عبد الغفار عزیز


۴۲ سالہ اسماعیل عبدالسلام احمد ھنیہ ۶ستمبر ۲۰۰۳ء کا ایک واقعہ سناتے ہوئے کہہ رہے تھے: ’’میں شیخ المجاہدین احمد یاسین کے ہمراہ ابوراس کے علاقے میں ڈاکٹر مروان بھائی کے ہاں دعوت پہ گیا۔ ہم دوپہر کے کھانے سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ اچانک اسرائیلی فضائیہ کے ایف-۱۶ جہاز فضا میں نمودار ہوئے اور ہم پر بم باری شروع کر دی۔ اس حملے کے بعد ہر طرف گردوغبار کی دبیز چادر تن گئی‘ گھپ اندھیرا چھا گیا۔ کسی کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ غبار چھٹا تو معلوم ہوا کہ جس گھر میں ہم تھے اس کے اوپر کی منزلیں تباہ ہوگئی ہیں‘ اینٹ سے اینٹ بج گئی ہے لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ہم سب اور اہلِ خانہ محفوظ رہے‘‘۔

کسے معلوم تھا کہ اس واقعے کے اڑھائی سال بعد یہی اسماعیل ھنیہ فلسطینی اتھارٹی کے منتخب وزیراعظم ہوں گے۔ تحریکِ حماس کو حاصل فلسطینی عوام کی بھاری حمایت پوری دنیا کو نظر آجائے گی اور مشرق وسطیٰ کا مستقبل خالد المشعل (جو خود بھی سنگین قاتلانہ حملے کا شکار ہوچکے ہیں) کی قیادت میں اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کا مرہونِ منت ہوجائے گا۔

دنیا انگشت بدنداں ہے کہ جو یہودی لابی سوپرپاور امریکا سمیت پورے عالم پر اثرانداز ہونے کا زعم رکھتی ہے‘ جس کے پاس جدید ترین مہلک ہتھیاروں کے انبار ہیں‘ جس کی قیادت وحشیانہ حد تک مظالم ڈھانا اپنا حق دفاع سمجھتی ہے‘ جس پر ہمیشہ امریکی سرپرستی کی چھتری تنی رہتی ہے اور ڈالروں کا دبیز غالیچہ بچھا رہتا ہے‘ دنیابھر کے ذرائع ابلاغ اس کی مٹھی میں ہیں اور بہترین پالیسی ساز ہمیشہ جس کا دم بھرتے ہیں‘ وہ کیوںکر اپنی ناک کے نیچے وقوع پذیر ’حادثۂ عظیم‘ کو نہ روک سکی۔حماس کی جیت کے بعد اسرائیلی بائیں بازو کی ’میرٹس‘ پارٹی کا بانی یوسی سریڈ چلّا اُٹھا: ’’ان لوگوں نے یاسرعرفات سے جنگ کی‘ اسے تنہا کردیا اور اب ہمیں اس کے بجاے حماس کے ’دہشت گردوں‘ کا سامنا کرنا پڑرہا ہے‘‘۔ اسی پارٹی کی پارلیمانی لیڈر زہافا غلئون نے بیان دیا: ’’ہمیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ حماس کی جیت ہم سب کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ مشرق وسطیٰ کا بحران حل کرنے میں شریک تمام فریقوں نے فلسطینیوں سے بدسلوکیاں کیں ‘ان پر اجتماعی پابندیاں عائد کیں‘ان کی حکومت سے ناممکن العمل مطالبات کیے‘ یہاں تک کہ فلسطینی عوام مایوس ہوگئے‘اور انھوں نے حماس کو اپنا نمایندہ مان لیا۔ مجھے کوئی امید نہیں کہ مستقبل قریب میں حماس اپنی پالیسیوں میں کوئی تبدیلیاں کرے گی‘‘۔ یوسی نے مطالبہ کیا کہ اسرائیل کو ۱۹۶۷ء کے بعد قبضہ کیے جانے والے تمام فلسطینی علاقے خالی کرکے ان کا انتظام چار رکنی کمیٹی (یعنی امریکا‘ روس‘ یورپی یونین اور اقوام متحدہ) کے سپرد کردینا چاہیے۔

حماس کی جیت کا تجزیہ اور مستقبل کے امکانات کا جائزہ شاید دنیا کے ہر لکھاری‘ تجزیہ نگار‘ سیاست دان اور پالیسی ساز نے لیا ہے لیکن ایک بات جس پر تمام غیرمتعصب جائزہ لینے والوں کا اجماع ہوگا‘ وہ یہ ہے کہ حماس کی جیت میں سب سے زیادہ حصہ تحریکِ حماس کی بے تحاشا قربانیوں‘ صبر اور جہدِمسلسل کا ہے۔ حماس نے ۱۹۸۷ء میں اپنی باقاعدہ تشکیل کے بعد ہی نہیں سرزمینِ فلسطین پر یہودی ریاست کے وجود سے بھی پہلے انگریزی تسلط کے عہد سے ہی اپنا جہاد شروع کر دیا تھا۔ اب تحریکِ حماس کے بازوے شمشیرزن کا نام ہی عزالدین القسّام سے منسوب ہے جنھوں نے ۱۹۲۵ء میں پانچ پانچ افراد پر مشتمل جہادی گروپ تشکیل دے کر انھیں انگریزوں سے آزادی کی خاطر فیصلہ کن معرکے کے لیے تیار کرنا شروع کردیا تھا‘ لیکن ایک قبل از وقت معرکے میں گھِر گئے اور ۲۰نومبر ۱۹۳۵ء کو جامِ شہادت نوش کرگئے۔ چلتے چلتے یہ سلسلہ شیخ احمد یاسین اور چند روز کی ایمان تک پہنچا کہ جس کا سینہ اس کی والدہ کی آغوش میں دشمن کی ایک گولی نے چھیددیا تھا۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود حماس کی قیادت ہی نہیں اس کی خواتین‘ اس کے بوڑھوں اور بچوں نے بھی  جہاد اور شہادت و قربانی کے راستے سے ہٹنا قبول نہ کیا۔ ۱۳۲ ارکان پر مشتمل حالیہ پارلیمنٹ میں ان شہادتوں کے امین ۷۶ ہیرے منتخب ہوئے ہیں۔ ان میں نہ صرف گرم سرد چشیدہ بوڑھے اور   مَسیں بھیگتے نوجوان ہیں بلکہ اپنے بڑھاپے کے سہارے بیٹوں اور رونق حیات شوہروں کو شہادت کی راہ پر رخصت کرنے والی خواتین بھی ہیں۔ ان میں سے شاید ہر فرد ہی گوہرنایاب ہوگا لیکن بعض ہستیاں افتخارِ انسانیت ہیں جیسے اُم نضال جن کا ذکر آگے آئے گا۔

حماس نے اپنے صبروثبات کا مظاہرہ صرف الیکشن کی منزل تک پہنچنے کے لیے نہیں کیا بلکہ اس سیاسی معرکے کے ساتھ ہی ساتھ اپنے جہاد کو بھی تب تک جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے‘ جب تک فلسطینی عوام کو ان کے کامل حقوق حاصل نہیں ہوجاتے۔ حماس کے ترجمان اور نومنتخب رکن پارلیمنٹ مشیرالمصری کے الفاظ میں: ’’حماس کسی صورت ہتھیار نہیں ڈالے گی‘ کسی صورت جہاد اور مزاحمت کی راہ کھوٹی نہیں ہونے دے گی اور کسی صورت اپنے عسکری بازو سے دست بردار نہیں ہوگی‘‘۔ خالدالمشعل نے بھی قاہرہ پہنچنے پر یہی الفاظ دہرائے کہ ’’فلسطینی عوام کے غصب شدہ حقوق کے حصول‘ القدس کی آزادی‘ فلسطینی مہاجرین کی وطن واپسی اور تمام قیدیوں کی رہائی تک ہم کسی صورت اپنی مزاحمت اور جہاد سے دست بردار نہیں ہوں گے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ حماس کی جیت اور تشکیلِ حکومت سے اسرائیلی اور امریکی قیادت میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ وہ مسلسل بیان دے رہے ہیں کہ ’’حماس کی حکومت بنی تو ہم مالی امداد بند کردیں گے‘‘۔ سعودی عرب اور ایران کو  خبردار کر رہے ہیں کہ اگر تم نے امداد دی تو تمھیں بھی خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ شارون کے بسترمرگ پر نشانِ عبرت بن جانے کے بعد عارضی طور پر وزارتِ عظمیٰ سنبھالے ہوئے ایہود اولمرٹ اور اس کا وزیردفاع شاؤول موفاز چنگھاڑتے ہوئے کہتے ہیں: ’’اگر حماس نے خودکش حملے جاری رکھے‘ اسرائیلی آبادی پر القسّام راکٹ برسائے گئے اور حماس نے اپنے مجاہدین کو لگام نہ دی تو اسے  جان لینا چاہیے کہ اس کے ذمہ داران کا وزرا یا ارکانِ پارلیمنٹ بن جانا ان کی حفاظت نہیں کرسکے گا۔ وہ کوئی چھوٹا ہو یا بڑا‘ ہم اسے اپنی ٹارگٹ کِلنگ کا نشانہ بنانے میں ایک لمحے کا تردد نہیں کریں گے‘‘۔(الشرق الاوسط‘ ۳۰ جنوری ۲۰۰۶ئ)

حماس کے سربراہ خالد المشعل نے ۸ فروری کو دورئہ قاہرہ کے دوران پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ: ’’انتخابات میں حماس کی شرکت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اب جہاد و مزاحمت کے مرحلے سے نکل کر اقتدار و سیاست کے خانے میں آگئی ہے۔ ہم نے جمہوری عمل میں صرف اس لیے حصہ لیا ہے تاکہ ہم اندر سے بھی اپنے گھر کی اصلاح کرسکیں‘کرپشن کا خاتمہ کرسکیں اور داخلی امن و امان کی صورت بہتر کرسکیں‘ لیکن کسی کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہماری تحریک اسرائیلی قبضے کے خلاف قائم ہوئی ہے اور جب تک اس کا خاتمہ نہیں ہوجاتا‘ ہم مزاحمت کا حق باقی رکھتے ہیں‘‘۔ انھوں نے اسرائیلی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’تمھارے سامنے دو ہی راستے ہیں یا تو مقبوضہ فلسطینی سرزمین سے نکل جائو یا پھر ایک طویل معرکے کے لیے تیار ہوجائو جس میں کامیابی اللہ کے حکم سے ہماری ہی ہوگی‘‘۔

انتخابات میں بھاری کامیابی کے بعد حماس کو زیادہ کڑی آزمایش کا سامنا ہے۔ اسرائیلی افواج و تسلط کا مقابلہ تو وہ ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں‘ لیکن اب انھیں فلسطینی عوام کی نمایندہ حکومت (جس کا کوئی آزاد ملک نہیں) کے طور پر پوری عالمی برادری سے بھی معاملہ کرنا ہے‘ فلسطینی اتھارٹی کے اُس صدر سے نباہ کرنا ہے جو امریکا و اسرائیل کے پسندیدہ ہیں‘فلسطینی لُغت سے جہاد اور مسلح جدوجہد کا لفظ نکالنا چاہتے ہیں اور جنھوں نے موجودہ پارلیمنٹ کے افتتاحی خطاب میں بھی باصرار کہا ہے کہ ’’ہم اسرائیل کے ساتھ مذاکرات‘ بہتر تعلقات اور سیاسی عمل کے ذریعے معاملات طے کریں گے‘ نئی حکومت کو بھی اسرائیل کے ساتھ ہمارے معاہدات کی روشنی میں ہی آگے بڑھنا ہوگا‘‘۔

حماس کے سامنے اصل اور گمبھیر چیلنج فلسطینی حکومت کے اندر پائی جانے والی کرپشن کا سدباب‘ حق زندگی سے محروم فلسطینی عوام کی ممکنہ حد تک خدمت اور ایک فعال‘ شفاف‘ مؤثر اور امانت دار نظامِ حکومت تشکیل دینا ہے۔امریکی اور اسرائیلی ذرائع ابلاغ سے آنے والی رپورٹوں اور بیانات سے یہ عیاں ہو رہا ہے کہ‘ وہ حماس کے اس پورے تجربے کوناکام کرنے کی کوشش کریں گے۔ وہ اس کی خاطرفلسطینی حکومت کو ملنے والی مالی امداد بند کریں گے‘ فلسطینیوں پر مزید پابندیاں عائد کریں گے‘ الفتح اور دیگر تنظیموں کے ساتھ حماس کے اختلافات کو ہوا دیں گے اور مسلم حکومتوں کی طرف سے حماس کو مدد کی بجاے دبائو ڈلوائیں گے اور پھر حماس کے خلاف بالخصوص اور اسلامی تحریکوں کے خلاف بالعموم یہ پروپیگنڈا کیا جائے گا کہ یہ لوگ ریاست چلانے میں ناکام رہتے ہیں۔ پھر اسی آڑ میں دوبارہ انتخابات کا ڈول ڈالا جاسکتا ہے جس میں حماس مخالف تمام عناصر مجتمع ہوں اور اس طرح پرانی ڈگر پر نئی فلسطینی حکومت قائم کر دی جائے۔ لیکن حماس کی قیادت مکمل اطمینان سے سرشار ہے۔ مالی پابندیوں کی بات آتی ہے تو حماس کا ترجمان کہتا ہے: ’’رزق امریکا یا یورپ کے ہاتھ میں نہیں‘ اللہ کے ہاتھ میں ہے اوروہ اپنے بندوں کے درمیان کامل حکمت سے تصرف کرتا ہے۔ ہمارے عوام نے ۲۵جنوری کے انتخابات میں اسلام کے حق میں راے دی ہے اوراسلام کی نعمت  عطا کرنے والا رب انھیں رسوا نہیں کرے گا‘ بلکہ وہاں وہاں سے رزق دے گا جہاں ان کا گمان بھی نہیں پہنچا ہوگا‘‘۔

اس سوال کا فنی اعتبار سے اور حقائق پر مبنی جواب دیتے ہوئے ورلڈ بنک کے ایک سابق فلسطینی مشیر رامی عبدہٗ نے لکھا ہے کہ: ’’امریکا جس مالی مدد کو بند کرنے کی دھمکی دے رہا ہے وہ عملاً گذشتہ سال ستمبر سے موقوف ہے۔ اُس وقت فلسطینی انتظامیہ نے اپنی سیکورٹی فورسز کی تنخواہوں میں اضافہ کر دیا تھا جس سے اس مد میں خرچ ہونے والی ۵۷ ملین ڈالر کی رقم ۸۰ ملین ڈالر تک جاپہنچی تھی۔ اس پر امریکا اور یورپ کی طرف سے ملنے والی امداد بند کر دی گئی۔ رامی عبدہٗ نے مزید کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کی مالی امداد کا ۶۵ فی صد حصہ تو صرف عرب لیگ کی دو مدات ’القدس فنڈ‘ اور ’الاقصیٰ فنڈ‘ سے حاصل ہوتا ہے‘ جب کہ امریکا کی طرف سے ملنے والی مدد صرف ۱۰ فی صد بنتی ہے اور یہ امداد بھی مختلف این جی اوز کی وساطت سے دی جاتی تھی اور اصرار کیا جاتا تھا کہ اسے صرف ’ترویج جمہوریت پروگرام‘ اور ’مساوات مردوزن‘ جیسے غیرترقیاتی اخراجات میں صرف کیا جائے۔

رامی عبدہٗ نے انکشاف کیا کہ امریکا کی طرف سے‘ فلسطینی اتھارٹی کو اس کی تاسیس سے لے کر اب تک جتنی امداد دی گئی ہے‘ وہ صرف ایک سال میں اس کی طرف سے اسرائیل کو دی جانے والی امداد سے کہیں کم ہے۔ یورپی ممالک کی طرف سے ملنے والی امداد کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ ممالک جو مدد ایک ہاتھ سے دیتے ہیں‘ وہ دوسرے ہاتھ سے واپس لے لیتے ہیں‘ کیونکہ وہ ان کے بدلے مشیروں اور ماہرین کے نام پر اپنے لوگوں کی فوج ہم پر مسلط کردیتے ہیں‘ ان کی بھاری بھرکم تنخواہیں یہ مدد ہڑپ کرجاتی ہیں۔ رامی عبدہٗ کا کہنا ہے‘ کہ مفادات کے وسیع جال کے باعث یورپی ممالک کے لیے امداد کا یہ سلسلہ بند کرنا بہت مشکل ہوگا۔ لیکن پھر بھی فلسطینی اتھارٹی کو ہر صورت حال کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

رامی نے فلسطین کے بارے میں ورلڈ بنک کے علاقائی ڈائرکٹر نایجل رور بورٹ کی رپورٹ میں سے بھی ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کیا‘ جس میں انھوں نے کہا تھا: ’’فلسطینیوں کو دی جانے والی کوئی مالی امداد‘ تب تک کوئی فائدہ نہیں دے سکتی‘ جب تک یہاں پائی جانے والی بدعنوانی کا خاتمہ اور قانونی اصلاحات نہیں کی جاتیں‘‘۔

انتخابی نتائج آجانے کے بعد فلسطینی اٹارنی جنرل نے خود اس کرپشن کا اعتراف کیا ہے۔ اس نے ۵۰ سودوں میں ۷۰۰ ملین ڈالر کی کرپشن کے ثبوت پیش کیے جن میں سے صرف ایک سودے میں ۳۰۰ ملین ڈالر کی بدعنوانی کی گئی تھی۔ تجزیہ نگار اس اچانک اعتراف پر بھی حیران تھے کہ آخر نتائج آنے کے چند روز میں یہ ساری تحقیقات کیوں کر مکمل ہوگئیں؟ لیکن پھر عقدہ کھلا کہ وہ چاہتے تھے کہ حماس کے آنے اور اس وقت بدعنوانی کے اسکینڈل سامنے آنے سے بہتر ہے کہ   خود ہی اس کا اعلان کر دیا جائے۔

اپنے مستقبل کے بارے میں حماس کی قیادت کے اطمینان کا ایک بڑا سبب یہی مالی بدعنوانیاں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم اگر صرف حکومتی سطح پر پائی جانے والی بدعنوانی ہی کو روکنے میں کامیاب ہوگئے‘ تو ہمارے آدھے مسائل حل ہوجائیں گے اوران شاء اللہ فلسطینی عوام کو مالی وسائل کی کوئی کمی نہیں رہے گی۔

حماس کی حکومت کو درپیش ایک مسئلہ اختیارات کے تعین اور الفتح کے ساتھ تعلقات کا بھی ہے۔ اس بارے میں حماس کا مختصر مطالبہ یہ ہے کہ صدر محمود عباس (ابومازن) ہمیں صرف وہ اختیارات دے دیں جو وہ خود وزیراعظم کی حیثیت سے صدر یاسرعرفات سے طلب کیا کرتے تھے۔ رہی الفتح تنظیم تو ہم پوری فلسطینی قوم کو ایک ہی کشتی کا سوار سمجھتے ہیں اور پوری قوم کی تمام تر مزاحمت فلسطین پر قابض صہیونی افواج ہی کے لیے وقف کرنا چاہتے ہیں۔ ہم الفتح کو بھی حکومت میں شامل کرکے قومی حکومت تشکیل دینے کو ترجیح دیں گے۔ وزیراعظم اسماعیل ھنیہ نے مبارک باد دینے کے لیے آنے والے وفود کو مخاطب ہوتے ہوئے انھیں شیخ احمد یاسین کی یہی بات یاد دلائی کہ ’’اپنے فلسطینی بھائیوں کے بارے میں ہماری پالیسی ہمیشہ وہی رہے گی جو قرآن کریم نے آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں میں سے فرزندِصالح کی پالیسی بیان کی کہ لَئِنْ بَسَطْتَّ اِلَیَّ یَدَکَ لِتَقْتُلَنِی مَا أَنَا بِبَاسِطٍ یَدِیَ لَاقْتُلَکَ(المائدہ۵:۲۸) ’’اگر تم مجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ اٹھائو گے تب بھی میں تمھیں قتل کرنے کے لیے ہرگز اپنا ہاتھ نہیں اٹھائوں گا‘‘۔ اسماعیل ھنیہ نے اقتصادی پابندیوں اور اپنے اصولوں میں سے کسی ایک چیز کو پسند کرنے کے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’خدا کی قسم! ہم فلسطینی زیتون کے تیل اور چٹنی پر گزارا کرلیں گے‘ لیکن آزادیِ فلسطین کے بارے میں اپنے موقف سے دست بردار نہیں ہوں گے۔ مالک الملک رب ذوالجلال ہے‘ کوئی دنیاوی قوت نہیں‘‘۔

ایمان کی یہی حرارت و حلاوت ہمیں دیگر ارکانِ پارلیمنٹ اور قائدین و کارکنانِ حماس کی زندگی میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ جس فلسطینی باوقار و ضعیف خاتون اُم نضال کا حوالہ ابھی گزرا ہے وہ تین شہدا کی ماں ہے۔ فلسطین میں انھیں فلسطینی خنساء کا نام دیا جاتا ہے۔ ان سے ملنے والے اکثر صحافیوں کا کہنا ہے کہ ان سے ملتے ہوئے زبان گنگ اور الفاظ و حروف غائب ہوجاتے ہیں۔ بس ایک نورانی ہالہ ہوتا ہے اور مخاطب اس میں کھو جاتا ہے۔ وہ بھی بھاری اکثریت سے رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئی ہیں۔ انھوں نے ایک ایک کرکے اپنے تین بیٹوں کے سر شہادت کا سہرا باندھنے کے علاوہ سال ہا سال تک اپنے سب بچوںکی اسیری کا عذاب بھی برداشت کیا ہے۔ ان اسیرانِ اقصیٰ میں سے وہ خاص طور پر اپنے بیٹے وسام کا ذکر کرتی ہیں جس کی اسیری کے دوران ہی اس کے والدفوت ہوگئے‘ اس کے بھائی شہید ہوگئے اور وہ کسی کا چہرہ نہیں دیکھ سکا۔

اپنے بیٹوں کا ذکر کرتے ہوئے اُم نضال کہتی ہیں: ’’اللہ کے فضل سے میرے سب بیٹے جہاد میں شریک ہیں۔ میرا بیٹا نضال اور اس کے ساتھی ہمارے گھر ہی میں ’القسّام

  • ‘ میزائل تیار کرنے میں کامیاب ہوئے۔ نضال وہ پہلا فلسطینی مجاہد تھا جس نے غلیل اور پتھر سے شروع ہونے والی تحریکِ انتفاضہ میں پہلا خودساختہ میزائل فائر کیا اور الحمدللہ اس کے بعد البتّار اور الیاسین میزائل بھی تیار ہوئے۔ اس دوران کئی نوجوان شہید بھی ہوئے‘ لیکن پھر بالآخر مقامی طور پر آسانی سے دستیاب‘ سستے لوازمے ہی سے میزائل تیار ہونے لگے‘ جنھوں نے دشمن کی صفوں میں کھلبلی مچادی۔ ہم اپنی انھی جہادی خدمات کو لے کر اللہ کے دربار میں حاضر ہوں گے‘ شہید بیٹوں سے وہاں جی بھر کے ملاقاتیں ہوں گی۔ ایسے میں ان کی جدائی پر حُزن کیسا؟ رونا پکارنا کیسا؟ اس راہ میں تردد کیسا؟ ہم دنیا کی تنگیوں اور آزمایشوں ہی میں کیوں الجھ کر رہ جائیں۔ ہم کیوں سمجھیں کہ یہ زندگی صرف مال و اولاد اور تفریح و آرام سے عبارت ہے؟

جب میرے بیٹے محمد کو اطلاع دی گئی کہ کارروائی کے لیے اس کا نام چُنا گیا ہے تو وہ خوشی سے جھوم اُٹھا۔ میں نے اسے مبارک باد دی اور کہا کہ مجھے یقین ہے کہ تمھاری کارروائی کامیاب ہوگی حالانکہ یہ اسرائیلی عسکری اکیڈمی کے اندر ہونا تھی اور بے حد مشکل تھی۔ میرا بیٹا گھر سے نکلا تو میں نے خود کو دعائوں اور نوافل کے لیے وقف کرلیا تاکہ وہ کامیاب ہوجائے۔

اللہ کا شکر ہے کہ میرے بیٹے کی آرزو اور ہماری دعائیں پوری ہوئیں۔ محمد فرحات نے آدھ گھنٹے تک دشمن پر گولیاں برسائیں اور ۱۰ فوجی قتل کیے( جن میں اکیڈمی کا سربراہ بھی شامل تھا) اور ۳۰زخمی کیے۔ یہودی فوجیوں کا گمان تھا کہ یہ کارروائی فردِواحد نے نہیں پورے گروپ نے کی ہے۔ مجھے خبرملی تو ایک بار دل غم میں ڈوب گیا‘ لیکن پھر میں نے خود کو سنبھالا اور اللہ نے ہماری شہادت قبول کرلی۔ اس سب کچھ کے باوجود اُم نضال کا اصرار ہے کہ میں نے جو کچھ کیا وہ ایک بڑے فریضے اور اعلیٰ مقصد کی خاطر‘ چھوٹی سی قربانی ہے‘ اور وہ دیگر فلسطینی خواتین ہی کی طرح ایک خاتون ہیں جو آزادیِ اقصیٰ کے لیے ہر قربانی کو ہیچ سمجھتی ہیں۔

اُم نضال جیسے ارکان پرمشتمل فلسطینی پارلیمنٹ یقینا اسرائیل و امریکا کے لیے ایک بڑا کڑوا گھونٹ ہے جو اسے بہرصورت برداشت کرنا ہوگا۔ اور پارلیمنٹ میں ان قدسی نفوس کا وجود‘     ان تمام خدشات کا خاتمہ کرتا ہے کہ شاید حماس بھی حکومت کی خاطر سودے بازی کرلے ‘ جہاد کو   پس پشت ڈال دے یا اپنے اصل ہدف‘ آزادیِ اقصیٰ کو دل و نگاہ سے اوجھل کردے یا یہ کہ کہیں میدانِ جہاد کی خوگر حماس حکومت چلانے میں ناکام نہ ہوجائے۔ مالی و سیاسی مشکلات اس کی راہ کھوٹی نہ کردیں۔ اُمت کے لیے یہ وقت مخلصانہ دعائیں کرنے کا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ حماس کے مقدمے کو ہرجگہ پیش کرتے رہنا چاہیے‘ نیز آزادیِ اقصیٰ کے جہاد میں مالی تعاون بھی پیش کرنا ہے خواہ یہ کتنا ہی حقیر کیوں نہ ہو۔

امریکی فوج کو تاریخ کی سب سے طاقت ور فوج کہا جا رہا ہے‘ لیکن عراق میں اس  طاقت ور ترین فوج کو بدترین شکست کا سامنا ہے۔ اسے ابھی خودکُش حملوں‘ بارودی سرنگوں اور کار بموں کا کوئی علاج نہیں ملا تھا کہ ایک نئی مصیبت نے پوری فوج کو سراسیمگی کا شکار کردیا ہے۔  ’قنّاص بغداد‘ بغداد کا شکاری ایک شخص ہے… بے نام… بے ٹھکانہ اورشاید بے وسیلہ۔ اس کا کل سرمایہ ایک دُوربین لگی بندوق اورحساس ویڈیو کیمرہ اٹھائے ایک ساتھی ہے۔ ’بغداد کا شکاری‘ نام اس نے خود ہی متعارف کروایا ہے۔ شہر میں کسی بھی جگہ گھات لگا کر بیٹھ جاتا ہے‘ بندوق پر سائلنسر چڑھاتا ہے۔ ساتھی کیمرہ سنبھالتا ہے تاکہ اس میں شکار کو محفوظ کرسکے اور اس کی خبر دنیا کو پہنچ سکے۔ شکاری شکار کی آنکھوںکے درمیان نشانہ باندھتا ہے اور طاقت ور ترین ہونے کا زعم لیے امریکی فوجی ڈھیر ہوجاتا ہے۔ ساتھی حیران اور سراسیمہ ہوکر اِدھر اُدھر دیکھنے لگتے ہیں تو دوسرا اور پھر تیسرا…۔ اب تک یہ فردِ واحد ۵۵ فوجی مارچکا ہے۔ اس کے بقول جب تک امریکی فوجی عراق میں رہیں گے اس کا شکار جاری رہے گا اور گاہے بگاہے اس کی تصویری جھلکیاں دنیا کو بھی ملتی رہیں گی۔

