ترجمہ: اویس احمد
امریکی ’صلیبی جنگ‘ دراصل کروڑوں لوگوں کو لوٹنے اور قتل کرنے کے لیے رچایا گیا ایک کھیل ہے۔ سوویت یونین کے انہدام سے امریکا نے قتل عام کا لائسنس اور لامحدود طاقت حاصل کرلی تاکہ وہ (افغانستان سے) نائن الیون کا بدلہ لے سکے اور (عراق میں)بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تلاش کر سکے، لیکن اس کا اصل مقصد ایک تو اسلام کو بدنام کرنا اور دوسرے مشرق وسطیٰ کے تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنا تھا۔
اس حوالے سے کئی تحقیقات ہو چکی ہیں، جیسے دلیپ ہیرو کیSecrets and Lies [راز اور جھوٹ ]، تھامس رک کی Fiasco [مضحکہ خیز ناکامی]، پیٹر گلبریتھ کی The End of Iraq [عراق کا خاتمہ]، فرینک رچ کیThe Greatest Story Ever Sold - The Decline and Fall of Truth [عظیم ترین کہانی جو کبھی بیچی گئی، سچائی کا زوال اور موت]، اور اس کے علاوہ بھی بہت سی ہیں، مگر ان سب میں اسلامی نقطۂ نظر سے ایک مشترک کمی ہے۔ منظور عالم کے اس علمی و تحقیقی تجزیے نے یہ کام بہتر طور پر کیا ہے۔
پہلے باب میں ڈاکٹر منظور نے اس پس منظر کا احاطہ کیا ہے جس نے امریکا کو اس ’صلیبی جنگ‘ کی طرف راغب کیا۔ کمیونزم کے خاتمے اور سوویت روس کے انہدام کے ساتھ ہی امریکی لبرل ازم (ص۱) کا بھی خاتمہ ہو گیا اور وہ ایک مطلق العنان استعماری ملک میں تبدیل ہو گیا۔ اس نے ایک آمرِ مطلق کا سارویہ اپنا لیا (ص۲)۔ اس کے نو قدامت پسند، خصوصاً نائب صدر ڈک چینی نے شیطان کا کردار ادا کیا اور ہمیشہ قتل، تباہی اور غلبے کی بات کی۔
یہ نوقدامت پسند بین الاقوامی قوانین اور ضوابط پر یقین نہیں رکھتے تھے، اس لیے حکومتوں کی تبدیلی کی بات کرتے تھے۔ تاہم، عراق جنگ اتنی بڑی ناکامی ہو گی وہ اس کا پیشگی اندازہ نہ کرسکے۔ ’حکومتوں کی تبدیلی‘ کی پالیسی نے حفظ ماتقدم کے طور پر حملے کے غیراخلاقی فلسفے کو جنم دیا جسے ’پیشگی حملے‘ کا متبادل ٹھیرا لیا گیا۔ مذہبی جنونیت کے فرضی خطرے نے انھیں یہ جنگ ایک کارخیر کے طور پر چھیڑنے پر اکسایا۔ ڈک چینی نے عراق پر حملے کا مشورہ ۱۱ ستمبر سے بھی پہلے دے دیا تھا، تاکہ تیل کے ذخائر پر غلبہ حاصل کیا جا سکے۔ یہودیوں اور مذہبی عیسائیوں نے اسے حضرت عیسیٰ ؑ کے دوبارہ ظہور کے حوالے سے بائبل کا حکم ٹھیرایا اور یوں یہ ان کے لیے ایک مذہبی فریضہ بن گیا (ص۱۱)۔ مسلمان ممالک میں جمہوریت کی کمی کو محسوس کرتے ہوئے امریکا نے اس کمی کو اپنے نام نہاد جمہوری برانڈسے پورا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اپنے نظریے کی توضیح کرتے ہوئے سابق صدر بش نے کہا: ’’مجھے خدا نے کہا ہے کہ میں القاعدہ (افغانستان) پر حملہ کروں تو میں نے کر دیا، پھر خدا نے مجھے کہا کہ اب صدام (عراق) پر حملہ کرو تو میں نے وہ بھی کر دیا‘‘ (ص۱۳)۔ فوری خطرہ یہ تھا کہ ’’صدام نے تعاون کرنا شروع کر دیا تھا‘‘ (ص۱۴)۔ مصنف نے اس باب میں اسلامی شدت پسندی میں اضافے پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
امریکا میں بہت سے لوگ یقین نہیں رکھتے کہ ٹوئن ٹاور جہازوں کے ٹکرانے سے گرے تھے۔ تاہم، امریکا بہر صورت افغانستان پر حملے (Operation Enduring Freedom) کے لیے تیار تھا تا کہ اسامہ بن لادن کو مارا اور طالبان حکومت کو گرایا جا سکے (ص۲۶)۔ افغانستان پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ امریکانے اسامہ اور باغیوں کی تلاش کا مشن جاری رکھا۔ کرزئی جسے طنزاً ’کابل کا عزت دار میئر‘ کہا جاتا ہے، ایک امریکی کٹھ پتلی تھا اور ہے۔ ۱۰سالہ روسی تسلط کے باعث بدترین معاشی بدحالی کا شکار افغانستان امریکا کی جانب سے ہلاکت خیز حملے کا شکار ہوا۔ ابتدا میں افغانوں نے طالبان کے انخلا کو اس امید کے ساتھ خوش آمدید کہا کہ اب امریکا ہوور ڈیم جیسے منصوبے یہاں بھی شروع کرے گا اور افغانستان کو ’چھوٹا امریکا‘قرار دے کر اس کی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے میں مدد دے گا۔
افغانستان میں امریکی مفادات کے مقابلے میں عراق کی جغرافیائی سیاست زیادہ پُرکشش تھی (ص۳۲)۔ افغانستان کی تعمیر ایک خواب ہی رہی(ص۳۳) ۔ جب افغان قوم نے دیکھا کہ اسے دھوکا دیا گیا ہے، تو وہ دوبارہ طالبان سے رجوع کرنے پر مجبور ہوگئی (ص۳۴)۔ امریکیوں کا متکبرانہ اور توہین آمیز برتائو افغانوں کے لیے ناقابل برداشت تھا(ص۳۶)۔ اس لیے انھوں نے اپنے تحفظ کے لیے دوبارہ طالبان کی طرف دیکھنا شروع کر دیا۔ باغی امریکی تسلط کے شکار اپنے ملک کی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں (ص۴۸) اور مزاحمت کی شدت ناقابل تصور ہے (ص۴۹)۔
اب چونکہ طالبان پہلے جیسے کٹر نہیں رہے، اس لیے ان پر افغانوں کا اعتماد بحال ہو رہا ہے۔ انگریز انھیں کثیر الفم کہتے ہیں کیوں کہ ہرکٹنے والا سر دو نئے سروں کا اضافہ کر دیتا ہے۔ امریکیوں سے حکمت عملی کی بھاری غلطی یہ ہوئی کہ انھوں نے اپنے مشن کا رخ افغانستان کی تعمیرنو سے ’اسامہ اور طالبان‘ کی جانب موڑ دیا۔ ’’ہلمند آپریشن مکمل طور پر ایک خودکشی کا مشن تھا‘‘۔ (ص۵۱)
نام نہاد عالمی امداد پران ممالک کو کنٹرول حاصل ہے جو اس کارخ اپنی طرف رکھتے ہیں۔ عیاش کنسلٹنٹ بڑی بڑی تنخواہیں وصول کرتے ہیں جو ۵ لاکھ ڈالر فی کنسلٹنٹ تک پہنچ جاتی ہیں (ص۵۵)۔افغان کبھی پوست کاشت کرنے والی قوم نہ تھی۔۔۔ بے حساب غربت اور محتاجی نے انھیں اس کی طرف راغب کیا (ص۵۸) جو ان کے لیے بے پناہ نفع بخش ثابت ہوئی، اور اب وہ اسے چھوڑ کر روایتی فصلوں کی طرف واپس نہیں آنا چاہتے۔ بعض اضلاع میں گانجے کی فصل بھی بہت نفع بخش کاروبار بن گئی ہے (ص۶۲)۔ افغانستان میں امریکی اور ناٹو ایڈونچر ایک بدترین ناکامی ثابت ہوا (ص۶۵)۔ اب ان ممالک کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ عزت اور وقار سے رخصت ہونا چاہتے ہیں یا زبردستی انخلاکے منتظر ہیں۔ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ افغان قوم نے کبھی ہتھیار نہیں ڈالے۔ اگر کسی کو شک ہو تو برطانیہ اور روس میں گواہی دینے والے موجود ہیں۔ (ص۶۶)
تیسرا باب عراق جنگ کے اسباب ڈھونڈتا ہے۔ حملے کا جواز یہ بتایا گیا تھا کہ عالمی تجارتی مرکز پر حملہ صدام حسین نے کرایا، اس لیے وہ بہت بڑا خطرہ ہے، اور یہ بھی کہ اس نے ایٹمی، حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کا ایک بڑا ذخیرہ جمع کر رکھا ہے۔۔۔ ایک فرضی کہانی جس کا حقیقت سے دُور کا بھی واسطہ نہ تھا (ص۶۷)۔ جواز گھڑے گئے؛ وجوہ تراشی گئیں تاکہ عالمی برادری کو دھوکا دیا جاسکے۔ اصل مقصد کوچھپا کر رکھا گیا۔ امریکی عوام کو بے وقوف بنایا گیا۔ اس کا محرک عربوں پر فوجی برتری قائم کرنے اور اسرائیلی مفادات کو تحفظ دینے کا جنون تھا۔ اصل ہدف تیل کے وسائل پر قبضہ تھا۔ چونکہ صدام حکومت اسرائیل کے لیے ایک خطرہ تھی اس لیے اس کا خاتمہ ضروری تھا۔ صدر بش کے لیے یہ مذہبی فریضے کی طرح تھا کہ وہ بائبل کے مطابق عیسٰی ؑ کے دوبارہ ظہور کی پیش گوئی پوری کرے۔ پال وولف وٹز، ڈگلس فیچ اور رچرڈ پرلی جیسے نوقدامت پسندوں نے وائٹ ہائوس کی پالیسی کا تعین کیا۔ دوسرے حصے داروں کا کردارصرف ’بھالے اٹھانے‘ (ص۷۰)والوںتک محدود کر دیا گیا۔ عراق پر حملے کی خواہش اور ضرورت نائن الیون سے پہلے، بلکہ بش انتظامیہ سے بھی پہلے اپنا وجود رکھتی تھی۔ (ص۷۱)
صدام حسین کا القاعدہ سے (فرضی) تعلق ثابت کرنے کے لیے ایک جعلی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ لیکن اس ڈر سے کہ یہ کمیٹی کہیںصدام حسین کو اس الزام سے بری قرار نہ دے دے اوربش منصوبہ خاک میں مل جائے، عراق پر حملہ کر دیا گیا۔ ڈک چینی صدام کو ہر ممکنہ طریقے سے ہٹانے کا عزم رکھتا تھا، جب کہ اس کو ملنے والی خفیہ رپورٹوں کا کہنا تھا کہ صدام حکومت کو کسی خفیہ کوشش سے نہیں گرایا جا سکتا۔ رچرڈ پرلی اور چند دوسرے لوگوں نے انٹیلی جینس کا جوڑ توڑ شروع کر دیا (ص۷۷)۔ جب انھیں یقین ہو گیا کہ ایٹمی ہتھیار تباہ کر دیے گئے ہیں تو وہ بہترین موقع تھا کہ عراق پر حملہ کر کے اسے مزید کمزور کر دیا جائے۔ اس کے بعد سینیٹ میں بھاری اکثریت سے قرارداد (۲۳:۷۳) منظور کرائی گئی جس میں شرم ناک جھوٹ بولے گئے۔۔ ۔وہاں نہ تو کوئی ہتھیار تھے اور نہ القاعدہ سے رابطے۔
برطانوی حکومت نے عراق پر جلد حملے کے امریکی کیس کو مزید مضبوط کیا۔ اس نے ایک دستاویز جاری کی (جس کے لیے اسے بعد میں معافی مانگنی پڑی) جس میں صدام حسین کی فوجی صلاحیت کو جھوٹ موٹ بڑھا کر پیش کیا گیا تھا۔ یہ دراصل جھوٹی اور من گھڑت اطلاعات پر مبنی تھی (ص۸۳)۔ حیاتیاتی جنگ کی تیاریوں کے حوالے سے سی آئی اے کی ایک من گھڑت، جھوٹی اور خیالی رپورٹ میں ٹرالرز کو جراثیم پیدا کرنے والی لیبارٹریاں’ثابت‘کیا گیا (سی آئی اے کو معلوم تھا کہ عراق ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام پر کام کر رہا ہے)۔ کچھ ڈھانچے اور ایلومینیم کی ٹیوبیں دکھائی گئیں کہ یہ کسی خفیہ مقصد کے لیے استعمال کی جاتی ہیں (حالانکہ اس کے اپنے ماہرین جانتے تھے کہ یہ جھوٹ اور دھوکادہی ہے)۔ نائجر سے یورینیم کی خریداری کا معاملہ بھی بہت بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا، حالانکہ اس ملک کے وزیر اعظم اور صدر دونوں نے اس دعوے کی سختی سے تردید کی تھی۔
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں عراق پر فوجی حملے کے لیے دوسری قرارداد کی کوششیں ناکام ہوگئیں۔ فرانس اور جرمنی نے فوجی حملے کے حوالے سے سخت تنبیہ کی، تاہم بش تو پہلے سے ہی خود کو اس میں جھونک چکا تھا۔ دراصل صدام حسین اس مسئلے کا پر امن حل ڈھونڈ نے کے لیے کئی نمایندے بھیج چکا تھا۔۔۔ یہاں تک کہ تیل کی قیمتوں میں رعایت تک دینے پر تیار تھا۔ حملے کی شدید مذمت کی گئی۔ رابن کُک برطانوی کابینہ سے مستعفی ہو گئے اور مسز کلیئر شارٹ نے بھی (Honourable Deception) کے نام پر ایسا ہی کیا (ص۹۹)۔ پیوٹن نے کہا: اس جنگ نے دہشت گردوں کے لیے جنت پیدا کر دی ہے۔ (ص۱۰۰)
دو کمیٹیوں نے صدام حکومت کے خاتمے پر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تلاش کی اور سابقہ انٹیلی جنس رپورٹوں کو مضحکہ خیز اور گمراہ کن قرار دیا (ص۱۰۳)۔ برطانیہ نے حملے میں شمولیت کے لیے دو شرائط رکھی تھیں، لیکن ڈک چینی اور رمز فیلڈ نے ان کی ذرہ برابر پروا نہ کی (ص۱۰۷)۔ عراقی فوج کی شکست سے مزاحمت ختم نہیں ہوئی، بلکہ اس نے ایک اورمنفرد قسم کی مزاحمت کو جنم دیا جس نے امریکی کمانڈ کو ہلا کر رکھ دیا۔ (ص۱۰۷)
باب چہارم میں مصنف’’گوانتا نامو بے، ابو غریب اور بگرام۔۔۔شرم ناک ترین اور انسانیت سوز قید خانوں‘‘ کی کہانی بیان کرتا ہے، جہاں ’’قیدیوں سے تفتیش کے لیے سزائوں کی انتہائی سفاکانہ ترکیبیں استعمال کی جاتی ہیں،اور جنیوا کنونشن کو یہ کہہ کر ایک طرف رکھ دیا جاتا ہے کہ یہاںپر یہ لاگو ہی نہیں ہوتا‘‘ (ص۱۰۹)۔ اس کے لیے جواز یہ گھڑا جاتا ہے کہ یہ جنگی قیدی نہیں بلکہ دشمن جنگ جو ہیں۔ قیدیوں میں کئی نابالغ بھی شامل تھے۔
اسلام ہدف تھا، اس لیے بش انتظامیہ نے ہر طرح سے کوشش کی کہ وہ قیدیوں کے مذہبی جذبات سے کھیلیں لیکن وہ کچھ حاصل نہ کرسکے۔ قیدیوں کی اسلام سے عقیدت دوسروں پر اثر ڈالنے والی تھی (ص ۱۱۴)۔ یہاں تک کہ خواتین تفتیشی افسروں کی جانب سے جنسی رغبت اور دوسرے حیا سوز حربے بھی ان کے ایمان کو ڈگمگانے میں ناکام رہے، ’’بلکہ ان کا الٹا اثر ہوا‘‘ (ص۱۱۴)۔ تفتیش کاروں کی معاونت کرنے میں ڈاکٹر اپنی پیشہ ورانہ اخلاقیات بھول بیٹھے تھے (ایسا ہی سلوک بنگلور کے ’NIMHANS‘ نامی ادارے کی ایک ڈاکٹر نے ’سیمی‘ (Students Islamic Movement of India) کے قیدیوں کے ساتھ کیا ہے)۔ قیدیوں کو کئی کئی بار بھوک ہڑتال کرنے پر مجبور کیا جاتا اور پھر ہڑتال کے دوران انھیں زبردستی کھانا کھلا دیا جاتا۔ بعد میں اس بات کا انکشاف ہوا کہ غلط شناخت کے اَن گنت واقعات بھی سامنے آئے ہیں (ص۱۱۸-۱۱۹)۔ القحطانی (قیدی نمبر ۰۶۷) کو غلطی سے عالمی تجارتی مرکز پر حملوں میں ملوث بیسواں گم شدہ پائلٹ قرار دیا جاتا رہا جو بہت عرصے سے مفرور تھا۔ یہ واقعہ امریکیوں کی بے وقوفی کی واضح دلیل ہے۔ (ص۱۲۰)
اسلام دشمنی کا بدترین واقعہ اس وقت پیش آیا جب قرآن پاک کی بے حرمتی کی گئی۔ اسے پائوں میں ڈالا گیا اور یہاں تک کہ ٹائلٹ میں بہایا گیا اور اس پر تحریریں لکھی گئیں۔ یہ دنیا کے لیے ایک جھٹکا تھا جس کی عالمی سطح پرمذمت کی گئی۔ دنیا بھر میں امریکا مخالف پُرتشدد مظاہرے ہوئے جن میں کئی افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ مظاہرین پر پولیس کے گولی چلانے سے چار افراد مارے گئے اور ۶۰ زخمی ہوئے۔
جہاں گوانتا نامو بے افغانستان سے دور ایک سرزمین پر قائم تھا، وہاں بگرام افغانستان کی اپنی سرزمین پر قائم غیر ملکی تعذیب خانہ تھا۔ اس کا شکار ہونے والوں کی اپنی کہانیاں ہیں۔۔۔ حبیب اللہ اور دلاور نامی دو معصوم قیدی (ص۱۳۹،۱۳۷) تھے۔ ہر لات پڑنے پر دلاور کی دل دہلا دینے والی’’اللہ‘‘کے نام کی چیخ تشدد کرنے والوں کے لیے مذاق بن گئی تھی۔ وہ اسے لاتیں مارتے تھے تاکہ وہ چیخے (ص۱۳۷)اور اس مذاق کے لیے دلاور کو ۲۴ گھنٹوں میں ۱۰۰ لاتیں کھانا پڑیں۔ دو باغی ہلاک کیے گئے اور ان کی لاشوں کو جلا دیاگیا (ص۱۴۰)۔ یہ سب جان بوجھ کر کیا گیا تا کہ مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا جا سکے۔ یہاں تک کہ حامد کرزئی جیسا کمزور اور مطیع فرمان صدر بھی لاشوں کے جلانے کے وحشیانہ اقدام پر چیخ اُٹھا۔ (ص۱۴۱)
۲۸؍ اپریل ۲۰۰۴ء کو سی بی ایس نیوز نے بغداد کی ابو غریب جیل میں امریکی فوجیوں کے قیدیوں سے انسانیت سوز سلوک کی شرم ناک تصاویر جاری کیں۔ ان تصاویر پر عالمی سطح پر شدید غم و غصہ پیدا ہوا۔ سابق نائب صدر ایل گور نے اسے ’’امریکی گولاگ‘‘ کا نام دیا (ص۱۴۲)۔ گوانتانامو اور بگرام کے تشدد کے حربے ابو غریب میں بھی استعمال کیے گئے۔ جنرل ملر کو ابو غریب بھیجا گیا تا کہ اسے بھی ’گوانتا نامو جیسا‘ بناسکے (ص۱۴۲)۔ امریکی فوج نے صدام کا تحتہ الٹ تو دیا لیکن اس کی بنائی گئی جیلوں میں اس کے ’فنِ تشدد‘ کو مات دے دی (ص۱۴۴)۔ تاگوبہ (Taguba) کی ۵۳صفحات پر مشتمل رپورٹ جسے ’خفیہ‘ قرار دیا گیا، اعتراف کرتی ہے کہ ’’امریکی فوجیوں نے بدترین عمل کیے اور عالمی قوانین کی بدترین پامالیاں روا رکھی گئیں‘‘۔ (ص۱۴۵)
تشدد کے حربوں میں چند ایک یہ تھے:قیدیوں کو مکوں، تھپڑوں اور لاتوں سے مارنا۔ ان کے ننگے پاؤں پر اچھلنا، برہنہ مرد اور خواتین قیدیوں کی تصاویر اور وڈیو بنانا، برہنہ قیدیوں کو خاص اندازسے بٹھانا تا کہ ان کی تصاویر لی جا سکیں۔ برہنہ قیدیوں کو ایک ڈھیر کی صورت میں فرش پر لٹانا اور پھر ان پر چھلانگیں لگانا اور ان کے ننگے بدن پر ٹھنڈا پانی ڈالنا (ص۱۴۶)۔۔۔کچھ ایسی سزائیںبھی ہیں جو بیان نہیں کی جا سکتیں۔
فیلوپ کارٹر انھیں امریکی فوج کے وقار پر گہرے داغ قرار دیتے ہوئے اسے ’امریکا کو بہت بڑی شکست‘ قرار دیتا ہے (ص۱۴)۔ ان اقدامات نے عراق میں بغاوت کو مزید طاقت فراہم کی۔ ویٹی کن کے وزیر خارجہ آرچ بشپ گیووانی لاجولو نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’’یہ امریکا کے لیے ۱۱ستمبر (کے حملوں) سے زیادہ سنگین دھچکا ہے، لیکن یہ دھچکا دہشت گردوں کی طرف سے نہیں، خود امریکیوں کی طرف سے ہے ‘‘(ص۱۵۰)۔ کولمبیا سے تعلق رکھنے والے ۷۳ سالہ مصور فرنانڈو بوٹیرو نے عراقی قیدیوں کے ساتھ اس سلوک کو اپنا موضوع بنا لیا اور اس پر ۴۸ پینٹنگز اور خاکے بنائے جن کی نمایش روم میں کی گئی۔ (ص۱۵۲)
امریکی کنٹرول میں کام کرنے والے تمام قید خانوں میں قیدیوں کے ساتھ روا رکھے گئے ذلت آمیز سلوک نے۔۔۔شورش میں مزید اضافہ کیا اور باغیوں کو سارے عالم اسلام سے عراق میں جمع کرنے کے لیے ایک مقناطیس کا کردار ادا کیا۔ عراق میں تعینات ایک امریکی فوجی افسر نے تسلیم کیا کہ ابو غریب بغاوت میں اضافے کے لیے ایک درمیانے درجے کا تربیتی مرکز ہے (ص۱۵۳)۔ گوانتانامو بے ایک ’قانونی بلا‘ ہے۔ (ص۱۵۵)
پانچواں باب سب سے طویل ہے جو دو حصوںاور ۱۳۱ صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ تشدد اور خوف ناک اموات کا ریکارڈ ہے۔ ابتدا میں مصنف بتاتا ہے کہ باغیوں کی طرف سے شدید مزاحمت نے کیسے اتحادی افواج کے تمام آپریشنوں کی کمر توڑ ڈالی۔ امریکا کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے شیعہ اور سنی اکٹھے ہو گئے۔ وہ لوگ جو ایمان رکھتے ہیں اور اس لیے لڑ رہے ہیں کہ ان کی آزادی پامال کی گئی ہے، ہتھیار اور ٹکنالوجی ان پر محدود اثرڈالتے ہیں۔ (ص۱۵۹)
صدام اور اس کے مجسمے گرانا تو آسان تھا لیکن افراتفری کو امن میں بدلنا جوے شیر لانے کے مترادف تھا (ص۱۶۰)۔ احمد شیلابی جس نے صدام کا جانشین بننے کا خواب دیکھا تھا بہت ناراض ہوااورڈک چینی سے بات کر کے اس نے گارنر کی جگہ پال برمر سوئم کو گورنر تعینات کروا لیا لیکن یہ ایک آفت ثابت ہوا۔۔۔ امریکی عراقیوں کے رہے سہے جذبۂ خیر سگالی سے بھی محروم ہو گئے۔ اس نے نہ صرف عراقی فوج اور پولیس کے اداروں کو ختم کر دیا اور۳لاکھ ۸۵ہزار فوج اور ۴لاکھ ۸۵ہزار پولیس اہل کاروں کو نوکریوں سے فارغ کر دیابلکہ ہر اعتدال پسند شہری کو ناراض کر دیا۔ وہ لوگ فوراً باغیوں سے مل گئے۔ انھیں افرادی قوت اور ہتھیار فراہم کرنے لگے۔ برمر کی معاشی پالیسی بھی تباہ کن ثابت ہوئی۔ اس نے ۱۹۳سرکاری صنعتیں بند کر دیں۔ معیشت پر اس کا اثر تباہ کن ہوا۔ عراق اسلامی بنیاد پرستی کا مرکز بن کر ابھرا۔ ہر سمت سے مجاہدین کا رخ عراق کی طرف ہو گیا۔ جیسا کہ ایک افسر نے کہا تھا: ’’ہمارے پاس اتنی گولیاں نہیں جتنے ہم دشمن بنا رہے ہیں‘‘ (ص۱۷۹)۔ فلوجہ پر لگاتار بم باری کے دوران امریکیوں نے ’سفید فاسفورس‘ بھی استعمال کی۔ انھوں نے صدام پر الزام لگایا تھا کہ وہ حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیار استعمال کر رہا ہے، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ خود بھی ان کا استعمال کر رہے ہیں۔ (ص۱۸۶)
طویل عرصے تک فرقہ وارانہ تعصبات لوگوں کوبالکل بھولے رہے۔ اپنی کامیابی کے لیے امریکیوں نے ان کی نفرت کو بھڑکایا اور ایک کو دوسرے گروہ کے خلاف اکسانے کے لیے ان کی مساجد میں بم دھماکے کرائے جس کا بالٓاخرامریکا کو فائدہ ہوااورانھیں انتہائی ضروری ریلیف مل گیا۔ [حضرت] حسن عسکریؒ کے مزار پر ہونے والے دھماکے میں اس کا سنہرا گنبد تباہ ہو گیا۔ شیعہ سُنّی تعصب کی اس آگ نے آبادی کا تناسب تبدیل کر دیا۔ فرقہ وارانہ تعصب خانہ جنگی میں تبدیل ہوگیا جس میں چھے لاکھ لوگ لقمۂ اجل بنے۔
تعمیر نو کا کام بہت سست رو تھا (کچھ علاقوں میں نہ ہونے کے برابر) اور اس میں غیر ملکی کمپنیوں، خصوصاً ڈک چینی کی ملکیتی اور ماتحت کمپنیوں نے بے تحاشا ’جنگی نفع‘ کمایا (ص۲۳۷)۔ ان ترقیاتی منصوبوں پر کام نامکمل رہا اور جو ہوا وہ بھی ناقص۔ فوج چنیدہ صحافیوں کو رشوت دے کر فتح کی جھوٹی خبریں شائع کراتی رہی۔ لیکن اس جھوٹے پروپیگنڈے کا اُلٹا اثر ہوا (ص۲۳۹)۔ جسے وہ ’مختصر، تیز تر اور کم خرچ‘ سمجھے تھے، اس نے متوقع جلد فائدے کی ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا۔
اخراجات ۵۰ ارب ڈالر سے ۳ کھرب ڈالر تک جا پہنچے۔ اس میں زخمی اور معذور فوجیوں کے علاج اور معاوضے کے مستقبل کے اخراجات بھی شامل کر لیں۔۔۔معذوری کا معاوضہ ۵۰ سال تک اور بہت سے زخمیوں کی اگلے دسیوں برسوں تک مسلسل دیکھ بھال۔۔۔اس سے جو بجٹ خسارا ہوا اس نے امریکا کو چین سے قرض مانگنے پر مجبور کر دیا۔ بش کی اس غلطی کو ’تباہ کن ناکامی‘ قرار دیا جاسکتا ہے۔
اس باب کے دوسرے حصے میں مصنف نے انسداد بغاوت کے لیے کیے گئے مختلف اقدامات کااحاطہ کیا ہے۔ عراق سٹڈی گروپ کی تیار کردہ ایک مستند رپورٹ کو مسترد کرنے کے بعد بش انتظامیہ نے اپنی فوج میں اضافے کی حکمت عملی جاری رکھتے ہوئے عراق میں ۲۰ ہزار اضافی فوج بھیج دی،جو دگنا اضافہ تھا۔ جہاں اس نے زمینی فوج کی تعداد میں اضافہ کیا وہیں زمینی گشت ہرممکن حد تک کم کر دیا۔ اس عمل کو سارے امریکا میں ہدف تنقید بنایا گیا۔ بی بی سی کا ایک سروے اس ناکامی کو اجاگر کرتا ہے۔ (ص۲۷۰)
فوجی، معاشی اور سفارتی محاذوں پر ناکامی کے بعد بش انتظامیہ نے شراب کے شوقین عرب شیخوں کے ساتھ القاعدہ پر قابو پانے کے لیے تعاون کے معاہدے کر لیے۔ ان کے ساتھ ہزاروں ڈالر کی شراب اور وہسکی کی فراہمی کا وعدہ کیا گیا۔ اس باب میں گراف، چارٹ اور بار چارٹ سے بھی مدد حاصل کی گئی ہے۔ مصنف نے مختلف ذرائع سے حوالے شامل کیے ہیں۔ دستاویزی اور شماریاتی اعدادوشمار مصنف کی علمی قابلیت کا ثبوت ہیں۔
باب ششم میں قابض فوج کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے رچائے گئے اس مضحکہ خیز انتخابی ڈھونگ کا ذکر ہے جو متنوع خطرات اور نامناسب ووٹر لسٹوں کے باوجود منعقد کیا گیا۔ وائسرائے پال برمر نے جلاوطن عراقی رہنمائوں فیصل استرآبادی اور سلیم شیلابی کو ہدایت کی کہ وہ عراق کا نیا آئین مرتب کریں، اس تنبیہ کے ساتھ کہ اگر اسلام کومرکزیت دی گئی تو وہ اسے ’ویٹو‘ بھی کر سکتا ہے (ص۲۷۹)۔ کئی ایک شقیں جمہوریت کی کھلی نفی کرتی تھیں۔ امریکا میں مقیم ۷۰ ہزار عراقیوں میں سے صرف ۳۵۰ کو ووٹ کا حق دیا گیا (ص۲۸۳)۔ جوآن کول نے کہا: ’’عراقی انتخابات ایک آفت کی آمد کا مظہر ہیں‘‘ (ص۲۸۳)۔ نیویارک ٹائمز نے قومی تعمیر نو کے بغیر قومی انتخابات کے لیے بے وقوفانہ جلدبازی کی شدید مذمت کی(۲۸۳)۔ اس کا سب سے مضحکہ خیز پہلو یہ تھا کہ ان کی نگرانی اردن کے شہر عمان میں بیٹھ کر کی گئی (ص۲۸۴)۔ ۲۰فی صد سے بھی کم سُنّی آبادی نے انتخابات میں حصہ لیا (ص۲۸۶)۔ اربوتھناٹ نے اسے تاریخی نوعیت کا مذاق قرار دیا (ص۲۸۷)۔ یہاں تک کہ انتخابات کا دوسرا دور (دسمبر ۲۰۰۵ء) بھی (انتخاب سے پہلے) کرفیو میں ہی مکمل ہوا (ص۲۸۸)۔ شیعہ آبادی کو امید تھی کہ انتخابات امریکی انخلا کے لیے راستہ صاف کریں گے، مگر وزیر اعظم نے انتخاب کے بعد سب سے پہلے جس چیز کا مطالبہ کیا وہ امریکی قبضے کی مدت میں اضافہ تھا (ص۲۸۹)۔ چونکہ صدر بش نے اس کے لیے ایک حتمی تاریخ دے رکھی تھی، ’’اس نے ملک کی تقسیم اور خانہ جنگی کی دھمکی کے ذریعے ایک مسودہ تیار کرا لیا‘‘۔ (ص۲۹۳)
آئین اس طرح بنایا گیا ہے کہ یہ اسلامی اقدار کا خاتمہ کر سکے۔ مثال کے طور پر آئین مرد اور عورت کا بغیر شادی کے اکٹھا رہنے اور ہم جنس پرستی کو تسلیم کرتا ہے، جسے اسلامی شریعت ناجائز اور قابل نفرت گردانتی ہے۔ مغرب عراق کو اسلامی شریعت کے قلعے میں دراڑیں ڈالنے کے لیے تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے (ص۲۹۶)۔
عراق کی تقسیم کے بارے میں ابتدائی طور پر عراق نے یہ سمجھا تھا کہ شاید متحدہ عراق قائم نہ رہ پائے گا۔ نئے آئین نے بھی اس مسئلے کو حل نہ کیا اور کردستان کو الگ جھنڈا اور امریکا میں الگ نمایندگی کا حق دے دیا (ص۳۰۰)۔ ملک اس وقت تین فرقوں شیعہ، سُنّی اور کرد کے الگ الگ علاقوں میں تقسیم ہے۔ گلبریتھ واضح الفاظ میں کہتا ہے: ’’بغاوت، خانہ جنگی، ایرانی حکمت عملی کی فتح، عراق کی تقسیم، آزاد کردستان اور ایک فوجی دلدل___ یہ سب امریکا کے عراق پر حملے کے وہ نتائج ہیں جن کا بش انتظامیہ پیشگی اندازہ نہیں کر سکی‘‘ (ص۳۰۲)۔ اس طرح موجودہ صورت حال مشرق وسطیٰ میں توازن کے قیام کے لیے وہ خطرہ ہے جس کے نتائج بہت گمبھیر ہوں گے۔ (ص۳۰۳)
ساتویں باب میں ڈاکٹر منظور عالم مشرق وسطیٰ میں بش بلیئر سازش کے کردار کا جائزہ لیتے ہوئے کھل کر اسلامی نقطۂ نظر پر بحث کرتے ہیں۔ اسلام سے نفرت نے ان جنگی سوداگروں کو اُکسایا کہ وہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر نہ صرف افغانستان اور عراق میں دہشت کا بازار گرم کریں، بلکہ ایران، ترکی، لبنان اور فلسطین میں بھی اپنے شیطانی منصوبوں پر عمل درآمد کر سکیں۔ اسلام سے زبانی کلامی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے عراق اور افغانستان کے آئین میں قابض فوجوں کی ہیراپھیری نے شریعت کو بے وقعت اور قرآن کو اس حد تک غیر متعلق بنا دیا کہ وہاں کے عوام کو ’جمہوری‘ بنانے کے لیے لبرل ترمیمات کی ہر وقت گنجایش رکھی گئی ہے۔ یہ باب بتاتا ہے کہ متعصب امریکا نے کیسے ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام سے وابستگی کو یقینی بنایا۔ گو کہ امریکا ایک تیسری جنگ ایران میں بھی چھیڑنا چاہتا تھا، لیکن اندرونِ ملک احتجاج نے اسے خودکشی کی اس کوشش سے باز رکھا۔
ترکی کا یورپی کونسل میں داخلہ بھی بش بلیئر گٹھ جوڑ نے ناکام بنایا۔ اسی طرح انھوں نے ہمیشہ ’بدی کے محور‘ (axis of evil) کے تیسرے رکن، بدمعاش اسرائیل کے مفادات کے تحفظ کے لیے شرم ناک حربے استعمال کیے اور فلسطینیوں کے لیے کی گئی امن کی کوششوں کے خلاف اسے غیر متزلزل تعاون فراہم کیا۔ تاہم، یہ لبنان تھا جس نے اسرائیلی منصوبوں کو شرم ناک شکست سے دوچار کیا۔ شدید جانی نقصان اٹھانے کے باوجود، حزب اللہ نے اسے کچل دینے اور فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دینے کے اسرائیلی منصوبوں کو شدید دھچکا لگایا۔ نہ صرف اس واقعے کے منفی فوجی اور معاشی اثرات اسرائیل پر پڑے، بلکہ اس نے خود امریکا کو اس کی حیثیت یاد دلا دی۔
آخری باب سارے منظرنامے پر نظر ثانی کرتا ہے اور سامراجی منصوبوں اورمذہبی جنونیت کے علاوہ اپنے بچائو کے لیے دنیا پر غلبے کے امریکی عزم کا ذکر کرتا ہے۔ چارٹ، نقشوں اور اعداد و شمار کے علاوہ مصنف اپنی بحث ایک نصیحت کے ساتھ سمیٹتا ہے جو ایک بار پھر بہرے کانوں سے ٹکرا کر لوٹ آئے گی۔
کتاب کے اختتامیے میں مصنف اوباما کی فتح کو بش پروپیگنڈے کی مکمل شکست اور تردید قرار دیتا ہے۔ چند اہم فیصلے مصنف کو امید دلاتے ہیں کہ شاید محتاط حکمت عملی مسلمانوں کی مجروح نفسیات پر مرہم رکھ سکے۔ تاہم، اسامہ کو مارنے اور ڈبونے میں کامیاب ہونے کے ساتھ ساتھ اوباما جنگ کے میدان کو پاکستان تک وسعت دینے میں کامیاب ہوگیاہے، جس کی ہمت بش بھی نہ کر پایا تھا۔ ۲۰۱۴ء تک افغانستان سے فوجی انخلا کا اعلان کر کے اوبامہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے اپنا انتخابی وعدہ پورا کر دیا ہے۔ تاہم، عراق، فلسطین اور دوسری جگہوں پر ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔
یہ کتاب ایک شاہ کار ہے۔ اعداد وشمار، نقشوں اور چارٹوں کی مددسے مصنف نے ایک گھنائونی کہانی خوش اسلوبی سے بیان کی ہے۔ ہر وہ شخص جو اس تباہ کن منظرنامے سے واقفیت چاہتا ہے ،اس کتاب سے ضرور استفادہ کرے، قطع نظر اس کے کہ وہ مسلمان ہے یا نہیں، یا سیاست اس کا مضمون ہے یا نہیں۔(بہ شکریہ: پندرہ روزہ ملّی گزٹ، دہلی، ۳۰ستمبر ۲۰۱۱ء)
مشرق و مغرب میں علومِ عمران کی بنیاد جن تصورات پر ہے، ان میں سے ایک کا تعلق اقلیت اور اکثریت کے باہمی تعلق، نفسیات، معاشی مضمرات اور سیاسی اور ثقافتی حکمت عملی سے ہے۔ ایسے خطوں میں جہاں مسلمان ایک بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود ملک کی مجموعی آبادی میں کم تر تناسب رکھتے ہوں، عموماً غیر محسوس طور پر ایک اقلیتی نفسیات وجود میں آجاتی ہے، جس میں مدافعانہ اور معذرت پسندانہ انداز اختیار کرتے ہوئے اکثریت سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ اقلیت کے انسانی حقوق کے حصول کے لیے مدد و تعاون کریں۔ بعض اوقات اکثریت کے ساتھ سیاسی یا معاشی الحاق کر کے اپنے حقوق کے حصول کے لیے بھی جدوجہد کی جاتی ہے، چنانچہ ثقافتی تشخص ہو یا معاشی خودانحصاری یا معاشرتی تحفظات (مثلاً پرسنل لا وغیرہ)، ان سب کے حوالے سے اقلیت بمقابلہ اکثریت کا ماڈل انسانوں کے زاویۂ نگاہ اور تصورِ مستقبل پر اثرانداز ہوتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد یٰسین مظہرصدیقی برعظیم پاک و ہند کے علمی حلقوں میں ایک معروف شخصیت اور اسلامی تاریخ و ثقافت کے حوالے سے ایک بلندپایہ استاد کا مقام رکھتے ہیں۔ دینی و تاریخی موضوعات پرآپ کی اعلیٰ تحقیقی تصانیف علمی حلقوں میں آپ کا سکّہ منوا چکی ہیں۔ زیرنظر کتاب: مکّی اسوہ نبویa، مسلم اقلیتوں کے مسائل کا حل، آپ کے آٹھ خطبات پر مشتمل ہے جن کے عنوانات یہ ہیں:
حرفِ آغاز میں مصنف نے ہم عصر اور دیگر علما و مؤرخین کے کام پر ایک مجموعی تبصرہ یہ کیا ہے: ’’ہمارے علما نے اسلام کو گذشتہ صدیوں میں ایک حاکم مذہب بنا کر پیش کیا۔ اس کی فقہ اسلام کے صرف نظامِ حاکمیت کو اُجاگر کرتی ہے۔ اس کی عام دینی تعلیمات کے بارے میں یہ تصور و عمل بنا کہ وہ حکمرانی کی فضا میں بارآور ہوتی ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اسلامی ریاست کا قیام اور اقتدار کا حصول ایک بنیادی عنصر بن گیا۔ اس حد تک تو بات ٹھیک تھی کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو غالبیت حاصل کرنے پر اُبھارتا ہے اور مغلوبیت و محکومیت کو مجبوری میں برداشت کرتا ہے، لیکن اسلام کی ہر آن و ہر حال میں غالبیت و حکمرانی کے تصور نے بڑی خرابی برپا کی۔ علما و فقہا اور اہلِ راے کے علاوہ یہ فکروتصور عوام الناس کے دلوں اور دماغوں میں اس طرح راسخ ہوگیا کہ حکمرانی مسلمانوں کی سائیکی بن کر رہ گئی۔ اتفاق سے تاریخی ارتقاء ات اور انقلابات نے بھی اسلام کو ایک حکمراں مذہب اور غالب نظامِ حیات بنا کر پیش کیا‘‘۔ (ص vii،viii)
مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ: ’’تاہم اس دورِ ابتلا و آزمایش اور زمانۂ مغلوبیت و محکومیت میں علما و عوام دونوں کے ذہن سے حکمرانی کی خوبو نہیں گئی۔ علما، صاحبانِ فکرودانش اور اہلِ بینش و قلم ہونے کے باوجود اسلامی نظام کی حکمرانی کی تاریخ لکھتے رہے اور عوام، ان کے ایجاد کردہ نشے میں سرمستِ خوے سلطانی رہے۔ ان کی فکروعمل میں اسلام اور اسلامی ریاست کے شان دار ماضی کی حکمرانی کے کارنامے جلوہ آرائی کرتے رہے اور وہ اپنی تحریروں سے حکمرانی و سلطانی کے نغمے بکھیرتے رہے جن سے عوام الناس بھی حظ و نشاط حاصل کرتے اور حکمرانی کے جلوے دیکھتے رہے۔ دونوں میں سے کسی کو حقیقتِ حال کو سمجھنے کی توفیق نہیں ہوئی۔
’’اس دورِ مغلوبیت میں اسلامی علوم و فنون کے ذخیرے میں برابر اضافے ہوتے رہے اور ان میں سے بہت سے عظیم الشان و بے مثال بھی ہیں۔ تفسیر و حدیث ہو یا فقہ و تفقہ، تاریخ و سیرت ہو یا کلام و فلسفہ یا دوسرے سماجی اور سائنسی علوم و فنون، سب مالا مال ہوئے لیکن ان سب کی بنیاد قدیم علوم و فنون کے اساطین پر استوار تھی۔ قرونِ حاکمیت میں جو نہج، بنیاد، طریقہ اور فکری و تحریری انداز استوار ہوگیا تھا، اسی پر بعد کی تمام کتابیں لکھی جاتی رہیں، حتیٰ کہ فقہ اور تاریخ میں بھی اسلامی ریاست کے اندازِ حکمرانی کی حاکمیت قائم رہی اور کسی کو بھی فقہِ اقلیت مرتب کرنے کی توفیق ہوئی اور نہ تاریخِ مغلوبیت رقم کرنے کی ہمت پڑی‘‘۔ (ص viii - ix)
اس کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ: ’’یوں تو پوری سیرتِ طیبہ کا اصل تجزیہ و تحلیل باقی ہے اورمدتوں باقی رہے گا مگر مکّی دور کا تجزیہ تو انتہائی ناقص ہے۔ ہمارے بزرگ اہلِ قلم میں سے کسی نے یہ نہیں سوچاکہ اسلامی تاریخ اور نبوی سیرت کا ارتقا خالص دورِ محکومی میں ہوا تھا‘‘۔ (ص x)
مصنف کا یہ خیال ہے کہ: ’’اس حقیقت کا ادراک بھی ذرا کم کم ہے کہ مکّی دور اسلام کا دورِمغلوبیت تھا اور مسلمانوں کا زمانہ اقلیت۔ ان ابتدائی ۱۳ برسوں میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو احکام مکّی سورتوں میں دیے گئے، ان کا تجزیہ تو بالکل ہی نہیں کیا گیا اور جو کیا گیا وہ تجزیہ ہی نہیں۔ واقعاتِ تاریخ نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کیسے مرتب کی؟ اس کا پتا بھی نہیں چلتا اور ان کے تجزیے کی روشنی میں اقلیت کی تاریخ، فلسفۂ تاریخ، طریقِ زندگی، منہجِ عمل اور اندازِ فکر مرتب کرنے کا ہوش بھی نہیں آیا۔ حالانکہ اس مکّی دورِ اقلیت میں اسلام کے ایک خاص انداز اور مسلمانِ عالم کی ایک حیثیت کے لیے کامل دستور موجود ہے‘‘۔ (ص x)
اس ضمن میں ہماری پہلی گزارش یہ ہے کہ مکّی دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالعہ کا ایک زاویہ یہ ہوسکتا ہے کہ اسلامی تحریک کو ایک ’اقلیت‘ اور مشرکینِ مکّہ کو ایک اکثریت مان لیا جائے لیکن اس میں جو امر مانع نظر آتا ہے، وہ اسلام کا بنیادی مزاج ہے۔ کلمۃ اللہ کی پہچان اس کا عُلیہ، بلند اور بلند ترین ہونا ہے، اور تعداد میں کم ہونے کو ’محکومیت‘ قرار دینا مکّہ کی دعوتی تاریخ کے ساتھ انصاف نہیں کہا جاسکتا۔ اسلام یا اسلامی جماعت محکوم تو جب ہوتی جب مکّہ میں کوئی سیاسی، معاشرتی اور معاشی اقتدار ہوتا جس میں اقلیت کی تعداد کے تناسب سے کوئی نمایندگی کی جگہ ہوتی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ اقلیتی حزبِ اختلاف کا کردار ادا کر رہے ہوتے۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ حق کے پیروکار چاہے ۱۰۰ سے کم ہوں، ان سے ہزارہا افراد خائف و لرزاں ہوتے ہیں۔ قرآن کریم نے اس حوالے سے جو اصول سورئہ انفال میں بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ اگر ۲۰ صابرین ہوں تو ۲۰۰ مشرکین پر غالب آئیں گے۔ اس تناظر میں مکّہ میں مسلمان ’محکوم‘ کس زاویے سے بن سکتے ہیں۔ وہ تو قلتِ تعداد کے باوجود اہلِ مکّہ کے لیے ایک عظیم خطرہ تھے۔
دوسری گزارش یہ کہ مکّی دور کو محکومیت کی طرح ’مغلوبیت‘ کہنا بھی محلِ نظر ہے۔ ’مغلوبیت‘ اس ذہنی اور نفسیاتی کیفیت کو کہا جاتا ہے جس میں بعض صلاحیتوں کے باوجود کوئی فرد یا قوم دوسری قوم، تہذیب یا ثقافت سے مرعوب ہوکر اس کے اطوار، طرزِفکر یا انداز کو اپنا لے اور اس کا اپنا تشخص دب جائے، جب کہ مکّی دور میں لا الٰہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ کا اظہار جمعیت ِ صحابہؓ کی ہر ہر ادا سے ہوتا ہے۔ توحید کا مطلب ہی یہ تھا کہ لا غالب الا ھوتو وہ ’مغلوب‘ کیسے ہوتے؟
’حرفِ آغاز‘ کے بعد آنے والے سات ابواب محترم پروفیسر صاحب کے تاریخی واقعات کو تحقیقی انداز میں پیش کرنے کی دلیل ہیں۔ مراجع و مصادر بھی اسی بات کی شہادت دیتے ہیں لیکن ان سات ابواب میں گو، انتہائی قیمتی مواد ہے لیکن مسلم اقلیتوں کے مسائل سے بجاے خود گہرا تعلق نظر نہیں آتا۔ اگرچہ جابجا اقلیت کی اصطلاح کا استعمال ہوا ہے، البتہ آخری باب پوری کتاب کا حامل کہا جاسکتا ہے۔ اس باب میں مسلم اقلیتوں کے حقیقی مسائل کے حوالے سے داعیانہ حکمت عملی کی روشنی میں جو تجاویز دی گئی ہیں، وہ قابلِ تعریف ہیں، تاہم بعض مفروضات سے شدید اختلاف کیا جاسکتا ہے، مثلاً: ’’سیرتِ نبویؐ میں مسلم اقلیتوں کے لیے اسوئہ نبوی موجود ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنی تعلیمات و الٰہی ارشادات کے پس منظر میں ۱۳ برسوں تک مکّی مسلم اقلیت کی تعمیروارتقا کا ایک نقشہ تیار کیا۔ قریشِ مکّہ اور اکابر شہرِ الٰہی کی اشرافیہ کی روایاتِ حکمرانی اس مسلم اقلیت کا پیش منظر تھیں‘‘۔ (ص ۲۷۹)
آٹھویں باب کے افتتاحی مجلے کا بقیہ نصف میری ناقص راے میں نہ تاریخی طور پر اور نہ فکری طور پر ہی قابلِ قبول ہے۔ گویا کہا یہ جا رہا ہے کہ مکّی دور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حالات کے پس منظر میں جو منہج دعوت اختیار فرمایا، وہ مسلمانوں کو اقلیت مانتے ہوئے بنایا گیا اور مدینہ سے بالکل مختلف حکمت عملی اس غرض سے بنائی کہ اسلام جہاں کہیں بھی ایسی صورت حال میں ہو کہ غیرمسلموں کی اکثریت ہو تو مکّی دور کی ہرسنت کو مدنی دور کی ہر سنت پر فوقیت دی جائے۔ مزید یہ کہ کیا واقعی مکّی اسوہ کسی ’اقلیت زدہ مغلوب‘ ذہنیت کا پتا دیتا ہے؟ کیا مکّی دور سے ’تبرج جاہلیہ‘ کے ساتھ کوئی مفاہمت اختیار کی گئی یا اس کو کھلم کھلا چیلنج کیا گیا؟
ایسے ہی یہ کہنا کہ: ’’اسی نظامِ قدرت اور قانونِ فطرت کے مطابق یہ اصول و عمل طے پاگیا کہ مسلم اقوام ہمیشہ اقلیت سے آغاز کریں گی، قوانینِ الٰہی اور ارشاداتِ نبویؐ کے مطابق عمل کریں گی، تو رفتہ رفتہ اقلیت کے عنصری نشوونما کا قانون جاری ہوگا اور وہ ان کو مختلف مراحل ارتقا اور درجاتِ ترقی سے گزار کر اکثریت کی طرف لے جائے گا‘‘۔ (ص ۲۸۱) یہ ایک مفروضہ ہے جس کی کوئی دلیل اورثبوت فراہم نہیں کیاگیا۔
بہ ایں ہمہ یہ باب ہر داعی کے لیے غور کا مواد فراہم کرتاہے۔ گو ایک اقلیتی زاویے سے بات کی گئی ہے لیکن اکثر نکات میں عصرحاضر کے اقلیتی مسائل سے گہری واقفیت کا عکس پایا جاتا ہے۔ چنانچہ اقلیتوں کے تعلیمی، ثقافتی، معاشی، ابلاغی مسائل پر پھر ہجرت کے حوالے سے مختلف احکامات وغیرہ سے4 عمدہ بحث ہے۔
اگر مصنف محترم اقلیت و اکثریت کی جگہ فرد اور جماعت اور مکّے میں مسلم اقلیت کی جگہ حزب اللہ اور اس کی مخالف کفر، طاغوت، مشرک اور ضلالت کی جماعت کے تناظر میں ان عملی مسائل کا جائزہ لیتے تو شاید مکّی دور کے ماڈل کی بہتر تشریح ہوسکتی تھی۔
اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی نے کتاب کی طباعت کا بہت اچھا اہتمام کیا ہے۔ یہ کتاب علمی کتب خانوں میں ایک قیمتی اضافہ ہوگی۔
(مکّی اسوہ نبویa، مسلم اقلیتوں کے مسائل کا حل، پروفیسر ڈاکٹر محمد یٰسین مظہر صدیقی۔ ناشر:اسلامک ریسرچ اکیڈمی، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ صفحات: ۳۲۵۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔)
عورت کے بارے میں دو بنیادی سوالات ہمیشہ سے اٹھتے رہے ہیں۔ ایک یہ کہ معاشرہ میں اس کا صحیح مقام و مرتبہ کیا ہے؟ دوسرا یہ کہ مرد و عورت کے جنسی تعلقات کی صحیح نوعیت کیا ہے؟ مختلف تہذیبوں ، مذاہب اور ممالک کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عورت ان میں عموماً اپنے بنیادی انسانی حقوق سے محروم رہی ہے۔ اسے مرد کا حاشیہ اور ضمیمہ سمجھا گیا ہے۔ جب صنعتی انقلاب کے نتیجے میں اس کا ردّ عمل ہوا اور مساوات اور آزادی کی تحریکیں چلیں تو مرد اور عورت کے حقوق اور ذمہ داریوں میں کوئی فرق روا نہ رکھا گیا اور عورت سے ہر وہ کام لیا جانے لگا جو مرد کرسکتا ہے۔ بے محابا آزادی کے نتیجے میں مرد اور عورت کے جنسی تعلقات بھی بے اعتدالی کا شکار ہوئے اور آوارگی اور بے راہ روی کو فروغ ملا۔ اسلام کا نقطۂ نظر اس سلسلے میں توازن اور اعتدال کا ہے۔ اس نے سماج میں عورت اور مرد کا صحیح مقام اور نظام تمدن میں دونوں کی صحیح حیثیت متعین کی۔ حال ہی میں عورت اسلامی معاشرے میں کے نام سے مولانا جلال الدین عمری کی عالمانہ تصنیف شائع ہوئی ہے، جس میں انھوں نے، زیربحث موضوع پر پوری قوت، جرأت اور اعتماد کے ساتھ اسلامی نقطۂ نظر کی ترجمانی کی ہے۔
کتاب کے آغاز میں دور قدیم اورعہد جدید میں عورت کے مقام کا تعین کیا گیا ہے۔ یونان، روم اور قدیم یورپ میں، نیز یہودیت، عیسائیت اور ہندو مت میں عورت کی پست حیثیت کو حوالوں کے ساتھ ثابت کیا گیا ہے۔ پھر اس کے ردّعمل میں جدید نظریات نے اس کو کتنی آزادی عطا کردی اور اس کے نتیجے میں کس قدر جنسی آوارگی عام ہوئی، اس کا بھی تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔
اسلامی معاشرے میں عورت کے مقام و مرتبہ کا جائزہ لینے سے قبل بہ طور پس منظر عرب کے دورِ جاہلیت میں عورت کی پست حیثیت کو واضح کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ اپنے تمام حقوق سے محروم تھی ، اسے موجبِ ذلت و عار سمجھا جاتا تھا، بلکہ بعض قبائل میں اسے پیدا ہوتے ہی درگور کردیا جاتا تھا۔ اس کے بعد تفصیل سے عورت کے بارے میں اسلام کے اساسی تصورات سے بحث کی گئی ہے۔ کتاب کا یہ حصہ بہت اہم ہے۔
کتاب کی ایک بنیادی بحث ’عورت کا حقیقی دائرۂ کار‘ کے عنوان سے ہے۔ ’’اسلام نے ریاست اور معاشرے کے تحفّظ کی ذمہ داری اصلاً مرد کے سرڈالی ہے اور عورت کی جدّو جہد کا رخ گھر کی طرف موڑ دیا ہے۔ اس کی حقیقی پوزیشن یہ نہیں ہے کہ وہ بازار کی تاجر، دفتر کی کلرک، عدالت کی جج اور فوج کی سپاہی بنی رہے، بلکہ اس کے عمل کا حقیقی میدان گھر ہے‘‘ (ص۱۱۴-۱۱۵)۔ ’’کسی بڑی مصلحت کے تحت اس کو گھر چھوڑنے کی اجازت دی بھی گئی ہے یا کسی عبادت کے اجتماعی طریقے کو اس کے لیے مفید یا ضروری سمجھا گیا ہے، تو اس کے ساتھ ایسی تدابیر بھی اختیار کی گئی ہیں جو ہر آن اس کے اندر یہ احساس تازہ رکھتی ہیں کہ اس کا حقیقی مقام وہی ہے جہاں سے وہ چلی تھی۔ گھر سے باہر نکلنے کے یہ معنیٰ ہرگز نہیں ہیں کہ وہ حدودِ نسوانیت سے بھی باہر آچکی ہے‘‘۔ (ص۱۲۰)
عورت کا حقیقی دائرۂ کار اس کا گھر ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسلام اسے عضوِ معطّل کی حیثیت دیتا ہے اور معاشرے سے اسے الگ تھلک کردیتا ہے۔ اس نے عورت کو ان حقوق سے محروم نہیں رکھا ہے جو اجتماعی زندگی بسر کرنے کے لیے ضروری ہیں، بلکہ وہ اسے اس قابل بناتا ہے کہ معاشرے میں کامیاب و بامراد زندگی بسرکرسکے۔ اسی وجہ سے اس نے اسے علم و عمل کے میدان میں پوری آزدی دی ہے۔ مصنف نے اس موضوع پر مدلّل بحث کی ہے اور قرونِ اولیٰ کی بہت سی مثالیں پیش کرکے ثابت کیا ہے کہ خواتین کو علم حاصل کرنے اور اس کی توسیع و اشاعت میں حصہ لینے کی پوری آزادی حاصل تھی۔ ساتھ ہی انھیں پاکیزہ مقاصد کے حصول کے لیے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت تھی۔ چنانچہ وہ کاشت کاری، تجارت اور صنعت و حرفت کے کاموں میں حصہ لیتی تھیں۔
’اسلامی معاشرے کی تعمیر میں عورت کا کردار‘ کے تحت صدرِ اول کی خواتین کی مثالیں پیش کی گئی ہیں کہ انھوں نے دین کے لیے بڑی قربانیاں پیش کی ہیں، مصیبتیں سہی ہیں، اللہ کے دین کو سربلند دیکھنے کی تمنا میں محاذِ جنگ پر بھی مختلف خدمات انجام دی ہیں، حق کی نصرت و حمایت میں زبان کی قوت بھی صرف کی ہے، معاشرے میں کہیں بگاڑ نظر آیا تو اس کے بدلنے اور اس کی جگہ خیرو اصلاح کو قائم کرنے کی جدّو جہد کی ہے، ذمہ دارانِ ریاست کے سامنے بے خوف و خطر حق کا اظہار کیا ہے۔ اس طرح اسلامی معاشرے نے مختلف مسائل میں عورت کی راے اور فہم سے فائدہ اٹھایا ہے اور اپنی تعمیر و تشکیل میں بھی اس کی عملی صلاحیتوں سے مدد حاصل کرتا رہا ہے۔ اس ضمن میں آگے فاضل مصنف نے کئی اہم مسائل سے بحث کی ہے اور ان کے سلسلے میں پائی جانے والی غلط فہمیاں دوٗر کی ہیں۔ مثلاً بعض معاملات میں شریعت نے دوعورتوں کی گواہی کو ایک مرد کی گواہی کے برابر قرار دیا ہے۔ اس سے بہ ظاہر عورت کی تنقیص معلوم ہوتی ہے۔ انھوں نے عورت کی گواہی سے متعلق فقہا کے خیالات کا تجزیہ کرتے ہوئے اس موضوع پر مفصّل اور مدلّل بحث کی ہے۔ عورت کی عملی صلاحیت کے ضمن میں مصنف محترم فرماتے ہیں کہ وہ اپنے فطری دائرے سے باہر وقتِ ضرورت معاشرتی خدمات انجام دے سکتی ہے، لیکن اس کے لیے چند بنیادی اصولوں کی پابندی ضروری ہے۔ وہ یہ کہ اپنی حقیقی پوزیشن (خانگی زندگی کی استواری) پر نظر رکھے، اپنے خاوند کی اطاعت کرے اور نامحرموں سے اختلاط اور میل جول سے بچے۔
ایک اہم بحث مصنف نے ’عورت اور منصبِ امامت‘ کے عنوان سے اٹھائی ہے۔ ان کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ’’اسلام اس کے خلاف ہے کہ عورت کے نازک ہاتھوں میں ملت کی قیادت و رہ نمائی کی زمام دے دی جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے لیے جن اوصاف و خصوصیات کی ضرورت ہے وہ اس میں طبعاً موجود نہیں ہیں۔ یہ انتہائی غیر فطری بات ہوگی کہ عورت جس دائرے میں کما حقّہ ذمے داری ادا نہیں کرسکتی، اس پر اس کا بارِ گراں ڈال دیا جائے‘‘۔ (ص۲۶۶)
کتاب کی دوسری اہم اور مبسوط بحث ’جنسی تعلقات‘ کے عنوان سے ہے۔ فاضل مصنف نے بیان کیا ہے کہ انسانی معاشرے ’جنس‘ کے معاملے میں شروع سے افراط و تفریط کا شکار رہے ہیں ۔ تفریط نے رہبانیت کی شکل اختیار کی، جس کے کڑوے کسیلے پھل صدیوں تک انسانوں کو کھانے پڑے اور افراط نے اباحیت اور آوارگی کا روپ دھارا، جس میں دورِ جدید کا مغربی معاشرے اور اس کے ہم نوا غرق ہیں۔ اسلام کا نقطۂ نظر اس معاملے میں انتہائی متوازن اور معتدل ہے۔ وہ راہبانہ نقطۂ نظر کی تردید کرتا ہے، جائز حدود میں جنسی تسکین کی نہ صرف اجازت دیتا ہے، بلکہ اس کی تاکید کرتا ہے، ہر طرح کے ناجائز تعلق پر روک لگاتا ہے۔ اس معاملے میں وہ فرد کی اخلاقی تربیت کرتا ہے، معاشرے کو پاکیزہ رکھنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے اور اس سلسلے میں قانون کا بھی سہارا لیتا ہے اور ان کی خلاف ورزی پر سزائیں بھی متعین کرتا ہے۔
بہ حیثیت مجموعی یہ کتاب متعدد خوبیوں کی حامل ہے۔ اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ اس معذرت خواہانہ لب و لہجہ سے بالکل پاک ہے، جسے موجودہ دور کے بہت سے مسلم محققین اور دانش ور اختیار کیے ہوئے ہیں۔ مصنف بلاخوف لومۃ لائم پوری جرأت اوراعتماد کے ساتھ عورت کے حقوق اور حیثیت سے متعلق اسلامی تعلیمات کی ترجمانی کرتے ہیں۔
کتاب کی ایک نمایاں خوبی اس کا استدلالی انداز ہے۔ قدیم اور جدید تہذیبوں، معاشروں اور مذاہب میں عورت کی حیثیت کی بحث ہو، یا اسلامی معاشرے میں اس کے مقام و مرتبہ کا بیان، ہرجگہ معتبر اور مستند مآخذ و مراجع (قرآن و حدیث فقہا کی آرا) استعمال کیے گئے ہیں۔
اس کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ مصنف نے اسلامی معاشرے کے خدّو خال نمایاں کرتے ہوئے اسلام کی ابتدائی صدیوں کا مثالی نمونہ پیش کیا ہے۔ صحابیات، تابعیات اور تبع تابعیات کی علمی اور عملی سرگرمیاں تفصیل سے بیان کی ہیں اور اس سلسلے میں حدیث، سیرتِ نبوی، سیرتِ صحابہ و صحابیات، اسماء الرجال اور تاریخ و سوانح کی کتابوں سے واقعات و روایات کا حتی الامکان استقصا کیا ہے۔
یہ کتاب اگرچہ نصف صدی قبل شائع ہوئی تھی، لیکن اپنے مباحث کی اہمیت، استدلال کی قوت اور شستہ و رواں اسلوبِ بیان کی وجہ سے اب بھی اپنے موضوع پر بھرپور اور مفید ہے۔ مصنف کی نظرثانی اور بہت سے نئے مباحث کے اضافے نے اس کی افادیت کو دوچند کردیا ہے۔ اس موضوع پر مصنف کی ایک دوسری کتاب عورت اور اسلام کے عنوان سے ہے۔ اس میں بھی قرآن و سنت کی روشنی میں عورت کے مقام و مرتبے سے بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب کا رخ زیادہ تر تاریخی ہے، جب کہ زیر تبصرہ کتاب کا انداز علمی ہے۔ دونوں کتابوں کے مباحث کی یک جائی سے اسلامی معاشرے میں عورت کا تاب ناک کردار قاری کے سامنے آجاتا ہے۔(عورت اسلامی معاشرے میں، مولاناسید جلال الدین عمری۔ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی۔ صفحات: ۴۳۲، قیمت(مجلد) : ۱۶۰ بھارتی روپے)
جنرل (ر) پرویز مشرف کے دورِ نامسعود میں جس نام نہاد روشن خیالی کا بیج بوکر ایک زہریلا پودااُگایا گیا تھا، پیپلزپارٹی کے دورِ حکومت میں وہ سیکولرزم، اباحیت پسندی اور فکری انتشار اور نظریۂ پاکستان سے انکار جیسے کڑوے کسیلے اور زہریلے برگ و بار لے آیا ہے۔ پیپلزپارٹی بظاہر تو صبح وشام ’عوام عوام‘ کی رَٹ لگاتی ہے اور ’جمہوریت جمہوریت‘ کی دُہائی بھی دیتی ہے مگر پاکستان کی نظریاتی جہت کے ضمن میں اسے نہ تو عوام کی اُمنگوں کی کوئی پروا ہے نہ جمہور کی خواہشات کا کوئی پاس و لحاظ۔ اس کے برعکس یہ پارٹی بلاتامّل ہر وہ اقدام کر گزرتی ہے جس سے پاکستان کی نظریاتی شناخت دھندلی ہوتی ہے اور جس سے اسلامی شریعت کے نفاذ میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔
کیا پاکستان اس لیے بنایا گیا تھا کہ یہاں حکمران طبقہ (سرکاری منصب داروں، نوکر شاہی اور برسرِاقتدار پارٹی کے وزرا وار ممبران پارلیمنٹ کی بڑی تعداد سمیت) واضح طور پر بدعنوانیوں، بے ایمانیوں اور طرح طرح کی کرپشن کی بہتی گنگا میں نہاتا نظر آئے؟ پھر یہ کہ ان کے متعدد اہم لوگ پاکستان کی نظریاتی شناخت کے منکر اور سیکولرزم اور ’روشن خیالی‘ کے وکیل بن جائیں؟ حقیقت یہ ہے کہ زیرنظر کتاب کے مؤلف نے بجا طور پر لکھا ہے کہ پاکستان میں سیکولر لابی، اس کی نظریاتی بنیادوں پر تیشہ چلانے میں سرگرمِ عمل ہے اور اس سلسلے میں اُنھیں سیکولر دانش وروں، بعض بھارتی صحافیوں، رقص و موسیقی کے دل دادگاں، میلوں، ٹھیلوں اور بسنت کے شائقین، ویلنٹائن ڈے اور میراتھن ریس کے رسیا، بعض سرکاری عہدے داروں اور کچھ غیرسرکاری کالم نگاروں، برقی ذرائع ابلاغ، اینکروں کے ایک طبقے اور چند اخبارات کی تائید حاصل ہے۔ ان لوگوں نے ایک جتھا بنا لیا ہے اور اُنھیں قائدعظم کی ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کی صورت میں ایک ہلدی کی گانٹھ مل گئی ہے، جس کے بل بوتے پر انھوں نے سیکولرزم اور آزاد خیالی کی دکان کھول لی ہے۔ حالیؔ کیا خوب کہہ گئے ؎
مال ہے نایاب، پر گاہک ہیں اکثر بے خبر
شہر میں حالیؔ نے کھولی ہے دکان سب سے الگ
اگر آپ اس ٹولے کی صفوں پر نظر ڈالیں اور ان کے ماضی پر غور کریں تو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ یہ طبقہ پرلے درجے کا موقع پرست ہے۔ ان موقع پرستوں میں ایک تو وہ ’ترقی پسند‘ ادیب اور دانش ور صحافیوں کا طائفہ شامل ہے، جس کا ’قبلہ‘ روزِ اوّل ہی سے ماسکو رہا ہے۔ ۱۹۱۷ء میں ’سرخ سویرا‘ طلوع ہوا تو روس کے سوا انھیں ساری دنیا میں اندھیرا نظر آنے لگا۔ یہ لوگ کریملن سے جاری ہونے والے ہرنظریے، بیان اور موقف کو وحی کا درجہ دیتے ہوئے اس پر آمنّا وصدقنا کہتے رہے۔ یہ حضرات افغانستان پر روسی حملے کے فوراً بعد روسی ٹینکوں کو طورخم پر ہار پہنانے کے لیے بے تاب نظر آتے تھے، مگر مجاہدین نے یہ موقع ہی نہ آنے دیا، بلکہ روسی فوجوں کا منہ پھیر دیا۔ اس کے نتیجے میں جب اشتراکی روس منہدم ہوگیا توانھوں نے ’عظیم باپ اسٹالن‘ کی مدح خوانی سے ہاتھ اُٹھاتے ہوئے اور روس سے منہ موڑ کر اپنا رُخ واشنگٹن کی طرف پھیرلیا۔ ’قبلۂ اوّل‘ سے انھوں نے ترکِ تعلق تو نہیں کیا مگر اب طاقت کا سرچشمہ چوں کہ وہائٹ ہائوس میں منتقل ہوگیا ہے (اور ویسے بھی روسی آقا کنگلے ہوچکے ہیں) اس لیے قلابازی کھانا ضروری تھا۔
موقع پرستوں میں دوسرا طبقہ سرحدی گاندھی کے جانشینوں کا ہے۔ یہ ان سرخ پوشوں کے وارث ہیں جنھوں نے صوبہ سرحد کو پاکستان کے بجاے، بھارت میں شامل کرانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر ریفرنڈم میں منہ کی کھائی۔ اب انھوں نے اقتدار کی خاطر، اس پیپلزپارٹی کی حاشیہ برداری میں عار محسوس نہیں کی جس نے ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں صوبہ خیبر میں ان کی معاون و معاہد مفتی محمود کی جمہوری حکومت کو غیرقانونی طور پر برطرف کیا۔ لیاقت باغ میں ۲۳مارچ کے جلسے میں سیدھی سیدھی فائرنگ کرکے (قدرے چھوٹے پیمانے پر) جلیانوالہ باغ کا رِی پلے کیا، اور پھر جنھوں نے ان کے لیڈر ولی خاں کو جیل میں ڈالا، اور ان کی جان کے درپے رہے۔ یہ بھی ہماری سیاست کا المیہ ہے کہ خان عبدالولی خان جیسے بااصول راہ نمائوں کی وراثت ایسے موقع پرستوں کے ہاتھ آئی ہے جنھوں نے سرخ پوشی ترک کر کے امریکی پوشش پہن لی ہے۔ ’بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا‘ کے مصداق یوں اب واشنگٹن سے ان کے ’رومان‘ نے انھیں صوبہ خیبر کی ’خواجگی‘ کیا عطا کی ہے کہ وہ روشِ بندہ پروری کے منکر ہوگئے ہیں۔ ان کے وزرا علی الاعلان نظریۂ پاکستان کا انکار کرتے نظر آتے ہیں۔
اس منظر اور صورتِ حال کو سامنے رکھتے ہوئے، پیشِ نظر کتاب پاکستان اور اسلامی نظریہ کا مطالعہ کیا جائے تو اس کے مباحث و محتویات کی معنویت بخوبی واضح ہوتی ہے۔
پروفیسر خورشیداحمد نے ۱۹۶۱ء میں ماہنامہ چراغِ راہ کے ’نظریہ پاکستان نمبر‘ میں ایک تحریری مذاکرہ شائع کیا تھا۔ جس میں پاکستان اور بیرونِ پاکستان کے چوٹی کے ۲۴ دانش وروں نے پاکستان کی نظریاتی جہت اور اُس کی اسلامی شناخت پر اپنے اپنے انداز میں اظہار خیال کیا تھا۔ اس مذاکرے کا مجموعی تاثر اس قدر واضح تھا کہ صدر ایوب خان کی حکومت اسے ہضم نہیں کرسکی اور رسالے کو جابرانہ طریقے سے بند کر دیا۔ پروفیسر صاحب نے عدالتِ عالیہ میں اس اقدام کو چیلنج کیا تو عدالت نے ’’اس پابندی کو باطل قرار دے دیا‘‘۔ مذکورہ قلمی مذاکرے کو چراغِ راہ سے بازیافت کر کے مختصر حواشی اور پروفیسر صاحب کے نئے دیباچے کے ساتھ (منشورات، منصورہ لاہور سے) کتابی شکل میں شائع کیا گیا ہے۔
ایک ایسے ماحول میں جب مطالبۂ پاکستان کے اصل اور بنیادی محرک (پاکستان کا مطلب کیا، لا الٰہ الا اللہ) کو ڈھٹائی کے ساتھ نظراندازکرکے واضح طور پر جعل سازی کی جارہی ہے، اور پاکستان کی اسلامی شناخت پر گرد اُڑائی جارہی ہے اور پاکستان مخالف لابی بھارتی، اسرائیلی اور امریکی سرپرستی کے منہ زور گھوڑے پر سوار اپنے کالم نگاروں، اینکروں کے ذریعے، مخالفین کے کشتوں کے پشتے لگا رہی ہے، مذکورہ قلمی مذاکرے کی اشاعتِ نو بہت برمحل ہے۔ یہ ایسا صاف شفاف آئینہ بھی ہے جو قارئین کو بلاکم و کاست پاکستان کی اصل شناخت سے روشناس کراتا ہے۔ اس مذاکرے میں شامل تمام ہی شخصیات اپنے دور کی سربرآوردہ، اور اپنے اپنے شعبوں (قانون، تعلیم، سیاست، ادب، منصفی، فکروتحقیق، تجارت، معیشت وغیرہ) میں مسلّمہ طور پر واجب الاحترام مانی جاتی تھیں۔ تقریباً تمام ہی اصحابِ فکرونظر اس بات پر متفق ہیں کہ دو قومی نظریہ ہی قیامِ پاکستان کی بنیاد ہے۔ ممتاز عالمِ دین مولانا مفتی محمد شفیع کہتے ہیں: ’’دو قومی نظریے کو نظرانداز کردیا جائے تو پھر پاکستان بنانے کی کوئی وجۂ جواز باقی نہیں رہتی (ص ۱۶۴)‘‘۔ معروف ادبی نقاد، محقق اور استاد ڈاکٹر سیدعبداللہ کہتے ہیں کہ: ’’پاکستان اسی نظریے کی خاطر معرضِ وجود میں آیا تھا۔ اس بنیادی حقیقت سے ہٹ کر پاکستان کے جواز کی کوئی صورت باقی نہیں رہ جاتی‘‘ (ص ۱۰۹)۔ ماہر تعلیم، دانش ور اور ادبی نقاد پروفیسر حمیداحمد خاں کہتے ہیں: ’’پاکستان کے بقا، قیام اور استحکام کے لیے اسلامی نظریے کی ضرورت اور اہمیت بڑی بنیادی اہمیت رکھتی ہے اور وہ اس لیے کہ پاکستان جب قائم ہوا تھا تو نظریاتی بنیاد پر ہی قائم ہوا تھا۔ پاکستان نام ہی ایک نظریاتی تنظیم کا مظہر ہے اور اگر وہ اس نظریے سے وابستہ نہ رہے جو اس کے قیام کی غرض و غایت تھا، تو پاکستان کا قیام ہی بے معنی ہوجاتا ہے‘‘۔ (ص ۸۵)
ادیب، شاعر اور سفارت کار میاں بشیر احمد تحریکِ پاکستان کے سرگرم کارکن تھے، ان کا خیال ہے کہ ’’اسلامی نظریہ ہی پاکستان کی اساس اور وجۂ جواز ہے‘‘ (ص ۷۷)۔ معروف ناول نگار، شاعر اور بیوروکریٹ فضل احمد کریم فضلی نے کہا: ’’اسلامی نظریے ہی نے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے دلوں کو گرمایا، روح کو تڑپایا اور اُنھیں ایک ایسا نصب العین بخشا جس کے لیے وہ لٹنے، تباہ ہونے، بسے بسائے گھر اُجاڑنے اور اپنی جان تک قربان کرنے پر تیار ہوگئے‘‘۔ (ص ۱۲۱)
چراغِ راہ کے سوالات میں یہ بھی پوچھا گیا تھا کہ گذشتہ برسوں میں پاکستان اسلامی نظریے سے قریب آیا ہے یا اُس سے دُور ہٹا ہے؟ اور اسی طرح یہ کہ اسلامی نظریے کو عملاً بروے کار لانے کے لیے کون سے اقدامات ضروری ہیں؟ مذاکرے کے شرکا نے نہ صرف ان سوالوں کے جواب دیے ہیں بلکہ اُن وجوہ کا بھی ذکر کیا ہے جو پاکستان کو اسلامی نظریے سے قریب آنے میں مانع رہی ہیں، اور پھر یہ بھی بتایا ہے کہ اسلام کے نفاذ کے لیے زمین کو ہموار کرنا کس قدر ضروری ہے۔ اس سلسلے میں فرزندِ اقبال جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال کہتے ہیں: ’’اسلامی نظریے کو عملاً بروے کار لانے کے لیے ذہنیتوں میں انقلاب لانا ضروری ہے‘‘ (ص ۸۰)۔ ایک اور چیز جس کی طرف ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، ڈاکٹر سید عبداللہ اور پروفیسر حمیداحمد خاں نے متوجہ کیا ہے، وہ نظامِ تعلیم کی اصلاح ہے۔ اس ضمن میں معروف مؤرخ، دانش ور، سابق رئیس الجامعہ کراچی اور وزیرتعلیم ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کا خیال ہے کہ اوّل ہمارے اساتذہ کے کردار میں اسلام کا عمل دخل ضروری ہے۔ دوسرے، ہماری ذہنیتوں کو وہی تعلیم بدل سکتی ہے جو طلبہ کے اندر ’صحیح دینی ذوق‘ پیدا کرے اورٹھیٹھ اسلامی ذہنیت اور رجحانات کی حوصلہ افزائی کرے۔(ص ۶۳)
پروفیسر حمید احمد خاں کہتے ہیں: جب تک تعلیم میں بنیادی اصلاحات نہ کی جائیں گی، ہمارے طالب علم اسلامی نظریے سے مانوس نہ ہوں گے۔ اُن کے نزدیک بنیادی اصلاحات میں قرآن و سنت کا فہم، فارسی، عربی اور اُردو کی تعلیم، انگریزی کے بجاے اُردو ذریعۂ تعلیم اور استاد اور شاگرد کا بہتر سطح پر باہمی تعلق شامل ہیں۔ (ص ۹۲)
خان لیاقت علی خان سے لے کر بے نظیر بھٹو تک پاکستان کے تمام وزراے اعظم اور غلام محمد سے لے کر زرداری تک (بشمول ایوب خان، یحییٰ خان، چودھری فضل الٰہی، جنرل ضیاء الحق، فاروق لغاری اور جنرل مشرف) سبھی صدورِ مملکت سال میں دو بار قائداعظم اور علامہ اقبال کو ہمیشہ خراجِ تحسین پیش کرتے رہے لیکن علامہ اقبال اور قائداعظم جس قسم کے پاکستان کی تعمیر چاہتے تھے یا پاکستان کو جس منزل کی طرف لے جانا چاہتے تھے (وہ منزل اسلامی نظام کی منزل تھی اور ایک جدید اسلامی ریاست کی منزل تھی)، ان لوگوں نے ہمیشہ اس راہ میں روڑے اٹکائے بلکہ جس کسی نے نظامِ اسلامی کا مطالبہ کیا، اسے پکڑا، جیل میں ڈالا، یا اُسے پاکستان مخالف قرار دے کر پروپیگنڈا مشینری سے بدنام کرنے کی کوشش کی۔ اب دیکھیے علامہ اقبال نے خطبۂ الٰہ آباد میں مسلمانوں کے لیے ’منظم اسلامی ریاست‘ کا ذکر کیا تھا اور اس کے بعد اُنھوں نے نظریۂ قومیت کی بحث میں مولانا حسین احمد مدنی کے فرمودات کے جواب (روزنامہ احسان، ۹مارچ ۱۹۳۸ء ) میں واضح کر دیا تھا کہ فقط ’’انگریز کی غلامی سے آزاد ہونا منتہاے مقصود نہیں ہے بلکہ ہمارا مقصد اسلامی حکومت کا قیام ہے۔ ایک باطل کو مٹاکر، دوسرے باطل کو قائم کرنا چہ معنی دارد؟ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ ہندستان کلیتاً نہیں تو ایک بڑی حد تک دارالاسلام بن جائے لیکن اگر آزادیِ ہند کا نتیجہ یہ ہو کہ جیسا دارالکفر ہے،ویسا ہی رہے یا اس سے بھی بدتر بن جائے تو مسلمان ایسی آزادیِ وطن پر ہزار مرتبہ لعنت بھیجتا ہے، ایسی آزادی کی راہ میں لکھنا بولنا، روپیا صرف کرنا، لاٹھیاں کھانا، جیل جانا، گولی کا نشانہ بننا سب کچھ حرام اورقطعی حرام سمجھتا ہے‘‘۔ (مقالاتِ اقبال، مرتبین: سیّد عبدالواحد معینی، محمدعبداللہ قریشی، آئینہ ادب، لاہور، ۱۹۸۸ء، ص ۲۷۹)
علامہ اقبال کی یہ بات ہوبہو مولانا مودودیؒ کی تائید تھی۔ مولانا مودودی علامہ اقبال کے مذکورہ بالا بیان سے پہلے یہ کہہ چکے تھے کہ: ’’انگریز کی غلامی کے بند توڑنا ضرور آپ کا فرض ہے۔ [مگر] آپ کا کام باطل کو مٹاکر حق قائم کرنا ہے۔ ایک باطل کو مٹا کر دوسرے باطل اور بدتر باطل کو قائم کرنا نہیں ہے‘‘ (ترجمان القرآن، صفر ۱۳۵۶ھ [اپریل ۱۹۳۷ء]،جلد۱۰، عدد۲،ص ۹۰)۔ پھر ایک ماہ بعد مولانا نے لکھا: ’’یہ ملک، کلیتاً نہیں تو ایک بڑی حد تک دارالاسلام بن جائے لیکن اگر آزادیِ ہند کانتیجہ یہ ہو کہ یہ جیسا دارالکفر ہے ویسا ہی رہے یا اس سے بدتر ہوجائے تو ہم بلاکسی مداہنت کے صاف صاف کہتے ہیں کہ ایسی آزادیِ وطن پر ہزار مرتبہ لعنت ہے اور اس کی راہ میں بولنا، لکھنا، روپیا صرف کرنا، لاٹھیاں کھانا اور جیل جانا سب کچھ حرام قطعی حرام ہے‘‘۔ (ترجمان القرآن، ربیع الاوّل ۱۳۵۶ھ [مئی ۱۹۳۷ء] جلد۱۰، عدد ۳، ص ۱۶۹-۱۷۰)
