عبد الغفار عزیز


’’میں اور یوسف قرضاوی صاحب جامعہ ازہر کے ایک ہی اسکول کی جماعت نہم میں پڑھتے تھے۔ ایک روز ہم چھٹی کے وقت اسکول کے بڑے دروازے سے باہر نکلے تو سامنے ’اخوان اسکائوٹس‘ کے نوجوان نعرے لگا رہے تھے: ’’اللہ ہمارا مقصود ہے، رسول ہمارے رہبر و رہنما ہیں، قرآن ہمارا دستور ہے، جہاد ہمارا راستہ ہے، اور اللہ کی راہ میں موت ہماری سب سے بڑی آرزو ہے۔ پاس ہی ایک گاڑی سے اعلان کیا جا رہا تھا کہ آج رات مرشدعام حسن البنا خطاب فرمائیں گے، شرکت کی اپیل کی جاتی ہے۔ ہم دونوں تیزتیز قدموں سے گاڑی کے پیچھے ہی چلنا شروع ہوگئے۔ گاڑی اخوان المسلمون کے دفتر کے سامنے جاکر رُک گئی۔ ہم نے پروگرام کی تفصیل دریافت کی تو معلوم ہوا کہ امام البنا بھی اسی دفتر میں موجود ہیں۔ وہ اسی وقت پہنچے تھے۔ ہم دونوں نے سلام عرض کیا، انھوں نے نہ صرف شفقت کا اظہار کیا بلکہ تھوڑی دیر کے بعد کھانے میں بھی شریک ہونے کے لیے کہا۔ یہ امام البنا سے ہماری پہلی ملاقات اور الاخوان المسلمون سے ہمارا پہلا تعارف تھا!‘‘

بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد کے سابق سربراہ اور مصر کے اعلیٰ پائے کے  عالم و مربی ڈاکٹر احمد العسَّال راقم کو اپنی زمانۂ طالب علمی اور اخوان سے وابستگی کی یادیں سنا رہے تھے۔ آج ہمارے یہ انتہائی محترم و محسن مربی ۸۲ سال کی عمر میں اللہ کو پیارے ہوگئے تو ان سے وابستہ ایک ایک بات یاد آنے لگی۔ ڈاکٹر احمد العسَّال مرحوم سے راقم کا پہلا تعارف دورانِ تعلیم ہوا تھا۔ قطر کے معہد دینی میں تفسیر و حدیث کی اکثر نصابی کتابوں پر مؤلف کا نام احمدالعسَّال لکھا ہوا تھا۔ تب ان کے بارے میں صرف یہی معلوم تھا کہ جامعۃ ازہر کے بڑے عالم دین ہیں، جو دین کا واضح اور جامع تصور رکھتے اور بہت مؤثر و آسان انداز سے طلبہ کو سمجھانے کا ملکہ رکھتے ہیں۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد پاکستان آیا تو کچھ عرصے کے بعد، اسلام آباد میں پروفیسر خورشیداحمد صاحب کے ہاں ڈاکٹرصاحب سے پہلی ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ پھر ملاقاتوں کا ایک تسلسل رہا اور   ان سے کسب ِ فیض کا سلسلہ بھی۔ ان سے آخری ملاقات چند ماہ قبل علامہ یوسف القرضاوی کی زیرسرپرستی قائم ہونے والے عالمی اتحاد العلما کی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں ہوئی۔ اخوان اور امام البنا سے اپنی یادوں کا تذکرہ مرحوم نے اسی آخری ملاقات میں کیا تھا۔

احمد العسَّال (مرحوم) ۱۶ مئی ۱۹۲۸ء کو مصر کے ضلع غربی بسیون کے ایک گائوں میں پیدا ہوئے۔ تقریباً ۱۰ سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کرلیا جس پر انھیں شاہ فاروق میڈل ملا جو ۱۲سال سے کم عمر میں قرآن حفظ کرنے والوں کو دیا جاتا تھا۔ حفظ قرآن کے دوران ہی میں پرائمری کا امتحان بھی پاس کر لیا تھا۔ مختلف تعلیمی مراحل سے گزرتے ہوئے وہ جب جامعہ ازہر کی زیرنگرانی چلنے والے معہد دینی میں پہنچے تو وہاں (علامہ) یوسف القرضاوی ان کے ہم جماعت تھے۔

ڈاکٹر احمد العسَّال فرما رہے تھے: ’’معہد میں اخوان کے مکتب ارشاد (مجلسِ عاملہ) کے ایک رکن جناب بہی الخولی بھی پڑھاتے تھے۔ انھوں نے ہم دونوں (عسال،قرضاوی) سے ہرہفتے اتوار اور منگل کو ملاقات کا وقت طے کر دیا۔ پھر ہم گویا ان کی زیرتربیت اور ان کا ربط تھے۔ میں ۲۰سال کا تھا کہ ۱۹۴۸ء میں اخوان المسلمون کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔ ہم طلبہ نے اس پابندی کے خلاف مظاہرہ کیا تو شیخ یوسف القرضاوی اور مجھ سمیت کئی ساتھیوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ یہ ہماری پہلی گرفتاری تھی۔ جیل پہنچے تو اخوان کے کئی قائدین گرفتار تھے۔ شیخ محمد الغزالی اور امام البنا کے دست راست شیخ عبدالمعز عبدالستار بھی گرفتار شدگان میں شامل تھے۔ ہمیں ایک جیل سے دوسری جیل میں منتقل کیا جاتا رہا، تقریباً نو ماہ کے بعد رہا کیا گیا تو ہمارے سالانہ امتحانات گزر چکے تھے۔ ڈاکٹر طٰہٰ حسین اس وقت وزیرتعلیم تھے۔ مختلف کوششوں کے بعد گرفتار شدہ طلبہ کے لیے الگ سے امتحان کا انتظام کردیا گیا اور اس طرح الحمدللہ ہمارا تعلیمی سال ضائع ہونے سے بچ گیا۔

جامعہ ازہر کی کلیہ شرعیہ میں داخل ہوئے، لیکن ۱۹۵۳ء میں دوبارہ گرفتار کرلیے گئے۔ ہمیں جنگی جیل میں رکھا گیا۔ ۱۹۵۶ء میں رہائی ہوئی اور اس کے بعد اپنی تعلیم مکمل کی۔ ڈاکٹر احمد العسَّال نے تو دورانِ گرفتاری تعذیب و تشدد کا ذکر نہیں کیا، لیکن اس ضمن میں ان کی وفات کے بعد ڈاکٹر جاسر العودہ کی ایک تحریر پڑھنے کو ملی۔ اخوان المسلمون کے ایک انتہائی جلیل القدر رہنما عبدالقادر عودہ شہید کے بھتیجے ڈاکٹر جاسرعودہ لکھتے ہیں:’’تقریباً دو سال پہلے میرے محسن، میرے مربی اور میرے استاد، مرحوم احمد العسَّال نے مجھے اپنے گھر کھانے پر بلایا۔ میں پہنچا تو انھوں نے خلافِ معمول بہت پُرتکلف ضیافت کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ صرف میں اکیلا ہی کھانے پر مدعو تھا اور اتنا ڈھیر سارا انتظام کیا گیا تھا۔ پوچھا تو کہنے لگے: میں نے تمھارے لیے یہ اہتمام اس لیے کیا ہے کیونکہ میں تمھارے چچا عبدالقادر عودہ شہید کے حسن سلوک کا جواب انھیں تو نہیں دے سکا، کم از کم تمھیں ہی دے دوں۔ ہم جنگی جیل میں گرفتار تھے، مجھ پر بے تحاشا تشدد کیا جارہا تھا۔ اسی دوران میں جیلر، عبدالقادر عودہ کو لے کر سامنے سے گزرے۔ انھوں نے مجھے دیکھا تو وہیں رُک گئے اور اپنے ساتھ جانے والے پولیس افسروں کو زوردار آواز میں ڈانٹتے ہوئے کہا: ’’بے گناہ اور نیک سیرت نوجوان کو مار ہی دینا چاہتے ہو‘‘۔ یہ کہتے ہوئے وہ میری طرف بڑھے۔ میرے گال سے ایک لوتھڑا کٹ کر لٹک رہا تھا اور قریب تھا کہ وہ گال کٹ کر گرجاتا۔ انھوں نے اپنے ہاتھ سے لوتھڑے کو دوبارہ اپنی جگہ چپکایا اور کچھ دیر وہاں سے اُٹھنے سے انکار کر دیا۔ عبدالقادر عودہ شہید نے میرے ساتھ یہ احسان اس وقت کیا، جب خود انھیں کچھ روز بعد پھانسی پر لٹکاتے ہوئے شہید کیا جانا طے تھا۔ اسی طرح ان کا مجھ پر یہ بھی احسان ہے کہ ایک بار میں نے مقاصد ِ شریعت پر چھوٹی سی تحریر لکھی۔ انھوں نے اس کی بہت تعریف کرتے ہوئے میری حوصلہ افزائی کی۔ میں شہید کے احسانات کا بدلہ انھیں تو نہیں لوٹا سکا، البتہ انھیں یاد کرتے ہوئے آج تمھیں بلا لیا‘‘۔

ڈاکٹر عسَّال مرحوم نے کبھی اس تشدد کا ذکر نہ کیا تھا۔ جیل کے زمانے کا ذکر آ بھی جاتا تو بتاتے کہ ہم پر بہت سختی کی گئی۔ ہمیں ہر چیز سے محروم کر دیا گیا، حتیٰ کہ قرآن کریم اور دینی کتب سے بھی۔ گویا قرآن سے چند روز کی فرقت ہی سب سے بڑی سزا تھی جو انھیں ہمیشہ یاد رہتی، حالانکہ قرآن تو اکثر اسیروں کے سینوں میں محفوظ تھا اور ہمیشہ ورد زبان رہتا تھا۔

جیل سے رہائی اور تعلیم مکمل کرلینے کے بعد بھی احمد العسَّال کی آزمایشیں ختم نہیں ہوئیں۔ حکومت نے ان پر پابندی لگا دی کہ کہیں ملازمت نہیں مل سکتی۔ کچھ عرصہ پرائیویٹ اسکولوں میں عربی زبان اور دینی علوم کی تعلیم دیتے رہے، پھر انھیں اور شیخ یوسف القرضاوی کو جامعہ ازہر کے سربراہ شیخ شلتوت کے ایما پر ریاست قطر میں ملازمت مل گئی۔ اس دور کے بارے میں عسّال مرحوم فرماتے تھے: ’’ہم جب قطر کے دارالحکومت دوحہ پہنچے تو وہاں بھی عرب قومیت کی تحریک جڑ پکڑ چکی تھی، بالخصوص طلبہ کے ذہن میں یہ خناس بھرا جا رہا تھا کہ عہدِاسلام لد چکا، اب عرب ازم کا زمانہ ہے۔ ہم نے آواز اٹھائی کہ نہیں، اسلام کسی صورت ختم نہیں ہوسکتا اور عرب قومیت اسلام کے بغیر نری جاہلیت ہے۔ اسلام، قرآن ہے، اسلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ ہم نے پورا تعلیمی سال اسی موضوع پر تقاریر، کانفرنسوں اور مشاورتوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ ہم نے عرب بعث ازم کا مطالعہ کر کے ان کی ایک ایک بات کا رد کیا‘‘۔ وہ کہتے تھے: ہم عربی زبان اور عرب تاریخ کی بنیاد پر ایک قوم ہیں۔ ہم کہتے: قرآن کریم کے بغیر عربی زبان زندہ ہی نہیں رہ سکتی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ کرامؓ کی تاریخ کے بغیر کوئی تاریخ، تاریخ ہی نہیں کہلا سکتی۔

تعلیمی سال کے اختتام پر چھٹیاں ہوئیں۔ ہم مصر چھٹیاں گزارنے گئے تو وہاں بھی ہماری شکایات پہنچ چکی تھیں۔ مجھے اور شیخ یوسف قرضاوی صاحب کو پھر گرفتار کرکے تحقیقاتی ایجنسیوں کے سپرد کر دیا گیا۔ کسی کو ہمارے بارے میں کچھ علم نہ تھا۔ ہم سے پوچھ گچھ شروع ہوئی، ہم نے جواب دیا: ہم دونوں جامعہ ازہر سے فارغ التحصیل ہیں، دین کی دعوت ہمارا فریضہ ہے، یہ بھی نہیں کریں گے تو اور کیا کریں گے۔ خیر ہماری رہائی ہوئی لیکن جب چھٹیوں کے بعد واپس دوحہ قطر پہنچے تو ہمارے پاسپورٹ کی تجدید کرنے سے انکار کر دیا گیا اور واپس مصر جانے کا کہا گیا، تاکہ دوبارہ گرفتار ہوجائیں۔ اس موقع پر میں نے مصر جانے کے بجاے برطانیہ جانے اور مزید تعلیم حاصل کرنے کا پروگرام بنا لیا، جب کہ قرضاوی صاحب قطر ہی میں رہے۔

۱۹۶۵ء سے ۱۹۷۰ء تک میں برطانیہ رہا۔ اس دوران میں کیمبرج یونی ورسٹی سے اصولِ فقہ میں پی ایچ ڈی کی اور برطانیہ میں دعوتِ اسلامی کی سرگرمیوں کو منظم کرنے کا موقع ملا۔ پھر مجھے لیبیا جاکر دعوت و تربیت کی سرگرمیاں منظم کرنے کے لیے کہا گیا۔ وہاں پہنچا تو کچھ عرصے کے بعد کرنل قذافی کا انقلاب آگیا۔ وہاں سے سوڈان چلے جانے کو کہا گیا۔ کچھ عرصے بعد وہاں جنرل جعفر نمیری کا انقلاب آگیا۔ بعدازاں میں ریاض یونی ورسٹی کے شعبہ تدریس سے وابستہ ہوگیا۔ اس دوران میں مرشدعام عمر تلمسانی مرحوم نے مصر واپسی کا کہا۔ میں ملازمت چھوڑ کر مصر واپس چلا گیا۔ وہاں پھر گرفتاریوں کے لیے چھاپے پڑنا شروع ہوگئے اور مجھے دوبارہ ریاض یونی ورسٹی آنا پڑا۔ اسلام آباد میں اسلامی یونی ورسٹی کی بنیاد رکھی گئی تو مجھے بھی وہاں طلب کرلیا گیا، جہاں کچھ عرصے کے لیے یونی ورسٹی کا سربراہ رہنے کے علاوہ مختلف اوقات میں مختلف ذمہ داریاں ادا کیں اور ۲۰۰۳ء میں مصر واپس آگیا۔ اسلام آباد قیام کے دوران میں افغان مسئلے نے بھی بہت وقت لیا اور آخرکار اللہ تعالیٰ نے افغانستان کو روسی پنجے سے نجات عطا کی۔

طویل سفر کے بعد عالم ربانی، علم، حلم، شائستگی اور محبت کا پیکر، نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو اور ہردم اصلاح و فلاح اُمت کے لیے فکرمند، فیصل مسجداسلام آباد کے خطیب اور پاکستان سے  والہانہ محبت رکھنے والے ڈاکٹر احمد العسَّال ۱۰جولائی ۲۰۱۰ء کو قاہرہ میں ابدی راحت پاگئے۔ بچپن کے ہم جولی، سفروسلاسل کے ساتھی اور کئی دعوتی کتابوں کی تیاری میں شریک مؤلف علامہ یوسف القرضاوی اتفاق سے اس وقت مصر ہی میں تھے۔ انھوں نے جگری دوست کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ اخوان کی پوری قیادت نمازِ جنازہ میں شریک تھی۔ رہے دعا کرنے والے اور ان کے جنتی ہونے پر یقین رکھنے والے، تو وہ لاکھوں کی تعداد میں اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔

ڈاکٹر احمد العسَّال سے آخری ملاقات چند ماہ قبل ترکی کے شہر استنبول میں ہوئی تھی۔ وہاں علامہ یوسف القرضاوی صاحب کے قائم کردہ عالمی اتحاد العلما کے بورڈ آف ٹرسٹیز کا اجلاس تھا۔ دنیابھر سے آئے ۴۵ منتخب ارکان کی مجلس میں، حُسنِ اتفاق سے میری نشست ڈاکٹر احمد العسَّال کے پہلو میں تھی۔ دورانِ اجلاس جب بھی موقع ملتا یا کوئی وقفہ ہوتا، عسال مرحوم پاکستان کے بارے میں کوئی نہ کوئی استفسار کرتے۔ ایک ایک ساتھی،ایک ایک سیاسی جماعت، دینی ادارے اور افراد و شخصیات کے بارے میں پوچھتے اور پاکستان کی صورت حال پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے رہے۔ اجلاس کے اختتام پر پھر الگ سے ایک تفصیلی نشست کی اور اخوان، جماعت کے علاوہ پاکستان، افغانستان اور کشمیر کی صورت حال کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔ بار بار یہ بھی کہا: پاکستان میں گزرنے والا عرصہ میری زندگی کا بہترین عرصہ ہے۔ پاکستان عالمِ اسلام کا اثاثہ ہے، اس اثاثے کی حفاظت  ہم سب کی مشترک ذمہ داری ہے___!

ہر طرف ہا ہا کار مچ گئی ہے___ صہیونی ریاست کے دشمن ہی نہیں، اس کے دوست بھی دہائیاں دینے لگے ہیں کہ صہیونی ریاست کو باقی رکھنا ناممکن ہوگیا ہے۔ سرزمین فلسطین سے اس کے اصل باشندوں کو دنیا بھر کی خا ک چھاننے پر مجبور کردینے، لاکھوں انسانوں کو تنگ و تاریک اور متعفن مہاجر کیمپوں میں محبوس کردینے اور لاکھوں کو غزہ و مغربی کنارے میں محصور کردینے کے بعد، وہاں قائم کی جانے والی نام نہاد ریاست کیا واقعی اپنے خاتمے کے سفر کا آغاز کرچکی ہے؟

یہ تو ابھی کل کی بات ہے کہ اپنے تئیں کچھ ’دُور اندیش‘ مسلمان حکمرانوں میں دوڑ لگی ہوئی تھی۔ ہر کوئی اس ناجائز ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے دلیلیں گھڑ رہا تھا۔ پاکستان میں امریکی جنگ کے پشتی بان جنرل پرویز مشرف بھی اپنے وزیر خارجہ کو اس اُمید سے خلافت عثمانیہ کے آخری مرکز بھیج رہے تھے کہ صہیونی استعمار کا دل جیت سکے۔ کئی پاکستانی جبہ پوش بھی بیت المقدس کی زیارت کے بہانے چوری چھپے جاکر وہاں عملاً اسرائیلی قبضہ تسلیم کرنے کا اعلان کررہے تھے۔ بہت سے  نام نہاد دانش ور اپنے دانش گریز ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے، اسرائیل سے دوستی کو امریکی اعتماد حاصل کرنے اور بھارت کے مقابلے میں زیادہ امریکی امداد حاصل کرنے کا آسان راستہ بتارہے تھے۔ صہیونی قلم کار اور پالیسی ساز دنیا بھر کو ان کی حیثیت کے طعنے دے رہے تھے۔

ان کا کہنا تھا ’’پاکستان سمیت سب مسلمان ممالک ہم سے اس لیے دوستی چاہتے ہیں کہ امریکا جانے کے لیے ہم ٹکٹ گھر کی حیثیت رکھتے ہیں‘‘۔ مصر اور اُردن جیسے پڑوسی ممالک اپنے عوام کے منہ سے نوالے چھین کر ناجائز صہیونی انتظامیہ کی ناز برداریاں کررہے تھے۔ ان دونوں ملکوں نے اس سے ایسے معاہدے کررکھے ہیں، جن سے خود ان کی اپنی کپڑے کی صنعت تباہ ہورہی ہے۔ مصر اب بھی اسرائیل کو اپنے عوام کی نسبت ۹۰ فی صد کم قیمت پر قدرتی گیس فراہم کررہا ہے۔ غزہ میں تو اور بھی ناقابلِ یقین صورت حال سامنے آتی ہے۔ تین اطراف سے سفاک صہیونی دشمن نے ایک مدت سے ۱۵لاکھ انسانوں کو محصور کر رکھا ہے۔ مسلمان، عرب اور پڑوسی ہونے کے باوجود مصر نے چوتھی طرف سے اس سے بھی کڑا محاصرہ کر رکھا ہے۔ تھوڑا بہت غذائی سامان یا ادویات لے جانے کے لیے کھودی جانے والی سرنگوں کو بند کرنے کے لیے ’غزہ مصر سرحد‘ کے درمیان ۹۰فٹ گہری زیر زمین فولادی دیوار کی تفصیل آپ انھی صفحات پر ملاحظہ کرچکے ہیں۔ غزہ پر مسلط کی جانے والی مہلک ترین صہیونی جنگ کے دوران میں اسے ملنے والی مصری پشت پناہی اور فلسطینی زخمیوں تک کو بھی مصر آنے نہ دینے کی داستانیں بھی دل دہلا دینے والی ہیں۔ لیکن یہ کیسا مسلمان، کیسا عرب اور کیسا ہمسایہ ملک ہے کہ ادھر اسرائیل، غزہ جانے والے قافلہء حریت پر ہلہ بول رہا تھا، اور دوسری طرف مصری انتظامیہ غزہ اور مصر کے مابین بچی کھچی سرنگوں میں زہریلی گیسیں چھوڑ کر امدادی سامان لے جانے والے کارکنان کو شہید کررہی تھی۔

غزہ میں طبی امداد مہیا کرنے کے منتظم ادھم ابو سلمہ کے بقول اب تک ۴۰ فلسطینی شہری مصر کی ان زہریلی گیسوں سے جاں بحق ہوچکے ہیں۔ ان کے بقول مجموعی طور پر ان سرنگوں میں اب تک ۲۴۵ افراد شہید ہوچکے ہیں۔ دیگر افراد کو ان سرنگوں پر گولہ باری کرکے یا بلڈوزروں سے سرنگیں ڈھا کر شہید کیا گیا ہے۔ سیکڑوں کی تعداد میں شہید ہوجانے کے باوجود، فلسطینی نوجوان آخر کیوں سرنگیں کھودنے اور ان میں کود جانے پر اصرار کر رہے ہیں؟ دنیا اس سوال کا جواب بخوبی جانتی ہے۔ لیکن اسرائیل کی ناز برداریوں میں مدہوش مصری حکومت کو ان سوالات کی کوئی پروا نہیں ہوگی، لیکن خود اسرائیل کے اندر سے اُٹھنے والی آواز بہت سے افراد اور حکومتوں کا نشہ ہرن کردینے کے لیے کافی ہونی چاہیے۔ آیئے، ایک نظر صرف گذشتہ دو روز کے اسرائیلی اخبارات پر ڈالتے ہیں۔

’نیتن یاہو کے کھیل‘ کے عنوان سے معروف یہودی تجزیہ نگار عکیفادار نے لکھا ہے:  ’’جس بچے نے بھی سائیکل چلانے کا تجربہ کیا ہے وہ جانتا ہے کہ اگر پیڈل چلانا بند کر دیا جائے تو سائیکل سوار بالآخر گر جاتا ہے۔ اگر اسرائیلی حکمران نے فلسطینیوں کے ساتھ دو متوازی ریاستوں کی تشکیل کے لیے مذاکرات بند کردیے تو وہ اپنے پوتوں کا نہیں اپنے بیٹوں کا مستقبل بھی تاریک کر دے گا‘‘۔ (ھآرٹز، ۲۱جون ۲۰۱۰ئ)

’ترکی فلم کے مطابق زندگی‘ کے عنوان سے روزنامہ یدیعوت احرونوت اپنے اداریے میں لکھتا ہے: ’’ہم جنگ کے عروج پر ہیں اور ہم یہ جنگ ہار رہے ہیں، اس لیے نہیں کہ ہم کمزور ہیں، احمق ہیں یا غیرمنصف ہیں، بلکہ اس لیے کہ ہم عقلی اور تنظیمی اعتبار سے خود کو کھیل کے نئے ضابطوں کے مطابق نہیں ڈھال سکے… جن کتابوں میں اسرائیل کے خاتمے کی بات لکھی جاتی ہے ان میں تین اہم پہلو بیان کیے جاتے ہیں: ۱- اقتصادی جنگ جس میں اسرائیلی سامان کا بائیکاٹ، سیاحت کی ناکامی، اسرائیل کے دفاع اور امن و امان پر بیش بہا اخراجات شامل ہیں۔ ۲-سیاسی اور نفسیاتی جنگ، جس میں اسرائیل سے اس کا حق وجود چھین لیا جائے۔ حالیہ بحری قافلے اسی کا حصہ تھے، اور ۳-عسکری لحاظ سے اسرائیل کو کمزور و دیمک زدہ کرنا۔ ہمارے دشمن پہلے دونوں پہلوئوں پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا مقابلہ کرنے والے بھی انھی دو میدانوں سے ہونے چاہییں نہ کہ فوج اور اس کے ترجمان… ترکوں نے ہمارے لیے فلم کا منظرنامہ تیار کرکے پیش کیا ہے اور ہم نے ترک پروڈیوسر کی مرضی کے مطابق اس فلم میں اپنا کردار ادا کرڈالا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج پوری دنیا آنسو بہاتے ہوئے ہم سے اظہارِ نفرت کر رہی ہے‘‘۔ (یدیعوت، ۲۰جون ۲۰۱۰ئ)

روزنامہ ھآرٹز میں ’ایہود! صبح بخیر‘ کے عنوان سے بوئیل مارکوس لکھتا ہے: ’’اب ہم اس آخری حد کے انتہائی قریب آپہنچے ہیں، جہاں ہم پر کوئی اور فارمولا ٹھونسا جائے گا۔ لڑھکنیوں کے اس سفر سے نکلنے کا اب صرف ایک ہی راستہ بچا ہے کہ (اپوزیشن) کادیما پارٹی کو بھی ساتھ ملائیں، دو الگ الگ ریاستوں (اسرائیل اور فلسطین) پر مشتمل حل پر عمل کریں اور سارے کوڑھ اور    برص زدہ لوگوں کو اپنی پشت سے اُتار پھینکیں‘‘۔ (۲۰ جون ۲۰۱۰ئ)

’مزید بحری قافلے‘ کے عنوان سے سمڈار بیری لکھتا ہے: ’’گذشتہ مرحلے میں بلاشبہہ حماس کامیاب رہی ہے، ساری دنیا ہمیں مطعون کررہی ہے۔ سفینے کے بارے میں ہماری جاری کردہ وڈیو فلموں کو کسی نے قابلِ توجہ نہیں سمجھا، آخر اب ہماری بات کون سنے گا… آج صورت یہ ہے کہ خود روشن خیال دنیا بھی حماس سے مذاکرات کرنے پر اصرار کررہی ہے۔ مصر ہمارا حلیف ہے،وہ خود غزہ کے گرد مضبوط دیوار تعمیر کر رہا ہے، لیکن اب وہ بھی اسرائیل سے حصار ختم کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے… دنیا میں کوئی طاقت ایسی نہیں ہے، جو تین سمندری بارودی سرنگوں (نئے آنے والے تین نئے بحری قافلوں) کے مقابلے میں کامیاب ہوجائے۔ اگر کسی کو پاگل پن کا دورہ پڑا ہوا ہے، تو اسے اپنے ان بھیانک خوابوں کے ساتھ ساتھ خطے میں ایک وسیع تر جنگ بھڑک اُٹھنے کے امکانات پر بھی غور کرلینا چاہیے‘‘۔(یدیعوت احرونوت، ۲۰ جون ۲۰۱۰ئ)

’اسرائیلی نیشنلسٹ کیا چاہتا ہے‘ کے عنوان سے جدعون لیوی ۲۱ جون کے روزنامہ میں لکھتا ہے: ’’اسرائیل یہ چاہتا ہے کہ دنیا ہم سے غیرمشروط اور غیرمحدود محبت کرے، ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ وہ پوری دنیا کا مذاق اڑائے، عالمی اداروں، اس کے قوانین اور اس کے نظریات کے منہ پر حقارت سے تھوک دے۔ وہ ترکی سے فعال سیاحت کا معاہدہ چاہتا ہے، لیکن ترکی کی کسی بات پر کان بھی نہیں دھرنا چاہتا۔ وہ چاہتا ہے کہ غزہ پر سفید فاسفورس کے بم برسا کر دنیا سے کہے کہ  یہ تو خوش گوار سفید بارش ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ دنیا بھی اس کے ساتھ یہی گنگنانا شروع کردے‘‘۔

’قافلۂ حریت جیت گیا‘ کے عنوان سے الوف بُن نے لکھا ہے: ’’ترک وزیراعظم   رجب طیب اردگان اب اپنی کامیابی کا بڑا سا نشان بلند کرسکتا ہے۔ غزہ جانے والا ترکی کا قافلہ غزہ تو نہیں پہنچ سکا، لیکن اس نے اپنا ہدف حاصل کرلیا ہے۔اس نے حماسستان کے گرد کھڑی کی گئی اسرائیلی حصار کی دیواریں منہدم کردی ہیں… اب اسرائیل میں مزید قافلوں کا انتظار ہے۔ ان کا خیال ہے کہ حصار میں کچھ کمی کرکے، اسرائیل اپنے حق میں سفارتی کوششوں کا جواز حاصل کرے گا، لیکن اگر یہ خوش فہمی برمحل بھی ہو، تب بھی حکومت نے بہت کچھ کھو دیا ہے۔ نیتن یاہو نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ بہت بڑی سیاسی قیمت ادا کیے اور بہت بڑا دبائو آجانے کے بغیر وہ کوئی فیصلہ نہیں کرپاتا‘‘۔ (ھآرٹز، ۲۱جون ۲۰۱۰ئ)

’انھیں تحقیقاتی کمیٹی دے دو‘ کے عنوان سے ٹسیفی بارئیل نے تحریر کیا ہے: ’’جب غزہ پر حصار عائد کیا گیا اس وقت یہ لوگ کہاں تھے۔ اقوام متحدہ کے شان دار حقوق انسانی کے چارٹر پر دستخط کرنے والے یہ سب اُس وقت کہاں تھے، جب یہ حصار لوگوں کا دم گھونٹنے میں کامیاب ہوگیا؟ اسرائیلی بے وقوفیوں کا جائزہ لینے کے لیے بین الاقوامی تحقیقاتی کمیٹی کا قیام زائد از ضرورت شغل ہے۔ یہ کام بھی کسی بین الاقوامی تحقیقاتی کمیٹی کا نہیں کہ وہ ترک باشندوں کے قتلِ عام کی تحقیق کرے، یہ کام ترکی اور اسرائیل مل کر کرسکتے ہیں۔ بین الاقوامی کمیٹی کو تو یہ دیکھنا چاہیے کہ اسرائیل یہ تباہ کن پالیسی نافذ کرنے کے لیے پوری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کیسے کامیاب ہوگیا؟ یہ لوگ ۱۵لاکھ انسانوں کا گلا گھونٹنے کے لیے کیسے چل نکلے؟ (ھآرٹز، ۲۰جون ۲۰۱۰ئ)