اب خبرآئی ہے کہ عراقی شہر’ القائم‘ میں بھی ایک شکاری اُٹھ کھڑا ہوا ہے جو اب تک چار امریکی فوجی مار چکا ہے۔ بغداد سے ۴۵۰ کلومیٹر دُور واقع شہر موصل کا شکاری دو‘ فلوجہ کا شکاری چھے‘ شمالی بغداد میں واقع شہر طارمیہ کا شکاری چار روزمیں چھے اور الضلوعیہ شہر کا شکاری ایک امریکی فوجی شکار کرچکا ہے۔ عراقی فوج کے ایک سابق افسر عبدالجبار سامرائی نے القدس پریس کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ عراقی تحریکِ مزاحمت کی شکار کی پالیسی بہترین قرار پائی ہے۔ اس میں کارروائی کرنے والا پوری طرح محفوظ‘ بلکہ امریکی فوجیوں کے اردگرد ہی رہتا ہے لیکن امریکیوں کو سخت نقصان پہنچتا ہے۔ وہ نفسیاتی طور پر ٹوٹ پھوٹ رہے ہیں۔ ان میںسے ہرفوجی ہر لمحے اس خوف کا شکار رہتا ہے کہ کہیں قریب کسی کھڑکی یا کئی سو میٹر دُور کسی گھنے درخت کی مچان پہ بیٹھے شکاری کا اگلا شکار وہ نہ ہو۔ امریکی فوج میں ترجمان کی حیثیت سے کام کرنے والے ایک عراقی باشندے نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ خوف کا عالم یہ ہے کہ اکثر امریکی فوجی پتلون کے نیچے پیمپر استعمال کرنے لگے ہیں‘ کہ خوف کے عالم میں ساتھیوں کے سامنے جگ ہنسائی نہ ہوجائے۔

عراق میں امریکی فوج کے ایک ہزار دن پورے ہونے پر خود مغربی ذرائع ابلاغ نے امریکی فوج کے گرتے مورال اور ناقابلِ تلافی نقصانات کا ذکر کیا ہے۔ برطانوی اخبار انڈی پنڈنٹ نے اس موقع پر اپنی تفصیلی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ان ہزار دنوں میں امریکی فوج ۲۰۴ ارب ڈالر جنگ میں جھونک چکی ہے۔ دیگر آزاد ذرائع کے مطابق امریکا کے جنگی اخراجات ستمبر ۲۰۰۵ء تک ۷۰۰ ارب ڈالر تک پہنچ چکے تھے۔ واضح رہے کہ ویت نام کی پوری ۱۸سالہ جنگ میں امریکا کے ۶۰۰ ارب ڈالر غارت ہوئے تھے۔

برطانیہ بھی ۳ئ۵ ارب سٹرلنگ پائونڈ خرچ کرچکا ہے اور ان اخراجات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے‘ جب کہ ورلڈبنک کی رپورٹ کے مطابق عراق کی مکمل تعمیرنو اور بحالی کے لیے صرف ۳۶ارب ڈالر درکار تھے۔ انڈی پنڈنٹ مزید لکھتا ہے کہ امریکی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہزار دنوں میں مرنے والے امریکی فوجیوں کی تعدد ۲ہزار ۳ سو ۳۹ ہے۔ اگرچہ حقیقی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ زخمیوں کی تعداد ۱۶ ہزار ہے۔ یہ تعداد بھی حقیقی سے کہیں کم ہے‘ جب کہ اس موقع پر عرب ذرائع ابلاغ پر ابومصعب الزرقاوی کی آواز میں نشر ہونے والے پیغام میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مرنے اور زخمی ہونے والے امریکی فوجیوں کی تعداد ۴۰ ہزار سے متجاوز ہے لیکن امریکا اصل حقیقت کو چھپا رہا ہے۔

اس دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے عراقی باشندوں کی تعداد اخبار کے مطابق ۳۰ہزار اور زخمی یا اپاہج ہوجانے والوں کی تعداد دسیوں ہزار ہے‘ جب کہ آزاد ذرائع کے مطابق  کم از کم ایک لاکھ عراقی شہری موت کے گھاٹ اتارے جاچکے ہیں‘ اور جو زندہ ہیں ان کی زندگی عذاب بن چکی ہے۔ اگرچہ کہنے کو تو انتخابات کے بھی کئی دُور ہوچکے ہیں‘ پارلیمنٹ اور حکومت بھی وجود میں آچکی ہے‘ لیکن عراقی عوام کی زندگی امریکیوں کی بم باری‘ نامعلوم بم دھماکوں‘ بے روزگاری کے مہیب اندھیروں‘ ابوغریب کے خوف اور مجہول و تاریک مستقبل کی بے یقینی سے عبارت ہوکر  رہ گئی ہے۔ وہ مغربی ذرائع ابلاغ اور امریکی دانش ور جو تباہ کن ہتھیاروں کی تباہی کے نام پر چھیڑی جانے والی اس جنگ کے حق میں زمین و آسمان کے قلابے ملارہے تھے‘ اب وہ بھی مسلسل لکھ رہے ہیں کہ ’’ہم عراق میں خودکُشی کر رہے ہیں، ہم امریکا اور امریکیوں سے عالمی نفرت میں اضافہ کررہے ہیں، ہم عراق میں کانٹے بو رہے ہیں، عراقی صورت حال قابو سے باہر ہوچکی ہے، ہمیں اپنی فوجیں واپس بلا لیناچاہییں‘‘۔

امریکی پالیسیوں کے سابق گرو ہنری کسنجر نے بھی ۱۲ دسمبر ۲۰۰۵ء کو ٹریبیون میڈیا سروسز اور الشرق الاوسط میں چھپنے والے اپنے ایک مضمون میں عراق کی مشکل صورت حال کا اعتراف کیا ہے لیکن اس بات پر بھی اصرار کیاہے کہ فی الحال امریکا کو عراق سے نکلنا نہیں چاہیے‘ کیونکہ ایسا کرنے سے پوری دنیا میں امریکی منصوبوں کو نقصان پہنچے گا۔ صدربش نے بھی بارہا اسی موقف کا اعادہ کیا ہے کہ عراق سے فوجیں واپس بلانے کی بات ہمارے ایجنڈے سے خارج ہے۔ ان کے بقول: ’’عراق سے فوری انخلا بہت بھاری غلطی ہوگی‘ یہ دہشت گردی کی فتح امریکا کی شکست ہوگی‘‘۔ امریکی وزیردفاع رمزفیلڈ نے بھی مسلسل یہی بات دہرائی ہے۔ ۱۲دسمبر کو اس نے کہا کہ ’’فوری انخلا ہزیمت کی طرف مختصر ترین راستہ ہے‘‘۔لیکن ۲۰۰۵ء کے اختتام پر ۲۳دسمبر کو رمزفیلڈ نے اچانک عراق پہنچ کر اعلان کردیا کہ مارچ ۲۰۰۶ء سے پہلے پہلے امریکا عراق سے اپنے ۷ ہزار فوجی واپس بلا لے گا۔ اسی طرح افغانستان سے بھی ۳ہزار فوجی واپس بلا لیے جائیں گے‘ جب کہ عراقی مشیر قومی سلامتی موفق الربیعی نے بیان دیا کہ ۲۰۰۶ء کے اوائل میں امریکی فوج کا ۲۵فی صد‘ یعنی تقریباً ۳۰ ہزار فوجی عراق سے نکل جائیں گے۔ واضح رہے کہ اس وقت عراق میں امریکی فوجیوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ ہے اور اس پر اکثر تجزیہ نگاروں کااتفاق ہے کہ ان میں سے تقریباً ہر فوجی کل سے پہلے آج گھر واپس جانے کے لیے بے تاب ہے۔

ایک امریکی فوجی جمی ماسی (Jimmy Massey) نے عراق سے نکلنے کی کئی قانونی کوششوں میں ناکامی کے بعد وہاں سے فرار ہونے کا راستہ منتخب کیا۔ فرانس پہنچ کر اس نے کہا کہ میں اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا اور اپنی قوم اور ملک کو تباہی سے بچانے کی کوشش کرنا چاہتا ہوں۔ اس نے اپنے تجربے اور مشاہدے پرمبنی ایک اہم کتاب لکھی جو اکتوبر۲۰۰۵ء میں طبع ہوکر مارکیٹ میں آئی ہے۔ کتاب کا عنوان ہی دہلا دینے والا ہے: kill …kill …kill (ماردو… مار دو… ماردو)۔ جمی نے اس کتاب میں امریکی افواج کے اخلاقی دیوالیہ پن کا ماتم کیا ہے۔ ۱۸ برس تک فوجی خدمات سرانجام دینے والا ابھی مزید سات سال تک ’قوم و ملک کی خدمت‘ کرسکتا تھا۔ لیکن اس نے اعتراف کیا کہ’ ’اب امریکی فوجیوں کا فریضہ‘ امریکی قوم کی عزت و وقار کا دفاع نہیں‘ بلکہ دوسری اقوام کی عزت و وقار خاک میں ملانا رہ گیا ہے‘‘۔

جمی نے لکھا ہے کہ وہ ۲۰۰۳ء میں عراق میں داخل ہونے والی امریکی افواج میں شامل تھا اور ہمیں کہا گیا تھا کہ ہم نے بڑی تعداد میں عراقی جرنیلوں اور فوجی افسروں کو خرید لیا ہے اور اب جلد ہی جنگ ختم ہوجائے گی۔ ہمیں باور کروایا گیا تھا کہ عراق میں ہماری موجودگی صرف پٹرول کی خاطر نہیں ہے۔ اگرچہ یہ بھی ایک اور حساس و قیمتی ہدف ہے لیکن ہم یہاں امریکا کے وسیع تر اور دُور رس اہداف کے حصول کے لیے آئے ہیں۔

تربیتی مراحل کا ذکر کرتے ہوئے وہ امریکی فوجیوں کی نفسیات کی حقیقی تصویرکشی کرتا ہے: ’’ہم نے اپنے فوجی اسکولوں میں پیشہ ورانہ تعلیم کے ساتھ ساتھ اصل سبق یہ یاد کیا کہ ہمیں اپنی تمام تر صلاحیتیں اور توانائیاں اپنی قوم و ملک کے دفاع کے لیے وقف کرنا ہیں‘‘۔ ہمیں مخاطب کرتے ہوئے ہمارے انسٹرکٹر کہتے تھے: سنو تم امریکی فوج ہو‘ وہ سوپرپاور کہ جسے کبھی شکست نہیں دی جاسکتی‘ جس سے زیادہ طاقت ور اور کوئی فوج نہیں۔ اس لیے تمھیں ہمیشہ یہ بات ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ تم امریکی ہو‘ تم سب سے طاقت ور ہو… ہاں‘ سب سے طاقت ور ہو۔ ہمیں یہ سبق بار بار‘ ایک ایک دن میں کئی کئی بار دیا جاتا‘ یہاں تک کہ ہم واقعی یہ سمجھنے لگے کہ ہم سب سے برتر‘ سب سے طاقت ور ہیں۔ ہمارے لیے یہ تصور بھی محال تھا کہ کوئی ہم سے بھی برتر ہوسکتا ہے۔ ہم دنیا کی ہر شے کو خود سے حقیر اور ہر انسان کو زمین پر رینگنے والا کیڑا مکوڑا سمجھنے لگے‘‘۔

اس احساس تفاخر و تعلّی کے ساتھ امریکی افواج عراق میں داخل ہوئیں اور جب آغاز ہی سے انھیں عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تو افسروں کے دماغ اُلٹ گئے۔ جمی کے بقول: ’’ہمارے افسر ہمیں حکم دیتے کہ ہر متحرک شے کو بھون ڈالو‘‘۔ اس کا مطلب ہے ہر بچے ‘بوڑھے‘ خاتون اور  بے گناہ شہری کو قتل کرڈالو۔ ہمیں بار بار یہی حکم ملتا:ہرمتحرک شے کو بھون ڈالو۔ مجھے بھی ایسی کئی کارروائیوں میں شریک ہونا پڑا۔ ہم عمداً قتل میں ملوث ہوتے چلے گئے۔ ہم بچوں کو بھی قتل کرنے لگے… احکامات جاری رہے: مار دو… مار دو… ماردو۔ یہاں تک کہ ہم انسانیت سے عاری ہوگئے‘‘۔ شاید یہی وہ لمحہ تھا جب جمی کے ضمیر نے سوال اٹھایا : ’’امریکا اس جنگ سے کیا حاصل کرے گا؟ ہم بے گناہ بچوں‘ خواتین اور کمزور بوڑھوں کو کیوں قتل کر رہے ہیں؟‘‘

جمی اعتراف کرتا ہے کہ ’’امریکی فوج کے لیے لمبی جنگ لڑنا ممکن ہی نہیں ہے۔ امریکی فوجی اپنے عسکری وسائل‘ ٹکنالوجی‘ سیٹلائٹ کے جال‘ جاسوسی معلومات اور مٹھی بھر ڈالروں کے عوض اپنا ضمیر و وطن بیچنے والوں کے سہارے کسی بھی ملک کو تباہ تو کرسکتا ہے‘ لیکن وہ کوئی بھی ایسی طویل جنگ نہیں لڑسکتا جو دھیرے دھیرے تمام وسائل کو راکھ میں بدل دے۔ خاص طور پر اجنبی شہروں میں لڑی جانے والی ایسی گوریلا جنگ لڑنا تو کسی بھی امریکی فوجی کے بس کی بات نہیں کہ نہ تو وہ ان کی زبان سمجھتا ہو اور نہ اس کے راستوں سے پوری طرح آشنا ہو‘‘۔ اس نے ایک پورا باب اس نکتے پر لکھا ہے کہ امریکی افواج اپنی اس کمزوری کو اسرائیلی فوجیوں کے ذریعے دُور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ ان کی اٹھان ہی ملکوں کو فتح کرنے کے بجاے شہروں کے اندر لمبی لڑائی لڑنے پر ہوتی ہے۔ لیکن یہ پالیسی بھی اپنے منفی اثرات مرتب کررہی ہے۔ سب سے برتر ہونے کا زعم رکھنے والے امریکی فوجی یہ تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں کہ ان پر کوئی اور حکم چلائے اور کوئی دوسرا فوجی ان سے بہتر ہوسکتا ہے۔ بالآخر وہ اس نتیجے تک پہنچتا ہے کہ عراق پرحملہ دراصل تھا ہی اسرائیلی مفادات کی خاطر اور اسرائیلیوں نے ہی ہمیں اس جنگ میں کھینچا ہے۔ وہ لکھتا ہے: ’’لیکن ہم فوجیوں کو یہ بات تب سمجھ آئی جب ہماری کارروائیاں صرف تشدد پر ہی مبنی ہوکررہ گئی تھیں‘ ہم آزادی کے علَم بردار سپاہیوں سے دہشت گردوں میں بدل گئے‘ امریکی فوجی وردی میں ملبوس دہشت گرد‘‘۔

کتاب کے تمام ابواب بہت اہم اور حساس ہیں‘ جو کسی مسلم بنیاد پرست یا جنگ مخالف لکھاری نے نہیں لکھے‘ بلکہ اس پوری جنگ میں شریک امریکی فوجی نے لکھے ہیں۔ کتاب لکھنے کے بعد اس سے ایک فرانسیسی اخبار لومانیٹی نے انٹرویو لیتے ہوئے پوچھا کہ ’’یہ سب کچھ لکھنے کے بعد آپ کوئی خوف محسوس نہیں کرتے؟ اس نے جواباً کہا: ’’میں نے ایک حقیقت بیان کی ہے تاکہ دنیا اس سے آگاہ ہوجائے۔ میں نے اپنے ضمیر کی تسکین کا سامان کیا ہے۔ اب مجھے سکون سے نیند آسکے گی۔ مجھے اس امر کی کوئی پروا نہیں کہ امریکی فوج کا ردعمل کیا ہوتا ہے۔ میں نے کتاب میں صراحت سے لکھا ہے کہ امریکا عراق میں آزادی یا جمہوریت نہیں پھیلا رہا بلکہ موت‘ تباہی اور خونی سیاست کو رواج دے رہا ہے۔ امریکا انسانی ضمیر کی آوازوں پر کان نہیں دھر رہا۔ یہ ایک حقیقت ہے اور میں اس حقیقت کی خاطر موت بھی قبول کرنے کو تیار ہوں تاکہ پوری دنیا اس سے آگاہ و باخبر ہوجائے‘‘۔

امریکی ذمہ داران کو یہ سوچنا ہوگا کہ اگر اس کا اپنا بازوے شمشیر زن‘ امریکی پالیسیوں کی مخالفت میں موت تک قبول کرنے پر آمادہ ہے تو وہ لوگ جن کے ملک پر وہ قابض ہے یا قابض ہونا چاہتا ہے وہ کیونکر سکون سے بیٹھیں گے۔ بغداد کا شکاری ایک فرد ہوسکتا ہے لیکن کیا اس ایک فرد سے نجات پاکر (اگر پاسکے)‘ امریکی فوج سُکھ کا سانس لے سکتی ہے۔

امریکا کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہر انسانی جان قیمتی اور ہر انسان محترم و مقدس ہے۔ اسے بالآخر نہ صرف عراقی و افغانی یا باجوڑ اور وزیرستان کے انسانوں کی جان و مال کا بھی احترام کرنا ہوگا بلکہ خود اپنے فوجیوں کو بھی موت کی وادیوں سے نکالنا ہوگا۔ آخر انسانیت بھی کوئی چیز ہے۔ اگر امریکا اس تلخ حقیقت پر کان نہیں دھرتا اور تاریخ سے سبق نہیں سیکھتا تو یقینا وہ وقت بہت زیادہ دُور نہیں رہے گا جب دنیا ’سابق سوویت یونین‘ کی طرح امریکا کا نام بھی ’سابق ریاست ہاے متحدہ امریکا‘ کے الفاظ میں لکھا کرے گی۔ تب ’جمی ماسی‘ کے الفاظ میں: ’’مٹھی بھر ڈالروں کے عوض اپنا ضمیر و وطن بیچ ڈالنے والوں‘‘ کو بھی اپنے ایک ایک جرم کا حساب دینا ہوگا۔

مجھے وہ لمحات بھلانے سے نہیں بھولتے کہ جب فلسطینی مائیں ہمارے پائوں پڑتیں کہ خدارا ہمارے بچوں سے پہلے ہمیں ذبح کر دو‘ ہم انھیں ذبح ہوتے نہیں دیکھ سکتیں۔ ہم انھیں ٹھکرا دیتے اور پہلے ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے بچے ذبح کرتے‘ پھر خود انھیں اور پھر آدمیوں اور بوڑھوں کو۔ (اسرائیلی ایجنٹ کا انٹرویو ‘ اسرائیلی ٹی وی‘ ۱۷ ستمبر ۲۰۰۵ئ)

۲۳ سال پہلے ۱۶ سے ۱۸ ستمبر ۱۹۸۲ء تک صبرا اور شاتیلا کی مہاجر بستیوں میں ۳ ہزار سے زائد فلسطینی مردوں‘ عورتوں اور بچوں کے بے حمانہ قتلِ عام کا ذمہ دار اُس وقت کا وزیردفاع آرییل شارون تھا۔ وہی وزیر دفاع آج اسرائیل کا وزیراعظم ہے۔

پرویز مشرف کے الفاظ میں بہادر اور جرأت مند آرییل شارون۔

صبرا و شاتیلا قتلِ عام کی تیئسویں برسی کے موقع پر اس سال بھی ۱۸ ستمبر کو فلسطینی کیمپوں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ اس بار ۱۰۰ فرانسیسی‘ اطالوی‘ جرمن اور امریکی باشندوں نے بھی ان احتجاجی مظاہروں میں علامتی شرکت کرتے ہوئے شارون کو جنگی درندہ قرار دیا۔ لیکن جب یہ مظاہرے ہو رہے تھے عین اسی لمحے ’’امریکی یہودی کانگرس‘‘ کی دعوت پر خطاب کرتے ہوئے جنرل پرویز مشرف جنرل شارون کو ایک بار پھر بہادر اور شجاع انسان قرار دیتے ہوئے اس کی حوصلہ افزائی کرنے اور اس کے ساتھ گفت و شنید مزید آگے بڑھانے کی ضرورت پر زور دے رہے تھے۔

کیا یہ محض اتفاق ہے کہ پرویز مشرف کا یہ خطاب صبرا‘ شاتیلا کیمپ کے قتلِ عام کی برسی کے عین موقع پر ہو؟ اور کیا یہ بھی صرف اتفاق تھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان اور صہیونی ریاست کے درمیان پہلے باضابطہ مذاکرات اسلامی خلافت کے آخری مرکز استنبول میں ۲۶ رجب کو یعنی عین شبِ معراج کے موقع پر ہوں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا صدر اپنے روسیاہ وزیرخارجہ کے ذریعے شارون کو پیغام دے کہ آج ہم مقامِ معراجِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم‘ سرزمینِ مسجدِاقصٰی پر تمھارا غاصبانہ قبضہ تسلیم کرتے ہیں۔

پرویز مشرف کے اس اقدام کی وجہ سے پوری اُمت مسلمہ میں صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے۔ تیزرفتار ابلاغیاتی دور میں کہ جب اہم ترین خبریں بھی چند روز کے بعد قدیم قرار پاتی ہیں‘ آج بھی اس اقدام کے مالہ وما علیہ پر بحث ہو رہی ہے۔ اسلامی ذہن رکھنے والے ہی نہیں اسلامی تحریکوں اور اسلام پسند عناصر کے خلاف لکھنے والے بھی اسے ایک فاش غلطی اور جرم قرار دے رہے ہیں۔ اگر کسی نے پرویز مشرف کے لیے بہت ہی گنجایش نکالی ہے تو صرف یہ کہ قصور پرویز مشرف کا نہیں خود عرب حکمرانوں کا ہے کہ انھوں نے اس جرم کا ارتکاب کرنے میں سبقت کی۔ لیکن جرم کو کارنامہ نہیں قرار دیا گیا۔

الشرق الاوسط سب سے بڑا عرب روزنامہ سمجھا جاتا ہے جو بیک وقت کئی ممالک سے شائع ہوتا ہے۔ عبدالرحمن الراشد اس کا ایک سینیئر سیکولر صحافی ہے اور اسلام پسندوں کی تضحیک کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ ۳ستمبر کے شمارے میں ’’پرویز مشرف نے یہ سب کیوں کیا؟‘‘ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ ’’پرویز مشرف نے فلسطینی عوام کی مدد کرنے‘ بھارت کے ساتھ حساب برابر کرنے یا اپنی اقتصادی مشکلات پر قابو پانے جیسی جو وجوہات بیان کی ہیں ان سب کے باوجود میری نظر میں پرویز مشرف نے یہ ایک بہت بھیانک غلطی کی ہے۔ اس نے ایک طرف تو ملک کے اندر اپنے مخالفین کے ہاتھ میں ایک مہلک بارود دے دیا ہے اور دوسری طرف اس نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا کچا پھل‘ پکنے سے پہلے ہی بیچ ڈالاہے‘‘۔

وہ مزید لکھتا ہے: ’’حقیقت یہ ہے کہ مشرف نے بیروت میں ہونے والی عرب سربراہ کانفرنس میں سعودی عرب کی طرف سے پیش کی جانے والی تجویز کی روشنی میں عرب ممالک کی طرف سے اپنائے جانے والے عرب منصوبۂ امن کو بہت کمزور کر دیا ہے۔ پاکستان ایک اہم اور بڑا ملک ہے اور مستقبل کے کسی بھی منصوبہ امن میں اسرائیل پر دبائو کے لیے اہم کارڈ ثابت ہو سکتا تھا۔ مناسب وقت آنے پر مشرف‘ اسرائیل کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو ایک مضبوط کارڈ کے طور پر استعمال کرسکتا تھا۔ یہ مناسب وقت ایک فلسطینی ریاست وجود میں آنے کے امکانات دکھائی دینے پر آسکتا تھا نا کہ صرف غزہ سے انخلا پر‘‘۔

الخلیجمتحدہ عرب امارات کا اہم روزنامہ ہے۔ اس کی رائے عالمِ عرب اور بالخصوص متحدہ امارات کی پالیسیوں اور احساسات کی عکاسی کرتی ہے۔ اس نے ۱۸ ستمبر کو اپنا اداریہ اس عنوان سے لکھا: ’’اسرائیل سے تعلقات کے بارے میں تلخ سوالات‘‘۔ یہ پورا اداریہ پرویز حکومت کے لیے آئینہ ہے۔ اخبار لکھتا ہے:

’’ہر عرب انسان کا حق ہے کہ وہ غصے اور تکلیف سے چلّاتا ہوا پوچھے: عالمِ عرب اور عالمِ اسلامی کی وہ دیواریں ایک ایک کر کے کیوں ڈھے رہی ہیں جو اب تک ممنوعہ علاقوں میں اسرائیلی نفوذ کی راہ میں حائل تھیں۔ کسی بھی عرب شہری بالخصوص فلسطینی شہری کو کیسے باور کروایا جا سکتا ہے کہ یہ سب جو ہوچکا یا جو ہونے جا رہا ہے فلسطین اور اس کے عوام کی خاطر ہے‘ اس سے انھیں اپنے حقوق واپس ملیں گے۔ اپنی مقدس سرزمین واپس ملے گی اور بے وطن کر دیے جانے والے لاکھوں فلسطین اپنے وطن واپس جاسکیں گے۔

’غزہ سے بظاہر اور پُرفریب انخلا کے علاوہ شارون نے ابھی تک کیا کیا ہے؟ اب بھی غزہ کے بری‘ بحری اور ہوائی راستے اس کے قبضے میں ہیں۔ سب دروازے اب بھی بند ہیں‘ سرحدیں اب بھی آگ و خون کے نرغے میں ہیں اور انھیں کسی بھی لمحے دوبارہ روندا جاسکتا ہے۔ غزہ کے عوام آزادی کی خوشیاں منانا چاہتے ہیں لیکن حصار نے ہر خوشی کا دم گھونٹ رکھا ہے۔

’شارون نے یہ تو کیا کہ عاجز آکر اور ہضم نہ کرسکنے کے باعث غزہ سے فوجیں نکال کر ان کی نئی صف بندی کردی تاکہ مغربی کنارے پر اپنے قبضے کو مزید پکا کرلے۔ لیکن کیاشارون نے کسی ایسی خودمختار فلسطینی ریاست کو قبول کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے جو تمام یہودی بستیوں اور بلندوبالا آہنی فصیلوں سے آزاد ہو؟ کیا اس نے بیت المقدس کو اس فلسطینی ریاست کے دارالحکومت کے طور پر قبول کرنے کا اعلان کیا ہے؟ کیا اس نے ملک بدر کیے جانے والے فلسطینیوں کو وطن واپس آنے کا حق دے دیا ہے؟ یا اس نے اپنی جیلوں میں قید ہزاروں فلسطینی قیدیوں کو رہا کردیا ہے؟

’اسرائیل سے معمول کے تعلقات قائم کرنے اور اس خاطر سر کے بل دوڑتے چلے جانے کے بارے میں اٹھنے والے سوالات بہت تلخ ہیں۔ یہ ایک دہشت گرد کو بہادر‘ امن پسند قرار دینے اور ہاتھ لمبے کر کر کے اس سے گلے ملنے کا دور ہے۔ یہ مظلوم کو دہشت گرد قرار دینے‘ اس کا پیچھا کرنے‘ اس کا محاصرہ کرنے اور اسے صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کا دور ہے‘‘۔

یہ کسی بنیاد پرست اسلام پسند یا رجعت پسند مُلّا کی تحریر نہیں‘ اہم خلیجی ریاست کے اہم روزنامے کا اداریہ ہے اور اس طرح کی ایک دو نہیں سیکڑوں تحریریں پوری دنیا میں لکھی گئیں اور لکھی جارہی ہیں۔ ۱۶ستمبر کے اماراتی اخبار البیان میں مستقل کالم نگار عبدالوہاب بدر ’’شرمناک جرائم‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں:

