محمد ایوب منیر


بنگلہ دیش، تھائی لینڈ، چین، لائوس، بھارت اور خلیج بنگال کے درمیان گھرا ہوا میانمار (برما) مسلم اقلیت کے ساتھ جو ظالمانہ و وحشیانہ سلوک روا رکھے ہوئے ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔

بُدھ دہشت گردوں (جنھیں حکومت کی سرپرستی حاصل ہے)نے مسلم رُوہنگیا آبادی کو  دو ہی راستے فراہم کیے۔ یہاں سے فرار ہوجائو، ورنہ پوری آبادی کو جلاکر راکھ کردیا جائے گا۔  ۱۰۰، ۱۰۰؍ افراد پر مشتمل رُوہنگیا مسلمانوں کے قافلے چھوٹی کشتیوں پر بٹھا کر کھلے پانیوں میں نامعلوم منزل کی طرف دھکیل دیے گئے کہ یہاں سے نکل کر کہیں پناہ تلاش کرو یا سمندر میں ڈوب مرو۔

۱۳ سے ۱۵ لاکھ رُوہنگیا آبادی کے بارے میں اُن کا یہی دعویٰ ہے کہ یہ مسلم لوگ بنگال سے ترکِ وطن کرکے برما میں زبردستی آگئے تھے۔ یہ بنگالی غیرملکی ہیں، اجنبی ہیں، انھیں واپس جانا چاہیے، ان کی موجودگی غیرقانونی ہے۔

سابقہ فوجی بُدھ حکومت کی طرح موجودہ جمہوری حکومت بھی اراکانی رُوہنگیا مسلمانوں کو کسی قسم کے حقوق دینے کے لیے تیار نہیں۔ اگرچہ رُوہنگیا مسلمان یہاں ۵۰۰سال سے بھی زائد عرصے سے رہ رہے ہیں۔ اراکان کے نام سے اُن کی ریاست تھی۔ اراکانی ریاست کا نام بھی پانچ اراکینِ اسلام کی وجہ سے اراکان رکھا گیا تھا۔

مئی کے تیسرے ہفتے میں ملائیشیا کے ساحلی علاقوں سے کم و بیش ۱۳۵؍افراد کی لاشیں ملیں۔ اُنھیں بے سروسامانی ، بیماری اور غذائی قلت سے ہلاک ہونے والے رُوہنگیا شناخت کیا گیا۔    یہ حقیقت ہے کہ لاتعداد افراد ابھی سمندر میں موجود ہیں اور خدشہ ہے کہ ان کشتیوں کا پٹرول ختم ہوتے ہی یہ افراد غرق ہوجائیں گے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے حوالے سے رسائل و جرائد میں تصاویر بھی شائع ہوئیں۔ سیکڑوں رُوہنگیا مسلمان نوجوانوں کی کھلے سمندروں میں موجودگی کا پتا لگا۔ جب کہ انڈونیشیا، ملایشیا، تھائی لینڈ، آسٹریلیا، کمبوڈیا اور بنگلہ دیش کی سیکورٹی افواج ان کشتیوں کو ساحل تک پہنچنے ہی نہیں دیتیں، کجا یہ کہ ان کی جان بچائیں۔

خوراک کی عدم دستیابی، کشتیوں میں مسلسل موجودگی اور بدترین حالات کی وجہ سے   ۵۰۰ سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ایک اہل کار نے خلیج بنگال سے ملحقہ ممالک سے اپیل کی کہ وہ سمندری قوانین کی پاس داری کرتے ہوئے کم از کم ان کی زندگی کو بچانے کی کوشش کریں اور ان کو عارضی قیام گاہیں فراہم کریں یا انسانی ہمدردی کی بنا پر جو کرسکتے ہوں کریں لیکن اس کا خاطرخواہ اثر نہ ہوا۔ تاہم تھائی لینڈکی حکومت نے فضائی ذرائع سے خوراک کی تقسیم کا معمولی سا سلسلہ شروع کیا لیکن خوراک اور پینے کے پانی کے حصول کے لیے چھیناجھپٹی کے دوران سمندر میں گرکر ہلاک ہونے والوں کی تعداد بھی دل دہلا دینے والی ہے۔ اس المیے کے بارے میں غور کے لیے انڈونیشیا، ملایشیا، تھائی لینڈ اور میانمار کے وزراے خارجہ کی میٹنگ ۲۱مئی کو طے کی گئی۔ مگر میانمار نے شرکت نہ کی اور موقف اختیار کیا کہ اس کانفرنس میں ’رُوہنگیا‘ کا لفظ استعمال کیا جارہا ہے۔ یاد رہے انتہاپسند بُدھ شہری اور سرکاری افراد اُس اجلاس میں شرکت ہی نہیں کرتے جہاں ’رُوہنگیا‘ لفظ استعمال ہو۔نوبل انعام یافتہ آن سان سوچی کی خاموشی بھی ناقابلِ فہم ہے۔

رُوہنگیا اپنے علاقے میں محدود رہتے ہیں۔ اُن کے علاقوں کے اردگرد بھاری فوج تعینات رہتی ہے۔ اپنے علاقے سے باہر نکلنا اُن کے لیے ممکن نہیں۔ کسی بھی وقت اُن پر مسلح دہشت گرد حملہ آور ہوجاتے ہیں۔ پولیس اور فوج اِن دہشت گردوں کی مددگار ہوتی ہے۔ کوئی ادارہ اُن کی آہ و بکا پر رپورٹ درج کرنے اور قانونی کارروائی کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ جبری مشقت کے ذریعے بھی وہ اراکانی مسلمانوں کو ختم کرنے یا سزا دینے پر عمل پیرا ہیں۔

۲۰۱۲ء میں بُدھ دہشت گردوں کے حملوں سے ڈیڑھ لاکھ افراد اپنے گھربار سے محروم کر دیے گئے تھے۔ ۸۰۰ ؍افراد ظالمانہ طریقے سے ہلاک کردیے گئے تھے۔ اُس وقت سے اب تک تنائو اور خوف کی کیفیت طاری ہے اور اسی دہشت کے نتیجے میں مسلمانوں کے لیے یہاں رہنا مشکل ترین بن کر رہ گیا ہے۔ ۲۰۱۲ء کے افسوس ناک واقعات کے بعد سے کشتیوں کے ذریعے جبری انخلا کہیے، فرار کہیے، یا انسانی اسمگلروں کا جال___ ایک لاکھ افراد میانمار چھوڑنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ اس سرگرمی میں بُدھ دہشت گرد بھی شامل ہیں جنھوں نے انسانی اسمگلروں کو قانونی تحفظ اور ایسی سہولتیں فراہم کر رکھی ہیں کہ وہ رُوہنگیا لوگوں کو اغوا کریں، قید کریں یا لالچ دیں اور انھیں کشتیوں میں بھر کر سمندر میں لے جائیں۔ رُوہنگیا قوم ’دُنیا کی انتہائی بے سہارا اور بے یارومددگار قوم‘ ہے۔  کشتیوں میں عموماً نوجوان کو سمگل ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے تاکہ مزاحمت کرنے والے باقی نہ رہیں اور بعد میں میانمار کی سرزمین پر بوڑھے لوگوں، عورتوں اور بچوں کا بآسانی صفایا کیا جاسکے۔ نوجوان مسلم لڑکیوں کی عصمت دری کی داستانیں اس کے علاوہ ہیں۔

نقشے پر دیکھا جائے تو میانمار راکھن صوبہ ( سابقہ اراکان ریاست) بھی بنگلہ دیش کے ساتھ جغرافیائی طور پر ملحق ہے۔ اس کی برما سے قربت سمندر کے ذریعے ہے۔ کئی ہزار اراکانی مسلمان گذشتہ برسوں سے بنگلہ دیش میں قیام پذیر ہیں۔ اُن کی داستانِ غم علیحدہ ہے۔ موجودہ المیے کے آغاز میں یہ خبریں بھی آئیں کہ کشتیوں میں سوار ہونے والے لوگوں میں بنگلہ دیش میں قیام پذیر رُوہنگیا بھی ہیں، تاہم بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد نے ساحلی پٹی پر تعینات سیکورٹی گارڈز کو   یہ پیغام دینے کا موقع ضائع نہ کیا کہ ان کشتی سواروں میں سے کوئی بھی فرد بنگلہ دیش میں داخل نہ ہو۔ بنگلہ دیش کم از کم اُنھیں موت کے منہ میں جانے سے بچاسکتا ہے لیکن یہ کون سوچتا ہے۔ ۲۰۱۲ء میں بھی پناہ کے طلب گاروں کو بنگلہ دیشی حکومت نے ساحلی علاقوں پر نہ اُترنے دیا تھا۔ طوفانی لہروں کا مقابلہ کرنے والے کشتی والے دربدر انسانوں کا معاملہ بین الاقوامی برادری کے سامنے آیا تو امریکی صدر باراک اوباما نے صرف یہ بیان دینے پر اکتفا کیا کہ ’’برما کی حکومت کو چاہیے کہ وہ نسلی و لسانی بنیاد پر امتیاز ختم کرے‘‘۔ امریکا نے حسب معمول مسلمانوں کے قتلِ عام، بے دخلی ، نسلی تطہیر اور جلاوطنی کو برداشت کرلیا۔  گذشتہ ۵۰، ۶۰برس سے جو دہشت گردی میانمار کی حکومت مسلمانوں کے خلاف کر رہی ہے اُس کے خلاف امریکا ، روس اور چین نے کوئی بامعنی موقف اختیار نہیں کیا۔

میانمار کے اندر ایسے بُدھ بھکشو دندناتے رہے کہ جو اسلام کو اور مسلمانوں کا صفایا کرنے کی تعلیم دینے میں مصروف ہیں۔ چند بُدھ عبادت گاہوں سے باقاعدہ یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اس سرزمین کو مسلم غیرملکیوں سے پاک کردو۔ ان کو زندگی سے محروم کردو۔ پیدایش اور موت کا اندراج، پاسپورٹ ، تعلیم، علاج، سفر، رہایش ایسے معاملات میں مسلمانوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ملازمت اور سرکاری اداروں میں عمل دخل کا سوال ہی نہیں۔ ان کے لیے زندہ رہنے کے لیے یہی راستہ چھوڑا گیا ہے کہ وہ باپ دادا کے نام بدھوں جیسے ظاہر کرکے بُدھ تہذیب اور کلچر کو اختیار کرلیں۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، نکاح چھوڑ دیں۔

پاکستان، بنگلہ دیش، سعودی عرب، انڈونیشیا، ملایشیا، برطانیہ سمیت دیگر ممالک میں  چندہزار یا ایک لاکھ کے لگ بھگ جو اراکانی مسلمان موجود ہیں اُن کا مستقبل بھی محفوظ نہیں ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ وغیرہ نے مسئلے کو شدت سے اُٹھایا اور عالمی برادری کے سامنے اسے سمندروں میں تیرتے تابوت کی صورت میں پیش کیا۔ان تنظیموں کے نمایندوں نے جن الم ناک حالات کی نشان دہی کی وہ بیان سے باہر ہے۔

مادرِ وطن چھوڑ کر سمندروں میں زندگی اور ٹھکانے کی تلاش کرنے والے دربدر رُوہنگیا مسلمانوں کے حق میں ترکی کے علاوہ پاکستان میں بھی مختلف دینی تنظیموں نے مظاہرے کیے۔ حکومت پاکستان نے خصوصی کمیٹی بناکر اسلامی ممالک کی تنظیم سے بھی رابطہ کیا، اقوامِ متحدہ میں اس مسئلے کو اُٹھانے کا جائزہ لیا اور ۵۰لاکھ ڈالر کی امداد بھی مختص کی تاکہ اقوامِ متحدہ کے اداروں کے ذریعے اِن درماندہ لوگوں کی خوراک کا بندوبست کیا جاسکے۔

امیرجماعت اسلامی جناب سراج الحق نے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو خط کے ذریعے اس کا فریضہ یاد دلایا کہ برما کی حکومت پر دبائو ڈال کر ان مسلمانوں کو اپنے وطن بھیجا جائے اور اقوامِ عالم کی توجہ اس طرف بھی مبذول کرائی کہ جنوبی سوڈان، مشرقی تیمور کی طرح اراکانی مسلمان بھی انسان ہیں، ان کے بھی حقوق ہیں اور ان کو کم از کم زندہ رہنے اور اپنی ہی سرزمین پر سانس لینے کی اجازت تو دی جائے۔  اراکان مسلمانوںکو اپنی ہی سرزمین پر رہنے کا حق دیا جائے۔ وگرنہ میانمار پر اقتصادی پابندیاں لگائی جائیں۔ 

ایران میں جمہوریت کا تسلسل صدارتی انتخابات کی صورت میں جاری و ساری ہے۔ حالیہ صدارتی انتخاب میں ۳ کروڑ ۷۰لاکھ افراد نے ووٹ ڈالے اور ۵۱فی صد ووٹ حاصل کرنے کے بعد حسن رُوحانی صدر منتخب ہوگئے۔ خبررساں ایجنسی رائٹر کے نامہ نگار کے مطابق: ’’انتخابات حیران کن حد تک شفاف اور آزادانہ تھے اگرچہ ۱۰لاکھ لوگ ووٹ نہ ڈال سکے‘‘۔

صدارتی نتائج کی اطلاع آنے کے بعد برطانیہ کے دفترخارجہ نے نئے صدر کا خیرمقدم کیا اور اُمید ظاہر کی کہ ’’بین الاقوامی برادری کو ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں جو تحفظات ہیں، وہ اُس پر توجہ دیں گے، نیز ایرانی عوام کی انسانی حقوق اور سیاسی حقوق کے حوالے سے جو تمنائیں ہیں اُنھیں پورا کریں گے‘‘۔ برطانوی حکومت نے جس قدر ایرانی شہریوں کے سیاسی حقوق کی بات کی ہے کاش اِتنی ہی فکر شام، مصر ، افغانستان اور جموں و کشمیر کے عوام کی بھی کرتے۔

واشنگٹن پوسٹ میں جے سن رضاعیان نے اپنے مضمون ’ایران کے صدر کو درپیش ’اہم معرکے‘ میں تحریر کیا ہے کہ ’مُلائوں‘ سے لے کر روشن خیال طبقے تک نے حسن رُوحانی کوووٹ دیے ہیں۔ مختلف طبقات نے اُن سے مختلف اُمیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ صدر حسن رُوحانی کے لیے سب سے بڑا مسئلہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری ہے اور منتخب ہونے سے پہلے وہ  اہم اقتصادی تبدیلیاں لانے کا اعلان کرچکے ہیں۔ اُن کے لیے دوسرا بڑا چیلنج سیاسی قیدیوں کی رہائی، ذرائع ابلاغ پر کنٹرول کی حدود کا تعین اور جدید و قدیم راے دہندگان میں بڑھتی ہوئی خلیج کو پاٹنا ہے۔

امریکا اور مغربی ممالک کی سب سے اہم خواہش یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نئے صدر کی موجودگی میں اپنا جوہری پروگرام لپیٹ کر رکھ دے۔ اُنھیں کامل یقین ہے کہ امریکا، روس کے پاس سیکڑوں جوہری ہتھیار ہیں لیکن وہ ’محفوظ ہاتھوں‘ میں خیال کیے جاتے ہیں۔ ایسی ایرانی حکومت اُن کا خواب ہے کہ جو واشنگٹن و لندن سے موصول ہونے والی ہدایات پر خاموشی سے عمل درآمد کرے۔ عالمی طاقتوں کا چھوٹا سا مطالبہ یہ بھی ہے کہ ایرانی حکومت، علاقائی معاملات میں بھی مداخلت سے پرہیز کرے۔ نئے صدر نے کیا طرزِعمل اختیار کرنا ہے؟ اس کی عملی وضاحت کا سب کو انتظار ہے۔

امام انقلابِ ایران آیت اللہ روح اللہ خمینی کے قریبی ساتھیوں میں ہونے اور متعد بار   جیل جانے کے باوجود، حسن رُوحانی کی یہ پختہ سوچ ہے کہ کروڑوں کی آبادی والے بھرپور ملک کو    ’چند سرکردہ افراد‘ کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔ اُن کی اس سوچ کی جو بھی تشریح کی جائے، راے دہندگان نے اسے تازہ ہوا کی لہر سمجھا ہے۔ طبقۂ علما اس کی جو بھی تعبیر کرے، موجودہ ایرانی قیادت کا نبض پر ہاتھ ہے، انتخابی نتائج سے تو یہی محسوس ہوتا ہے۔

ایران کے سپریم لیڈر رہبر آیت اللہ علی خامنہ ای نے ایک تقریب میں حسن رُوحانی سے حلف لیا (اہلِ مغرب اسے ایران کی سب سے بڑی خامی سمجھتے ہیں کہ منتخب صدر سے اُوپر ’رہبر‘ کی موجودگی جمہوریت، پارلیمان اور صدارتی نظام کی توہین ہیں، اہلِ ایران کو اس اعتراض کی ذرہ برابر بھی پروا نہیں ہے)۔ پارلیمنٹ کی منظوری اور رہبر خامنہ ای سے حلف برداری کے بعد کابینہ کا اجلاس ہوا۔ اپنے پہلے ہی خطاب میں حسن رُوحانی نے کہا کہ ہم سب نے مل کر ایران کو خوش حال بنانا ہے اور لوگوں کے معیارِ زندگی کو بلند کرنا ہے۔ کابینہ میں ۱۵؍افراد کو شامل کیا گیا ہے۔ سابقہ روایات کے برعکس اِن میں اپنے اپنے شعبے کے عملی ماہرین کو زیادہ ترجیح دی گئی ہے۔ اِن کی اکثریت، امریکا و یورپ میں زیرتعلیم رہی ہے۔ تاہم تین افراد کی نامزدگی مسترد کردی گئی۔ اُن کے بارے میں گمان کیا جاتا ہے کہ وہ ’زیادہ اصلاح پسند‘ ہیں۔

عالمی برادری کی طرف سے ایران پر اقتصادی پابندیاں جاری ہیں جس کی وجہ سے مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے، نیز جرائم کی شرح بھی بڑھی ہے۔ نوجوان نسل نے کھلم کھلا ’طبقۂ علما اور روایت پسندوں‘ کو تمام مشکلات کا سبب قرار دیتے ہوئے ہدفِ تنقید بنایا ہے۔   حسن رُوحانی کے بارے میں یہ گمان کیا جاتا ہے کہ وہ معتدل ہیں، تنقیدی ذہن رکھتے ہیں، تاہم اصلاح پسند بھی ہیں۔

اسرائیلی روزنامے ہآرٹز کا تجزیہ ہے کہ سابق صدر احمدی محمود نژاد کے مقابلے میں شیعہ عالم دین حسن رُوحانی کو جدت پسند سمجھا جاتا ہے۔ تاہم وہ کس قدر جدیدیت پسند ہیں اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ہیں۔ صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد حسن رُوحانی نے اپنے غیرمعمولی خطاب میں کہا کہ ’’جو ممالک ایران کے ساتھ مذاکرات چاہتے ہیں تو وہ برابری، اعتماد سازی، باہمی احترامِ اور دشمنی و جارحیت کو ختم کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی کرسکتے ہیں۔ اگر آپ مثبت ردعمل چاہتے ہیں تو ایران کے ساتھ پابندیوں کی زبان میں بات نہ کریں بلکہ احترام کی زبان میں بات کریں‘‘۔

ایرانی صدر کے اس دوٹوک خطاب کے چند گھنٹے بعد ہی وائٹ ہائوس کے ترجمان Jay Carney کا ردعمل سامنے آگیا: ’’صدر رُوحانی کے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ایران کو ایک اور موقع مل گیا ہے کہ وہ فوری اقدام کرے اور ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں عالمی برادری کے جو تحفظات ہیں اُس کے تدارک کی کوشش کرے۔ اگر یہ حکومت سنجیدگی کے ساتھ، ہمہ وقتی طور پر عالمی برادری کی توقعات پر پورا اُترتی ہے اور اس مسئلے کا حل تلاش کرتی ہے تو وہ امریکا کو ہرلمحے اپنا دوست و شریک پائے گی‘‘۔

حسن رُوحانی اور اُن کی کابینہ اس پیش کش کا کیا جواب دیتی ہے۔ اُس کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے، تاہم اس کے امکانات بڑھ گئے ہیں کہ امریکا ایران میں اور جوہری مسئلے سے متعلق ممالک میں مذاکرات میں بہتری آئے اور بیان بازی میں بھی شدت نہ رہے۔ یاد رہے اگر ایران نے جوہری پروگرام ترک کرنا ہوتا تو اقتصادی پابندیوں کو کیوں گلے لگاتا۔

موجودہ وزیرخارجہ محمد جواد ظریف، جوا قوامِ متحدہ میں ایران کے سفیر رہے ہیں، کے بارے میں گمان کیا جاتا ہے کہ امریکا میں زیرتعلیم رہنے، طویل سفارتی تجربے اور اقوامِ متحدہ میں طویل عرصے تک خدمات سرانجام دینے کے سبب وہ اقتصادی پابندیاں ختم کرانے اور جوہری پروگرام کے بارے میںبااعتماد اصولی معاہدہ کرانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔

حسن رُوحانی ۱۲نومبر ۱۹۴۸ء کو پیدا ہوئے۔ عرصۂ دراز سے اُن کی شناخت شیعہ مجتہد، مسلم عالم دین، اُستاد، سفارت کار اور آیت اللہ روح اللہ خمینی کے ابتدائی ساتھیوں کی ہے۔ اُنھوں نے سمنان اور قُم کے حوزۂ علمیہ سے دینی تعلیم حاصل کی اور تہران یونی ورسٹی سے قانون میں گریجویشن کی۔ نیشاپور میں اُنھوں نے ملٹری سروس شروع کی، بعدازاں اُنھوں نے اسکاٹ لینڈ کی کیلیڈونین یونی ورسٹی سے ایم فل اور قانون میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اُن کا ایم فل کا تحقیقی مقالہ: ’اسلامی قانون سازی اختیار اور ایرانی تجربہ‘ کے موضوع پر لکھا گیا۔ وہ Assembly of Experts، سپریم نیشنل سیکورٹی کونسل اور سنٹر فار اسٹرے ٹیجک ریسرچ کے ۱۹۹۲ء میں سربراہ رہے۔ وہ مجلس اسلامی مشاورتی اسمبلی میں دو بار ڈپٹی اسپیکر اور سیکورٹی کونسل کے سیکرٹری رہے۔

حسن رُوحانی کو بین الاقوامی سفارت کار کے طور پر غیرمعمولی شہرت حاصل ہے۔ عرب اختیارات ’سفارت کار شیخ‘ کے طور پر بھی اُن کا تذکرہ کرتے ہیں۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے نمایندوں سے وہ مذاکرات کرتے رہے۔ کہا جاتا ہے کہ آیت اللہ روح اللہ خمینی کے لیے ’امام‘ کا لفظ استعمال کرنے کی تجویز حسن رُوحانی کی تھی۔ کیونکہ شیعہ مذہب میں امام کا منصب اور لقب بہرحال مذہبی تقدیس کا حامل ہے اور امام عوام کے انتخاب پر منحصر نہیں ہوتا۔

برطانیہ، فرانس اور جرمنی سے جوہری پروگرام کے بارے میں جو ایرانی ٹیم مذاکرات کررہی ہے رُوحانی اس کے سربراہ رہے ہیں۔ اُن کو نرم خُو سفارت کار کی حیثیت سے جانا جاتا ہے جو دوسرے کی بات سننے میں قابلِ قدر برداشت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔امریکا اور مغربی دنیا نے عراق کے حصے بخرے کرنے، افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے، پاکستان میں آگ و خون کی بارش برسانے کے بعد ایران سے دو دو ہاتھ کرلینے کا فیصلہ کررکھا ہے۔ کئی برس سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ ایران اپنے پُرامن جوہری پروگرام کا معائنہ کرائے اور فوری طور پر اس کو ترک کردے۔

۱۴ جون ۲۰۱۳ء میں ہونے والے انتخابات میں حسن رُوحانی نے ’شہری حقوق چارٹر‘ اور ’مغرب سے تعلقات بہتر کرنے‘ کا نعرہ لگایا اور انتخابات میں کامیابی کے بعد نئے عزم سے اقتصادی پابندیوں کے باوجود معاشی خودمختاری پروگرام پر عمل درآمد کے لیے تیار ہیں۔

 

جنوبی فلپائن کے مورو مسلمان برس ہا برس کی قربانیوں کے بعد وسیع تر خودمختاری کی منزل کے حصول میں سرخرو ہوچکے ہیں۔ حکومت ِ فلپائن اور مورو اسلامک لبریشن فرنٹ کے درمیان گذشتہ ۱۶برس سے جاری مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوئے۔ وسط اکتوبر میں طے پانے والے معاہدے سے جزائر منڈانائو، سولو کے مسلمان نہ صرف خودمختاری حاصل کرلیں گے بلکہ ۲۰۱۵ء میں ایک آزاد مسلم ریاست بھی وجود میں آجائے گی جس پر رومن کیتھولک فلپائن کی حکومت کو کسی طرح کا اختیار حاصل نہ ہوگا۔ بنگسامورو مسلمانوں کی زندگی میں یہ معاہدہ ایک اہم تاریخی دستاویز اور سنگ ِ میل کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

اس معاہدے کو ’فریم ورک معاہدہ براے حتمی قیامِ امن‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس وسیع تر خودمختاری کے حصول کے بعد مسلح جنگ جو منیلا حکومت کے خلاف چھاپہ مار کارروائیاں بند کردیں گے۔ اندازہ یہ ہے کہ آزادی کی منزل اور مسلم ریاست کے قیام کی جدوجہد میں ڈیڑھ لاکھ مورو مسلمان جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں۔ بنگسامورو وطن کا تنازعہ ایشیا کے قدیم اور پیچیدہ تنازعات میں شمار کیا جاتا رہا ہے۔ نئے عالمی نظام کے علَم برداروں نے صرف اپنے موضوعات اس قدر اُچھالے ہیں کہ مسلمانوں کے مسائل پس منظر ہی میں رہتے ہیں۔ تاہم اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، حکومت امریکا و روس اور اسلامی ممالک نے اس معاہدے کا اس لیے خیرمقدم کیا ہے کہ اس سے نہ صرف ایشیا میں امن قائم ہوگا بلکہ فلپائن کی حکومت بھی اپنے عوام کے لیے دائمی امن و سکون کے قیام کو یقینی بناسکتی ہے۔ مورو اسلامک لبریشن فرنٹ کے ۱۲ہزار مسلح مجاہدین سروں پر کفن باندھ کر میدانِ عمل میں ڈٹے رہے اور گذشتہ ۵۰برس میں منڈانائو، سولو، سلاوان کے مسلمانوں نے جس قسم کے اقتصادی، معاشرتی، سیاسی اور مذہبی بائیکاٹ کا سامنا کیا ہے اور نسل در نسل جس قدر قربانیاں دی ہیں وہ ایک الگ تاریخ ہے جس کو مرتب کیا جانا چاہیے۔

۱۵؍اکتوبر ۲۰۱۲ء کو اس معاہدے پر دستخط ہوچکے ہیں۔ مورو اسلامک لبریشن فرنٹ (جو عرصۂ دراز سے آزاد اسلامی حکومت کے قیام کے لیے سیاسی و مسلح جدوجہد کر رہی ہے) کے مصالحت کار مھاگر اقبال اور حکومت فلپائن کے مصالحت کار ماروک لیونن نے منیلا کے صدارتی محل میں اس تاریخی دستاویز پر دستخط کیے۔ فلپائن کے صدر بینگِینو اکینوسوم، ملایشیا کے وزیراعظم نجیب رزّاق اور مورو اسلامک لبریشن فرنٹ کے پُرعزم مجاہد قائد حاجی مراد دستخطوں کی تقریب میں موجود تھے۔ فرنٹ کے سربراہ اور حکومت ِ فلپائن نے ملایشیا کی حکومت کا خصوصی شکریہ ادا کیا ہے جنھوں نے اس دیرپا مسئلے کے حل کے لیے مصالحت کار نامزد کیے اور ۱۶برس کی محنت آخرکار رنگ لے آئی۔

یہ وسیع تر حقوق اور وسیع تر خودمختاری کا معاہدہ ہے۔ او آئی سی کو میانمار (برما) میں روہنگیا مسلمانوں کی حالت کا معائنہ کرنے کے لیے دفتر کھولنے کی اجازت نہ مل سکی، تاہم اُس کے سیکرٹری جنرل نے بھی جنوبی فلپائن میں بنگسامورو کی ریاست کے قیام کا خیرمقدم کیا۔اس معاہدے کو   رُوبہ عمل لانے کے لیے حکومت،فوج، پولیس، بنک، بلدیہ، ایکسچینج اور دیگر اہم اداروں کی تشکیل کے لیے درجنوں کمیشن تشکیل دے دیے گئے ہیں جس میں دونوں جانب سے نامزد نمایندے شامل کردیے گئے ہیں۔ جس وقت دستخط کی تقریب منعقد ہورہی تھی اُسی وقت ہزاروں مورو مسلمان اپنے قصبوں، شہروں اور دیہاتوں میں نعرئہ تکبیر بلند کر رہے تھے۔ خواتین نے بڑے بڑے جلوسوں کی صورت میں اپنی مسرت اور استعمار سے نجات کے آغاز کا خیرمقدم کیا اور میڈیا میں اسے شہ سرخیوں کے ساتھ جگہ دی گئی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کئی ایسے نکات ہیں  جن پر فریقین میں اختلاف ہوسکتا ہے، تاہم مجموعی طور پر قابض فلپائن اور زیرتسلط مورو مسلمان کی حتمی آزادی کے لیے ٹھوس اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔

وسیع تر خودمختاری کی حامل ریاست کا نام بنگسامورو [مورو مسلمانوں کا گھر] ہوگا۔ ۱۳صفحات پر مشتمل دستاویز میں واضح طور پر تحریر کیا گیا ہے کہ مسلح مورو مجاہدین بتدریج مسلم پولیس فورس میں مدغم ہو جائیں گے۔ ۱۵؍ افراد پر مشتمل عبوری کمیشن تشکیل دیا جائے گا جو دستور تشکیل دے گا۔

مورو اسلامک لبریشن فرنٹ کے سربراہ حاجی مُراد نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ زیرتسلط مورو مسلمانوں کی اَن گنت قربانیاں رنگ لائی ہیں۔ مورو مسلمان اپنے وطن، اپنی شناخت،اپنے دستور اور اپنی روایات کے مطابق زندگی بسر کرسکیں گے۔ تمام مسلح، نیم مسلح دستے، تعمیرِنوکی جدوجہد میں شریک ہوجائیں گے۔ اس نئی خودمختار ریاست میں پانچ صوبے شامل ہیں۔ باسلان، کوٹاباٹو، دواؤڈیل سور، سلطان قدرت، تاوی، سولو، واوی، دِیولوگ اور دیتیان کے علاقے ان پانچ صوبوں میں شامل ہیں۔ ۱۹۹۶ء میں حکومت ِ فلپائن نے مورو لبریشن فرنٹ سے معاہدے کے بعد اس علاقے کو خودمختار قرار دینے کا اعلان کیا تھا، بوجوہ اس پر عمل درآمد نہ ہوسکا ۔ ۲۰۰۸ء میں ہونے والا ایک اور معاہدہ بھی مسلمانانِ بنگسامورو کے لیے نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکا تھا۔

مورو لبریشن فرنٹ کا ، جو گذشتہ برسوں میں حکومت سے معاہدے کرتا رہا ہے، کہنا ہے کہ حکومت ِ فلپائن پر شدید دبائو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے ورنہ فلپائن کی حکومت کسی وقت بھی پینترا بدل سکتی ہے۔ ابھی خودمختار ریاست کا اعلان ہوا ہے اور مغربی طاقتوں نے وہاں القاعدہ ایجنٹوں کی موجودگی کا تذکرہ شروع کردیا ہے۔ یاد رہے دونوں بڑی تنظیموں میں داخلی اختلافات کے باوجود خلافت ِ راشدہ کی طرز پر ریاست کے قیام پر کوئی اختلاف نہیں۔

مسلمان یہاں سیکڑوں برس سے آباد ہیں اور ۱۵۷۰ء میں اس علاقے پر پُرتگیزیوں نے قبضہ کیا تھا۔ یہ علاقے قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں اور ہمسایہ ملک ملایشیا کی طرح یہاں کے مسلمان بھی اسلامی روایات پر نسل در نسل عمل پیرا چلے آرہے ہیں۔ اُمید کی جاتی ہے کہ یہاں جلد ہی ایسی حکومت قائم ہوجائے گی جودین اسلام کے حقیقی نفاذ کا عزم رکھتی ہے۔ مورو اسلامک فرنٹ کے اوّلین چیئرمین اُستاذ سلامات ہاشم کے عالمی اسلامی تحریکات سے گہرے مراسم تھے۔ سابق امیرجماعت اسلامی میاں طفیل محمد مرحوم کی دعوت پر وہ کئی بار پاکستان تشریف لائے تھے۔ 

سونے، چاندی، تانبے، زرخیز زرعی زمین، چاول، کپاس، گنا، گوشت اور سیکڑوں میل پھیلی ہوئی سمندری پٹی کے ساتھ بے حدوحساب مچھلی و سمندری خوراک کی دستیابی اس سے ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے اور آزادی کے ساتھ تعمیروترقی کی راہ طے کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔

عراق میں امریکی جارحیت کے پانچ سال مکمل ہونے پر دنیا بھر میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ امریکی حکومت کو خود امریکی عوام اور دانش وروں اور کانگرس کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔ عملاً امریکا کو اس جنگ کی بھاری قیمت چکانا پڑ رہی ہے اور روز بروز امریکی فوجوں کے انخلا کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ جب صدام حسین کی حکومت کا تختہ ۲۰۰۳ء میں اُلٹا گیا تو امریکا کے سامنے بظاہر دو اہداف تھے: اجتماعی تباہ کاری کے ہتھیاروں کی بازیابی اور مشرق وسطیٰ میں بتدریج جمہوریت کا قیام۔ یہ اہداف تو حاصل نہ ہوسکے اور امریکا اب ایران میں ’موت کا رقص‘ شروع کرنے کے لیے تمام ممکنہ تیاریاں کر رہا ہے۔ صدام حسین کے بعد عبوری حکمران کونسل اور اُس کے بعد دستوری حکومت، امریکی انتظامیہ کے اشارے پر ناچنے والی کٹھ پتلیاں تھیں جن کا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں دوورقہ پڑھ کر سنا دینے کے سوا کوئی کردار نہیں۔ نوری کامل المالکی یہ کام بخیروخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔ ہر روز مختلف لسانی اور مذہبی گروہوں میں تصادم ہوتا ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکالا جاتا ہے کہ ’’افواج کا قیام بے انتہا ضروری ہے‘‘۔ شیعہ، سُنّی اور کُرد سیکڑوں برس سے عراق میں رہ رہے ہیں۔ مگر یہ امریکی پالیسی سازوں کا کمال ہے کہ وہ تینوں گروہوں کو وافر مقدار میں اسلحہ بھی فراہم کرتے ہیں، ایک دوسرے کے قتل پر آمادہ بھی کرتے ہیں، اور بعدازاں تینوں گروپوں کے گرفتار شدہ مجاہدین، اور ہلاک شدہ ’جہادیوں‘ کی تصاویر بھی عالمی نشریاتی اداروں کے حوالے کر دیتے ہیں۔

کُردوں کی قوم پرست تحریک نے بھی اِس عرصے میں شدت اختیار کرلی ہے۔ شام، ایران اور عراق میں پھیلے ہوئے کُرد آزاد ریاست کی منزل تک نہ پہنچ سکیں گے اگرچہ ’نیوکونز‘ کے پالیسی سازوں کے سامنے ایک یہ حل بھی موجود ہے کہ عراق کو سُنّی، شیعہ اور کُرد عراق ریاستوں میں تبدیل کردیا جائے جو خودمختار ہوں لیکن امریکا کی باج گزار ہوں اور امریکی اشارے پر کسی بھی ہمسایہ عرب ریاست کے خلاف فوجی کارروائی کرسکیں یا امریکی کارروائی کے لیے’ محفوظ پناہ گاہ‘ فراہم کرسکیں۔ تین شمالی صوبوں میں کُردوں کی علاقائی حکومت ہے۔ اُن کی مسلّح افواج، قومی نشان اور جھنڈا ہے، لیکن داخلی بدامنی اور قومی انتشار نے اُن کو ایسے مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ جنگ اور فوجی کارروائی کا منظر ہی اُنھیں نجات کا منظر نظر آتا ہے۔ ایک ہزار سے زائد قبائل اور گروہ عراق میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اُن کے باہمی لسانی، قبائلی اور تہذیبی اختلافات بھی ہیں، تاہم اس پر اُن کا اتفاق ہے کہ غیرملکی حملہ آوروں کا نہ سازوسامان واپس جائے اور نہ وہ خود زندہ واپس لوٹیں۔ امریکا کی جانب سے مسلط جنگ اور باہمی خوں ریزی سے عراق میں ۱۰ لاکھ افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ تباہی و بربادی کے جو مناظر تشکیل پائے ہیں، عالمِ انسانیت اس پر ہمیشہ نوحہ کناں رہے گی۔

امریکی انتظامیہ ۵۰۰ ارب ڈالر خرچ کرنے کے بعد اور تو کچھ حاصل نہ کرسکی، تاہم سرکاری اعلان کے مطابق ۴ ہزار امریکی فوجیوں کی لاشیں امریکا پہنچ چکی ہیں، ۲۳ ہزار اپاہج اور زخمی فوجی، مختلف امریکی ریاستوں میں زیرعلاج ہیں (www.antiwar.com)۔ امریکا عراق میں جنگ جاری رکھنے کے لیے ۷۲ کروڑ (۷۲۰ ملین) ڈالر روزانہ خرچ کر رہا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکا مجبورہے کہ ہر ایک منٹ میں ۵ لاکھ ڈالر جنگی اخراجات کی صورت میں خرچ کرے۔ معروف تحقیقی مجلے فارن پالیسی نے ناکام ریاستوں کا گوشوارہ ۲۰۰۷ء میں عراق کو دنیا کی ناکام ترین ریاستوں میں دوسرا نمبر دیا ہے۔ تیل کی دولت سے مالا مال ریاست کو اس مقام تک پہنچانے کا سہرا واشنگٹن کے سر بندھتا ہے۔

امریکا کے سرکاری ترجمان اور پالیسی ساز ادارے جو اعلان بھی کریں، عراق سے امریکی افواج کو بالآخر نکلنا پڑے گا۔ پانچ برس قبل عراق پر مکمل امریکی تسلط تھا، اب اقتدار براے نام سہی عراقی انتظامیہ کے پاس ہے۔ امریکی بحری، بّری اور فضائی افواج کی نوعیت بھی ماضی والی نہیں رہی۔ امکان ہے کہ امریکی انتظامیہ اپنے فوجی دستے بتدریج عراق سے نکال لے، لیکن اس کی  فوجی چھائونیاں اور دستے یہاں موجود رہیںگے، چاہے وہ دنیا کے دکھاوے کے لیے عراقی حکومت سے معاہدے کے بعد یہاں رہیں۔ ایسے معاہدے امریکی حکومت ’جنوبی کوریا‘ کی حکومت سے بھی کرچکی ہے اور بہ سہولت وہاں براجمان ہے۔

امریکا کو عراق میں قیام کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ہے اور مزید ادا کرنا پڑرہی ہے۔ عراق پرقبضے کے خلاف دنیا بھر میں مظاہرے ہوئے، خود امریکی عوام نے اس سے نفرت کا اظہار کیا۔ عراقیوں کی صدام حسین سے ناراضی ڈھکی چھپی بات نہ تھی، تاہم امریکی فوجیوں سے نفرت اُس سے کئی ہزار گنا زیادہ ہے۔ عراق کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہے کہ جہاں امریکا کے خلاف مظاہرے نہ ہوئے ہوں، یا امریکی فوجیوں کو نقصان نہ پہنچایا گیا ہو۔ امریکی فوجیوں کی سب سے بڑی تعداد دارالحکومت بغداد میں ہے اور یہیں سب سے زیادہ پُرتشدد واقعات رونما ہوئے ہیں۔ بم مارنے  اور فوجی گاڑیاں اڑا دینے کے واقعات عام ہیں۔ عراق میں بم مارنے اور باہمی کُشت و خون کے  کُل واقعات کا ایک چوتھائی بغداد میں رونما ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے کہا تھا: عراق میں جنگ غیرقانونی ہے، کیونکہ یہ اقوام متحدہ کے چارٹر پر پورا نہیں اُترتی۔

واشنگٹن کے پالیسی ساز کانگرس کے دبائو اور عوامی ردعمل کے جواب میں کہتے ہیں کہ اگر فوری طور پر افواج، عراق سے واپس بلا لی گئیں تو اس کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ امریکی افواج عراق میں ناکام ہوگئیں،نیز یہ کہ امریکی افواج کے عراق چھوڑ دینے سے دنیا بھر کے ’دہشت گرد‘ عراق میں اکٹھے ہوجائیں گے۔ امنِ عالم، جمہوریت، روشن خیالی اور مہذب دنیا کو ناکام کرنے کے لیے نائن الیون، سیون سیون اور سیون الیون جیسے واقعات بار بار رونما ہوں گے۔ اس لیے  کُلی طور پر نہیں، جزوی طور پر امریکی افواج اور بحری و فضائی بیڑے کی موجودگی ضروری ہے اور مشرق وسطیٰ میں ’جمہوریت کی ترویج‘ کی منزل بھی تو حاصل نہیں ہوسکی ہے۔

اگلے صدارتی انتخابات جیتنے والا امریکی صدر مجبور ہوگا کہ سال ۲۰۰۸ء میں امریکی افواج کی تعداد میں واضح طور پر کمی کا اعلان کردے۔ سول سوسائٹی کے اراکین اور کانگرس مشترکہ طور پر مطالبہ کرچکے ہیں کہ فوج واپس بلائی جائے۔

