عبد الغفار عزیز


ایک منٹ کی وڈیو فلم کا آغاز ہوا تو اسکرین پر ’فلسطین‘ نام کا اخبار تھا۔ چند سیکنڈ بعد اس کی تاریخ ۲۰۰۹ء؍۹؍۱۴ دکھائی گئی اور پھر اخبار کے اُوپری کنارے سے جھانکتی ہوئی دو آنکھیں دکھائی دیں، آہستہ آہستہ اخبار ہٹ گیا اور سامنے اغوا شدہ یہودی فوجی گلعاد شالیط کا چہرہ تھا۔ شالیطکو تین سال قبل حماس کے عسکری بازو نے اغوا کیا تھا۔ حماس کا مطالبہ تھا کہ اسرائیلی جیلوں میں گرفتار ہزاروں فلسطینی قیدیوں کورہا کیا جائے ،وگرنہ ایک کے بعد دوسرا شالیط گرفتار کیا جاتا رہے گا۔ صہیونی حکومت نے اس اغوا پر انتہائی شدید ردعمل ظاہر کیا۔ ۲۰۰۶ء میں مختلف فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی جارحیت اور پھر ۲۰۰۸ء کے اختتام پر غزہ کی خوفناک تباہی کا اصل مقصد بھی شالیط کو اغوا کرنے والی حماس کا مکمل خاتمہ تھا۔ گذشتہ ساڑھے تین سال سے جاری غزہ کے مسلسل حصار سمیت، حماس کے خلاف ہر ممکن دبائو اور دھمکیوں نے کام نہ کیا تو حماس کے ساتھ مذاکرات اور گفت و شنید کا دروازہ بھی کھولا گیا۔ شالیط کے بارے میں طویل مذاکرات کا نتیجہ بالآخر درج بالا وڈیو فلم کی صورت میں نکلا۔

اسرائیل اپنی تمام تر جاسوسی، چالاکیوں اور اپنے ایجنٹوں کی فوج ظفرموج کے باوجود شالیط کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں کرسکا تھا۔ حماس کے ساتھ حالیہ معاہدے میں طے پایا کہ اگر وہ شالیط کے زندہ یا مُردہ ہونے کا ناقابلِ تردید ثبوت دے دے تو صہیونی انتظامیہ کچھ فلسطینی قیدیوں کورہا کردے گی۔ فلسطینی مذاکرات کاروں نے میدانِ جہاد واستقامت کے ساتھ ساتھ مذاکرات کی میز پر بھی بڑی کامیابی حاصل کی اور ایک دو فلسطینی قیدیوں کی نہیں، پوری ۲۰ فلسطینی خواتین قیدیوں کی رہائی کی شرط منظور کروائی۔ یہ خواتین سالہا سال سے صہیونی جیلوں میں مختلف عقوبتیں اور سزائیں جھیل رہی تھیں۔ ان کی رہائی ۲۰ فلسطینی گھرانوں ہی کے لیے نہیں ہرفلسطینی اور ہرانسان دوست کے لیے مسرت کا باعث بنی۔ رہائی پانے والی خواتین کے ساتھ دنیا کا سب سے  کم سن قیدی دوسالہ یوسف الزق بھی رہا ہوگیا۔ یوسف الزق نے جیل ہی میں جنم لیا تھا، اس کی والدہ شادی کے چند ماہ بعد ہی گرفتار کر لی گئی تھی اور اب دوسالہ بیٹے کے ساتھ رہاہوئی۔

حماس کے ساتھ گفت و شنید کا سلسلہ اب بھی مکمل طور پر نہیں رُکا۔ اس ایک منٹ کی وڈیو میں حماس نے اعلیٰ پیمانے کی فنی نفسیاتی اور سیاسی مہارت کا ثبوت دیا ہے۔ زندہ ہونے کا ناقابلِ تردید ثبوت دینے کے لیے اس روز کے تازہ اخبار کا سہارا لیا گیا۔ اخبار کا انتخاب کرتے ہوئے روزنامہ فلسطین کا انتخاب کیا گیا۔ تین سال بعد اپنے فوجی، اپنے شہری اور اپنے عزیز کا چہرہ دیکھنے کے لیے ہرصہیونی اور یہودی بے تاب تھا لیکن اس کا چہرہ دیکھنے سے پہلے انھیں جو نوشتۂ دیوار پڑھنا پڑا وہ تھا: فلسطین۔ پھر شالیط نے عبرانی زبان میں لکھا ہوا اپنی خیریت کا جو پیغام پڑھا، اس میں اداسی کے سایے تو تھے لیکن یہ بھی مکمل طور پر واضح تھا کہ حماس اپنے قیدی کے ساتھ حسنِ سلوک کا برتائو کرر ہی ہے۔ حماس کی قیادت نے وڈیو جاری کرنے کے موقع پر ایک بار پھر اپنے اس موقف کا اعادہ کیا کہ اگر صہیونی جیلوں میں قید ۱۰ ہزار سے زائد قیدیوں کو رہا نہ کیا گیا تو صہیونی ریاست کو ایک کے بعد دوسرے شالیط کا صدمہ سہنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

اس پوری کارروائی میں ایک بہت اہم اور قابلِ ذکر پہلو یہ ہے کہ حماس نے رہائی کے لیے جن ۲۰ خواتین کی فہرست پیش کی، ان میں صرف چار کا تعلق خود حماس سے تھا، باقی ۱۶ خواتین کا تعلق الفتح سمیت مغربی کنارے اور غزہ کی دیگر فلسطینی تنظیموں سے تھا۔ گویا حماس کہہ رہی ہے کہ ہمارے لیے تمام فلسطینی شہری بالخصوص قیدی یکساں حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک طرف سے تو خیرسگالی کے یہ پیغامات ہیں لیکن دوسری طرف مصری دارالحکومت قاہرہ میں حماس اور الفتح کے مابین جاری مذاکرات سنگین سے سنگین تر صورت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ ان مذاکرات کے دسیوں رائونڈ ہوچکے ہیں لیکن ابھی تک اُمید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دے رہی۔ الفتح اور بالخصوص صدر محمودعباس (ابومازن) کی بنیادی سوچ فلسطینی تحریکِ آزادی سے عسکریت، یعنی جہاد کا خاتمہ ہے۔ حالیہ مذاکرات اور معاہدے میں بھی بنیادی اختلاف اسی نکتے پر ہے۔ مذاکرات کے درجنوں دَور ہوچکے ہیں لیکن کسی متفق علیہ سوچ پر پہنچنا ممکن نہیں ہورہا۔ جس مسودے پر حماس سمیت تمام فلسطینی دھڑوں کا اتفاق ہوا، اسے بھی جب دستخطوں کے لیے پیش کیا گیا تو پوری کی پوری عبارتیں اور جملے اس میں سے غائب تھے۔ اس تحریف کی تمام تر ذمہ داری محمود عباس اور مصری حکومت کے سر آتی ہے لیکن جب حماس نے تحریف شدہ تحریر پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تو مذاکرات ناکام کرنے کی ساری ذمہ داری حماس کے سر ڈالی جارہی ہے۔ نہ صرف تنقید بلکہ دھمکیوں کا سلسلہ بھی جاری و ساری ہے۔ حماس کی مرکزی قیادت سے اس بارے میں استفسار کیا تو اس کا کہنا تھا کہ معاہدے کے موجودہ، یعنی  تحریف شدہ مسودے پر دستخط کرنا بلاجواز موت کی سزا قبول کرنے کے مترادف ہے۔

حماس اور الفتح کے مابین اختلاف کا ایک نکتہ آیندہ انتخابات بھی ہے۔ بدقسمتی سے اس وقت فلسطین کے دونوں علاقے غزہ اور مغربی کنارہ ایک دوسرے سے مکمل طور پر کٹے ہوئے ہیں۔ محمودعباس نے تقریباً ڈیڑھ برس پہلے منتخب فلسطینی حکومت اور پارلیمنٹ معطل کرنے کا اعلان کر دیا اور سلام فیاض نامی ایک غیرمنتخب شخص کو عبوری حکومت کا سربراہ بناکر حکومتی سیکرٹریٹ غزہ سے مغربی کنارے منتقل کر دیا۔ ادھر حماس نے اس غیردستوری اور غیراخلاقی حکم کو ماننے سے انکار کر دیا۔ تب سے فلسطینی علاقوں میں دو الگ الگ حکومتیں قائم ہیں۔ غزہ میں منتخب وزیراعظم اسماعیل ھنیہ کی اور مغربی کنارے میں محمود عباس کی۔ ۸جنوری کو محمود عباس کی مدت صدارت ختم ہوجانے کے باوجود    انھوں نے یہ منصب چھوڑنے سے انکار کردیا۔ اسرائیلی انتظامیہ سمیت مغربی ممالک نے بھی نہ صرف ان کی مکمل سرپرستی کی، بلکہ بھرپور مالی اور سیاسی سرپرستی جاری رکھی۔ دوسری طرف ۱۵لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی کا علاقہ غزہ مسلسل اور مکمل حصار سے دوچار ہے۔ دوا اور غذا سمیت کوئی چیز جانے کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن پوری دنیا یہ راز جاننے سے قاصر ہے یا خود جاننا ہی نہیں چاہ رہی کہ  اس قدر ناگفتہ بہ حالات کے باوجود اہل غزہ حماس کا ساتھ چھوڑنے کے لیے تیار کیوں نہیں ہیں۔

غزہ ہی نہیں خود مغربی کنارے میں جتنے سروے ہورہے ہیں، ان میں بھی محمود عباس کا گراف مسلسل گر رہا ہے، جب کہ حماس کی تائید میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ محمود عباس کی بدنامی میں ماہِ رواں میں اس وقت اور اضافہ ہوگیا، جب اس نے اقوام متحدہ میںجسٹس گولڈسٹون کی وہ رپورٹ پیش کرنے پر اعتراض کیا جو اس نے غزہ کی جنگ کے دوران میں اسرائیلی مظالم کے خلاف تیار کی تھی۔ جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے اس یہودی الاصل جج جسٹس ریٹائرڈ گولڈسٹون کو جب عالمی ادارے کی طرف سے غزہ کی جنگ کے دوران میں ہونے والے جرائم کی رپورٹ تیار کرنے کا کہا گیا تو کسی کو اس منصفانہ راے کا اندازہ نہیں تھا۔ جب رپورٹ آئی تو اس نے شالیط کے اغوا اور یہودی آبادی پر حماس کے میزائلوں کا ذکر بھی کیا لیکن جس سفاکیت اور درندگی کا مظاہرہ اسرائیل نے کیا تھا اس کا پردہ چاک کرکے رکھ دیا، جس پر کہرام مچ گیا۔ صہیونی انتظامیہ ہسٹیریائی انداز سے چلّانے لگ گئی۔ لیکن اصل رکاوٹ اس وقت سامنے آئی جب خود محمود عباس انتظامیہ نے جنیوا میں یہ رپورٹ پیش کرنے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اس کے لیے یہ وقت مناسب نہیںہے۔ قدرت نے شاید کچھ لوگوں کا اصل چہرہ دنیا کو دکھانا تھا۔ جب فلسطینی آبادی اور عالمِ عرب سے فلسطینی انتظامیہ پر لعنت ملامت میں اضافہ ہوتا چلا گیا تو بالآخر محمود عباس نے اعتراض واپس لے لیا۔ گولڈسٹون رپورٹ سرکاری طور پر دنیا کے سامنے آگئی اور اب اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کمیشن کے بعد اسے سیکورٹی کونسل میں پیش کرنے کی بات ہو رہی ہے۔ محمود عباس نے سو پیاز بھی کھا لیے اور سو جوتے بھی۔

اس تناظر میں قاہرہ مذاکرات کی میز سجی ہے۔ ۲۲؍اکتوبر کو خالدمشعل سے ایک ملاقات کے موقع پر ان سے جب مذاکرات کے بارے میں دریافت کیا تووہ کہہ رہے تھے کہ ہم تو اپنی بہت سی شرائط سے دست بردار ہوکر بھی صلح کے لیے کوشاں ہیں۔ لیکن ہر بار کوئی نہ کوئی رکاوٹ کھڑی کردی جاتی ہے۔ وہ اس خدشے کا اظہار بھی کررہے تھے کہ تقسیم و اختلاف کی اسی صورت حال میں انتخابات کا ڈول ڈال دیا جائے اور اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرتے ہوئے ایک نیا بحران کھڑا کر دیا جائے۔ ابھی ان کی اس گفتگو کی بازگشت کانوں میں باقی تھی کہ ۲۴؍اکتوبر کی شام محمود عباس نے ’صدارتی فرمان‘ جاری کرتے ہوئے اعلان کر دیا کہ ۲۴؍ جنوری ۲۰۱۰ء کوفلسطین میںصدارتی اور پارلیمانی انتخابات منعقد کروا دیے جائیں گے۔ صدارتی فرمان اسی صدر نے جاری کیا ہے جس کی اپنی صدارت ۹ماہ اور ۱۶ روز پہلے ختم ہوچکی ہے اور وہ اپنے ساتھیوں سمیت غزہ سے عملاً لاتعلق ہیں۔ لیکن اگر معاملات اسی دھارے پر آگے بڑھے تو من مرضی کے یک طرفہ نتائج پر مشتمل انتخابات وقوع پذیر ہوجائیں گے اور گذشتہ انتخابات میں دو تہائی سے زائد نشستیں حاصل کرنے والی اسلامی تحریکِ مزاحمت (حماس) کم از کم کاغذوں سے ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

ایک طرف مقبوضہ فلسطین کو تقسیم در تقسیم کرنے اور اہلِ فلسطین کو باہم دست و گریباں کرنے کا یہ سلسلہ جاری ہے اور دوسری جانب صہیونی ریاست خطے میں اپنے زہریلے پنجے مزید گاڑ رہی ہے۔ ادھر قاہرہ مذاکرات میں تعطل کا اعلان ہو رہا تھا اور ادھر امریکا اور اسرائیل اپنی سب سے بڑی فوجی مشقوں کا آغاز کر رہے تھے۔ ان مشقوں میں دونوں فریقوں نے جو اصل میں ایک ہی فریق کی حیثیت رکھتے ہیں جدید ترین ہتھیاروں بالخصوص اینٹی میزائل سسٹم کے خصوصی تجربات کیے۔ ۲۰۰۶ء میں لبنان پر اور ۲۰۰۸ء کے اختتام پر غزہ کی جنگ کے دوران میں اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود صہیونی ریاست اپنی طرف آنے والے میزائلوں کا راستہ نہیں روک سکی تھی۔ حالیہ مشقوں میں اس جانب خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔

اس حوالے سے ایک اہم اور حوصلہ افزا پہلو یہ ہے کہ یہ مشترکہ مشقیں بنیادی طور پر اسرائیل، امریکا اور ترکی کے درمیان ہونا تھیں۔ ترک افواج گذشتہ کئی سال سے ان سالانہ مشقوں میں شریک ہوتی رہی لیکن اس بار منتخب ترک حکومت نے احتجاجاً ان سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔

حالیہ مشقوں کے حوالے سے اصل تشویش ناک پہلو یہ سوال ہے کہ کیا صہیونی ریاست خطے میں کسی نئی جارحیت کی بنیاد رکھنے جارہی ہے؟ گذشتہ ہفتوں میں مسجداقصیٰ کو شہید کرنے کی کوششوں میں بھی اچانک اضافہ کردیاگیا ہے۔ اگر ہزاروں کی تعداد میں نہتے فلسطینی مسجداقصیٰ کے اندر زبردستی جاکر دو ہفتے سے زائد عرصے کے لیے وہاں ایک انسانی ڈھال نہ بنا لیتے تو خدانخواستہ اب تک کوئی اور بڑا سانحہ بھی روپذیر ہوچکا ہوتا۔

مقامِ معراج مصطفیؐ کو شہید کرکے وہاں یہودی عبادت گاہ تعمیر کرنے کی مسلسل اور بے تابانہ کوششیں اور ساتھ ہی ساتھ امریکی اسرائیلی وسیع تر فوجی مشقیں اُمت کو اور بالخصوص اہلِ فلسطین کو اہم پیغام دے رہی ہیں۔ کیا اسرائیل سے بھی زیادہ اسرائیل کے وفادار حکمران اور خود فلسطینی قائدین یہ پیغام سمجھنے کی تکلیف گوارا کریں گے؟ کیا وہ یہ حقیقت فراموش کردیں گے کہ چند روزہ نام نہاد اقتدار یا چند ارب ڈالر کی بھیک کی خاطر، مسجداقصیٰ کے محافظ اپنے ہی فلسطینی بھائیوں پر فتح حاصل کرنے کا خواب، نہ صرف دنیا میں رسوائی کا سبب ہوگا بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کی ہلاکت کا بھی۔

 

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (رمضان کے علاوہ بھی) اتنے نفلی روزے رکھتے کہ ہم سمجھنے لگتے اب آپؐ روزے چھوڑیںگے ہی نہیں، اور کبھی آپؐ  اتنے دن نفلی روزے چھوڑ دیتے کہ ہم سمجھتے اب آپؐ  مزید نہیں رکھیں گے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رمضان کے علاوہ کبھی پورا مہینہ روزے رکھتے نہیں دیکھا، اور شعبان کے علاوہ کسی مہینے اتنی کثرت سے روزے رکھتے نہیں دیکھا۔ (بخاری، ۱۱۶۹)

ماہِ رمضان کے روزے تو خالق کائنات نے ہر مسلمان پر فرض کردیے لیکن روزوں کی قدرومنزلت  اس قدر زیادہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پورا سال روزوں کا اہتمام فرماتے۔ شوال میں چھے روزوں، ہرمہینے کی تیرھویں، چودھویں اور پندرھویں کے روزوں، ہرہفتے پیر اور جمعرات کے روزوں، یومِ عاشورہ کے دو روزوں اور یومِ عرفہ کے روزے کو تو نفلی روزوں میں نمایاں مقام و اہمیت حاصل ہے۔ آپؐ اور آپؐ کے صحابہ رضی اللہ عنہم ان کے علاوہ بھی روزوں کا خصوصی اہتمام فرماتے۔ آپؐ نے سردیوں کے مختصر دنوں کے روزوں کو اللہ کی طرف سے خصوصی عطیہ قرار دیا۔ کبھی گھر میں کچھ کھانے کو نہ ہوا تو فوراً روزے کی نیت فرما لی۔ قرآن کریم میں مختلف گناہوں کے کفارے کے لیے روزوں کی تعداد مقرر کر دی گئی ہے۔ غیرشادی شدہ نوجوانوں کو خصوصی طور پر روزوں کی ترغیب دی___ اگر آپؐ کی پوری حیاتِ طیبہ میں روزے کا یہ خاص مقام ہے تو کیا ہم امتیوں کو صرف رمضان ہی کے روزوں پر اکتفا کرلینا چاہیے؟ رمضان رخصت ہوگیا۔ آیئے ابھی سے روزوں کی فضیلت کے بارے میں اپنے اس علم کو نیت و ارادے میں اور نیت و ارادے کو عمل میں بدلنے کا آغاز کردیں۔


رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت تم سے تمھارے جوتے کے تلوے سے بھی زیادہ قریب ہے اور اسی طرح جہنم کی آگ بھی۔ (بخاری، ۶۱۲۳)

نیکیوں سے جھولیاں بھر لینا کس قدر آسان ہے۔ ادھر دل میں نیکی کا ارادہ کیا اور ادھر نامۂ اعمال میں اجر ثبت ہوگیا۔ ارادے پر عمل بھی کرلیا تو اجر ۱۰ سے ۷۰۰ گنا تک بڑھ گیا۔ برائی سے نظریں پھیرلیں، اجر ثابت ہوگیا اور تو اور اپنے روزمرہ کے معمولات کو عادت کے بجاے، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے جذبے سے کیا تو وہ بھی عبادت بن گئے۔دوسری طرف شیطان بھی ہرلمحے ساتھ لگاہے۔ قدم قدم پر برائیوں کے پھندے لگائے بیٹھا ہے۔ اعلیٰ سے اعلیٰ نیکی میں بھی بدنیتی کی آلائشیں شامل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جہاد، شہادت، قربانی، تلاوت و دروسِ قرآن، اِنفاق، عبادات،   غرض ہرنیکی کو ریا اور دکھاوے جیسی غیرمحسوس برائیوں کے ذریعے ایسے کردیتا ہے جیسے کبھی تھی ہی نہیں۔

رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اسی حقیقت کی خبر دے رہے ہیں کہ قدم قدم پر جنت کی ہوائیں بھی ہیں اور دوزخ کی لپٹیں بھی۔ اب دونوں راستوں میں سے ایک کا انتخاب ہم میں سے ہر شخص نے خود کرنا ہے۔ پروردگار اسی انتخاب کے مطابق توفیق عطا کردے گا۔


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوہریرہ! کیا میں جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانے کی طرف آپ کی رہنمائی نہ کروں؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں یارسولؐ اللہ! آپؐ نے فرمایا:  وہ خزانہ ہے: لاحول ولا قوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم (اللہ علی و عظیم کی مدد کے بغیر، کسی کے بس میں کوئی قوت و قدرت نہیں)۔ بندہ جب یہ کلمات کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے مجھ پر بھروسا کیا اور (اپنے تمام معاملات) میرے سپرد کردیے۔ (مسنداحمد، ترمذی)

بندے کے دل میں یہ یقین راسخ ہونا ضروری ہے کہ کارخانۂ قدرت میں ہر چیز صرف اور صرف پروردگار کی محتاج ہے۔ اللہ کے فیصلے،اس کی توفیق اور اس کی قوت و قدرت کے بغیر کوئی پتّا اور کوئی ذرّہ بھی حرکت نہیں کرسکتا۔ انسان جس کے بارے میں خالق نے خود فرمایا کہ ’’کمزور پیدا کیا گیا ہے‘‘ ، ہرلمحے اور ہرحال میں اللہ کا محتاج ہے۔ اللہ کی حفاظت نہ رہے تو خوشیوں میں آپے سے باہر ہوکر بندگی کے دائرے ہی سے نکل جاتا ہے۔ مشکلات یا مصیبتیں آئیں تو مایوسی اور ہلاکت کی جہنم میں جاگرتا ہے۔ اقتدار و اختیار ملے تو خود کو فرعون اور دوسروں کو کیڑے مکوڑے سمجھنے لگتا ہے۔ اختلافات کا شکار ہو تو اپنے ہی بھائیوں کے خون سے ہاتھ رنگ لیتا ہے، برائیوں اور اخلاقی غلاظت سے آلودہ ہوجائے تو جانوروں سے بدتر اور ذلیل ہوجاتا ہے۔ ایسے کمزور انسان کو شیطان ہر دم اپنے چنگل میں جکڑے رکھتا ہے لیکن اگر بندہ اس یقین کے حصار میں آجائے کہ لاحول ولاقوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم   تو رحمن کی رحمت اس خود سپردگی پر جھوم اُٹھتی ہے، کمزور بندوں کو تمام کمزوریوں اور شیطانی چالوں سے نجات و حفاظت عطا کر دیتی ہے۔ اسی لیے فرمایا: ’’جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ‘‘۔

حضرت ابوایوب انصاریؓ کی روایت کے مطابق جب سفرمعراج میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس سے گزرے تو ابوالانبیا نے فرمایا: اے محمد(ﷺ) اپنی اُمت کو جنت میں اپنے لیے فصلیں بونے کا حکم دے دیجیے۔ آپؐ نے دریافت کیا: جنت کی فصل کیا ہے؟ انھوں نے فرمایا: لاحول ولاقوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم۔


حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا: کون سا عمل اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند ہے؟ آپؐ نے فرمایا: جو ہمیشہ کیا جائے اگرچہ وہ مختصر اور تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔ (بخاری، ۶۴۱۵)

اسلام کسی وقتی اُبال ، عارضی طور پر اپنا لیے جانے والے اعمال، یا موسمی شغل اشغال کا نام نہیں،  ہمہ وقت اور ہمہ پہلو اطاعت کا نام ہے۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ سمیت سب نیکیاں یہی ہمہ وقتی خود سپردگی حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔ اسی کو تقویٰ کہتے ہیں۔ قرآن میں تمام عبادات کا اصل ہدف یہی بتایا گیا کہ شاید تم اس سے تقویٰ حاصل کرسکو۔ احساسِ اطاعت کے تحت ہمیشہ کیا جانے والا چھوٹا سا کام بھی اللہ کے نزدیک انتہائی محبوب ہے۔ ہمیشگی ایک چھوٹے سے عمل کو بھی بڑا بنا دیتی ہے۔