’’اس سے زیادہ بے حیائی اور ڈھٹائی کی بات اور کوئی نہیں ہوگی کہ شارون تو نیویارک میں عالمی کانفرنس میں جانے سے پہلے بھی یہ بیان دے کہ مغربی کنارے میں مزید یہودی بستیاں تعمیر کی جائیں گی‘ لیکن اس کے باوجود اسے غزہ سے انخلا کے اپنے ’’جرأت مندانہ‘‘ اقدام پر مبارک بادیں وصول ہو رہی ہوں۔ وہ یقینا جی ہی جی میں ہنستا ہوگا کہ اس دنیا کا باوا آدم ہی نرالا ہوچکا ہے‘ وہ اسرائیلی دھوکوں کو بھی سچ مان رہی ہے‘‘۔

کچھ عرصے پہلے تک مصر کے وزیرخارجہ رہنے والے احمد ماہر خود مشرق وسطیٰ امن منصوبے میں شریک رہے ہیں۔ ۱۶ ستمبر کے الشرق الاوسط میں لکھتے ہیں: ’’کوئی بھی چیز ہمیں شارون کے اس عظیم دھوکے اور فراڈ کی حقیقت سے غافل نہ کرپائے۔ شارون اس فریب کی قیمت وصول کرنا چاہتا ہے۔ وہ مزید امریکی مالی اور سیاسی امداد کے علاوہ کئی عرب اور غیر عرب ممالک کو ورغلانا چاہتا ہے۔ وہ ان سے اپنے لیے اچھے کردار کا ایسا سرٹیفیکیٹ حاصل کرنا چاہتا ہے جس کا وہ قطعاً حق دار نہیں‘ کیونکہ اس کے حقیقی ارادے جاننے کے لیے کسی کو اس کا سینہ چیر کر دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔

یہ تو ان لاتعداد مضامین‘ اداریوں اور تجزیوں کی ایک جھلک ہے کہ جن کے لکھنے والے کوئی اسلامی شناخت نہیں رکھتے۔ رہے اسلامی عناصر تو دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں‘ سیاسی جماعتوں اور آزاد صحافیوں نے اُمت کے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ اس ترجمانی میں افسوس بھی تھا‘ صدمہ بھی تھا اور پاکستان و فلسطین کے مستقبل کے حوالے سے گہری تشویش بھی۔ پارٹیوں‘ ان کے سربراہوں اور مسلم دانش وروں کے بیانات کی فہرست بہت طویل ہے‘ یہاں صرف ایک معروف مصری صحافی فہمی ہویدی کے ایک مقالے سے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں۔ فہمی ہویدی گذشتہ سال پرویز مشرف کی طرف سے بلائی جانے والی اس کانفرنس میں بھی شرکت کرچکے ہیں جو انھوں نے اپنی روشن خیالی کے پرچار کے لیے دنیا بھر سے معتدل و مؤثر دانش وروں اور اہلِ قلم کو اسلام آباد میں جمع کر کے منعقد کی تھی۔

فہمی ہویدی لکھتے ہیں: ’’گذشتہ ہفتے دنیا میں تین آفات ٹوٹیں۔ امریکی ریاست لویزیانا میں تباہ کن طوفان کترینا‘ امام کاظم کی برسی کے موقع پر بغداد کے ائمہ پل پر لوگوں میں بھگدڑ مچ جانے کے باعث دریائے دجلہ میں ہزار سے زائد انسانی جانوں کا اتلاف اور پاکستان و اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات قائم کرنے کا اعلان۔ تینوں آفات میں مشترک عنصر یہ تھا کہ تینوں کے نتیجے میں پہنچنے والا صدمہ بہت بھاری تھا اور تینوں ایسی جگہوں سے آئیں کہ جہاں سے کسی کو ان کی توقع نہیں تھی۔ فرق ان تینوں میں یہ ہے کہ پہلی دونوں تو ایک انسانی المیہ تھیں‘ جب کہ تیسری آفت انسانی المیہ ہونے کے ساتھ ساتھ گہرا سیاسی اثر بھی رکھتی ہے۔

’پاکستان کے اندرونی حالات اور اس کی گہری اسلامی شناخت کے تناظر میں میرا خیال ہے کہ اسلام آباد نے بہت مہیب غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔ جس کے باعث موجودہ حکومت کو ہلا دینے والے واقعات جنم لیں گے‘ جب کہ حکومت کو درپیش مشکلات سے سب لوگ پہلے ہی آگاہ ہیں۔ ان مشکلات کا ایک مظہر خود صدر مشرف پر ہونے والے قاتلانہ حملے بھی ہیں۔

’اگر ہم پاکستان کے اندرونی حالات سے صرفِ نظر بھی کرلیں تب بھی اس فیصلے پر ایک آفت ہونے کا ہی اطلاق ہوگا کیونکہ پاکستان اسرائیل سفارتی تعلقات شروع کرنے کا سیدھا سادھا مطلب یہی ہے کہ عالمِ اسلام میں ایک سیاسی حرام کو حلال قرار دے دیا گیا ہے… ترکی کی تو اٹھان ہی سیکولر‘ مغرب کی گود میں کھیلنے والے‘ اسلام اور عربیت سے نفرت کرنے والے کی حیثیت سے ہوئی تھی‘ جب کہ پاکستان نے اپنی یہ حیثیت و جواز اسلامی شناخت کے باعث حاصل کیا تھا اور گذشتہ پوری تاریخ میں مسئلہ فلسطین پاکستانی عوام کے وجدان میں رچا بسا رہا ہے۔ رہا سوال بعض دیگر ممالک کے خفیہ رابطوں کا‘ تو یقینا یہ بھی ایک مکروہ و ناپسندیدہ فعل ہے جو بہرحال علی الاعلان منکر کے ارتکاب سے کم برا قرار پائے گا…بلاشک پاکستانی فیصلہ اس سلسلے میں ’’رہبر‘‘ قرار پائے گا جو کئی مسلم ممالک کو اپنی پیروی کرنے پر اُبھارے گا۔

’اس پاکستانی فیصلے سے دو امور واضح ہو کر سامنے آئے ہیں: ایک تو یہ کہ اسرائیل بعض لوگوں کو دھوکا دینے میں کامیاب ہوگیا ہے کہ غزہ سے انخلا کے ذریعے اس نے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا دروازہ کھول دیا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ فیصلہ پاکستانی حکومت کی پالیسیوں اور فیصلوں پر امریکی تسلط کی واضح اور کھلی دلیل ہے ---خود اسرائیل کے لکھنے والوں نے اس اقدام کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے ایک ’’تاریخی اقدام‘‘ قرار دیا ہے۔ انھوں نے بصراحت یہ لکھا ہے کہ پاکستان نے یہ اقدام واشنگٹن میں سندِقبولیت حاصل کرنے کے لیے اٹھایا ہے۔ ایک اسرائیلی کالم نگار نے لکھا ہے کہ اسرائیل کی حیثیت ٹکٹ گھر کی ہے۔ امریکی حکومت کا دل جیتنے کی کوشش کرنے والے ہرشخص کو اسی کھڑکی سے گزرنا پڑتا ہے اور ہمیں اپنی اس حیثیت پر خوشی ہے۔ اسرائیل کے لیے یہ کافی ہے کہ ٹکٹ کی قیمت ہمیشہ اس کی جیب میں جاتی ہے‘‘۔

یہ ایک جھلک ہے ان مضامین و تجزیوں کی جو تمام مسلمان ممالک کے ذرائع ابلاغ میں شائع ہوئے۔ ان کے علاوہ عوامی ردعمل کی ایک وسیع لہر بھی دن بدن وسیع تر ہو رہی ہے۔ مسجدوں اور مجلسوں میں گلیوں اور بازاروں میں‘ چائے خانوں اور ایوانوں میں ہر جگہ پاکستان اسرائیل تعلقات زیربحث ہیں۔ پاکستان کے بعد انڈونیشیا‘ قطر اور بحرین کے حوالے سے بھی خبریں شائع ہوچکی ہیں کہ کسی نے صہیونی ریاست سے تجارت پر پابندی اٹھا لی ہے تو کوئی صہیونی ذمہ داران سے ملاقات کرچکا ہے۔ ان کے بارے میں بھی عوامی حیرت و نفرت کا اظہار کیا جا رہا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ ان کا جرم پاکستان کے نامۂ اعمال میں بھی شامل کیا جا رہا ہے۔ مقبوضہ فلسطین کے کئی علاقوں میں پاکستان کے اس اقدام کے خلاف مظاہرے ہوچکے ہیں۔ خود فلسطینی اتھارٹی کے ذمہ داران باصرار کہہ چکے اور کہہ رہے ہیں کہ فیصلہ سراسر پرویز حکومت کا فیصلہ ہے۔ محمود عباس انتظامیہ کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کے ایک ذمہ دار نے راقم کو بتایا کہ پاکستان سے اسرائیل بھیجے جانے والے وفد کے بارے میں بھی ہم نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ اپنا وفد غزہ تو بھیج دیں لیکن اسے القدس نہ بھیجیں کیونکہ اسرائیلی تسلط میں وہاں کا دورہ اس اعلان کے مترادف ہوگا کہ ہم اس پر یہودی قبضہ تسلیم کرتے ہیں اور صہیونی انتظامیہ کے مہمان کی حیثیت سے وہاں جانے پر بھی معترض نہیں ہیں۔ پاکستان کے اس بیان پر کہ ہم امن مذاکرات میں فلسطینی عوام کا ساتھ دینا چاہتے ہیں‘ محمود عباس انتظامیہ کے اس ذمہ دار نے استہزائیہ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی عوام مذاکرات کے علاوہ جہاد بھی کرر ہے ہیں۔ پاکستان اس میں ہمارا ساتھ کیوں نہیں دیتا۔

اس تمام احتجاج‘ اظہار کرب اور غم و غصے کی عالمی لہر کے باوجود امریکی یہودی کانگرس سے اپنے ’’تاریخی‘‘ خطاب میں پرویز مشرف نے اسی راہ پر مزید آگے بڑھنے کا عندیہ دیا ہے۔ یہ یہودی کانگرس صہیونی اور اسرائیلی مفادات کی سب سے بڑی محافظ تنظیم ہے۔ امریکی صدور بھی ہربرس وہاں جاکر اپنی اسرائیل نوازی کی ضمانت دیتے ہیں۔ پرویز مشرف کو وہاں بلانے کا مقصد بھی یہی تھا جو انھوں نے پورا بھی کیا‘ دوسرا مقصد یہ تھا کہ عالمِ اسلام‘ بالخصوص مسلم عوام میں یہودیوں کے متعلق پائی جانے والی نفسیاتی دیوار توڑی جائے۔ کسی بھی سطح پر یہودی ذمہ داران سے ملنے میں کسی کو تردد نہ رہے اور تعلقات معمول میں لانے کا عمل مزید تیزی سے مکمل ہو۔

پرویز مشرف کے خطاب میں سب سے قابلِ اعتراض اور باعث استعجاب بات ان کا یہ کہنا تھا کہ ’’اسرائیل سے ہمارا براہِ راست کوئی تنازعہ نہیں ہے اور ہمیں اسرائیل سے کوئی خطرہ نہیں ہے‘‘۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ قبلہ اوّل اور مسجد اقصیٰ پر صہیونی قبضہ دنیا کے ہرمسلمان کا اسرائیل سے براہِ راست تنازعہ ہے۔ اور کیا وہ نہیں جانتے کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام صہیونی انتظامیہ کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھبا ہوا ہے۔ ذرابتایئے آخر ایران کا صہیونی انتظامیہ سے کیا براہِ راست تنازعہ ہے کہ ان کی نظر میں ایران کا ایٹمی پروگرام اس وقت علاقائی اور عالمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ یہ سوال دنیا بھر میں پرویز مشرف سے پوچھا جا رہا ہے۔ ثریا الشہری ایک معروف عرب کالم نگار ہے۔ ۵ستمبر کے الشرق الاوسط میں ان کا کالم شائع ہوا ہے: ’’اسلام آباد اور تل ابیب: کیا اسرائیلی عوام نے بھی فریق ثانی کو قبول کر لیا ہے‘‘۔ اس کالم میں انھوں نے اسرائیلی معاشرے میں مسلمانوں اور عربوں کے متعلق پائی جانے والی گہری نفرت اور شدید تعصب کے بارے میں اعداد و شمار اور متعصب صہیونی مدارس کا حوالہ دیتے ہوئے پرویز مشرف سے پوچھا ہے کہ آپ تو آگے بڑھ بڑھ کر ان سے مل رہے ہیں۔ کیا آپ نے اسرائیلی معاشرے میں اپنے اور مسلمانوں بلکہ ہر غیر یہودی کے لیے پائی جائے اور مسلسل پھیلائی جانے والی نفرت کا بھی جائزہ لیا ہے۔

گذشتہ دنوں فلسطین کی تحریک حماس کے ایک مرکزی ذمہ دار سے ملاقات ہوئی۔ وہ شدید صدمے کی حالت میں تھے۔ کہنے لگے پاکستان ہماری مدد نہیں کر سکتا تھا تو ایک کڑے وقت میں پیٹھ میں چھرا تو نہ گھونپتا۔ پھر کہنے لگے: پہلے صہیونی وزیراعظم بن گوریون نے اسرائیل کا دفاعی نظریہ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل صرف اسی وقت محفوظ و مامون ہوسکتا ہے جب ہم ترکی‘ حبشہ (اریٹیریا/ایتھوپیا) اور ایران پر مشتمل ایک دفاعی تکون تشکیل دے لیں‘ یعنی ان تینوں ممالک میں اپنے اثرو نفوذ اور تسلط کو یقینی بنا لیں۔ اس دفاعی نظریے کا جائزہ لیں تو اریٹیریا اس وقت بحراحمر میں اسرائیل کا سب سے قابلِ اعتماد حلیف اور جاسوسی و عسکری اڈہ ہے۔ ترکی کی فوج‘ وہاں کے ذرائع ابلاغ اور تجارت میں اسرائیلی اثرونفوذ کسی سے مخفی نہیں‘ ترکی میں اصل حکمرانی اسی مثلث کی ہے۔ البتہ ایران سے شاہ کے خاتمے کے بعد سے لے کر اب تک یہ خواب خاک میں ملا ہوا ہے۔ ایران کی کمی بھارت سے اپنے تعلقات کے ذریعے پوری کرنے کی سعی کی گئی ہے لیکن ایک تو بھارتی حکومت فیصلوں کا حق ہمیشہ اپنے ہاتھ میں رکھنے پر مصر ہوتی ہے اور دوسرے یہ کہ بھارت صہیونی گٹھ جوڑ عالمِ اسلام میں مثبت فوائد کے بجاے ردعمل اور تشویش و نفرت کا باعث بنتا ہے۔ بن گوریون کے الفاظ میں بھی: ’’چونکہ ہندستان میں بسنے والوں کی اکثریت ہندوئوں کی ہے جن کے دلوں میں صدیوں سے مسلمانوں کے خلاف دشمنی اور نفرت بھری پڑی ہے‘ اس لیے ہندستان ہمارے لیے اہم ترین اڈا ہے جہاں سے ہم پاکستان کے خلاف ہر قسم کی کاروائیاں کرسکتے ہیں۔ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اس نہایت کارآمد اڈے سے پورا فائدہ اٹھائیں اور انتہائی چالاک اور خفیہ کارروائیوں سے پاکستانیوں پر زبردست وار کر کے انھیں کچل کر رکھ دیں‘‘۔

حماس کے ذمہ دار کا خیال تھا کہ اب اسرائیل بن گوریون کے دفاعی نظریے میں ترمیم کرکے یہ دفاعی تکون حبشہ‘ ترکی اور پاکستان پر مشتمل کرنا چاہتا ہے جس کے لیے ایک طرف تو بھارت کے ذریعے دھمکیوں اور خفیہ کارروائیوں کی زد میں رکھتے ہوئے پاکستان کو مکمل طور پر اپاہج کرنا ضروری ہے اور دوسری طرف اسے براہِ راست صہیونی گرفت میں لینا اور گرفت میں لینے کے لیے مالی لالچ دینا‘ تعریفوں کے پُل باندھنا اور وسیع تر تعلقات قائم کرنا ضروری ہے۔ کیا پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک بننے والے اس خطرے اور اس کی سنگینی سے آگاہ ہیں؟ کیا کوئی اس خطرے کے سدباب کا ارادہ و ہمت رکھتا ہے؟ اگر خدانخواستہ نہیں‘ تو وہ جان لیں کہ پاکستان کے عوام     یہ ارادہ بھی رکھتے ہیں‘ اور اللہ کی توفیق سے اس کی ہمت بھی۔

۴۵ کلومیٹر لمبی اور ۶ سے ۱۱ کلومیٹر تک چوڑی غزہ کی پٹی فلسطینی سرزمین کا صرف ۵ئ۱فی صد بنتی ہے۔ اس کا کل رقبہ ۳۶۵ مربع کلومیٹر ہے اور یہاں ۱۴ لاکھ فلسطینی رہتے ہیں۔ ۲ ہزار ۹ سو افراد فی مربع کلومیٹر آبادی کی کثافت دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ ان کی اکثریت خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارتی ہے اور ان کی روزانہ آمدنی تقریباً دوڈالر ہے۔ ۳۸ سال پہلے ۱۹۶۷ء میں اسرائیل نے غزہ پر قبضہ کیا‘ یہاں بھی یہودی بستیاں تعمیر کرنا شروع کر دیں اور دنیا بھر کی مخالفت کے باوجود ان میں اضافہ کرتا چلا گیا۔ ۲۱بستیوں کے علاوہ فوج کی کئی چھائونیاں اور حفاظتی پٹیاں قائم کی گئیں۔ یہاں تک کہ غزہ کا ۵۸ فی صد علاقہ اسرائیلیوں کے زیرتصرف آگیا۔

ان یہودی بستیوں میں اگست ۲۰۰۳ء کے اعداد و شمار کے مطابق ۷ ہزار ۳ سو یہودی آبادکار رہتے تھے۔ ۱۴ لاکھ فلسطینیوں کے سمندر میں صرف ۷ ہزار۳ سو یہودی آباد کار اور ان کی حفاظت کے لیے ہر طرح کے امریکی اور اسرائیلی اسلحے سے لیس ہزاروں یہودی فوجی۔

جنرل (ر) شارون جب اپوزیشن میں تھا تو اس نے بڑھتے ہوئے فلسطینی شہادتی حملوں کو روکنے میں ناکام اسرائیلی حکومت سے کہا: ’’انھیں روک نہیں سکتے تو اقتدار چھوڑ دو‘ میں برسرِاقتدار آکر ۱۰۰ دن کے اندر اندر تحریکِ انتفاضہ ختم کرکے دکھا ئوں گا‘‘۔ خوف زدہ صہیونی عوام نے جنرل شارون کو وزیراعظم بنا دیا‘ اس نے سفاکیت و خوں ریزی کے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیے لیکن فلسطینی عوام کی تحریکِ مزاحمت و آزادی کو نہیں کچل سکا۔

ہر قتل عام اور فوج کشی‘ فلسطینی عوام کے عزم و ہمت میں مزید اضافے کا سبب بنی اور بالآخر خون آشام شارون نے اعلان کیا: ’’میں امن کا پیغام لے کر آیا ہوں اور میرا ایمان ہے کہ فلسطینی اور اسرائیلی ساتھ ساتھ رہ سکتے ہیں‘‘۔ اس نے ۱۸ دسمبر ۲۰۰۳ء کو اعلان کیا کہ وہ غزہ کی پٹی سے مکمل اور مغربی کنارے کے شمال میں چار یہودی بستیوں سے یک طرفہ انخلا کر دے گا۔ تب سے لے کر اب تک اس اعلان پر بہت لے دے ہوئی‘ دنیا بھر میں اس یہودی قربانی اور امن پسندی کا ڈھول پیٹا گیا۔ مختلف یہودی تنظیموں کی طرف سے اس کی شدید مخالفت کی گئی۔ انخلا سے ہفتہ بھر پہلے شارون کے وزیر اور سابق اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو احتجاجاً مستعفی ہوگئے۔ انخلا کے وقت یہودی آباد کاروں اور اسرائیلی فوجیوں کے درمیان ہاتھا پائی اور تصادم کے مزاحیہ ڈرامے پیش کیے گئے‘ جن میں فلسطینی بچوں پر گولیوں اور راکٹوں کی اندھادھند بارش کرنے والے دسیوں سورما فوجی ایک ایک یہودی آبادکار پر بمشکل قابو پاتے دکھائے گئے اور غزہ سے انخلا کا عمل اسرائیلی ریڈیو سے نشر ہونے والے شارون کے ان الفاظ کی گونج میں تکمیل کی جانب بڑھا کہ ’’ہم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غزہ سے چمٹے نہیں رہ سکتے‘ وہاں ۱۰ لاکھ سے زیادہ فلسطینی‘ گنجان آباد مہاجر بستیوں میں رہتے ہیں… بھوک اور مایوسی کے عالم میں‘ ان کے دلوں میں پائی جانے والی نفرت دن بدن بڑھتی جارہی ہے اور انھیں اُفق میں اُمید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی… یہودی بستیاں خالی ہوتے دیکھ کر کلیجہ منہ کوآتا ہے لیکن بلاشک و شبہہ قیامِ امن کی راہ پر یہ بہترین ممکنہ قدم ہے۔ اسرائیلی عوام مجھ پر اعتماد کریں‘ خطرات کے باوجود یہ ان کی سلامتی کے لیے بہترین اقدام ثابت ہوگا… اب دنیا فلسطینی جواب کی منتظر ہے۔ ہم دوستی کے لیے بڑھنے والے ہرہاتھ کو زیتون کی شاخ پیش کریں گے‘‘۔ یہی جنرل شارون اس سے پہلے غزہ کے بارے میں کہا کرتا تھا: ’’غزہ میں موجود یہودی بستیاں اسرائیلی سلامتی پلان کا ناگزیر حصہ ہیں۔ ان کا مستقبل ہمارے لیے‘ تل ابیب (القدس) کے مستقبل کی حیثیت رکھتا ہے‘‘۔

اس سرتاسر تبدیلی کی حقیقت کیا ہے؟ ناجائز اسرائیلی ریاست کی تاریخ میں یہ اہم ترین واقعہ ہے جس کے انتہائی دُور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ حماس اور دیگر جہادی تنظیمیں ہی نہیں خود اسرائیلی اخبارات بھی اسے اسرائیل کی شکست فاش کا عنوان دے رہے ہیں۔ روزنامہ ہآرٹس (بڑا عبرانی اخبار) نے ۱۴ اگست ۲۰۰۵ء کے شمارے میں ’’تسافی برئل‘‘ کا ایک مضمون شائع کیا جس کا عنوان ہے: ’’اسرائیلی امپائر کا اختتام‘‘۔ اس میں وہ کہتا ہے: ’’کل سے غزہ کے یہودی آباد کار اپنا یہ لقب کھو دیں گے‘ کل کے بعد وہ آبادکار نہیں اجنبی حملہ آور اور نافرمان باغی کہلائیں گے‘ انھیں آبادکاری کا کوئی تمغہ یا انعام نہیں ملے گا بلکہ انھیں زبردستی ان جگہوں سے نکال دیا جائے گا‘ جہاں انھیں شروع ہی سے نہیں ہونا چاہیے تھا… وہ وہاں سے اس لیے نکالے جائیں گے کیونکہ اسرائیلی امپائر اب پہلے کی طرح ان کی حفاظت کے قابل نہیں رہی‘‘۔

ہآرٹس کے سیاسی مراسلہ نگار ’’الوف بن‘‘ نے لکھا کہ ’’فلسطینی عوام نے اسرائیلیوں کو کاری داغ لگایا ہے اور انھیں یہ باور کروا دیا ہے کہ آبادکاری کا منصوبہ بے فائدہ تھا۔ ان سے یہ اعتراف کروا لیا ہے کہ طاقت کا استعمال ادھورے اور محدود نتائج ہی دے سکتا ہے۔ اکثر اسرائیلیوں پر جن میں خود وزیراعظم ارائیل شارون بھی شامل ہے‘ یہ امر واضح ہے کہ ’’پہلے غزہ‘‘ کا مطلب ’’صرف غزہ‘‘ ہی نہیں بلکہ اب مغربی کنارے کی یہودی بستیوں سے بھی وسیع پیمانے پر انخلا کرنا ہوگا‘‘۔

حماس کے ایک اہم رہنما محمود الزھار نے غزہ سے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ: ’’اسرائیلی انخلا کا اکلوتا سبب کہ جس سے ہمیں یہ تاریخی فتح حاصل ہوئی ہمارا جہاد اور مزاحمت ہے۔ حماس نے شروع ہی میں کہا تھا کہ مزاحمت ہی راہِ نجات ہے اور وقت نے اس مؤقف کی صحت پر مہرتصدیق ثبت کر دی ہے۔ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ انخلا شارون کا کسی پر کوئی احسان ہے۔ یہ انخلا ناجائز عبرانی ریاست کا غرور خاک میں ملانے والی شکست فاش ہے۔ اس انخلا کی کوئی بھی اور تفسیر‘ حقائق کو مسخ کرنا ہوگا۔ عبرانی ریاست تحریکِ مزاحمت کے القسام راکٹوں‘ سرنگوں کے ذریعے بارودی حملوں اور شہادتی کارروائیوں کا کوئی توڑ نہیں نکال سکی‘‘۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا غزہ سے صہیونی انخلا کے بعد بھی حماس اپنی کارروائیاں جاری رکھے گی؟ تو محمود الزھار نے کہا: ’’ہمارا ہدف صرف غزہ کی پٹی آزاد کروانا نہیں‘ نہ صرف مغربی کنارے کی آزادی ہی ہے اور نہ صرف القدس کی بلکہ پوری کی پوری مقبوضہ سرزمین کی آزادی ہے۔ اس کے پہلے مرحلے میں ہم ان علاقوں کی آزادی پر زور دے رہے ہیں جو ۱۹۶۷ء میں غصب کیے گئے۔ غزہ کے بعد ہم اپنی جدوجہد کا مرکز مغربی کنارے کو بنائیں گے اور غزہ میں کی جانے والی ہماری کارروائیاں مغربی کنارے میں اور بھی زیادہ اثر انگیز اور صہیونی استعمار کے لیے زیادہ تکلیف دہ ہوں گی‘‘۔

الفتح کے مرکزی رہنما ہانی الحسن نے بھی بعینہ انھی خیالات کا اظہار کیا اور کہا کہ ’’اسرائیلی انخلا ایک اہم ترین قومی کارنامہ اور فلسطینی شہدا‘ قیدیوں اور مجاہدوں کی قربانیوںکا ثمر ہے۔ یہ کسی کا ہم پر احسان نہیں‘ فلسطینی عوام کی بے مثال قربانیوں اور صبروثبات کا نتیجہ ہے‘‘۔ انھوں نے فلسطینی عوام میں اتحاد و تعاون کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’’غزہ سے انخلا ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا نقطۂ آغاز ثابت ہوسکتا ہے‘ جس کا دارالحکومت القدس ہوگا‘‘۔ یہ اور اس طرح کے سیکڑوں بیانات اور تجزیے ہیں جو اس اہم حقیقت کی نشان دہی کرتے ہیں کہ ’’یہودی انخلا  بھڑوں کے چھتے سے نجات پانے کی نمایاں ترین کوشش ہے‘‘۔ (تیونسی اخبار الشروق‘ ۱۶ اگست ۲۰۰۵ئ)

درپیش چیلنج

عبرانی ریاست کی تاریخ کے اس منفرد اور اکلوتے واقعے کے بعد ابھی مزید کئی چیلنج درپیش ہیں۔ اگرچہ مغربی کنارے کے جنین کیمپ کے گردونواح میں واقع چار بستیوں سے بھی انخلا کیا جا رہا ہے جس کا منطقی انجام پورے مغربی کنارے سے انخلا ہونا چاہیے لیکن فی الحال یہ خطرہ موجود ہے کہ مغربی کنارے سے نکلنے کے بجاے وہاں مزید یہودیوں کو لا بسایا جائے اور اس پر اپنا قبضہ مستحکم کیا جائے۔ اگر ایسا ہوا تو اس سے نہ صرف انخلا کا عمل ادھورا رہے گا بلکہ فلسطینیوں پر مظالم اور ان کی جوابی کارروائیوں میں بھی یقینی اضافہ ہوگا۔

