی ختم ہوگئے۔ حضرت وھب بن کیسانؓ جو حضرت جابر ؓ سے اس روایت کو بیان کرتے ہیں، کہتے ہیں: میں نے کہا کہ ایک کھجور کیا کام دیتی ہوگی۔ اس پر حضرت جابرؓ نے کہا: ہمیں تو اس کی قدر اس وقت ہوئی جب وہ ایک ملنا بھی بند ہوگئی۔ حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد بھی ہم چلتے رہے یہاں تک کہ سمندر کے ساحل (جو منزل تھی) پر پہنچ گئے تو دیکھا کہ ٹیلے کی طرح ایک مچھلی کنارے پر پڑی ہے۔ اس کو ہم نے ۱۸دن خوب سیر ہوکر کھایا۔ حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ نے اس مچھلی کے دو کانٹوںکو کھڑا کیا (ان میں نیچے سے فاصلہ رکھا، اور اُوپر سے ملا دیا، پھر اُونٹنی پر کجاوے ڈال کر ان دونوں کانٹوں کے بیچ سے گزار ا گیا تو وہ گزر گئی اور کانٹوں کے سروں کے ساتھ نہ ٹکرائی۔ (بخاری، کتاب الشرکۃ)

صحابہ کرامؓ نے جس تنگ حالی میں جہاد کیا، اس کا ایک نمونہ یہ جہادی مہم ہے، کہ ایک کھجور کھا کر دن رات گزارا کرنا اور اس کے ساتھ ہی جہادی مہم کو سر کرنا، آگے بڑھتے چلے جانا اور پیچھے نہ ہٹنا، اور کوئی واویلا نہ کرنا اور کسی قسم کی بے صبری اور افراتفری کا شکار نہ ہونا۔ ایسی حالت میں آپس میں ہمدردی اور غمگساری کا یہ عالم ہے کہ سب کے پاس جو کچھ ہے وہ اکٹھا کرلیا جاتا ہے تاکہ ایسا نہ ہو کہ کوئی تو کھائے اور کوئی بھوکا رہے۔

آج اگر یہ ہمدردی اور غمگساری ہمارے معاشرے میں آجائے تو بھوک کا مسئلہ آناً فاناً حل ہوجائے۔ معاشرے کے کھاتے پیتے لوگ ہمدردی، غمگساری اور معاشرے کے غم میں ڈوب جانے اور آنسو بہانے کی باتیں تو بہت کرتے ہیں لیکن خزانوں پر سانپ بن کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اگر سب لوگ اپنی دولت کو ایک جگہ جمع کرکے اسے ملک و ملّت کے حوالے کر دیں تو بیرونی قرضے بھی یک دم ختم ہوجائیں اور اندرونی معیشت بھی مضبوط و مستحکم ہوجائے اور کوئی بھوکا ننگا نہ رہے۔ بے شک اس کے لیے اپنی ساری دولت سے دست بردار نہ ہوں بلکہ قرضوں کی ادایگی اور عوام کے بھوک اور ننگ دُور کرنے کے لیے جس قدر دولت کی ضرورت ہے اتنی مقدار سے دست بردار ہوجائیں، تب بھی صورت حال تبدیل ہوسکتی ہے اور بدامنی کی جگہ امن، تنگی کی جگہ آسانی اور پریشانی کی جگہ اطمینان اور سکون کی زندگی میسر آسکتی ہے۔ ایسا کرلیں تو اللہ تعالیٰ کی غیبی مدد نازل ہوسکتی ہے اور ہمیں غیب سے رزق مل سکتا ہے۔ آج کے دور میں قوت کا راز ہی مستحکم معیشت ہے۔ یہ ہمیں قوموں کی برادری میں معزز مقام دلواتی، اور ۲۱ویں صدی امریکا یا چین کے بجاے ہمارے نام ہوجاتی۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَ لَوْ اَنَّھُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰۃَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ مِّنْ رَّبِّھِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْقِھِمْ وَ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِھِم(المائدہ۵:۶۶) ’’اگر یہ لوگ تورات، انجیل اور اسے قائم کرتے جو ان کی طرف ان کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے (یعنی قرآن پاک ) تو ان پر اُوپر سے بھی رزق برستا اور نیچے سے بھی رزق برستا‘‘۔گویا اہلِ کتاب تورات کے دور میں تورات اور انجیل کے دور میں انجیل اور قرآن پاک کے دور میں قرآن پاک کو قائم کرلیتے تو ان پر  اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق کے تمام دروازے کھل جاتے۔ اس نسخے پر ۵۷ممالک عمل کریں تو    کون سی سوپرپاور ہمارے سامنے ٹھیرتی۔ہم محض اپنی نادانی میں ان پاورز کی ٹھوکروں میں پڑے ہیں، العیاذ باللہ۔ کاش کہ ہم تقویٰ کی روش اختیار کریں اور زمین و آسمان کی برکتوں اور نعمتوں کا مشاہدہ کریں۔ قرآن و سنت پر عمل کرنے سے آخرت تو بنتی ہے، دنیا بھی سنور جاتی ہے اور معاشی حالت بہتر ہوجاتی ہے۔ رزق میں فراخی، ذہنوں کو سکون اور دلوں کو اطمینان نصیب ہوجاتا ہے۔ لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے دین کی طرف رجوع کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی طرف اپنی رحمت کے ساتھ رجوع کرتا ہے۔ ایسا پہلے بھی ہوا ہے، آج بھی ہوسکتا ہے اور آیندہ بھی حقیقی آسودہ حالی حاصل کرنے کا یہی راستہ ہے۔


حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: راستوں میں بیٹھنے سے بچو۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! راستوں میں بیٹھنا ہماری مجبوری ہے، ہمارا رواج ہے۔ ہم راستوں میں (یعنی راستوں کے کناروں پر) مل بیٹھتے ہیں، مشورے ہوتے ہیں، لہٰذا آپؐ اس کی اجازت مرحمت فرما دیں تو اچھا ہوگا۔ آپؐ نے فرمایا: اگر تم نے راستوں کے کناروں پر بیٹھنا ہی ہے تو پھر راستے کا حق ادا کرو۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! راستے کا حق کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: راستے کاپہلا حق: نظریں نیچے رکھنا ہے، دوسرا حق: تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا ہے، تیسرا حق: سلام کا جواب دینا، اور چوتھا حق بھلائی کی تلقین کرنا اور بُرائی سے روکنا ہے۔ (بخاری، ابواب المظالم والقصاص)

شارع عام کے کنارے پر بیٹھنے کی اجازت ہے بشرطیکہ آنے جانے والوں کو اس سے تکلیف نہ ہو۔ سڑک کے ذریعے آمدورفت بلاروک ٹوک ہونا چاہیے۔ اس لیے راستے کو کم کرنا، تجاوزات کرنا، سڑک کے کنارے ریڑھیاں لگانا، دکانیں اور مکان بنانا اسی صورت میں جائز ہے جب اس سے راستہ گزرنے والوں کے لیے تنگی اور تکلیف پیدا نہ ہوتی ہو۔ اسی طرح معاشرے میں آمدورفت، نشست، بسوں، ٹرینوں اور جہازوں میں سفر کے دوران اور جلسوں، جلوسوں اور اجتماعات کے دوران نظریں نیچی رکھنا اسلامی تہذیب کا امتیاز ہے۔ اسمبلیوں تجارتی مراکز اور ہالوں میں بے پردگی نہیں ہونی چاہیے۔ مردوں کی نشستیں الگ اور خواتین کی الگ ہونی چاہییں۔ کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں بھی اس کا اہتمام کرنا چاہیے۔ دفاتر، ریلوے اسٹیشنوں اور ہوائی اڈوں کے لیے بھی اس کے مطابق نظام بنانا چاہیے۔ مغربی تہذیب نے ہمارے معاشروں کو اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ آج ہمارا معاشرہ بھی مغرب کی طرح مخلوط ہوگیا اور اختلاط مردوزن کی وجہ سے مسلمانوں کی بے راہ روی کے نتیجے میں زندگی سے سکون ختم ہوگیا ہے، اور بندے اللہ تعالیٰ کی بندگی سے غافل ہوگئے ہیں۔ سلام پھیلانے کی جگہ ہم نے ہاتھ سے سلیوٹ کرلینے کو سلام کا بدل بنا دیا ۔ نیکی کا حکم کرنا اور برائی کو روکنا ایک فریضہ ہے جو حکومت، عوام اور علما اور زعما سب کی ذمہ داری ہے، لیکن آج صرف اسے منبر کے ساتھ خاص   کردیا گیا ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو ہم اپنا لیں جیسے کہ اس کو اپنا لینے کا حق ہے، تو دنیا جنت نظیر بن سکتی ہے۔


حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ادھار کی ادایگی کا مطالبہ کیا اور سخت رویہ اختیار کیا۔ صحابہؓ نے ارادہ کیا کہ اسے اس کے نازیبا رویے کی سزا  دیں۔ آپؐ ان کے اس ارادے کو بھانپ گئے تو آپؐ نے فرمایا: اسے چھوڑ دو۔ حق دار کو مطالبہ کرنے اور بات کرنے کا حق ہے۔ جس مالیت کا اس نے اُونٹ دیا تھا اتنی ہی مالیت کا اُونٹ تلاش کرکے اسے دے دو۔ صحابہؓ نے اس طرح کا اُونٹ تلاش کیا لیکن نہ ملا۔ چنانچہ انھوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! اس مالیت کا اُونٹ تو نہیں مل رہا، اس سے زائد مالیت کا اُونٹ مل رہا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: وہی خرید لو اور اسے ادایگی کرو۔ تم میں سے بہتر وہ ہے جو ادایگی میں بہتر ہو (بخاری کتاب االاستقراض )

یہ شخص یہودی تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی سخت روش اور نازیبا انداز کو برداشت کیا۔ اسے اس کا حق نہ صرف ادا کیا بلکہ اس سے زائد دیا۔ آپؐ نبی، رسول اور حکمران تھے۔ آپؐ ایک عام آدمی کی زندگی بسر کرتے تھے، خریدوفروخت کرتے، اُدھار لین دین کرتے۔ کوئی بھی شخص ایسا نہ تھا کہ وہ آپؐ سے مل نہ سکتا تھا، کوئی سیکورٹی اور کوئی دربان آپؐ کے دروازے پر نہ تھا۔ مسجد میں، راستے میں چلتے ہوئے آپؐ سے ملاقات ہوسکتی تھی۔ کیا آج کی مہذب حکومتیں اس کی مثال پیش کرسکتی ہیں؟ کیا رواداری، خوش اخلاقی کا اس سے بہتر نمونہ کہیں تلاش کیا جاسکتا ہے، اور آج کے معاشرے میں اس نمونے کی کوئی حکمران شخصیت سامنے لائی جاسکتی ہے۔ کوئی مذہبی پیشوا بھی ایسا ہے کہ دوسرے مذہب یا مسلک کا شخص اس کے ساتھ سختی سے پیش آئے تو پیروکار اسے برداشت کریں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار تو صحابہؓ تھے۔ کیا انھوں نے آپ ؐ کی صحبت میں کسی کے ساتھ زیادتی کی؟ تب یہ کیسے  ممکن ہے کہ صحابہؓ سے محبت کرنے والا، اہلِ بیتؓ کا پیروکار، ان کی محبت میں لوگوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کے بجاے انھیں پامال کرے۔ مسلمانوں میں یہ بات کہاں سے آگئی ہے؟ یہ قرآن و حدیث کی تعلیمات کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ لادین معاشروں سے ان میں در آئی ہے، لہٰذا مسلمانوں کو اپنے دین کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کی سیرت کو اپنانا چاہیے اور دنیا کے لیے، اس نمونے کو تازہ کرنا چاہیے جو نمونہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ نے پیش کیا ہے۔ آج دنیا کو نبیؐ اور اصحابِ نبیؐ کی سیرت کی ضرورت ہے۔ یہی امن و امان اور شرافت کے دوردورہ کی ضامن ہیں۔

 

بشیر بن یسار حضرت انسؓ کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ وہ مدینہ تشریف لائے (شام گئے تھے، وہاں سے واپس آئے تھے)۔ ان سے کہا گیا: آپ نے ہمارے ہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے مقابلے میں کیا تبدیلی دیکھی ہے ؟ انھوں نے جواب میں کہا: میں نے کوئی تبدیلی نہیں دیکھی سواے اس کے کہ تم صفیں پوری طرح سیدھی نہیں رکھتے۔ (بخاری، کتاب الاذان،ص ۱۰۰)

صحابہ کرامؓ اور تابعین عظام ہمیشہ اس فکر میں رہتے تھے کہ ہماری دینی حالت ٹھیک اسی طرح ہو    جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھی۔ اسی واسطے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے اور اپنے زمانے کے حالات کا موازنہ کرتے رہتے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے حالات کے علم کو تازہ رکھتے تھے تاکہ اسی طرح خطوطِ مستقیم پر گام زن رہیں جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھے۔ اسی فکرمندی کی نشان دہی وہ سوال کرتا ہے جو اہلِ مدینہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خادمِ خاص حضرت انسؓ سے اس وقت کیا جب وہ شام سے واپس آئے تھے۔ آپ نے بظاہر ایک معمولی بات کی طرف توجہ دلائی لیکن اس میں ہمارے لیے یہ سبق ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دم ضرور بھریں، سیرت کے جلسے بھی کریں اور جلوس بھی نکالیں لیکن یہ بھی سوچیں کہ نبی اکرمؐ کے زمانے میں آپؐ نے جو معاشرہ قائم کیا تھا اس میں نمازوں کی پوری پابندی ہوتی تھی، روزے بھی  تمام مسلمان رکھتے تھے، اسلامی نظام پوری طرح قائم تھا، عدل و انصاف کا دور دورہ تھا، اس سے ہم کتنا قریب ہیں۔ ہماری کوشش ہونا چاہیے کہ وہی معاشرہ قائم کیا جائے ، اور اس دور کو واپس لایا جائے۔