قیامِ پاکستان کے بعد قائداعظم نے انھی خطوط پر ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ء کو یہ کہا تھا کہ: ’’لوگوں کا ایک طبقہ [اور یہاں اُن کی مراد وہی سیکولر اور دو قومی نظریے سے منحرف طبقہ ہے جس کی ذُریت آج اسلامی نظریے کو مسخ کرنے میں پیش پیش ہے] جو دانستہ طور پر شرارت کرنا چاہتا ہے، یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کے دستور کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے گی۔ حالانکہ آج بھی اسلامی اصولوں کا اُسی طرح زندگیوں پر اطلاق ہوتا ہے جس طرح تیرہ سو برس پیش تر ہوتا تھا‘‘۔ (قائداعظم: تقاریر و بیانات، جلد۴، بزمِ اقبال لاہور، ص ۴۰۲)
قائدعظم نے جس ’شرارتی طبقے‘ کی طرف اشارہ کیا ہے، پروفیسر حمیداحمد خاں نے اس کے بارے میں ذرا کھل کر بات کر دی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’میرے خیال میں اس نظریے کی طرف بڑھنے میں وہ تمام قوتیں مزاحم ہیں جو ۱۴ سو برس پہلے کبھی ابوجہل کی شکل میں رونما ہوئی تھیں اور کبھی مسیلمہ کذاب کا روپ دھارتی تھیں۔ نام تو بس ایک اضافی سی چیز ہے کہ اپنے اپنے زمانے کے مطابق نام بدل جاتے ہیں۔ لیکن وہ جو شرارِ بولہبی ہے، وہ ہر وقت زندہ ہے اور اسلام سے برسرِپیکار بھی ہے‘‘۔ (ص ۸۶)
پروفیسر حمیداحمد خاں جسے ’شرارِ بولہبی‘ اور قائداعظم جسے ’شرارتی طبقہ‘ کہتے ہیں، اس کا ذکر ہم زیرنظر تحریر کے ابتدائی حصے میں کرچکے ہیں___ اس حوالے سے ہم زیرنظر کتاب میں شامل مولانا مودودی کی چند سطور سیکولر دانش وروں کے غوروفکر کے لیے یہاں نقل کرتے ہیں۔ مولانا لکھتے ہیں: ’’…مسلمان ہونے کے تو معنی ہی یہ ہیںکہ ہمارے خیالات اسلامی ہوں، ہمارے سوچنے کا انداز اسلامی ہو، معاملات پر ہم اسلامی نقطۂ نظر ہی سے نگاہ ڈالیں اور اپنی تہذیب و تمدن، سیاست، معیشت اور فی الجملہ اپنے پورے نظامِ زندگی کو اسلام کے طریقے پر چلائیں۔ اگر ہم ایسا نہ کریں تو آخر کس بنا پر ہم اپنے آپ کو مسلمان کہنے کے حق دار ہوسکتے ہیں؟ مسلمان ہونے کا دعویٰ بھی کرنا اور پھر اپنی زندگی کے مختلف گوشوں میں کسی غیراسلامی نظریے پر کام بھی کرنا، لازماً یہ معنی رکھتا ہے کہ یا تو ہم منافق ہیںاور دل سے مسلمان نہیں ہیں، یا پھر ہم جاہل ہیں اور اتنا شعور بھی نہیں رکھتے کہ مسلمان ہونے کے کم سے کم منطقی تقاضے کیا ہیں؟‘‘ (ص ۳۳)۔ ہمارا خیال ہے کہ پاکستان کی اسلامی شناخت پر گرد اُڑانے والے سیکولر دانش وروں کو غور کرنا چاہیے کہ ان کی اپنی ’شناخت‘ کیا ہے؟
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامیوں اور سیکولرسٹوں کے درمیان جو کش مکش اور پیکار جاری ہے، زیرنظر کتاب دانش و برہان کے اسلحے کے ذریعے اسلامیوں کے ہاتھ مضبوط کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ بقول مرتب: ’’آج پاکستان جن مسائل میں گھرا ہوا ہے، اس کا واحد حل دوقومی نظریے کی بازیافت اور اسلامی نظریۂ حیات کے لیے مکمل یکسوئی میں پوشیدہ ہے‘‘۔ (ص ۲۸)
(پاکستان اور اسلامی نظریہ، پروفیسر خورشیداحمد، مرتب: سلیم منصور خالد۔ منشورات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۴۳۴۹۰۹-۰۴۲۔ صفحات: ۲۴۸۔ قیمت: ۲۷۵ روپے۔)
اسلامی تاریخ اور سیرتِ طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زمانی تقسیم کے لحاظ سے مکّی اور مدنی ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے اور عموماً یہ خیال پایا جاتا ہے کہ مکّی دورِ عقیدہ سے متعلق تعلیمات و ہدایت سے تعلق رکھتا ہے اور مدنی دور میں معاشرتی، معاشی اور سیاسی تعلیمات نازل ہوئیں۔ یہ تصور نہ صرف عام افراد میں بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اہلِ علم میں بھی بڑی حد تک ایک حتمی شکل اختیار کرگیا ہے اور سمجھ لیا گیا ہے کہ مکّی دور عبادت، تزکیۂ نفس اور تعمیرِ شخصیت و کردار سے تعلق رکھتا ہے، جب کہ مدنی دور میں سماجی معاشرتی، سیاسی اور بین الاقوامی معاملات کے حوالے سے ہدایات دی گئیں، بالخصوص حدود و تعزیرات کے بارے میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ ان کی تعلیم و نفاذ صرف مدنی دور ہی میں ہوا۔
دیکھا جائے تو اسلام کی دعوت کا نقطۂ آغاز توحید ہے اور توحید نہ صرف توحید ذات ہے بلکہ توحید صفات اس کا لازمی حصہ ہے اور یہی مفہوم توحید تمام انبیاے کرام کی دعوت کی بنیاد تھا کہ ’’اللہ کے بندے بنو اور ہرقسم کے طاغوت سے کنارہ کش ہوجائو‘‘۔ اگر مسئلہ عقیدہ و عبادت کے حوالے سے چند مختلف تصورات کا ہوتا تو اہلِ مکہ کو اسلام سے کوئی شکایت نہ ہوتی۔ انھوں نے جہاں ۳۶۵ خدائوں کے لیے اپنے دل میں جگہ بنا رکھی تھی وہاں ایک اللہ کے اضافے سے کون سی تنگی ٔ داماں پیدا ہوجاتی۔ جس حرمِ کعبہ میں عرب کے گوشے گوشے سے آئے ہوئے افراد اپنی اپنی سمجھ کے مطابق عبادت ادا کر رہے تھے، اس میں مسلمانوں کے طرز کی عبادت وہ صلوٰۃ ہو یا اعتکاف اور قیام و قعود، اس کی ادایگی سے ان کے خدائوں کی ریاست میں کوئی انقلاب برپا نہ ہوتا۔
اہلِ مکہ، قریش اور مشرکینِ قبائل کو اچھی طرح علم تھا کہ اگر اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی توحید ذات اور توحید صفات کو تسلیم کرلیا گیا تو پھر ان کی معاشرت، معیشت اور سیاست کی جاہلی بنیادیں، عصبیتیں، تعصبات و ترجیحات میں بنیادی تبدیلی آجائے گی۔ وہ جو سود پر تجارت کرتے تھے، جن کی اخلاقیات جنسی اباحیت پر مبنی تھیں اور جو قبائلی برتری کی بناپر کم تر قبائل کو اعلیٰ مناصب کے لیے نااہل سمجھتے تھے، بخوبی جانتے تھے کہ اسلامی اخوت و عدالت کے پیش نظر اپنی ماضی کی روایات اور آباو اجداد کے طریقوں، تبرجاتِ جاہلیہ کو چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ یہ سودا ان کے لیے بہت آسان نہ تھا۔
اس لیے مکّی دور میں دعوتِ اسلامی کے آغاز ہی سے اہلِ مکہ اور اہلِ عرب کے سامنے یہ بات واضح تھی کہ یہ ایک دعوتِ انقلاب ہے۔ ماضی کی روایات، تصورات اور تعصبات کی جگہ ایک نئے تصورِ حیات کے اپنانے کا شعوری فیصلہ ہے،اور اس بنا پر انھوں نے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو حق و صداقت پر مبنی ماننے کے باوجود اس کا کفر و انکار کیا اور اپنے بہت سے خدائوں سے اپنا رشتہ توڑ کر اللہ وحدہٗ لاشریک کی حاکمیت اعلیٰ کے اختیار کرنے میں تذبذب اور تجاہل سے کام لیا۔
اس حوالے سے غور کرنے کا ایک اہم زاویہ یہ بھی ہے کہ اگر اسلام مجموعی تبدیلی اور اللہ کی بندگی میں کُلّی طور پر داخل ہونے کا نام ہے تو کیا ۱۳ سال کے عرصے میں محض عبادات کی حد تک اللہ کی بندگی ہونی چاہیے تھی، یا عبادات کے ذریعے جس عبدیت کا حصول مطلوب تھا، اُس عبدیت کا اظہار معاملات میں بھی ہونا چاہیے تھا۔ کیا مکّی دور محض نظری تعلیم کا دور تھا اور مدنی دور میں وہ تجربہ گاہ حاصل ہوئی جہاں اس نظری سرمایے کو آزمایا جائے، یا جن جن معاملات میں مکّہ کی تجربہ گاہ میں گنجایش تھی ان کو بلاتفریق نافذ کرنے کی کوشش کی گئی، اور آخرکار مدنی دور میں وہ مکمل معاشرہ وجود میں آیا، جس کی ابتدا اور بنیاد مکّی دور میں رکھی جاچکی تھی۔
زیرنظر کتاب اس لحاظ سے اہمیت رکھتی ہے کہ ہم نے جس تصورِ تاریخ کا ذکر اُوپر کیا ہے، یہ بڑی حد تک اس کی تائید میں اہم تاریخی جواز فراہم کرتی ہے۔ گو کتاب خالص علمی زاویے سے لکھی گئی ہے لیکن تحریکی ذہن اور تحریکی فکر رکھنے والے افراد کے لیے اس میں غور کرنے کے لیے بہت اہم مواد ہے۔ تحریکاتِ اسلامی جو انقلابی تبدیلی لانا چاہتی ہیں اور جس میں نظریاتی طور پر بعض اوقات یہ بات کہی جاتی ہے کہ ابھی تو مکّی دور سے گزرنے کی ضرورت ہے، اس کے بعد مدنی دور کا مرحلہ آئے گا___ کتاب میں فراہم کردہ مواد اس مفروضے پر نئے سرے سے غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
میرے مطالعہ تاریخ میں آغاز سے اس فکر کا بڑا دخل رہا ہے اور میں تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے کسی ایسی مضبوط حدبندی کا قائل کبھی نہیں رہا جس میں مکّی دور مدنی دور سے مکمل طور پر مختلف ہو۔ بعض خصوصیات میں فرق کے باوجود دونوں اَدور میں ایک منطقی تسلسل اور اندرونی ربط پایا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ قرآن کریم کی مکّی اور مدنی سورتوں میں بھی ایسی حدِفاصل کھینچنا جو ان کو مکمل طور پر دو الگ انواع بنا دے، درست طرزِفکر نہیں ہے۔ سورۂ بنی اسرائیل کے مکّی ہونے کے باوجود اس میں اسلامی ریاست کے وجود کی دلیل واضح الفاظ میں پائی جاتی ہے۔ جب خاتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعا تعلیم کی جاتی ہے کہ: اے میرے رب! مجھے سچائی کے ساتھ اس شہر سے نکال اور سچائی کے ساتھ داخل کر اور سُلطہ (اقتدار) کو میرا مددگار بنادے۔ یہاں مقصود کسی تفصیل میں جانا نہیں ہے صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ مکہ اور مدینہ دو قطعی منقسم حوالے نہیں ہیں۔ ان میں ایک فکری اور عملی ربط ہے، کیونکہ اسلام روزِ اوّل سے جامع و شامل نظام بن کر آیا۔ عملاً ایسا نہیں ہوا کہ پہلے فلسفہ اور فکری نقشہ بناکر پیش کیا گیا ہو اور پھر اسے عملاً نافذ کیا گیا ہو۔ بہت سے عملی مسائل مکّی دور میں حل کیے جا چکے تھے اور بہت سی اصلاحات کا آغاز مکّی دور میں ہوچکا تھا، جن کی تکمیل مدنی دور میں ہوئی۔
اس حوالے سے ڈاکٹر یاسین مظہرصدیقی نے جو تحقیقی مواد یک جا کیا ہے، وہ غوروفکر کی دعوت دیتا ہے۔ معاملاتِ تجارت و معیشت کے باب میں (ص ۳۸۱-۴۱۰) مصنف نے اصول و احکام تجارت میں بیع، شراکت و ندیمی (دو حضرات کا ایک دوسرے کا تجارتی ساتھی ہونا)، اور مضاربت کے حوالے سے حیاتِ مبارکہ صلی اللہ علیہ وسلم اور عرب میں مروجہ طریقوں سے بحث کی ہے، جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مکّی اور مدنی دور میں مضاربت اور مشارکت کے اسلامی اصولوں میں عدل و انصاف کے اصول کس طرح اختیار کیے گئے۔ تجارتی معاہدوں اور دارالاسلام اور دارالحرب میں تجارتی روابط کا قاعدہ و کلیہ بھی مکّی دور میں وجود میں آچکا تھا (ص ۳۹۹)۔ اُجرت اور اجیر کے احکام کے حوالے سے مکّی دور سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ بکریوں کے چرانے کا معاوضہ کس طرح متعین کیا جائے (ص ۴۰۶)۔
اسلام معاشرت و معیشت و سیاست کی بنیاد جن اصولوں پر ہے ان میں عدل کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، چنانچہ وَ اِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا (الانعام ۶:۱۵۲) کا اصول سورئہ نحل میں مزید واضح کر دیا گیا کہ اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ (۱۶:۹۰)، یعنی اللہ تعالیٰ عدل کا حکم دیتا ہے۔ اس عدل کی عملی شکل ناپ تول میں کمی نہ کرنا اور پیمانوں کا صحیح طور پر استعمال کرنا مکّی آیات میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔ چنانچہ سورئہ انعام میں وَ اَوْفُوا الْکَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ (۶:۱۵۲) اور سورئہ اعراف (۷:۸۵) میں فَاَوْفُوا الْکَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ… یا سورئہ بنی اسرائیل (۱۷:۳۵) میں وَاَوْفُوا الْکَیْلَ اِذَا کِلْتُمْ وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ…یا سورئہ ہود (۱۱:۸۴-۸۵) میں ’’اور نہ گھٹائو ماپ اور تول… اے قوم پورا کرو ماپ اور تول انصاف سے‘‘___ان آیاتِ مبارکہ میں مکّی دور میں ہی مسلمانوں اور غیرمسلموں کو اسلامی معیشت سے آداب و احکام سے آگاہ کرنے کے ساتھ حُرمت بیان کر دی گئی۔ احسان کا حکم بھی مکّی دور ہی میں نازل ہوگیا۔ ھَلْ جَزَآئُ الْاِِحْسَانِ اِِلَّا الْاِِحْسَانُ (الرحمٰن ۵۵:۶۰)
معاشرتی معاملات میں عفو و درگزر سے کام لینا (الاعراف ۷:۱۹۹) یا (تغابن ۶۴:۱۴) بھلائی کے ذریعے برائی کو دُور کرنا۔ الاعراف:۹۵اور الشوریٰ:۴۰، عہد کا پورا کرنا (نحل ۱۶:۹۱) امانت کی اہمیت اور احکام الاعراف:۱۸، الشعرائ: ۱۰۷، ۱۲۵، ۱۴۳، ۱۶۲، ۱۷۸، یا الدخان:۱۸ وغیرہ میں ان پہلوئوں کو واضح اور قطعی شکل دے دی گئی۔ والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک بھی مکّی آیات میں بہت اُبھر کر سامنے آتا ہے۔ چنانچہ الانعام (۶:۱۵۲)، بنی اسرائیل (۱۷:۲۳)، الاحقاف (۴۶:۱۵) اس کی واضح مثالیں ہیں۔ مساکین کے حقوق الماعون میں کھول کر بیان کردیے گئے۔ یتیموں کے ساتھ بھلائی کے برتائو کے حوالے سے الفجر (۸۹:۱۷-۱۸) میں تاکید کی گئی کہ اہلِ مکّہ اور قریش یتیم کی عزت نہیں کرتے اور محتاج کو کھانا نہیں کھلاتے۔
خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے الضحیٰ میں اشارہ کیا گیا کہ صاحب ِ وحی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے ماننے والے کس طرح یتیم کے ساتھ پیش آئیں۔ سورئہ دہر (۷۶:۵) میں محتاج اور بن باپ کے لڑکے کو کھانا کھلانے کی ترغیب و تعلیم دی گئی۔ سائل و محروم کے حقوق کا تعین بھی کر دیا گیا۔ چنانچہ سورئہ ذاریات (۵۱:۱۹) میں اموال میں سائل و محروم کا حق رکھ دیا گیا۔ المعارج (۷۰:۲۴-۲۵) میں اسی بات کی توثیق و تائید کی گئی۔ مہمانوں کے حقوق کے حوالے سے سورئہ ذاریات میں حضرت ابراہیم ؑ کی ایمان داری کا واقعہ اور الحجر کی آیت۳ میں اس طرف تعلیم مکّی دور سے تعلق رکھتی ہے۔ ایسے ہی سورئہ مزمل ، آیت ۲۰ میں بیمار کی عیادت کا اصول بیان کر دیا گیا۔ شوریٰ جو اسلامی ریاست اور اصولِ حکومت کا بنیادی رکن ہے اس کی طرف بھی مکی وحی میں الشوریٰ:۳۷ میں متوجہ کر دیا گیا۔
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ گو آیات جہاد و قتال کی اکثریت مدنی ہے، لیکن جہاد بمعنی دفاع و مدافعت کے اصول کو مکّی دور کی شکل میں بدلہ لینے کی اجازت بلکہ حق کو تسلیم کرتے ہوئے بیان کردیا گیا۔
معاشی معاملات میں خصوصاً سود (ربو.ٰ) کے حوالے سے سورئہ روم کی آیت۳۹ میں یہ ارشاد فرماکر وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاْ فِیْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰہِ ج (جو سود تم دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال میں شامل ہوکر وہ بڑھ جائے، اللہ کے نزدیک وہ نہیں بڑھتا) اہلِ ایمان کو مکمل طور پر تحریم کے آنے سے قبل ہی ذہناً اور عملاًیہ بات سمجھا دی کہ سود سے مکمل اجتناب کرنا توحید کے مطالبات میں سے ہے، نہ صرف یہ بلکہ اس سے یہ بات بھی واضح کر دی گئی کہ سود سابقہ شرایع میں بھی حرام ہی تھا۔ اس لیے بعد میں اس کی حُرمت اس سلسلۂ تعلیم و تشریع کی تکمیل کی حیثیت رکھتی ہے۔
حدیث پہ غورکیا جائے تو حدیث معراج میں جن مشاہدات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ ہے ان میں سود، زنا، غیبت، حرام مال کھانے والوں، مال غصب کرنے والوں، سب کا تذکرہ یہ ثابت کرتا ہے کہ مکّی دور میں ہی میں ان کی حُرمت کی طرف واضح اشارہ کر دیا گیا تھا۔
بے حیائی کے کام بالخصوص زنا کے حوالے سے سورئہ فرقان (۲۵:۶۸) اور بنی اسرائیل (۱۷:۳۲) میں کہا گیا کہ اہلِ ایمان ان سے بچتے ہیں۔ گویا حدِ زنا سے قبل بھی زنا کو حرام قرار دیا جاچکا تھا۔ ہجرت سے قبل جن اہلِ یثرب سے بیعت لی گئی اس میں بھی سرقہ، افترا، قتل، شرک کے علاوہ زنا سے اجتناب کی شرط بھی شامل تھی۔ گویا احکامِ تحریم مکی دور ہی میں آچکے تھے۔ (تفصیلات کے لیے دیکھیے: بخاری، کتاب مناقب الانصار، باب وفود الانصار)
زنا جسے قرآن کریم نے فواحش میں شامل کرتے ہوئے کبیرہ گناہ قرار دیا ہے، مکّی آیات میں بصراحت اس کی حُرمت کا ذکر پایا جاتا ہے۔ سورئہ انعام میں ہے: وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَ مَا بَطَنَ(۶:۱۵۱) ۔ ایسے ہی الاعراف میں قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَ مَا بَطَنَ وَ الْاِثْمَ وَ الْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ (۷:۳۳) ، یا الشوریٰ میں ہے وَالَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ کَبٰٓئِرَ الْاِِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ (۴۲:۳۷)، اسی طرح النجم میں اَلَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ کَبٰٓئِرَ الْاِِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ (۵۳:۳۲) کا واضح بیان یہ ظاہر کرتا ہے کہ حدِ زنا سے قبل ہی تحریم کے احکام آچکے تھے۔ لیکن چونکہ حد کے اجرا کے لیے حکومتی ادارے کی ضرورت تھی اس لیے حدود کا نفاذ مکّہ میں نہیں کیا گیا بلکہ ریاست کے قیام مدینہ منورہ میں عمل میں آیا۔
’فحشائ‘ کی اصطلاح اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ مکّی دور ہی میں بڑی برائیوں کی حُرمت کا حکم آچکا تھا۔ چنانچہ سورئہ یوسف (۱۲:۲۴) میں یا النحل (۱۶:۹۰) میں یا العنکبوت (۲۹:۴۵) میں بصراحت فحش سے اجتناب کے حکم کی موجودگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ احکام یکایک مدینہ میں نازل نہیں ہوئے، گو ان کی تکمیل مدینہ ہی میں ہوئی۔
قتلِ نفس کے حوالے سے بھی جو اسلام اور ماقبل کی شریعتوں میں حرام تھا مکّی آیات میں واضح احکام ملتے ہیں۔ بنی اسرائیل (۱۷:۳۳) میں ’’اور نہ مارو جان سے، حرام کیا ہے اللہ نے مگر حق پر‘‘۔ ایسے میں الفرقان (۲۵:۶۸) میں یا الانعام (۶:۱۵۲) میں واضح احکام کا نزول ہوا۔
مندرجہ بالا مثالوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ گو اسلامی شریعت میں سزائوں بالخصوص حدود کے حوالے سے احکام مدینہ منورہ میں آئے، لیکن ان جرائم کا جرم ہونا اور ان سے اجتناب کرنے کا حکم مکّی دور ہی میں آچکا تھا۔ حتیٰ کہ شراب کے حوالے سے گو آیت تحریم الخمر سورئہ مائدہ میں آئی لیکن جو اشارے پہلے کیے جا چکے تھے ان کی بنا پر اس سے اجتناب مکّی دور ہی میں شروع ہوچکا تھا۔
اسلام جس تہذیب و اخلاق کا علَم بردار ہے وہ ایک کلّی اور ہمہ گیر تہذیب و اخلاق کا علَم بردار ہے وہ ایک کُلی اور ہمہ گیر تہذیب ہے جس میں اصل قوتِ محرکہ قانون کی گرفت نہیں ہے بلکہ انسان کے اندر کا وہ ضمیر ہے جسے حدیث نبویؐ نے ’مفتی‘ سے تعبیر کیا ہے۔ جب دل اپنی صحیح حالت میں ہو اور پتھر کی وہ سنگلاخ شکل اختیار نہ کر گیا ہو جو نہ لرزے نہ خوفِ الٰہی سے پھٹے تو انسان کا دل اسے کسی فحش کے ارتکاب پر نہ آمادہ کرسکتا ہے، نہ اس کی ترغیب دے سکتا ہے۔ ہاں، جب قلب یکے بعد دیگرے گناہوں کی کثرت سے ان کا عادی بن جائے تو پھر وہ اسے صحیح فتویٰ نہیں دے سکتا۔
الغرض مکّی اور مدنی ادوار کو ایک دوسرے سے مکمل طور پر الگ کر کے دیکھنا حقیقت ِ واقعہ سے زیادہ مناسبت نہیں رکھتا۔ احکام کا نزول و اجرا ایک مسلسل عمل ہے جو مدینہ میں اپنی تکمیل کو پہنچا لیکن اصلاً احکام کا علم اور اسلام قبول کرنے کے عملی نتائج کا شعور و ادراک مکّی دور میں ہی ہوچکا تھا۔ یہی سبب ہے کہ اہلِ مکّہ نے اپنی پوری قوت کے ساتھ اسلام کی انقلابی تحریک کو روکنے کی پوری کوشش کی۔ انھیں علم تھا کہ یہ چند نظری اصولوں یا عبادات کا نام نہیں ہے بلکہ ایک دعوتِ انقلاب اور دعوت ماہیت قلبی ہے جس میں سیاسی، معاشرتی، معاشی طرزِعمل کو بدلنا ہوگا۔ اسلامی حدود کے اجرا سے قبل ان کی حُرمت اور اہلِ ایمان کے حقوق و فرائض کی وضاحت مکّی دور ہی میں ہوچکی تھی۔
کتاب میں جو مواد تحقیق کے ساتھ جمع کیا گیا ہے وہ اہلِ علم کے لیے فکری غذا فراہم کرتا ہے اور سیرت و تاریخ کے طلبہ کے لیے غیرمعمولی طور پر اہم معلومات کا حامل ہے۔ ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی صاحب اس علمی کام پر شکریے کے مستحق ہیں۔
(مکّی عھدِ نبویؐ میں اسلامی احکام کا ارتقا، ڈاکٹر محمد یاسین مظہرصدیقی، ناشر: نشریات، ۴۰-اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۳۲۰۳۱۸۔ صفحات: ۵۹۸۔ قیمت: درج نہیں۔)
مغرب کی ایک خوبی کا اعتراف نہ کرنا، نادانی ہوگا۔ اپنے دوستوں کی طرح وہ اپنے حقیقی یا مزعومہ دشمنوں سے بھی (اپنے مخصوص زاویے سے) وابستگی رکھتے ہیں، اور ان پر گہری نظر بھی رکھتے ہیں۔ ۱۸ویں؍۱۹ ویں صدی میں مسلم دنیا کو فتح کر کے زیرنگیں لانے والے اہلِ مغرب نے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں جتنا کچھ لکھا، کمیت کے اعتبار سے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ ۲۰ویں اور اب ۲۱ویں صدی میں، جب کہ رُوحِ مغرب کی اسلام سے آویزش ایک نئی شکل اختیار کر گئی ہے، وہاں کی مجالسِ دانش (think tanks) اور دانش ور، پینترے بدل بدل کر اسلام سے نبردآزما ہو رہے ہیں۔ ایسا ہی ایک مطالعہ زیڈین میری بوتے کی کتاب Islam's Fateful Path (اسلام کی پُرخطر راہ) کی صورت میں سامنے آیا ہے جو پیش نظر ہے۔ بقول اسما افسرالدین (پیش نظر کتاب کی ایک مبصرہ)، جو یونی ورسٹی آف نوٹرے ڈیم میں عربی اور اسلامیات کی استاد ہیں___ مذکورہ بالا کتاب کے مصنف کی یہ کوشش قابلِ داد ہے کہ انھوں نے اسلامی روایات کے تنوع، رواداری، حقوقِ انسانی کی پاس داری، خواتین کے مرتبے اور مذہبی حریت کی طرف بھی اشارے کیے ہیں، جب کہ مسلم اور غیرمسلم، دونوں جانب کے انتہا پسند، مشترک اقدار اور پُرامن بقاے باہمی کو نظرانداز یا مسترد کرتے نظر آتے ہیں۔
خود مصنف (ایک فرانسیسی عالم اور انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈکراس کے سینیر لیگل کنسلٹنٹ) کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ آیا اسلام، خوف، عدم برداشت، قسمت پر قناعت (fatalism)، دہشت گردی اور حقوقِ نسواں کے بارے میں حقارت و تردید کا مذہب ہے، یا اس کے برخلاف یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جسے غلط سمجھا گیا اور بدنام کیا گیا ہے۔ کیا مخالف مبصرین نے اس کے درست اخلاقی پیغام کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے؟ وجوہ سیاسی ہوں یا ذاتی (ص vii)۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ کتاب کا ذیلی عنوان The Critical Choices Facing Modern Muslims (دورِ جدید کے مسلمانوں کے لیے پُرخطر ممکنہ راستے) مصنف کے نقطۂ نظر کی غمازی کرتا نظر آتا ہے۔
مصنف کو اس بات کا شعور ہے اور ایک حد تک اعتراف بھی کہ مسلمان دانش ور جب یہ خیال کرتے ہیں کہ موجودہ دَور میں نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد مغرب نے، مشرقی دنیا (خصوصاً مسلم دنیا) کو زیرنگیں کرنے کے لیے ایک نئی حکمت عملی اپنائی ہے: اب فتوحات، ’’روحانی اور معاشی میدان میں ہوں گی‘‘___ اور یہ خیال کچھ ایسا غلط بھی نہیں، بقول مصنف: یہ حکمت عملی کوئی نئی نہیں ہے۔ فرانس کے صلیبی جنگ جُو شاہ لُوئی نہم (سینٹ لُوئی) نے ایک خفیہ دستاویز میں یہ اعتراف کرنے کے بعد کہ مسلمانوں کو جنگ کے ذریعے فتح کرلینا مشکل ہے، دوسرے حربوں سے کام لینے کی تلقین کی۔ لُوئی نہم کو ایک مقدس اور متبرک ہستی خیال کیا جاتا تھا۔ اس نے یروشلم سمیت مقاماتِ مقدسہ کو فتح کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، تاکہ انھیں ’بے دین کافروں‘ (مسلمانوں) کے ہاتھوں سے چھڑایا جاسکے۔ ۱۲۴۸ء میں اس نے مصر پر حملہ کیا۔ ناکام رہا، قیدی بنا اور بعد میں فدیہ دے کر رہا ہوا۔ دوسری کوشش میں کارتھیج (شمالی افریقہ) فتح کرنے کی مہم بھی ناکامی سے دوچار ہوئی۔ تاہم، مرنے سے پہلے اس نے اپنے ’مسلمان دشمنوں‘ کا قلع قمع کرنے کے لیے عیسائی بھائیوں کو وصیت کی کہ وہ مشرقی زبانیں سیکھیں، مسلم دینیات اور عقائد کا تنقیدی نقطۂ نظر سے مطالعہ کریں، اور اس طرح تعلیم و تلقین کے ہتھیاروں سے اپنے دشمن کو مسخر کریں۔ (ص ۳)
یوں ’مستشرقین‘ ___ عربی اور اسلامیات کے غیرملکی، غیرمسلم ماہرین کا وہ گروہ پیدا ہوا، جس نے تحقیق اور تصنیف کے ذریعے اسلام کی بیخ کنی شروع کی۔ اگرچہ شروع ہی سے علما اور مسلم دانش وروں نے ہمیشہ ان مستشرقین کی ’علمی کاوشوں‘ کو شک و شبہے ہی کی نظر سے دیکھا ہے، اور کبھی اسے قبول نہیں کیا۔ لیکن یہ کوشش جاری ہے، اور اس کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نظر نہیںآتا کہ ایک طاقت ور عقیدے پر اس کے اندر گھس کر تخریبی کارروائی کی جائے۔
کیا یہ خیال ’مسلم بنیاد پرستوں‘ کا مزعومہ ہے؟ وہم ہے یا حقیقت؟ مصنف اس سلسلے میں دوٹوک گفتگو نہیں کرتے۔ کبھی محسوس ہوتا ہے کہ وہ مغرب کی اس ’سازش‘ کو بے نقاب کر رہے ہیں، اور کبھی وہ خود اس کا ایک حصہ اور ایک کردار نظر آتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ عیسائی مغرب کی اسلام سے اس مخاصمت کے اسباب کیا ہیں؟
مصنف کے نزدیک اس سوال کا جواب صدیوں کی تاریخ پر محیط ہے۔ لیکن صورت حال بہت واضح ہے: اسلام اپنی ابتدا ہی سے ایک طاقت ور، ساری دنیا پر چھا جانے کا عزم رکھنے والی ایک تحریک کے طور پر ظہور پذیر ہوا۔ ناقابلِ مزاحمت قوت کے ساتھ وہ کرئہ ارض پر پھیلتا چلا گیا۔ عیسائیوں، ایران کے ساسانیوں، ہندوئوں اور کنفیوشسیوں سے اس نے وسیع علاقے چھین لیے۔ اس کے پھیلنے کی رفتار اور نفوذ کی صلاحیت بھی اس نفرت کا ایک سبب ہے جو عالمی سطح پر صدیوں سے اسلام کے حصے میں آئی ہے۔ ان ’’شکست خوردہ اقوام میں عیسائی متاثرین وہ واحد قوم ہیں، جو محمد [صلی اللہ علیہ وسلم] کو …………… سمجھتے ہیں‘‘ [یہاں ایسے الفاظ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں لکھے گئے ہیں، جنھیں کوئی بدبخت اور شقی القلب بددیانت ہی زیرقلم لاسکتا ہے] (ص ۴)۔ مغرب، اسلام کو ایک بے شعور، عقل سے کورا، قدامت پسند اور وحشیانہ مذہب گردانتا ہے، جو ایک دینی پاور بلاک کی حیثیت سے ساری دنیا پر اپنے غلبے کے لیے کوشاں ہے کہ یہ اسے اپنا حق سمجھتا ہے (ص ۴، ۵)۔ ۱۹۹۰ء کے عشرے سے مسلم دنیا اور مغرب کی آویزش نے ایک نہایت متشددانہ صورت اختیار کرلی ہے، اور دونوں فریق ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ (ص ۵)
یہ ہے وہ مزعومہ پس منظر جس میں یہ کتاب لکھی گئی ہے۔
اہلِ مغرب کو اس جنگ میں ایک اُمیدافزا بات یہ نظر آتی ہے کہ خود مسلم دنیا بھی کوئی ایک مضبوط اکائی (monotithic block) نہیں رہی بلکہ اس میں ’بنیاد پرستوں‘ اور عقلیئین (rationalists) ___ مراد روشن خیالوں ___ لادین اور اہلِ تصوف کے درمیان ایک پُرتشدد آویزش صاف نظر آتی ہے۔ پھر صدیوں سے شیعہ سُنّی، فلسفی، صوفی، روشن خیالی اور قدامت پسندی کی خلیجیں ہیں۔ مختلف مسلم ملکوں کے درمیان جھگڑے ہیں، جنھیں بڑھانے کی ضرورت ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس نوصلیبی جنگ کا ادراک کرکے مسلمانوں کی وسیع اکثریت کے ذہن میں ایک ردعمل انگڑائی لے رہا ہے، اور وہ ہے ’اسلام کی طرف رجعت‘۔
مصنف کے خیال میں اگر مسلم عوام کے خدشات دُور نہ کیے گئے، اور خصوصی کوشش کے ذریعے اُن کے دلوں میں اعتماد نہ پیدا کیا گیا، تو اسلام پسندی کا یہ چیلنج جو مغرب (اور ساری دنیا) کو درپیش ہے، ایک ایسا فلیتہ بن جائے گا، جو پہلے تو مشرق وسطیٰ کو دہکائے گا اور پھر افریقہ، ایشیا، امریکا کے دونوں براعظموں اور جلد یا بدیر خود یورپ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ اس طرح آنے والے برسوں میں دہشت گردی اور مسلح تصادم عام ہوجائیں گے۔ مسلح جھڑپوں کے علاوہ اس جنگ کو بھڑکانے کے دوسرے ذرائع بھی اختیار کیے جائیں گے۔ بنیاد پرست مسلمان، ہتھیار سازی، خصوصاً کیمیائی، حیاتیاتی اور نیوکلیائی کی تیاری اور استعمال پر توجہ مرکوز کریں گے۔ (ص ۶)
ایک دوسرا خطرہ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کا بھی ہے۔ جنوری ۲۰۰۰ء میں دنیا میں مسلمانوں کی تعداد اندازاً ڈیڑھ ارب سے کچھ اُوپر تھی۔ مصنف کہتے ہیں کہ ’’سی آئی اے کی کتابِ حقائق‘‘ (CIA Factbook) کے اندازے کے مطابق آبادی ایک ارب ۹۰ کروڑ ۲۰لاکھ ۹۵ہزار ہے (ص ۲۱۸)۔ مصنف نے بڑی تفصیل سے یورپی ممالک اور امریکا میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کا ’تشویش ناک‘ جائزہ لیا ہے۔ فرانس میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی نے پروٹسٹنٹ عیسائیوں کی تعداد کو پیچھے چھوڑ دیا ہے (۴۰؍۵۰ ہزار مسلمانوں کے مقابل ۱۷لاکھ پروٹسٹنٹ اور ۸ لاکھ یہودی) (ص ۷)۔ مسلم ملکوں میں آبادی ۴ء۶ فی صد سالانہ کی رفتار سے بڑھ رہی ہے (ص ۲۱۲)۔ اس پر مستزاد یہ کہ بہت سے اصلی نسلی یورپی بھی اسلام قبول کرتے جارہے ہیں۔ (ص ۷)
مصنف کے خیال میں مغرب آج بھی اسلام کا مقابلہ کرنے کے لیے حسب ِ سابق ترغیب و ترہیب دونوں کا استعمال کر رہا ہے۔ مسلم دنیا اور مسلم آبادیوں پر جارحیت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو سمجھنے سمجھانے کے لیے مستشرقین کے علاوہ ’اسلامیئین‘ (ماہرین اسلامیات، Islamologists) کی ایک نئی کھیپ ظہور میں آئی ہے، جو مسلمانوں کا حلیہ بگاڑ کر اُنھیں اکثر مضحکہ خیز اور غیرانسانی ہیولوں میں پیش کرتے ہیں: یہ مسلمان کی فطرت میں داخل ہے کہ وہ سفاک اور ظالم، دغاباز، بے ایمان، منافق اور بددیانت و بدنہاد ہو (ص ۱۰)۔ ارنسٹ ریناں (Earnest Renan) نے مسلمانوں اور یہودیوں دونوں کے بارے میں ایسے ہی بے ہودہ تعصب کا اظہار کیا تھا: سامی النسل لوگ عدمِ تجسس کا شکار ہوتے ہیں۔ اُن میں رواداری کا بھی فقدان ہوتا ہے، اور یہ لوگ فتنہ انگیز ہوتے ہیں۔ مداوا؟ اسلام کو تباہ کردیا جائے۔ ریناں فرماتے ہیں: ’’جنگ کا خاتمہ اُسی وقت ہوگا جب اسماعیل [علیہ السلام] کا آخری بیٹا یا تو مرجائے یا ریگستان کی پہنائیوں میں دھکیل دیا جائے‘‘۔ (ص ۲۱۹، حاشیہ ۶)