یہ اور اس طرح کے لاتعداد کالم، مقالے اور اداریے دنیا بھر کی اخبارات میں شائع ہورہے ہیں، لیکن یہاں صرف اسرائیلی اخبارات سے چند اقتباسات دیے گئے ہیں، تاکہ اندازہ ہوسکے کہ خود اسرائیل کے اندر ماحول کیا اور کیسا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ یہ اخبارات بھی سانحہ گزر جانے کے تین ہفتے بعد کے ہیں۔ اس وقت دنیا میں خود یہودیوں کی ایک بڑی تعداد، اسرائیلی ریاست سے نجات حاصل کر کے اپنے یہودی بھائیوں کو بچانے کے لیے میدان میں آچکی ہے۔ ان یہودی علما، یہودی دانش وروں اور سیاسی رہنمائوں کے بقول اسرائیلی ریاست کا وجود بالآخر پوری یہودی آبادی کے خاتمے کا باعث بنے گا۔ ان کے بقول ان کی مذہبی کتب میں بھی واضح طور پر لکھا ہے کہ یہودیوں کی حتمی تباہی سے پہلے دنیا بھر کے یہودیوں کو ایک جگہ جمع کر دیا جائے گا، اسرائیل اس انتباہ کی عملی تصویر ہے۔

دوسرے درجے میں اسرائیل کی مخالفت وہ یہودی کر رہے ہیں، جو سمجھتے ہیں کہ اسرائیلی ریاست کی پالیسیاں صرف اس کے ہی نہیں، دنیا میں تمام یہودیوں کے خلاف نفرت کے جذبات میں اضافہ کرتی ہیں۔ یورپ میں ’جے کال‘ (J Call)نامی نوتشکیل یہودی تنظیم نے ’عقل کی پکار‘ کے عنوان سے اپنا بیان جاری کیا ہے۔ بیان میں یورپی یونین کے سیاست دانوں، ارکانِ پارلیمنٹ اور حقوقِ انسانی کی تنظیموں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اسرائیل پر اپنے دبائو میں اضافہ کرتے ہوئے اسے اپنی موجودہ پالیسیاں تبدیل کرنے پر مجبور کریں۔ دو معروف فرانسیسی دانش ور برنارڈ ہزی لیوی اور ایلن فنکل کرائوٹ اس نئی تنظیم کے روحِ رواں ہیں، اور معروف سیاست دان ڈینیل کون بنڈیٹ اور جرمنی میں سابق اسرائیلی سفیر آفی پریمور ان کے شانہ بشانہ ہیں۔

کئی بار اسرائیلی پارلیمنٹ کا اسپیکر رہنے والا اور ایک بڑے یہودی رِبی کا بیٹا ابرہام پورگ اپنی کتاب ہٹلر کے خلاف کامیابی میں لکھتا ہے: ’’صہیونی خواب کا خاتمہ ہمارے دروازوں کی دہلیز سے آن لگا ہے۔ اب خدشہ حقیقت میں ڈھل رہا ہے کہ ہماری نسل آخری صہیونی نسل ہوگی‘‘۔ پورگ کے بقول: ’’اسرائیل کے موجودہ حالات جرمنی میں ہٹلر کی آمد کے وقت کے حالات سے مشابہ ہوچکے ہیں، امپریلزم اور فتنہ و فساد کا اتحاد ریاست پر مسلط ہے‘‘۔

یہاں پر امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی وہ رپورٹ بھی ذہن میں رکھنا ہوگی، جس میں خدشہ و امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ ۲۰۲۰ء کے بعد دنیا میں اسرائیل نام کی کوئی ریاست نہ رہے گی۔ یہ بات شہید شیخ احمد یاسین کی روح نہیں، خود سی آئی اے کہہ رہی ہے۔ شیخ شہید تو آج سے کئی برس پہلے فرما چکے کہ اکیسویں صدی کی پہلی چوتھائی میں صہیونی ریاست کی تجہیزو تکفین مکمل ہوجائے گی۔

اس طرح کے درجنوں یا سیکڑوں نہیں ہزاروں تجزیے اور تحریریں دنیا کو ایک نئے دور اور نئے عالمی نقشے کی خبر دے رہی ہیں۔ فی الحال موجودہ دور یقینا امریکی تسلط اور اس کی سرپرستی میں اسرائیلی جبروت کا دور دکھائی دیتا ہے۔ اسرائیل نے اسی غرور کا شکارہوکر ۴۰ کے قریب ممالک اور ان کے سیکڑوں اہم افراد کو کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت نہ دی۔ بین الاقوامی پانیوں میں کھڑے بحری جہاز پر حملہ کرتے ہوئے اس کی متکبر سیاسی و عسکری قیادت کو کوئی تردّد یا خدشہ لاحق نہ ہوا۔ ۱۰ترک باشندوں کو اس طور شہید کیا گیا کہ ان میں سے اکثریت کے ہاتھ پشت پر بندھے ہوئے تھے اور ان کے سر کے پچھلے حصے میں، قریب سے گولیاں چلائی گئی تھیں۔ جرم کیا تھا؟ صرف یہ کہ یہ ہماری عائد کردہ پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوتے موت کے کنارے کھڑے ۱۵ لاکھ فلسطینیوں تک دوا اور غذا پہنچانا چاہتے ہیں۔ اسرائیل اس زعم کا شکار تھا کہ ساری دنیا خوف زدہ بھیڑوں کی طرح اس کے سامنے ممیانے لگے گی اور آیندہ اس بھیڑیے کی سلطنت میں قدم نہ رکھنے کی قسمیں کھانے لگے گی، لیکن یہاں تو منظر ہی دوسرا ہے۔

ترکی میں ایک احتجاجی مظاہرے کا حال لکھتے ہوئے ایک عرب صحافی نے بیان کیا ہے: مجھے کسی سے اسرائیلی سفارت خانے کا پتا معلوم کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ سارے پُرجوش قافلے ادھر ہی جارہے تھے۔ گائون، اسکارف، ہلکی داڑھیوں اور صوفیوں جیسے ڈھیلے ڈھالے لباسوں میں ملبوس لوگ تو تھے ہی، میرے سامنے جو نوجوان نعرے لگوا رہا تھا، اس نے گھٹنوں سے پھٹی ہوئی جینز پتلون، پیٹ تک کھلے بٹنوں والی شرٹ اور کانوں میں بالیاں پہنی ہوئی تھیں۔ اس نے اپنے بالوں پر سپرے کر کے کسی نوک دار جھاڑی کی طرح انھیں سر پر کھڑا کیا ہوا تھا اور گلے میں بڑے سے لاکٹ پر دوست کا نام لکھا ہوا تھا۔ پورا مجمع اسی کی جانب متوجہ تھا، کیونکہ اس حلیے کے ساتھ وہ پوری قوت سے نعرے لگوا رہا تھا…’’ تکبیر اور پورا مجمع جواب دے رہا تھا: اللہ اکبر۔ اسلام و سیکولرزم، صوفی و مجاہد سب یک آواز تھے: اسرائیل مُردہ باد!‘‘

ترک حکومت نے اس پورے مسئلے کو جس طرح اپنی آیندہ پالیسیوں کا آئینہ دار بنایا ہے، اس نے عالمی سیاست کو ایک نیا رُخ دے دیا ہے۔ ترک وزیرخارجہ کے الفاظ میں یہ واقعہ ترکی کے لیے نائن الیون کی حیثیت رکھتا ہے۔ ترک صدر اور وزیراعظم پورے عالمِ اسلام کے ہیرو اور اُمیدوں کا مرکز بن گئے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر سے کئی نئے قافلے غزہ جانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ تین قافلے تو لبنان ہی سے جا رہے ہیں۔ جولیا، کنواری مریم اور ناجی العلی کے ناموں سے موسوم ان قافلوں میں سے ایک صرف خواتین کے لیے مخصوص ہے۔ حضرت مریم سے منسوب سفینہ تمام مذاہب کے نمایندوں پر مشتمل ہے اور معروف فلسطینی کارٹونسٹ ناجی العلی شہید کے نام سے تیسرے سفینے میں دیگر افراد کے ساتھ مختلف فن کار بھی شامل ہیں۔ علامہ یوسف قرضاوی کی طرف سے علما کا ایک قافلہ لے جانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ایک قافلہ ۱۵ سے ۱۸ سال کے بچوں کا تیار ہورہا ہے۔ اسلامی ارکانِ پارلیمنٹ کا عالمی اتحاد ایک قافلہ تیار کر رہا ہے، جس میں پاکستان     سے جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ کی سربراہی میں بھی وفد شریک ہو رہا ہے۔  تین قافلے یورپی ممالک سے آرہے ہیں۔ ایران اور الجزائر سے قافلے تیاریاں کر رہے ہیں۔ رمضان المبارک کے دوران ’غزہ میں افطار‘ کے عنوان سے کئی نام… غرض ایک طویل فہرست ہے۔ سب کو گذشتہ قافلے میں جان قربان کردینے والوں کا حال معلوم ہے، لیکن جوش و جذبہ مزید توانا و جوان ہوگیا ہے۔

جوان ہی نہیں بوڑھے، مرد ہی نہیں خواتین، مسلمان ہی نہیں مسیحی و یہودی، سب اسرائیل کے مظالم پر سراپا احتجاج ہیں۔ گذشتہ ۵۰ سال سے امریکی وائٹ ہائوس میں صحافتی ذمہ داریاں   ادا کرنے والی ۸۰سالہ باوقار خاتون ہیلن تھامس جس نے جان ایف کینیڈی سمیت ۱۰سابق امریکی صدور کے ساتھ صحافتی فرائض انجام دیے ہیں، اور وائٹ ہائوس ہی کے نہیں دنیا کے صحافیوں کے لیے ایک مثالی کردار رکھتی ہیں، سے رابی لایف نامی یہودی ویب سائٹ کے نمایندے نے آہستگی سے پوچھا: قافلۂ حریت…؟ ہیلن کے جواب نے سب کو ششدر کر دیا: ’’ان سے کہو فلسطین سے نکل جائیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ان لوگوں نے فلسطین پر قبضہ جما رکھا ہے۔  فلسطین ان کا گھر نہیں ہے۔ انھیںبولونیا،امریکا، جرمنی اور دوسرے ملکوں میں اپنے گھروں کو لوٹ جانا چاہیے‘‘۔وائٹ ہائوس پر غالب یہودی لابی ہیلن کو اس کی ۵۰سالہ خدمات خاطر میں نہ   لاتے ہوئے وہاں سے نکلوانے میں کامیاب ہوگئی ہے، لیکن اس شائستہ و معمر ۸۰ سالہ خاتون کے وقار و مقام میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ اہلِ غزہ کو ایک نہیں کروڑوں توانا آوازیں نصیب ہوگئی ہیں۔

۳۵کلومیٹر لمبی اور سات سے ۱۴ کلومیٹر چوڑی غزہ کی پٹی میںگھرے ۱۵ لاکھ عوام کی آزمایشیں ختم ہونے کا وقت یقینا قریب آن لگا ہے۔ غیور ترک بھائیوں کے خون سے سرخ ان کا قومی پرچم اعلان کر رہا ہے: ’’دنیا والو! لوہا مکمل طور پر گرم ہے اور آخری ضرب کا منتظر۔ یقین رکھو ایک قدم اٹھائو گے ربِ کائنات دس قدم تمھاری طرف آئے گا۔ تم چلنا شروع کرو گے اس کی رحمت و نصرت دوڑ کر تمھیں اپنے سایے میں ڈھانپ لے گی‘‘  ع

منزل کے لیے دوگام چلوں اور سامنے منزل آجائے

حضرت زیاد بن لبیدؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: یہ اس وقت ہوگا جب علم اٹھ جائے گا۔ میں نے عرض کی: یارسولؐ اللہ! علم کیسے اٹھ جائے گا، جب کہ ہم قرآن پڑھتے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی پڑھاتے ہیں اور ہماری اولاد اپنی اولاد کو پڑھائے گی اور اس طرح یہ سلسلہ قیامت تک چلتا رہے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمھاری ماں تمھیں روئے، میں تو تمھیں مدینہ کا سمجھ دار ترین شخص سمجھتا تھا۔ کیا یہ یہودی اور عیسائی تورات و انجیل نہیں پڑھتے، لیکن اس میں جو (احکامات) ہیں ان پر عمل نہیں کرتے۔ (ابن ماجہ حدیث ۴۰۴۸)

سید ابو الاعلی مودودیؒ کے الفاظ میں قرآن کریم شاہ کلید ہے جو مسائل حیات کا ہر قفل کھول دیتی ہے۔ لیکن اگر اس کتابِ حیات اور شاہ کلید کا مقصد صرف طاقوں پر سجانا اور دھو دھو کر پلانا ہی سمجھ لیا جائے، اس نسخۂ کیمیا کو صرف آواز و انداز کے حُسن اور سانس کی طوالت آزمانے کا ذریعہ سمجھ لیا جائے، تو یقینا کائنات کی عظیم ترین نعمت پاس ہوتے ہوئے بھی، بندہ علمِ حقیقی سے محروم ہوجاتا ہے۔

صحابۂ کرام کو اسی لیے حیرت ہوئی کہ یارسولؐ اللہ! کتابِ الٰہی ہمارے درمیان ہوگی اور پھر بھی علم نہ رہے گا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت و تنبیہ سے عربوں کا معروف جملہ دہراتے ہوئے فرمایا: اپنی کتاب پڑھنے کا دعویٰ تو یہودی اور عیسائی بھی کرتے ہیں لیکن پھر بھی مغضوب علیہم اور ضالین ہوگئے۔

o

حضرت ابو موسی الاشعریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے جو علم و ہدایت دے کر بھیجا ہے اس کی مثال (بابرکت) بارش کی طرح ہے۔ کچھ زمین ایسی زرخیز ہوتی ہے کہ اس بارش سے خوب سرسبز و شاداب ہوکر لہلہا اٹھتی ہے۔ کچھ زمین ایسی پتھریلی ہوتی ہے کہ اس سے وہاں کوئی فصل و شادابی تو نہیں ہوتی، البتہ وہ پانی کو محفوظ کرلیتی ہے۔ (خود تو محروم رہتی ہے) لیکن لوگ اس سے خود بھی سیراب ہوتے ہیں اور اپنی فصلوں اور مال مویشی کو بھی سیراب کرلیتے ہیں۔ لیکن کچھ زمین ایسی صحرائی ہوتی ہے کہ نہ تو خود لہلہاتی ہے اور نہ پانی ہی محفوظ کرتی ہے۔ یہی مثال انسانوں کی ہے کہ کچھ نے اللہ کے دین کو سمجھ لیا اور اللہ نے میرے ذریعے بھیجی جانے والی ہدایت کو ان کے لیے فائدہ بخش بنادیا۔ کچھ نے اس کو خودبھی اسے سیکھا اور دوسروں کو بھی سکھایا، اور کچھ نے اس کی جانب سر اٹھا کر بھی نہ دیکھا، اللہ نے جو ہدایت میرے ذریعے عطاکی ہے اسے قبول نہ کیا۔ (بخاری، حدیث ۷۹)

خیر و برکت کی موسلادھا ر بارش تو باغات، فصلوں، میدانوں، صحراؤں اور چٹانوں پر، ہر جگہ ہوتی ہے لیکن نصیب اپنے اپنے ہیں۔ معلم انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم مثال دے کر سمجھا رہے ہیں کہ گھر آئی نعمت سے خود بھی جھولیاں بھر لو اور دوسروں کے نصیب بھی جگا دو۔

o

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر کوئی بندہ بیمار پڑ جائے یا سفر میں ہو تو بھی    اس کے اُن نیک اعمال کا اجر جاری رہتا ہے جو وہ (صحت مندی اور حضر میں) کیا کرتا تھا ۔ (بخاری، حدیث ۲۹۹۶)

اللہ کے اجر و احسان کے پیمانے ہی مختلف ہیں۔ بندہ اپنے مہربان خالق کی عطائوں کا تصور تک نہیں کرسکتا۔ بندہ نیکیوں اور حسن عمل کا خوگر بن جائے، نیت خالص رکھے، تو خدانخواستہ کسی معذوری کی صورت میں بھی ان نیکیوں کا اجرجاری رہتا ہے۔ گویا صحت، عافیت اور راحت کے لمحات میں بندے کی نیکیاں دگنی اہمیت رکھتی ہیں۔ نہ صرف اس لمحۂ موجود میں کامیاب کرتی ہیں بلکہ انھی کی بنیاد پر ہنگامی حالات میں بھی نیکیوں کے کھاتے جاری رہتے ہیں۔

o

حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم روزِ محشر ننگے پاؤں، ننگے بدن اور غیر مختون اٹھائے جاؤ گے۔ حضرت عائشہؓ نے عرض کی: یارسولؐ اللہ! مرد و عورت  سب اکٹھے…؟ سب ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا: صورت حال اتنی شدید ہوگی کہ اس جانب تو کسی کا دھیان تک نہ جائے گا۔ (بخاری، حدیث ۶۵۲۷)

قرآن و حدیث میں مذکور روز محشر کی تمام ہولناکیاں ذہن میں رکھتے ہوئے پھر اس حدیث کا مطالعہ کریں تو اصل بات سمجھ میں آتی ہے۔

انسان بالکل اس حالت میں اٹھائے جائیں گے کہ جس میں پہلی بار پیدا کیے گئے۔ مال و متاع، رشتے ناتے، القاب و عہدے، سب دنیا ہی میں رہ جائیں گے۔ صرف اور صرف بندے کے اعمال ساتھ دیں گے۔ ایک اور حدیث کے مطابق ساری خلقت اپنے اپنے اعمال کے مطابق، پسینے میں ڈوبی ہوگی۔ کچھ ٹخنوں تک اور کچھ لوگوں کا پسینہ ان کے ناک تک پہنچ کر لگام کی صورت میں ان کے منہ میں جارہا ہوگا۔

حیرانی و پریشانی سے پوچھا گیا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا سوال دیکھیں اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جامعیت پر مبنی جواب۔ اس قدر ہولناک صورت حال میں بھلا کس کا دھیان اس جانب جائے گا کہ سب مرد و زن عریاں ہیں۔ سب کو اپنی نجات و آخرت کی فکر لگی ہوگی۔ مطلب یہ ہوا کہ دنیا میں بھی عریانی، فحاشی اور غلاظت و تباہی کا شکار وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو آخرت کی ہولناکیوں سے غافل یا  بے خبر ہوں۔

o

حضرت ابو مسعودؓ راوی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں کو گذشتہ انبیا ؑ کی جو باتیں عطا ہوئی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ: ’’اگر تم حیا نہیں کرتے تو جو چاہے کرتے پھرو‘‘۔(بخاری، حدیث ۶۱۲۰)

حیا انسان کا زیور ہی نہیں شیطان کے مقابلے کے لیے، اہم ترین ہتھیار بھی ہے۔ بندہ حیا کھودے تو اس نے سب کچھ کھودیا۔ گویا پھر وہ اللہ کے ذمے سے نکل گیا، پھر وہ جانوروں سے بدتر ہے جو چاہے کرتا پھرے۔

مختصر حدیث اسلامی تہذیب کا اہم ترین اصول ہے اور اس کا اطلاق کسی محدود اخلاقی دائرے پر نہیں، زندگی کے ہر شعبے پر ہوتا ہے۔ حیا نہ رہی تو ہرمعاملے میں حدود سے تجاوز ہوگا۔

o

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ اسے جسمانی عافیت نصیب ہو، وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ پُرامن ہو اور اس کے پاس اس روز کی خوراک ہو، تو گویا اسے ساری دنیا کی نعمتیں جمع کرکے دے دی گئیں۔ (ترمذی، حدیث ۲۳۴۶)

بندہ یہ تو محسوس ہی نہیں کرتا کہ عافیت سلامتی اور اپنوں کا ساتھ بھی کوئی نعمت ہے۔ کسی کے پاس صرف اس روز کے کھانے کا انتظام و گنجایش ہو تو لوگ اسے فقیروں میں بھی آخری درجہ دیتے ہیں۔ لیکن ارشاد نبویؐ ہے: سمجھو دنیا کی ساری نعمتیں جمع ہوگئیں۔ نعمت کا شکر ادا ہوجائے تو جو خالق آج دے رہا ہے، وہی کل بھی ضرور دے گا۔

اللہ تعالیٰ کسی دنیاوی نعمت کی نفی نہیں کرتا، نہ اس سے منع ہی کرتا ہے لیکن نعمتوں کا احساس و اہمیت،  دل و دماغ میں تازہ رہنا چاہیے تاکہ حقیقی شکر ادا ہوسکے اور دل اصل، یعنی آخرت کی کمائی سے     جڑا رہے۔

o

حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھانے کے (دوسری روایت میں ہے گندم کے) ایک ڈھیر کے پاس سے گزرے۔ آپؐ نے ڈھیر میں ہاتھ ڈالا تو انگلیوں کو نمی محسوس ہوئی۔ آپؐ  نے اس کے مالک سے پوچھا: یہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا: یارسولؐ اللہ! اس پر بارش ہوگئی تھی۔آپؐ  نے فرمایا: ’’اس گیلی (گندم) کو اوپر کیوں نہ کردیا کہ لوگ اسے دیکھ سکتے۔جس نے دھوکا دیا وہ مجھ سے نہیں ہے‘‘۔ (ترمذی، حدیث ۱۳۱۵)

واقعے کے آخر میں فرمائے گئے چند الفاظ انتہائی جامع، بنیادی اور ہلا دینے والے ہیں۔ دھوکا دہی اور جعل سازی جس نوعیت کی ہو، جس میدان میں ہو، امتی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق سے     محروم کردیتی ہے۔ ’’وہ مجھ سے نہیں‘‘ یعنی میرا اس سے کوئی تعلق نہیں‘‘--- العیاذ باللہ۔ تھوڑا سا دنیاوی مفاد اور ہمیشہ کا خسران۔ اے اللہ! ہم سب کو اس نقصان سے محفوظ رکھ!

اُردن، سعودی عرب اور فلسطین کے سنگم پر واقع تاریخی شہر عقبہ میں قدم رکھا تو مقامی وقت کے مطابق رات کے آٹھ اور پاکستان میں گیارہ بج رہے تھے۔ عقبہ اُردن کے دارالحکومت عمان سے تقریباً ۳۵۰ کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔ جونہی شہر کی روشنیوں پر نگاہ پڑی تو نسبتاً راحت کا احساس ہوا کہ بالآخر منزلِ مقصود پر پہنچے۔ لیکن عمان سے ہمراہ آنے والے ساتھیوں نے حسرت بھری آواز میں کہا کہ یہ اُردن کا شہر عقبہ نہیں بلکہ مقبوضہ فلسطین، یعنی صہیونی ریاست اسرائیل کا شہر اِیلات ہے تو دل کو سخت صدمہ پہنچا۔ سوال کیا: کیا ہم عقبہ نہیں، اِیلات جا رہے ہیں؟ جواب دینے کے بجاے فلسطینی رفیق سفر نے اسٹیئرنگ گھمایا، دائیں جانب مڑتے ہی ذرا مختلف اور نسبتاً پرانی عمارتوں اور روشنیوں کا ایک اور علاقہ شروع ہوگیا اور کہا: ’’نہیں، یہ عقبہ ہے‘‘۔

رفیق سفر ڈاکٹر محمود برکات نے بتایا، عقبہ اور اِیلات اصل میں ایک ہی شہر تھا۔ تاریخ میں اس کا نام اَیلہ ملتا ہے۔ یہودیوں نے شہر کے آدھے اور بالائی حصے پر قبضہ کرکے اسے اپنا ایک سرحدی سیاحتی شہر بنا لیا ہے۔ پوچھا: اصل فلسطینی آبادی بھی ہوگی؟ ڈاکٹر محمود نے کہا: اب یہاں ایک بھی فلسطینی باقی نہیں رہنے دیا گیا، البتہ سیاح کثرت سے آتے ہیں۔

عقبہ میں تھوڑا سا آگے بڑھے تو بڑے بڑے بینر اور اشتہارات دکھائی دینے لگے: مـہرجان الـفتح الـعمری لـبیت الـمقدس، ’’حضرت عمرؓ کی فتح بیت المقدس کا جشن‘‘۔ پانچ سات منٹ کی ڈرائیونگ کے بعد ہم عقبہ جاپہنچے۔ میدان کھچاکھچ بھرا تھا۔ منتظمین کے بقول اس شہر کی تاریخ میں یہ سب سے بڑا اجتماع تھا۔ پورے ملک سے لوگ شریک تھے۔ یہ جشنِ فتح عین اس جگہ منایا جا رہا تھا جہاں خلیفۂ ثانی حضرت عمر بن الخطابؓ نے فتح پانے کے بعد بیت المقدس جاتے ہوئے رات کا پڑائو ڈالا تھا۔ یہ ۲مئی کادن تھا، اسی دن اسی جگہ اور اسی وقت پروگرام کے انعقاد نے شرکا میں خصوصی جوش و جذبہ پیدا کر دیا تھا۔

پروگرام کی دوسری نمایاں انفرادیت یہ تھی کہ فلسطین کے کنارے پر واقع اہم عرب ملک اور اس کے تاریخی شہر میں منعقد ہونے کے باوجود اس کا کوئی مقرر عرب نہیں تھا۔ اخوان المسلمون اُردن کے سربراہ ڈاکٹر ھمام سعید پوری قیادت کے ہمراہ موجود تھے لیکن انھوں نے بھی چند منٹ کے رسمی اور خیرمقدمی کلمات کے علاوہ کچھ نہ کہا۔ اس جشن فتح بیت المقدس کے صرف چار مقرر تھے اور چاروں عجمی۔ ملایشیا، ترکی، جنوبی افریقہ اور پاکستان سے ایک ایک مقرر کو بلایا گیا تھا، البتہ سعودی عرب سے معروف شاعر ڈاکٹر عبدالرحمن العشماوی آئے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر عشماوی کے ۲۵انقلابی شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ ہمارا ان سے پہلا باقاعدہ تعارف سانحۂ بابری مسجد کے وقت ہوا تھا۔ انھوں نے اس موقع پر دہشت گرد ہندوئوں کی مذمت کرتے ہوئے شہید    بابری مسجد کا مرثیہ لکھا تھا، جو اَب ان کے دیوان میں شامل ہے۔

عمان ایئرپورٹ سے سیدھا عقبہ چلے آنے کے باوجود ہم چونکہ قدرے تاخیر سے پہنچے تھے، اس لیے پروگرام سے ترکی کے ذمہ دار خطاب کر رہے تھے۔ یہ وہی ترک رفاہی تنظیم ہے جس نے چند ماہ قبل غزہ جانے والے امدادی قافلۂ ’شہ رگِ حیات‘ کا اہتمام کیا تھا۔ چند ہی منٹ بعد  ان کا خطاب ختم ہوا اور راقم کو یہ کہہ کر تقریر کی دعوت دے دی گئی کہ یہ پورے برعظیم پاک و ہند کی نمایندگی کریں گے۔ سفر کی طوالت، ابھی چند لمحے پہلے مقبوضہ فلسطین کے یہودی شہر اِیلات کو دیکھنے کا صدمہ اور ایک پُرجوش جشن فتح… اللہ تعالیٰ کی خصوصی مدد شاملِ حال رہی۔ تقریر ختم کر کے   بیٹھا ہی تھا کہ کچھ دیر بعد اسٹیج سیکرٹری نے اپنا موبائل فون کان سے لگائے ہوئے اعلان کیا کہ ہمارا بالکل کوئی پروگرام نہیں تھا کہ کسی عرب مقرر کا خطاب ہو۔ لیکن جشن فتح کی پوری کارروائی براہِ راست کئی عرب  ٹی وی چینلوں پر دکھائی جارہی ہے۔ غزہ سے وہاں کے محصور فلسطینیوں کے قائد، فلسطین کے منتخب وزیراعظم اسماعیل ھنیہ نے خود فون کر کے خواہش ظاہر کی ہے کہ وہ بھی آپ کے ساتھ شریک ہونا چاہتے ہیں۔ مجمعے میں پھر ایک تلاطم برپا ہوگیا اور اسماعیل ھنیہ نے مختصر لیکن جامع خطاب کیا۔ انھوں نے بھی اس بات کو خاص طور پر سراہا کہ عرب مقررین کے بجاے عالمِ اسلام کے نمایندوں کو بلایا گیا ہے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسئلہ فلسطین کسی قومیت یا علاقے کا نہیں، پوری اُمت مسلمہ کا اہم ترین مسئلہ ہے۔ اس پر قابض صہیونی ریاست کو تسلیم کرنا سنگین جرم اور خیانت ہے۔

پروگرام کے اختتام پر مہمانوں کو شہر کے ایک ریسٹورنٹ میں کھانے کے لیے لے جایا گیا۔ تقریباً ڈیڑھ سو افراد شریک تھے۔ کھانے کے بعد شرکا کے مابین مختصر گفتگو ہوئی۔ لوگ پاکستان کے حالات بھی جاننا چاہتے تھے۔ میں نے جب پرویز مشرف کے افلاطونی فلسفے ’سب سے پہلے پاکستان‘ پر بات کی تو سب شرکا خصوصی طور پر متوجہ اور متبسم ہوئے۔ اُردن میں نوجوان بادشاہ عبداللہ بن حسین کی قدآدم تصویریں لگی ہیں اور اکثر کے ساتھ یہ ’قولِ زریں‘ تحریر ہے: الاردن أولا ’سب سے پہلے اُردن‘۔ گویا پورے عالمِ اسلام کو ایک ہی تعویذ گھول گھول کر پلایا جارہا ہے۔

رات تقریباً ایک بجے (پاکستانی وقت کے مطابق صبح کے چار بجے) کمروں میں پہنچایا گیا اور ساتھ یہ حکم نامہ بھی کہ صبح فجر کی نماز کے فوراً بعد، یعنی پانچ بجے ہم نے دوبارہ سفر کا آغاز کرنا ہے اور آج کا دن بہت یادگار دن ہوگا۔ عین فجر کے بعد ہمارے میزبان اور اخوان کی مرکزی قیادت ہماری رہایش گاہ پر موجود تھی اور سفر کا آغاز ہوگیا۔ نکلتے ہوئے عقبہ شہر کی کچھ مزید جھلکیاں دیکھیں۔ جدھر سے گزرے دوسری جانب اسرائیلی آبادی منہ چڑا رہی تھی۔ اِیلات نسبتاً بلندی پر واقع ہے۔ چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں بھی ہیں، اس لیے عقبہ کے تقریباً ہر موڑ سے نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ اس صدمہ خیز منظر میں خیرواُمید کا یہ پہلو بار بار ذہن میں آیا اور اس کا اظہار بھی کیا کہ سرزمین فلسطین یہاں آنے اور رہنے والوں کو بار بار اور ہرلمحے یاد دلاتی ہے کہ میں تمھاری منتظر ہوں!

