ڈاکٹر یوسف قرضاوی


’’[۱۲دسمبر ۱۹۸۳ء میں کویت میں خوں ریز دھماکے ہوئے نتیجتاً لبنانی حزب اللہ سے منسوب ۱۷ گوریلوں کو حکومت ِ کویت نے گرفتار کرلیا۔ ۵؍اپریل ۱۹۸۸ء کو ان کی رہائی کے لیے کویت ایرویز کی پرواز ۴۲۲ کو ]اغوا کرلیا گیا تھا۔ اس میں سوار بے گناہ بوڑھے، بچے اور عورتوں کو مسلسل ۱۶ دنوں تک خوف و ہراس کی حالت میں رکھا، بلکہ اغوا کنندگان نے بعض معصوموں کی جان بھی لے لی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اغوا کنندگان اپنے بارے میں متقی اور پرہیزگار ہونے کی بھی نمایش کرتے تھے اور ان کا دعویٰ تھا کہ انھوں نے طیارے کا اغوا اچھے اور نیک مقصد کے لیے کیا ہے۔ وہ نماز کے وقت نمازیں پڑھتے تھے، روزے رکھتے تھے اور ان کی زبانیں ذکرِ الٰہی میں مشغول رہتی تھیں۔

براہ کرم رہنمائی کیجیے کہ اس صورتِ حال میں اسلام کا کیا موقف ہے؟ کیا واقعی کسی اچھے اور نیک مقصد کے لیے اغوا جیسا گھنائونا جرم کیا جاسکتا ہے؟ کن گناہوں کی پاداش میں انھوں نے مسافروں کو اغوا کیا اور ان میں سے بعض کی جان لے لی؟ کیا اسلام  اس طرح بے گناہوں کو ڈرانے، دھمکانے اور ان کی جان لینے کی اجازت دیتا ہے؟‘‘

بلاشبہہ میں نے اور میرے جیسے اُن کروڑوں مسلمانوں نے، جن کا دل ابھی پتھر نہیں ہوا ہے، مذکورہ واقعے سے سخت اذیت محسوس کی تھی۔ میں نے اپنے خطبوں اور ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں اس حرکت کی سخت مذمت بھی کی تھی۔

بے گناہ افراد پر ظلم ڈھانا، گناہ اور جرم ہے خواہ وہ کسی بھی دین یا کسی بھی قوم اور ملت سے تعلق رکھتے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ظلم و زیادتی کو سخت ناپسند کرتا ہے۔ اس معاملے میں یہودیوں کی طرح اسلام کے دو پیمانے نہیں ہیں۔ یہودی قوم یہودیوں پر ظلم و زیادتی کو برداشت نہیں کرتی، لیکن   خود دوسروں پر ظلم و زیادتی کرنے میں کوئی گناہ محسوس نہیں کرتی۔

میں اسلام کے چند بنیادی اصول پیش کرتا ہوں، تاکہ اسلامی قوانین کی روشنی میں آپ کو اپنے سوال کا جواب مل سکے:

  •  بے گناھوں پر ظلم و زیادتی حرام ھے: اسلام کسی بے گناہ انسان پر ظلم و زیادتی کو کسی بھی صورت میں جائز نہیں قرار دیتا، خواہ بے گناہ شخص مسلم ہو یا غیرمسلم، یا اس کا تعلق کسی بھی ملک، قوم اور ملّت سے ہو۔ زیادتی کرنے والا اگر خلیفۂ وقت بھی ہو، تب بھی اسلام اسے برداشت نہیں کرتا۔ اس بات کو آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقعے پر صاف صاف الفاظ میں بیان کر دیا تھا۔ حتیٰ کہ جنگ کے دوران بھی اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ بے گناہ شہریوں ، مثلاً بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کی جان لی جائے۔ یہاں تک کہ اس پادری اور پنڈت کی جان لینا بھی جائز نہیں ہے، جو جنگ سے کنارہ کش ہوکر کنیسہ (Church)یا مندر (Temple) میں بیٹھ کر عبادت میں مشغول ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بعض انصاف پسند تاریخ دانوں نے اعتراف کیا ہے کہ تاریخ نے مسلمانوں سے زیادہ رحم دل فاتح نہیں دیکھا ہے۔ اسلام کی نظر میں یہ زیادتی صرف انسانوں ہی پر نہیں بلکہ جانوروں پر بھی جائز نہیں ہے۔ بخاری کی حدیث ہے کہ ایک عورت محض اس وجہ سے جہنم کی حق دار ہوگئی کہ اس نے ایک بلی کو گھر میں قید کردیا، نہ اسے کھانا دیا اور نہ گھر سے باہر جانے دیا کہ خود سے کچھ کھاپی لے یہاں تک کہ بلی بھوک سے مرگئی۔

ذرا غور کیجیے کہ ایک بلی کو بلاوجہ قید کرنا اور اس کو اذیت دینا اتنا بڑا جرم ہے، تو ان لوگوں کا جرم کس قدر بھیانک ہوگا، جنھوں نے بے گناہ مسافروں کو طیارے کے اندر قید کر دیا۔ انھیں خوف و ہراس میں مبتلا کیا اور ان میں سے بعض کی جان تک لے لی۔

  •  ھر شخص اپنے گناہ کا خود ذمہ دار ھے : ارشاد باری تعالیٰ ہے: اَلَّا تَزِرُ وَازِرَۃٌ  وِّزْرَ اُخْریٰ o (النجم ۵۳:۳۸)’’کوئی بوجھ اُٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا‘‘۔