امریکا نے بغداد میں جو حکومت قائم کی ہے، وہ بھی مجبور ہوجاتی ہے کہ امریکا کے غیرقانونی، غیراخلاقی تسلط کے خلاف لب کشائی کرے۔ جولائی ۲۰۰۶ء میں عراقی پارلیمنٹ کے اسپیکر نے عراق پر امریکی حملے اور اس کے نتائج کو ’ذبح کرنے والوں کی کارروائی ‘ قرار دیا۔ عالمی پیمانے پر بھی امریکا کو تنہائی کا سامنا ہے۔ کئی ممالک نے واشنگٹن کے اتباع میں، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے فوجی عراق بھیجے تھے، مگر اب اُن میں سے اکثر نے اپنی فوجیں عراق سے نکالی ہیں۔ برطانیہ بھی اپنی فوجیں عراق سے نکال رہا ہے جو کہ امریکا کا جاںنثار ’شریکِ کار‘ رہا ہے۔ اُس کے بعد امریکا کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ عراق میں اپنی افواج کو ’کثیر المُلکی فوج‘ قرار دے۔

چین کی سوشل سائنس اکیڈمی میں انسٹی ٹیوٹ براے مطالعہ مغربی ایشیا و افریقہ قائم ہے۔ اس کے مطالعہ مشرقِ وسطیٰ کے ڈائرکٹر وانگ جنگ لی کا کہنا ہے:

گذشتہ پانچ برسوں میں سیاسی تعمیرنو کے دوران، عراق کو انتہائی ناہموار حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ وفاقی نظام اور سیاسی انتشار نے عراق کی شناخت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ عراق کو ایسی سیاسی قوت کی ضرورت ہے کہ جو لسانی، مذہبی اور قبائلی تعصب سے بالاتر ہوکر تعمیرنو کا مقامی عمل شروع کرے۔ یہ قوت عراق ہی سے اُبھرنی چاہیے، باہر سے آنے والی قوت یہ کام نہ کرسکے گی، نہ امن وامان اور سرحدوں کی حفاظت کا کام ہی، بیرونی ایجنٹ سرانجام دے سکیں گے۔

روسی افواج ۱۹۷۹ء میں افغانستان میں داخل ہوئیں اور ۱۹۹۲ء تک واپس جا چکی تھیں لیکن اس عرصے میں روس کے اندر ٹوٹ پھوٹ کا جو سلسلہ شروع ہوا، وہ سوویت یونین کے زوال پذیر ہونے کی صورت میں سامنے آیا۔ امریکا کو ویت نام، کوریا اور اب عراق کے تجربے سے یہ سیکھ لینا چاہیے کہ ’عالمی داداگیری‘کے دورانیے کو طول دیتے ہوئے اُس کو داخلی محاذ پر شکست در شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔ امریکی اراکینِ کانگرس، اراکینِ سینیٹ، تھنک ٹینکس، سول سوسائٹی کے ارکان اور انسانی حقوق کی آواز بلند کرنے والے امریکی عوام یقینا اپنی حکومت پر دبائو ڈالیں گے کہ عراق سے اپنی افواج واپس بلالیں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو اُن کی معیشت کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا، اور امریکا سے بڑھتی ہوئی نفرت انتقامی جذبے کو ہوا دینے کا باعث بنے گی جس سے عالمی امن تباہ ہوسکتا ہے اور اس کی ذمہ داری امریکا کے سر ہوگی۔ کاش! امریکی حکمران عقل کے ناخن لیں۔

ملایشیا میں آزادی کے بعد انتخابات کا سلسلہ باقاعدگی سے جاری و ساری ہے۔ بارھویں قومی انتخابات کا انعقاد ۸مارچ ۲۰۰۸ء کو مکمل ہوا۔ اِن انتخابات کے حوالے سے اہم ترین بات یہ ہے کہ حزبِ اختلاف کی تین جماعتوں کے اتحاد نے وفاقی ایوان کی ۲۲۲ میں سے ۸۱ نشستیں حاصل کرلی ہیں، جب کہ ۱۹۵۷ء سے برسرِاقتدار ’متحدہ مَلے قومی محاذ‘ ’امنو‘ (UMNO) دو تہائی نشستیں حاصل نہ کرسکا۔ گذشتہ ۵۰ برسوں میں اسے ’قومی محاذ‘ کے لیے بدترین نتائج تصور کیا جا رہا ہے۔ موجودہ وزیراعظم عبداللہ بداوی نے تسلیم کیا ہے کہ سرکاری اہل کاروں کی بدعنوانی، نسلی اقلیتوں کے عدمِ اطمینا ن اور کئی اہم معاملات پر غیرواضح موقف کی وجہ سے برسرِاقتدار جماعت کو دو ٹوک اکثریت حاصل نہ ہوسکی۔ ان کی نشستوں کی تعداد ۱۳۷ ہے۔

ملایشیا کثیرنسلی معاشرہ ہے۔ یہاں مَلے نسل سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی تعداد    ۶۰ فی صد، چینی النسل باشندوں کی تعداد ۲۵ فی صد اور ہندی النسل شہریوں کی تعداد ۱۰ فی صد ہے، جب کہ بقیہ تعداد دیگر قوموں سے تعلق رکھتی ہے۔ ملایشیا میں جس قسم کی قومی یگانگت، معاشی استحکام اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے اِس کی مثال کسی اور ملک میں ملنا مشکل ہے۔

’امنو‘ کے اقتدار کو دھچکا تین جماعتی اتحاد نے لگایا۔ ’پاس‘ (PAS) ملایشیا کی معروف اسلامی تحریک ہے۔ یہ ۱۹۵۶ء میں وجود میں آئی۔ اس کے سربراہ عبدالہادی آوانگ ہیں، جو سابقہ پارلیمان میں منتخب رُکن رہے۔ ’پاس‘ صوبہ کلنتان میں پانچویں بار حکومت بنائے گی، اس کے سربراہ عالم دین نِک عبدالعزیز ہیں۔ ’پاس‘ جمہوری عمل پارٹی اور عوامی انصاف پارٹی نے مل کر اتحاد   قائم کیا۔ ملایشیا کی ۱۳ ریاستوں میں سے پانچ ریاستوں میں اب حزبِ اختلاف کی حکومت قائم ہوگی۔ اسلامی پارٹی کی ۲۰۰۴ء کے انتخابات میں سات سیٹیں تھیں، اب یہ ۲۴ ہوچکی ہیں۔    عوامی انصاف پارٹی کی گذشتہ انتخابات میں صرف ایک سیٹ تھی، اب ۳۱ ہوچکی ہیں، جب کہ جمہوری عمل پارٹی نے اس بار ۲۶ نشستیں حاصل کی ہیں۔ اِن تینوں جماعتوں کو اکٹھا کرنے اور اکٹھا رکھنے میں ڈاکٹر انور ابراہیم کا اہم کردار ہے جو ملایشیا کے وزیراعظم مہاتیرمحمد اور بعدازاں عبداللہ بداوی کے جبروناانصافی کا شکار رہے اور طویل عرصہ جیل میں گزار چکے ہیں۔

اسلامی پارٹی ملایشیا ’پاس‘ کے امیدواروں نے انتخابی مہم کے دوران وزیراعظم عبداللہ بداوی کے اُن وعدوں کا بار بار تذکرہ کیا جو ۲۰۰۴ء کے انتخابات میں غیرمعمولی کامیابی کے بعد اُنھوں نے قوم سے کیے تھے۔ ان کا وعدہ تھا کہ قانون ساز ادارے اور سرکاری اداروں میں اہم تبدیلیاں لائی جائیں گی، تمام نسلی گروہوں سے انصاف کیا جائے گا، نجی شعبے کو آزادی کے ساتھ کام کرنے دیا جائے گا، عرصۂ دراز سے مالی بدعنوانی کے جو مقدمات تاحال فیصلہ طلب ہیں، اُن کا فیصلہ کیا جائے گا، اقتدار اور حکومت کا ناجائز استعمال نہ ہوگا، سرکاری معاملات اور تجارتی امور شفاف ہوں گے اور احتساب کیا جائے گا۔ بداوی کے اعلانات، اعلانات ہی رہے اور بدعنوانی کا گراف بڑھتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ وزیراعظم کے اپنے قریبی عزیزوں اور وزرا کے بدعنوانی کے اسیکنڈل زبان زدعام ہوئے، مہنگائی سابقہ ریکارڈ توڑ گئی اور غیرملکی کمپنیوں نے سرمایہ نکالنا شروع کردیا لیکن کسی کو قرارواقعی سزا نہیں ملی۔

’پاس‘ نے یہ واضح کیا کہ لاتعداد ملیشیائی باشندے خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، جب کہ اشیاے صرف کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ اور اس کے ساتھ ساتھ جرائم کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بداوی کی حکومت نے ایک ملیشیائی خلاباز کو روسی اسپیس کرافٹ میں کروڑوں ڈالر کے خرچ پر بطور سیاح بھیجا اور اس کا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ ایک ایسا ریکارڈ توڑ دیا جائے جوکہ پہلے ہی ملیشیا کے پاس تھا۔ اس کے مقابلے میں کلنتان اور ترنگانو کی غریب ریاستوں کو بہت سے وسائل اور حکومتی گرانٹ صرف اس لیے نہیں دی گئی کہ ان صوبوں کے عوام اسلامی پارٹی ملایشیا کے امیدواروں کو کامیاب کراتے ہیں (کلنتان میں حالیہ انتخابات میں ریاست کی ۵۷ میں سے ۴۰ نشستیں ’پاس‘ نے حاصل کیں)۔ بداوی بھی ’روشن خیال اسلام‘ کے علَم بردار ہیں۔

پاس نے راے دہندگان پر واضح کردیا کہ بداوی کی حکومت اہم ثقافتی، سیاسی، اداراتی اور ساختیاتی (structural) مسائل حل کرنے میں ناکام رہی۔ چند مندروں کو مسمار کرنے، گرجاگھروں کی تعمیر کی اجازت نہ دینے اور کئی مقامات سے ’انجیل‘ اٹھائے جانے سے اُن شہریوں کے حقوق مجروح ہوئے ہیں جو اسی سرزمین کے بیٹے ہیں اور اُن کا جینا مرنا اِسی سرزمین سے وابستہ ہے۔ کئی ایسے افسوس ناک واقعات ہوئے کہ جہاں وزیراعظم بداوی اور اُن کی کابینہ کے لوگوں کو آگے بڑھ کر غلط اقدام کی مذمت کرنا چاہیے تھی مگر اُنھوں نے خاموشی اختیار کیے رکھی، اور وزیراعظم یہ سمجھتے رہے کہ ’’میں تمام ملیشیائی باشندوں کا وزیراعظم ہوں‘‘ کا اعلان کافی ہوگا۔ حالیہ انتخابات میں اُنھوں نے مَلے راے دہندگان پر مکمل توجہ دی لیکن نتائج حسب توقع برآمد نہ ہوئے۔

متحدہ حزبِ اختلاف نے وزیراعظم بداوی کی اُس تصویر کو انتخابی مہم میں بھرپور طریقے سے استعمال کیا، جو ’امنو‘ کے اجلاس سے لی گئی تھی جس میں وزیراعظم گہری نیند سو رہے تھے، اور تصویر دیکھنے والے کو یہ احساس ہوتا کہ جیسے وزیراعظم خراٹے لے رہے ہوں۔ سہ جماعتی اتحاد نے اس بات کو اُجاگر کیا کہ نہ صرف ملک کا وزیراعظم سو رہا ہے، بلکہ ساری انتظامیہ کی یہی صورت حال ہے اور اگر ملک کی کشتی کو سوئے ہوئے ڈرائیور سے بچانا ہے تو اس کے لیے متبادل قیادت کو موقع فراہم کرنا ہوگا۔ اِس کے خاطرخواہ نتائج برآمد ہوئے۔

’پاس‘ اور سہ جماعتی اتحاد کی اس بھرپور مہم کی وجہ سے ’امنو‘ کے ۳۰ فی صد چینی النسل ووٹر، ۳۰ فی صد ملے ووٹر اور ۵ فی صد ہندو ووٹروں نے اپنی رضامندی سے حزبِ اختلاف کو ووٹ دیا۔ اُن کی راے بنی کہ ’امنو‘ آیندہ دور میں اُن کے حقوق کی کماحقہٗ پاسبانی نہیں کرسکتی۔ ۰۷-۲۰۰۶ء کے برسوں میں وکلا نے مظاہرے کیے کہ عدالتی نظام میں اصلاح کی جائے، عوام الناس نے مظاہرے کیے کہ انتخابات کو شفاف بنایا جائے، اور مذہبی اقلیتوں نے مطالبے کیے کہ اُن کے مذہبی حقوق کی حفاظت یقینی بنائی جائے۔ اِن کا جواب بداوی انتظامیہ نے سول سوسائٹی کے مظاہرین پر      لاٹھی چارج، عوامی سیمی ناروں کے لیے سرکاری اجازت نہ دینے، کتابوں پر پابندی عائد کرنے اور ذرائع ابلاغ کی آزادی کو محدود کرنے کی صورت میں دیا، اور انورابراہیم کے ساتھ جو سلوک روا رکھا وہ تو سب پر عیاں ہے۔

انتخابی نتائج اس قدر غیرمتوقع تھے کہ وزیراعظم عبداللہ احمد بداوی نے اگلے ہی روز دستوری شہنشاہ میزان زین العابدین اور درجنوں حکومتی عہدے داران کی موجودگی میں وزیراعظم کا حلف اُٹھا لیا، اُن کو یقین ہوگیا تھا کہ اس میں تاخیر کی گئی تو اُن کے استعفے کا مطالبہ قوت پکڑ سکتا ہے۔ موجودہ انتخابات کے نتیجے میں جمہوری عمل پارٹی، انصاف پارٹی اور پاس کلنتان، قدح، پینانگ، پراک اور سیلانگور میں حکومتیں بنائیں گی۔ حزبِ اختلاف نے ۳۷ فی صد سیٹیں اور ۴۷ فی صد عوامی ووٹ حاصل کیے ہیں۔

ان انتخابات میں ڈاکٹر انور ابراہیم کا کردار بھی اہم تھا۔ ان کی کوششوں سے چینی النسل باشندوں کی جمہوری عمل پارٹی اور اسلامی نظام کے نفاذ کی علَم بردار ’پاس‘ ایک دوسرے کے قریب آئیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ۳۷ سال پرانی ’نئی معاشی پالیسی‘ کو ختم کیا جائے جس کے ذریعے   ۶۰فی صد ملے باشندوں کو ملازمت، کاروبار، تعلیم، ٹھیکوں اور دیگر معاملات میں فوقیت دی گئی ہے۔ اس نکتے نے چینی النسل باشندوں کی اکثریت کو حزبِ اختلاف کے لیے ووٹ ڈالنے پر آمادہ کیا۔ انھوں نے عوام پر یہ بھی واضح کیا کہ جب میں وزیرخزانہ اور نائب وزیراعظم تھا تو میں نے اشیا کی قیمتیں کسی قیمت پر بڑھنے نہیں دی تھیں، جب کہ مہاتیر اور اب بداوی نے عالمی دبائوکو تسلیم کرکے عوام کے لیے بے شمار مسائل کھڑے کردیے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ مہاتیر نے مجھے جیل میں ڈالے رکھا لیکن میں نے اپنے وطن کے لیے کسی قسم کے دبائو کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ آج آپ لوگ  مل کر نئے ملایشیا کی تعمیر کے لیے اس اتحاد کو تقویت پہنچائیں۔

اسلامی پارٹی کے سربراہ عبدالہادی آوانگ نے ملایشیا کے عوام کا شکریہ ادا کیا ہے کہ اُنھوں نے سہ جماعتی اتحاد کو کامیابی سے ہم کنار کیا۔ اُنھوں نے کہا کہ ہم اسلامی نظامِ قانون کی بالادستی اور عوام الناس کی خوش حالی میں یقین رکھتے ہیں، اور ہم مثالی طرزِ حکومت متعارف کرائیں گے۔ ہمارے دروازے عوام کے لیے کھلے ہیں اور ان شاء اللہ اگلے قومی انتخابات میں بھرپور کامیابی حاصل کریں گے ___آنے والا وقت ہی یہ فیصلہ کرے گا کہ سہ جماعتی اتحاد اس کامیابی کے نتیجے میں نئے ملایشیا کی تعمیر کے نعرے کو کس حد تک حقیقت کا رنگ دے پاتا ہے۔

’کم بچے خوش حال گھرانہ‘ کا نعرہ پاکستان میں بھی عرصے سے لگایا جا رہا ہے۔ جو لوگ زیادہ افرادِخانہ کے حق میں بات کرتے ہیں اُن کے بارے میں گمان کیا جاتا ہے کہ وہ عاقبت نااندیش اور قدامت پرست ہیں‘ موجودہ عمرانی و سیاسی عوامل سے ناواقف ہیں۔ کم بچوں کے حق میں سب سے بڑی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ وسائل سُکڑ رہے ہیں‘ آمدن ناکافی ثابت ہورہی ہے۔ اس لیے جو وسائل آپ کو ۹‘ ۱۰ بچوں پر خرچ کرنا ہیں وہ ۲‘۳ بچوں پر صرف کریں۔ آپ کے بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت بھی ہوجائے گی اور خوراک‘ علاج‘ تعلیم‘ لباس اور دیگر ضروریاتِ زندگی بھی بآسانی دستیاب ہوسکیں گی۔

کچھ عرصہ قبل ترجمان القرآن میں ایک مغربی تجزیہ نگار کے مضمون: ’وسائل کم نہیں پڑتے‘ (مارچ ۱۹۹۸ء) میں یہ ثابت کیا گیا تھا کہ جس قدر آبادی بڑھ رہی ہے اُسی رفتار سے  قدرتی وسائل‘ زرعی پیداوار اور انسانی صلاحیت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ جو زمین ایک     مَن اناج کی پیداوار دیتی تھی‘ اب اُس کی صلاحیت میں ۴۰ گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔ بلاشک و شبہہ اس منزل تک پہنچنے میں جدید سائنس اور ٹکنالوجی کا بھی بھرپور دخل ہے۔

آیئے دیکھتے ہیں کہ مغرب کو تحدید خاندان اور آبادی کم کرنے کے اس تجربے سے کیا ملا!

مغربی یورپ‘ جاپان اور شمالی امریکا میں ایسے درجنوں قلم کار‘ تجزیہ نگار اور دانش ور منظرعام پر آچکے ہیں جو تحدید خاندان کو اپنی تہذیب کے لیے زہرقاتل سمجھتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ اگر   نئی نسل اپنی تعداد میں اضافہ نہ کرے تو فنا ہوکر رہ جائے گی۔

حال ہی میں‘ اسی موضوع پر پیٹرک جے بچانن کی کتاب The Death of the West (مغرب کی خودکُشی) منظرعام پر آئی ہے۔ بچانن ۱۹۹۲ء اور ۱۹۹۶ء میں ری پبلکن پارٹی کی طرف سے صدارتی اُمیدوار رہے اور سال ۲۰۰۰ء میں ریفارم پارٹی کے صدارتی اُمیدوار رہے۔ وہ    تین امریکی صدور کے ساتھ مشیر کی حیثیت سے بھی کام کرتے رہے ہیں۔ اُن کی پانچ کتابیں  شائع ہوچکی ہیں‘ جب کہ وہ این بی سی‘ سی این این کے لیے کئی پروگرام بھی کرتے رہے ہیں۔

بچانن نے اعداد وشمار کے ذریعے یہ ثابت کیا ہے کہ مغربی ممالک میں شرحِ تولید میں اضافہ نہ ہوا تو مغربی ممالک عددی اقلیت میں تبدیل ہوجائیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ جرمنی میں گذشتہ ۱۰ برس سے شرحِ تولید میں کمی واقع ہورہی ہے۔ موجودہ افراد کی جگہ لینے کے لیے ۱ء۲افراد فی عورت درکار ہیں‘ جب کہ شرحِ تولید ۳ء۱ ہے۔ اگر یہی صورت حال رہی تو ۲۰۵۰ء تک ۲کروڑ ۳۰لاکھ جرمن صفحۂ ہستی سے مٹ چکے ہوں گے‘ جرمنی کی آبادی ۸کروڑ سے ۵ کروڑ ۹۰لاکھ رہ جائے گی۔ جرمنی کی ایک تہائی تعداد کی عمر ۶۵برس سے زائد ہوگی اور بوڑھے لوگوں کا جوان لوگوں سے تناسب ۲:۱ کا رہ جائے گا۔ ہر ۱۵۰ میں صرف ایک فرد جرمن ہوگا اور ۲۰۵۰ء تک جرمنی بوڑھے ترین لوگوں کا مسکن بن جائے گا۔ ایک ۳۴سالہ جرمن خاتون سے سوال کیا گیا کہ اُس نے شادی کیوں نہ کی؟ اس کا جواب تھا: میں رات کو سکون سے سونا پسند کرتی ہوں۔ میں اپنے دوست کے ساتھ  اچھا وقت گزارتی ہوں۔ میں بچوں کے جھنجھٹ میں کیوں پڑوں؟

اس وقت اٹلی کی آبادی ۵ کروڑ ۸۰ لاکھ ہے۔ ۴۵سال بعد یہ آبادی گھٹ کر ۴ کروڑ ۱۰لاکھ رہ جائے گی۔ امریکن انٹرپرائزز انسٹی ٹیوٹ کے اندازے کے مطابق ۲۰۵۰ء میں پانچ سال سے کم عمر بچوں کی تعداد ۲ فی صد ہوگی‘ جب کہ ۴۰ فی صد آبادی کی عمر ۶۵ سال یا اُس سے زیادہ ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چند نسلیں مزید گزر جانے کے بعد اٹلی کا ذکر ایک معدوم ریاست کے طور پر کیا جائے گا۔ Semi feministنامی رسالے نے لڑکیوں کے سروے کے بعد یہ رپورٹ جاری کی کہ ۱۶سال سے ۲۴ سال کی عمر کی ۵۲ فی صد لڑکیوں نے کہا کہ وہ بچے پیدا نہیں کریں گی۔ جب اُن سے سوال کیا گیا کہ اُنھوں نے یہ فیصلہ کیوں کیا ہے تو اُن کا کہنا تھا کہ ہم اپنا کیریئر بنانا چاہتی ہیں۔ بچے اس راستے میں رکاوٹ بنیں گے۔