صہیونی قید میں گرفتار سرزمین اقصیٰ سے سرگوشیاں اور عہدوفا کی تجدید کرتے عقبہ سے روانہ ہوئے تو یہ ایک آرام دہ بس میں اجتماعی روانگی تھی۔ بتایا گیا کہ آج ہمیں تقریباً ۵۰۰ کلومیٹر کی مسافت طے کرنا ہے۔ اس میں ہم اُردن کے جنوب مغربی کونے سے چلیں گے اوردارالحکومت عمان سے گزرتے ہوئے شمال مغربی کنارے پہنچیں گے۔ عقبہ میں حضرت عمر بن خطابؓ کے ہاتھوں فتح بیت المقدس کی یاد تازہ ہوئی تھی۔ یہاں کے باسی بتا رہے تھے کہ اہلِ عقبہ نے ۱۶ہجری میں  حضرت عمر بن خطابؓ کی سفر بیت المقدس میں بھی معاونت کی تھی اور جب ۱۸ ہجری میں مدینہ منورہ میں شدید قحط پڑا تو ریاست اسلامی کے دیگر علاقوں کی طرح اہلِ عقبہ نے بھی امیرالمومنین کی اپیل پر بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔

ہمارا قافلہ کہیں توقف کیے بغیر چلتا رہا۔ ایک جگہ رُک کر نمازیں پڑھیں۔ ایک صاحب نے مشورہ دیا، سڑک کنارے فروخت ہونے والے تازہ کھیرے خرید لو اور اسی کو آج دوپہر کا کھانا شمار کرلو… موسم انتہائی خوش گوار، رفقاے سفر ایک سے بڑھ کر ایک اور گفتگو بے حد مفید تھی۔ سیکڑوں کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا کسی پر بھی گراں نہ گزرا۔

حضرت عمر فاروقؓ کا ذکر چلا تو ان کے سفر بیت المقدس کے بارے میں معلومات کا تبادلہ ہوا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے زمانے سے ہی حضرات خالد بن ولید، ابوعبیدہ بن الجراح، عمرو بن العاص، شرحبیل بن حسنہ، یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم جمیعا جیسے جلیل القدر صحابہ کرام رومیوں سے جہاد میں مصروفِ کار تھے۔ ایک سے ایک بڑا معرکہ اہلِ ایمان کی شان دار کامیابی پر منتج ہوا اور بالآخر ایلیا (بیت المقدس) کے دروازوں تک جا پہنچے اور اس کا محاصرہ کرلیا۔ جب اہلِ ایلیا کی ہرکوشش ناکام ہوگئی اور انھیں یقین ہوگیا کہ اب شکست یقینی ہے تو انھوں پیش کش کی کہ اگر تمھارا امیر خود آجائے تو ہم بیت المقدس کی چابیاں ان کے حوالے کرتے ہوئے شکست تسلیم کرلیںگے۔ حضرت عمرؓ کو اطلاع دی گئی تو مشاورت کے بعد وہ فلسطین کو روانہ ہوئے۔ مدینہ منورہ سے نکلتے ہوئے حضرت علی بن ابی طالبؓ کو اپنا قائم مقام مقرر کرگئے۔ ۴۱راتوں کے سفر کے بعد بیت المقدس پہنچے۔ محصورین نے آکر معاہدہ کیا۔ حضرت عمر بن الخطابؓ نے معاہدے کی تحریر کا آغاز ان الفاظ سے کیا: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ یہ وہ عہد ہے جس کی رُو سے اللہ کے بندے،امیرالمومنین عمرؓ نے اہلِ ایلیا کو امن کی ضمانت دی۔ اس نے ان کی جان، مال، عبادت گاہوں، کلیسائوں اور صلیبیوں کو امان دی۔ ان کے بیماروں، صحت مندوں اور تمام باشندوں کو امان دی۔ اس نے عہد کیا کہ نہ تو ان کے کلیسائوں میں کوئی دوسرا رہایش پذیر ہوگا، نہ انھیں ڈھایا جائے گا۔ ان میں سے ان کا کوئی سامان یا ان کی صلیبیں نہیں نکالی جائیں گی۔ ان کے اموال سے کچھ نہ لیا جائے گا، نہ انھیں ان کا دین بدلنے پر مجبورکیا جائے گا، نہ ان کے ساتھ بیت المقدس میں یہودیوں میں سے کسی کو آنے کی اجازت دی جائے گی۔ اہلِ ایلیا کو اس کے مقابل اسی طرح جزیہ ادا کرنا ہوگا۔

اسی طرح کی چند مزید عبارتوں سے معاہدے کا متن مکمل ہوا اور اس پر امیرالمومنین کے علاوہ ان کے سپہ سالاروں خالد بن ولید، عمرو بن العاص، عبدالرحمن بن عوف اور معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم کے دستخط ثبت ہوگئے۔ اس معاہدے کی عبارت کے ایک ایک لفظ میں مسلمانوں اور مسلمانوں سے دشمنی رکھنے والوں کے لیے بہت سی نشانیاں اور سبق ہیں۔

عصر سے کچھ پہلے ہم ’ساکب‘ نامی ایک قصبے سے گزرے جس کے بعد کا راستہ نسبتاً تنگ اور چڑھائی کا تھا۔ گاڑیاں اور سواریاں بھی نہ ہونے کے برابر تھیں، البتہ کہیں کہیں بورڈ کے ذریعے رہنمائی کی گئی تھی۔ کچھ مشکل چڑھائیاں چڑھنے کے بعد ہم ایک بلنداور ہموار پہاڑ کے اُوپر تھے، جس کے ہر طرف، ڈھلوانوں کے دامن میں لہلہاتے کھیت تھے۔ پہاڑ کے کنارے پر پہنچے تو عجیب وغریب ناقابلِ بیان اور دل کی دنیا میں ہیجان پیدا کردینے والا منظر تھا۔ عقبہ میں فلسطین، اُردن اور سعودی عرب کی تکون کے بعد، اب ہم ایک اور تکون کے کنارے پر تھے۔ ہم جہاں کھڑے تھے۔ یہ اُردن کی سرحد کا آخری کنارا تھا۔ وادی میں بہنے والے دریاکے دوسرے کنارے پر صہیونیوں کے جابرانہ قبضے میں سسکتی سرزمین فلسطین تھی اور ہمارے دائیں ہاتھ شام کی سرزمین تھی۔ اس وادی اور میدان میں حضرت خالد بن ولید اور حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہما کی زیرقیادت تاریخ کا انوکھا معرکہ یرموک برپا ہوا تھا۔

ہمارے پروگرام کے نگران ڈاکٹر سعود ابومحفوظ نے پہلے سامنے پھیلی سرزمین فلسطین اور اس پر دُور تک تعمیرشدہ یہودی بستیوں پر نگاہ دوڑائی اور پھر وادیِ یرموک اور یہاں روپذیر ہونے والے واقعات بتانا شروع کیے۔ کہنے لگے: وہ سامنے ٹیلے پر خالد بن ولیدؓ کا خیمہ تھا۔ اس ٹیلے پر کھڑا ہونے سے پوری وادی نظروں میں رہتی ہے۔ مسلمان لشکر نے یہاں پڑائو ڈالا، ان کی تعداد ۳۸ہزار کے لگ بھگ تھی، جب کہ بعض صحیح روایات کے مطابق دشمن کی تعداد ۴ لاکھ تھی۔ لڑائی شروع ہوئی تو اس ٹیلے سے خالدؓ نے قیادت کی۔ مسلسل چھے روز تک وہ اسی ٹیلے پر رہے۔ مسلمان بڑی تعداد میں زخمی ہوگئے تھے۔ کچھ لوگوں نے راے دی کہ لشکر کو بچاکر یہاں سے نکل جانا چاہیے لیکن حضرت ابوسفیانؓ نے راے دی کہ اگر آج اس سرزمین سے نکل گئے تو پھر کبھی اِدھر واپس نہ آسکوگے۔ ساتویں روز پورے لشکر نے اپنی تمام قوت صَرف کر دی، ساتھ ہی ساتھ سب نے مزید دعائوں اور تلاوتِ قرآن کا اہتمام کیا۔ پورے لشکر سے تلاوت کی آواز آرہی تھی۔ اللہ کے حکم سے اہلِ ایمان غالب آئے اور اس شکست کے بعد پھر پورے خطے سے دشمن کا خاتمہ ہوگیا۔ بیت المقدس کی فتح کا اصل آغاز یہاں سے ہوچکا تھا۔

ڈاکٹر ابومحفوظ کہنے لگے کہ بیت المقدس اپنی تاریخ میں ۲۷بار فتح ہوا ہے۔ ان میں ۲۶مرتبہ اسی راستے سے فتح ہوا ہے۔ بتانے لگے وہ اُوپر جو پہاڑ نظر آ رہا ہے صلاح الدین ایوبی نے اس کے اُوپر اپنا قلعہ تعمیر کیا اور پھر اس پورے علاقے میں ایسے ۱۵ قلعے بنائے۔کہنے لگے: ان میں سے کئی قلعے دو ہفتے سے بھی کم عرصے میں تعمیر کیے گئے۔ معرکۂ یرموک کے ساتھ ساتھ اب صلاح الدین ایوبی کا ذکر شروع ہوگیا تھا۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے اس عظیم تاریخ کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا تھا۔ پوری وادی یرموک یہاں سے کھلی کتاب کی طرح دکھائی دے رہی تھی۔ یہ بھی نظر آرہا تھا کہ ایک ہی مسلم ریاست کو کس طرح تین ٹکڑیوں میں فلسطین، شام اور اُردن میں تقسیم کر دیا گیا ہے لیکن اس اہم مقام پر جوایک لمبوترا پتھر نصب کیا گیا تھا، اس پر نقشے کے ذریعے جولان، جبل طور، طبریا جھیل اور دریاے یرموک واضح کیے گئے تھے۔

اس وادی کی بہت سی تفصیلات باقی تھیں بالخصوص طبریا جھیل کے اس پار ہرپہاڑ کے پیچھے کوئی نہ کوئی اہم فلسطینی شہر ہے اور سامنے دائیں ہاتھ جو پہاڑ ہے اس کے دامن میں بیت المقدس کی بہاریں پھر کسی صلاح الدین ایوبی اور خالد بن ولید کی منتظر ہیں!

حضرت معاذ بن جبلؓ ان معدودے چند صحابہ کرامؓ میں سے ہیں کہ جن سے رسول اکرمؐ نے خصوصی طور پر اظہارِ محبت کیا۔ آپؓ کی قبر بھی یہیں ہے اور اس پر حدیث کے یہ الفاظ درج ہیں: ’’معاذ مجھے آپؓ سے محبت ہے‘‘۔ محبوبِ نبیؐ معاذ بن جبلؓ کے ساتھ ہی ان کے صاحبزادے عبدالرحمن بن معاذؓ کی قبر ہے۔ یقینا آس پاس اور بھی کئی صحابہ کرامؓ کی قبریں ہوں گی۔ رات گئے واپس پہنچے۔واقعی ایک تاریخی دن کا اختتام ہوا۔ آج کے دن تین تاریخی فتوحات کی سرزمین دیکھنے کی سعادت ملی، فتح عُمری، معرکۂ یرموک اور معرکۂ حطین۔

اگلے روز بھی کئی اہم پروگرام اور ملاقاتیں تھیں۔ اخوان کے ہم خیال ایف ایم ریڈیو پر انٹرویو، دو اسلامی پروڈکشن سنٹرز کا دورہ، جب کہ اخوان المسلمون اُردن کے قائدین پاکستان اور افغانستان کے بارے میں جاننا چاہ رہا تھے۔ اگر وقت بچا توعصر کے بعد دنیا کا سب سے کڑوا اور سب سے انتہائی نشیب میں واقع سمندر بحرمُردار دیکھنا شامل تھا۔ سطح سمندر سے ۴۵۰فٹ گہرا، البحر المیت (Dead Sea) بھی عجیب و غریب روایات کا امین ہے۔ اسی علاقے میں   حضرت لوط علیہ السلام کی قوم پر اللہ کا عذاب ٹوٹا۔ کچھ روایات کے مطابق یہی سمندر وہ جگہ ہے کہ جہاں پہلی قوم بستی تھی۔ بدکاری میں تمام حدیں پھلانگ گئی تو آسمان تک لے جاکر اوندھے منہ زمین پر پٹخ دی گئی اور اُوپر سے پتھروں کی بارش کر دی گئی۔ افسوس کہ اس جاے عبادت کو تفریح و عیاشی کا اڈا بنایا جا رہا ہے۔ بحرمُردار تقریباً ۷۱کلومیٹر لمبا ہے۔ اس کا مشرقی کنارہ اُردن ہے اور سامنے دکھائی دینے والا مغربی کنارہ صہیونیوں کے زیرتسلط فلسطین، حکومت اُردن تقریباً پورے مشرقی کنارے پر بڑے بڑے ہوٹل اور تفریح گاہیں تعمیر کر رہی ہے۔ میں نے پوچھا: یہاں اُردنی شہری تو زیادہ دکھائی نہیں دے رہے، نہ دارالحکومت سے صرف ۵۰ کلومیٹر کے فاصلے پر ہونے کے باوجود یہاں ٹریفک کا کوئی رش ہے تو یہ اتنے ہوٹل کیوں بنائے جارہے ہیں؟ رفیق سفر نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا: ان میں زیادہ تر غیرملکی لیکن بنیادی طور پر خود اسرائیلی شہری آکر ٹھیرتے ہیں۔ میری حیرت کو بھانپتے ہوئے مزید بتایا کہ یہودیوں کو مقبوضہ فلسطین سے اُردن آنے کے لیے کسی ویزے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ جب چاہیں بغیر پاسپورٹ کے یہاں آتے ہیں۔ ان تفریح گاہوں میں ان کی زیادہ تر مصروفیت جوے بازی اور دیگر محرمات کا ارتکاب ہے۔ انھیں یہ سہولت بھی حاصل ہے کہ اگر وہ اُردن کے دوسرے علاقوں میں جانا چاہیں تو اپنا تحفظ یقینی بنانے کے لیے  سرحد پر پہنچ کر اسرائیلی نمبرپلیٹ اُتاریں، اُردنی نمبرپلیٹ لگائیں اور سکون سے جہاں چاہیں، جائیں۔ ان کی تمام تر حفاظت کی ذمہ داری حکومت اُردن کے سر ہے۔

بحرمُردار اس لیے بھی مُردار کہلاتا ہے کہ اس میں نمکیات کا تناسب انتہائی زیادہ ہے۔ اتنا زیادہ کہ اس میں کوئی سمندری مخلوق بھی زندہ نہیں رہ سکتی۔ چکھنے پر اندازہ ہوا کہ کھاری پن کڑواہٹ کی حد تک پہنچا ہوا ہے۔ بحرمُردار کی سطح مزید اور مسلسل نیچے جارہی ہے جس کا اندازہ اس کے کنارے دیکھنے سے بھی ہوتا ہے۔ جگہ جگہ پانی کی سابقہ سطح کے نشان جمے ہوئے ہیں۔ نمکیات کی سطح اس قدر بڑھی ہونے اور بڑھتی چلے جانے کا ایک سبب یہ بھی ہے۔ یہ سمندر اس لیے بھی مُردار کہلاتا ہے کہ اس میں کوئی آبی دھارا آکر نہیں ملتا۔

یہاں قدرتِ خداوندی کا ایک معجزہ یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ سڑک کے ایک کنارے پر تقریباً تین منزلہ عمارت جتنا گہرا بحرمُردار ہے اور سڑک کے دوسرے کنارے چھوٹے بڑے پہاڑ۔    ان پہاڑوں سے جگہ جگہ چشمے پھوٹتے ہیں۔ رفیقِ سفر نے سڑک کنارے گاڑی کھڑی کی اور ہم  ایک مختصر سی آبشار کے پاس چلے گئے۔ پانی کو ہاتھ لگا کر دیکھا تو سخت گرم… اتنا گرم کہ زیادہ دیر ہاتھ اندر نہ رکھا جاسکے۔ ویسے وہ انتہائی شفاف اور میٹھا پانی ہے اور زمین کے اندر سے راستہ بناتا ہوا بحرمُردار میں جا ملتا ہے۔ خالق نے ہر چیز کو ایک مخصوص مقدار و حساب سے بنایا ہے کہ بحرمُردار کو متعینہ موت تک باقی بھی رکھنا ہے لیکن روز بروز کم بھی کرنا ہے۔

عشاء کے بعد وہاں سے واپس آرہے تھے اور رفیق سفر مختلف موڑوں پر رُکتا ہوا چلاجارہا تھا۔ ایک موڑ پر گاڑی رُکی اور سڑک کے کنارے کھڑے ہوکر وہ دکھانے لگا: دیکھو! وہ دُور جو روشنیاں نظر آرہی ہیں وہ بیت المقدس کی ہیں۔ حیرت، خوشی اور صدمے کے ملے جلے جذبات نے پھر قلب و ذہن کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ رب ذوالجلال نے محبوب کو عرش پر بلایا تو مکہ مکرمہ سے سیدھا آسمان پر نہیں لے گیا بلکہ یہاں سے مسجداقصیٰ لے کر آیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قبلہ اور آپؐ کی سجدہ گاہ یہودیوں کے نرغے میں ہے اور مسلم ممالک آزادی اقصیٰ کے بجاے اقصیٰ کی اسیری مستحکم کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

فلسطین و اُردن کا ایک ایک کونہ اور ایک ایک پتھر اپنے اندر صدیوں کی آپ بیتی لیے ہوئے ہے، اسے مسلسل دہراتے رہنے کی ضرورت ہے۔ عمان ایئرپورٹ سے رخصت کرتے ہوئے میزبان نے بتایا کہ ہم نے مشاورت کے بعد آپ کی اس تجویز سے اتفاق کیا ہے کہ حضرت عمرؓ کے ہاتھوں بیت المقدس کی فتح کا جشن ہر سال منایا جائے اور دنیا بھر میں منایا جائے تاکہ اس کے اسباق و حقائق کے منظر کی تبدیلی کے عمل کو تیز تر کرسکیں۔

بھارت کے سرکاری ادارے ’قومی انسانی حقوق کمیشن‘ نے ایک استفسار کے جواب میں بتایا ہے کہ ملک میں اکتوبر ۱۹۹۳ء سے اب تک ۲ہزار ۵سو ۶۰ پولیس مقابلے ہوئے، ان میں سے    ایک ہزار۲ سو۲۴ مقابلے جعلی تھے۔ اترپردیش کے ریٹائرڈ آئی جی پولیس ایس آر دارپوری نے اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ: ’’اگر تمام معاملات کی جانچ کی جائے تو بمشکل ۵ فی صد مقابلے درست پائے جائیں گے بلکہ میرے خیال میں تو ۹۹ فی صد مقابلے فرضی اور جعلی ہوتے ہیں۔ میں نے ۳۲ سال کی ملازمت کے دوران صرف ایک اصلی پولیس مقابلے (encounter) کا سامنا کیا تھا‘‘ (سہ روزہ دعوت، دہلی، یکم اپریل ۲۰۱۰ئ)۔ اقتصادی ابحاث کے ایک بھارتی ادارے NCAER اور امریکی میری لینڈ یونی ورسٹی کے ایک مشترکہ سروے کے مطابق بھارت کی ایک چوتھائی سے زائد آبادی (۷ئ۲۵ فی صد) خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرتی ہے۔ خطِ غربت کا معیار بھی ملاحظہ ہو۔ دیہی آبادی میں ماہانہ آمدنی ۳۵۵روپے سے کم اور شہری علاقے میں ۵۳۸ روپے ماہانہ سے کم۔ ۴۱ہزار خاندانوں میں کیے جانے والے اس سروے کے مطابق بھارت کی مسلم آبادی میں یہ تناسب اور بھی زیادہ ہے، یعنی ۳۱فی صد۔ ان اعداد و شمار کے مطابق بھارت کے بعض علاقوں میں غربت کا تناسب ناقابلِ یقین حد تک زیادہ ہے، مثلاًچھتیس گڑھ میں ۳ئ۶۳ فی صد، جھاڑکھنڈ میں ۴۹ فی صد، مدھیہ پردیش میں ۵ئ۴۵ فی صد اور اڑیسہ میں ۳ئ۴۱ فی صد۔

ایک جانب تو یہ تلخ حقائق ہیں اور دوسری طرف دنیا میں یہ تصویر اور تصور گہرا کیا جا رہا ہے کہ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے، مستقبل کی سوپرپاور ہے۔ ۲۰۵۰ء میں چار عالمی قوتیں چین، جاپان، بھارت اور برطانیہ عالمی پیداوار کا ۶۰ فی صد پیدا کر رہی ہوں گی۔ امریکا میں ہونے والی حالیہ توانائی کانفرنس میں وزیراعظم من موہن سنگھ نے بھی یہی لَے بلند کرتے ہوئے کہا ہے کہ عنقریب ہماری سالانہ ترقی کی شرح ۹ سے ۱۰ فی صد، بچت کی شرح ۳۵ فی صد اور سرمایہ کاری کا تناسب ۳۷ فی صد ہونے کو ہے۔ واضح رہے کہ بھارت میں اقتصادی ترقی کی شرح ۱۹۸۰ء سے ۲۰۰۰ء کے درمیان تقریباً ۶ فی صد، ۲۰۰۰ء کے بعد تقریباً ۶ئ۸ فی صد، ۲۰۰۷ء میں ۴ئ۹ فی صد، ۲۰۰۸ء میں ۸ئ۷ فی صد اور ۲۰۰۹ء میں ۷ئ۶ فی صد رہی ہے۔

تعمیر و ترقی اور امن و استحکام ہرقوم اور ملک کی بنیادی ضرورت ہی نہیں اس کا حق بھی ہے۔ ایک اہم اور بڑا پڑوسی ملک ہونے کی حیثیت سے ہم بھارت کے اس حق کو تسلیم کرتے ہیں۔     یہ مسلّمہ حقیقت ہے کہ امن و ترقی کے ثمرات کسی ایک خطے میں محدود نہیں رہ سکتے۔ کسی بھی انسان کا امن و استحکام (اگر وہ واقعی انسان ہو تو) یقینی طور پر اس کے پڑوسیوں کے لیے بھی مثبت اثرات رکھتا ہے۔ لیکن یہ حقیقت بھی پوری دنیا کے سامنے رہنا چاہیے کہ دروغ گوئی پر قائم کیا جانے والا کوئی تاثر اور تصویر کا صرف ایک پہلو سامنے رکھ کر کیے جانے والے فیصلے اور پالیسیاں، کبھی کسی کو حقیقی کامیابی تک نہیں پہنچا سکتیں۔

بھارت یقینا وسیع و عریض رقبے اور (۲۰۰۹ء کے اندازوں کے مطابق) ۱۶ئ۱ ارب کی آبادی پر مشتمل ملک ہے۔ بھارت میں دستور کے مطابق انتخابی عمل بھی تسلسل سے جاری ہے اور وہ مارشل لا کے سایے سے محفوظ رہا ہے۔ اقتصادی ترقی کا سفر بھی بالخصوص ۱۹۹۱ء کے بعد تیز تر ہوا ہے۔ سردجنگ کے دوران روس اور سردجنگ کے بعد امریکا کے علاوہ باقی عالمی قوتیں بھی بھارت کی بھرپور سرپرستی اور مدد کر رہی ہیں۔ اسرائیلی تعاون تو روزِ اوّل سے جاری اور مسلسل روز افزوں ہے۔ روسی سرپرستی بھی ہنوز جاری ہے۔ گذشتہ مارچ میں دلی آنے والے روسی وزیراعظم پوٹین نے عسکری معاہدوں سمیت مجموعی طور پر ۱۰؍ ارب ڈالر کے مزید معاہدے کیے ہیں۔ کم اُجرت اور  پیشہ ورانہ صلاحیت رکھنے والی بھارتی افرادی قوت نے ایک دنیا کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے۔    (آئی ٹی) معلوماتی ٹکنالوجی کی ۵۰۰ بڑی عالمی کمپنیوں میں سے ۱۲۵ کمپنیوں نے اسی وجہ سے بھارت کو اپنی سرگرمیوں اور تحقیقات کا مستقل مرکز بنالیا ہے۔ ۷ ہزار ۵سو ۱۷ کلومیٹر طویل ساحل اور تیل سپلائی کے عالمی روٹ پر واقع ہونے اور امریکی و اسرائیلی منصوبہ بندی کے مطابق وسیع تر علاقائی دفاعی نظام میں بھی بھارت کو نمایاں طور پر شریک کیا جا رہا ہے۔ بھارتی ترقی اور خزانے میں ۳۰۰ ارب ڈالر سے زائد کے ذخائر کی حکایت بھی طویل ہوسکتی ہے، لیکن سادہ سا سوال یہ ہے کہ اگر بھارت میں ایسی ہی دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں تو وہاں ساڑھے تین یا چار سو روپے ماہانہ آمدن رکھنے والے ۲۶کروڑ سے زائد افراد کو اس سے جینے کا سہارا کیوں نہیں مل رہا؟ درجن بھر سے زائد علیحدگی کی تحریکیں کیوں وجود رکھتی ہیں؟ جرائم کے بارے میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۱۹۹۵ء اور ۲۰۰۷ء کے درمیان ایک لاکھ ۸۴ہزار بھارتی کسانوں نے بھوک اور غربت کے باعث خودکشی کرلی۔ ان میں ایک بڑی تعداد ان کسانوں کی تھی جنھوں نے زرعی آلات، ادویات اور ضروریات خریدنے کے لیے بنکوں سے قرض لیے ہوئے تھے جو سوددرسود جمع ہوجانے کے باعث خودہلاکتی ہی کے ذریعے ادا کیا جاسکتے تھے۔ ترقی و خوش حالی کا پیغام ان غریب کسانوں اور اب ان کے وارثوں تک کیوں نہ پہنچ سکا؟

ترقی کے لیے جس داخلی استحکام کی ضرورت ہے، اس میں بنیادی رکاوٹ اور دعواے ترقی سے متصادم ایک حقیقت خود ہندو طبقاتی عقیدہ و تقسیم بھی ہے۔ ۸۲ فی صد ہندو اکثریت میں سے، رام کے سر سے پیدا ہونے والے اعلیٰ براہمن طبقے کا تناسب صرف ۳فی صد ہے۔ ۴۳فی صد   بے چارے اچھوت تو اعلیٰ طبقات کے لیے مخصوص مندروں تک کو بھی آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھ سکتے۔ ہیں تو یہ بھی انسان ہی، لیکن دیہاتی علاقوں میں یہ اُونچی ذات والوں کے سامنے بیٹھنے کی جسارت بھی نہیں کرسکتے۔ ان کے لیے مخصوص کھانے پانی سے پیٹ کی آگ نہیں بجھاسکتے۔ روشن، چمکتے بھارت (Shining India) میں یقینا اس وقت ۱۰۰ سے زائد ایسی کمپنیاں ہیں جن کا سرمایہ  ایک ارب ڈالر سے زیادہ ہے، لیکن یہ ساری دولت و ثروت چندمخصوص طبقات اور علاقوںتک محدود ہے۔ ۲۰۰۷ء میں جاری ہونے والی اقوام متحدہ کی رپورٹ میں دنیا کے ۱۷۸ ممالک کا جائزہ لیا گیا تھا۔ اس جائزے میں ملکی آبادی کو میسر ہونے والی مختلف بنیادی ضروریات، جیسے پینے کا پانی،  تعلیمِ بالغاں، تعلیمی ادارے، مجموعی قومی ترقی میں عام افراد کا حصہ وغیرہ جیسے سوالات شامل تھے۔ نتائج آئے توبھارت ۱۲۸ویں نمبر پر کھڑا منہ بسور رہا تھا۔

کسی بھی انسان کے لیے دیگر اقوام کی ترقی اور کامیابی تکلیف کا باعث نہیں ہونی چاہیے۔ اسی طرح کسی کی غربت و تکالیف پر خوشی محسوس کرنا بھی انسانیت کی نفی اور توہین ہے، لیکن بے بنیاد پروپیگنڈے کے ذریعے اپنی دکان چمکانے کی کوشش بھی بعینہٖ اتنی ہی معیوب اور باعثِ ملامت و نفرت ہے۔ اس وقت دنیا بالخصوص عرب ممالک میں اسی طرح کا یک طرفہ بھارتی اور بھارت نواز پروپیگنڈا عروج پر ہے۔ کشمیر میں ۷ لاکھ مسلح افواج کے ذریعے لاکھوں افراد کو موت، تشدد یا قید کی نامعلوم وادیوں میں اُتار دینے والا بھارت ’’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت‘‘ کی خودساختہ کلغی سجائے، خود کو مستقبل کی اہم عالمی طاقت منوانے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہے۔ کئی مسلم ملک اور مسلم شخصیات بھی اس فریب کا شکار ہوچکی ہیں۔ عرب بالخصوص خلیجی تجزیہ نگار اس صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے کھلم کھلا اقرار و اظہار کر رہے ہیں کہ اب ہماری خارجہ پالیسی صرف اور صرف دوطرفہ مفادات کی بنیاد پر طے پارہی ہے۔ اب ہم بھارت کے ساتھ اپنے باہمی تعلقات کو پاکستان کے تناظر میں نہیں دیکھتے، اور نہ اب مجرد قومی خواہشات، کسی نظریاتی اعتبار یا دینی و نسلی شناخت کو اس راہ میں آڑے آنے دیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں کشمیر کا ’ذکرِخیر‘ خصوصی طور پر کیا جاتا ہے کہ بالآخر عرب ممالک نے مسئلۂ کشمیر کو نظرانداز کردیا ہے۔ اس تبدیل شدہ عرب پالیسی کی دیگر وجوہات میں سے ایک اہم وجہ خود پاکستان کی پالیسی میں تبدیلی بتائی جاتی ہے۔ پرویز مشرف کے اکتوبر ۲۰۰۴ء میں دیے گئے اس بیان کو خصوصی طور پر نمایاں کیا جاتا ہے کہ ’’مسئلۂ کشمیر کے حل کے لیے ہم اقوام متحدہ کی قراردادوں کے پابند نہیں ہیں‘‘۔ نائن الیون کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال اور مجموعی طور پر جہادی تحریکوں کے خلاف کیے جانے والے پروپیگنڈے کو تبدیلی کا ایک اور سبب بتایا جاتا ہے۔

بھارت کے ساتھ عالمِ عرب بالخصوص خلیجی ریاستوں کے تعلقات کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بھارت کے ساتھ عرب ممالک کی تاریخ بیان کرتے ہوئے پوری تاریخِ اسلامی کے حوالے جمع کردیے جاتے ہیں۔ ۷۱۲ عیسوی میں محمد بن قاسم کی براستہ سندھ برعظیم پاک وہند میں آمد کے ساتھ ہی ساتھ، بھارتی ساحلی علاقے کیرالا میں مسلمان تاجروں کی آمد کا ذکر کیا جاتا ہے۔ بعض عرب تاریخ نویس تو لکھتے ہیں کہ ’کیرالا‘ بنیادی طور پر عرب تاجروںکا دیا ہوا نام ’خیراللہ‘ تھا، جو بعد میں کیرالا بن گیا، لیکن عجیب امر یہ ہے کہ برعظیم کے ساتھ عالمِ عرب کے ان تمام تاریخی بندھنوں کو بالآخر آج کے بھارت سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی یہ مفت مشورہ بھی دیا جاتا ہے کہ بھارت سے تعلقات کو پاکستان حتیٰ کہ بنگلہ دیش کے تناظر میں نہ دیکھا جائے۔ گویا کہ باہمی تعلقات میں مسلمان اور اسلام نام کی کوئی بنیاد باقی نہ رہنے دی جائے۔ اس حوالے سے سب سے مسموم پروپیگنڈا یہ کیا جاتا ہے کہ ’’مسلمانوں نے اپنی قوت کو تین حصوں میں تقسیم کرکے خود ہی کو کمزور کرلیا۔ مسلمان برطانوی سازش کا شکار ہوگئے‘‘۔ اکھنڈ بھارت کے اس نظریے کو بعض اسلام پسند طبقات کے مابین بھی اس شکر میں لپیٹ کر پھیلایا جاتا ہے کہ ’’مسلمانوں کے لیے راہِ نجات ہی یہ ہے کہ پھر سے یک جا ہو جائیں‘‘۔ ظاہر ہے کہ اس منطق میں پھر آزادیِ کشمیر کی کیا گنجایش رہ جاتی ہے۔

