ڈاکٹر فواد فخرالدین


ترجمہ: خلیل احمد حامدی

سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم جس روز دینِ حق کا پیغام لے کر دُنیا میں تشریف لائے ہیں، وہ روز دُنیا کے اندر نئی روشنی کے ظہور کا روز تھا۔ اسی نئی روشنی کی برکت تھی کہ اس نے انسان کو وہ عقیدہ اور تصوّردیا، جوسراسر مکارمِ اخلاق اور فضائل و محاسن کا مجموعہ تھا اور تسامح، رواداری اور رذائل سے اجتناب کی دعوت تھی۔ اس عطیے نے انسانیت کے وجود کو افراط و تفریط کے گرداب سے نکال کر اعتدال پر فائز کیا۔ عورت کو جو انسانی معاشرے میں انتہائی پستی کے مقام پر گرچکی تھی، عزت و تکریم کے اعلیٰ مراتب سے ہم کنار کیا۔ جمہوری رویے کو رواج دے کر حقوقِ انسانی کی حدبندی کردی، جو اس سنہری اصول پر قائم تھی کہ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی سفیدفام کو کوئی امتیازی حیثیت حاصل نہیں ہے۔ اولادِ آدم باہم ہاتھ کی انگلیوں کی طرح ہیں۔

اسلام کے ظہور نے دُنیا میں ایک نئے تمدن اور ایک نئی تہذیب کو جنم دیا۔ دُنیا کا    فرسودہ نظام بدل کر رکھ دیا۔ دُنیا کے اندر بہ اندازِ نو نظم و نسق قائم کیا۔ دستورِ زندگی کی طرح ڈالی۔ انسانوں کے اندر ایک ایسی روح پھونک دی، جس نے فرد اور جماعت کے درمیان اُلفت و محبت، اخوت و تعاون کے جذبِ مقناطیسی کو نشوونما بخشی۔ شوریٰ فی الامر پر مملکت کی بنیادیں استوار کیں اور دین میں جبر، زور اور زبردستی کی کوئی گنجایش نہ رکھی۔ ’’تمھارے لیے تمھارا دین اور میرے لیے میرا دین‘‘ کہہ کر گویا اس بات کا اعلان کر دیا کہ اسلام کی اطاعت کا قلاوہ گلے میں ڈالنے کے لیے ہرانسان کو اختیار اور آزادی حاصل ہے۔ کسی شخص کو اس لیے نفرت کی نگاہ سے نہیں دیکھا کہ وہ کافر ہے،  البتہ اس کے کفر کو دُور کرنے کے لیے ہمدردانہ دعوت کے لیے تڑپ اور رہنمائی عطا کی۔ اسی طرح اہلِ کتاب کی طرف سے روا رکھے جانے والے ظلم و زیادتی کے باوجود ان کے ساتھ اَزدواجی تعلقات استوار کرنے کی بھی اجازت دے دی۔الغرض اس طرح کے دوسرے اصول اس امر کا ثبوت بہم پہنچاتے ہیں کہ اسلام روادارانہ نظریات کا حامل ہے اور ایک ایسے جہانِ نَو کی ایجاد اُس کے پیش نظر ہے، جو بُغض و عداوت کی آلودگیوں سے مبرا اور تعصب و تنگ نظری کے جذبات سے پاک ہو اور نوعِ انسانی کے لیے امن و سلامتی کا گہوارہ ثابت ہوسکے۔

اس مبارک گھڑی میں جس چیز کا بار بار جائزہ لینے کی ضرورت ہے، وہ آقاے نام دار صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ اور آپؐ کے محامد و فضائل ہیں۔ یہ معلوم کیا جائے کہ دعوتِ دین کو پھیلانے میں آپؐ نے کس طرح اَن تھک کوششیں کیں۔ گھربار کو خیرباد کہہ کر کس طرح سفروغربت کی صعوبتوں سے دوچار رہے۔ دشمن جنگ و جدال پر اُتر آئے تو اُن کے سامنے سینہ سپر ہوگئے۔   قوم کی طرف سے ایذائیں دی گئیں تو صبروشکیب کے ساتھ انھیں سہا۔ یہ تمام واقعات آپؐ کے فضائلِ حسنہ اور اعلیٰ کردار کی شہادت دیتے ہیں۔ خود ذاتِ خداوندی نے آپؐ کی تعریف میں فرمایا ہے:

(اے پیغمبرؐ) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم لوگوں کے لیے بڑے نرم مزاج واقع ہوئے ہو ورنہ اگر کہیں تم تندخواور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گردوپیش سے چھٹ جاتے۔(اٰل عمرٰن ۳:۱۵۹)

اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ  O (القلم ۶۸:۴) بے شک آپؐ انسانی اخلاق کے بلند مدارج پر فائز ہیں۔

اسلام دُنیا کے سامنے بے شمار مفید اور گراں قدر اصول لے کر آیا ہے۔ اس لیے انسانوں کا ایک گروہ تیار کر دیا جس کی اساس اعلیٰ انسانی اخلاقیات پر قائم تھی اور اس عقیدے پر قائم تھی جو کائنات کے فرماں روا نے اپنی بشری مخلوق کے لیے انفرادی و اجتماعی زندگی کا نظام بناکر بھیجا ہے، اور اس میں ہر اُس چیز کی وضاحت کر دی جس کی انسانوں کو اس جہانِ بے ثبات میں بھی ضرورت لاحق ہوسکتی ہے، نیز ان تمام اعمال کا نقشہ پیش کر دیا ہے جو آخرت کی زندگی میں سلامتی و نجات کے ضامن ہوسکتے ہیں۔

آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت، حدیث اور سیرتِ پاک کو قیامت تک دوام حاصل ہے۔ یہ سب ہمارے لیے منفعت بخش پہلو ہیں۔ آپؐ کا عمل اور آپؐ کا اُسوہ ہمارے لیے دُنیا بھر کی نعمتوں سے بڑی نعمت ہے، جو آپؐ کی ذاتی زندگی سے لے کر خاندانی اور قومی زندگی تک پھیلا ہوا ہے۔ آپؐ کا یہی اُسوہ ہماری عزت و سرخ روئی کے لیے اور دُنیا میں ہماری قوت کی بقا کے لیے بہت بڑا بیش قیمت خزانہ اور سرمایۂ وراثت ہے۔

آپؐ کے اُسوئہ حسنہ اور آپؐ کی تعلیم کا خلاصہ چند نکات میں عرض کرنے کی کوشش کرتا ہوں:

۱- دعوت کی تڑپ: دعوتِ خلق کو خلقِ خدا تک پہنچانے میں آپؐ نے کوشش کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ نہایت صبر اور بُردباری کے ساتھ اس پیغام کو پہنچایا۔ یہ جدوجہد کسی دُنیوی غرض اور ذاتی مفاد کی خاطر نہ تھی بلکہ خالص خدا کے لیے تھی۔ اس بات کی تشریح کرتے ہوئے آپؐ نے فرمایا تھا:

وَاللہِ لَوْ وَضَعُوْا الشَّمْسَ فِیْ یَمِیْنِیْ وَالْقَمَرَ فِیْ یَسَارِیْ عَلٰی اَنْ اَتْرُکَ ھٰذَا الْاَمْرَ مَا تَرَکْتُہٗ حَتّٰی یُظْھِرَہُ اللہُ اَوْ اُھْلَکَ دُوْنَہٗ ، بخدا! اگر یہ لوگ میرے داہنے ہاتھ پر سورج لا رکھیں اور بائیں ہاتھ پر چاند کو کہ مَیں اس کام سے باز آجائوں، تو مَیں کبھی نہیں باز آئوں گا۔ یہاں تک کہ اللہ اس دین کو غالب کردے یا میری جان جاتی رہے۔

دُنیاوی مال و متاع سے ہمیشہ آپؐ نے بے اعتنائی اختیار فرمائی۔ جب آپؐ کے سامنے سونے کے پہاڑ بھی پیش کیے گئے تو آپؐ نے لینے سے انکار کر دیا اور شرف و کرامت کی زندگی بسر کرنے کے لیے معمولی کفاف پر اکتفا کیا۔