روس نے عالمی منظرنامے پر طویل عرصے تک اہم کردار ادا کیا ہے۔ روس میں ہر تین میں سے دو حمل ضائع کرا دیے جاتے ہیں۔ ہر روسی عورت ۵ء۲ سے چار بار اسقاطِ حمل کے عمل سے گزرتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ روس میں شرحِ اموات‘ شرح پیدایش سے ۷۰ فی صد زیادہ ہے۔ ۲۰۵۰ء تک روس کی ۱۴ کروڑ ۷۰لاکھ آبادی گھٹ کر ۱۱کروڑ ۴۰لاکھ رہ جائے گی۔ ۱۶سالہ سے کم عمر لوگوں کی تعداد ۲کروڑ ۶۰لاکھ سے ایک کروڑ ۶۰لاکھ رہ جائے گی۔ ۷۰برس تک امریکا سے پنجہ آزمائی کرنے والے روس کی حالت یہ ہوچکی ہے کہ اوسطاً ۱۰عورتوں سے مجموعی طور پر ۵ء۱۳ بچے پیدا ہوتے ہیں۔ اس سے زیادہ اولاد پیدا کرنا وہ اپنے لیے توہین سمجھتی ہیں۔ ۲۰۵۰ء میں ۱۵ سال سے کم عمر بچوں کی تعداد ۲کروڑ ۶۰ لاکھ سے گھٹ کر ایک کروڑ ۶۰لاکھ رہ جائے گی‘ جب کہ موجودہ ایک کروڑ ۸۰لاکھ بوڑھے اس وقت تک پونے تین کروڑ بوڑھوں میں تبدیل ہوجائیں گے۔

پال کریک رابرٹس کا کہنا ہے کہ اس صدی کے اختتام تک انگریز قوم اپنے ہی وطن برطانیہ عظمیٰ میں اقلیت میں تبدیل ہوجائے گی۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی ملک کی اصلی آبادی جنگ‘ قحط یا وبائی امراض کے بجاے رضاکارانہ طور پر اپنی تعداد کم کر رہی ہے۔ لندن شہر میں مختلف نسلوں اور زبانوں سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد ۴۰ فی صد ہے۔ انگریزوں کی شرحِ پیدایش میں ۳فی صد کمی آتی رہی تو لندن میں گورے انگریز اقلیت بن کر گھومتے پھرتے نظرآئیں گے۔ ۱۹۲۴ء سے شرحِ پیدایش میں کمی ہوتی چلی جارہی ہے۔ اس وقت شرحِ پیدایش ۶۶ء۱ فی عورت ہے۔ برطانیہ کو اس کا احساس نہیں ہے کہ انگلینڈ اور ویلز کے رہنے والوں کی تعداد میں خوف ناک کمی ہوگی تو اُن کا اپنا ملک   ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ برطانیہ اور اہلِ برطانیہ کو اس کا اندازہ ہو یا نہ ہو‘ صورت حال    اسی سمت میں آگے بڑھ رہی ہے۔

یورپ کے تمام ممالک میں‘ اسپین میں شرحِ پیدایش سب سے کم ہے۔ اٹلی‘ رومانیہ اور چیک ری پبلک میں شرحِ تولید ۲ء۱ فی بچہ فی عورت تک جاپہنچی ہے‘ جب کہ اسپین میں یہ شرح ۰۷ء۱ تک پہنچ چکی ہے۔ آیندہ ۵۰برسوں میں اسپین کی آبادی میں ۲۵ فی صد کمی ہوجائے گی اور ۶۵سال سے زائد عمر کے باشندوں میں ۱۱۷ فی صد اضافہ ہوجائے گا۔ میڈرڈ کے ماہر سماجیات وکٹرپیریز ڈِیاز کا کہنا ہے کہ ’’ہمارے وطن میں چند نسل قبل ہر گھرانے میں آٹھ سے ۱۲ افراد کی موجودگی عام بات تھی۔ اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ سیکڑوں شادی شدہ جوڑے ایسے مل جاتے ہیں جنھوں نے اولاد پیدا کرنے کی زحمت تک نہ کی۔ اگر ایک بچہ پیدا ہوگیا تو دوسرے کے بارے میں سوچنا بھی گوارا نہیں‘‘۔ ۱۹۵۰ء میں اسپین کی آبادی مراکش سے تین گنا زیادہ تھی۔۲۰۵۰ء میں مراکش کی آبادی اسپین سے تین گنا ہوجائے گی۔ آج اگر ۱۰۰ اسپینی جوڑے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوں تو ساری زندگی میں یہ ۱۰۰ گھرانے ۵۸ بچے پیدا کریں گے۔ ان کے پوتوں کی تعداد ۳۳ ہوگی اور  ان کے پڑپوتوں کی تعداد ۱۹ رہ جائے گی اور اُس وقت تک اہلِ اسپین کی اوسط عمر بھی ۵۵سال تک گھٹ جائے گی۔ اسپین اور مراکش کے درمیان آبنائے جبل الطارق کی رکاوٹ ہے۔ مراکش کی بڑھتی ہوئی آبادی نجانے کس وقت اسپین کو غلام بنا لے۔

بچانن کا کہنا ہے کہ ۱۹۶۰ء میں امریکی‘ آسٹریلوی‘ اہلِ کینیڈا اور اہلِ یورپ کی مجموعی آبادی ۷۵ کروڑ تھی۔ اُس وقت دنیا کی آبادی ۳ ارب تھی اور مغربی اقوام کی تعداد ایک چوتھائی بنتی تھی اور اُن سب کی معقول شرحِ پیدایش تھی۔ مالتھس کے پیروکاروں نے انھیں خوب ڈرایا کہ وسائل کم پڑ رہے ہیں۔ آبادی کم کرو‘ سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ لیکن آبادی کم کرنے کے باعث اُن کی زبان‘ اُن کی تہذیب‘اُن کی نسل بلکہ اُن کے ممالک کی بقا کا بھی مسئلہ بن چکا ہے۔

۲۰۰۰ء میں دنیا کی آبادی ۳ ارب سے بڑھ کر ۶ ارب ہوچکی ہے لیکن اہلِ یورپ نے اولاد پیدا کرنا تقریباً بند کردیا ہے۔ کئی ممالک میں شرحِ پیدایش ایک مقام پر رُک گئی ہے‘ جب کہ کئی اور ممالک میں یہ شرح گرتی چلی جارہی ہے۔ حد سے حد کوشش یہ ہے کہ دو افراد پر مشتمل ایک خاندان سے دو افراد وجود میں آجائیں۔

مصنف کے مطابق ۲۰۵۰ء تک دنیا کی آبادی ۶ ارب سے ۹ ارب ہوجائے گی لیکن آبادی میں یہ سارے کا سارا اضافہ ایشیا‘ افریقہ اور لاطینی امریکا میں ہوگا۔ لیکن یورپی نسل کے ۱۰کروڑ افراد صفحۂ ہستی سے مٹ چکے ہوں گے۔ انھیں اس کا احساس بھی نہ ہوگا کہ اپنی پُرسکون زندگی کی تلاش میں اُنھوں نے اپنے قبیلوں اور نسلوں کو موت کے گھاٹ اُتارنے میں اہم کردار ادا کیا۔

۱۹۶۰ء میں یورپی نسل کے افراد‘دنیا کی آبادی کا چوتھا حصہ تھے۔ تحدید نسل پروگرام پر عمل درآمد کرتے کرتے ۲۰۰۰ء میں وہ دنیا کی آبادی کا چھٹا حصہ رہ گئے اور ۲۰۵۰ء میں سفید یورپی اقوام دنیا کی آبادی کا دسواں حصہ رہ جائیں گی۔ یورپی اقوام colonializationکی جس پالیسی پر ۱۷ویں اور ۱۸ویں صدی میں عمل پیرا رہے اُس کا دورِثانی اب کبھی نہیں آئے گا۔

بن ویٹین برگ کا کہنا ہے کہ اگر یورپ نے کم آبادی کے مسئلے کا حل تلاش نہ کیا تو یورپ مٹ جائے گا۔ دنیا میں ۲۰ممالک ایسے ہیں کہ جن کی شرحِ پیدایش سب سے کم ہے اور اُن میں سے ۱۸ یورپ میں ہیں۔ اگر یورپی ممالک چاہتے ہیں کہ موجودہ نسل کی جگہ لینے کے لیے اتنے ہی افراد وجود میں آجائیں تو ہر یورپی عورت کو ۱ء۲ بچے فی کس پیدا کرنا ہوں گے‘ جب کہ مجموعی طور پر یہ شرح ۴ء۱ فی عورت ہے۔ یہ صفر شرحِ آبادی نہیں‘ صفر آبادی کا اعلان ہے۔

مغربی تہذیب کا گہوارا (یورپ) مغربی تہذیب کا قبرستان بن جائے گا۔ Bologna کی جان ھاپکنز یونی ورسٹی کے ڈاکٹر جان وہلیس کا کہنا ہے: ’’خودمختاری کے لیے عورت کو جس قدر معاش کی ضرورت ہے اوروہ اُس سے زیادہ کما سکتی ہے تو پھر شوہر کی کیا ضرورت ہے؟ اور اگر آپ کو جنسی لطف بھی مل جائے اور بچے بھی پیدا نہ کرنا پڑیں توخاندان بنانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ کیتھولک اٹلی اور سیکولر برطانیہ میں یہی ہو رہا ہے___ شادی کیوں کریں؟‘‘

شوہروں‘ بیویوں اور بچوں کو خاندانی ذمہ داریوں سے فارغ کر کے یورپ کے سوشلسٹوں نے خاندان کی ضرورت ہی کو ختم کردیا ہے۔ آہستہ آہستہ خاندان ختم ہورہے ہیں۔ خاندانوں کے ختم ہونے سے یورپ بھی ختم ہو رہا ہے۔ ۲۰۵۰ء تک یورپ سے جس قدر لوگ فوت ہوجائیں گے اُن کی مجموعی آبادی بیلجیم‘ ہالینڈ‘ ڈنمارک‘ سویڈن‘ ناروے اور جرمنی کی آبادی سے زیادہ ہوگی۔ اگر یورپ کی آج کی عورتیں چاہتی ہیں کہ اُن کی نسلیں‘ اُن کے خاندان‘ اُن کی ثقافت اور اُن کے ممالک دنیا کے نقشے پر موجود رہیں تو اُنھیں اتنے ہی بچے پیدا کرنے ہوں گے جتنے اُن کی نانیوں اور دادیوں نے پیداکیے تھے___ ہے کوئی جو فطرت کے انتقام اور مغرب کی خودکُشی سے سبق سیکھے!

(The Death of The West by Patrick J. Buchanan, Published by: Thomas Dunne Books, St. Martin's Griffin, 175 Fifth Avenue, New York. 10010, pp310).

 

سوڈان کے مغربی علاقے ’دارفور میں نسل کشی‘ روکنے کے نام پر اچانک امریکا میںباقاعدہ مہم شروع ہوگئی ہے۔ اپریل کے آخر میں واشنگٹن میں ’دارفور بچائو‘ مظاہرہ کیا گیا۔ بار بار کہا جا رہا ہے کہ ’کچھ نہ کچھ‘ کیا جانا چاہیے۔ ’انسانیت دوست طاقتوں‘ اور امریکی امن دستوں کو فوری طور پر  نسل کشی روکنے کے لیے پہنچنا چاہیے۔ اقوام متحدہ یا ناٹو کی افواج نسل کشی روکنے کے لیے استعمال کی جانا چاہییں۔ امریکی حکومت کی ’اخلاقی ذمہ داری‘ ہے کہ دوسرا ہولوکاسٹ نہ ہونے دے۔   ذرائع ابلاغ اجتماعی عصمت دری کی کہانیوں اور پریشان حال مہاجرین کی تصویروں سے بھرے ہوئے ہیں۔ الزام یہ ہے کہ حکومت سوڈان کی پشت پناہی سے عرب ملیشیا ہزاروں لاکھوں افریقیوں کو قتل کر رہی ہیں۔ جنگ مخالف مظاہروں میں بھی نعرے لگائے جا رہے ہیں کہ عراق سے نکلو‘  دارفور جائو۔ نیویارک ٹائمز میں پورے پورے صفحے کے اشتہاروں میں یہی کچھ کہا جا رہا ہے۔

اس مہم کے پیچھے کون ہیں اور وہ کیا چاہتے ہیں؟ جائزے سے پتا چلتا ہے کہ عیسائی مذہبی تنظیمیں اور بڑے بڑے صہیونی گروپ اس کے پیچھے ہیں۔ اپریل کے مظاہروں کے لیے جو اشتہار نیویارک ٹائمز میں شائع ہوا وہ ۱۶۴ تنظیموں کا مشترکہ اشتہار تھا جس میں صہیونی تنظیموں کے علاوہ وہ سب تنظیمیں شامل تھیں جو بش انتظامیہ کے عراق پر حملے کی زبردست حامی تھیں۔ سوڈان سن رائز  (Sudan Sunrise)نے مقررین کا اور جلسوں کا انتظام کیا‘ فنڈ جمع کیے اور ۶۰۰ افرادکو  عشائیہ دیا۔ مظاہرے سے پہلے منتظمین کی صدربش سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے منتظمین کا شکریہ ادا کیا۔ مظاہرے میں ایک لاکھ افراد کی شرکت متوقع تھی‘ صرف ۵/۷ ہزار آئے لیکن ذرائع ابلاغ نے فراخ دلی سے اسے ہزاروں کہا۔ کم تعداد کے باوجود میڈیا میں اس کی بڑی بڑی خبریں دی گئیں۔ ایک دن پہلے کے ۳لاکھ افراد کے جنگ مخالف مظاہرے کے مقابلے میںاس کی خبریں زیادہ نمایاں دی گئیں۔ سارا زور اس پر ہے کہ دارفور بچانے کے لیے مداخلت کی جائے۔

ان مظاہروں سے امریکا کی سامراجی پالیسی کے کئی مقاصد حاصل ہوتے ہیں۔ اس سے عرب اور مسلمان مزید بدنام ہوتے ہیں۔ امریکا لاکھوں عراقیوں کو قتل اور معذور کر رہاہے اور فلسطینیوں کے خلاف جنگ میں اسرائیل کی جو حمایت کر رہاہے‘ اس سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔

سوڈان میں امریکا کی اتنی زیادہ دل چسپی کی وجہ کیا ہے؟ یقین کیا جاتا ہے کہ سوڈان میں سعودی عرب کے برابر تیل کے ذخائر موجود ہیں۔ اس کے علاوہ گیس‘ یورینیم اور تانبے کے ذخائر بھی بڑے پیمانے پر موجود ہیں۔

سعودی عرب کے برعکس سوڈان نے امریکا سے آزاد موقف اختیار کیا۔ چین نے سوڈان سے تیل کی ٹکنالوجی میں تعاون کیا ہے اور اس سے بیش تر تیل خرید رہا ہے۔ امریکا کی کوشش ہے کہ سوڈان اپنے قیمتی ذخائر کو ترقی نہ دے سکے۔

امریکا کی کوشش ہے کہ پابندیوں کے ذریعے اور مختلف تنازعات میںالجھا کر سوڈان کو تیل برآمد کرنے سے روکے۔ جنوب میں آزادی کی تحریکوں کی دو عشروں تک حمایت کی۔     ایک معاہدے کے بعد وہاں سکون ہوا‘ تو دارفور کا مسئلہ شروع کردیا گیا۔

امریکی میڈیا دارفور کے مسئلے کو اس طرح بیان کرتے ہیں جیساکہ سوڈانی حکومت کی حمایت سے عرب افریقیوں پر مظالم کر رہے ہیں۔ یہ حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ دارفور کے سارے باشندے خواہ انھیں عرب کہا جائے یا افریقی‘ سیاہ فام ہیں‘ مقامی ہیں‘ سب عربی بولتے ہیں‘ سب سنی مسلمان ہیں۔ چراگاہوں اور پانی کے چشموں کی ملکیت پر شروع ہونے والے جھگڑے  اس قدر پھیل چکے ہیں کہ ہزاروں خاندان نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔ قبائلی جھگڑے بڑھانے میں پڑوسی ممالک بھی کردار ادا کرتے ہیں۔ (سارا فلائونڈرز‘ ریسرچ اسکالر‘ سنٹرفار ریسرچ آن گلوبلائزیشن کی رپورٹ سے ماخوذ)

لائوس‘ کمبوڈیا‘ میانمار اور ملائشیا کے درمیان واقع تھائی لینڈ‘ مسکراہٹ کی سرزمین‘ کے نام سے معروف ہے۔ ۶کروڑ ۳۰ لاکھ آبادی والا یہ ملک رقبے میں فرانس کے برابر ہے‘ جب کہ اس کے دارالحکومت ’بنکاک‘ کو ایک اہم سیاحتی‘ تجارتی و تفریحی مرکز کی حیثیت حاصل ہے۔  تھائی لینڈ کی اکثریت بدھ مت کے پیروکاروں پر مشتمل ہے‘ تاہم پٹانی‘ نراتھی وٹ‘ جایا اور  سونگھلا چار جنوبی مسلم اکثریتی صوبے ہیں۔ حکومتی اعداد و شمار مسلمانوں کی تعداد ۴ فی صد بتاتے ہیں‘ جب کہ مسلم آبادی کا دعویٰ ہے کہ اُن کی تعداد ۵۰ لاکھ سے متجاوز ہے۔ یہ مسلم اکثریتی صوبے ملائشیا سے متصل اور تھائی دارالحکومت سے ۱۲۰۰ سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔

۱۱ رمضان المبارک کو نراتھی وٹ صوبے کے ٹک بے شہر پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ بدھ مت کے پیامِ امن کی پیروکار تھائی حکومت نے اُن ۱۵۰۰ مظاہرین کو سبق سکھانے کا فیصلہ کرلیا جو ٹک بے شہر کے ضلعی پولیس اسٹیشن کے گرد اکٹھے ہوگئے تھے۔ یہ لوگ اُن چھے افراد کے بارے میں جاننا چاہتے تھے جن کو تھائی فوج نے چند روز قبل گرفتار کر لیا تھا۔ الزام یہ عائد کیا گیا کہ اُنھوں نے مسلح افواج کے جوانوں سے چھے بندوقیں چھین کر علیحدگی پسند مسلمانوں کے حوالے کردی تھیں اور فوج نے اسلحہ بازیاب کرانے کے لیے اُنھیں گرفتار کیا ۔ ہفت روزہ اکانومسٹ کی رپورٹ  بھی یہی ہے‘ جب کہ تھائی لینڈ کے اخبارات کا کہنا ہے کہ یہ افراد ٹک بے شہر کے حفاظتی اداروں کی طرف سے چوکیداری پر معمور تھے اور تھائی فوج نے مقامی آبادی پر دہشت ڈالنے کے لیے اسلحہ بازیابی کے بہانے اُنھیں گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا۔

پولیس اسٹیشن کے گرد جمع ہونے والے ۱۵۰۰ مظاہرین مکمل طور پر غیرمسلح تھے۔ بہت سے لوگ ایسے تھے کہ جو دیکھا دیکھی مجمع میں شامل ہوتے چلے گئے۔ اُن کی اکثریت چھوٹے کاشت کاروں اور قریبی دکان داروں پر مشتمل تھی۔ وہ حکومت کے لیے کیا مسئلہ کھڑا کرسکتے تھے‘ لیکن تھائی فوج نے مظاہرے میں موجود ہر شخص کو سیکیورٹی رسک سمجھا۔ یاد رہے کہ جنوبی تھائی لینڈ کے تین مسلم صوبوں میں گذشتہ ۱۰ ماہ سے مارشل لا نافذ ہے۔ دو ماہ قبل موجودہ وزیراعظم نے اپنے وزیر دفاع کو اس بنا پر برخواست کر دیاکہ وہ جنوبی علاقوں میں ’نمایاں‘ کارکردگی نہ دکھا سکے۔ ۲۵ اکتوبر کو فوج کو موقع ہاتھ آگیا کہ اُن کے بقول ’’دہشت گرد مسلم علیحدگی پسندوں اور شرپسندوں‘‘ کے دماغ درست کیے جاسکیں۔