بلاشبہہ اسلام کے اصولوں میں سے ایک واضح اصول یہ ہے کہ ہرشخص اپنے عمل کا خود ذمے دار ہے۔ اگر کسی نے غلطی کی ہے تو اس کی غلطی کی سزا اس کے باپ یا بھائی کو نہیں دی جائے گی۔ یہی عدل و انصاف کا تقاضا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ طیارے کے اغوا کنندگان خود کو ’متقی اور پرہیزگار‘ ظاہر کرنے کے باوجود اسلام کے اس واضح حکم سے کھلا انحراف کر رہے تھے۔ انھوں نے حکومت سے اپنے مطالبات منوانے اور اس پر دبائو ڈالنے کے لیے، بے گناہ مسافروں پر ظلم کیا اور ان کی جان لی، حالاں کہ یہ مسافر بالکل بے قصور تھے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ایسا بھیانک جرم وہ ’اسلام کے نام‘ پر کر رہے تھے۔ بلاشبہہ ایسے لوگ مسلمانوں کے لیے باعث ِ شرمندگی بھی ہیں اور اسلام کی پیشانی پر ایک بدنما داغ بھی۔کیا انھیں پتا نہیں ہے کہ کسی بے گناہ کا قتل کس قدر بھیانک گناہ ہے؟

اَنَّہٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا ط(المائدہ ۵:۳۲) جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا۔

صحیح حدیث میں ہے:

لَزَوَالُ الدُّنْیَا اَھْوَنُ عِنْدَاللّٰہِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ (ترمذی)، پوری دنیا کو مٹا دینا اللہ کے نزدیک زیادہ آسان ہے کسی مسلم کو قتل کردینے کے مقابلے میں۔

مَنْ اَشَارَ اِلٰی اَخِیْہٖ بِحَدِیْدَۃٍ فَاِنَّ الْمَلَائِکَۃَ تَلْعَنُہٗ حَتّٰی یَنْتَھِی (مسلم)، جس نے اپنے بھائی کی طرف ہتھیار اُٹھایا فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں، حتیٰ کہ وہ ہتھیار ہٹا لے۔

  •  اچہے مقصد کے لیے غلط راستے کا انتخاب ناجائز ھے :گناہ اور جرم کا راستہ اختیار کرنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے، خواہ کسی اچھے مقصد ہی کے لیے، یہ غلط راستہ کیوں نہ اختیار کیا جائے۔ اسلام اس ’میکیاولی نظریے‘ کی سختی سے تردید کرتا ہے کہ’ ’اچھے مقصد کو پانے کے لیے اچھا بُرا کچھ بھی کیا جاسکتا ہے‘‘۔ اسلامی نظریے کے مطابق جتنا ضروری کسی مقصد کا نیک یا مفید ہونا ہے، اتنا ہی ضروری ان ذرائع کا اچھا ہونا بھی ہے، جنھیں مقصد کے حصول کے لیے اختیار کیا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدقہ و خیرات کرنے کے لیے چوری کرنا یا حرام طریقے سے مال حاصل کرنا جائز نہیں ہے۔ اس لیے کہ مقصد کے نیک ہونے کے باوجود اس مقصد کو حاصل کرنے کا راستہ جائز نہیں ہے۔ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

اِنَّ اللّٰہَ طَیِّبٌ لَا یَقْبَلُ اِلَّا الطَّیِّبَ (مسلم) اللہ پاک ہے اور صرف پاک چیز ہی کو قبول کرتا ہے۔

اسی لیے علماے کرام ’عملِ صالح‘ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: عملِ صالح وہ ہے جس میں دو باتیں پائی جاتی ہوں۔ پہلی یہ کہ عمل خالصتاً اللہ کے لیے ہو اور دوسری یہ کہ اسلامی احکام اور شریعت کے مطابق ہو۔ اسلامی شریعت سے ہٹ کر انجام دیا ہوا یا اللہ کے علاوہ کسی اور کو    خوش کرنے کے لیے کیا گیا عمل صالح عمل نہیں ہوسکتا۔

طیارہ اغوا کرکے ، مسافروں کو یرغمال بنانے والوں کا یہ دعویٰ کہ: ’’ہمارا مقصد نیک و صالح ہے اور جیلوں میں قید اپنے بے گناہ بعض ساتھیوں کی رہائی کی غرض سے یہ سب کچھ کر رہے ہیں‘‘۔ ان کے اس ہدف کو اگر چند لمحوں کے لیے کوئی جائز سمجھ بھی لے، تو فی الواقع اس کے باوجود اس امرواقعہ میں دو راے نہیں کہ انھوں نے جو راستہ یا طریقہ اختیار کیا ہے وہ انتہائی شرم ناک ہے، قابلِ مذمت ہے اور یہ ایک بدترین جرم ہے۔ اس صورت میں اس جرم کا گھنائونا پن اور بھی بڑھ جاتا ہے کہ انھوں نے یہ جرم ’اسلام کے نام‘ پر اور خود کو ’متقی پرہیزگار‘ سمجھتے ہوئے کیا ہے۔ اپنے اس رویے سے وہ اسلام کی زبردست بدنامی کا سبب بنے ہیں۔

بلاشبہہ اسلام کی نظر میں مسافر طیارے کو اغوا کرنا [یا کسی کو یرغمال بنانا] کسی بھی صورت جائز نہیں ہے اور اب علماے کرام پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ دنیا والوں کے سامنے اسلام کے صحیح موقف کی وضاحت کریں اور انھیں پورے وثوق کے ساتھ بتائیں کہ اسلام اس نوعیت کے اقدامات اور کارروائیوں کی سختی کے ساتھ تردید کرتا ہے اور ایسا ظلم کرنے والے صحیح مسلمان     نہیں ہوسکتے۔ (فتاویٰ یوسف القرضاوی، ترجمہ: سید زاہد اصغر فلاحی، دوم، ص۲۰۶۔ ۲۱۰، مرکزی مکتبہ اسلامی، نئی دہلی، دسمبر ۱۹۹۸ئ)