ہندو ذہنیت کی براہِ راست یا بالواسطہ ترجمانی کرتے ہوئے عالمِ عرب میں ایک اور منطق اسرائیل کے بارے میں بھی پیش کی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے یہ منطق بھی بعض مسلمان رہنمائوں کے ذریعے ہی پیش کی جارہی ہے۔ کبھی خود بھارتی ذمہ داران کو یہ خدشہ درپیش رہتا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ اس کے تعلقات منظرعام پر نہ آپائیں وگرنہ عرب ممالک کی ناراضی مول لینا پڑے گی۔ اب اس خدشے کا دور لَدچکا۔ اب تو خود عرب ممالک اور اسرائیل مخالف عناصر کاایک گروہ بھی بھارت اسرائیل تعلقات کی ایک ایک تفصیل کامل جزئیات کے ساتھ بیان کرتا ہے اور پھر اس درست اور تلخ حقیقت سے یہ غلط اور مزید تلخ نتیجہ نکالتا ہے کہ ’’ہم عربوں نے بھارت کو اسرائیل کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ اسرائیل کے شر سے بچنے کا اصل راستہ یہ ہے کہ ہم بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط سے مضبوط کریں۔ اب تو ویسے بھی وہ مستقبل کی بڑی طاقت ہے۔ اسے سیکورٹی کونسل میں مستقل ممبر بنوانا چاہیے۔ اسے مسلمان ممالک کی تنظیم اوآئی سی میں بھی مبصر کی حیثیت سے شامل کرلینا چاہیے‘‘۔

اس وقت صرف خلیجی ممالک میں بھارتی باشندوں کی تعداد ۵۰ لاکھ سے متجاوز ہے۔ ہرسال بیرونِ ملک مقیم ہندستانیوں کی طرف سے بھیجے جانے والے ۵ئ۴۳ ارب ڈالر میں سے ۱۸ارب ڈالر صرف یہی خلیج میں مقیم افراد بھیجتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کئی خلیجی ریاستوں میں ہندستانی افرادی قوت کی اکثریت مسلمان ہے۔ یہ پُرامن ہندستانی مسلمان بھارت کے ساتھ خلیجی ریاستوں کے تعلقات کی مضبوطی کی اہم بنیاد ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ان کا مسلمان ہونا ان کے بارے میں منفی پروپیگنڈے کا سبب بنادیا جاتا ہے۔ ویسے تو بات صرف خلیج میں مقیم مسلمانوں کی نہیں ہے، اکثر بھارتی مسلمانوں کو الزامات کے اسی ترشول کی زد میں رکھا جاتا ہے۔ ’دہشت گرد‘، ’جاسوس‘، ’شدت پسند‘ اور نہ جانے کیا کیا القابات ان کے لیے مخصوص کردیے گئے ہیں، لیکن خلیج کے مخصوص حالات اور حساس نظامِ حکومت میں یہ الزامات بالکل ہی ناقابل فہم ہیں۔

بظاہر یہ ایک متضاد حقیقت ہے کہ ایک طرف مسلم ممالک سے تعلقات کی مضبوطی کا اہم ذریعہ، بھاری زرمبادلہ اور دوسری جانب الزامات کا تانتا؟ بدقسمتی سے بھارتی حکمرانوں، نمایاں مذہبی پیشوائوں اور دانش وروں کا ایک مؤثر طبقہ مسلمانوں کے خلاف ہمیشہ تعصباتی تیشے کی یہی ضربیں لگانے کے لیے بے تاب رہتا ہے۔ انھوں نے بعض خلیجی تجزیہ نگاروں کے منہ میں بھی     یہ الفاظ دے دیے ہیں۔ ایک مثال ملاحظہ ہو: ’’اگرچہ بھارت کو جس دہشت گردی کا سامنا ہے، اسے عمومی طور پر پاکستان کے اندر سے امداد ملتی ہے لیکن بھارتی تحقیقاتی ایجنسیوں نے اس جانب توجہ دلائی ہے کہ ان شدت پسند دہشت گردوں کو خلیج میں مقیم بھارتی کمیونٹی سے تعاون ملتا ہے۔ انھیں وہاں اس نیٹ ورک میں شامل کیا جاتا ہے، ٹریننگ دی جاتی ہے اور پھر بھارت میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے‘‘۔ بھارت کی طرف سے مختلف خلیجی رفاہی اداروں کے بارے میں بھی اسی طرح کے شکوک پھیلائے جاتے ہیں اور خلیجی جامعات میں زیرتعلیم بھارتی طلبہ کے بارے میں بھی انھی شبہات کو ہوا دی جاتی ہے۔

شر میں سے خیر کی سبیل نکالنا الٰہی سنت ہے۔ اپنے ہی شہریوں کے بارے میں اس تشکیکی ذہنیت نے خلیج میں عمومی طور پر بھارتی مسلمانوں کے بارے میں اظہارِ ہمدردی پیدا کیا ہے۔ بھارت کے ساتھ مضبوط سے مضبوط تر تعلقات کی وکالت کرنے والے عرب دانش ور بھی    بھارتی حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ مسلم ممالک سے تعلقات مضبوط کرنے کے لیے بھارت اپنے ہاں ہندو تعصب کا سدباب کرے۔ گجرات میں ۲ہزار مسلمانوں کی شہادت اور اس سے پہلے  بابری مسجد کی شہادت جیسے واقعات اور مسلمانوں کی عمومی پس ماندگی جیسے حقائق آج کے دور میں کسی سے مخفی نہیں رہ سکتے۔ اگرچہ فی الحال یہ کہنا دشوار ہے کہ بھارت عالمِ اسلام کی اس تشویش کے ازالے کے لیے کوئی عملی اقدام اُٹھا رہا ہے۔

بھارتی حکومت دانش وروں اور پالیسی سازوں کا ایک بہت بڑا طبقہ اپنی تمام تر مشکلات و مصائب کی ذمہ داری اپنے پڑوسی ممالک کے گلے ڈال دیتا ہے۔ ممبئی واقعات کے بعد سے مسلسل کیا جانے والا واویلا اس کا سب سے واضح ثبوت ہے۔ دلی کے ایک معروف تھنک ٹینک سے متعلق دانش ور براھما چیلانی ’’تبدیل شدہ دنیا میں بھارتی خارجہ پالیسی‘‘ کے عنوان سے الجزیرہ کے لیے لکھی گئی اپنی تحریر میں رقم طراز ہیں: اس سب کچھ (یعنی ترقی) کے باوجود بھارت کے جغرافیائی محل وقوع کا ایک انتہائی اہم عنصر، اس کے گرد تنی شورش زدہ کمان ہے۔ جیوپولیٹییکل تناظر میں یہ بھارت کا سب سے کمزور پہلو ہے۔ بھارت کا پڑوس مستقل طور پر اور انتہائی درجے کا فسادزدہ علاقہ ہے۔ بھارت کو ناکام اور استبدادی ممالک نے گھیرا ہوا ہے جو ایک یا پھر دوسرے راستے سے بھارت کے سیکولرزم، اس کی کثیرالقومی اور کثیرثقافتی شناخت کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ بھارت کے گرد تنی یہ شورش زدہ کمان، لبنان سے پاکستان تک پھیلی ہوئی ہے اور علاقائی و عالمی امن پر گہرے منفی اثرات مرتب کر رہی ہے‘‘۔

یہ ایک حیرت انگیز حقیقت ہے کہ بھارت اپنے تمام پڑوسی ممالک سے شاکی ہے۔ ۱۲مبسوط صفحات پر پھیلے اسی سابق الذکر مقالے سے اپنے پڑوسیوں کے بارے میں چنیدہ حصے ملاحظہ کیجیے:’’بین الاقوامی سیاست اس نئی صورت حال کو ماننے پر آمادہ نہیں ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سیاسی سرحدیں معدوم ہوچکی ہیں۔ ڈیورنڈ لائن ویسے بھی برطانوی استعمار کی سازش اور ایک مصنوعی لائن تھی جس نے دونوں طرف کے پشتونوں کو تقسیم کر کے رکھ دیا تھا۔    آج اس سرحد کا وجود صرف نقشوں میں باقی ہے… افغانستان اور پاکستان کے درمیان واقع     یہ سرحدی علاقہ جہادیوں کاگڑھ بن چکا ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین اس سرحد کا سیاسی، اقتصادی   یا نسلی حوالے سے کوئی وجود و کردار نہیں بچا۔ اس کا نتیجہ کیا ہوگا…؟ ’پشتونستان‘ کاقیام۔ وہ   سیاسی وجود جس کے لیے پشتونوں نے طویل قربانیاں دیں اس کا سورج طلوع ہوکر رہنا ہے خواہ   وہ اس علاقے میں موجود مسلح اسلامی تحریکوں کے خاتمے کے بعد ان کے ملبے تلے سے طلوع ہو‘‘۔

مقالہ نگار امریکا کی جانب سے پاکستان کے لیے اعلان کردہ مالی امداد پر اظہارِ تشویش کے بعد گویا ہیں: ’’مزید بدقسمتی یہ ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ دہشت گردی کو کچلنے کے بجاے اسے رام کرنا چاہتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا کے خطرات سے یوں آنکھیں موند لینے نے بھارتی سلامتی کو تباہی کے کنارے لاکھڑا کیا ہے۔ بھارت کے لیے اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنے مغرب سے آنے والے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے مکمل تیاری کرے‘‘۔

بھارت کے مشرق میں برما اور بنگلہ دیش واقع ہیں۔ ان میں سے پہلی ریاست میں   فوجی نظام کے جبروسفاکیت، امریکی پابندیوں میں توسیع اور انسانی تباہی عروج پر ہے، جب کہ دوسری میں اسلامی بنیاد پرستی کے مضبوط تر ہوتے چلے جانے کے باعث اس کے دوسرا پاکستان بننے کے خطرات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بنگلہ دیش آبادی کے اعتبار سے دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہے اور اس کی خوں ریز ولادت سے لے کر آج تک وہاں سیاسی اتھل پتھل جاری ہے… پاکستان کی طرح بنگالی فوج کے خفیہ اداروں نے بھی جہادی جماعتوں کی سرپرستی اور آبیاری کی اور انھیں اندرون و بیرون ملک، اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کے علاوہ احمدی جماعت پر مظالم ڈھالنے کے لیے بھی استعمال کیا۔ بنگالی خفیہ اداروں کے خفیہ پاکستانی اداروں کے ساتھ گہرے خفیہ تعلقات ہیں اور اس نے بنگالی سرزمین کو بھارت کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کے لیے استعمال ہونے دیا، ساتھ ہی ساتھ شمال مشرقی بھارت میں علیحدگی پسندوں کی مدد کی‘‘۔

اس مقالے میں برما پر شدید الفاظ میں تنقید کے ساتھ ہی ساتھ اس کے چین کی گود میں چلے جانے، اس کے ذریعے بھارتی علاقوں میں چینی مداخلت کے خدشات کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔ پھر اس سے ملتے جلتے خدشات نیپال اور سری لنکا کے بارے میں بھی ظاہر کیے گئے ہیں۔ سری لنکا میں باغیوں کو کچلنے کے لیے حکومتی کارروائیوں پر تو اظہارِ اطمینان ہے لیکن اس امر پر افسوس کیا گیا ہے کہ یہ کارروائی چین سے ملنے والے اسلحے اور ہتھیاروں کے ذریعے کی گئی ہے۔ اب چین اس کے مقابل سری لنکا میں ایک ارب ڈالر کی مالیت سے بننے والی ھامبن ٹوٹا (hambantota) نامی بندرگاہ بنانے کا منصوبہ حاصل کرچکا ہے۔

یہ طویل اور مسموم مقالہ صرف ایک تجزیہ ہی نہیں، بھارتی ذہنیت اور پالیسیوں کا صحیح عکاس ہے۔ اپنے تمام پڑوسی ممالک کے بارے میں دشمنی کی حد تک سوء ظنی کے جذبات، امریکا سمیت پوری عالمی برادری کو طعنے اور کوسنے دے دے کر اسے ان ممالک کے خلاف اُکسانا، اور ان ممالک میں بھارتی عزائم کی تکمیل کو احسانِ عظیم قرار دینا خواہ وہ ’پشتونستان‘ کے خواب کی تکمیل ہو یا افغانستان کے لیے ۲ئ۱ ارب ڈالر کی بھارتی امداد کے جواب میں وہاں بھارتی نفوذ میں اضافے کا خواب، اس مقالے کی نہیں، بھارتی پالیسیوں کی اصل روح بھی ہے۔

ان تلخ حقائق کے باوجود، عالمِ عرب کے مخلص دوستوں کی طرح ہماری بھی دلی دعا ہے کہ، بھارت واقعی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بن جائے۔ بھارت واقعی ترقی یافتہ اور مستقبل کی ایک اہم عالمی طاقت بن جائے۔ بھارت میں امن و استحکام کا خواب منہ بولتی حقیقت بن جائے۔ لیکن بھارتی حکومت، پوری سیاسی قیادت اور اس کے ہر شہری کو یہ نوشتۂ دیوار ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اس کے لیے نفرت اور دشمنیوں کو نہیں اخلاص و محبت کو پروان چڑھانا ہوگا۔۶۳سال کے مشکل سفر کے بعد اب تو یہ بات خود کو سمجھانا ہوگی کہ مسئلۂ کشمیر کسی ضد اور ہٹ دھرمی کی بات نہیں لاکھوں کشمیری عوام کے جذبۂ آزادی کا نام ہے۔ فوج کشی اور زور زبردستی نہ پہلے کام آسکی نہ آیندہ کبھی کام آسکے گی۔ جنگ، فوج کشی اور ترقی و کمال دو متصادم و متضاد فلسفے ہیں___ تمام بھارتی شہری خواہ وہ مسلمان ہوں یا سکھ عیسائی اور کم ذات ہندو جب تک سب کو یکساں حقوق و مواقع نہیں دیے جائیں گے جمہوریت کا ہر دعویٰ باطل قرار پائے گا۔ اپنی ہی سچّرکمیٹی کی رپورٹ ملاحظہ فرمالیجیے یا گجرات و بابری مسجد کی تحقیقاتی رپورٹوں کو دیکھ لیجیے۔ بھارتی مسلمانوں کے ساتھ سوتیلوں کا سا سلوک خود واضح ہوجائے گا___ بھارت کو خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ بظاہر صورت حال کچھ بھی ہو، ۲۰کروڑ بھارتی مسلمانوں سمیت پوری مسلم اُمت کے حالات و واقعات دنیا کے ہرمسلمان کو اپنی جانب ضرور متوجہ کرتے ہیں۔ بالآخر سب مسلمان ایک ہی سچے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے ہیں___ بھارت کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ اس کے تمام پڑوسی کسی نہ کسی حوالے سے اس سے کیوں نالاں اور شکوہ کناں ہیں۔ رقبے اور آبادی میں کسی کا بڑا ہونا اقوام و ممالک کے درمیان برابری کے مسلّمہ اصول کی نفی نہیں کرتا۔ جمہوریت کا دعویٰ اس اصول کی آبیاری کا سب سے زیادہ متقاضی ہے۔ یہ بات بھارت سے زیادہ کون سمجھتا ہوگا کہ صرف آشائوں سے امن حاصل نہیں ہوتا، نفرت کی بھاشا اور مبنی بر منافقت پالیسی ترک کرنا امن کا پہلا زینہ ہوتا ہے۔

حضرت مسروق نے حضرت عبد اللہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب بھی کوئی بے گناہ قتل ہوتا ہے، تو اس کے قتل کے گناہ میں سے ایک حصہ، آدم علیہ السلام کے اس بیٹے کو ملتا ہے (جس نے اپنے بھائی کو قتل کیا تھا) کیونکہ اس نے سب سے پہلا خون بہایا۔ (بخاری، ۷۳۲۱)

نیکی ہو یا بدی، اپنا ابدی اثر رکھتی ہے۔ بندے کا عمل نیک ہو اور دوسروں کے لیے بھی نیکیوں یا استفادے و منفعت کا سبب بنے، تو اجر و ثواب کا سلسلہ قیامت تک بھی جاری رہ سکتا ہے۔ ایک بار کیا جانے والا عمل، صدقۂ جاریہ میں بدل جاتا ہے۔

یہی عالم برائی کا ہے جو برائی جس نے ایجاد یا متعارف کروائی، اپنے قول یا عمل کے ذریعے، دانستہ یا نادانستگی میں دوسروں تک پہنچائی، تو وہی ایک بار کیا جانے والا گناہ، سیئات جاریہ میں بدل جاتا ہے۔ جب تک وہ برائی ہوتی رہے گی، وہ فحش بات دہرائی جاتی رہے گی، اس برائی کا آغاز و تعارف کروانے والے کو برابر کی سزا ملے گی۔ بے لباسی، بے حیائی، بسنت، بھتہ، تعصبات کی آب یاری، قتل و غارت، ضمیرفروشی، ملک و قوم سے غداری، منشیات کی لت، ذرائع ابلاغ کی بے راہ روی، غرض کوئی بھی گناہ ہو، بعد میں آنے والے کو جتنی سزا ملے گی، اتنی ہی پہلے والے کو بھی ملے گی۔والعیاذ باللّٰہ!

o

حضرت ابوبکرۃ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر کسی مسلمان کے قتل میں تمام اہل ارض و سما بھی شریک ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو منہ کے بل جہنم میں پھینک دے گا (طبرانی، ۵۶۵)

خالق کو اپنی ہر مخلوق عزیز ہے اور اس کی زندگی یا موت کا فیصلہ اس نے صرف اور صرف اپنے ہاتھ میں رکھا ہے ۔مخلوق میں سے کوئی اگر خود کو دوسروں کی زندگی کا مالک سمجھنے پر تل جائے،  تو خالق پھر اسے وہ سزا دیتا ہے جو کسی دوسرے کو نہیں دیتا۔

مومن کی زندگی کا معاملہ تواور بھی نازک ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ مبارکہ میں ایک مومن کا قتل اللہ کے نزدیک ،زمین و آسمان کے زوال سے بھی زیادہ سنگین ہے۔قتل تو ایک یا چند افراد ہی کریں گے لیکن زیر نظرارشاد نبویؐ کے مطابق، اس میں جتنے بھی افراد شریک ہوں ،اللہ تعالی سب کو جہنم رسید کرے گا، خواہ دنیا جہاں کی تمام مخلوق ہی اس کی زد میں کیوں نہ آجائے۔ قرآن عظیم کے الفاظ میں: وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَھَنَّمُ خٰلِدًا فِیْھَا وَ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہٗ وَ اَعَدَّلَہٗ عَذَابًا عَظِیْمًا o (النسائ۴: ۹۳) ’’رہا وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر  قتل کرے تو اس کی جزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے سخت عذاب مہیا کررکھا ہے‘‘۔

ذرا آیت کو دوبارہ پڑھتے ہوئے گنیں، ایک نہیں دو نہیں ،اکھٹی چار سزائیں اور سب ایک دوسرے سے زیادہ کڑی اور سنگین۔ یہ آیات و احادیث صرف قاتلوں ہی کے لیے نہیں معاشرے کے لیے بھی  سوالیہ نشان ہیں کہ اس نے قاتلوں کا ہاتھ روکنے کے لیے کیا کیا؟ ان کا ہاتھ روکنے کی کوشش کی یا کسی خوف و لالچ کی خاطر ان ہی کے ساتھی بنے رہے۔

o

حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمیشہ درست اعمال کیاکرو۔ خود کو حق سے قریب تر رکھنے کی کوشش کیا کرو، اور (رحمتِ الٰہی کی) خوش خبری دیتے رہا کرو، (اور یاد رکھو) کسی کو بھی اس کا عمل جنت میں نہیں لے جائے گا۔ صحابہ کرام ؓ نے عرض کی : یارسولؐ اللہ! آپؐ کو بھی نہیں؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں، مجھے بھی نہیں ،الا یہ کہ اللہ مجھے اپنی رحمت میں ڈھانپ لے۔ (بخاری، کتاب الرقاق، ۶۴۶۷)

سبحان اللہ، شافع محشر بھی اپنے عمل پر نہیں ، صرف اور صرف رحمت خداوندی پر بھروسا رکھتے ہیں۔   مجرد تواضع اورانکساری کی خاطر نہیں، بلکہ عبودیت کے کمال درجے پر پہنچتے ہوئے فرماتے ہیں: ہاں، رحمت ربی شامل حال نہ ہو تو مجھے بھی میرا کوئی عمل جنت میں نہ لے جائے گا۔

حدیث میں انتہائی شدید وعید بھی ہے اور اتنی ہی عظیم خوش خبری بھی۔ وعید یہ کہ خبردار تمھاری ٹوٹی پھوٹی نیکیاں،یا تمھارے دینی مناصب تمھیں کسی غلط فہمی یا غرور کا شکار نہ کردیں۔ انسان ساری عمر بھی حمد و تسبیح اور اعمالِ صالحہ میں گزار دے، تب بھی جب تک رحمتِ حق کی آغوش میسر نہ ہو ،کچھ نتیجہ نہ نکلے گا۔  خوش خبری یہ ہے کہ حق اور بھلائی کے پیمانے پر خود کو ناپتے رہا کرو۔اپنے تئیں اعمال کو درست اور سیدھا رکھنے کی کوشش کرتے رہا کرو اور پھر مایوسی نہیں خوش خبری پھیلاؤ کہ اللہ کی رحمت عطا ہو کر رہے گی۔

o

حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نیک اعمال کرنے میں جلدی کیا کرو۔ فتنے رات کی تہہ در تہہ تاریکی کی طرح امڈتے چلے آئیں گے۔کئی مومن بھی صبح کے وقت ایمان کی حالت میں ہوں گے اور شام کفر کے عالم میں کریں گے۔ دنیا کی حقیر متاع کے لیے دین کا سودا کرلیں گے۔ (مسلم، کتاب الایمان، ۳۱۳)

دل میں نیکی کا ارادہ بھی اللہ کی عطا ہے۔ اللہ کی اس دین کو سُستی اور آیندہ پر ٹالتے چلے جانا،    زوالِ نعمت کا سبب بنتا ہے۔ شیطان ہر نیکی اور نیک ارادے کو اکارت کرنے پر تلا رہتا ہے۔ بے عملی کو بدعملی میں بدلنے میںدیر نہیں لگاتا۔ یہاں تک کہ ایک بندہء مومن اپنے قیمتی ترین سرمایے ،یعنی  ایمان کو، مچھر کے پَر سے بھی حقیر دنیا کے عوض بیچ دیتا ہے۔ یہ کام اتنی تیز رفتاری سے طے پاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے سب سے تیز رفتار عمل ،یعنی گردش روز و شب اور بالخصوص رات کے وقت امڈی چلے آنے والی تاریکی کی مثال دی۔ ایک کے بعد دوسری آزمایش، ایک کے بعد دوسرا فتنہ، ہر دم چوکنا اور خبردار رہنے کی اہمیت کو واضح کر رہا ہے۔

o

حضرت عدی بن حاتمؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس سے اس کا رب براہ راست ہم کلام نہ ہو۔ دونوں کے درمیان کوئی ترجمان نہ ہوگا۔ بندہ اپنے دائیں طرف دیکھے گا اسے کچھ دکھائی نہ دے گا، سواے اس کے کہ جو کچھ اس نے آگے بھیجا ہے۔ وہ اپنے بائیں طرف دیکھے گا تو، وہ اپنی آگے بھیجی ہوئی کمائی کے علاوہ  کچھ نہیں دیکھے گا۔ وہ اپنے سامنے دیکھے گا تو اسے جہنم کی آگ کے علاوہ کچھ دکھائی نہ دے گا۔ تو (اے لوگو) آگ سے بچو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے کا صدقہ دے کر۔ اور اگر اللہ کی راہ میں دینے کے لیے تمھارے پاس کچھ بھی نہ ہوتو اچھی بات کہہ کر ہی آگ سے بچو۔ (بخاری، ۷۵۱۲)

ہر بندے کو اصل فکر مندی اسی لمحے کی ہونی چاہیے جب خود رب ذو الجلال اس سے ہم کلام ہوگا۔ بندے کے ساتھ کچھ باقی رہے گا تو صرف اس کا عمل اور رب رحیم کی رحمت۔ رحمتوں کی طلب اور آگ سے بچاؤ کے لیے رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے آسان راہ بتادی___ اللہ کی راہ میں، صرف اور صرف اس کی رضا کے لیے، زیادہ سے زیادہ خرچ۔ اور کچھ نہیں تو کھجور کا ٹکڑا ہی سہی، وہ بھی نہیں تو خیرخواہی کے دو بول ہی سہی۔ اگر اس سارے عمل کا خلاصہ کہنا ہو تو یہ کہ دوسروں سے بھلائی۔

o

حضرت ابو سعید خدریؓ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے جنت کو اس طرح بنایا کہ ایک اینٹ سونے کی، ایک اینٹ چاندی کی اور گارا (یعنی سیمنٹ) کستوری کا۔ پھر اسے کہا: بولو۔ جنت بولی: قَدْ اَفْلَح الْمُؤْمِنُوْنَ، مومنین یقینا فلاح پاگئے۔ یہ سن کر فرشتوں نے کہا: کیا خوب ہے تو اے بادشاہوں کی رہایش گاہ۔

رہایش گاہ ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ دنیاوی گھر کے لیے ہر شخص کیا کیا خواب دیکھتا اور کیا کیا جتن نہیں کرتا۔ اس کی خاطر حرام کو بھی اپنے لیے حلال کرلیتا ہے۔ بڑے بڑے لینڈ مافیا وجود میں آچکے ہیں، حالانکہ کسی کو نہیں معلوم کہ چاؤ سے بنائے جانے والے ان گھروں میں رہنا کب تک ہے۔ کتنے خوش نصیب ہیں وہ جن کی تمام تر جدوجہد کا مقصد، آخرت کا ہمیشہ رہنے والا گھر بن جاتا ہے۔ دنیا میں بڑے سے بڑے قارون نے بھی ایسے گھر کا خواب تک نہ دیکھا ہوگا۔ کستوری کا گارا، سونے اور چاندی کی اینٹیں۔ اور ملے گا کس کس کو؟ اللہ کے حکم سے جنت خود جواب دیتی ہے: ’مومنین‘ کو کہ وہاں صرف ایمان و اخلاص اور تقویٰ و اطاعت کا سکہ چلے گا۔

دنیا میں حقیر ، ناکام اور مٹھی بھر سمجھے جانے والے افراد کو خوش خبری ہو کہ فرشتے انھیں ’بادشاہوں‘     کے لقب سے یاد کر رہے ہیں، ان کے نصیب پر رشک کر رہے ہیں۔ شرط صرف اخلاصِ عمل اور اپنی   ذمہ داری بھرپور انداز سے ادا کردینے کی ہے۔

o

حضرت جندبؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے صرف لوگوں کو سنانے کے لیے نیک کام کیا اللہ اس کی اصل حقیقت لوگوں کو سنا دے گا۔ اور جس نے صرف دوسروں کو دکھانے کے لیے نیکی کی، اللہ اس کی حقیقت لوگوں کو دکھا دے گا۔ (بخاری، ۶۴۹۹)

محرومی کی انتہا ملاحظہ ہو کہ بندہ نیکی کر کے بھی نہ صرف اجروثواب سے محروم رہا بلکہ خالق و مخلوق دونوں کی نظر سے گر گیا۔ رب ذوالجلال صرف اخلاص اور سچائی کو قبول کرتا ہے۔

 

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں جانے والا اور جہنم سے نکالا جانے والا سب سے آخری شخص گھسٹتے ہوئے جہنم سے نکلے گا تو اس کا رب اس سے کہے گا اب جاؤ جنت میں داخل ہوجاؤ۔ وہ عرض کرے گا پروردگار جنت تو ساری بھر چکی ہے۔ اس کا رب اسے تین بار یہی کہے گا: جاؤ جنت میں داخل ہوجاؤ اور وہ ہربار یہی جواب دہرائے گا: پروردگار جنت تو ساری بھر چکی۔ اس کا پروردگار فرمائے گا تمھیں جنت میں پوری دنیا کا ۱۰ گنا دیا جاتا ہے۔ (بخاری ، ۷۵۱۱)

بندہ گنہگار تھا، دوزخ کا حق دار تھا۔ جہنم میں نہ جانے کیا کیا عذاب جھیلنا پڑے بالآخر رحمن و رحیم کی رحمت غالب آئی اور اتنا مل گیا کہ دنیا میں کسی انسان نے اس کا خواب تک نہ دیکھا ہوگا۔ رب ذوالجلال ہمیں دنیا و آخرت کی حسنات عطا فرما۔ ہمیشہ آخرت کو دنیا پر ترجیح دینے کی توفیق دے۔

قاہرہ کی معروف خاتون ڈاکٹر امیرہ دسوقی بتا رہی تھیں، رات ۲ بجے پولیس کی بھاری نفری نے ہمارے گھر اور ملحقہ علاقے کو ہر جانب سے گھیرلیا۔ پھر پولیس والے گھر کے اندر بھی آگئے، تلاشی لیتے اور پوچھ تاچھ کرتے رہے۔ میں نے محسوس کیا کہ پولیس والوں کا رویہ خلافِ معمول بدتمیزی سے پاک اور مؤدبانہ ہے۔ ان کا سربراہ آفیسر بھی بار بار معذرت کر رہا تھا۔ میں نے اپنے شوہر ڈاکٹر محمد الدسوقی سے اس کی وجہ پوچھی تو انھوں نے بتایا کہ اس آفیسر کی والدہ شدید بیمار ہے، اور وہ اس کا علاج مجھ سے کروا رہا ہے۔ کچھ دیر تلاشی کے بعد وہ میرے شوہر کو گرفتار کرکے لے گئے۔

۸ فروری کی شب صرف ڈاکٹر محمد ہی نہیں مصر کے مختلف شہروں سے اخوان المسلمون کے ۱۶ اہم رہنمائوں کو گرفتار کیا گیاتھا۔ ڈاکٹر الدسوقی کی طرح ان کی اکثریت معاشرے کے    نمایاں ترین اور خدمت گزار افراد پر مشتمل تھی۔ ڈاکٹر محمود عزت طویل عرصے سے اخوان المسلمون کے سیکرٹری جنرل رہ چکے ہیں۔ ڈاکٹر محمدالبر.ّ  حدیث میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں۔ حدیث کے مختلف موضوعات پر ان کی ۱۳ کتب شائع ہوچکی ہیں۔ یونی ورسٹی میں تدریس کے دوران وہ خود اپنے طلبہ کی بڑی تعداد کو پی ایچ ڈی اور ایم اے کے شان دار مقالہ جات لکھوا چکے ہیں۔ اپنے دیگر ساتھیوں کی طرح ان کا قصور بھی صرف یہ ہے کہ وہ اخوان المسلمون سے منسلک ہیں اور اخوان کے ۱۶ رکنی مکتب ارشاد کے منتخب رکن ہیں۔ ان کے ہمراہ گرفتار ہونے والے دیگر حضرات میں احمدعباس معروف انجینیر ہیں، ڈاکٹر محمد سعد پروفیسر ڈاکٹر اور شعبہ امراض البول (یورالوجی) کے سربراہ ہیں۔ ڈاکٹر محمد عبدالغنی آئی اسپیشلسٹ ہیں، ولید شلبی معروف دانش ور اور لکھاری ہیں، ڈاکٹر ایہاب ابراہیم میڈیکل کالج میں پروفیسر ہیں، ڈاکٹر علی عبدالرحیم اسیوط یونی ورسٹی کی کلیہ ہندسہ (انجینیرنگ) میں استاد ہیں، مسعد علی قطب انجینیر ہیں اور جیساکہ پہلے ذکر گزر چکا ،محمدالدسوقی ڈاکٹر ہیں۔ یہی حقیقت مصر کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ اخوان کا علم و مرتبہ اور ان کی خدمت گزاری سب پر عیاں ہے، لیکن چونکہ وہ ’اخوان‘ یعنی بھائی بھائی ہیں اور حکومت کی غلط پالیسیوں کی اصلاح چاہتے ہیں، اس لیے قابلِ گردن زدنی ہیں۔