غزہ کی پٹی سے انخلا کے باوجود اس کی تمام سرحدیں زمینی و آبی گزرگاہیں اور فضائیں اسرائیلی کنٹرول میں رہیں گی۔ فلسطین کے جنوب مغرب میں واقع اس پٹی کی ۱۱کلومیٹر لمبی سرحد مصر سے ملتی ہے‘ ۵۱ کلومیٹر سرحد مقبوضہ علاقوں سے ملتی ہے اور ۴۵ کلومیٹر بحرِمتوسط کا ساحلی علاقہ ہے۔ ان چہار اطراف میں اسرائیلی فوجیں ہوں گی جو غزہ سے آنے یا وہاں جانے والے ہر شخص اور سازوسامان کی آمدورفت کنٹرول کریں گی۔

پوری پٹی کے چار بڑے شہر ہیں۔ پرانا ساحلی شہر ’’غزہ‘‘ ہے جس کی بندرگاہ تباہ کر دی گئی ہے اور مصر کی یہ پیش کش مسترد کر دی گئی ہے کہ وہ اس بندرگاہ کی تعمیرنو میں مدد دے۔ دوسرا قدیم شہر ’’رفح‘‘ ہے جس کا انٹرنیشنل ایئرپورٹ بند کر دیا گیا ہے۔ فتح اسلامی کے بعد تعمیر ہونے والے دوبڑے شہر ’’دیرالبلح‘‘ اور ’’خان یونس‘‘ ہیں جن میں بڑی تعداد میں پائے جانے والے فلسطینی   بے روزگاروں کے لیے کوئی بڑا منصوبہ شروع کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ یوں اس بات کی پوری کوشش کی جارہی ہے کہ غزہ سے انخلا کے بعد اس کا مکمل اقتصادی محاصرہ کر دیا جائے۔ غزہ کے مختلف علاقوں سے بڑی تعداد میں فلسطینی دیہاڑی دار دیگر مقبوضہ علاقوں میں مزدوری کے لیے جایا کرتے تھے‘ سیکورٹی کے نام پر انھیں بھی محصور کردیا جائے اور اس طرح ایک طرف تو غزہ سے نکل کر فلسطینیوں کے آئے دن کے حملوں سے خود کو محفوظ کرلیا جائے اور دوسری طرف پوری پٹی کو ایک بڑے جیل خانے میں بدل دیا جائے۔

جنرل شارون اور امریکی انتظامیہ دنیا کو یہ تاثر دے رہے ہیں کہ غزہ سے انخلا صہیونی ریاست کا بہت جرأت مندانہ اقدام اور بہت بڑی قربانی ہے‘ اب گیند فلسطینیوں کی کورٹ میں ہے اور شارون کے الفاظ میں: ’’اب دنیا فلسطینی جواب کی منتظر ہے‘‘، یعنی ہماری اس قربانی کے جواب میں فلسطینی اتھارٹی دہشت گردی اور دہشت گردوں کا خاتمہ کرے۔ محمود عباس کی بنیادی خوبی ہی یہ گردانی جاتی ہے کہ وہ انھاء عسکرۃ الانتفاضہ (انتفاضہ تحریک سے عسکریت کا خاتمہ) کے فلسفے پر یقین رکھتے ہیں۔ اگر اس حساس موڑ پر انھوں نے جنرل شارون اور صدربش کے دبائو میں آتے ہوئے اس کامیابی کے اصل ہیروئوں کے خلاف اقدامات کیے تو یہ سب کے لیے ایک بڑی بدقسمتی ہوگی۔

انخلا کے عین دوران شارون کا یہ بیان بہت اہم تھا کہ ’’اب ہم عرب دنیا سے تعلقات قائم کرنے کے بہت قریب ہیں‘‘۔ عرب دنیا سے تعلقات کا ایک اہم مرحلہ اوسلو معاہدے کے بعد دیکھنے کو آیا تھا۔ جب کہا گیا کہ ’’خود فلسطینیوں نے اسرائیل سے صلح کرلی ہے تو ہم کیوں نہ کریں‘‘۔ اب ایک بار پھر یہی فریب دیا جارہا ہے کہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ اب‘ جب کہ اسرائیلیوں نے فلسطینیوں کا الگ وطن تسلیم کرلیا ہے تو ہم جواباً اسرائیل کا وجود تسلیم کیوں نہ کریں۔ حکومت پاکستان نے بھی بیان دیا ہے کہ ’’آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ ہموار ہوگئی ہے جس کا دارالحکومت القدس ہو اور جو امن کے ساتھ اسرائیل کے ساتھ رہ سکے‘‘۔ وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ’’پاکستان نے ایسے مثبت اقدامات کی حمایت کی ہے جس کے نتیجے میں مسئلہ فلسطین کا منصفانہ حل برآمد ہوسکے‘‘۔ اس بیان میں ’’مسئلہ فلسطین کا منصفانہ حل‘‘ اور ’’فلسطینی ریاست کا اسرائیل کے ساتھ امن سے رہنا‘‘ قابلِ غور ہیں۔

ایک اور بڑا چیلنج خود فلسطینی اتھارٹی پر کرپشن کے سابقہ واضح الزامات کے تناظر میں غزہ کے خالی کیے جانے والے علاقوں کو مزید شخصی اور تنظیمی کرپشن سے محفوظ رکھنا ہے۔ ایک مفلوک الحال‘ بے روزگار و محروم معاشرے میں آزاد ہونے والے علاقوں کو کسی نزاع کا باعث بننے سے بچانا ہے۔ اگر مکمل ایمان داری اور احساس امانت و ذمہ داری سے ان علاقوں کو معاشرے کی فلاح اور قوم کی خدمت کے لیے وقف کر دیا گیا تو یہ نہ صرف ایک آزمایش میں سرخروئی ہوگی بلکہ تعمیرمستقبل کے لیے ایک مضبوط بنیاد ثابت ہوگی۔

ان چیلنجوں سے فلسطینی قوم اور اُمت مسلمہ کیونکر نمٹتی ہے‘ یہ آنے والا وقت بتائے گا  لیکن ایک حقیقت سب کو نوشتۂ دیوار دکھائی دیتی ہے کہ وسیع تر اسرائیل اور فرات سے نیل تک اسرائیل قائم کرنے کا خواب فلسطینی بچوں اور پتھربردار نسل نے بری طرح پریشان کر دیا ہے۔ پہلے جنوبی لبنان سے فرار ہوئے اور اب غزہ اور مغربی کنارے کی چار یہودی بستیوں سے‘ آیندہ پورے مغربی کنارے سے‘ بیت المقدس سے اور… یقینا یہ سب فلسطینی شہدا کے خون‘ لاکھوں افراد کی مسلسل قربانیوںاور جہاد ہی کا ثمرہے۔

یمنی صدر کے بقول: ’’عرب حکمران اُونٹ کی طرح ہیں‘ طیش میں آجائیں تو قابو پانا مشکل ہوجاتا ہے اور رام ہوجائیں تو بچہ بھی نکیل کھینچے پھرتا ہے‘‘۔ امریکا کی خاتون وزیرخارجہ نے اس تشبیہہ پر مہرتصدیق ثبت کر دی ہے۔ کئی کئی عشروں سے اپنے عوام کی گردنوں پر سوار عرب حکمرانوں کو ایسا رام کیا ہے کہ حکم پر حکم صادر کر رہی ہے اور کسی کو چوں تک کہنے کی جرأت نہیں ہورہی۔ کونڈولیزا نے حالیہ دورئہ مشرق وسطیٰ میں فلسطینی‘ اُردنی‘ مصری‘ سعودی اور صہیونی ذمہ داران سے بنیادی طور پر دو ہی باتیں کیں۔ مشرق وسطیٰ کا حل اور فوری اصلاحات تاکہ دہشت گردی پر  قابو پایا جا سکے۔

مشرق وسطیٰ کا حل تو صرف اسی صورت ممکن ہے کہ صہیونی ہاتھ‘ فلسطینیوں کی گردن پر امریکی تلوار تانے رکھیں‘ کیونکہ اسرائیلی افواج کے سربراہ کے تازہ بیان کے مطابق: ’’محمود عباس ہم سے کیے گئے معاہدے پر عمل درآمد کر رہے ہیں۔ لیکن صرف اس صورت میں کہ اس کی گردن پر رکھی تلوار اسے اپنے تیزدھار ہونے کا یقین دلاتی رہے‘‘۔ محمود عباس سے بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ وہ اپنے وعدے کے مطابق تحریکِ انتفاضہ کو غیرمسلح کریں۔ جن دہشت گردوں کی فہرستیں ہم دے رہے ہیں انھیں گرفتار کریں اور اگر شارون اپنی مرضی اور ٹائم ٹیبل کے مطابق ’’بے مثال وسیع الظرفی‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف غزہ سے انخلا جیسا ’’عظیم‘‘ کارنامہ انجام دے تو اس پر شادیانے بجائیں اور پوری دنیا کو باور کرائیں کہ اب صہیونی ریاست فلسطین کا مقبوضہ علاقہ نہیں اسرائیل ہے اور یہودی قوم ہماری دشمن نہیں عزیز و عظیم دوست ہے۔

رہیں اصلاحات تو یہ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا اہم ترین حصہ ہیں‘ عراق اور افغانستان پر قبضے سے بھی زیادہ اہم۔ یہ الگ بات ہے کہ عراق میں ہونے والے بھاری جانی و مالی نقصانات کے باعث‘ وسیع تر اصلاحات کچھ تاخیر کا شکار ہوجائیں اور بالآخر سارا منظر ہی بدل جائے‘ لیکن فی الحال یہی سمجھا اور سمجھایا جا رہا ہے کہ مسلم ملکوں میں من مرضی کی مکمل تبدیلی کے بغیر ’’نام نہاد‘‘ دہشت گردی سے نجات ممکن نہیں۔

کونڈولیزا رائس نے مختصر عرصے میں دوسری بار خطے کے حکمرانوں سے تفصیلی ملاقاتیں کیں اور انھیں ’’دوٹوک‘‘انداز میں کہا کہ وہ آزادانہ‘ شفاف اور منصفانہ انتخابات کروائیں۔ مصری دارالحکومت قاہرہ میں ایک پُرہجوم کانفرنس میں جب انھوں نے اپنا یہ حکم دہرایا تو اس پر تبصرہ کرتے ہوئے اخوان المسلمون کے مرشدعام محمد مہدی عاکف نے کہا: ’’رائس نے حق بات کہہ کر باطل مراد لی ہے۔ انھوں نے مصری عوام ہی کا مطالبہ دہرایا ہے لیکن اس کا مقصد واقعی آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف انتخاب نہیں‘ کمزور عرب حکومتوں سے مزید امریکی احکامات تسلیم کروانا ہے۔ عرب حکومتیں اپنے عوام کی بات پر تو کان نہیں دھرتیں لیکن دہرے معیار رکھنے والی امریکی انتظامیہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی ہیں۔ امریکا بات تو جمہوریت‘ آزادیوں اور منصفانہ انتخابات کی کرتا ہے لیکن مسلم عوام پر خود وہ تمام مظالم ڈھاتا ہے جن سے اسرائیلی مفادات کی حفاظت و تکمیل ہوتی ہو‘‘۔

قاہرہ یونی ورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر ڈاکٹر حسن نافعہ نے بھی کونڈولیزا کے بیانات پر یہی تبصرہ کیا ہے کہ ’’رائس کے بیانات میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ وہ ان امریکی خواہشات کی ترجمانی کر رہی ہیں جو خطے پر امریکی قبضے کے استحکام کے لیے امریکی انتظامیہ کے دل میں مچل رہی ہیں۔ امریکا عرب ملکوں کے نظام نہیں‘ چند چہروں کو بدلنا چاہتا ہے‘‘۔

امریکا عالم اسلام بالخصوص مشرق وسطیٰ میں جو تبدیلیاں لانا چاہتا ہے‘ مصر ہمیشہ کی طرح ان کا سرخیل ہے۔ نظام و نصاب تعلیم میں جو تبدیلیاں اب مسلم ممالک پر مسلط کی جارہی ہیں‘ مصرکیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد سے ان کا آغاز کرچکا ہے۔ اسرائیل کی ناجائز ریاست کو ’’حلالی‘‘ تسلیم کرنے کی جو بات اب مسلم دنیا سے اٹھائی جارہی ہے‘ کیمپ ڈیوڈ اس معراج پر عشروں سے پہنچا ہوا ہے۔مختلف عرب ملکوں میں عوامی بیداری کی جو لہریں ہلکورے کھارہی ہیں‘ مصر میں سر سے اونچی ہورہی ہیں۔ وہی مصر جہاں صدر کے خلاف سرگوشیوں میں بھی بات کرنا ممکن نہ تھا اب کوئی دن نہیں جاتا کہ وہاں نئی سے نئی تنظیم وجود میں نہ آرہی ہو۔ مصری قانون کے مطابق تو عالم عرب کی سب سے بڑی تحریک اخوان المسلمون سمیت یہ سب تنظیمیں غیرقانونی ہیں‘ لیکن ان کے جلسے اور جلوس ملک کے طول و عرض کو اپنی گرفت میں لے چکے ہیں۔ زندگی کے ہر گوشے سے متعلق افراد نے اپنی الگ تنظیم اعلان کی ہے۔ اب ’’طلبہ براے تبدیلی‘‘، ’’کسان براے تبدیلی‘‘، ’’پیشہ ورافراد براے تبدیلی‘‘ حتیٰ کہ ’’فلمسٹار براے تبدیلی‘‘ کے نام سے نئی نئی تنظیمیں قائم ہورہی ہیں۔

کونڈولیزا نے بھی شاید مصر کی حالیہ تاریخ میں پہلی بار حکمرانوں کے علاوہ اپوزیشن پارٹیوں کے نو نمایندوں سے بھی ایک اجتماعی ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات میں سب سے نمایاں‘ سب سے مؤثر اور حکومت کی تمام تر سختیوں اور کوششوں کے باوجو د ایوان پارلیمنٹ میں ۱۷ سیٹیں حاصل کرنے والی تحریک اخوان المسلمون کو دعوت نہیں دی گئی‘ اور کونڈولیزا نے باقاعدہ بیان دیا کہ ’’بش انتظامیہ اخوان سے رابطے میں نہیں ہے اور نہ اس کے ساتھ بات چیت کا ہی فی الحال کوئی ارادہ رکھتی ہے‘‘۔ اخوان المسلمون بھی امریکی وزیرخارجہ کی آمد سے پہلے اپنا یہ قدیم مؤقف دہرا چکے تھے کہ ’’اگر کسی بیرونی ملک کو ہم سے مذاکرات کرنا ہیں تو وہ مصری وزارتِ خارجہ کے توسط سے رابطہ کرے‘‘۔ شاید اس اعلان کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ اخوان پر لاتعداد مظالم اس الزام کی آڑ میں ڈھائے گئے کہ یہ بیرونی طاقتوں کی آلۂ کار ہے۔

طرفہ تماشا یہ ہے کہ اخوان کے اس واضح مؤقف کے باوجود اس کے خلاف یہ الزام اب بھی دہرایا جاتا ہے‘ جب کہ جو تنظیمیں اب وجود میں آرہی ہیں‘ جن سے امریکی حکمران باقاعدہ مذاکرات کر رہے ہیں‘ جن کا ایک فرد گرفتار ہوجائے تو پورا مغربی میڈیا احتجاج کا طوفان برپا کر دیتا ہے۔ امریکی یونی ورسٹی کے ایک سابق پروفیسر سعدالدین ابراہیم اور ’’الغد‘‘ پارٹی کے ایک لیڈر ایمن نور کی چند روزہ گرفتاری پر ان کا نام لے لے کر امریکی انتظامیہ سمیت مغربی ممالک نے احتجاج کیا اور بالآخر انھیں رہا کروا لیا۔ ان تنظیموں پر مغربی ممالک کا آلہ کار ہونے کا کوئی الزام نہیں ہے۔ حالیہ ماہ جون میں اخوان المسلمون کے ۸۵۰ افراد گرفتار ہوئے جن میں اخوان کے سیکریٹری جنرل سمیت کئی قائدین شامل تھے‘ مغربی دنیا میں کہیں سے کوئی صداے احتجاج سنائی نہیں دی۔ یہ رویہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ تمام امریکی و مغربی تجزیہ نگار و مبصرین اعتراف کرتے ہیں کہ ’’مصر میں جب بھی منصفانہ و آزادانہ الیکشن ہوں گے‘ اخوان المسلمون کا واضح طور پر جیت جانا یقینی ہے۔

تمام مبصرین اس بات پر بھی متفق ہیں کہ صدرحسنی مبارک اپنے ربع صدی کے دوراقتدار میں اس وقت کمزور ترین پوزیشن میں ہیں۔ سادات کے قتل ہونے سے لے کر اب تک صدر حسنی مصر کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں‘ تب سے لے کر اب تک ایمرجنسی نافذ ہے۔ صدر پرویز مشرف کی طرح ان کا بھی اصرار ہے کہ ترقی کا سفر جاری اور ملک کو درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایمرجنسی کی ’’وردی‘‘ ناگزیر ہے حالانکہ ان کے اقتدار کے تقریباً تین عشروں میں مصر کی ۶۰ فی صد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے چلی گئی ہے۔ بے روزگاروں کی تعداد ۷۰ لاکھ سے متجاوز ہے۔ مصری بنکوں سے ۳۰ ارب پائونڈ لوٹے جا چکے ہیں۔ بجٹ کا خسارہ ۵۵ ارب پائونڈ سے بڑھ چکا ہے۔ ۳۰۰ ارب پائونڈ مالیت کے سرکاری اثاثہ جات نج کاری کے ذریعے صرف ۱۶ ارب میں فروخت کر دیے گئے ہیں۔ اور اب حکومت کے پاس صرف ۱۸ ادارے باقی بچے ہیں۔

مایوسی اور ابتری کے اس عالم میں برطانیہ اور مصر کی دہری شہریت رکھنے والے ان کے بیٹے جمال مبارک کو ان کا خلیفہ بنانے کی کوششیں بھی عروج پر رہیں لیکن تمام امکانات کا جائزہ لینے اور کئی کوششوں میں ناکامی کے بعد حکومتی پارٹی اور شاید امریکی انتظامیہ کا فیصلہ یہی ہوا ہے کہ فی الحال حسنی مبارک ہی آیندہ ستمبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات کا جیتنے والا گھوڑا ہوں گے۔ اگرچہ یہ امکان بھی اپنی جگہ پارہا ہے کہ انتخاب جیتنے کے چند ماہ بعد استعفا دے کر ہنگامی طور پر جمال ہی کو لایا جائے۔ ملک گیر مظاہروں اور سنگین عوامی اضطراب کے باوجود امریکا کا بدستور حسنی مبارک کے ساتھ کھڑے ہونا اور صہیونی ذمہ داران کا لگاتار صدر حسنی سے ملاقاتیں کرکے اس کی تعریفیں کرنا امریکی اصلاحات کے دعووں اور وعدوں کی قلعی کھول رہا ہے۔

معاملہ صرف مصر تک ہی محدود نہیں ہے‘ گذشتہ ۳۵ سال (۱۹۶۹ئ) سے برسرِاقتدار معمرالقذافی ہوں‘ گذشتہ ۲۷ سال (۱۹۷۸ئ) سے حکمران یمنی صدر علی عبداللہ صالح ہوں‘ مراکش‘ اُردن اور شام کے ملوک و صدور کی کئی کئی عشروں کی حکمرانی کے بعد اب ان کے صاحبزادوں کا اقتدار ہو یا خلیجی ریاستوں میں اقتدار کا تسلسل ہو‘ امریکا کا رویہ یکساں ہے۔ جمہوریت اور آزادیوں کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے‘ حکمرانوں کو ان کے اپنے ہی عوام کے غیض و غضب سے لرزاں اور ترساں کیا جاتا ہے‘ دورِ جدید کی اہم پیش رفت سیٹلائٹ چینلوں کے ذریعے انھیں وسطی ایشیا کی ریاستوں سمیت مغربی راے عامہ میں عوام کی قوت کے مناظر دکھائے جاتے ہیں۔ سقوطِ صدام حسین کے مناظر بار بار دکھائے جاتے ہیں۔ نائن الیون کے بعد امریکا کا کسی بین الاقوامی یا اخلاقی ضابطے کو خاطر میں نہ لانا دکھایا جاتا ہے‘ افغانستان و عراق کے کھنڈرات اور مزید بم باری و خونخواری کی فلمیں چلائی جاتی ہیں۔ امریکی اور بالخصوص صہیونی ذرائع ابلاغ سے مسلم ممالک میں دندناتے نام نہاد دہشت گردوں کی موجودگی اور سراغ ملنے کی چنگھاڑتی خبریں سنائی جاتی ہیں اور پھر ہمہ پہلو تبدیلیوں کے لیے امریکی مطالبات کی فہرست تھما دی جاتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ان ملکوں میں اپنی ڈھب کے مزید مہرے تیار کرنے کا عمل بھی جاری ہے۔

امریکی وزیر خارجہ نے حالیہ دورے میں سعودی عرب سے اصلاحات کے پُرزور مطالبے کے ساتھ ہی ان تین افراد کی رہائی کا مطالبہ کیا جو ان کے بقول اصلاح پسند ہیں اور سعودیہ میں جمہوریت چاہتے ہیں۔ کونڈولیزا اس حقیقت سے یقینا بے خبر نہیں ہوں گی کہ مصر کی جس سرزمین پر کھڑے ہوکر انھوں نے اپنا یہ مطالبہ دہرایا‘ اسی مصر کی جیلوں میں حقیقی اصلاح کے لیے کوشاں ہزاروں سیاسی قیدی اذیتیں جھیل رہے ہیں۔ اس کے پڑوس لیبیا میں سالہا سال سے ضمیر کے سیکڑوں قیدی لاپتہ ہیں‘ اس کے پڑوس تیونس میں کم و بیش ۱۵ ہزار سیاسی قیدی ۱۸‘۱۸‘ ۲۰‘۲۰‘ سال سے جیلوں میں ہیں اور ان کے زندہ یا مردہ ہونے کا علم ان کے اہلِ خانہ کو بھی نہیں ہے‘ اور خود جس سعودی عرب سے وہ تین اصلاح پسندوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہی ہیں وہاں ۱۹۹۰ء میں  عراق کویت جنگ کے دوران امریکی افواج کی آمد کی مخالفت کرنے پر ہزاروں علماے کرام کو گرفتار کیا گیا تھا اور یہ گرفتاریاں امریکی خوشنودی کا موجب ٹھیریں اور کیا اب بھی وہاں    صرف یہ تین ہی قیدی انصاف کے حق دار و منتظر ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ گوانتاناموبے اور ابوغریب کی مہیب کالک اور ذلت منہ پر سجائے چند مخصوص افراد کی رہائی کا مطالبہ کرنا ‘ خود تو   رب ذوالجلال کی مقدس ترین کتاب کی بے حرمتی کرنے والوں کو بھی انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے سے انکار کرنا لیکن اوروں سے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی بات کرنا‘ کیا آپ کو خود اپنی ہی نظروں میں ذلیل نہیں کر دیتا۔

سعودی وزیرخارجہ سعود الفیصل نے کونڈولیزا کے ان مطالبات پر انھیں مخاطب کرتے کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمیں جو بھی اصلاحات کرنا ہوں گی اپنے عوام کی تمنائوں اور مرضی کی روشنی میںکریں گے۔ باہر سے تھونپی جانے والی اصلاحات ہمارے لیے ناقابلِ قبول ہیں‘‘۔ تقریباً یہی بات یمنی صدر علی عبداللہ صالح نے ایک اور انداز سے کی تھی۔ انھوں نے عرب وکلا کے یونین کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پتے کی بات کرتے ہوئے کہا: ’’ہم عالمِ عرب میںدوسروں سے زیادہ ایک دوسرے سے ڈرتے ہیں۔ پڑوسی ملکوں کے تعلقات آپس میں سخت کشیدہ لیکن ہزاروں میل دُور واقع دوسرے ممالک سے بڑے دوستانہ ہوں گے… ایسا کیوں ہے؟ ہم ایک دوسرے کا خوف کیسے دُور کرسکتے ہیں…؟ ہمیں سب سے پہلے حاکم اور محکوم کے درمیان پایا جانے والا بُعد اور دُوری ختم کرنا ہوگی… ہمیں اپنے سیاسی نظام کی غلطیاں خود درست کرنا ہوں گی…اس سے پہلے کہ ہمیں باہر سے حکم نامہ موصول ہو… اس سے پہلے کہ دوسرے ہم پر اپنی تہذیب اور اپنے عوام کی خواہشات کے علی الرغم اصلاحات ٹھونسیں… ہمیں خود مطلوبہ اصلاحات کرنا ہوں گی کیونکہ ہماری ایک اساس اور شناخت ہے‘ جب کہ دوسرے صرف ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں‘‘۔

اپنے عوام کو عارضی طور پر مطمئن کرنے اور دوسروں کو جواب دینے کی حد تک تو یہ تقاریر خوب ہیں لیکن عوام تو عمل چاہتے ہیں۔ ستمبر ۲۰۰۶ء میں یمن میں بھی صدارتی انتخابات ہونا ہیں۔ کچھ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ علی عبداللہ صالح نے یہ انتخابی مہم کی تقریر کی ہے اور ساتھ ہی ساتھ  عملی ’’اصلاحات‘‘ کے طور پر یمن میں پائے جانے والے ۴ ہزار دینی مدارس و مراکز کی چھان پھٹک بھی شروع کر دی ہے اور اس دوران ۱۴۰۰ مدارس بند بھی کر دیے گئے ہیں۔ ساتھ ہی بدرالدین حسین الحوثی کی قیادت میں ایک مسلح شیعہ گروپ کے خلاف خونی کارروائیاں بھی کی گئی ہیں جس کے دوران ۵۰۰ افراد مارے گئے… یعنی اصلاحات کا وسیع تر عمل پورے عالمِ اسلام میں عروج پر ہے۔ لیکن مسلم حکمران اور خود امریکا یہ حقیقت جانتے ہیں کہ مسلم عوام میں تیزی سے نمو پاتا شعور اور امریکی انتظامیہ اور اس کے پٹھو حکمرانوں کے رخ سیاہ سے تیزی سے سرکتا پردہ اب کسی بڑی تبدیلی پر ہی منتج ہوگا___ حقیقی تبدیلی پر!

دہشت گردی کے نام سے چھیڑی جانے والی جنگ میں امریکی حکومت جو کارروائیاں کررہی ہے خود امریکی تجزیہ نگار ان کے بے سمت اور ناکام ہونے کا اظہار کر رہے ہیں۔ ’’دل‘ دماغ اور ڈالر‘‘ کے عنوان سے ۱۰ اقساط پر مشتمل ایک اہم رپورٹ تیار کرنے والے امریکی دانش ور ڈیوڈ کیپلن نے اعتراف کیا ہے کہ ’’۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء سے لے کر ۲۰۰۴ء کے وسط تک‘ عالمِ اسلام سے متعلق امریکی پالیسیاں کسی ایسی مرکزی قیادت کے بغیر چل رہی تھیں جسے امریکا کی اس نظریاتی اور فکری جنگ کا ذمہ دار قرار دیا جا سکتا ہو‘‘۔ ۲۰۰۰ء میں امریکی وزارت دفاع کے نائب سربراہ پول ولفووٹیز نے ایک بیان میں کہا تھاکہ ’’ہماری جنگ نظریات اور اذہان کی جنگ ہے‘‘۔ ایک سال کے بعد کونڈولیزارائس نے بیان دیا کہ ’’ہمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کے لیے افکار ونظریات کی جنگ جیتنا ہوگی‘‘۔

امریکی ذمہ داران پوچھ رہے ہیں کہ ’’دنیا امریکا سے نفرت کیوں کرتی ہے؟‘‘ خود صدر بش بھی یہ ’’معصومانہ‘‘سوال دہرا چکے ہیں۔ لیکن پھر اس سوال کے جواب تک پہنچے بغیر یا اسے نظرانداز کرتے ہوئے مسلم دنیا میں امریکا سے نفرت ختم کرنے کے لیے تقریباً ایک ارب ۳ کروڑ ڈالر خرچ کر دیے گئے۔ اس غرض سے عربی اور دیگر کئی زبانوں میں ٹی وی چینل اور ریڈیو اسٹیشن کھولے گئے‘ فلمیں بنائی گئیں‘ مشہور فلمی ستاروں کو انسانی امداد کے مختلف پروگراموں کا نمایندہ بناکر مسلم دنیا کے دورے کروائے گئے۔ رسالے‘ کتابیں اور رپورٹیں شائع کی گئیں۔ عراق میں صدام کی آمریت کے خاتمے اور افغانستان و عراق کے تاریخی ’’انتخابات‘‘کا ڈھنڈورا پیٹا گیا۔ امریکی سفرا نے مسلم اسکولوں کے دورے کیے۔ بچوں میں کتابیں اور چاکلیٹ تقسیم کیے‘ اسکولوں کی دیواروں پر رنگ و روغن کرنے کی سماجی تقریبات منعقد کرکے تصویریں بنوائی گئیں۔ انڈونیشیا‘ پاکستان اور کئی مسلم ملکوں میں امریکی امداد سے مساجد میں سفیدیاں کی گئیں‘ درباروں پر حاضریاں دی گئیں۔ غرض یہ سب کچھ کیا گیا لیکن جائزوں نے یہی بتایا کہ دنیا میں امریکا سے نفرت کم نہیں‘ زیادہ ہی ہورہی ہے۔

امریکی دانش وروں کا کہنا ہے کہ: سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ نسبتاً آسان تھی کیونکہ وہ ایک بے خدا سیاسی نظریے کے خلاف تھی‘ لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ بہت مشکل ہے کیونکہ اس کا تعلق دین سے ہے۔ ایک تھنک ٹینک ’نکسن سنٹر‘ کی دانش ور زینو پاران لکھتی ہے: ’’امریکیوں کے لیے مخصمہ یہ ہے کہ اب ہمیں دین اسلام جیسے مذہب سے نظریاتی چیلنج درپیش ہے جو جدوجہد کا دین ہے۔ اس کے گرد سیاسی اہداف کا ہالہ ہے‘ قیادت ہے‘ افواج ہیں… یہ دین کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس پر امریکی پالیسی ساز کسی راحت کدے میں بیٹھ کر بحث کریں۔ یہ ایک فاشسٹ نظریہ ہے‘‘۔

’’فاشسٹ نظریے‘‘ کے مقابلے کے لیے امریکا نے مسلم دنیا کے دل و دماغ جیتنے کی ایک جنگ شروع کی ہے۔ لیکن دوسری طرف....