ترجمہ: ارشاد الرحمن

اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دین اسلام کے ذریعے عزت و تکریم بخشی ہے۔ یہ دین اُن کے لیے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا بیان ہے: اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا (المائدہ ۵:۳) ’’آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے‘‘۔ اس نعمت کی تکمیل اللہ تعالیٰ نے یوں فرمائی کہ اپنے بہترین رسول حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو اس دین کے ساتھ مبعوث فرمایا، اپنی بہترین کتاب قرآن مجید کو اس دین کی کتاب کے طور پر نازل فرمایا اور ہمیں یہ چیزیں عطا کر کے اُمت ِ وسط بنایا تاکہ ہم انسانیت کے سامنے شہادتِ حق کا فریضہ انجام دیں۔

جنابِ محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح انسانیت کے لیے کتابِ الٰہی قرآن مجید اور عالم گیر رسالت ِ رحمت چھوڑی ہے، ان کے ساتھ انسانیت کو اُمت بھی وراثت میں دی ہے۔  وہ اُمت جو اس رسالت پر ایمان، اس کے احکام کے نفاذ اور اس کی طرف لوگوں کو دعوت دینے کی بنیاد پر تشکیل پاتی ہے۔

یہ اُمت اپنے بہترین گروہ سے شروع ہوئی، بلکہ انسانی تاریخ کے بہترین گروہ سے   اس کی ابتدا ہوئی، یعنی اصحابِ رسولؐ کا گروہ! یہ قرآنی اور ربانی گروہ جس نے حضرت محمدؐ کے مدرسۂ نبوت میں تربیت حاصل کی۔ انھیں آپؐ کے ہاتھ سے سندِ فضیلت عطا ہوئی۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کی صفت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا  بِہٖ وَ عَزَّرُوْہُ وَ نَصَرُوْہُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنo (اعراف ۷:۱۵۷)، لہٰذا جو لوگ اس (نبی) پر ایمان لائے، اور اس کی حمایت و نصرت کی اور اس روشنی کی پیروی اختیار کی جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں۔

یہی لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے سچے مومن کے نام سے یاد کیا ہے، فرمایا:

وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ ھَاجَرُوْا وَ جٰھَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ الَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوْٓا اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا ط لَھُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیْمٌo (انفال ۸:۷۴)، جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے اللہ کی راہ میں گھربار چھوڑے اور جدوجہد کی اور جنھوں نے پناہ دی اور مدد کی وہی سچے مومن ہیں۔ ان کے لیے خطائوں سے درگزر ہے اور بہترین رزق ہے۔

اس گروہ کے اولین لوگوں کی تعریف و توصیف بیان کرتے ہوئے فرمایا:

وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُھٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُo (التوبۃ ۹:۱۰۰) وہ مہاجر اور انصار جنھوں نے سب سے پہلے دعوتِ ایمان پر لبیک کہنے میں سبقت کی، نیز وہ جو راست بازی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی گروہ کے بارے میں فرمایا ہے: بہترین لوگ میرے عہد کے ہیں، پھر وہ جو ان کے بعد آئیں گے، پھر وہ جو ان کے بعد ہوں گے۔ (بخاری، مسلم)

اُمتِ مسلمہ کی خصوصیات

صحابہ کرامؓ اُمت ِمسلمہ کا پہلا گروہ ہیں۔ جس طرح ان کی خوبیاں، فضائل اور رفعتِ مقام کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنی پاک کتاب میں کیا ہے اسی طرح مجموعی طور پر اُمت ِمسلمہ کے چار اوصاف قرآن مجید نے بیان کیے ہیں:

  • ربّانی اُمّت: یہ ایسی اُمت ہے جس کی تشکیل خود اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے، لہٰذا یہ ربانی اُمت ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا (البقرہ ۲:۱۴۳) ’’اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو اُمت ِ وسط بنایا ہے‘‘۔ گویا یہ اُمت ایک مخصوص سانچے میں ڈھال کر تیار کی گئی ہے جیساکہ فرمایا گیا: کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ(اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰) ’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں اُتارا گیا ہے‘‘۔ گویا یہ ازخود اُمت نہیں بن گئی بلکہ اسے اُمت بنایا گیا ہے اور یہ صرف اپنے لیے نہیں بنی بلکہ انسانیت کے لیے بنائی گئی ہے۔ یہ انسانوں کو راہِ راست کی طرف لانے کے لیے، انسانوں کو روشنی بہم پہنچانے کے لیے، انسانوں کو نفع پہنچانے کے لیے بنائی گئی ہے اور اسے بنانے والا اللہ ہے۔
  • اُمّتِ وسط: یہ اُمت وسط ہے، لہٰذا یہ متوازن اُمت ہے۔ یہ یہودیوں کی طرح مادی پہلو سے غُلو(مبالغے) کا شکار ہے نہ نصاریٰ کی طرح روحانی پہلو سے غُلو میں مبتلا ہے۔ یہود کی طرح یہ حرام میں اسراف کی مرتکب نہیں اور نصاریٰ کی طرح اس میں تنگی کا شکار نہیں۔ یہ فرد کے اُوپر کمیونسٹوں جیسی پابندیاں نہیں عائد کرتی اور نہ سرمایہ داری کی طرح اُسے پیس کر رکھ دیتی ہے۔