حضرت سہل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت ایک بنُی ہوئی چادر جس کے کنارے اس کے ساتھ بُنے ہوئے تھے (اسے کسی کپڑے سے کاٹا نہ گیا تھا بلکہ مکمل چادر بنی ہوئی تھی)   پیش کرتے ہوئے عرض کیا: میں نے اسے اپنے ہاتھ سے بُنا ہے تاکہ آپؐ اسے پہنیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ چادر لے لی۔ اس بات کے اظہار کے ساتھ کہ آپؐ کو اس کی حاجت تھی (گویا خاتون کے ہدیے کا شکریہ ادا کیا کہ بروقت اس نے ہدیہ پیش کیا ہے)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے گھر سے پہن کر واپس تشریف لائے تو ایک آدمی نے اس کی تعریف کرتے ہوئے کہا: کس قدر خوب صورت چادر ہے یارسولؐ اللہ! مجھے عطا فرما دیجیے۔ اس پر لوگوں نے اس شخص سے کہا: آپ نے اچھا نہیں کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چادر کو لیتے ہوئے اظہار فرمایا کہ آپؐ  کو    اس کی حاجت تھی اور تمھیں معلوم ہے کہ آپؐ سوال کو رد نہیں فرماتے۔ اس نے عرض کیا: اللہ کی قسم! میں نے اسے پہننے کے لیے نہیں مانگا بلکہ اس لیے مانگا ہے کہ یہ میرا کفن بنے۔ حضرت سہلؓ کہتے ہیں وہ چادر ان کا کفن بنی تھی۔ (بخاری، کتاب الجنائز)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ  سے منسوب ہر چیز سے محبت ایمان کا تقاضا ہے۔ آپؐ  کی ذات، آپؐ  کا لباس، آپؐ  کا غُسالہ (وضو کا پانی)، آپؐ  کے صحابہ ؓ، آپؐ کے اہلِ بیتؓ، سب کی محبت مومن کی صفت ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اپنے والدین، اپنی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائوں‘‘ (بخاری)۔ اسی طرح فرمایا: ’’تم میں سے کوئی آدمی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کی خواہش اس دین کے تابع نہ ہوجائے جسے مَیں لے کر آیا ہوں (مشکوٰۃ المصابیح)۔صحابہ کرامؓ کی زندگیوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ  کے لباس، آپؐ  کی نشست و برخاست، آپؐ  کے چال چلن، آپؐ  کی سیرت اور آپؐ  کے دین کے ساتھ عشق و محبت پوری طرح دکھائی دیتی محسوس ہوتی اور مشاہدے میں آتی ہے جیسے برف کے قریب بیٹھ کر ٹھنڈک اور آگ کے قریب بیٹھ کر حرارت محسوس ہوتی ہے۔   اسی طرح صحابہ کرامؓ کی زندگیوں کے مطالعے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت برستی نظر آتی ہے۔

مذکورہ حدیث میں جس صحابیؓ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے چادر مانگ لی یہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ یا عبدالرحمن بن عوفؓ ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر کو تھوڑی دیر پہنا تو انھیں اس چادر سے محبت ہوگئی، اس لیے کہ وہ چادر آپؐ  کے جسمِ اطہر کو چھو گئی اور متبرک ہوگئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو کسی عام صحابی کے سوال بلکہ کسی بھی شخص کے سوال کو رد نہ کرتے تھے تو اپنے قریبی ساتھی کی دلی خواہش اور طلب کو کیسے رد فرما دیتے۔ آپؐ  نے وہ چادر اُتار کر انھیں پیش کردی۔ انھوں نے اسے دنیا میں اپنا لباس بنانے کے بجاے اُخروی زندگی کا لباس بنایا کہ آپؐ  کی یہ متبرک چادر قبر میں ان کی شناخت ہو کہ یہ ہے وہ شخص جس نے نبیؐ کے لباس کو اپنا لباس بنا لیا اور اس وجہ سے وہ محترم ہے۔ اس حدیث سے نبیؐ کی سخاوت کی نرالی شان ظاہر ہوتی ہے۔ ابن عباسؓ فرماتے ہیں: رسو لؐ اللہ تمام لوگوں سے بڑھ کر سخی تھے۔ کیوں نہ ہوں کہ اللہ کے رسولؐ تھے اور اللہ نے انھیں انسانیت کو نوازنے اور ان پر سخاوت کرنے ہی کے لیے بھیجا تھا۔ آپؐ  رحمت للعالمین تھے، آپؐ  کی سب سے بڑی سخاوت قرآن و سنت کا نظام ہے۔ کاش! ہم اس کا شعور پیدا کریں اور قرآن و سنت کے نظام کو تمام نظاموں کے مقابلے میں محبوب جان کر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت اور رحمت للعالمینؐ کا عظیم، بے نظیر و بے مثال تحفہ جان کر اسے محبوب بنالیں، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و تعلق کا حق ادا کردیں۔


حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک قبر کے پاس سے گزر ہوا جس کے پاس ایک عورت بیٹھی رو رہی تھی۔ آپؐ  نے اسے دیکھا تو فرمایا: اللہ کی بندی، اللہ سے تقویٰ اختیار کر اور صبر کر۔ اس نے کہا: اے آدمی! اپنا کام کر، میری مصیبت تجھ پر نہیں آئی۔ وہ آپؐ  کو پہچان نہ سکی تھی۔ اس لیے یہ جملہ اس کی زبان سے نکل گیا۔ کوئی شخص اس منظر کو دیکھ رہا تھا۔ اس نے اس عورت سے کہا: تجھے پتا بھی ہے یہ شخصیت کون تھی؟ یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ وہ پریشان ہوکر آپؐ  کے گھر کی طرف دوڑی کہ معذرت کرے۔ دروازے پر پہنچی تو دیکھا کہ یہاں کوئی محافظ نہیں ہے، اندر چلی گئی۔ عرض کیا: یارسولؐ اللہ! غلطی ہوگئی آپؐ  کو پہچان نہ سکی۔ اس پر آپؐ  نے فرمایا: صبر تو اس وقت معتبر ہوتا ہے جب صدمہ تازہ ہو (بعد میں تو خود بخود صبر آجاتا ہے)۔ (بخاری، کتاب الجنائز)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم اصلاح، تزکیہ و تربیت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔ خاتون کو قبر کے پاس روتے ہوئے دیکھا تو موقعے پر نصیحت کا کلمہ کہہ دیا۔ اس نے ناگوار بات کی تو آپؐ  نے اس کا کوئی جواب نہ دیا، اپنا تعارف بھی نہ کرایا، نہ اسے ڈانٹ ڈپٹ ہی کی۔ اس میں دعوت و تربیت اور وعظ و نصیحت کے لیے بڑا عمدہ نمونہ ہے۔ آج واعظین لوگوں سے ناراض ہوجاتے ہیں اور انھیں طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے ہیں، خصوصاً مخالفین کو۔ نبی کریمؐ کی سیرت کا یہ روشن پہلو دعوتی خطوط کو نمایاں کر رہا ہے کہ ناگوار بات سن کر اسے پی جانا چاہیے۔ ایسا کیا جائے تو زیادہ وقت نہیں گزرے گا کہ بھٹکنے والا سیدھی راہ پر چلتا دکھائی دے گا۔ واعظ کے لیے ضروری ہے کہ وہ  صبر سے کام لے۔ صبر سے اللہ تعالیٰ کی معیت نصیب ہوتی ہے اور معاشرے میں خوش گوار اور اُلفت و محبت کی فضا پیدا ہوتی ہے۔


حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ میں حضرت ابوبکرؓ کے پاس گئی (جب کہ وہ مرض الموت میں تھے)، تو انھوں نے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کتنے کپڑوں میں کفن دیا گیا تھا؟ حضرت عائشہؓ نے جواب دیا: تین سحولی (یمن کے بنے ہوئے) سفید کپڑوں میں جس میں قمیص اور پگڑی نہ تھی۔ پھر پوچھا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کس دن فوت ہوئے تھے؟ حضرت عائشہؓ نے جواب دیا: سوموار کے دن۔ پھر پوچھا: آج کون سا دن ہے؟ حضرت عائشہؓ نے جواب دیا: سوموار کا دن۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے کہا: مجھے اُمید ہے کہ شام تک میری روح قبض ہوجائے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ سوموار کا دن ختم ہوا، منگل کی رات شروع ہوئی تو حضرت ابوبکرؓ کی روح قبض ہوگئی۔ حضرت ابوبکرؓ نے ایک کپڑا جو انھوں نے بیماری کے دوران پہنا ہوا تھا اور اس پر زعفران کا داغ تھا، کو دیکھا تو فرمایا: اسے دھو ڈالنا، دو اور کپڑے ملا کر مجھے ان میں کفن دے دینا۔ حضر ت عائشہؓ کہتی ہیں: میں نے عرض کیا: یہ کپڑا تو پرانا ہے۔ آپؓ نے فرمایا: زندہ لوگ نئے کپڑے کے زیادہ حق دار ہیں۔ پرانا کپڑا قبر میں جسم سے نکلنے والی پیپ کے لیے ہے۔ چنانچہ ایک پرانے کپڑے اور دو نئے کپڑوں میں حضرت ابوبکرؓ کو کفنایا گیا اور منگل کی رات کو ان کا جنازہ ہوا اور رات ہی کو تدفین بھی ہوئی۔ (بخاری، کتاب الجنائز)

 حضرت ابوبکرصدیقؓ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت تھی۔ انھوں نے اپنی بیماری میں اگر کچھ پوچھا تو یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کتنے کپڑوں میں کفنایا گیا اور یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کس دن فوت ہوئے۔ انھیں طلب اور تڑپ تھی کہ انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق کفن دیا جائے اور یہ شوق اور ولولہ تھا کہ اسی دن آپؓ کی وفات ہو جس دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی۔ ان کی یہ طلب اور تڑپ اللہ تعالیٰ نے پوری کردی بلکہ اس سے بھی زیادہ آپؓ کو دنیوی زندگی اور موت دونوں حالتوں میں آپؐ کے ’صاحب‘ ہونے کے مقام پر فائز کردیا، اور حضرت عائشہؓ کے حجرۂ مبارکہ میں  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں قبر عطا فرمائی۔کتنی اُونچی شان ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکرؓ کو عطافرمائی  ع  یہ رُتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا!

حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطاب فرمایا۔ اس میں فرمایا کہ جھنڈا زید نے لیا پھر جامِ شہادت نوش کرلیا، پھر جھنڈا جعفر نے پکڑا اور وہ بھی شہید ہوگئے۔ اس کے بعد عبداللہ بن رواحہ نے پکڑا توو ہ بھی شہید ہوگئے۔ پھر خالد بن ولید نے جھنڈا لے لیا بغیر اس کے کہ اسے مقرر کیا گیا ہو۔ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تینوں مذکورہ صحابہ کرامؓ ، زید بن حارثہ، جعفر بن ابی طالب اور عبداللہ بن رواحہ کو امیر مقرر کیا تھا، تینوں شہید ہوگئے تو خالد بن ولیدؓ نے ہنگامی بنیادوں پر جھنڈا پکڑ لیا (جھنڈا فوج کی کمان کرنے والے کے پاس ہوتا تھا اور اسی کو سربراہ اور امیر سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ صحابہؓ نے ان کو اپنا امیر سمجھ کر ان کی قیادت میں جنگ کی اور جنگ جیت لی) اور فتح پائی۔ (بخاری، کتاب الجہاد)

یہ غزوئہ موتہ کا واقعہ ہے۔۳ہزار کی تعداد میں صحابہ کرامؓ تھے اور قیصرروم کی ایک لاکھ فوج تھی۔۳ہزار کی فوج نے ایک لاکھ کا مقابلہ کیا۔ ایک اور ۳۳ کی نسبت تھی۔ مسلمانوں نے اپنی قلت تعداد کے باوجود دُوردراز علاقے میں کفار کی فوجوں کا مقابلہ کیا اور انھیں شکست سے دوچار کیا۔ اس جنگ کا پس منظر یہ ہے کہ رومی سلطنت کے ساتھ کش مکش کی ابتدا فتح مکہ سے پہلے ہوچکی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  صلح حدیبیہ کے بعد اسلام کی دعوت پھیلانے کے لیے جو وفود عرب کے مختلف خطوں میں بھیجے تھے،  ان میں سے ایک وفد شمال کی طرف سرحد شام سے متصل قبائل میں بھی گیا تھا۔ یہ لوگ زیادہ تر عیسائی تھے اور رومی سلطنت کے زیراثر تھے۔ ان لوگوں نے ذات الطلع یا ذات اطلاع کے مقام پر اس وفد کے ۱۵آدمیوں کو قتل کردیا، اور صرف امیروفد کعب بن عمیر غفاری بچ کر واپس آئے۔ اسی زمانے میں   نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بصرہ کے رئیس شرحبیل بن عمرو کے نام بھی دعوت اسلام کا پیغام بھیجا تھا مگر  اس نے آپؐ کے ایلچی حارث بن عمیر کو قتل کردیا۔ یہ رئیس بھی عیسائی تھا اور براہِ راست قیصرروم کے احکام کاتابع تھا۔ ان وجوہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جمادی الاولیٰ ۸ہجری میں۳ہزار مجاہدین کی ایک فوج سرحدشام کی طرف بھیجی تاکہ آیندہ کے لیے یہ علاقہ مسلمانوں کے لیے پُرامن ہوجائے اور یہاں کے لوگ مسلمانوں کو بے زور سمجھ کر ان پر زیادتی کرنے کی جرأت نہ کریں۔ یہ فوج جب ھان کے قریب پہنچی تو معلوم ہوا کہ شرحبیل بن عمرو ایک لاکھ کا لشکر لے کر مقابلے پر آرہا ہے۔ خود قیصرروم مقامِ حمص پر موجود ہے اور اس نے اپنے بھائی تھیوڈور کی قیادت میں ایک لاکھ کی مزید فوج روانہ کی ہے۔ لیکن ان خوف ناک اطلاعات کے باوجود ۳ہزار سرفروشوں کا یہ مختصر دستہ آگے بڑھتا چلا گیا اور موتہ کے مقام پر شرحبیل کی ایک لاکھ فوج سے جاٹکرایا۔ اس کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ مجاہدین اسلام بالکل پس جاتے لیکن سارا عرب اور تمام شرق اوسط یہ دیکھ کر ششدر رہ گیا کہ ایک اور ۳۳ کے    اس مقابلے میں بھی کفار مسلمانوں پر غالب نہ آسکے۔ یہی چیز تھی جس نے شام اور اس سے متصل رہنے والے نیم آزاد عربی قبائل کو بلکہ عراق کے قریب رہنے والے نجدی قبائل کو بھی جو کسریٰ کے زیراثر تھے ، اسلام کی طرف متوجہ کردیا اور وہ ہزاروں کی تعداد میں مسلمان ہوگئے(بحوالہ تفہیم القرآن، سورئہ توبہ)۔ آج بھی اس تاریخ کو دہرایا جاسکتا ہے ، مسلمان اپنی قلت تعداد اور فوج اور اسلحہ اور ٹکنالوجی میں کفار سے کم تر ہونے کے باوجود ان کو پسپا کرسکتے ہیں بشرطیکہ ان میں اسی طرح کی جاں سپاری، سرفروشی ، جرأت اور بہادری ہو اور وہ کفار سے مرعوب ہونے کے بجاے مرعوب کرنے والے ہوں۔ لیکن آج تو صورت حال یہ ہے کہ مسلمان حکمران کفار کے لیے نرم چارہ بن چکے ہیں اور    ان کے سامنے جھک کر، تابع فرمان بن کر زندگی گزارنے کو اپنی زندگی کا سامان سمجھتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسی قیادت آگے آئے جو صحابہ کرامؓ کے جذبۂ ایمان اور شوقِ شہادت کو زندہ کرنے والی ہو اور زمین پر اللہ تعالیٰ کی حکمرانی قائم کردینے کا مشن رکھتی ہو۔

o

حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص   اللہ تعالیٰ کے لیے ایک درجہ تواضع کرے اللہ تعالیٰ اس کو ایک درجہ اُونچا کرتے ہیں اور اس کو اتنا اُونچا کرتے ہیں کہ وہ علیین تک پہنچ جاتا ہے، اور جو اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں تکبر کرے اللہ تعالیٰ اسے اسفل السافلین تک پہنچا رہے ہیں۔ (مسند احمد)

اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنا اس کے احکام کے سامنے سرتسلیم خم کرلینا عزت و رفعت کا سامان ہے۔  حضرت عمرؓ نے فرمایا: ہم وہ قوم ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی بدولت عزت دی ہے، جب ہم اسلام کے علاوہ کسی اور چیز سے عزت طلب کریں گے تو اللہ ہمیں ذلیل کردے گا۔ آج مسلمان اللہ تعالیٰ کے دین کو چھوڑ کر پستی میں گر چکے ہیں۔ علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا    ؎

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر

اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر

دین کو چھوڑنا اور لادینی نظاموں کو قبول کرنا دراصل اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں بڑا بننا ہے، جو اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: العظمۃ ازاری والکبریائی روائی فمن ناز عنی فیھما اھینۃ، ’’عظمت پر آزاری ہے اور بڑائی میری چادر ہے جس نے میرے ساتھ ان کے معاملے میں کش مکش کی میں اسے ذلیل کروں گا‘‘۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے دین کے تابع کردے تاکہ ہماری ساری ذلتیں اور پستیاں ختم ہوجائیں اور ہم اس دنیا میں بھی سربلند اور آخرت میں بھی سرخرو اور کامیاب ہوجائیں۔

o

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے ساتھ احسان کیا جائے تو وہ اس کا بدلہ دے۔ اگر بدلہ نہ دے سکے تو اس کا تذکرہ کرے، جس نے اس کا تذکرہ فرمایا تو اس نے اس کی شکرگزاری کردی اور جو آدمی اپنے آپ کو سیر ظاہر کرے درآنحالیکہ وہ بھوکا ہو، اس کے پاس وہ چیز نہ ہو جسے وہ اپنے پاس ظاہر کر رہا ہے تو وہ جھوٹا لباس پہننے والے کی طرح ہے۔(مسند احمد)

بہت سے لوگ بھوکے ہوتے ہیںاور وہ اپنے آپ کو سیر ظاہر کرتے ہیں، جاہل ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو عالم ظاہر کرتے ہیں۔ سیرت و کردار کے خام ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو متقی و پرہیزگار ظاہر کرتے ہیں۔ یہ دراصل نفاق میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ان کے ظاہر و باطن میں اختلاف ہے اور جس کے ظاہروباطن میں اختلاف ہو وہ منافق ہوتا ہے، یہ جھوٹا لباس ہے۔اپنے آپ کو متقی اور پرہیزگار ظاہر کرنا درآنحالیکہ اس میں تقویٰ نہ ہو ایسی بیماری ہے کہ اس کا جلداز جلد علاج کیا جائے ورنہ نفاق کی بیماری بڑھ گئی تو وہ کینسر بھی بن سکتی ہے، جو لاعلاج بیماری ہے۔

o

حضرت عمرؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم مریض کی عیادت کرنے جائو تو اس سے اپنے لیے دعا کرائو۔ اس کی دعا فرشتوں کی دعا کی طرح ہے۔ (ابن ماجہ)

بیماری مسلمان کو گناہوں سے پاک وصاف کردیتی ہے۔ اگر ایک مسلمان شعوری طور پر مسلمان ہو اور دین پر عمل پیرا ہو تو بیماری اس کے لیے تزکیہ کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ اور وہ گناہوں سے اسی طرح پاک ہوجاتا ہے جس طرح فرشتے گناہوں سے معصوم ہوتے ہیں۔ اس لیے اس کی دعا قبول ہوتی ہے۔   نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبولیت ِدعا کا ایک دروازہ بیمار مسلمان سے دعا کرانے کا بتلا دیا ہے۔ بیمار کی عیادت کرنا، اس کے لیے دعا کرنا بھی سنت ہے اور ا س سے دعا کرانا بھی سنت ہے۔ بیمارسے دعا کرانے کی سنت کو بھی عام کرنا چاہیے جن سے لوگوں کی مشکلات اور مصائب حل ہوں۔

o

حضرت عیاض بن حمار مجاشعیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تواضع سے پیش آئو! کوئی کسی پر فخر نہ کرے اور کوئی کسی کے ساتھ زیادتی نہ کرے۔ (مسلم، مشکوٰۃ، باب المفاخرہ والعصبیت)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت کو پیش نظر رکھا جائے تو معاشرے میں انس و محبت کا دور دورہ ہوجائے۔ جب ہر کوئی دوسرے سے اپنے آپ کو چھوٹا سمجھے اور کسی پر فخر نہ کرے اور کسی کے ساتھ زیادتی سے بھی پیش نہ آئے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ لوگ آپس میں متصادم اور برسرِپیکار ہوں۔ اس کے برعکس ہر ایک دوسرے کا ہمدرد و غم گسار ہوگا اور دوسرے کی مصیبت میں اس کے کام آنے والا ہوگا جس کے نتیجے میں باہمی محبت میں اضافہ ہوگا۔ آج معاشرے کو اس ہدایت کی سخت ضرورت ہے۔

o

حضرت ابودردائؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر چیزکے لیے ایک حقیقت ہے، ایمان کے لیے بھی ایک حقیقت ہے۔ اور کوئی شخص ایمان کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا جب تک یہ عقیدہ نہ رکھے کہ جو آرام اور تکلیف اسے پہنچی ہے، وہ پہنچ کر رہنی تھی اور جو آرام اور تکلیف اسے نہیں پہنچی وہ اسے پہنچنے والی نہ تھی۔ (مسند احمد)

انسان زندگی کے جن مراحل سے گزرتا ہے وہ اس کی تقدیر میں لکھ دیے گئے ہیں۔ وہ ان مراحل سے گزر کر ہی آگے بڑھتاہے۔ اس لیے وہ جس حال میں بھی ہو اسے صبروشکر کو اپنا وظیفہ بنا کر حوصلے کے ساتھ زندگی گزارنا چاہے اور کبھی بھی بے حوصلہ ہوکر مایوسی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ مومن جرأت مند  اور حوصلہ مند شخصیت کا مالک ہوتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ  کے صحابہؓ نے ہمارے سامنے  یہی نمونہ پیش کیا ہے۔ اس کو اپنانا کامیابی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انقلاب اور صحابہ کرامؓ کی    خلافت راشدہ اسی کی تصویر ہے۔ آج بھی اسے دہرایا جاسکتا ہے۔

 قرآن پاک کی تفسیر کا سلسلہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے شروع ہوا اور کسی انقطاع کے بغیر تسلسل کے ساتھ پندرہ صدیوں سے جاری ہے ۔ اب تک مختلف زبانوں ، مختلف ملکوں اور مختلف النوع اتنی تفسیر یں وجود میں آچکی ہیں کہ ان کا شمار ممکن نہیں ہے۔ یہ قرآن پاک کی شان لاینقضی عجائبہ(ترمذی)(اس کے عجائب ختم نہ ہوں گے) کا تقاضا ہے ۔ چنانچہ ہر تفسیر میں نئے نئے نکات سامنے آتے رہتے ہیں اور کوئی تفسیر دوسری تفسیر سے مستغنی کر دینے والی نہیں ہے ۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ سے لے کر شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ ، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ، شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی ، مفتی اعظم پاکستان مولانا محمد شفیعؒ اور دیگر جلیل القدر علما و مفسرین عظام نے گراںقدر علمی ، فقہی اور روحانی نکات پر مشتمل تفاسیر پیش کیں جو اہل علم کے ہاں مقبول ہوئیں اور ان سے استفادہ سے تفسیری سلسلے کو بڑھنے اورپھیلنے میں مدد ملی۔ دورِ حاضر میں مفکر اسلام سید ابوالاعلیٰ مودودیؓ کی تفسیر تفہیم القرآن اور شہید اسلام سیدقطب کی تفسیر فی ظلال القرآن کے ذریعہ قرآن پاک کا فہم و شعور علما و مشایخ کے دائرے سے نکل کر عوام تک پہنچ گیا ۔ ان تفاسیر کے ذریعے بڑی تعداد میں عوام اور جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں نے قرآن پاک سے فیض حاصل کیا۔ لیکن لاینقضی عجائبہ کے فرمانِ رسولؐکی صداقت کے ظہور کا سلسلہ جاری و ساری ہے ۔

ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی صاحب بھی ان خوش قسمت ہستیوں میں شامل ہیں جنھیں تفسیر قرآن کی فضلیت حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ ان کی زندگی قرآن پاک میں غورو فکر ، تفسیر ی ذخیرے کے مطالعے اور دروس قرآن دینے میں گزری جواب کتابی شکل میں مرتب ہو کر سامنے آگئے ہیں۔ یہ دروس ڈاکٹر صاحب نے طلبا، اساتذہ، مختلف طبقات سے وابستہ افراد کے سامنے دیے اورپھر بذریعہ املا ان کی کتابت کروائی اور کتابی شکل میں مرتب کروایا ۔ اس تفسیر کے مقام و مرتبے کو جاننے کے لیے ضروری ہے کہ تفسیر کی شرائط کو جانا جائے اور ان شرائط کی روشنی میں اس کا جائزہ لیا جائے ۔

 ذیل میں ہم تفسیر قرآن کی شرائط کا اجمالا تذکرہ کرتے ہیں:

۱-قرآن و سنت عربی زبان میں نازل ہوئے ہیں۔ اس لیے مفسر کے لیے ضروری ہے کہ وہ عربی زبان ، اس کی باریکیوں ، اس کے اصناف و انواع ، اس کے محاسن سے پوری طرح واقف ہو۔ وہ عربی زبان کی باریکیوں ، خوبیوں ،اشاروں ، کنایوں اور استعاروں سے جس قدر زیادہ واقف ہو گا، اسی قدر تفسیر کا حق ادا کر سکے گا۔

۲- قرآن پاک کی ایک دعوت اور اس کا ایک مشن ہے۔ اس کے لیے نبیؐ نے ایک تحریک برپاکی۔ اس تحریک کے مختلف ادوار تھے ۔ ہر دور میں قرآن پاک کا ایک حصہ نازل ہوا۔ ۸۵مکّی سورتیں ہیں اور ۲۹ مدنی سورتیں ۔ ان سورتوں کے نزول کے وقت نبیؐ اور آپؐ کی جماعت جس مرحلے میں تھی، اس مرحلے کو سمجھنا ضروری ہے ۔ ان مراحل کو شان نزول سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اس طرح بعض آیات کی خصوصی شان نزول بھی ہوتی ہیں ۔ تفسیر کو سمجھنے کے لیے ان کا سمجھنا ضروری ہے۔

۳-قرآن وسنت ایک نظام ہے جسے نبیؐ نے اپنے دور میں عملاً نافذ فرمایا اور اس کے بعد کے ادوار میں نافذ رہا۔ قرآن پاک کو سمجھنے کے لیے اس نظام اور اس پر تعامل کو سمجھنا ضروری ہے ۔ قرآن پاک پر عمل کو جو شکل اور صورت نبی کریمؐ ، صحابہ کرام ؓ ، تابعین ، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین اور سلف صالحین نے دی ، اسے نظر انداز کر کے محض لغت کی بنیاد پر تفسیر گمراہی کا سبب بن سکتی ہے ۔ جن لوگوں نے ایسا کیا ہے انھوں نے تفسیر کے بجاے تحریف کا ارتکاب کیا ہے ۔

۴-فصیح عربی زبان کی بنیاد پر ایسی تفسیر کی جاسکتی ہے جو قرآن و سنت ،اجماع صحابہ و سلف صالحین کے تعامل سے متصادم نہ ہو ۔

۵-عقل سلیم کے ذریعے بھی تفسیر کی جاسکتی ہے، جب کہ وہ قرآن وسنت ، اجماع صحابہ و تابعین و سلف صالحین سے ثابت شدہ امور سے متصادم نہ ہو۔

محترم ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی صاحب عربی زبان ، اردوا دب میں بھی مہارتِ تامہ رکھتے ہیں۔ تحریک اور دعوت کے مختلف مراحل اور تاریخ اسلام میں بھی بصیرت رکھتے ہیں۔ اسلام کو ایک نظام کی حیثیت سے انھوں نے اچھی طرح سمجھا ہے اور شریعت اسلامیہ میں گہرائی کے حامل ہیں ۔  تعامل اُمت ،تفسیری اور فقہی ذخیرے پر بھی عبور رکھتے ہیں اور ایک مفسر میں جو خوبیاں اور کمالات ہونے چاہییں، جن کا اجمالی ذکر درج بالا سطور میں ہوا ہے، وہ بھی ان میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں ۔

تفسیر روح القرآن کے امتیازات کے ضمن میں اس کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس کا اسلوب عام تفاسیر سے مختلف ہے ۔ عام تفاسیر مفسر کی تحریر کا نتیجہ ہوتی ہیں اور یہ دروس دراصل ڈاکٹرصاحب کی اِملا کا نتیجہ ہے ۔یہ ان کے دروس ہیں جو انھوں نے ہفتہ وار محافل میں پڑھے لکھے شائقین   علوم قرآنیہ کے سامنے پیش کیے ہیں ۔ ان میں علما، پروفیسر ، دانش ور ، صحافی ، تاجر ، وکلا، کالجوں،   یونی ورسٹیوں اور مدارس کے طلبا ، کارکنان تحریک اسلامی اور عامۃ المسلمین ان کے مخاطب ہیں اور بڑی تعداد میں ذو ق وشوق کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب انھیں اپنے علم اور ولولہ انگیز خطابت کے شہ پاروں سے فیض پہنچاتے ہیں ۔ ایک بلند پایہ خطیب کی خطابت ، جب کہ وہ قرآنی علوم سے دلوں اور دماغوں کو منور کر رہی ہو، کی اثر انگیزی کا آپ اندازہ کر سکتے ہیں ۔ قرآن پاک کی زبان خطابت کی زبان ہے ۔ اس کی تفسیر بھی خطیبانہ انداز میں ہو تو ظاہر ہے کہ قرآن پاک کے اثر کو اس تفسیر سے زیادہ کر دے گی جو خطابت کے انداز کے بجاے تحریر کے انداز میں ہو گی ۔ ان دروس کا اثر پڑھنے والے پر اس طرح ہوتا ہے جس طرح ایک سامع پر خطیب کے خطبے سے ہوتا ہے۔

دوسرا امتیاز یہ ہے کہ قرآن پاک ایسی کتاب ہے جو معاشرے کے لیے ایک غذا اور دوا  کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اگر اس کتاب کے ذریعے مسلمان معاشرے کو روحانی غذا نہ دی جائے اور کفارو منافقین کا علاج نہ کیا جائے تو اس کتاب کو اس کا حقیقی اور واقعی مقام نہیں دیاجاسکتا ۔    ڈاکٹر صاحب اس کتاب کو معاشرے پر منطبق کرتے ہیں اور اس میں اہل ایمان کے لیے جو غذا اور کفار و منافقین کے لیے جو دوا ہے اسے پوری طرح واضح کرتے ہیں ۔ مغرب اوراہل مغرب کے لیے اس میں جو پیغام ہے اسے واضح کرتے ہیں ۔ اہل ایمان کو ان کے شرسے باخبر کر کے اس سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں ۔ تفسیری نوٹس ہر جگہ اس بات کے گواہ ہیں ۔