ریناں کے پوتے ارنسٹ سیچاری (Earnest Psichari) جنھوں نے عیسائیت کو ازسرنو دریافت کیا، فرماتے ہیں کہ ’’جلد یا بدیر ہم مسلمانوں کو فتح کرلیںگے۔ ہم فاتح ہیں اور وہ فانی مفتوح۔ اور کیا درکار ہے؟‘‘ (ص ۱۹۶)، جب کہ آگست پامل (August Pomel) کے خیال :میں ’’محمدیت [اسلام] اُن معاشروں کے لیے تو ایک موزوں عقیدہ ہوسکتا ہے، جن کا سماجی ارتقا ایک وحشیانہ سطح پر آکر رک گیا ہے--- عرب معاشرہ اس کی موزوں مثال ہے--- یہ [یعنی اسلامی] معاشرہ ۳اقسام کے انسانوں پر مشتمل ہے۔ پہلی سطح پر رذیل، منافق اور کاہل مذہبی زعما کا گروہ ہے، جس کے اثرات جہالت (مذہبی عصبیت) کی پیداوارہیں۔ دوسرا گروہ پِسّو زدہ (flea bitten) اشرافیہ کا ہے جن کے نزدیک تعمیری اور پیداآوری سرگرمیاں شجرِممنوعہ ہیں۔ احمقانہ اور تخریبی سرگرمیاں ان کے معزز مشاغل ہیں۔ تیسرا طبقہ غریب، مسکین ہاریوں کا ہے، جو مندرجہ بالا دو طبقات کو پالتے ہیں، اور خود فاقہ کشی میں یا خُمس پر گزارا کرتے ہیں‘‘ (ص ۱۹۷)۔ مسلمان ’’وحشی اور بچگانہ ذہن کے لوگ ہیں… جو اپنے شان دار ماضی کی جھوٹی یادوں اور مستقبل کے بے مصرف خوابوں پر زندہ رہتے ہیں‘‘۔ (ص ۱۹۷)
مصنف کہتے ہیں کہ آج بھی مغرب کے متشدد عیسائی خود کو اعلیٰ اور مسلمانوں کو ادنیٰ خیال کرتے ہیں، اور اُن کے نزدیک مسلمانوں کا نہ کوئی ضمیر ہے نہ اخلاقیات اور نہ عزت و وقعت۔ اپنی اِنھی کمزوریوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے وہ مغرب کی اعلیٰ اقدار کے فہم سے عاجز ہیں۔ ان ’’لرزتے، کانپتے غلاموں‘‘ کے بالمقابل عیسائی اپنی سرشت کے اعتبار سے مخیر ہیں، اُس محبت کے امین، جو اُن کے اندر یسوع مسیح کے فیضان (grace) سے پیدا ہوگئی ہے۔ (ص ۱۹۶)
مصنف کے نزدیک قرونِ وسطیٰ سے انیسویں صدی تک کے مسلمانوں کے ہاں بھی یورپی اقوام کے لیے کوئی اچھی راے نہیں پائی جاتی اور آج بھی مغرب کے تسلط اور مزعومہ مظالم کے خلاف قدامت پسند اور عام مسلمانوں میں بھی، مغرب کے خلاف ایک نفرت واضح نظر آتی ہے۔ تاہم، ان کے خیال میں دنیا میں امن کے قیام کے لیے ’’ثقافتی اور مذہبی عدمِ اعتماد اور نفرتوں کو ختم کرنے‘ ‘کی گنجایش ابھی موجود ہے۔
اس میں شک نہیں کہ بعض مغربی علما نے مسلم فلاسفہ اور صوفیا پر تحقیقی کام کرتے ہوئے، مغربی تہذیب اور سائنس کو ان کا مرہونِ منت بھی بتایا ہے، تاہم اکثریت نے اہلِ مغرب کے ذہن میں اسلام کا وہ تصور بٹھا دیا ہے، جس کی عکاسی، بقول ان کے: قدامت پسند ابن تیمیہ، محمد بن عبدالوہاب اور موجودہ سعودی حکمراں کرتے ہیں۔ ۱۹ویں، ۲۰ویں صدی میں مسلم مفکرین میں مغرب پر تنقید اور اسلام کی طرف رجعت کا وہ عمل شروع ہوا، جس کی عکاسی ابوالاعلیٰ مودودی (جماعت اسلامی کے بانی)، حسن البنا (اخوان المسلمون کے بانی)، سید قطب اور بعض دوسرے مسلم مفکرین کرتے ہیں۔ برعظیم کے علاوہ افریقہ کے کئی ملکوں، تیونس، مراکش، الجزائر وغیرہ میں ان مفکرین کی تحریروں سے متاثر ہوکر، اسلام کی طرف رجعت کی تحریکیں اُبھریں۔ اُسامہ بن لادن کی تحریک، القاعدہ اور ’اسلامی جہاد‘ کی تحریکیں اسی ’تھیوکریٹک اسلام‘(سیاسی اسلام) کی پیداوار ہیں۔
اسلام کی ایک دوسری صورت اور جہت، جس کی جڑیں مسلمانوں کے روشن ادوار میں ملتی ہیں ’’وسیع المشربی، عقل دوستی اور روشن خیالی‘‘ کا اسلام ہے، جس کے بیج معتزلہ، ابنِ رشد، ابنِ سینا، الخوارزمی، منصور بن حلّاج، ابن عربی اور رومی نے ڈالے تھے۔بعد میں جمال الدین افغانی اور محمدعبدہٗ نے اسے بازیافت کیا۔ زمانۂ حال میں عبداللہ بدوی (مصر) اور محمدالجبری (مراکش) اس کے نمایندہ ہیں۔ لیکن قدامت پسند علما اور سیاست دان انھیںتسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ (ص ۱۲)
کتاب کے وسیع مباحث اسلام کی ابتدا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ اور آپؐ کے مشن اور خلافت (راشدہ، بنواُمیہ، بنوعباس) سے لے کر ۲۰ویں صدی تک پھیلے ہوئے ہیں۔ کتاب تین اجزا اور ایک اختتامیہ پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں مصنف نے قبلِ اسلام عرب معاشرے کی حالت، حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بعثت اور جزیرہ نماے عرب میں پہلی مرتبہ ایک باقاعدہ ریاست کی سیاسی تشکیل پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حضور اکرمؐ کی وفات کے بعد ہی ’اُمہ میں مستقل انتشار‘ کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جو بنوعباس کے برسرِاقتدار آنے (۶۶۰ء) تک جاری رہا، یہاں تک کہ مرکزی ’اسلامی ریاست‘ پر بنوعباس قابض ہوئے (۷۵۰ء) اور تاتاریوں (منگول) کی یلغار (۱۲۵۸ئـ) تک برسرِاقتدار رہے۔ وحشی تاتاریوں نے بنوعباس کو چن چن کر قتل کیا، مگر انھیں بغداد کی خلافت کی خواہش نہ تھی۔ خلافت کا ادارہ مصر اور پھر ترکی میں منتقل ہوگیا اور پھر مصطفی کمال کے ’روشن خیال، جدیدیت‘ کے انقلاب کے بعد ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا (۱۹۲۴ء)۔ اس طرح مسلم دنیا کی مرکزیت ختم ہوگئی۔ شرق اوسط چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہوگیا۔ مگر اس سے پہلے ہی اُمت خوارج، شیعہ، اسماعیلی، دروزی، علوی اور زیدیہ میں منقسم ہوچکی تھی۔ اس پر مستزاد اسلامی تعلیمات اور قانون پر اختلافات جو اہلِ سنت کے چار علما کے مسالک (امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل) کی شکل میں ظاہر ہوچکے تھے۔ معتزلہ، اشاعرہ اور صوفیہ کے درمیان خلیجیں الگ تھیں۔ ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوہاب نے ’سنتِ اسلام‘ کی طرف رجعت کی۔ انھی کے شاخسانوں میں ’رجعت پسند اور تنگ نظر‘ انتہا پسند نظریات بھی وجود میں آئے۔ سعودی عرب میں حکومت اور معاشرے پر اُن کی فکر کے اثرات نمایاں نظر آتے ہیں۔
’عصری اسلامیت‘ کے خالق حسن البنا، سید قطب اور سید مودودی بتائے گئے ہیں۔ یہ رجحان ۱۹ویں/۲۰ویں صدی میں مغرب کے تعامل سے وجود میں آنے والے ’روشن خیال‘ اور ’رواداری‘ والے اسلام سے متصادم ہے۔ مصر کے حسن البنا نے اسلام کو زندگی کے ایک مکمل نظام کے طور پر پیش کیا۔ مثالی اسلامی ریاست قائم کرنے کے لیے ان کی حکمت عملی کے دو زاویے تھے: اسلامی تعلیم و تربیت اور عوام میں نئے سیاسی شعور کی بیداری۔ انھوں نے اخوان المسلمون کی تحریک برپا کر کے ’اُسرہ‘ (خاندان) کا نظام قائم کیا۔ مدارس، جامعات، مساجد، ہسپتالوں اور پیشہ وارانہ تنظیموں اور سرکاری سماجی خدمت کے اداروں پر قبضہ کرنے کی کوشش کی، اور مسلمانوں کو ایک نیانعرہ دیا: اللہ ہمارا مقصود ہے، رسولؐ ہمارے قائد ہیں، قرآن ہمارا دستور ہے، جہاد ہمارا راستہ ہے، اور اللہ کی راہ میں شہادت ہماری اعلیٰ ترین خواہش اور تمنّا ہے‘‘۔ اگرچہ مصر میں شاہ فاروق کے زمانے میں حسن البنا اور پھر انقلابی حکومت (جمال عبدالناصر) کے دور میں ان کے جانشین سیدقطب کو شہید کردیا گیا، اور اس جماعت پر پابندی اور مظالم کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوا، تاہم آج بھی مصر میں اس کے زیراثر ۶ ہزار مساجد ہیں اور جماعۃ الشریعہ (ایک رفاہی تنظیم) کے ۲۰ لاکھ اراکین کام کر رہے ہیں۔
سیدابوالاعلیٰ مودودی کو بھی مصنف ابن تیمیہ /محمد بن عبدالوہاب کے متشددانہ اسلام کا ایک جدید ایڈیشن گردانتے ہیں (ص ۶۸)۔ سید نے ۱۹۲۰ء سے اپنے کام کا آغاز کیا۔ ’جماعت اسلامی‘ کے عنوان سے ایک تحریک برپا کی، آزاد خیالی اور لادینیت کے خلاف اور ’سلفی اسلام‘ کے حق میں علمی، عملی اور سیاسی میدان میں جہاد کیا (ص ۶۸-۸۰)
آزاد خیالی اور مغربی نظریات کے خلاف سیدمودودی کی تحریک، جسے پڑھے لکھے نوجوانوں اور طلبہ میں بھی پذیرائی حاصل ہوئی، بڑی حد تک پُرامن تحریک تھی۔ تاہم ۲۰ویں صدی کے وسط اور اواخر میں بین الاقوامی حالات، پہلی عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کی شکست (۱۹۶۷ء)، لبنان کی خانہ جنگی (۹۰-۱۹۷۵ء)، ایرانی انقلاب (۷۹-۱۹۷۸ء)، سوویت یونین کے افغانستان پر قبضے کی مزاحمت (۹۲-۱۹۷۹ء)، پہلی خلیجی جنگ (۹۲-۱۹۹۱ء) اور حال ہی میں عراق اور افغانستان پر امریکی یلغار نے مسلم دنیا میں مغرب کے خلاف ایک عملی فساد اور نفرت، اور نتیجتاً کچھ عملی اقدامات کی طرف رجحان کو فروغ دیا ہے، جو بقول مصنف، ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کی صورت میں سامنے آئے ہیں، جب کہ امریکا پر براہِ راست حملہ کیا گیا، خودکش حملہ آوروں نے اپنے جہاز ٹریڈ سنٹر اور پینٹاگون کی عمارتوں کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیے۔
اس قدامت پسند، ’سلفی‘ اور ’جہادی اسلام‘ کے خلاف اور بعض صورتوں میں اس کے متوازی دوسرے رجحان کی مصنف بار بار تکرار کرتے ہیں، جسے وہ ’عقلیئین کا اسلام‘ قرار دیتے ہیں۔ مصنف بار بار مسلم فلاسفہ اور دورِ جدید میں جمال الدین افغانی اور محمد عبدہٗ کا ذکر کرتے ہیں (وہ برعظیم پاک و ہند کے روشن خیالوں سرسیداحمد اور تشکیلِ جدید… والے ’نثری‘ محمداقبال کو فراموش کرگئے ہیں)۔ جمال الدین افغانی (م: ۱۸۹۷ء) نے برطانوی استعمار کے خلاف آواز بلند کی اور ایک انقلابی کی حیثیت سے شہرت پائی، وہ ہندستان، مصر، روس، فرانس، ایران، برطانیہ اور ترکی میں گھومتے اور درسِ حریت دیتے پھرے۔ محمد عبدہٗ (م:۱۹۰۵ء) بڑی حد تک جمال الدین افغانی کے ساتھی اور جدیدیت کے علَم بردار تھے۔ انھوں نے اپنی سرکاری حیثیت (جج ۱۸۸۱ء، مفتی مصر ۱۸۹۱ء) میں بعض ایسے فتوے دیے جو قدامت پسند علما کو پسند نہ تھے۔ انھوں نے مصر کی جامعہ الازہر میں بھی بعض اصلاحات کیں اور عقل و روایت کے درمیان اختلاف کی صورت میں عقلی بنیاد پر فیصلے کرنے پر زور دیا۔ ساتھ ہی ان کے ہاں تصوف کی طرف میلان بھی پایا جاتا ہے: ’’صوفیا میں بہت سے نبوت کے درجے کے قریب پہنچ جاتے ہیں، اور ماورا کی ایک جزوی آگاہی بھی حاصل کرلیتے ہیں‘‘ (ص ۱۵۶)۔ مصنف کو محمد عبدہٗ کی روشن خیالی، رواداری، انسان دوستی، سب کی بے لوث خدمت اور تمام مذاہب (خصوصاً اہلِ کتاب) کے لیے نرم گوشہ، اسلام کی سخت قدامت پسندی کے خلاف گفتار میں ایک مستحسن رجحان نظر آتاہے۔
ضوابط میں جکڑے ہوئے، سخت گیر اسلام کے خلاف، مصنف تکرار کے ساتھ متصوفانہ نرم اسلام سے امیدیں وابستہ کرتے دکھائی دیتے ہیں جس نے عباسی عہد میں یونانی، یہودی اور عیسائی رہبانیت، ترکِ دنیا اور زُہد کے رجحانات کو فروغ دیا۔ اس رجحان کے نمایندے انھیں منصور حلّاج، ابن عربی اور رُومی نظر آتے ہیں۔ یہاں بھی مصنف مسلم تصوف کے اہم سلاسل قادریہ (شیخ عبدالقادر جیلانی، م: ۵۶۱ھ/۱۱۶۶ء) نقش بندیہ (خواجہ بہاء الدین نقش بند، م: ۷۹۱ء) اور مجددیہ (شیخ احمد سرہندی، م: ۱۶۲۴ء) کو فراموش کر دیتے ہیں، جو اسلام کے بنیادی عقائد، عبادات اور ضوابط کے سلسلے میں کسی بھی طرح کی مداہنت کے قائل نہیں۔ اُن کی اُمید اہلِ تصوف اور روادار، روشن خیالوں کے ایسے گروہ سے ہے جو رواداری،حریت، آزاد رَوی اور ’نرم کردار‘ کے قائل ہیں۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ حال ہی میں امریکا کی ایک مجلسِ دانش (Rand Corporation) نے خیال ظاہر کیا تھا کہ مسلمانوں کو جیتنے کے لیے اُن کے ہاں مروّج ایک خاص نہج کے تصوف کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ (دی اکانومسٹ، ۲۰دسمبر ۲۰۰۸ء)
اس کے علاوہ بھی کرنے کے اور بہت سے کام ہیں، جو مصنف کتاب کے اختتام میں تجویز کرتے ہیں۔ اُن کے خیال میں اس کے لیے دوسروں کی اقدار کے لیے رواداری اور اعتماد کی فضا پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ عیسائی، یہودی، ہندو اور مسلمان مل کر ایک ضابطہ ٔ اخلاق مرتب کریں، ایک دوسرے پر حملے اور الزامات بند کریں۔ اقوامِ متحدہ، یونیسکو، ریڈکراس، ریڈ کریسنٹ، یورپی یونین، افریقی یونین، آرگنائزیشن آف دی اسلامک کانفرنس، ایکومینیکل کونسل آف چرچز اور دوسرے مل بیٹھیں، اور امن و آشتی کے لیے کوشش کریں۔ ایک اہم عملی بات: اسلامی تعلیمی اداروں میں یہودیوں کے پروٹوکول (Protocols of the Elders of Zion) کے حوالے دینے بند کیے جائیں کہ یہ یہودیوں کو بدنام کرنے والی ایک جعلی دستاویز ہے۔ تہذیبوں کے تصادم کا غلغلہ بند کیا جائے، اور عالمی مذہبی ڈپلومیسی کے زیرعنوان سارے فریق آپس کی دشمنی کو ختم کرکے باہمی رواداری اور احترام کا رویّہ اپنائیں۔ مذہبی اور سیاسی قائدین مل بیٹھ کر اپنے لیے ایک ضابطہ ٔ عمل مرتب کریں۔ القاعدہ کو بھی شریک کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ (ص ۶، ۲۰۰۵ء)
بیش تر مسلم ملکوں میں سرکاری اسکولوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے اور بہت سی مذہبی تنظیموں نے ایک متوازی نظامِ تعلیم قائم کر رکھا ہے، جو سرکاری کنٹرول سے آزاد ہے۔ مدارس، ازکار رفتہ تعلیم کے ذریعے ’یک سمتی ذہن‘ اور قدامت پرستی کو فروغ دے رہے ہیں۔ اس طرح وہ روشن خیالی کا استحصال کرتے ہیں۔ مذہب کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اسے اجتماعی زندگی سے متعلق اداروں___ ریاست، عائلی قوانین، محنت اور معاشیات میں دخل اندازی سے روک دینا چاہیے (ص ۲۱۱)۔ فرد اور خواتین کے حقوق کی پاس داری کی جائے۔ مسلمانوں کی آبادی جو ۴ء۶ فی صد سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے، اُسے روکنے کی ضرورت ہے، تاکہ مسلم دنیا میں معیارِ زندگی بلند ہو۔ ’اسلامیت‘ سے تیسری دنیا میں جو مسائل پیدا ہو رہے ہیں، ان کی طرف توجہ دینا اشد ضروری ہے۔
اسلام کے لیے ایک غیر معاندانہ روش، لیکن اس کی اصل تعلیمات اور روح سے نابلد ذہن، اس دین اور اس کے وابستگان کو کس تناظر میں دیکھتا ہے___ پیش نظر کتاب، اس کی ایک اچھی مثال ہے، یا ذہنی انجینیری کی ایک کوشش۔
(Islam's Fateful Path، [اسلام کی پُرخطر راہ] مصنفہ: زیڈین میری بوتے (Zidane Meriboute)، ناشر: I.B. Tanris ،لندن، صفحات: ۲۴۶، قیمت: درج نہیں۔)
بے نظیر بھٹو کی زیرتبصرہ کتاب میں سید قطب شہید، مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کو ہدفِ تنقید بنایا گیا ہے۔ اس حصے میں ایسے چند مقامات پر روشنی ڈالی جارہی ہے۔
یوں دکھائی دیتا ہے کہ یہ کتاب مسلمانوں کو مطعون کرنے، انھی کو تمام خرابیوں کی جڑ قرار دینے اور امریکا بہادر کو عظمت کا دیوتا ثابت کرنے کا ایسا استعارہ ہے، جس میں تاریخ کو مسخ اورحقائق کو کچلا گیا ہے۔ جن دو شخصیتوں کو خاص طور پر نشانے پر رکھا گیا ہے، ان میں سید قطب شہید (۶۶-۱۹۰۶ء) اور سید ابوالاعلیٰ مودودی (۷۹-۱۹۰۳ء) نمایاں ہیں۔ ذرا یہ سطور دیکھیے:
اسلامی انتہا پسندی کے پس پردہ کارفرما مضبوط ترین قوتوں میں ایک سید قطب تھے، جن کا تعلق مصر کی اخوان المسلمون سے تھا۔ انھوں نے موجودہ دور کے لیے ’جاہلیہ‘ کی اصطلاح (درحقیقت یہ اصطلاح اسلام سے پہلے کی دنیا کے دورِ جاہلیت کو بیان کرنے کے لیے قرآنی اصطلاح ہے) استعمال کی۔ قطب کو مغربی ثقافت اور اسلامی دنیا کی آمرانہ حکومتوں سے نفرت تھی۔ وہ مغرب کو اسلام کے تاریخی دشمن کے طور پر دیکھتے تھے، اور مسلمانوں کی حکمران اشرافیہ کو بدعنوان بھی سمجھتے تھے۔ اسلامی دنیا میں زیادہ تر حکومتیں آمرانہ تھیں… انھوں [قطب] نے اسلامی دنیا میں چھوٹی تبدیلیوں کے بجاے ایک جارح، متشدد جہاد کو نئی عالمی اسلامی اُمت کے اپنے نظریے کے اطلاق کا واحد ذریعہ سمجھا اور اسے دنیا کے سامنے پیش کیا (ص ۲۸، ۲۹)--- سید قطب کو کئی جدید دہشت گرد تنظیموں کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔ مصر کی عوامی سیاست میں ایک بڑی قوت رکھنے والے سید قطب کو مصری حکومت اپنے لیے ایک خطرہ تصور کرتی تھی،اس لیے مذکورہ نظریات کے باعث انھیں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ وہ [یعنی قطب] لکھتے ہیں: ’’مغربی فرد کے ہاتھوں انسانیت کی قیادت اب زوال پذیر ہے… مغربی نظام کا دور بنیادی طور پر اس لیے اختتام کو آپہنچا ہے کہ یہ حیات بخش اقدار و اوصاف سے محروم ہوگیا ہے‘‘۔ (ص ۲۴۶، ۲۴۷)
معلوم نہیں کیوں مصنفہ نے اس بات کو نظرانداز کردیا ہے کہ قرآن نے سابقہ اقوام کے حوالے سے جس جاہلیت کا ذکر کیا ہے، ویسی ہی جاہلیت عصرِحاضر کی تہذیب و معاشرت بلکہ پوری زندگی اور اس کی بنیادی فکر میں موجود ہے۔ وہ جاہلیت، حق اور باطل کی تفریق سے ظاہر ہے۔ وہ جاہلیت، قافلہ حسین ؓ اور افواجِ یزید کی معرکہ آرائی سے ظاہر ہے۔ وہ جاہلیت چہارسو ظلم و ستم ڈھاکر اور عدل و انصاف کی پامالی سے اپنا لوہا منوا رہی ہے۔ قرآن کریم صرف دو راستوں کی نشان دہی کرتا ہے: حق اور باطل، باطل اس کے نزدیک جاہلیت ہے اور ’غیر جانب دار‘ بھی دراصل باطل ہی کا طرف دار ہے۔ ’جاہلیت‘ صرف اس چیز کا نام نہیں کہ پہلے انسان جھونپڑی میں گزر بسر کرتا تھا اور آج آراستہ و پیراستہ کوٹھیوں میں رہ رہا ہے۔ پھر جاہلیت یہ بھی نہیں کہ پہلے وہ اُونٹ اور گھوڑے پر سفر کرتا تھا، آج کیڈلک کاروں اور طیاروں میں فراٹے بھرتا ہے۔ اس لیے آج کی جاہلیت کے لیے سید قطب اور مولانا مودودی نے کوئی خاص یا نیا اصول وضع نہیں کیا ہے،یہ تو قانونِ قدرت کا برملا اعلان اور اعادہ ہے۔
’مغربی ثقافت‘ کس چڑیا کا نام ہے؟ یہی کہ کمزور اقوام کے وسائل ہڑپ کرو، ان کی تاریخ کو مسخ کرو اور تہذیب کو تاراج کرو، ان کے ہاں اقتدار اور دولت کو بلاواسطہ یا بالواسطہ اپنے قبضے میں رکھو اور ان کے نظامِ اقدار کو پامال کرو۔ کیا کوئی غیرت مند شخص، اپنے دین، اپنی ثقافت، اپنی تاریخ اور اپنے اقتدارِاعلیٰ کو چند ہزار ڈالروں کے عوض فروخت کر کے یہ تسلیم کرسکتا ہے کہ بھائی تم ہی ٹھیک اور اعلیٰ و ارفع ہو، ہم تو غلام ابن غلام ابن غلام، تمھارے عطا کردہ زخم دھونے کے لیے تمھارے دَر پر دست بستہ کھڑے ہیں۔ سید قطب شہید یہ نہیں کہہ سکتے تھے، اس لیے انھوں نے مغرب کی باج گزار مسلم اشرافیہ کی آمریت کے اس ’حق‘ کو قبول کرنے سے انکار کیا۔ کیا ان غلام حکمرانوں کی غلامی قبول کرنے سے ان کا یہ انکار گناہ ہے؟انھوں نے باطل کی غلامی قبول کرنے سے انکار کی پاداش میں تختہ دار پر چڑھ جانا گوارا کیا، مگر باطل کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا۔ اب اگر پوری دنیا میں اقتدار کے سرچشموں پر گورے یا کالے انگریزوں کا قبضہ ہے تو بتایا جائے کہ اسے چیلنج کرنا کس قانون کے تحت جرم قرار پاتا ہے؟ ہر ظالم نے اپنے ظلم کے لیے کوئی نہ کوئی جواز اور اپنی کھال بچانے کے لیے کوئی نہ کوئی پناہ گاہ بنا رکھی ہے۔ کیا موجودہ اور آنے والی نسلوں پر لازم ہے کہ ظلم کے ان ضابطوں کو من و عن تسلیم کریں؟ اگر ایسا ہے توپھر جدید تاریخ میں ’روشن خیال‘ طبقہ آزادی و حریت کے رہنمائوں کے بارے میں کیا فتویٰ پیش کرتا ہے؟
’جدید روشن خیالی‘ ایک ظالم اور سخت بے رحم رویے کا نام ہے، جو زندگی میں سانس نہیں لینے دیتی اور مرنے کے بعد بھی کسی خوبی کو نمایاں نہیں ہونے دیتی۔ یہی معاملہ شہید مظلوم سید قطب کے ساتھ بھی برتا جا رہا ہے۔ ۲۰ویں صدی کے اس عظیم ادیب، دانش ور اور مفسرِقرآن کو قوم پرست آمر مطلق صدر جمال ناصر (م: ۱۹۷۰ء) نے برسوں جیل میں ڈالے رکھا۔ انھوں نے جیل ہی میں اپنی معرکہ آرا تفسیر فی ظلال القرآن تحریر کی، اور پھر ناصر نے خانہ زاد عدالت سے انھیں سزاے موت دلوا کر ۲۹ اگست ۱۹۶۶ء کو تختۂ دار پر کھینچ دیا۔
گذشتہ برسوں سے مغرب کے استعماری اداروں نے بالخصوص سیدقطب شہید کو اپنے منفی پروپیگنڈے کا ہدف بنایا ہے۔ مصنفہ نے اس کتاب میں سیدقطب شہید کو جس زبان میں تنقید کا نشانہ بنایا ہے، یہی زبان ڈینیل پائپس، برنارڈ لیوس،فوکویاما، ہن ٹنگٹن اور ان کے حواریوں نے استعمال کی ہے۔
سید قطب کو ’انتہاپسند‘ کہہ کر مصنفہ نے علمی دیانت کا قتل اور عدل کا خون کیا ہے۔ اس مقدمے کے لیے کوئی دلیل پیش کرنے کے بجاے ’جنگ جُو‘ استعماریوں کے پروپیگنڈے پر انحصار کیا ہے۔ سید قطب نے دعوت، تنظیم اور تقویٰ کے ذریعے ظلم و آمریت اور مسلم اُمہ سے غداری کے مرتکب صاحبانِ اقتدار کو تبدیل کرنے کی بات کر کے اپنا فرض ادا کیا۔ انھوں نے مسلح اور پُرتشدد تحریک اٹھانے کے لیے لوگوں کو نہیں اُبھارا۔ چونکہ ان کی اپیل میں ایمان کی طاقت اور عزم و یقین کی حرارت موجود ہے، اس لیے آج جبر اور ظلم کے شکار مسلمانوں کے بعض پُرتشدد گروہوں سے منسوب کر کے سید قطب شہید کی فکری پکار کو مطعون کیا جا رہا ہے۔ مغرب اور مغربی تہذیب کے بارے میں جو بات انھوں نے آج سے ۵۵ برس پہلے کہی ہے، یہی بات ۹۰سال پیش تر علامہ محمد اقبال اپنے آتش نوا اشعار اور فکر سے بھرپور اقوال میں کہہ چکے ہیں___ مزید ارشاد ہوتا ہے:
یہ تین رجعت پسند [یعنی سید قطب، سید مودودی، اسامہ بن لادن ] ردعمل کی اس سوچ کی نمایندگی کرتے ہیں، جو اس وقت اسلامی دنیا کے چند حصوں میں مقبول ہے۔ ان کے نزدیک: ’’مغرب، مسلم اشرافیہ کے ساتھ ملی بھگت کرکے اسلامی ملکوں کو بگاڑ رہا ہے‘‘۔ قرآن کی غلط تشریحات کا سہارا لے کر وہ سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے معصوموں، اہلِ کتاب [یعنی عیسائیوں اور یہودیوں] اور یہاں تک کہ مسلمانوں کے خلاف پُرتشدد کارروائیوں کا جواز حاصل کرسکتے ہیں۔ حالانکہ قرآن ان رجعت پسند مذہبی رہنمائوں کی تعلیمات کی تائید نہیں کرتا۔ یہ [محض] دہشت گردی کی تحریک کے لیے بنیادی ڈھانچا فراہم کرتے ہیں۔ (ص ۲۹)
اسامہ بن لادن کی حکمت عملی کیا ہے؟ نہ ہمیں اس سے اتفاق ہے اور نہ اس کے بارے میں کوئی بات کرنے کے مکلف ہیں، تاہم مصنفہ کا سید مودودی اور سیدقطب کو اسی صف میں کھڑا کرنا سخت ناانصافی اور تعصب پر مبنی واویلاہے۔ سید قطب شہید،سید مودودی اور حسن البنا شہید کے رفقا نے مسلسل جدوجہد کرکے دین کی حقیقی شکل مسلمانوں کے سامنے پیش کی، اور مغربی نوآبادیاتی حکمرانوں کے مددگاروں کی سازشوں کو دلیل، تحریر،تنظیم اور تسلسل کے ساتھ مسلم دنیا کے سامنے یوں وضاحت سے پیش کیا کہ اُمہ میں اس کی اپنی نظریاتی اور تہذیبی شناخت پر مبنی، اور استعماری طاقتوں کی گرفت سے آزاد ریاست کے قیام کا عزم پیدا ہونے لگا۔ اس پُرامن اور مؤثر حکمت عملی کی تاثیر سے بوکھلا کر، مغرب نے دوطرفہ تشدد کو درمیان میں لانے کی حکمت عملی اختیار کی ہے، تاکہ وہ ساری کاوش دھندلا دی جائے۔ کچھ ایسے عناصر کی غیرمعتدل اور اسلامی تعلیمات سے سراسر ٹکراتی کارروائیوں سے بے جا طور پر اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی یا سیدقطب اور مولانا مودودی کو منسوب کر کے اس پُرامن جدوجہد کو نشانہ بنایا جائے کہ جس جدوجہد کو ان عظیم رہنمائوں کی حکمت و دانش نے وقار اور قبولیت بخشی ہے۔
۲۹ اگست ۲۰۰۸ء کے پاکستانی اخبارات یہ روح فرسا خبریں شائع کر رہے تھے کہ صوبہ بلوچستان میں پیپلزپارٹی کے وزیر ہائوسنگ و تعمیرات مسٹرصادق عمرانی کے بھائی اور پیپلزپارٹی کے لیڈر عبدالستار عمرانی، ضلع جعفرآباد میں پانچ عورتوں کو زندہ دفن کرنے کا حکم دینے والوں میں شامل ہیں۔ (ان کے پشت پناہ سینیٹر میراسرار اللہ زہری اور اب وفاقی وزیر پوسٹل سروسز نے سینیٹ کے اجلاس میں کہا تھا کہ اخلاقی الزام میں ملوث عورتوں کو زندہ دفن کرنا ہماری روایات کا حصہ ہے)، جب کہ ۲۰۰۶ء میں صوبہ سندھ سے پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما، اوکسفرڈ کے گریجوایٹ اور وفاقی وزیرتعلیم میرہزار خاں بجارانی نے بطور سربراہِ قبیلہ ۲ سے ۵ سال کی کم سن بچیوں کو ’سانگ چٹی‘ (خون بہا کے طور پر مقتول کے پس ماندگان کی غلامی میں دینے) کی بھینٹ چڑھا دیا۔ باوجود یہ کہ، یہ دونوں بلکہ تینوں حضرات پیپلزپارٹی کے لیڈروں میں شامل ہیں۔ مگر جماعت اسلامی یا کسی انصاف پسند شخص نے یہ نہیں کہا کہ: ’’پیپلزپارٹی ایسے قابلِ نفرت اقدام کرنے والی پارٹی ہے، اس لیے اس کو نفرت کا نشان بنا دو‘‘___ اب ہم دوسری جانب دیکھتے ہیں۔
جماعت اسلامی اگرچہ ۲۴ ہزار ارکان پر مشتمل تنظیم ہے، مگر اس کی حمایت کرنے اور ووٹ دینے والے لاکھوں لوگ ہیں۔ فطری سی بات ہے کہ ان میں ہر ذوق، مذاق اور طبیعت کا فرد ہوسکتا ہے۔ لیکن کیا جماعت اسلامی اپنے ان لاکھوں حامیوں اور ووٹروں کے تمام افعال و اقدامات کی بھی ذمہ دار یا جواب دہ ہے؟ اگر اس کے کسی حامی نے جماعت کی پالیسی، عقیدے اور حکمت عملی کے برعکس کوئی فعل انجام دیا ہے تو کیا اُس فرد کے اقدام پر پوری جماعت اسلامی اور اس کی قیادت کو نشانہ بنانا کوئی شریفانہ اور منصفانہ قدم ہوسکتا ہے؟ اب دیکھیے، مصنفہ لکھتی ہیں:
۲۰۰۱ء کے حملوں کے بعد ہر بڑا مطلوبہ دہشت گرد، مودودی کی جماعت کے کسی نہ کسی رکن کے گھر سے گرفتار کیا گیا ہے۔ (ص ۶۹)... [مطلوبہ ماسٹرمائنڈ] خالد شیخ محمد، جماعت اسلامی کے ایک حامی (سپورٹر) کے گھر سے گرفتار کیا گیا۔۱؎ (ص ۲۰۵)
ان عبارتوں کے اندر شرارت کا پورا سامان چھپا ہوا ہے۔ وہ طریقہ کہ جس سے جماعت اسلامی، اصولی اور عملی اعتبار سے ۱۰۰ فی صد اختلاف رکھتی ہے، اس طرزِ بیان سے اس کو اُسی گروہ سے جوڑا جا رہا ہے، جب کہ جماعت نے تو پیپلزپارٹی کے لیڈروں کے ایسے ’تذلیل نسواں، پر مبنی اقدامات‘ کا سزاوار پیپلزپارٹی کو قرار نہیں دیا، مگر دوسری جانب غیرمتعلق امور کو بھی مولانا مودودی مرحوم اور پوری جماعت اسلامی کے سرمنڈھا جا رہا ہے۔ پھر یہ بھی کہا گیا ہے:
مودودی نے مسلمانوں کو ایک ایسی بین الاقوامی جماعت کے طور پر دیکھا ہے، جسے اسلام کا انقلابی پروگرام بروے کار لانے کے لیے منظم کیا گیا ہے، اور جہاد کو ایک ایسی اصطلاح کے طور پر اسلامی انقلاب لانے کے لیے ضروری انتہائی کوشش اور جدوجہد کے طور پر بیان کیا ہے۔ (ص ۲۸)
مسلمانوں کو ایک بین الاقوامی کمیونٹی (کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ) مولانا مودودی نے نہیں، خود قرآن مجید اور رسول کریمؐ نے قرار دیا ہے۔ انھیں جسدِواحد اور رنگ و نسل کی تفریق سے بالاتر اُمہ قرار دیا ہے۔ اس لیے مولانا مودودی مسلم اُمہ کو بین الاقوامی کمیونٹی قرار دیتے ہیں اور علامہ محمد اقبال بھی ’ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے‘ جیسا نغمۂ جاں فزا بلند کرتے ہیں۔ مولانا مودودی نے اس اُمت میں زندگی کی لہر دوڑانے کے لیے ہتھیار بکف نکلنے کا درس نہیں دیا، بلکہ حق کی دعوت، فریضۂ اقامت ِدین، منظم نیکی، اور پوری زندگی میں پھیلے تزکیۂ نفس کا سبق دیا ہے۔ وہ دعوت اور جمہوریت کے ذریعے اس منزل کو حاصل کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ افسوس کہ اس افسانے میں رنگ بھرتے ہوئے کہا ہے:
[مغربی اور اسلامی تہذیبوں کے] تصادم کاروں کی اس دوڑ میں صرف مغرب کے انقلاب پسند دانش ور [مراد ہن ٹنگٹن ہے] ہی نہیں ہیں، بلکہ جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی بھی شامل ہیں۔ مودودی کا بھی یہی یقین ہے کہ اسلامی شریعت کی حکمرانی کی راہ میں حائل تمام اقوام کو، بہ شمول مغرب ’پُرتشدد جہاد‘ کے ذریعے ختم کردیا جانا چاہیے۔ مغرب کے متعلق ان کا نقطۂ نظر اتنا ہی یک طرفہ اور مسخ شدہ ہے، جتنا کہ تصادم کا نقطۂ نظر اسلام کے متعلق۔ (ص ۲۴۶)
اس بیان میں شرانگیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، مصنفہ نے مولانا مودودی کے واضح طور پر منصفانہ اور پُرامن نقطۂ نظر کو ’پُرتشدد جہاد‘ اور ’اقوام کے خاتمے‘ میں تبدیل کردیا ہے۔ مصنفہ کے ذہن میں برطانوی نوبل انعام یافتہ ادیب رڈیارڈ کپلنگ (۱۸۶۵ء- ۱۹۳۶ء) کا وہ قول نہیں آیا، جس میں وہ کہتا ہے: ’’مغرب، مغرب ہے اور مشرق، مشرق۔ یہ دونوں آپس میں کبھی نہیں مل سکتے‘‘۔ بلکہ اس نسل پرست نے تو ۱۸۹۹ء میں اپنی نظم The White Man's Burden لکھ کر غیرمغربی ’جاہلوں‘ کو درسِ انسانیت دینے کی ذمہ داری کو اس انداز سے پیش کیا تھا کہ ان گوروں کے علاوہ باقی سب انسان دھرتی کا بوجھ ہیں۔ لیکن مولانا مودودی مغرب کو کسی جغرافیائی علاقے یا گوری اقوام کے طور پر نہیں دیکھتے، بلکہ وہ مغرب کو اس کے فکری، سیاسی، اقداری، اخلاقی، ثقافتی اور عسکری پس منظر میں دیکھتے ہیں۔ اور خود مغرب، دنیا کو جس نظر سے دیکھتا اور جس سطح سے اس کے ساتھ معاملہ کرتا ہے، اسی کو بنیاد بناکر، مولانا مودودی وہاں کے انسانوں کو حق کی راہ پر چلنے کی دعوت دیتے ہیں، ہتھیاروں سے خوف زدہ نہیں کرتے۔
مصنفہ نے اپنے مذکورہ اقتباس (ص۲۴۶) کے لیے مولانا مودودی کی جس تحریر سے دلیل فراہم کی ہے، اس میں ایسا کوئی تاثر موجود نہیں ہے، بلکہ اس کے برعکس یہ تحریر تو مولانا مودودی کے متوازن اندازِ فکر کی دلیل پیش کرتی ہے۔ یہ تحریر ستمبر ۱۹۳۴ء کے ماہنامہ ترجمان القرآن ، حیدرآباد، دکن میں شائع ہوئی تھی اور اب مضمون ’ہماری ذہنی غلامی اور اس کے اسباب‘ کی صورت میں تنقیحات میں شامل ہے۔ مصنفہ نے بطور دلیل مولانا مودودی کی یہ تحریر پیش کی ہے:
یہ [مغربی تہذیب] خالص مادی تہذیب ہے۔ اس کا پورا نظام خداترسی، راست روی، صداقت پسندی، حق جوئی، اخلاق، دیانت، امانت، نیکی، حیا، پرہیزگاری اور پاکیزگی کے اُن تصورات سے خالی ہے، جن پر اسلامی تہذیب کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ اس کا نظریہ [حیات]، اسلام کے نظریے کی بالکل ضد ہے۔ اس کا راستہ اس راستے کی عین مخالف سمت میں ہے، جو اسلام نے اختیار کیا ہے۔ اسلام جن چیزوں پر انسانی اخلاق اور تمدن کی بنیاد رکھتا ہے، ان کو یہ تہذیب بیخ و بُن سے اُکھاڑ دینا چاہتی ہے، اور یہ تہذیب جن بنیادوں پر انفرادی سیرت اور اجتماعی نظام کی عمارت قائم کرتی ہے، ان پر اسلام کی عمارت ایک لمحے کے لیے بھی نہیں ٹھیرسکتی۔ گویا اسلام اور مغربی تہذیب، دوایسی کشتیاں ہیں، جو بالکل مخالف سمتوں میں سفر کر رہی ہیں۔