۲- تواضع اور رواداری:  آپؐ کی پوری زندگی میں ہمیں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ملتا جس سے یہ ثابت ہوسکے کہ آپؐ نے کبھی اپنے آپؐ کو دوسروں سے برتر رکھنے کی کوشش کی ہو، بلکہ آپؐ کی مجلس غربا و مساکین اور معمولی حیثیت کے لوگوں کے ساتھ رہتی تھی ،اور جس طرح رؤسا اور سرداروں کے ساتھ آپؐ کا سلوک تھا اسی طرح نچلے درجے کے لوگوں کے ساتھ آپؐ کا مساویانہ طرزِعمل تھا۔ آپؐ کی روادارانہ تعلیم کی اس سے بڑھ کر کیا مثال ہو سکتی ہے کہ قریش جو ہمیشہ آپؐ کے جانی دشمن تھے، آپؐ کو ایذائیں دیتے رہے، آپؐ کے رفقا اور ساتھیوں کو آپؐ سےتوڑنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہے یہاں تک کہ ترکِ وطن پر اُنھوں نے آپؐ کو مجبور کر دیا۔    ان تمام سختیوں اور ایذا رسانیوں کے باوجود وہی قریش فتح مکہ کے دن جب گرفتار ہوکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں آتے ہیں، تو آپؐ کی زبانِ مبارک سے اُن کے حق میں یہ کلمات جاری ہوتے ہیں:

اِذْھَبُوْا فَاَنْتُمْ الطُّلَقَاءُ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمْ الْیَوْمَ یَغْفِرُاللہُ وَھُوَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ ، جائو تم آزاد ہو، آج تم پر کوئی گرفت نہیں ہے۔ اللہ تمھیں معاف کرے گا اور وہ سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔

۳- عام مساوات: آپؐ نے جس باہمی مساوات اور طبقاتی کش مکش کے استیصال کا درس دیا، اس کی عمل داری اس قدر ہمہ گیر تھی کہ آپؐ کا اپنا گھر اور اپنا خاندان بھی اُس میں شامل تھا۔ آپؐ کے قبیلے کے کسی فرد کو دوسروں پر کسی درجے کی کوئی فضیلت و برتری حاصل نہ تھی۔ اس سلسلے میں آپؐ کا وہ ارشاد مبارک بہت مشہور ہے جو آپؐ نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہؓ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا:

یَا آلَ مُحَــمَّدٍ لَا یَـاْتِیْنِیْ النَّاسُ بِاَعْمَالِھِمْ وَتَاْتُوْنَ بِـاَنْسَابِکُمْ اِعْمَلُوْا فَاِنِّیْ لَا اُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللہِ شَیْئًا ، اے محمدؐ کی آل! ایسا نہ ہو کہ لوگ میرے پاس نیک اعمال لے کر آئیں اور تم حسب نسب لے کر آئو۔ تم خود عمل کرو ، میں تمھیں اللہ کی گرفت سے ذرّہ بھر نہیں بچا سکتا۔

عام انسانی مساوات کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا:

اِجْعَلُوْا النَّاسَ فِی الْحَقِّ سَوَاءً  قَرِیْبُھُمْ کَبَعِیْدِھِمْ  وَبَعِیْدُھُم کَقَرِ یْـبِھِمْ ، (السنن الکبریٰ للبیہقی، کتاب الضحایا، باب ماجاء فی اجد القسام، حدیث: ۱۸۸۳۸) حقوق میں تمام انسانوں کو برابر رکھو اس طرح کہ اپنے بے گانوں کی طرح اور بے گانے اپنوںکی طرح ہوں۔

۴- اسلامی اور انسانی اخوت:یہ وہ تعلیم تھی جس نے قوم کی منتشر صفوں میں اتحادواُلفت کے رُوح پرور گلشن کھلادیے اور مدت سے بچھڑے ہوئوں کو گلے ملا دیا کہ اخوتِ اسلامی کی بنیاداللہ تعالیٰ کے اس حکم پر ہے:

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوا اللّٰہَ  (الحجرات ۴۹:۱۰) تمام مومن بھائی بھائی ہیں۔ پس تم اپنے بھائیوں کے درمیان صلح رکھو اور اللہ سے ڈرو تاکہ وہ تم پر رحم کرے۔