گوانتاناموبے کے فوجی پنجروں میں بند سیکڑوں ’’دہشت گردوں‘‘ سے کیے جانے والے امریکی ’’حسنِ سلوک‘‘ کی تفصیلات سے دنیا بے خبر تھی۔ تین سال سے زائد عرصے تک آہنی پنجروں کے مہمان رکھنے کے بعد ان میں سے کچھ ’’دہشت گردوں‘‘ کورہائی ملنا شروع ہوئی تو امریکی  ’’خوش نما‘‘ چہرے کے کچھ مزید خدوخال دنیا کے سامنے آئے۔ قیدیوں پر تشدد اور انھیں عذاب دینے کے بارے میں تو شاید ہر شخص کے ذہن میں کوئی نہ کوئی خاکہ بنتا ہو… لیکن جو کچھ ان قیدیوں نے بیان کیا اور نیوزویک سمیت مختلف رسائل و اخبارات اور ٹی وی چینلوںنے ان کا کچھ حصہ شائع اور نشر کیا‘ وہ ان سب اندازوں اور خاکوں سے کہیں بڑھ کر گھنائونا تھا۔

چند ہفتے پیشتر رہا ہونے والے مراکش کے ایک نوجوان محمد مزوز نے الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’’وہ ہمیں عذاب و اذیت دیتے تھے لیکن سب سے سخت روحانی عذاب دینے کے لیے وہ ہمارے سامنے نعوذ باللہ قرآن کریم پھینک کر اس پر پیشاب کر دیتے تھے۔ اسلامی شعائر کا مذاق اڑاتے تھے۔ ہم نماز پڑھنے لگتے تو سامنے مختلف فحش جنسی حرکات میں لگ جاتے۔ ایک نوجوان سے دورانِ تفتیش‘ ایک خاتون امریکی فوجی نے اپنے مخصوص دنوں کی غلاظت اس کی داڑھی پر مل دی…‘‘ ایک نہیں دسیوں گواہیاں ہیں۔ گوانتاناموبے کا چپہ چپہ امریکی کیمروں کی زد میں رہتا ہے۔ امریکی انتظامیہ کے پاس تو پل پل کی رپورٹ ہوگی لیکن یہ خبریں آنے کے باوجود اب تک کوئی شفاف تحقیق نہیں کی گئی۔ کسی مجرم کے جرم کا تعین نہیں کیا گیا۔ اب تک یہ ضمانت نہیں دی گئی کہ اب کبھی وہاں اس طرح کی بہیمیت کا ارتکاب نہ ہوگا۔

تین سال بعد رہائی پانے والے ایک اور قیدی بدرالزمان بدر نے اے آر وائی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ قیدیوں کے جنگلوں میں کموڈ لگے ہوئے تھے۔ بعد میں ساری غلاظت ایک ڈرم میں جمع ہوجاتی‘ جس میں سے مشینیں کھینچ کر لے جاتیں۔ اسی غلاظت میں نعوذ باللہ قرآن بھی پھینک دیا جاتا۔ ہم احتجاج کرتے‘ بھوک ہڑتال کرتے‘ وہ قہقہے لگاتے…

انسانیت وا خلاق سے عاری ان خبروں کے آنے کے بعد سے پوری دنیا کے مسلمانوں کے دل پر آرے چل رہے ہیں۔مسلسل مظاہرے اور احتجاج ہورہے ہیں۔ متحدہ مجلس عمل کے سربراہ محترم قاضی حسین احمد کی اپیل پر ۲۷ مئی ۲۰۰۵ء کا عالمی یومِ احتجاج بھی اس کی ایک کڑی ہے۔ یہ احتجاج مسلسل جاری رہے گا‘ لیکن کیا امریکی دانش ور اور پالیسی ساز یہ سمجھنے میں کامیاب ہوں گے کہ دنیا میں امریکا سے نفرت کیوں بڑھ رہی ہے؟ مسلمانوں کے دل و دماغ جیتنے کی اس جنگ میں امریکا کیوں شکست کھا رہا ہے؟

ضرورت ہے کہ امریکی معاشرے کے فہمیدہ عناصر آگے بڑھ کر اپنے حکمرانوں اور میڈیا کے گمراہ کردہ عوام کو یہ سمجھائیں کہ نفرت ختم کرنے اور عام مسلمانوں کی نظر میں پسندیدہ ہونے کے لیے امریکا کو صرف یہی کرنا ہے کہ وہ ایک طرف فلسطین‘ کشمیر‘ چیچنیا اور دوسرے مقاماتِ ظلم پر اپنا رسوخ حق و انصاف کے لیے استعمال کرے‘  افغانستان اور عراق کے عوام سے معافی مانگے اور فوجیں واپس نکال لے‘ مسلم ممالک میں حقیقی جمہوری قوتوں کو برسرِکار آنے دے‘ آمروں کی سرپرستی بند کردے‘ دوسری طرف اپنے ملک میں مسلمانوں سے باعزت سلوک کرے۔ یہ ’’عظیم‘‘ امریکا کے لیے کیوں ناممکن ہے؟ اس کی قیمت پوری انسانیت کو ادا کرنا پڑ رہی ہے۔

۱۵ اپریل ۲۰۰۵ء کا دن شاہ مراکش محمد السادس کے لیے خوشی کا دن تھا۔ آج اس کے پہلے اور اکلوتے بیٹے مولای الحسن کے ختنے کا جشن تھا۔ ’’خوشی‘‘ کے اس اہم موقع پر خزانے کا منہ تو کھلنا ہی تھا‘ جیلوں کے دروازے بھی کھول دیے گئے اور مراکش کی مختلف جیلوں سے ۱۷۹,۷ قیدی رہا کردیے گئے۔ پورے ملک میں مبارک سلامت کا شور اٹھا۔ بادشاہ سلامت اور نومختون ولی عہد کی خدمت میں تحائف دینے کے لیے خصوصی جلوس نکالے گئے اور مملکت مراکش میں امن‘ اخوت‘ انصاف‘ جمہوریت اور ترقی کے نئے باب رقم ہوگئے۔

خوشی اور اظہارِ خوشی ایک فطری امر ہے لیکن اپنی ہاشمی نسبت پر فخر کرنے والے مراکش کے شہنشاہ نے دنیا کو اسلام کے اعتدال اور حقوقِ انسانی کی پاسداری کی عملی تصویر دکھائی ‘کسی کو یہ   بے محل سوال نہیں کرنا چاہیے کہ اگر صاحبزادہ صاحب کا ختنہ نہ ہوتا تو یہ ۱۷۹,۷ قیدی مزید کتنا عرصہ جیلوں میں ہی سڑتے رہتے اور یہ کہ مزید کتنے ہزار قیدی کسی ایسی ہی ’’مبارک‘‘ تقریبِ ختنہ کے منتظر رہیں گے۔

امریکا بہادر اس وقت دہشت گردی کے خلاف اپنی عالمی جنگ کے اہم مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ عراق اور افغانستان کی طرح عسکری قبضہ بھی اس جنگ کا حصہ ہے اور نام نہاد     روشن خیالی و اعتدال پسندی کی وسیع لہر بھی اس جنگ کا لازمی جزو ہے۔ عراق میں اسے کیا فتوحات ملیں اس کا جائزہ ذراآگے چل کر‘ لیکن پہلے ذرا اس کی وسیع تر جنگ کی ایک جھلک۔ یہ جنگ سیاست‘ ثقافت‘ ذرائع ابلاغ اور تعلیم کے میدان میں لڑی جا رہی ہے۔ شرق اوسط اس کا مرکزی میدان ہے لیکن اس کی حدود مراکش سے ترکی اور برعظیم تک پھیلا دی گئی ہیں۔ پالیسی ساز امریکی اس پورے خطے میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔ ہر جگہ ایک ہی کلچر ہو‘ یکساں نظام تعلیم ہو جس میں کہیں ’’نفرت‘‘ کا پرچار نہ ہو۔ (جہاد کی فضیلت اور مشرکین و یہود کی اصل تصویر دکھانا نفرت پھیلانا ہے)۔ وسیع تر شرق اوسط میں سیاسی اصلاحات اس طور کی جائیں کہ ہر جگہ روشن خیال حکومتیں قائم ہوں۔ ان حکومتوں کے ذریعے عوام بالخصوص نوجوان نسل کے دل و دماغ تک رسائی حاصل کی جائے تاکہ امریکا کے خلاف نفرت کا تناسب کم ہو‘ کیونکہ اسی نفرت سے بالآخر دہشت گردی جنم لیتی ہے۔

وسیع تر اصلاحات کی ضرورت پر سب سے زیادہ زور اس وقت سعودی عرب‘ شام‘ ایران اور مصر پر دیا جا رہا ہے کیونکہ سعودی عرب ’’القاعدہ‘‘ کا گڑھ اور اصل مسکن ہے۔ یہاں کا نظامِ تعلیم انتہائی بنیاد پرست ہے جس میں قرآنی آیات و احادیث نبویؐ کی بھرمار ہے۔ سعودی نوجوان براستہ شام عراق میں بھی دہشت گردی کر رہے ہیں۔ شام ان سے چشم پوشی کے علاوہ فلسطینی دہشت گرد تنظیموں حماس اور جہاد اسلامی کو پناہ دیے ہوئے ہے اور جنوبی لبنان سے اسرائیلی فوجوں کو نکال باہر کرنے والی ’دہشت گرد‘ تنظیم حزب اللہ کا پشتیبان ہے۔ شام کے تعلقات ایران سے بھی بہت مضبوط ہیں اور ایران ایٹمی اسلحہ بنارہا ہے ۔ اس سے دوستی بھی یکساں جرم ہے (البتہ عراق میں لائی جانے والی شیعہ حکومت سے ایران کے قریبی تعلقات اس وقت ہماری ضرورت ہیں‘ ان پر فی الحال کوئی اعتراض نہیں)۔ مصر نے شرق اوسط کے نقشے میں رنگ بھرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے لیکن ایک تو بوڑھا حسنی مبارک اب مفلوج ہوتا جا رہا ہے اور روسی صدر بورس یلسن کی طرح عوامی تقریبات میں لڑکھڑا چکا ہے۔ دوسرے‘ مصری عوام کی اکثریت اس کے ۲۴سالہ اقتدار سے تنگ آچکی ہے۔ مضبوط تر ہوتی ہوئی اسلامی تحریکیں تو پہلے ہی سے مخالف تھیں۔ اب وہ سیکولر اور خالص امریکی لابی کا اعتماد بھی کھوچکا ہے‘ اور پھر یہ کہ مسئلہ فلسطین میں مصر کا مطلوبہ کردار اب کولہو کے بیل کا سا رہ گیا ہے۔ مخصوص غلام گردشوں میں خدمات انجام دینے کے علاوہ وہ فلسطین و یہود تنازعے میں مزید کیمپ ڈیوڈ معاہدے کرنے کے قابل نہیں رہا۔

امریکی پالیسی ساز اور تنفیذی مراکز آئے روز بیانات دے رہے ہیں کہ ’’خطے میں تبدیلیوں کی ہوا چل پڑی ہے‘ اصلاحات ناگزیر ہیں۔ اکلوتی عالمی قوت ہونے کے ناطے یہ اصلاحات امریکا کی ذمہ داری ہے‘‘۔ ’’افغانستان، عراق اور فلسطین میں ہونے والے انتخابات آغاز ہیں۔ اب پورے شرق اوسط میں ’آزادانہ‘ انتخابات ہوں گے‘‘۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ’’وسیع ترشرق اوسط میں اصلاحات ہماری دفاعی ضرورت ہیں‘‘۔ امریکا نے پٹرول کی ترسیل جاری رکھنے کے لیے تمام خلیجی ریاستوں میں اپنے مستقل فوجی اڈے قائم کر دیے‘ عراق پر براہ راست قابض ہوگیا‘ لیکن اپنا دفاع یقینی نہ بنا سکا۔ امریکا کے خلاف عوامی نفرت میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی نفرت کی لہر سے بالآخر ’دہشت گرد‘ گروہ جنم لیتے ہیں۔

عوامی نفرت کے عوامل کا جائزہ لیتے ہوئے امریکی پالیسی ساز یقینا کئی تلخ حقائق تک پہنچے ہوں گے لیکن اپنی اکثر تحریروں اور تجزیوں میں نصف سچ بولنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کیونکہ ان عرب ممالک میں گھٹن ہے‘ عوام کی آزادیاں مسلوب ہیں‘ اور امریکا کے حواری  مسلم حکمرانوں نے اپنی اپنی ڈکٹیٹرشپ قائم کی ہوئی ہے‘ اس لیے ان کے خلاف عوامی نفرت کا بڑا حصہ خود امریکا کو بھی پہنچتا ہے۔ پھر نصف مرض کا نصف علاج یہ تجویز ہوتا ہے کہ ان ممالک میں اصلاحات لائی جائیں۔ یہ اصلاحات کیا ہیں؟ اہلِ پاکستان کے لیے انھیں سمجھنا دیگر اقوام کی نسبت کہیں آسان ہے۔ امریکا پاکستان میں جامع اصلاحات کا علم بردار ہے۔ ’روشن خیال اسلام‘ سے لے کر شان دار اقتصادی ترقی کے دعووں‘ انٹرنیٹ اور کیبل ٹی وی جیسے مخصوص میدانوں میں ٹکنالوجی کے فروغ‘ حقیقی جمہوریت کے فروغ اور ہمہ پہلو ثقافتی یلغار سمیت تمام اصلاحی اقدامات کا جادو پاکستان میں سرچڑھ کر بول رہا ہے۔ میراتھن اور بسنت سے لے کر ایئرفورس کی پیشہ ورانہ تیاری تک‘ ہر جگہ اختلاط مرد و زن ہی کو ترقی و روشن خیالی کا لازمی جزو قرار دیا جا رہا ہے۔ فوجی وردی کو اقتدار و اختیار کا گھنٹہ گھر بنا دینے کے باوجو د دعویٰ و اصرار ہے کہ ملک میں مثالی جمہوریت کا دوردورہ ہے۔ آغا خان فائونڈیشن کی سرپرستی میں بے خدا تہذیب اور لامذہب نسلیں تیار کرنے کو تعلیمی انقلاب کا پیش خیمہ اور امریکی امداد کا ضامن ثابت کیا جا رہا ہے۔

کچھ ترامیم کے ساتھ یہی ماڈل دیگر مسلم ممالک پر بھی مسلط کیا جا رہا ہے۔ امریکی   پالیسی ساز آنے والے دور میں ایران‘ عراق‘ مصر اور سعودی عرب کے علاوہ چھوٹی عرب ریاستوں کو بھی بے حد اہمیت دے رہے ہیں۔ امارات‘ قطر‘ بحرین‘ کویت‘ اُردن‘ عمان اور یمن سے     اہم ترین دفاعی معاہدے کیے جاچکے ہیں اور مزید کیے جا رہے ہیں۔ کچھ نہ کچھ اصلاحات ان ممالک میں بھی کی جارہی ہیں لیکن اس یقین دہانی کے ساتھ کہ کئی کئی عشروں سے برسرِاقتدار خاندانوں کا اقتدار باقی رہے گا۔ بلدیاتی ادارے اور نصف منتخب‘ نصف نامزد پارلیمنٹ دیکھنے کو ملیں گی۔ عوام کسی نہ کسی حد تک آزادی اظہار بھی پائیں گے۔ ذرائع ابلاغ صرف ریاستی کنٹرول میں نہیں رہیں گے۔ امریکی وزارت دفاع اور وزارت خارجہ بھی اپنے ابلاغیاتی ادارے متعارف کروائیں گی۔ نوجوانوں کو مغربی تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے خود ان ریاستوں میں امریکی و مغربی تعلیمی اداروں کی شاخیں قائم کی جائیں گی‘ اور امریکی ٹیکس دہندگان کو باور کروایا جائے گا کہ شرق اوسط میں آزادی و جمہوریت کا طوطی بول رہا ہے۔ رہے مصر‘ سعودی عرب اور ایران جیسے بڑے ممالک‘ تو ان میں سے ہر ملک کے لیے مختلف فارمولا وضع کرنا ہوگا۔ ایران میں اصلاحات کا اصل مقصد ایٹمی خطرے سے بچائو اور بنیاد پرستوں کے اختیارات میں کمی ہے۔ مصر میں تاریخی اور مقبول تحریک اخوان المسلمون اور سعودی عرب میں دین پسند طبقے کی بھاری اکثریت کی وجہ سے ادھوری جمہوریت کا سفر بھی امریکی مفادات کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ اس لیے جائزہ لیا جارہا ہے کہ کہاں کس خطرے کو برداشت کرلینا کم نقصان دہ ہے۔

شرق اوسط میں اصلاحات کے اس سفر میں جہاں حکومتوں پر دبائو‘ اپنی فوجی قوت کی نمایش‘ صدام حسین کی تصویریں دکھا دکھا کر اس کے انجام تک پہنچا دینے کی دھمکی اور ’’جو ہمارے ساتھ نہیں ہمارے خلاف ہے‘‘ کا فارمولا آزمایا جا رہا ہے‘ وہیں غیر حکومتی تنظیموں کے وسیع تر ہوتے ہوئے جال کو بھی کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ ان کے ذریعے حکومتی ایوانوں تک رسائی کے علاوہ ان ممالک میں پائے جانے والے ایسے عناصر کو مالی طور پر نوازا اور متحرک کیا جا رہا ہے جو گھر کے بھیدی ہونے کا مقام و مرتبہ پاسکیں۔ یہ عناصر صحافیوں‘ کالم نگاروں‘ دانش وروں اور یونی ورسٹی کے اساتذہ کے علاوہ بے روزگار و غیرمطمئن نوجوان بھی ہوسکتے ہیں۔

شرق اوسط میں اصلاحات کی راہ میں درپیش رکاوٹوں کی فہرست بھی مختصر نہیں ہے لیکن اس میں سرفہرست عراق کی بگڑتی ہوئی صورت حال ہے۔ فلسطین کے حالات بھی کم گمبھیر نہیں اور جب تک فلسطین‘ کشمیر‘ جنوبی سوڈان جیسے تنازعے اپنے یا اپنے حلیفوں کے مفادات کے مطابق حل نہیں کرلیے جاتے‘ نوجوانوں میں جہاد کا جذبہ سرد نہیں کیا جاسکتا۔ عراق میں اگرچہ ’’انتخابات کے انگاروں پر جمہوریت کا ماتم‘‘ کیاجاچکا ہے لیکن وہاں مزاحمت کا جِن واپس بوتل میں بند کرنا      فی الحال کسی دنیاوی طاقت کے بس کی بات نہیں ہے۔

لندن سے شائع ہونے والے ہفت روزہ رسالۃ الاخوان نے البصرہ نیٹ کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی ہے جو امریکی ریٹائرڈ فوجیوں کے ایک تحقیقی سنٹر نے تیار کی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق عراق میں زخمی یا اپاہج ہوکر کسی فوجی خدمت کے لیے ناکارہ ہوجانے والے فوجیوں اور ’’فوجنوں‘‘ کی تعداد ۴۸ ہزار ۷ سو ۳۳ ہوچکی ہے‘ جب کہ مختلف نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوجانے والوں کی تعداد بھی ۱۲ہزار ۴ سو ۲۲ ہے۔ اس جنگ میں ہلاک ہوجانے والوں کی تعداد پینٹاگون نے ۱۵۰۰ بتائی ہے لیکن اس رپورٹ کے تیار کرنے والوں نے وزارت دفاع سے سوال کیا ہے کہ اگر دیگر ذرائع کے اصرار پر یقین نہ بھی کیا جائے کہ امریکی فوجیوں پر ہونے والے حملوں کی تعداد ۲۵۰ سے ۳۰۰ حملے روزانہ ہے اور آپ کی بات پر اعتبار کر لیا جائے کہ روزانہ حملوں کی تعداد ۸۰سے ۱۲۰حملے ہے‘ تب بھی ۱۵۰۰ کی تعداد‘ حقیقت سے کوسوں دُور ہے۔ ان سابق فوجیوں کے مطابق مرنے والے امریکیوں کی تعداد اب تک ۲۰ ہزار سے متجاوز ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق امریکی اقتصادیات کی صورت بھی دگرگوں ہے۔ ۱۹۷۱ء میں امریکی بجٹ میں خسارہ چھے ارب ڈالر کے قریب تھا جو ۱۹۹۳ء میں ۳۴۰ ارب ڈالر ہوگیا۔ کلنٹن کے دور میں عراق کویت جنگ کا اسلحہ خلیجی ریاستوں کے سرتھوپ دینے کے باعث یہ خسارہ ۶۰ ارب ڈالر رہ گیا لیکن بش جونیئر کے زمانے میں پھر یہ خسارہ ۳۰۰ ارب ڈالر تک جاپہنچا۔ عراق میں بڑھتے ہوئے جنگی اخراجات کے باعث یہ خسارہ آیندہ برس ۷۰۰ ارب ڈالر تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔ (رسالۃ الاخوان‘ شمارہ ۴۰۹‘ یکم اپریل ۲۰۰۵ئ)

اس عراقی صورت حال کے تناظر میں خود امریکی تجزیہ نگار لکھ رہے ہیں کہ فی الحال امریکی اصلاحات کا سفر کسی کھلی شاہراہ کے بجاے اندھیاری پگڈنڈیوں پر ہی جاری رہے گا۔ البتہ گاہے بگاہے دنیا کو روشن خیالی اور عالمِ عرب میں جمہوریت و آزادیوں کی خبریں چھن چھن کر ملتی رہیں گی۔امریکا بہادر اعلان کرتا رہے گا کہ مراکش اور چھوٹی عرب ریاستوں کا سفرِ جمہوریت خوش آیند ہے۔ دوسروں کو بھی ان کی پیروی کرنی چاہیے۔ اپنے عوام کو قید سے رہائی دینی چاہیے‘ خواہ ہزاروں لوگوں کی یہ رہائی ’’تقریبات ختنہ‘‘ ہی سے مشروط کیوں نہ ہو۔

رفیق بہاء الدین الحریری نے لبنان کے ایک غریب کاشتکار گھرانے میں آنکھ کھولی۔ بچپن میں صیدا شہر کے گردونواح میں لیموں اور مالٹے کے باغات میں پھل چننے کا کام کرتا رہا‘ پھر تعلیم کے ساتھ ساتھ لبنان کے اخبار النہار میں چھوٹی سی ملازمت کرتا رہا۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے اسے اتنی دولت سے نوازاکہ ۳۰ سال کے بعد اسی اخبار کا مالک بن گیا‘ پھر ’’المستقبل‘‘ نامی سیٹلائٹ چینل ، المستقبل اخبار اور دنیا بھر میں ہوٹلوں‘ تعمیراتی کمپنیوں‘ بنکوں‘ جہازوں اور اسٹاک ایکسچینج کی بے شمار دولت کا مالک بنا اور دنیا میں چوٹی کے مال دار ترین ۱۰۰ افراد میں ۵۴ویں نمبر پر آگیا۔

۱۹۷۳ء میں پٹرول کے عالمی بحران کے وقت رفیق الحریری سعودی عرب میں تھا۔ مختلف تعمیراتی منصوبوں کے ذریعے آگے بڑھتے بڑھتے شاہی خاندان سے تعلقات استوار ہوچکے تھے۔ شہزادہ فہد بن عبدالعزیز سے ذاتی دوستی ہوگئی تھی اور کئی سرکاری ٹھیکے بھی مل رہے تھے۔ ۱۹۷۷ء میں شاہ خالد بن عبدالعزیز نے کانفرنس پیلس بنانے کا ٹھیکہ دیا جو الحریری نے  چھے ماہ کی ریکارڈ مدت میں پورا کر دیا اور پھر ہر جانب سے ہُن برسنے لگا۔ ۱۹۷۸ء میں ایک نادر المثال تکریم کا مظاہرہ کرتے ہوئے‘ لبنانی رفیق الحریری کو سعودی شہریت دے دی گئی‘ اور پھر لبنانی نژاد سعودی ساہوکار ’’حی الورود‘‘ پھولوں کی بستی میں اپنے محل ’’قصرالحریری‘‘ کا باسی ہوگیا۔

۱۹۷۶ء میں لبنان خانہ جنگی کا شکار ہوگیا‘ اور ۱۷ سال تک لبنان میں وہ خونریزی ہوئی کہ ’’لبنانائزیشن‘‘ کا لفظ خانہ جنگی‘ باہمی قتل و غارت اور تباہی و بربادی کا مترادف لفظ بن کر ڈکشنریوںمیں لکھا گیا۔ ۱۹۸۹ء میں سعودی عرب کے شہر طائف میں شاہ فہد بن عبدالعزیز کی دعوت پر تمام متحارب لبنانی فریق جمع ہوئے اور لبنان میں مصالحت کی لاتعداد کوششوں کے بعد بالآخر یہ کوشش کامیاب ہوگئی۔ معاہدئہ طائف ایک نئے لبنان کی بنیاد بن گیا۔ اہم حکومتی عہدے مختلف فرقوں میں تقسیم کر دیے گئے۔ اب اگر لبنان کا صدر مارونی مسیحی ہے تو وزیراعظم سنی اور پارلیمنٹ کا اسپیکر شیعہ ہوتا ہے۔ معاہدئہ طائف پاکستان کے ۷۳ء کے دستور کی حیثیت رکھتا ہے کہ اس پر سب کا اجماع ہے۔ رفیق الحریری بھی سنی وزیراعظم کی حیثیت سے حکمران رہے۔ اپنی سیاسی حیثیت منوانے کے لیے ان کا سرمایہ اور وسیع بین الاقوامی تعلقات ان کا اصل ہتھیار تھے۔ ان کی شخصیت اور سوچ کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک بار سعودی فرمانروا شاہ فہد بن عبدالعزیز نے متعدد افراد کو سعودی عرب میں تعمیروترقی میں اضافے کے لیے مشورے دینے کے لیے کہا تو رفیق الحریری کا کہنا تھا کہ ’’دنیا میں سعودی عرب کی اقتصادی ترقی کی تصویر اجاگر کرنے کے لیے کروڑوں ڈالر صرف کر کے دنیا کے اربوں ڈالر کا رخ اپنی طرف موڑا جا سکتا ہے‘‘۔ شاید اسی فارمولے پر عمل درآمد کرتے ہوئے حریری نے امریکا کے شہر بوسٹن میں بزنس اینڈ ایڈمنسٹریشن کالج کی تعمیر کے لیے ۲۵ ملین ڈالر کا عطیہ دیا۔