اے ایف پی‘ رائٹر‘ بی بی سی اور دیگر خبررساں ایجنسیوں نے خبر جاری کی کہ فوج کے سربراہ جنرل یراوت ونگ سوان کی اجازت کے بعد ہی یہ کارروائی ہوئی۔ اولین طور پر ۳۰۰ فوجی کمانڈو مظاہرین کے گرد حصار بنانے میں کامیاب رہے۔ ان کی پشت پر خودکار اسلحہ سے لیس سیکڑوں فوجی دستے بھی موجود تھے ۔ فوج نے مظاہرین پر پائپوں سے پانی برسایا‘ پھر آنسوگیس پھینکنا شروع کی اور اس کے بعد لاٹھی چارج شروع کر دیا۔ اس افراتفری کے دوران کم از کم ۲۰۰ مظاہرین قریبی علاقوں میں پناہ لینے میں کامیاب ہوگئے۔ اس کے بعد قتلِ عام پر تُلی ہوئی فوج نے براہ راست گولیاں برسانا شروع کر دیں جس سے چھے افراد موقع پر شہید اور ۳۰ زخمی ہوگئے۔ ابھی مظاہرین سنبھلنے بھی نہ پائے تھے کہ آرمی کمانڈر نے انھیں منشتر ہونے کا اعلان کیے بغیرگرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔ فوجیوں نے مسلم نوجوانوں کو بے پناہ تشدد کا نشانہ بنایا‘ اُن کی قمیصیں اُتروا کر اُن کے ہاتھ اُن کی پشت پرباندھ دیے اور اُنھیں منہ کے بل زمین پر لیٹنے کا حکم دیا‘ سرتابی کرنے والوں کے سروں پر بندوقوں کے بٹ مارے جاتے‘ یہ سلسلہ کئی گھنٹے تک جاری رہا۔ تھائی ٹیلی ویژن نے ۲۶ اکتوبر کو  فلم دکھائی جس میں تھائی فوجی M-16آٹومیٹک رائفلیں چلا رہے تھے۔

وزیراعظم تھک سِن شِنا وترا نے پارلیمنٹ میں بھی اور ذرائع ابلاغ کے سامنے تسلیم   کیا ہے کہ یہ لوگ روزے سے تھے اور اُن سے تباہ کُن اسلحہ اور ہتھیار برآمد نہیں ہوئے۔  گرفتار شدگان کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ کچھ عورتوں اور بچوں کا ذکر بھی ہے۔ ان لوگوں کومال برداری کے لیے چھ پہیوں والے ٹرکوں میں بھرکر فوج کے تفتیشی مرکز میں لے جایا جانے لگا۔ تفتیشی مرکز ۶۰ کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ مظاہرین کو ٹرکوں میں بھرنے اور تفتیشی مرکزتک پہنچانے میں چھے گھنٹے لگے۔جب یہ ٹرک تفتیشی مرکز پہنچے تو ۷۸ روزہ دار بے بس مسلمان‘     دم گھٹنے اور ایک دوسرے کے نیچے دب کر شہید ہوچکے تھے‘ جب کہ دو ڈھائی سو کی حالت نازک تھی۔ خبرجب پھیلی تو تھائی لینڈ کے ہر مسلم گھر میں صفِ ماتم بچھ گئی‘ شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جہاں افطار کے وقت آنکھیں اشک بار نہ ہوئی ہوں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ تھائی ہیومن رائٹس کمیشن اور کئی اداروں نے تھائی لینڈ حکومت کے اس رویّے کی مذمت کی اور غیر جانب دارانہ تحقیقاتی کمیشن کے ذریعے تلاشِ حقیقت کا مطالبہ کیا۔ کچھ دنوں بعد وزیراعظم نے علاقے کا دورہ کیا اور اپنے اس عزم کا اظہار کیا کہ نشہ کرنے والوں‘ دہشت گردوں‘ علیحدگی پسندوں اور دوسرے ممالک سے ہدایات لے کر تھائی لینڈ میں امن و امان کا مسئلہ کھڑا کرنے والوں سے اس علاقے کو پاک کر دیا جائے گا‘ نیز یہ کہ اب مزید کوئی نرمی نہ برتی جائے گی۔ تھائی لینڈ کے تمام اخبارات نے وزیراعظم کی تقریر کو شہ سرخیوں سے شائع کیا۔ انھوں نے کہا کہ ہم اپنی سرزمین پر ’لاقانونیت‘ برداشت نہیں کرسکتے۔ اُنھوں نے اس پر افسوس کا اظہار کیا کہ ٹرکوں کی کم تعداد کی وجہ سے تھائی مسلمان جاں بحق ہوئے‘ تاہم انھوں نے یہ کہتے ہوئے ذرا بھی شرم محسوس نہ کی کہ اس علاقے کے شہری نشہ آور اشیا استعمال کرنے اور روزہ رکھنے کی وجہ سے کمزور ہوگئے تھے۔ دم گھٹنے کے علاوہ اُن کی جسمانی کمزوری بھی ان کے انتقال کا سبب بنی۔ گویا فوج کا کوئی قصور ہی نہیں تھا۔

اے بی سی نیوزکے رپورٹر نے وزارتِ انصاف کے افسر مَنِت سُتاپورن کے حوالے سے یہ خبر جاری کہ کہ ٹرکوں میں محبوس لوگوں پر آنسو گیس بھی پھینکی گئی اور اُن کی موت آکسیجن کی کمی اور دم گھٹنے کے سبب ہوئی۔ یہ تمام لوگ نیم برہنہ تھے‘ اُن میں سے تین افراد کی گردن کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہلاکتیں تشدد اور دم گھٹنے سے ہوئیں۔

ملائشیا کے وزیراعظم عبداللہ بداوی نے تھائی لینڈ کے وزیراعظم تھک سن شنا وترا کو احتجاجی فون کیا اور کہا کہ تھائی لینڈ کی حکومت اپنے شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ اسلامی پارٹی ملائشیا نے کئی مقامات پر مظاہرے کیے اور تھائی لینڈ کی حکومت کی پُرزور مذمت کی۔ انڈونیشیا کے کئی اداروں اور تنظیموں نے بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر احتجاج کیا۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر جناب قاضی حسین احمد نے ۸۴ بے گناہ مسلمانوں کے بہیمانہ قتل پر شدید احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ کا کمیشن اس قتلِ عام کی تحقیقات کرے۔ بھارت کی حکومت نے بھی سرکاری طور پر مذمتی بیان جاری کیا۔ بنگلہ دیش‘ عرب ممالک اور یورپ کی کئی تنظیموں نے اس بہیمانہ واقعے کی پُرزور مذمت کی۔

چھے ماہ قبل ۲۸ اپریل کو اُس وقت کے وزیراعظم ظفراللہ خان جمالی تھائی لینڈ کے دورے پر گئے تھے اور اُسی روز ۱۰۸ مسلمانوں کو تھائی افواج نے ہلاک کر دیا تھا۔ افسوس کہ وہ شدید احتجاج تو کیا اظہار مذمت بھی نہ کرسکے۔ مسلم ممالک کی مجموعی بے حسی کے سبب تھائی حکومت گذشتہ ۱۵ برس سے اس کوشش میں ہے کہ پٹانی‘ نراتھی وٹ ‘ سونگھلا اور جایا کے صوبوں میں علیحدگی کی تحریک کے آخری آثار کو بھی کچل دیا جائے اور وہ اس میں بظاہر کامیاب دکھائی دیتی ہے۔

تھائی لینڈ میں خوش حالی کا جو دور دورہ ہے اُس کے اثرات جنوبی تھائی لینڈ میں دُور دُور تک نہیں ملتے۔ وہاں کی اکثریت غریب کسانوں‘ مزدوروں اور نیم تعلیم یافتہ لوگوں پر مشتمل ہے‘ جب کہ تھائی لینڈ میں شرح تعلیم ۹۳ فی صد ہے۔ حکومتِ تھائی لینڈ یہ الزام بار بار عائد کرتے ہوئے نہیں تھکتی کہ ان علاقوں میں نشہ بازوں‘ اسلحہ فروشوں اور بدعنوانی کرنے والوں کے گینگ ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اور اس علاقے کو مجرموں سے پاک کرنا ضروری ہے۔

تھائی حکومت کی یہ بھی کوشش ہے کہ پٹانی یونائیٹڈ لبریشن آرگنائزیشن‘ پٹانی نیشنل یوتھ موومنٹ‘ بی آر این اور جی ایم آئی پی نیز آزاد اسلامی ریاست پٹانی کے خیالات کی معمولی سی حمایت کرنے والی تنظیموں کا‘ سنگاپور کی جماعت اسلامیہ اور اسامہ بن لادن کی القاعدہ تنظیم کے ساتھ تعلق ڈھونڈ نکالا جائے اور اُن کے خلاف ایسی ہی سخت کارروائی کی جائے جیسی امریکا افغانستان و عراق میں ’’دہشت گردی سدِّباب مہم‘‘ کے نام سے کر رہا ہے۔ امریکی مثال سے روشنی حاصل کرنے کے سبب گذشتہ ۱۰ ماہ کی مہم میں تھائی لینڈ میں ۴۰۰ مسلمان شہید کیے جاچکے ہیں۔ نہ ان کے خلاف کہیں رپورٹ درج ہوئی ہے نہ کوئی اس خونِ ناحق کا دعویدارہے۔

اس علاقے میں بسنے والے مسلمان مَلے اور چم نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو۱۴۹۵ء میں حلقہ بگوش اسلام ہوئے اور یہاں کے سلطان نے پٹانی اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ ۱۷۹۵ء میں تھائی سلطنت نے اس علاقے پر قبضہ کر لیا اور جنگِ عظیم دوم کے خاتمے کے بعد بھی یہ علاقہ آزاد حیثیت حاصل نہ کر سکا۔

پٹانی تحریکِ آزادی کے راہنما اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ گذشتہ دس برس ’بنیاد پرستی‘ مخالف طوفان کی نذر ہوگئے۔ اگلے دس برس ’دہشت گردی‘ کے خاتمے کی مہم میں بش جونیئر کی قیادت میں صرف ہوتے نظر آرہے ہیں۔ افغانستان میں عوام کا اقتدار ختم کر دیا گیا‘ عراق میں آگ و خون کی بارش اس طرح ہو رہی ہے کہ شہروں کے شہر تباہ ہو رہے ہیں‘ فلسطین کا مسئلہ کسی صورت حل ہوتا نظر نہیں آتا‘ جموں و کشمیر کے دعوے داروں نے ہاتھ جوڑ رکھے ہیں۔ ان حالات میں بچارے پٹانی والوں کی خبرگیری کون کرے گا‘ واللّٰہ المستعان!

عالمی پیمانے پر کام کرنے والی اُن تنظیموں اور خبررساں اداروں کے کردار کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ جنھوں نے ٹک بے کے قتلِ عام کی تصاویر بنائیں اور جاری کیں۔ ایمنسٹی کا ذکر بھی ضروری ہے کہ جس کی ڈپٹی ڈائرکٹر نے اقوام متحدہ اور ریاست ہاے متحدہ سے مطالبہ کیا کہ ’’غیرانسانی قتلِ عام کی فی الفور تحقیقات کرائیں‘ ہانگ کانگ کے انسانی حقوق کمیشن نے    تھائی حکومت کے سرکاری بیان کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ’’تمام افراد دم گھٹنے سے ہلاک نہیں ہوئے   چند کے جسم سے گولیاں بھی برآمد ہوئی ہیں۔ ۱۳۰۰ کے مجمعے سے حکومت صرف چار رائفلیں بازیاب کرسکی۔ تھائی حکومت کو اپنے اقدام پر شرم آنی چاہیے‘‘۔

پٹانی کے ایک شہری کا یہ سوال برحق ہے کہ ایسا قتلِ عام اگر یورپ کے کسی ملک میں ہُوا ہوتا تو کیا عالمی ضمیر اُس وقت بھی سویا رہتا‘ یا کوئی اقدام کرتا؟

نومبر ۲۰۰۴ء امریکا میں صدارتی انتخابات کا ماہ ہے۔ ری پبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی انتہائی منظم انداز میں انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔ ۷۰لاکھ سے زائد مسلمان امریکا میں قیام پذیر ہیں۔ امریکی شہریت کے حامل اندازاً ۱۸ لاکھ مسلمان ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ مجموعی طور پر کل راے دہندگان کا یہ ۵ئ۱ فی صد بنتے ہیں۔ ان راے دہندگان میں سے ایک تہائی وہ لوگ ہیں جنھیں پہلی مرتبہ رائے استعمال کرنے کا موقع مل رہا ہے اور وہ اپنے سے ماقبل تارک وطن نسل سے زیادہ پُراعتماد‘ پُرجوش اور متحرک ہیں۔

فلوریڈا‘ مشِی گن‘ اوھائیو‘پنسلواینا‘ ٹیکساس اور منی سوٹا کی ریاستوں کے ووٹ عموماً غیرمعمولی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اگرچہ ۱۱ستمبر کے واقعے کی گونج اب بھی سنائی دے رہی ہے‘ دہشت گردی کا تدارک بھی شہ سرخیوں کا موضوع ہے‘ تاہم ایک عام امریکی شہری متوازن بجٹ‘ اسلحہ کنٹرول‘ میڈیکل سہولیات‘ الکوحل‘ ٹیکس اصلاحات‘ نسلی امتیاز اورووٹر رجسٹریشن جیسے مسائل کے حل میں دل چسپی رکھتا ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی امریکی فوج کے بیرونی کردار کو محدود کرنے‘ عظیم تر شہری آزادیوں اور اندرونِ ملک امور پر توجہ کے نعروں کو زیادہ متعارف کرا رہی ہے اور اس پارٹی کے امیدوار ’تہذیبی کش مکش‘ جیسے موضوع پر کم ہی اظہارخیال کرتے ہیں۔ بوسٹن میں ہونے والے ڈیموکریٹک پارٹی کے کنونشن میں ۴۰ مسلمان نمایندے بھی شریک تھے۔ دوسری طرف ری پبلکن پارٹی ساری دنیا کو دہشت گردی سے پاک کرنے کی جدوجہد کا کریڈٹ لینا چاہتی ہے اور میڈیا و الیکشن منتظمین کے ذریعے اُس خطرناک صورت حال سے بچنا چاہتی ہے کہ جب پچھلی بار دونوں صدارتی اُمیدواروں کے ووٹ برابر برابر نکلے۔ تازہ ترین سروے نتائج کے مطابق جارج بش اکثریت حاصل کرسکتے ہیں۔

امریکا میں کام کرنے والے مختلف اداروں نے مسلم آبادی سے کئی سروے کیے‘ ان اداروں میں مسلمانوں کی اپنی تنظیمات بھی شامل ہیں۔ سروے کے نتائج سے معلوم ہوا ہے کہ عرب آبادی جارج بش سے خصوصاً مشرقِ وسطیٰ پالیسی کی وجہ سے ناراض ہے۔ عرب آبادی میں ایک سروے سے معلوم ہوا کہ اسرائیل دوستی اور عرب دشمنی کی وجہ سے ۷۰ فی صد عرب ووٹر جارج بش کو ووٹ نہ دیں گے۔ اُنھوں نے واضح طور پر اعلان کر دیا ہے کہ جارج بش کی پالیسی سے اظہار نفرت کے طور پر وہ جان کیری کے حق میں اپنی رائے کا اظہار کریں گے۔ برعظیم سے سابقہ تعلق رکھنے والے امریکی مسلمان بھی اپنے لائحہ عمل کا اعلان کرچکے ہیں کہ وہ جان کیری کے شہری آزادی‘ بنیادی حقوق اور امریکا کے داخلی جامع کردار کے موید ہیں اور انتخاب میں کیری کو کامیاب کرائیں گے۔ انتخابات سے عین پانچ ہفتے قبل تک جو سروے سامنے آرہے ہیں اُن میں جارج بش کا گراف مقامی امریکی آبادی میں بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے لیکن مسلمانوں نے ایسا کوئی مشترکہ اعلان نہیں کیا کہ وہ اپنی رائے میں تبدیلی کر رہے ہیں۔ افغانستان و عراق پر   بم باری ایسے امور پر امریکیوں کی بہت بڑی تعداد بش سے نالاں ہے اور وہ کسی بھی صورت میں ناراضی کے اظہار سے نہ رُکیں گے‘ چاہے جان کیری صدارتی انتخابات میں ناکام ہوجائے۔

سکونت پذیر امریکی مسلمانوں کے دو گروہ سب سے نمایاں ہیں۔ ان میں سے ۳۵لاکھ عرب ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی درجنوں تنظیمیں اور سیاسی اختلافات ہیں اور مجموعی   طور پر اتنی ہی تعداد برعظیم (پاکستان‘ بھارت‘ بنگلہ دیش) سے تعلق رکھنے والوں کی ہے اور ان  میں بھی غالب تر پاکستانی ہیں۔ ۱۹۸۰ء سے قبل امریکا میں آبائی وطن چھوڑ کر سکونت اختیار کرنے والے مسلمان ’’اچھا کھائو‘ اچھا پہنو‘‘کے جال میں مگن رہے۔ سیاسی‘ سماجی اور اقتصادی معاملات میں اُن کا کردار مغلوب رہا‘تاہم ۱۹۸۰ء کے بعد جو نسل امریکا میں پیدا ہوئی ہے‘ اُس کو امریکا کے ساتھ ساتھ فلسطین‘ کشمیر‘بوسنیا‘ الجزائر اور افغانستان سے بھی دل چسپی ایک حد تک ہے۔ وہ امریکا میں آئین و قانون کی پاسداری‘ نظامِ انتخابات اوربھرپور اظہارِ رائے کے ذریعے قومی امور میں شرکت کرنا چاہتے ہیں۔ مجموعی طور پر وہ USA Patriot Act سے نالاں ہیں جس کے ذریعے ایک ایک فرد کے خاندانی حالات اور ذرائع آمدن کی انتہائی باریک تفصیلات بھی حکومت طلب کرسکتی ہے۔ خصوصاً یہ کہ آپ اپنی آمدن کن ممالک یا اداروں کو دیتے ہیں‘ تاکہ ’’دہشت گردی‘‘ کے لیے معاشی وسائل کی فراہمی کا سدباب کیا جاسکے۔ ۱۱ستمبرکے واقعے کے بعد ۲۰۰۲ء میں ایک غیرسرکاری تنظیم کے سروے کے مطابق ۵۷ فی صد امریکی مسلمان ہراساں کیے گئے یا نسلی بنیادوں پر امتیازی سلوک کا شکار ہوئے۔ نئی نسل کی اسٹرے ٹیجی یہ ہے کہ تمام تر نسلی‘ لسانی‘ علاقائی اختلافات کے باوجود یک زبان ہوکر اپنی رائے کا اظہار کریں اور اپنے امریکا کو انصاف کا علم بردار ملک بنا دیں۔ یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ درست فیصلہ ہونے کی صورت میں بلدیاتی انتخابات اور سینیٹ و کانگرس میں نمایندگی کا مستحکم دروازہ کھل سکتا ہے۔

امریکن مسلم ٹاسک فورس آن سِوِل رائٹس اینڈ الیکشنز(AMT) کا قیام اس لحاظ سے خوش آیندہے کہ ایک مشترکہ پلیٹ فارم مسلم راے دہندگان کے لیے اصولی رہنمائی فراہم کر رہا ہے۔ اس فورم کے قیام کے پس منظر میں یہ نظریہ کارفرما ہے کہ مسلم آبادی کو قانونی حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا پڑے گی‘ نیز ’’تنہائی‘‘ اور ’’لاتعلقی‘‘کو خیرباد کہنا ہوگا۔ اس مشترکہ پلیٹ فارم میں امریکن مسلم الائنس (AMA)‘ کونسل آف امریکن اسلامک ریلیشنز (CAIR)‘ پاکستانیوں کی معروف اور متحرک تنظیم اسلامک سرکل آف نارتھ امریکا(ICNA)‘ مختلف ممالک کے مسلمانوں کا اتحاد اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکا (ISNA)‘مسلم الائنس آف نارتھ امریکا (MANA)‘ مسلم امریکن سوسائٹی (MAS)‘ مسلم پبلک افیئرزکونسل (MPAC)‘ مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن- نیشنل (MSA-N)‘ اور پراجیکٹ اسلامک ہوپ (PIH) شامل ہیں۔

اس ٹاسک فورس کے قائم ہونے سے قبل عموماً یہ رائے پائی جاتی تھی کہ سینیٹ کے اُن امیدواروں کو ووٹ دیے جائیں جو علاقائی مسائل اور سیاسی قوانین کے بارے میں اُن کے لیے سودمند ثابت ہوں اور قانونی جنگ لڑسکتے ہوں‘ جتھہ بن کر کسی پارٹی کے ساتھ منسلک نہ ہوا جائے جس طرح ۲۰۰۰ء کے انتخابات میں کیا گیا تھا اور مسلم ووٹروں نے ۴۵ فی صد رائے جارج ڈبلیو بش کے پلڑے میں ڈال دی تھی۔ بعدازاں اُس نے عراق و افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بھی بجائی اور دادوتحسین کا طلب گار بھی ہوا۔ ال گور کیونکہ مسلم کمیونٹی کے بڑے استقبالیوں میں یہود دوستی کی وجہ سے شریک نہ ہوا‘ اس لیے مسلم کمیونٹی نے اُس سے بالکل بے اعتنائی برتی۔

امریکا ٹاسک فورس نے سات نکاتی ایجنڈا متعارف کرایا ہے اور اپنی اجتماعی مہم کا نام  Civil Rights Plus رکھا ہے۔ اس کی وضاحت یہ کی جاتی ہے کہ ’’سب کے لیے شہری حقوق‘‘ ایک اہم نکتہ ہے لیکن واحد نکتہ نہیں۔ تعلیم‘ رہایش کی عدم فراہمی‘ اقتصادی بحالی‘ ماحولیاتی و ارضیاتی تحفظ‘ انتخابی اصلاحات‘ جرائم‘ امنِ عالم اور انصاف بھی توجہ کے بھرپور مستحق ہیں۔ فورس نے مسلمان آبادیوں سے گزارش کی ہے کہ اپنے اپنے علاقے میں مختلف جماعتوں کے نمایندوں کو شہری حقوق اور مذکورہ بالا امور پر سابقہ کارکردگی کی روشنی میں پرکھیں اور اِن کے بارے میں تفصیلی رائے طے شدہ پرفارمے ٹاسک فورس کو فراہم کریں۔ فورس کی تاسیس میں شریک انجمنوں‘ اداروں اور پریشر گروپس سے کہا گیا ہے کہ اپنے ممبران کو مکمل طور پر متحرک کریں‘ نیز راے عامہ کے سروے‘ سوالناموں اور پالیسی سیمی ناروں کے ذریعے ووٹروں کی تربیت بھی کریں۔ علاوہ ازیں اس چیز کو یقینی بنائیں کہ ووٹ کے حق دار ۱۸ لاکھ مسلمان اپنے ضروری کاغذات مکمل کرائیں اور کوئی شخص بھی ووٹ نہ دینے کے جرم کا مرتکب نہ ہو۔ علماے کرام نے امریکا کے مخصوص پس منظر میں فتویٰ بھی دے دیا ہے کہ ان حالات میں ووٹ نہ دینا کسی اور بڑے المیے کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا‘ بِلاواسطہ یہ پیغام بھی ہے۔ منتخب کوئی بھی ہو اُمت مسلمہ ‘فلسطین اور کشمیر کو فراموش نہ کیا جائے۔

گذشتہ ۲۰۰ برسوں میں یہودی آبادی نے اپنی کم تعداد اور بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ نہ صرف اسلحہ مارکیٹ‘ پٹرول مارکیٹ اور بنک کاری پر قبضہ جمائے رکھا بلکہ اسرائیل کی بھی سرپرستی جاری و ساری رکھی‘ نیز قوت کے حصول پر خصوصی ارتکاز رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم بھی ڈھا رہا ہے‘ ۶۵۰کلومیٹر طویل متنازعہ دیوار بھی تعمیر کررہا ہے اور عالمی عدالت انصاف کے فیصلوں کو بھی بآسانی رد کر رہا ہے۔ اگلے ماہ ہونے والے انتخابات میں   یہ حقیقت واضح ہوجائے گی آیا امریکی مسلمانوں نے ہم عصر یہودیوں سے کوئی سبق بھی سیکھا ہے یا نہیں!