اخوان المسلمون کے نومنتخب مرشدعام ڈاکٹر محمد البدیع بتا رہے تھے کہ گذشتہ ۱۰ برسوں میں اخوان کے ۳۰ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا اور اگر ان سب کی گرفتاری کی مدت کو جمع کیا جائے تو وہ مجموعی طور پر ۱۵ ہزار سال سے متجاوز ہوجاتی ہے۔ گذشتہ تقریباً تین عشروں سے اقتدار پر قابض مصری صدر حسنی مبارک، اپنی قوم کے ان بہترین ۱۵ ہزار برسوں کو جیلوں کی نذر کردینے کا جواب اپنے رب کو تو جو دے گا سو دے گا لیکن اس نے اپنے قریب ترین ساتھیوں کو بھی ضمیر کا مجرم بنا دیا ہے۔ ایک سابق وزیراعظم عزیز صدقی، اپنی اس خلش کا اظہار پوری قوم سے معذرت کرتے ہوئے کرچکے ہیں۔ مرشدعام کے بقول وزیراعظم صدقی نے کہا: ’’ہم نے اخوان المسلمون کے ساتھ جو بھی زیادتیاں کی ہیں، ہم پورے مصر سے اس کی معذرت چاہتے ہیں۔ ہم نے مصر کو ایسے  شہ دماغ افراد سے محروم رکھا کہ جو اسے ترقی اور بلندی کی اعلیٰ منزلوں تک پہنچا سکتے تھے‘‘۔

مرشد و بانی امام حسن البناشہید اور صاحب ِ تفسیر قرآن سید قطب سے لے کر موجودہ مرشدعام اور ان کے ساتھیوں تک کسی بھی شخصیت کا جائزہ لے لیجیے، یکے بعد دیگرے آنے والے ہر فرعون مصر نے دنیا کو ان تمام نابغۂ روزگار ہستیوں سے محروم رکھا۔ ۱۹۹۹ء میں مصر کی طرف سے سرکاری سطح پر شائع ہونے والی سائنسی انسائیکلوپیڈیا میں پورے عالمِ عرب کی چوٹی کی ۱۰۰ علمی شخصیات کا ذکر ہے۔ نومنتخب مرشدعام ڈاکٹر محمد بدیع ان ۱۰۰ میں سے ایک ہیں۔ عالمِ عرب میں، پتھالوجی میں ان کے پاے کی کوئی اور شخصیت ملنا محال ہے۔ پوری دنیا میں وٹرنری سائنسز کے ماہرین کی فہرست بنی تو ان کا شمار چوٹی کے پہلے دس افراد میں سے ہوا۔ ایسی اعلیٰ علمی شخصیت اور اخوان سے تعلق…؟ اُٹھا کر جیل میں پھینک دو۔ فرعونِ مصر نے فیصلہ صادر کیا۔ انھیں سب سے پہلے ۱۹۶۵ء میں سیدقطب کے ہمراہ گرفتار کیا گیا۔ سیدصاحب کو تختۂ دار پر لٹکا دیا گیا اور ڈاکٹر محمد بدیع کو ۱۵سال قیدبامشقت کی سزا سنائی گئی۔ نو سال کی سزاے بے جرم کے بعد رہا کردیے گئے۔ پھر چندماہ    کے لیے متعدد بار گرفتار کیے گئے، لیکن ۱۹۹۹ء میں دوبارہ جو گرفتار ہوئے تو سوا تین سال گرفتار رہے۔ ایک وہی نہیں اخوان کی پوری تاریخ میں جو جتنا بلند پایہ عالم… جتنا زیادہ ذمہ دار … جتنا فعال و مخلص و مصلح کارکن تھا، معاشرے کو اس کے خیر سے اتنا ہی زیادہ محروم رکھا گیا۔

ان تمام عقوبتوں، مظالم اور قیدوبند کی صعوبتوں کے باوجود نومنتخب مرشدعام ڈاکٹر محمد بدیع نے ۱۶ جنوری کو اپنے انتخاب کے بعد پہلے خطاب میں کہا: اخوان کبھی بھی حکومت کے حریف اور دشمن نہیں رہے۔ ہم کبھی بھی مخالفت براے مخالفت پر یقین نہیں رکھتے۔ خیر میں تعاون اور شر     کی مخالفت کرنا ہمارا دینی فریضہ ہے اور ہم اسی بنیاد پر حکومت کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھاتے ہیں۔ اس خطاب کو ابھی ایک ماہ بھی پورا نہیں ہوا تھا کہ تین ہفتے کے اندر اندر مکتب ارشاد کے تین بزرگ ارکان سمیت مزید درجنوں رہنما و کارکنان گرفتار کرلیے گئے۔ ساتھ ہی ساتھ نومنتخب مرشدعام اور اخوان کے خلاف پروپیگنڈا عروج پر پہنچا دیا گیا۔ اخوان میں اختلافات کی بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ مرشدعام کو سیدقطب کے ہمراہ گرفتار ہونے پر قطبی کہہ کر پکارا جا رہا ہے اور اس سے مراد یہ لی جارہی ہے کہ وہ تشدد پر یقین رکھتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سید قطب کو القاعدہ سمیت تمام مسلح تنظیموں اور دوسروں پر تکفیر کے الزامات لگانے والوں کا اصل فکری رہنما ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ خود پاکستان میں بھی کئی حضرات کو یہی جادوئی چھڑی تھما دی گئی ہے۔ وہ سید قطب شہید کی تحریروں کی قطع و برید کرکے اور کئی جملوں کو توڑ مروڑ کر اپنی مرضی کی تفسیروتشریح کا جامہ پہناتے ہوئے ان پر تبرابازی کر رہے ہیں۔ یہ سارا ہنگامہ اور الزامات بے بنیاد ہونے کا اندازہ صرف اسی بات سے لگا سکتے ہیں کہ عالمِ عرب میں کئی حضرات سید قطب کے ساتھ ہی ساتھ، اس ضمن میں سیدابوالاعلیٰ مودودی کا نام بھی لے رہے ہیں۔ کچھ لوگوں سے اس بارے میں گفتگو ہوئی تو عرض کیا کہ اگر آپ پاکستان میں جاکر اپنا یہی دعواے باطل دہرائیں گے کہ  مولانا مودودی تکفیر و تشدد کے داعی تھے، تو لوگ آپ کی عقل پر شک کرنے لگیں گے۔ جس طرح سیدمودودی کو پُرامن دعوت و اصلاح کے بجاے بندوق اور دھماکوں کے ذریعے تبدیلی کا الزام نہیں دیاجاسکتا، اسی طرح سید قطب شہید پر بھی یہ الزام سراسر ظلم اور صریح زیادتی ہے۔

مرشدعام ڈاکٹر محمد بدیع نے بھی اپنے اولیں انٹرویو میں اس موضوع پر تفصیل سے بات کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ سیدقطب کی تحریروں اور ان تشدد آمیز جماعتوں کے مابین کوئی ربط پیدا کرنا قطعی بلاجواز ہے۔ الاخوان المسلمون خاص طور پر جناب حسن الہضیبی (سید قطب کے زمانے میں مرشدعام) نے اس راستے کی شدید مخالفت کی تھی۔ انھوں نے ان تمام لوگوں کو اخوان کی صفوں سے خارج کر دیا تھا کہ جنھوں نے تبدیلی کے لیے پُرتشدد راہ چھوڑنے سے انکار کیا۔ انھوں نے اس ضمن میں ایک شاہکار کتاب لکھی دعاۃ لاقضاۃ(جج نہیں داعی) اور میں ان چار افراد میں سے ایک تھا کہ جنھوں نے اپنے ہاتھوں سے اس کتاب کے قلمی نسخے تیار کیے۔ مرشدعام محمد بدیع نے مزید کہا:  ’’یہ سراسر بہتان اور جھوٹ ہے کہ الاخوان المسلمون نے حکمرانوں میں سے کسی کے خلاف تکفیر کے فتوے جاری کیے ہیں۔ یہ بات اخوان کی طے شدہ منہج سے متصادم ہے۔ سیدقطب کو کسی متشدد یا تکفیری نہج کا ہم نوا قرار دینا کسی طور درست نہیں ہوسکتا۔ آج اگر سید قطب زندہ ہوتے تو وہ یقینا خود ان تمام لوگوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوتے اور انھیں اس فکروعمل سے واپس لانے کی سعی کرتے‘‘۔ مرشدعام نے کہا: میں نے ایک امریکی دانش ور مسٹر روگن کی کتاب The Arab  پڑھی ہے۔ اس میں وہ لکھتا ہے: ’’سیدقطب کو ڈکٹیٹر حکومتیں اور ظالم شخصیتیں اس لیے ناپسند کرتی تھیں کہ وہ ان کے ظلم و استبداد کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوگئے تھے۔ وہ پُرامن جہاد اور عوام کو خوابِ غفلت سے بیدار کر کے ان کا مقابلہ کررہے تھے‘‘۔ مرشدعام نے حکمرانوں کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ: ’’جب بھی ہمیں اسلام کی میانہ رو اور مبنی براعتدال دعوت پھیلانے سے روکا گیا تو یہاں ہر جانب خاردار جھاڑیاں اُگ آئیں اور مصر میں دہشت گردی نے جنم لیا۔ ہم آج بھی حکمرانوں کو خبردار کر رہے ہیں کہ اگر وہ اسی طرح شخصی اقتدار پر اصرار کرتے رہے، اور کسی دوسرے کی نصیحت پر کان نہ دھرنے کی پالیسی پر گامزن رہے تو مصر ایک ایسے بند کمرے میں بدل جائے گا کہ جس میں گیس بھر گئی ہو، ایسے میں کہیں سے کوئی ادنیٰ سا شرارا بھی سب کچھ بھسم کر کے رکھ دیتا ہے‘‘۔

اخوان اور ان کی قیادت پر تشدد کے الزامات اور ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کا سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے، لیکن خود مصری عوام نے اس پورے پروپیگنڈے کو مسترد کردیا ہے۔ حال ہی میں ایک امریکی ادارے نے مصر میں سروے کروایا تو ۶۹ فی صد عوام نے کہا کہ ’’اخوان المسلمون جمہوریت اور پُرامن جدوجہد پر یقین رکھنے والی جماعت ہے‘‘۔ ۷۵ فی صد عوام نے ملک میں حقیقی جمہوری نظام کو ترقی اور خوش حالی کا اصل راستہ قرار دیا۔ اخوان المسلمون کے حالیہ جماعتی انتخابات نے اخوان کی حقیقی جمہوری شناخت کو مزید واضح کیا ہے۔ خود اخوان کے لیے بھی یہ انتخابات کئی نئی روایات کا باعث بنے۔ اخوان کی ۸۱ سالہ تاریخ میں پہلی بار ایک مرشدعام کی زندگی میں، خود ان کی بااصرار معذرت کے بعد نئے مرشدعام کا انتخاب ہوا۔ اس سے پہلے بانی مرشدعام امام حسن البنا کو تو شہید کردیا گیا تھا۔ پھر حسن الہضیبی (۱۹۵۱ء سے نومبر ۱۹۷۳ء تک)، عمرالتلمسانی (۱۹۷۴ء سے ۲۲ مئی ۱۹۸۶ء تک)، محمد حامد ابوالنصر (مئی ۱۹۸۶ء سے ۲۰جنوری ۱۹۹۶ء تک)، مصطفی مشہور (فروری ۱۹۹۶ء سے ۱۷؍اکتوبر ۲۰۰۲ء تک) اور مامون الہضیبی (۲۶ نومبر ۲۰۰۲ء سے ۹جنوری ۲۰۰۴ئ) اپنی وفات تک مرشدعام رہے۔ تب اخوان کے بعض احباب یہ ذاتی سوچ بھی پیش کیا کرتے تھے کہ مشاورت اور اجتماعی جدوجہد تو یقینا اسلامی تحریک کا خاصہ ہے، لیکن سربراہ کو باربار بدلنا مناسب نہیں ہے۔ اس لیے منتخب مرشدعام ہی دوبارہ منتخب ہوجاتا۔ محمد مہدی عاکف اخوان کی تاریخ میں پہلے مرشدعام ہیں، جنھوں نے اپنی زندگی ہی میں خود اپنا جانشین منتخب کروایا۔ اس موقعے پر بعض ایسے واقعات بھی ہوگئے کہ جنھیں ذرائع ابلاغ نے خوب بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ خاص طور پر سابق نائب مرشدعام ڈاکٹر محمد حبیب صاحب کی طرف سے مکتب ارشاد کے بعض اندرونی اختلافات کو ذرائع ابلاغ میں دینے کے واقعے کو اخوان کے دودھڑوں میں تقسیم ہوجانے کا رنگ دیا گیا۔ اسی طرح مرشدعام کو ’قطبی‘ اور بنیاد پرست ہونے کا بے جا لقب دے دیا گیا اور  نائب مرشدعام ڈاکٹر محمد حبیب اور ڈاکٹر عبدالمنعم ابوالفتوح جیسے سرکردہ احباب کو اصلاح پسند دھڑا کہا جانے لگا، حالانکہ یہ دونوں اصطلاحات، صرف الزامات کا درجہ رکھتی ہیں۔ مرشدعام نے کہا کہ مجھے اپنے عزیز و محترم بھائی سے الگ کرنے کا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے حالانکہ میرا ان سے اس طرح کا تعلق خاطر ہے کہ میں نے اپنے پوتے کا نام، انھی کے نام پر حبیب رکھا ہوا ہے۔

اخوان کے حالیہ انتخابات اس حوالے سے بھی منفرد تھے کہ جب ذرائع ابلاغ میں اخوان کے بارے میں پروپیگنڈا عروج پر تھا تو اخوان نے اپنے اس تنظیمی دستور اور طریق کار کا بھی کھلم کھلا اعلان کر دیا کہ جو امن و امان کی مخصوص صورت حال کے باعث، اس سے پہلے صرف تنظیمی ذمہ داران کی حد تک محدود رہتا تھا۔ اس دستور میں مصر کے اندر بھی اخوان کی تنظیم و طریق کار کو واضح کیا گیا ہے اور اخوان کی عالمی تنظیم کا نظام بھی۔ اس اعلان کردہ طریق کار کے مطابق اخوان کے ارکان، مجلسِ شوریٰ کا انتخاب کرتے ہیں، مجلسِ شوریٰ مکتب ارشاد کا انتخاب کرتی ہے اور مکتب ارشاد، مرشدعام کا انتخاب کرتا ہے۔ یہی مکتب، شوریٰ کے طے شدہ طریق کار کے مطابق جماعت کے اکثر فیصلے اور پالیسیاں نافذ کرتا ہے۔ نئے مرشدعام کے اعلان کے وقت منعقد کی گئی پریس کانفرنس میں، مکتب ارشاد کے تمام ارکان بھی وہاں موجود رہے، جن کے ناموں کا اس سے پہلے یوں اعلان نہ کیا جاتا تھا۔ اخوان کا یہ نیا پن اور کھلا پن، نظام کو چیلنج کرنے سے زیادہ تمام تر مشکل حالات کے باوجود کھل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار ہے۔ گذشتہ تین سال میں اخوان کے ساڑھے سات ہزار سے زائد کارکنان گرفتار کیے گئے۔ تقریباً اڑھائی سو کارکنان کے پورے کے پورے کاروبار، جایدادیں اور کمپنیاں ضبط کرلی گئیں۔ اس سب کچھ کے باوجود اب مزید کھل کر کام کرنے کا جذبہ کسی روحانی اور الوہی توفیق کے بغیر نہیں ہوسکتا۔

ملک کی عمومی صورت حال دیکھیں تو مصری عوام اس وقت شدید مایوسی کے عالم میں ہیں۔ آیندہ برس کے آغاز میں پارلیمانی اور صدارتی انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ سب تجزیہ نگار یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اخوان کے مزید قائدین و کارکنان گرفتار کیے جاسکتے ہیں۔ اخوان کے خلاف پروپیگنڈے کا محاذ بھی گرم تر کیا جا رہا ہے۔ اخوان ہی نہیں اسلام کی بنیادوں کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایاجا رہا ہے۔ دیگ کے چند دانوں کے طور پر اور ’نقل کفر، کفر نباشد‘ کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ جملے ملاحظہ فرمایئے: ’’اخوان جو نظام لانا چاہتے ہیں وہ اسے خلافتِ راشدہ کی طرز پر قائم     نظامِ خلافت کا نام دیتے ہیں، یعنی ماضی کی ایک ریاست نہ کہ حاضرومستقبل کی۔ ان کی ریاست میں حاکمیت اعلیٰ کے نام پر فیصلہ کرنے کا حق اللہ کے پاس ہوگا جس کے بارے میں لمبی چوڑی گفتگو اس کے دو فرشتے البنا اور قطب کرچکے ہیں‘‘۔ ’’اخوان المسلمون کا اصل مخمصہ وہی ہے جو تمام دینی جماعتوں کا ہوتا ہے، یعنی دنیا اور آخرت کے ناممکن اتحاد کو، دین اور سیاست جمع کرکے ممکن بنانا، ان کا مخمصہ مقدس متن (یعنی قرآن وسنت) ہے جو کسی صورت تبدیل نہیں ہوسکتا۔ ان کا مخمصہ ، یہی متن کا مخمصہ ہے کہ جس نے ساتویں صدی عیسوی میں تو زندگی کی باگ ڈور سنبھال لی تھی لیکن جو کسی بھی صورت نئے میلینیم اور دوہزار عیسوی کے زمانے کے تقاضے پورے نہیں کرسکتا۔ اب انسانیت نے بہت سفر طے کرلیا۔ اب وہ پرانے زمانے کی طرف واپس نہیں جاسکتی‘‘… ایک طرف یہ اور اس طرح کا ہذیان ہے اور دوسری جانب حکومتی جبروتشدد لیکن اخوان کے لیے ان میں سے کوئی بھی بات نہیں۔ ان کے حالیہ جرأت مندانہ اور مبنی برحکمت اقدامات روشنی کی اطلاع دے رہے ہیں۔

عالمی استعماری طاقتیں اعتراف کر رہی ہیں کہ ان کے لیے حسنی مبارک کی ڈکٹیٹرشپ یا اسلامی تحریک کی ’بنیاد پرستی‘ کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ اب اس ’مشکل‘ کا حل وہ یوں نکالنے کی کوشش کر رہی ہیں کہ کسی نئی شخصیت کو متعارف کروایا جائے۔ بین الاقوامی ایجنسی براے ایٹمی توانائی (IAEA) کے سربراہ محمد البرادعی دو مرتبہ اس کے چیئرمین رہنے کے بعد حال ہی میں ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ۱۵فروری کو پہلی بار مصر واپس آئے، تو ان کے بھرپور استقبال کا انتظام کیا گیا۔ انھیں ایک متبادل کے طور پر پیش کیا گیا۔ عالمی ذرائع ابلاغ انھیں ایک نجات دہندہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ البرادعی صاحب نے بھی آتے ہی بیانات اور انٹرویوز کا سلسلہ شروع کردیا ہے کہ ہاں، میں آیندہ صدارتی انتخاب میں امیدوار ہوسکتا ہوں۔ ان کی سب سے بڑی ’خوبی‘ یہ ہے کہ ایٹمی ایجنسی کا مسلمان سربراہ ہونے کے ناطے سے انھوں نے عراق اور ایران کے خلاف ایٹمی ہتھیار رکھنے کے الزامات سچ ثابت کرنے کی جدوجہد میں بھرپور کردار ادا کیا۔ صدام حسین کے محلات اوران کی ایٹمی تنصیبات کی تلاشی میں ان کا کردار قائدانہ رہا، انھوں نے کبھی اپنا دامن اس الزام سے آلودہ نہیں ہونے دیا کہ وہ اسرائیلی ایٹمی ہتھیاروں پر کوئی اعتراض رکھتے ہیں۔

تمام عالمی سرپرستی اور بین الاقوامی امور پر مہارت تجربات کے باوجود، مصری سیاست میں حصہ لینا برادعی صاحب کے لیے کوئی بازیچۂ اطفال نہیںہوگا۔ حسنی مبارک نے اپنے اور اپنے وارث کے اقتدار کے لیے ’مضبوط‘ انتظامات کیے ہیں۔ مصری دستور کے مطابق کسی بھی صدارتی اُمیدوار کے لیے تقریباً ناممکن الحصول اور کڑی شرطیں رکھی گئی ہیں۔ اُمیدوار اگر کسی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتا ہے تو شرط ہے کہ وہ کسی باقاعدہ رجسٹرڈ پارٹی کی مرکزی قیادت میں سے ہو اور اسے اس ذمہ داری پر انتخاب سے پہلے کم از کم ایک سال کی مدت گزارنا چاہیے۔ خود اس سیاسی پارٹی کو بھی انتخاب سے کم از کم پانچ سال پہلے رجسٹرڈ ہونا چاہیے۔ واضح رہے کہ اخوان سمیت کسی بھی قابلِ ذکر جماعت کو رجسٹرڈ نہیں کیا گیا، بلکہ اخوان کو تو ویسے ہی کالعدم قرار دیا ہوا ہے۔ اور امیدوار اگر آزاد ہو تو اس کے لیے شرط ہے کہ وہ کم از کم ۲۵۰ ارکانِ پارلیمنٹ یا ضلعی کونسلوں کے تائیدی دستخط حاصل کرے اور ظاہر ہے کہ ان نام نہاد منتخب اداروں میں دوتہائی سے زائد اکثریت حکمران پارٹی کی ہے۔

محمد البرادعی کے سامنے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ انتخاب سے پہلے دستوری ترمیم کے لیے اخوان کے عوامی دبائو کا ساتھ دیں۔ واپسی کے بعد پہلے ہی ہفتے میں انھوں نے اخوان کے پارلیمانی سربراہ ڈاکٹر سعدالکتاتنی سے مفصل ملاقات کی۔ ملاقات کے بعد ڈاکٹر سعد کا کہنا تھا   کہ یہ ملاقات عالمی شہرت رکھنے والے ایک مصری شہری کو مزید قریب سے جاننے کی خاطر تھی۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم صدارتی انتخابات میں ان کی مدد کریں گے یا ان کی مخالفت کریں گے۔ ہم مجموعی طور پر انتخابات کے بارے میں اپنی پالیسی وضع کر رہے ہیں اور اس کا اعلان مناسب وقت پر ہی کیا جائے گا۔ البتہ اخوان ایک اصلاحی ہدف رکھتے ہیں اور ہر اس فرد و جماعت کی طرف دستِ تعاون بڑھاتے ہیں جو اصلاح کی سعی کرنا چاہتا ہو۔ طویل عرصے تک ایک جماعتی اقتدار کے بعد اب مصری سیاست شاید ایک نیا موڑ لے رہی ہے۔

حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اپنی امت کے ان لوگوں کو جانتا ہوں کہ جن کی نیکیاں قیامت کے دن کوہِ تہامہ جتنی بلند ہوں گی اور خوب چمک رہی ہوں گی۔ لیکن اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں کو راکھ کے ڈھیر کی طرح اڑا دے گا۔ میں نے عرض کی یارسولؐ اللہ ! ذرا ان لوگوں کی صفات بیان فرمادیں، ہمیں ان لوگوں کے بارے میں واضح طور پر بتادیں، کہیں یہ نہ ہو کہ ہم بھی لاعلمی میں انھی لوگوں میں شمار ہوجائیں؟ آپؐ نے فرمایا: وہ لوگ تمھارے ہی بھائی ہیں، تم ہی میں سے ہیں، تمھاری ہی طرح قیام اللیل کرتے ہیں، لیکن جب تنہائی میں ہوتے ہیں تو انھیں اللہ کی حدود پھلانگنے میں کوئی باک نہیں ہوتا۔ (ابن ماجہ ، حدیث ۴۲۴۵)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی صفات کی روشنی میں دیکھیں تو بظاہر نیک بندے کی     تصویر ذہن میں آتی ہے۔ مسلمانوں ہی میں سے، انھی ہی کی طرح عبادات کا خوگر، فرائض سے بڑھ کر نوافل و تہجد تک کا اہتمام کرنے والا، روشن و چمک دار نیکیوں کے بلند پہاڑ اپنے ساتھ لے کر جانے والا، لیکن ایسا بدنصیب کہ بالآخر ساری محنت پر پانی پھیردینے والا۔

اس بُرے انجام کا سبب؟۔ لوگوں کے سامنے تو برائی اور گناہوں سے اجتناب، لیکن تنہائی میں اللہ کے حرام کردہ اُمور کا ارتکاب۔ پارسائی کا دعویٰ اور غلط فہمی، لیکن اس دعوے کی اصل جانچ میں ناکامی۔ آج شیطانی دنیا کا سب سے بڑا ہتھیار فحاشی و عریانی اور مالی و اخلاقی کرپشن ہے، فرمان نبویؐ میں اس ابلیسی وار سے بچنے کے لیے اصل ڈھال فراہم کردی گئی ہے: کھلے اور چھپے ہرحال میں اللہ کا خوف، ہر دم اللہ کی یاد۔ صحابہ کرامؓ کی حرص آخرت بھی دیکھیے کہ فوراً دھڑکا لگ گیا، یہ نہ ہو کہ پتا ہی نہ چلے اور ہم بھی انھی میں شمار ہوجائیں۔

o

حضرت معاویہ بن حَیدَہؓ سے روایت ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین طرح کے لوگ ہیں جن کی آنکھیں (جہنم کی) آگ نہیں دیکھیں گی۔ ایک وہ کہ جن کی آنکھ اللہ کی راہ میں پہرہ دیتی رہی، دوسرے وہ کہ جن کی آنکھ اللہ کے خوف سے رو دی، اور تیسرے وہ کہ جس نے اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے نگاہوں کو بچالیا (بروایت طبرانی جسے علامہ البانی نے صحیح قرار دیا)

اسلامی ریاست اور اہل اسلام کی حفاظت، رضاے ربانی کا ذریعہ بنتی ہے، بشرطیکہ یہ کام صرف اللہ کی رضا کی خاطر کیا جائے۔ ترقی و کمال بھی اس اخلاص و محنت کا ایک طبعی نتیجہ ہے، لیکن اصل قوت محرکہ نہیں۔ یہاں اصل سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مسلمانوں کی حفاظت کی خاطر صرف جاگنے کا اجر یہ ہے، تو مسلمانوں کے خلاف جنگ کا حصہ بننا، جابجا دھماکے، فائرنگ اور آتش زنی سے تباہی پھیلانا،  لوگوں کی جان و مال، عزت و آبرو کو برباد کرنا، رب کی کتنی ناراضی اور مجرموں کے لیے کتنے عذاب کا سبب بنے گا۔

اللہ کے خوف سے آنکھیں نم ہوجانا، سوزِ دل اور اللہ سے تعلق کا سب سے اہم مظہر ہے۔ وہ نارِجہنم کہ جس سے دنیا کی شدید سے شدید آگ بھی پناہ مانگتی ہے، بندے کی چشم نم سے بجھائی جاسکتی ہے۔ پھر وہ آنکھ جس نے اللہ کی محرمات سے آنکھیں پھیر لیں، جہنم سے چھٹکارا پاگئی___ آج جب قدم قدم پر فحاشی، اخلاقی غلاظت اور شیطانی ثقافت کا بازار گرم کیا جارہا ہے، اس حدیث کو یاد رکھنے کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے۔

آئیے ذرا خوب دھیان سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات دوبارہ سنتے ہیں: یہ تینوں ’’آنکھیں جہنم کی آگ نہیں دیکھیں گی‘‘۔ سبحان اللہ! یہ نہیں فرمایا کہ جہنم میں نہیں جائیں گی، بلکہ فرمایا جہنم کی جھلک تک نہیں دیکھیں گی۔ اَللّٰھُمْ أجِرنَا مِنَ النَّارِ، پروردگار ہمیں جہنم کی آگ سے بچا۔ آمین!

o

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی خادم کو یا خاتون کو نہیں مارا تھا، بلکہ آپؐ نے میدان جہاد کے علاوہ کبھی کسی کو نہیں مارا۔ اور کبھی یہ نہیں ہوا کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کو دو کاموں میں سے ایک کو اختیار کرنا پڑا ہو اور آپؐ نے دونوں میں سے آسان تر کو پسند نہ کیا ہو،الا یہ کہ اس میں اللہ کی ناراضی کا کوئی پہلو ہو۔ اگر کسی کام میں گناہ کا کوئی پہلو ہوتا، تو آپؐ اس کام سے سب سے زیادہ دور رہنے والے ہوتے۔ آپؐ نے اپنی ذات کے لیے کبھی انتقام نہیں لیا۔ ہاں، اگر اللہ کی حدیں پامال ہورہی ہوتیں، تو پھر آپؐ اللہ کی خاطر انتقام لیتے۔ (مسند احمد، ابن ماجہ، حدیث ۱۹۸۴)

ربیع الاول میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اظہار محبت و عقیدت نمایاں طور پر بڑھ جاتا ہے۔  عشق و احترامِ نبیؐ کے روشن تر ان لمحات میں، سیرت اطہر کا مطالعہ ایمان میں مزید اضافے کا ذریعہ بنتا ہے۔ اُم المومنین رضی اللہ عنہا سے مروی اس حدیث میں رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی تین اہم صفات و عادات ہر اُمتی کو دعوتِ فکر دے رہی ہیں۔

پہلی یہ کہ آپؐ نے کبھی کسی کو تکلیف نہ پہنچائی، میدان جہاد کے علاوہ کبھی کسی کو نہ مارا۔ ہتھیار تو دور کی بات ہے کہ اس سے کسی کی طرف مزاحاً اشارہ کرنا بھی جہنم میں جگہ بنانا ہے، ہاتھ سے بھی کسی کو نہ مارا، کسی کمزور سے کمزور کو بھی نہیں۔ انسانی خون کی ہولی کھیلنے والے اگر مسلمان ہیں تو کس منہ سے   عشق و محبت کا دعویٰ کرسکیں گے۔

دوسری یہ کہ اگر گناہ کے زمرے میں نہ آتی ہو تو ہمیشہ آسانی کو پسند کیا۔ دوسروں کو بھی یہی تعلیم دی کہ ’’یَسِّرُوا ، آسانیاں پیدا کرو‘‘۔ اس سنہری اور جامع اصول کا اطلاق بھی، زندگی کے ہر گوشے پر ہوتا ہے، دین و مذہب سے لے کر حکومت و اقتدار تک۔ تحریک و جماعت سے لے کر ملازمت و بیوپار تک۔ خود پر وہ بوجھ مت ڈالو جو خالق نے نہیں ڈالا، اور اگر کسی معاملے میں دو راستے میسر ہیں اور کسی میں بھی اللہ کی نافرمانی نہیں، تو آسان کو مشکل پر ترجیح دو۔

تیسری یہ کہ اپنی ذات کے لیے انتقام، نبیؐ کا شیوہ نہیں۔ ہاں، اگر کوئی خالق ہی کو ناراض کرنے پر تل جائے، تو آیندہ اسے اور دوسروں کو اس کارِ بد سے باز رکھنے کے لیے سزا بھی ناگزیر ہوجاتی ہے۔

o

حضرت جابر بن عبد اللہؓ اور ابو طلحہ بن سہل انصاریؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ  علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے مسلمان بھائی کو ایسے وقت میں تنہا چھوڑ دیتا ہے کہ جب اس کے جان و مال اور اس کی عزت پر حملہ ہورہا ہو، تو اللہ تعالیٰ بھی اس شخص کو ایسے وقت میں تنہا چھوڑ دیتا ہے جب و ہ خود اللہ کی نصرت کا محتاج ہوتا ہے۔ اور کوئی شخص ایسا نہیں ہے کہ جو ایسے وقت میں اپنے بھائی کی نصرت کرے کہ جب اس کے جان و مال اور اس کی عزت پر حملہ ہورہا ہو، تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی نصرت ایسے وقت میں نہ کرے کہ جب وہ اللہ کی نصرت کا محتاج و طالب ہوتا ہے۔ (ابوداؤد، حدیث ۴۸۸۴)