بندے کی مختصر سی نیکی پسند آجائے تو پھر یقینا بندہ بھی خالق کا محبوب بن جاتا ہے۔


حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ایک مفصل حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: خبردار! اللہ کی کتاب اور اقتدار جدا جدا ہونے والے ہیں۔ ایسے میں کبھی  کتابِ الٰہی سے جدا نہ ہونا۔ خبردار! تم پر ایسے لوگ حکمران ہوجائیں گے جو تمھارے بارے میں (قرآنی تعلیمات کے خلاف) فیصلے کیا کریںگے۔ اگر ان کی اطاعت کرو گے تو وہ تمھیں گمراہ کردیں گے اور اگر ان کی نافرمانی کرو گے تو وہ تمھیں موت کے گھاٹ اُتار دیں گے۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ایسا ہو تو ہم کیا کریں؟ آپؐ نے فرمایا: وہی جو عیسیٰ بن مریمؑ کے ساتھیوں نے کیا: انھیں آروں سے چیرا گیا، تختۂ دار پر لٹکایا گیا (لیکن انھوں نے حق کا ساتھ نہ چھوڑا)۔ اللہ کی اطاعت میں موت، اللہ کی نافرمانی میں زندگی سے زیادہ بہتر ہے۔ (طبرانی)

رحمن کے قرآن اور ہوس اقتدار کے مارے حکمرانوں کی راہیں یقینا جدا جدا ہیں۔ ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے راہِ نجات واضح فرما دی کہ جان جائے تو جائے لیکن قرآن کا دامن چھوٹنے نہ پائے۔ اقتدار اگر اغیار کی غلامی پر تل جائے، اپنے ہی بھائیوں کو تہِ تیغ کرنے کے لیے دشمن کا سہارا بن جائے، لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم کرنے والوں کو اقتدار کی چھتری فراہم کیے رکھے، فریب، جھوٹ، وعدہ خلافیوں اور اپنی قوم سے دغابازی کواپنا وتیرا بنالے، عوام پر بھوک، بدامنی اور بدحالی مسلط کردے، خود بھی اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو اور قوم کو بھی اسی غلاظت کی نذر کردے، تو اس اقتدار اور ان حکمرانوں سے اعلان برأت ناگزیر ہے۔ قوم اگر اللہ کی نافرمانی میں زندہ رہنے کے بجاے،   اس کی اطاعت میں موت قبول کرنے پر آمادہ ہوجائے تو پھر ایسے حکمرانوں سے نجات کی راہیں بھی کھل جاتی ہیں کیونکہ غالب تو بہرحال اللہ کے قرآن ہی نے رہنا ہے۔ ہزاروں فرعون و شداد آئے اور تباہ ہوکر نشانۂ عبرت بن گئے۔ قرآن اور اس سے وابستہ افراد ابد تک سربلند رہیں گے۔


حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ مؤمن جو لوگوں کے ساتھ میل جول رکھتا ہے اور اس کے نتیجے میں ملنے والی تکلیف و اذیت پر صبر کرتا ہے، وہ اس سے بہتر ہے کہ جو نہ لوگوں سے میل ملاپ رکھتا ہے، اور نہ ان کی طرف سے ملنے والی تکالیف پر صبر کرتا ہے۔ (ابن ماجہ، ۴۰۳۲)

الگ تھلگ اور لوگوں سے کٹ کر رہنا، انسان کو بہت سی ممکنہ تکالیف سے محفوظ رکھتا ہے، لیکن ایک مومن ہمیشہ اجتماعیت سے جڑا رہتا ہے۔ تمام عبادات، پوری دعوتی، تربیتی، تحریکی اور معاشرتی زندگی، لوگوں کے اندر رہے بغیر ممکن ہی نہیں۔ رحمۃ للعالمین خود بھی صحابہ ؓ کے شانہ بشانہ اور ان میں گھل مل کر رہتے۔ ایسا بھی ہوا کہ کسی بدو نے آکر شان میں گستاخی کردی، لوگوں کی زبان ہی نہیں، ہاتھ سے بھی تکلیف پہنچی، لیکن آپؐ  نے نہ صرف خود اس باہمی ربط کو نہ توڑا، بلکہ امت کو بھی یہی ترغیب دی۔ رہی اس کے نتیجے میں پہنچنے والی تکالیف، تو آپؐ نے ایک لفظ میں شافی علاج بتا دیا: صبر___ اور اللہ کی خاطر صبر___  دنیا اور آخرت میں کامیابی کی راہ یہی ہے۔

گذشتہ سالوں کی نسبت اس برس رمضان المبارک میں حرمین شریفین حاضری دینے والوں کی تعداد قدرے کم تھی۔ کچھ نہ کچھ عمل دخل اقتصادی بحران اور مہنگائی کا بھی تھا، لیکن زیادہ  اہم وجہ سوائن فلو (H1M1) کی وبا تھی۔ اگرچہ دنیا کے کونے کونے سے آنے والے لاکھوں لوگوں کی موجودگی کے باوجود، الحمدللہ اس وبا کے شکار افراد کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ لیکن بدقسمتی سے بعض ممالک میں اس وبا کو ایک ایسا ہوّا بنا دیا گیا کہ آنے والوں کی حوصلہ شکنی ہو۔ رمضان المبارک میں عمرہ کرنے والوں اور زائرین کی تعداد میں گذشتہ کئی سالوں سے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ عالمی تجزیہ نگاروں کی نگاہ میں حج وعمرہ کی طرف لوگوں کی بڑھتی ہوئی یہ رغبت بھی دنیا میں دینی رجحان اور اسلامی بیداری میں اضافے کا ایک مظہروپیمانہ ہے۔ صرف حج و عمرہ ہی نہیں رمضان المبارک میں اعتکاف، دروسِ قرآن، ختم قرآن اور تراویح کے علاوہ آخری عشرے میں قیام اللیل کا مزید اہتمام بھی، اسی دینی روح میں اضافے کی علامت و دلیل ہے۔

بیت اللہ کے گرد دیوانہ وار طواف کرتے ان پروانوں کا ہجوم اور روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پہ حاضری کی تڑپ دل میں سجائے ان زائرین کو دیکھ کر اہلِ ایمان کے دل ہمیشہ مسرت سے جھوم اُٹھتے ہیں۔ سب سے زیادہ طمانیت اس امر کی ہوتی ہے کہ ہم ایک ہمہ گیر اُمت ہیں۔ دنیا کا کوئی کونہ، کوئی رنگ،کوئی نسل، کوئی زبان، کوئی قوم ایسی نہیں جو ہمارے جسد کا حصہ نہ ہو۔ ہم   سب ایک ہی رب، ایک ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم، ایک ہی قرآن کے ماننے والے ہیں۔ رب کے دربار میں پہنچ کر ہر غنی و فقیر، ہر شاہ و گدا، ہر حاکم و محکوم، سب ایک ہی سفید لباس پہننے کے پابند ہیں۔ سب کی زبان پر ایک ہی نغمۂ توحید جاری ہوجاتا ہے۔ عالم و اُمّی ، عابد و عاصی سب اسی سے معافی اور اسی سے عافیت کی التجا کرتے ہیں۔

  •  دل اس مساوات اور وحدت پر سپاس گزاری اور شکر کے جذبے سے معمور تھا کہ قریب بیٹھے ایک یمنی نوجوان کی گفتگو نے ازحد رنجیدہ و ملُول کردیا۔ تعارف ہونے پر اس نے پہلے   وادیِ سوات، اس کے فوجی آپریشن اور لاکھوں بے گھر ہونے والوں کے بارے میں دریافت کیا اور پھر شمالی یمن میں سعودی سرحد کے قریب واقع صوبہ ’صعدہ‘ میں یمنی فوج اور حُوثی قبیلے کے درمیان وسیع پیمانے پر لڑی جانے والی جنگ کی سنگینی بیان کرنا شروع کر دی۔ یمن میں زیدی شیعہ افراد کافی تعداد میں ہیں۔ چند برس پیش تر یمن کے دارالحکومت صنعاء جانے کا اتفاق ہوا تھا تو مساجد میں اہلِ سنت اور زیدی حضرات شانہ بشانہ مشترکہ طور پر نمازیں ادا کرتے تھے۔ ہم نے مغرب کی نماز ایک بڑی اور تاریخی مسجد میں ادا کی تھی۔ زیدی عقائد کے مطابق مغرب اور عشاء کی نمازوں میں آدھ پون گھنٹے کا وقفہ ہوتا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ باقی افراد نمازِ مغرب کے بعد چلے گئے، زیدی مذہب کے پیروکار مسجد ہی میں مختلف ٹولیوں میں تقسیم ہوکر دروس و اذکار میں مصروف رہے اور پھر نماز عشاء کے لیے صف بندی شروع ہوگئی۔

صوبہ صعدہ میں اب حُوثی قبیلے کے افراد سے ایک بڑی جنگ لڑی جارہی ہے۔ اگرچہ اس جنگ کی بنیاد مذہبی اختلاف نہیں ہے لیکن برسرِپیکار حُوثیین کی اکثریت زیدی ہے جنھوں نے مرکزی حکومت سے بغاوت کا اعلان کر رکھا ہے۔ واضح رہے کہ یمنی صدر خود بھی زیدی ہے۔ اس لڑائی میں اب تک سیکڑوں افراد کے مارے جانے کی اطلاعات آچکی ہیں۔ ہزاروں خاندان ہجرت پر مجبور ہوچکے ہیں۔ طرفین بھاری اسلحے کا استعمال کر رہے ہیں۔ یمنی نوجوان جو اَب سعودی عرب کی ایک یونی ورسٹی میں تدریسی فرائض انجام دے رہا ہے، بتا رہا تھا کہ اس لڑائی کے کئی پہلو ناقابلِ فہم اور کئی انتہائی تشویش ناک ہیں۔ سب سے ناقابلِ فہم بات تو یہ ہے کہ خود حکومت اس لڑائی کو طول دینا چاہتی ہے۔ ۲۰۰۴ء سے جاری اس بغاوت اور جھڑپوں میں کئی مواقع ایسے آئے کہ جب بغاوت کرنے والوں کا مکمل خاتمہ یقینی تھا، لیکن عین موقع پر صدر کی مداخلت کے باعث جنگ کو فیصلہ کن ہونے سے روک دیا گیا۔ دوسری طرف باغیوں کی طرف سے بھی ایک طویل مدتی جنگ لڑنے کے اعلان کیے جا رہے ہیں۔

عین رمضان المبارک کے تیسرے عشرے کے آغاز کے موقع پر صدر علی عبداللہ صالح نے الجزیرہ ٹی وی چینل کو مفصل انٹرویو دیتے ہوئے ایران کا نام لے کر بیرونی مداخلت کا الزام لگایا۔ انھوں نے کہا کہ ایرانی حکومت تو نہیں، البتہ ایران کی اہم تنظیمات و شخصیات کی طرف سے باغیوں کو مدد دی جارہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ مؤثر ایرانی ادارے اور افراد ہمیں مصالحت کروانے کی پیش کش بھی کررہے ہیں۔ اسی طرح عراق کے معروف شیعہ رہنما مقتدی الصدر بھی پیش کش بھی کررہے ہیں کہ وہ باغیوں اور حکومت میں مصالحت کروانے کے لیے تیار ہیں۔ صدرمملکت نے الزام لگایا کہ اس کا واضح مطلب ہے کہ ان لوگوں کا باغیوں سے رابطہ اور تعلق ہے، وگرنہ وہ کیسے مصالحت کروا سکتے ہیں۔ یمنی صدر کے ان الزامات کے بعد حُوثی باغیوں سے ہی نہیں دو مسلمان ملکوں کے درمیان کشیدگی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔جنگ کی ایک سنگینی اس کا عین سعودی عرب سرحدوں سے قریب ہونا ہے۔ سعودی عرب میں ایک تاثر یہ بھی ہے کہ صدر علی عبداللہ صالح اس لڑائی کے پردے میں سعودی عرب سے بھی کئی پرانے حساب چکانا چاہتا ہے کیونکہ سعودیہ اور یمن کے درمیان سرحدوں کی نشان دہی کے حوالے سے قدیم اختلافات چلے آرہے ہیں۔

اب اس جنگ میں سلفی عناصر کو بھی گھسیٹنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ سعودی سرحد سے قریب برسرِپیکار ایک شیعہ گروہ کا سامنا کرنے کے علاوہ باقاعدہ افواج کے ساتھ   سلفی نوجوانوں کی شرکت ضروری ہے۔ بعض اہم سلفی قائدین نے صدر علی عبداللہ صالح کی تائید کا اعلان کرتے ہوئے ’دفاعِ وطن‘ کی خاطر مسلح جدوجہد کا اعلان بھی کیا ہے۔

علاقے میں جنگ کے باعث ایک خدشہ یہ بھی پایا جاتا ہے کہ اگر یمنی مہاجرین کی بڑی تعداد نے سعودی سرحد پار کر کے وہاں پناہ لے لی تو پناہ گزین کیمپ کے مسائل کے علاوہ ، اس صورت حال کو مختلف عالمی اداروں کی طرف سے سعودی عرب میں مداخلت کا بہانہ بھی بنایا جاسکتا ہے۔

  •  یمنی نوجوان سے اس جنگ اور اس کے مہلک نتائج پر گفتگو میں یمن کے بعد عراق اور افغانستان کا ذکر چل نکلا۔ رمضان المبارک ہی میں عراق اور افغانستان میں بھی خوں ریزی کے مہیب واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ آئے روز دھماکوں اور فوجی کارروائیوں میں معصوم افغانوں کو شہید کردیے جانے پر غیور یمنی رنجیدہ تھا۔ پٹرول لے جانے والے ٹینک پر ناٹو افواج کی اندھادھند فائرنگ اور ۴۰ کے قریب افراد کے قتل کے اندوہناک تازہ واقعے نے بھی خون کے آنسو رُلا دیا۔ انھی دنوں بغداد میں کئی وزارتوں کی پوری کی پوری عمارتیں دھماکوں سے اُڑا دی گئیں۔

امریکی مداخلت کے بعد سے مسلسل جاری ہلاکتوں کے اس خونیں کھیل میں، عراقی حکومت، پڑوسی ملکوں پر مداخلت کے الزامات لگاتی چلی آرہی ہے۔ حالیہ دھماکوں کے بعد عراقی وزیراعظم نوری المالکی نے حکومتِ شام پر الزام لگایا ہے کہ وہ دہشت گردی کی پشتیبانی کر رہی ہے۔ سفارت کاروں کو دی گئی دعوت افطار سے خطاب کرتے ہوئے پڑوسی ملک پر الزامات کے اعادے نے شام اور عراق کے درمیان تلخی اور تنائو میں پھر اضافہ کر دیا ہے۔ عراق کے بقول امریکی افواج اور عراقی حکومت کے خلاف ’دہشت گردی‘ کی کارروائیوں میں شامی سرحد سے آنے والے ’انتہاپسند‘ شریک ہیں۔ اختلافات کی اس بڑھتی ہوئی خلیج کو کسی بڑے حادثے سے بچانے کے لیے علاقے کے دیگر ممالک بھی فعال ہورہے ہیں، بالخصوص ترکی کا کردار غیرمعمولی ہے۔ تازہ عراقی الزامات اور شام کی طرف سے جوابات کے بعد ترکی وزیرخارجہ نے عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل سے مل کر عراق و شام کے وزراے خارجہ سے مشترکہ مذاکرات کیے ہیں جو فی الحال مثبت بتائے جارہے ہیں۔

  •  شام پر الزامات میں عراقی و امریکی حکومت ہی نہیں لبنانی حکومت بھی شریک ہے۔ سابق لبنانی وزیراعظم رفیق حریری کے قتل کا الزام بھی شام پر لگایا گیا تھا۔ گذشتہ کئی عشروں سے لبنان میں موجود شامی افواج کا انخلا انھی الزامات و اختلافات کے بعد عمل میں آیا تھا۔ بعدازاں جب فلسطین پر قابض صہیونی افواج اور حزب اللہ کے مابین جنگ ہوئی تو شام ایک بار پھر عالمی الزام تراشی کا محور بنا۔ پھر لبنان میں سیاسی درجۂ حرارت میں اضافہ ہوا تو شام پر دبائو میں بھی اضافہ ہوگیا۔ اب تقریباً چار ماہ ہوگئے لبنان میں انتخابات کا عمل مکمل ہوچکا ہے۔ گذشتہ جون میں لبنانی صدر نے رفیق حریری کے بیٹے سعدالحریری کو وزیراعظم کے عہدے کے لیے نامزد کرتے ہوئے حکومت تشکیل دینے کی دعوت دی۔ تب سے سیاسی مذاکرات اور جوڑ توڑ جاری تھے۔ وسط رمضان میں سعدالحریری نے کابینہ کی ایک تجویز پیش کی۔ دعویٰ کیا گیا کہ یہ ایک قومی حکومت ہوگی، لیکن حزب اللہ سمیت اپوزیشن جماعتوں نے یہ وزارتوں کی تقسیم کے لیے سعدالحریری کا پیش کردہ فارمولا مسترد کردیا۔ نتیجہ سعد کو حکومت کی تشکیل سے معذرت کرنا پڑی۔ اب دوبارہ سے مذاکرات کا آغاز ہوا ہے۔ صدر نے قانونی تقاضے کے تحت تمام جماعتوں کے پارلیمانی نمایندوں سے  دوبارہ مذاکرات کے بعد پھر سعد کو وزیراعظم نامزد کیا ہے لیکن سیاسی اختلافات کا بخار ٹوٹنے کو نہیں آرہا۔ اُمت کے حوالے سے مزید تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ حریری گروپ، ایران اور شام پر اور حزب اللہ و اپوزیشن سعودی عرب پر الزامات کی تکرار کر رہا ہے۔
  •  رمضان المبارک اور حرمین شریفین میں وحدت و مساوات کے روح پرور مناظر کے دوران میں ہی متحدہ عرب امارات اور ایران کے درمیان اختلافات میں بھی اچانک اضافہ دیکھنے کو آیا۔ متحدہ عرب امارات کے ساحلوں کے نزدیک چھوٹے چھوٹے تین جزیرے طُنب الصغریٰ، طُنب الکبریٰ اور ابوموسیٰ عرصے سے نزاع کا باعث ہیں۔ دونوں ملک ان پر ملکیت کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ چند سال پیش تر ایران نے ان جزیروں پر باقاعدہ فوجیںاُتار دیں اور کہا کہ تاریخی لحاظ سے یہ تینوں جزیرے ایران کا اٹوٹ انگ ہیں۔ یہ شکر ہے کہ اس اختلاف نے مسلح جھڑپوں کی صورت اختیار نہیں کی، لیکن اختلاف گاہے بگاہے نمایاں اور ان کی لَے بلند ہوجاتی ہے۔ اب امارات نے ابوظبی سے کچھ شیعہ علما کو ایران واپس بھجوا دیا ہے اور جواباً ایران نے اٹوٹ انگ کا اعادہ کیا ہے۔ اسی طرح کا ایک چھوٹا سا سرحدی تنازعہ سعودیہ اور امارات کے درمیان بھی ہے۔ علاقے میں تیل کے ذخائر کے حوالے سے ان سب علاقوں کی بڑی اہمیت بیان کی جاتی ہے۔
  •  حرمِ مکہ میں فلسطین سے آئے ہوئے حماس کے قائدین اور موجودہ صومالی حکومت کے ایک وزیر سے بھی ملاقات ہوئی۔ حماس کے ذمہ داران غزہ میں جاری محاصرے اور ۱۵ لاکھ محصور فلسطینیوں کی ناگفتہ بہ صورت حال پر تشویش کا اظہار کر رہے تھے۔ ان کا یہ شکوہ مزید رنجیدہ کرنے کا سبب بنا کہ عالمِ اسلام اور اُمت مسلمہ غزہ کے اس حصار سے یوں لاتعلق بیٹھی ہے جیسے ان ڈیڑھ ملین مسلمان بھائیوں سے، ۱۵ لاکھ انسانوں سے، ان کا کوئی رشتہ نہ ہو۔ دسمبر ۲۰۰۸ء میں جنگ کے دوران تو اُمت نے اخوت ایمانی کا ثبوت دیا لیکن ا ب اہلِ غزہ پر کیا قیامت ڈھائی جارہی ہے، کسی کو کوئی غرض نہیں۔ حماس کے قائدین نے بتایا کہ ایک طرف غزہ میں صہیونی دشمن کے یہ مظالم ہیں، دوسری طرف وہ مسجداقصیٰ کو شہید کرنے کی کوششیں بھی کر رہا ہے۔ اب تو اس نے حرم اقصیٰ میں ہیکل سلیمانی کا ایک دیوہیکل ماڈل لاکر نصب کردیا ہے کہ یہاں قبلۂ اول کی جگہ، یہودی عبادت گاہ تعمیر ہوگی۔ تیسری جانب وہ مغربی کنارے میں مزید یہودی بستیاں تعمیر کر رہا ہے اور بدقسمتی سے محمود عباس کے ساتھ تعاون میں اضافہ کر رہا ہے۔ اس دوستی کو مکمل امریکی سرپرستی بھی حاصل ہے۔ خود کانگریس کی ایک رپورٹ کے مطابق ۲۰۰۷ء سے لے کر امریکا نے حماس مخالف فلسطینی سیکورٹی فورسز کی مدد کے لیے ۱۶۱ ملین ڈالر کی امداد دی ہے۔ ۳۲صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جون ۲۰۰۹ء میںاس امداد میں مزید ۱۰۹ ملین ڈالر کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی اوباما انتظامیہ نے سال ۲۰۱۰ء کے لیے ۱۰۰ ملین ڈالر کی مزید امداد کر دی ہے۔ اس مالی امداد سے حماس مخالف پولیس اور صدارتی فوج کو تربیت دی جائے گی۔

حماس کے پُرعزم ذمہ دار نے کہا: فلسطینی قوم بڑی سخت جان اور ارادے کی پکی ہے۔ ۶۰سال سے قتل کی جارہی ہے، دھتکاری جارہی ہے لیکن فلسطینی پہلے سے بھی زیادہ سربلند ہیں۔ پہلے سے بھی زیادہ اٹل ارادے کے مالک ہیں۔

یکم رمضان المبارک کو غزہ کے تمام اسکولوں میں تعلیم دوبارہ شروع ہوگئی۔ تعطیلاتِ گرما میں غزہ کے بچوں کو قرآن کریم سے وابستہ کرنے کا ایک عجیب واقعہ سننے کو آیا۔ اگر بتانے والا معتبر نہ ہوتا تو شاید یقین نہ آتا۔ غزہ میں گرما کی تعطیلات کے دوران بچوں کو قرآن کریم حفظ کروانے کا اہتمام کیا گیا۔ صرف چھٹیوں کے تین ماہ کے دوران ساڑھے تین ہزار بچوں نے مکمل قرآن حفظ کرلیا۔ منتخب وزیراعظم اسماعیل ھنیہ کے ۱۶ سالہ صاحبزادے عائد نے توصرف ۳۵ روز کے اندر مکمل قرآن سینے میں محفوظ کرلیا، سبحان اللہ! عائد نے غزہ میں قائم ’تاج الوقار‘ کیمپ میں قرآن حفظ کیا۔

حرم میں اُمت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اختلافات پر، خود پاکستان میں امریکی مداخلت اور بڑھتی ہوئی امریکی موجودگی پر، پریشانی اور دعائیں جاری تھیں کہ غزہ سے آنے والی اس خبر نے   دلِ مضطر کو قرار سا عطا کر دیا۔ نظریں ایک بار پھر سفید احرامات میں کعبۃ اللہ کے گرد دیوانہ وار طواف کرتے فرزندانِ توحید کی جانب اُٹھ گئیں۔ وحدت و مساوات کا منفرد، عجیب اور اُچھوتا منظر… دل سے پھر دعا نکلی: پروردگارِ عالم! کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک!