انسانی حقوق کے عالم گیر منشور میں روے زمین کے تمام انسانوں کو یکساں حقوق کا حق دار قرار دیا گیا ہے لیکن نسلی امتیاز اور لسانی و مذہبی تفریق و تعصب نہ صرف آج بھی موجود ہے بلکہ حکومتیں اس کی سرپرستی کرتی ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی سیکڑوں تنظیمیں اس قسم کے سروے شائع کرتی رہتی ہیں کہ کہاں کہاں قوم‘ قبیلے‘ گروہ یا اجتماعیت کے خلاف مذہب‘ نسل‘ خاندان‘ علاقے‘ پیشے یا صدیوں سے جاری رواج کی بنا پر ظلم و تشدد یا تعصب و امتیاز برتا جا رہا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ نسلی امتیاز کے خاتمے کے لیے قراردادیں تو موجود ہیں مگر ان پر عمل درآمد نہیں ہے‘ سب غالب اقوام ’’دہشت گردی کے خاتمے‘‘ کے نام پر انسانی حقوق پامال کرنے میں مصروف ہیں۔ ایسے میں آواز کون بلند کرے گا۔

یُوری ڈیوس کی کتاب Apartheid Israel, Possibilities for the Struggle Withinکی اشاعت سے اسرائیل اور امریکا کے یہودی نواز حلقوں میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اس کتاب کے مصنف عرصۂ دراز سے انسانی حقوق کی سربلندی کے لیے کام کر رہے ہیں‘ اُن کا مرکز توجہ اسرائیل ہے جو ۱۵ مئی ۱۹۴۸ء سے قبل فلسطین تھا اور برطانیہ کے زیرانتظام تھا۔ یُوری نے انسانی حقوق کے عالم گیر منشور کی روشنی میں جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت اور اسرائیل کی نسل پرست حکومت کا ٹھوس حقائق کی روشنی میں جائزہ لیا ہے۔         وہ انسانیت پروری اور انسان دوستی کے ناطے یہ چاہتے ہیں کہ آج جو حقوق‘ مثلاً جرمنوں یا فرانسیسیوں کو حاصل ہیں وہ فلسطینیوں کو بھی حاصل ہوجائیں۔ اُن کی دوسری دل چسپی اس امر میں ہے کہ مختلف افریقی ممالک میں بالعموم اور جنوبی افریقہ میں بالخصوص نسلی امتیاز اور تعصب کے خاتمے کے لیے عالمی برادری نے جو جدوجہد کی ہے وہ اسرائیل کے خلاف بھی کی جائے۔

یوری ڈیوس کی تحریریں متنازعہ قرار دے دی گئی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اسرائیل کی پارلیمنٹ کے رُکن رہے ہیں۔ وہ تاریخی تحقیق کی روشنی میں جب اس حقیقت کو واشگاف کرتے ہیں کہ برطانوی انتداب کے دورمیں ارضِ فلسطین پر یہودیوں کی آبادی سات فی صد تھی‘  بالفور اعلان کی روشنی میں بے زمین قوم کو غیرآباد سرزمین پر لاکر بسا دیا گیا۔ مصنف نے اُن  ۵۰۰ دیہاتوں کی مقامی فلسطینی آبادی اور اُن کی زیرملکیت اراضی کی تفصیل فراہم کی ہے جن کو اسرائیلی فوجیوں نے ظلم و زیادتی اور وحشیانہ تشدد کے ذریعے خالی کرا لیا۔ جوانوں‘ بوڑھوں‘ بچوں اور عورتوں کے ساتھ اس جبری انخلا میں جو سلوک روا رکھا گیا اُس کو چشمِ تصور سے بھی دیکھیں تو روح کانپ اٹھتی ہے۔ بیت المقدس شہر‘ یروشلم‘ الخلیل‘ ہَبرون‘ اریحا‘ جیریکو اور دیگر شہروں کے نام تبدیل کر کے اُن کی سیکڑوں سال پر محیط اسلامی شناخت نسل پرست حکومت نے ختم کرنے کی کوشش کی۔ بیت لحم‘ جافا‘ رملے‘ لدِّہ‘ جنین‘ طُل قرم‘ حیفا‘ عکرے‘ نظارت‘ صفاد‘ طبریاس‘ لیبان اور غزہ پورے کے پورے خالی کرا لیے گئے۔

برطانوی حکومت نے اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان اور بندوبست کیا تھا لیکن ڈیوس کا خیال ہے کہ اسرائیل کی حکومت کو نہ ۵۰ برس قبل یہ حق حاصل تھا نہ آج حاصل ہے کہ اس سرزمین پر سیکڑوں برس سے قیام پذیر لوگوں کو اپنے گھروں‘ زرعی اراضی‘ دیہاتوں اور قصبوں سے نکال پھینکیں اور بعدازاں دلیل یہ پیش کریں کہ یہ لوگ یہاں سے جاچکے ہیں‘ اراضی کے سروے کے دوران ان کو موجود نہ پایا گیا‘ لہٰذا یہ اسرائیل (مقبوضہ فلسطین) میں واپس آنے کا کوئی حق نہیں رکھتے۔ جنوبی افریقہ کی نسل پرست سفید قوم اقلیت میں تھی لیکن وہ سیاہ فام اکثریت پر حکمران تھی اور اُس نے ۲ کروڑ میں سے ایک کروڑ ۲۰ لاکھ افریقیوں کو افریقہ کا باشندہ تسلیم کرنے سے انکار کر رکھا تھا۔ یہی حال اسرائیل کا ہے۔ اُس نے ۶۰ لاکھ فلسطینیوں میں سے ۵۰ لاکھ کو فلسطین کا حقیقی باشندہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ عالمی قراردادوں اور سفارتی دبائو کے باوجود مختلف خلیجی و یورپی ممالک میں مقیم فلسطینیوں کو اسرائیل واپسی کا حق دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ جنوبی افریقہ میں سیاہ سفید کا امتیاز تھا‘ اسرائیل میں یہودی‘ غیریہودی کی بنا پر فیصلے ہوتے ہیں۔ نسل پرست سفید یورپی اقوام جنوبی افریقہ کی حکومت کی پشتیبان تھیں‘ سوپرپاور اسرائیل ’’مشرق وسطیٰ کی واحد جمہوریت‘‘ کا سرپرست ہے۔ واشنگٹن اسرائیل کو عرصۂ دراز سے ۲ ارب ڈالر سالانہ امداد ترقیاتی منصوبوں کے لیے ادا کر ہی رہا ہے۔ حال ہی میں مزید ایک ارب ڈالر سالانہ امداد کی منظوری دے دی گئی ہے تاکہ اسرائیل ’’مقامی دہشت گرد تنظیموں اور سرگرمیوں‘‘ کا سدباب کر سکے‘ جس طرح امریکا عراق میں بندوق کی نوک پر کر رہا ہے۔

مصنف نے ۱۹۵۰ء میں لاگو ہونے والے Absentee's in Property Law پر شدید تنقید کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب اسرائیل قائم ہوا تو مقامی یہودیوں کے پاس ۲۰لاکھ دنوم (۵لاکھ ایکڑ) زمین تھی۔ حکومت کو برطانوی انتظامیہ سے ۴ لاکھ دنوم (ایک لاکھ ایکڑ) اراضی ملی۔ ۲ کروڑ ۲ لاکھ ۲۵ہزار دنوم (تقریباً ۵۱ لاکھ ایکڑ) قانونی طور پر عربوں کی اراضی تھی لیکن فلسطینی عورتوں کے برہنہ جلوس نکال کر اور فلسطینی کسانوں کو قطاروں میں کھڑا کر کے قتل کرکے بہت بڑے رقبے پر قبضہ جما لیا گیا۔ آج اسرائیل کا رقبہ ۲۰ ہزار ۸ سو ۵۰ مربع کلومیٹر ہے اور یُوری ڈیوس انسانی حقوق کے عالم گیر منشور کی روشنی میں جمہوریت اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھنے والوں کا تعاون چاہتا ہے تاکہ فلسطینیوں کو اُن کی اراضی واپس دلائی جاسکے۔ اُس کی دلیل یہ ہے کہ نسل پرست استعمار اسرائیل کو محدود نہ کیا گیا تو بعد کے ادوار میں کئی توسیع پسند ممالک دوسرے ممالک کو باجگزار بناسکتے ہیں اور اُن کی نسلوں کو ختم کر سکتے ہیں۔ آج نصف کروڑ کے قریب فلسطینی شام‘ لبنان‘ اردن‘ یورپ و امریکا میں درجہ دوم کے شہری بنے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ جنوبی افریقہ کے سیاہ فام لوگ نسلی امتیاز والی حکومت کا حق رکھتے تھے اور فلسطینی نسلی امتیاز کے خاتمے اور اپنے وطن واپس لوٹنے کے حق دار نہیں ہیں۔ اس دُھرے معیار کا خاتمہ ہونا چاہیے۔

کتاب کے پہلے باب ’صہیونیت‘ میں مصنف عالمی صہیونی تنظیم(WZO)  اور جیوش ایجنسی کے کردار کا خصوصی ذکر کرتا ہے کہ یہ دونوں تنظیمیں برس ہا برس سے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے آرتھوڈوکس اور پروگریسو یہودیوں کو سمجھا رہی ہیں کہ جو یہودی ہے اُسے توریت کی تعلیمات کے مطابق سرزمین اسرائیل پر سکونت اختیار کرنا چاہیے۔ ۸۵ ممالک کے یہودی‘ خالصتاً نسلی بنیادوں پر اسرائیل میں لاکر بسا دیے گئے ہیں۔ رُوس کے لاکھوں یہودی اسرائیل میں لائے گئے۔ امریکا سے بھی کئی ہزار سالانہ کی شرح سے یہودی خصوصی طیاروں میں’’امن کی سرزمین‘‘ پہنچ رہے ہیں۔ یہودی ہونے کے دعویدار بھارت کے ایک قبیلے کے سے یہودی اکابر علما ملاقات کرچکے ہیں اور ان کی تاریخی و نسلی روایات کو درست اور اُنھیں بنی اسرائیل کے گم شدہ ۱۲قبیلوں میں سے ایک تسلیم کر لیا گیا ہے اور جلد ہی اُن کو اسرائیل پہنچا دیا جائے گا۔ اس کے مقابلے میں اُن ۱۳لاکھ عربوں کی حالتِ زار پر غور فرمایئے کہ جنھیں اپنی ملازمت سے گھر واپس جانے تک کئی بار شناختی کاغذات معائنے کے لیے پیش کرنا پڑتے ہیں۔ رفح ٹرمینل اسرائیلی حکم پر ڈیڑھ ماہ تک بند رکھا گیا اور کئی لوگ علاج کی سہولت سے بھی محروم ہوگئے۔ ایک فلسطینی عورت نے اسی حالت میں بچے کو جنم دیا‘ مرج الظہران کی سرد پہاڑیوں پر کئی سو فلسطینیوں کو سازوسامان کے بغیر دھکیل دیا گیا تاکہ وہ سردی سے مرجائیں۔ اسلامی تحریک مزاحمت کے بانی شیخ احمد یاسینؒ اور دوسرے سربراہ ڈاکٹر عبدالعزیز رنتیسیؒ کو باضابطہ منصوبہ بندی کرکے شہید کیا گیا اور وزیراعظم اپنے گھر میں بیٹھ کر ان کارروائیوں کی براہ راست نگرانی کر رہا تھا۔ اُن ۴ ہزار فلسطینیوں کو بھول جایئے جو پچھلے ساڑھے تین برسوں میں ہلاک کر دیے گئے‘ اُن کی عمریں دو ماہ سے ۸۴ برس تک تھیں‘ اِن کارروائیوں کے لیے صرف ایک الزام کافی ہے کہ ’’یہ لوگ اسرائیل کی مسلح فوج کی کارروائیوں میں مزاحم‘‘ تھے۔ ڈیوس یہ سوال اٹھانے میں برحق ہے کہ ’’کیا سکنڈے نیویا میں‘ مشرقی یورپ میں‘ مغربی ممالک میں اور شمالی امریکا میں بھی انسانوں کے ساتھ ایسا سلوک برداشت کیا جاسکتا ہے؟‘‘

اعداد و شمار کے مطابق ۷۰ فی صد فلسطینی اسرائیل کی نسل پرست ریاست کے زیرانتظام خطِ غربت سے نیچے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اُن کی کاشتکاری‘ کاروبار‘ ملازمت‘ ہر چیز انتشار اور تذبذب کا شکار ہے۔ ایک یہودی عالم نے فتویٰ دیا ہے کہ غیریہودی کا خون‘ یہودی کے پائوں کے ناخن سے بھی کم اہمیت کا حامل ہے۔ لہٰذا اسرائیل میں قائم ہونے والی حکومتیں اس کی بالکل پروا نہیں کرتیں کہ اُن کے زیرتسلط علاقوں میں عرب باشندوںکو جو وہاں کے حقیقی باشندے ہیں‘ بنیادی حقوق حاصل ہیں یا نہیں۔ اسرائیل میں حکومت دائیں بازو کی ہو یا بائیں بازو کی‘ اُن کی اولین کوشش یہی چلی آ رہی ہے کہ فلسطینیوں کا ناطقہ بند کیے رکھا جائے۔ مسجد الاقصیٰ کو (معاذاللہ) نقشۂ ارض سے مٹا دیا جائے اور یہاں پر عظیم الشان ہیکل سلیمانی تعمیر کر دیا جائے۔

اسرائیل نے ۱۹۶۷ء کی چھے روزہ جنگ میں عرب ممالک کو شکست دی تھی‘ نیز مغربی کنارہ اور غزہ کی پٹی پر بزور طاقت قبضہ کر لیا تھا۔ اسرائیل کا اس پر یقین ہے کہ اس کی سرحدیں نیل سے فرات تک ہیں اور سعودی عرب‘ شام‘ لبنان‘ اُردن سمیت کئی عرب ممالک پر اسرائیل دائمی تسلط جمالینا چاہتا ہے تاکہ دنیا پر بنی اسرائیل کی حکمرانی کا خواب حقیقی روپ اختیار کر لے۔

غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے کی حالتِ زار کے بارے میں ڈیوس لکھتے ہیں: ’’۱۹۶۷ء سے ۳۰ لاکھ فلسطینی عرب باشندے اسرائیل کے فوجی تسلط میں ہیں۔ اُن کو اسرائیل کی شہریت بھی نہیں دی جاتی‘اُن کو جایداد اور زمین خریدنے کا حق بھی حاصل نہیں ہے۔ اُن کو شہری حقوق بھی حاصل نہیں ہیں۔ اسرئیل کی جیلیں غزہ اور مغربی کنارے کے باشندوں سے بھری رہتی ہیں (اس وقت بھی اسرائیلی جیلوں میں ۸ ہزار فلسطینی قید ہیں اور بھوک ہڑتال کیے ہوئے ہیں)۔ اُن کے گھروں کو باقاعدہ منصوبہ بندی سے مسمار کیا جاتا ہے۔ سرکاری طور پر شہریوں پر حملے کیے جاتے ہیں۔ شہریوں پر بموں سے حملہ سرکاری انتظام میں کیا جاتا ہے (شیخ احمد یاسینؒ اور ڈاکٹر عبدالعزیز رنتیسیؒ کو سرکاری انتظام اور سرکاری نگرانی میں شہید کیا گیا)۔ بار بار سزائیں دے کر اُن کو جسمانی طور پر معذور اور ناکارہ بنا دیا جاتا ہے۔ فلسطینیوں سے زمین چھینی جاتی ہے اور اسرائیلوں کے جتّھے وہاں لاکر بسا دیے جاتے ہیں۔ اِن کے گھروں اوربازاروں کے درمیان دیوار کھڑی کی جارہی ہے ]اسرائیل فلسطینی آبادیوں کے گردا گرد جو متنازعہ دیوار تعمیر کر رہا ہے اُس کی لمبائی ۶۵۰ کلومیٹر اور بلندی ۸ میٹر ہے[۔ فوجی حملوں سے‘ تشدد سے‘ جھوٹے مقدمات سے‘ نظربند اور قید کرنے سے‘ کرفیو کے نفاذ سے‘ علاقے کے گھیرائو سے‘ دیہاتوں اور شہروں کے محاصرے سے فلسطینیوں کی زندگی دُوبھر کر دی گئی ہے۔ اس پر مستزاد ملازمت اور کاروبار سے محرومی‘ پانی اور غذائی اجناس حاصل کرنے میں رکاوٹ اور طبی امداد حاصل کرنے میں درپیش رکاوٹیں ہیں جن کی بنا پر اسرائیل کا چہرہ سابقہ جنوبی افریقہ سے بھی بھدّا نظرآتاہے‘‘ (ص ۱۶۶)

یُوری اسرائیل کو یہودی ریاست قرار دینے کی شدید مذمت کرتا ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے آئین میں اس کے لیے جمہوری یا پارلیمانی ریاست نہیں‘ بلکہ ’’یہودی ریاست‘‘ کا ذکر ہے۔ دنیا کا ہر یہودی یہاں آکر ملازمت حاصل کر سکتا ہے‘ کاروبار کر سکتا ہے اور شان دار زندگی گزار سکتا ہے لیکن ۵ہزار برس سے مقیم فلسطینیوں کے لیے زندگی دُوبھر بنا دی گئی ہے۔

ابوغریب جیل کے واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک مبصر نے کہا کہ فلسطینی قیدیوں کی حالت اِن سے زیادہ ژولیدہ ہے۔نسل پرست اسرائیل نے مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر قبضہ جما رکھا ہے اور عربوں کی ریاستیں تو درکنار تمام اسلامی دنیا بھی انھیں واگزار کرانے کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھا رہیں۔

اس کتاب کے پہلے باب ’’صہیونیت‘‘ میں صہیونی تحریک کی تاریخ‘تھیوڈر ہرزل کے کردار‘ عالمی صہیونی تحریک کی طویل جدوجہد پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے اور فلسطینیوں کے جبری اور کئی برسوں تک جاری رہنے والے انخلا کو بنیاد بناکر اسرائیل کو نسل پرست ریاست قرار دیا گیا ہے۔ یُوری کا کہنا ہے کہ ’’فلسطینیوں کا اجتماعی‘ جبری انخلا انسانی حقوق کے عالم گیر منشور کی خلاف ورزی ہے‘‘ (ص ۸)۔ ہٹلر کے ہاتھوں ۶۰لاکھ یہودیوں کے قتل کو وہ مبالغہ آمیز قرار دیتا ہے۔ اُس کا خیال یہ ہے کہ یہودیوں کی اتنی بڑی تعداد میں قتلِ عام کی داستانیں اس لیے مشہور کی گئیں تاکہ ارضِ فلسطین پر قبضہ جمایا جائے اور ایک بے وطن قوم کے ساتھ ہمدردی کے جذبات ابھارے جاسکیں۔ ڈیوس تسلیم کرتا ہے کہ انسانی حقوق کے لیے یہ آواز بلند کرنے کے نتیجے میں مجھے ’اچھوت‘ قرار دے دیا گیا ہے اور میں اپنی ہی سرزمین پر اجنبی ہوں (ص ۱۰)۔ اُس کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے اپنے استعمار اور آمریت پر پردہ ڈالنے کے لیے سب سے بہتر یہی سمجھا ہے کہ فلسطین کا ایک ایک انچ ریاستی تصرف میں آجائے‘ بعد میں سیاسی جنگ تو وہ کسی بھی پلیٹ فارم پر امریکا کی مدد سے جیت سکتا ہے (ص ۱۸)۔ یہ پالیسی اسرائیل کو یہودی قومی فنڈ (JNF) کے نائب سربراہ جوزف ویز نے دی تھی۔ (ص ۱۹)