یہ ایک جامع توازن کی حامل اُمت ہے جس نے روحانیت و مادیت اور دین و دنیا کے درمیان توازن قائم کیا ہے۔ اس نے زمین کو آسمان سے ملایا ہے، روح اور مادے کا امتزاج پیدا کیا ہے، مخلوق کو خالق سے جوڑ دیا ہے، حقوق اور فرائض کے درمیان توازن پیدا کیا ہے۔    اس نے دو روشنیوں، وحی اور عقل کو یک جا کیا ہے۔ گویا یہ نورٌ علٰی نور ہے۔ اس اُمت نے اعتدال و توازن کی تعلیم انسانیت کو دی ہے۔ عبادت اور معاملاتِ زندگی میں اعتدال قائم کرنے کی غرض سے فرمایا گیا کہ عبادت میں حد سے تجاوز نہ کیا جائے۔ آپؐ نے فرمایا: تم پر تمھارے بدن کا بھی حق ہے، تمھارے دل کا بھی حق ہے، تمھارے اہل کا بھی حق ہے، تم پر میل ملاقات کے لیے آنے والوں کا بھی حق ہے اور تمھارے رب کا بھی حق ہے۔ ہر ایک کو اس کا حق ادا کرو۔ (بخاری، مسلم)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مثالی مسلمان کے لیے فرمایا: ایک وقت تمھارے دل کے لیے ہونا چاہیے اور ایک تمھارے رب کے لیے (ساعۃ وساعۃ)۔ ایک شخص نے آپؐ سے پوچھا: کیا اُونٹنی کا گھٹنا باندھنا چاہیے، یا اللہ پر توکل کر کے رہنے دیا جائے۔ آپؐ نے فرمایا: گھٹنا باندھو اور پھر توکل کرو (ترمذی)۔ صحابہ کرامؓ فرمایا کرتے تھے: اپنی دنیا کے لیے اس طرح کام کرو گویا تمھیں ہمیشہ یہیں رہنا ہے اور اپنی آخرت کے لیے اس طرح عمل کرو گویا تمھیں کل مرجانا ہے، یعنی دنیا کی نسبت آخرت کے کاموں کو زیادہ تیزی سے انجام دیا جائے۔

حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر قیامت برپا ہوجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا ایک پودا ہو تو اگر وہ قیامت قائم ہونے سے پہلے اس پودے کو لگا سکتا ہے تو ضرور لگا دے (احمد)۔ غور کیا جائے کہ قیامت برپا ہونے کے بعد تو کوئی بھی نہیں رہے گا جو اس پودے کا پھل کھائے، لہٰذا اسے لگانے کی کیا ضرورت ہے؟یہ اس لیے کہ مسلمان زندگی کی آخری سانس تک کام کرتا، پیداوار بڑھاتا اور دوسروں کو کچھ عطا کرتا ہے کیونکہ وہ نیک کام کے ذریعے ہی اپنے رب کی عبادت کرتا ہے۔

  • خیر اُمّت: یہ اُمت ’خیر‘ ہونے کے اعتبار سے دوسری اُمتوں سے ممتاز ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ(اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰) ’’وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں اُتار لیا گیا ہے‘‘۔ لیکن اس کا یہ ’خیر‘ ہونا نسلی طور پر نہیں ہے، جیساکہ یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ نسلی طور پر اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ قوم ہے۔ نہیں بلکہ اُمت مسلمہ اپنے اوصاف کی بنا پر ’خیر‘ ہے اور جو بھی ان اوصاف کو اختیار کرلے وہ خیر کا متحمل ہوسکتا ہے، خواہ اس کا تعلق کسی بھی قوم اور کسی بھی رنگ سے ہو۔ ’خیر‘ ہونے کے اوصاف یہ ہیں کہ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰) ’’تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔

اس بنا پر اُمت مسلمہ ممتاز ٹھیرتی ہے کہ یہ دعوت کی حامل اُمت ہے، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنے والی اُمت ہے، دنیا کی اصلاح کی علَم بردار اُمت ہے اور یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ یہ اللہ پر ایمان رکھتی ہے۔

  • اُمتِ واحدہ:یہ اُمت واحدہ ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: اِنَّ ھٰذِہٖٓ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً  وَّ اَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْنِo (الانبیاء ۲۱:۹۲)، ’’یہ تمھاری اُمت حقیقت میں ایک ہی اُمت ہے اور میں تمھارا رب ہوں، لہٰذا تم میری عبادت کرو‘‘۔ مزید ارشاد فرمایا: وَاِِنَّ ہٰذِہٖ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّاَنَا رَبُّکُمْ فَاتَّقُوْنِo (المومنون ۲۳:۵۲)، ’’اور یہ تمھاری اُمت ایک ہی اُمت ہے اور میں تمھارا رب ہوں، لہٰذا مجھی سے ڈرو‘‘۔ گویایہ دونوں آیتیں اشارہ کرتی ہیں کہ اتحاد اُمت کے بغیر نہ عبادت پوری ہوتی ہے، نہ تقویٰ مکمل ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ اسی طرح مومنوں کے ایک ہونے سے قائم ہوتی ہے جس طرح کلمے کے ایک ہونے سے وجود پاتی ہے۔ گویا جب معبودِ پاک ایک ہے تو عبادت گزاروں کو بھی ایک ہونا چاہیے، متفرق و منتشر نہیں۔

اُمت محمدیہؐ اپنے عقیدے و عبادت، قبلے و شریعت ، اقدار و روایات، اسلوب و منہج اور مقصد میں مشترک ہونے کی بناپر اُمت ِواحدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا (اٰل عمرٰن۳:۱۰۳)، ’’سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقے  میں نہ پڑو‘‘۔ پھر فرمایا: وَ لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَ اخْتَلَفُوْا مِنْ م بَعْدِ مَا جَآئَ ھُمُ الْبَیِّنٰتُط وَ اُولٰٓئِکَ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌo (اٰل عمرٰن۳:۱۰۵)، ’’کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی کھلی واضح ہدایات پانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوئے جنھوں نے یہ روش اختیار کی، وہ سخت سزا پائیں گے‘‘۔تیسرے مقام پر فرمایا: وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْھَبَ رِیْحُکُمْ (انفال۸:۴۶)، ’’اور آپس میں جھگڑو نہیں، ورنہ تمھارے اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی اور تمھاری ہوا اُکھڑ جائے گی‘‘۔