 

ایف اے کے نتائج کا اعلان ہوا تو اسراء ضیاء فرحات نے پورے ملک میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔ پورے خاندان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ مبارک باد دینے والوں اور ذرائع ابلاغ کے نمایندوں کا تانتا بندھ گیا۔ صحافی نے مصری لہجے میں پوچھا: باباک فین؟ آپ کے بابا کہاں ہیں؟ جواب کے بجاے دو آنسو اُبھرے اور پلکوں پر ٹک گئے۔ اسراء نے فوراً ہی خود کو سنبھال لیا اور کہا: میرے بابا معروف سرجن، ڈاکٹر ضیاء فرحات گذشتہ اڑھائی سال سے بلاوجہ گرفتار ہیں۔ وہ علاقے کی انتہائی نیک نام اور ہر دلعزیز شخصیت ہیں۔ ان کا گناہ صرف یہ ہے کہ وہ اخوان المسلمون کے رکن ہیں۔ اخوان کا نام سنتے ہی انٹرویو لینے والا بھی گھبرا گیا۔ اِدھر اُدھر کی ایک آدھ بات کے بعد انٹرویو ختم ہوگیا لیکن ساری دنیا کو معلوم ہوگیا کہ پورے مصر میںاول آنے والی اسراء کے والد   بے گناہی کی سزا کاٹ رہے ہیں۔

سب اس بات پر حیران تھے کہ والد گرفتار تھے، پورا گھرانا بحران و اذیت کا شکار تھا، اس ماحول میں اسراء نے اتنی نمایاں کامیابی کیسے حاصل کرلی؟ اسراء نے ان کی حیرت کا جواب دیتے ہوئے کہا: بابا گرفتار ہوئے تو سب اہلِ خانہ کا پریشان، اداس اور مضطرب ہونا فطری امر تھا، لیکن ہم نے خود کو دکھ اور صدمے کی نذر نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہم سب کے لیے اصل تشفی یہ تھی کہ ہمارے بابا کا صرف اور صرف گناہ ان کی اسلامی تحریک سے وابستگی ہے۔ امتحانات کا مرحلہ آیا تو میں نے سوچا کہ میں اپنے بابا کو کوئی ایسا تحفہ ارسال کروں گی جو شاید آج تک کسی قیدی کو نہ ملا ہو۔ میں نے خاموشی سے ایک فیصلہ کیا اور الحمدللہ آج میں اپنی کامیابی کا تحفہ اپنے قیدی بابا کو پیش کر رہی ہوں۔ اسراء نے مزید بتایا کہ میرے بابا کی یہ چوتھی گرفتاری ہے جو ۱۷ جنوری ۲۰۰۷ء سے شروع ہوئی۔ انھیں اس سے پہلے ۱۹۹۵ء تا۲۰۰۵ء اور ۲۰۰۶ء میں بھی گرفتار کیا جاچکاہے کیونکہ وہ اپنے مریضوں کا جسمانی ہی نہیں فکری، نظریاتی اور روحانی علاج بھی کرتے ہیں۔ وہ زمانۂ طالب علمی ہی سے  اسلامی تحریک سے وابستہ ہیں اور میڈیکل کالج یونین کے صدر بھی منتخب ہوچکے ہیں۔

ایک اسراء ہی کا گھر نہیں، اس وقت مصر کے تقریباً ساڑھے چار سو گھرانے اپنے اپنے پیاروں کی گرفتاری کا دکھ سہہ رہے ہیں۔ اخوان المسلمون کی تشکیل کے بعد سے لے کر اب تک شاید ہی کوئی وقت ایسا ہو کہ اخوان کے سیکڑوں کارکنان و ذمہ داران پسِ دیوار زنداں نہ ہوں۔ ایک وقت میں تو یہ تعداد اڑھائی ہزار تک جا پہنچی تھی۔ شاہ فاروق کا زمانہ تھا تو مرشد عام امام حسن البنا کو شہید کردیا گیا۔ ۱۹۵۲ء میں فوجی انقلاب کے بعد جنرل جمال عبدالناصر کا زمانہ آیا تو مفسرقرآن سیدقطب سمیت سیکڑوں افراد کو شہید اور ہزاروں کو گرفتار کرلیا گیا۔۲۹ستمبر ۱۹۷۰ء کو دنیا سے اُٹھ جانے سے جمال کا اقتدار ختم ہوا تو ایک اور فوجی ڈکٹیٹر انورالسادات کا عہدِ سیاہ شروع ہوگیا۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے سمیت کئی قومی خیانتوں اور بے گناہوں کو عذاب و اذیت سے دوچار کرنے کا بوجھ لادے، ۱۴؍ اکتوبر ۱۹۸۱ء کو سادات قتل ہوا تو قتل کے وقت اس کے پہلو میں بیٹھا تیسرا فوجی ڈکٹیٹر قوم کی گردن پر سوار ہوگیا۔ وہ دن اور آج کا دن، مصر سے حسنی مبارک کی عائدکردہ ایمرجنسی بھی ختم نہیں ہوئی۔ اس ۲۸ سالہ ’عہدنامبارک‘ میں بھی اخوان کے ذمہ داران و کارکنان کو  جبر کے کولہو میں مسلسل کچلا جا رہا ہے۔ کوئی دن نہیں جاتا کہ مصر کے کسی نہ کسی شہر میں چھاپے مار کر درجنوں افراد کی آزادی سلب نہ کی جاتی ہو۔

اڑھائی سال قبل اسراء کے والد سمیت ۲۵ معزز افراد گرفتار ہوئے۔ تقریباً سب کے سب گرفتارشدگان انجینیرہیں یا ڈاکٹر۔ ان میں سے نمایاں ترین ہستی اخوان کے نائب مرشدعام انجینیر خیرت الشاطر ہیں۔ سب پر ایک نام نہاد عسکری عدالت میں مقدمہ چلا گیا اور سب کو ۱۰ سے ۳سال تک گرفتاری کی سزائیں سنا دی گئیں۔ انجینیر خیرت کو سات سال، جب کہ متعدد ضعیف افراد کو ۱۰سال قید کا پروانہ عطا کیا گیا۔ اسراء کے والد ڈاکٹر ضیاء کو تین سال کی سزا سنائی گئی۔ اس بار عمومی گرفتاریوں کے ساتھ ساتھ مزید ظلم یہ ڈھایا جارہا ہے کہ اخوان سے تعلق رکھنے والے نسبتاً متمول افراد کے کاروباری اثاثہ جات، تجارتی کمپنیاں اور ذاتی مال و متاع بھی ضبط کیا جا رہا ہے۔ ملک کی درجنوں بڑی اور اہم کمپنیاں اس ’جرم‘ میں بند کردی گئی ہیں کہ یہاں سے اخوان کو مالی امداد فراہم کی جارہی تھی۔ حکومتی ذرائع کے مطابق اس خطرناک جماعت کے تمام مالی سوتے خشک کرنا وقت کا اہم تقاضا ہے۔ واضح رہے کہ دینی جماعتوں کے مالیاتی سوتے خشک کرنا، امریکا کی عالمی جنگ کا اہم ترین جزو ہے۔

ابھی ان معزز افراد کی سزائوں اور ان کے اثاثہ جات ضبط کرنے پر ہی احتجاج ہو رہا تھا کہ ۲۸ جون کو پوری عرب دنیا کے ڈاکٹروں کی یونین کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمنعم ابوالفتوح اور ان کے پانچ اہم ساتھیوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ ڈاکٹر ابوالفتوح عرب یونین کے منتخب سربراہ ہی نہیں، دنیا بھر میں ریلیف اور امدادی سرگرمیوں میں بھی ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔ گذشتہ چند برسوں میں ان کی تین بار پاکستان آمد ہوئی۔ پہلے افغانستان پر امریکی حملے کے دوران افغان مہاجرین کے لیے امدادی سامان اور ادویات لے کر آئے۔ پھر پاکستان میں زلزلے کے وقت ڈاکٹروں کی ایک ٹیم لے کر آئے۔ مصری عوام کی طرف سے ان کے توسط سے آنے والی ایمبولینس کا تحفہ اب بھی زلزلہ زدہ علاقے میں ان کی اور مصری بھائیوں کی یادیں مسلسل تازہ کرتا ہے، اور تیسری بار سوات آپریشن کے دوران میں مہاجرین کی مدد کے لیے ان کی طرف سے امداد موصول ہوئی۔

ڈاکٹر ابوالفتوح عرب یونین کے منتخب صدر کی اہم ذمہ داری پر فائز ہونے کے باوجود ہروقت دستیاب اور مستعد رہتے۔ غزہ پر تباہ کن بم باری کی صورت میں صہیونی عذاب نازل ہوا تو غزہ جانے کے تمام راستے بند تھے۔ ڈاکٹر ابوالفتوح اپنے ساتھی ڈاکٹروں کے ہمراہ کئی روز تک مصر، غزہ بارڈر پر رفح کے پھاٹک کے باہر کھڑے رہے۔ جیسے ہی کوئی گنجایش نکلتی، فوراً ادویات اور طبیب غزہ    بھجوا دیتے۔ ان کا وہاں مسلسل رہنا پوری عرب دنیا میں بڑی خبر بنا۔ جسے نہیں معلوم تھا اس نے بھی جان لیا کہ اسرائیلی حصار کے ساتھ ہی ساتھ مصری حکومت بھی اہلِ غزہ کا دانہ پانی بند کیے ہوئے ہے۔

ڈاکٹر ابوالفتوح اور ساتھی ڈاکٹروں پر اصل الزام بھی یہی اہلِ غزہ کی طبی و انسانی امداد کا لگایا گیا ہے۔ مصری حکومت کے ارشادات کے مطابق: ’’ڈاکٹر ابوالفتوح نے کئی ملین ڈالر غیر قانونی طور پر غزہ ارسال کیے‘‘۔ ڈاکٹر صاحب نے اس الزام کے جواب میں کہا کہ اگرچہ کئی ملین ڈالر کی بات صرف صہیونی ریاست کو خوش کرنے کے لیے اور زیب داستاں کی خاطر کہہ دی گئی ہے لیکن مجھے یہ الزام لگنے پر فخر ہے، البتہ مصری حکومت کو بھی سوچ لینا چاہیے کہ وہ اپنے رب کی عدالت میں لاکھوں بے گناہ فلسطینیوں کے حصار اور انھیں رمضان میں بھی تمام ضروریاتِ زندگی سے محروم رکھنے کے جرم کا کیا جواب دے گی؟ بجاے اس کے کہ لاکھوں انسانوں کو موت کے منہ میں دھکیل دینا جرم سمجھا جاتا، کسی نہ کسی طرح ان کی مدد کرنے کی کوشش کو جرم بنایا جارہا ہے۔

اہلِ غزہ کی مدد کے الزام کو اپنے لیے فخر قرار دینے پر ڈاکٹر ابوالفتوح اور ان کے ساتھیوں پر دوسرا الزام یہ لگایا گیا کہ وہ ’کالعدم‘ اخوان المسلمون کی عالمی تنظیم کے اہم ذمہ دار ہیںاور دیگر ممالک میں اخوان کی شاخوں کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس الزام کی حقیقت بھی پوری دنیا پر واضح ہے کہ ایک توجس پیشہ ورانہ تنظیم کے وہ منتخب سربراہ ہیں، اس کی ذمہ داریوں کا تقاضا ہے کہ پورے عالمِ عرب میں فعال رہیں۔ دوسرے وہ اتنی بڑی اور اہم تنظیم کے رہنماکی حیثیت سے متعارف ہوں گے، تو عالمی روابط یقینا ان کی زندگی کا لازمی حصہ بنیں گے۔ محترم میاں طفیل محمدصاحب اللہ کو پیارے ہوئے تو ہم نے دنیا بھر میں ای میل اور ایس ایم ایس کے ذریعے اطلاعات دیں۔ مصر سے سب سے پہلا تعزیتی فون ڈاکٹر ابوالفتوح کا آیا۔ ایک عالمی رہنما کی حیثیت سے ان سے یہی توقع تھی۔ اس فون کے تیسرے روز انھیں گرفتار کرلیا گیا۔ شاید یہ فون بھی ان کے خلاف فردِ جرم کا حصہ بنا ہو، لیکن یہاں تیسرا سوال سامنے آتا ہے کہ کیا اپنے بھائیوں کے ساتھ، اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیوں کے ساتھ یہ روابط جرم ہیں؟ یورپ میں مقیم ایک اور مصری عالمِ دین ڈاکٹر ابوالمجد پر بھی اسی طرح کے الزام لگنے کی بات کی گئی تو انھوں نے کہا کہ جو نہیں جانتا وہ بھی جان لے کہ اخوان المسلمون کی تنظیم دنیا کے ۶۰ ملکوں میں قائم ہے، ان میں سے کسی کے ساتھ یا دنیا کے کسی بھی مسلمان ادارے کے ساتھ رابطہ، میرے ایمان کا حصہ ہے۔

ڈاکٹر ابوالفتوح کی گرفتاری پر مصری حکومت دنیا بھر میں مطعون ہو رہی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں ان گرفتاریوں پر اظہار تشویش اور مذمت کی گئی ہے۔ خود مصر کے سابق وزیرخارجہ اور عرب لیگ کے حالیہ سیکرٹری جنرل عمرو موسیٰ نے ان کی گرفتاری پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ وہ ذاتی طور پر ان کی رہائی کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن افسوس کہ حکومت مصر نے اس ضمن میں ابھی تک کوئی قدم نہیںاٹھایا بلکہ ۲۳؍اگست کو انھیں اور ان کے پانچ ساتھیوں کو مزید ۱۵ روز کے ریمانڈ پر فوجی جیل خانے بھیج دیا ہے۔

طرفہ تماشا یہ ہے کہ ایک طرف تو یہ ظالمانہ گرفتاریاں ہیں اور ساتھ ہی ساتھ یہ پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ اخوان نے حکومت کے ساتھ سازباز شروع کر دی ہے، خفیہ مذاکرات کر رہی ہے۔ یہ شوشے اس لیے چھوڑے جا رہے ہیں تاکہ ایک طرف تو اخوان کے کارکنان اور گرفتارشدگان   اپنی قیادت کے بارے میں شکوک و شبہات اور غلط فہمیوں کا شکار ہوں، اور دوسری طرف مصری راے عامہ کو دھوکا دیا جاسکے کہ گرفتاریاں کوئی سنگین بحران نہیں ہیں، ظالم حکومت اور مظلوم اخوان باہم گٹھ جوڑ میںمصروف ہیں۔ اخوان کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمود عزت سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے ان شوشوں کی تردید کرتے ہوئے ایک واقعہ سنایا۔ انھوں نے کہا: ۱۹۷۳ء کے اواخر میں ہم گرفتار تھے، ہمارے درمیان ایسے ساتھی بھی تھے جو ۲۰سال سے قید تھے۔ کئی اپنی قیدکے نو سال پورے کرچکے تھے۔ ایک روز ایک اہم سرکاری ذمہ دار فواد علام جیل آیا۔ ہم سب کو جیل کے صحن میں ایک درخت کے نیچے اکٹھا کیا گیا۔ فواد نے کہا کہ صدر سادات آپ سب کو رہا کرنا چاہتا ہے لیکن آپ اس سلسلے میں ان کی مدد کریں۔ ہمارے ساتھ حامد ابوالنصر صاحب بھی گرفتار تھے وہ ابھی اخوان کے مرشد منتخب نہیں ہوئے تھے، بیماری کے باعث وہ قطار کے آخر میں کرسی پر بیٹھے تھے، وہیں سے پکارے: ’’جناب فواد صاحب! کیا اخوان کے کسی قیدی نے آپ سے اپنی تکلیفوں کی شکایت کی ہے؟ اخوان جیل سے نکل کر بھی اخوان ہی رہیں گے۔ جو بھی درست کام کرے گا ہم اسے کہیںگے تم نے ٹھیک کیا اور جو کوئی بھی غلط کام کرے گا ہم اسے کہیں گے تم نے غلط کیا۔ اگر اس اصول کے مطابق اخوان کو رہا کرنا چاہتے ہو، تو خوش آمدید، اور اگر یہ منظور نہیں تو ہم میں سے کسی نے تم سے کوئی شکایت نہیں کی‘‘۔ سیکرٹری جنرل نے یہ واقعہ یاد دلاتے ہوئے کہا کہ اب بھی کسی سازباز یا اپنے موقف سے دست بردار ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

اخوان المسلمون کے خلاف گرفتاریوں میں اچانک تیزی آجانے پر سب تجزیہ نگار حیرانگی کا شکار ہیں۔ مختلف اندازے لگائے جارہے ہیں۔ اکثر افراد کا دو نکات پر اتفاق ہے۔ ایک تو وہی مسئلہ فلسطین کہ مصری انتظامیہ اخوان کے خلاف کارروائیوں سے صہیونی انتظامیہ کی خوشنودی چاہتی ہے اور اہلِ غزہ کو مزید مایوس و پریشان کرنا چاہتی ہے۔ دوسرے، خود مصر میں تبدیلی کے امکانات اور آیندہ برس ہونے والے عام انتخابات میں اخوان کو مزید کنٹرول کرنے کی خواہش۔

بڑھاپے کی آخری حدوں کو چھوتا حسنی مبارک (پ: ۱۹۲۸ء) اب اپنا ۲۸ سالہ اقتدار اپنے وارث جمال حسنی مبارک کو سونپنا چاہتا ہے۔ اس خواہش کی راہ میں اخوان ہی سب سے بڑی، بلکہ اکلوتی رکاوٹ ہیں۔ گذشتہ انتخابات میں تمام تر رکاوٹوں کے باوجود اخوان نے ۸۸نشستیں حاصل کرلی تھیں۔ آیندہ اس منظرنامے کو ہر صورت روکنا، مصری حکومت کا سب سے بڑا خواب بن چکا ہے۔ سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمود عزت سے دریافت کیا گیا کہ: ’’سنا ہے کسی حکومتی ذمہ دار نے مرشدعام کو پیش کش کی ہے کہ آیندہ انتخاب سے باہر رہیں تو تمام گرفتار شدگان رہا کیا جاسکتے ہیں…؟ انھوں نے کہا: جو بات ہوئی وہ یہ ہے کہ ایک صاحب مرشدعام سے ملنے کے لیے آئے، انھوں نے دعویٰ کیا کہ وہ ایک اہم حکومتی ذمہ دار سے رابطے میں ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اخوان آیندہ انتخاب سے باہر رہیں تو ہم تمام قیدی چھوڑنے کے لیے تیار ہیں، لیکن مرشدعام کا جواب واضح تھا۔ انھوں نے کہا: ’’پہلی بات تو یہ ہے کہ اس اہم حکومتی ذمہ دار نے اگر کوئی بات کرناہے تو براہِ راست ہم سے کرے، تاکہ ہمیں بھی معلوم ہو کہ ان کی پوری اور اصل بات کیا ہے۔ دوسرے انھیں یہ یقین رہنا چاہیے کہ اگر وہ کوئی بھی ایسی تجویز پیش کریں گے جو مصر کے قومی مفاد میں ہو تو ہم حکومت سے تمام تر اختلاف کے باوجود اسے قبول کرسکتے ہیں، اور تیسری بات یہ کہ ہم ایک منظم جماعت ہیں جس میں فیصلے مشاورت سے کیے جاتے ہیں۔ اگر کوئی سنجیدہ اور مبنی بر اخلاص تجویز سامنے آئے گی تو ہماری شوریٰ ہی اس بارے میں حتمی فیصلہ کرنے کی مجاز ہوگی‘‘۔ مرشدعام کی    یہ بات سن کر وہ شخص چلا گیا اور پھر لوٹ کر نہیں آیا۔

مجموعی طور پر جائزہ لیا جائے تو حالیہ گرفتاریوں کی تینوں ممکنہ وجوہات درست ہیں۔ مسئلہ فلسطین، مصر میں تبدیلی کے امکانات اور آیندہ انتخابات۔ اس تناظر میں خدشہ ہے کہ گرفتاریوں کا سلسلہ مزید دراز اور وسیع ہوگا لیکن یہ حقیقت بھی سب ہی جانتے ہیں کہ اخوان کو جتنا بھی کچلا گیا وہ اتنا ہی زیادہ توانا و مضبوط اور کامیاب ہوئے۔ اب بھی گرفتاریوں کا نتیجہ یقینی طور پر یہی نکلے گا کہ آزمایشیں اخوان کو مزید کندن بنائیں گی۔ یہی تاریخ کا سبق ہے، یہی سنتِ الٰہی ہے اور یہی اسلام کی فطرت ہے۔

 

حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ جب ماہِ رجب کا آغاز ہوتا تو رسول اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرماتے: پروردگار! ہمارے لیے رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما۔ ہمارے لیے ماہِ رمضان میں برکت عطا فرما۔ (مسند احمد)

ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ رمضان کے شوق و انتظار میں رہتے۔ رجب شروع ہوتا تو رمضان سے پہلے کے دو ماہ کے لیے برکت کی دعا اور پھر رمضان کے لیے الگ سے خصوصی دعا فرماتے۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپؐ فرماتے: ’’اور ہمیں رمضان نصیب فرما‘‘۔ اس انتظار میں رمضان سے پہلے کے مہینوں میں نفلی روزوں کا خصوصی اہتمام فرماتے۔ ایک اور حدیث میں آپؐ کا ارشاد ہے: ’’مسلمانوں پر رمضان سے بہتر اور کوئی مہینہ طلوع نہیں ہوتا اور منافقوں کے لیے اس سے بُرا کوئی اور مہینہ نہیں آتا‘‘۔


حضرت ابومسعود غفاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر بندوں کو معلوم ہوجائے کہ رمضان کی کیا کیا برکات ہیں تو وہ تمنا کرتے کہ اے کاش! پورا سال رمضان ہی رہتا۔ رمضان کی خاطر پورا سال جنت کی تزئین و آرایش کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ جب رمضان کا پہلا دن ہوتاہے تو رحمن کے عرش سے ایک خصوصی بادِ نسیم چلتی ہے جس سے جنت کے سب پودوں اور درختوں کے پتے جھوم اُٹھتے ہیں‘‘۔ (طبرانی)

یہ ایک طویل حدیث کا اقتباس ہے۔ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم خوش خبری بھی دے رہے ہیں   اور اپنے اُمتیوں کو متوجہ بھی فرما رہے ہیں۔ جنت سمیت پوری کائنات استقبالِ رمضان میں لگی ہو   اور بندہ غفلت میں پڑا رہے…؟ پروردگار! رمضان المبارک کی حقیقی روح سے دلوں کو منور فرما۔


حضرت طلحہؓ بن عبید اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بنو خزاعہ سے دو افراد حاضر ہوئے اور دونوں نے اکٹھے اسلام قبول کیا۔ دونوں میں سے ایک زیادہ محنتی تھے، انھوں نے جہاد میں بھی حصہ لیا اور شہادت کا مرتبہ پایا۔ ان کے دوسرے ساتھی، ان کے بعد ایک سال مزید زندہ رہے اور پھر وفات پاگئے۔ ایک روز میں (حضرت طلحہؓ) نے خواب دیکھا کہ میں جنت کے دروازے پر کھڑا ہوں، وہیں مجھے وہ دونوں صحابیؓ بھی دکھائی دیے۔ جنت میں سے کوئی باہر آیا اور بعد میں وفات پانے والے کو جنت میں داخل ہونے کی اجازت دی۔ پھر دوبارہ باہر آیا اور شہید ہونے والے کو بھی جنت میں جانے کی اجازت دی۔ پھر وہ آنے والا میرے پاس آیا اور کہا کہ ابھی آپ واپس جائیے ابھی آپ کی باری نہیں آئی۔

حضرت طلحہؓ نے صبح یہ خواب لوگوں کو سنایا۔ سب نے اس پر تعجب کا اظہار کیا۔ بات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپؐ نے دریافت کیا: تم لوگ تعجب کس بات پر کررہے ہو؟ صحابہؓ نے عرض کی ان میں سے ایک زیادہ محنت کرتا تھا، وہ شہید بھی ہوا، لیکن ان کے بعد وفات پانے والے کو جنت میں پہلے لے جایا گیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا یہ اپنے ساتھی کے بعد بھی ایک سال تک زندہ نہیں رہا؟ کیا اس ایک سال میں اسے رمضان عطا نہیں ہوا کہ جس کے روزے بھی اس نے رکھے؟ اور پورا سال نمازوں میں، اللہ کے حضور سجدہ ریز نہیں ہوتا رہا؟ صحابہؓ نے عرض کیا: جی ہاں، یا رسولؐ اللہ ایسا ہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان دونوں کے درجات میں اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان اور زمین میں ہے۔ (ابن ماجہ ، حدیث ۳۹۲۵)