ا س تفسیر کے مطالعے سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو قرآن پاک اور اس کے علوم و فنون پر مکمل عبور حاصل ہے ۔ انھیں صرف ونحو ، معانی بلاغت ، اصول فقہ ، لغت عربیہ ، اصولِ تفسیر،  احادیث نبویہؐ، آثار صحابہ و تابعین ، اقوال ائمہ مجتہدین ، قدیم و جدید علم کلام ، قدیم وجدید مفسرین کے تفسیری ذخیرے ، تاریخ و قصص ، مستشرقین وملحدین کے لٹریچر ، منکرین سنت اور قادیانیت کے شکوک و شبہات اور ان کی تردید پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ انھیں مضامین قرآن ، التذکیر باٰلاء اللہ ، التذکیر  بایام اللہ، التذکیر بالموت وبما بعد الموت ، علم المخاصمہ ، علم الاحکام پر مکمل دسترس حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور جلالی وجمالی شانوں کو جدید سائنسی معلومات کی روشنی میں اس قدر شرح و بسط سے اور ایسے انداز سے پیش کرتے ہیں کہ انسان اس کی لذت سے سرشار ہو کر ان کے مطالعے میں اس طرح مستغرق ہوجاتا ہے کہ مضمون دل و دماغ میں اُتر جاتا ہے ۔

ڈاکٹر صاحب عالم ہیں تو ایسے کہ تبحر علمی ان کی تقریر و تحریر سے نمایا ں ہوتا ہے ۔ ادیب ہیں تو ایسے کہ ادب ان کی لونڈی نظر آتا ہے۔ خطیب ہیں تو ایسے کہ ان کی شعلہ بیانی آدمی کو    مسحور کردیتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں ذہانت و فطانت اور حافظے کی نعمتوں سے نہایت وافر مقدار میں مالامال کیا ہے ۔ حافظ العلوم مولانا معین الدین خٹک رحمۃ اللہ علیہ کا حافظہ ضرب المثل تھا ، انھیں چلتا پھرتا ٹیپ ریکارڈ کہاجاتا تھا ۔ لیکن ڈاکٹر صاحب کی تفسیر سے اندازہ ہوا کہ ان کا حافظہ بھی مثالی ہے۔ انھیں عربی ادب کی طرح اردو ادب پر بھی عبور حاصل ہے ۔ اُردو زبان کے محاورے اور شعرا کے ہزاروں شعرازبر مستحضر ہیں ۔ موقع و محل کی مناسبت سے اشعار کے ذریعے کلام کو مدلل اور  مزین کرنا ان کا کمال ہے ۔ ہر مضمون کی تشریح اس طرح کرتے ہیں کہ قاری اسے اچھی طرح ذہن نشین کرلے ۔ ایسے انداز سے دلیل پیش کرتے ہیں کہ بات دل میں اتر جائے ۔ عقلی دلائل کی تفہیم کے ساتھ نقلی دلائل کا انبار لگا دیتے ہیں ۔ قدیم و جدید تفاسیر سے نقول پیش کرتے ہیں ۔ منکرین سنت اور مستشرقین کو مسکت جواب دیتے ہیں۔بلاشبہہ ان کے دروس علم اور معلومات کا خزانہ ہیں جو دریا کی سی روانی کے ساتھ بہتا چلا جاتا ہے ۔یہ تفسیر علما ، طلبہ ، طالبات ، مبلغین اور اسلامی تحریک کے کارکنان کے لیے بے مثال تحفہ ہے ۔ وہ اس سے بھر پوراستفادہ کر کے اپنے علم میں اضافہ کریں اور قرآن پاک کے علوم کی اشاعت کے ذریعے اسلامی انقلاب برپا کردیں۔

 

oتفسیر روح القرآن (۱۲جلدیں)،مؤلف: ڈاکٹر مولانا محمد اسلم صدیقی ۔ ناشر: ادارہ ھدًی للناس، ۳۴۳-مہران بلاک، علامہ اقبال ٹائون، لاہور۔ فون: ۳۵۴۲۶۸۰۰-۰۴۲۔ صفحات: ۷۷۶۷۔  قیمت: ۸۵۰۰ روپے۔

حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے، میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! مجھے ایسا عمل بتلا دیجیے جو مجھے جنت میں داخل کردے، اور دوزخ سے دُور کردے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو نے ایک عظیم چیز کے بارے میں سوال کیا ہے، لیکن یہ اس آدمی کے لیے آسان ہے جس کے لیے اللہ آسان کردے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نماز قائم کرو، زکوٰۃ  ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ شریف کا حج کرو۔

 اس کے بعد آپؐ نے فرمایا: کیا میں تمھیں خیر کے دروازے نہ بتلا دوں؟ روزہ ڈھال ہے اور صدقہ خطا کو اس طرح بجھا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو۔ اور آدمی کی نماز آدھی رات کو بھلائیاں سمیٹنے کا ذریعہ ہے۔ پھر آپؐ نے تہجدگزاروں کی شان میں، قرآن پاک کی یہ آیت تلاوت فرمائی: تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا وَّ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَo فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ جَزَآئًم بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ o (السجدہ ۳۲:۱۶-۱۷) ’’اُن کی پیٹھیں بستروں سے الگ رہتی ہیں، اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں،اور جو کچھ رزق ہم نے اُنھیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ پھر جیسا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان اُن کے اعمال کی جزا میں اُن کے لیے چھپا رکھا گیا ہے‘‘۔

پھر آپؐ نے فرمایا: کیا میں تمھیں اس دین کی بنیاد، ستون اور بلندترین چوٹی نہ بتلائوں؟ اس دین کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے، اور ستون نماز ہے اور بلند ترین چوٹی جہاد ہے۔

پھر فرمایا: کیا میں تمھیں ان تمام چیزوں کا محور نہ بتلا دوں؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبیؐ! کیوں نہیں؟ آپؐ نے اپنی زبان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسے روک کر رکھو۔ میں نے عرض کیا: کیا ہم سے ان باتوں پر مواخذہ ہوگا جنھیں ہم زبان سے نکالتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: معاذ! تجھے تیری ماں گم کردے، لوگوں کو جہنم میں اوندھے منہ اور کون سی چیز داخل کرتی ہے    سواے زبان کی کاٹی ہوئی فصل کے۔ (احمد، ترمذی، ابن ماجہ، مشکوٰۃ، کتاب الایمان)

صحابہ کرامؓ پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے وہ علمی حقائق آشکارا ہوئے جو کسی بڑی سے بڑی یونی ورسٹی میں پہنچ کر کسی کو حاصل نہیں ہوسکے۔ وہ حقائق جو انسان کو اس کے مقصد حیات سے روشناس کردیں، جو اسے آسانی کے ساتھ منزل سے ہمکنار کردیں، جنت میں پہنچا دیں اور دوزخ سے دُور کردیں۔ صحابہ کرامؓ نبی اکرمؐ کی بابرکت مجالس میں بیٹھتے اور اپنے دامن کو اسی قسم کے علمی جواہر اور فیوض سے بھرتے۔ حضرت معاذ بن جبلؓ کو اللہ تعالیٰ نے آپؐ  کی صحبت میں رہ کر بڑے علم سے نوازا تھا لیکن صحابہ کرامؓ کو آپؐ کی مجالس سے جو علمی جذبہ اور شوق ملا تھا اس کی کوئی انتہا نہ تھی۔ ان کی علمی پیاس بڑھتی رہتی تھی اور وہ آپؐ کے چشمۂ علم سے سیراب ہوتے رہتے تھے۔ اسی جذبے سے حضرت معاذ بن جبلؓ نے عرض کیا: مجھے ایسا عمل بتلا دیجیے جو مجھے جنت سے قریب اور دوزخ سے دُور کردے۔ تب نبی اکرمؐ نے فرمایا: آپ نے بہت عظیم اور مشکل کام کے بارے میں سوال کیا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کی توفیق سے مشکل سے مشکل کام بھی آسان ہوجاتا ہے۔ یہ مشکل کام اللہ تعالیٰ کی بندگی اور حکمرانی قائم کرنے کا کام ہے۔ شیطان اور شیطانی قوتوں کو شکست دے کر اللہ تعالیٰ کی غلامی اور بندگی اختیار کرنا، اس کی پوجا اور پرستش کرنا،  اسی سے اپنی حاجات اور مشکلات کا سوال کرنا، اس کے ساتھ ان کاموں میں کسی کو شریک نہ کرنا، پھر ارکانِ خمسہ کے ذریعے اپنے ایمان کو بڑھانا اور قوی کردینا، کیونکہ ایمانی قوت کے بغیر آدمی کا جنت کے راستے پر چلنا اور دوزخ کے کاموں سے دُور رہنا بڑا مشکل ہے۔ اس کے بعد آپؐ نے ابوابِ خیر، دین کی اساس، اس کا ستون، اس کی بلند ترین چوٹی اور زبان کے شر سے حفاظت کے نکات بیان فرما کر گویا سمندر کو کوزے میں بند کردیا۔ اور حضرت معاذ بن جبلؓ اور ان کی وساطت سے اُمت کے سامنے نیکی کی شاہراہ کو پوری طرح روشن کردیا۔ آج بھی ہم اپنے مسائل اور مشکلات کے حل کے لیے اسی جامع نسخۂ کیمیا کو استعمال کرکے کامیابی سے ہم کنار ہوسکتے ہیں۔

o

حضرت عبادۃ بن صامتؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانچ نمازیں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر فرض کی ہیں۔ جس نے ان کا وضو اچھی طرح کیا اور انھیں اپنے وقت پر ادا کیا اور ان کے رکوع اور سجود کو اچھی طرح ادا کیا، اللہ تعالیٰ کا اس کے ساتھ عہد ہے کہ اسے بخش دے اور جس نے ایسا نہ کیا تو اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اسے بخش دے گا اور چاہے گا تو اسے عذاب دے گا۔ (احمد، ابوداؤد)

ایسی نماز آدمی کو تمام نیک کاموں کے کرنے اور تمام برائیوں سے بچنے کے قابل بنادیتی ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ نیکی کی راہ پر آسانی کے ساتھ چلنے کے لیے اس طرح کی نمازوں کا اہتمام کریں۔ مساجد کو آباد کریں ، وقت پر پہنچنے کے لیے دنیاوی مشاغل کو چھوڑ دیں۔ ایک اسلامی معاشرے کی خصوصیت ہے کہ اس میں مساجد آباد اور فحاشی اور عریانی کے مراکز غیرآباد ہوتے ہیں۔ اس قسم کی نماز کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِط (العنکبوت۲۹:۴۵)’’یقینا نماز بے حیائی اور بُرے کاموں سے روکتی ہے‘‘۔ اگر آج معاشرے میں برائیاں زور و شور سے پروان چڑھ رہی ہیں اور نیکیاں مرجھا رہی ہیں، تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ ہماری نمازوں میں خشوع و خضوع اور توجہ الی اللہ اور پابندی اور اہتمام میں کمی ہے۔

o

حضرت عمرؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب مؤذن اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر کہے تم بھی اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبرکہو اور جب اشھد ان لا لٰہ الا اللّٰہ کہے تو تم بھی اشھد ان لا لٰہ الا اللّٰہ کہو اور جب اشھد ان محمداً رسول اللّٰہ کہے تو تم بھی    اشھد ان محمداً رسول اللّٰہ کہو اور جب حی علی الصلٰوۃ کہے اور تم لاحول ولاقوۃ الا باللّٰہ کہو اور جب وہ حی علی الفلاح کہے تو تم بھی لاحول ولاقوۃ الا باللّٰہ کہو اور جب وہ اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر کہے اور تم بھی اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر کہو، اور جب لا الٰہ اِلَّا اللّٰہ کہے اور تم بھی لا الٰہ اِلَّا اللّٰہ صدقِ دل سے کہو تو تم سیدھے جنت میں داخل ہوجائو گے۔ (مسلم)

حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے، کہ جب مؤذن اذن دے دے اور تم اسے سننے کے بعد اشھد ان لا الٰہ الا اللّٰہ واشھد ان محمداً عبدہٗ ورسولہ رضیت باللّٰہ ربًا وبالاسلام دینا و بمحمد نبیا ورسولًا کہو تو تمھارے سارے گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔ (مسلم)

اذان کے ذریعے ایک طرف مسلمانوں کو بلندآواز سے نماز کے لیے بلایا جاتا ہے۔ یہ بلاوا اس شان کے ساتھ ہوتا ہے کہ اس میں دین کی پوری دعوت بھی پیش کردی جاتی ہے۔ آغاز میں چار مرتبہ اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا اعلان کر کے تمام طاغوتوں کی کبریائی کا انکار کردیا جاتا ہے۔ پھر شہادتین کے ذریعے دو دو مرتبہ عقیدۂ توحید اور عقیدۂ رسالت کا اعلان کردیا جاتا ہے۔ پھر دو مرتبہ نماز کے لیے بلایا جاتا ہے اور پھر دومرتبہ ’فلاح‘ کامیابی کی طرف بلاوے کے عنوان کے ذریعے پورے دین کی طرف اور اس کی اقامت اور اس پر عمل کے لیے بلایا جاتا ہے۔ اس کے بعد پھر دو مرتبہ اللہ تعالیٰ کی کبریائی کے اعلان کا اعادہ کیا جاتا ہے اور ایک مرتبہ عقیدۂ توحید کا اعادہ کیا جاتا ہے۔ اذان کے ذریعے یہ بلاوا ایسا بلاوا ہے کہ اس سے بڑا بلاوا کوئی نہیں ہوسکتا، ایک مسلمان کو اس کا عقیدہ، نماز اور دین یاد دلایا جاتا ہے اور اس کے ذریعے اسے بلایا جاتا ہے۔ اس کے بعد کسی مسلمان کے لیے کوئی گنجایش نہیں رہ جاتی کہ وہ اذان کے بعد اپنے کاموں میں مشغول ہو اور مسجد میں نماز کے لیے نہ پہنچے۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو پھر اس کے معنی اس کے سوا کچھ نہیں کہ اسے اللہ تعالیٰ کی کبریائی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی کوئی پروا نہیں اور وہ اس وسیلے سے پکار کی بھی کوئی قدر و منزلت کرنے والا نہیں ہے۔