اسلام نے اس وحدت کو تین اساسی احکام میں مجسم کردیا ہے: ۱- وحدتِ مرجع ۲- وحدتِ دار  ۳-وحدتِ قیادت۔

  • وحدتِ مرجع (شریعت): وحدتِ مرجع کا مطلب یہ ہے کہ مشرق و مغرب میں موجود اُمت ِ اسلامیہ پر فرض ہے کہ وہ شریعت ِ اسلامیہ کو اپنا قانون اور ضابطہ مانیں۔ وہ شریعت جسے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے دنیوی اور اُخروی مفادات کے حصول کے لیے مقرر کیا ہے۔ اسلامی شریعت مخلوق کی دینی، مالی، نسلی، جانی اور عقلی ضروریات کی محافظ ہے۔ یہ مشکلات کو دُور کرنے اور آسانیاں پیدا کرنے کی بنیاد پر قائم ہے۔ اس نے حاجتوں اور ضرورتوں کا پورا پورا خیال رکھا ہے۔ یہ انسانوں کے درمیان رحمت و عدل قائم کرنے جیسی بنیاد رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

ثُمَّ جَعَلْنٰکَ عَلٰی شَرِیعَۃٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْھَا وَلاَ تَتَّبِــعْ اَہْوَآئَ الَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ o (الجاثیہ ۴۵:۱۸)، اے نبیؐ! ہم نے تم کو دین کے معاملے میں ایک صاف شاہراہ (شریعت) پر قائم کیا ہے، لہٰذا تم اس پر چلو اور اُن لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو جو علم نہیں رکھتے۔

یہ شریعت مسلمانوں کو متحد کرتی ہے انھیں منتشر نہیں کرتی۔ ان کے درمیان قرب پیدا کرتی ہے دُوری نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: وَ اَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ (الانعام۶:۱۵۳)، ’’اس کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے، لہٰذا تم اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ اُس کے راستے سے ہٹا کر تمھیں پراگندہ کردیں گے‘‘۔

  • وحدتِ دار(دارالاسلام): وہ مختلف ممالک جہاں کی غالب اکثریت مسلمان ہو، اسلام ان علاقوں کو ’دارالاسلام‘ قرار دیتا ہے۔ یاد رہے کہ اسلام نے لفظ ’دارالاسلام‘ استعمال کیا ہے ’دیارالاسلام‘ نہیں۔ اگرچہ یہ ممالک مختلف براعظموں میں واقع ہوں اسلام انھیں ’دارِ واحد‘ قرار دیتا ہے۔ ان کے باشندے اپنے ہرجز کا دفاع مکمل یک جہتی کے ساتھ کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر اہلِ علاقہ اپنے اُوپر حملہ آور دشمن کا راستہ نہیں روک سکتے تو اُن کے قریب ترین ہمسایہ علاقوں ، پھر اُن علاقوں سے متصل علاقوں کے مسلمان باشندوں پر فرض ہے کہ وہ دارالاسلام کے ایک جز پر حملہ آور دشمن کا راستہ روکیں، اسے دشمن کے تسلط سے آزاد کرائیں اور مسلم جمعیت کا حصہ بنائیں۔ یہ جائز نہیں ہے کہ ارضِ اسلام کا کوئی حصہ کسی جگہ ایسا رہے جس کی حفاظت کرنے والے محافظ نہ ہوں، یا اسے آزاد کرانے والے لشکر موجود نہ ہوں۔
  • وحدتِ قیادت (خلافت ِ اسلامیہ): وحدتِ قیادت سے مراد سیاسی قیادت کی وحدت ہے جو خلافت کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ علما نے اس کی تعریف یہ کی ہے کہ امورِ دنیا انجام دینے اور دین کو قائم کرنے کے لیے تدبیر کرنا، نیابتِ رسولؐ ہے۔ خلافت محض شریعت ِ اسلامیہ کے ذریعے حکمرانی کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ شریعت ِ اسلامیہ کے ذریعے اُمت ِمسلمہ کی حکمرانی کا نام ہے۔ کسی چھوٹے یا بڑے خطے میں قائم اسلامی حکومت خلافت اسلامیہ کے مترادف نہ ہوگی۔

اُمت ِاسلامیہ ۱۳ صدیاں اُمت ِواحدہ رہی ہے جس کی ایک حکومت تھی۔ قیادت بھی ایک تھی جو خلافت ِ راشدہ، امویہ، عباسیہ، یا عثمانیہ کے نام سے معروف ہے۔ یہ سیاسی قیادت اس نظام کو قائم رکھنا اپنا فرض سمجھتی تھی۔ اس میں کوتاہی جائز نہیں تھی۔ بالآخر اس تاریخی قلعے کو گرا دیا گیا اور وحدتِ اُمت کو پارہ پارہ کر دیا گیا لیکن سیاسی قیادت کی اس وحدت کے ضائع ہوجانے کے باوجود اُمت قائم اور موجود ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے، کوئی وہم نہیں۔ یہ ایک دینی، تاریخی، جغرافیائی اور ثقافتی حقیقت ہے۔ اگر کوئی اس حقیقت کو ماننے سے انکار کرتا ہے تو وہ حج کے موسم میں اس حقیقت کا مشاہدہ کرلے، یا کسی ایسے موقع پر مسلمانوں کے جذبات کو دیکھے جب ان کے مقدسات پر کوئی کیچڑ اُچھالنے کی کوشش کرتا ہے۔ ڈنمارک میں بنائے گئے خاکوں کا مسئلہ ابھی کل کی بات ہے۔ اسی طرح ہالینڈ میں قرآن پر بنائی گئی فلم، سوئٹزرلینڈ میں میناروں کی تعمیر کو روکنے کے لیے قرارداد کی منظوری، یا فلسطین میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے وحشیانہ مظالم جیسے واقعات پر اُمت کے جذبات کو دیکھا جاسکتا ہے۔