زندگی کی مہلت ملے، رمضان المبارک کے مبارک لمحات عطا ہوں، روزوں کی سعادت حاصل ہو، فرائض کی ادایگی کا موقع ملے تو بلندیِ درجات کی منزل یقینی ہوسکتی ہے۔ اسی لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’خاک آلود ہو، اس شخص کا چہرہ کہ جسے رمضان المبارک ملا ،لیکن پھر بھی اس نے مغفرت کا سامان نہ کیا۔ رمضان کی نعمت حاصل ہو، اور اس کی قدر نہ کی گئی، مثلا بلاوجہ روزہ نہ رکھا، توآپؐ کے ارشاد کے مطابق پھر ’’ساری عمر کے روزے بھی اس ایک روزے کی قضا نہیں ہوسکتے‘‘۔ گھر آئی نعمت کی بے قدری، ہمیشہ کی نامرادی بن جاتی ہے۔


حضرت ابو قتادۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک جنازہ گزرا۔ آپؐ نے فرمایا: ’’راحت پاگیا یا اس سے راحت مل گئی‘‘۔ صحابہ ؓ نے عرض کی:   یارسولؐ اللہ! اس ارشاد کا کیا مطلب ہے؟ آپؐ نے فرمایا: بندۂ مومن دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو دنیا کی مشقت اور تکالیف سے نجات پاکر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں میں راحت پالیتا ہے، جب کہ گنہگار بندے کے جانے سے اللہ کے بندے، یہ زمین، یہ درخت اور حیوانات ہر شے راحت پاجاتی ہے۔ (بخاری، حدیث ۶۵۱۲)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسری حدیث میں دنیا کو مومن کے لیے قید خانہ قرار دیا ہے۔  وہ اس قید خانے کی مشقت برداشت کرتا ہے، دن رات محنت کرتا ہے اور اس کے بعد ابدی رحمت کا مستحق قرار پاتا ہے، جب کہ آخرت سے بے پروا انسان دنیا ہی کو اپنی جنت بنانا چاہتا ہے۔ وہ اس دوڑ میں حرام و حلال کی ہر حد پھلانگ جاتا ہے۔

گناہوں کا نتیجہ خوفناک ہی نہیں، حیرت انگیز بھی ہے۔ گناہ نہ صرف ارتکاب کرنے والے کے لیے عذاب کا موجب بنتے ہیں، بلکہ کائنات کی ہر شے حتیٰ کہ دیار و اشجار اور حیوانات بھی ان کے بد اثرات سے محفوظ نہیں رہتے،اذیت کا شکار رہتے ہیں۔ ایسے بدقسمت لوگ دنیا سے جائیں، تو پورا ماحول سُکھ کا سانس لیتا ہے، کہ اللہ کے نافرمان سے نجات ملی۔ عام انسانوں کے گناہوں کا نتیجہ اگر یہ ہے تو رہنماؤں ، قوم کے بڑوں اور حکمرانوں کی نافرمانیوں اور غلطیوں کے اثرات و نتائج پوری قوم پر کیا ہوں گے۔


حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ مکہ میں منبر پر خطبہ دے رہے تھے۔ آپؓ نے فرمایا: لوگو! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: اگر ابنِ آدم کو (دو پہاڑوں کے درمیان واقع) ایک پوری وادی بھی سونے سے بھر کر دے دی جائے، تو وہ خواہش کرے گا کہ ایسی ہی سونا بھری ایک وادی اور مل جائے، اور اگر دوسری بھی دے دی جائے، تو وہ چاہے گا کہ ایسی ایک تیسری سونا بھری وادی بھی مل جائے۔ ابنِ آدم کا پیٹ مٹی کے علاوہ کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔ جو توبہ کرلے اللہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔ (بخاری، حدیث ۶۴۳۸)

حرص و لالچ ابن آدم کی سرشت ہے، لیکن نیک و بد یہاں بھی مختلف رویے اختیار کرتے ہیں۔     آں حضوؐر کے ارشاد گرامی کے مطابق ’’دنیا سے جانے والا ہر انسان حسرت کررہا ہوتا ہے۔ نیک لوگ کہہ رہے ہوتے ہیں، کاش! مزید نیکیاں سمیٹ لیتا۔گنہگار اپنا انجام دیکھ کر کہتا ہے: کاش! پہلے باز آجاتا‘‘۔ حرص جس شے کی بھی ہو، کبھی ختم نہیں ہوتی۔ علم ہو، نیکیاں ہوں، مال ہو، جاہ و منصب و اقتدار ہو، اولاد و متاع ہو، اچھی یا بری خواہشات ہوں___  انسان جس شے کی بھوک میں مبتلا ہوجائے اس سے کبھی سیر نہیں ہوتا۔ اب بھلا اس سے زیادہ مال و دولت کیا ہوگا کہ وادیوں کی وادیاں سونے سے بھر کردے دی جائیں، لیکن ہوس ہے کہ ختم نہیں ہوتی___  جتنا مل گیا اتنا ہی اور چاہیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختصر جملے میں خزانے سمودیے___  انسان کا پیٹ قبر کی مٹی کے علاوہ کوئی شے نہیں بھر سکتی! ہاں، جو رب کا ہوجائے، رب اس کا ہوجاتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اُسے دنیاوی مال و جاہ کے حوالے سے قناعت عطا کرتا ہے اور دین و عمل صالح کی حرص بڑھا دیتا ہے۔


حضرت ابوہریرہ ؓ نے آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، آپؐ نے فرمایا: بندہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ کوئی ایک بات ایسی کہہ دیتا ہے کہ اسے اس کی اہمیت کا اندازہ بھی نہیں ہوتا، لیکن اللہ تعالیٰ اس کے سبب اس کے درجات بہت بلند کردیتا ہے۔ بعض اوقات بندہ اللہ کو ناراض کرنے والی کوئی ایک بات ایسی کہہ دیتا ہے کہ جس کی سنگینی کا احساس تک نہیں ہوتا، لیکن وہ اس کی وجہ سے جہنم کے گڑھوں میں جاگرتا ہے۔ (بخاری، حدیث ۶۴۷۸)

انسان اپنی بات کی اہمیت کو جانتا ہی نہیں۔ نیکی کی بات ہو تو سمجھتا ہے اس سے بھلا کیا فرق پڑے گا، اور بری باتوں کو تو بعض اوقات اپنا استحقاق سمجھتا ہے۔ کیسے ہوسکتا ہے کہ کسی کی کمزوریاں معلوم ہوجائیں اور انھیں بیان کرنے کی لذت لیتے ہوئے، غیبت نہ کی جائے۔ بات بے بات جھوٹ،  ایک دوسرے کی چغلی، تہمت و الزامات، گالم گلوچ، بد زبانی، فحش گوئی، اظہارِ غرور و تکبر، گناہ ایک سے بڑھ کر ایک اور ذریعہ ایک چھوٹی سی زبان۔

دوسری طرف اللہ کو پسند آنے والی بظاہر ایک معمولی سی بات، لیکن درجات بلند سے بلند تر کردے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھائی ہوئی مختصر سی تسبیح سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ ہی کو دیکھ لیجیے۔ آپ ؐ کے ارشاد کے مطابق زمین و آسمان کے درمیان سارے خلا کو بھردے___  اورذریعہ وہی چھوٹی سی زبان۔

 

حضرت عثمانؓ بن عفان نے حضرت سعدؓ بن ابی وقاص کی قیادت میں پہلا قافلہ چین بھیجا۔ انھوں نے چینی باشندوں کے علاوہ شاہِ چین کو بھی خلیفۂ سوم کا پیغام پہنچایا۔ ان کی وہاں موجودگی کے دوران میں پہلی بار چین کی فضائوں نے تکبیراتِ اذان سنیں۔ پھر ۹۵ ہجری میں مسلمان قائد قتیبہ بن مسلم الباھلی نے سرزمینِ چین کو نورِاسلام سے متعارف کروایا اور ۲۳۲ ہجری میں تو سلطان ستوق بوگرہ خان خود مسلمان ہوگیا۔ بارھویں صدی کا تاریخ دان جمال قارشی اپنی کتاب تاریخِ کاشغر میں لکھتا ہے کہ بخارا کے ایک متمول تاجر نصر کی سلطان کاشغر سے دوستی ہوگئی۔ سلطان نے اسے کاشغر کے مضافاتی قصبے ارتش میں مسجد تعمیر کرنے کی اجازت دی۔ سلطان کا بھتیجا ستوق اکثر اس مسجد اور وہاں وسطی ایشیا سے آنے والے تجارتی قافلوں کو دیکھنے آیا کرتا۔ مسجد میں نماز پڑھتے اور منظم صورت میں رکوع و سجود کرتے مسلمانوں کو دیکھ کر اس کے دل میں اسلام کے بارے میں مزید جاننے کا اشتیاق پیدا ہوا اور جلد ہی اسلام قبول کرلیا۔ اپنے چچا کے بعد وہی سلطان بنا اور پورے خطے میں اسلام عام کرنے کا ذریعہ بھی۔ ۹۵۵ عیسوی میں ستوق بوگرہ خان کا انتقال ہوا تو ارتش ہی میں مدفون ہوا اور آج تک لوگ سلطان کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے جاتے ہیں۔

ریاستِ مدینہ سے آنے والے وفود، مسلمانوں کے تجارتی قافلوں کی پے درپے آمد، ان کے حُسنِ سلوک اور حُسنِ عبادت اور سلطان ستوق جیسے مخلص حقیقت شناسوں کے ذریعے اسلام کا تعارف چین کے دُور دراز علاقوں تک جا پہنچا۔ آج آپ چین کے کسی شہر میں چلے جائیں، صدیوں پرانی مساجد ان سجدہ ریز پیشانیوں کا تعارف کرواتی دکھائی دیتی ہیں۔ ۷ ہزار کلومیٹر لمبی دیوارِ چین سے باہر واقع کاشغر، ارمچی، ختن اور ارتش جیسے شہروں ہی میں نہیں خود بیجنگ، شنگھائی اور شانسی جیسے تاریخی شہروں میں بھی، مسلمان اپنے خالق اور ختم الرسلؐ کی محبت دل میں سجائے، قرآن و کعبہ کی زیارت اپنی سب سے بڑی سعادت گردانتے ہیں۔ چین میں لنگ شانامی ایک علاقہ ایسا بھی ہے جسے چھوٹا مکہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کہ وہاں مسلمانوں کی تعداد و تناسب غیرمعمولی ہے۔

جمہوریہ چین ہمارا پڑوسی ہی نہیں، انتہائی قابلِ اعتماد اور ہرآزمایش پر پورا اُترنے والا دوست ہے۔ چین نے پاکستان کی مدد کرنے اور علاقائی و عالمی مجالس میں ہمارے قومی مفادات کی نگہبانی کرنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا، کسی دشمن کے سامنے ہمیں تنہا نہیں چھوڑا۔ پاکستان کی تعمیروترقی میں اسی طرح ہاتھ بٹایا ہے جیسے اپنے ہی کسی علاقے کی تعمیرو فلاح کا کام ہو۔ مسلم دنیا کے ساتھ بھی چین کے روز افزوں تعلقات اور دوستی عالمی تناظر میں انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ او آئی سی کے ۵۷ رکن ممالک میں سے ۵۵ کے ساتھ اس کے سفارتی و تجارتی تعلقات ہیں۔ عالمِ اسلام سے مضبوط تر ہوتے ہوئے یہ تعلقات اس امر کے متقاضی ہیں کہ چین اور مسلم دنیا کے مابین کوئی اختلاف پیدا نہ ہونے دیا جائے۔ وجہِ نزاع بن سکنے والے ان تمام اسباب کا ازالہ کر دیا جائے کہ دشمن بالخصوص امریکا اور بھارت جس جلتی پر تیل ڈالتے ہوئے اضطراب و اختلاف پیدا کرنے کی کوشش کرے۔

چین میں بسنے والے کروڑوں مسلمان اس دوستی میں خیر کے لاتعداد پہلو لاسکتے ہیں، مزید تعاون کے لیے مضبوط بنیادیں فراہم کرسکتے ہیں، لیکن یہی مضبوط بنیادیں خدانخواستہ بہت سی   غلط فہمیوں بلکہ مشکلات کا سبب بھی بنائی جاسکتی ہیں۔ جولائی کے آغاز میں وقوع پذیر ہونے والے افسوس ناک واقعات اس حقیقت کی اہمیت کو مزید اجاگر کر رہے ہیں۔ اصل سوال یہ نہیں کہ کتنے قتل ہوئے؟ ۱۹۷ یا ۴۰۰۰؟ دونوں اعداد و شمار میں زمین آسمان کا فرق ہے اور مبالغے کا پورا امکان موجود ہے۔ لیکن اگر چینی حکومت کی بتائی ہوئی تعداد ہی درست تسلیم کرلیں، تب بھی ۱۹۷ افراد کا قتل معاملے کی سنگینی واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہاں یہ بحث بھی ضروری نہیں کہ قتل ہونے والے کس نسل یا مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ چینی حکومت کا موقف ہے کہ ان میں سے ۱۴۰افراد    ہان نسل سے تعلق رکھنے والے غیرمسلم تھے، تب بھی انسانی جانوں کا یہ قتل کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ پھر یہ تعداد تو صرف جان سے گزر جانے والوں کی ہے، زخمیوں اور گرفتار شدگان کی تعداد یقینا ہزاروں میں ہے۔ یہ امر بھی معلوم حقیقت ہے کہ یہ ہنگامے اور خوں ریزی پہلی بار نہیں ہوئی۔ گذشتہ عشرے ہی میں متعدد مواقع ایسے آئے کہ جب علاقے میں غیرمعمولی ہنگامے اور جھڑپیں بھڑک اُٹھیں اور بڑی تعداد میں انسانی جانیں ان کی نذر ہوئیں۔

مکمل غیر جانب داری سے، صرف معاملے کو سمجھنے کے لیے جائزہ لیں تودرج ذیل اہم پہلو سامنے آتے ہیں:  چینی حکومت اور ترکی النسل اوئیگور آبادی کے درمیان اختلافات سرسری یا وقتی نہیں، ان کی ایک طویل تاریخ ہے۔ طرفین اپنے اپنے طور پر تاریخی حقائق پیش کرتے ہیں اور انھی کی روشنی میں اپنے موقف کی حقانیت ثابت کرتے ہیں۔ اختلافات اتنے عمیق و کثیر ہیں کہ علاقے کے نام سے شروع ہوکر زبان، ثقافت، مذہب، آبادی کے تناسب، نسلی انتساب اور مستقبل کی صورت گری،  ہر بات پر شدید حساسیت ہے۔ چین اس پورے علاقے کو اپنا اہم صوبہ قرار دیتا ہے جسے سنکیانگ، شنجیانگ یاشنجان کہا جاتا ہے، جب کہ طرفِ ثانی اسے مشرقی ترکستان کہنے پر مصر ہے۔ وہ ۲۰۴ قبل مسیح سے خطے میں اوئیگور ریاست کی بنیادیں پیش کرتا ہے اور تاریخ کے سفر میں متعدد بار ریاست مشرقی ترکستان کے وجود کے دلائل پیش کرتا ہے۔ ان کے بقول وسطی ایشیا کی ترکی النسل ریاستیں بھی اسی ترکستان کا حصہ تھیں اور مغربی ترکستان کہلاتی تھیں۔ ۱۸۶۸ء میں ان پر روس نے قبضہ کر لیا، جب کہ مشرقی ترکستان جو ۱۷۵۸ء سے چینی بادشاہوں کی قلم رو میں چلا گیا تھا، ۱۸۶۳ء سے یعقوب بیگ کی حکمرانی میں اپنی علیحدہ ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا اور اس نے  عثمانی خلیفہ سلطان عبدالعزیز خان کو اپنا سرپرست تسلیم کرلیا۔ ۱۸۷۶ء میں چینی افواج نے پھر ترکستان پر اپنا اقتدار قائم کر لیا اور اس وقت اس کا نام سنکیانگ یا شنجانگ رکھ دیا گیا جس کا مطلب تھا: ’’نیاصوبہ یا نئی سرحد‘‘(چینی تفسیر کے مطابق اس کا مطلب ہے وہ پرانا خطہ جو پھر سے مادر أرضی سے آن ملا)۔ ۱۹۳۳ء میں یہاں پھر آزاد ریاست کا اعلان کردیا گیا لیکن تین ہی ماہ میں چین اور روس نے مل کر اس کا خاتمہ کر دیا (چینی موقف کے مطابق مقامی قبائل نے اس کا خاتمہ کردیا)۔ ۱۹۴۴ء میں پھر اسلامی جمہوریہ مشرقی ترکستان کے قیام کا اعلان کر دیا گیا جو اکتوبر ۱۹۴۹ء میں اس وقت تک باقی رہی جب پیپلز لبریشن آرمی نے مائوزے تنگ کی قیادت میں نئے چین کی بنیاد رکھی۔ مشرقی ترکستان کی یہ تاریخ بیان کرنے والے اس امر کا بھی خصوصی ذکر کرتے ہیں کہ مائو کی قیادت میں چین کی سوشلسٹ حکومت نے ہمارے علاقے کی خصوصی حیثیت برقرار رکھنے کا وعدہ کیا تھا۔ اکتوبر ۱۹۵۵ء میں اس علاقے کا سرکاری نام Xinjian Uygur Autonomous Region (اوئیگور سنکیانگ کا خودمختار علاقہ)رکھا گیا اور بعد میں ۴دسمبر ۱۹۸۲ء کو جاری ہونے والے چین کے موجودہ دستور میں بھی ہماری یہ علاقائی خودمختار حیثیت برقرار رکھی گئی۔ چین کے دستور میں علاقائی خودمختاری ہی نہیں، علاقے کے لوگوں کے مذہب و ثقافت کی حفاظت اور آزادیوں کی بھی ضمانت دی گئی ہے اور یہی امر مسائل کے حل کے لیے اُمید کی اصل بنیاد فراہم کرسکتا ہے۔

چینی حکومت بھی اسی دستوری بنیاد پر مبنی موقف رکھتی ہے۔ اس کے بقول: ہم نے گذشتہ ۶۰برس میں پوری آبادی کی بلااستثنا خدمت کی ہے۔ تعمیروترقی کا سفر تیز تر کیا ہے اور کوشش کی ہے کہ اوئیگور یا کسی بھی نسلی گروہ کے ساتھ امتیازی سلوک نہ برتا جائے۔ رہی مذہبی تقسیم تو ہم اس تقسیم کی بنیاد پر معاملہ ہی نہیں کرتے، ہمارے لیے سب شہری یکساں حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سنکیانگ میں صرف اوئیگور ہی نہیں ۴۷ دیگر قومیتیں بستی ہیں جن میں اوئیگور، ہان، قازق، منگولین، ہوئی یا خوئی، قرغیز، تاجک، تاتاری، روسی اور دیگر کئی نسلی اکائیوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ اگرچہ اوئیگور اکثریت رکھتے ہیں لیکن تمام نسلیں مل جل کر رہتی چلی آرہی ہیں۔ اسی طرح اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب جیسے بدھ ازم اور تائوازم وغیرہ کے پیروکار بھی یہاں کے باسی ہیں اور سب باہم مل جل کر رہتے ہیں۔ چین کے سرکاری موقف میں اس بات کا بھی نمایاں ذکر کیا جاتا ہے کہ ۱۶ویں صدی کے چغتائی دور میں بالآخر اسلام نے اکثریتی مذہب ہونے کے ناتے بدھ ازم کی جگہ لے لی لیکن ان کے بقول یہ مذہبی اکثریت گاہے بہ گاہے تبدیل ہوتی رہی۔

چین کی سرکاری دستاویزات میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ چین نے سنکیانگ کو زبردستی نہیں بلکہ ۲۵ستمبر ۱۹۴۹ء کو پُرامن طور پر آزاد کروایا۔ سنکیانگ کے عوام نے جنرل وانگ ژان کی قیادت میں آنے والی چینی افواج کا خود آگے بڑھ کر خیرمقدم کیا۔

انھی چینی دستاویزات کے مطابق مشرقی ترکستان کی اصطلاح کا استعمال ۱۹ویں صدی کے اوائل میں صرف جغرافیائی نشان دہی کے طور پر تب کیا گیا تھا جب روس کے زیراقتدار سمرقند کے علاقے کو مغربی ترکستان اور سنکیانگ کے علاقے کو مشرقی ترکستان کہا گیا، لیکن ۲۰ویں صدی کے آغاز میں علیحدگی پسندوں کے ایک مختصر گروہ نے مشرقی ترکستان کی آزادی کا نعرہ بلند کیا۔ تب سے لے کر اب تک مختلف اوقات میں بیرونی قوتوں کے ایما پر مشرقی ترکستان اور اس کی علیحدگی کی بات کی جاتی ہے۔ حالیہ جولائی کے خوں ریز واقعات کے بارے میں بھی چین کے ذمہ داران یہی کہتے ہیں کہ ایک فیکٹری کے مزدوروں کے جھگڑے کو بیرونی طاقتوں نے نسلی اور مذہبی لڑائی کا رنگ دے دیا ہے۔ امریکا میں موجود مختلف تنظیمیں بالخصوص اوئیگور انٹرنیشنل کانگریس اس کے لیے کوشاں ہے۔

عربی کا ایک محاورہ ہے: صَدِیْقُکَ مَنْ صَدَقَکَ لَا مَنْ صَدَّقَکَ ’’تمھارا اصل دوست وہ ہے جو تم سے سچ بولے نہ کہ وہ جو بس تمھاری ہاں میں ہاں ملائے‘‘۔ اس محاورے کے تناظر میں اور پاکستان کے حقیقی دوست چین کے ساتھ کامل ہمدردی اور اخلاص رکھتے ہوئے اس اہم موقع پر   چند گزارشات ضروری ہیں۔ چین کو کھلے دل اور کامل انصاف و غیر جانب داری سے اس علاقے کے عوام کے حالات کا مطالعہ کرنا چاہیے اور اس بات کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کرنا چاہیے کہ گذشتہ عرصے میں اس اضطراب میں مسلسل اضافہ کیوں ہو رہا ہے۔ ۵ جولائی کے افسوس ناک واقعات کے بعد اس صورت حال کا سرسری جائزہ لینے سے جو شکایات سامنے آرہی ہیں، اہلِ علاقہ کے الفاظ میں ان میں سے چند ایک بلاکم و کاست یہ ہیں:

  •  چین علاقے میں مسلم اکثریت کو کم کرنے کے لیے دیگر علاقوں سے ہان نسل کی آبادی کو یہاں لاکر بسا رہا ہے اور اوئیگور کے علاوہ دیگر ترکی النسل آبادی کو یہاں سے منتقل کر رہا ہے۔ ان زبردستی لے جائے جانے والوں میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے اور ان میں سے بھی زیادہ تناسب بچیوں کا ہے۔
  •  چینی دستور میں علاقائی زبانوں کو تحفظ دیا گیا ہے لیکن اوئیگور زبان جو آج بھی عربی  رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ خود ترکی میں اتاترک کی طرف سے ۱۹۲۸ء میں عربی حروف ممنوع  قرار دیے جانے کے باوجود یہاں اس کا رسم الخط وہی رہا۔ لیکن چینی حکومت مختلف طریقوں سے ہماری زبان ختم کر رہی ہے۔ ہمارے بچوں کو بھی یہ زبان نہیں پڑھائی جاسکتی۔
  •  چینی دستور کی شق ۳۶ میں تمام شہریوں کے لیے مذہبی آزادیوں کی ضمانت دی گئی ہے لیکن ہمیں عملاً بہت پابندیوں کا سامنا ہے۔ ۱۹۵۸ء کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سنکیانگ میں ۲۹ ہزار ۵ سو ۴۵ مساجد تھیں۔ ان کے اخراجات مساجد کے اوقاف، زکوٰۃ اور عطیات وغیرہ سے پورے کیے جاتے تھے۔ زرعی اصلاحات کے نام پر وہ اوقاف ضبط کرلیے گئے اور ہزاروں کی تعداد میں مساجد بند کر دی گئیں۔ ۲۰ سال سے کم عمر کے بچوں کے مسجد داخلے پر اور ۱۸ سال سے کم عمر کے بچوں کو دینی تعلیمات دینے پر پابندی لگا دی گئی۔ بچیوں کے حجاب پر پابندی لگا دی گئی۔ سفرِحج میں رکاوٹیں ڈالی گئیں اور خاص طور پر سنکیانگ سے حجاج کی تعداد نہ ہونے کے برابر کر دی گئی۔ پوری آبادی کے پاسپورٹ یا تو ضبط کرلیے گئے یا ان کے مقابل خطیر رقم زر ضمانت کے طور پر رکھی جاتی ہے تاکہ کوئی اپنے طور پہ حج کے لیے نہ چلا جائے۔یہ اور اس طرح کی سنگین شکایات کی فہرست مزید طویل ہوسکتی ہے لیکن معاملے کو سمجھنے کے لیے اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔

فرض کریں اور اللہ کرے کہ مذکورہ بالا تمام تر شکایات بے بنیاد اور جھوٹی ہوں۔ اس صورت میں چینی حکومت کا فرض ہے اور یہ کام بہت آسان ہوجاتا ہے کہ دنیا کو اصل صورت سے آگاہ کرے۔ چین دنیا بھر سے حقوقِ انسانی کے اداروں،بالخصوص عالمِ اسلام کے غیرسرکاری علما اور اعتدال پسند جماعتوں کے وفود کے دورے کروائے تاکہ وہ نہ صرف اپنی آنکھوں سے حقیقی صورت حال دیکھ لیں بلکہ اس طرح کے الزامات لگانے اور جھوٹا پروپیگنڈا کرنے والے عناصر کو بھی دنیا کے سامنے بے نقاب کرسکیں۔ اُوپر مذکورہ شکایات اور ان کے علاوہ بھی کئی سنگین اطلاعات پورے عالمِ اسلام میں وسیع پیمانے پر عام ہو رہی ہیں۔ مسلم دنیا کے لیے سنکیانگ کی چین سے علیحدگی کی تحریک میں کوئی اپیل نہیں پائی جاتی لیکن چین اور بالخصوص سنکیانگ میں بسنے والے مسلمانوں کی صورت حال کے بارے میں اس وقت گہری تشویش کی لہر پائی جاتی ہے۔ اِکا دکا مضامین، خبریں اور بیانات تو پہلے بھی آتے رہتے تھے لیکن جولائی کے خونیں واقعات پر دنیا کے ہر کونے میں گفتگو ہورہی ہے۔ ترکی میں تو باقاعدہ مظاہرے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کے یہ عالمی وفود مقامی آبادی کو مطمئن کرنے کا ذریعہ اور سبب بھی ہوں گے اور عالمِ اسلام کے سامنے بھی     حقیقتِ حال واضح کرنے کا ذریعہ بنیں گے۔

خدانخواستہ اگر یہ شکایات الزام نہیں، حقیقت ہیں تو ان کا فوری مداوا نہ صرف اہم ہے بلکہ ناگزیر و ضروری بھی۔ یہاں یہ حقیقت بھی سامنے رہنا چاہیے کہ کسی ملک کے اندرونی مسائل میں مداخلت کا حق نہ کسی کو دیا جاسکتا ہے اور نہ طلب کیا جاسکتا ہے لیکن دین و مذہب کی آزادی ایک ایسا بنیادی اور جذباتی مسئلہ ہے کہ وہ ازخود متعلقہ مذہب کے ہر فرد کو براہِ راست مخاطب و متاثر کرتا ہے۔ انسانی تاریخ میں کتنے ہی ایسے موڑ آئے ہیں کہ مذہبی جذبات کے انگیخت کرنے سے پاسا پلٹ گیا۔ گائے اور سور کی چربی لگے کارتوسوں کی حکایت ہی دیکھ لیجیے کہ جنھیں استعمال کرنے سے پہلے دانتوں سے چھیلنا پڑتا تھا حالانکہ لشکری یا مسلمان تھے یا پھر ہندو۔

سنکیانگ، شنجانگ، شنجان یا مشرقی ترکستان، معدنی، زرعی اور جغرافیائی اعتبار سے انتہائی اہم علاقہ ہے۔ یہاں تیل کے ذخائر کا اندازہ ۸ ارب ٹن لگایا گیا ہے۔ اب بھی روزانہ پیداوار ۵۰لاکھ ٹن ہے۔ ۶۰۰ ملین ٹن کوئلہ نکالا جاتا ہے۔ ۳۰ مقامات سے قدرتی گیس نکالی جاتی ہے۔ یہاں دنیا کی اعلیٰ ترین نسل کا یورینیم پایا جاتاہے جس کی چھے کانوں سے پیداوار جاری ہے۔ اس کے    علاوہ سونے اور قیمتی پتھروں کی بڑی مقدار پائی جاتی ہے۔ صرف اسی ایک صوبے کا رقبہ چین جیسے وسیع و عریض ملک کا چھٹا حصہ ہے اور ساڑھے ۱۶ لاکھ مربع کلومیٹر سے متجاوز ہے، یعنی فرانس جیسے ملک سے تین گنا بڑا۔ کُل رقبے میں سے ساڑھے چھے لاکھ مربع کلومیٹر صحرائی علاقہ ہے اور ۹۱ ہزار مربع کلومیٹر جنگلات ہیں، جب کہ زرعی زمین بھی انتہائی زرخیز ہے۔ ۴۰ بڑے دریائوں اور ۱۲ جھیلوں کی صورت میں وافر پانی دستیاب ہے۔ اس کی ۵۶۰۰ کلومیٹر طویل سرحدیں ۸ ممالک سے ملتی ہیں۔ ہمہ پہلو اہمیت کے اس علاقے کا امن و استحکام صرف چین ہی نہیں پورے خطے کے امن و استحکام اور تعمیروترقی کے لیے ناگزیر ہے اور چینی حکومت سے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ حقیقی امن و استحکام، عوام کو مطمئن کرنے سے ہی لایا جاسکتا ہے۔ زور زبردستی، لاوے کی آتش فشانی میں مزید اضافہ ہی کرتی ہے۔

خطے کے مسلمانوں کو بھی اس بارے میں واضح اور حقیقت پسندانہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ کیا ان کا اصل مقصد اپنے دین و ثقافت کی حفاظت، مذہبی آزادیاں اور بنیادی حقوق کا حصول ہے یا مجرد علیحدگی کا نعرہ بلند کرنا۔ اگر ان کے پیش نظر پورے چین میں مسلمانوں کے مفادات اور ان کا روشن مستقبل رہے تو یقینا منزل بھی آسان ہوگی اور خطے کے بارے میں ان تمام عالمی سازشوں کو بھی ناکام بنایا جاسکے گا جو مسلمانوں سے دوستی نہیں چین سے دشمنی کی بنیاد پر آگے بڑھائی جاسکتی ہیں۔

 

اسباب اور نتائج پر تو مختلف آرا ہوسکتی ہیں، لیکن اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ ایران اپنے ۳۰ سالہ دورِ انقلاب کے انتہائی اہم دوراہے پر کھڑا ہے۔ ایران عراق جنگ کے آٹھ برس انتہائی تباہ کن تھے لیکن پوری قوم مجموعی طور پر یک جان تھی۔ امام خمینی کی رحلت صدمہ خیز تھی لیکن ملک و قوم کامل وقار کے ساتھ ایک مربوط و مضبوط نظام کے شانہ بشانہ چلتے رہے۔ دہشت گردی کی لہریں آئیں، سیاسی و دینی اختلافات راے سامنے آتے رہے، اصلاح پسندی اور بنیاد پرستی کی لَے اُٹھائی گئی لیکن رہبر اور ملکی اداروں کو متنازع نہ بنایا گیا۔ اب کیا ہوا کہ مجرد انتخابی دھاندلی کے الزامات نے دوستوں اور دشمنوں سب کو حیران کر دیا ہے۔ امریکی اور اسرائیلی بھی کہہ رہے ہیں کہ ہم نے اس صورت حال کا خواب تک نہ دیکھا تھا۔

۱۲ جون ۲۰۰۹ء کے انتخابات کا بگل بجا تو پے درپے کئی امور حیران کن تھے۔ صدارتی امیدواروں نے اپنے ٹی وی مناظروں اور بیانات میں ایک دوسرے کے خلاف وہ زبان استعمال کی اور صریح کرپشن کے وہ الزامات لگائے جو اس سے پہلے کبھی علی الاعلان نہیں کہے گئے تھے۔ صدر احمدی نژاد کی طرف سے سابق صدر اور مجلس خبرگان کے سربراہ ہاشمی رفسنجانی اور ان کے افراد خانہ پر لگائے جانے والے کرپشن کے الزامات نے صرف انھی کی شخصیت کو مجروح نہیں کیا بلکہ پورے نظام کی ساکھ کو متاثر کیا۔ پھر ووٹنگ کا آغاز ہوا تو تناسب ۸۵ فی صد تک جاپہنچا۔ ووٹوں کا یہ تناسب بھی ایران کی تاریخ میں سب سے زیادہ تھا۔ رات گئے تک ووٹنگ جاری رہی، میں نے شب ساڑھے بارہ بجے کے لگ بھگ تہران میں بعض اہم ذمہ داران سے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ افراد کے فقید المثال رجحان کے باعث ووٹنگ کا وقت دو گھنٹے بڑھا دیا گیا ہے۔ ان کا اندازہ  یہ تھا کہ شاید پہلے مرحلے میں کوئی ایک امیدوار ۵۰ فی صد سے زائد ووٹ حاصل نہ کرسکے اور  فیصلہ دوسرے مرحلے میں ہو۔ اگلے روز معلوم ہوا کہ غیررسمی نتائج کے مطابق صدر احمدی نژاد ۶۳ء۶۲ فی صد (یعنی ۲ کروڑ ۴۵ لاکھ ۲۷ ہزار ۵ سو ۱۶) ووٹ لے کر کامیاب ہوگئے ہیں۔ مزید حیرت کی بات یہ تھی کہ ہارنے والے امیدواروں نے نتائج پر اعتراض ہی نہیں کیا بلکہ انھیں قبول کرنے سے انکار بھی کردیا۔ اگلے ہی روز ’انتخابات میں دھاندلی‘ کے خلاف احتجاج شروع ہوگیا اور معاملہ ۱۷ بے گناہ افراد کی موت، سیکڑوں کے زخمی ہونے اور سیکڑوں کی گرفتاری تک جا پہنچا۔ دوسرے نمبر پر آنے والے میرحسین موسوی جنھیں ۳۳ فی صد (یعنی ایک کروڑ ۳۲ لاکھ ۱۶ ہزار ۴ سو ۱۱) ووٹ ملے تھے اور چوتھے نمبر پر آنے والے مہدی کرّوبی جنھیں ۸ء۰ فی صد (یعنی دو لاکھ ۹۰ ہزار) ووٹ ملے تھے یکجا ہوگئے۔ ہاشمی رفسنجانی ان کے پشتیبان بن گئے اور سابق صدر خاتمی جیسے مختلف اصلاح پسند عناصر ہی نہیں متعدد دینی شخصیات نے بھی ان کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ ان میں قم کے اہم مرجع آیت اللہ صانعی اور امام خمینی کے نائب کی حیثیت سے کام کرنے والے آیت اللہ منتظری نمایاں ترین ہیں۔ ان دونوں شخصیات نے انتہائی سخت الفاظ میں حکومت کی مخالف اور اپوزیشن کی حمایت میں بیانات جاری کیے۔

احتجاجی مظاہروں کے ٹھیک ایک ہفتے بعد ایران کے دینی پیشوا آیت اللہ علی خامنہ ای نے خطبۂ جمعہ دیا۔ پوری دنیا کی نگاہ خطبے اور اس کے نتائج پر تھی۔ رہبر نے دوٹوک الفاظ میں انتخابات اور ان کے نتائج کی حمایت کی اور کہا کہ صرف دھاندلی کے ذریعے ایک کروڑ ۱۰ لاکھ سے زائد ووٹوں کا فرق نہیں لایا جاسکتا۔ انھوں نے احتجاج کرنے والوں سے پُرامن رہنے کا بھی کہا اور ان کی قیادت کو بھی تنبیہہ کی کہ اگر ان کی پالیسیوں کے نتیجے میں ملک خوں ریزی کا شکار ہوا تو اس کی تمام تر ذمہ داری ان کے سر ہوگی۔ رہبر نے بیرونی طاقتوں خصوصاً امریکا و برطانیہ کو بھی خبردار کیا کہ وہ جلتی پر تیل نہ ڈالیں اور کہا کہ افغانستان و عراق میں خون بہانے والے کیا جانیں کہ حقوقِ انسانی کیا ہوتے ہیں۔ ہمیں کوئی ضرورت نہیں کہ وہ ہمیں حقوقِ انسانی کی نصیحتیں کریں۔ آیت اللہ  خامنہ ای نے رفسنجانی سمیت تمام اپوزیشن لیڈروں کو بھی پُرامن رکھنے کی کوشش کی اور کہا کہ سابق صدر رفسنجانی سے میری ۵۰ سالہ رفاقت ہے۔ کرپشن نہیں وہ تو خود شاہ کے زمانے سے اپنا پیسہ انقلاب کی خاطر خرچ کرنے والی ہستی ہیں… اسی طرح کے کلمات انھوں نے دیگر صدارتی امیدواروں کے بارے میں کہے لیکن صدر احمدی نژاد کو خصوصی خراجِ تحسین پیش کیا۔ حالیہ بحران کا سب سے حیران کن اور اہم ترین پہلو یہی ہے کہ رہبر جو ملک کی اعلیٰ ترین سیاسی شخصیت ہی نہیں، عقیدۂ ولایت فقیہ کی روشنی میں نمایاں ترین دینی مقام و مرتبہ رکھتا ہے۔ ایرانی دستور کی شق ۵۷ کے تحت ملک کے تینوں ستونوں (مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ) پر ان کی کامل بالادستی ہے، ان کی طرف سے واضح ہدایت اور تنبیہہ کے بعد بھی عوام اور اپوزیشن رہنمائوں کا احتجاج جاری ہے۔ صورت حال کے مزید جائزے سے پہلے آیئے ایک نظر میں ریاست کے حالیہ نظام کا جائزہ لے لیں:

۱- اسلامی جمہوریہ ایران کے دستور کے مطابق سب سے اعلیٰ رتبہ رہبر کا ہے جو تاحیات مقرر کیا جاتا ہے۔ کسی بھی معاملے میں ان کا قول قولِ فیصل قرار پاتا ہے۔ ان کی ذمہ داریوں میں انتخابی نتائج کی توثیق بھی شامل ہے۔ افواج براہِ راست انھی کے زیرنگیں ہیں جن میں باقاعدہ افواج کے علاوہ پاس دارانِ انقلاب اور پاسیج ملیشیا بھی شامل ہے۔ رہبر عدلیہ کی نگہداری کرتا ہے، چیف جسٹس کے عزل و نصب کا اختیار بھی وہی رکھتا ہے۔

۲- شوراے نگہبان، ۱۲ ارکان پر مشتمل یہ ادارہ دستور کی دفعہ ۹۹ کے مطابق ملک میں ہونے والے تمام انتخابات یا ریفرنڈم میں اس ادارے کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ وہی امیدواروں کی اہلیت یا نااہلیت کا فیصلہ کرتا ہے اور انتخابات میں کسی بے ضابطگی کی شکایت اور عذرداری کا فیصلہ بھی وہی کرتا ہے۔ دستور کی دفعہ ۹۱ کے مطابق پارلیمنٹ سے صادر ہونے والے قوانین کے شرعی یا مخالف شرع ہونے کا جائزہ بھی یہی ادارہ لیتا ہے۔ شوراے نگہبان کے ۱۲ ارکان میں سے چھے فقہا کا درجہ رکھنے والے علماے کرام ہوتے ہیں، جن کا تعین براہِ راست رہبر کرتا ہے۔ باقی چھے ارکان ماہرین قانون میں سے ہوتے ہیں جن کا انتخاب پارلیمنٹ کرتی ہے۔ اس انتخاب کے لیے امیدواران کی فہرست اعلیٰ عدالت کی طرف سے پیش کی جاتی ہے۔ شوراے نگہبان کے سربراہ آیت اللہ جنتی ہیں جو رہبر کے انتہائی معتمدعلیہ ساتھی ہیں۔

۳- مجلسِ تشخیصِ مصلحتِ نظام، ۱۹۸۹ء میں قائم ہونے والے اس ادارے کے ۳۴ ارکان ہوتے ہیں جن کا تعین براہِ راست رہبر کرتا ہے۔ اس میں مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے تینوں سربراہوں کے علاوہ ملک کے تقریباً ہر اہم مکتب ِ خیال کی نمایندگی ہوتی ہے۔ دستور کی دفعہ ۱۱۰ کے مطابق رہبر کی طرف سے بھیجے گئے کسی بھی مسئلے یا کسی وقت پارلیمنٹ اور شوراے نگہبان کے درمیان اختلاف پیدا ہو جانے کی صورت میں یہی ادارہ فیصلہ کرتا ہے۔ ۱۹۹۷ء سے علی اکبر ہاشمی رفسنجانی ہی اس مجلس کے سربراہ بھی تھے۔ ۱۲ جون کے انتخابات کے بعد ان کے اس منصب سے استعفا کی خبریں آرہی ہیں۔ ان تین غیرمنتخب اہم اداروں کے علاوہ تین اہم ادارے براہِ راست عوام کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں:

ا - صدر مملکت ملک کا اعلیٰ ترین انتظامی منصب، جو چار برس کے لیے منتخب ہوتا ہے اس کا انتخاب دو دفعہ کیا جاسکتا ہے۔ صدر مملکت اپنے ساتھ ۲۱ رکنی کابینہ رکھتا ہے۔ ہر وزارت اپنی جگہ اہم ہوتی ہے لیکن وزارتِ داخلہ کی خصوصی اہمیت یہ ہے کہ ملک کا سارا انتخابی نظام اس کے اختیار میں ہوتاہے۔ شوراے نگہبان، وزارتِ داخلہ اور رہبر کی مؤثر تکون، انتخابات کو یقینی، شفاف اور حتمی بنانے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔

ب- مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) ۲۹۰ ارکان پر مشتمل یہ مجلس بھی چار سال کے لیے منتخب ہوتی ہے۔ آخری انتخاب مارچ ۲۰۰۸ء میں ہوئے تھے اور اس میں صدر احمدی نژاد کے حامی دو تہائی سے زائد تعداد میں منتخب ہوچکے ہیں۔ مئی ۲۰۰۸ء میں نئی مجلس نے علی لاریجانی کو اپنا اسپیکر منتخب کرلیا جوکہ ایرانی ایٹمی پروگرام کے حوالے سے بین الاقوامی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ تھے۔ لاریجانی کا شمار رہبر خامنہ ای کے قریبی معتمدین میں ہوتا ہے۔

ج- مجلس خبرگاں ۸۶ رکنی اس اہم مجلس کا انتخاب بھی براہِ راست عوامی ووٹنگ سے ہوتا ہے۔ ارکان مجلس آٹھ سال کے لیے منتخب ہوتے ہیں۔ اس مجلس کی اہم ترین ذمہ داری رہبر اعلیٰ کا منصب خالی ہوجانے کی صورت میں نئے رہبر کا انتخاب ہوتاہے۔ یہ مجلس منتخب رہبر اعلیٰ کے بارے میں بھی راے دی سکتی ہے اور اگر مجلس محسوس کرے کہ رہبر اب اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے قابل نہیں رہا، یا ریاست کے مقاصد و قوانین سے منحرف ہوگیا ہے تووہ اسے معزول بھی کرسکتی ہے۔ اس مجلس کے حالیہ سربراہ ہاشمی رفسنجانی ہیں۔ ان تمام منتخب اور غیرمنتخب اداروں کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ اس وقت پورا ریاستی نظام نہ صرف یہ کہ رہبر اعلیٰ اور ان کے ساتھیوں کے مکمل کنٹرول میں ہے بلکہ اسے ایک دینی تقدس بھی حاصل ہے جو نظریۂ ولایت ِ فقیہ کی بدولت ایمان و عقیدہ کا حصہ بن چکا ہے۔ شیعہ عقائد کے مطابق ولایت فقیہ بنیادی طور پر امام زمان کی نیابت کا دوسرا نام ہے۔ یہ مسئلہ ہر دور میں بحث و نقاش کا محور بنا ہے۔ آرا اس کے حق میں تھیں اور خلاف بھی۔ اس پر بھی اختلاف رہا کہ ولیِ فقیہ کی اطاعت مطلق ہوگی یا مشروط۔

ولایت فقیہ اور آج کا ایران

امام خمینی کی راے ولایت فقیہ کے حق میں دوٹوک تھی۔ انھوں نے اس نظریے کو ایک مکمل نظام کی صورت میں نافذ کر دیا۔ اپنی کتاب حکومتِ اسلامی اپنے متعدد کتابچوں اور خاص طور پر سید علی خامنہ ای کے نام اپنے ایک خط میں انھوں نے ولایت فقیہ کو حکومت اسلامی کے الفاظ سے یاد کیا ہے۔ صدر خامنہ ای کے نام اپنے خط میں ان کے الفاظ تھے: ’’یہ وضاحت ضروری ہے کہ حکومت (ولایت ِ فقیہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولایت مطلقۃ ہی کا ایک اہم شعبہ اور اسلام کے اولیں احکام میں سے ایک حکم ہے‘‘۔

امام خمینی کی اس راے بلکہ فیصلے اور اسلامی جمہوریہ ایران کے انقلاب میں امام کے ہمہ پہلو اثرات و کردار کے تناظر میں، آج رہبر کے فیصلے کے باوجود عوامی مظاہروں کا ختم نہ ہونا معاملے کی دینی و سیاسی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ شیعہ مکتب فکر کی نصابی کتب میں موجودہ ولایت ِ فقیہ کی تشریح یوں کی گئی ہے: ’’ولایت ِ فقیہ حضرت امام مہدی (اللہ ان کا ظہور جلد فرمائے) کی نیابت میں قیادت سے عبارت ہے۔ فقیہ عادل جو اس منصب کی تمام شرائط پر پورا اُترتا ہو مسلمانوں کا سرپرست اور امام ہوتا ہے۔ ان پر اس کی اطاعت واجب ہے۔ دیگر علما اور فقہا کو بھی اس کی اطاعت کرنا ہوگی۔ اگر کوئی فقیہ، فقہ کے اعتبار سے خود کو رہبر سے بھی بڑا عالم سمجھتا ہو، تو اس کے لیے یہ تو ممکن ہے کہ  وہ عبادات میں، شرعی احکام سے مستنبط امور کی روشنی میں خود اپنی پیروی کرلے، لیکن سیاست اور قیادت سے متعلق امور میں اسے بھی ولی امرالمسلمین (رہبر) کی اطاعت کرنا ہوگی۔ یہ ولایت آج کے دور میں رہبر و امام سید علی خامنہ ای کو حاصل ہے‘‘۔

ایک جانب یہ تمام ضوابط و عقائد اور دوسری جانب صرف انتخابات میں دھاندلی کی بات کرتے ہوئے وہ احتجاج کہ جس کا سلسلہ رہبر کے دو خطبات کے باوجود ہنوز جاری ہے…؟ حکومتی کوشش کے باوجود میرحسین موسوی اور مہدی کروبی نے رہبر سید علی خامنہ ای کے خطبۂ جمعہ میں شرکت نہیں کی۔ خطاب کے اگلے ہی روز موسوی نے بیان دیا کہ جھوٹ اور دھاندلی کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ انٹرنیٹ پر جاری اپنے بیان میں انھوں نے کہا کہ اگر میں اس راستے میں شہید کردیا جائوں تو ایرانی عوام ہڑتالیں کریں اور حقوق کے حصول تک احتجاج جاری رکھیں۔ تقریباً اسی طرح کا ردعمل کروبی، رفسنجانی اور دیگر شخصیات کی طرف سے بھی سامنے آیا۔ ہاشمی رفسنجانی نے قم کا دورہ کیا اور مختلف آیات اللہ سے ملاقاتیں کرتے ہوئے انھیں اپنا کردار ادا کرنے کو کہا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مظاہرے نت نئے انداز اختیار کررہے ہیں۔ میرحسین موسوی نے اپنی پوری تحریک میں سبز رنگ کو اپنے علامتی رنگ کے طور پر متعارف کروایا۔ مظاہرین مختلف انداز سے اس رنگ کی پٹیاں، چادریں، بینر، پرچم اور اسٹکر پھیلا رہے ہیں۔