یہودیوں کے ظالمانہ کردار کے حوالے سے دیریاسین کے کئی واقعات بیان کیے گئے ہیں کہ اس علاقے کو فلسطینیوں سے خالی کرانے کے لیے اور عوام پر دہشت بٹھانے کے لیے ذبح کرنے سے لے کر جلا کر راکھ کر دینے تک کے حربے استعمال کیے گئے۔ پہلے باب میں عالمی صہیونی تحریک کے مکروہ عزائم اور اِن کے خوفناک منصوبوں پر بھی تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔

یُوری کے نزدیک یہ حکومتی غفلت نہیں‘ یہودی نسل کی فلسطینی عرب نسل کو اپنی تہذیب و ثقافت اور تاریخ سے محروم کر دینے کی کوشش ہے (ص ۵)۔ وہ اس پر اظہار افسوس کرتا ہے کہ معروف ذرائع ابلاغ بھی اسرائیل کو ’’مشرقِ وسطیٰ کی واحد جمہوری کونپل‘‘ سمجھتے ہیں اور عرب ممالک کی بادشاہتوں کو عوام دشمن قرار دے کر اسرائیل کے کردار کو قابلِ تعریف بناکر پیش کرتے  چلے آرہے ہیں۔ اس صورت حال میں اسلامی تاریخی آثار کی فکر کون کرے گا (ص ۳۸)۔ اس سلسلے میں وہ اقوامِ متحدہ اور اسرائیل کے معاملات پر بھی روشنی ڈالتا ہے اور اس کے بعد یہ    دل چسپ بحث اٹھاتا ہے کہ اصل میں یہودی کون ہے (ص ۷۱)۔ یُوری اس پر یقین رکھتا ہے کہ اقوامِ متحدہ نے انسانی حقوق کا منشور جو ۱۹۴۸ء میں تیار ہوا تھا اُس پر ہی عمل درآمد کر لیا جائے تو فلسطینی بہتر زندگی کا راستہ دیکھ سکتے ہیں۔

اگلے ابواب میں اسرائیل پی ایل او معاہدوں میں جس طرح اسرائیل کے وجود کو تسلیم کیا گیا اور جس طرح یاسر عرفات کو شکار کیا گیا اُس کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ فلسطین میں اسرائیل نسل پرستی مخالف تحریک (MAIAP) کا تعارف بھی کرایا گیا‘ نیز فلسطینی تاریخ میں جو اتار چڑھائو آئے ہیں اُن کا کہیں کہیں سرسری جائزہ لیاگیا ہے۔

یُوری ڈیوس کی کتاب ہر لحاظ سے ایک جامع کتاب ہے اور اس میں اسرائیل کی نسل پرستی کے حوالے سے ممکنہ حد تک تمام معلومات اکٹھی کر دی گئی ہیں۔ اُمت کے صاحبِ دل اور فہیم طبقے کے لیے ضروری ہے کہ اپنے دشمنوں کو بے نقاب کرنے کے لیے اپنی صلاحیتوں کو مجتمع کریں۔ بابری مسجد تو زمین بوس ہوچکی ہے‘ مسجد الاقصیٰ کے دشمن اپنے ’حتمی وار‘ کے لیے پر تول رہے ہیں۔ اس کے سدباب کے لیے تیاری کی بھی ضرورت ہے اور بیداری کی بھی۔ انسانی حقوق کا ایک کارکن تحقیق کی بنیاد پر اتنا کچھ کہہ سکتا ہے‘ اگر امت مسلمہ کا ہر فرد اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہے‘ اور اس کا کھل کر اظہار کرے تو بھی نقشہ تبدیل ہو سکتا ہے۔ (Apartheid Israel, Possibilities for the Struggle Within‘ Yri Davis ‘زیڈ-ای- ڈی پبلشرز‘ لندن‘ نیویارک‘ قیمت: ۹۵.۱۴ ڈالر۔ صفحات: ۲۴۸)

۲۰۰۴ء کو انتخابات کا سال کہا جا رہا ہے‘ اس لیے کہ اس سال ۸۰ ممالک میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ اس فہرست میں بہت سے مسلم ممالک بھی ہیں۔ انتخابات تو بھارت میں بھی ہوئے ہیں جن میں بڑے بڑے مسلم ممالک سے زیادہ مسلمان ووٹروں نے حق ووٹ استعمال کیا ہے۔ مسلم ممالک پر عموماً الزام یہ ہے کہ یہاں جمہوریت نہیں ہے اور انتخابات بھی ۹۹ فی صد کامیابی والے ہوتے ہیں۔ اسلام اور جمہوریت کی بحث اپنی جگہ‘ جمہوریت اور انتخابات کی بحث بھی کافی وزن رکھتی ہے۔ انتخابات کو جمہوریت کی علامت کہا جاسکتا ہے۔ لیکن ایسے انتخابات بھی ہوتے ہیں کہ جمہوری اقدار کو نشوونما دینے کے بجاے ان کا کریا کرم ہی ہوجائے۔ گذشتہ عرصے میں تین مسلم ممالک انتخابات سے گزرے‘ ان کا ایک مختصر جائزہ پیش ہے۔

  • انڈونیشیا میں وفاقی پارلیمان کے انتخابات ۵ اپریل ۲۰۰۴ء کو منعقد ہوئے۔ سیکولر نظریات میں یقین رکھنے والی دو بڑی جماعتیں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔ مغربی دنیا میں شائع والے کئی تجزیوں اور تبصروں میں اس امر پر سُکھ کا سانس لیا گیا کہ ’اسلام پسندوں کا خطرہ ٹل گیا ہے اور جمہوریت کا بول بالا ہوا ہے‘۔ آیندہ ۵ جولائی کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں موجودہ صدر میگاوتی سکارنوپتری کی شکست کے واضح امکانات موجود ہیں۔ اُس کی سب سے بڑی وجہ اقتصادی تنزل‘ ملازمتوں کی عدم فراہمی اور میگاوتی کی اکثر معاملات سے نگاہ چُرانے کی پالیسی ہے۔ جمہوری پارٹی نے اپنے ہی ووٹروں کو مایوس کیا ہے اور اُن کے غضب کا نشانہ بنی ہے۔

انڈونیشیا کو دنیا کے سب سے بڑے مجمع الجزائر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ۱۸ہزار جزائر میں ۲۲ کروڑ انسان بستے ہیں‘ جب کہ ۸۸ فی صد مسلمان‘ ۹ فی صد عیسائی‘ اور ۲ فی صد ہندو یہاں آباد ہیں۔ شرحِ تعلیم ۸۳ فی صد ہے۔ جنرل سوہارتو کے اقتدار کے ۳۲ سال نہ ہوتے تو انڈونیشیا کی تاریخ بالکل مختلف ہوتی۔ آج کے انڈونیشیا میں ۲۱ کروڑ افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں‘ جب کہ ایک کروڑ افراد ملازمت سے محروم ہیں اور ۳ کروڑ افراد کو صرف جُزوقتی روزگارمہیا ہے۔ ان حالات میں ریاستی بدعنوانی‘ حکومتی نااہلی اور اقتصادی مسائل کے موضوعات ہی تمام انتخابات پر چھائے رہے کیونکہ ان مسائل کے حل کے لیے نہ گولکر پارٹی کچھ کرسکی نہ جمہوری پارٹی۔

سابق صدر سوہارتو کی گولکر پارٹی نے ۵۵۰ کے ایوان میں ۱۲۸ نشستیں حاصل کرلی ہیں اور آیندہ صدارتی انتخابات میں جنرل ورانٹو گولکر پارٹی کے امیدوار ہوں گے۔ اُن کے بارے میں گمان ہے کہ انڈونیشیا کے لیے وہ ایک مربوط اقتصادی پروگرام ترتیب دے سکیں گے۔ اُن کے مخالفین اُن پر الزام لگاتے ہیں کہ سوہارتو اور اُس کے اہلِ خانہ‘ نیز اُن کے اعزہ و اقربا ملکی دولت کو دونوں ہاتھوں سے تین عشروں تک لُوٹتے رہے ہیں اور ورانٹو ان کے دستِ راست بنے رہے۔ اُن پر دوسرا بڑا الزام یہ ہے کہ مشرقی تیمور میں جب علیحدگی کی تحریک چل رہی تھی تو مشرقی تیمور کے عیسائیوںکے ساتھ فوج نے ظلم و زیادتی کی اور اُس وقت اُس علاقے میں فوج کے کمانڈر جنرل ورانٹو تھے۔ ڈھائی برس قبل چینی متمول آبادی کے خلاف عوامی ردعمل میں فوج کچھ نہ کرسکی۔ جب کئی شہروں میں فسادات پھوٹ پڑے تھے اور لُوٹ مار کا بازار گرم تھا اور اس   لُوٹ مار میں فوجی بھی مالِ غنیمت حاصل کر رہے تھے۔

آزادی کے ۵۵ برسوں میں ہونے والے دوسرے قومی انتخابات میں برسرِاقتدار جمہوری جدوجہد پارٹی نے اندازے سے بہت کم ۱۰۸ نشستیں حاصل کی ہیں۔ یہ انتخابی نتائج نسبتاً چونکا دینے والے ہیں۔ جمہوری پارٹی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ غریبوں کی پارٹی ہے‘ اور مزدور کسان دوست پارٹی ہے۔ یہ اسلام پسند یا تعصب پھیلانے والی پارٹی نہیں۔ لیکن انتخابی نتائج میں راے دہندگان نے میگاوتی کی کارکردگی پر عدمِ اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ اگر میگاوتی دوسری چھوٹی جماعتوں کو اپنے ساتھ بھی ملا لے‘ تب بھی اُس کی جماعت کے لیے صدارتی انتخابات میں کامیاب ہونا مشکل ہے۔ اسی لیے پارٹی نے ایک سابق جرنیل کو صدارتی اکھاڑے میں اُتارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ بھی شنید ہے کہ یہ پارٹی معروف دانش ور اور اسلامی رہنما امین رئیس کو نائب صدارت کا عہدہ دے دے گی۔ انڈونیشیا کے صحافتی حلقوں میں یہ بات مشہور ہے کہ سابق صدر عبدالرحمن واحد کو کچھ نظر نہیں آتا تھا لیکن میگاوتی کو کچھ سنائی نہیں دیتا اور کئی اہم سیاسی مسائل حل طلب پڑے رہتے ہیں۔

حالیہ انتخابات میں ۲۴ پارٹیوں نے حصہ لیا۔ کئی فٹ چوڑے بیلٹ پیپر کی خبریں پریس میں آچکی ہیں۔ ان انتخابات کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ سابق صدر عبدالرحمن واحد کی پارٹی کو   ۷فی صد ووٹ ملے ہیں اگرچہ اُن کا دعویٰ ہے کہ اُن کے ۳ کروڑ حامی ہیں۔ اسی طرح دائیں بازو کی بیداری پارٹی PANکو بھی ۶ فی صد ووٹ ملے جس کی سربراہی امین رئیس کر رہے ہیں اور اُن کو سابقہ انتخابات میں بھی اتنے ہی ووٹ ملے تھے۔ امین رئیس آیندہ انتخابات میں صدارتی امیدوار بننے کے لیے صلاح مشورہ کر رہے ہیں۔ اُن کی شناخت مسلم دانش ور کی ہے۔

انڈونیشیا کی سیاست میں ایک اہم پیش رفت انصاف و خوش حالی پارٹی (PKS)کے ووٹ بنک میں اضافہ ہے۔ اس پارٹی میں تعلیم یافتہ لوگوں کی اکثریت ہے اور یہ قومی و عالمی معاملات پر راے عامہ کو متحرک کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ۱۹۹۹ء میں ہونے والے انتخابات میں اس پارٹی نے ۵.۱ فی صد ووٹ حاصل کیے تھے‘ جب کہ اس بار اس نے ۴.۷ فی صد ووٹ اور ۴۵ نشستیں حاصل کی ہیں۔ اس جماعت نے صاف ستھرا معاشرہ‘ نیز بدعنوانی‘ سازش‘ اقربا پروری نامنظور کے نعرے پر انتخابی مہم چلائی۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ آیندہ پانچ برسوں میں اس جماعت نے تنظیمی طور پر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا تو آیندہ انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرسکتی ہے۔ عراق پر ۲۰ مارچ ۲۰۰۳ء کو امریکا نے حملہ کیا تو اس جماعت نے احتجاجی مظاہروں میں ۳ لاکھ افراد کو سڑکوں پر لاکھڑا کیا تھا۔ ربڑ‘ قدرتی وسائل اور افرادی قوت سے مالا مال اس ملک کو ایک باصلاحیت قیادت ہی تعمیروترقی کے راستے پر ڈال سکتی ہے‘ ورنہ بدعنوانی اور کھربوں کے غبن نے اس کی اقتصادیات کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ اسلامی فکر کی حامل جماعتوں اور جہادی گروہوں پر حکومت ہاتھ ڈال چکی ہے اور ابوبکر بشیر ان کا مشقِ ستم بنے ہوئے ہیں‘ نام نہاد ’’دہشت گردی کے خلاف مہم‘‘ کا خاتمہ بھی اہلِ انڈونیشیا کے دل کی آواز ہے۔

  • ملایشیا میں انڈونیشیا کی طرح مَلے (Mlay)قوم آباد ہے۔ لیکن دونوں ممالک کی معیشت اور قومی اُٹھان اور افراد کے طرز و معیارِ زندگی میں واضح فرق ہے۔ انڈونیشیا میں   فی کس آمدنی ۳ہزار امریکی ڈالر‘ جب کہ ملایشیامیں ۹ ہزار امریکی ڈالر ہے۔ انڈونیشیا کے برعکس ملایشیا میں خوشحالی کا دور دورہ نظرآتا ہے اور ایسے افراد بھی بآسانی مل جاتے ہیں جو محنت و صلاحیت سے مضبوط کاروباری ساکھ بنا چکے ہیں۔

۱۹۵۷ء میں برطانیہ سے آزادی کے بعد یہاں پارلیمان کے انتخابات باقاعدگی سے ہورہے ہیں۔ قومی اسمبلی کے لیے گیارھویں انتخابات ۲۱ مارچ ۲۰۰۴ء کو منعقد ہوئے۔ ۱۹۷۸ء سے یونائیٹڈ مَلے نیشنل آرگنائزیشن (UMNO) یہاں برسرِاقتدار ہے۔ اُس کے قائدین کا اعلان ہے کہ ہماری جماعت قدامت پرست نہیں‘ بلکہ روشن خیال اسلام پر یقین رکھتی ہے اور ڈاکٹر مہاتیرمحمد اس کی رہنمائی کرتے رہے ہیں۔مہاتیر کی اقتدار سے برضا و رغبت دست برداری کو انتہائی مثبت اقدام کے طور پر دنیا بھر میں سراہا گیا اور نائب وزیراعظم عبداللہ بداوی نے وزیراعظم کے طور پر اقتدار سنبھالا۔ بطور وزیراعظم بداوی اور کابینہ کے لیے یہ انتخابات سب سے بڑا امتحان تھے۔ وزارتِ عظمیٰ کا تمام دور اُنھوں نے حزبِ اختلاف کو کمزور کرنے اور ’امنو‘ کی جڑیں گہری کرنے میں گزارا جس میں وہ بے انتہا کامیاب رہے۔ پارلیمان کی ۲۱۹میں سے ۱۹۰نشستیں ’امنو‘ نے جیت لی ہیں۔ آیندہ پانچ برس ’امنو‘ کو کسی مضبوط حزبِ اختلاف کا سامنا نہیں رہے گا۔ اگر جمہوری روایات کے اتباع میں حزبِ اختلاف کو نشوونما پانے کا حق دیا گیا تو یہ خوش آیند اقدام تصور کیا جائے گا۔

اسلامی نظریات کی حامل اسلامی پارٹی ملایشیا (پاس) نے خلافِ معمول قابلِ قدر کامیابی حاصل نہ کی۔ کلنتان کے صوبے میں ’پاس‘ تین بارپہلے بھی حکومت بنا چکی ہے اور ان انتخابات میں صوبائی اسمبلی میں اس بار اتنی نشستیں بمشکل حاصل کی ہیں کہ آیندہ حکومت بناسکے۔ لیکن ترنگانو کے صوبے میں اس جماعت کو واضح شکست ہوئی ہے۔ ’پاس‘ کے مرشدعام نک عبدالعزیز اور اس کے مرکزی صدر عبدالہادی آوانگ صوبائی نشستوں پر کامیاب ہوئے ہیں‘ جب کہ وفاقی اسمبلی میں ’پاس‘ نے صرف سات نشستیں حاصل کی ہیں۔ یہ نتائج اُن کے لیے بھی مایوس کن ہیں۔ وہ انتظامیہ کی ملی بھگت کو خارج از امکان قرار نہیں دے رہے ہیں۔

ملایشیا کے سیاسی حالات پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ بداوی کی مہم کی نگرانی       براہِ راست مہاتیرمحمد نے کی اور ۱۱ستمبر کے واقعات اور جدید اسلام کے نعرے پر انتخابی مہم چلائی گئی۔ ’پاس‘ کے بارے میں مشہور کیا گیا کہ یہ دو رکعت کے امام‘ ملّا لوگ ہیں‘انھیں جدید چیلنجوں کا علم نہیں ہے۔ یہ عورتوں کے حقوق کے مخالف ہیں اور غیرمسلموں کے ساتھ امتیازی سلوک پر یقین رکھتے ہیں۔ طالبان نما اسلام اس دور میں نہیں چلے گا‘ شریعت کی باتیں کرنا حالات سے ناواقفیت اور قوم کو پتھر کے دور میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ظاہر ہے ملایشیا کے عوام ۱۹۹۸ء کے اقتصادی بحران کے بعد کوئی نیا خطرہ مول لینے کو تیار نہ تھے۔ امریکا بہادر کی دہشت گردی مخالف مہم نے بھی اس میں کردار ادا کیا۔ کلنتان اور ترنگانو میں ’پاس‘ کی صوبائی حکومتیں جو مثبت اقدامات کرتی رہی ہیں اُن کو بھرپور انداز میں ذرائع ابلاغ کے ذریعے متعارف نہ کرایا گیا۔

ممکن ہے کہ ’امنو‘ کو دو تہائی اکثریت ملنے کے بعد بداوی کی حکومت ایسے قوانین پاس کروا لے جس سے ملک کے وقار کو دھچکا پہنچے۔ ’روشن اسلام‘ کی پیروی کرتے ہوئے مغربی ثقافت کے لیے راہیں ہموار کر دے اور عوام کے لیے نظریاتی و اخلاقی مشکلات پیدا ہوجائیں‘ کیونکہ بے انتہا طاقت اندھا کر دیتی ہے۔ داخلی سلامتی کے ایک قانون پر تو پہلے ہی عمل درآمد ہو رہا ہے کہ کسی بھی شخص کو وجہ بتائے اور مقدمہ چلائے بغیر جیل میں غیرمعینہ مدت تک رکھا جاسکتا ہے۔ سابقہ نائب وزیراعظم انور ابراہیم کا مقدمہ بھی سب کے علم میں ہے۔ انھیں سیاسی مخالفت کی بنا پر عمرقید کی سزا سنائی گئی۔ انور ابراہیم کی بیگم نے انصاف پارٹی قائم کی اور صرف ایک نشست حاصل کر سکیں۔ اقتصادی میدان میں حکومت کو ایسی متوازن پالیسیوں کی تشکیل کی شدید ضرورت ہوگی جس سے درمیانہ طبقہ اور غریب طبقہ بھی خوش حالی کے ثمرات سے فائدہ اٹھا سکے اور ملک کی اکثریت سیاسی انتقام اور قانونی بندشوں سے نجات حاصل کرسکے۔ امید ہے مہاتیرمحمدجوغلطیاں باصرار دُہراتے رہے ہیں‘ بداوی اُن سے پرہیز کریں گے۔

  • الجزائر میں ۸ اپریل کو صدارتی انتخابات ہوئے۔ ۱۹۹۱ء کے انتخابات میں فوج نے مداخلت کرکے اسلامی نجات محاذ کی کامیابی کا راستہ روک لیا تھا اور اس کے بعد ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی تھی۔ حکومت اور مخالفین کے درمیان مسلسل جنگ نے ایک لاکھ باشندوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ حکومت کے تابع ذرائع ابلاغ کا اصرار ہے کہ قانون دشمنوں کا صفایا کردیا گیا ہے‘ تاہم مسلح باغی زیرِزمین چلے گئے ہیں۔ حکومت کہتی ہے امن قائم ہو رہا ہے۔