۴۰ برس قبل یہودیوں نے مسجد اقصیٰ کے منبر پر جارحیت کی تو اُمت ِ اسلامیہ زمین کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک متحرک ہوگئی اور انہدامِ خلافت کے بعد پہلی مرتبہ اس نے اپنی قیادت کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ مسجد اقصیٰ کی واگزاری کے لیے، چوٹی کی قیادت کی صورت میں جمع ہوں۔ اس کے نتیجے میں ’اسلامی کانفرنس تنظیم‘ قائم ہوئی جو مقدور بھر کوشش کرتی ہے کہ  اُمت ِاسلامیہ کی نمایندگی کرسکے۔ یہ تنظیم کمزور اور اس کا دائرۂ اثر محدود ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ تنظیم مؤثر ہو اور عالمِ اسلام کو درپیش مسائل کے سلسلے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔ اس وقت حالات بہت گمبھیر ہیں۔ اُمت عراق، افغانستان، پاکستان، صومالیہ، یمن اور سوڈان میں باہمی قتل و غارت سے دوچار ہے۔

ہم نے علما کے تعاون سے ’عالمی اتحاد براے علماے مسلمین‘ قائم کی ہے۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم ایسے بڑے بڑے مسائل پر علماے اُمت کو ایک نکتے پر جمع کریں جن مسائل کے بارے میں کلمۂ حق کہنے، اُمت کو اس کے فوائد و نقصانات سے آگاہ کرنے اور تفرقہ و آویزش سے بچانے کی ضرورت ہو۔ اس کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ تصادم، جنگ اور خون ریزی سے بچا جائے۔

ہم چاہتے ہیں کہ اُمت کی قیادت اور اس کے حکمران اللہ، رسول اور مومنوں کی خاطر ٹھوس موقف اپنائیں، اپنے اختلافات کو ترک کردیں، اپنے کردار کی اصلاح کریں اور حجۃ الوداع میں کی گئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت پر کان دھریں کہ: ’’میرے بعد کافرانہ کام نہ کرنے لگ جانا کہ ایک دوسرے کو قتل کرنے لگو‘‘ (بخاری،مسلم)۔ حکمرانوں میں سے صاحب ِ وسائل اور اہلِ بصیرت آگے بڑھیں، اُمت کے دفاع کی غرض سے باہمی تعاون کاماحول بیدار کریں۔ اُمت کی مشکلات دُور کرنے کی کوشش کریں، اس کے شیرازے کو مجتمع کریں اور اس کے تشخص کو بحال کرنے کے لیے اپنی ذمہ داری ادا کریں۔

اُمت کے وسائل اور امکانات

مسلمان حکمرانوں کو یہ علم ہونا چاہیے کہ اُمت ِمسلمہ کے پاس ایسے مادی و معنوی وسائل موجود ہیں جو اُمت کو دنیا میں صف ِ اوّل کی قوموں میں کھڑا کرسکتے ہیں۔ مقامِ افسوس ہے کہ ان نعمتوں، طاقتوں کو اس طرح استعمال نہیں کیا جاتا کہ یہ اُمت کے لیے فائدے اور رفعت کا باعث بنیں۔

  • عددی اکثریت:تازہ اعداد و شمار کے مطابق اُمت ِاسلامیہ ایک ارب ۵۷کروڑ انسانوں پر مشتمل ہے اور یہ تعداد تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے جس نے غیروں کو خوف زدہ کردیا ہے۔ عددی اکثریت کو اللہ تعالیٰ نے ایک احسان اور نعمت کے طور پر بیان کیا ہے۔ فرمایا:  وَاذْکُرُوْٓا اِذْ کُنْتُمْ قَلِیْلًا فَکَثَّرَکُمْ (الاعراف۷:۸۶) ’’یاد کرو وہ زمانہ جب تم تھوڑے تھے پھر اللہ نے تمھیں زیادہ کردیا‘‘۔
  • وافر مادی وسائل: اُمت ِ اسلامیہ زراعت، معدنیات، پٹرولیم، پانی کے وسائل، نہروں، ڈیموں، سمندروں، ساحلوں اور پہاڑوں کی دولت سے مالا مال ہے، اور یہ سب کچھ دنیا کے وسط میں براعظموں کے سنگم پر واقع ہے۔ یہ ساری کی ساری دولت مل جائے اور ایک دوسرے کے لیے معاون ہوجائے تو اُمت ِاسلامیہ ایسی قوت بن جائے گی جس کے خلاف کسی کو جارحیت کی جرأت نہیں ہوسکتی۔
  • تھذیبـی قوت: اُمت ِاسلامیہ کے پاس تہذیبی قوت بھی ہے۔ یہ اُمت عالمی تہذیبوں کا  سرچشمہ رہی ہے۔ ایرانی، رومی، بابلی، فرعونی اور دیگر بہت سی تہذیبوں نے اس کے تہذیبی سوتوں سے نشوونما پائی ہے۔ دنیا کے بڑے آسمانی مذاہب یہودیت، مسیحیت اور اسلام کا ظہور سرزمینِ اسلام میں ہوا۔ تین جلیل القدر رسول حضرت موسٰی ؑ، حضرت عیسٰی ؑاور حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم یہاں مبعوث ہوئے۔ چاروں آسمانی کتابیں تورات، زبور، انجیل اور قرآن کا نزول یہاں ہوا۔
  • روحانی قوت:ہماری اُمت روحانی قوت کے اعتبار سے بھی بہت مضبوط ہے۔ قرآنِ مجید کی صورت میں دستاویزِ الٰہی اس کے پاس ہے اور یہ دستاویز انسانیت کے لیے اللہ تعالیٰ کے آخری کلمات پر مشتمل ہے۔ مراد ہے قرآن مجید۔ وہ قرآن جس کی کسی سورت سے کوئی ایک لفظ تک نہیں بدلاگیا۔ یہ کتاب آج بھی اسی طرح پڑھی جاتی ہے جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ پڑھا کرتے تھے اور آج اسی طرح کتابت ہو رہی ہے جس طرح عہدِعثمانؓ میں ہوئی تھی۔
  • جامع اور متوازن فکر:اس سب کچھ کے ساتھ ساتھ اُمت ِمسلمہ کے پاس ایک ایسا جامع پیغام ہے جو انسانیت کو ایمان عطا کر کے اس سے علم کا ہتھیار چھین نہیں لیتا، اسے روحانیت عطا کر کے مادیت سے محروم نہیں کردیتا۔ آخرت سے نواز کر دنیا سے تہی دامن ہونے کے لیے نہیں کہتا۔ یہ پیغام انسانیت کو آسمان سے قریب کرتا ہے مگر اس سے زمین پر رہنے کا حق نہیں چھینتا۔   وہ انسانیت کو روحانی بلندی عطا کر کے عمرانی و تہذیبی ترقی سے روک نہیں دیتا۔ یہ تو متوازن و معتدل پیغام ہے جو دنیا وآخرت، زمین و آسمان اور دل و دماغ کو آپس میں جوڑتا ہے۔ اس کا نعرہ یہ ہے کہ دنیا سے جدا ہوکر دین کچھ نہیں رہتا، اور دین سے کٹ کر دنیا کچھ نہیں رہتی۔ اللہ تعالیٰ کے الفاظ میں اس پیغام کے حاملین کی دعا تو یہ ہے: رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِo (البقرہ ۲:۲۰۱) ،’’اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا کر‘‘۔

ادھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب سے یوں مناجات کرتے ہیں: اَللّٰھُمَّ أَصْلِحْ لِیْ دِیْنِیَ الَّذِیْ ھُوَ عِصْمَۃُ أَمْرِیْ o وَأَصَلِحْ لِیْ دُنْیَایَ الَّتِی فِیْھَا مَعَاشِی o  وَأَصَلِحْ لِیْ آخِرَتِی الَّتِی اِلَیْھَا مَعَادِیْ o وَاجْعَلِ الْحَیَاۃَ زِیَارَۃً لِیْ فِیْ کُلِّ خَیْرٍo وَالْمَوْتَ رَاحَۃً لِیْ مِنْ کُلِّ شَرٍّ o (مسلم)، ’’اے اللہ! میرے لیے میرا دین نفع بخش بنادے کہ یہ میرے معاملے کی آبرو ہے، اور میرے لیے میری دنیا کو بھی درست فرما دے کہ اس میں میری معاش ہے اور میرے لیے میری آخرت بھی بہتر بنا دے کہ میرا آخری ٹھکانا وہی ہے۔ اے اللہ! زندگی کو میرے لیے ہر خیر میں اضافے کا باعث بنا دے، اور موت کو ہرقسم کے شر سے نجات کا ذریعہ بنا دے‘‘۔

اُمت ِ اسلامیہ کے پاس یہ مادی و روحانی وسائل اُمت کو ایک شان دار مستقبل کی خوش خبری دیتے ہیں اور اس خوش خبری کی طرف ہی قرآن مجید نے ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے: یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِھِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنo (الصف۶۱:۸)  ’’یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ    اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو‘‘۔ مگر افسوس ہے کہ اُمت نے اپنی بے پناہ صلاحیتوں اور تہذیبی و روحانی اور اقتصادی و انسانی قوتوں سے جس طرح کام لینے کی ضرورت تھی نہیں لیا۔ یہی وجہ ہے کہ روشن چراغ اس کے ہاتھ میں ہے لیکن وہ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہی ہے۔ مصائب کا حل موجود ہے مگر وہ مسائل سے دوچار چلی آرہی ہے۔

غلبۂ اسلام کی بشارتیں

بے پناہ وسائل کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے پاس غلبۂ اسلام کی بشارتیں بھی ہیں جو ہمارے اس یقین کو مزید پختہ کردیتی ہیں کہ مستقبل ہماری اُمت اور ہمارے دین کا ہے۔

  • قرآنی بشارتیں: سَنُرِیْھِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ (حٰمٓ السجدۃ  ۴۱:۵۳)، ’عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے‘‘۔ ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ (التوبہ ۹:۳۳)، ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنسِ دین پر غالب کردے‘‘۔ یہ بشارت قرآن مجید کی تین سورتوں التوبہ، الفتح اور الصف میں آئی ہے۔ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ کا مفہوم تمام ادیان پر غلبے کا ہے۔ یہ غلبہ اس سے پہلے کثیر ادیان پر ہوچکا ہے، یعنی یہودیت، مجوسیت اور مشرقی نصرانیت پر۔ البتہ مغرب کی نصرانیت اور مشرق کی وثنیت [بت پرستی] منتظر ہے کہ اسلام اس پر غالب آئے۔
  • نبویؐ بشارتیں: نبی کریمؐ کی دی ہوئی بشارتوں کے سلسلے میں حضرت تمیم داری کی روایت کردہ حدیث ہمارے لیے کافی ہے کہ ’’یہ اسلام وہاں تک پہنچ کر رہے گا جہاں تک دن رات کا سلسلہ پہنچتا ہے۔ اللہ کسی شہری یا دیہاتی کا گھر نہیں چھوڑے گا جہاں باعزت کی عزت کے ساتھ اور ذلیل کی ذلت کے ساتھ اسلام کو وہاں داخل نہ کردے۔ عزت اس کے لیے جسے اللہ دولت ِ اسلام کے ذریعے اعزاز دے اور ذلّت اس کے لیے جسے اللہ کفر میں رکھ کر ذلیل کرے‘‘۔(احمد)
  • تاریخی بشارتیں: یہ بات تاریخی طور پر ثابت ہوچکی ہے کہ اسلام مشکل ترین اور شدید ترین بحرانوں میں قوت کے لحاظ سے عظیم قوت اور اپنے وجود کی بقا کے لیے مزاحمت کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ صلیبیوں اور تاتاریوں کی جنگوں کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ اسلام نے ان میں فتح کا پرچم لہرایا۔ ملحد نظریات اور استعمار کے خلاف تازہ جنگوں میں بھی اسلام کی قوت ثابت ہوچکی ہے جن میں اسلام نے استعمار اور ارتداد کا سامنا کیا اور مسلمانوں نے اپنی بے سروسامانی و کمزوری کے باوجود اپنے ممالک کو آزاد کرایا۔
  • روشن مستقبل: ہم اسلامی بیداری کی تازہ صورتِ حال کا مشاہدہ کرچکے ہیں جس کی بنیاد پر مسلمانوں کی عظیم اکثریت نے اپنے دین کی طرف رجوع کیا ہے۔ نوجوانوں کو استقامت کا راستہ دکھایا ہے۔ عورتوں کو حجاب پہنا دیا ہے۔ بہت سی کمپنیوں اور بنکوں کو سود سے دُور کردیا ہے۔ مشرق و مغرب میں دعوتِ اسلام اور خدمتِ خلق کی تنظیمیں قائم ہوئی ہیں۔ خود ہم نے ’الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین‘ قائم کیا ہے جس میں اُمت اسلامیہ کے علماے شریعت نمایندگی کرتے ہیں۔ یہ اتحاد اسلام کے حقیقی موقف کی ترجمانی کرتا ہے۔ اس اتحاد کو کوئی لالچ اپنی طرف کھینچ سکتا ہے، نہ کوئی دھمکی مرعوب کرسکتی ہے۔ تنظیم نے قرآن مجید کی اس آیت کو اپنا سلوگن قرار دے رکھا ہے:

الَّذِیْنَ یُبَلِّغُوْنَ رِسٰلٰتِ اللّٰہِ وَ یَخْشَوْنَہٗ وَ لَا یَخْشَوْنَ اَحَدًا اِلَّا اللّٰہَ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ حَسِیْبًاo (الاحزاب ۳۳:۳۹) ’’اور جو اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اسی سے ڈرتے ہیں اور ایک خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے اور محاسبے کے لیے بس اللہ ہی کافی ہے‘‘۔

مغرب کی قائدانہ ناکامی

غلبۂ اسلام کی بشارتوں میں اس بشارت کا اضافہ بھی حقائق و واقعات نے کردیا ہے کہ مغرب جس کی تہذیب نے کئی صدیاں دنیا کی قیادت کی ہے لیکن اس قیادت کا حق ادا نہیں کیا۔   یہ روحانی اور اخلاقی طور پر دیوالیہ ہوچکا ہے۔ اس نے بڑے بڑے بین الاقوامی مسائل پر دوہرے معیارات اپنا رکھے ہیں۔ قرآن کی زبان میں ایک چیز کو ایک سال حلال ٹھیراتے ہیں اور دوسرے سال حرام قرار دے لیتے ہیں (التوبہ۹:۳۷)۔ اس نے دنیا میں الحاد کا رجحان عام کیا ہے جس کے نزدیک کائنات کا کوئی معبود نہیں اور انسان کے اندر کوئی روح نہیں، دنیا کے بعد کوئی آخرت نہیں۔ اسی طرح اس نے اباحیت کو رواج دیا ہے جس نے مرد کی مرد کے ساتھ اور عورت کی عورت کے ساتھ شادی کو جائز قرار دے دیا ہے حالانکہ یہ تمام ادیان اور انسانی فطرت کے خلاف ہے۔ اگر انسانیت نے اس کو برقرار رکھا تو ایک دو نسلوں کے بعد وہ تباہ ہوجائے گی۔ اسی طرح امریکا جو مغرب کا سردار ہے پوری دنیا سے اس طرح معاملات کرتا ہے گویا وہ ایسا معبود ہے جو کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہے۔ اسرائیل جو اس کا بغل بچہ ہے امریکا اس کے ہرجائز و ناجائز اور ظلم و زیادتی بلکہ چنگھاڑتے ہوئے ظلم کی حمایت کر رہا ہے۔ زمین پر ایسی ناحق،متکبر اور سرکش تہذیب کو زوال آہی جانا چاہیے اور اس کی جگہ کسی اور کو لینی چاہیے، کیونکہ یہ قانونِ الٰہی بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْم بَعْدِ الذِّکْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ o (الانبیاء ۲۱:۱۰۵)، ’’ہم زبور میں پندو نصیحت کے بعد یہ لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے (ہی) ہوں گے‘‘۔

دم توڑتی تہذیب کی جگہ لینے کے لیے جو قوم تیار ہے، وہ اُمت ِاسلامیہ ہی ہے۔ اور یہ اس وقت ممکن ہے جب یہ اُمت اپنے آپ کو پہچان لے، اپنے پیغام کی حامل بن جائے، اپنے رب کی طرف رجوع کرلے، اپنے ذاتی معاملات کو درست کرلے اور اپنے آپ کو تبدیل کرلے تاکہ اللہ بھی اس کو بدل دے کیونکہ یہ بھی قانونِ الٰہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ (الرعد۱۳:۱۱) ،’’اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی‘‘۔

اگر اُمت اپنی بُری حالت کے باوجود اس تہذیب کی وارث بننے اور انسانیت کی قیادت کرنے کی تمنا رکھتی ہے تو یہ کبھی ممکن نہیں ہوسکتا! اللہ کا طریق کار کبھی تبدیل نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: وَاِِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ثُمَّ لاَ یَکُوْنُوْٓا اَمْثَالَکُمْ (محمد ۴۷:۳۸)، ’’اگر تم منہ موڑو گے تو اللہ تمھاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا اور وہ تم جیسے نہ ہوں گے‘‘۔