امریکا، برطانیہ اور اسرائیل اس صورت حال سے بھرپور استفادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ موجودہ صہیونی وزیراعظم بنیامین نتن یاہو نے منتخب ہونے کے بعد بیان دیا تھا کہ میری پہلی ترجیح ایران، دوسری ایران اور تیسری ایران ہوگی۔ ان سبھی کی کوشش ہے کہ ایرانی قیادت کے مابین خلیج وسیع تر ہو۔ اسرائیلی تجزیہ نگار لکھ رہے ہیں کہ ’’ایران کی جاسوسی پر اربوں ڈالر خرچ کرنے کے بجاے ایرانی عوام پر ’سرمایہ کاری‘ کرو… اس دوران یہ تاثر ہرگز نہ اُبھرے کہ ایرانی مظاہروں کی ڈوریاں باہر سے ہلائی جارہی ہیں۔ اہلِ فارس بیرونی مداخلت سے نفرت کرتے ہیں‘‘ (بن کاسبیت، روزنامہ معاریف، ۱۹ جون)۔ امریکی حکومت نے پہلے دبے لفظوں میں اور پھر کھلے اور جارحانہ انداز سے ایرانی حکومت کی مذمت اور مظاہرین کی تائید شروع کر دی ہے۔ امریکی کانگریس میں ایک ووٹ کے مقابلے میں ۴۰۵ ووٹوں کی اکثریت سے قرارداد منظور کی گئی کہ انتخابات کے بعد ایرانی عوام کی مدد کی جائے۔ امریکا میں موجود شاہِ ایران کے بیٹے کو بھی متحرک کر دیا گیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کنٹرول کر لیے جانے کے بعد متبادل ذرائع بالخصوص انٹرنیٹ کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ یوٹیوب، فیس بک اور ٹویٹر نام کی ایسی ویب سائٹس خاص طور پر فعال و بہتر بنا دی گئی ہیں جن کے ذریعے ایرانی عوام بیرونی دنیا سے اور بیرونی دنیا ان سے براہِ راست رابطہ کرسکے۔

اس ضمن میں امریکی دل چسپی اور مداخلت اتنی بڑھ گئی ہے کہ رائٹرز نیوز ایجنسی کے مطابق ’ٹویٹر‘ کو اپنی معمول کی اصلاحات و دیکھ بھال کے لیے ایک گھنٹے کے لیے اپنی سروس بند کرنے کی ضرورت تھی۔ خود امریکی وزارتِ خارجہ نے اس انٹرنیٹ کمپنی سے خصوصی درخواست کی کہ وہ یہ وقفہ مقرر کردہ وقت پر نہ کرے بلکہ ایران کے وقت کے مطابق رات ڈیڑھ بجے کے بعد کرے تاکہ اس وقت زیادہ لوگ یہ سروس استعمال نہ کررہے ہوں۔

کوششیں جتنی ، جیسی اور جس جس کی بھی ہوں ایک بات یقینی دکھائی دیتی ہے کہ ایرانی حکومت حالیہ بحران پر قابو پا لے گی۔ اطلاعات کے مطابق صدر احمدی نژاد وسط اگست سے پہلے پہلے نیا صدارتی حلف اُٹھا لیں گے، نئی کابینہ تشکیل پا جائے گی، پھر مظاہروں میں بھی دم خم نہیں  رہے گا، لیکن کیا ایرانی قیادت میں پیدا ہوجانے والی خلیج کو بھی پاٹا جاسکے گا؟ معاشرے اور حکومت پر اس خلیج کے منفی اثرات کو روکا جاسکے گا؟ بدقسمتی سے اس کا جواب فی الحال نفی میں ہے۔ گذشتہ سالوں میں جتنی بار بھی ایران جانے کا اتفاق ہوا، پورے نظام میں دو واضح بلاک دکھائی دیے۔ ایرانی انقلاب کے بعد تشکیل پانے والی پہلی حکومت میں، صدر مہدی بارزگان کے ساتھ وزیرخارجہ کی حیثیت سے کام کرنے والے ۷۸ سالہ ابراہیم یزدی کے بقول: ’’حالیہ بحران کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ اعلیٰ قیادت میں پائے جانے والے اختلافات نہ صرف گہرے ہوگئے ہیں بلکہ سڑکوں پر آن نکلے ہیں‘‘۔

احمدی نژاد کا دوبارہ منتخب ہوجانا کوئی غیرمعمولی بات نہیں تھی۔ ان سے پہلے سید علی   خامنہ ای ۱۹۸۱ء سے ۱۹۸۹ء تک، ہاشمی رفسنجانی ۸۹ء سے ۹۷ء تک، اور محمد خاتمی ۹۷ء سے ۲۰۰۵ء تک دو، دو بار ہی صدر منتخب ہوچکے ہیں۔ گویا یہ دوبارہ انتخاب بھی اسی روایت کا تسلسل تھا، لیکن خون آمیز بحران نے سب کو متنبہ کر دیا کہ اصل مرض زیادہ سنگین ہے۔ بحران کی حقیقی وجہ ذمہ داران کا دو کیمپوں میں تقسیم ہو جانا ہے۔ سابق شاہ کے تمام ہمنوا اورسرپرست اس تقسیم سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ گڑے مُردے اکھاڑے جا رہے ہیں کہ میرحسین موسوی (پ: ۲۹ستمبر ۱۹۴۲ء) جب ۱۹۸۱ء سے ۱۹۸۸ء تک ایران کے وزیراعظم رہے تو صدر علی خامنہ ای کے ساتھ ان کے تعلقات اچھے نہیں تھے۔ صدر خامنہ ای، علی اکبر ولایتی کو وزیراعظم بنوانا چاہتے تھے، دو بار ان کا نام پارلیمنٹ میں پیش ہوا لیکن پارلیمنٹ جس کے اسپیکر رفسنجانی تھے، نے ان کے بجاے میرحسین موسوی کو وزیراعظم منتخب کرلیا۔ موسوی ایران کے آخری وزیراعظم تھے۔ صدر اور وزیراعظم کے درمیان اختلافات کے باعث، بالآخر ۱۹۸۸ء میں دستوری ترمیم کے ذریعے وزیراعظم کا عہدہ ہی ختم کر دیا گیا، تمام اختیارات صدر کی طرف منتقل ہوگئے۔

آج کی صورت حال میں ایرانی قیادت کے لیے اس سے بہتر نصیحت کوئی نہیں ہوسکتی جو خود آیت اللہ خمینی نے صدر خامنہ ای، وزیراعظم موسوی اور اسپیکر رفسنجانی کو ان کے انتخاب کے موقع پر مخاطب کرتے ہوئے کہی تھی: ’’اس نظام کی حفاظت کی اصل ذمہ داری اب آپ کے کندھوں پر ہے۔ ایران میں جو کامیابی حاصل ہوچکی اس کی حفاظت اور اس کا دوام انتہائی مشکل کام ہے لیکن تمام تر مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود آپ لوگوں کو اس نظام کی حفاظت کرنا ہے‘‘۔ ایران کے تمام پڑوسی ممالک کے لیے بھی یہ حقیقت واضح رہنا چاہیے کہ ایران میں عدمِ استحکام، صرف ایران کے لیے ہی نہیں خود ان تمام ممالک کے لیے بھی مصائب و انتشار کا سبب بنے گا۔ ایرانی انتشار امریکا و اسرائیل کے علاوہ کسی کے بھی مفاد میں نہیں۔

 

حضرت ابوبکر صدیقؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے صبح کی نماز ادا کی، وہ اللہ کی پناہ میں آگیا۔ اللہ کے اس وعدے کی خلاف ورزی نہ کرو۔ اگر کسی نے اسے قتل کردیا تو اللہ تعالیٰ ’قاتل‘ کا پیچھا کرے گا یہاں تک کہ اسے منہ کے بل آگ میں لاپھینکے گا۔ (ابن ماجہ)

ہر جان یقینا قیمتی ہے، لیکن خالق کی نظر میں ایک مومن کی جان خصوصی حُرمت و اہمیت رکھتی ہے۔ اپنی مخصوص تعبیر دین و شریعت، کسی سیاسی مفاد، لسانی اور علاقائی عصبیت یا پھر شدت پسندی کے مبہم و مشکوک الزام کی آڑ میں خون ریزی کا بازار گرم کرنے سے پہلے ہر فرد، گروہ اور حکومت کو سوچ لینا چاہیے کہ اس حدیث میں مذکور وعید سے کیسے بچیں گے۔ نماز اور بالخصوص نمازِ فجر اللہ کی حفاظت و رحمت کا ذریعہ بنتی ہے۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن کا معاملہ عجیب ہے، وہ ہر حال میں فائدے میں رہتا ہے، اور یہ معاملہ صرف مومن ہی کے لیے ہے۔ اسے کوئی خوشی ملتی ہے اور وہ اس پر شکر کرتا ہے، تو یہ اس کے لیے مزید بھلائی کا سبب بنتا ہے، اور اگر اسے تنگی اور تکلیف پہنچتی ہے تو اس پر صبر کرتا ہے تو یہ بھی اس کے لیے بھلائی کا موجب ہے۔ (مسلم)

زندگی انھی دو صورتوں سے عبارت ہے، مصیبت یا راحت۔ مومن کا رویہ ہر حالت میں ایک ہی رہتا ہے اور رہنا چاہیے، یعنی اپنے رب کی رضا پر راضی رہنا۔ نعمت و راحت پر شکر، رنج و مصیبت اور آزمایش میں صبر۔ راحت پر شکر نعمتوں کے دوام کا ذریعہ بنتا ہے۔ تکلیف و آزمایش پر صبر اور رب سے التجا نہ صرف مصیبتوں کو دور کردیتی ہے بلکہ درجات کی بلندی اور خطاؤں کی معافی کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔ آپؐ نے ایک اور حدیث میں فرمایا: مومن مرد یا عورت پر اس کی جان، مال اور اولاد کے حوالے سے آزمایشیں آتی رہتی ہیں اور ان سے اس کے گناہ معاف ہوتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب وہ اپنے اللہ سے ملتا ہے تو ان آزمایشوں کی بدولت اس کا کوئی بھی گناہ باقی نہیں بچتا۔


حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز صحابہ کرامؓ سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا: مجھے اپنے میں سے کسی کے بارے میں (منفی) بات نہ پہنچایا کرو کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ میں جب بھی تم سے ملوں تو میرا دل تم سب کے بارے میں صاف ہو۔ (ابوداؤد)

باہم محبت و اخوت، اسلامی معاشرے کی بنیاد، اساس اور پہچان ہوتی ہے۔ اس بنیاد کو کمزور کرنے والی ہر بات سے خالق نے منع فرمادیا۔ خاص طور پہ بغض و حسد، چغلی و غیبت، غرور و تکبر، چہ مہ گوئیاں، گروہ بندیاں، دوسروں کے بارے میں منفی احساسات رکھنا اور پیدا کرنا، شکوک و شبہات پھیلانا،  غرض ہر کمزوری کو برائی قرار دیتے ہوئے ان سے اور ان کے انجام سے خبردار کردیا گیا۔

قیادت خواہ جس سطح کی بھی ہو کارکنان اس کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ تمام کارکنان کے بارے میں یکساں خلوص و صاف دلی کے لیے ناگزیر ہے کہ ان عوامل کا سدّباب کیا جائے، ان باتوں کی حوصلہ شکنی کی جائے کہ جن سے دلوں میں میل آجاتا ہے۔ آپؐ نے مختصر الفاظ میں بے انتہا بیماریوں کا شافی علاج کردیا: ’’میں چاہتا ہوں کہ جب بھی میں تم سے ملوں تو میرا دل تم سب کے بارے میں صاف ہو‘‘۔


حضرت ابو برزہ الاسلمیؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے وہ لوگو    جو زبانی ایمان تو لے آئے ہو لیکن ایمان ابھی تک تمھارے دلوں میں داخل نہیں ہوا، مسلمانوں کی غیبت نہ کیا کرو۔ ان کی کمزوریوں کی ٹوہ میں نہ لگا کرو۔ جو (اپنے بھائیوں) کی کمزوریوں کے پیچھے پڑے گا، اللہ تعالیٰ اس کی کمزوریوں کا پردہ کھول دے گا اور جس کی کمزوریوں کا پردہ اللہ تعالیٰ کھول دے گا، اسے خود اس کے اپنے اہل خانہ کے سامنے بھی بدنام کردے گا۔ (ابوداؤد)

گویا اپنے بھائیوں کی کمزوریوں کی ٹوہ میں لگے رہنے اور غیبتیں کرتے رہنے کے بعد ایمان صرف زبانی دعویٰ رہ جاتا ہے۔ یہ وعید بھی اسی لیے شدید ہے کہ غیبت، خوردہ گیری اور دوسروں کی کمزوریوں کی ٹوہ میں پڑے رہنے سے اجتماعیت اور باہمی اعتماد و اخوت کی عمارت ڈھے جاتی ہے۔ انسان اپنے ہی کچھ ساتھیوں کو بدنام کرنے اور انھیں نیچا دکھانے میں لگ جاتا ہے۔ تعمیرِ حیات اور اقامت ِدین کا عظیم الشان فریضہ صرف ایک دعویٰ اور خام خیالی ہوکر رہ جاتا ہے۔ حدیث کا آخری جملہ دل دہلا دینے والا ہے کہ پھر وہ انسان اپنے سب سے قریبی افراد، اپنے اہلِ خانہ کی نظروں سے بھی گر جاتا ہے، خود اپنے ضمیر کا مجرم قرار پاتا ہے۔


حضرت ابو سعید خدری ؓ روایت کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نیا لباس زیب تن فرماتے تو اس کا نام لے کر، مثلاً قمیص / عمامہ وغیرہ فرماتے: پروردگار! تمام تر شکر تیرے ہی لیے ہے کہ تو نے مجھے یہ لباس پہنایا۔ پروردگار! میں تجھ سے اس کی خیراور بھلائی مانگتا ہوں اور اس بھلائی کا سوال کرتا ہوں کہ جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے۔ پروردگار میں اس کے شر سے اور اس شر سے کہ جو اس کے ذریعے آسکتا ہے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ (ابوداؤد)

انسان اپنے رب کی بے انتہا نعمتوں سے دن رات مستفید ہوتا ہے، لیکن بعض اوقات نعمتیں دینے والے رب ہی سے غافل ہوجاتا ہے۔ رسولِ اکرم ؐ نے ہر نعمت کا شکر ادا کرنے کی تعلیم دی خواہ وہ لباس یا لباس کا ایک حصہ ہی کیوں نہ ہو۔ نعمت اگر خیر اور بھلائی کا ذریعہ بنے تو نعمت رہتی ہے۔ اللہ کی رحمت و عافیت اٹھ جائے تو وہی نعمت، عذاب اور آزمایش بن جاتی ہے۔ خوراک ہی صحت و قوت کاموجب ہوتی ہے اور اگر اللہ ایسا نہ چاہے تو وہی خوراک مرض و ابتلا کا سبب بن جاتی ہے۔ کتنی بار ایسا ہوا ہے کہ انسان کے لیے زیب و زینت والا رومال ہی گلے کا پھندا بن گیا۔ راحت و سکون دینے والی چھت، مسافتیں طے کرنے والی سواری، محبت سے پالی پوسی جانے والی اولاد، دکھ سکھ کے ساتھی، عزت کا تاج پہنانے والے عہدے اور حفاظت کا ذریعہ بننے والے ہتھیار ہی موت و عذاب کی صورتیں اختیار کرلیتے ہیں۔ رب کا حقیقی شکر اور اس سے عافیت کی دُعا، نعمتوں کے دوام اور اس میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔


حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسی عورتیں جو لباس پہن کر بھی ننگی رہتی ہیں، خود بھی (برائی کی طرف) مائل رہتی ہیں اور دوسروں کو بھی مائل کرنے کی کوشش کرتی ہیں، ایسی عورتیں نہ صرف یہ کہ جنت میں داخل نہیں ہوں گی بلکہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پاسکیں گی۔ حالانکہ جنت کی خوشبو ۵۰۰ سال کی مسافت سے سونگھی جاسکتی ہے۔(موطا امام مالک)

شفاف، تنگ اور مختصر لباس، بظاہر تو لباس ہی ہوتا ہے، لیکن پردے کے بجاے بے حجابی اور شرم و حیا کے بجاے بے حیائی اور بداخلاقی کا ذریعہ بنتا ہے۔ لباس و حیا یقینا ایک نعمت ہے لیکن کچھ بدقسمت اسی کو اپنے اور دوسروں کے لیے گناہ اور عذاب کا ذریعہ بنادیتے ہیں۔ صرف رسم و رواج اور فیشن و ڈیزائن کی خاطر، جنت ہی نہیں جنت کی خوشبو سے بھی محرومی___ کیا اس سے بڑا کوئی اور خسارہ ہوسکتا ہے!


صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایک تنومند نوجوان کو مستعدی سے کام کرتے دیکھا تو کہا: کاش! یہ نوجوان اللہ کی راہ میں جدوجہد کرتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو فرمایا: ایسا نہ کہو۔ اگر یہ نوجوان اپنے چھوٹے بچوں کے لیے رزق کی تلاش میں نکلا ہے، تو یہ فی سبیل اللہ یعنی اللہ کی راہ میں ہی ہے۔ اگر یہ اپنے بوڑھے والدین کے لیے لقمہء حیات فراہم کرنے کے لیے نکلا ہے تو اللہ کی راہ میں ہی نکلا ہے، اور اگر خود کو دوسروں کا محتاج ہونے سے بچانے کے لیے محنت کرنے نکلا ہے تو بھی اللہ کی راہ میں ہی نکلا ہے۔ ہاں! اگر یہ نوجوان فخر و غرور اور نمود و نمایش کے وسائل فراہم کرنے کے لیے نکلا ہے تو پھر یہ شیطان کی راہ میں نکلا ہے۔ (طبرانی)

رزق حلال کے حصول اور محتاجی و سوال سے بچنے کی جدوجہد کو آپؐ نے جہاد فی سبیل اللہ کے مترادف قرار دیا۔ یہ جدوجہد تعمیر و نمو کا موجب بھی بنتی ہے اور رضاے خداوندی کا ذریعہ بھی۔ ہر فرد جدوجہد اور اپنی اپنی ذمہ داریوں کی ادایگی میں لگ جائے تو انفرادی کوششیں بالآخر اجتماعی محنت و عمل میں  بدل جاتی ہیں۔ اسی طرح رزق حلال کی پابندی انسان کو زندگی بھر کے لیے حلال کی پابندی اور حرام سے اجتناب کا خوگر کردیتی ہے۔ حلال ذرائع سے حاصل ہونے والے رزق میں جتنا بھی اضافہ ہوجائے، مذموم نہیں، بشرطیکہ اس میں سے انفرادی و اجتماعی حقوق ادا کیے جاتے رہیں۔ ہاں، اگر جدوجہد کے اہداف و مقاصد اور محنت کی جہت تبدیل ہوجائے، اصل ہدف فخر و تکبر، حرص و نمایش اور عیش و عشرت بن جائے تو وہی فی سبیل اللہ عمل، فی سبیل الشیطان قرار پاتا ہے۔

 

۴ سالہ  فر.اس کا ایک ہاتھ اس کی والدہ کے ہاتھ میں تھا۔ وہ گاہے اسے سہلاتی اور گاہے اپنے بیٹے کی بند آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کرتی۔ جو انجکشن نرس کے پاس تھا وہی بار بار لگاکر اس کی تکلیف کم کرنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی، حالانکہ اسے علم تھا کہ یہ انجکشن اس کا علاج نہیں ہے۔ اس کے والد کو معلوم تھا کہ نسخے میں درج ادویات نہیں مل سکیں گی، لیکن بے تاب ہوکر وہ مزید تلاش کے لیے ہسپتال کے باہر بھاگ دوڑ کر رہا تھا۔ اسی دوران میں اچانک  فر.اس  کی سانس اکھڑی اور پھر چند لمحوں میں، والدہ کے ہاتھ میں تھامی ہوئی اس کی کلائی کسی مرجھائی ہوئی شاخ کی طرح جھولنے لگی۔ ماں باپ آنسوئوں کی جھڑی میں بیٹے کی لاش سنبھالنے لگ گئے۔ یہ منظر غزہ کے ایک ہسپتال کا تھا جہاں ایک فر.اس نہیں، روزانہ کئی فر.اس صرف اس وجہ سے علاج نہیں کروا پاتے کہ  ان کے لیے مطلوب ادویات غزہ میں نہیں پہنچائی جاسکتیں۔ اس لیے کہ غزہ کو تین اطراف سے یہودی ملک اسرائیل نے گھیر رکھا ہے اور چوتھی جانب سے مسلم ملک مصر نے دروازے بند کر رکھے ہیں۔

فر.اس کی رخصتی کا یہ پورا منظر، براہِ راست الجزیرہ ٹی وی پر اس لیے آگیا کہ وہ فلسطین پر صہیونی قبضے کے ۶۱ برس پورے ہونے، اور پوپ مقرر کیے جانے کے بعد پہلی بار کسی مسلمان علاقے کے دورے پر آئے ہوئے عیسائی پیشوا کی مصروفیات پر غزہ سے ایک رپورٹ دے رہا تھا۔ اُردن اور پھر مقبوضہ فلسطین کے اپنے ۸ روزہ دورے میں پوپ بینی ڈِکٹ شانزدہم نے کئی خطبے  اور بہت سے اہم پیغامات دیے۔ پوپ بینی ڈِکٹ کا یہ دورہ ابتدا ہی سے متنازع تھا۔ سب سے پہلا اعتراض اُردن کی سیاسی اور دینی جماعتوں کی طرف سے کیا گیا کہ: پوپ یا مسیحیوں سے ہماری  کوئی دشمنی نہیں ہے، لیکن پوپ نے اپنا یہ مذہبی منصب سنبھالنے کے فوراً بعد ہی اپنے ایک لیکچر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کرکے پوری اُمت محمدیؐ کے دل زخمی کیے تھے۔ اسلام کو بزور تلوار پھیلنے والا مذہب قرار دیا تھا، اور ۱۴ویں صدی عیسوی کے ایک بازنطینی حکمران کے وہ قبیح الفاظ دہرائے تھے، جو اس نے ایک مسلمان فلسفی سے مناظرہ کرتے ہوئے آں حضوؐر کے بارے میں کہے تھے۔ اب اگر پوپ واقعی عالمِ اسلام کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں تو رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارک کے بارے میں کہے ہوئے الفاظ واپس لے لیں۔ مگر افسوس کہ پوپ نے کوئی معذرت نہیں کی اور صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا تھا کہ: ’’مجھے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہونے پر افسوس ہے‘‘۔

اپنے تین روزہ دورۂ اُردن اور پانچ روزہ دورۂ مقبوضہ فلسطین کے دوران میں پوپ نے اپنی تمام گفتگوئوں میں یہودیوں کو خوش کرنے کی بار بار کوشش کی۔ اُردن میں واقع جبل نیبو  جو کہ عیسائیوں اور یہودیوں دونوں کے نزدیک مقدس مقام تھا، کے دورے سے ہی انھوں نے محبت ناموں کا آغاز کردیا تھا۔ مثال کے طور پر سب سے پہلے تو اپنے دورئہ مشرق وسطیٰ کو ’سفرِحج‘ قرار دیتے ہوئے کہا: ’’سرزمین مقدس کا حج ہماری قدیم روایت ہے اور یہ سفر ہمیں مسیحی کنیسے اور یہودی قوم کے درمیان وحدت اور ناقابلِ انقطاع تعلقات کی یاد دہانی کرواتا ہے‘‘۔

انھوں نے مسیحی پیشوا ہونے کے ناتے اپنا مغفرت و معافی کا اختیار استعمال کرتے ہوئے یہودی قوم کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی (نام نہاد) پھانسی کی سزا سے بھی بری الذمہ قرار دے دیا۔ انھوں نے یہودیوں پر نازیوں کے (مبالغہ آمیز) جرائم پر اپنے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس کی مذمت کی اور دیوارِ گریہ کا دورہ کرتے ہوئے یہودی عبادات کی پیروی کی اور یہودی روایات کے مطابق دیوار کے شگافوں میں سے ایک شگاف میں اپنی دعائوں اور آرزوئوں پر مشتمل پرچی ٹھونس دی۔ پھر توازن پیدا کرنے کے لیے بعض مسلم مقامات مقدسہ کا دورہ بھی کیا۔ اُردن میں شاہی مسجد، مسجدحسین بن طلال اور بیت المقدس میں گنبد صخرہ بھی گئے لیکن نہ جانے اسے غفلت کہا جائے یا عمداً کی گئی غلطی کہ انھوں نے مسجدحسین کے اندر جاتے ہوئے جوتے اتارنے تک کا تکلف نہیں کیا اور جب یہ عمل احتجاج کا سبب بنا تو ان کے دفتر نے یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ ’’کسی نے انھیں جوتے اتارنے کا کہا ہی نہیں‘‘۔