بندہ سمجھتا ہے کہ وہ دوسروں کی مدد کر رہا ہے حالانکہ درحقیقت وہ اپنی ہی مد د کررہا ہوتا ہے۔ بندہ اپنے بھائی کے کام آتا ہے تو رب کائنات خود اس بندے کا نگہبان بن جاتا ہے۔ مسلم کی طویل حدیث کے مطابق ’’اللہ تب تک خود بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک کہ وہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے‘‘۔

رب کا انصاف ہر شے سے بالاتر ہے، جس نوع کی نیکی، اسی طرح کا اس کا اجر، اور جس طرح کا جرم، اسی نوع کی سزا و عذاب۔ افراد ہی نہیں اقوام و ممالک بھی اس حدیث کی روشنی میں اپنے حال و مستقبل کا فیصلہ خود کرسکتے ہیں۔ روزمرہ کے معمولات سے لے کر بین الاقوامی مسائل تک، اللہ نے یہ فیصلہ بندے پر چھوڑ دیا کہ وہ رب کی نصرت چاہتا ہے یا اس کی سزا و عذاب!

o

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام کی بنیاد پر دوست بننے والے دو افراد میں اگر کبھی کوئی اختلاف و رنجش پیدا ہوجاتی ہے، تو اس کی اصل وجہ، دونوں میں سے کسی ایک سے گناہ کا سرزد ہوجانا ہے۔ (بخاری)

نیک و پُرخلوص دوست اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے، اور اگر دوستی اللہ کی خاطر ہو تو دوجہاں میں اللہ کی محبت عطا کرنے کا باعث بن جاتی ہے۔ اسلام کی خاطر دوست دو افراد کو، خالقِ کائنات  اس روز اپنے عرش کے سایے تلے جگہ دے گا جب کوئی اور سایہ میسر نہ ہوگا۔

دیگر نعمتوں کی طرح اس نعمت کے زوال کا اصل سبب بھی اللہ کی نافرمانی ہے۔ اگر اتنی عظیم نعمت کے چھن جانے کا سانحہ روپذیر ہوجائے، تو جائزہ لیں کہ کیا گناہ سرزد ہوا ہے۔ یہ کافی نہیں کہ جب کوئی غلطی اور گناہ تلاش کریں تو وہ بھی صرف دوسروں میں۔ اگر ہر بندہ دیکھے کہ مجھ سے کیا گناہ سرزد ہوا  تو پھر اس کا مداوا و استغفار ان شاء اللہ نعمت کی بحالی و دوام کا سبب بنے گی۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ  غلطی و گناہ اس فرد سے درپیش معاملات ہی میں تلاش کیا جائے۔ کوئی بھی گناہ، زوالِ نعمت کا سبب بن سکتا ہے۔ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک طویل دُعا میں اللہ تعالیٰ سے یہ بھی درخواست ہوئی: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِکَ، پروردگار میں تیری نعمتوں کے زوال سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔

غزہ کو چاروں طرف سے سیل بند اور مقفل کردیا گیا ہے۔ ۴۰کلومیٹر طویل اور ۱۰کلومیٹر عریض اس پٹی میں اپنی نوع کے عجیب انسان بستے ہیں۔ ۱۵ لاکھ کی آبادی ہے، جینے کا ہر سامان  ان پر حرام قرار دے دیا گیا ہے۔ ۲۷دسمبر ۲۰۰۸ء کو ان پر ۲۴ روزہ مہیب جنگ مسلط کی گئی۔ سفید فاسفورس سمیت، جلاکر بھسم کردینے والا ہر نوع کا بارود ان پر برسایا گیا، لیکن انھیں ان کے موقف سے دست بردار نہیں کیا جاسکا۔ اہلِ غزہ نے امریکا و یورپ کی مکمل سرپرستی، اور اکثر پڑوسی عرب ملکوں کی خیانت و معاونت سے حملہ آور ہونے والے صہیونی دشمن کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا۔

غزہ کا حصار اور ناکہ بندی، جنگ سے پہلے بھی جاری تھی۔ ۲۴ روزہ تباہ کن جنگ کے بعد محاصرہ شدید تر کردیا گیا۔ جنگ کے خاتمے پر کئی ممالک کی جانب سے اربوں ڈالر کی امداد دینے اور غزہ کی تعمیرنو کے اعلان اور وعدے کیے گئے۔ صدافسوس کہ تمام تر وعدے ذرائع ابلاغ کی    شہ سرخیوں اور صداے بازگشت کے ہوائی گنبد میں تحلیل ہوکر رہ گئے۔ غزہ کے بند دروازوں پر جس چیز کو سب سے زیادہ چیک اور ضبط کیا جاتا ہے، وہ تعمیراتی سامان ہی ہے۔ چند کلو سیمنٹ، کیل یا سریا لے کر جانا، اسلحے یا منشیات سے زیادہ خطرناک ہے۔ ایسے میں اہلِ غزہ کے سامنے زیرزمین راستوں کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ تین اطراف میں تو ’اہلِ ایمان کے بدترین دشمن‘ یہودیوں کا گھیرا ہے، چوتھی جانب مصر کی وادیِ سینا ہے۔ غزہ اور مصر کے درمیان ۱۰کلومیٹر کی سرحد، اُونچی اُونچی باڑیں لگاکر بند کر دی گئی ہے۔ سرحد کے دونوں طرف ایک ہی نبیؐ کے پیروکار اور ایک ہی زبان بولنے والے بستے ہیں۔ اتفاق سے دونوں طرف کی بستیوں کا نام بھی رفح ہے، لیکن درمیان میں فصیلیں، سنگینیں اور خائن حکمران حائل ہیں۔ فلسطینی اور مصری رفح کے شہریوں نے لمبی لمبی سرنگیں کھود کر ۱۵لاکھ انسانوں کے جسم و جان کا رشتہ بحال رکھنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ اگرچہ زیرزمین راستوں سے لائی جانے والی اشیا کئی گنا زیادہ مہنگی ملتیں، لیکن کسی نہ کسی طرح مل جاتیں۔ عالمی طاغوت اور اس کے پالتو حکمرانوں کو یہی بات سب سے زیادہ دکھ دینے لگی۔ امریکی صدر بش نے جاتے جاتے اسرائیلی اور مصری حکمرانوں کے ساتھ مل کر ایک منصوبہ منظور کیا۔ دنیا کو اس منصوبے کی اطلاع سب سے پہلے ایک اسرائیلی اخبار ہآرٹس کے ذریعے ملی۔ مصری حکومت نے پہلے تو اس اطلاع کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا لیکن اب اس منصوبے پر ۶۰ فی صد کام مکمل ہوچکا ہے۔

منصوبہ کیا ھے؟

فصیل، دیوار، باڑ، آہنی چادر یا خاردار تاروں کا نام لیتے ہی زمین کے اُوپر تعمیر یا کھڑی کی جانے والی مختلف رکاوٹوں کا تصور ذہن میں اُبھرتا ہے۔ لیکن یہ شاید  انسانی تاریخ کا انوکھا تعمیراتی منصوبہ ہو کہ اس میں ۱۰کلومیٹر لمبی اور ۲۰ سے ۳۰میٹر (فٹ نہیں میٹر) گہری ایک فولادی دیوار زمین کے اندر تعمیر کی جارہی ہے۔ یعنی تقریباً ۵ یا ۶منزلہ عمارت کی بلندی جتنی گہری دیوار۔ بحالیِ مہاجرین کے لیے قائم کردہ اقوامِ متحدہ کے ادارے انروا (UNRWA) کی مصر میں نمایندہ، کیرین ابوزید نے اپنی مدت ملازمت کے اختتام سے چند روز پیش تر، قاہرہ کی امریکی یونی ورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے اس خصوصی فولاد کا ذکر ان الفاظ میں کیا: ’’یہ انتہائی مضبوط فولاد اسی غرض کے لیے خصوصی طور پر امریکا میں تیار کیا گیا ہے، اس پر مختلف دھماکا خیز مواد چلا کر اس کی مضبوطی کا تجربہ بھی کیا جاچکا ہے‘‘۔ یعنی اس میں نقب لگانا یا بم دھماکے سے اس میں سوراخ کرنا بھی کسی کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔ پھر مزید حفاظتی اقدامات کرتے ہوئے اس زیرزمین پوری آہنی فصیل کو برقی رَو سے جوڑ دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی مزید ایسے آلات لگا دیے گئے ہیں کہ کہیں سے اس میں شگاف ڈالا جائے توفوراً اس کا سراغ لگایا جاسکے۔

اس فولادی دیوار کے علاوہ فلسطینی علاقے کی جانب ایک خطرناک آبی دیوار قائم کی جارہی ہے۔ یہ بھی اپنی نوعیت کا ایک ناقابلِ یقین اور ہلاکت خیز منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کے مطابق بحر متوسط سے ایک زمین دوز موٹا پائپ فولادی دیوار کے ساتھ ساتھ بچھایا جا رہا ہے۔ اس پائپ سے ہر ۳۰ سے ۴۰ میٹر کے فاصلے پر تقریباً ۵۳میٹر گہرا، چھے انچ موٹا پائپ زمین میں اُتارا جارہاہے۔ ان عمودی پائپوں میں لاتعداد سوراخ کیے گئے ہیں، طاقت ور پمپس کے ذریعے جب سمندر سے بڑے اُفقی پائپ اور وہاں سے گہرے عمودی پائپوں میں پانی چھوڑا جائے گا، تو پورا علاقہ دلدل کی صورت اختیار کرجائے گا اور وہاں کسی کے لیے سرنگیں کھودنا ممکن نہ رہے گا۔

عالمی اقتصادی بحران اور دنیا میں بڑھتی ہوئی غربت کا رونارونے والوں کے پاس، مفلوک الحال، بھوکے اور محصور فلسطینیوں کو سرنگیں کھودنے سے روکنے کے لیے شیطانی ذہنیت ہی نہیں اربوں ڈالر کا وافر خزانہ بھی ہے۔ لیکن کسی ظالم دشمن یا بے ضمیر و نام نہاد دوست نے یہ نہ سوچا، کہ اس آہنی اور آبی دیوار کے دُور رس مضر اثرات، بھوک کا شکار فلسطینیوں ہی کو نہیں پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ سمندر کا نمکین پانی پائپوں اور مشینوں کے ذریعے زمین کے پیٹ میں اُتار دینے سے، علاقے میں موجود تھوڑا بہت پینے کا پانی بھی دستیاب نہیں رہے گا۔ ۳۰ سے ۵۳ میٹر گہری آبی دیوار بنا دینے سے یہی نہیں کہ علاقے میں سرنگیں نہیں کھودی جاسکیں گی، بلکہ بالآخر پورے علاقے میں زمین کی اندرونی تہوں میں تبدیلی واقع ہوگی۔ زمین کے دھنس جانے اور کاشت کے قابل نہ رہنے کے سانحے روپذیر ہوں گے۔ ۳۰میٹر یعنی ۹۰فٹ گہری فولادی دیوار کھڑی کردینے سے زیرزمین پانی کا سفر رُک جائے گا، جس سے فلسطینی علاقے میں خشکی اور قحط، جب کہ مصری علاقے میں پانی کی سطح بلند ہوجانے اور علاقے کے سیم زدہ ہوجانے کے خدشات میں اضافہ ہوجائے گا۔ یقینا متعلقہ ماہرین نے اس بارے میں اپنی راے دی ہو گی، لیکن فیصلہ چونکہ امریکا میں اور اسرائیلی دبائو پر ہوا ہے، اس لیے ’قومی مصلحت‘ قرار دیتے ہوئے تیزی سے نافذ کیا جا رہا ہے۔ اس بارے میں سب سے زیادہ تکلیف دہ موقف مصر کی جامعہ ازہر کا ہے جس کے درباری مفتیوں نے فولادی اور آبی دیوار کو ’جائز‘ قرار دے دیا ہے کہ یہی ’آقا‘ کا حکم ہے۔

ایک عرب شاعر نے ایسے ہی موقع پر کہا تھا   ؎

جَزَی اللّٰہُ الشَّدَائِدَ کُلَّ خَیْرٍ

عَرَفْتُ بِھَا عَدُوِّی مِنْ صَدِیْقِی

(اللہ مصیبتوں کو جزاے خیر دے کہ میں نے ان کے ذریعے دوست دشمن میں تمیز کرلی۔)

غزہ میں زندگی کی آخری رمق بچانے کی خاطر کھودی گئی سرنگیں بند ہو رہی ہیں اور اہلِ غزہ کو یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی دوسرا راستہ کھول دے گا۔ لیکن گذشتہ تقریباً چار سال سے محصور غزہ کو، دنیا بھر میں انسانیت دوست چہروں کی پہچان ہوگئی ہے۔ ۲۷دسمبر کو غزہ پر جارحیت کی پہلی برسی کے موقع پر یورپ سے اڑھائی سوگاڑیوں کے ایک قافلے نے امدادی سامان لے کر غزہ جانا چاہا۔ قافلے میں مسلمان اور غیر مسلم ارکانِ پارلیمنٹ، علماے کرام، سیاسی کارکنان اور حقوقِ انسانی کی تنظیموں کے ذمہ داران سمیت تقریباً ۵۰۰ افراد شریک تھے۔

معروف برطانوی سیاسی رہنما اور رکن پارلیمنٹ، اپنی سیاسی پارٹی Respect (احترام)  کے سربراہ جارج گیلوے اس قافلے کے سربراہ تھے۔ قافلے کو ’شہ رگِ حیات ۳‘ کا نام دیا گیا۔ دوامدادی قافلے اس سے قبل آچکے تھے۔ مختلف یورپی ممالک، ترکی، شام اور اُردن میں قافلے کا شان دار عوامی استقبال کیا گیا۔یہ کارواں جب بحیرۂ احمر پر واقع اُردن کی بندرگاہ عقبہ پہنچا تو وہاں سے صرف تین گھنٹے کے بحری سفر کے بعد، مصری سرزمین اور پھر رفح گیٹ وے پہنچ سکتا تھا۔ مصری انتظامیہ نے قافلے کو آنے سے روک دیا اور کہا کہ پہلے تو زمینی راستے سے واپس شام جائو اور پھر وہاں سے بحرمتوسط کے راستے نہرسویز عبور کرتے ہوئے دوبارہ بحیرۂ احمر میں آئو۔ مصری بندرگاہ نویبع کے بجاے مصر ہی کی ایک اور بندرگاہ عریش پہنچو تو وہاں سے غزہ جانے کی اجازت دیں گے۔ لیکن جب امدادی سامان سمیت اڑھائی سو گاڑیوں کو بحری جہازوں اور کشتیوں میں لاد کر تین گھنٹے کے بجاے مزید پانچ دن، اور ۷۰کلومیٹر کے بجاے تقریباً ایک ہزار کلومیٹر کی مسافت طے کرنے کے بعد، قافلہ غزہ کے دروازے پر پہنچا تو پھر روک دیا گیا۔ قافلے کے یورپی ارکان نے قاہرہ میں واقع فرانسیسی اور دیگر یورپی سفارت خانوں کے باہر احتجاجی مظاہرے شروع کر دیے۔ عام طور پر یہ مظاہرے رات ۱۰ بجے شروع ہوکر، صبح 3 بجے تک جاری رہتے۔ آخری روز تو مصری پولیس سے باقاعدہ جھڑپ ہوگئی۔ اس موقع پر ترک حکومت نے خصوصی طور پر اور مؤثر مداخلت کی۔ ان کے ارکان اسمبلی اور حکمران پارٹی کے علاوہ اربکان صاحب کی سعادت پارٹی کے ذمہ داران بھی قافلے میں شریک تھے۔ جارج گیلوے کے مضبوط موقف، قافلے کی اکثریت یورپی شہریوں پر مشتمل ہونے اور ترکی کی شب و روز رابطوں کے نتیجے میں، بالآخر قافلے کو غزہ جانے کی اجازت دے دی گئی۔

۱۲ اور ۱۳ جنوری کو لبنان کے دار الحکومت بیروت میں ساتویں سالانہ القدس کانفرنس تھی۔ اس کانفرنس میں دنیا بھر سے تقریباً ۲۰۰ افراد شریک ہوئے۔ شرکا میں نمایاں ترین اور سب کی توجہ کا مرکز افراد وہی تھے جو ’شہ رگِ حیات ۳‘ میں شامل تھے۔ قافلے کے مرکزی منتظم محمد صوالحہ ابو عبادہ کو مخاطب کرتے ہوئے انھیں اور کانفرنس میں شریک نہ ہوسکنے والے جارج گیلوے کو پوری امت کی طرف سے خصوصی خراج تحسین پیش کیا گیا۔ بعد میں ابو عبادہ سے کھانے کی میز پر تفصیلی تبادلۂ خیال ہوا، تو بتارہے تھے کہ مصری انتظامیہ نے اجازت بھی دی تو یہ امر یقینی بناتے ہوئے کہ قافلہ صرف ایک روز کے بعد واپس آجائے گا، اور یہ بھی کہ ہم دن کے کسی پہر میں غزہ نہ پہنچ سکیں۔ ہم غزہ داخل ہوئے تو رات کا ایک بج رہا تھا۔ اہل غزہ کئی دن سے روزانہ ہمارا انتظار کررہے تھے،    رات کے آخری پہر میں بھی بڑی تعداد میں جمع تھے لیکن اگر قافلہ دن کی روشنی میں وہاں پہنچتا، تو شاید دنیا کے سامنے ایک اور ہی منظر ہوتا۔ ابو عبادہ بتارہے تھے کہ ایک سال گزر جانے کے باوجود غزہ ابھی تک جنگ کے تباہ کن اثرات سے نہیں نکل سکا۔ تباہ شدہ عمارتیں اب بھی ملبے کا ڈھیرہیں۔ ضروریات زندگی کی ہر چیز ناپید ہے۔ کانفرنس میں غزہ سے آئے ہوئے رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر مروان ابو راس سے خصوصی نشست ہوئی۔ امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر عبد الرشید ترابی، خالد محمود خان اور کراچی سے مظفر ہاشمی شریک تھے۔ ڈاکٹر مروان بتارہے تھے کہ محاصرے کے باعث ادنیٰ سے ادنیٰ ضروریات زندگی بھی نہیں ملتیں، کسی کے پاس آٹا ہے تو پکانے کوایندھن نہیں۔ کئی لوگ گھروں سے پھٹے پرانے کپڑے، کاغذ اور گھاس پھونس جلا کر کھانا تیار کرتے ہیں۔ کسی کے پاس پیسے ہیں اور وہ دوا یا روٹی لینے کے لیے فجر کے وقت نکلتا ہے تو بعض اوقات شام تک واپس لوٹ پاتا ہے۔

پھر جنگ کے جو نفسیاتی اثرات مرتب ہوئے ہیں، انسان ہونے کے ناتے ان سے مکمل چھٹکارا بھی آسان نہیں ہے۔ بچے، بوڑھے، مرد و خواتین اپنے تباہ شدہ گھروں کو دیکھتے ہیں تو تمام خون آشام مناظر تازہ ہوجاتے ہیں۔ سمیرہ بعلوشہ کی عمر تقریباً تیس سال ہے، گھر کے کھنڈر دیکھتے ہی وہاں شہید ہونے والی اپنی پانچ بچیوں کے نام لے لے کر انھیں یاد کرنا شروع کردیتی ہیں۔ ڈاکٹر عونی الجرو ۱۹۹۷ء میں یوکرین سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کرکے آئے تھے۔ اب وہ غزہ کے الشفاء ہسپتال میں باطنی امراض کے معالج ہیں، اپنی آنکھوں کے سامنے اہلیہ، شیرخوار بیٹے یوسف اور ۱۲ سالہ یاسمین کے پرخچے اڑ جانے کا حال سنانا شروع کرتے ہیں۔ تو الفاظ سے زیادہ آنسوئوں کی زبان سے بات کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ جنگ میں ایک ہزار چار سو افراد شہید ہوئے تھے اور ۵ہزار گھر ڈھادیے گئے تھے۔ ہر شہید کے وارث اور ملبے کے ہر ڈھیر سے صہیونی درندگی کی نئی سے نئی داستان سننے کو ملتی ہے۔

ڈاکٹر مروان بتارہے تھے کہ دیگر بہت سے اُمور کے علاوہ ایک قرآنی معجزہ یہ بھی سامنے آرہا ہے کہ حماس کے حفظ قرآن کیمپوں میں لوگ ۶۰ روز کے اندر مکمل قرآن کریم حفظ کر رہے ہیں۔ بچے ہی نہیں بڑے بھی، مرد ہی نہیں خواتین بھی، جب ایک بار ارادہ اور آغاز کرلیتے ہیں تو بظاہر مشکل، بلکہ ناممکن نظر آنے والا ہدف بآسانی حاصل ہوجاتا ہے۔ ڈاکٹر مروان کے بقول اب تک غزہ میں ۱۵ ہزار سے زائد افراد مختصر مدت میں مکمل قرآن حفظ کرچکے ہیں۔ کہنے لگے میرا اپنا بیٹا پہلے کہتا تھا: ’’بابا ایک دن میں دس صفحات یعنی آدھا پارہ حفظ نہیں کرسکتا‘‘ پھر جب اللہ کا نام لے کر کیمپ میں شریک ہوگیا تو الحمد للہ دو ماہ میں مکمل قرآن حفظ کرلیا۔ یہ الٰہی اور قرآنی معجزہ ہم اہلِ غزہ  کے لیے، اللہ کی طرف سے اعلان ہے کہ وہ ہمارے ساتھ ہے۔

القدس کانفرنس سے متصل ۱۴ اور ۱۵ جنوری کو ’مزاحمت کے ساتھ‘ کے عنوان سے ایک اور کانفرنس کا آغاز ہوگیا۔ سالانہ القدس کانفرنس کا اہتمام القدس فاؤنڈیشن کرتی ہے۔ علامہ یوسف القرضاوی کی زیر صدارت یہ تنظیم خصوصی طور پر اہل بیت المقدس اور مسجد اقصی کی نصرت کے لیے قائم کی گئی ہے۔ اس کے بہت سارے تعلیمی، تعمیراتی اور صحت کے منصوبے گذشتہ سات برس میں پایہء تکمیل تک پہنچ چکے ہیں اور مزید پر کام جاری ہے۔ مزاحمت کے ساتھ مَعَ المُقَاوَمَۃ کے عنوان سے ہونے والی کانفرنس ’بین الاقوامی عرب فورم براے نصرت مزاحمت‘ کے زیر اہتمام ہوئی تھی۔ دونوں کانفرنسوں کے بہت سے شرکا مشترک بھی تھے اور کئی الگ الگ بھی۔ دوسری کانفرنس میں عرب قومیت کی سرخیل شخصیات بھی پیش پیش تھیں۔ افتتاحی سیشن سے سب سے پہلے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ نے خطاب کیا۔ ان کا خطاب سیٹلائٹ کے ذریعے براہِ راست دکھایا گیا۔ مفصل خطاب کے آخر میں انھوں نے ایک جملہ یہ بھی کہا کہ ’’اسرائیل دوبارہ جارحیت کی تیاریاں تو کررہا ہے لیکن اسے جان لینا چاہیے کہ آیندہ کسی بھی جنگ میں ہم ان شاء اللہ خطے کا نقشہ بدل کر رکھ دیں گے‘‘۔ ان کے بعد حماس کے سربراہ خالد المشعل کا خطاب تھا پھر عراقی تحریک مزاحمت کی طرف حارث الضاری پھر علامہ یوسف القرضاوی اور شام و لبنان کی حکومتوں کے پیغامات تھے۔

کانفرنس میں مغربی ممالک سے بھی بڑی تعداد میں اسکالر، ارکان پارلیمنٹ، اور اہم شخصیات موجود تھیں۔ معروف امریکی مصنف رمزے کلارک کا خطاب بھی اگرچہ مختصر تھا لیکن امریکی دوغلے پن اور اسرائیلی شیطنت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کررہا تھا۔ اگلے روز محترم عبد الرشید ترابی اور راقم نے تحریک مزاحمت کشمیر اور افغانستان و پاکستان کی صورت حال پر گفتگو کی۔ کانفرنس کے اکثر شرکا فلسطین، عراق اور افغانستان ہی کی طرح پاکستان کے بارے میں بھی گہری تشویش کا اظہار کررہے تھے۔ یہ بدقسمتی کی بات تھی کہ پاکستان اور پاکستانی عوام سے اظہار محبت کے باوجود کوئی ایک فرد ایسا نہیں تھا کہ جو پاکستانی حکومت کے بارے میں کلمۂ خیر کہہ رہا ہو۔ حالانکہ کانفرنس میں ۵۰ فی صد سے زائد لوگ اسلام سے کوئی خاص ذہنی وابستگی نہیں رکھتے تھے۔ پرویز مشرف نے بھی مسلم دنیا کی بڑی نفرتیںسمیٹی ہیں، لیکن اب زرداری صاحب ان سے بھی کئی ہاتھ آگے بڑھ چکے ہیں۔

دوسری طرف عین کانفرنس کے دنوں میں ترکی کا ایک اور شان دار موقف سب کو سربلند کرگیا۔ ترک ٹی وی پر ان دنوںایک ڈراما سیریز چل رہی ہے: ’بھیڑیوںکی وادی‘۔ اس سیریز میں اسرائیلی مظالم کی بھرپور عکاسی کی گئی ہے۔ اس پر احتجاج کرنے کے لیے تل ابیب میں ترک سفیر کو وزارت خارجہ بلایا گیا۔ پہلے تو سفیر صاحب کو نائب وزیر خارجہ دانی ایالون کے دفتر کے دروازے پر منتظر کھڑا رکھا گیا۔ کئی منٹ کے انتظار کے بعد دروازہ کھلا تو دانی ایالون اور اس کے ساتھیوں نے سفیر صاحب کا استقبال کرتے ہوئے انھیں ایک نسبتاً نچلے صوفے پر بٹھایا اور خود ان کے سامنے اونچی کرسیوں پر بیٹھ گیا۔ درمیانی میز پر بھی سفارتی آداب کے مطابق دونوں ملکوں کے بجاے، صرف اسرائیل کا پرچم پڑا تھا۔ خیر ملاقات ختم ہوئی اور وزارت خارجہ کی طرف سے ذرائع ابلاغ کو خصوصی ہدایات کے ساتھ ان تینوں پہلوؤں کو نمایاں کروادیا گیا (انتظار - زیریں نشست - اکلوتا پرچم)

اس پر ترک صدر عبد اللہ گل اور وزیر اعظم رجب طیب اردوگان کی طرف سے سخت احتجاج کیا گیا۔ اسرائیلی وزارت خارجہ نے اس پر بذریعہ فون ترکی سے رسمی معذرت کرلی۔ لیکن صدر گل کی طرف سے کہا گیا کہ نہیں اگر آج شام سے پہلے پہلے، اسرائیل پوری ترک قوم سے باقاعدہ اور تحریری معذرت نہیں کرتا، تو ہم پہلے قدم کے طور پر اولین پرواز سے اپنا سفیر واپس بلالیں گے۔     یہ سن کر اسرائیل میں کھلبلی مچ گئی۔ فوراً کئی ارکان اسمبلی اور ماہرین خارجہ اُمور نے مل کر ایک معذرت نامہ ڈرافٹ کیا اور جاری کرنے سے پہلے ترک صدر کو بھجوایا کہ ڈرافٹ خود ملاحظہ کرلیں، اگر مزید کچھ لکھنا ہے تو وہ لکھ کر بھی معذرت کو تیار ہیں۔

اپنے علاوہ کسی کو انسان نہ سمجھنے والے اسرائیل کا یوں گھٹنے ٹیک دینا، دنیا کے لیے بہت سے پیغام رکھتا تھا جس کا اظہار اہل فلسطین نے خصوصی طور پر کیا۔ ’شہ رگِ حیات ۳‘ کے غزہ جانے کے بعد یہ دوسرا ترک موقف تھا، جس نے ترک حکومت کا مقام و مرتبہ بلند کیا۔ یقینا اس سے پہلے ڈیووس کانفرنس سے طیب اردوگان کا احتجاجی بائیکاٹ اور جنگ غزہ کے دوران فلسطینیوں کے زخم پر پھاہا رکھنے کی کوششیں بھی سب کو یاد ہیں۔ ترکی کے اس نمایاں کردار کے باعث اب عرب دنیا  ’دور عثمانی کی واپسی‘ جیسے عنوانات سے بے شمار تجزیے لکھ اور دیکھ رہی ہے۔ اسی ترک کردار کے باعث حال ہی میں سعودی عرب نے رجب طیب اردوگان کو خدمتِ اسلام کا شاہ فیصل عالمی ایوارڈ دینے کا اعلان کیا ہے۔ واضح رہے کہ اس سلسلے کا پہلا ایوارڈ مولانا مودودیؒ کو دیا گیا تھا۔ ترکی کے اس روشن موقف کے تناظر میں، پڑوسی اور عرب برادر ملک مصر کاغزہ کے گرد دیوار موت تعمیر کرنا سب کو کَھل رہا تھا۔ تقریباً سب شرکا نے اس پر بات بھی کی۔ اس موقع پر اخوان المسلمون کے ایک رکن نے کھڑے ہوکر مصری حکومت کے ان اقدامات سے براء۱ت کا اظہار کرتے ہوئے مصری عوام کی ترجمانی کی۔ انھوں نے بتایا کہ اس کانفرنس میں قاہرہ سے اخوان المسلمون کے ۲۴ ارکان پارلیمنٹ اپنا یہی قومی موقف واضح کرنے آئے ہیں۔

گذشتہ ۳۰ سال سے مصری عوام پر مسلط صدر حسنی مبارک، غزہ سے آنے والی چیخوں اور اپنے عوام کے دل کی بات نہیں سن رہے تو کم از کم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مبارک ہی دل کے کانوں سے سن لیں: ’’بنی اسرائیل کی ایک خاتون کو صرف اس لیے جہنم میں پھینک دیا گیا کہ اس نے اپنی بلی کو قید کر رکھا تھا۔ نہ تو اسے کچھ کھانے کو دیا اور نہ ہی اسے آزاد کیا کہ وہ خود کچھ کھالے‘‘۔ جناب حسنی مبارک! اے عرب حکمرانو! دنیا بھر کے غیور لوگو! غزہ میں انسانوں کو قید کرنے کی سزا کیا ہوگی؟ اور وہ بھی ایک دو نہیں، ۱۵ لاکھ انسانوں کو!

