اپریل ۲۰۰۹

فہرست مضامین

ڈاکٹر حسن ہویدی مرحوم

عبد الغفار عزیز | اپریل ۲۰۰۹ | یاد رفتگان

Responsive image Responsive image

فلسطین کے حوالے سے ایک عالمی کانفرنس میں تقریباً تمام اسلامی تحریکوں کے ذمہ داران اور قائدین بھی شریک تھے۔مختلف امور پر تفصیل سے گفتگو کے لیے محترم قاضی حسین احمد کے کمرے میں الگ سے نشست رکھی گئی۔ دیر تک تبادلۂ خیال رہا۔ اچانک اخوان المسلمون کے مرکزی نائب مرشد عام ڈاکٹر حسن ہویدی حماس کے سربراہ خالد مشعل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگے: ’’میں کافی دیر سے دیکھ رہا ہوں کہ ہماری ساری گفتگو کے دوران جب بھی موقع ملتا ہے، ابوالولید (خالدمشعل کی کنیت) کوئی تسبیح یا ذکر کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم سب کو کوشش کرنا چاہیے کہ ہم بھی اپنی زبانوں کو زیادہ سے زیادہ ذکر وتسبیح سے معطر رکھیں‘‘۔ للہیت، اُمت کے درد اور اقامت دین کے جذبے سے سرشار ___ یہ تھے اخوان المسلمون کے مرکزی نائب مرشدعام ڈاکٹر حسن ہویدی جن کا قضاے الٰہی سے ۱۲مارچ ۲۰۰۹ء کو انتقال ہوگیا۔ اناللّٰہ وانا الیہ رٰجعون!

حسن ہویدی ۱۹۲۵ء کو شام میں پیدا ہوئے، دمشق ہی سے ایم بی بی ایس کیا۔  زمانۂ طالب علمی ہی میں اخوان سے وابستگی ہوگئی۔ اخوان کے قائدین خاص طور پر مصطفی سباعی سے اکتساب فیض کیا اور پھر طب کے پیشے کو خیرباد کہہ کر تحریک ہی کے لیے وقف ہوگئے۔ ۱۹۶۷ء اور ۱۹۷۳ء میں گرفتار ہوئے اور تعذیب و مشقت سے دوچار کیے گئے۔ آخرکار ملک بدری پر   مجبور ہوئے، آخری سانس تک وطن واپس نہ لوٹ سکے اور ۱۲ مارچ بروز جمعرات شام کے پڑوس میں واقع مملکت اُردن میں رب کے پاس پہنچ گئے۔ رب ذوالجلال ان کی قبر نور سے بھر دے ۔ ان کی حسنات کو صدقۂ جاریہ بناتے ہوئے اور اصلاح و انقلاب کے لیے ان کی مساعی کو کامیابی کی منزل تک پہنچاتے ہوئے ان کی روح کو آسودہ فرمائے۔ آمین!

ڈاکٹر حسن ہویدی للہیت کا پرتو تھے۔ مرحوم کی وصیت میں بھی اس کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ اس کا کچھ حصہ پیشِ خدمت ہے۔ واضح رہے کہ یہ وصیت انھوں نے اپنی وفات سے ۴ برس قبل  تیار کر چھوڑی تھی، گویا تب ہی سے اپنے رب سے ملاقات کا انتظار تھا… تیاری مکمل تھی:

میری وصیت ہے کہ میری وفات کے وقت (ممکنہ حد تک) صرف وہی افراد میرے پاس ہوں جو آپ کے نزدیک نیک لوگوں میں شمار ہوتے ہوں۔ وہ مجھے اپنے رب کے بارے میں اچھا گمان رکھنے کی تلقین کریں، مجھے اس کی رحمت و مغفرت سے اچھی اُمیدیں رکھنے کی تلقین کریں، مجھے کلمہ طیبہ ادا کرنے کا کہیں تاکہ دنیا سے جاتے ہوئے میرے آخری الفاظ یہی ہوں کہ: لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ!

جب روح پرواز کر جائے تو وہ میری آنکھیں بند کرتے ہوئے میرے لیے کلمۂ خیر کہیں، کیونکہ میت کے پاس جو کچھ بھی کہا جائے فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں۔

میں اپنے تمام احباب سے عفو و درگزر کی درخواست کرتا ہوں۔ میرے علم کی حد تک مجھ پر کسی کا کوئی قرض نہیں ہے۔ ہاں البتہ دفتر کے بعض امور میں تقدیم و تاخیر کے حوالے سے کوئی چیز ہو تو انھیں ریکارڈ اور کھاتوں کے مطابق دیکھ لیا جائے تاکہ میں کسی کا کوئی بوجھ لے کر نہ جائوں۔

میری یہ بھی وصیت ہے کہ میرا کفن میرے ہی پیسوں سے خریدا جائے اور مجھے غسل دینے والے نیکوکار لوگ ہوں۔ جس ملک میں میرا انتقال ہو، مجھے وہیں دفن کردیا جائے۔ میری آرزو تو یہی ہے کہ پروردگار! میری وفات کا وقت حبیب مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے جوار میں لائے۔ میری قبر پر کوئی عمارت نہ بنائی جائے اور نہ اسے پختہ ہی کیا جائے۔

میری اپنے تمام بیٹوں اور بیٹیوں کو وصیت ہے کہ وہ اپنی والدہ سے نیک برتائو رکھیں، سب مل کر ہمیشہ نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے سے تعاون کریں، باہم جھگڑوں اور اختلافات سے  دُور رہیں، ہمیشہ صلۂ رحمی کریں اور اپنے سسرالیوں سے خیروبھلائی کا برتائو کریں اور مجھے بھی    اپنی دعائوں اور تلاوت سے محروم نہ رکھیں۔

                اللہ کی رحمتوں کا محتاج

                شعبان ۱۴۲۶ھ                               حسن ہویدی