اسی نعمت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

وَ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآئً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًـا(اٰلِ عمرٰن ۳:۱۰۳) اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو جو اُس نے تم پر کیا ہے۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اُس نے تمھارے دل جوڑ دیے اور اُس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے۔

اسی آبگینے کی حفاظت کے اصول و قواعد بیان کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

وَلَا تَحَاسَدُوْا وَلَا تَنَاجَشُوْا وَلَا تَبَاغَضُوْا وَلَا تَدَابَرُوْا وَلَا یَبِعْ بَعْضُکُمْ عَلٰی بَیْعِ بَعْضٍ وَکُوْنُوْا عِبَادَ اللہِ اِخْوَانًا (مسلم، باب تحریم ظلم المسلم، حدیث:۴۷۵۶) آپس میں ایک دوسرے سے حسد نہ کرو اور نہ آپس میں کسی کو دوسرے کے خلاف بھڑکائو، اور نہ آپس میں بُغض رکھو اور نہ آپس میں کسی کی پیٹھ پیچھے بُرائی کرو اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی بیع پر بیع کرے اور تم اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن جائو۔

اَلْمُسْلِمُ اَخُو الْمُسْلِمِ لَا یَظْلِمُہٗ وَلَا یَخْذُ لُہٗ وَلَا یَحْقِرُہٗ اَلتَّقْوٰی ھٰھُنَا وَیُشِیْرُ اِلٰی صَدْرِہٖ  ثَلَاثَ مَرَّاتٍ بِحَسَبِ امْرِیٍٔ مِنَ الشَّرِّ  اَنْ یَحْقِرَ اَخَاہُ الْمُسْلِمَ، (شعب الایمان للبیہقی، حدیث: ۶۳۶۷)مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اُس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اُسے بے یارومددگار چھوڑتا ہے اور نہ اُسے حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔

کُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ حَرَامٌ  دَمُہُ وَمَا لُہٗ وَعِرْضُہٗ  (باب الشفقۃ والرحمۃ علی الخلق، حدیث ۴۷۴۷)ہرمسلمان کا دوسرے مسلمان پر خون، مال ، آبرو حرام ہے۔ آپؐ اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین بار فرماتے ہیں: تقویٰ یہاں ہے۔ انسان کے شر سے یہ بات کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے۔

عالم گیر انسانی برادری کے قیام کی دعوت دیتے ہوئے قرآن نے بیان کیا ہے:

یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَ بَثَّ مِنْھُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّ نِسَآئً  ج  وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَامَط (النساء ۴:۱) لوگو اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد و عورت دُنیا میں پھیلا دیے۔ اُس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔

۵- خودداری:آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تربیت کا ایک اہم پہلو یہ بھی تھا کہ آپؐ لوگوں کے اندر اعتماد علی النفس اور خودداری کی اعلیٰ صفات کو اُجاگر کرنا چاہتے تھے، تاکہ ایک طرف ہرہرفرد بذاتِ خود قوت کی چٹان بن جائے اور دوسری طرف پوری اُمت قوت و طاقت کا ایک ایسا ہمالہ بن جائے، جو حوادث کے ہجوم اور جنگوں کی شعلہ باری کے موقعے پر دوسروں کے سامنے تعاون اور امداد کی جھولی پھیلانے کے بجاے اپنی ذات پر اعتماد کرنے والی اور اپنی مدد آپ کرنے والی ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَ اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَعَدُوَّکُمْ (الانفال ۸:۶۰) جہاں تک تمھارا بس چلے زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے (دشمن کے) مقابلے کے لیے مہیا رکھو، تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو خوف زدہ کرو۔