لبنان میں متفق علیہ قومی فارمولے کے مطابق امور مملکت چلائے جا رہے تھے۔ اپوزیشن بھی فعال رہی ہے لیکن ایسا شاذونادر ہوا کہ کوئی لاینحل بحران اٹھ کھڑا ہوا ہو۔ جنوبی لبنان پر اسرائیلی قبضہ طویل جہاد کے بعد ختم کروا لیا گیا۔ بلدیاتی اور قومی انتخابات بھی ہو رہے تھے‘ لیکن عراق پر امریکی قبضے کے بعد لبنان میں جو سیاسی بحران اٹھے‘ رفیق الحریری کا قتل ان کا نقطۂ عروج ہے۔ لبنان میں شامی افواج گذشتہ ۲۹ سال سے موجود ہیں۔ لبنان اور شام کے تعلقات عملاً دوقالب یک جان کے مترادف ہیں۔ دونوں ملکوں کے شہری بلاروک ٹوک ایک دوسرے کے ہاں آتے جاتے ہیں۔ لاکھوں شامی باشندے لبنان میں تجارت یا ملازمت کرتے ہیں۔ دونوں ملکوں کو لاحق صہیونی خطرے کے مقابلے کے لیے بھی دونوں یک جا ہیں۔ لبنان میں داخلی و خارجی امن میں مدددینے کے لیے ۱۵ ہزار سے زائد شامی افواج لبنان میں ہی رہتی ہیں۔ انٹیلی جنس کا نظام مستزاد ہے۔ معاہدئہ طائف میں بھی شامی افواج کی موجودگی کا ذکر ہے اور کہا گیا ہے کہ شامی افواج وادیِ بقاع میں رہیں گی۔

امریکا کی طرف سے شام‘ اس کی افواج اور اس کے ایٹمی اسلحے کے بارے میں پہلے بھی بارہا تان اٹھائی جاتی تھی‘ لیکن عراق پر امریکی قبضے کے بعد سے اس کی لَے بلند تر ہوتی چلی گئی۔ لبنانی اپوزیشن نے بھی لبنان سے شامی افواج کی واپسی اپنا ہدف اولیں قرار دے دیا۔ امریکا سے گہرے تعلقات رکھنے والے وزیراعظم رفیق الحریری نے بھی اسی نہج پر کام شروع کر دیا‘ یہاں تک کہ پارلیمنٹ میں اس کے بجاے سابق وزیراعظم عمر کرامے کو وزیراعظم چن لیا گیا اور الحریری کھل کر شام پر تنقید کرنے لگا۔ دُرزی (فرقۂ دروز کے) رہنما ولید جنبلاط تو پہلے ہی شمشیربرہنہ تھا اب سرمایہ دار حریری بھی ان سے آملا۔ ستمبر ۲۰۰۴ء میں سلامتی کونسل نے شام کے خلاف قرارداد ۱۵۵۹ منظور کرتے ہوئے اسے لبنان سے افواج نکال لینے کاکہا۔ یہ قرارداد منظور کروانے میں فرانس اور امریکا پیش پیش تھے اور رفیق الحریری نے اپنے ذاتی دوست صدر شیراک اور دیگر عالمی رہنمائوں سے مل کر اس قرارداد کی منظوری میں فعال کردار ادا کیا۔

الحریری نے شام نواز لبنانی صدر امیل لحود کو ہٹانے اور ایک ایسا صدر لانے کی بھی کوشش کی جو شامی افواج کو نکالنے کا کام انجام دے‘ لیکن لبنانی حکومت نے شامی اثرونفوذ کے سائے میں دستوری ترمیم کرتے ہوئے لحود کے عرصۂ صدارت میں تین سال کا اضافہ کر دیا۔

اس سارے پس منظر میں جب ۱۴ فروری ۲۰۰۵ء کو بیروت کے قلب میں دن دہاڑے رفیق الحریری کا پورا قافلہ نامعلوم دھماکے کا شکار ہوا تو پہلے ہی ثانیے سے اس قتل کا الزام شام پر لگنا شروع ہوگیا۔ جرمن اخبارات‘ ایک ہسپانوی اور ایک فرانسیسی اخبار کے علاوہ باقی تمام عالمی میڈیا حریری کے قتل کا ذمہ دار شام کو ٹھیرانے لگا اور پھر جیسے جیسے تدفین کے لمحات قریب آتے گئے‘ قتل کا الزام پیچھے رہ گیا اور لبنان سے انخلا کا مطالبہ سرفہرست آگیا۔ امریکا نے فوراً ہی  دمشق سے اپنی سفیرہ کو واپس بلالیا‘ امریکی نائب وزیرخارجہ اور کئی عالمی رہنما بیروت پہنچنے لگے‘ اور صدر بش گویا ہوئے:’’شام لبنان سے اپنا استعماری قبضہ ختم کرے۔ لبنانی عوام کو آزادی سے جینے کا حق ہے‘‘۔ لبنانی اپوزیشن نے حریری کے جنازے میں جمع ہونے والے لاکھوں شہریوں کے جلوس کو ’’انتفاضہ الاستقلال‘‘قرار دے دیا اور حریری کی جدوجہد کو جاری رکھنے کا عہد کیا۔ ولد جنبلاط کے الفاظ میں: ’’لبنان کی آزادی اور بالادستی کے لیے بیرونی جمہوری طاقتوں سے استعانت بھی جائز ہے۔ ہم باہر سے بھی مدد لیں گے۔ اب ہم ہر پابندی سے آزاد ہیں‘‘۔ وائٹ ہائوس کے ترجمان نے ارشاد فرمایا: ’’لبنانی عوام کو دہشت گردی اور شام کے استعماری قبضے سے آزادی ملنی چاہیے‘‘۔

رفیق الحریری کے مجرمانہ قتل کا ارتکاب کرنے والوں کے سوا ابھی تک کسی کو معلوم نہیں کہ یہ قتل کس نے کیا ہے اور قطع نظر اس کے کہ اس میں شام ملوث ہے یا نہیں‘ کسی بھی طرح کی تحقیقات سے پہلے تمام تر الزام شام پر لگاتے ہوئے پورا مغرب اس پر دبائو ڈال رہا ہے کہ وہ لبنان سے نکل جائے۔ لیکن کیا صرف شامی افواج لبنان سے نکال لیے جانے پر یہ عالمی دبائو ختم ہوجائے گا؟ قطعاً نہیں۔ وائٹ ہائوس کے ترجمان کا جملہ ہی دیکھ لیجیے:’’…دہشت گردی اور شام کے استعماری قبضے کا خاتمہ‘‘۔ دہشت گردی سے ان کی مراد شام کا شیعہ لبنانی تحریک ’’حزب اللہ‘‘ سے تعاون‘ حماس کی قیادت کو دمشق میں پناہ دینا‘ اور عراق میں جاری تحریک مزاحمت کو مدد فراہم کرنا ہے۔ شام لاکھ انکار کرے اور ہزار مطالبات پورے کر ڈالے عراقی و فلسطینی مزاحمت کی سرپرستی کے الزام سے چھٹکارا ممکن نہیں کہ اسی الزام کی آڑ میں شامی ایٹمی اسلحے کی تیاری کے امکانات کا خاتمہ‘ جولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضہ تسلیم کروانا‘ اور ایران سے قطع تعلق کرتے ہوئے خطے میں امریکی و صہیونی منصوبوں کی تکمیل میں شریک کرنا بھی مطلوب و مقصود ہے۔

دہشت گردی کے اس بڑے واقعے کے فوراً بعد صہیونی وزیراعظم شارون نے سلامتی کونسل کی قرارداد ۱۵۵۹ پر عمل درآمد کرتے ہوئے لبنان سے شامی فوجیں نکالے جانے کو شام کے ساتھ کسی بھی گفتگو کے لیے شرط اولیں قرار دیا۔ اس کے وزیرخارجہ سلفان شالوم نے بھی حادثے کے لمحۂ اول سے شام کو اس کا مرتکب اور ذمہ دار قرار دیا۔ ایک بڑے صہیونی روزنامے معاریف نے حادثے کے اگلے ہی روز (۱۵ فروری) کو تل ابیب یونی ورسٹی کے شعبۂ تاریخِ مشرق وسطیٰ کے سربراہ پروفیسر ایال زیسر کے ایک مضمون میں لکھا: ’’صورت حال جو بھی ہو شام کو قتل کے  اس واقعے کی قیمت چکانا ہوگی‘ خواہ عملاً اس واقعے کے پیچھے اس کا ہاتھ نہ بھی ہو‘‘۔ باعث حیرت و افسوس امر یہ ہے کہ شام پر عالمی دبائو دن بدن بڑھ رہا ہے۔ صدر بش نے برسلز میں تقریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’لبنان میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے وہ پورے خطے کی تشکیلِ نو کے منصوبے کا حصہ ہے‘‘۔ لیکن خطے کے تمام ممالک لاتعلق بیٹھے ہیں۔

اخوان المسلمون کو شام میں بڑی اذیتوں کا نشانہ بنایا گیا ہے‘ اب بھی ان کے ہزاروں کارکنان و قائدین ملک بدر‘ گرفتار یا لاپتا ہیں‘ لیکن اخوان نے اپنے بیان میں شام کے خلاف تمام امریکی و اسرائیلی منصوبوں اور سازشوں کو مسترد کرتے ہوئے پوری مسلم دنیا سے اپیل کی ہے کہ وہ اس حساس موقعے پر خاموش تماشائی نہ رہیں‘ شام کو تنہا نہ چھوڑیں اور صورت حال کو سنبھالنے کے لیے آگے بڑھیں۔

رفیق الحریری کے قتل کو بجا طور پر مشرق وسطیٰ کا سونامی قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کے تباہ کن اثرات لبنان یا شام تک محدود نہیں رہیں گے۔ صدر بش کے الفاظ میں یہ سب: ’’خطے کی تشکیلِ نو کے منصوبے کا حصہ ہے‘‘۔ اس صورت حال کا سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل اٹھانا چاہے گا تاکہ حماس‘ حزب اللہ‘ جہاد اسلامی اور الفتح کے جہادی عناصر کا قلع قمع کردے۔ اس حادثے کے ذریعے امریکا بھی وہ تمام مفادات حاصل کرنے کی کوشش کرے گا‘ جن کے حصول کے لیے وہ شام پر فوجی حملے کی دھمکیاں دیتا اور تیاریاں کرتا آرہا ہے‘ لیکن عراقی دلدل میں دھنس جانے کے باعث عمل درآمد نہیں کرپارہا۔ حصولِ مفادات کی لمبی فہرست کے اس تناظر میں تجزیہ نگار یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ حریری کے قتل کے پیچھے امریکا اور اسرائیل کا ہاتھ کیوں نہیںہوسکتا۔ آخر اپنے ہر حلیف کو بالآخر ٹھکانے لگانا بھی تو ان دونوں کی سرشت میں ہے۔  خاص طور پر ان حالات میں کہ جب قربانی کے اس بکرے کے ذریعے کئی دیگر اہداف کو شکار کرنا مقصود ہو۔ اب امریکا کے لیے اصل پریشانی یہ ہے کہ حریری کے قتل کو دو ہفتے گزرنے اور شام کو عالمی دھمکیوں کا ہدف بنادینے کے باوجود بھی عراق میں امریکی فوجیوں پر حملوں میں کوئی کمی کیوں نہیں آئی۔

بالآخر سوڈان پر مسلط کردہ ۲۲ سالہ جنگ کا خاتمہ ہوا۔ ۹ جنوری ۲۰۰۵ء کو کینیا کے شہر نیروبی میں امریکی وزیرخارجہ کولن پاول‘ متعدد افریقی سربراہوں اور عالمی مبصرین کی موجودگی میں سوڈانی حکومت اور جنوبی علیحدگی پسندوں کے درمیان ایک جامع معاہدے پر دستخط ہوگئے۔ اس معاہدے کے بعد اب جنوبی لیڈر جون گرنگ‘ صدر عمر حسن البشیر کے ساتھ سینئر نائب صدر مملکت کے طور پر کام کریں گے۔ نائب صدر دوم شمالی سوڈان سے لیا جائے گا۔ تمام وزارتیں ایک مخصوص تناسب سے تقسیم کی جائیں گی۔ حکومتی پارٹی اور گرنگ کی پیپلز موومنٹ کے علاوہ کچھ وزارتیں دیگر پارٹیوں کے لیے بھی مخصوص کی جائیں گی اور ایک نیم قومی حکومت چھے سال کا عبوری دور شروع کرے گی۔ اس عبوری دور کے لیے ایک عبوری دستور‘ تاریخ معاہدہ کے چھے ہفتے کے اندر اندر منظور ہوگا‘ جس کے تحت سینئرنائب صدر کو بھی وسیع اختیارات حاصل ہوں گے۔ ملک کے تمام وسائل شمال و جنوب میں تقریباً برابر برابر تقسیم ہوں گے اور چھے سال کے بعد انتخابات کے ذریعے اہلِ جنوب کو یہ اختیار دیا جائے گا کہ وہ شمال کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا ایک الگ ریاست کے طور پر۔

جنوبی حصہ‘ سوڈان کے کل رقبے ۲۵ لاکھ ۵ ہزار ۸ سو ۱۰ مربع کلومیٹر کا تقریباً ۲۸ فی صد‘ یعنی ۷ لاکھ مربع کلومیٹر ہے جس کا زیادہ تر (۶۳ فی صد) حصہ گھنے جنگلات یا چراگاہوں پر مشتمل ہے‘ جب کہ ۳۰ فی صد علاقہ زرخیز زرعی اراضی پر۔ جنوبی آبادی‘ سوڈان کی کل آبادی (۳ کروڑ ۳۶ لاکھ) کا صرف ۱۰ فی صد ہے‘ جن کی زبان ۱۲ مختلف لہجوں پر مبنی ہے‘ جب کہ افریقی اور عربی زبان کا ایک مخلوط لہجہ پوری آبادی کی مشترکہ زبان ہے۔ اگرچہ مشہور یہی کیا جاتا ہے کہ جنوب میں عیسائی اکثریت ہے اور عیسائی علیحدگی پسندی کی تحریک چل رہی ہے لیکن وہاں عیسائیوں کا تناسب صرف ۱۷ فی صد ہے‘ مسلمان آبادی کا تناسب ۱۸ فی صد ہے‘ جب کہ ۶۵ فی صد آبادی کا کوئی مذہب نہیں ہے اور وہ مختلف بتوں اور ارواح پر یقین رکھتی ہے۔

اگرچہ جنوبی قبائل کی شمالی سوڈان سے بغاوت و لڑائی ۱۹۶۲ء سے شروع ہے جو ۱۹۷۲ء میں صدر جعفر نمیری کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کے بعد ۱۱سال تک بند رہی۔ اس وقت بغاوت کی قیادت ’’انیانیا‘‘ کررہا تھا لیکن ۱۹۸۳ء میں جب جعفر نمیری نے نفاذ شریعت اسلامی کا اعلان کیا تو نئے باغی لیڈر جون گرنگ نے خانہ جنگی کا آغاز کر دیا جو ۹جنوری کے معاہدے سے ختم ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ لیکن جنوبی سوڈان کی اس خانہ جنگی کے بیج سوڈان پر برطانوی استعمار کے وقت سے ہی بو دیے گئے تھے اور اس کے لیے برطانوی حکمرانوں کو سخت محنت کرنا پڑی تھی۔

حالیہ مصر اور سوڈان کی سرزمین خلافتِ عثمانیہ ہی کا حصہ تھی مگر ۱۸۸۱ء میں اس نے بغاوت کردی۔ ۱۸۹۹ء میں مصر اور برطانیہ نے سوڈان کا مشترکہ انتظام سنبھالا اور سوڈان میں عملاً انگریزی اقتدار قائم ہوگیا۔ تب ہی سے انگریز نے جنوبی سوڈان سے شمالی سوڈان کو بے دخل کرنا شروع کر دیا۔ اس وقت جنوب میں مصری افواج‘ مصر اور شمالی سوڈان سے تعلق رکھنے والے سرکاری ملازمین اور تاجروں کی ایک معتدبہ تعداد تھی۔

برطانوی راج نے پوری منصوبہ بندی سے آہستہ آہستہ ان تینوں عناصر کو جنوب سے نکالنا شروع کر دیا۔ عربی زبان کے بجاے مقامی زبانوں کو فروغ دینا شروع کر دیا‘ عیسائی مشنریوں کے اسکول کھول دیے اور جمعہ کی ہفتہ وار تعطیل کو اتوار میں بدلنے کی کوشش کی۔ ان اقدامات پر عمل درآمد ۱۹۱۰ء میں شروع ہوا اور ۷ دسمبر ۱۹۱۷ء کو جنوب سے شمالی سوڈان کی افواج کا آخری سپاہی بھی نکل گیا‘ جس کے ٹھیک ایک ماہ بعد ہفتہ وارچھٹی جمعہ سے اتوار میں بدل دی گئی (پاکستان میں جمعہ یا اتوار کی چھٹی کے مسئلے کو استہزا و خفت پن کا شکار کرنے والے متوجہ ہوں)۔

وقت کے ساتھ ساتھ برطانوی راج نے جنوب و شمال کی تقسیم کو گہرا کرنے کے لیے کئی اقدامات اٹھائے۔ ۱۹۱۹ء میں لارڈ ملنر کمیٹی نے اپنی تحقیقات کے بعد متعدد سفارشات و دستاویزات پیش کیں۔ جنوبی سوڈان کے حوالے سے تین دستاویزات بہت اہم تھیں۔ ان میں سے ۱۴ مارچ ۱۹۲۰ء کو جاری ہونے والی رپورٹ میں کمیٹی صراحت کے ساتھ سفارش کرتی ہے:’’حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ جنوبی سوڈان کو حتی المقدور اسلامی اثرات سے دور رکھا جائے۔ اس علاقے میں سرکاری ملازمین غیرمسلم سیاہ فام ہوں اور اگر ملازمین باہر سے منگوانا ضروری ہو تو مصر کے قبطی مسیحی لائے جائیں۔ جمعہ کے بجاے اتوار کی چھٹی لازمی کر دی گئی ہے اور عیسائی مشنریوں کی خصوصی حوصلہ افزائی کی جائے گی‘‘۔

عربی زبان کو جنوب سے بے دخل کرنے کے لیے یہ حجت گھڑی گئی کہ: ’’یہاں متعدد زبانیں رائج ہیں۔ اس لیے اہلِ جنوب کو کسی مشترکہ مقامی زبان کی تعلیم دینی چاہیے اور جب تک یہ مقامی زبان باقاعدہ پڑھنے لکھنے کے قابل نہیں ہوجاتی‘ انگریزی کو مشترک زبان کے طور پر رائج کیا جاتا ہے‘‘۔ عربی زبان کے بارے میں برطانوی سول سیکریٹری میک مائیکل نے بلاجھجک و تردد کہا کہ: ’’جنوب میں عربی زبان کوبدستور قبول کیے رکھنے سے یہاں اسلام پھیلے گا اور ’’متعصب شمالی سوڈان‘‘ (یعنی مسلمان آبادی)کو اتنا ہی مزید رقبہ مل جائے گا جتنا اب اس کے پاس ہے‘‘۔

اس پورے پس منظر اور حالیہ طویل خانہ جنگی کے بعد اب یہ معاہدہ طے پایا ہے تو پورے سوڈان نے سکھ کا سانس لیا ہے ‘لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ خدشات بھی بہت سنگین ہیں کہ کیا یہ معاہدہ حقیقی صلح اور سوڈان کی تعمیروترقی کا ایک نیا باب ثابت ہوگا؟ معاہدے پر دستخط سے پہلے طرفین کے درمیان تقریباً تین سال مذاکرات ہوئے ہیں۔ اس پورے عرصے اور پورے عمل میں امریکا سمیت متعدد مغربی ممالک مکمل شریک رہے ہیں۔ امریکا کی حالیہ سوڈانی حکومت سے عداوت کسی سے مخفی نہیں ہے۔ جنوبی باغیوں کی مدد میں وہ اور اسرائیل پیش پیش رہے ہیں‘ تو کیا اب واقعی سوڈان اور اس کے نظام کو قبول کر لیا گیا ہے؟ کیا اس ماہیت قلبی کا سبب یہ خدشہ بنا ہے کہ سوڈان میں دریافت ہونے والا تیل اب چین کے ہاتھ میں جا رہا ہے‘ اور اس کا راستہ روکنا ضروری ہے؟ کیا یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ ۱۹۸۹ء میں عمر حسن البشیرکا انقلاب آنے کے بعد سے لے کر اب تک ہر ہتھکنڈا آزما کر دیکھ لیا گیا‘ لیکن سوڈانی حکومت کو ختم نہیں کیا جا سکا۔ اس لیے اب مذاکرات و افہام و تفہیم سے اختلافات پاٹنے اور ’’زہر‘‘ کم کرنے کی کوشش کی جائے یا پھر اندر جاکر اپنے ایجنڈے کی تکمیل کی جائے؟

حقیقت جو بھی ہو‘ خدشات و امکانات کا ایک وسیع باب کھل گیا ہے۔ یورپ و امریکا سمیت اگر طرفین نے باہم اعتماد کو فروغ دیا تو سوڈان کا استحکام‘ وہاں کی زرخیز سرزمین اور وافر تیل پورے خطے کے لیے ایک نعمت ثابت ہوگا۔ لیکن ۲۴ جنوری کا جون گرنگ کا یہ بیان تشویش ناک ہے کہ ’’عبوری دور میں اقوام متحدہ کی طرف سے ۱۰ ہزار فوجیوں کو تعینات کرتے ہوئے چین‘ ملایشیا اور پاکستان کی افواج کو ان میں شامل نہ کیا جائے۔ کیونکہ اول الذکر دونوں ممالک کا مفاد سوڈان کے تیل سے وابستہ ہے اور پاکستان ایک اسلامی ملک ہے‘‘۔ واضح رہے کہ اب تک پاکستان‘ بھارت‘ بنگلہ دیش اور کینیا سمیت کئی ممالک سوڈان فوجیں بھجوانے کی پیش کش کرچکے ہیں۔

ان خدشات کے حوالے سے راقم کو سوڈانی صدر سمیت متعدد ذمہ داران سے گفت و شنید کا موقع ملا تو انھوں نے کامل اعتماد کے ساتھ کہا کہ: ’’جنگ بند کروانے میں کامیابی ایک بڑی کامیابی ہے‘ اور جہاں تک خدشات کا تعلق ہے توگذشتہ ۱۵ سال میں سوڈان میں جو نظام تشکیل دیا جا چکا ہے وہ کسی کے اندر آبیٹھنے یا باہر چلے جانے سے متاثر نہیں ہوگا۔

ایک اور اہم پہلو جس کے بارے میں سوڈان کے ہر خیرخواہ کو تشویش ہے وہ سوڈانی حکمران پارٹی کے باہمی اختلافات ہیں جن کے نتیجے میں ایک پارٹی دو پارٹیاں بن گئیں اور ڈاکٹر حسن ترابی کو پس دیوار زندان بھیج دیا گیا۔ باہم لڑائی کبھی بھی کسی ایک فریق کی تقویت کا باعث نہیں بنتی۔ اس مرحلے پر اگر خطرات حقیقی ہیں تو سب یکجا ہو کر ہی ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں‘ اور اگر مصالحت حقیقی ہے تو دوسروں سے پہلے (یا ان کے بعد ہی سہی) اپنوں سے مصالحت کیوں نہیں؟

۵۲ سالہ بشیرالخطیب کو آج سے آٹھ سال قبل پیش کش کی گئی تھی کہ اگر تم اپنی غلطی کا اعتراف اور اس پر اظہار ندامت کر لو تو فوری رہائی حاصل ہو سکتی ہے۔ اس وقت اسے گرفتار ہوئے ۱۷ سال گزر چکے تھے۔ الخطیب نے کہا کہ میں نے کوئی جرم نہیں کیا اور اخوان المسلمون سے تعلق کا جو الزام تم لگاتے ہو‘ میں اس پر نادم نہیں‘ اس کا اقراری ہوں۔ جواب سن کر اسے دوبارہ جیل بھیج دیا گیا۔ اب بشیرالخطیب اور ان کے ۱۱۹دیگر ساتھیوں کو ۲۵‘۲۵سال قید کے بعد اچانک اور کسی کارروائی کے بغیر رہا کر دیا گیا ہے۔ شام کی مختلف جیلوں میں ربع صدی گزارنے والے ان قیدیوں کے اہل خانہ میں سے کسی کو معلوم نہیں تھا کہ ان کے یہ عزیز کہاں اور کس حال میں ہیں۔ اب بھی ہزاروں خاندانوں کو معلوم نہیں کہ ان کے جن اعزہ کو آج سے کئی سال پہلے گرفتار کیا گیا تھا وہ زندہ بھی ہیںیا موت کے آئینے میں رخِ دوست پر نظریں جمائے‘ شہادت کے جام نوش کر گئے۔

۱۲۰ مفقود الخبر افراد کی رہائی کی نوید سن کر یہ ہزاروں خاندان ایک بار پھر انتظار کی سولی پر چڑھ گئے ہیں۔ یہ خاندان اپنے عزیزوںسے محروم ہوجانے کے بعد نہ تو ان کی موت کا سوگ مناسکتے ہیں کہ وراثت اور یتیموں کی سرپرستی کے مسائل کا حل تلاش کیا جا سکے‘ اور نہ ان کے زندہ ہونے کو حقیقت قرار دے سکتے ہیں کہ ۲۰‘ ۲۰ اور ۲۵‘ ۲۵ سال سے ان کی کوئی خبر موصول نہیں ہوئی۔ یہ ساری تفصیل مجھے بشیرالخطیب کے خالہ زاد بھائی نے شام کے صدر بشار الاسد کے اس اعلان کے بعد سنائی کہ ہم سیاسی قیدیوں کو رہا کر رہے ہیں۔

اخوان المسلمون شام کے سربراہ صدرالدین البیانونی نے بھی ان رہائیوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے ایک پریس کانفرنس میں اسے ایک مثبت لیکن ادھورا اقدام قرار دیا ہے۔ انھوں نے بدلتے ہوئے عالمی حالات میں شام میں ایک مکمل سیاسی مفاہمت اور منصفانہ معاشرے کے قیام کے لیے جامع تجاویز پیش کی ہیں‘ لیکن فی الحال شامی حکومت کی طرف سے ان تجاویز کا واضح جواب نہیں دیا گیا۔

رہا ہونے والوں کی اس کھیپ سے پہلے بھی کچھ لوگوں کو رہا کیا گیا تھا اور یہ بات عرصے سے زبان زدِعام ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان خفیہ مذاکرات کے کئی دور ہوچکے ہیں‘ حالانکہ اس سے پہلے اس موضوع پر اشارتاً بھی بات نہیں کی جاسکتی تھی۔ حکومتی پالیسی میں اس اچانک تبدیلی کی ایک وجہ بشارالاسد کا اپنے باپ حافظ الاسد سے مختلف ہونا بھی ہوسکتی ہے‘ لیکن اصل وجہ ۱۱ستمبر کے بعد روپذیر ہونے والی عالمی تبدیلیاں ہیں۔ بش‘ شام کو محورِشر کا ایک زاویہ قرار دینے کے بعد عراق میں خون کی ہولی کھیل رہا ہے۔ شام پر مسلسل یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ عراق میں جاری مزاحمت کو مدد فراہم کر رہا ہے۔ فلوجہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے بعد کہا گیا کہ فلوجہ کے کھنڈرات سے سراغ و ثبوت ملے ہیں کہ ’’دہشت گردوں‘‘ نے شام کے کیمپوں میں تربیت حاصل کی تھی۔ ادھر شارون نے اعلان کیا ہے کہ شام میں پناہ گزیں دہشت گردوں کا پیچھا ان کے ٹھکانوں تک کریں گے۔ متعدد فلسطینی رہنمائوں پر شام کے مختلف علاقوں میں قاتلانہ حملے بھی کیے جاچکے ہیں۔ امریکی اخبارات اور صہیونی کالم نگار مسلسل زور دے رہے ہیں کہ خطے سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے شام پر بھی فوج کُشی ناگزیر ہے۔ جو تباہ کن اسلحہ عراق میں نہیں ملا‘ اس کی شام میں موجودگی کی ’مصدقہ اطلاعات‘ نشر کی جارہی ہیں۔ وائٹ ہائوس کے ترجمان نے ۸دسمبر کو اپنی بریفنگ میں شام اور ایران پر الزام لگایا ہے کہ دونوں ملک عراقی انتخابات پر اثرانداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں‘ انھیں اس سے باز رکھنے کی ضرورت ہے۔ خطے میں امریکی ترجمان‘ کئی مسلم حکمران بھی امریکا کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں۔ اُردن جس کی سرحدیں شام‘ عراق‘ فلسطین‘ لبنان اور سعودی عرب سے ملتی ہیں کے شاہ عبداللہ نے بھی خطے میں شیعہ کمان کے وجود سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’عراق‘ شام اور لبنان میں شیعہ حکومتیں قائم کرتے ہوئے ایران پورے خطے پر تنی ایک کمان تشکیل دینا چاہتا ہے۔ دنیا کو اس خطرے سے خبردار رہنا چاہیے‘‘۔