پانچ برس قبل بھی صدارتی انتخابات ہوئے تھے اور حکومت نے سرکاری مشینری کو     بے دریغ اور کھلے عام اس طرح استعمال کیا کہ انتخابات سے عین ایک روز قبل تمام صدارتی امیدواروں نے انتخابات کا مقاطعہ کر دیا تھا۔ موجودہ انتخابات اس لحاظ سے دل چسپ تھے کہ اسلامی نجات محاذ پر حسب معمول پابندی عاید ہے۔ ۶لاکھ حاضر فوج سے ووٹ ڈلوائے گئے اور یہ سہولت بھی تھی کہ چاہیں تو اپنے افسران کے سامنے ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ دیگر صدارتی امیدواروں کو جلسے منعقد کرنے اور ریلیاں نکالنے کی محدوداجازت دی گئی۔ ۳کروڑ ۴۰ لاکھ آبادی کے اس ملک میں ایک کروڑ ۸۰ لاکھ راے دہندگان ہیں۔ اُن کی ۵۸ فی صد تعداد نے صدارتی انتخابات میں ووٹ ڈالے اور ظاہر ہے استبداد پسند صدر نے واضح اکثریت حاصل کرنا ہی تھی‘ سوکرلی۔ صدر عبدالعزیز بوتفلیکا نے من پسند نتائج کے لیے دھڑلے سے نوکرشاہی کو استعمال کیا۔ صدارتی انتخابات کے لیے کاغذات جمع کرانے والوں کی اکثریت کو بے بنیاد الزامات کی بنا پر انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا گیا۔ ذرائع ابلاغ نے بوتفلیکا کی گراں قدر قومی خدمات اور ملکی استحکام میں تابناک کردار کے فسانے شب و روز عوام کو سنائے۔

ان نام نہاد انتخابات میں اسلام پرستوں کے نمایندے کے طور پر عبداللہ جاب اللہ‘ الاصلاح پارٹی کی طرف سے حصہ لے رہے تھے‘ نتائج کا تو علم ہی تھا‘ تاہم تمام تر پابندیوں کے باوجود وہ اسلام پسند اور حکومت مخالف ووٹروں کو کسی نہ کسی طرح پولنگ اسٹیشن تک لانے میں کامیاب رہے اور کُل ڈالے گئے ووٹوں کا ۵فی صد حاصل کر کے تیسرے نمبر پر رہے۔ ان کی شکست پر اُن سے تبصرہ کرنے کو کہا گیا تو اُنھوں نے کہا کہ: جو کچھ عالمِ عرب میں اور جو کچھ الجزائر میں ہوتا چلا آ رہا ہے‘ اس لحاظ سے یہ جمہوریت بھی غنیمت ہے۔

عبدالعزیز بوتفلیکا کے صدارتی انتخابات اہلِ پاکستان کے لیے اجنبی نہیں ہیں۔ پاکستان کے دو سابقہ فوجی حکمران یہ کام احسن طریقے سے ریفرنڈم کے نام پر انجام دے چکے ہیں۔ عبدالعزیز بوتفلیکا ۸۵ فی صد ووٹ حاصل کر کے صدارت کے منصب پر دوبارہ فائز ہوچکے ہیں۔ سیکڑوں بربر مخالفین جو پہاڑوں میں روپوش ہیں اور ان کے استبداد سے تنگ ہیں‘ آیندہ کیا پالیسی اختیار کرتے ہیں‘اس کا تعین آنے والا وقت ہی کرے گا۔

بلقان کی سرزمین پر اسلام کا علَم بلند کرنے اور بوسنیا ہرذی گووینا کی آزادی برقرار رکھنے میں مجاہدانہ کردار ادا کرنے والے علی عزت بیگووچ ۱۹ اکتوبر۲۰۰۳ء کو اس دارِفانی سے رخصت ہوگئے۔ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون! اُن کی وفات سے بوسنیا ایک اعلیٰ پائے کے  دانش ور‘ تجربہ کار قانون دان اور اصولوں کی جنگ لڑنے والے سیاست دان سے محروم ہو گیا ہے۔ مسلم دنیا عمومی طور پر اور اسلامی تحریکات خصوصی طور پر اُن کی جدائی پر ملول ہیں اور ربِ کریم کے حضور اُن کی سرخروئی کے لیے دُعاگو بھی۔

علی عزت بیگووچ ۸ اگست ۱۹۲۵ء کو پیدا ہوئے۔ اِن کے اجداد بلغراد شہر کے رہنے والے تھے۔ علی کی پیدایش سراجیوو کے نواح میں ہوئی۔ جب ان کی عمر دو سال تھی تو اِن کا خاندان مستقلاً سراجیوو شہر میں مقیم ہوگیا۔ علی کے دادا فوجی تھے اور ان کی دادی ترکی سے تعلق رکھتی تھیں۔ علی کے والد ایک چھوٹی کمپنی میں ملازم تھے۔ علی پر اپنی والدہ کے بے انتہا اثرات تھے جوایک دین دار خاتون تھیں۔ انھوں نے اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد گراد کاک شہر کا رُخ کیا تاکہ فوج کی جبری بھرتی سے بچ سکیں۔

اُس زمانے میں یوگوسلاویہ پر کمیونسٹ حکمران تھے۔ مذہب سے برگشتہ کرنے والا لٹریچر اسکول میں لازماً پڑھایا جاتا تھا لیکن ماں کی تربیت کے سبب خدا مخالف‘ مذہب دشمن خیالات ان کے لیے اجنبی ہی رہے۔ ان کو مطالعے کا شوق تھا اور گریجوایشن سے پہلے وہ برگسان‘ کانٹ اور سپینگلر کی تحریروں کا مطالعہ کر چکے تھے۔ ۱۹۴۳ء میں گریجوایشن کا امتحان پاس کیا۔ وہ قانون کو پیشے کے طور پر اختیار کرنا چاہتے تھے لیکن کاتب تقدیر نے اُن کے لیے قوم کی قیادت لکھ دی تھی۔ اُنھوں نے فوج میں بادلِ ناخواستہ شمولیت اختیار کی اور پھر اس کو خیرباد بھی کہہ دیا۔ قرآن‘ حدیث‘ فقہ‘ تاریخِ اسلام‘فکرِاقبال اور عیسائیت کا گہرا مطالعہ انھوں نے اپنے شوق سے کیا۔ پھر ان کا تعلق یوگوسلاویہ کے نوجوانوں کی تنظیم ’’ینگ مسلمز‘‘ کے ساتھ ہوگیا۔ زغرب‘ بلغراد اور سراجیوو یونی ورسٹی کے طلبہ اس کے رُوحِ رواں تھے۔ ۲۲برس کی عمر میں اُنھوں نے رسالہ مجاھدکی ادارت سنبھالی۔کمیونسٹوںنے یکے بعد دیگرے نمایاں طلبہ کو گرفتار کرلیا اور کئی نوجوانوں کو تختۂ دار تک پہنچا دیا۔ علی کو مختلف الزامات کی بنا پر گرفتار کر لیا گیا اور تین سال قید کی سزا سنائی گئی۔ قید کے دوران علی لکڑیاں کاٹتے رہے اور قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔ اس قید نے تخلیقی ذہن کے مالک اور شعروادب سے دل چسپی رکھنے والے علی کو جفاکش بنا دیا اور بعد میں وہ بڑی سے بڑی آزمایش کو مسکرا کر جھیلتے رہے۔ مذکورہ تنظیم باضابطہ طور پر رجسٹر نہ ہو سکی لیکن اس کی سرگرمیاں طویل عرصہ جاری و ساری رہیں۔

کمیونسٹوں کے ہاتھوںنوجوان طلبہ کی گرفتاریوں اور سزائوں کا دُوسرا دور ۱۹۴۹ء میں شروع ہوا۔ علی کا کہنا ہے کہ ہمارے ساتھیوں کو جس قدر سزائیں سنائی گئیں‘ اگر اُنھیں یک جا کردیا جائے تو کئی ہزار سال بن جاتے ہیں۔ علی نے قانون کی اعلیٰ ڈگری ۱۹۵۶ء میں حاصل کی۔ ۱۰برس تک وہ ایک تعمیراتی کمپنی سے بھی منسلک رہے اور اخبارات میں ان کے مضامین بھی شائع ہوتے رہے۔

علی کے مُدلل مضامین مختلف جرائد میں وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہے۔ وہ ’اسلامی ڈیکلریشن ‘کے نام سے یکجا کر دیے گئے اور کتابی صورت میں شائع ہوئے لیکن اِن کی اشاعت کے ۲۰ برس بعد حکومت ِ یوگوسلاویہ نے اِن مضامین کی بنا پر علی عزت اور ان کے ۱۳ ساتھیوں کو گرفتار کرلیا۔ اِن مضامین میں کہا گیا تھا کہ اپنے دین کی طرف پلٹنے اور رجوع کرنے سے مسلمان سُرخرو ہو سکتے ہیں۔ بغاوت کے زیرعنوان ۱۰۰ روز تک جاری رہنے والے اس مقدمے نے ’مقدمہ سرائیوو‘ کے نام سے غیرمعمولی شہرت حاصل کی۔ علی کے خیالات کو بنیاد پرستی کی دعوت قرار دیا گیا۔ ۲۳ مارچ ۱۹۸۳ء کو ۱۹ سال کا ریکارڈ مرتب کرکے عدالت میں پیش کیا گیا کہ علی عزت اور بہمن عمرکتابوں کے ذریعے زیرزمین سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور موجودہ حکومت کا تختہ اُلٹ کر اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ علی کو ۱۴ سال قید کی سزا سنائی گئی۔

علی عزت بوسنیا کے مسلم عوام کی حالت ِ زار پر پہلے بھی فکرمند رہتے تھے۔ قیدخانے میں پہنچ کر اُنھیں زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر ہونے والے ظلم و ستم کا اندازہ بھی ہوگیا۔ جیل کے اندر ہی اُنھوں نے سیاسی جدوجہد کا تفصیلی خاکہ مرتب کرلیا۔ اس سے ۲۰‘۲۵ برس قبل علی عزت نے اسلام‘ عیسائیت‘دورِ جدید اور آیندہ لائحہ عمل کے زیرِعنوان چند مضامین لکھے تھے۔ دوسری بار قید ہونے کے بعد اُنھیں موقع مل گیا کہ اِن مضامین کو ازسرنو تحریر کریں۔ یہ مضامین کتابی شکل میں امریکہ سے Islam between East & West کے نام سے شائع ہوئے۔ امریکہ میں اس کتاب کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور اس کے کئی زبانوں میں ترجمے بھی شائع ہوئے جس سے علی عزت کی شہرت سمندرپار پہنچ گئی۔ مذکورہ کتاب کا اُردو ترجمہ ادارہ معارفِ اسلامی لاہور اسلام اور مشرق و مغرب کی تہذیبی کش مکش کے نام سے شائع کرچکا ہے۔

چھ برس بعد علی عزت کو قید سے رہائی ملی۔ اُس وقت رُوس کے زوال کے بعدیوگوسلاویہ کی کمیونسٹ پارٹی شکست و ریخت کا شکار ہو رہی تھی۔ علی عزت نے اپنے ۴۰دوستوں کے ہمراہ پارٹی فار ڈیموکریٹک ایکشن (SDA) قائم کی۔۲۷ مارچ ۱۹۹۰ء کو اس کا منشور منظرِعام پر آیا‘ انسانی و جمہوری اقدار کی بالادستی کی جدوجہد اس کا مطمح نظر ٹھیرا۔ اسی سال قومی انتخابات ہوئے تو بھرپور مہم چلائی گئی’’اپنی سرزمین اپنا نظریہ‘‘ اِن کا نعرہ تھا۔ اُس وقت یوگوسلاویہ کے صوبہ بوسنیا ہرذی گووینا میں رجسٹرڈ مسلمانوں کی تعداد ۲۲ لاکھ ۸۹ ہزار تھی۔ اسمبلی کی ۲۴۰ نشستوں میں سے ۸۶ پر علی عزت کے ساتھی کامیاب ہوئے اور یہ پارٹی قوت بن کر اُبھری۔

روس کے بعد یوگوسلاویہ میں ٹوٹ پھوٹ کا آغاز ہوا تو مقدونیہ‘ مانٹی نیگرو‘ کروشیا اور سلووینیا نے اسمبلی میں قراردادیں پاس کر کے آزادی کا اعلان کر دیا اور ان کے اعلانِ آزادی کا خیرمقدم کیا گیا۔ ان حالات میں بوسنیا کی اسمبلی نے بھی آزادی کی قرارداد پاس کرلی۔ ۲۲ مئی ۱۹۹۲ء کو یورپین یونین نے بوسنیا کی آزادی کو تسلیم کر کے ممبرشپ دے دی۔ بوسنیا کے لیے جو جھنڈا منتخب کیا گیا وہ ہسپانیہ کے مسلمانوں کا تھا جو وہ اپنے دورِ عروج میں استعمال کرتے رہے تھے۔ لیکن بوسنیا کی آزادی نے بلقان کے علاقے میں آگ اور خون کے ایک شرمناک سلسلے کا آغاز کر دیا۔ آرتھوڈوکس سربوں اور کروٹوں نے بوسنیا کے اعلان کو تسلیم نہ کیا۔ ۱۹۹۵ء تک بوسنیا دنیا کے اخبارات کی نمایاں ترین سرخیوں کا عنوان بنا رہا۔ ۲۲ لاکھ آبادی میں سے ۲ لاکھ مسلمان (جو ۵۱ ہزار مربع میل رقبے پر پھیلے ہوئے تھے) شہید کر دیے گئے۔ مسلمانوں کو تعذیب خانوں (Concentration Camps)میں رکھا گیا‘اُن کی عورتوں کی جبری اجتماعی آبروریزی جنگی تدبیر (war tactic)کے طور پر کی جاتی رہی‘ مسلمانوںکے دلوں میں خوف بٹھانے کے لیے حلقوم پھاڑ کر تڑپانے اور ہلاک کرنے (throat slitting)کا طریقہ متعارف کرایا گیا۔ یوگوسلاویہ کے جانشین سربیا کے صدر سلوبودان میلاسووچ اور رادوان کرادزچ نے ساری دنیا اور اس کے عالمی اداروں کو پسِ پُشت ڈال کر مسلمانوں کے شہر تباہ کر دیے‘ مسجدیں شہیدکر دیں‘ کوچہ و بازار خاک کر دیے۔ عالمی اداروں‘ مثلاً اقوامِ متحدہ کی امن فوج‘ یورپین یونین کمیشن اور دیگر فلاحی و رفاہی تنظیموں کو زچ کرکے رکھ دیا۔ مذاکرات کی میز پر بھی نئے نئے دائوپیچ آزمائے گئے‘ تبادلۂ آبادی‘ محفوظ مقامات (Safe Havens)‘ وسیع تر آزادی‘ وفاقی حکومت‘       چھ صوبے اور کتنی ہی تدابیر کے ذریعے بوسنیا کو آزادی سے دستبردار کرنے کی کوشش کی گئی۔ سراجیوو کا کئی سال محاصرہ رہا۔ موستار‘ بنجالوکا‘ اور دیگر شہروں اور چھوٹے بڑے قصبوں پر ٹینک چڑھا دیے گئے۔ حقیقی معنوں میں بلڈوزر پھیر دیے گئے۔ شمالی اوقیانوس معاہدہ عظیم (NATO) اور کئی مؤثرادارے اس نسل کشی پر خاموش تماشائی بنے رہے کیونکہ خون یورپین کا نہیں یورپین مسلمان کا بہہ رہا تھا۔

پانچ برسوں میں نجانے کتنے مواقع آئے کہ جب یہ حکومت ختم ہو جاتی اور بوسنیا‘ سربیا کی گودمیں چلا جاتا لیکن ایک شخص تھا جس نے ہمت نہ ہاری اور وہ شخص بوسنیا کا صدر علی عزت بیگووچ تھا‘ جو ڈٹا رہا‘ سفارتی جنگ بھی لڑی‘ دیگر ممالک سے امداد و تعاون کے لیے درخواستیں بھی کرتا رہا‘ عالمی اداروں کے دروازے بھی کھٹکھٹاتا رہا‘ امن اور انصاف کی دُہائیاں دیتا رہا‘ اپنے عوام کے لاشوں کو دفناتا بھی رہا‘ بچ رہنے والوں کو پُرسہ دیتا رہا‘ فوج کی تنظیمِ نو کرتا رہا اور بالآخربوسنیا کو اس صدی کے المناک طوفانِ حوادث سے نکال کر آزادی کی شاہراہ پر گامزن کردیا۔ بوسنیا کے عوام پر کیا گزری‘ کون کون سے معاہدے ہوتے رہے‘ کہاں کہاں کانفرنسیں ہوتی رہیں‘ عالمی چودھریوں اور شاطروں کا کیا کردار رہا‘ اس کی تفصیلات محمد الیاس انصاری نے اپنی کتابوں مقدمۂ بوسنیا اور سانحۂ بوسنیا میں فراہم کر دی ہیں۔

بوسنیا کے لیے حمایت حاصل کرنے کے لیے علی عزت بیگووچ ایران‘ ترکی‘ اٹلی‘ فرانس‘ جرمنی‘ برطانیہ‘ امریکہ اور ہر اُس جگہ گئے کہ جہاں انصاف مل سکتا تھا یا داد رسی ہو سکتی تھی۔ اپنی خودنوشت سوانح عمری Inescapable Questions میںانھوں نے اس دور کی تفصیلات فراہم کی ہیں۔ امیرجماعت ِ اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد جنگِ بلقان کے دوران ان سے جاکر دو بار ملے اور اُمت ِ مسلمہ کی طرف سے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ مذکورہ کتاب میں جو اسلامک فائونڈیشن لسٹر نے شائع کی ہے‘ علی عزت نے اس کا اعتراف کیا ہے کہ دُنیا بھر کے مسلمانوں نے بوسنیا کے مسلمانوں کی اخلاقی پشت پناہی کی۔ جو ممالک سرکاری طور پر اُن کے لیے آواز بلند کرتے رہے اُن کی تفصیلات بھی درج ہیں۔

علی عزت بیگووچ نے ۱۴ دسمبر ۱۹۹۵ء کو Dayton کے مقام پر ہونے والے معاہدے پر دستخط کر دیے جس کے بعد بلقان میں جنگ کا خاتمہ ہو گیا اور موجودہ بوسنیا وفاق وجود میں آیا۔ اس میں ایک صوبہ بوسنیائی سربوں پر مشتمل ہے‘ جب کہ دوسرے صوبے میں مسلمانوں اور کروٹوں کی فیڈریشن ہے۔ اُن پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ اصل مطلوب رقبے سے کم پر رضامندی کا اظہار کررہے ہیں لیکن اُن کے حالات ایسے ہی تھے جن کا قائداعظم محمدعلی جناح کو قیامِ پاکستان کے موقع پر سامنا تھا۔ بوسنیا کے مسلمانوں نے جو لازوال قربانیاں دی ہیں اُس کا اندازہ برعظیم سے ہجرت کرکے آنے اور خاندان کٹوانے والے بہتر سمجھ سکتے ہیں ۔ ۱۹۹۶ء میں بوسنیا کی صدارت کے لیے تین ممبران پر مبنی صدارتی کونسل میں علی عزت بھی شامل تھے۔ بعدازاں سال ۲۰۰۰ء میں اُنھوں نے مسلسل خرابیِصحت کی بنا پر استعفا دے دیا۔بوسنیا کے لوگ اُنھیں محبت کے ساتھ ’’باباجان‘‘ کہتے ہیں۔

علی عزت بیگووچ پر الزام تھا کہ وہ انتظامی مشینری پر قابو نہیں پا سکے ہیں اور ملک میں بدعنوانی اپنے عروج پر ہے۔ عالمی اداروں کی طرف سے بحالی کے لیے ملنے والی بڑی بڑی رقوم سرکاری مشینری اور افسرہضم کر رہے ہیں۔ اُن کے مخالفین یہ بھی کہتے تھے کہ وہ اپنے بیٹے بقربیگووچ کو بوسنیا کا صدر بنانا چاہتے ہیں۔ علی عزت نے ان الزامات کی تردید کی اور اُمید ظاہر کی کہ بوسنیا کو جو اندرونی مسائل درپیش ہیں اُن میں جلد کمی آجائے گی۔

بوسنیا کی آزادی کی جنگ کے دوران علی عزت کو کئی سربراہانِ مملکت سے بار بار ملنے اور اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کا موقع ملا۔ انھیں امریکہ و یورپ کی یونی ورسٹیوں نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری بھی دی۔ اسلام کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف میں     فیصل ایوارڈ بھی دیا گیا۔ طویل عرصے تک بیمار رہنے کے بعد علی عزت بیگووچ ہم سے رخصت ہوچکے ہیں اُن کی وفات کے بعد اُن کی پارٹی کے تین دھڑوں میں تقسیم ہونے کے واضح امکانات موجود ہیں ‘تاہم آج بھی دُنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے وہ ہمت وجرأت کا مینارئہ نور ہیں  ع

خدا رحمت کُند ایں عاشقانِ پاک طینت را

علی عزت بیگووچ ایک جملہ بار بار کہا کرتے تھے اوروہ ہمارے لیے بھی غوروفکر کی راہیں وا کرتا ہے کہ ’جب زندگی کا کوئی متعین مقصد نہ رہے تو زندہ رہنا بے معنی ہو جاتا ہے‘۔