یہ ہے مختصر اور سرسری خلاصہ جو پیغمبرؐ انسانیت کی تعلیم میں ہمیں ملتاہے اور پیغمبرؐ انسانیت کے یومِ ولادت پر اس کے اعادہ و تکرار کی ہمیں ضرورت ہے۔ یہ وہ اَنمٹ آثار ہیں جو اُمتوں اور قوموں کو زندگی کے میدانِ عمل میں فلاح و بہبود سے متمتع کرتے ہیں۔ اسلام نے اس زبانی تعلیم اور صحیح فکر کی طرف تمام دُنیا کو دعوت دی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ انسانیت کی بہتری اور سلامتی بھی اسی میں ہے کہ زمامِ حیات اسی صالح قائد کے ہاتھ میں دے دی جائے۔ تاریخ ہمارے سامنے ہے کہ جس قوم نے اپنی زندگی کی گاڑی اس فکروعقیدے کے خطوط پر چلائی ہے اور اسلام کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیا ہے وہ عزّت و شوکت اور تہذیب و تمدن کے بلندترین مدارج پر جاگزیں ہوئی ہے۔

ان تمام گزارشات کے بعد ہم ملت اسلامیہ کو خواہ وہ مسلم ممالک کی ہو یا غیرمسلم ممالک کی، دعوت دیتے ہیں کہ تعلیم نبویؐ کی روشنی میں وہ اپنے موجودہ نظامِ حیات اور طرزِعمل پر غوروفکر کرے۔ کیوں کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اُمت اپنے اعمال میں اور زندگی کے معاملات میں عملی ربط و اتصال سے دامن کش ہے اور مسلم قوم کے اندر عملی تعاون کی روح پھونکنے کے لیے اُن میں کوئی حرکت نہیں ہوتی، حالاںکہ مسلم معاشرہ، گروہ بندی اور جماعت پرستی کا شکار ہوچکا ہے اور ہرگروہ کا عقیدہ مختلف اور مسلک جداگانہ ہے۔ نہ افکارونظریات میں اتحاد پایا جاتا ہے اور نہ اصول و مبادی میں ہم آہنگی  نظر آتی ہے، اور سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ اپنی اس زبوں حالی کے باوجود مسلمان بڑے تساہل پسند ہوچکے ہیں۔ مستقبل بینی اور دُور اندیشی اُن کے پاس نہیں پھٹکتی اور اپنی مدد آپ کرنے کا اصول اُن کے نزدیک مضحکہ خیز بات ہے۔ عمل و کردار کے لحاظ سے اس قدر کھوکھلے ہیں کہ موجودہ خطرناک حالات (جن میں سب مسلم ممالک گھرے ہوئے ہیں) کی ایک ٹھوکر کی تاب نہیں رکھتے۔

یہاں پر ہم یہ گزارش کریں گے کہ موجودہ حالات میں مسلمانوں پر مشرق کے رہنے والے ہوں یا مغرب کے، یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ سرجوڑ کر بیٹھیں اور کام کا ایسا پروگرام بنائیں جو ملّت کے لیے مفید اور نتیجہ بخش ہو اور اس اسکیم کو بروے کار لانے کے لیے اجتماعی عمل کے لیے فضا ہموار کریں۔ اجتماعی تعاون پیدا کرنے کی صورت یہ نہیں ہے کہ چند دھواں دھار کانفرنسیں منعقد کر دی جائیں اور اُن میں فصیح و بلیغ لیکچر دیے جائیں اور گھڑی دو گھڑی جنّت کے باغوں کی سیر کرا دی جائے، بلکہ ورطۂ مذّلت سے نکلنے کے لیے ٹھوس طریقے عمل میں لائے جائیں۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے جس امر کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ تمام ممالک مل کر ایک اسلامی لشکر تیار کریں جو کسی بھی اسلامی ملک پر دشمن کی حملہ آوری کے وقت اس کا دندان شکن جواب دینے کے لیے ہروقت تیار رہے۔ اور دوسری ناگزیر چیز یہ ہے کہ ایک ایسا فنڈجاری کیا جائے جس کے ذریعے اسلامی علاقوں میں جہاں جہاں دینی تحریکیں ہیں اُن کی اشاعت اور پبلسٹی کی جائے۔

یہ امر مسلّمہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر مل جل کر پتّہ ماری کا کام کرنے کی عادت نہیں اور  نہ یہ تنظیم طلب اُمور کو سرانجام دینے کی زحمت گوارا کرتے ہیں۔ لیکن مذکورہ تجاویز پر عمل درآمد کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اوّلین فرصت میں اس پر سوچ بچار کیا جائے۔