 آج کے دور میں اس اذان کے ہوتے ہوئے مسلمان اگر اپنے دین اور اس کے تقاضوں کو بھولے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے سامنے سربسجود ہونے کے بجاے غیراللہ کے سامنے جھکے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے دین اور نظام کو قائم کرنے کے بجاے غیروں کے نظام کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ مسلمان اذان کو سنتے ہیں لیکن اسے سمجھتے نہیں، اسے سنتے ہیں لیکن اَن سنی کردیتے ہیں۔ یہ تو وہی روش ہے جسے یہودیوں نے اختیار کیا تھا۔ وہ کہتے تھے: سمعنا وعصینا، ہم نے سن تو لیا ہے لیکن ہم نافرمانی کریں گے۔ آج مسلمانوں کو اس اذان پر اللہ تعالیٰ کا شکرگزار ہونا چاہیے اور اپنے دین کی عظمت کے سامنے سرجھکا دینا چاہیے کہ اس اذان نے ان کے دین کے خلاصے کو محفوظ کردیا ہے، اوردنیا کی کسی قوم کے پاس اس اذان کے مقابلے کی کوئی چیز نہیں ہے جس طرح کہ دین اسلام اور قرآنِ پاک کے مقابلے کی کوئی چیز ان کے پاس نہیں ہے۔ کاش! مسلمان خوابِ غفلت سے بیدار ہوں۔

o

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص میری اس مسجد میں آئے، خیر کو سننے، جاننے اور تعلیم دینے کے لیے وہ مجاہد فی سبیل اللہ کی طرح ہے، اور جو کسی دوسری غرض سے آیا تو اس کی مثال ایسے شخص کی ہے جو دوسرے کے سامان کو دیکھنے کے لیے آئے۔ (بیہقی، ابن ماجہ)

مسجد نبویؐ اور دیگر مساجد میں حاضری کی غرض و غایت اس حدیث سے اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ مساجد میں نماز، اللہ تعالیٰ کے ذکر ، حصولِ علم اور تعلیم و تدریس کے لیے حاضری دیا کریں۔

حضرت عمران بن حصینؓ سے روایت ہے کہ بنی تمیم قبیلہ کے کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپؐ نے فرمایا: اے بنی تمیم! بشارت قبول کرو۔ انھوں نے کہا: یارسولؐ اللہ! آپ نے ہمیں بشارت دی ہے تو پھر ہمیں مال عنایت فرما دیں۔ اس پر آپؐ کے چہرئہ انور کا رنگ متغیر ہوگیا۔ اس کے بعد یمن کے کچھ لوگ آئے تو آپؐ نے فرمایا: یمن والو! تم بشارت قبول کرو، جب کہ بنوتمیم نے قبول نہ کی۔ انھوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ہم نے قبول کی۔ تب آپؐ نے کائنات کے حالات، اس کی پیدایش سے لے کر اہلِ جنت کے جنت میں داخل ہونے اور  اہلِ دوزخ کے دوزخ میں داخل ہونے تک بیان کرنا شروع کردیے۔ اس دوران میں آواز دینے والے نے آواز دی :اے عمران! تیری اُونٹنی رسی کھول کر نکل گئی ہے۔ میں اُونٹنی کو پکڑنے کے لیے آپؐ کی مجلس سے اُٹھ گیا، لیکن اُونٹنی تو دُور دُور تک نظر نہ آئی۔ جو لوگ مجلس میں بیٹھے رہے انھوں نے آپؐ کا سارا بیان سن لیا۔ کسی نے سارا بیان یاد رکھا اور کسی نے کچھ بھلا دیا اور کچھ یاد رکھا۔ مجھے اپنے اُٹھ جانے کا افسوس ہوا۔ کاش! میں آپؐ کی مجلس سے نہ اُٹھتا اور آپؐ کا سارا بیان سن لیتا۔ (بخاری، باب بدء الخلق)

حضرت عمران بن حصین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور صحابی ہیں۔ آپؐ کی مجالس میں شرکت کی سعادت سے سرفراز ہوئے۔ کائنات کے حالات کا اوّل سے لے کر آخر تک کا بیان، حضورؐ کے بیانات میں سے ایک اہم بیان ہے۔ عمران بن حصینؓ اُونٹنی کو پکڑنے کی خاطر اُٹھ کر چلے گئے، اُونٹنی بھی نہ مل سکی اور آپؐ کے پورے بیان کے سننے سے بھی محروم ہوگئے۔ بعد میں اُونٹنی کے نہ ملنے کا افسوس تو نہ ہوا لیکن آپؐ کی علمی مبارک مجلس سے اُٹھ کر چلے جانے کا نہایت افسوس ہوا۔

صحابہ کرامؓ کو اصل شوق آپؐ کی مجلس میں حاضری اور تحصیلِ علم کا تھا۔ مال و مویشی ،سواریاں اور دنیاوی کام ان کے نزدیک ثانوی حیثیت رکھتے تھے۔ انھیں کبھی بھی اس بات کا افسوس نہیں ہوا کہ وہ آپؐ کی مجلس میں شرکت کے سبب کسی دنیاوی منافع سے محروم ہوگئے۔ آپؐ کی مجلس سے محروم ہوجاتے تو اس  کا انھیں بڑا افسوس ہوتا تھا۔ آج کے دور میں ہمیں دنیا کمانے کا بڑا شوق ہے اور یہی ہمارا اصل کام  بن گیا ہے۔ علم اور تحریکی کام ہمارے ہاں ثانوی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ وہ کردار جو جماعت صحابہؓ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں سرانجام دیا وہ کام اسی طرح کے لوگ ادا کرسکتے ہیں جن کے ہاں علمِ دین اور تحریکی کام مقدم ہو اور دنیوی کام ثانوی حیثیت رکھتے ہوں۔ آیئے ہم اپنا جائزہ لیں کہ کیا ہم اس معیار پر پورا اُترتے ہیں؟ اگر نہیں، تو پھر اس کا مداوا کرنا چاہیے اور ایسے کارکن تیار کرنا چاہییں جو اس معیار پر پورا اُترتے ہوں۔ جب ایسے کارکنوں پر مشتمل معیاری لوگ تیار ہوکر جدوجہد میں سرگرمِ عمل ہوں گے، تو پھر اسلامی انقلاب برپا ہونے کے راستے میں تمام رکاوٹیں دُور ہوجائیں گی۔

o

حضرت حفصہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم چار کاموں کو نہیں چھوڑتے تھے: سفر اور حضر ہرحال میں انھیں ادا فرماتے تھے۔ عاشورے کا روزہ، ذوالحجہ کے نو روزے، یکم سے لے کر ۹ذوالحجہ تک، اور ایامِ بیض ۱۳،۱۴،۱۵ تاریخوں کے روزے اور فجر کی دو سنتیں۔ (نسائی)

رمضان المبارک کے فرض روزوں کے علاوہ نفلی روزوں کا بھی اہتمام کرنا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کا اہتمام فرماتے تھے۔ ان کے علاوہ بھی آپؐ نفلی روزے رکھتے تھے ، مثلاً سوموار اور جمعرات کا روزہ۔ رمضان المبارک کے بعد شوال کے چھے روزے رکھنے والا صائم الدھر (ہمیشہ روزہ رکھنے والا) شمار ہوتا ہے۔نفلی روزوں کی سیرت و کردار کی تعمیر اور اللہ سے تعلق قائم رکھنے میں بڑی اہمیت ہے۔ ہمارے گھروں میں بعض خواتین ان کا اہتمام کرتی ہیں۔ کچھ گھرانوں میں روایتاً رکھے جاتے ہیں۔  اخوان المسلمون کی طرح ہمارے ہاں اس کا کلچر ہونا چاہیے۔ بیش تر لوگ رکھتے ہوں، عام طور پر رکھتے ہوں۔ عموماً شاذ ہی ذکر ہوتا ہے۔ تربیتی پروگراموں کا یہ حصہ ہونا چاہیے۔

o

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اس حال میں فوت ہوگیا کہ اللہ کی راہ میں پہرہ دے رہا تھا تو وہ جو عملِ صالح دنیا میں کرتا تھا، ان سب کے اعمال کا ثواب برابر جاری رہے گا۔ اس کا رزق بھی جاری رہے گا، وہ شیطان کے شر سے محفوظ رہے گا،  اور قیامت کے روز اس حال میں اُٹھے گا کہ قیامت کی ہولناکیوں سے خوف زدہ نہ ہوگا۔     (ابن ماجہ، مسند صحیح)

جو شخص اللہ کی راہ میںپہرہ دے رہا ہے، اسلام اور اُمت مسلمہ کی حفاظت کے لیے کوشاں ہے، اسے دشمن کے شر سے اور مسلمان ملک پر کفار کے قبضے سے بچانے میں مشغول ہے، اسلامی نظام برپا کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے، وہ اس دنیا سے چلا جائے تو بھی اس کے نیک اعمال کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ عالمِ برزخ میں اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق بھی ملے گا اور وہ جب تک دنیا میں ہے اس وقت تک شیطان کے شر سے بھی محفوظ ہے اور قیامت کے روز جو انتہائی سخت دن ہے اس میں لوگوں کے لیے بڑی بڑی مشکلات اور مصیبتیں ہوں گی، لوگ اپنے پسینے میں ڈوبے ہوئے ہوں گے، کوئی گھٹنوں تک، کوئی پیٹ تک اور کوئی گلے تک، لیکن یہ شخص ہرقسم کی تکلیف اور مصیبت سے محفوظ ہوگا۔ اس حدیث میں اقامت ِ دین  کے لیے جدوجہد کرنے والوں، مسلمان ممالک کو کفار کے قبضے سے آزاد کرانے والوں کے لیے بڑی بشارت ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ جو اس دور میں بھی یہ خدمت سرانجام دے رہے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے نفاذ اور اُمت مسلمہ کی حفاظت میں سرگرمِ عمل ہیں۔ دنیا کی تمام نعمتوں سے بڑھ کر یہ نعمت ہے۔ ایسے لوگوں کو اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اس کام میں ہرقسم کی تکلیف اور قربانی دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ جتنا بڑا اجر ہے، اتنی ہی بڑی قربانی دینے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ جن کو اس خدمت کے لیے منتخب کرتا ہے ، وہ اللہ تعالیٰ کے محبوب ہیں۔ وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی ان سے محبت کرتا ہے اور اپنے دین کی سربلندی کے لیے جدوجہد کی سعادت سے نوازتا ہے۔

o

حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس حال میں پہنچا کہ آپؐ کعبہ کی دیوار کے سایے میں تشریف فرما تھے۔ جب آپؐ نے مجھے دیکھا تو فرمایا: ربِ کعبہ کی قسم! یہ لوگ بہت بڑے خسارے میں ہیں، یہ لوگ سب سے زیادہ خسارے میں ہیں۔

میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! یہ کون لوگ ہیں؟

آپؐ نے فرمایا: یہ وہ ہیں جن کے پاس دوسروں سے زیادہ مال ہے، مگر وہ اس خسارے سے محفوظ ہیں جو بے تحاشا خرچ کریں، آگے ، پیچھے، دائیں، بائیں، لیکن ایسے لوگ بہت کم ہیں۔ (متفق علیہ)

جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے حلال مال دیا ہے، ان کے لیے وقت ہے کہ وہ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کریں۔ آج دین کی تعلیم و اشاعت ، دعوت وتبلیغ اور اس کے نظام کی تنفیذ کے لیے سب سے زیادہ مال کی ضرورت ہے۔ قرآن پاک کی آسان تفاسیر لوگوں تک پہنچانا، آسان لٹریچر فراہم کرنا، اُردو انگریزی اور دوسری زبانوں میں لے کر لوگوں کے گھروں پر دستک دینا اور اپنے مکتبوں میں سستے داموں اور اچھے کاغذ پر فراہم کرنا وقت کی آواز ہے۔ اس طرح اچھی اخلاقی اور دینی کیسٹ، سی ڈی اور فلمیں تیار کرنے کے لیے بھی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ لادینیت اور فحاشی اور عریانی کی بڑے پیمانے پر تشہیر ہورہی ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اس کی اشاعت پر اپنا مال خرچ کر رہے ہیں، تو دین دار لوگوں کا فرض ہے کہ وہ ہرسطح پر ان کا مقابلہ کریں اور ان کو اس میدان میں بھی شکست سے دوچار کردیں۔

o

حضرت سعدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مچھلی والے کی دعا، جب کہ انھوں نے مچھلی کے پیٹ میں دعا کی، اللہ تعالیٰ کو ان کلمات سے پکارا: لَا اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ،جو آدمی بھی ان کلمات سے دعا کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو قبول فرمائیں گے۔ (ترمذی)

کتنی آسان دعا ہے۔ اسے ہرمسلمان یاد کرسکتا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے ہرعیب سے پاک ہونے کا اور اپنی کوتاہیوں کا اعتراف و اقرار ہے۔ دریا میں ڈوب جانا، مچھلی کے پیٹ میں چلے جانا کتنی بڑی تکلیف ہے۔ ایسی تکلیف کہ اس سے رہائی کا تصور تک نہیں ہے لیکن حضرت یونس ؑکو اللہ تعالیٰ نے اس دعا کی بدولت رہائی عطا فرمائی۔ معلوم ہوا کہ بڑی سے بڑی تکلیف اور سخت سے سخت  قید سے بھی اس دعا کی بدولت رہائی مل سکتی ہے۔ آج، جب کہ مسلمان کفار کے مظالم کا شکار ہیں، تنگ و تاریک کوٹھڑیوں کے اندر قید اور گرفتار ہیں اور طرح طرح کی اذیتیں برداشت کر رہے ہیں، ان کے لیے اللہ تعالیٰ کا سہارا ہی رہائی کا سامان ہے۔ جو مسلمان قید اور گرفتار ہیں، وہ بھی اس دعا کے ذریعے اللہ تعالیٰ کو پکاریں اور مسلمان بھائی جو اپنے اپنے ملکوں میں آزادی کی نعمت سے سرفراز ہیں وہ بھی ان کے لیے یہ دعا پڑھیں۔ جتنی تعداد میں پڑھ سکیں، بہتر ہے۔ ایک لاکھ کی تعداد میں پڑھی جائے تو اکثر اوقات اس کی تاثیر ظاہرہوجاتی ہے لیکن اگر لاکھ مرتبہ پڑھنے سے بھی تاثیر ظاہر نہ ہو تو چھوڑ نہ دیا جائے اسے مسلسل پڑھا جائے۔ ان شاء اللہ کسی وقت اثر ظاہر ہوگا۔

حضرت ابوقتادہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر میں ہوتے اور رات کو پڑائو فرماتے تو اپنے دائیں بازو پر لیٹ جاتے اور جب صبح کے قریب پڑائو فرماتے تو اپنا بازو  کھڑا کر کے اپنا سرمبارک اس پر رکھ دیتے۔ (مسلم)

نماز کی فکر میں آپؐ لیٹنے کے بجاے بازو کھڑا کر کے اس پر سرمبارک رکھتے تھے تاکہ گہری نیند کے سبب نماز قضا نہ ہوجائے۔ نبی کریمؐ  کے سفر دن رات جاری رہتے تھے اور آپؐ  کے یہ سفر جہادی سفر تھے۔ جہادی سفر کے دوران میں بھی ذکرالٰہی اور نمازوں کی اسی طرح پابندی ہوتی تھی جس طرح مدینہ طیبہ میں قیام کے دوران میں ہوتی۔ آج کے دور میں دعوتی مہمات جلسوں، جلوسوں اور سیاسی اجتماعات میں نمازوں کی پوری پابندی کرنا چاہیے اور نماز باجماعت کا ٹھیک طرح سے اہتمام کرنا چاہیے۔ نمازوں کے سلسلے میں نبی کریمؐ کے اسوئہ حسنہ کو پوری طرح پیش نظر رکھ کر اس کے مطابق اپنے معمولات کو ترتیب دینا چاہیے۔

o

حضرت ابوذرؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ایک آدمی اچھا عمل کرتا ہے تو لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: یہ تعریف مومن کے لیے نقد بشارت ہے۔ (مسند احمد)