اس تناظر میں شام کی قیادت نے کئی اہم اقدامات اٹھانے کا عندیہ دیا ہے۔ اگر سیاسی قیدیوں کی رہائی کا سلسلہ حقیقت بن جاتا ہے اور سالہا سال سے جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے دسیوں ہزار خاندانوں کو ملک واپسی کی اجازت دے دی جاتی ہے‘ ملک میں افہام و تفہیم اور سیاسی آزادی کی فضا کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے‘ تو یقینا مقابلے کے لیے تیاری کا یہ سب سے اولیں اور ضروری تقاضا پورا ہو سکتا ہے کہ پوری قوم یک جان ہو اور اندرونی محاذ مضبوط تر ہو۔ اس وقت سیاسی و صحافتی آزادیوں کا عالم یہ ہے کہ ملک میں صرف ایک ہی حکمران پارٹی ہے‘ کوئی دوسرا پارٹی تشکیل دینے کی جسارت نہیں کرسکتا۔ ابلاغیات کے دور میں بھی شام میں صرف تین سرکاری اخبار بعث‘ الثورہ‘ تشرین ہی شائع ہوسکتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے مطابق بیرون ملک مقیم شامی شہریوں نے مختلف ممالک میں ۱۰۰ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے‘ لیکن انھیں ملک واپسی کی اجازت نہیں ہے۔

شامی حکومت نے وقت کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے عالمِ اسلام سے بھی روابط مضبوط کرنا شروع کیے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل شامی علما اور دانش وروں کے ایک وفد نے متعدد مسلم ممالک کا دورہ کیا۔ وفد پاکستان بھی آیا اور متعدد حکومتی شخصیتوں کے علاوہ سیاسی رہنمائوں سے ملاقات کی۔ محترم قاضی حسین احمد سے اپنی ملاقات میں انھوں نے شام کی اسلامی تاریخ اور بشارالاسد کی اسلام پسندی کے حوالے سے مفصل گفتگو کی۔ قاضی صاحب نے انھیں یہی مشورہ دیا کہ عالمِ اسلام سے رابطہ بہت اہم ہے لیکن ملک کے اندر اعتماد و آزادی کی فضا اس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ پوری قوم متحد ہو کر اللہ کی رسی کو تھامے گی‘ تو کوئی خطرہ‘ خطرہ نہیں رہے گا۔

بشارالاسد نے اندرون ملک بعض اصلاحات کا عندیہ دینے کے ساتھ ہی بعض سیاسی کارڈ بھی پھینکے ہیں۔ عراق کے پڑوسی ممالک کی مصری سیاحتی شہر شرم الشیخ میں ہونے والی کانفرنس میں شامی وزیرخارجہ نے بھی شرکت کی اور کانفرنس کے امریکی میزبانوں کو عراق میں امن کی خاطر ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ بشارالاسد نے حال ہی میں اسرائیلی وزیراعظم شارون کو بھی مذاکرات کی غیرمشروط پیش کش کی ہے۔ لیکن نہ تو شارون نے اس پیش کش کا کوئی مثبت جواب دیا اور نہ اس غیرمعمولی پیش کش سے ہی امریکی خوشنودی کا کوئی امکان پیدا ہوا‘ بلکہ بش نے مزید رعونت سے کہا کہ اس وقت میری ساری توجہ مسئلہ فلسطین حل کرنے پر ہے۔ اس سے فراغت کے بعد شام کی پیش کش کا جائزہ لیں گے۔

سابق روسی وزیرخارجہ یفجینی پریماکوف اپنے ۱۹ دسمبر کے ایک کالم میں شام کے تذبذب کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’میں حافظ الاسد سے مشرق وسطیٰ کے حالات پر گفتگو کر رہا تھا تو حافظ الاسد نے کہا: ’’شام نہیں چاہتا کہ کوئی شام کو نظرانداز کرتے ہوئے‘ ہم سے پہلے اسرائیلیوں کے ساتھ صلح کرے اور نہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ شام اسرائیل کے ساتھ صلح کرنے والا پہلا ملک ہو‘‘۔ نتیجہ یہ نکلا کہ فلسطین اور لبنان میں اپنے گہرے اثرونفوذ کے باوجود شام خطے کے واقعات پر اپنا نقش ثبت نہیں کر سکا۔ یقینا جنوبی لبنان‘ جولان کی پہاڑیوں اور فلسطینی تنظیموں کے حوالے سے کوئی بھی شام کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔ اور اب عراق میں جاری مزاحمت کے حوالے سے‘ عراق شام سرحدیں حساس ترین اور اہم ترین ہوگئی ہیں لیکن معاملات کا تمام تر انحصار   شامی حکومت کے یکسو ہونے پر ہے۔ اگر شام یکسو ہوکر پوری قوم کو اسلامی اصولوں پر ساتھ لیتا ہے اور قبلۂ اول کے حوالے سے دمشق‘ حمص اور حلب کے تاریخی کردار کو زندہ کرتا ہے تو تجزیہ نگاروں کا یہ تجزیہ ایک زندہ و عظیم حقیقت بن جائے گا کہ ’’عراق میں امریکی فوجوں کی حالت‘ خطے کے باقی ممالک کی سلامتی کی علامت ہے‘‘۔

۲۱ دسمبرکو موصل کے امریکی اڈے پر میزائلوں کا حملہ اور سیکڑوں امریکی فوجیوں کا اس کی زد میں آنا (واضح رہے کہ حملے کے وقت ۵۰۰ امریکی فوجی ظہرانہ کھا رہے تھے) پورے فلوجہ کو زمین بوس کر دینے کے باوجود‘ عراقی مزاحمت میں روز افزوں اضافے ہی کی نہیں نئی اور‘ زیادہ مؤثر حکمت عملی کی خبردے رہا ہے۔ ۳۰ جنوری کو عراقی انتخابات کا ڈراما اسٹیج ہو بھی جاتا ہے‘ تب بھی نہ تو اس مزاحمت کو روکا جا سکے گا اور نہ امریکا کوئی ایسی کٹھ پتلی حکومت قائم کر سکے گا جو وہاں امریکیوں کی جنگ لڑے۔ البتہ ان انتخابات کے ذریعے عراقی عوام کو تقسیم کرنے کی سازش کامیاب ہونے کا خطرہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ شاہ عبداللہ نے واشنگٹن پوسٹ کو اپنے سابق الذکر انٹرویو میں ایران پر الزام لگایا ہے کہ ’’عراقی انتخابات پر اثرانداز ہونے کے لیے ایران نے اپنے ۱۰ لاکھ شہری عراق میں داخل کیے ہیں جو اپنے ووٹ کے ذریعے وہاںشیعہ حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ تقریباً تمام سنی جماعتوں کی طرف سے الیکشن کے بائیکاٹ اور آیۃ اللہ سیستانی سمیت اہم شیعہ رہنمائوں کی طرف سے انتخابات میں بھرپور حصہ لینے کے بیانات اور کربلا و نجف میں حالیہ خوفناک بم دھماکے‘ اسی تقسیم کے خطرے کو ہوا دیتے دکھائی دیتے ہیں۔

سیکڑوں ارب ڈالر کے اخراجات‘ ہزاروں فوجیوں کی لاشیں‘ ڈیڑھ لاکھ سے زائد افواج اور بغداد میں امریکی سفارت خانے کے۳ ہزار اہلکار (جن کی قیادت وہی امریکی سفیر جون نیگروبونٹی کر رہا ہے جس نے ویت نام میں امریکی شکست کا یقین ہونے کے بعد وہاں سے امریکی افواج کے انخلا کا مشن سرانجام دیا تھا)‘عراق میں امریکی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ بش کے دوسرے عہدصدارت میں امریکی ناکامیوں کی فہرست مختصر ہونے کے بجاے طویل تر ہوگی ‘ کیونکہ غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بجاے مزید غلطیوں پر اصرار کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں شام اور دیگر مسلم ممالک کے لیے نجات کا ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ وہ دلدل میں دھنسے‘ پھنکارتے بدمست ہاتھی کے ساتھ بندھنے کے بجاے اپنے عوام کے ساتھ صلح کریں‘ اپنے خالق اور کائنات کے مالک سے رجوع کریں۔

شام کے حالیہ واقعات نے دنیا کو ایک اور حقیقت سے بھی دوبارہ روشناس کروایا ہے کہ دسیوں سال جیلوں میں رکھ کر‘ ہزاروں خاندانوں کو عذاب و اذیت میں مبتلا کر کے اور سیکڑوں افراد کو شہید کر کے بھی اسلام اور اسلامی تحریک کے وابستگان کو کچلا نہیں جاسکتا۔ مظالم ڈھانے والوں کو خدا کے حضور جانے کے بعد جس انجام کا سامنا کرنا پڑے گا وہ تو قرآن کریم میں ثبت کردیا گیا۔ دنیا میں بھی ان کا انجام ٹالا نہیں جاسکتا۔ وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ (الشعرائ:۲۶:۲۲۷)، ’’جنھوں نے ظلم کیا وہ عنقریب جان لیں گے کہ ان کا انجام کیا ہوتا ہے!‘‘

فلسطین پر قابض برطانوی افواج کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہونے والا نوجوان یاسر اسے اپنا ہیرو محسوس ہوا‘اور قاہرہ یونی ورسٹی میں انجینیرنگ کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے نوجوان محمد عبدالرحمن عبدالرئوف عرفات القدوہ الحسینی نے اپنا نام یاسر رکھ لیا۔ پھر کسی کو یاسر عرفات کا اصل نام‘ جو ۲۴ اگست ۱۹۲۹ء کو قاہرہ میں پیدا ہونے پر والدین نے رکھاتھا‘ یاد نہ رہا۔

دورِ جوانی ہی سے یاسر جس نے اپنی کنیت ابوعمار رکھی تھی فلسطین کے لیے بہت جذباتی اور متحرک تھا۔ زمانۂ طالب علمی میں ’’فلسطینی طلبہ اتحاد‘‘ کی تشکیل میں اس کا نمایاں کردار تھا۔ تعلیم کے بعد ۱۹۵۶ء میں وہ مصری فوج میں بھرتی ہوگیا اور لیفٹیننٹ کا عہدہ حاصل کیا۔ اسی سال مصر پر اسرائیل‘ برطانیہ اور فرانس کا مشترکہ حملہ ہوا اور لیفٹیننٹ یاسر کو باقاعدہ جنگ کا تجربہ حاصل ہوا۔

علامہ یوسف قرضاوی‘ ابوعمار کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بتا رہے تھے کہ ’’فلسطین پر قبضے کے بعد اخوان المسلمون نے کسی بھی باقاعدہ فوج سے پہلے اور زیادہ جرأت و جذبے سے برطانوی و صہیونی قابض فوجوں کا مقابلہ کیا۔ امام حسن البناؒ نے اس دور میںمصر سے زیادہ فلسطین کو اہمیت دی اور قبلۂ اول کے دفاع و آزادی کے لیے اپنے ہزاروں مجاہدین فلسطین روانہ کیے۔ ان مجاہدین کی تربیت کے لیے مصر کے مختلف علاقوں میں تربیتی کیمپ قائم تھے۔ ایک کیمپ میں  مَیں بھی شریک تھا۔ اس میں ایک نوجوان یاسر تربیت دیا کرتا تھا۔ میرا اس سے پہلا تعارف اس طرح ہوا کہ ایک ساتھی کی کسی غلطی پر طیش میں آکر یاسر نے اسے ڈانٹتے ہوئے اس پر بندوق تان لی۔ میں نے کیمپ انچارج‘ اخوان کے ذمہ داران سے اس واقعے کی شکایت کی اور انھوں نے یاسر کو بلا کر نوٹس لیا… یہ میری اور یاسر عرفات کی پہلی ملاقات تھی‘‘۔

فوج سے فارغ ہو کر ابوعمار نے کویت جاکر تلاش معاش کے ساتھ ساتھ مختلف ممالک میں مقیم فلسطینی نوجوانوں کے ساتھ مل کر ’’الفتح‘‘ کی بنیاد رکھی۔ ان نوجوانوں کی اکثریت بھی اخوان المسلمون سے متاثر تھی جن میں سلیم زعنون‘ خلیل الوزیر (ابوجہاد) اور صلاح خلف نمایاں تھے۔ الفتح نے ۱۹۵۹ء میں بیروت سے فلسطیننا  (ہمارا فلسطین) نامی رسالہ شائع کرنا شروع کیا اور اس طرح ’’الفتح‘‘ فلسطین کی آواز بن کر ابھرنا شروع ہوئی۔

یاسر عرفات کی پوری زندگی جدوجہد سے عبارت ہے‘ اس دوران وہ طالب علم لیڈر بھی رہا‘ فوجی کمانڈر بھی‘ خفیہ مسلح جدوجہد کا نگران بھی رہا اور سیماب پا سیاسی لیڈر بھی۔ عرب حکمران اسے کبھی اپنا بھائی اور بازوے شمشیر زن قرار دیتے رہے اور کبھی اس سے ملنے سے بھی انکاری۔ اُردن میں فلسطینیوں کی بڑی تعداد قیام پذیر ہے۔ یاسر عرفات نے وہاں اپنی سرگرمیوں کا مرکز قائم کیا۔ ’’العاصفہ‘‘ (آندھی) گوریلا تنظیم قائم کی اور مقبوضہ فلسطین میں فدائی کارروائیوں کا آغاز کیا۔ اُردن کا شہر الکرامہ‘ الفتح کی قیادت کا مسکن تھا۔ ۲۱ مارچ ۱۹۶۸ء کو الکرامہ پر اسرائیلی فوجوں نے حملہ کیا۔ اُردنی خفیہ اداروں کو اس حملے کی اطلاع ہو چکی تھی۔ انھوں نے الفتح کو بھی مطلع کر دیا اور جب حملہ ہوا تو اسرائیلیوں کو لاشیں چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔

اسی اُردن میں دو سال بعد ستمبر ۱۹۷۰ء کو شاہ حسین کے حکم پر فلسطینی کیمپوں پر دھاوا بولا گیا۔ الزام یہ تھا کہ حکومتِ اردن کے خلاف بغاوت کر رہے ہیں۔ اس حملے میں۳ہزار فلسطینی شہید کر دیے گئے اور بالآخر ان کی قیادت اور مجاہدین کو اُردن چھوڑ کر لبنان آنا پڑا۔ فلسطینی اب بھی ان زخموں کو نہیں بھولے۔ اس حملے میں پاکستانی فوج بھی شریک تھی۔ نتیجتاً پاکستان سے بھی ابدی شکوہ قائم ہے۔ اس سانحے کے لیے عالمی قوتوں نے کس طرح اسٹیج تیار کیا تھا‘ اس کی ایک جھلک کسنجر کی یادداشتوں کے اس پیراگراف میں ملتی ہے: ’’میں نے اسحاق رابن کو اُردن سے موصولہ اطلاعات سے آگاہ کیا اور میں نے اسے یہ بھی بتایا کہ اس دوران اسرائیلی فضائی حملہ ہمارے لیے باعث اطمینان ہوگا اور ہم اس بات کے لیے بھی تیار ہیں کہ نقصان ہونے کی صورت میں اس کا ازالہ کریں‘‘۔

۷۰ کی دہائی میں لبنان مختلف فلسطینی گروپوں کا مرکز رہا۔ اسرائیلی افواج اور صہیونی بستیوں کو ان کی لاتعداد گوریلا کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دوران یہودیوں نے ہر شیطانی چال اختیار کی۔ سیکڑوں ذمہ داران قتل کیے‘ ۱۹۷۵ء میں لبنان کی خانہ جنگی پر تیل چھڑکا۔ مشرق وسطیٰ کے اہم رکن ملک مصر کو پوری اُمت سے الگ کرتے ہوئے ۲۶مارچ ۱۹۷۹ء کو کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کر لیا اور بالآخر ۱۹۸۲ء میں لبنان پر حملہ کرتے ہوئے بیروت کے ۱۰ ہفتے کے مکمل محاصرے کے بعد‘ فلسطینی قیادت اور فدائی گروپوں کو لبنان سے ہجرت پر مجبور کر دیا۔ یاسرعرفات ۳۰ اگست ۱۹۸۲ء کو بیروت کی بندرگاہ سے لبنان میں ۱۱سال قیام کے بعد رخصت ہوا اور مصر سے ہوتا ہوا تیونس میں جا مقیم ہوا۔

اب ابوعمار ایک فدائی لیڈر کے علاوہ سیاسی قائد بھی شمار ہوتا تھا۔ عرب سربراہی کانفرنس کے اہم مقرر ہونے کے علاوہ ۱۳ نومبر ۱۹۷۴ء کو وہ اقوام متحدہ کی جنرل کونسل کے اجلاس میں پہلے فلسطینی لیڈر کی حیثیت سے خطاب کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا: ’’میں ایک انقلابی کی بندوق کے ساتھ ساتھ زیتون کی شاخ بھی لے کر آیا ہوں۔ اس سبز شاخ کو میرے ہاتھ سے نہ گرنے دو… جنگ کا آغاز بھی فلسطین سے ہوتا ہے اور امن کا آغاز بھی فلسطین ہی سے ہوتا ہے‘‘۔

یاسر عرفات ۱۹۹۴ء تک تیونس ہی میں مقیم رہا۔ اس دوران تنظیم آزادی فلسطین اور الفتح تنظیم بڑے اندرونی بحرانوں سے گزری۔ کئی لیڈر اسرائیل نے شہید کر دیے‘ بہت سے اپنوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ فلسطینی سرزمین اور سرحدوں سے دُور ہونے کے باعث کوئی قابلِ ذکر فدائی کارروائیاں نہ ہو سکیں۔البتہ اس دوران پورے مسئلہ فلسطین کو یاسر عرفات کی ذات تک محدود کرنے کی عالمی کوششیں عروج پر رہیں۔ مسئلہ فلسطین کو پہلے صرف عربوں کا‘ پھر صرف فلسطینیوں کا مسئلہ قرار دیا گیا اور بالآخر یاسرعرفات کو فلسطینیوں کا ’’الممثل الشرعی والوحید‘‘ (اکلوتا قانونی نمایندہ) قرار دے کر کہا گیا کہ اس کے علاوہ کسی کو فلسطین کی وکالت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

فلسطین کی تاریخ میں‘ ۱۹۴۸ء کے بعد دسمبر ۱۹۸۷ء سے شروع ہونے والا مرحلہ سب سے اہم ہے۔ اس سال پہلی تحریک انتفاضہ شروع ہوئی‘ جس میں بچوں‘ بوڑھوں اور خواتین سمیت پوری فلسطینی قوم نے حصہ لیا۔ تحریکِ انتفاضہ کا سہرا اسلامی تحریک مزاحمت حماس اور اس کے رہبر شیخ احمد یاسین کے سر جاتا ہے۔ صہیونی انتظامیہ نے پتھروں اور غلیلوں سے ’’مسلح دہشت گردوں‘‘ پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے اور فلسطین پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ یاسر عرفات نے سیاسی محاذ پر‘ امن مذاکرات کی بات آگے بڑھائی اور ۱۹۸۸ء میں فلسطینی کونسل نے الجزائر میں اپنے اجلاس کے دوران پیش کش کی کہ غزہ اور مغربی کنارے پر فلسطینی ریاست کے قیام کے مقابل ہم اسرائیل کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہیں۔ ۱۹۸۹ء میں کونسل نے یاسرعرفات کو مجوزہ فلسطینی ریاست کا مجوزہ صدر قرار دے دیا اور اسرائیل کے ساتھ خفیہ مذاکرات کا ایک طویل دور شروع ہوگیا۔

تحریکِ انتفاضہ کی قربانیاں جاری رہیں اور یاسرعرفات کے مذاکرات بھی‘ یہاں تک کہ ۱۹۹۳ء میں ناروے کے دارالحکومت میں عرفات رابن اوسلو معاہدے کا اعلان کر دیا گیا۔ اس معاہدے کے تحت ۲۸ ہزار مربع کلومیٹر رقبے میں سے صرف مغربی کنارے کے ۲ہزار ۲ سو ۷۰ مربع میل اور غزہ کے ۱۳۵ مربع میل علاقے پر فلسطینی ریاست کی تشکیل کا خواب دکھایا گیا۔ یہ رقبہ پورے فلسطین کا صرف ۲۳ فی صد بنتا ہے اور اس میں سے بھی ۶۰ فی صد علاقے پر یہودی بستیوں کی تعمیر کرکے وہاں لاکھوں یہودیوں کو بسا دیا گیا ہے۔ اپنے وطن سے دست برداری کے معاہدے کے بارے میں کہا گیا کہ یہ ’’سلام الشجعان‘‘(بہادروں کا امن معاہدہ) ہے۔ جھوٹے وعدوں اور نو برس پر پھیلے اس گورکھ دھندے اور سراب سے فلسطینیوں کو یہ خواب دکھایا گیا کہ آزادی نہ سہی‘ چلیے فلسطین میں پائوں دھرنے کی جگہ تو ملی۔ لیکن اس معاہدے کی اصل قیمت تحریکِ انتفاضہ کے ابابیل بچوں نے چکانا تھی۔ غلیلوں اور پتھروں سے ’’لیس‘‘ نوجوانوں کو اب یہودی بمباری کا ہی نہیں فلسطینی انتظامیہ کی آٹھ خفیہ ایجنسیوں اور پولیس فورس کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

یاسرعرفات اپنی قوم کو مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کرنے کی خوش خبری سناتے ہوئے  تحریکِ انتفاضہ روکنے کے لیے ایک کے بعد دوسرے صہیونی مطالبے کو پورا کرنے کی ناکام کوشش کرتا رہا اور اگر حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کی یہ دوٹوک پالیسی اور اصرار نہ ہوتا کہ ہم اپنی بندوقوں کا رخ صرف اپنے مشترکہ دشمن کی طرف رکھیں گے‘ حماس اور عرفات انتظامیہ کے درمیان لبنانی خانہ جنگی سے بھی خطرناک خانہ جنگی ہوچکی ہوتی۔ شیخ احمد یاسین نے ہمیشہ کہا کہ عرفات انتظامیہ کے لیے ہمارا پیغام ہمیشہ وہی رہے گا جو آدم علیہ السلام کے بیٹے نے پہلے انسانی قتل کے وقت اپنے بھائی کو دیا تھاکہ لَئِنْم بَسَطْتَّ اِلَیَّ یَدَکَ لِتَقْتُلَنِیْ مَآ اَنَابِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیْکَ لِاَقْتُلَکَ ج (المائدہ ۵:۲۸)’’تم اگر مجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ اٹھائو گے تو بھی میں تمھیں قتل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ نہیں اٹھائوں گا‘‘۔

سات برس تک اوسلو معاہدے پر عمل درآمد کے ذریعے صہیونی انتظامیہ سے اپنے حقوق حاصل کرنے کی ناکام کوشش کے بعد‘ اور فلسطینی عوام میں فلسطینی انتظامیہ سے بڑھتی ہوئی مایوسی کے پس منظر میں جون ۲۰۰۰ء میں ایک بار پھر کیمپ ڈیوڈ مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا۔ صہیونی وزیراعظم ایہود باراک‘ یاسر عرفات اور صدر کلنٹن کے درمیان کئی دن بند دروازے میں ہونے والے یہ مذاکرات بالآخر صہیونی ڈھٹائی کی نذر ہوگئے۔ اسی اثنا میں صہیونی اپوزیشن لیڈر ارییل شارون اپنے لائولشکر سمیت مسجد اقصیٰ میں جا گھسا اور اس پر یہودی استحقاق کا اعلان کر دیا۔ ستمبر ۲۰۰۰ء میں یہی لمحہ دوسری تحریکِ انتفاضہ کا نقطۂ آغاز ثابت ہوا۔ اب الفتح بھی (یاسر عرفات کے اعتراف کے بغیر) اس شہادتی کارواں کا حصہ بنی۔

اس تحریکِ انتفاضہ کے خاتمے کے لیے جنین‘ رفح اور رام اللہ  جیسے دیگر فلسطینی کیمپ اور شہر کھنڈروں میں تبدیل کر دیے گئے۔ تحریک کی پوری قیادت شیخ احمد یاسین‘ ڈاکٹر عبدالعزیز رنتیسی اور اب یاسر عرفات کو منظر سے ہٹا دیا گیا۔ اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کی تعداد ۸ ہزار ہوگئی‘ ہزاروں بچوں اور بڑوں کو شہید کر دیا گیا۔ لیکن تحریکِ انتفاضہ اب بھی جاری ہے۔ سیکڑوں میل لمبی دیوار عُنصریت بھی شہادتی کارروائیوں کا راستہ نہیں روک سکی۔ حالیہ رمضان میں بھی القدس میں ایک کامیاب شہادتی حملہ ہوا ہے۔

یاسر عرفات ۲۰۰۱ء سے اپنے ہیڈ کوارٹر میں محصور کر دیے گئے تھے۔ اوسلو معاہدے کے بعد امن کا نوبل انعام کا حق دار‘ اب فلسطینی قیادت میں سب سے ناپسندیدہ شخص بن گیا تھا۔ اسے قیادت سے یا پھر دنیا ہی سے ہٹا دینے کی تکرار ہو رہی تھی‘ یہی وہ عرصہ تھا جب فلسطینی عوام میں یاسرعرفات کی مقبولیت کا گراف دوبارہ بلند ہونا شروع ہوا۔ ابوعمار نے اپنی قوم کا کھویا ہوا اعتماد دوبارہ حاصل کرنا شروع کیا۔ لیکن اب مضمحل قویٰ اور بیماریوں کی یلغار نے ۷۵ سالہ ابوعمار کا کردار محدود تر کر دیا تھا۔ اب وہ امیدوں کے مرکز کے بجاے ہمدردیوں کا مستحق قرار پایا۔ اس کے دست و بازو قرار دیے جانے والے بھی صہیونیوں کی چھیڑی گئی اس بحث میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے کہ مابعد عرفات کیا ہوگا۔

ابوعمار کی وفات بھی اس کے متعلق پائے جانے والے کئی معموں میںسے ایک معمہ ہے۔ اس کے کئی ساتھی اور کئی افراد خانہ مصّرہیں کہ انھیں زہر دیا گیا ہے۔ اس کے بھائی محسن عرفات نے ۲۰نومبر کو پیرس سے واپسی پر کہا ہے کہ ہمیں یاسرعرفات کی وفات کے بارے میں صحیح حقائق نہیں بتائے جارہے۔ انھوں نے کہا کہ خود فرانسیسی وزیرخارجہ نے مجھ سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اس وقت موت کے حقیقی اسباب جاننے پر اصرار‘ فلسطینیوں کے حق میں نہیں ہے‘‘۔ محسن عرفات نے اس امر پر بھی دکھ کا اظہار کیا کہ ’’فلسطینی قیادت اسرائیلی ذمہ داران کے ساتھ امن مذاکرات شروع کرنے میں مصروف ہے اور سمجھتی ہے کہ موت کے اسباب جاننے پر اصرار مذاکرات کے ماحول پر منفی اثرات مرتب کرے گا‘‘۔