’’آپ نے مجھے یاد فرمایا تھا یا رسولؐ اللہ؟‘‘ حضرت عَمر.ْ و بن العاصؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کی۔ جلیل القدر صحابی کو اسلام قبول کیے ابھی چار ہی ماہ گزرے تھے۔ ’’اپنے کپڑے اور ہتھیار لے آئیں اور مجھے دوبارہ ملیں‘‘ :جواب ملا۔ آپؓ گھر جاکر سفر    کے لیے تیار ہوئے، واپس آئے تو آپؐ وضو کررہے تھے۔ آپؐ  نے چند لمحے غور سے اپنے صحابی کا چہرہ تکا، پھر سر جھکا کر فرمایا: ’’میں چاہتا ہوں کہ آپ کو ایک لشکر کا سربراہ بناکر بھیجوں‘‘۔ ساتھ ہی خوش خبری دیتے ہوئے فرمایا: ’’اس معرکے میں آپ فتح یاب رہیں گے، مالِ غنیمت بھی حاصل ہوگا‘‘ ۔ حضرت عَمر.ْ و بن العاصؓ نے فوراً سرتسلیم خم کرتے ہوئے عرض کی: ’’یا رسول اللہ! میں نے مال کے لیے تو اسلام قبول نہیں کیا، میں نے تو اسلام ہی کی خاطر اسلام قبول کیا ہے۔ میں نے تو اس لیے اسلام قبول کیا ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نصیب ہو‘‘ ۔آپؐ  نے فرمایا :’’مالِ صالح اگر نیک بندے کے پاس ہو تو وہی سب سے بہترین مال ہے‘‘۔

۳۰۰ جان نثار صحابہ کا لشکر تیار ہوا، حضرت عَمر.ْ و بن العاص رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں جانے والا یہ لشکر جس معرکے کو روانہ ہوا، اسے’ذاتُ السَّلاسِل‘ کہا جاتا ہے۔ اس لشکرکی روانگی  غزوۂ مُوتہ سے اسلامی افواج کی واپسی کے چند ہی روز بعد ہورہی تھی۔ غزوۂ مُوتہ میں اہل اسلام کی ۳ہزار نفوس پر مشتمل فوج نے ایک لاکھ کے لشکر کا سامنا کیا تھا۔ حضرت زید بن ثابت، حضرت جعفر بن ابی طالب اور حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر قائدین ،ایک ایک کرکے شہید ہوگئے تھے۔ پھر حضرت خالدؓ بن ولید نے قیادت سنبھالی اور جان توڑ کوشش کے بعد، باقی لشکر کو بخیر و خوبی نکال لائے تھے۔ اس لشکر کی واپسی کے چند روز بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی کہ بنو قضاعہ، جنھو ں نے مُوتہ میں رومیوں کا ساتھ دیا تھا، اس صور ت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، مدینہ منورہ پر چڑھائی کے لیے جمع ہورہے ہیں۔ اس خطرے کی سرکوبی کے لیے آپؐ نے حضرت عَمر.ْ و بن العاصؓ کی قیادت میں سابق الذکر لشکر روانہ کیا۔

حضرت عَمرْو نے حضرت خالد بن الولید کے ساتھ صفر ۸ ہجری میں اسلام قبول کیا تھا اور تمام عرب میں اپنی دانائی، حاضر دماغی اور ذہانت و فطانت کے حوالے سے خصوصی مقام رکھتے تھے۔ قبول اسلام کے چار ماہ بعد، یعنی جمادی الثانی ۸ہجری میں لشکر روانہ ہوا، ابھی راستے ہی میں تھا کہ معلوم ہوا، دشمن کی تعداد زیادہ ہے۔ سپہ سالار نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مزید کمک ارسال کرنے کا پیغام بھیجا۔ آپؐ  نے حضرت ابوعبیدہؓ بن الجراح کی قیادت میں مزید ۲۰۰ مجاہدین کا لشکر، اعانت کے لیے روانہ فرمایا۔ اس نئی فوج میں حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہما جیسے انتہائی جلیل القدر صحابہ بھی شامل تھے۔ کمک پہنچی تو سوال اٹھا کہ اب مسلمان فوج کا قائد کون ہوگا؟ ایک راے یہ سامنے آئی کہ دونوں لشکر اپنے اپنے امیر کی امارت ہی میں رہیں، اور دونوں فوجیں ایک دوسرے کی مدد کریں۔ حضرت عَمر.ْ و بن العاصؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوج کی ذمہ داری میرے سپرد کی ہے، آپ لوگ ہماری نصرت کے لیے آئے ہیں، آپ کو بھی اصل فوج میں شامل ہوجانا چاہیے۔ قریب تھا کہ پورا لشکر دو فریقوں میں تقسیم ہوجاتا، حضرت ابوعبیدہ ابن الجراح (جنھیں امینِ امت کا لقب عطا ہوا) آگے بڑھے اور فرمایا جناب عَمرْو! آپ کو معلوم ہے رخصت کرتے ہوئے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے آخری بات کیا فرمائی تھی؟ انھوں نے فرمایا تھا: ’’جب تم اپنے ساتھی سے جا ملو، تو دونوں ایک دوسرے کی بات تسلیم کرنا‘‘۔ اب اگر آپ کو میری راے سے اختلاف ہے تو میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں آپ کی اطاعت کروں گا۔ یہ کہتے ہوئے انھوں نے قیادت حضرت عَمر.ْ و بن العاصؓ کے سپرد کردی۔

اب ۵۰۰ سرفروشوں کا یہ لشکر دن رات کی منزلیں طے کرتا ہوا آگے بڑھا۔ حضرت عَمر.ْ و بن العاصؓ کی کوشش تھی کہ دشمن کو ان کے آنے کی خبر کانوں کان نہ پہنچ پائے۔آپ اکثر سفر رات کے وقت کرتے اور دن کا بیش تر حصہ کسی جگہ خاموشی سے پڑاؤ ڈال دیتے۔ شمال کی طرف سفر کرتے ہوئے رات کے وقت سردی میں شدید اضافہ ہوجاتا تھا۔ صحابہ کرامؓ نے تجویز دی کہ سردی کے علاج کے لیے، آگ تاپنے کی اجازت دی جائے۔ امیر نے آگ جلانے سے منع کردیا۔ سردی مزید بڑھی تو صحابہ نے حضرت عمر بن الخطابؓ سے بات کی۔ انھوں نے حضرت ابوبکر صدیقؓ سے کہا کہ آپ حضرت عَمر.ْ و بن العاصؓ سے جاکر آگ جلانے کی اجازت لے لیں۔ وہ گئے اور امیر لشکر  سے بات کی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ساتھی اس بارے میں شاید پہلے بھی باربار کہہ چکے ہوںگے۔ اس مرتبہ انھوں نے دوٹوک انداز سے منع کردیا اور کہا :’’ان میں سے جس نے بھی آگ روشن کی اسے اسی میں پھینک دوں گا‘‘ (لا یُوقِدُ أَحَدٌ مِنْھُمْ نَارًا اَلاَ قَذَفْتُہٗ فِیْھَا) حضرت عمرؓ بن الخطاب نے یہ جواب سنا تو ناراض ہوگئے، لیکن حضرت ابو بکر صدیقؓ نے تحمل سے فرمایا: عمر! آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم ایک دوسرے کی بات مانیں، اختلافات پیدا نہ ہونے دیں۔ عمر! ہوسکتا ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لیے انھیں ہمارا امیر بنایا ہو کہ وہ جنگ اور اس کے فنون کے زیادہ ماہر ہیں‘‘، رضی اللہ عنہم اجمعین۔

قافلہ آگے بڑھتا رہا، جہاں جاتے خبر ملتی، بنوقضاعہ کے لوگ یہاں تھے، مدینہ منورہ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر کی آمد کا سن کر یہاں سے بھاگ گئے۔ کافی دور جاکر بنوقضاعہ کا باقی ماندہ لشکر ملا۔ آمنا سامنا ہوا لیکن عزم صمیم، وحدتِ صف، سمع و طاعت، شوقِ شہادت اور  ریاستِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع کے جذبے سے سرشار مسلم فوج کے سامنے، جلد ہی پسپا ہوگیا۔ کچھ صحابہ کی راے تھی کہ دشمن کا پیچھا کیا جائے، لیکن امیر نے پھر دوٹوک انداز میں منع کردیا۔ لشکر اسلام نے چند روز وہیں قیام کیا۔ مخالفین پر ریاست مدینہ کی دھاک بیٹھ گئی۔ اطراف شام تک اسلامی ریاست کی سرحدیں محفوظ ہوگئیں اور لشکر کامیاب و کامران واپس آیا۔ مسلمانوں میں ہرجانب خوشی ا و راطمینان کی لہر دوڑ گئی۔

کسی مناسب موقع پر بعض صحابہ کرامؓ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے امیر حضرت عَمر.ْ و  بن العاصؓ کا ذکر کرتے ہوئے چار نکات پیش کیے:

___ انتہائی سرد راتوں میں بھی انھوں نے ہمیں آگ جلانے کی اجازت نہیں دی۔

___ حضرت ابوعبیدہؓ کا لشکر جانے کے بعد بھی انھوں نے، امیر رہنے پر اصرار کیا۔

___ دشمن کی ہزیمت کے بعد،انھوں نے اس کا پیچھا کرنے کی اجازت نہیں دی۔

___ انھوںنے ایک صبح پانی ہونے کی باوجود تیمم کرکے امامت کروائی، حالانکہ انھیں غسل کی ضرورت تھی۔

آپؐ نے انھیں بلا کر چاروں سوال کیے تو انھوں نے فرمایا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دشمن تعداد میں زیادہ تھا۔ہم نے دشمن کی نگاہوں اور جاسوسوں سے بچ کر سفر طے کیا۔ مجھے خدشہ تھا کہ اگر میں نے آگ جلانے کی اجازت دے دی تو دشمن کو ہماری اصل تعداد معلوم ہوجائے گی۔ دوسرے سوال کا جواب وہی دیا جو دوران سفر دے چکے تھے کہ یارسولؐ اللہ !آپؐ نے مجھے امیر متعین کرکے بھیجا تھا، یہ ساتھی کمک کے لیے آئے تھے۔ تیسری بات کا جواب یہ ہے کہ میں نے انھیں دشمن کا پیچھا کرنے سے اس لیے روکا کہ مجھے خدشہ تھا کہ دشمن کہیں گھات لگا کر نہ بیٹھا ہو اور اچانک حملہ کر کے پانسا نہ پلٹ دے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن کی نگاہوں سے محفوظ رہنے، مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد و نظم برقرار رکھنے اور اپنے ساتھیوں کی حفاظت کے لیے کیے گئے ان اقدامات کو درست قرار دیا۔ چوتھی بات کے بارے میں آپؐ نے دریافت کیا: یاعَمْرو أَصَلَّیْتَ بِأَصْحَابِکَ وَأَنْتَ جُنُبٌ؟’’ عمرو کیا جنابت کی حالت میں ساتھیوں کونماز پڑھائی؟‘‘ جواب ملا :یارسول اللہ !پانی شدید ٹھنڈا تھا میں نے اللہ تعالیٰ کا فرمان دیکھا: وَ لَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْمًا   (النسائ۴:۲۹)’’اپنے آپ کو قتل نہ کرو، اللہ تم پر بہت رحم فرمانے والا ہے‘‘۔ آپؐ  ہنس دیے اور کوئی تبصرہ نہ فرمایا۔

یہ تمام واقعات احادیث و سیرت کی مختلف کتب میں تفصیل سے ملتے ہیں۔ مختلف روایات کی اسناد و صحت بھی مختلف ہے۔ ان کی بنیاد پر مختلف فقہی ابحاث و مناقشت بھی چھیڑی جاسکتی ہے۔ بعض جملوں کی صحت اور سند کے بارے میں سوال اٹھائے جاسکتے ہیں۔ لیکن ہمیں یہ حقیقت ذہن میں تازہ رکھنا چاہیے کہ ہماری اصل ذمہ داری ان سے حاصل ہونے والے دروس و اسباق پر غور کرنا اور ان پر عمل کرنا ہے۔ آئیے اب اسی نیت سے کچھ پہلوؤں کا دوبارہ مطالعہ کرتے ہیں۔

۱-            ذمہ داریوں کا تعین ہمیشہ مرتبے، یا تحریک میں گزارے جانے والی مدت و اسبقیت پر نہیں ہوتا۔حضرت عَمر.ْ و بن العاصؓ صرف چار ماہ قبل نعمت ِاسلام سے فیض یاب ہوئے تھے۔  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی جنگی صلاحیت، اس علاقے سے واقفیت اور فہم و فراست کے پیش نظر ۲۰،۲۰سال سے تحریک کے سرخیل کی حیثیت سے موجود صحابہء کبار کو آپ کی قیادت میں بھیج دیا۔ حضرت عَمر.ْ و  بن العاصؓ اور حضرت خالد بن الولید رضی اللہ عنہما جب اسلام قبول کرنے کے لیے تشریف لارہے تھے تو آپؐ نے انھیں دیکھ کر فرمایا: رَمَتْکُمْ مَکّہ بِفَلَذَاتِ کَبِدِھَا ’’مکہ نے آج اپنے جگر کے ٹکڑوں کو تمھاری طرف اچھال دیا ہے‘‘۔ انھی دونوں ہستیوں کی وجہ سے اسلامی تحریک کو کئی صدمے جھیلنا پڑے تھے، آج جب وہ نور رسالت کے اسیر ہوکر مدینہ کھنچے چلے آئے تو آغوش نبوت نے وفور محبت سے انھیں اپنے دامن شفقت میں سمیٹ لیا۔ ان کی تکریم کرتے ہوئے ابوبکر و عمر اور امین امت رضی اللہ عنہم جمیعا کو ان کی سرداری میں دے دیا۔ اسلامی تحریک اگر نئے آنے والوں کو خوش آمدید نہ کہتی، ان کی تالیف و تکریم کا اہتمام نہ کرتی تو شاید کبھی اس قدر مضبوط، منظم اور کامیاب نہ ہوتی۔ قبول اسلام کے چند ہی ماہ اور ذات السلاسل کے دوماہ بعد یعنی رمضان ۸ ہجری میں فتح مکہ کا تاریخی واقعہ روپذیر ہورہا تھا اور حضرت خالد بن الولید چار مختلف اطراف سے مکہ میں داخل ہونے والے لشکروں میں سے ایک کی سربراہی کررہے تھے، یعنی اپنے قبول اسلام کے تقریباً چھے ماہ بعد۔ اس سے قبل غزوۂ مُوتہ میں تین قائدین کی شہادت کے بعد لشکر اسلام کی قیادت کرتے ہوئے، صحابہ کرام کو موت کے منہ سے نکال کر، قبولِ اسلام کے تقریباً تین ماہ بعد ’سیف اللہ‘ اللہ کی تلوار کا لقب حاصل کرچکے تھے۔

۲-            نئے آنے والے ساتھی کو اپنا امیر بنا دیے جانے پر ان عظیم شخصیات میں سے کسی کی طرف سے ادنیٰ تردد، تحفظات یا ناراضی و ناپسندیدگی کا اشارہ تک نہ ملا۔ یہی صورت ہمیں آں حضوؐر کی جانب سے متعین کردہ آخری لشکر، لشکر اسامہ بن زید کے بارے میں دکھائی دیتی ہے۔

۳-            جیسے ہی آپؐ  کے پاس کمک کی درخواست پہنچی آپؐ نے فوراً عظیم شخصیات کو مدد  کے لیے ارسال کردیا، اپنے ساتھیوں کو حالات کے رحم و کرم پر نہ چھوڑا۔

۴-            جب دو میں سے ایک کی قیادت کے انتخاب کا مرحلہ آیا اور حضرت عَمر.ْ و  بن العاصؓ نے اپنی دلیل پیش کی تو حضرت ابوعبیدہ ابن الجراح نے فوراً خود آگے بڑھ کر دست برداری کا اعلان کیا۔ حالانکہ آپ کو دربار رسالت سے ’امینِ اُمت‘ کا خطاب حاصل ہوچکا تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نوجوانوں اور نئے آنے والوں ہی کو عملی قیادت کے تجربات و تربیت سے  نہیں گزارا خود بزرگ صحابہ کرام کو بھی ایک روشن مثال کے طور پر پیش کیا کہ ان کے نظم و ضبط اور  سمع و طاعت کی روح سے نئے ساتھی بھی فیض یاب ہوں۔

۵-            ایک دوسرے کی نفسیات تک کا خیال رکھنے کی عملی مثال بھی سامنے آگئی۔ عمر فاروقؓ کو حضرت عَمر.ْ و بن العاصؓ کا دوٹوک انداز معلوم تھا اور اپنے مزاج کا اس سے بھی زیادہ علم تھا۔ آپ نے آگ جلانے کی تجویز دینے کے لیے نرم خو اور بزرگ شخصیت کے حامل صدیق اکبرؓ کو ارسال کیا، مبادا کہ ماحول میں کوئی تلخی آجائے۔

۶-            جب امام تیمم سے تھا اور پانچ سو باوضو بزرگ صحابہ مقتدی تھے۔ یہ سوال بھی موجود تھا کہ کیا غسل کے بجاے تیمم ہوسکتا ہے یا نہیں؟ اور یہ سوال بھی ہوسکتا تھا کہ سب باوضو ہیں، امام نے غسل کی جگہ تیمم کیا ہوا ہے تو کیا پیچھے والوں کی نماز ہوگی بھی یا نہیں۔ لیکن کسی نے اس فقہی مسئلے کو نزاع کا باعث نہ بنایا۔ کسی نے نہ کہا کہ نماز دہرا لیتے ہیں۔۔ الگ جماعت کروالیتے ہیں۔ سب نے باجماعت اور کامل یکسوئی سے نماز ادا کی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مسئلہ پیش ہوا تو آپؐ نے بھی مسکراہٹ اور خاموشی پر اکتفا کیا۔ علماے فقہ نے اس واقعے سے دونوں نتائج اخذ کیے۔ ایک گروہ نے مسکرانے اور خاموشی کو جواز و تاکید قرار دیا۔ آپؐ کا تبسم بھی مسائل شریعت کا فیصلہ کرتا ہے۔ آپؐ نے کسی کو اس کی نماز نہ ہونے یا نماز دہرانے کی تلقین نہیں فرمائی، جب کہ ایک گروہ نے آپؐ  کے اس لفظ کو: ’’کیا جنبی تھے اور ساتھیوں کی امامت کروالی‘‘ سے یہ اخذ کیا کہ آپؐ نے خود فرمادیا کہ ’’جنبی تھے‘‘ یعنی تیمم سے طہارت نہ ہوئی۔ لیکن فریق اول کا کہنا ہے کہ آپ نے تو بس صحابہؓ کا سوال دہرادیا، خود تو صرف تبسم و خاموشی سے موقف کی تائید کردی۔ اس حوالے سے بھی سب سے بنیادی امر یہی ہے کہ اس طرح کے فقہی اختلافات و آرا کو نہ تو صحابہؓ نے اختلاف و علیحدگی کا سبب بنایا اور نہ آپؐ نے اسے بحث و تمحیص کی بنیاد بننا دیا۔

۹-            اگرچہ حضرت عَمر.ْ و  بن العاصؓ کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود بشارت دے چکے تھے کہ ’’فتح یاب ہوکر آؤ گے‘‘ لیکن قائد نے صرف خوش خبری کو بنیاد بناکر عمل اور جدوجہد ترک نہیں کردی۔ ہر وہ حکمت اختیار کی اور ہر وہ کوشش کی، جو معرکے میں کامیابی کے لیے ضروری تھی۔ قیادت اور نظم و ضبط میں کسی کو کوئی شک نہ رہنے دیا۔ پورا ایک لشکر ایک ہی اِمام، ایک ہی سربراہ کی زیرقیادت یک جا و متحد کیا۔ دشمن کی نظروں سے بچنے کے لیے رات کا سفر، آگ کا نہ جلانا اور دشمن کی کمین گاہ سے محتاط رہتے ہوئے اس کی شکست کے باوجود پیچھا نہ کرنا، سب عمل و جدوجہد ہی کے مظاہر ہیں۔ اگر نری بشارتوں ہی پر تکیہ کرنے والی قیادت ہوتی، تو شاید پھر یہ بشارت ہی حاصل نہ ہوتی۔

۱۰-         رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جیسے ہی دشمن کے ارادوں اور ریاست اسلامی کو درپیش خطرات کا علم ہوا، تو آپ نے معرکے کو دشمن کی سرزمین میں منتقل کر دیا۔ خود آگے بڑھ کر فتنے کی سرکوبی کر دی۔ کبھی یہ نہیں ہوا کہ دوسروں کی جنگ کو آپؐ اپنی سرزمین پر کھینچ لائے ہوں اور جنگ کی آگ بھڑکاکر تمام دشمنوں کو اس پر مزید تیل چھڑکنے کا موقع فراہم کر دیا ہو۔

۱۱-         اس سفر اور بزرگ صحابۂ کبار کی قیادت کرلینے سے حضرت عَمر.ْ و  بن العاصؓ کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک ان کا مقام مرتبہ سب سے بڑھ کر ہے۔ خود روایت کرتے ہیں کہ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ذاتُ السلاسل میں جانے والے لشکر کا سربراہ بناکر بھیجا۔ اس میں ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے۔ میرے دل میں خیال آیا کہ آپؐ  نے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کا امیر بلاوجہ نہیں بنادیا، آپؐ  کے دل میں میری قدرومنزلت ان سے بھی بڑھ کر ہوگی تو ایسا کیا ہے‘‘ میں نے حاضر ہوکر دریافت کیا: یارسولؐ اللہ! آپؐ  کو سب سے زیادہ محبت کس سے ہے؟ آپؐ  نے (بے ساختہ اور دل کی بات زبان پر لاتے ہوئے فرمایا) عائشہؓ سے۔ میں نے عرض کی: نہیں یارسولؐ اللہ! میں آپؐ  کے اہل خانہ کے بارے میں نہیں پوچھ رہا۔ آپؐ نے فرمایا: عائشہ کے والد سے۔ میں نے کہا: ان کے بعد؟ آپؐ نے فرمایا: عمرؓ سے۔ میں نے کہا: ان کے بعد۔ اس طرح آپؐ نے ایک ایک کرکے کئی صحابہ کے نام گنوادیے۔ میں نے پھر یہ سوچ کر مزید پوچھنا بند کردیا کہ کہیں میرا نام سب سے آخر میں نہ آجائے‘‘۔

یہ واقعہ بھی اسلامی تحریک کے ہر کارکن کے لیے خصوصی اہمیت رکھتا ہے کہ اس کی ذمہ داریاں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں اس کی قدرومنزلت کا تعین نہیں کرتیں۔ مدرسۂ نبوت نے نئے آنے والے طالب علم کی دل جوئی کی خاطر، نئے آنے والے کی دوٹوک، محتاط اور    حکیمانہ طبیعت کے پیش نظر، اس ذمہ داری کے لیے موزوں جانا اور وہ اس اعتماد پر پورے اُترے، لیکن مقام و مرتبے کا تعین اور آپؐ سے قربت کا حصول ذمہ داریوں کے تعین سے نہیں ہوتا۔

نئے طالب علم نے بھی اس خلافِ توقع جواب پر برا نہیں منایا، نہ دورِ جہالت ہی کا کوئی تعصب قریب آنے دیا۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ خود بھی قدرومنزلت کی انھی بلندیوں تک پہنچ گئے۔ تب جیسے خود ہی اپنی پہلی راے کی سادگی کا خیال آیا ہو، بیان کیا کہ دیکھو بھلا میں بھی کیا سوچ بیٹھا تھا۔

۱۲-         رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کی زندگی، جہدِ مسلسل سے عبارت تھی۔ ابھی مُوتہ کو دو ہفتے بھی نہ گزرے تھے کہ ذات السلاسل کے لیے لشکر ارسال کر دیا۔ اس معرکے کو دو ماہ نہ گزرے تھے کہ فتحِ مکہ کے عظیم معرکے کا آغاز ہوگیا۔ رمضان میں مکہ فتح ہوا اور تقریباً تین ہفتے بعد۵شوال ۸ ہجری کو غزوئہ حنین کے لیے لشکرِرسولؐ روانہ ہو رہا تھا۔ کسی طرف سے آواز نہیں آئی: ابھی ایک معرکے سے اور مہم سے سانس نہ لیا تھا کہ دوسرے میں جھونک دیا۔ سب نے بیک آواز لبیک کہا اور سرخ رو ہوگئے   ؎

یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم

جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

رب ذو الجلال ہمیں اپنے دین کا صحیح فہم عطا فرما اور ہمارے لیے اس پر عمل کو آسان بنادے، آمین!

حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو لشکر کا قائد بناکر بھیجا۔ اس نے ایک جگہ آگ روشن کی اور لشکر سے کہا: اس میں کود جاؤ۔ کچھ لوگوں نے اس کی بات مانتے ہوئے آگ میں کود جانے کا فیصلہ کرلیا۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ نہیں آگ ہی سے بچنے کے لیے تو ہم مسلمان ہوئے ہیں۔ واپس آکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس واقعے کا ذکر کیا گیا تو جن لوگوں نے آگ میں کود جانے کا ارادہ کیا تھا ان سے مخاطب ہوکر آپؐ نے فرمایا: اگر تم آگ میں جاکودتے تو قیامت تک اسی میں رہتے۔ اور جن لوگوں نے آگ میں کودنے سے انکار کیا تھا آپؐ نے ان کی تحسین کی اور فرمایا: اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے کسی شخص کی اطاعت نہیں کی جاسکتی۔ اطاعت صرف نیکی کے کاموں میں ہے (مسلم، حدیث ۳۲۲۴)

مطلق اطاعت کا حق صرف رب ذو الجلال کے لیے ہے۔ باقی تمام اطاعتیں اسی بزرگ و برتر ہستی کی اطاعت سے مشروط ہیں۔ مذکورہ لشکر کا سربراہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقرر کردہ تھا، لیکن حکمت الٰہی نے اپنے حبیبؐ کے امتیوں کی تعلیم کا انتظام کرنا تھا۔ یہ واقعہ روپذیر ہوا اور صحابہ کرامؓ کے ذریعے پوری اُمت کو درس حاصل ہوگیا کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت سب پر مقدم ہے۔

اسی حدیث سے سمع و طاعت کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے، اگرچہ سربراہ کے حکم پر عمل نہیں کیا جاسکتا تھا لیکن کئی صحابۂ کرام جذبۂ اطاعت میں اس کے لیے بھی تیار ہوگئے۔ حکم چونکہ اللہ کی تعلیمات کے صریحاً منافی تھا، اس لیے سب صحابہ کرامؓ نے اتفاق راے سے اس پر عمل نہ کیا اور خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کی تائید و تحسین فرمائی کہ اسلام اور اسلامی تحریک میں شمولیت کا اصل مقصد ہی رب کی اطاعت اور اس کی آگ سے بچنا ہے۔

حدیث یہ بھی واضح کرتی ہے کہ خودکشی کرنا اللہ کی صریح نافرمانی ہے۔ اللہ کی آگ سے بچنے کے اُمیدوار اس حرام فعل سے اجتناب کرتے ہیں۔

زندگی کے ہر گوشے کے لیے سنہری اور ابدی اصول عطا ہوگیا، خالق کی نافرمانی کرتے ہوئے مخلوق میں سے کسی کی ___ جی ہاں، کسی کی بھی اطاعت نہیں کی جاسکتی۔


حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے زہر  پی کر خودکشی کی، جہنم کی آگ میں جاکر بھی اس کے ہاتھ میں زہر ہی ہوگا اور وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وہیں رہ کر بار بار زہر پی کر، بار بار مرتا رہے گا۔ (ابوداؤد ، حدیث ۳۸۷۲)

زندگی اللہ کی امانت ہے۔ انسان کسی کی تو کجا، اپنی جان بھی نہیں لے سکتا۔ اگر کوئی اس جرم کاارتکاب کرلے تو یہ نہیں کہ بس مرگیا اور قصہ ختم، وہی اقدامِ خودکشی اس کی ابدی سزا بن جاتا ہے۔ دوسری احادیث میں ہے کہ کوئی بلندی سے خود کو گرا کر مرگیا تو وہ بار بار اسی طرح زندہ کیا جاتا رہے گا اور اسی طرح گر گر کر مرتا رہے گا۔ کسی نے تلوار یا کسی بھی ہتھیار سے خود کو قتل کرلیا وہ بھی اسی طرح___  زندگی کی پریشانیوں، مصیبتوں یا غصے کا علاج اور احتجاج کا راستہ خودکشی نہیں ہوسکتا، یہ تو ہمیشہ کا عذاب ہے۔


حضرت عبد اللہ بن بریدہ ؓسے روایت ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی قوم ایسی نہیں ہے کہ اس نے بدعہدی کی اور ان کے درمیان قتل و غارت نہ بڑھ جائے۔ کوئی قوم ایسی نہیں ہے کہ اس میں فحاشی عام ہوجائے اور اس پر موت نہ مسلط ہو، اور کوئی قوم ایسی نہیں ہے کہ زکوٰۃ دینا چھوڑ دے اور اللہ نے اس کی بارش نہ روک لی ہو۔ (مستدرک حاکم ، حدیث ۲۵۲۹)

عہد کی پاس داری، قرآن اور حدیث کی پاس داری ہے۔ انسان کی معاشرتی، معاشی، سیاسی زندگی اور لاتعداد اجتماعی مسائل کا حل اسی ایک اصول کی پابندی کا مرہون منت ہے۔ عہد کی خلاف ورزی سے اختلافات پیدا ہوں گے اور بالآخر نتیجہ جھگڑوں اور قتل و خوں ریزی کی صورت میں نکلے گا۔یہ اصول ابدی اور جامع ہے۔

حدیث سے دوسری اہم بات یہ واضح ہوئی کہ حیاداری نہ رہے تو معاملہ انسانی ضمیر اور نسل انسانی کی موت تک جاپہنچتا ہے۔ ایڈز جیسی ہلاکتوں کا رونا رونے اور اس کا مقابلہ کرنے لیے معصوم بچوں میں بے حیائی کی تعلیم کا پرچار کرنے والے ذرا یہ نسخۂ ’حیاداری‘ آزما کر تو دیکھیں، رسول رحمتؐ کی حقانیت واضح ہوجائے گی۔

تیسرا اصول یہ عطا ہوا کہ زکوٰۃ کی ادایگی برکت ہی برکت ہے، رسول اکرمؐ فرماتے ہیں کہ صدقات سے مال ہمیشہ بڑھتا ہی ہے، کبھی کم نہیں ہوتا۔ ہاں، جو بندہ مال کی محبت میں گرفتار ہو کر سمجھے کہ مال  روک کر رکھنے سے مال بڑھے گا، وہ جان لے کہ پھر صرف وہی نہیں، پورا معاشرہ قحط سالی کا شکار ہوجائے گا۔


حضرت علیؓ کا ارشاد ہے کہ میں نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی سے یہ کہہ کر مخاطب ہوتے ہوئے نہیں سنا کہ: ’’میرے ماں باپ آپ پر قربان‘‘ سوائے سعدؓ بن مالک کے۔ آپؐ غزوۂ اُحد کے دوران انھیں فرمارہے تھے: ’’سعد تیر چلاؤ، میرے ماں باپ تم پر قربان!‘‘۔ (بخاری، حدیث ۴۰۵۹)

پوری کائنات جس ہستی پر فدا ہونا اپنے لیے اعزاز سمجھے وہ خود کسی کو کہہ دے ’’میرے ماں باپ تم پر قربان‘‘۔ سبحان اللہ! اس اعزاز و مرتبے پر جتنا بھی شکر کیا جائے کم ہے، لیکن ہم امتیوں کے لیے اصل سوال یہ ہے کہ حضرت سعدؓ کو یہ مقام و مرتبہ کیوں کر حاصل ہوا؟ غزوۂ اُحد کے واقعات اسی سوال کا جواب ہیں۔ ایسے وقت میں کہ جب مسلمانوں پر انتہائی کڑا وقت تھا، لشکر اسلام پر اچانک دوبارہ ہلہ بول دیا گیا تھا___ صحابۂ رسول رضی اللہ عنہم شہید ہورہے تھے ___ حضرت سعدؓ تاک تاک کر دشمن پر تیر برسارہے تھے۔ یہی وہ لمحات تھے کہ جب حضرت سعد ؓ کو تاریخ کا سب سے منفرد اعزاز حاصل ہوگیا۔