اس بیان میں مولانا مودودی روحانی،فکری، عمرانی اور سماجی سطح پر مغربی تہذیب کے بنیادی رویے کی نشان دہی کر رہے ہیں، مگر مصنفہ ان سطروں میں آج کی ’دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ‘ کا جواز نکال کر دکھا رہی ہیں۔ مولانا مودودی نے اس بیان میں اُس حقیقت کو صاف صاف لفظوں میں بیان کیا ہے، جو ایک کھلی سچائی ہے۔ ۲۰ویں صدی کی دو عالم گیر جنگوں، ۱۹۴۵ء میں جاپان پر ایٹمی بم باری اور گذشتہ ڈیڑھ سو برسوں میں مظلوم انسانوں کے ساتھ کھیلی جانے والی خون کی ہولی کو کون نظرانداز کرسکتا ہے۔ کیا وہ یہ کہتے کہ: ’’اسلام، مغربی تہذیب کا ضمیمہ ہے، یااسلام ایک ایسی مومی تہذیب ہے جسے مغرب جب چاہے جس سانچے میں ڈھال دے، اس کو تو بس ڈھلنا اور ہوا کے رُخ پر اڑنا ہی ہے‘‘۔ کیا ایسی بات قرآن اور سنت کا فرمان ہے یا مغرب کے بھوکے شیر کے سامنے ممیاتی بھیڑ بکریوں کے جرمِ ضعیفی کی التجا ہے یا حکمرانی کی بھیک مانگنے والوں کی ملّت دشمنی کا ثبوت؟___ مصنفہ آگے چل کر مولانا مودودی کے رفیق کے بارے میں لکھتی ہیں:
خورشیداحمد ایک ممتاز پاکستانی پروفیسر اور اسکالر تھے (was)، جو اسلامی دنیا پر اپنی اقدار، ثقافت اور نظام ہاے حکومت مسلط کرنے کے مغربی عزم کا ناگزیر نتیجہ تہذیبوں کے تصادم کو قرار دیتے تھے: [خورشیداحمد کے بقول] ’’اگرمسلم ذہن میں اور مسلم نقطۂ نظر میں، مغربی طاقتیں مغربی ماڈل کو مسلم معاشرے پر ٹھونسنے کی قومی اور بین الاقوامی سطح پر، مسلمانوں کو مغربی غلبے کے نظام سے باندھے رکھنے کی اور اس طرح مسلم ثقافت اور معاشرے کو بالواسطہ یابلاواسطہ غیرمستحکم کرنے کی کوششوں سے وابستہ رہتی ہیں تو یقینا کشیدگی میں اضافہ ہوگا، یوں اختلافات کا بڑھنا ناگزیر ہے‘‘۔ (ص ۲۴۷)
پروفیسر خورشیداحمد (پ: ۱۹۳۲ء)، اللہ کے فضل سے مغرب کی اس جارحانہ اورانسانیت کُش یلغار کا فکری، قومی اور ملّی سطح پر بلاخوف و خطر مقابلہ کر رہے ہیں۔ ۱۹۹۵ء میں ان کی محولہ بالا تحریر ’امریکی نیوورلڈ آرڈر‘ کے تجزیے پر مشتمل تھی۔ جس کی بنیاد پر مصنفہ نے انھیں مغرب سے تصادم کی آگ بھڑکانے کا ایک ذمہ دار قرار دینے کی کوشش کی ہے، حالانکہ اس بیان میں توازن، بُردباری، احساسِ عدل اور ملّی و قومی شعور بدرجۂ اتم موجود ہے۔ پروفیسر صاحب نے مغرب کی جانب سے مسلم دنیا پر استعماری یا استعماریوں کے گماشتہ ماڈل کو مسلط کرنے اور مسلم اقوام کو غلامی میں باندھنے کی مذمت کی ہے، اور کہا ہے کہ مغربی حکمران تاریخ سے سبق سیکھیں اور ان مسلم معاشروں کو اپنے معاملات خود چلانے دیں۔ کیا ان کا یہ کہنا ’وار آن ٹیرر‘ کے شعلے بھڑکانے کا سبب ہے یا اپنے ملّی اور جمہوری حق کو منوانے کے لیے کلمۂ حق؟___ پھر یہ اقتباس پڑھنے کو ملتا ہے:
جنوبی ایشیا میں انتہاپسند گروہ جماعت اسلامی کے بانی، مولانا مودودی کو یقین تھا کہ جنوبی ایشیا میں قوم پرستی کے اُبھرنے سے مسلم پہچان کو خطرہ لاحق ہے۔ ان کے نزدیک قوم پرستی ایک ایسا مغربی نظریہ تھا، جو یک طرفہ طور پر مسلمانوں پر ٹھونس دیا گیا ہے، تاکہ عالمی اُمت مسلمہ کی جگہ زبان، نسل اور علاقے کی بنیاد پر استوار کی جانے والی انفرادی قوم پرستی کو ہوا دے کر انھیں کمزور اور تقسیم در تقسیم کیا جاسکے۔ (ص ۲۸)
ان سطور میں مصنفہ نے یہ ناانصافی اور ظلم کرتے ہوئے مولانا مودودی کو انتہاپسند اور انتہاپسند گروہ کا بانی قرار دے کر اپنی بے خبری بلکہ انتہاپسندانہ سوچ کا بھی ثبوت دیا ہے۔ مولانا مودودی کے ہاں توازن، بُردباری، تہذیب و شائستگی اور قانون پسندی ضرب المثل ہے۔ انھوں نے تشدد اور انتہاپسندی سے نہ صرف دامن بچائے رکھا، بلکہ اپنے رفقا کو بھی اس سے بچنے کی مسلسل تلقین کی۔ انھوں نے یہ پیغام طالب علموں کو، عرب نوجوانوں کو اور تمام دنیا کے مسلمانوں کو دیا کہ وہ زیرزمین اور قانون شکنی پر مبنی سرگرمیوں سے اپنے آپ کو بچائیں اور کھلے عام کام کرنے میں انھیں جو بڑی سے بڑی قربانی دینی پڑے اسے برداشت کرلیں، مگر تشدد اور خفیہ طبع آزمائی کا راستہ اختیار نہ کریں۔ اس ضمن میں مولانا مودودی کی تحریروں سے بے شمار مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ مثال کے طور پر جماعت اسلامی، نظامِ زندگی کو تبدیل کرنے کے لیے کس حکمت عملی پر عمل پیرا ہے، اس کے لیے سب سے پہلے دیکھیے: دستور جماعت اسلامی پاکستان کی دفعہ ۵:
جماعت اسلامی کا مستقل طریق کار یہ ہوگا کہ:
۲- اپنے مقصد اور نصب العین کے حصول کے لیے جماعت کبھی ایسے ذرائع اور طریقوں کو استعمال نہیں کرے گی، جو صداقت اور دیانت کے خلاف ہوں، یا جن سے فساد فی الارض رونما ہو۔
۳- جماعت اپنے پیش نظر، اصلاح اور انقلاب کے لیے جمہوری اور آئینی طریقوں سے کام کرے گی…
۴- جماعت اپنے نصب العین کے حصول کی جدوجہد خفیہ تحریکوں کے طرز پر نہیں کرے گی، بلکہ کھلم کھلا اور علانیہ کرے گی۔
اسی طرح مولانا مودودی نے ۱۶ ذوالحج ۱۳۸۲ھ (۱۰ فروری ۱۹۶۳ء)کو مسجد دہلوی مکہ معظمہ میں عرب نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے تلقین کی تھی:
اسلامی تحریک کے کارکنوں کو میری آخری نصیحت یہ ہے کہ انھیں خفیہ تحریکیں چلانے اور اسلحے کے ذریعے سے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ کرنی چاہیے۔ یہ بھی دراصل بے صبری اور جلدبازی ہی کی ایک صورت ہے، اور نتائج کے اعتبار سے دوسری صورتوں کی بہ نسبت زیادہ خراب ہے۔ ایک صحیح انقلاب ہمیشہ عوامی تحریک ہی کے ذریعے سے برپا ہوتا ہے۔ کھلے بندوں عام دعوت پھیلایئے، بڑے پیمانے پر اذہان اور افکار کی اصلاح کیجیے، لوگوں کے خیالات بدلیے، اخلاق کے ہتھیاروں سے دلوں کو مسخر کیجیے اور اس کوشش میں جو خطرات اور مصائب بھی پیش آئیں ان کا مردانہ وار مقابلہ کیجیے۔ اس طرح بتدریج جو انقلاب برپا ہوگا،وہ ایسا پایدار اور مستحکم ہوگا جسے مخالف طاقتوں کے ہوائی طوفان محو نہ کرسکیں گے۔ جلدبازی سے کام لے کر مصنوعی طریقوں سے اگر کوئی انقلاب رونما ہو بھی جائے تو جس راستے سے وہ آئے گا، اسی راستے سے مٹایا بھی جاسکے گا۔ (ماہ نامہ ترجمان القرآن، جون ۱۹۶۳ء،ص ۲۸، تفہیمات، سوم، ص ۳۶۲-۳۶۳)
اپنی زندگی میں جماعت اسلامی کے آخری کُل پاکستان اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے، ۳۱ مارچ ۱۹۷۴ء کو سید مودودی نے کہا:
جماعت اسلامی کیوں جمہوری ذرائع سے ہی انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے اور کسی غیر جمہوری ذریعے کے استعمال کی مخالف ہے، اس کو میں چند الفاظ میں بیان کیے دیتا ہوں:
خدا کی قسم ہے، اور قسم میں بہت کم کھایاکرتا ہوں، کہ جماعت اسلامی نے جو یہ مسلک اختیار کیا ہے کہ وہ: کسی قسم کے تشدد کے ذریعے سے، یا کسی قسم کی خفیہ تحریک کے ذریعے سے، یا کسی قسم کی سازشوں کے ذریعے سے انقلاب برپا نہیں کرنا چاہتی، یہ قطعاً کسی کے خوف کی وجہ سے نہیں ہے۔ یہ قطعاً اس لیے نہیں ہے کہ ہم اپنی صفائی پیش کرسکیں کہ ہم دہشت پسند نہیں ہیں، اور ہمارے اُوپر یہ الزام نہ لگنے پائے۔
اصل بات یہ ہے کہ اسلامی انقلاب اس وقت تک مضبوط جڑوں سے قائم نہیں ہوسکتا، جب تک کہ لوگوں کے خیالات تبدیل نہ کردیے جائیں، جب تک کہ لوگوں کے افکار، لوگوں کے اخلاق اور لوگوں کی عادات کو تبدیل نہ کردیا جائے۔ اگر کسی قسم کے تشدد کے ساتھ، یا کسی قسم کی سازشوں کے ساتھ، یا کسی قسم کی دھوکے بازیوں اور جھوٹ کے ساتھ، انتخابات جیت لیے جائیں، یا کسی طریقے سے انقلاب برپا کردیا جائے، توچاہے یہ انقلاب کتنی دیر تک رہے، یہ اسی طرح اکھڑتا ہے جیسے اس کی کوئی جڑ ہی نہ ہو۔ (ہفت روزہ ایشیا، لاہور، ۷ اپریل ۱۹۷۴ء)
جہاں تک یہ کہنا ہے کہ مولانا مودودی نے قوم پرستی کو ایک مغربی نظریہ قرار دے کر اس کی مذمت کی تھی تو یہ انھوں نے بالکل درست بات لکھی تھی۔ مسلم اُمت کو ان چھوٹی چھوٹی قومیتوں میں بانٹنے اور ٹکڑوں میں تقسیم کرکے ’راجواڑوں‘ کے سپرد کرنے اور اقتدار کے سرچشموں پر اپنے منظورنظر دیسی وفاداروں کو مسلط کرنے کا کام ۱۹ویں اور ۲۰ویں صدی میں مغربی استعمار نے کیا تھا۔ ان کے قومی اور قدرتی وسائل ہڑپ کیے، باہمی تعلقات میں تصادم کی فضا کو پیدا کرکے انھیں مسلسل جنگ و جدل کی دلدل میں پھنسادیا اور قومی دولت کا بڑا حصہ اسلحے کی خریدوفروخت میں جھونک دینے کا بندوبست کیا۔مولانا مودودی نے، مغربی استعمار کی اس شیطانی چال کو ۱۹۳۷ء سے ۱۹۳۹ء کے دوران اپنی مشہور کتب مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش (تین حصوں) اور مسئلۂ قومیت میں پوری وضاحت کے ساتھ بے نقاب کیا، تو کچھ غلط نہ کیا تھا___ اب مصنفہ کے سوقیانہ پن کا یہ رنگ دیکھیے:
موجودہ دور میں وہابی پیسے کی خصوصی وصول کنندہ جماعت اسلامی رہی ہے۔ یہ ایک سیاسی اور سماجی تحریک ہے جس کی بنیاد مولانا مودودی نے رکھی ہے۔ زیادہ تر وہابی سرمایہ اب بھی ان اسکولوں کو جاتا ہے جو جماعت اسلامی کے زیرانتظام کام کر رہے ہیں۔ اپنے بچپن کے دور میں، مَیں جماعت اسلامی کو بالواسطہ طور پر امداد فراہم کرنے کی کہانیاں اکثر سنا کرتی تھی کہ: سعودی مذہبی رہنما، مولانا مودودی کی کتابیں ہزاروں کی تعداد میں خریدتے، ان کی قیمت ادا کرتے اور پھر ان کتابوں کو سمندر میں پھینک دیتے، کیونکہ دراصل انھیں پڑھنے والوں کی تعداد بہت کم تھی۔ پھر جنرل ضیا الحق کے اقتدار میں آنے کے بعد صورت حال تبدیل ہوگئی۔ (ص ۵۲)
پاکستانی فوج کے عناصر اور مذہبی سیاسی پارٹی [یعنی جماعت] کے درمیان اتحاد [جنرل] ضیا کے دور سے پہلے شروع ہوا۔ ۱۹۶۰ء کے عشرے میں جماعت اسلامی کو سعودی عرب سے معقول امداد ملنا شروع ہوئی۔ (ص ۱۹۴)
۱۹۶۴ء میں صدر ایوب خان کے دورِ حکومت میں جماعت اسلامی پر پابندی عائد کی گئی، دفاتر سربمہر، ریکارڈ ضبط اور قیادت کو قید کرلیا گیا۔ اس کے حسابات کی جانچ پڑتال ہوتی رہی، اس کے ذرائع آمدن کا کھوج لگایا جاتا رہا، مگر کوئی قابلِ گرفت بات ہاتھ نہ آئی۔ اس کے بعد جنرل یحییٰ خان، بھٹو صاحب، خود بے نظیر اور جنرل پرویز مشرف بھی اپنے پورے ریاستی کرّوفر اور اقتدار کے باوجود ایسے کسی مفروضے کو طشت ازبام نہیں کرسکے۔ آج آصف علی زرداری کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ’وہابی‘ اور ’سعودی‘ سرمایے سے چلنے والے ’جماعت اسلامی کے اسکولوں‘ کی مع رقم نشان دہی کریں۔ اپنے بچپن کی جس پروپیگنڈا کہانی کا ذکر مصنفہ نے کیا ہے، اس افسانے کو انھوں نے بے جا طور پر مسخ بھی کیا ہے۔ اُن کے بچپن میں کہانی یہ نہیں تراشی گئی تھی کہ: ’’سعودی عرب، مولانا مودودی کی کتب خرید کر سمندر میں پھینکتا ہے‘‘، بلکہ یہ جھوٹا افسانہ تراشا گیا تھا:’’امریکا، مولانا مودودی کی کتب خرید کر سمندر میں پھینکتا ہے‘‘۔ چونکہ وہ کہانی آج کل ’آئوٹ آف فیشن‘ ہوگئی ہے اس لیے ’امریکا‘ کا لفظ نکال کر ’سعودی عرب‘ کا نام ڈال کر اسے ’حسبِ حال ‘بنا دیا گیا ہے ___ ’ارشاد‘ ہوتا ہے:
جماعت اسلامی کے رہنما مولانا مودودی، آمر ضیاء الحق کے روحانی باپ تھے۔ سعودی مذہبی رہنمائوں سے ان کا تعلق بڑا گہرا تھا۔ افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کے بعد، ضیاء الحق نے افغان مجاہدین کے لیے پیسہ اکٹھا کرنے اور ان کے لیے جنگ جُو بھرتی کرنے کے کام میں ان [یعنی مولانا مودودی] کی مدد طلب کی۔ (ص ۶۸)
مولانا مودودی مرحوم، جنرل ضیا کے تو کبھی روحانی سرپرست نہیں رہے، مگر معلوم نہیں کس بنیاد پر یہ کہانی تصنیف کی گئی ہے۔ دنیا بھر کے دینی اسلامی بھائیوں سے مولانا مودودی کا گہرا قلبی تعلق تھا۔ جن میں افریقہ، امریکا،یورپ، وسطی ایشیا، انڈونیشیا، بھارت، ایران، ترکی اور افغانستان وغیرہ سبھی شامل تھے۔ مولانا مودودی کی رحلت ۲۲ستمبر ۱۹۷۹ء کو ہوئی اور افغانستان پر کمیونسٹ روس نے حملہ ۲۹دسمبر ۱۹۷۹ء کو کیا۔ گویا مصنفہ کہنا یہ چاہتی ہیں کہ اپنے انتقال کے تین ماہ بعد رونما ہونے والے المیے میں کردار ادا کرنے کے لیے مولانا مودودی جنگ جُو بھرتی کرنے کے لیے رابطے کر رہے تھے، جو چاہے آپ کا حُسنِ کرشمہ ساز کرے۔ اب یہ حوالہ بھی دیکھیے:
مولانامودودی نے میرے والد [بھٹوصاحب] کے انتخاب کی مخالفت کی۔ اسلام کے نقاب تلے پوشیدہ سیاسی نظام جسے [جنرل] ضیا نے ترتیب دیا تھا، یہ مودودی، آئی ایس آئی، پاکستانی فوج اور ریاست کا پُراسرار اتحاد تھا، جس نے میرے وطن اور پوری دنیا کی سیاسیات پر دور رس اثرات مرتب کیے۔ (ص ۶۸)
مصنفہ کو شاید علم نہیں کہ بھٹو صاحب نے اور ان کے حواریوں نے مولانا مودودی کی مخالفت میں کون سی زبان استعمال کی تھی اور کس نوعیت کی اخلاق باختہ اخباری مہم چلائی تھی؟ ظاہر ہے مولانا مودودی نے اپنی مدمقابل سیاسی پارٹیوں کے پروگرام پر نقد کرتے ہوئے اپنا پروگرام تو پیش کرنا تھا۔ البتہ مولانا مودودی کو دوسری جانب سے جس لچر پروپیگنڈے کا سامنا کرنا پڑا اس کو بیان کرنے سے یہ قلم عاجز ہے۔ ۱۹۷۰ء میں پورے سال پر پھیلی انتخابی مہم میں مولانا مودودی نے کُل ۸ تقاریر کیں۔ ان میں ایک لفظ بھی ایسا نہیں ہے کہ جسے اخلاق و تہذیب سے ٹکراتا ہوا کہا جاسکے۔ اس کے مقابلے میں بھٹوصاحب کی تقریروں سے مرصع اخبارات و جرائد: شھاب، نصرت، مساوات، آزاد اور الفتح کے اوراق ابتذال کی حدوں کو چھوتے ہوئے نظر آئیں گے۔ خود پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کو تو بھٹوصاحب نے بلوچستان پر فوجی یلغار اور سیاسی قیادت کو کچلنے کے لیے استعمال کیا تھا۔ یہی جنرل ضیاء الحق، بھٹو صاحب کی دھاندلی زدہ حکومت کو تحفظ دیتے ہوئے، ۲۰اپریل ۱۹۷۷ء سے تین شہروں میں مارشل لگاکر حکومت مخالف مظاہرین کو کچلتے رہے، مگر آخرکار جولائی ۱۹۷۷ء میں ایک وقت ایسا آیا کہ ان دونوں میں دُوری ہوگئی، لیکن اس وصل و فصل میں مولانا مودودی کا کردار کہاں سے آگیا؟
آیئے سنیے: ۱۹۷۷ء میں بھٹو حکومت کی انتخابی دھاندلی کے خلاف جب ۱۴ مارچ سے احتجاجی تحریک شروع ہوئی تو ۲۹ مارچ کو مولانا مودودی سے مجیدنظامی صاحب نے ملاقات کی۔ مولانا نے بحران سے نکلنے کے لیے نظامی صاحب کے ذریعے بھٹوصاحب کو تجاویز بھیجیں کہ وہ اصرار نہ کریں اور الیکشن دوبارہ کروا دیں، مگر وہ نہیں مانے۔ جب ۹ اپریل کو بھٹوحکومت کی جانب سے لاہور میں قتل عام کے بعد حالات خراب ہوگئے تو بھٹوصاحب، مولانا مودودی سے ملنے کے لیے ۱۴اپریل کو مولانا مودودی کے گھر پر آئے، تب بھی مولانا نے انھیں مشورہ دیاکہ وہ قوت کے بے جا استعمال سے حالات کو خراب نہ کریں۔ مگر وہ اس کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ ۲۰ اپریل ۱۹۷۷ء کو بھٹوصاحب نے کراچی، حیدرآباد اور لاہور میں مارشل لا نافذ کردیا۔ ۲۴اپریل کو مولانا مودودی نے قومی اور عالمی اخباری نمایندوں کی پریس کانفرنس سے خطاب کیا، جس میں بی بی سی کے نمایندے اینڈریو وٹلے نے مولانا سے سوال کیا:
Would you kindly consider the take of Army as a peaceful revolution?
[فوج اگر اقتدار پر قبضہ کرلے تو کیا آپ اسے پُرامن انقلاب قرار دیں گے؟]
مولانا مودودی نے ایک لمحے کا توقف کیے بغیر، مضبوط لہجے میں جواب دیا:
Army has no right to take over. Army is the servant of the people, not their master.
[فوج کو اقتدار پر قابض ہونے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ فوج قوم کی ملازم ہے، آقا نہیں۔]
صفدر علی چودھری صاحب کی ہدایت پر راقم نے اس پریس کانفرنس کو ریکارڈ کیا تھا۔ دوسرے روز یہ الفاظ قومی پریس میں شائع ہوئے اور عالمی نشریاتی اداروں نے انھیں نمایاں طور پر پیش کیا۔ مراد یہ ہے کہ مولانا نے انفرادی سطح پر اور عوام کے سامنے بھی مارشل لا سے بچنے کے لیے بار بار اپیل کی۔ بعدازاں بھٹوصاحب نے ۲۷ اپریل کو مسلح افواج پاکستان کے اعلیٰ افسران کا مشترکہ بیان نشر کرایا کہ وہ بھٹو کی حکومت کے پشتی بان ہیں۔
ایک اور شرمناک الزامی افسانے کو ان الفاظ میں پڑھیے:
مولانا مودودی نے قائداعظم کو کافر قرار دیا تھا، مگر ہندستان کے مسلمانوں نے مودودی کو مسترد کردیا اور ان کے بجاے محمدعلی جناح، اور مذہب و سیاست کے متعلق ان کے زیادہ سیکولر نقطۂ نظر کی حمایت کی۔ (ص ۶۸، ۶۹)
کتاب میں بیان کردہ یہ ایک ایسا اذیت ناک بہتان ہے کہ جس کی تائید میں کوئی فرد ایک سطر بھی پیش نہیں کرسکتا۔ ماسوا اس اخلاق باختہ مہم کے ایندھن کے، جسے خود ہی اکٹھا کرکے وقفے وقفے سے سلگایا جاتا ہے۔ قائداعظم تو ایک طرف، مولانا مودودی نے زندگی بھر کسی ایک فرد پر بھی کفر کا فتویٰ صادر نہیں کیا، بلکہ کفر سازی کے کلچر کی بھرپور مخالفت کی۔۲؎ یہ کام احرار کے لیڈر مظہرعلی اظہر ایڈووکیٹ [۱۳ مارچ ۱۸۹۵ء-۲نومبر ۱۹۷۴ء] نے کیا تھا، اور جو مسلک کے اعتبار سے شیعہ اور ایک شعلہ نوا مقرر تھے۔ لیکن کچھ گروہوں نے کمالِ بددیانتی سے اور وہ بھی پاکستان بننے کے ۱۰برس بعد، مظہر علی کے الفاظ مولانا مودودی سے منسوب کرکے وقفے وقفے سے دہرانا شروع کردیے۔ مولانا مودودی کے ساتھ اس بدترین زیادتی کا ارتکاب کرنے والے خود کو ’روشن خیال‘ اور ’معروضیت‘ کا علَم بردار قرار دیتے ہیں، جب کہ دوسری جانب خود قائداعظم کو کفر کی گالی دینے کا بھی گاہے گاہے ارتکاب کرتے ہیں___ ریکارڈ کو درست رکھنے کے لیے جسٹس محمدمنیر اور جسٹس ایم آر کیانی پر مشتمل انکوائری کمیٹی رپورٹ ۱۹۵۳ء (انگریزی میں صفحہ ۱۱)دیکھیے:
The authorship of the couplet:
اک کافرہ کے واسطے اسلام کو چھوڑا
یہ قائداعظم ہے کہ ، ہے […]
is attributed to Maulana Mazhar Ali Azhar, a leading personality in the Ahrar Organization. Who had the sudacity to assert before us that he still held the view.
[یہ شعر مولانا مظہر علی اظہر سے منسوب ہے جو تنظیم احرار میں ایک ممتاز شخصیت ہیں۔ انھوں نے ہمارے سامنے نہایت ڈھٹائی سے یہ اظہار کیا کہ [قائداعظم کے متعلق] وہ اب تک اسی خیال پر قائم ہیں۔ (انکوائری کمیٹی رپورٹ، اُردو، ص ۱۱)]
مولانا مودودی پر یہ بہتان لگانے کے بعد مصنفہ لکھتی ہیں:
مولانا مودودی نے میرے والد [بھٹوصاحب] کی سیاست کو انتہا پسندوں کے ایجنڈے سے ہم آہنگ نہ پاکر ۱۹۷۰ء میں انھیں بھی کافر قرار دے دیا۔ (ص ۶۹)
اب یہ مصنفہ کے ساتھیوں پر لازم ہے کہ وہ مولانا مودودی کی تحریروں سے کوئی ایک سطر بھی ایسی نکال کر پیش کریں جس میں انھوں نے مسٹربھٹو کو کافر قرار دیا ہو۔ عجیب بات ہے کہ ’مفاہمت‘ کے نام پر لکھی جانے والی اس کتاب میں عمومی اور سماجی سطح پر رواداری ہی کو تہس نہس کرنے کی بنیاد ڈالی جارہی ہے۔ دوسری طرف مارچ ۱۹۶۹ء میں یہ بھٹوصاحب ہی تھے، جنھوں نے عبدالمجید بھاشانی کے ساتھ مل کر انتہاپسندی،گھیرائو، جلائو اور توڑ پھوڑ کی مہم چلاکر ’پاکستان تحریک جمہوریت‘ (PDM) اور ’جمہوری مجلس عمل‘ (DAC) کی قومی جمہوری تحریک کو پٹڑی سے اُتارا، اور جنرل آغا یحییٰ خاں کے مارشل لا کا راستہ صاف کیا تھا۔ تب مولانا مودودی قومی قیادت کے ساتھ مل کر آئینی جدوجہد کر رہے تھے۔ ایوب خان کے ساتھ گول میز کانفرنس کامیاب بھی ہوگئی تھی کہ آئینی ترامیم کے ذریعے انتقالِ اقتدار اور عام انتخاب ہوجاتا، مگر انتہاپسندوں کی سربراہی کرتے ہوئے بھٹوصاحب اور بھاشانی صاحب نے اس پُرامن حل کو ناکام ہی نہیں بنایا، بلکہ جنرل آغا یحییٰ خاں کے مارشل لا کا سب سے پہلے خیرمقدم بھی کیا۔ بالکل ویسا ہی خیرمقدم کیا جس طرح کہ خود بے نظیر بھٹو نے ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو نوازشریف کی حکومت کی برطرفی اور جنرل مشرف کی آمد کا خیرمقدم کیا تھا___ مصنفہ نے اگلی سطور میں یہ بھی لکھ دیا ہے:
۱۹۸۸ء میں جب میں نے وزیراعظم کا انتخاب لڑا تو مودودی کی جماعت نے مجھے بھی کافر قرار دے دیا، بالکل ویسے جس طرح کہ انھوں نے مجھ سے پہلے میرے والد کو قرار دیا تھا۔ (ص ۶۹)
۱۹۸۸ء تو ابھی کل کی بات ہے۔ جماعت اسلامی کے کسی لیڈر، جماعت کی کسی قرارداد اور جماعت کے کسی اخبار سے اس نوعیت کی بات پیش نہیں کی جاسکتی تو پھر سوال یہ ہے کہ مصنفہ نے اس کتاب میں کیوں کافر، کافر کی تکرار کی ہے؟ دراصل مغرب کی جنگ جُو اور متعصب قیادت کے سامنے موجود نظریاتی چیلنج کو ایک خوف ناک ثبوت بناکر پیش کرنا مطلوب ہے ___آگے بڑھیں:
مودودی نے فاطمہ جناح کی حمایت کی، جو ۱۹۶۰ء کے عشرے میں صدر پاکستان کے عہدے کی خاتون امیدوار تھیں (لیکن بعدازاں میرے وزیراعظم بننے کے خلاف ان کا مخالفانہ انکشافِ حق مذہبی سے زیادہ سیاسی تھا)۔ (ص ۶۹)
۱۹۶۵ء میں قائداعظم کی ہمشیرہ فاطمہ جناح نے صدارتی انتخاب میں ایوب خاں کو چیلنج کیا۔ اگرچہ انھیں شکست ہوئی، لیکن انھوں نے ایوب اقتدار کی کمزوری کو واضح کردیا۔ میرے والد، فاطمہ جناح کے قریبی حلقے میں شامل تھے۔ (ص ۱۷۱، ۱۷۲)
یہ بھی ایک ہوش ربا داستان ہے۔ مصنفہ نے یہاں پر وہ سارا قصہ ہی دھندلا دیا ہے کہ جس میں ان کے والدگرامی بھٹوصاحب، آمرمطلق جنرل ایوب خاں کی حکمران پارٹی کنونشن مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری تھے، اور انھوں نے صدارتی امیدوار فاطمہ جناح کو شکست دینے اور انتخاب کو اغوا کرنے کا ’کارنامہ‘ انجام دیا تھا۔ یہ بھی عجب تر بات ہے کہ ’قریبی حلقے میں شامل‘ بھٹوصاحب انھی فاطمہ جناح کو شکست دلوانے اور نتائج کو ’ترقی پسند‘ بنانے میں پیش پیش تھے۔ انھی دھاندلی زدہ انتخابات نے مشرقی پاکستان کے عوام کو پاکستان کے فوجی حکمرانوں اور ان کے جاگیردار رفیقوں کی آمریت سے بے زار اور وفاقِ پاکستان سے مایوس کردیا تھا۔ اسی نوعیت کی’جمہوری روایت‘ کی وارث لکھتی ہیں:
جب جنرل ضیا کی آمریت، حزبِ اختلاف کو کچل رہی تھی، مودودی کی جماعت کے قائدین ضیا کی کابینہ کے ارکان تھے۔ (ص ۷۰)
جماعت اسلامی کبھی خود جنرل ضیا حکومت کا حصہ نہیں بنی، بلکہ یہ پاکستان قومی اتحاد (PNA) کی ۲۴ رکنی وزارت تھی، (ان میں چار وزرا کا تعلق جماعت سے تھا)۔ جنرل ضیاء الحق نے عام انتخابات کے انعقاد، سول اقتدار کی جانب بڑھنے کی غرض سے پاکستان قومی اتحاد کی قیادت سے تعاون کے لیے کہا تھا۔ تب اُس وزارت میں مسلم لیگ، پاکستان جمہوری پارٹی، جماعت اسلامی اور جمعیت علماے اسلام کے نمایندے شامل تھے۔۲۳ اگست ۱۹۷۸ء سے ۱۵ اپریل ۱۹۷۹ء، یعنی ۸ ماہ کی مدت پر محیط اس وزارت نے جنرل ضیا سے عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کروایا اور اعلان کے اگلے ہفتے وزارتوں کو چھوڑ کر عوام میں آگئے (جب کہ بھٹوصاحب اکتوبر ۱۹۵۸ء سے جون ۱۹۶۶ء، یعنی ۷ سال اور ۸ ماہ تک آمرمطلق ایوب خان کی کابینہ کا حصہ بنے رہے)۔ اس اقتباس میں دیگر سیاسی جماعتوں کا ذکر چھوڑ کر صرف جماعت اسلامی کو تنقید کا ہدف بنانا سیاسی تعصب کے شاخسانے کے سوا اور کیا ہے؟
جنرل محمد ضیاء الحق سے مصنفہ کی نفرت کئی حوالوں سے کتاب میں جھلکتی ہے، جس کا ایک سبب یہ تھا کہ انھوں نے قتل کے ایک مقدمے میں، مرحومہ کے والد کوسپریم کورٹ کی جانب سے سنائی گئی سزاے موت کو معاف نہیں کیا تھا۔ مگر اس نفرت کا نتیجہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ناکردہ کاموں کا بوجھ بھی اپنے ہدف کے پلڑے میں ڈال دیا جائے۔ اب یہ سطریں ملاحظہ ہوں:
میرے والد [یعنی بھٹوصاحب]، جماعت اسلامی کے مولانا مودودی کے ساتھ جنرل ضیا کے رابطوں سے واقف نہ تھے۔ بعدازاں جنرل ضیا نے مسلح افواج میں مولانا مودودی کی کتابوں کو پڑھنا لازمی قرار دے دیا۔ یوں پیشہ ورانہ افواج، مذہب کی سیاست کے حلقے میں داخل ہوگئیں۔(ص ۱۸۷)… جنرل ضیا نے جلد ہی فوج کا ماٹو بدل کر: ’’ایمان، تقویٰ، جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کردیا۔ (ص ۱۸۸)… ضیاء الحق نے دعویٰ کیا کہ پاکستان، اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا۔ (ص ۱۸۸)
آخر کوئی تو خوبی ہوگی جنرل ضیاء الحق میں، کہ جس کی بنا پر ۸سینیر جرنیلوں پر ترجیح دیتے ہوئے، وزیراعظم پاکستان جناب ذوالفقار علی بھٹو نے یکم مارچ ۱۹۷۶ء کو انھیں چیف آف آرمی اسٹاف مقرر کیا تھا۔ یہ جانچ پرکھ تو انھی کی ذمہ داری تھی، اس میں مولانا مودودی کا کیا قصور ہے؟ پھر جولائی ۱۹۷۷ء میں مارشل لا لگانے سے قبل جنرل محمد ضیاء الحق کی مولانا مودودی سے نہ کبھی کوئی ملاقات ہوئی اور نہ کسی قسم کا رابطہ ہی قائم ہوا۔ ظاہر ہے مولانا مودودی اسی معاشرے میں ایک اسلامی فکری تحریک کے قائد اور راہنما تھے۔ لوگ ان کے خیالات اور کتب سے ناواقف تو نہیں ہوسکتے تھے۔ مگر کسی کتاب کو پڑھنے کا لازمی نتیجہ یہ نہیں نکلتا کہ وہ فرد کسی گہرے رابطے کا حصہ بن گیا ہے۔
جہاں تک مولانا مودودی کی کتب اور پاکستانی فوج کے مابین تعلق جوڑنے کا معاملہ ہے تو یہ کام سروسز بُک کلب نے کیا ہے، جو افسروں کی ضرورت اور طلب کے مطابق دنیا بھر کے مصنفین کی کتابیں چھاپ کر، انھیں لاگت پر فراہم کرتا ہے۔ کیا دنیا بھر کے مسلم اور غیرمسلم مصنفین میں مولانا مودودی ہی ایسی شخصیت ہیں کہ ان کی کوئی کتاب سروسز بُک کلب چھاپ دے، تو اس پر بلاول ہائوس سے لے کر وہائٹ ہائوس تک لرزہ طاری ہوجائے۔ آزادیِ اظہار کی باتیں کرتے ہوئے نہ تھکنے والے ’جدیدیت پسندوں‘ میں اتنی وسعت ِ نظر ہونی چاہیے کہ وہ اپنی نفرت کا نشان بننے والی شخصیت کی کتاب کو پڑھ سکیں، یا دوسرا جو اسے پڑھے، وہ اس کے حق مطالعہ کو تسلیم کریں۔ افسوس کہ یہ ساری ’روشن خیالی‘ دوچار قدم چل کر تنگ نظری کی دلدل پہ ڈھیر ہوجاتی ہے۔
پاکستانی فوج کے ماٹو کو بدل کر: ’’ایمان، تقویٰ، جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کرنے کے سلسلے میں یاد رکھنا چاہیے کہ جنرل محمد ضیاء الحق سے قبل چیف آف آرمی اسٹاف [۷۶-۱۹۷۲ء] جنرل ٹکاخاں [جو بعدازاں پیپلزپارٹی کے سیکرٹری جنرل بھی رہے، ایک پابند صوم و صلوٰۃ انسان تھے] نے فوجی چھائونیوں، میس اور پارٹیوں میں شراب پر پابندی عائد کر دی تھی، حالانکہ ملک میں شراب پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ پھر یکم مارچ ۱۹۷۶ء کو جنرل ٹکاخان کے بعد فوج کی قیادت سنبھالنے کے ایک ہی ماہ بعد جنرل محمد ضیاء الحق نے پاکستان بھر کی چھائونیوں میں: ’’ایمان، تقویٰ، جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کا ماٹو لکھوا دیا تھا۔ اس لیے جس طرح قادیانیوں کو اقلیت قرار دینا اور ایٹمی پروگرام کا آغاز کرنا، مئی ۱۹۷۷ء میں جمعے کی چھٹی اور ملک میں شراب پر پابندی عائد کرنا جناب بھٹو ہی کے کارنامے ہیں، اسی طرح مسلح افواج کے ماٹو میں یہ مثبت تبدیلی بھی ذوالفقار علی بھٹو کے عہدِ حکومت کا مبارک قدم ہے، جو اس وقت مسلح افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر تھے۔
جہاں تک ’پاکستان اسلام کے لیے حاصل کیا گیا تھا، کے انکشاف کا تعلق جنرل ضیا سے جوڑنے کا معاملہ ہے، تو اس ضمن میں تحریکِ پاکستان میں اور قیامِ پاکستان کے بعد قائداعظم مرحوم کی تقریروں کو دیکھ لیا جائے تو بہتر ہوگا۔ مثال کے طور پر یہاں صرف ایک تقریر کا اقتباس پیش ہے۔ یہ تقریر قائداعظم نے ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ء کو، کراچی بار ایسوسی ایشن کے سامنے کی تھی:
میں ان لوگوں کے عزائم نہیں سمجھ سکا جو یہ پروپیگنڈا کررہے ہیں کہ پاکستان کے آئین کی بنیاد شریعت نہیں ہوگی۔ اسلامی اصولوں کا اطلاق آج بھی ہم پر اسی طرح ہوتا ہے، جس طرح ۱۳۰۰ صدیوں پہلے ہوتا تھا۔ اس سے کسی کو بھی خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ پروپیگنڈا کرنے والے حضرات ’شرارتی‘ اور ’منافق‘ ہیں۔ (قائداعظم کی تقاریر، مرتبہ: ڈاکٹر رفیق افضل، ص ۴۵۵)
پھر بانیانِ پاکستان کے ہاتھوں مارچ ۱۹۴۹ء میں قرارداد مقاصد کی منظوری کا عمل بھی پرکھ لیا جائے، آم اپنی خوشبو اور مٹھاس کی خبر دے دیں گے، پیڑ گننے کی ضرورت نہ رہے گی۔
اب دیکھیے، یہ ۲ مارچ ۱۹۸۱ء کی بات ہے۔ کراچی سے پشاور جاتے ہوئے پی آئی اے کی پرواز پی کے۳۲۶ بوئنگ ۷۲۰ کو الذوالفقار نامی تنظیم نے اغوا کیا۔ الذوالفقار: پیپلزاسٹوڈنٹس فیڈریشن اور سوشلسٹ نوجوانوں پر مشتمل ایک دہشت گرد تنظیم تھی۔ جس کی سربراہی بے نظیر بھٹو کے بھائی مرتضیٰ بھٹو اور شاہ نواز بھٹو کر رہے تھے۔ مسافر طیارہ اغوا کر کے کابل پہنچایا گیا، اس کے فضائی قزاق سلام اللہ ٹیپو نے بی بی سی لندن کو انٹرویو دیتے ہوئے اعلان کیا: ’’[۲۶ فروری ۱۹۸۱ء کو] ہم ہی نے کراچی یونی ورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم حافظ اسلم کو گولی مار کر قتل کیا تھا‘‘۔ اس تنظیم کے خدوخال کو دیکھنا ہو تو وعدہ معاف گواہ راجا انور کی کتاب The Terrorist Prince(دہشت گرد شہزادہ) دیکھ لی جائے۔ اب زیرتبصرہ کتاب کا یہ حصہ پڑھیے:
ضیا نے جماعت اسلامی کے غنڈوں کو [پاکستانی] یونی ورسٹیوں میں ترقی پسند طالب علموں کو گولی سے اڑانے کے لیے استعمال کیا۔ جماعت اسلامی کو اپنے طلبہ ونگ [یعنی جمعیت] سے یونی ورسٹی پروفیسروں اور انٹیلی جنس افسروں کی تقرری کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی… کالجوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں سے ضیا نے سیکولر پروفیسروں کو نکال باہر پھینکا، اور ان کی جگہ جماعت اسلامی کے حمایتی ارکان بٹھا دیے گئے۔ (ص ۱۸۹)
اس اقتباس کا مطالعہ کرتے ہوئے الذوالفقار تنظیم کا حوالہ ذہن میں رکھا جائے، کیونکہ یہ ضیاء الحق کے دور کی بات ہو رہی ہے۔ یہاں بھٹو صاحب کے اس دور (۷۷-۱۹۷۱ء) کی بات نہیں کی جارہی کہ جس میں پیپلزگارڈز، پیپلزاسٹوڈنٹس فیڈریشن، اور فیڈرل سیکورٹی فورس کے ہاتھوں عوام، بلوچستان، طالب علموں اور حزب مخالف کو کس کس انداز سے اپنے خون میں نہانا پڑا تھا۔ یہاں اس تاریخ کا اعادہ بھی نہیں کیا جا رہا کہ جس میں پیپلزاسٹوڈنٹس فیڈریشن وغیرہ کے جیالوں نے یک طرفہ طور پر ایک خونیں جنگ کا آغاز کیا تھا۔ یہ بتانا ان لوگوں کی ذمہ داری ہے جنھوں نے یہ الزام لگایا ہے کہ جمعیت نے اس زمانے میں ترقی پسند طالب علموں کو گولی سے اُڑایا۔ اور یہ بتانا بھی انھی کی ذمہ داری ہے کہ کس کس اعلیٰ تعلیمی ادارے سے کتنے پروفیسر صاحبان، جمعیت نے نکلوائے تھے۔ اگر ایسے چار پانچ پروفیسر صاحبان نکالے بھی گئے تو وہ مارشل لا حکام نے نکالے تھے، ان میں جمعیت کا کوئی کردار نہیں تھا۔ اسی طرح یہ گوشوارہ پیش کرنا بھی پیپلزپارٹی کی ذمہ داری ہے کہ کتنی تعداد میں جماعت کے’حمایتی‘ پروفیسر بھرتی ہوئے۔ سچی بات ہے کہ کتاب کے اس اقتباس کو پڑھ کر یوں لگ رہا ہے کہ یہاں طالب علموں کے قتل و غارت کا ایک طوفان، ترقی پسند اساتذہ سے تعلیمی اداروں کا صفایا اور ان کی جگہ من پسند پروفیسروںکی فوج کو بھرتی کرنے کا ہنگامہ برپا تھا۔ کیا واقعی ایسا تھا؟ یا یہ سب تخیل کے زور پر ایسا واویلا ہے، جس کی نہ کوئی جڑ ہے اور نہ کوئی بنیاد! اور جمعیت کے کارکنوں کو جتنی بڑی تعداد میں قوم پرست، سوشلسٹ اور غنڈہ عناصر نے اس زمانے میں قتل کیا ، اس کی مثال کسی دوسرے عشرے میں نہیں ملتی۔