نیک لوگوں کی تعریف اللہ تعالیٰ کی طرف سے قبولیت کی علامت ہے۔ جب ایک آدمی اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں میں شامل ہوجاتا ہے، نیک کام کرتا ہے، اس کی نیت رضاے الٰہی کا حصول ہوتی ہے، ریاکاری کی نیت سے نیکی نہیں کرتا، تو اللہ تعالیٰ لوگوں کے دل میں اس کی محبت ڈال دیتے ہیں اور لوگ اس کی قدر کرتے ہیں۔ ایمان کا ایک اہم تقاضا یہ ہے کہ نیک لوگوں کی قدر کی جائے اور ان کی صحبت اختیار کی جائے، ان کا ساتھ دیا جائے، ان کی جماعت کو مضبوط کیا جائے۔ ایمان کے اس تقاضے کے سبب نیک لوگوں کی تنظیمیں وجود میں آتی ہیں اور وہ مل جل کر اللہ تعالیٰ کی بندگی اور دین کی سربلندی کے لیے کام کرتے ہیں۔ نیک لوگوں کی زندگی میں بھی ان کی تعریف ہوتی ہے اور ان کے فوت ہوجانے کے بعد بھی ان کا ذکر خیر جاری رہتا ہے۔ ان کے تذکروں سے لوگ اپنے ایمان کو تازگی اور قوت دیتے ہیں۔ یہ نیک لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نقد بشارت کا انتظام ہے۔

o

حضرت مغیرہ بن سعد اپنے باپ یا چچا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میدانِ عرفات میں تھے تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے آپؐ  کی اُونٹنی کی باگ پکڑنا چاہی تو مجھے ہٹا دیا گیا۔ یہ دیکھ کر آپؐ  نے فرمایا: اسے آنے دو، کوئی بڑی حاجت ہے جو اسے لائی ہے۔تب میں آپؐ  کے قریب آیا اور عرض کیا: مجھے ایسا عمل بتلا دیجیے جو مجھے جنت سے قریب اور دوزخ سے دُور کردے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میری بات سن کر اپنا سرمبارک آسمان کی طرف اُٹھایا، پھر فرمایا: تو نے بات تو بہت مختصر پوچھی ہے لیکن درحقیقت یہ بہت طویل اور عظیم بات ہے۔ اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو، بیت اللہ کا حج کرو، رمضان المبارک کے روزے رکھو اور لوگوں کے ساتھ وہ سلوک کرو جیسا سلوک لوگوں سے چاہتے ہو اور جو چیز اپنے لیے ناپسند کرتے ہو وہ لوگوں کے لیے بھی ناپسند کرو۔ (مسند احمد)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حقوق اللہ اور حقوق العباد کا جامع نسخہ عنایت فرما دیا۔ قدم قدم پر جس رہنمائی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ آپؐ نے اس کا ضابطہ بیان فرما دیا ہے۔ آدمی کوئی قدم اُٹھانے سے پہلے سوچ لے کہ وہ جو کام کرنے لگا ہے، اس سے کسی کو تکلیف تو نہ ہوگی، اس سے کسی کا حق تو نہیں مارا جائے گا۔ اگر ایسا کام ہو تو اسے چھوڑ دے۔ جنت میں جانے اوردوزخ سے بچنے کا راستہ اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اس کے احکام کی پیروی ہے۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ آدمی کو اللہ تعالیٰ کی بندگی اور احکام کی اطاعت کے لیے تیار کرتے ہیں۔ نبی کریمؐ کے اس ارشاد پر عمل کرنے والا اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا۔ حرام کے ارتکاب اور لوگوں کو تکلیف دینے سے بچے گا، تو وہ سیدھا جنت میں جانے کا سامان کرے گا، اور کامیابی و کامرانی سے ہم کنار ہوگا۔ خالق بھی اس سے راضی ہوگا اور خلقِ خدا بھی خوش ہوگی۔

o

حضرت ابوالدردائؓ پودے لگا رہے تھے کہ ایک شخص ان کے پاس سے گزرا۔ اس نے آپ کو پودے لگاتے دیکھ کر کہا کہ آپ پودے لگا رہے ہیں حالانکہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں۔ انھوں نے جواب دیا: ٹھیرجائو، جلدی نہ کرو، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جس نے ایسے پودے لگائے جن سے انسان اور اللہ تعالیٰ کی کوئی مخلوق کھائے تو اس کے لیے صدقہ ہوگا۔(مسند احمد)

دیکھنے والے کی نظر میں صحابی ٔ رسولؐ کو کوئی اعلیٰ کام کرنا چاہیے تھا۔ نماز، تلاوت، ذکرواذکار، وعظ و نصیحت، دعوت و جہاد کے کاموں کو اس نے اعلیٰ سمجھا۔ پودے لگانے کو اس نے حقیر کام جانا۔ حضرت ابوالدردائؓ نے اس کی اصلاح کرتے ہوئے فرمایا کہ پودے لگانا بھی اعلیٰ کام ہے۔ یہ پودے لگانے والے کے لیے صدقۂ جاریہ ہے اور خلقِ خدا کی خدمت ہے۔ عبادت صرف ذکرواذکار، تلاوت ، نماز، روزہ، دعوت و تبلیغ اور جہاد کا نام نہیں بلکہ خلقِ خدا کی خدمت بھی عبادت ہے۔ خلقِ خدا کی خدمت کی جو بھی شکل ہو، اس میں اجر ہے۔ آج بھی لوگوں کو غلط فہمی ہے، وہ خلقِ خدا کی خدمت کو، زراعت، دکان داری اور ملازمت کو عبادت نہیں سمجھتے حالانکہ یہ تمام چیزیں عبادت ہیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ان کاموں کو کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل اور رزقِ حلال ساتھ خلقِ خدا کی خدمت کی نیت ہو، اور ایسی صورت سے اجتناب کیا جائے جس میں شریعت کی خلاف ورزی ہو۔

o

حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ایک غزوے پر بھیجنے کا ارادہ فرمایا تو میں آپؐ  کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: آپؐ  نے لوگوں کو غزوے پر بھیجنے کا ارادہ فرمایا ہے۔ میں بھی اس غزوے میں جارہا ہوں۔ میرے لیے شہادت کی دُعا فرمایئے۔ آپؐ  نے دُعا فرمائی: اے اللہ! انھیں سلامتی عطا فرما اور غنیمت سے نواز۔ ہم غزوہ میں گئے اور صحیح سالم، مالِ غنیمت لے کر واپس لوٹے۔ اس کے بعد پھر آپؐ  نے ایک غزوے پر لوگوں کو بھیجنے کا ارادہ فرمایا تو میں پھر حاضر ہوا ،اور عرض کیا کہ میرے لیے شہادت کی دُعا کیجیے۔ آپؐ  نے پھر وہی دُعا دی جو پہلی مرتبہ دی تھی۔ ہم غزوے میں گئے اور بسلامت مالِ غنیمت لے کر واپس آئے۔ تیسری مرتبہ آپؐ  نے ایک غزوے کا ارادہ فرمایا تو میں پھر حاضر ہوا اور شہادت کے لیے دُعا کی درخواست کی۔ آپؐ  نے پھر وہی دُعا دی۔ ہم غزوے میں چلے گئے اور مالِ غنیمت لے کر بسلامت لوٹے۔

میں ایک بار پھر آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں مسلسل تین مرتبہ حاضر ہوا، شہادت کے لیے دُعا کی درخواست کی تو آپؐ  نے سلامتی اور مالِ غنیمت لے کر لوٹنے کی دُعا فرمائی۔ اب مجھے کوئی ایسا حکم دیجیے جس سے اللہ تعالیٰ مجھے نفع دے۔ آپؐ  نے فرمایا: روزے رکھو، اس کی کوئی مثل نہیں ہے (یعنی تزکیۂ نفس کا بہترین نسخہ ہے)۔ چنانچہ ابوامامہؓ کے گھر میں دن کے وقت دھواں نہیں دیکھا جاتا تھا۔ اگر کبھی ان کے گھر میں دھواں نظر آتا تو لوگ سمجھ جاتے کہ آج ان کے ہاں مہمان ہیں۔ ابوامامہؓ اور ان کے اہلِ خانہ روزے سے رہتے تھے۔ اس لیے دن کو کھانا نہیں پکتا تھا۔ ابوامامہؓ کہتے ہیں: اس کے بعد میں پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آپؐ  نے مجھے ایسا حکم دیا ہے مجھے امید ہے کہ میں اس پر عمل کروں گا اور اللہ تعالیٰ مجھے اس سے نفع دے گا۔ میں چاہتا ہوں کہ کوئی اور حکم بھی عنایت فرمائیں۔ اس پر آپؐ  نے فرمایا: نوافل پڑھا کرو۔ اس حقیقت کو جان لو کہ جتنے سجدے کرو گے ہرسجدہ ایک خطا کو مٹا دے گا اور ایک درجہ بڑھا دے گا۔(مسند احمد)

صحابہ کرامؓ کو جامِ شہادت نوش کرنے کا شوق تھا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک صحابی کے لیے شہادت کی دُعا نہیںکی۔ بعض کے لیے شہادت کی دُعا بھی کی ہے اور انھوں نے جامِ شہادت نوش کرکے شہادت کا درجہ پایا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر سارے پہلوئوں پر تھی۔ ہر ایک مجاہد کے لیے شہادت مطلوب نہیں ہے بلکہ اکثر کے لیے سلامتی اور کامیابی کے ساتھ واپسی مطلوب ہے، تاکہ    اللہ تعالیٰ کا دین غالب ہو اور دین کی سربلندی کے لیے جہاد کرنے والے کامیابی کے بعد علاقے کا  نظم ونسق اپنے ہاتھ میں لے کر خلقِ خدا کو قرآن و سنت کے مطابق زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کریں۔ عدل و انصاف کا دور دورہ ہو اور خلقِ خدا کی ضروریات اور مسائل حل ہوں۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوامامہؓ کو شہادت کے بجاے غازی ہونے کی دُعا دی۔ حضرت ابوامامہؓ نے سمجھا کہ ابھی مہلت عمل اچھی خاصی باقی ہے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا نسخہ دریافت کیا جائے جس کے نتیجے میں زندگی بارآور اور بابرکت اور درجات کی بلندی کا ذریعہ ہو۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے روزہ اور اس کے بعد نوافل کی تلقین فرمائی کہ روزہ اور نماز سے ایمان کو قوت اور جِلا ملتی ہے اور نیکیاں آسان اور برائیاں مشکل ہوجاتی ہیں۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن یا ایک رات گھر سے نکلے تو دیکھا کہ ابوبکرؓ و عمرؓ بھی اپنے گھروں سے باہرنکلے ہوئے ہیں۔آپؐ نے دونوں سے پوچھا: اس وقت اپنے گھروں سے باہر کیسے نکلے ہیں؟ انھوں نے عرض کیا: یارسولؐاللہ! بھوک کی وجہ سے باہر نکلے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، میں بھی بھوک کے سبب نکلا ہوں۔ اچھا، تو آئو چلتے ہیں۔ وہ آپؐ کے ساتھ چل پڑے۔ آپؐ ایک انصاری صحابیؓ کے گھر تشریف لے گئے تو معلوم ہوا کہ وہ گھر میں نہیں ہے۔ جب ان کی بیوی نے آپؐ کو دیکھا تو آپؐ کا اھلًا مرحبا کے کلمات سے استقبال کیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: فلاں آدمی (آپ کا شوہر) کہاں ہے؟ تو اس نے جواب دیا: وہ ہمارے لیے میٹھا پانی لینے گیا ہے۔ اتنے میں وہ انصاری بھی آگئے۔ انھوں نے رسولؐ اللہ اور آپؐ کے دونوں ساتھیوں کو دیکھ کر الحمدللہ کہا، اللہ کا شکر ادا کیا اور کہا: آج کے دن کوئی بھی ایسا میزبان نہیں ہے جو مجھ سے زیادہ مکرم و معزز ہو۔

ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ یہ کہہ کر وہ باغ میں چلے گئے۔ کھجوروں کا ایک بڑا خوشہ لے کر آگئے جس میں مختلف قسم کی کھجوریں تھیں۔ خوشہ آپؐ کے سامنے رکھا اور عرض کیا: اس سے کھجوریں تناول فرمائیں۔ پھر چھری پکڑی تاکہ بکری ذبح کرکے گوشت تیار کریں اور وہ بھی آپؐ کی خدمت میں پیش کریں۔ آپؐ نے ان کے ارادے کو بھانپ کر فرمایا: دودھ دینے والی بکری نہ ذبح کرنا۔     وہ گوشت بھی تیار کر کے لے آئے۔ آپؐ نے کھجوریں اور گوشت کھایا اور ٹھنڈا میٹھا پانی پیا۔   جب کھانے اور پانی سے سیر ہوگئے تو ابوبکرؓ اور عمرؓ سے فرمایا: قیامت کے روز تم سے ان نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ تم بھوکے نکلے تھے، پھر اس حال میں اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہو کہ  ان نعمتوں سے سیر ہوگئے۔ (مسلم، مشکوٰۃ، باب الضیافۃ)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسی زندگی بسر کی، اس کا ایک نمونہ اس حدیث سے سامنے آتا ہے۔ ۷ہجری میں حضرت ابوہریرہؓ مسلمان ہوئے ہیں، یہ واقعہ اس کے بعد کا ہے۔ فتوحات بھی ملیں، خیبر بھی فتح ہوا، یہودیوں کی زمینیں بھی قبضے میں آئیں، کھجوروں کے باغات بھی آپ کو مل گئے لیکن اس کے باوجود گھروں کی یہ حالت ہوتی تھی کہ بعض اوقات کھانے کے لیے کچھ بھی نہ ہوتا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ کا عموماً یہی حال تھا، اس لیے کہ قبضے میں آنے والے خزانے اپنے گھروں میں    جمع کرنے کے بجاے فقرا و مساکین اور مسافروں میں تقسیم کردیے جاتے تھے۔ یہ ہے وہ حکومت جو  نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمائی۔ کاش! آج کے مسلمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ کو اپنے پیش نظر رکھ کر ایسی حکومت قائم کریں جو حکومت کے خزانوں سے حاجت مند مسلمانوں اور شہریوں کی ضروریات پوری کریں۔

o

حضرت اُمیمہ بنت رقیقہؓ سے روایت ہے کہ میں نے اور چند عورتوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی، تو آپؐ نے فرمایا: یوں کہو کہ ہم اپنی استطاعت اور طاقت کے مطابق اطاعت کریں گی۔ اس پر میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسولؐ ہم پر ہمارے نفسوں سے بڑھ کر مہربان ہیں۔ ہم نے درخواست کی کہ یارسولؐ اللہ! ہم سے مبارک ہاتھ سے مصافحہ کر کے بیعت لیں تو آپؐ نے فرمایا: میں عورتوں کے ساتھ مصافحہ نہیں کرتا، بلکہ زبانی بیعت لیتا ہوں اور ایک سو عورتوں سے بھی اسی طرح بیک وقت چند زبانی کلمات سے بیعت لیتا ہوں جس طرح ایک عورت سے۔(ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، مشکوٰۃ باب الصلح)