آج جب پوری اُمت پر ادبار کا عالم ہے۔ دنیا کے سب ابلیس یک جا ہوکر حملہ آور ہیں،کون ہے جو حضرت سعدؓ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دفاعِ اُمت کے لیے انؓ کی سی مہارت حاصل کرے۔ اُس وقت کے تیر آج ہر نوع کی عسکری، علمی، اقتصادی قوت اور ٹکنالوجی کے تمام جدید ذرائع کی صورت اختیار کرچکے ہیں۔ قرآن نے ایک لفظ میں پورا مضمون سمو دیا:ما استطعتم ’’جو کچھ بھی تمھارے بس میں ہے‘‘ دشمن کے مقابلے کے لیے تیار کرو۔


حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر قیامت کی گھڑی آجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں ایک بیج (یا پنیری) ہو جسے وہ بونا چاہ رہا ہو، تو اگر ایسا ممکن ہو کہ قیامت واقع ہوجانے سے پہلے پہلے وہ اسے بودے تو ضرور بودے۔ (مسند احمد، حدیث ۱۳۰۰۴)

جب قیامت ہی آجائے گی تو ظاہر ہے سب کچھ ختم ہوجائے گا، لیکن اس تمثیل کے ذریعے،  معلم انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم عمل اور محنت کی عظمت بیان فرمارہے ہیں۔ رزق حلال کے حصول، اپنی ذمہ داریوں کی ادایگی، معاشرے کی تعمیر و ترقی، دفاع اُمت اور انسانیت کی خدمت و فلاح کی خاطر آخری سانس تک کوشش، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلوب و محبوب ہے۔


حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو چاہتا ہے کہ مصیبت کے لمحات میں اللہ اس کی دُعا قبول فرمائے، اسے چاہیے کہ عافیت کے لمحات میں زیادہ سے زیادہ دُعا کرے (ترمذی ، حدیث ۳۳۸۲)

آزمایش اور مصیبت کے لمحات میں مسلمان ہی نہیں کفار بھی، اللہ ہی کو پکارنے لگ جاتے ہیں۔ بندے اور رب کے مابین تعلق کی اصل پرکھ، سُکھ کے لمحات میں ہوتی ہے۔ آسودہ حالی میں بندہ اپنے رب کو یاد رکھے، اس کے سامنے جھولی پھیلائے رکھے، اس کے ساتھ کیے گئے وعدوں کا پاس کرے، تو وہ غفور و رحیم ذات، تنگی، پریشانی اور مصیبت کے لمحات میں اپنے بندے کو یاد رکھتی ہے۔ پروردگار کی عطائیں جاری رہتی ہیں اور وہ بندے کی دُعاؤں کی لاج رکھتا ہے۔

عافیت کو عام طور پر صحت و تندرستی کا مترادف سمجھا جاتا ہے، لیکن اس کا مفہوم بے حد وسیع اور زندگی کے ہر گوشے کا احاطہ کرتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر دُعا فرمایا کرتے تھے: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِکَ وَ تَحَوُّلِ عَافِیَـتِکَ، ’’پروردگار میں تیری نعمتوں کے زوال اور تیری عافیت کے اُٹھ جانے سے تیری پناہ چاہتا ہوں‘‘۔ دُنیا میں کتنے انسان ہیں جو خوش و خرم زندگی بسر کررہے ہوتے ہیں اور اچانک عافیت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اس کا تصور ذہن میں لاتے ہوئے اب ذرا حدیث اور اس کے مفہوم کا دوبارہ مطالعہ کرکے دیکھیے، رب سے کس طرح کا تعلق مطلوب ہے۔


حضرت عدی بن حاتمؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس سے اس کا رب براہ راست ہمکلام نہ ہو۔ دونوں کے درمیان کوئی ترجمان نہ ہوگا۔ بندہ اپنے دائیں طرف دیکھے گا اسے کچھ دکھائی نہ دے گا، سوائے اس کے کہ جو کچھ اس نے آگے بھیجا ہے۔ وہ اپنے بائیں طرف دیکھے گا تو، وہ اپنی آگے بھیجی ہوئی کمائی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھے گا۔ وہ اپنے سامنے دیکھے گا تو اسے جہنم کی آگ کے علاوہ کچھ دکھائی نہ دے گا۔ تو (اے لوگو) آگ سے بچو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے کا صدقہ دے کر۔ اور اگر اللہ کی راہ میں دینے کے لیے تمھارے پاس کچھ بھی نہ ہوتو اچھی بات کہہ کر ہی آگ سے بچو۔ (بخاری، حدیث ۷۵۱۲)

ہر بندے کو اصل فکر مندی اسی لمحے کی ہونی چاہیے جب رب ذو الجلال اس سے خود ہمکلام ہوگا۔ بندے کے ساتھ کچھ رہے گا تو صرف اس کا عمل اور رب رحیم کی رحمت۔ رحمتوں کی طلب اور آگ سے بچاؤ کے لیے رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے آسان راہ بتادی___ اللہ کی راہ میں، صرف اور صرف اس کی رضا کے لیے زیادہ سے زیادہ خرچ۔ اور کچھ نہیں تو کھجور کا ٹکڑا ہی سہی، وہ بھی نہیں تو خیرخواہی کے دو بول ہی سہی۔

 

امریکی وزیرخارجہ کولن پاول خطے کے دورے پر آئے ہوئے تھے۔دورے کے اختتام پر ایوانِ صدر میں الوداعیہ پریس کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ ایک طرف وزیرخارجہ پاول کھڑے تھے اور دوسری جانب، ہر پروٹوکول کو خاک میں ملاتے ہوئے صدر مملکت جنرل پرویز مشرف۔ کولن پاول نے احسان جتاتے ہوئے اعلان کیا: ’’پاکستان ہمارا اسٹرے ٹیجک حلیف ہے‘‘۔ اعلان کے بعد وزیرخارجہ پورے تزک و احتشام کے ساتھ روانہ ہوئے اور سیدھے دلی پہنچے، وہاں وزیرخارجہ کے برابر بھارتی وزیرخارجہ نے کھڑے ہوکر پریس کانفرنس کی۔ وہاں کولن پاول کامل اطمینان و مسرت سے اعلان کر رہے تھے: ’’بھارت ہمارا فطری حلیف ہے‘‘۔ ظاہر ہے اسٹرٹیجی اور پالیسی تو تبدیل ہوتی رہتی ہے لیکن فطرت کبھی تبدیل نہیں ہوسکتی۔

نائن الیون سے پہلے اور بعد کے حالات اسی حقیقت کا عملی مظہر و ثبوت ہیں۔ ہم نے امریکی احکامات کی بجاآوری اس انداز سے کی ہے کہ اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ دنیا کا کوئی عام شہری بھی پاکستان کو مقبوضہ افغانستان اور عراق سے زیادہ حیثیت نہیں دیتا، لیکن اس ساری خدمت گزاری کا اصل اجر وثواب بھارت کی گود میں ڈالا جا رہا ہے۔ ہرچند ماہ، بلکہ بعض اوقات چند ہفتوں کے وقفے سے امریکا یا اس کی لے پالک صہیونی ریاست کی طرف سے کوئی نہ کوئی بڑی فوجی یا اقتصادی امداد بھارت کے چرنوں میں لا ڈالی جاتی ہے۔

نومبر کے آغاز میں ایک ارب ۱۰ کروڑ ڈالر مالیت کا جدید ترین اسرائیلی دفاعی نظام بھارت کو پیش کیا گیا۔ اسی طرح کا ایک سودا تقریباً ایک ماہ قبل، گذشتہ اکتوبر میں سامنے آیا تھا۔ ایک طرف پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف بھارت، اسرائیل اور امریکا ہمیشہ سرجھاڑ، منہ پھاڑ پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں، لیکن دوسری طرف ’پُرامن مقاصد‘ کی دُم لگا کر بھارت کے ایٹمی پروگرام کو بلاروک ٹوک آگے بڑھایا جارہا ہے۔ بھارت کے علاقوں آندھرا پردیش اور گجرات میں خود امریکی جوہری کمپنیوں کی جانب سے ایٹمی تنصیبات تعمیر کرنے کے معاہدوں پر عمل درآمد کیا جارہا ہے۔ بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ ان دنوں دورئہ واشنگٹن پر ہیں۔ اس دورے میں امریکا اور بھارت کے درمیان ۱۸ ارب ڈالر کے جنگی جہازوں اور دیگر عسکری سازوسامان کے سودوں پر دستخط متوقع ہیں۔ ہرسال ایک لاکھ بھارتی طلبہ کو امریکا میں اعلیٰ تعلیم کے لیے داخلے دیے جارہے ہیں۔ ہرسال دنیا بھر میں امریکی سفارت خانے، ملازمتوں کے لیے جتنے ویزے جاری کرتے ہیں، ایک اندازے کے مطابق ان میں سے ۵۰فی صد صرف بھارتیوں کو دیے جاتے ہیں۔امریکا اور بھارت کے درمیان باہمی تجارت گذشتہ چارسال میں دگنی ہوکر ۴۳ ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ چکی ہے۔ امریکا میں مقیم بھارتی نژاد امریکیوں کی تعداد تقریباً ۳۰ لاکھ ہوچکی ہے۔ ان بھارتی نژاد امریکیوں کی ایک سب سے اہم سرگرمی، بھارت امریکا اور اسرائیل کے تعلقات کو مضبوط سے مضبوط تر کرنا ہے۔ اس پورے کام کو بھارتی حکومت کی مکمل سرپرستی حاصل رہتی ہے۔

امریکا، اسرائیل اور بھارت پر مشتمل برائی کا محور (Axis of Evil)  ایک عالم کو اپنی لپیٹ میں لینے کے لیے بے تاب ہے۔ اس موضوع پر لاتعداد مقالے، تحقیقی رپورٹیں اور کتابیں روشنی ڈالتی ہیں۔ ۸مئی ۲۰۰۳ء کو امریکی یہودی کمیٹی (American Jewish Committee -AJC) کے ۹۸ویں سالانہ عشائیے میں بھارتی قومی سلامتی کے مشیر برجیش مشرا کا خصوصی خطاب بھی اس سلسلے کی اہم کڑی ہے۔ اپنے اس کلیدی خطاب میں جناب مشرا نے انھی تین ممالک پر مشتمل تکون کو مضبوط کرنے پر زور دیا تھا۔ یہ تکون بنانے کے اسباب و اہداف واضح کرتے ہوئے انھوں نے اس  ’نظریۂ تثلیث‘ کو ایک تو انتہا پسند اسلام کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری قرار دیا تھا، اور دوسرے  سبز اور سرخ (عالم اسلام اور چین) کے ممکنہ اتحاد کا مقابلہ کرنے کے لیے۔ مشرا نے اپنی تقریر میں  یہ خوش خبری دی تھی کہ اس تکون کی تشکیل عملاً وجود میں آچکی ہے۔

مشرا نے کہا: ’’ہم تینوں کا عسکری تعاون پہلے ہی سے جاری ہے۔ امریکا اور بھارت دونوں کی افواج اسرائیل میں تربیت حاصل کررہی ہیں۔ یہ افواج دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں، شہروں میں گوریلا کارروائیوں کی ٹریننگ اور دیگر مہارتیں حاصل کررہی ہیں.... جاسوسی معلومات کے تبادلے میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ اسرائیلی جاسوسی ادارے بھارت کو ایسی جاسوسی اطلاعات فراہم کرنے میں خصوصی طور پر فعال ہیں، جن سے پاکستان پر نگاہ رکھنے میں مدد ملتی ہے‘‘۔

موصوف نے اپنی تقریر میں تینوں ملکوں کو ایک دوسرے کی ضروریات پوری کرنے کا درس  دیتے ہوئے کہا: ’’خصوصی طور پر یہ کہ ہم تینوں ملک ایک دوسرے کو وہ کچھ پیش کرسکتے ہیں جو دوسرے کے پاس نہیں ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کے میدان میں دیکھیں تو ہم تینوں میں سے ہرملک دوسرے دو کے بدترین دشمنوں سے اچھے تعلقات رکھتا ہے۔ بھارت کے سب سے بڑے دشمن پاکستان کے ساتھ ’فی الحال‘ امریکا کے اچھے تعلقات ہیں۔ ایران، اسرائیل اور امریکا کا دشمن ہے، لیکن بھارت کے اس سے اچھے تعلقات ہیں۔ چین، امریکا کا بہت بڑا حریف ہے ،بھارت کے لیے بھی وہ بڑا خطرہ ہے لیکن اسرائیل کے ساتھ اس کے بہتر تعلقات ہیں‘‘۔ ان الفاظ میں چھپا اصل پیغام یقینا وہاں بیٹھے تمام حاضرین کو بخوبی سمجھ میں آگیا ہوگا کہ ہم میں سے جو ملک ہمارے کسی دشمن ملک کے ساتھ دوستی رکھتا ہے، وہ وہاں باقی دونوں کے مقاصد کی تکمیل کرے۔

یکم نومبر ۲۰۰۸ء کو شکاگو میں دیے گئے ایک اور لیکچر کا عنوان ہی ’بھارت، اسرائیل، امریکا اتحاد: انسانیت کی آخری عظیم اُمید‘ تھا۔ اس لیکچر میں ڈاکٹر رچرڈ بنکن (Richard Benkin) نے جو کچھ کہا ہوگا وہ اس کے عنوان سے ظاہر ہے۔ اس نظریاتی اور جذباتی وابستگی کی بنیاد پر تینوں ملکوں کے تعلقات کو مستحکم اور ہمہ پہلو بنانے کے لیے کئی امریکی اور یہودی ادارے مصروف کار ہیں۔ تین اہم امریکی تھنک ٹینک اس سلسلے میں اپنی سالانہ کانفرنسیں باقاعدہ منعقد کررہے ہیں، تاکہ تینوں ملکوں کے درمیان گہرے تعلقات کا سفر جاری رہے۔اس تعاون کا ایک عملی نتیجہ ۲۰۰۰ء کے وسط میں، اسرائیل کا کلنٹن انتظامیہ کو اس بات پر آمادہ کر لینا تھا کہ وہ اپنا جدید ترین فضائی اور جاسوسی نظام ’اواکس‘ (AWACS) بھارت کو فروخت کردے، حالانکہ امریکی انتظامیہ خطے میں طاقت کا توازن بگڑ جانے کے خدشے سے یہ نظام بھارت کو دینے میں متردد تھی۔ ۲۱ جنوری ۲۰۰۸ء کو بھارتی سرزمین سے، بھارتی راکٹوں کے ذریعے فضا میں چھوڑا جانے والا اسرائیلی جاسوسی  خلائی سیارہ اس عالمی تکون کا ایک اور خطرناک اقدام تھا۔ اس جاسوسی سیارے کے ذریعے ہر طرح کے موسم میں ایک مربع میٹر کے علاقے تک کی انتہائی واضح تصاویر بنا لینا آسان ہوگیا ہے۔

امریکی عسکری رسالے ڈیفنس نیوز کے مطابق اسرائیل امریکا کے تعاون سے ۲۰۱۰ء کے وسط میں Horizon-8 نام کا ایک نیا جاسوسی سیارہ فضا میں چھوڑنے جا رہا ہے۔ اس کے بعد Horizon-9کے نام سے ایک مزید سیارہ بھی چھوڑا جانا ہے لیکن اس کے لیے کسی ایسے دوسرے ملک کی تلاش ہے جو اس کے اخراجات اور ٹکنالوجی میں معاونت دے سکے۔ امریکی رسالے کے مطابق اسرائیل اور بھارت ۲۰۱۱ء کے آخر تک Tec SAR-2 نامی ایک اور مشترکہ خلائی سیارہ بھی فضا میں چھوڑیں گے۔

تینوں ملکوں کے تعلقات میں سے بھی بھارت اسرائیل تعلقات خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ فلسطینی اسٹرے ٹیجک رپورٹ ۲۰۰۷ء نے ان دونوں ملکوں کے تعلقات کا مفصل جائزہ لیا ہے۔ کئی صفحات پر پھیلی یہ رپورٹ واضح کرتی ہے کہ:

بھارت نے صہیونی ریاست کو اس کے اعلان تشکیل کے فوراً بعد ہی ایک حقیقت واقعہ (de-facto) کی حیثیت سے تسلیم کرلیا تھا۔ چند ماہ بعد ہی اسے ممبئی میں اپنا تجارتی دفتر کھولنے کی اجازت دے دی گئی۔ جون ۱۹۵۳ء میں یہ دفتر باقاعدہ اسرائیلی قونصلیٹ کا درجہ اختیار کرگیا، اگرچہ بھارت کا علانیہ موقف یہی رہا کہ اسرائیل کو قانونی طور پر تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ اندراگاندھی نے اپنے دور اقتدار میں اسرائیل کے ساتھ خفیہ عسکری تعلقات کا آغاز کردیا، لیکن دونوں ملکوں کے درمیان باقاعدہ اور علانیہ سفارتی تعلقات ۱۹۹۲ء میں اس وقت قائم ہوئے، جب نرسیما راؤ نے کانگریس پارٹی کی قیادت سنبھالی۔ اسرائیلی سفارت خانہ جلد ہی بھارت میں موجود سفارت خانوں میں فعال ترین سفارت خانے کی حیثیت اختیار کرگیا۔ دونوں ملکوں کے درمیان ہمہ جہت تعلقات کی ایک جھلک فروری ۲۰۰۷ء میں دلی میں منعقد ہونے والی ہندو یہودی مشترکہ کانفرنس میں دیکھی جاسکتی ہے، جس میں دونوں طرف سے چوٹی کی مذہبی قیادت شریک ہوئی۔ اگرچہ اس کانفرنس کا  انعقاد ایک مجہول تنظیم ’عالمی کونسل براے مذہبی قیادت‘ کی طرف سے کیا گیا تھا لیکن اس کا اعلامیہ اسرائیلی وزارتِ خارجہ کی طرف سے جاری کیا گیا۔ دیگر امور کے علاوہ اس کانفرنس میں ایک  ’ہندو یہودی دائمی کمیٹی‘ کے قیام کا اعلان کیا گیا۔

تعاون کا ایک اور اہم پہلو باہم اقتصادی تعاون ہے۔ ۱۹۹۲ء میں باقاعدہ اور علانیہ تعلقات کے قیام کے وقت دونوں ملکوں کے درمیان ۲۰ کروڑ ڈالر کی سالانہ تجارت ہوتی تھی۔  ۲۰۰۵ء-۲۰۰۶ء میں یہ تجارت ۲ ارب ۲۰ کروڑ تک جاپہنچی۔ یہ اعداد و شمار بھی بھارت کے    اعلان کردہ ان اعداد و شمار کے مطابق ہیں جن کے بارے میں عمومی خیال ہے کہ ان میں دونوں ملکوں کے درمیان عسکری تعاون کی اصل رقوم چھپائی جاتی ہیں۔ عسکری تعاون کا جائزہ لیں تو وہ دونوں کے باہمی تعلقات کا سب سے اہم حصہ ہے۔ کشمیر کی تحریک آزادی اور ۱۹۹۹ء میں کارگل کے واقعات کو اس میں مزید اضافے کے لیے خوب خوب استعمال کیا جارہا ہے۔ اسرائیلی فوج کا ڈپٹی چیف جنرل موشیہ کا بلینسکی خود جون ۲۰۰۷ء میں کشمیر کا دورہ کرچکا ہے، تاکہ کشمیر کی جدوجہد آزادی ختم کرنے کے لیے ماہرانہ رہنمائی دے سکے۔ اب بھارت، اسرائیل سے اسلحہ خریدنے والا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔ ٹائمز آف انڈیا کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل، بھارت کو گذشتہ کئی برس سے سالانہ تقریباً ایک ارب ڈالر کا اسلحہ دے رہا تھا۔ ۲۰۰۶ء میں یہ مقدار ڈیڑھ ارب ڈالر تک جا پہنچی جو بھارت میں درآمد کیے جانے والے کل ہتھیاروں کا ایک تہائی ہے۔ اب معاملہ صرف اسرائیلی ہتھیار خریدنے پر ہی موقوف نہیں، دونوں ملک مل کر بھی بہت سا جدید اسلحہ تیار کررہے ہیں۔ وزیراعظم من موہن سنگھ کی سربراہی میں ایک مشترک کمیٹی نے درمیانے درجے کے نئے میزائل تیار کرنے کے ایک منصوبے کی منظوری دی ہے، جس کی مالیت اڑھائی ارب ڈالر ہے۔ یہ میزائل روسی ساخت کے پچوڑا (Pechora ) میزائل کی جگہ لے گا۔

The Hindu کے شمارے (یکم ستمبر ۲۰۰۷ء)کے مطابق دونوں ملک مزید ۱۸ مشترکہ عسکری منصوبوں پر کام کررہے ہیں۔ (ان خبروں کے پس منظر میں ۲۳ نومبر ۲۰۰۹ء کو بھارت کے اگنی۲ میزائل جس کی مار ۲ہزار کلومیٹر تک ہے اور جو ایک ٹن ایٹمی مواد اٹھا سکتا ہے، کا تجربہ، ساتھ ہی ۳ہزار اور ۵ہزار کلومیٹر دُور مار کرنے والے میزائلوں پر کام جاری ہونے کی اطلاعات، بہت سے سوالیہ نشان پیدا کرتی ہیں۔ سب سے اہم تو یہ کہ آخر بھارت کو اتنی دُور تک تباہی پھیلا سکنے والے میزائلوں اور ان پر اربوں ڈالر بھسم کرڈالنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اگر پاکستان سے خطرات  لاحق ہیں تو اس کے لیے تو چند سو کلومیٹر تک جاسکنے والے میزائل ہی کافی تھے؟ تو پھر کیا یہ میزائل اسرائیلی مفادات کی آبیاری کے لیے تیار کیے جارہے ہیں؟ اور کیا یہ بھی انھی ۱۸ مشترکہ عسکری منصوبوں کا حصہ ہیں؟ پھر یہ کہ یہ تجربہ اور اعلانات من موہن کی امریکی موجودگی کے عین دوران کیوں کیے گئے؟ کیا ان کا مقصد ایران اور پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک کو دی جانے والی امریکی اسرائیلی دھمکیوں کو، عملاً نافذ کرنے کی تیاریوں کی اطلاع دینا ہے؟)

بھارت اور اسرائیل کے بدنام زمانہ جاسوسی اداروں ’را‘ اور ’موساد‘ کے مابین جاسوسی تعاون،  سابق الذکر تعاون کے تمام منصوبوں پر مستزاد ہے۔ اسٹرے ٹیجک رپورٹ کے مطابق اس کی ایک جھلک Radiff.com کی ویب سائٹ پر موجود مضمون: Raw & Mosad: The Secret Link میں دیکھی جاسکتی ہے۔

کچھ لوگوں کے لیے یہ حقائق اور معلومات یقینا غیر متوقع نہیں ہوں گے، لیکن سوال یہ ہے کہ اس سب تعاون کے جواب میں پاکستان، جو اس ساری تیاری اور تعاون کا اولیں ہدف ہے، کیا کررہا ہے؟ امریکا، بھارت اور اسرائیل کے اہداف بھی واضح ہیں اور ان کی پالیسیاں اور اقدامات بھی۔ لیکن اس سب کچھ کے مقابل ذرا ہم اپنی طرف سے مسلسل الاپے جانے والے راگ سنیں: ’’امریکا ہمارا قابلِ اعتماد دوست ہے، ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ میں ہم اس کے حلیفِ اول ہیں۔ امریکی جنگ، ہماری اپنی جنگ ہے۔ ہم بھارت سے دوستی چاہتے ہیں۔ آخر کب تک کشمیر پر لڑتے رہیں، اقوامِ متحدہ کی قراردادیں ہی نہیں درجنوں مزید آپشن موجود ہیں۔ خفیہ سفارت کاری سے مسئلہ حل کریں گے۔ مسئلہ فلسطین پر خود عرب اپنا ایمان بیچ رہے ہیں تو ہم کیوںنہ اسرائیل سے دوستی کرلیں۔ بھارت کا راستہ روکنا اور امریکا کا دل جیتنا ہے تو ہم خود اسرائیل کو تسلیم کرلیں‘‘۔

یہ اور اس طرح کی مزید بہت سی خودفریبیاں دشمن کا کام یقینا آسان کردیں گی اور پھر کسی فریب خوردہ ملک و قوم کے لیے نجات کی کوئی راہ باقی نہ رہے گی۔ آج بھی وقت ہے سنبھلنے کا۔ پروردگار اہل باطل کو دُور تک اور دیر تک ڈھیل، اور اہل ایمان کو آخری لمحے تک مہلت عمل دیتا ہے۔

  • سنبھلنے کی کوششوں میں سب سے پہلا قدم اپنی حفاظت اور دفاع کا پختہ عزم و ارادہ اور یقین پیدا کرنا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اسے اخلاصِ نیت اور اللہ کی نصرت پر یقین بھی کہہ سکتے ہیں۔
  •  دوسرے قدم پر مرض یعنی اصل دشمن کو پہچاننا ہوگا۔ دشمن یا دشمنوں کے گروہ کو درست طور پر پہچاننے میں تمام زمینی حقائق، تاریخی مراحل، علمی و عملی معلومات اور مخالف کی سرشت کو سمجھنا، سب شامل ہے۔ اس ضمن میں قرآن کریم کی یہ آیت بھی رہنمائی کرتی ہے:

وہ تمھاری خرابی کے کسی موقع سے فائدہ اٹھانے میں نہیں چوکتے۔ تمھیں جس چیز سے نقصان پہنچے وہی اُن کو محبوب ہے۔ ان کے دل کا بُغض ان کے منہ سے نکلا پڑتا ہے اور جو کچھ وہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں وہ اس سے بھی شدید ترہے۔ ہم نے تمھیں صاف صاف ہدایات دے دی ہیں، اگر تم عقل رکھتے ہو (تو ان سے تعلق رکھنے میں احتیاط برتو گے)۔ تم ان سے محبت رکھتے ہو مگر وہ تم سے محبت نہیں رکھتے حالانکہ تم تمام کتب ِ آسمانی کو مانتے ہو۔ جب وہ تم سے ملتے ہیں تو (وہ تم سے اظہارِ محبت و قربت کرنے کے لیے) کہتے ہیں کہ ہم نے بھی (تمھارے رسول اور تمھاری کتاب کو) مان لیا ہے، مگر جب جدا ہوتے ہیں تو تمھارے خلاف ان کے غیظ و غضب کا یہ حال ہوتا ہے کہ اپنی اُنگلیاں چبانے لگتے ہیں۔ ان سے کہہ دو کہ اپنے غصہ میں آپ جل مرو، اللہ دلوں کے چھپے ہوئے راز تک جانتا ہے۔(اٰل عمرٰن ۳:۱۱۸-۱۱۹)

  • ہم سب اس ایمان کی تجدید کریں کہ امریکا نہیں سب سے بڑی قوت رب ذو الجلال کی قوت ہے۔ امریکا تو خود افغانستان و عراق کی دلدل میں ڈوب رہا ہے۔ ٹھیک ہے وہ اب بھی وہاں فساد پھیلا رہا ہے، لیکن کوئی وقت جاتا ہے کہ وہ دونوں ممالک سے بھاگنے کے لیے تنکوں کا سہارا تلاش کررہا ہوگا۔ مثلث خبیثۃ کے باقی دونوں ارکان اپنے اپنے مفادات کی خاطر اسے وہاں روکنے کی کوششیں کریں گے، لیکن اس قانون فطرت کو کوئی نہیں رد کرسکتا کہ جس نے بھی دعواے خدائی  کیا عبرت کا نشان بن گیا۔ امریکا کے اندورنی بحران اس سنت الٰہی کے نافذ ہوجانے ہی کی ایک دلیل ہیں، صرف ۲۰۰۹ء میں اب تک امریکا کے ۱۱۵بنک قلاش اور دیوالیہ ہونے کا اعلان کرچکے ہیں۔ خود اس کے تجزیاتی ادارے ۲۰۲۵ء میں ولایت ہاے متحدہ امریکا کے ناپید ہوجانے کی  پیشین گوئیاں کر رہے ہیں۔ دوسری طرف اسرائیل میں بھی بہت سے ایسے گروہ میدان میں ہے کہ جو اس صہیونی ریاست کو تورات کی تعلیمات سے صریحاً متصادم قرار دے رہے ہیں۔
  •  دشمنوں کے گروہ کے مقابل پاکستان کو اہم دوست ممالک کا اعتماد بحال کرتے ہوئے، ایک متبادل بلاک مضبوط کرنے کی سعی کرنا ہوگی۔ ان ملکوں کے ساتھ تعلق، صرف کشکول پھیلانے کا تعلق نہ ہو، بلکہ تعاون کی اصل روح، ایک دوسرے کے مشترک مفادات کا تحفظ ہو۔ ان ممالک میں ہونے والی بیرونی سازشوں کو ناکام بنانا بھی اسی دوطرفہ تعاون کا حصہ ہو۔ حال ہی میں یمن سعودی عرب سرحدوں پر بعض یمنی قبائل کے ذریعے بغاوت پھیلانا اور پھر جنگ کا دائرہ سعودی عرب تک پھیلادینا، سرزمین حرمین شریفین میں بھی آگ کے شعلے بلند کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ چند قبائل کا دو ملکوں کی باقاعدہ افواج کے سامنے کئی ماہ تک ڈٹا رہنا کسی بیرونی امداد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ پاکستان اور ترکی آگے بڑھ کر یہ آگ بجھانے کی کوشش کریں، تو یہ سابق الذکر متبادل عالمی بلاک کی مضبوط بنیاد ثابت ہوسکتی ہے۔
  •   امریکی، صہیونی اور ہندو گٹھ جوڑ کا سب سے اہم اور خطرناک پہلو آیندہ نسلوں کو ہم سے چھین لینے کی سعی کرنا ہے۔ اپنی نسلوں کو خوف و دہشت کے گہرے سایوں کی نذر کردینے کے بجاے، ان کے دلوں میں عزم و ہمت اور جرأت و شجاعت راسخ کرنے اور ملّی مفادات سے ہم آہنگ تعلیمی نصاب رائج کرنے پر خصوصی توجہ دینا ہوگی۔ لفظ جہاد ہی کو نعوذ باللہ نفرت و حقارت کا شکار کردینے کے بجاے جہاد، قربانی اور شہادت کا حقیقی اور درست مفہوم واضح کرنا ہوگا۔ سچی اسلامی تعلیمات کا پابند اور حقیقی اور اصل دشمن کے خلاف جہاد، ایمان کا جزو لازم اور قوموں کی زندگی میں بنیادی ستون کی حیثیت رکھتا ہے۔

سب سے اہم یہ کہ ہم سب کو اپنے اللہ کی پناہ حاصل کرنا ہوگی۔ دن رات دہرائے جانے والے اپنے وعدے اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کا عملی ثبوت دینا ہوگا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش پا پر چلتے ہوئے، ہر دم اس خبیر و قدیر ذات کے سامنے ہاتھ پھیلانا ہوں گے اَللّٰھُمَّ  اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُورِھِمْ وَنَعُوذُ بِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ، اے ہمارے پروردگار ہم اپنے دشمنوں کی گردنیں تیرے ہاتھ دیتے ہیں اور ہم ان کے ہر شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