کتاب کا سب سے تکلیف دہ حصہ وہ ہے، جس میں مصنفہ نے یہ کہا ہے:
۱۹۴۷ء میں مذہبی تقسیم کی پیداوار ہونے کے ناتے سے جنوبی ایشیا اور فلسطین کے حالات کے درمیان پائی جانے والی مماثلتوں نے مجھے ہمیشہ حیران کیا ہے۔ ہرتقسیم نے دو اقوام کو جنم دیا، یعنی فلسطین اور اسرائیل___ بھارت اور پاکستان۔ برعظیم کی تقسیم کو قبول کرلیا گیا، مگر شرق اوسط میں ایک فریق نے اسے رد کردیا۔ یہ استرداد دانش مندانہ تھا یا نہیں، ایک غیرمتعلق سی بات ہے۔ متعلقہ بات یہ ہے کہ آج کے فساد کے تمام معقول فریقوں نے دو ریاستی حل کو قبول کرکے دونوں طرف کے انتہا پسندوں کو ایک طرف دھکیل دیا ہے۔ (ص ۳۱۶)
اس نثرپارے میں متعدد مغالطے دَر آئے ہیں۔ فلسطین پر یہودیوں کے ناجائز قبضے (اسرائیل) کی بنیاد ۱۹۱۷ء کے شرم ناک اعلان بالفور میں رکھی گئی، جس کی رُو سے سیکڑوں برسوں سے وہاں آباد مسلمانوں کی بے دخلی شروع ہوئی اور ۱۹۴۸ء میں زبردستی اسرائیل کی ریاست کا ناجائز قیام عمل میں لایا گیا۔ کیا اس ظالمانہ عمل کو قیامِ پاکستان کے ایک پُرامن آئینی حل کے مماثل قرار دیا جاسکتا ہے؟ پھر کیا واقعی بھارت نے قیامِ پاکستان کو دل سے (نہ کہ زبان سے) تسلیم کرلیا ہے؟ اگر واقعی صدقِ دل سے تسلیم کیا ہوتا تو کشمیر کا مسئلہ پیدا ہی نہ ہوتا اور پہلے روز سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے پودے کو دہلی سرکار یوں نہ سینچتی۔ اور کیا بے چارے مظلوم فلسطینیوں نے نادانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ’تقسیم‘ کو رَد کرنے کا جرم کیا ہے کہ جس پر یوں ان لاکھوں خانماں بربادوں کی دانش پرمصنفہ کو حیرت ہورہی ہے؟ کیا فلسطین اور مقبوضہ فلسطین کا مسئلہ ایسا ہی حل تھا، جیسا کہ پاکستان اور بھارت___ تو پھر بے نظیر بھٹو کے ممدوحین قائداعظم، علامہ محمد اقبال، ذوالفقار علی بھٹو، فیض احمد فیض وغیرہ کیوں کر اس ظلم پر تڑپتے رہے۔ انھوں نے کیوں نہ فلسطینیوں سے کہا کہ اسرائیل کو تسلیم کرلو؟ پاکستان تو بے خانماں، نہتے اور لٹے پٹے مہاجروں کا ملک تھا، مگر اسرائیل کو تو یورپ و امریکا کی مالی، فوجی اور سیاسی پشت پناہی کے آہنی ہاتھوں کے ذریعے تشکیل دیا گیا اور لاکھوں انسانوں کی لاشوں کا ڈھیر لگاکر انسانیت کو ہر روز قتل کیا گیا۔ کیا واقعی پاکستان اور اسرائیل کے مابین کوئی مماثلت موجود ہے؟ اور کیا فلسطینیوں نے اسرائیل کو تسلیم نہ کر کے فساد کا بیج بویا ہے؟ یہ استدلال خود مذمتی اور بے بنیاد ’روشن خیالی‘ کا عبرت ناک نمونہ ہے جس نے مغربیوں کے ظلم کو سہارا اور تباہ حال فلسطینیوں کے زخموں پر نمک پاشی کی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اہلِ پاکستان کو ایک ذلت آمیز مماثلت کا طعنہ دے کر دکھ پہنچایا ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پر قائداعظم کے نام علامہ محمد اقبال کے خط مورخہ ۷ اکتوبر ۱۹۳۷ء کا آخری ٹکڑا پیش کیا جائے:
مسئلہ فلسطین مسلمانوں کے ذہنوں میں بہت اضطراب پیدا کر رہا ہے… مجھے قوی امید ہے کہ لیگ اس مسئلے (فلسطین) پر ایک بہت ہی سخت قرارداد منظور کرے گی… ذاتی طور پر میں کسی ایسے امر کی خاطر جیل جانے کو بھی تیار ہوں جس سے اسلام اور ہندستان متاثر ہوتے ہوں۔ مشرق کے دروازے پر مغرب کا ایک اڈا بننا اسلام اور ہندستان دونوں کے لیے پُرخطر ہے۔ (پروفیسر احمدسعید، اقبال اور قائداعظم، اقبال اکادمی ، لاہور، ص ۱۱۰)
اسی طرح بے نظیر کے نقطۂ نظر کے برعکس مولانا مودودی کا موقف جاننا متعدد حوالوں سے اشد ضروری ہے۔ جنھوں نے اسرائیل اور پاکستان میں مماثلت پیدا کرنے والے ایسے ہی ایک روشن خیال کو جواب دیتے ہوئے، ماہنامہ ترجمان القرآن جولائی ۱۹۴۴ء میں لکھا تھا:
میرے نزدیک پاکستان کے مطالبے پر یہودیوں کے قومی وطن کی تشبیہ چسپاں نہیں ہوتی۔ فلسطین فی الواقع یہودیوں کا قومی وطن نہیں ہے۔ ان کو وہاں سے نکلے ہوئے ۲ہزار برس گزر چکے ہیں۔ اسے اگر ان کا قومی وطن کہا جاسکتا ہے تو اسی معنی میں جس معنی میں جرمنی کی آریہ نسل کے لوگ وسط ایشیا کو اپنا قومی وطن کہہ سکتے ہیں۔ یہودیوں کی اصل پوزیشن یہ نہیں ہے کہ ایک ملک واقعی ان کا قومی وطن ہے اور وہ اسے تسلیم کرانا چاہتے ہیں، بلکہ ان کی اصل پوزیشن یہ ہے کہ ایک ملک ان کا قومی وطن نہیں ہے اور ان کا مطالبہ یہ ہے کہ ہم کو دنیا کے مختلف گوشوں سے سمیٹ کروہاں لابسایا جائے، اور اسے بزور ہمارا قومی وطن بنا دیا جائے۔ بخلاف اس کے مطالبہ پاکستان کی بنیاد یہ ہے کہ جس علاقے میں مسلمانوں کی اکثریت آباد ہے، وہ بالفعل مسلمانوں کا قومی وطن ہے۔ مسلمانوں کا کہنا صرف یہ ہے کہ موجودہ جمہوری نظام میں ہندستان کے دوسرے حصوں کے ساتھ لگے رہنے سے ان کے قومی وطن کی سیاسی حیثیت کو جو نقصان پہنچتا ہے، اس سے اس کو محفوظ رکھا جائے، اور متحدہ ہندستان کے بجاے ہندو ہندستان اور مسلم ہندستان کی دو آزاد حکومتیں قائم ہوں۔ (دیکھیے: سید ابوالاعلیٰ مودودی، تحریکِ آزادیِ ہند اور مسلمان، دوم، ص ۲۱۸، ۱۹۷۳ء، اور رسائل و مسائل، اوّل، ص ۲۷۹، ۲۸۰)
بے نظیر بھٹو کی زیرنظر کتاب کے مطالعے سے جو تاثر سامنے آتا ہے، اسے حسبِ ذیل نکات کی صورت میں بیان کیا جاسکتا ہے:
جیساکہ ابتدا میں بتایا تھا، کہ ۲۷دسمبر ۲۰۰۷ء کی شام بے نظیر بھٹو کا بہیمانہ قتل ہوا، دوسرے روز ۲۸دسمبر کو مارک اے سیگل نے اس کتاب کا دیباچہ تحریر فرمایا اور ۳ جنوری ۲۰۰۸ء یعنی ساتویں روز جناب آصف زرداری، بیٹے بلاول اور بیٹیوں بختاور اور آصفہ نے اس کتاب کا اختتامیہ سپردِقلم کیا۔ رہ رہ کر یہ سوال کاٹنے کو دوڑتا ہے کہ بے نظیر صاحبہ کے قتل کے سانحے کے دوسرے روز (جب کہ تعزیت کنندگان ہجوم در ہجوم آرہے تھے اور) ابھی تدفین بھی نہیں ہوئی تھی، تو کس طرح دیباچہ لکھا گیا اور تدفین کے پانچویں روز ان کے غم زدہ شوہر اور دکھ میں نڈھال بیٹے بیٹیوں کو کس طرح وہ ذہنی کیفیت نصیب ہوگئی کہ جس میں وہ اختتامیہ قلم بند کرپاتے۔ یہ سب باتیں کتاب کے متن کے بارے میں بجاطور پر شک پیدا کرتی ہیں، کہ جس طرح خود مرحومہ کی وصیت کے بارے میں بھی شک پایا جاتا ہے۔
مصنفہ کی قومی خدمات کا اعتراف کرنے کے باوجود، یہ باتیں بادل ناخواستہ تحریر کرنا پڑی ہیں۔ اب دوسری جانب دیکھیے: مغرب میں پلی بڑھی، نومسلمہ اے وان رِڈلی کو یہ کیسا شعور نصیب ہوا ہے کہ جو مسلم دنیا میں مغربی آقائوں کے کاسہ لیس اور اقتدار کے بھوکے امیدواروں اور حکمرانوں کو بے نقاب کرتی اور ان کی خواہشاتِ اقتدار پر تازیانے برساتی چلی جارہی ہے۔ یہ چند روزہ زندگی ہی سب کچھ نہیں، اور نہ چند برسوں کی حکومت انسانی زندگی کا حاصل ہے۔ اس لیے مناسب یہی ہے کہ قومی قیادت کے مقام پر فائز افراد اپنی داخلی جنگ کو بڑھانے اور پھیلانے کے بجاے داخلی یک جہتی ، بہتر تعلیم و تربیت اور قومی و ملّی موقف میں مضبوطی کی راہوں پر چلیں۔ ملامتیہ رنگ چھوڑیں، ایک دوسرے پر تیراندازی کرکے جگ ہنسائی کا کھیل ترک کریں، اور عظمت ِ دانش کا پرچم تھام کر قوم کی قیادت کریں۔
بے نظیر بھٹو کی زندگی کا آخری سیاسی کارنامہ ’قومی مفاہمتی آرڈی ننس‘ (NRO- National Reconciliation Ordinance) تھا اور آخری کتاب Reconciliation۔ [کتاب کا پورا نام: مفاہمت: اسلام، جمہوریت اور مغرب ہے۔] وہ ۲۷دسمبر ۲۰۰۷ء کی شام جلسۂ عام میں رونما ایک الم ناک حملے میں جاں بحق ہوئیں۔ اگلے روز ۲۸دسمبر کو مارک اے سیگل نے اس کتاب کا دیباچہ لکھا، جب کہ ساتویں روز ۳ جنوری ۲۰۰۸ء کو ان کے شوہر آصف علی زرداری، بیٹے بلاول اور بیٹیوں بختاور اور آصفہ نے کتاب کا اختتامیہ قلم بند کیا۔ ۳۲۸صفحات پر مشتمل یہ کتاب سائمن اینڈ شسٹر نے لندن، نیویارک اور ٹورنٹو سے ۲۰۰۸ء کے اوائل میں شائع کی ہے۔
عجیب اتفاق ہے کہ اس کتاب کا عنوان ہے: ’مفاہمت‘ مگر کتاب کے مندرجات میں کہیں کسی ایک سطر میں بھی مذکورہ ’مفاہمتی آرڈی ننس‘ کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی، حالانکہ اسی آرڈی ننس کی بنیاد پر نہ صرف ان کی جلاوطنی ختم ہوئی بلکہ ان پر اور ان کے شوہر آصف علی زرداری پر قائم کرپشن کے مقدمات ختم ہوئے اور سیاست میں ان کی واپسی ممکن ہوئی اور اس کے نتیجے میں پیپلزپارٹی کو نئی زندگی اور زرداری صاحب کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی صدارت ملی۔ ’مفاہمت‘ (deal) کے بارے میں یہ پُراسرار خاموشی بہت معنی خیز ہے۔
اس کتاب میں جو چیز زیربحث ہے وہ مغرب بلکہ امریکا اور مسلمان ہیں، مسلمان بھی وہ، جنھیں کٹہرے میں کھڑے ملزم بلکہ مجرم بن کر پیش کیا گیا ہے۔ کتاب کے مباحث کی تکرار، اس میں موجود پیغام کے رنگ اور اس کے اسلوبِ نگارش کو دیکھ کر بسااوقات یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس کتاب کا بیش تر حصہ بے نظیر بھٹو کا لکھا ہوا نہیں ہے، تاہم پیپلزپارٹی کے جنرل سیکرٹری جہانگیر بدر نے اس کتاب کو بے نظیر بھٹو کی: ’’وراثت کی آخری کڑی اور نعرئہ حق کی ایسی صدا قرار دیا ہے، جس کی بازگشت آنے والے زمانوں میں بھی گونجتی رہے گی‘‘۔ پاکستان کی ایک اہم سیاسی پارٹی کی رہنما سے منسوب اس کتاب کا مطالعہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس میں بیان کردہ وژن کو سمجھا جائے، اور جسے وصیت یا وراثت کہا گیا ہے، اس میں پائے جانے والے پیغام کے مضمرات کا احاطہ کیا جائے۔
کتاب میں متعدد مقامات ایسے ہیں کہ ان تحریروں کے اثرات مستقبل پر اثرانداز ہوں گے، اس لیے ضروری ہے کہ حق کی گواہی دی جائے۔ انسانی جان کا قتل جتنا بڑا جرم ہے، کم و بیش اتنا ہی بڑا جرم تاریخ کا قتل ہے۔ علمِ تاریخ، انسانی تجربے، اجتماعی زندگی کے حادثے، اور کارنامے کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کا محضرنامہ ہوتا ہے۔ کیا ’مفاہمت‘ کے نام پر ’نفرت‘ کا درس دینا کوئی مناسب عمل ہے؟ اگرچہ کتاب کے دو تہائی مباحث اس امر کا مطالبہ کرتے ہیں کہ ان پر غور کرکے ان کا بے لاگ تجزیہ کیا جائے۔ مگر زیرنظر صفحات میں اس قدر تفصیل کی گنجایش نہیں، اس لیے ہم اپنے تجزیے کو صرف دو ایک مرکزی موضوعات ہی تک محدود رکھیں گے۔ اس مبحث کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے: ۱-اسلام اور عالمِ اسلام ۲- سید قطب، مولانا مودودی اور جماعت اسلامی۔
یہ درست ہے کہ دینی امور پر بات کرنا کسی فرد کی اجارہ داری نہیں ہے۔ مصنفہ نے اس کتاب میں متعدد جگہ دینی معاملات پر اپنے نتیجہ ٔ فکر کو پیش کیا ہے۔ اپنی بات کہنا ان کا حق ہے، مگر اس میں بہرحال یہ ضرور دیکھا جائے گا کہ وہ بات درست ہے یا نہیں۔ ایک جگہ لکھا ہے:
قرآن کی تفسیر میں یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ تفسیر کون کر رہا ہے۔ کئی مسلمان، خصوصاً جن کا تعلق مذہبی حکومتوں سے ہے، یقین رکھتے ہیں کہ صرف چند مخصوص لوگوں ہی کو قرآن کی تفسیرکرنے کا حق حاصل ہے، حالانکہ یہ بات درست نہیں ہے۔ قرآن کی تفسیر کو کسی ایک فرد یا مجلس تک محدود نہیں رکھا گیا۔ قرآن کی تفسیر کرنے کی آزادی ہرمسلمان کو حاصل ہے۔ تمام مسلمانوں کو قرآن کی تفسیر کرنے کا حق دینے کی ضمانت (یعنی حق اجتہاد) حاصل ہے۔ (ص ۶۵)
یہ لطیف نکتہ تو بڑے بڑے روشن خیالوں کو بھی نہ سوجھا تھا کہ قرآن کی تفسیر کرنے کا حق ہرفرد کو ہے۔ علما نے کہیں نہیں کہا کہ تفسیر کرنے کا حق ہمیں حاصل ہے، بلکہ انھوں نے صرف یہ کہا ہے کہ تفسیر کے لیے علم اور تقویٰ، عربی اور دینی نظائر پر گہری دسترس حاصل ہونی چاہیے، اور جو فرد بھی یہ دسترس حاصل کرلے وہ تفسیر کرسکتا ہے۔علما نے یہ بھی کہیں نہیں کہا کہ کسی مخصوص نسلی طبقے کو یہ حق حاصل ہے، مگر انھوں نے یہ ضرور کہا کہ قرآن کے مفسر کو دین دار اور خدا ترس بھی ہونا چاہیے۔ مذکورہ پیراگراف میں مصنفہ نے ’اجتہاد‘ کو بھی ہرشہری کا ایسا حق قرار دینے کی کوشش کی ہے، جیساکہ وہ قانون کی تشریح کے لیے علم سے بے بہرہ ہرکس و ناکس کو حق دینے کے لیے آمادہ نہیں ہوسکتیں، آخر یہ آزاد روی صرف دین اسلام کے ساتھ ہی کیوں؟مصنفہ نے برعظیم پاک و ہند میں جن افراد کو علمِ دین کی وضاحت کے لیے نامزد فرمایا ہے، وہ ہیں: ’’مولانا وحیدالدین اور خالد مسعود جیسے زندہ مصلح، جو اپنے جدت پسند علمِ دین کو ریاست کے ظلم وستم یا دھونس کا نشانہ بنائے بغیر پڑھا سکتے ہیں‘‘ (ص ۲۸۴)___ عورتوں کے حقوق پر بحث کرتے ہوئے لکھا گیا ہے:
حقیقت یہ ہے کہ پردے (veil) یا برقعے کا تعلق زیادہ تر قبائلی روایات سے ہے۔ روایت پرست ماضی میں صاحب ِ ثروت خواتین صرف عزیزوں کی شادیوں یا جنازوں میں شریک ہونے کے لیے گھروں سے نکلتی تھیں۔ یہ اُس وقت اِس خطے کا عام چلن تھا، مگر کسی بھی حوالے سے اسلام کی تعلیم نہیں تھا۔ (ص ۴۲)
اگر پردہ کرنا قبائلی روایت کا حصہ ہے تو پھر پردہ نہ کرنا بھی تو کسی قبیلے کی روایت کا حصہ ہوسکتا ہے۔ کیا عہد ِ رسالتؐ و عہدصحابہؓ میں یہ چیزیں محض قبائلی سلسلے کی کڑیاں تھیں یا ان کے لیے قرآن و سنت اور اسلامی روایات کا ایک گراں قدر تسلسل ہمیں رہنمائی دیتا آیا ہے؟ تاہم پردے یا حجاب کی شکلیں مختلف ادوار میں لوگوں کے ذوق اور ضرورت کے مطابق تبدیل ہوتی رہی ہیں۔ یہ چیز روایت کی اسیری یا دولت کے اظہار کا ذریعہ بھی نہیں تھی۔ مسلمان عورتیں کبھی جنازوں میں نہیں جایا کرتیں۔ اور آخر میں ان کا یہ لکھنا کہ ’’پردہ کسی بھی حوالے سے اسلام کی تعلیم نہیں‘‘۔ ایک بے بنیاد جسارت اور ایک غلط فتویٰ ہے ___ آگے چل کر وہ کہتی ہیں:
عورتوں کے لباس سے متعلق قرآن کی دو بڑی آیات کو حجاب کی دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، اور فقہا انھی کو استعمال کر کے عورتوں سے حجاب پہننے کا تقاضا کرتے ہیں--- حالانکہ آیت (الاحزاب:۶۷) خاص رسولؐ کے اہلِ بیت کے لیے ہے۔ (ص ۴۲)
مصنفہ کے نزدیک پردہ صرف بعد کے فقہا کی ذہنی اُپج ہے اور یہ کہ قرآن کا حکم صرف اور صرف رسولِؐ پاک کے اہلِ بیت اور بیویوں کے لیے تھا۔ یہ بصیرت افروز انکشاف، عبرت کے کئی پہلو رکھتا ہے۔ انھوں نے مزید یہ بیان کیا ہے:
جب میں عُنفُوانِ شباب کو پہنچی تو میری والدہ [بیگم نصرت بھٹو صاحبہ] نے مجھ سے برقع (burqa) پہننے کے لیے کہا۔ [یہ سن کر] مجھے اچانک دنیا دھندلائی دھندلائی سی نظر آنے لگی۔ کپڑے کی اِن بندشوں تلے مجھے گرمی اور سانس لینے میں دقت محسوس ہوتی تھی۔ میرے والد [ذوالفقار علی بھٹو صاحب] نے مجھ پر صرف ایک نگاہ ڈالی اور کہا: ’’میری بیٹی کو پردہ (veil) کرنے کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔ میری والدہ نے فیصلہ کیا، اگر یہ پوری طرح لپیٹ لینے والا برقع نہیں پہنے گی تو پھر میں بھی نہیں پہنوں گی۔ اس طرح روایت شکنی کا آغاز ہوا--- اور رسولؐ نے تو کہا ہے کہ بہترین پردہ ’نظر کا پردہ‘ ہے۔ (ص ۴۳)
یہ واقعی انکشاف ہے کہ بیگم نصرت بھٹو صاحبہ نے اپنی بیٹی بے نظیر بھٹو کو برقعہ پہننے کے لیے کہا، مگر بھٹوصاحب نے پردے کی تجویز کو جھٹک دیا اور پھربیگم صاحبہ نے بھی برقع پہننے سے انکار کردیا۔ یوں روایت شکنی کا علَم بلند ہوا۔ اس میں توجہ طلب بات تو یہ ہے کہ بیگم صاحبہ ایک اصفہانی خاندان سے تعلق رکھنے والی ایران نژاد ماڈرن خاتون تھیں، جو بے نظیر کے سنِ بلوغت سے پہلے بھی کھلے چہرے کے ساتھ، سماجی مجالس میں شرکت کیا کرتی تھیں۔ جب انھوں نے خود برقع پہنا ہی نہیں تو ایسے میں، ان کی جانب سے ردعمل میں آکر برقع چھوڑنے کا اعلان ایک نئی بات ہے۔ اور جو بھٹو صاحب نے کہا یا جس تصور سے بے نظیر لرزاں و ترساں ہوئیں، وہ ان کا ذاتی احساس ہے، اس پر مزید کچھ کہنا لاحاصل ہے، تاہم قرآن، سنت، حدیث اور اسلامی سماجی روایات کو چھوڑ بھی دیں، تب بھی کم از کم ان تین حضرات کے بارے میں کیا کہیں گے جو اپنی وسیع المشربی کے باوجود پردے بلکہ برقعے کے قائل تھے، مراد ہیں: جدیدیت کے حدی خواں سرسیداحمد خاں، روشن خیالی کے ’امام‘ نیاز فتح پوری اور مغرب کے ظاہروباطن کے رازداں علامہ محمداقبال۔ کیا یہ لوگ بھی ’قبائلی طرزِ احساس کے قیدی‘ تھے؟ ___
مسلمانوں میں انتہا پسندی کا کھوج لگاتے ہوئے لکھتی ہیں:
ازمنہ وسطیٰ کے عالم احمد ابن تیمیہ [۱۲۶۲ء-۱۳۲۸ء]نے مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان ایک واضح حدِفاصل قائم کی اور کہا: ’’مسلم شہریوں کا یہ فرض ہے کہ ان [غیرمسلموں] کے خلاف بغاوت کریں اور جہاد کریں۔ اس فتوے کو کئی گروہوں نے نقل کیا۔ یوں ان کے نزدیک غیر مسلموں کے خلاف اعلانِ جہاد کرنا جائز ہے۔ (ص ۲۷-۲۸)
پہلی بات تو یہ ہے کہ امام ابن تیمیہ کو وحشی منگولوں کی بے رحمانہ یلغار روکنے کے لیے تلوار اٹھانا پڑی۔ اسلامی تاریخ کے اس عظیم محسن نے بذاتِ خود اس درندگی کو ایک ایسی سطح پر دیکھا، جس کا مشاہدہ ہمارے مغرب پلٹ اہلِ دانش نہیں کرسکتے۔ ظاہر ہے کہ حالت ِ جنگ اور تلواروں کی بارش میں وہ پھول کی پتیاں تو نچھاور نہیں کرسکتے تھے، بلکہ ایسی صورت حال میں اسلام جو رہنمائی دیتاہے، انھیں اس سے روشنی حاصل کرنا تھی۔ اب یہ مصنفہ یا ان کے مددگار اسکالروں کی تحقیق اور تخیل کی کرشمہ سازی ہے کہ امام ابن تیمیہ کے نزدیک ایک مسلمان کا کام ہروقت، ہر جگہ اورہر حالت میں یہی ہے کہ وہ غیرمسلموں پر جہاد کی تلواریں برساتا رہے۔ آگے چل کر ابن تیمیہ کو ان مجاہدین سے جوڑا گیا جو یہودی، نصرانی اور ہندو استعمار سے آزادی کے لیے مصروفِ جہاد ہیں۔ جو بات امام ابن تیمیہ نے کہی نہیں، اس کے لیے ان کو ذمہ دارکیوں قرار دیا جائے اور ان احوال و ظروف کو نظرانداز کیوں کیا جائے جس میں انھوں نے فتویٰ دیا اور تلوار اٹھانے کی بات کی تھی۔
اکیسویں صدی میں اہلِ مغرب کی تاریخ کروٹ لے رہی ہے، اور وہ سعودی حکمران جو ماضی میں ان کے ہاں ’اعتدال‘ کی علامت قرار دیے جاتے تھے، اب نئی عالمی صف بندی میں ان کے خلاف مغرب کی جانب سے گاہے گولہ باری دیکھنے میں آتی ہے۔ ۱۹۷۳ء میں سعودی فرماں روا شاہ فیصل بن عبدالعزیز نے اسرائیل کی پشت پناہی کرنے پر امریکا کو تیل کی سپلائی روکنے کی بات کی تو امریکی انتظامیہ نے ایک طرف دوستی اور دوسری جانب دشمنی اختیار کرنے کی دو رُخی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے سعودی مملکت کو نفرت کا نشانہ بنانا شروع کیا۔ اس کے ساتھ دوسرا شکار ’وہابیت‘ ہے۔ گذشتہ ۲۰۰ برس کے دوران مغربی استعماریوں نے ان کی اطاعت نہ کرنے والے مسلمانوں کو ’وہابی‘ کا نام دیا۔ اور ’وہابی‘ لفظ کے ساتھ متعدد بے بنیاد روایات منسوب کر کے مسلمانوں میں عمومی سطح پر نفرت کی آگ بھڑکائی گئی۔ موجودہ سعودی عرب کے علاقے نجد میں شیخ محمد بن عبدالوہاب (۹۲-۱۷۰۳ء) کے رفقا موجود تھے، تاہم بھارت، انڈونیشیا، چیچنیا، افریقہ وغیرہ میں جہاں بھی مسلم سرفروشوں نے گوری اقوام کے استعماری اقتدار کو للکارا تو انھیں وہابی کہہ کر بدنام کیا اور: ’’مارنے سے پہلے دشمن کو بُرا نام دینے‘‘ کی روایت کو آگے بڑھایا۔ مصنفہ نے لکھا ہے:
سُنّی اسلام میں اسلامی سُنّی شریعت کے چار مکاتب ہیں: حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی۔ سُنّی فرقے کے بیج سے ایک اور فرقہ نکل کر اُبھر رہا ہے جنھیں ’وہابی‘ کہا جاتا ہے، جو موجودہ دور میں سعودی عرب میں غالب اکثریت اور قوت رکھتا ہے۔ اس کے بانی محمد بن عبدالوہاب حنبلی مسلک کے پیرو تھے۔ سعودی بادشاہت، خاندانِ سعود پر مشتمل ہے اور وہابیت سلطنت کا سرکاری مذہب ہے۔ وہابیوں نے غیروہابی مسلمانوں کی قبریں مسمار کردیں۔ انھوں نے باجماعت نماز میں شرکت کو لازمی قرار دے دیا۔ وہابی خاص طور پر شیعہ مسلمانوں کے خلاف تھے۔ ۱۸۰۲ء میں وہابی افواج نے عراق میں کربلا پر قبضہ کرلیا اور اپنے ہتھے چڑھنے والے ہرمعلوم شیعہ مرد، عورت اور بچے کو موت کے گھاٹ اُتار دیا--- وہابیت ایک سخت گیر اور کٹّر مسلک ہے۔ یہ عیسائیوں، یہودیوں اور مسلمانوں کے چند فرقوں کو بھی مرتد قرار دیتا ہے۔ بعض وہابیوں کا کہنا ہے کہ شیعوں کو قتل کرنا ایک مذہبی فریضہ ہے۔ (ص ۵۱)
بلاشبہہ شیخ محمد بن عبدالوہاب کے رفقا نے ایسے مزار مسمار کیے تھے کہ جن پر ضعیف الاعتقادی کے باعث نذرونیاز اور توسّل و التجا کے عمل نے قبرپرستی کے قریب پہنچا دیا تھا مگر اس میں وہابی اور غیروہابی کی تمیز نہ تھی۔ اسی طرح باجماعت نماز کی ادایگی کسی وہابی کا حکم نہیں، بلکہ مردوں کے لیے یہ اللہ کے رسولؐ کا حکم ہے کہ وہ باجماعت نماز پڑھیں۔ ’وہابی سعودیوں‘ کو شیعہ مسلمانوں کا جانی دشمن قرار دینا بھی ایک افسانہ ہے اور کربلا پر ان کی یلغار کا جو نقشہ اس کتاب میں کھینچا گیا ہے وہ بذات خود فرقہ واریت کے شعلوں پر تیل چھڑکنے کے مترادف ہے۔ اس آگ کو بھڑکانے کے لیے مغرب کے پالیسی ساز نت نئے شوشے چھوڑتے رہتے ہیں۔ ہم یہاں پاکستان میں دیکھتے ہیں کہ شیعہ حضرات پر وقتاً فوقتاً افسوس ناک حملے کرنے والے چھوٹے سے جنگ جُو گروہ کا تعلق اہلِ حدیثوں (’وہابیوں‘) سے نہیں، بلکہ اس گروہ سے ہے کہ جس کے سیاسی گروپ کے ساتھ اکثر پیپلزپارٹی شراکتِ اقتدار کرتی چلی آرہی ہے۔ چونکہ سعودی مملکت اور خاص طور پر سلفیوں کو نشانہ بنانا آج کے مغربی حکمرانوں کو مطلوب ہے، اس لیے خاص طور پر اہلِ مغرب کے اس پروپیگنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے یہاں کہا گیا ہے کہ وہ ’عیسائیوں اور یہودیوں‘ کے دشمن ہیں۔ یہ اعلان مغربی تھنک ٹینک باربار کررہے ہیں، اور ان کی صداے بازگشت یہاں بھی موجود ہے۔ آگے چل کر لکھا ہے:
ترکی سے پاکستان تک کی مسلم آبادیوں میں مغرب، خصوصاً ریاست ہاے متحدہ امریکا کے لیے تحقیر اور دشمنی کے جذبات روز افزوں ہیں اور عراق کی جنگ [۱۹۹۱ء اور ۲۰۰۳ء تاحال] کو اس کی وجہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ فلسطین کی صورت حال کو ایک اور سبب کے طور پر سامنے لایا جاتا ہے۔ مغرب کی نام نہاد انحطاط پذیر اقدار کو بھی اکثر ایک حصے کے طور پر شاملِ بحث رکھا جاتا ہے۔ اپنے مسائل کے لیے دوسروں پر الزام دھرنا، اپنی ذمہ داری کو قبول کرنے سے کہیں زیادہ آسان ہے۔ [مغرب کے] غیرملکیوں اور نوآبادیاتی حاکموں کی مذمت بڑی آسانی اور بڑی تیزی سے کی جاتی ہے، مگر مسلم دنیا میں اپنے گریبان میں جھانکنے اور اپنی غلطیوں کو پہچاننے کے معاملے میں اتنی ہی کم آمادگی پائی جاتی ہے۔ (ص ۴)
’دانش وری‘ اور ’ٹھنڈے دل و دماغ‘ پر مبنی یہ بیان بھی مسلم دنیا کی مذمت اور امریکی حکومت کے لیے انسانیت سوز اقدامات کی طرف داری کا پہلو لیے ہوئے ہے۔ اصل بات آخر میں کی گئی ہے کہ مغرب اور نوآبادیاتی حاکموں کی مذمت ’بڑی آسانی اور بڑی تیزی‘سے کی جاتی ہے، مگر ’اپنے گریبان میں نہیں جھانکا جاتا‘۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلم دنیا میں اپنی غلطیوں کو پہچاننے ، اور اپنے گریبان میں جھانک کر اپنی خرابیوں کو دُور کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ صرف مغرب یا امریکا وغیرہ نہیں، بلکہ امریکا وغیرہ کے وہ دیسی ٹھیکے دار ہیں، جو سیاست اور اقتدار کے سرچشموں پر قابض ہیں، اور جنھیں استعماری حکمرانوں کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ اسی چیز کا شعور رکھتے ہوئے مظلوم مسلمان، اپنے دکھوں کا سبب مغرب کی طاقتوں کو قرار دیتے ہیں اور یہ کوئی غلط بات بھی نہیں ہے۔ جس طرح وہ خود بھی گذشتہ برسوں میں پاکستانی آمر جنرل پرویز مشرف کو خرابی کا سبب قرار دیتی تھیں اور اس کا اہم ذمہ دار مغرب اور امریکا کو قرار دیتے ہوئے ان سے مطالبہ کرتی تھیں کہ وہ مشرف کی پشت پناہی چھوڑ دیں۔ یہ بات عام لوگ کہیں تو غلط، لیکن اگر وہ کہیں تو درست۔ غالباً اسی چیز کو ’خودمختاری‘ کہا جاتا ہے۔ اس سے قبل یہ بھی لکھا ہے:
دنیا بھر میں ایک ارب مسلمان جنگ ِ عراق پر غم و غصے کے اظہار میں اور اقوامِ متحدہ کی تائید کے بغیر امریکی فوجی مداخلت کے نتیجے میں مسلمانوں کی ہلاکتوں کی مذمت کرنے میں تو یک جا نظر آتے ہیں، مگر اس فرقہ وارانہ خانہ جنگی پر، جو اس سے کہیں زیادہ ہلاکتوں کا موجب بنی ہے، ایسے غم و غصے کا اظہار نہ ہونے کے برابر ہے۔ مسلم قائدین، عوام اور یہاں تک کہ دانش ور بھی شرم ناک طور پر اپنے برادر مسلمانوں کو بیرونی عناصر کے ہاتھوں پہنچنے والے نقصان پر تنقید کرنے میں خاصی سہولت محسوس کرتے ہیں، مگر [اس کے برعکس] جب مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں پر تشدد کی بات آتی ہے تو [ان پر] موت جیسی خاموشی چھا جاتی ہے۔ (ص ۳)
مسلمانوں کا زوال محض نوآبادیاتی نظام کی ناانصافی یا طاقت کی عالمی تقسیم کی وجہ سے نہیں ہوا۔ مسلم معاشروں کو خود بھی ذمہ دار اور جواب دہ ہونا پڑے گا۔ مسلم ممالک کے خزانے بھرے پڑے ہیں۔ (ص ۳۰۰)
چلیے، ان کم ظرف مسلمانوں کو تو مطلوبہ تنقید کرنے کی توفیق حاصل نہیں ہوئی، مگر اس کتاب کے اوراق پر یہ کارِعظیم بار بار کیا گیا ہے۔ کہاں عراق اور افغانستان میں مجموعی طور پر ۲۶لاکھ مسلمانوں کا قتل (جس میں پہلے روسی کمیونسٹ فوجوں کے ہاتھوں ۱۳ لاکھ افغانوں کے لیے موت اور پھر ۲۰۰۱ء کے بعد ان دونوں ملکوں میں مزید ۱۳ لاکھ بے گناہ انسانوں کا بہیمانہ قتل اور وہ بھی کسی ثبوت کے بغیر)۔ اس قتل پر احتجاج کرنے میں اس لیے مستقبل کے ’مسلم حکمران‘ لوگ خاصے محتاط ہیں کہ اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھنے کے لیے امریکا بہادر کی خوش نودی میں رخنہ آئے گا۔ مسلم دانش پر ماتم کناں مصنفہ کو یہ بات بھول گئی کہ جو فرقہ وارانہ خانہ جنگی انھیں نظر آرہی ہے، وہ المیہ بھی دراصل اسی امریکی قبضے و یلغار اور مقامی لوگوں کا حق حکمرانی سلب کرنے کا نتیجہ ہے۔ اس لیے مسلم دانش اس المیے کو الگ حقیقت، جب کہ امریکی فوجی مداخلت اور اس سے پیدا شدہ وحشت و درندگی کو دوسری چیز سمجھتی ہے، تاہم مبالغہ آمیز فرقہ واریت کے افسانوی تذکرے سے بھری پڑی مسلم دنیا اسی کتاب کے اوراق پر نظر آتی ہے، حقائق کی دنیا میں نہیں:
مسلم دنیا کے اندر فرقوں، نظریوں اور اسلام کی تشریحات کے مابین ایک اندرونی خلیج، ایک متشدد محاذ آرائی موجود ہے، اور ہمیشہ موجود رہی ہے۔ اس تباہ کن کشیدگی نے بھائی کو بھائی کے خلاف لاکھڑا کیا ہے۔ آج مسلمانوں کے مابین یہ فرقہ وارانہ تشدد اس مجنونانہ، اور اپنی ہی جڑوں کو کاٹنے والی فرقہ وارانہ خانہ جنگی میں پوری طرح نظر آتا ہے۔ اور مسلم دنیا میں فرقہ واریت ہر موڑ پر نظر آتی ہے۔ (ص ۲)
میرے اس موقف کی تصدیق ہوتی ہے کہ ہمارے جدید دور کے اہم ترین تصادم اسلام اور مغرب کے درمیان نہیں، بلکہ اسلامی ریاستوں کے اندر اعتدال پسندوں اور جدیدیت کی قوتوں اور انتہا پسند اور جنونی قوتوں کے درمیان داخلی لڑائیوں کی صورت میں رونما ہوئے ہیں۔ (ص ۲۵۶)
مسلم دنیا، نظریوں اور فرقوں کی ایسی کسی عالم گیر اور متشدد محاذ آرائی کی تصویر پیش نہیں کرتی۔ اختلاف ہمیشہ اور ہر معاشرے میں رہا ہے، لیکن یہ گلے کاٹنے کا بحیثیت مجموعی ہولناک منظر یا تو اس کتاب میں نظر آتا ہے یا پھر سیکولر حلقوں کی اس خواہش کا پرتو ہے کہ دین کو اور دین دار طبقے کو بُرا کہنے کے لیے یہ بہانا تراشا جائے کہ دین اسلام تو بس فرقہ وارانہ لڑائیوں کا مذہب ہے۔ جس جنگ یا قتل و غارت کو کتاب میں پوری مسلم دنیا کا سرطان قرار دیا گیا ہے، وہ الم ناک فضا ’مہذب‘ امریکا اور اس کے اتحادیوں اور مسلم دنیا میں اس کے باج گزار حکمرانوں کی حکمت عملیوں کا نتیجہ ہے، اور وہ افسوس ناک صورت حال بھی انھی علاقوں میں ہے جہاں انھوں نے استعماری قبضہ جما رکھا ہے___ وضاحت کرتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے:
۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے حملوں نے تصورِ خلافت سے تحریک حاصل کرنے والی خوں ریز محاذآرائی کے ہراول دستے، یعنی صلیبی جنگوں کی آمد کا اعلان کیا۔ جب جڑواں ٹاوروں کے جلنے اور منہدم ہونے کی تصویر ٹیلی وژن پر دکھائی گئی تو مسلم دنیا میں اس کا خیرمقدم دو مختلف طریقوں سے کیا گیا: ایک بڑی تعداد کا، اگرچہ بہت بڑی تعداد نہیں، ردِعمل خوف، خفت اور شرمندگی کا تھا، جب [اس پر] یہ واضح ہوا کہ تاریخ میں دہشت گردی کا یہ سب سے بڑا واقعہ اللہ اور جہاد کے نام پر مسلمانوں کے ہاتھوں انجام پایا ہے۔ مگر ایک ردعمل اور بھی تھا اور وہ یہ کہ کچھ لوگوں نے فلسطین کی گلیوں میں خوشی سے رقص کیا، کچھ نے پاکستان اور بنگلہ دیش میں مٹھائیاں بانٹیں… (ص ۳)
۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے المیے پر دنیا کے کسی مسلمان ملک یا شہر نے خوشی کا اظہار نہیں کیا۔ اگر فلسطین کے کسی شہری نے اسرائیلی مظالم کے دکھ سہتے سہتے، اس کے پشتی بان کو پہنچنے والے نقصان پر لمحہ بھر کے لیے کوئی مسرت کا اظہار کردیا، تو اسے ایک ارب اور ۳۰ کروڑ مسلمانوں کے ’ذہنی افلاس‘ کا حوالہ بنانا ظلمِ عظیم ہے۔ اس سانحے کو تو آج تک کسی ذمہ دار مسلمان لیڈر نے ’اللہ اور جہاد‘ کا مظہر قرار نہیں دیا۔ حادثے کے چند گھنٹوں کے اندر اندر امریکی صدربش نے اسامہ اور افغانستان سے اس کا رشتہ جوڑ ڈالا، اور تقریباً ۹ برس گزر جانے کے باوجود آج تک کسی کھلی عدالت میں اس الزام کو جرم کے طور پر ثابت نہیں کیا جاسکا۔ البتہ کروڑوں مسلمانوں پر الزام تراشی اور لاکھوں پر کسی تامّل اور جواز کے بغیر تعزیر جاری کرنے کا کام ضرور کیا گیا۔ بعدازاں مسلم دنیا میں امریکی مظالم کے خلاف جو ردعمل سامنے آیا، اس میں صرف مسلمان ہی نہیں، پوری دنیا کے خوددار، غیرت مند اور بہادر انسان شریک ہیں، جنھوں نے رنگ و نسل اور قوم و مذہب کی تفریق سے بالاتر رہتے ہوئے، افغانستان اور عراق پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کی بدترین بم باری اور قتل و غارت گری کی نہ صرف مذمت کی، بلکہ جب بھی ان قاتل فوجوں کو نقصان پہنچا تو انھوں نے سُکھ کا سانس لیا۔ اس لیے امریکی فوجیوں سے ہمدردی اور مسلم اُمہ کی مذمت کا یہ یک طرفہ فتویٰ عدل سے خالی، حقائق سے رُوگردانی اور بے رحمانہ خود مذمتی کی دلیل ہے۔ اسی طرح ’صلیبی جنگوں‘ کی اصطلاح کو صدربش نے استعمال کیا تھا، کسی مسلمان لیڈر نے نہیں۔
کتاب میں مسلک دیوبند کے بارے میں درج یہ اقتباس بھی دل چسپ ہے:
دیوبند مسلک ایک قدامت پسند فرقہ ہے۔ دیوبندی، مسلم اقدار پر مغربی اثر کے حوالے سے متفکر رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’مغربی‘ بننے کے بجاے ’مسلمانوں کو اپنی پہچان، برقرار رکھنی چاہیے۔ یہ حنفی مسلک کی پیروی کرنے اور غیراسلامی افعال ترک کرنے کے حامی ہیں۔ (ص ۵۱- ۵۲)
حقیقت یہ ہے کہ دیوبندی ہی نہیں، یہاں کا ہر دین دار اپنے آپ کو مغرب کے فکری اور اعتقادی رنگ میں رنگنے کو دین کے تقاضوں کے منافی سمجھتا ہے، غیراسلامی افعال کو ترک کرنے کی تلقین اور تربیت کرتا ہے۔ اس بنیادی بات کو صرف اہلِ دیوبند سے منسوب کرنا، مشاہدے کی خامی، دین سے وابستگی رکھنے والے عام مسلمانوں کے بارے میں معلومات کی کمی اور دینی تعلیمات کے تقاضوں کو سمجھنے میں سوے فہم کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے۔ پھر یہ لکھنا کہ:
دیوبندیوں کا عقیدہ ہے کہ دینی اور دنیاوی معاملات کے درمیان کوئی حدِفاصل نہیں، اور یہ کہ اسلام زندگی کے ہر پہلو کو محیط ہے۔ جنوبی ایشیا میں داخلے کے لیے وہابی تحریک ایک عرصے سے دیوبندی مدرسوں میں سرمایہ کاری کرتی چلی آرہی ہے۔ (ص ۵۲)
دین اور دنیا کی تفریق کا قائل مغرب ہے، اسلام نہیں، بقول اقبال: ’جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘۔ اسلام کا سارا معاشی وعدالتی اور وراثتی نظام ایسی تفریق و تقسیم کو کسی درجے میں بھی تسلیم نہیں کرتا۔ اس لیے اسلام اہلِ مغرب کی خواہش کے مطابق دو رنگی کا شکار نہیں ہوسکتا۔ اسی یک جائی فکر کو اہلِ مغرب کبھی ’انقلابی اسلام‘ اور کبھی ’سیاسی اسلام‘ کا نام دیتے اور اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں۔ تاہم، اس ذیل میں دیوبند سے منسلک سب سے بڑی تبلیغی جماعت اور تصوف کے سلسلوں کا مسلک ’دین و دنیا‘ کے تعلق پر خاصا مختلف ہے، مگر اس نقطۂ نظر کو نظرانداز کردیا گیا ہے۔ آگے چل کر لکھا ہے:
مجھے خاص طور پر یاد آتا ہے کہ دہشت گردی کے نیٹ ورک ’الرشید‘ [ٹرسٹ] نے افغانستان کے طالبانی علاقوں میں جابجا تندور، یعنی اوون بیکریاں قائم کر رکھی تھیں۔ ہرروز مائیں اور باپ ان بیکریوں پر آکر اپنے گھرانوں کے لیے مختص کردہ ہرفرد کے لیے ۳،۳نان لے کر جاتے۔ یہ خاندان بھوک سے مر رہے تھے، اب [’الرشید‘ کے طفیل] ان کے پیٹ بھرنے لگے تھے۔ ’الرشید‘ کی قائم کردہ ہر تندور بیکری میں اسامہ کی تصویر آویزاں ہوتی تھی، جو ماں باپ اس روٹی کا راشن یہاں سے حاصل کرتے، وہ اس کا کریڈٹ اسامہ بن لادن کو دیتے۔ (ص ۳۰۴- ۳۰۵)
یہ بیان بھی کذب آمیز رنگین بیانی کا شاہکار ہے۔ دیوبندی مسلک سے وابستہ ایک رضاکار تنظیم افغانستان کے بے آب وگیاہ ویرانوں میں ایسے کتنے تندور قائم کرسکتی تھی کہ انھیں افغانوں کی پوری نسلوں کو روٹی کے بدلے دہشت گردی کی فوج کا سپاہی بننے کا سبب قرار دیا جائے؟ دوسری بات یہ ہے کہ ’الرشید‘ والے اپنے رسالوں اور کتابوں میں خود اپنے بانی کی تصویر چھاپنے کو درست نہیں سمجھتے، تو بھلا اسامہ کی تصویر کو کیوں اپنی رضاکارانہ خدمت کا حوالہ بنائیں گے۔ یہ جھوٹ کسی مغربی پروپیگنڈا ٹکسال میں گھڑا گیا، جسے مبالغہ آمیز وسعت دے کر یہاں تھوپ دیا گیا ہے، اور ان کے تمام تر رفاہی و تعلیمی نیٹ ورک کو تباہ کرنے کے جواز کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ نائن الیون کمیشن رپورٹ کی سفارشات (باب ۱۲) میں متعین طور پر یہ کہا گیا ہے: مسلمانوں کی رفاہی تنظیموں کی شہ رگ کاٹ دی جائے، مسلم عورتوں میں آزاد روی کے فروغ کے لیے ان کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جائے۔ ثانوی درجے تک تعلیم پر مسلم ریاستوں کا کنٹرول کمزور بلکہ ختم کیا جائے وغیرہ وغیرہ۔ پہلے نکتے کی تکمیل کے لیے مذکورہ بالا مثال پیش کرنا سمجھ میں آتا ہے___ مصنفہ نے بیان کیا ہے:
امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے تعلیمی اور ثقافتی تبادلے کے پروگرام کی بدولت ہزاروں غیرملکی نوجوان ، جن میں سے کئی ایک کو آگے چل کر اپنے اپنے ملک کی قیادتیں سنبھالنی تھیں، امریکا پڑھنے، سیر کرنے، اور سیکھنے کے لیے آئے۔ اور جب یہ لوگ واپس [اپنے ممالک میں] پہنچے تو ہمیشہ آزاد اور قابل مواخذہ معاشروں کے مبلّغ بن کر سامنے آئے۔ وہ جو صدارت اور وزارتِ عظمیٰ کے عہدے تک پہنچے مجھ جیسے لوگ، انھوں نے تعلیم کے دوران میں حاصل ہونے والے جمہوری، صنفی مساوات اور آزادیِ اظہار کے اسباق کو اپنی اقوام کے طرزِعمل پر لاگو کیا۔ اپنے ساتھی [امریکی] طالب علموں کے ساتھ ہمارے گرم جوشانہ تعلقات آج بھی زندہ ہیں۔ اس لیے نوجوان لیڈروں کو مطالعاتی دوروں پر یہاں [امریکا] لانے اور یہاں کے خاندانوں کے ساتھ ٹھیرانے سے انھیں اپنی آنکھوں سے مغربی زندگی کا مشاہدہ کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ (ص ۳۱۲- ۳۱۳)
کتاب میں جگہ جگہ اسی طرح کے مشورے امریکی حکومت کو دیے گئے ہیں۔ شاید مصنفہ کو علم نہیں تھا (مگر مغرب سے قربت رکھنے والی مصنفہ کیوں کر لاعلم ہوسکتی ہیں؟) کہ یہی تجاویز اور کم و بیش انھی الفاظ اور انھی اہداف کے ساتھ، عرب اور مسلم دنیا کے مستقبل کو قابو کرنے کے لیے اکتوبر ۲۰۰۳ء میں امریکی ایوانِ نمایندگان کی رپورٹ Changing Minds Winning Peace میں امریکی سفیروں، دانش وروں اور The Muslim World after 9/11 میں رینڈ کارپوریشن ۲۰۰۴ء نے پیش کی تھیں، جن کو مؤثر ’تریاق زہر‘ سمجھ کر عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔ پیش نظر یہی رکھا گیا ہے کہ: مسلمان اقوام کو امریکی مرضی کے تابع بنانے کے لیے وہاں کے مؤثر طبقوں کی اولادوں کو یہاں لاکر ذہنی غسل دیا جائے اور یہاں کی تہذیب کا دل دادہ بنایا جائے، اور یہاں کے ’لوگوں‘ [غالباً خفیہ ایجنسیوں] سے مضبوط رابطے قائم کرائے جائیں،تاکہ وہ واپس جاکر، بدلے ہوئے دل و دماغ اور تطہیرشدہ فکرونظر کے ساتھ اپنی ریاستوں کو امریکا کے تابع بناسکیں___ آگے بڑھیں تو انکشاف ہوتا ہے:
مغرب میں مسلمانوں کا معیارِ زندگی غیرمعمولی حد تک بلندہے۔ بہت سی جگہوں پر یہ غیرمسلموں کے برابر یا ان سے بھی بلند تر ہے… مسلمانوں نے ان مغربی ممالک میں نہ صرف اپنے لیے خیرمقدمی جذبات محسوس کیے، بلکہ کوئی انکار نہیں کرے گا کہ انھیں وہاں اپنے مذہب اور ثقافت پر عمل پیرا ہونے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ (ص ۳۱۵)
اس بیانیے کو ٹھنڈے دل سے دیکھیں تو یہ کسی امریکی سفارت خانے کے پروپیگنڈا پمفلٹ کے ایک ٹکڑے سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا۔ ’چند مسلمانوں‘ کو مجموعی طور پر وہاں محنت مشقت کرنے والے لاکھوں مسلمانوں کی حالت زار کی بہتری سے تشبیہہ وہی قارون دے سکتا ہے، جو خود اپنی آسایش و آسودگی کے مماثل سبھی لوگوں کو سُکھ چین کی زندگی گزارتے ہوئے محسوس کر رہا ہو۔ آج مغرب اور امریکا میں مسلمانوں کی عظیم اکثریت قدم قدم پر جس مذہبی و سماجی تعصب کا شکار ہے، جس طوفانی پروپیگنڈے کا ہدف ہے اور جس کے نتیجے میں کم و بیش ہرمسلمان مشکوک انسان قرار پا رہا ہے، بھلا ایسے میں کون کہہ سکتا ہے کہ وہاں رہنے والے: ’’مسلمانوں کا معیارِ زندگی غیرمعمولی حد تک بلند ہے‘‘۔ اپنے استدلال کے لیے ہم مختلف مثالوں اور خود مغربی آرا پر مبنی سروے رپورٹوں سے نظائر پیش کرنے کے بجاے، سوال اٹھاتے ہیں کہ یہ: ’مذہب اور ثقافت پر عمل کرنے کی مکمل آزادی‘ کا کون سا نمونہ ہے کہ مغرب ایک مسلمان بچی کے سر پر ڈیڑھ فٹ کا اسکارف بھی برداشت نہیں کر رہا، مگر دوسری طرف مکمل عریانی کو وسعتِ نظر قرار دے رہا ہے۔ کتاب کے اختتامی اوراق میں اس بیانیے سے کون سا پیغام دینا مقصود ہے؟
بھارت سے مرعوبیت تو کئی حوالوں سے اس کتاب کا حصہ ہی ہے، لیکن کیا ضروری ہے کہ تواریخ کا حوالہ بھی غلط درج کیا جائے۔ لکھا ہے:
بھارت نے ۱۹۴۹ء میں دستور منظور کیا اور ۱۹۴۹ء ہی میں عام انتخابات منعقد کرائے، جب کہ پاکستان میں پہلے عام انتخابات ۱۹۷۰ء میں ہوئے۔ (ص ۱۶۹)
پہلی بات یہ ہے کہ بھارتی دستور ۲۶نومبر ۱۹۴۹ء کو منظور اور ۲۶ جنوری ۱۹۵۰ء کو نافذ ہوا، اور عام انتخابات ۱۹۵۱ء میں ہوئے۔ جہاں تک دستورِ پاکستان کا تعلق ہے اس کی منظوری میں بیوروکریسی کی سازش اور دستور ساز اسمبلی کے جاگیردار ارکان کی عدم دل چسپی نے مسلسل روڑے اٹکائے، تاہم جب ۱۹۵۶ء میں دستور پاکستان منظور ہوکر نافذ ہوگیا اور ۱۹۵۹ء کے اوائل میں عام انتخابات کی راہ ہموار ہوگئی، لیکن اس مرحلے تک پہنچنے سے قبل ہی میجر جنرل اسکندر مرزا نے بحیثیت صدر، ۷ اکتوبر ۱۹۵۸ء کو ملک میں مارشل لا نافذ کرکے جنرل ایوب خان کو سیاہ و سفید کا مالک بنا دیا، دستور پاکستان کو منسوخ کیا اور ۲۴ اکتوبر کو جمہوریت پر شب خون مارنے والے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی آٹھ رکنی کابینہ میں ذوالفقار علی بھٹو نامی نوجوان ایڈووکیٹ بھی شامل تھے۔ پھر ۲۸ اکتوبر کو دوبارہ وزارت تشکیل دی تو اس میں بھی بھٹوصاحب کو وزیر مقرر کیا گیا، جو جون ۱۹۶۶ء تک فوجی ڈکٹیٹر ایوب خان کے دست ِ راست بنے۔ بے نظیر صاحبہ نے اس کتاب میں جمہوریت کی پامالی کا بہت رونا رویا ہے۔ مقامِ عبرت ہے کہ جمہوریت کے قتل میں اور ان کے والد ِ گرامی، فوجی ڈکٹیٹر کے ساتھ شامل تھے۔
کتاب میں تاریخ کے ساتھ مختلف مقامات پر دل چسپ کھیل کھیلا گیا ہے۔ اس مناسبت سے بہت سی متنازع فیہ باتیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ چند سطریں ملاحظہ ہوں:
تحریکِ پاکستان پر لکھی جانے والی کتابوں میں قائداعظم کے لاڑکانہ کے دوروں کا سراغ نہیں ملتا۔ نومبر ۱۹۶۹ء کے برعکس یحییٰ خان کا مارشل لا دسمبر ۱۹۷۱ء تک ہی نہیں، بلکہ بعد میں بھٹوصاحب کے دورِ حکومت میں۱۹۷۲ء تک جاری رہا۔ شیخ مجیب تو ضد میں جتنا اَڑے رہے، وہ اپنی جگہ ایک المیہ ہے، لیکن فروری ۱۹۷۱ء میں خود بھٹوصاحب نے ’اُدھر تم، اِدھر ہم‘ اور ’’۳ مارچ [۱۹۷۱ء] کے طے شدہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے مغربی پاکستان سے جو رکن اسمبلی ڈھاکا گیا، مَیں اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا‘‘ جیسی دھمکیاں دے کر جنرل یحییٰ کی فوجی جنتا کے ہاتھ مضبوط کیے،اس پر دبائو ڈالا اور یکم مارچ کو اجلاس ملتوی کرا دیا۔ اس اعلان سے مشرقی پاکستان میں لاکھوں غیربنگالیوں کو موت کے گھاٹ اُتارنے کا سامان کیا گیا۔ اور پھر جب ڈھاکا میں جنرل یحییٰ خاں نے فوجی ایکشن کا حکم دیا تو اُس وقت جنرل موصوف سے ملاقات کر کے نکلنے والے آخری فرد کا نام ذوالفقار علی بھٹو تھا۔
اس بے رحمانہ فوجی ایکشن کے چندگھنٹوں بعد بھٹوصاحب نے مغربی پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی یہ بیان دیا: ’’خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا‘‘۔ (روزنامہ مساوات اور روزنامہ نواے وقت، لاہور، ۲۷ مارچ ۱۹۷۱ء) اور جس پاکستانی فوج کو دو ہفتوں کے اندر اندر اُکھاڑ پھینکنے کی بات کی گئی ہے، وہ عملاً چھے ماہ سے بغیر تازہ کمک کے لڑ رہی تھی، جسے تین اطراف سے بھارتی فوج، روسی مدد، کمیونسٹ گوریلا فورس اور مکتی باہنی گھیرے ہوئے تھی۔ اسی طرح ۹۰ہزار فوجی، جنگی قیدی نہیں بنے تھے، بلکہ لگ بھگ ۴۵ہزار فوجی قید ہوئے تھے___ درمیان کی کڑیوں کو اُڑا کر اور من پسند واقعات کو بلاسیاق و سباق نمایاں کرکے بیان کرنا تاریخ نگاری نہیں، دیانت سے عاری منفی پروپیگنڈا ہے۔
وطن عزیز میں یہ ایک غلط روایت ہے کہ حکومتیں نصابِ تعلیم پر طبع آزمائی کرنا اپنا حق سمجھتی ہیں۔ اسی روایت پر عمل کرتے ہوئے جنرل ضیا الحق نے بھی نصابِ تعلیم کو دو مرتبہ ترمیم و اضافے کی مشق سے گزارا۔ مگر یہ کام فوج کے ہیڈکوارٹر نے نہیں بلکہ ’صوبائی نصابی بورڈوں‘ اور ’قومی نصابی ادارے‘ نے کیا تھا۔ وہ کتابیں آج بھی دیکھی جاسکتی ہیں کہ ان میں کس ’جرم‘ کا کتنا ارتکاب کیا گیا۔ اب زیرتبصر کتاب کا یہ حصہ ملاحظہ کیجیے:
جنرل ضیاء اپنے انتہا پسند اتحادیوں کا وفادار دوست ثابت ہوا، اس نے اسکولوں کی نصابی کتابوں کو بھی تبدیل کردیا اور تحریکِ پاکستان اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں ان کے منفی کردار کو سفید چولا پہنا دیا۔ نصاب میں شامل ہونے والی کتب پاکستان میں فوجی حکومت کی حمایت کرتیں، ہندوئوں کے خلاف نفرت پھیلاتیں، [مسلم] جنگوں کو شان و شوکت کا مظہر بناکر پیش کرتیں اور پاکستان پر مشتمل علاقے کی ۱۹۴۷ء سے پہلے کی تاریخ کو مسخ کرکے پیش کرتیں۔ (ص ۱۸۹)
یہ سارا بھاشن، اصل میں امریکی حکومت کی اس ’فکرمندی‘ کا مبالغہ آمیز اظہار ہے کہ جس کے تحت پاکستان ہی نہیں، بلکہ پورے عالمِ اسلام کے تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والے نصاب کو گذشتہ ۹برس سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ پاکستان میں ایس ڈی پی آئی کی بدنامِ زمانہ رپورٹ میں قومی نصابِ تعلیم کو ہدف بنا کر یہ ثابت کیا گیا تھا کہ: ’’دو قومی نظریے کی تدریس یہاں پر انتہاپسندی کو پروان چڑھا رہی ہے‘‘۔ پھر یہ کہا گیا کہ: ’’محمدبن قاسم اور پاک بھارت جنگوں میں نشانِ حیدر لینے والے کرداروں کے حالات پڑھ کر بچوں میں بھارت سے دشمنی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں ‘‘۔ ۱۹۴۷ء سے پہلے کی تاریخ کے بارے میں کہا گیا کہ: ’’نصابی کتابیں پڑھ کر طالب علموں میں برطانیہ کے نوآبادیاتی دور کے حوالے سے انگریزوں کے خلاف جذبات پیدا ہوتے ہیں‘‘۔ یہ سب باتیں جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت (۱۹۹۹ء-۲۰۰۸ء) میں، امریکی منشا کے مطابق مشتہر کی گئی تھیں۔ مذکورہ بالا اقتباس بھی انھی خیالات کی نمایندگی کر رہا ہے۔
پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) کی اتحادی اور ’اعلانِ جمہوریت‘ پر دستخط کرنے والی ایک حلیف پارٹی ہے۔ گذشتہ پانچ برسوں کے دوران میں میاں محمد نوازشریف نے پیپلزپارٹی کے کسی سابقہ دورِحکومت کو کسی شکوے اور طعنے کا موضوع نہیں بنایا، مگر اس کتاب میں ایک حلیف ہونے کے باوجود نوازشریف مسلسل سوقیانہ تنقید کا نشانہ بنے نظر آتے ہیں۔ بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں، تاہم صرف ایک مثال دیکھیں: ’’نواز شریف نے آئی ایس آئی کو طالبان کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے فروغ کی اجازت دے رکھی تھی‘‘ (مفاہمت، ص ۲۱۱)۔۱؎ ان امور پر وضاحت پیش کرنا مسلم لیگ (ن) کی ذمے داری ہے، تاہم مصنفہ کتاب میں طالبان حکومت کی آمد کا پورا ملبہ فوج اور میاں نوازشریف پر ڈال کر اپنا دامن جھاڑ کر الگ جاکھڑی ہوئی ہیں۔ مگر کیا غلط بیانیوں سے تاریخی حقائق کا چہرہ مسخ کیا جاسکتا ہے؟
واقعاتی ترتیب دیکھیں تو ۱۹۹۳ء کے وسط میں پیپلزپارٹی نے صدر غلام اسحاق خاں اور فوج کی مدد سے وزیراعظم میاں نواز شریف کو اقتدار سے بے دخل کرادیا، پھر ۱۹۹۳ء میں ہونے والے انتخابات میں اکثریت حاصل کی اور نومبر ۱۹۹۶ء تک بلاشرکت غیرے حکومت کی۔ دوسری طرف نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ: ۱۹۹۴ء کے اوائل میں طالبان پارٹی کے طور پر وجود میں آتے اور نومبر ۱۹۹۴ء میں وہ قندھار کا کنٹرول سنبھالتے ہیں۔ ستمبر ۱۹۹۵ء میں ہرات ان کے زیرنگیں ہوتا ہے اور ستمبر۱۹۹۶ء میں وہ کابل پر قبضہ کرلیتے ہیں___ اس پورے عرصے میں پیپلزپارٹی کے وفاقی وزیرداخلہ میجر جنرل نصیراللہ بابر بڑے فخریہ انداز سے اس آپریشن کی سرپرستی کرتے نظر آتے ہیں اور خود پیپلزپارٹی کی حکومت بھی خوش نظر آتی ہے کہ اس نے مجاہدین کا ’علاج بالمثل‘ کرکے انھیں بے اثر کردیا ہے۔ امریکی حکومت بھی پیپلزپارٹی کے ذریعے طالبان کے اس طلوع میں مددگار بنتی اور سُکھ کا سانس لیتی ہے۔ ان حقائق سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اُس زمانے میں فوجی قیادت سے ان کے تعلقات خوش گوار تھے۔ موصوفہ نے اعتراف کیا ہے:
اپنے دوسرے دورِ حکومت [۹۶-۱۹۹۳ء] میں فوج کے سربراہوں جنرل وحید کاکڑ اور جنرل جہانگیر کرامت کے ساتھ میرے اچھے تعلقات تھے… اسی طرح جب تک جنرل جاوید اشرف قاضی آئی ایس آئی کے سربراہ رہے، اس وقت تک آئی ایس آئی سے بھی میرے اچھے تعلقات تھے۔ (ص ۲۰۸)
تاریخ پر نظر ڈالیں تو طالبان کا آغاز، طلوع اور افغانستان پر قبضہ، پیپلزپارٹی کے دورِحکومت میں ہوا، مگر ان کی ذمہ داری صرف فوج اور نواز شریف پر ڈالتے ہوئے یوں دامن بچالینے کو کسی طرح بھی معروضی عمل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یاد رہے کہ پروفیسر برہان الدین ربانی اور گل بدین حکمت یار کو ۱۹۷۳ء ہی کے وسط میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اعتماد میں لے کر افغانستان میں کمیونسٹ روس اور بھارت کے گہرے اثرات کو نشانہ بنانے کا کام شروع کردیا تھا جب سردار دائود نے ظاہرشاہ کا تختہ اُلٹ کر حکومت پر قبضہ جمایا تھا۔ افغانستان پر بھارتی اور روسی گرفت کو کمزور کرنے کے لیے بھٹوصاحب کے رابطہ کار کی ذمہ داری جنرل نصیراللہ بابر ہی ادا کررہے تھے۔ (جاری)
عالمِ اسلام کے مسائل کا جائزہ لیا جائے تو ایک بنیادی مسئلہ قومی، ملکی اور ذاتی ترجیحات کا نظر آتا ہے۔ اکثر ترقی پذیر مسلم ممالک میں مغربی تعلیم یافتہ فرماں روا اور مشیرانِ حکومت محض ٹکنالوجی میں ترقی کو قومی ترجیح قرار دیتے ہوئے تعلیمی اور معاشی پالیسی کو اس طرح مرتب کرتے ہیں کہ قوم فنی طور پر ٹکنالوجی میں مہارت حاصل کرلے۔ کچھ فرماں روا مسلمانوں کو ’روشن خیال‘ ثابت کرنے کے لیے فحش اور عریاں ثقافتی سرگرمیوں کے اپنانے کو تعمیر ِکردار پر ترجیح دیتے ہیں اور اسے مسلمانوں کی ’نرم شبیہہ‘ (soft image) قرار دیتے ہوئے آخرکار دشمنانِ اسلام کے لیے نرم نوالہ بن جاتے ہیں۔ بعض افراد اپنی ذاتی زندگی میں فرائض کو نظرانداز کرتے ہوئے ان نوافل پر زیادہ توجہ دیتے ہیں جو ان کے خیال میں برکت کا باعث ہوتے ہیں۔ زندگی کے ہر ہرقدم پر ہمیں ترجیحات کا سامنا ہوتا ہے۔ چاہے وہ حج کی تیاری کرتے وقت یہ فیصلہ کرنا ہو کہ جمع شدہ رقم لڑکی کے گھر بسانے پر خرچ ہو یا حج و عمرہ پر، یا ووٹ ڈالتے وقت ترجیح ایسے فرد کو دی جائے جو جیتنے والا سرکش گھوڑا ہو، یا مدمقابل کو جو صالح اور امانت دار ہو لیکن شاید ہارجائے۔
شیخ قرضاوی کی یہ تحریر ان کی بالغ نظری اور فقہی بصیرت کا ایک مظہر ہے۔ انھوں نے آسان انداز میں فقہ کے ایک اہم مضمون، یعنی مقاصد الشریعہ اور قواعد الفقیہہ کو بغیر فقہی اصطلاحات کو استعمال کیے، مثالوں کی مدد سے سمجھایا ہے جو ایک باکمال استاذ ہی کرسکتا ہے جسے طلبہ کی ایک ایسی جماعت مل جائے جس میں انتہائی ذکی اور کم فہم اور غبی ہر طرح کے طلبہ کا سامنا ہو۔ اس لحاظ سے کتاب غیرمعمولی طور پر عملیّت سے بھرپور ہے۔
کتاب ۱۱ ابواب پر مشتمل ہے جن میں: موضوع کی اہمیت و ضرورت، ترجیحات اور موازنات، علم و فکر میں ترجیحات، فتویٰ اوردعوت میں ترجیحات، عمل میں ترجیحات، مامورات میں ترجیحات اور دینی ورثے اور مصلحینِ عصر کی دعوت اور ان کی ترجیحات، جیسے اہم موضوعات شامل ہیں۔
یہ کتاب کئی حیثیات سے تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کے لیے ایک لازمی مطالعے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اولاً: اس میں یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ اصول الدعوۃ کی تطبیق کس طرح کی جائے اور دین میں غلو سے کس طرح بچاجائے۔ ایک عام فرد کے لیے اس میں غور کرنے کا اہم پہلو یہ ہے کہ روزمرہ زندگی میں جب کسی سے کہا جاتا ہے وہ انفاق فی سبیل اللہ کرے تو لے دے کر ذہن کسی مسجد یا مدرسے کی تعمیر کی طرف جاتا ہے، جب کہ کشمیر اور فلسطین کے یتیم بچوں کی تعلیم و تربیت، بیوہ خواتین کے لیے دستکاری کے مراکز، اعضا سے محروم اور مجروحین کے لیے شفاخانوں کا قیام اور مغربی ثقافتی یلغار کے خلاف ایسے اداروں کا قیام جو صحت مند فلمیں، ڈرامے، نغمے اور تعلیمی پروگرام بنا سکیں، ایک غیردینی کام تصور کرلیا جاتاہے۔
بعض اوقات انفاق کے جذبے کے ساتھ ایک صاحب ِ خیر کئی لاکھ روپے کسی یتیم خانے کو دے دیتا ہے جو ایک بھلائی کا کام ہے، لیکن یہ نہیں سوچتا کہ اس نے جو دولت حاصل کی ہے اور جسے وہ ایک بھلائی کے کام میں لگا رہا ہے اسے حاصل کرنے میں سود اور ممنوع ذرائع کا کتنا بڑا دخل رہا ہے۔ اُمت کی ترجیحات کا اظہار اس کے رویوں سے بھی ہوتا ہے، مثلاً ایک فن کار فوت ہوجائے تو اخبارات اور برقی ذرائع ابلاغ میںکہرام مچ جاتا ہے، جب کہ ایک عالم کے انتقال پر کسی کو پریشانی نہیں ہوتی۔ ایک دو کوڑی کا کردار رکھنے والے وزیر کی حفاظت کے لیے ۳،۳مسلح گارڈوں کے ساتھ اس کی سواری نکلتی ہے، جب کہ عام شہری کی جان، عزت اور مال کے تحفظ کے لیے اقدام نہیں کیے جاتے۔
پاکستان کے تناظر میں دیکھیں تو ہم تنہا ایک فرماں روا کے بیرونی سفر پر قومی خزانے پر جتنا چاہیں بوجھ ڈال دیتے ہیں جب کہ ایک شہری کی تعلیم، صحت اور دینی ضروریات کو این جی اوز کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ ولادت پر چراغاں اور مٹھائیاں تقسیم کرنا فرض اور واجب قرار پاتا ہے، جب کہ دو قدم پر کچی آبادی میں بسنے والے ہزارہا افراد کی بھوک، لباس اور دیگر ضروریات پر قرآنِ کریم کے واضح احکام اور سنت ِ رسولؐ کی واضح تعلیمات کے باوجود سائل، محروم اور مسکین کی زندگی کو بہتر بنانے پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔
اسلام نے گو اپنے نظامِ عبادت میں فرض، سنت اور نفل کی تقسیم کے ذریعے ترجیحات کا تعین کیا ہے مگر اُمتِ مسلمہ اکثر نوافل کو فرض کا مقام دے بیٹھتی ہے اور فرائض سے عدمِ توجہی کی مرتکب ہوتی ہے۔ شیخ قرضاوی کی یہ تحریر اُمتِ مسلمہ کو اسی طرف متوجہ کرتی ہے کہ وہ اپنی ترجیحات کا جائزہ لے اور اپنی کھوئی ہوئی عظمت کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ایسا لائحہ عمل طے کرے جو دین کی صحیح ترجیحات پر مبنی ہو۔
تحریکاتِ اسلامی اپنے روز مرہ کے مسائل اور بالخصوص سیاسی حالات میں الجھنے کے سبب اپنی اصل اور بنیاد سے، جس پر زیادہ توجہ اور ترجیحی بنیاد پر کام کرنا چاہیے، لاپروا ہوجاتی ہیں۔ نتیجتاً تعداد میں کثرت کے باوجود تحریک کی اصل پہچان اور تشخص یعنی فکری، تربیتی اور تعمیر کردار کا پہلو ثانوی حیثیت اختیار کرلیتا ہے۔ سیاسی عمل کے شوروغل اور ابلاغِ عامہ میں سرگرمیوں کے تذکرے تحریک کو تعمیر ِسیرت و کردار کے بنیادی کام سے غافل کردیتے ہیں۔ تبدیلیِ فرد کا اصل معیار جلسوں اور جلوسوں میں شرکت کو سمجھ لیا جاتا ہے، جب کہ سنجیدگی کے ساتھ اسلامی مصادر، یعنی قرآن وسنت سے براہِ راست تعلق، اللہ کے بندوں کے مسائل و مشکلات کے حل کے لیے کوشش ثانوی حیثیت اختیار کرجاتے ہیں اور تحریکات کی قیادت کو اس کمزوری کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ اگر ترجیحات پر مسلسل غوروتجزیہ اور تنقیدی نگاہ کے ساتھ احتسابی عمل کو زندہ رکھا جائے تو تحریکات نہ جمود کا شکار ہوتی ہیں اور نہ ایک میکانکی نظام ہی میں تبدیل ہوتی ہیں۔
تحریکاتِ اسلامی کے کارکنوں کے لیے اس کتاب میں غور کرنے کے لیے بہت قیمتی مواد ہے اور اگر دیکھا جائے تو کام کی منصوبہ بندی ترجیحات کا تعین کیے بغیر ہو ہی نہیں سکتی۔ مرکزی، صوبائی اور مقامی سطح پر کام کرنے والے ہر کارکن اور ذمّہ دار کے لیے اس کتاب میں غوروفکر کا سامان موجود ہے۔ اس کے ایک ایک باب کو اجتماعی حلقوں میں مطالعہ کا موضوع بناکر اپنے کام کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
شیخ قرضاوی اِس دور کے اُن علما میں سے ہیں جو مجتہد ِعصر کا درجہ رکھتے ہیں لیکن انھوں نے کتاب میں جابجا علما کی تحریرات سے استفادہ کرتے ہوئے ان کے افکار کا خلاصہ اور بعض اوقات حوالے نقل کرنے میں اپنے قلب و فکر کی وسعت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایک پورا باب مصلحینِ عصر کی ترجیحات پر قائم کیا ہے۔ جن میں امام ابن عبدالوہاب، مہدی سوڈانی، جمال الدین افغانی، محمد عبدہٗ، امام حسن البنّا، امام مودودی، سیدقطب، استاذ مبارک اور استاذ شیخ الغزالی شامل ہیں۔ ان علما کی فکر کو پیش کرتے وقت ایک محقق اور طالب علم کے انداز میں معروضیت کے ساتھ ان کی دعوت و فکر کو پیش کیا گیا ہے جو خود شیخ قرضاوی کے مقامِ علم کو بلند کردیتی ہے۔
کتاب اول تا آخر پوری ذہنی یکسوئی کے ساتھ پڑھنے کی متقاضی ہے۔ مترجم گل زادہ شیرپائو نے ترجمے کا حق ادا کردیا ہے۔ دورانِ مطالعہ کہیں بھی بوجھل پن یا تھکاوٹ کا احساس نہیں ہوتا۔ ادارہ منشورات اس کتاب کی اشاعت پر مبارک باد کا مستحق ہے۔ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ اُردو خواں طبقے کے فائدے کے لیے شیخ قرضاوی کی دیگر تصنیفات کی اشاعت کو بھی ادارے کی ترجیحات میں شامل کیا جائے۔ (دین میں ترجیحات، علامہ یوسف القرضاوی۔ ترجمہ: گل زادہ شیرپائو۔ ناشر: منشورات، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ صفحات: ۴۱۲۔ قیمت: ۲۴۰ روپے)
برعظیم پاک و ہند کی تاریخ پر ایک نظر ڈالنے ہی سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ مسلمانانِ ہند نے انگریز کی غلامی کو ذہناً کبھی قبول نہیں کیا اور آزادی، اسلامی حکومت کے قیام اور احیاے اسلام کے لیے جدوجہد بڑی سے بڑی قربانیاں دے کر بھی جاری رکھی۔ بنگال کا سراج الدولہ وہ پہلا عظیم مجاہد ہے جس نے جنگِ پلاسی سے جنگِ آزادی، انگریز جارحیت اور سامراجی عزائم کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا اور پھر یہ جدوجہد مختلف حوالوں سے آگے بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ٹیپوسلطان، بخت خان، احمد شاہ ابدالی، شاہ ولی اللہ، سیداحمد شہید، شاہ اسماعیل شہید، ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی، علماے دیوبند کا کردار اور مسلمانوں کی سیاسی جدوجہد___ ایک طویل فہرست ہے مجاہدینِآزادی کی اور ایک لازوال داستان ہے قربانیوں کی۔ دوسری طرف ہر جارح قوت کی طرح انگریز کے مظالم، ظالمانہ قوانین، قیدوبند، جایداد کی ضبطی، سولی پہ لٹکانا، دولت کا لالچ دے کر ضمیر خریدنا، غداری پر آمادہ کرنا، جنگ مسلط کرنا، قتل و غارت اور خون ریزی، بم باری اور فضائی حملے ہیں۔ آج بھی ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ کی آڑ میں افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں کو ایک بار پھر ایسی ہی جارحیت اور سفاکیت کا سامنا ہے۔
آزادی کے عظیم مجاہدین میں سے ایک عظیم مجاہد حاجی صاحب تُرنگ زئی بھی ہیں۔ آپ ایک داعیِ حق ، عالم باعمل، صوفی اور روحانی پیشوا، معلّمِ اخلاق، مصلح قوم اور تحریک آزادی کے عظیم مجاہد تھے۔ یہ آپ کی جدوجہد کا نتیجہ تھا کہ بے سروسامانی کے عالم میں بھی ۲۲برس تک انگریز جیسی بڑی قوت کو ہندستان میں جم کر حکومت کرنے کا موقع نہیں ملا۔ ایک طرف علماے دیوبند کے ذریعے سیاسی محاذ پر جدوجہد آزادی کو جاری رکھا تو دوسری طرف سرحد اور قبائلی علاقوں میں عملاً جہاد کے ذریعے خطے میں انگریز کے قدم نہ جمنے دیے۔ حاجی صاحب کی حیات و خدمات کے مطالعے سے جہاں قاری کو ایک نیا ولولہ اور عزم ملتا ہے، وہاں افغانستان اور قبائلی علاقوں میں امریکی جارحیت کے خلاف جاری جدوجہد کے ادراک کے ساتھ ساتھ مستقبل کے امکانات کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے۔
حاجی صاحب تُرنگ زئی کا اصل نام فضل واحد اور والدماجد کا نام فضل احمد تھا۔ آپ کی پیدایش ۱۸۴۶ء میں بمقام تُرنگ زئی ضلع چارسدہ صوبہ سرحد میں ہوئی۔ سکھ غلبے کے دوران علاقے کے عوام نے حاجی صاحب کے جدّاعلیٰ پیر سید رستم شاہ کی معیت میں سیداحمد شہیدؒ کی قیادت میں سرحد میں قائم ہونے والی اسلامی سلطنت کے قیام کے لیے بھرپور جدوجہد کی۔ آپ کے والد محترم پیرفضل احمد شاہ نے ۱۸۵۷ء میں انگریزی اقتدار کے خلاف سخت مزاحمت کی اور لوگوں کو اپنے اسلاف کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اخلاقی و روحانی تعلیم کا درس دیتے رہے۔
حاجی صاحب تُرنگ زئی نے ابتدائی تعلیم تُرنگ زئی میں اس وقت کے مشہور عالمِ دین مولانا ابوبکر اخوندزادہ اور مولانا محمد اسماعیل سے حاصل کی۔ اس کے بعد تہکال کے ایک مدرسے میں داخلہ لیا اور باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ یہیں انھیں برعظیم کے معروف علما سے رابطے کا موقع بھی میسر آیا۔ اس مدرسے کے مہتمم کا تعلق بھی ولی اللّٰہی تحریک سے تھا جو ہندستان میں احیاے اسلام اور انگریزوں سے آزادی کے لیے جدوجہد کر رہی تھی۔ ان کی تربیت کے نتیجے میں حاجی صاحب میں خودداری، حریت فکر، جذبۂ ہمدردی و ایثار اور قربانی کے جوہر نمایاں ہوئے اور وہ احیاے اسلام کی تحریکِ ولی اللّٰہی سے روشناس ہوئے۔ ۶سال تک زیرتعلیم رہنے کے بعد آپ اپنے گائوں تُرنگ زئی چلے گئے جہاں عبادت و ریاضت کے ساتھ ساتھ کھیتی باڑی کا کام کرنے لگے۔