سوال یہ ہے کہ پوپ نے اپنے اس ’حج‘ کے لیے فلسطین پر یہودی قبضے اور اسرائیلی ناجائز ریاست کے قیام کی ’برسی‘ کا انتخاب ہی کیوں کیا؟ خود فلسطینی عیسائی باشندوں کے مطابق یہ دورہ سال کے کسی بھی دوسرے موقع پر ہوسکتا تھا۔ پوپ اور ان کا دفتر شاید اپنے تئیں اس کی کوئی تاویل رکھتا ہو لیکن ’’شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے‘‘ کے مصداق، وقت کے اس انتخاب نے ان کے سیاسی مقاصد کو پوری طرح بے نقاب کر دیا۔ اپنے اس دینی دورے میں انھوں نے اسرائیلی ذمہ داران اور یہودی مذہبی پیشوائوں سے ملاقاتیں کیں اور ساتھ ہی ساتھ تقریباً چار سال قبل    اغوا ہونے والے یہودی فوجی گلتاد شالیط کے گھر جاکر ان کے اہلِ خانہ سے بھی اظہار ہمدردی و  یک جہتی کیا۔ معلوم تو انھیں بھی تھا کہ اس وقت صہیونی جیلوں میں ۱۱ ہزار فلسطینی باشندے قید ہیں، جن میں ۳۰۰ بچے اور ۲۹ خواتین بھی ہیں۔ ۴۳ منتخب ارکان اسمبلی اور حماس کے وزرا بھی ہیں اور ان  ہزاروں قیدیوں میں نائل البرغوثی (ابوالنور) نامی ایک قیدی ایسا بھی ہے، جو گذشتہ ۳۵ سال سے مسلسل قید میں ہے۔ ۵۰سالہ نائل ۱۵برس کی عمر میں قید ہوا اور اب وہ دنیا کا سب سے طویل    قید بھگتنے والا قیدی بن چکا ہے۔ اس کے ماں باپ اپنے قیدی بیٹے سے ملاقات کا خواب آنکھوں میں سجائے دنیا کی قید سے آزاد ہوگئے لیکن ابوالنور آزادی کا نور نہیں دیکھ سکا۔ پوپ ان ہزاروں مسلم قیدیوں کی رہائی نہ سہی، صرف عیسائی قیدیوں کی رہائی کے لیے ہلکا سا اشارہ کر دیتے، مگر یہودیوں کے مقابلے میں وہ اپنے ہم مذہبوں کے لیے بھی یہ ہمت نہ دکھا سکے۔

اس عدمِ توازن کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ نازی جرائم کی مذمت، اور ان پر پوری یہودی قوم سے معذرت تو کر لی گئی، حالانکہ یہ کہانی اپنی انتہائی مبالغہ آمیزی کے باعث متنازع ہے۔ اس کے برعکس جن جرائم کے وقوع پذیر ہونے پر کوئی اختلاف نہیں ہے، جن جرائم کو پوری دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ غزہ پر گذشتہ دسمبر اور جنوری میں توڑی جانے والی قیامت تو آج بھی غزہ کے حصار کی صورت میں جاری ہے، جہاں نہ جانے کتنے بچے صرف دوا نہ ملنے کے باعث مائوں کی آغوش میں دم توڑ رہے ہیں، اس اکیسویں صدی کے ’نازی ازم‘ کے بارے میں پوپ کے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں ادا ہوسکا۔ بس اتنا فرمایا کہ: فلسطینی اور یہودی شدت پسندی چھوڑ کر بقاے باہمی کی راہ اختیار کریں۔ گویا صہیونی ریاست کی طرف سے فاسفورس بموں کی بارش، گذشتہ ۶۱ برسوں سے جاری بے محابا مظالم، فلسطین کے لاکھوں باشندوں کو اجنبی قرار دے کر انھیں بے گھر کردینا، غزہ کے ۱۵ لاکھ باشندوں کا مسلسل محاصرہ، اور یہودی غاصبوں کے مقابلے میں بچوں کا پتھرائو، غلیلیں لے کر آجانا، اپنی جان پر کھیل کر احتجاج کرنا کیا شدت پسندی ہے…؟ چلیے ۶۱سال کے جرائم کو بھی چھوڑ دیتے صرف غزہ میں وقوع پذیر حالیہ درندگی کی مذمت اور اس پر افسوس ہی ظاہر کردیتے کہ جس میں ۱۳۱۲ فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، جن میں ۴۱۰ بچے بھی تھے۔ ۵۳۴۰ زخمیوں کی بیمارپرسی کرلیتے، جن میں سے ۳۵فی صد بچے تھے، ۲۰ ہزار تباہ شدہ گھر نہ دیکھتے ان میں سے ۲۳ مساجد اور ۶۰ اسکولوں کی تباہی پر ہی احتجاج کرلیتے۔

جناب پوپ نے اہلِ فلسطین کی حمایت میں جو کلماتِ دل پذیر ادا کیے اور جن پر عالمِ اسلام کے کئی مقتدر لوگوں نے تعریف و ستایش کے ڈونگرے برسائے ہیں، بلکہ یہاں پاکستانی اخبارات میں بھی اداریے لکھے گئے، حالاں کہ ان کلماتِ دلنشیں میں، ’جناب پوپ‘ کا ایک بیان یہ بھی تھا کہ: ’’فلسطینی اور یہودی دو ریاستوں کی بنیاد پر اپنے تنازعات حل کرلیں‘‘۔ یہ دو ریاستی فلسفہ سادہ الفاظ میں یہ ہے کہ فلسطینی اور مسلمانانِ عالم یہودی ریاست اسرائیل کو تسلیم کرلیں اور اسرائیلی، فلسطین نام کی ایک ریاست بناکر اسے تسلیم کرلیں۔ یہ فلسفہ جناب پوپ ہی نہیں ایہود باراک، ایہود اولمرٹ اور سیبی لیفنی سمیت متعدد حالیہ اور سابقہ ذمہ داران کئی بار دہرا چکے ہیں۔ ۱۹۹۳ء میں اوسلو معاہدے کی بنیاد بھی اسی فلسفے پر رکھی گئی تھی، لیکن اس فلسفے کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ اوسلو معاہدہ اور متعدد روڈمیپ آجانے کے ۱۶ برس بعد بھی یہ نہیں بتایا جا رہا کہ فلسطینی ریاست کی حدود کیا ہوں گی اور صہیونی ریاست کی سرحدیں کہاں جاکر رکیں گی۔ اگر غزہ اور مغربی کنارے کے کٹے پھٹے علاقے پر فلسطینی ریاست کی تہمت لگا کر کوئی سمجھتا ہے، کہ وہ کوئی مبنی برانصاف یا قابلِ قبول حل پیش کر رہا ہے تو بصد افسوس عرض ہے کہ وہ اپنے تمام تر مذہبی رتبے اور دعوی ہاے پارسائی کی توہین کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر رہا۔

باعث ِ تشویش امر یہ ہے کہ ایک طرف تو مسلم دنیا کو دو ریاستی فارمولے کے کھلونے سے بہلایا جا رہا ہے اور دوسری طرف انھی دنوں بیت المقدس میں ظلم و تعدّی کا نیا بازار گرم کیا جا رہا ہے۔ بیت المقدس کو مکمل یہودی شہر بنانے کے منصوبے پر ایک بار پھر پورے زوروشور سے کام شروع کردیا گیا ہے۔ اس وقت بھی بیت المقدس میں ۶۰ ہزار فلسطینی بستے ہیں۔ وہ خود کو مسجداقصیٰ کے محافظ و خادم سمجھتے ہیں۔ صہیونی ریاست نے بیت المقدس کو ہمیشہ اپنا ابدی دارالحکومت قرار دیا ہے۔ قیامت ِ غزہ کے بعد اب تہویدِ قدس کے نام سے ان ۶۰ ہزار فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کا آغاز کردیا گیا ہے۔ ایک ایک کرکے ان کے گھر چھینے جارہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ مسجداقصیٰ کو شہید کرکے وہاں نام نہاد ہیکل سلیمانی لاکھڑا کرنے کی نئی تاریخیں دی جارہی ہیں۔ مگر جناب پوپ کو  یہ چیخیں، ظلم کی داستانیں اور حق و انصاف کی پامالیوں پر مبنی اقدامات دکھائی نہیں دیتے۔

یہ پوپ ہوں یا صہیونی قیادت اور اس کے ناپاک ارادے ہوں، ان سے تو شکوہ نہیں کیا جاسکتا۔ اصل شکوہ تو مسلم دنیا کے حکمرانوں سے ہے۔ ۱۰ مئی کو نئے صہیونی وزیراعظم نتن یاہو نے خود بیماری کی اصل جڑ کی نشان دہی کردی۔ اس نے مصری صدر حسنی مبارک اور اُردنی شاہ عبداللہ سے ملاقات کے بعد بیان دیا کہ ’’صہیونیت کی تاریخ میں پہلی بار عربوں کے ساتھ ہمارا ایسا     وسیع تر اتفاق ہوا ہے کہ جس میں مشترکہ خطرات کی نشان دہی کی گئی ہے۔ یہ خطرہ ہم سب کے لیے باعث ِ تشویش ہے‘‘۔ وہ ایران کے ایٹمی پروگرام پر تبصرہ کر رہا تھا۔ اس سے پہلے اس کا وزیرخارجہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو عالمی امن کے لیے اصل خطرہ قرار دے چکا ہے۔

ہر آنے والا دن جعفر و صادق کے پردے میں چھپے غداروں کو بے نقاب کر رہا ہے۔ ۴سالہ فر.اس کی ماں صدمے کے باوجود، تدفین کے بعد کہہ رہی تھی: ’’فِراس زندہ ہے، وہ مجھے  اور مجھ جیسی کروڑوں مائوں کو جدوجہد کا پیغام دے رہا ہے، جدوجہد اور مسلسل جدوجہد ہی اصل علاج ہے‘‘۔

 

۲۹ مارچ کو ہونے والے ترکی کے بلدیاتی انتخابات کی بازگشت ابھی جاری تھی کہ ۹ اپریل کو انڈونیشیا کے عام انتخابات نے دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا لی۔ پھر اپریل کو الجزائر میں بھی صدارتی انتخابات کا رسمی اہتمام و غوغا دکھائی اور سنائی دیا، جس کے نتائج اکثر عرب ممالک کے معمول کے مطابق موجودہ صدر بوتفلیقہ کے حق میں نکلے۔ ۹۰فی صد ووٹ اپنے نام سے منسوب کرکے وہ اپنے تئیں آیندہ مزید پانچ برس کے لیے صدر منتخب ہوگئے۔

انھی دنوں کویت کے امیر نے ایک بار پھر پارلیمنٹ کی معطلی کے بعد ۱۶مئی کو نئے     عام انتخابات کا اعلان کردیا۔ یہ گذشتہ ۳ سالوں کے دوران چوتھے انتخابات ہیں۔ ہر بار اپوزیشن میں موجود مختلف اسلامی گروپوں کے افراد نے متعدد وزرا اور ذمہ دارانِ حکومت کے خلاف  تحریکاتِ مواخذہ پیش کیں اور انھیں مزید زیربحث آنے سے بچانے کے لیے پارلیمانی بحران کا آسان حل پارلیمنٹ کی تحلیل اور نئے انتخابات سمجھا گیا۔ انتخابات تو شاید پوری دنیا میں ہی پیسے کا کھیل بن گئے ہیں، لیکن کویت کے متمول معاشرے میں انتخابی اسراف میں مسابقت نے خود   اہلِ کویت کو بھی حیرت زدہ کر دیا ہے۔ یہ کثیر اخراجات اس کے باوجود ہیں کہ وہاں انتخاب میں اصل فیصلہ کن عنصر، پارٹیوں اور قبیلوں سے نسبت قرار پاتا ہے۔ اب تک کے تجربات کے مطابق آدھی سے زیادہ پارلیمانی نشستیں مختلف اسلامی دھڑوں کے حصے میں آتی ہیں جن میں سرفہرست ’دستوری تحریک‘ کے نام سے اسلامی تحریک اور سلفی و شیعہ دھڑوں کے افراد ہوتے ہیں۔ آیندہ انتخابات میں بھی کم و بیش یہی نتائج رہنے کی توقع ظاہر کی جارہی ہے البتہ چہرے شاید تبدیل ہوجائیں۔

انھی دنوں لبنانی انتخابات کا غلغلہ بھی عروج پر ہے۔ شیعہ، سنی اور عیسائی آبادیوں میں عمومی تقسیم کے باعث یہ انتخابات بھی علاقائی و عالمی توجہ حاصل کر رہے ہیں۔ اس کا اہم ترین سبب حزب اللہ ہے۔ حزب اللہ کی اہمیت کی وجہ اپنی منظم قوت کے علاوہ اس کے شام اور ایران سے مضبوط تعلقات، ماضی قریب میں رفیق حریری کی جماعت سے اور حال ہی میں مصر سے ہونے والے اختلافات و تنازعات بھی ہیں۔ مصر نے صحراے سینا سے کچھ لبنانی باشندوں کو گرفتار کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ یہ حزب اللہ کے دہشت گرد ہیں جو غزہ کو ہتھیار سمگل کرنے کے علاوہ    مصر میں بھی دہشت گردی پھیلانا چاہتے تھے۔

۱۶ اپریل سے شروع ہونے والے اور ۱۳مئی تک جاری رہنے والے بھارتی انتخابات بھی ذرائع ابلاغ میں خوب جگہ پا رہے ہیں۔ اگرچہ بی جے پی یا کانگریس اور ان کی حلیف جماعتوں میں سے کسی کی بھی کامیابی سے بھارت کی عمومی پالیسیوں میں عملاً کوئی خاص فرق رونما نہیں ہوتا لیکن ہار اور جیت کے بعض نفسیاتی اثرات ملک کے اندر اور باہر اہم سمجھے جاتے ہیں۔ ان انتخابات میں اندرا گاندھی کے پوتے رُوَن گاندھی کی مسلمان دشمنی پر مبنی ہرزہ سرائی نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعوے داروں کے حقیقی چہرے سے کچھ پردہ سرکایا ہے۔ مسلمانوں کو قابلِ گردن زدنی قرار دینے کے باوجود حرام ہے کہ اس ’گاندھی زادے‘ کو لگام دینے اور کروڑوں بھارتی مسلمانوں کو احساس تحفظ دینے کے لیے سب سے بڑی جمہوریت نے کوئی بھی مؤثر کارروائی کی ہو۔ البتہ ان انتخابات کی ایک اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں میں ووٹ دینے کی اہمیت کا احساس بڑھا ہے، اگر مؤثر و معقول قیادت اور باہمی یک جہتی بھی نصیب ہوجائے تو کسی کو دھمکیاں دینے کی ہمت نہ ہو۔

انتخابی موسم میں ۶ جون کو ہونے والے موریتانیا کے صدارتی انتخابات کا ذکر اس حوالے سے دل چسپ ہے کہ چند ماہ قبل ایک منتخب حکومت کا تختہ اُلٹ کر برسرِاقتدار آنے والے جنرل  محمد بن عبدالعزیز نے فوجی وردی اُتارنے کا اعلان کردیا ہے۔ اس وقت ملک پر ایک فوجی کونسل کا اقتدار مسلط ہے۔ جنرل صاحب خود اس کے سربراہ تھے۔ اب اگرچہ استعفا دے کر سینیٹ کے سربراہ کو دو ماہ کی عبوری حکومت سونپنے کا اعلان کیا گیا ہے لیکن فوجی کونسل کا وجود باقی رہے گا۔ اب اس کی ذمہ داری ملک میں امن و امان برقرار رکھنا قرار دی گئی ہے۔ اسی کے زیرسایہ ۶جون کے انتخابات ہوں گے تاآنکہ ریٹائرڈ جنرل صاحب عوام کے پُرزور اصرار اور شاید اِسی ۹۰ فی صد والے تناسب سے کامیاب ہوکر منتخب ’سویلین‘ صدر ہوجائیں۔

۱۲ جون کو منعقد ہونے والے ایرانی صدارتی انتخابات کی تیاریاں بھی جاری ہیں، لیکن ابھی اس کا ناک نقشہ پوری طرح واضح نہیں ہوا۔ امیدواروں کے ناموں کے حوالے سے متضاد اطلاعات آرہی ہیں البتہ ایک بات طے شدہ لگتی ہے کہ ایران میں اصل حکمران طاقت یعنی   علماے کرام، رہبر آیت اللہ علی خامنہ ای کی سربراہی میں اپنا سفر اسی نفوذ و ثبات کے ساتھ جاری رکھیں گے۔ امریکی صدر اوباما کی طرف سے ایران کے ساتھ بات چیت اور اچھے تعلقات کی خواہش پر مبنی بیانات نے ایرانی قیادت کو مزید توانائی فراہم کی ہے۔ حماس و حزب اللہ کی تائید اور اسرائیل کی مخالفت سے بھی پذیرائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ان تمام انتخابات میں ترکی کے بلدیاتی اور انڈونیشیا کے پارلیمانی انتخابات اس لحاظ سے خصوصی اہمیت کے حامل ہیں کہ دونوں ممالک میں اسلامی طاقتوں نے اپنے قدم مزید آگے بڑھائے ہیں۔ ترکی کی حکمران، ’انصاف و ترقی (جسٹس و ڈویلپمنٹ) پارٹی‘ کو ووٹوں کا ۳۹ فی صد حصہ    ملا ہے اور تمام بڑے شہروں سمیت بلدیاتی اداروں کا ۴۶ فی صد۔ ان کے یہ ووٹ عام انتخابات میں انھیں ملنے والے (۴۷ فی صد) ووٹوں سے کم ہیں لیکن وہ اپنے تئیں مطمئن نہ ہونے کے باوجود سمجھتے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات میں عام طور پر ووٹ زیادہ تقسیم ہوجاتے ہیں اور قومی سے زیادہ مقامی سیاست اور تعلقات اثرانداز ہوتے ہیں۔

دوسری طرف پروفیسر ڈاکٹر نجم الدین اربکان کی ’سعادت پارٹی‘ نے پارٹی کے نئے صدر ڈاکٹر نعمان کور تلموش کی سربراہی میں لڑے جانے والے انتخابات میں عام انتخابات میں حاصل ہونے والے ۳ فی صد ووٹوں میں ۱۰۰ فی صد اضافہ کرتے ہوئے ۶ فی صد ووٹ حاصل کیے ہیں۔ ان کے بقول یہ ووٹ ہماری توقعات سے کم ہیں لیکن پھر بھی دگنے تو ہوگئے، آیندہ عام انتخابات میں ہم بہرصورت اسمبلی میں اپنا کردار ادا کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ واضح رہے کہ پارلیمانی انتخابات میں ۱۰ فی صد سے کم ووٹ لینے والی پارٹی کے ووٹ بھی بڑی پارٹیوں میں تقسیم کرتے ہوئے اسے اسمبلی میں جانے سے روک دیا جاتا ہے۔

عین انتخابات کے دنوں میں ناٹو کے نئے سربراہ کا انتخاب بھی ہوگیا جس کے لیے ڈنمارک کے وزیراعظم اینڈرس فوگ راسموسن کا نام پیش کیا گیا تھا۔ ترکی نے اس کے نام پر اعتراض کیا لیکن امریکی و یورپی اصرار پر اسی کو سیکرٹری جنرل بنا دیا گیا، البتہ ترکی کو اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل کا عہدہ دے دیا گیا جو یقینا راسموسن کے شر کو کم کرنے اور ترکی کے کردار میں اضافے کا ذریعہ بنے گا۔ واضح رہے کہ سیکرٹری جنرل کے انتخاب کے لیے ناٹو کے تمام ۲۸ ارکان کا اجماع ضروری ہے۔ منتخب ہونے کے بعد راسموسن نے بیان دیا ہے کہ وہ مسلمانوں کا احترام کرتا ہے اور ان سے مذاکرات کرے گا۔ بلدیاتی انتخابات کے فوراً بعد امریکی صدر اوباما نے ترکی کا اہم دورہ کیا۔ اس دورے کی بازگشت کئی ہفتوں سے سنی جارہی تھی اور کہا جا رہا تھا کہ امریکی صدر عالمِ اسلام بلکہ اُمت مسلمہ کو اہم پیغام دے گا۔ صدر منتخب ہونے کے بعد ان کا کسی بھی مسلم ملک کا یہ پہلا دورہ تھا۔ اوباما نے ترکی میں وزیراعظم اردگان کے ہمراہ تاریخی مساجد اور عثمانی آثار کا دورہ یا ’سیر‘ کرتے ہوئے عالمِ اسلام سے دوستی کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔ انھوں نے کہا کہ میں واضح طور پر اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ امریکا عالمِ اسلام کے ساتھ حالت ِ جنگ میں نہیں ہے… ہم باہمی احترام اور مشترک مفادات کی بنیاد پر وسیع تر تعاون کی راہ نکالیں گے۔ ہم دھیان سے بات سنیں گے،  غلط فہمیوں کا ازالہ کریں گے اور مشترکات کی تلاش جاری رکھیں گے‘‘۔ خدشہ ہے کہ خلافت عثمانی کے دارالحکومت سے دیے گئے یہ بیانات نقش برآب ثابت ہوں گے کیونکہ اصل فیصلہ اقوال نہیں اعمال کی بنا پر ہوتا ہے۔

انڈونیشیا کے حالیہ انتخابات جولائی ۱۹۹۸ء میں صدر سوہارتو کے ۳۲ سالہ اقتدار کے خاتمے کے بعد تیسرے عام انتخابات تھے۔ ۳۸ چھوٹی بڑی پارٹیوں اور گروہوں نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے ۱۸ لاکھ امیدوار میدان میں اُتارے تھے۔ ۱۷ کروڑ ووٹروں کو ووٹ کا حق حاصل تھا۔ تجزیہ نگاروں نے پانچ سیاسی پارٹیوں کو فیصلہ کن قوتیں قرار دیا تھا، نتائج کے بعد اکانومسٹ کے مطابق جیتنے والا صرف ایک تھا اور ہارنے والے کئی۔ موجودہ صدر (ریٹائرڈ جنرل) سوسینو بامبانگ یودھویونو کی ’ڈیموکریٹک پارٹی‘ ۲۰ فی صد ووٹ لے کر سب سے بڑی قوت بن گئی۔ ۲۰۰۴ء میں ہونے والے انتخابات کی نسبت اس پارٹی کے ووٹ ۳ گنا زیادہ ہوگئے۔ میگاوتی سوئیکارنو پتری کی پارٹی نے ۱۵ فی صد، جب کہ سابق صدر سوہارتو کی ’گولکر پارٹی‘ کے موجودہ سربراہ اور ملک کے حالیہ نائب صدر یوسف کالا نے ۱۴ فی صد ووٹ حاصل کیے۔ نائب صدر آیندہ صدارتی انتخابات میں صدر سوسینو کے مدمقابل صدارتی امیدوار بننے کی کوشش کر رہے ہیں، جب کہ چوتھے نمبر پر وہاں کی اسلامی تحریک ’جسٹس پارٹی‘ آئی ہے، اسے ۴ء۸ فی صد ووٹ حاصل ہوئے۔

انتخابات کے باقاعدہ نتائج کا اعلان ۹مئی کو ہوگا۔ ابھی تک صرف یہی تناسب بتانے پر اکتفا کیا گیا ہے، سیٹوں کی تعداد بعد میں ہی بتائی جائے گی۔ جسٹس پارٹی نے سوہارتو کی ۳۲ سالہ طویل ڈکٹیٹرشپ کے بعد ۱۹۹۹ء کے انتخابات میں پہلی بار شرکت کی اور ۴ء۱ فی صد ووٹ حاصل کیے۔ پھر ۲۰۰۴ء کے انتخابات میں ۳ء۷ فی صد ووٹ لیے اور اب ۴ء۸ فی صد۔ پارٹی کے سربراہ ہدایت نور وحید کے مطابق جو گذشتہ پارلیمنٹ کے اسپیکر اور انتہائی قابلِ احترام شخصیت ہیں، ووٹوں کی نسبت سیٹوں کی تعداد میں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ملک کی چالیس سے زائد پارٹیوں میں جسٹس پارٹی ہی واحد جماعت ہے جس کے ارکان اور ذمہ داران پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے۔ اسلامی پارٹیاں کہلانے والی جماعتوں کے کل ووٹ گذشتہ انتخابات کی نسبت کافی کم ہوئے ہیں۔ گذشتہ بار انھیں ۳۹ فی صد ووٹ ملے تھے جب کہ اب تقریباً ۳۰ فی صد۔ مجموعی کمی کے باوجود ’عدالت پارٹی‘ کو نہ صرف یہ کہ کوئی نقصان نہیں ہوا بلکہ اس کی سیٹوں اور ووٹوں میں اضافہ ہوا ہے۔