دین اسلام آسان دین ہے اور انسانوں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسا حکم نہیں دیا جس کی استطاعت ہمارے اندر نہ ہو۔ خواتین کو بھی وہی احکام دیے ہیں جن پر وہ آسانی سے عمل کرسکتی ہیں اور جہاں انھیں مشکلات پیش آسکتی ہوں وہاں انھیں استثنا دیا گیا ہے، مثلاً حدود و قصاص کے معاملات میں عورتوںپر گواہی کا بوجھ نہیں ڈالا گیا۔ عورتوں کے ساتھ مردوں کا مصافحہ کرنا    مغربی کلچر ہے۔ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسی طیب و طاہر معصوم ذات   اگر عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتی تو دوسرا کوئی کیسے مصافحہ کرسکتا ہے؟

o

حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے ایک آدمی کھانا کھا لے تو یوں دعا کرے: اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْہِ وَاطْعَمْنَا خَیْرًا مِّنْہُ،  ’’اے اللہ! ہمارے اس کھانے میں ہمیں برکت عطا فرما اور ہمیں اس سے بہتر کھانا عنایت فرما‘‘۔ اور جب دودھ پیے تو یوں دعا کرے: اے اللہ! ہمیں اس دودھ میں برکت عطا فرما اور ہمیں زیادہ دودھ عنایت فرما۔ کوئی چیز بھی کھانے اور دودھ دونوں کی جگہ نہیں لیتی مگر دودھ۔ اس لیے جب دودھ پیے تو کسی اور چیز کے بجاے دودھ کی کثرت کی دعا کرے۔ (ترمذی، ابوداؤد)

کھانا ہو یا دودھ اس وقت تک کارآمد نہیں ہے جب تک اللہ تعالیٰ اسے برکت نہ دے دے۔ کھانا اور دودھ آدمی کے لیے اس وقت بابرکت ہیںجب وہ جزوِ بدن بن جائیں اس کی وجہ سے جسم میں مفید صحت خون دوڑے، بلڈپریشر اور شوگر وغیرہ جیسی کسی بھی بیماری کا سبب نہ بنے، اس کے بجاے جسم میں قوت پیدا کرے اور انسان مستعد اور فعال ہو، اپنے فرائض دنیوی و دینی اچھی طرح سے ادا کرے۔ اس لیے کھانے میں برکت کی دعا ضروری ہے۔ پھر دودھ کی اہمیت بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذہن نشین کرا دی کہ دودھ کھانا اور پانی دونوں کا مجموعہ ہے۔ دودھ کی افادیت قدیم اور جدید طب اور عوامی تجربات سے اچھی طرح واضح ہے۔ حکومت اور دودھ فروشوں کو چاہیے کہ وہ لوگوں کو خالص دودھ فراہم کریں۔ اسی طرح باقی چیزوں میںبھی ملاوٹ سے پرہیز کریں۔ آج زیادہ بیماریاں اس وجہ سے پھیل گئی ہیں کہ خالص اور قدرتی غذائیں میسر نہیں ہیں اور اللہ تعالیٰ سے تعلق بھی کمزور ہوگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعائوں کا سلسلہ بھی ختم ہے، اور اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری اور عملِ صالح کی برکتوں سے بھی ہم محروم ہیں۔

o

حضرت عائشہؓ سے پوچھا گیا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں کیا کیا کرتے تھے؟ انھوں نے جواب دیا: گھر کے کام کاج کیا کرتے تھے، جب اذان سنتے تو مسجد کے لیے نکل جاتے۔ (بخاری، کتاب النفقات)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مصروفیات بے پناہ تھیں۔ آپؐ پر قرآن پاک اُترتا تو آپؐ اسے اپنے سینے میں محفوظ کرتے، اپنے صحابہ کرامؓ کو یاد کراتے، اس کی تعلیم دیتے، اس پر عمل کرتے اور عمل کراتے، اس کی تبلیغ کرتے، اس کی تنفیذ کے لیے جہاد کرتے لیکن اس کے باوجود گھر کے کاموں میں اہلِ خانہ کے ساتھ ہاتھ بٹاتے اور گھر میں عبادت کے ساتھ مسجد میں حاضری کی بھی پوری طرح پابندی فرماتے، خود جماعت کراتے اور نماز کے بعد لوگوں سے عمومی ملاقاتیں بھی کرتے اور لوگوں کے مسائل بھی حل کرتے۔   نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہمارے لیے بڑا نمونہ ہے۔ ہمیں بھی چاہیے کہ تمام فرائض کو مستعدی سے ادا کریں اور اہلِ خانہ کی بھی رعایت کریں اور ان کے کاموں میں انھیں بھی مدد دیں۔

o

حضرت قتادہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں حضرت حسن بصری نے بیان کیا کہ معقل بن یسار کی بہن ایک آدمی کے نکاح میں تھی۔ اس نے اسے طلاق دے دی۔ عدت میں اس سے رجوع نہ کیا۔ مدت گزرنے کے بعد دوبارہ معقل بن یسار کو اس سے نکاح کا پیغام بھیجا تو معقل بن یسار نے اس کے طرزِعمل پر غیرت کھائی اور کہا کہ پہلے طلاق دی، پھر عدت میں بھی اس سے رجوع نہ کیا۔ میری بہن کی اس قدر تذلیل کی اب پھر نکاح کرنا چاہتا ہے۔ میں اپنی بہن کو اس کے ساتھ کبھی بھی نکاح نہ کرنے دوں گا جب کہ بہن بھی دوبارہ نکاح پر راضی تھی۔ اس پر اللہ عزوجل نے قرآن پاک کی  یہ آیت اُتاری: وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَاجَھُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ(جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ اپنی عدّت پوری کرلیں،تو پھر اس میں مانع نہ ہو کہ وہ اپنے زیر تجویز شوہروں سے نکاح کرلیں،جب کہ وہ معروف طریقے سے باہم مناکحت پر راضی ہوں البقرہ۲:۲۳۲) ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلایا اور اسے آیت پڑھ کر سنائی تو انھوں نے غیرت و حمیت چھوڑ دی اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے جھک گئے۔ (بخاری، کتاب الطلاق)

صحابہ کرامؓ کی یہ شان تھی کہ انھوں نے اپنی انانیت کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے آگے قربان کر دیا۔ اللہ کے حکم کے سامنے انھوں نے سر جھکا دیے۔ آج کے مسلمان اپنی جاہلی رسوم و روایات کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں، انھیں اللہ تعالیٰ کے احکام کے مقابلے میں اُونچا کیے ہوئے ہیں، حتیٰ کہ ملکی نظام میں بھی اپنی پسند و ناپسند کو اللہ تعالیٰ کی پسند و ناپسند کے مقابلے میں ترجیح دی ہوئی ہے، نتیجتاً اسلامی نظام معطل ہے اور لادینی نظام قائم و نافذ ہے۔ کاش آج مسلمان معقل بن یسار اور صحابہ کرامؓ کو نمونۂ عمل بنا کر جاہلیت کے بتوں کو توڑ دیں اور اللہ تعالیٰ کے دین کو عملی جامہ پہناکر اپنی عظمت رفتہ کو بحال کردیں۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبۃ اللہ کے پاس کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ دوسری طرف قریش کی ایک جماعت مجلس جمائے بیٹھی تھی کہ اس دوران میں ایک کہنے والے نے کہا کہ دیکھتے نہیں ہو اس کو جو ہمیںکھا کر نماز پڑھ رہا ہے۔ تم میں سے کون اُٹھے گا اور فلاں آدمی کی اُونٹنی کا اوجھ لے آئے جس میں گوبر، خون اور دیگر چیزیں بھری ہوئی ہیں، اور انتظار کرے کہ یہ سجدہ میں جائے اور پھر اس اوجھ کو اس کے دونوں شانوں کے بیچ میں رکھ دے تاکہ یہ اُٹھ نہ سکے۔ چنانچہ ان کا سب سے بڑا بدبخت شخص (عقبہ بن ابی معیط) اُٹھا اور اُونٹ کا اوجھ لے کر آگیا اور جب آپؐ سجدے میں گئے تو آپؐ کے دونوں شانوں کے بیچ میں رکھ دیا جس کے نتیجے میں آپؐ سجدے سے نہ اُٹھ سکے۔ اس حالت کو دیکھ کر کفارِ قریش ہنسنے لگے  اور ایک دوسرے پر گرنے لگے، اور آپؐ کے ساتھ تمسخر کرکے مزے لیتے رہے۔ تب ایک شخص حضرت فاطمہؓ کی طرف دوڑا جو اس وقت نابالغ بچی تھیں (وہ شخص عبداللہ بن مسعود ہی تھے) انھیں جاکر صورت حال بیان کی۔ وہ دوڑتی ہوئی آئیں اور اس اوجھ کو آپؐ کے کندھوں سے گرا یا۔ پھر کفارِ قریش کی طرف متوجہ ہوئیں اور انھیں سخت سُست کہا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوئے تو آپؐ نے کفارِ قریش کے خلاف بددُعا فرمائی۔ آپؐ نے فرمایا: اَللّٰھُمَّ عَلَیْک بِقُریشٍ، ’’اے اللہ! قریش کو پکڑ، اے اللہ! قریش کو اپنی گرفت میں لے، اے اللہ! قریش کو پکڑ‘‘۔ اس کے بعد ایک ایک کا نام لے کر ان کے خلاف بددُعا فرمائی۔ فرمایا: اے اللہ! عمرو بن ہشام (ابوجہل) ،عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف، عقبہ بن ابی معیط اور عمارہ بن ولید کو پکڑ۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیںکہ میں نے ان سب کو بدر میں ہلاک ہوتے دیکھا۔ انھیں کھینچ کر ایک کنوئیں کی طرف لے جایا گیا اور ان سب کو اس میں ڈال دیا گیا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو خطاب کر کے فرمایا: اس کنوئیں والوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت مسلط ہوگئی۔ (بخاری، کتاب الصلوٰۃ)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر مکہ میں جو آزمایشیں آئیں، اس کا ایک نمونہ اس حدیث میں پیش کیا گیا ہے۔ دونوں منظر آپ کے سامنے ہیں۔ ایک یہ منظر کہ کفارِ قریش نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچاکر خوشی منارہے ہیں اور آپ کا مذاق اُڑا رہے ہیں، اور دوسرا منظر یہ کہ ان کی لاشیں بدر کے کنوئیں میں پڑی ہیں اور ان پر لعنت مسلط ہے۔یہ دونوں مناظر اہلِ ایمان کو درس دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمایشیں آتی ہیں لیکن انجامِ کار اہلِ حق کی کامیابی ہوتا ہے۔ دنیا میں کامیابی اور خوشی ایک طرف اور آخرت کا ثواب جنت کی شکل میں دوسری طرف، تب جدوجہد اور بندگیِ رب میں سُستی کا کیا جواز ہے؟

o

حضرت عبداللہ بن ابی قتادہؓ اپنے والد حضرت ابی قتادہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک رات جنگ سے واپس ہوئے۔ رات کے آخری حصے میں پہنچے تو بعض صحابہ کرامؓنے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! اگر آپ رات کے اس آخری حصے میں پڑائو کردیں تو بہت اچھا ہوگا۔ آپؐ نے فرمایا: ایسی صورت میں مجھے ڈر ہے کہ تم نماز کے وقت سو جائو گے۔ اس پر حضرت بلالؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں آپ لوگوں کو بیدار کردوں گا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑائو کرنے کا حکم دے دیا، چنانچہ لوگوں نے پڑائو کرلیا اور حضرت بلالؓ مشرقی اُفق کی طرف رُخ کر کے اپنی اُونٹنی کے کجاوے کے ساتھ ٹیک لگاکر بیٹھ گئے۔ تمام لوگ سو گئے اور حضرت بلالؓ پر بھی نیند کا غلبہ ہوگیا اور وہ بھی سو گئے۔ لوگ سوئے رہے حتیٰ کہ سورج نکل آیا تو سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے۔ آپؐ کے بعد حضرت بلالؓ اور دوسرے صحابہؓ بھی بیدار ہوگئے۔ آپؐ نے حضرت بلالؓسے پوچھا: بلالؓ! کہاں گئی تمھاری بات؟ حضرت بلالؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آج جس قدر نیند کا غلبہ ہوا، اتنا غلبہ مجھ پر کبھی نہ ہوا تھا۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کو تسلی دی اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمھاری روحوں کو جب چاہا قبض کرلیا اور جب چاہا تمھاری طرف لوٹا دیا (یعنی جب چاہا سلا دیا اور جب چاہا بیدار کر دیا)، یعنی ایسی صورت میں جب نیند کا غلبہ ہوجائے تو پھر نماز کے قضا ہوجانے کا گناہ نہیں ہوتا۔ اس کے بعد آپ ؐ نے فرمایا: بلالؓ! کھڑے ہوجائو اور اذان دو۔ پھر آپؐ نے اور صحابہ کرامؓ نے وضو کیا اور سورج بلند ہوگیا اور چمکنے لگا تو آپؐ نے نماز باجماعت ادا فرمائی۔ (بخاری)

غلبۂ نیند کی وجہ سے نماز کا قضا ہو جانا تقویٰ اور نیکی کے خلاف نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ  علیہ وسلم اور آپؐ کے جلیل القدر صحابہ کرام ؓسے بھی غلبۂ نیند کی وجہ سے نماز فوت ہوگئی، اور رات کو پڑائو کی وجہ سے دو تین مرتبہ ایسے واقعات رونما ہوئے جن کا تذکرہ احادیث میں آتا ہے۔ تقویٰ اور طہارت و تزکیہ کے انتہائی بلندمقام پر فائز ہو نے کے باوجود نبی بھی انسانی عوارض سے متصف ہوتا ہے۔ وہ سوتا ہے، اسے بھوک پیاس بھی لگتی ہے اور بیماری بھی لاحق ہوتی ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر اور دیگر مواقع پر سونے سے منع فرمایا کہ کہیں سونے کی وجہ سے نماز قضا نہ ہوجائے لیکن آپ کو حضرت بلالؓ نے اطمینان دلا دیا کہ میں جگانے کا انتظام کردوں گا۔ تب آپؐ نے سونے کی اجازت دے دی۔ اس سے فقہا نے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ اگر نماز کا وقت قریب ہو تو پھر نیند سے احتراز کرنا چاہیے مگر ایسی صورت میں نیند کی جاسکتی ہے جب نماز کے وقت اُٹھانے کا انتظام کیا جائے۔ اس سے نماز کے بروقت اور باجماعت پڑھنے کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے، نیز اس حدیث سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ صبح کی نماز قضا ہوجائے تو اس وقت ادا کی جائے جب سورج بلند ہوجائے اور چمکنے لگے۔ اس کی مزید وضاحت اس حدیث سے ہوتی ہے جو حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب سورج کا کنارہ طلوع ہوجائے تو نماز کو مؤخر کرو یہاں تک کہ سورج بلند ہوجائے، اور سورج کا کنارہ غائب ہوجائے تو نماز کو مؤخر کرو یہاں تک کہ وہ غروب ہوجائے۔

o

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں دنیا و آخرت، دونوں جہانوں میں، ہرمومن کے ساتھ زیادہ شفقت رکھتا ہوں۔ پھر آپؐ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ وَ اَزْوَاجُہٗٓ اُمَّھٰتُھُمْط (احزاب ۳۳:۶) ’’بلاشبہہ نبیؐ تو ایمان والوں کے لیے ان کی اپنی ذات پر مقدم ہے، اور نبیؐ کی بیویاں ان کی مائیں ہیں‘‘۔ پھر آپؐ نے فرمایا: جو فوت ہوگیا اور اس نے مال چھوڑا تو اس کے وارث اس کے قرابت دار ہوں گے جو بھی ہوں۔ اور جو شخص قرض اور چھوٹے بچے چھوڑ کر فوت ہوجائے تو وہ میرے پاس آئے، مَیں اس کا ذمہ دار ہوں۔ (بخاری)

یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت کی ایک مثال ہے کہ آپؐ نے فرمایا: جس کا کوئی وارث اور کفیل نہیں ہے، اس کا مَیں کفیل ہوں۔ اسی بنا پر اسلامی حکومت ایسے تمام ضعیف لوگوں کی کفیل ہوتی ہے جن کا کوئی کفیل نہ ہو۔ ایک فلاحی اور رفاہی ریاست کا تصور اسلام نے دیا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور اسوئہ حسنہ کا عکس ہے۔

o

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتا ہے، اس حال میں کہ گُوز مارتا ہے۔ جب اذان ختم ہوجاتی ہے تو واپس آجاتا ہے۔ جب اقامت کہی جاتی ہے تو پھر پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتا ہے۔ جب اقامت ختم ہوجاتی ہے تو واپس آجاتا ہے اور آدمی اور اس کے نفس کے درمیان حائل ہوجاتا ہے (وسوسہ اندازی شروع کر دیتا ہے)، اور انسان کو وہ چیزیں یاد دلاتا ہے جو اسے یاد نہیں ہوتیں۔ یہاں تک کہ انسان بھول جاتا ہے کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔ (بخاری، باب فضل التاذین)

اذان میں چار مرتبہ اللہ تعالیٰ کی کبریائی ، دو مرتبہ اللہ تعالیٰ کی توحید ، دو مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اعلان ہوتا ہے، نیز نماز کے لیے بلاوا اور پھر پورے دین کی طرف بلاوا ہوتا ہے۔ اس کے بعد دو مرتبہ پھر اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا اور توحید باری تعالیٰ کا اعلان ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کبریائی اور توحید و رسالت کا اعلان اور نماز اور پوری دنیا کی طرف بلاوا شیطان کو خوف زدہ کردیتا ہے، وہ بھاگ کھڑا ہوتا ہے اور اس وقت واپس آتا ہے جب اذان ختم ہوجاتی ہے۔ اس سے اذان کی فضیلت  واضح ہوتی ہے۔ محدثین نے اس حدیث کو باب فضل التاذین میں ذکر کیا ہے۔ اس حدیث سے   اہلِ ایمان کو حوصلہ ملتا ہے کہ ان کے پاس وہ کلمات اور دعوت ہے جو شیطان کو خوف زدہ کردینے والی ہے، شیطان کو بھگا دینے والی ہے، اس لیے انھیں مطمئن ہونا چاہیے کہ شیطان ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا بلکہ خود خوف زدہ ہوکر بھاگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بھی ارشاد فرمایا ہے: اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْھِمْ سُلْطٰنٌ (الحجر۱۵:۴۲) ’’یقینا میرے بندوں پر تیرا تسلط نہیں ہوگا‘‘۔ البتہ وہ وسوسہ اندازی کا کام کرے گا اور نماز کو خراب کرنے کی کوشش کرے گا۔ لہٰذا اہلِ ایمان کو چاہیے کہ اپنی عبادات اور نماز میں اللہ تعالیٰ کی طرف پوری طرح رجوع کریں اور وسوسوں کا شکار نہ ہوں۔

حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص لَا اِلٰہ اِلاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ کہتا ہے اس کارب اس کی تصدیق کرتے ہوئے فرماتا ہے: میں اکیلا معبود ہوں میرے علاوہ کوئی معبود نہیں، اور میں سب سے بڑا ہوں۔ اور جب کہتا ہے: لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: میں تنہا معبود ہوں، میرے علاوہ کوئی معبود نہیں، میرا کوئی شریک نہیں۔ اور جب کہتا ہے: لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: نہیں کوئی معبود مگر میں، میرے لیے ہے بادشاہت اور میرے لیے ہے حمد۔ اور جب کہتا ہے:لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃُ اِلاَّ بِاللّٰہِ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: میرے سوا کوئی معبود نہیں۔ کسی کے پاس کوئی قوت نہیں اور کوئی بھی کچھ نہیں کرسکتا، مگر میری توفیق کے ساتھ۔ اور آپؐ فرماتے تھے: جو آدمی اپنی بیماری میں یہ ذکر کرے پھر فوت ہوجائے تو آگ اسے نہیں کھائے گی (یعنی وہ دوزخ میں نہیں جائے گا)۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

اس ذکر کی مسلسل عبارت یوں ہے: لَا اِلٰہ اِلاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ، نہیں کوئی معبود مگر اللہ اور اللہ سب سے بڑا ہے، نہیں کوئی معبود مگر اللہ تنہا اور اس کا کوئی شریک نہیں۔ نہیں کوئی معبود مگر اللہ، اسی کے لیے ہے بادشاہت، اوراسی کے لیے ہے حمد۔ نہیں کوئی معبود مگر اللہ اور نہیں کوئی قوت اور نہیں کوئی تدبیر مگر اس کی توفیق اور مدد سے۔

اللہ تعالیٰ کی جو صفات اور شانیں قرآن و حدیث میں آئی ہیں ان پر مشتمل ذکر ایمان وعمل میں قوت کا ذریعہ ہے۔ اس لیے ایسے ذکر کو معمول بنانا چاہیے۔ سب سے بڑی صفت اور شان لا الٰہ الا اللہ ہے اور یہ افضل الذکر ہے۔ پھر یہ احساس کتنا لطف انگیز اور ایمان افروز ہے کہ ادھر ہم ذکر کرتے ہیں، اور ادھر اللہ تعالیٰ اسے دُہراتا ہے۔ پھر موت کے لیے بیماری کی شرط نہیں ہے، اس لیے اس ذکر کے ساتھ جو بشارت ہے اس کی خاطر، اسے معمول بنا لینا چاہیے۔


حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی آدمی جس کا نام زاہر بن حرام تھا دیہات سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہدیہ لایا کرتا تھا، اور جب وہ واپس جانا چاہتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے کچھ سامان بطور ہدیہ دیا کرتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زاہر ہمارادیہات ہے اور ہم اس کا شہر ہیں، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سے محبت رکھتے تھے۔ وہ خوش شکل نہ تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن اس کے پاس آئے تو وہ سامان فروخت کر رہاتھا۔ آپؐ نے پیچھے سے اسے بغل میں لے لیا۔ وہ آپؐ کو دیکھ نہیں رہا تھا، اس نے کہا: کون ہے یہ؟ مجھے چھوڑ دے، پھر اس نے مڑ کر دیکھا تو اس نے پہچان لیا کہ یہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، تب وہ اپنی پیٹھ کو پورے زور سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سینۂ مبارک کے ساتھ ملانے لگا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے: کون ہے جو مجھ سے اس غلام کو خریدے؟ وہ کہنے لگا: یارسولؐ اللہ! تب آپؐ اسے کھوٹا پائیں گے (یعنی کم قیمت)، تو آپؐ نے فرمایا: لیکن آپ اللہ تعالیٰ کے ہاں کھوٹے نہیں ہیں۔ (شرح السنۃ، مشکوٰۃ، باب المزاح)

صحابہ کرامؓ، شہری ہوں یا دیہاتی، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہدیے پیش کیاکرتے تھے اور آپؐ بھی انھیں بدلے میں ہدیہ پیش کیا کرتے تھے۔ زاہر دیہاتی صحابی تھے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتے تھے۔ شہر میں سودافروخت کرنے کے لیے لے کر آتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دیہات سے پیدا ہونے والی چیزیں پیش کرتے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم شہری چیزیں انھیں ہدیہ کرتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم زاہر سے محبت رکھتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا منظر حضرت انسؓ نے یہاں بیان کیا___ ذرا آنکھیں بند کر کے یہ منظر سامنے لایئے۔ کسی معاشرت میں قائدین کا بلکہ سب سے بڑے قائد کا اپنے عام رفقا کے ساتھ یہ برادرانہ سلوک، یہ بے تکلفی (کہ آکے پیچھے سے سر پکڑ لیا!)۔ جب نیلام کے لیے آپؐ نے پیش کیا تو زاہر نے اپنے خوش شکل نہ ہونے کی وجہ سے اچھی قیمت نہ ملنے کا کہاتو آپؐ نے کیا اچھی بات کہی کہ اصل قدروقیمت تو اللہ کے ہاں کی ہے جہاں تم کھوٹے نہ ہوں گے، بلکہ تم جیسوں کا ہی سکّہ چلے گا۔ دل چاہتاہے کہ ہمارے آس پاس بھی یہی خوش گوار ماحول ہو اور قدر ظاہری حُسن کی نہ ہو، بلکہ اللہ کے ہاں مقام کی ہو۔


حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں دیکھتاہوں کہ میں جنت میں داخل ہوا ہوں (خواب کی حالت میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب بھی وحی ہوتا ہے)، تو میں نے ایک آدمی کو قرأت کرتے ہوئے سنا۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا کہ یہ حارثہ بن نعمان ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واقعے کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: نیکی ایسی ہی ہونی چاہیے، نیکی ایسی ہی ہونی چاہیے۔ دو مرتبہ فرمایا اور ساتھ ہی فرمایا کہ وہ اپنی ماں کا سب سے بڑھ کر فرماں بردار اور اطاعت گزار تھا۔ (شرح السنۃ، بیہقی فی الایمان، مشکٰوۃ، باب البر والصّلۃ)

حضرت حارثہ بن نعمانؓ جلیل القدر صحابی ہیں۔ غزوئہ بدر، اُحد اور تمام غزوات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہے، لیکن اس کے ساتھ اپنی ماں کے بھی فرماں بردار اور اطاعت شعار تھے۔ ماں کی خدمت اور فرماں برداری کے نتیجے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں جنت میں قرآن پاک پڑھتے ہوئے سنا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کو ان کی نیکی کی طرف بڑے جذبے سے متوجہ فرمایا کہ نیکی ہو تو ایسی جیسے حارثہ بن نعمانؓ کی نیکی تھی کہ جہاد میں بھی آگے آگے اور ماں کی خدمت میں بھی    پیش پیش۔ بڑا خوش قسمت ہے وہ جسے یہ دونوں نعمتیں نصیب ہوں۔ زندگی میں یہ اعتدال مطلوب ہے۔ فرائض بھی ادا کیے جائیں اور حقوق بھی!


حضرت ابی بکرہؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی گناہ ایسا نہیں کہ اس پر دنیا میں بھی سزا ملے اور آخرت میں سزا کے لیے بھی وہ گناہ باقی رہے، سواے ظلم اور قطع رحمی کے۔ (ترمذی، ابوداؤد، مشکوٰۃ، باب البر والصّلۃ)

صلۂ رحمی کی بڑی تاکید آئی ہے اور اس کے بڑے اجراور برکت بتائی گئی ہے۔ قطع رحمی، یعنی عزیز واقارب کے حقوق ادا نہ کرنا، عام سا گناہ نہیں، دنیا میں بھی سزا ملتی ہے اور آخرت میں بھی۔ ظلم سے مراد حقوق کا ادا نہ کرنا ہے۔ عزیز واقارب کے بھی، دوسرے احباب اور معاشرے کے بھی۔


حضرت ابوسعید خدریؓ اور حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جنتیوں کو آواز دینے والا آواز دے گا: اے جنت والو! اب تم ہمیشہ صحت مند رہو گے، کبھی تم پر بیماری نہیں آئے گی۔ اب تمھارے لیے ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی ہے، تم پر کبھی موت نہیں آئے گی۔ اب تم ہمیشہ جوان رہو گے، کبھی تم پر بڑھاپا نہیں آئے گا۔ اب تم ہمیشہ عیش و عشرت میں رہو گے، کبھی فقروفاقہ نہیں آئے گا۔ (مسلم، مشکوٰۃ)

جنت کی زندگی اصل زندگی ہے۔ اس کی قیمت اللہ تعالیٰ کی بندگی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بندگی ایسی دائمی زندگی کے لیے سب سے اُونچا سودا ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ جو اللہ کی بندگی کے ذریعے جنت کی   بے نظیر اور بے مثال نعمتوں سے سرفراز ہوں۔ جنت کا یہ تصور اور اس کی وہ نعمتیں جن کے ذکر سے قرآن بھرا ہوا ہے، ہمہ وقت آنکھوں کے سامنے رہیں، تو آدمی دنیا کی عارضی لذتوں کی خاطر جنت کی زندگی کا موقع ضائع ہرگز نہ کرے گا۔


حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ o(’’اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو جیسا کہ اس کے تقویٰ کا حق ہے اور تمھیں موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو‘‘۔ اٰلِ عمرٰن ۳:۱۰۲) تلاوت فرمائی۔ پھر فرمایا: اگر زقوم کا ایک قطرہ دنیا میں گر پڑے تو زمین والوں کی زندگی تباہ ہوجائے، ان کا تمام سامانِ عیش خراب ہوجائے، تب ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جن کا کھانا زقوم  ہوگا۔ (ترمذی ، مشکوٰۃ)

آیت کی تلاوت کرنے کے بعد، دوزخ کی سزا کے بیان کے ذریعے بتایاگیا کہ تقویٰ کی روش اور وہ بھی تاحیات اختیار نہ کرنے والے آخرت میں کس انجام سے دوچار ہوں گے، یعنی زقوم کا کھانا ہوگا۔ آج وہ لوگ جو اسلام کے خلاف صف آرا ہیں، اس دنیا میں کتنی ہی عیش وعشرت کرلیں، ان کے  سب مزوں کی سزا دوزخ کی آگ اور زقوم کا کھانا ہوگا جو سب مزوں کو بھلا دے گا۔ آج وقت ہے کہ وہ کفر سے باز آجائیں، اور دنیاوی مزوں اور بڑائیوں کی خاطر اسلام اور ملت اسلامیہ پر حملہ آور ہونے سے باز آجائیں ورنہ کل قیامت کے روز افسوس کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہ آئے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو سب کچھ بیان کرکے اتمامِ حجت فرمادیا ہے۔ راہِ راست واضح ہے جو آنا چاہے، اس کے لیے توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔ اسلام کی دعوت پر مشتمل آیت کے بعد جہنم اور اس کے عذاب کی ہولناکی کا بیان اسی غرض کے لیے ہے کہ اسلام اس عذاب سے بچائو کا سامان ہے، اسے غنیمت جانو۔