یاسر عرفات کی حیات و موت بے حد عبرت آموز ہے۔ عہدشباب میں جب وہ اخوان سے وابستہ تھے تو قبلۂ اول اور جہاد کی دینی اہمیت و منزلت کا پرچار کیا کرتے تھے۔ الفتح کی تشکیل اور عالمی روابط کے آغاز کے بعد دینی تعلیمات ہی نہیں اسلام کے ذکر سے بھی احتراز کرنے لگے۔ حجت یہ تھی کہ فلسطین میں عیسائی بھی ہیں اور لامذہب بھی‘ ہمیں ان سب کی نمایندگی کرنا ہے۔ جمال عبدالناصر‘ابوعمار کے اخوانی پس منظر کے باعث ان سے تعاون میں متردد تھا اور ابوعمار نے اس تردد اور اخوانی چھاپ کے ازالے کے لیے ہر وہ قدم اٹھایا جس سے ان کے تئیں عرب حکمران مطمئن ہو سکتے تھے۔ پھر جب اسرائیل سے مذاکرات شروع کیے تو اسے مطمئن کرنے‘ اس کا دل جیتنے اور معاہدہ یقینی بنانے کے لیے دست برداری کو وقتی حکمت قرار دیتے ہوئے اپنی مستقل پالیسی بنا لیا۔ اوسلو معاہدے کے بعد فلسطینی انتظامیہ نے تحریکِ انتفاضہ کو صہیونی فوج سے بھی زیادہ سختی کے ساتھ کچلا۔ صہیونی مطالبے پر الفتح کے بنیادی دستور سے وہ تمام شقیں خارج کر دی گئیں جو پورے فلسطین کی آزادی اور جہاد کے وسیلۂ آزادی ہونے سے متعلق تھیں۔ مجوزہ فلسطینی ریاست کی ’’وسیع تر‘‘ سرحدوں کا دائرہ ۱۹۶۷ء تک صہیونی قبضے سے آزاد رہ جانے والے علاقوں تک محدود کردیا‘ لیکن بالآخر قابلِ گردن زدنی قرار پائے۔ بش اور شارون دونوں نے اعلان کر دیا کہ یاسر عرفات فلسطینی ریاست کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ امریکی روڈمیپ پر سفر کا آغاز نئی فلسطینی قیادت سے مشروط قرار دے دیا گیا۔ پھر اسرائیلی ٹینک اور بلڈوزر ابوعمار کے ہیڈ کوارٹر کی ایک کے بعد دوسری دیوار گرانے لگے۔ اس وقت ابوعمار کا خطاب ایک بار پھر وہی خطاب تھا جو وہ کبھی عہدِشباب میں کیا کرتا تھا۔ آج الجزیرہ سے ان کی تقریروں کے اقتباس نشر ہوتے ہیں جن میں وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے حوالے دیتا ہے کہ:’’ میری اُمت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر ثابت قدم رہے گا۔ وہ اللہ کی مدد سے اپنے دشمن پر غالب رہے ہوگا‘ اسے اپنوں کی بے وفائی اور غیروں کا جور کوئی نقصان نہ دے گا۔ وہ اسی حال میں رہیں گے جب تک اللہ کا فیصلہ نہ آجائے۔ آپؐ سے پوچھا گیا: یہ گروہ کہاں ہوگا یارسولؐ اللہ؟ توآپؐ نے فرمایا: بیت المقدس میں اور بیت المقدس کے گردونواح میں‘‘۔(متفق علیہ)

تاریخ کے طالب علم اظہار حسرت کرتے ہیں کہ کاش! یاسر عرفات کو یہ سبق قوتِ کار کے عروج میں بھی یاد رہتا۔

آج یاسر عرفات کی وفات کے بعد اس کے جانشین کا مسئلہ درپیش ہے اور بدقسمتی سے ہلاکت کی اسی ڈگر پر چلنے کی تیاریاں ہیں‘ جن پر پہلے رسوائی حاصل ہوئی۔ ۹جنوری کو فلسطینی انتظامیہ کے صدارتی انتخابات ہونا طے پائے ہیں۔ اب یہ بات تقریباً طے ہے کہ محمود عباس (ابومازن) جو یاسر عرفات کی متبادل قیادت کے مطالبے پر‘ وزیراعظم بنائے گئے تھے اور چار ماہ کے بعد مستعفی ہوگئے تھے‘ آیندہ صدر منتخب کر لیے جائیں گے۔ ابومازن عرفات کے ابتدائی رفقا میں سے ہیں۔ عرفات جب کویت میں تھے تو ابومازن قطر میںتھے۔ الفتح کی تشکیل میں دونوں شریک تھے۔ ابومازن نے حماس سمیت تمام فلسطینی دھڑوں سے مذاکرات کیے ہیں۔ گاہے بہ گاہے قومی حکومت کی تشکیل کی بات بھی کی ہے لیکن پالیسی کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات کا آغاز کیا جائے‘ امریکی سرپرستی حاصل کی جائے اور اس کے دیے گئے روڈمیپ پر آگے بڑھا جائے۔

شارون نے مذاکرات کے لیے پانچ شرائط عائد کی ہیں جو اصل میں ایک ہی ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ: ۱-فلسطینی عرفات سے زیادہ معتدل قیادت کا انتخاب کریں۔ ۲- یہ قیادت دہشت گردی کچلنے کی ضمانت دے۔ ۳- دہشت گرد تنظیموں کا انفراسٹرکچر ختم کرے۔ ۴- نئی انتظامیہ شدت پسند کارروائیوں (انتفاضہ) کا خاتمہ کرے۔ ۵-نئی قیادت اسرائیل کے ساتھ مذاکرات و مفاہمت کا اختیار و صلاحیت رکھتی ہو۔ شارون نے امریکا کے سامنے بھی تین بنیادی شرطیں رکھیں: ۱- امریکا ضمانت دے کہ فلسطین سے باہر موجود فلسطینیوں (مہاجرین) کو واپسی کی اجازت نہیں ہوگی۔ ۲-تقریباً تمام یہودی بستیوں پر اسرائیل کا کنٹرول تسلیم کیا جائے گا۔ ۳- دیوار تقسیم کی تکمیل و حفاظت کی جائے گی۔

لیکوڈ پارٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شارون نے کہا ہے کہ فلسطینی یہ ضمانت بھی دیں کہ اسرائیل کے خلاف اشتعال انگیز پروپیگنڈا بند کیا جائے گا۔ اس نے کہا: ’’اسرائیل کے خلاف کیا جانے والا پروپیگنڈا‘ اسکولوں اور ذرائع ابلاغ میں اس کے خلاف پھیلائی جانے والی نفرت‘ فلسطینی ہتھیاروں سے کم خطرناک نہیں ہیں‘‘۔بالمقابل ابومازن نے اسرائیلی جنگ بندی اور فلسطینی وزیراعظم احمدقریع ابوعلاء نے نقل و حرکت کی آزادی‘ اسرائیلی فوج کے محدود انخلااور اسی صورت حال کی بحالی کی بات کی ہے جو ستمبر ۲۰۰۰ء سے پہلے تھی۔

فلسطینی انتظامیہ کے لیے صہیونی زور و سفاکیت کے علاوہ ایک اور بڑا مسئلہ اندرونی اختلافات ہیں۔ فلسطینی انتظامیہ کے کئی ارکان پر کرپشن کے سنگین الزامات بھی ہیں۔ یاسر عرفات کی تعزیت کے لیے بلائے گئے ایک اجتماع میں محمود عباس کے ایک گارڈ کو قتل کر دیا گیا۔ ایک اور حادثے میں محمد دحلان کی گاڑی جلا دی گئی۔ محمد دحلان خود بڑا قائدانہ کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ امریکی و اسرائیلی بھی اسے ترجیح دیتے ہیں کیونکہ وہ اوسلو معاہدے کے بعد عرفات انتظامیہ میں داخلی امن و امان کا ذمہ دار تھا اور حماس و جہاد اسلامی کے خلاف تقریباً تمام کارروائیاں اس نے اور جبریل رجوب نے کی تھیں۔ اس کے اور اسرائیلیوں کے چاہنے کے باوجود فی الحال اس کے لیے قیادت کے دروازے نہیں کھل سکے۔

حماس نے خود کو اس ساری اندرونی کش مکش سے دور رکھا ہے۔ اس نے اعلان کیا ہے کہ فلسطینی انتظامیہ کے صدارتی انتخابات میں وہ حصہ نہیں لے گی۔ البتہ بلدیاتی انتخابات میں ضرور حصہ لے گی تاکہ عوام کو روز مرہ خدمات فراہم کی جا سکیں۔ صہیونی انتظامیہ بدستور حماس کی قیادت پر قاتلانہ حملے کر رہی ہے۔ حال ہی میں دمشق میںاس کے ایک اہم کمانڈر کو شہید کر دیا گیا۔ خالد المشعل سمیت متعدد لیڈر تو اس کی ہٹ لسٹ پر ہیں ہی‘ اس کارروائی سے شام کو بھی پیغام دیاگیا ہے کہ صہیونی کارروائیوں کا دائرہ اب شام تک وسیع ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف فلسطین و مصر سرحد پر تین مصری فوجیوں کو ٹینکوں کے گولوں سے شہید کر دیا گیا ہے۔ اگرچہ بعد میں معذرت کرتے ہوئے کہہ دیا گیا کہ یہ غلط فہمی سے ہواہے لیکن ایسی غلطیاں پہلے بھی کئی بار ہوچکی ہیں اور ان میں چھپا پیغام صرف ’’غلطیوں‘‘ کے ذریعے ہی دیا جا سکتا ہے۔

تیسری طرف اُردن نے وہاں موجود فلسطینی مہاجر کیمپوں میں اچانک تعمیراتی کام شروع کروا دیے ہیں اور بلامانگے یہ وضاحت بھی کی ہے کہ یہ سرگرمی ان کیمپوں کو مستقل کرنے اور فلسطینی مہاجرین کو مستقل طور پر اُردن ہی میں رکھ لینے کے لیے نہیں ہیں‘ بلکہ فلسطینی مہاجرین کو بہتر سہولتیں فراہم کرنے کے لیے ہیں۔ واضح رہے کہ مسئلہ فلسطین کے صہیونی حل میں محدود فلسطینی علاقے میںمحدود تر خودمختاری دینے کے ساتھ ساتھ اُردن میں فلسطینیوں کا مستقل قیام بھی شامل ہے۔

اس تناظر میں آیندہ فلسطین میں مزید آزمایشیں اور سازشیں منہ پھاڑے آگے بڑھ رہی ہیں۔ امریکا اور اسرائیل یاسرعرفات کے وجود کو امن کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتے رہے ہیں اور اب اس رکاوٹ کے ہٹ جانے سے وہ اپنے تمام اقدامات کی تکمیل خود فلسطینیوں کے ہاتھوں کروانے کے لیے بے تاب ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو خاکم بدہن خود فلسطینی فلسطینیوں کے خون سے ہاتھ رنگتے دکھائی دیں گے اور اگر محمود عباس اور ساتھیوں نے حماس اور دیگر جہادی قوتوں کے ساتھ مفاہمت و یک جہتی کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا تو نہ صرف سیاسی طور پر ان کے وزن و رسوخ میں اضافہ ہوگا       بلکہ میدان میں بھی وہ اپنی کئی شرطیں تسلیم کروا سکیں گے۔ اس ضمن میں ایک بڑی ذمہ داری     مسلم حکمرانوں کے سر عائد ہوتی ہے۔ اگر یہ ممالک فلسطینی اتحاد کی سعی کریں گے تو نہ صرف فلسطینیوں کے لیے اُمید کی شمع روشن کریں گے بلکہ اپنے مصائب میں بھی کمی کا سامان کریں گے۔

۱۱/۹ کے واقعات نہ ہوتے تو محترم قاضی حسین احمد کو دو سال پہلے ناروے آنا تھا۔ ۲۱ اگست سے شروع ہونے والے پانچ روزہ دورے سے واپس جاتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ اگر اُس وقت یہ دورہ ہوجاتا تو شاید حالیہ پروگرام کا عشرعشیر بھی نہ ہوتا۔ اسلامک کلچرل سنٹرکے ذمہ دار بتارہے تھے کہ آج تک کسی مسلمان رہنما کو اس بڑے پیمانے پر کوریج نہیں دی گئی۔ ۲۱ اگست کو اوسلو پہنچنے پر تمام ٹی وی چینلوں نے ایئرپورٹ سے براہ راست ان کا استقبال دکھایا اور پھر ناروے کے قیام کے دوران کا ہر لمحہ ریکارڈ ونشر کیا۔ تمام اخبارات نے صفحہ اول کی بڑی بڑی   شہ سرخیوں سے قاضی صاحب کی آمدوگفتگو کا ذکر کیا اور پھر علیحدہ علیحدہ مفصل انٹرویو بھی مکمل    دو دو صفحات پر نشرکیے۔

قاضی صاحب کی ناروے آمد کا اعلان ہوتے ہی ناروے کے سب سے بڑے اخبار آفتن پوستن نے بڑی تصویر کے ساتھ شہ سرخی جمائی: اسامہ بن لادن کا پشتیبان اوسلو آرہا ہے۔ پھر ہر اخبار‘ ٹی وی اور ریڈیو نے قاضی صاحب کو خطرناک ترین انسان قرار دینے میں کسر نہ چھوڑی۔ ان کے ناروے داخلے پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا اور حکومت یہ کہنے پر مجبور ہوگئی کہ   ہم مکمل تحقیقات کرنے کے بعد ہی اجازت دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کریں گے۔

دورے کی مخالفت کرنے والوں کی سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ ناروے شینگن (Shengen) ریاستوں کا رکن ہے اور اس سے پہلے دو شینگن ریاستیں ہالینڈ اوربلجیم قاضی حسین احمد کے اپنے ہاں آنے پر پابندی لگا چکی ہیں‘ اس لیے اب وہ ناروے بھی نہیں آسکتے۔ ہم نے اپنے میزبانوں اسلامک کلچرل سنٹر کے ذریعے نارویجین میڈیا کو اور اسلام آباد میں نارویجین سفارت خانے جاکر ان کے قائم مقام سفیر ایلف را مسلیم کو بھی بتایا کہ بلجیم کے سفیر خود قاضی صاحب کے پاس جاکر اور ہالینڈ کے سفارت کار راقم سے تفصیلی ملاقات میں بتا چکے ہیں کہ انھیں قاضی حسین احمد یا ان کے دورے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ان کے بعض اندرونی مسائل یورپین پارلیمنٹ کے انتخابات اور ان کی میزبان تنظیم یورپین عرب لیگ کے کچھ معاملات ہیں جن کے باعث ہم چاہتے ہیں کہ آپ اس بار اپنا دورہ ملتوی کردیں‘ آیندہ آپ جب بھی جانا چاہیں گے ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوگا‘ بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ ہم خود آپ کے میزبان ہوں۔

ہمیں ۲۱اگست کی صبح لاہور سے ناروے جانا تھا لیکن ۱۹اگست کی شام تک ناروے حکومت کا کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا تھا۔ قاضی صاحب البتہ یہ فیصلہ کرچکے تھے کہ چونکہ ناروے پاکستان معاہدے کے مطابق دونوں ممالک کے سرکاری پاسپورٹ رکھنے والے افراد کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں ہے۔ آج اگر ایک مخصوص لابی کے پروپیگنڈے کے دبائو میں آکر دورہ منسوخ کر دیا جائے تو اس سے پورے یورپ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی اس مسلسل خطرے سے دوچار ہوسکتی ہے کہ جب بھی کوئی مخصوص لابی ان میں سے کسی کے خلاف پروپیگنڈا شروع کردے اس کے خلاف کارروائی عمل میں آجائے۔ اس لیے وہ بہرصورت ناروے جائیں گے۔

اسلامک کلچرل سنٹر ناروے کے صدر میاں وقاص وحید مسلسل رابطے میں تھے۔ انھوں نے بتایا کہ ذرائع ابلاغ روزانہ قاضی صاحب کے ایسے ایسے دوروں‘ انٹرویو اور بیانات کی جھلکیاں دکھا رہے تھے کہ جو اس سے قبل ہم نے نہیں دیکھی تھیں۔ لیکن الزامات اور صبح و شام   چلنے والی مخالفانہ مہم کے باوجود ہمارے ساتھی خوفزدہ ہونے یا دبائو میں آنے کے بجاے مزید   جوش و جذبے سے سرشار ہیں۔ خود کئی نارویجین ذمہ دار اور تنظیمیں قاضی صاحب کے ناروے آمد کے حق میں بیانات دے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ’’ایک جمہوری ملک میں اظہار راے پر پابندی کیوں کر لگائی جاسکتی ہے۔ ہمیں ان کی بات سننے کا موقع دیا جائے‘‘۔

۱۹ اگست کو بعد مغرب اسلام آباد سے ناروے کے سفیرکا فون آیا۔ وہ کہہ رہے تھے: ’’عزیز صاحب‘ مبارک ہو۔ ہماری وزیر مقامی حکومت نے ابھی کچھ دیر پہلے اوسلو میں ایک بھرپور پریس کانفرنس کی ہے۔ انھوں نے اعلان کیا ہے کہ ’’قاضی حسین احمد کے ناروے آنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ اور یہ کہ میں خود بھی ان سے مل کر خواتین کے حقوق اور ناروے میں مقیم پاکستانی نژاد نارویجین کمیونٹی کے مسائل پر بات کروں گی‘‘۔

۲۱ اگست کی شام براستہ لندن اوسلو پہنچے تو پورا نارویجین میڈیا ایئرپورٹ پر موجود تھا۔ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان اور ناروے کے پرچم لیے کھڑی تھی جن میں سرفہرست برطانیہ سے اس پروگرام کے دوسرے مہمان خصوصی ہائوس آف لارڈز کے رکن لارڈ نذیراحمد اور معزز پاکستانی باشندے تھے۔ لارڈ نذیراحمد مغربی دنیا میں مسلمانوں کے بہت مؤثر وبلند بانگ ترجمان کے طور پر اُبھر رہے ہیں۔ جس پروگرام میں بھی جائیں‘ حاضرین کے دل موہ لیتے ہیں۔ لارڈ احمد برطانوی تاریخ کے وہ پہلے رکن پارلیمنٹ ہیں جنھوں نے اپنا حلف قرآن پاک پر اٹھایا ہے۔ اوسلو ایئرپورٹ پر ایک لاعلم صحافی کو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ ایک برطانوی لارڈ پاکستان سے آنے والے ایک خطرناک لیڈر کے استقبال کے لیے اپنے اہلِ وطن کے ہمراہ   کھڑا ہے۔

قاضی صاحب نے استقبال کے لیے آنے والے تمام افراد سے فرداً فرداً مصافحہ کیااور پھر اپنی نشریات روک کر ایک ’’بنیاد پرست‘‘ لیڈر کی آمد کی خبر دینے والے ٹی وی کے نمایندوں اور صحافیوں سے مخاطب ہوئے: ’’میں پاکستان سے اپنے نارویجن دوستوں کے لیے امن‘ محبت اور دوستی کا پیغام لے کر آیا ہوں۔ اسلام صرف پاکستانیوں یا مسلمانوں کے لیے نہیں‘ پوری انسانیت کے لیے سلامتی کا پیغام رکھتا ہے۔ اہلِ مشرق اور اہلِ مغرب کے درمیان اختلاف رائے ہوسکتا ہے لیکن یہ اختلاف بھی انسانی معاشرے کی بہتری کا باعث بن سکتا ہے۔ میں چند روز کے لیے ناروے میں ہوں۔ اس دوران آپ سب سے تفصیلی ملاقات اور تبادلۂ خیال ہوگا۔ میرے متعلق بہت سی غلط فہمیاں پھیلائی گئی ہیں‘ میں ان سب کی وضاحت کروں گا‘‘۔

اتوار کی شام تحفظ پاکستان کانفرنس تھی۔ آغاز سے پہلے ہی اوسلو کے قلب میں واقع بڑے آڈیٹوریم کی نشستیں اور راہداریاں تنگی داماں کا شکوہ کرنے لگیں۔ آغاز میں بچوں نے تلاوت‘ نعت اور ترانوں پر مشتمل پروگرام پیش کیا۔ لارڈ نذیراحمد نے اپنے گرم جوش خطاب میں امریکا اور مغربی ممالک کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کی۔ اپنی گفتگو کے آغاز میں انھوں نے کئی سیاسی لطیفے بھی سنائے جن میں سے ایک یہ تھا کہ جہنم کے دروازے پر بہت سی گھڑیال لگے تھے۔ فرشتے سے پوچھا گیا کہ یہ گھڑیال کیا ہیں؟ اس نے کہا کہ یہ انسانوں کے جھوٹ کا پیمانہ ہے‘ جونہی کوئی شخص جھوٹ بولتا ہے تو اس کے گھڑیال کی سوئیاں جھوٹ کے درجے کے مطابق چلنے لگتی ہیں۔ دریافت کیا گیا کہ صدر بش کا گھڑیال کہاںہے؟ فرشتے نے جواب دیا: وہ اتنا تیز چل رہا ہے کہ ہم اسے پنکھے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔

لارڈ نذیر احمد نے یورپ میں مقیم مسلمانوں کی طرف سے کہا کہ یورپ میں بسنے والے مسلمان یہاں کے برابر کے شہری ہیں۔ انھیں ان کے حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا اور نہ انھیں دوسرے درجے کے شہری ہی قرار دیا جا سکتا ہے بلکہ پاکستان کو زیادہ اہم مقام ملنا چاہیے کیونکہ انھوں نے یورپ کی تعمیروترقی کے لیے زیادہ محنت اور جدوجہد کی ہے۔

محترم قاضی حسین احمد نے انتہائی مصروف پانچ دن گزارے‘ تحفظ پاکستان کانفرنس میں کلیدی خطاب کیا‘دیگر متعدد خطابات کیے جن میں اوسلو یونی ورسٹی میں مسلم اسٹوڈنٹس سوسائٹی کے زیراہتمام ’مقصد زندگی‘ کے عنوان سے لیکچر‘ ناروے میں مقیم عرب کمیونٹی کے ادارے رابطہ اسلامی کے مرکز میں ’اسلام اور مغرب‘ کے عنوان سے خطاب اور پاکستانی چنیدہ افراد کی عشایئے اور سنٹر کے ارکان و کارکنان کے اجتماعات کے خطاب شامل تھے۔ ان میں اسلام‘ پاکستان جماعت اسلامی‘ متحدہ مجلس عمل اور عالمِ اسلام سے متعلق پائے جانے والے تمام اشکالات و سوالات کا جواب دیا۔ انھوں نے مقصد بعثت نبویؐ کا حقیقی مقصد قیامِ عدل و انصاف کو واضح کیا اور دورحاضر میں پائی جانے والی بے انصافیوں اور اس ضمن میں دُہرے معیاروں کا ذکر کیا کہ فلسطین اور کشمیر میں تو ہزاروں انسانوں کا قتل عام کرنے والوں کی مکمل پشت پناہی کی جاتی ہے لیکن الزامات عالمِ اسلام اور خاص طور پر اہلِ اسلام پر دھرے جاتے ہیں کہ یہ دہشت گرد ہیں۔ بات دنیا کو دہشت گردی سے پاک امن کا گہوارہ بنانے کی کی جاتی ہے لیکن کلچر اور تہذیب وہ عام کیا جا رہا ہے کہ لوگ دین سے دُور ہوں اور جرائم کی دلدل میں دھنستے چلے جائیں۔ ہزاروں چینل صرف عریانی اور جرائم پر مشتمل پروگرام دکھاتے ہیں۔

قاضی صاحب نے اس دور میں پائی جانے والی بے انصافیوں اور انسانیت کو درپیش خطرات کا بھی ذکر کیا کہ روح انسانی اضطراب کا شکار ہے۔ جرائم اور دہشت گردی میں اضافہ ہورہا ہے کیونکہ انسان نے خود کو خدا قرار دے لیا ہے۔ اللہ کے نظام کے بجاے خواہشات کا نظام مسلط کیا جا رہا ہے اور پوری دنیا پر قبضے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔

سوالات بہت متنوع تھے لیکن لیکچر کے بعد کے سوالات ہوں یا پریس کانفرنس کے وزرا کی ملاقاتیں ہوں‘ یا ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ذمہ داران کی‘ سب کا محور وہی گھساپٹا پروپیگنڈا تھا جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کیا جا رہا ہے۔ یونی ورسٹی لیکچر میں جنسی آوارگی اور فحاشی وبہیمیت کے علم بردار کچھ لوگ بہت تیاری سے آئے تھے۔ ہال کے مختلف کونوں میں بیٹھے ان مختلف العمر لوگوں نے ایک ہی جیسے سوالات کیے۔ قاضی صاحب نے ان سوالات کو ناشائستہ قرار دے کر ان کا جواب نہیں دیا لیکن ان سوالات نے پورے مغربی معاشرے کو ننگا کر دیا۔ دنیا کو نظام اور انسانی حقوق کا درس دینے والے اور اسلام کو دہشت گردی کے مترادف قرار دینے والے اس بات پر مصر ہیں کہ مردوں کو مردوں سے اور عورتوں کو عورتوں سے شادیاں کرنے کی آزادی ہی نہیں قانونی حق دیا جائے۔

مقامی حکومتوں کی وزیر ارنا سولبرگ سے ملاقات بہت مفید اور دل چسپ رہی۔      یہ خاتون وزیر نارویجی حکومت میں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ سفیر بتا رہے تھے کہ اگر آیندہ انتخابات میں ان کی پارٹی جیت گئی تو ہو سکتا ہے وہ وزیراعظم بن جائیں۔ انھوں نے کہا کہ جو پاکستانی بچے ناروے میں پیدا ہوئے‘ پلے بڑھے اور نارویجی شہری قرار پائے ان کے رہن سہن‘ کلچر اور مسائل کو پیشِ نظر رکھا جانا چاہیے۔ قاضی صاحب نے ان کی بات سے اصولی اتفاق کیا اور کہا کہ نارویجی معاشرے اور حکومت کو ان بچوں کے والدین کو بھی یہ حق دینا چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی اپنے دین اور مذہب کے مطابق تربیت دے سکیں۔ ناروے میں تو الحمدللہ ہماری بچیوں کو شکایت نہیں‘ لیکن اگر فرانس میں بچیوں کو سر پر اسکارف رکھنے اور حجاب کی اجازت نہیں دی جائے گی تو یہ دوسروں کی مذہبی آزادی سلب کرنا ہی قرار پائے گا۔

سابق وزیراعظم‘ سابق وزیرخارجہ اور پارلیمنٹ میں خارجہ امور کمیٹی کے سربراہ سے تفصیلی ملاقات میں دہشت گردی کیا ہے‘ کیوں ہے‘ کشمیر‘فلسطین اور چیچنیا و عراق‘ افغانستان میں ریاستی دہشت گردی سے دنیا کو کیا کیا خطرات لاحق ہوگئے ہیں جیسے موضوعات پر بھی بات ہوئی۔

ناروے حقوق انسانی کے حوالے سے اس وقت دنیا میں پہلے نمبر پر آتا ہے‘ جہاں    بے روزگار بھی بے روزگار نہیں ہوتا‘ حکومت وظیفہ دیتی ہے۔ انسان تو انسان حیوانات کے حقوق بھی طے ہیں۔ ایئرپورٹ جاتے ہوئے جمیل بھائی نے ایک پُل دکھاتے ہوئے کہا کہ مرکزی سڑک پر بنا یہ پُل انسانوں کے لیے نہیں ہے۔ دونوں طرف واقع جنگلات کے جانوروں کے لیے ہے۔ جنگلات سے درخت کاٹنا یا جانور شکار کرنا قطعاً ممنوع ہے۔ اگر کوئی درخت کاٹنا ناگزیر ہو تو اسی تعداد میں دوبارہ درخت لگانا پڑتے ہیں۔

تعلیم اور تعلیمی اداروں کی دیکھ بھال سب کی ترجیح اول ہے۔ ایک اسکول کے قریب سے گزرے تو سڑک ڈیڑھ کلومیٹر لمبی سرنگ میں بدل گئی۔ معلوم ہوا کہ اس اسکول کے بچوں نے ایک دن ہڑتال کرکے مطالبہ کیا کہ شور‘ آلودگی اور ٹریفک سے طلبہ متاثر ہوتے ہیں۔ حکومت نے مطالبہ فوراًتسلیم کرلیا اوریہاں سڑک کے بجاے ڈیڑھ کلومیٹر کی سرنگ بنا دی گئی۔ محترم     قاضی صاحب فرمانے لگے یہاں یہ عالم ہے اور ادھر پنجاب یونی ورسٹی جیسے عظیم ادارے کے   طلبہ و طالبات کے لیے موجود چند پُلوں کو بھی مسمار کر دیا گیا ہے تاکہ گاڑیاں تیز رفتاری سے  گزر سکیں۔

ناروے کے نظام ‘ معاشرتی اقدار و روایات سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ امیرجماعت کے اس دورے سے دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان روابط کی ایک مضبوط بنیاد رکھی گئی    ہے۔