اب آیندہ مرحلے میں صدارتی انتخاب ہونا ہیں، نئے نئے اتحاد وجود میں آرہے ہیں۔ قوانین کے مطابق ہر صدارتی امیدوار کے لیے کسی نہ کسی ایسی پارلیمانی جماعت یا اتحاد کے ساتھ اتحادبنانا ضروری ہے جو ۵۶۰ ارکان کے ایوان میں کم از کم ۱۲ نشستیں رکھتا ہو۔ عام انتخابات کے بعد ہونے والی ملاقاتوں اور کئی بیانات سے یہ امکان قوی تر ہو رہا ہے کہ صدر سوسینو کی ڈیموکریٹک پارٹی اور اسلامی تحریک جسٹس پارٹی کے درمیان انتخابی اتحاد وجود میں آجائے۔ خود صدر کی طرف سے بار بار اس خواہش کا اظہار کیا گیا ہے، لیکن جسٹس پارٹی کے سربراہ ہدایت نور وحید نے ایک پالیسی بیان میں کہا ہے کہ سیاسی اتحاد صرف سرکاری مناصب کی تقسیم کے لیے نہیں، بلکہ اس بنیاد پر بننا چاہیے کہ جیتنے والا اپنے اعلان کردہ پروگرام اور منشور پر عمل درآمد کرسکے، ووٹروں کے اعتماد پر پورا اُتر سکے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہم چند ووٹوں کے فرق سے جیتنے والے صدر کے بجاے مضبوط بنیادوں پر قائم اور مضبوط ارادوں کا مالک صدر چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ماضی کے ایسے تجربات دوبارہ نہ دہرائے جاسکیں کہ کسی بھی چھوٹے سے سیاسی مسئلے کو بنیاد بناکر صدر اور نائب صدر کو اپنے پروگرام پر عمل درآمد نہ کرنے دیا جائے۔ حالیہ انتخابی نتائج بعض لوگوں کے لیے انتہائی غیرمتوقع ثابت ہوئے۔ ایک سیاسی لیڈر نے تو حرام موت ہی کا انتخاب کرلیا اور خودکشی کی نذر ہوگیا جب کہ دو کے لیے دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوا۔

انڈونیشیا کو بھی اگست ۱۹۴۷ء ہی میں ہالینڈ کے استعمار سے آزادی حاصل ہوئی تھی۔ تقریباً ۲۴ کروڑ نفوس پر مشتمل ہونے کے باعث آبادی کے لحاظ سے دنیا میںچوتھے اور عالمِ اسلام میں پہلے نمبر پر آنے والا انڈونیشیا، ڈکٹیٹرشپ اور مالی بدعنوانیوں کے باعث دنیا میں اپنا اصل مقام حاصل نہیں کر سکا۔ ۹۰ فی صد آبادی مسلمان ہے، ۷ فی صد عیسائی، ۲ فی صد ہندو اور ایک فی صد دیگر مذاہب سے ہیں۔ سوہارتو سے نجات کے بعد لگاتار تیسرے انتخاب منعقد ہوجانا اور بدعنوانیوں سے نجات کے مطالبے کا مرکزی حیثیت حاصل کر جانا اِس اُمید کو روشن تر کر رہا ہے کہ انڈونیشیا اپنے وسیع رقبے (ایک لاکھ ۹۱ ہزار ۹ سو ۴۰ مربع کلومیٹر)، بڑی آبادی اور کرپشن سے نجات کی دعوے دار اصلاحی تحریکوں کی کامیابی سے دنیا میں اپنا حقیقی کردار ادا کرسکے گا۔

حالیہ انتخابات سے پہلے ’کرپٹ لیڈروں کے خلاف قومی تحریک‘ کے عنوان سے ایک نمایاں سرگرمی سامنے آئی۔ جماعتی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر وجود میں آنے والے اس پلیٹ فارم نے ان لیڈروں کی فہرست تیار کی جن کی کرپشن کے باقاعدہ ثبوت ان کے پاس تھے۔ اس فہرست کو بڑے پیمانے پر عوام میں پھیلایا گیا۔ اس تحریک کے ایک ذمہ دار عدنان توبان نے رائٹر سے گفتگو میں کہا کہ ’’ہمارا مقصد ایسے افراد کو دوبارہ پارلیمنٹ جانے سے روکنا ہے جو ماضی میں اپنے دامن کو بدعنوانی سے نہیں بچاسکے‘‘۔ ایک سابق وزیر کے بقول: ’’اب حکومت اور عوام کے ساتھ ساتھ خود سیاسی پارٹیوں کی اصلاح کا وقت بھی آگیا ہے‘‘۔

عالمی انتخابی موسم میں عوام کا یہ روز افزوں احساسِ زیاں اطمینان کا باعث ہے۔ ترکی کے بعد انڈونیشیا کے انتخاب نے بھی اس حقیقت کو نمایاں کیا ہے کہ اگر پُرامن، شفاف، آزادانہ اور مسلسل انتخابات کا عمل جاری رکھا جائے تو نہ صرف تعمیر و ترقی اور اصلاح کو یقینی بنایا جاسکتا ہے بلکہ بہت سے ناقابلِ فہم، جلدباز اور لٹھ مار رجحانات کا راستہ بھی روکا جاسکتاہے جو نہ صرف اسلامی تعلیمات کا چہرہ مسخ کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں بلکہ اُمت کی وحدت و سالمیت کو بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔

سچ فرمایا رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے: ’’جلدبازی کے لٹھ سے سواری کو ہلاک کرڈالنے والے نے نہ تو منزل حاصل کی اور نہ اپنی سواری ہی باقی رہنے دی‘‘۔ ان المنبت لا أرضاً قطع ولا ظھراً أبقی۔

 

فلسطین کے حوالے سے ایک عالمی کانفرنس میں تقریباً تمام اسلامی تحریکوں کے ذمہ داران اور قائدین بھی شریک تھے۔مختلف امور پر تفصیل سے گفتگو کے لیے محترم قاضی حسین احمد کے کمرے میں الگ سے نشست رکھی گئی۔ دیر تک تبادلۂ خیال رہا۔ اچانک اخوان المسلمون کے مرکزی نائب مرشد عام ڈاکٹر حسن ہویدی حماس کے سربراہ خالد مشعل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگے: ’’میں کافی دیر سے دیکھ رہا ہوں کہ ہماری ساری گفتگو کے دوران جب بھی موقع ملتا ہے، ابوالولید (خالدمشعل کی کنیت) کوئی تسبیح یا ذکر کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم سب کو کوشش کرنا چاہیے کہ ہم بھی اپنی زبانوں کو زیادہ سے زیادہ ذکر وتسبیح سے معطر رکھیں‘‘۔ للہیت، اُمت کے درد اور اقامت دین کے جذبے سے سرشار ___ یہ تھے اخوان المسلمون کے مرکزی نائب مرشدعام ڈاکٹر حسن ہویدی جن کا قضاے الٰہی سے ۱۲مارچ ۲۰۰۹ء کو انتقال ہوگیا۔ اناللّٰہ وانا الیہ رٰجعون!

حسن ہویدی ۱۹۲۵ء کو شام میں پیدا ہوئے، دمشق ہی سے ایم بی بی ایس کیا۔  زمانۂ طالب علمی ہی میں اخوان سے وابستگی ہوگئی۔ اخوان کے قائدین خاص طور پر مصطفی سباعی سے اکتساب فیض کیا اور پھر طب کے پیشے کو خیرباد کہہ کر تحریک ہی کے لیے وقف ہوگئے۔ ۱۹۶۷ء اور ۱۹۷۳ء میں گرفتار ہوئے اور تعذیب و مشقت سے دوچار کیے گئے۔ آخرکار ملک بدری پر   مجبور ہوئے، آخری سانس تک وطن واپس نہ لوٹ سکے اور ۱۲ مارچ بروز جمعرات شام کے پڑوس میں واقع مملکت اُردن میں رب کے پاس پہنچ گئے۔ رب ذوالجلال ان کی قبر نور سے بھر دے ۔ ان کی حسنات کو صدقۂ جاریہ بناتے ہوئے اور اصلاح و انقلاب کے لیے ان کی مساعی کو کامیابی کی منزل تک پہنچاتے ہوئے ان کی روح کو آسودہ فرمائے۔ آمین!

ڈاکٹر حسن ہویدی للہیت کا پرتو تھے۔ مرحوم کی وصیت میں بھی اس کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ اس کا کچھ حصہ پیشِ خدمت ہے۔ واضح رہے کہ یہ وصیت انھوں نے اپنی وفات سے ۴ برس قبل  تیار کر چھوڑی تھی، گویا تب ہی سے اپنے رب سے ملاقات کا انتظار تھا… تیاری مکمل تھی:

میری وصیت ہے کہ میری وفات کے وقت (ممکنہ حد تک) صرف وہی افراد میرے پاس ہوں جو آپ کے نزدیک نیک لوگوں میں شمار ہوتے ہوں۔ وہ مجھے اپنے رب کے بارے میں اچھا گمان رکھنے کی تلقین کریں، مجھے اس کی رحمت و مغفرت سے اچھی اُمیدیں رکھنے کی تلقین کریں، مجھے کلمہ طیبہ ادا کرنے کا کہیں تاکہ دنیا سے جاتے ہوئے میرے آخری الفاظ یہی ہوں کہ: لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ!

جب روح پرواز کر جائے تو وہ میری آنکھیں بند کرتے ہوئے میرے لیے کلمۂ خیر کہیں، کیونکہ میت کے پاس جو کچھ بھی کہا جائے فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں۔

میں اپنے تمام احباب سے عفو و درگزر کی درخواست کرتا ہوں۔ میرے علم کی حد تک مجھ پر کسی کا کوئی قرض نہیں ہے۔ ہاں البتہ دفتر کے بعض امور میں تقدیم و تاخیر کے حوالے سے کوئی چیز ہو تو انھیں ریکارڈ اور کھاتوں کے مطابق دیکھ لیا جائے تاکہ میں کسی کا کوئی بوجھ لے کر نہ جائوں۔

میری یہ بھی وصیت ہے کہ میرا کفن میرے ہی پیسوں سے خریدا جائے اور مجھے غسل دینے والے نیکوکار لوگ ہوں۔ جس ملک میں میرا انتقال ہو، مجھے وہیں دفن کردیا جائے۔ میری آرزو تو یہی ہے کہ پروردگار! میری وفات کا وقت حبیب مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے جوار میں لائے۔ میری قبر پر کوئی عمارت نہ بنائی جائے اور نہ اسے پختہ ہی کیا جائے۔

میری اپنے تمام بیٹوں اور بیٹیوں کو وصیت ہے کہ وہ اپنی والدہ سے نیک برتائو رکھیں، سب مل کر ہمیشہ نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے سے تعاون کریں، باہم جھگڑوں اور اختلافات سے  دُور رہیں، ہمیشہ صلۂ رحمی کریں اور اپنے سسرالیوں سے خیروبھلائی کا برتائو کریں اور مجھے بھی    اپنی دعائوں اور تلاوت سے محروم نہ رکھیں۔

                اللہ کی رحمتوں کا محتاج

                شعبان ۱۴۲۶ھ                               حسن ہویدی

 

سوڈان کے بارے میں مغرب کے عزائم کوئی خفیہ راز نہیں۔ وہی مغرب جسے غزہ میں انسانی حقوق کی پامالی، جارحیت، قتل و غارت، سفاکی و بے رحمی کچھ نظر نہیں آتا، دارفور میں ایسا کچھ نہ ہونے پر بھی، تمام عالمی اداروں کو حکومتِ سوڈان کے خلاف صف آرا کردیتا ہے۔ اقوامِ متحدہ نے ۲۰۰۴ء سے لے کر اب تک پوری ۱۱قراردادیں منظورکرڈالیں کہ حقوقِ انسانی کی صورت حال خراب ہے۔ سیکورٹی کونسل نے ۲۰۰۵ء میں اپنی قرارداد نمبر ۱۵۹۳ کے ذریعے یہ معاملہ عالمی  عدالتِ جرائم میں بھیج دیا۔ ۱۴ جولائی ۲۰۰۸ء کو اٹارنی جنرل اوکامبو نے یہ الزام لگاتے ہوئے کہ ’’سوڈانی باشندے وزیر انسانی امور احمد محمد ہارون اور جنجا وید ملیشیا کے سربراہ علی قشیب دارفور میں قتلِ عام کے اصل ذمہ دار ہیں اور سوڈانی صدر انھیں ہمارے حوالے نہیں کر رہے، مطالبہ کیا کہ خود صدر کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کیے جائیں۔ ۴ مارچ ۲۰۰۹ء کو عدالت نے خود صدرعمرالبشیر ہی کو اس قتلِ عام کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے باقاعدہ وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔ اب اوکامبو کا کہنا ہے کہ جیسے ہی سوڈانی صدر ملک سے باہر نکلے گا انھیں گرفتار کرلیا جائے گا۔ امریکا اور فرانس نے بھی اس بارے میں بڑھ چڑھ کر دھمکیاں دی ہیں۔

دارفور کا بحران آخر ہے کیا؟عرب اور افریقی قبائل کے درمیان چراگاہوں کے مسئلے پر جھگڑا ہوا جسے فتنہ جو طاقتوں نے ہوا دے کر حکومت کے خلاف بغاوت کی شکل دی۔ تحریکِ آزادیِ سوڈان قائم کی جسے ہر طرح کی پشت پناہی اور مدد فراہم کی گئی۔ اس کے اسرائیل سے باقاعدہ روابط قائم ہیں۔ عالمی سطح پر بے بنیاد پروپیگنڈے کے ذریعے عمرالبشیر کو مجرم قرار دلوانے کی کوشش کی گئی۔

سوڈان کے دوست اور دشمن سب جانتے ہیں کہ یہ کوئی عدالتی نہیں، سراسر سیاسی مسئلہ ہے اور اصل ہدف سوڈانی صدر نہیں، سوڈان کی ریاست ہے۔ جس عدالت سے وارنٹ جاری کیے گئے ہیں اس کی تشکیل کے وقت دو باتیں طے کی گئیں: ایک تو یہ کہ یہ عدالت اپنی تاریخِ تشکیل (یکم جولائی ۲۰۰۲ء) سے پہلے کے واقعات کے بارے میں خاموش رہے گی۔ دوسرے یہ کہ جو ممالک اس عدالت کی تشکیل کی دستاویز پر دستخط اور ان دستخطوں کی توثیق نہیں کریں گے، عدالت ان ممالک کے بارے میں بھی کوئی مقدمہ نہیں سن سکے گی۔ یہی وجہ تھی کہ حال ہی میں ۴۰ سے زائد عراقی درخواست گزاروں نے عراق میں ہونے والے قتلِ عام اور ابوغُرَیب کے واقعات کے بارے میں مقدمہ درج کروانے کی کوشش کی تو اٹارنی جنرل اوکامبو نے یہ کہہ کر درخواستیں مسترد کردیں کہ عراق نے عدالت کو تسلیم ہی نہیں کیا اس لیے وہاں کا کوئی مقدمہ نہیں سن سکتے۔ یہی جواب غزہ کے بارے میں دی جانے والی درخواستوں کا بھی دیا گیا کہ اسرائیل نے عدالت کو تسلیم نہیں کیا۔ لیکن جب پوچھا گیا کہ سوڈان نے بھی تو اس عدالت کو تسلیم نہیں کیا…؟ (No comments) ،اس پر کوئی تبصرہ نہیں۔

یہ ہے عالمی عدالت کے انصاف اور انسان دوستی کی حقیقت! اس کے اٹارنی جنرل لوئیس مورینو اوکامبو نے یہ سارا بحران کھڑا کرنے اور ایک مسلمان حکمران کے خلاف مقدمہ قائم کرنے کے لیے اتنی زحمت بھی گوارا نہیں کی کہ خود دارفور جاکر حقائق و شواہد کا جائزہ لیتا۔ اس نے صرف بعض غیرسرکاری تنظیموں این جی اوز اور کچھ برسرِپیکار عناصر کی گواہیوں پر ہی مقدمے کی پوری عمارت کھڑی کر دی۔ ان ’عناصر‘ کی قلعی بھی خود صہیونی اخبارات کھول رہے ہیں۔

اس وارنٹ گرفتاری اور عالمی عدالت جرائم کے دائرۂ کار اور طریق کار کے بارے میں مزید کئی قانونی و اخلاقی پہلو بہت اہم ہیں، لیکن بنیادی طور پر چونکہ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اس لیے حکومت سوڈان بھی اسے سیاسی انداز ہی سے حل کر رہی ہے۔ ابھی تک سوڈان کی طرف سے    اس عدالت میں نہ کوئی پیش ہوا، نہ کسی طرح مقدمے کی پیروی ہی کی گئی ہے۔ ہاں دارفور کی  صورت حال کا سنجیدگی سے جائزہ لیتے ہوئے اصلاح احوال کی متعدد اہم کوششیں کی گئی ہیں۔ دارفور میں تعمیروترقی کے کئی منصوبے مکمل ہوچکے ہیں، مزید کئی پر کام جاری ہے۔ دارفور کے مختلف دھڑوں اور حکومت کے درمیان مذاکرات کے کئی ادوار ہوچکے ہیں۔ مختلف قبائل کے درمیان بھی مصالحت کروائی گئی ہے اور بعض اہم قبائل اور حکومت کے مابین بھی۔ اس ضمن میں اہم ترین کامیابی قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حکومت سوڈان اور دارفور کے بعض نمایاں متحارب دھڑوں کے درمیان بین الاقوامی گارنٹی کے ساتھ طے پانے والا معاہدہ ہے۔ ۴ مارچ کو وارنٹ گرفتاری آنے کے چار روز بعد ہی سوڈانی صدر شمالی دارفور کے دارالحکومت فاشر پہنچ گئے۔ لاکھوں کی تعداد میں اہلِ دارفور نے ان کا استقبال کیا۔ اگلے ہفتے وہ جنوبی دارفور کے شہر سبدو پہنچ گئے یہاں بھی ایسا ہی منظر تھا۔ عمرالبشیر نے ان اجتماعات میں اس عدالت اور اس کی پسِ پشت قوتوں کو مخاطب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ’’آپ کے وارنٹ کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہوں اور ان شاء اللہ اپنے عوام کے تعاون سے تعمیروترقی کا سفر جاری رکھوں گا‘‘۔ سوڈانی صدر نے ان اجتماعات ہی میں اعلان کرتے ہوئے ایسی کئی عالمی تنظیموں کو سوڈان سے نکل جانے کا حکم دیا جو ان کے بقول امدادی سرگرمیوں کے لیے نہیں، جاسوسی کے لیے آئی ہوئی تھیں۔ ان کے اس اعلان پر سب سے زیادہ ہنگامہ ہیلری کلنٹن نے برپا کیا‘‘۔

اسرائیلی داخلی سلامتی کے وزیر ’آفی ڈیخٹر‘ بغیر کسی لاگ لپٹ کے واضح طور پر کہہ چکے ہیں: ’’ہمارا ہدف سوڈان کے حصے بخرے کرنا اور وہاں خانہ جنگی کی آگ بھڑکائے رکھنا ہے، کیونکہ سوڈان اپنی وسیع و عریض سرزمین، بے تحاشا معدنی و زرعی وسائل اور بڑی آبادی کے ذریعے ایک طاقت ور علاقائی قوت بن سکتا ہے۔ سوڈان کے ہم سے دُور دراز ہونے کے باوجود عالمِ عرب کی قوت میں اضافے کا سبب نہیں بننے دینا چاہیے۔ اگر سوڈان میں استحکام رہا تو وہ اپنے وسائل کے ذریعے ایسی قوت بن جائے گا جس کا مقابلہ ممکن نہیں رہے گا۔ سوڈان سے اس کی یہ صلاحیت سلب کرلینا اسرائیلی قومی سلامتی کی ایک ناگزیر ضرورت ہے‘‘۔(۱۰ اکتوبر ۲۰۰۸ء کے اسرائیلی اخبارات)

اسرائیلی وزیر نے تاریخ سے ایک حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’’۱۹۶۸ء سے ۱۹۷۰ء کے دوران جب مصر اور اسرائیل حالت ِ جنگ میں تھے تو سوڈان نے مصری فضائیہ کی اصل قوت اور بری افواج کے تربیتی مراکز کے لیے اپنی سرزمین فراہم کی تھی۔ اس صورت حال کے اعادے سے بچنے کے لیے اسرائیلی ذمہ داران کا فرض تھا کہ وہ سوڈان کے لیے ایسی مشکلات کھڑی کریں جن سے نکلنا اس کے لیے ممکن نہ رہے‘‘۔ وزیرداخلی سلامتی کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے سوڈان کے پڑوسی ممالک ایتھوپیا، یوگنڈا، کینیا اور زائیر میں سوڈان مخالف مراکز قائم کیے، اور اسرائیل کی تمام حکومتوں نے ان مراکز کو فعال رکھا ہے تاکہ سوڈان عالمِ عرب اور عالمِ افریقہ میں کوئی مرکزی حیثیت نہ حاصل کرسکے۔

اسی ترنگ میں دارفور کا ذکر کرتے ہوئے آفی ڈیخٹر کہتا ہے: ’’دارفور میں ہماری موجودگی ناگزیر تھی۔ یہ سابق اسرائیلی وزیراعظم شیرون کی دوربینی اور افریقی معاملات پر دسترس تھی کہ اس نے دارفور میں بحران کھڑا کرنے کی تجویز دی۔ ان کی تجویز پر عمل کیا گیا، عالمی برادری خاص طور پر امریکا و یورپ نے ساتھ دیا اور بالکل انھی وسائل، ذرائع اور اہداف کے مطابق دارفور میں ’کام شروع ہوگیا‘ جو ہم نے تجویز کیے تھے۔ آج یہ امر ہمارے لیے باعث ِ تشفی ہے کہ دارفور کے بارے میں ہمارے طے شدہ اہداف و مقاصد اب تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں‘‘۔

دھمکیوں اور سازشوں کے سامنے ہتھیار ڈال دینا تباہی کا سفر تیز کردیتا ہے۔ اپنے حق پر ڈٹ جانا اور اپنی آزادی و وحدت کا ہر ممکن قوت سے دفاع کرنا ہی راہِ نجات ہے۔ سوڈانی صدر اور عوام نے یہی راستہ اختیار کیا ہے۔ وارنٹ جاری ہونے کے بعد اوکامبو نے دھمکی دی تھی کہ سوڈانی صدر بیرون ملک گئے تو گرفتار کرلیے جائیں گے۔ ۲۸مارچ کو دوحہ میں عرب لیگ کا سربراہی اجلاس ہو رہا ہے۔ سوڈانی صدر نے سب سے پہلے اعلان کیا ہے کہ میںوہاں ضرور جائوں گا۔ اس اعلان پر خود سوڈان میں بھی ایک راے یہ پائی جاتی ہے کہ وہاں نہ جایا جائے۔ علماکی ایک تنظیم نے فتویٰ جاری کر دیا ہے کہ اس وقت سفر خلافِ مصلحت ہے لیکن سوڈانی صدر ۲۸ مارچ کا انتظار کیے بغیر ۲۳مارچ ہی کو اریٹریا کی دعوت قبول کرتے ہوئے وہاں کے دارالحکومت اسمرہ پہنچ گئے تاکہ دنیا کو بھی ایک پیغام دیں اور اپنے عوام کو بھی نفسیاتی مخمصے سے نجات دلائیں۔

ابھی اس بحران کی بوتل سے صہیونی اشاروں پر بہت کچھ برآمد ہونے کی توقع ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ مسلمان ممالک اور اُمت ِ مسلمہ اس عالمی توہین کا کیا بدلہ لیتی ہے۔ اگر مسلمان ممالک نے افغانستان و عراق کی تذلیل کی طرح یہ اہانت بھی برداشت کر لی تو پھر یقینا ایک ایک کرکے سب کی باری آئے گی۔