ابتدا ہی سے ان کی طبیعت تصوف کی طرف مائل تھی۔ تعلیم سے فراغت پانے کے بعد عبادت و ریاضت میں بہت زیادہ منہمک ہوگئے،چلّہ کشی بھی کی اور کسی مرشد کی تلاش میں بھی رہے۔ چنانچہ آپ نے جلال آباد افغانستان کے مشہور روحانی رہنما حضرت نجم الدین عرف ہڈہ ملّا کے ہاتھ پر ہڈہ نامی گائوں میں جاکر بیعت کی۔ وہ سلوک اور تصوف کے بلندمقام پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ انگریز کے خلاف طویل جہاد کی شہرت کے حامل بھی تھے۔ ’حاجی صاحب تُرنگ زئی‘ کے نام سے شہرت پانے کی ایک وجہ یہ تھی کہ شاید تُرنگ زئی میں آپ پہلے شخص تھے جنھیں حج کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس زمانے میں حج انتہائی دشوار گزار عمل تھا، اور حاجی ہونا ایک اعزاز تھا، جب کہ حاجی صاحب خود عالمِ دین اور تُرنگ زئی سلسلۂ قادریہ نقشبندیہ کے روحانی پیشوا بھی تھے۔
دارالعلوم دیوبند کی شہرت سنی تو تحصیل علم کے شوق میں دیوبند پہنچ گئے جہاں ان کی ملاقات شیخ الہند مولانا محمود حسن، مولانا محمد قاسم نانوتوی اور مولانا حسین احمد مدنی سے ہوئی۔ اُسی سال ان علماے کرام کے ساتھ آپ فریضۂ حج ادا کرنے کے لیے بھی تشریف لے گئے۔ دورانِ حج ان کی ملاقات مولانا حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے رہی۔ اس دوران بشمول مولانا عبدالرشید گنگوہیؒ ان تمام حضرات نے ہندستان واپس جانے کے بعد انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا جس کے ناظم مولانا محمود حسن صاحب بنائے گئے، جب کہ حاجی صاحب تُرنگ زئی کو اس منصوبے کے تحت امیر ِجہاد مقرر کیا گیا اور ان کو صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں میں لوگوں کو جہاد کے لیے تیار کرنے کا فریضہ سونپا گیا۔ یہ منصوبہ بھی دراصل سید احمدشہید کی تحریکِ جہاد کا تسلسل تھا۔ اس منصوبے کے تحت ایک طرف ہندستان میں وعظ و نصیحت کے ذریعے انگریزوں کے خلاف فضا ہموار کرنا تھی، اسلامی مدارس کا اجرا، انگریزی عدالتوں اور انگریزی تعلیم کا خفیہ طور پر بائیکاٹ کرنے کی ترغیب دلانا تھا۔ دوسری طرف انگریزوں کے خلاف عملی جہاد کا آغاز کرنا تھا اور اس کے لیے سیداحمد شہید کی تحریکِ جہاد کی طرح صوبہ سرحد کو ہی منتخب کیا گیا۔ امیر ِجہاد کی حیثیت سے حاجی صاحب کی ذمہ داری لگائی گئی کہ وہ سرحدی علاقوں میں دورے کرکے عوام کو امربالمعروف ونہی عن المنکر کی تبلیغ کریں، اور اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کو منظم کیا جائے تاکہ وہ انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لیے باہمی اختلافات مٹاکر اور مومنانہ شان سے متحدہ طاقت بن جائیں تاکہ جہادِآزادی کامیابی سے ہمکنار ہوسکے۔ (ص ۴۷)
اصلاحِ معاشرہ اور دعوتِ جہاد کی بنیاد پر حاجی صاحب تُرنگ زئی نے اپنے مشن کا آغاز اپنے گائوں تُرنگ زئی سے کیا۔ آپ نے غیراسلامی رسوم و رواج ترک کرنے، للہیت پیدا کرنے اور معاشرتی برائیوں سے نجات حاصل کرنے پر زور دیا۔ قبائل میں چونکہ آپس کی دشمنیاں موجود تھیں جس کی وجہ سے وہ کسی بات پر متفق نہیں ہوپاتے تھے، لہٰذا آپ نے ان دشمنیوں کے خاتمے کے لیے محنت کی اور قبائل کی باہمی رنجشیں ختم کر کے ان میں اتحاد و یک جہتی پیدا کرنے کی سعی کی۔ ان کی محنت رنگ لاتی ہے، قبائلیوں کا انھیں اعتماد حاصل ہوجاتا ہے۔ لوگ خوشی خوشی باقاعدہ اقرارنامہ لکھ کر حاجی صاحب کی خدمت میں پیش کرتے تھے کہ وہ غیراسلامی رسم و رواج کو ترک کرنے کا عہد کرتے ہیں، نیز اپنے تنازعات کے خاتمے کے لیے بھی ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔
آپ نے یہ جدوجہد کن کٹھن حالات میں کی اس کا اندازہ کتاب کے اس اقتباس سے کیا جاسکتا ہے: ’’جابرانہ قوانین کے نفاذ اور انگریز حکمرانوں کے ظلم و ستم نے اہلِ سرحد کی زندگی اجیرن کر دی تھی۔ مسلمانوں کو پستی کے گڑھے میں دھکیلا جا رہا تھا۔ معاشرتی برائیوں کا ہر طرف زور تھا۔ مسلمانوں کو اخلاقی لحاظ سے تباہ و برباد کیا جا رہا تھا۔ عیسائی مشنری ادارے متحرک نظرآرہے تھے جو غریب اور نادار مسلمانوں کو دولت کے لالچ میں عیسائی بنانے میں مصروفِ عمل ہوچکے تھے۔ انگریز حکمرانوں کے خلاف کوئی بات منہ سے نکالنے والے کو سخت ترین سزا دی جاتی تھی۔ قدم قدم پر انگریزوں نے مخبر مقرر کر رکھے تھے جن کی جھوٹی سچی مخبری پر ہزاروں افراد ظلم کا نشانہ بنتے جارہے تھے‘‘۔ (ص ۴۸)
ان حالات میں اسلامی شعور کو عام کرنے کے لیے آپ نے جگہ جگہ اسلامی مدارس قائم کیے اور ان کے انتظام کے لیے مقامی طور پر اساتذہ اور کمیٹیاں قائم کردیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان مدارس کی تعداد ۱۰۰ سے زیادہ تھی اور یہ نہ صرف قبائلی علاقوں میں بلکہ انگریزوں کے زیرانتظام اضلاع میں بھی قائم کیے گئے۔ ان تعلیمی اداروں میں طلبہ کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ جہادِ آزادی کی تربیت بھی دی جاتی تھی۔
انگریزوں کو جب معلوم ہوا کہ عوام الناس کا رُخ اسلامی مدارس کی جانب بڑھ رہا ہے تو انھوں نے بھی مشنری تعلیمی ادارے قائم کیے اور ان اداروں میں عیسائیت کی تبلیغ شروع کر دی۔ اس سلسلے میں دیگر عیسائی مبلغین کے ساتھ ساتھ ایڈورڈز ہربرٹ کی خدمات بہت نمایاں تھیں، لہٰذا انگریز حکومت نے اس کی خدمات کے اعتراف کے طور پر پشاور میں ایڈورڈز کالج قائم کیا، جب کہ ہمارے حکمرانوں کو کبھی اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اس نام کو ہی کم از کم تبدیل کردیں۔
اس سلسلے میں جناب صاحبزادہ عبدالقیوم خان ’دارالعلوم سرحد‘ کے نام سے ایک عظیم تعلیمی ادارے کا قیام عمل میں لائے جس کا مقصد مسلمانوں کو تعلیم کی روشنی سے منّور کرنا تھا۔ بعد میں اس کا نام ’اسلامیہ کالج پشاور‘ رکھا گیا۔ اس کالج کی مسجد کا افتتاح انھوں نے حاجی صاحب سے کرایا۔
ان دنوں برطانیہ نے ترکی کی اسلامی سلطنت کا راستہ روکنے کے لیے مصر پر، اور اٹلی نے طرابلس پر قبضہ کرلیا۔ افغانستان اور ایران کی حکومتوں کے خلاف بھی کام شروع کیا، لہٰذا صوبہ سرحد کے حریت پسند عوام اور قبائل کو جہاد کے لیے منظم کرنے کے لیے حاجی صاحب کو مسجد مہابت خان میں امیرالمجاہدین منتخب کیا گیا۔ اس تقریب میں مولانا ابوالکلام آزاد نے اُن سے حلف لیا۔
۱۹۱۳ء کی بلقان جنگ میں زخمی ترکوں کی طبی امداد کے لیے کئی مراکز یہاںقائم ہوئے۔ مجاہدین کا خیال یہ بھی رہا کہ بعد میں ترکی افواج کو برعظیم کی آزادی کے لیے ہندستان پر حملہ آور ہونے کے لیے کہا جائے گا۔ اس دوران مولانا عبیداللہ سندھیؒ کو افغانستان بھیج کر آزاد حکومت قائم کرنے کا فیصلہ ہوا اور یہ کہ وہ افغانستان میں رہ کر وہاں کے لوگوں کے درمیان کام کریںگے۔
افغانستان کے حکمران امیر حبیب اللہ خان کو مجاہدین نے انگریزوں کے خلاف اعلانِ جنگ کے لیے بہت کہا لیکن وہ انگریزوں کے مقابلے پر نہیں آنا چاہتا تھا، جب کہ افغانستان کے نائب امیر امان اللہ خان پوری طرح مجاہدین کے ہمراہ تھے۔ دوسری طرف اندرونِ ملک والئی سوات، والئی جندول اور والئی دیر مجاہدین کے مخالف اور انگریزوں کے حمایتی تھے۔
انگریزوں نے بعض علما کو رشوت کے ذریعے اپنے ساتھ ملایا اور اُن سے یہ فتویٰ حاصل کیا کہ حکمرانِ وقت کے اعلان کے بغیر جہاد غیر شرعی ہے۔ اس فتوے کا اثر زائل کرنے کے لیے حاجی صاحب نے شیخ الہند مولانا محمود حسن سے رجوع کیا۔ مولانا محمودحسن یہ مسئلہ لے کر حجاز کے گورنر کے پاس پہنچے۔ انھوں نے اپنا خط سلطنت ِ عثمانیہ کے خلیفۃ المسلمین کے نام دے کر مولانا صاحب کو وہاں بھیجا۔ اس زمانے میں پہلی جنگ ِعظیم شروع ہوچکی تھی، اس لیے خلیفۃ المسلمین سے تو شیخ الہند کی ملاقات نہ ہوسکی، البتہ عثمانی افواج کے سپہ سالار نے اُنھیں خلیفہ کی جانب سے اپنی مُہر کے ساتھ فتویٰ لکھ کر دیا کہ برعظیم کے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ انگریز حکمرانوں کے خلاف مسلح جہاد کریں، اور مولانا محمود حسن اور حاجی صاحب تُرنگ زئی کا ساتھ دیں۔
اس اہم فتوے کو ایک ریشمی رومال پر کاڑھا گیا تاکہ خراب نہ ہوجائے، اور بہ حفاظت اسے برعظیم لایا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ترک افواج کے لیے افغانستان کے راستے برعظیم میں داخل ہونے کا منصوبہ بنایا گیا تھا تاکہ مجاہدین کے ساتھ مل کر انگریز کو یہاں سے نکالا جائے۔ اس ریشمی رومال کو بعد میں ایک نومسلم نوجوان نے، جو ایم اے انگریزی بھی تھا بہ حفاظت ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کا ذمہ لیا، لیکن درپردہ اُس کی انگریزوں سے سازباز تھی، چنانچہ وہ رومال پکڑا گیا۔ اس کو ’ریشمی رومال تحریک‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
انگریزوں کو جب ترک افواج کے منصوبے کا علم ہوا تو انھوں نے ترکی پر اپنا دبائو بڑھا دیا۔ گورنرحجاز کو برطرف کردیا اور نئے گورنر نے انگریزوں کی ہدایت پر مولانا محمود حسن کو گرفتار کرلیا۔ پھر اُنھیں وہاں سے برعظیم لایا گیا اور بعدازاں مالٹا میں قید کردیا گیا۔ ان حالات میں حاجی صاحب تُرنگ زئی پر دبائو بڑھ گیا اور انگریزوں نے ان کے خلاف لشکرکشی کی۔ ان کے رشتہ داروں کو گرفتار کیا گیا، جایدادیں ضبط کی گئیں اور عوام الناس کو اُن سے تعاون کرنے پر دھمکیاں دی گئیں۔ جہادِ آزادی کو جاری رکھنے کے لیے آپ نے اپنی جایداد کو خیرباد کہا اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ آزاد قبائلی علاقے میں جاکر مقیم ہوگئے اور باقاعدہ ہجرت کی۔
ان حوصلہ شکن حالات میں بھی حاجی صاحب نے مہمندایجنسی، ضلع بونیر، ضلع سوات، مردان، چارسدہ، صوابی کے تفصیلی دورے کیے، احیاے اسلام اور آزادی کی جنگ لڑنے کے لیے لوگوں کو جان و مال کی قربانی پر آمادہ کیا۔ خود بھی انگریزوں کے خلاف کامیاب حملے کیے۔ انھوں نے چترال سے لے کر افغانستان تک لوگوں کو انگریز کے عزائم سے خبردار کیا اور وزیرستان ایجنسی، تیراہ اور باڑہ کے قبائل کو جہاد پر آمادہ کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
حاجی صاحب کی جدوجہد کے اثرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے: ’’حاجی صاحب کے عملی جہاد نے ۲۲سال تک انگریزوں کو اطمینان کے ساتھ اس پورے برصغیر میں حکومت کرنے کا موقع نہیں دیا۔ آپ کا قیام اگرچہ مہمند قبائلی علاقوں غازی آباد میں تھا مگر آپ کی تحریکِ جہاد میں تمام قبائلی علاقے کی مختلف قومیں شامل تھیں جو اپنے اپنے علاقوں میں انگریزوں کے خلاف برسرِپیکار تھیں۔ اس لحاظ سے یہ کہنا ایک تاریخی حقیقت ہے کہ سیاسی پلیٹ فارم سے مطالبۂ پاکستان کو حاجی صاحب کے عملی جہاد نے تقویت بخشی‘‘۔ (ص ۹)
اگر والئی افغانستان اور والیانِ دیر، سوات، جندول اور باجوڑ حاجی صاحب کی حمایت کرتے تو مجاہدینِاسلام کو بڑے پیمانے پر کامیابیاں حاصل ہوسکتی تھیں۔ لیکن جس طرح آج کے مسلم حکمران خود اپنی اقوام اور ملت کے خلاف ہیں اور غیروں کے حامی، ایسی ہی صورتِ حال اُس وقت بھی تھی۔ اس سب کے باوجود حاجی صاحب نے ہمت نہیں ہاری اور آزادی کے لیے جدوجہد جاری رکھی۔ کہتے ہیں کہ آخری عمر میں اگرچہ آپ ضعیف اور نحیف ہوگئے تھے مگر آپ محاذِ جنگ پر مجاہدوں کو خود دعا دے کر رخصت کرتے تھے اور پھر مورچے میں بیٹھ کر جہاد کی کمان کرتے تھے۔ عالم یہ تھا کہ آپ کے مرید آپ کو ڈولی میں بٹھا کر محاذِ جنگ پر لاتے تھے۔ یہ تھا آپ کا عزم اور ولولہ!
آپ مرتے دم تک انگریز کے خلاف برسرِ پیکار رہے۔ جہادِ آزادی کو ایک تسلسل کے ساتھ جاری رکھنے کے لیے آپ نے وفات سے قبل اپنے بڑے بیٹے کو اپنا جانشین اور خلیفہ مقرر کیا۔ تحریکِ آزادی کا یہ عظیم مجاہد دسمبر ۱۹۳۷ء کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا۔ اُن کی وفات کے بعد اُن کے بیٹوں نے ۱۹۴۷ء میں قبائل کے لشکر تیار کرکے کشمیر کے آدھے علاقے کو آزاد کروایا۔ اس طرح حاجی صاحب کی یہ جدوجہد رنگ لاتی ہے، ان کی تحریک تحریکِ آزادی سے تحریکِ پاکستان اور پھر قیامِ پاکستان پر جاکر منتج ہوتی ہے۔ انگریز کو بالآخر برعظیم کو چھوڑ کر جانا پڑتا ہے اور مسلمانوں کو مملکتِ اسلامیہ پاکستان کی صورت میں آزادی کا سورج دیکھنا نصیب ہوتا ہے۔ شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال نے بھی حاجی صاحب کی خدمات اور جدوجہدِ آزادی کے پیشِ نظر خود ان سے ملاقات کی۔ اُن کی شاعری میں ’محراب گل افغان‘ کا جو تذکرہ ہے، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اِس سے حاجی صاحب تُرنگ زئی ہی مراد ہیں۔
حاجی صاحب تُرنگ زئی کی جدوجہد کا ایک اور اہم پہلو جو احیاے اسلام کے لیے کوشاں داعیانِ دین کے لیے قابلِ غور ہے، وہ یہ ہے کہ سرحد میں سیداحمد شہیدؒ کے مقابلے میں انھیں زیادہ پذیرائی ملی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ سیداحمد شہید اور ان کے ساتھ آنے والے ہندستانی مجاہدین سرحد میں بولی جانے والی زبان پشتو سے واقف نہ تھے۔ اس وجہ سے وہ غیراسلامی رسومات کی خرابیوں اور اصلاحِ معاشرہ کے متعلق اسلامی احکامات کے متعلق یہاں کے لوگوں کے دلوں کو بخوبی متوجہ نہیں کرسکے۔ اس کے برعکس حاجی صاحب نے جب اس تحریک کو تکمیل کے مرحلے میں داخل کیا تو وہ چونکہ یہاں کے رہنے والے تھے، اس لیے ہرفرد کے دل میں ان کا احترام تھا۔ ان کی بزرگی، ان کے علم و فضل اور ان کی روحانی حیثیت کی وجہ سے وہ سرحد کے مقامی اور قبائلی لوگوں میں انتہائی ہردل عزیز تھے۔ انھی کی زبان میں کسی قسم کی خرابی اور اچھائی انھیں ذہن نشین کراتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ان لوگوں نے حاجی صاحب کے ساتھ وہ سلوک نہیں کیا جو ولی اللّٰہی تحریک کے مشہور مجاہد سیداحمد شہیدؒ اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ کیا گیا تھا۔(ص ۵۷-۵۸)
حاجی صاحب تُرنگ زئی مرحوم کی شخصیت اور ان کی جدوجہدِ آزادی، اصلاحِ معاشرہ اور احیاے اسلام کے لیے کوششوں کا اس کتاب میں بخوبی احاطہ کیا گیا ہے۔ اس کے مطالعے سے جہاں ان کی عظیم شخصیت اور تاریخ ساز کردار سامنے آتا ہے، وہاں آج اُمت مسلمہ بالخصوص مسلمانانِ پاکستان و افغانستان کو ’دہشت گردی‘ کی جنگ کے نام پر جس امریکی جارحیت اور سفاکیت کا سامنا ہے، ایک نیا عزم اور ولولہ ملتا ہے کہ اگر کل بے سروسامانی کے ساتھ جارحیت کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے اور دشمن کو پسپائی پر مجبور کیا جاسکتا ہے تو آج جب کہ، ہم آزاد ہیں یقینا اس جدوجہد کو زیادہ مؤثر انداز میں آگے بڑھا سکتے ہیں۔ امریکا کو یہ جان لینا چاہیے کہ وہ ملت جو حاجی صاحب تُرنگ زئی جیسے تاریخ ساز کردار کی حامل ہو، اسے غلام بنانا کوئی آسان کام نہیں ؎
جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے
(کتاب سردست دستیاب نہیں۔ نئی نسل کو اپنے تاریخی علمی ورثے سے روشناس کرانے کے لیے اسے دوبارہ شائع کرنے کی ضرورت ہے۔ حاجی صاحب تُرنگ زئی، عزیز جاوید۔ پبلشر: ادارۂ تحقیق و تصنیف پاکستان، پوسٹ بکس نمبر۳۸۸، جی پی او، پشاور۔ صفحات:۵۶۰، اشاعت: فروری ۱۹۸۲ئ)
اسلام اور مغرب، مسلمان اور مغربی دنیا، یہ موضوع آج کل عالمِ اسلام میں بھی اسی طرح گرما گرم بحث کا موضوع ہیں، جس طرح مغربی دنیا میں۔ اخبارات، رسائل و جرائد، کتابوں اور برقیاتی ذرائعِابلاغ میں مختلف زاویوں سے ہونے والی گفتگو دل چسپ بھی ہوتی ہے، اور بعض اوقات اُکتا دینے والی بھی۔ پیش نظر کتاب، جو دو معروف اہلِ علم کی مُرتبہ ہے، مشرق اور مغرب کے ۱۲ دانش وروں کے مضامین پر مشتمل ہے۔ اپنے کلیدی (اور تفصیلی) مقالے میں اسماعیل ابراہیم نواب نے مسلمانوں کے مغرب کے ساتھ تعلقات کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ عیسائیت سے اسلام کی مڈبھیڑ (encounter) ساتویں صدی عیسوی میں عیسائی شام پر مسلمانوں کے غلبے ہی سے شروع ہوگئی تھی، اور اسے عیسائیوں کی اکثریت نے خوش دلی سے قبول بھی کیا تھا، کیوں کہ مسلمانوں نے مذہبی رواداری اور حُریت فکر کا مظاہرہ کیا تھا، تاہم اُس زمانے میں یہ بھی نظر آتا ہے کہ یوحنا دمشقی نے اسلامی عقائد اور مسلمانوں پر وہ فکری یلغار شروع کی جوآج بھی جاری ہے، اور ہمارے عہد کے غالباً ممتاز ترین مؤرخ آرنلڈ ٹائن بی اس میں شامل ہیں‘‘ (ص ۹)۔ مقالہ نگار نے بڑی محنت سے ماضی اور حال میں اسلام اور عیسائیت کے درمیان خوش گوار (اور ناخوش گوار) تعلقات کا جائزہ لینے کے بعد دعویٰ کیا ہے کہ مشرق اور مغرب، شمال اور جنوب آپس میں پُرامن بقاے باہمی کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ (ص ۵۰)
عبدالرحیم قدوائی نے انگریزی ادب میں اسلام اور مسلمانوں کی صورت گری کا جائزہ لیا ہے۔ حسین مطالب کے بقول مغرب میں اسلام اور مسلمانوں کے درمیان تعصبات اور غلط فہمیاں ہیں۔ مغرب میں اسلام کے منفی ادراک کو جنم دینے میں صلیبی جنگوں کے طویل سلسلوں، مغرب کے استعمار اور مسلم علاقوں پر اس کے سیاسی غلبے، مغربی ذرائع ابلاغ کا غیرمتوازن رویّہ (مسلمانوں کو عموماً انتہاپسند دہشت گردوں کے رُوپ میں پیش کرنا)، مسلمانوں اور غیرمسلموں کی ایک دوسرے کے عقائد سے لاعلمی اور عالمی تناظر سے بے خبری، اور خود مسلمانوں اور اُن کے قائدین کی اپنے مذہب پر عمل کرنے میں خامی اور کوتاہیاں اس کی ذمہ دار ہیں۔
اہلِ مغرب اور مسلمان، خود اپنا اپنا ادراک کس طرح کرتے ہیں؟ اس پر ترکی کے احمد دائود اوغلو کا مقالہ بڑا معلوماتی ہے۔ ۲۰ویں صدی کے اوائل میں ترکی کی مقتدرہ نے خود کو مشرف بہ مغرب کرنے کی پوری جدوجہد کی، مگر یورپ نے اِسے دل سے قبول نہ کیا۔ بات یہ ہے کہ ’انسانِ اسلامی‘ (Homo Islamicus) اپنے بنیادی ادراکات و مزعومات (کائنات، زمان و مکاں، تعلقاتِ انسانی و خداوندی کے بارے میں اپنے تصورات) میں ’انسانِ مغربی‘ (Homo Occidentalis) سے بالکل مختلف ہے، تاہم وہ یہ مشورہ دینے میں کوئی حرج بھی نہیں سمجھتے کہ مغرب اپنے اس ادراک پر نظرثانی کرے، اور اسلامی تہذیب کے علَم بردار بھی خود کو ’رجعت پسندی‘ کی خودبینی سے آزاد کریں۔ یہ دونوں کی صحت کے لیے مفید ہوگا۔
خالد مسعود نے اُن ناموں کا جائزہ لیا ہے جن سے مسلمانوں اور اہلِ یورپ نے ایک دوسرے کو یاد کیا ہے۔ ’Hagarea‘ ___ہاجرہ ؑکی اولاد (جنھیں ہمارے عیسائی بھائی حضرت ابراہیم ؑکی ’لونڈی‘ قرار دیتے ہیں)، ’Saracens‘ کی اصل بھی شاید کچھ اسی طرح کی تھی، مگر یورپ میں اس کے معنی کافر، مشرک، بدعقیدہ لیے گئے۔ ’Moor‘کی اصل غالباً ایک یونانی لفظ ہے، جس کے مفہوم میں سیاہ فام، نابینا اور تاریک شامل ہیں۔’Mussulman‘ اور اس سے ملتے جلتے الفاظ ’Mussul-Woman‘مرد اور عورت کے لیے استعمال کیے گئے۔ ’Mohammadan‘ (مختلف حروف اور ہجوں کے ساتھ، نیز اس طرح کے دوسرے الفاظ)، اُمت محمدیہ سے تعلق رکھنے والوں کے لیے استعمال کیے گئے۔ مسلمانوں کی زبانوں میں اہلِ مغرب کے لیے افرنجی، فرنگ، ولایتی جیسے الفاظ استعمال کیے گئے جو کم از کم تحقیر سے تو مبرا ہیں۔
جین اسمتھ نے اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں عیسائی مشنریوں کے مزعومات اور خیالات کا جائزہ لیا ہے، جو ابتداء ً جتنے جارحانہ تھے، اتنے ہی جاہلانہ بھی۔ شروع میں خیال تھا کہ عیسائی یلغار کے نتیجے میں رفتہ رفتہ اسلامی تعلیمات مدھم پڑتی جائیں گی، مگر ایسا نہ ہوا۔ اگرچہ آج بھی کہیں کہیں [عیسائی مبلغوں کے] وہ پرانے حوالے نظر آتے ہیں، جن میں رسول [اللہ صلی اللہ علیہ] کو [نعوذ باللہ] شیطان کے ساتھی کے طور پر پیش کیا جاتا تھا، لیکن آج کے عیسائی مبلغ اسلام کو ایک مبنی برحق اور دُرست مذہب کے طور پر دیکھنے کے لیے کھلا ذہن رکھتے ہیں‘‘۔ اور اِن دو مذاہب کے درمیان اشتراک اور تعاون کی بات بھی کرتے ہیں۔
مغرب میں ’ناپسندیدہ‘ مسلمانوں کے لیے ’بنیاد پرست‘ (fundamentalist) کی اصطلاح عام ہوچکی ہے۔ یونی ایزبک حدّاد کے نزدیک یہ تصور داہنے بازو کے دانش وروں (سیکولر اور مذہبی)، مصنفین، صحافیوں، صہیونیوں نیز اُن تمام عرب اور ’اسلامی‘ حکومتوں کے لیے بھی عام ہوچکا ہے، جو امریکی امداد کی طرف نظریں جمائے رکھتی ہیں۔ اسرائیل کے وزیراعظم اسحاق رابین (Itzhak Rabin)کہتے ہیں: ’’ہمارا واحد دشمن اسلام ہے‘‘۔ اور ڈیوڈ بن گوریان (سابق وزیراعظم اسرائیل) اور اسرائیلی ریڈیو کے مطابق: ’’اسلامی اسپرٹ کی بازیافت، اس علاقے میں اسرائیل کے مستقبل اور مغربی تہذیب کے مستقبل کے لیے خطرہ ہے۔ یہودی جانتے ہیں کہ اسلام اُن کے وجود کے لیے خطرہ ہے، مسلمان کب یہ بات سمجھیں گے؟‘‘ (ص ۲۹۰-۲۹۱)
مگر مسلمان نہ اپنے اِس ’دشمن‘ کی بات سمجھتے ہیں، نہ اپنے دوست یوسف القرضاوی (جامعہ قطر میں ڈائرکٹر ریسرچ اور معروف عالم) کی، جن کے نزدیک: ’’اسلام اپنی تمام ہمہ گیریت، کُلیت اور توازن کے باوصف، اِس تمام علاقے سے غائب ہے، وہ اپنے وطن میں اجنبی بن چکا ہے۔ ریاستی معاملات، چاہے وہ سیاسی ہوں، معاشی یا دوسرے داخلی اور خارجی علائق، ان سب میں عوامی زندگی سے اُسے بے دخل کیا جاچکا ہے۔ [مغرب نے] یہ فیصلہ کردیا ہے کہ اسلام، عیسائیت کے عہدِ زوال کا ایک چربہ بن جائے___ یعنی قانون سازی کی قوت سے تہی دست، محض ایک مجموعۂ عقائد، عبادات کی ایک ظاہری صورت جو عملاً معاملات سے خالی ہو۔ ایک ایسا مذہب، جس کی کوئی ریاست حاکمہ نہ ہو، ایک قرآن، بلاسُلطان (بے اختیار)‘‘۔ (ص ۲۹۵)
سوال یہ ہے کہ اس سلسلے میں ’اسلام پسند‘ مسلمانوں کی کیا راے ہے؟ سید ولی رضا نصر ’ریاستیں اور اسلامیانے کا عمل‘ کے عنوان سے کہتے ہیں کہ گذشتہ دو دہائیوں سے اسلامی تحریکیں، سیاسی میدان میں بڑی اہمیت اختیار کرچکی ہیں، اور اس کے نتیجے میں مسلم معاشرے میں اسلام کی طرف رجوع کا واضح اشارہ ملتا ہے۔ ولی رضا، ریاست کے اسلامیانے کے عمل کی تین مثالوں، پاکستان، ملایشیا اور ایران میں تجربات کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس طرح عوام کی زندگی اور معاشرے میں ریاست کا عمل دخل (جبر!) اور زیادہ بڑھ گیا ہے۔ ضیاء الحق، مہاتیرمحمد اور ’اسلامی ایران‘ کے کارپردازوں نے لادینیت اور مغرب کے استرداد کے نام پر ایک طرح کی آمریت کو فروغ دیا۔ بہت سی ’اسلام پسند‘ نیز سیکولر حکومتوں نے بھی دینی مدارس اور اسلامی مراکز پر حکومتی کنٹرول کی کوشش کی ہے، لیکن دینی حلقوں کی طرف سے اس طرح کی کوششوں کی مزاحمت ہورہی ہے۔ پاکستان، ملایشیا، ترکی، مصر اور بہت سے اسلامی ممالک میں یہ کش مکش جاری ہے۔ مگر اس کش مکش میں غالب آنے والی قوت بظاہر تو مغرب ہی کی ہے، بقول مراد ہوف مین (Murad Hofmann): ’’یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب وقت آیا ہی چاہتا ہے کہ مغربی ثقافت ایک لازمی عالمی ثقافت بن جائے، اور وہی دوسری تمام ثقافتوں کی صورت گری کرے۔ سیول سے سوہو تک، مستقبل کا انسان جینز پہنے گا،برگر کھائے گا، کوکاکولا پیے گا، مارلبورو سگریٹ کے کش لگائے گا، انگریزی بولے گا، سی این این دیکھے گا اور ایک جمہوری ریاست میں باہاس [جرمن فنِ تعمیر] طرز کے مکان میں رہایش پذیر ہوگا، اور غالباً رسمی طور پر کسی عیسائی چرچ کا رُکن بھی ہوگا‘‘۔ (ص ۲۶۲)
مگر کیا واقعی ایسا ہوگا؟ یا صورت حال کچھ تبدیل ہورہی ہے؟
فنیاتی ترقیوں کی آزاد رسائی سے دونوں فریق ایک دوسرے کے مقابل آکر کھڑے ہوگئے ہیں۔ ماضی کے مقابلے میں اب صورتِ حال اتنی سادہ نہیں رہ گئی ہے۔ مغربی ملکوں میں مسلمانوں کی آبادی بڑھتی جارہی ہے۔ (نقلِ مکانی، تبدیلیِ مذہب، اور شاید بہتر شرحِ پیدایش)۔ بعض مقتدر مغربی حلقوں میں’اسلام آرہا ہے! اسلام آ رہا ہے‘ ، ’اسلام کا عروج، مغرب پر چھا جائے گا‘ اور ’ایک مقدس جنگ اب ہمارے سامنے ہے‘ اور اس طرح کے نعرے گونج رہے ہیں۔ اسٹیون ایمرسن (Steven Emerson) کے خیال میں تو امریکا میں سارے ہی اسلامی بنیاد پرست، ممکنہ دہشت گرد ہیں۔ وہ مغرب کی ہیئت حاکمہ کو مشورہ دیتے ہیں کہ ایف بی آئی کو چاہیے کہ مسلمانوں کی مساجد، اسلامی اداروں، اُن کی مجالس اور محفلوں میں نفوذ کرے۔ (ص ۲۶۴)
یہ بات واضح ہے کہ لامذہب مغرب اپنی ’ترقی‘ بہتر کارکردگی، بڑھوتری (growth)، پیمانۂ کبیر پر پیداوار اور صَرف کے لیے مجنونانہ جذبے کی دوڑ میں اتنا مشغول ہے کہ اُس کے پاس اسلام کے تصورِ آخرت پر زور، سماجی انصاف کے فلسفے، عبادات کے شعور اور رُوحانی اور دنیاوی مطلوبات کے درمیان ایک متوازن معاشرے کی تشکیل کی فکر پر دھیان دینے کے لیے وقت نہیں ہے۔ ہم اگر کسی ’مغربی انسان‘ کے ہاتھ میں قرآن مجید کا کوئی نسخہ، ترجمہ یا تفسیر تھما دیں تو شاید وہ اپنی اچھی سی کوشش کے باوجود اُسے سمجھ نہ پائے گا۔ مظفراقبال تجویز کرتے ہیں کہ ہمیں مغرب میں___اور اسلامی دنیا میں بھی___ ایسے ادارے تشکیل دینے چاہییں، جن میں علماے دین، طبعی اور سماجی علوم کے ماہرین، انسانی علوم میں گہری بصیرت رکھنے والے، کمپیوٹر کے سائنس دان، معمار، فن کار اور اطلاعاتی فنیات کے ماہر جمع ہوں، اور یہ ادارے ایسے ماہرین اور علما منصہ شہود پر لائیں، جو مغرب اور اسلامی دنیا میں متنازعہ اُمور کو سلیقے سے سلجھانے کی کوشش کریں۔ اسی طرح آیندہ کے امکانی تصادم کا سدّباب ہوسکے گا___ کیسی اچھی خواہش ہے یہ!
(Muslims and The West: Encounter and Dialogue [مسلمان اور مغرب: مقابلہ اور مکالمہ]، مرتبہ: ظفراسحاق انصاری و جان ایل ایسپوزیٹو، شائع کردہ: اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی، اسلام آباد، صفحات: ۳۵۲، قیمت: ۳۰۰ روپے)
’کم بچے خوش حال گھرانہ‘ کا نعرہ پاکستان میں بھی عرصے سے لگایا جا رہا ہے۔ جو لوگ زیادہ افرادِخانہ کے حق میں بات کرتے ہیں اُن کے بارے میں گمان کیا جاتا ہے کہ وہ عاقبت نااندیش اور قدامت پرست ہیں‘ موجودہ عمرانی و سیاسی عوامل سے ناواقف ہیں۔ کم بچوں کے حق میں سب سے بڑی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ وسائل سُکڑ رہے ہیں‘ آمدن ناکافی ثابت ہورہی ہے۔ اس لیے جو وسائل آپ کو ۹‘ ۱۰ بچوں پر خرچ کرنا ہیں وہ ۲‘۳ بچوں پر صرف کریں۔ آپ کے بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت بھی ہوجائے گی اور خوراک‘ علاج‘ تعلیم‘ لباس اور دیگر ضروریاتِ زندگی بھی بآسانی دستیاب ہوسکیں گی۔
کچھ عرصہ قبل ترجمان القرآن میں ایک مغربی تجزیہ نگار کے مضمون: ’وسائل کم نہیں پڑتے‘ (مارچ ۱۹۹۸ء) میں یہ ثابت کیا گیا تھا کہ جس قدر آبادی بڑھ رہی ہے اُسی رفتار سے قدرتی وسائل‘ زرعی پیداوار اور انسانی صلاحیت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ جو زمین ایک مَن اناج کی پیداوار دیتی تھی‘ اب اُس کی صلاحیت میں ۴۰ گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔ بلاشک و شبہہ اس منزل تک پہنچنے میں جدید سائنس اور ٹکنالوجی کا بھی بھرپور دخل ہے۔
آیئے دیکھتے ہیں کہ مغرب کو تحدید خاندان اور آبادی کم کرنے کے اس تجربے سے کیا ملا!
مغربی یورپ‘ جاپان اور شمالی امریکا میں ایسے درجنوں قلم کار‘ تجزیہ نگار اور دانش ور منظرعام پر آچکے ہیں جو تحدید خاندان کو اپنی تہذیب کے لیے زہرقاتل سمجھتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ اگر نئی نسل اپنی تعداد میں اضافہ نہ کرے تو فنا ہوکر رہ جائے گی۔
حال ہی میں‘ اسی موضوع پر پیٹرک جے بچانن کی کتاب The Death of the West (مغرب کی خودکُشی) منظرعام پر آئی ہے۔ بچانن ۱۹۹۲ء اور ۱۹۹۶ء میں ری پبلکن پارٹی کی طرف سے صدارتی اُمیدوار رہے اور سال ۲۰۰۰ء میں ریفارم پارٹی کے صدارتی اُمیدوار رہے۔ وہ تین امریکی صدور کے ساتھ مشیر کی حیثیت سے بھی کام کرتے رہے ہیں۔ اُن کی پانچ کتابیں شائع ہوچکی ہیں‘ جب کہ وہ این بی سی‘ سی این این کے لیے کئی پروگرام بھی کرتے رہے ہیں۔
بچانن نے اعداد وشمار کے ذریعے یہ ثابت کیا ہے کہ مغربی ممالک میں شرحِ تولید میں اضافہ نہ ہوا تو مغربی ممالک عددی اقلیت میں تبدیل ہوجائیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ جرمنی میں گذشتہ ۱۰ برس سے شرحِ تولید میں کمی واقع ہورہی ہے۔ موجودہ افراد کی جگہ لینے کے لیے ۱ء۲افراد فی عورت درکار ہیں‘ جب کہ شرحِ تولید ۳ء۱ ہے۔ اگر یہی صورت حال رہی تو ۲۰۵۰ء تک ۲کروڑ ۳۰لاکھ جرمن صفحۂ ہستی سے مٹ چکے ہوں گے‘ جرمنی کی آبادی ۸کروڑ سے ۵ کروڑ ۹۰لاکھ رہ جائے گی۔ جرمنی کی ایک تہائی تعداد کی عمر ۶۵برس سے زائد ہوگی اور بوڑھے لوگوں کا جوان لوگوں سے تناسب ۲:۱ کا رہ جائے گا۔ ہر ۱۵۰ میں صرف ایک فرد جرمن ہوگا اور ۲۰۵۰ء تک جرمنی بوڑھے ترین لوگوں کا مسکن بن جائے گا۔ ایک ۳۴سالہ جرمن خاتون سے سوال کیا گیا کہ اُس نے شادی کیوں نہ کی؟ اس کا جواب تھا: میں رات کو سکون سے سونا پسند کرتی ہوں۔ میں اپنے دوست کے ساتھ اچھا وقت گزارتی ہوں۔ میں بچوں کے جھنجھٹ میں کیوں پڑوں؟
اس وقت اٹلی کی آبادی ۵ کروڑ ۸۰ لاکھ ہے۔ ۴۵سال بعد یہ آبادی گھٹ کر ۴ کروڑ ۱۰لاکھ رہ جائے گی۔ امریکن انٹرپرائزز انسٹی ٹیوٹ کے اندازے کے مطابق ۲۰۵۰ء میں پانچ سال سے کم عمر بچوں کی تعداد ۲ فی صد ہوگی‘ جب کہ ۴۰ فی صد آبادی کی عمر ۶۵ سال یا اُس سے زیادہ ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چند نسلیں مزید گزر جانے کے بعد اٹلی کا ذکر ایک معدوم ریاست کے طور پر کیا جائے گا۔ Semi feministنامی رسالے نے لڑکیوں کے سروے کے بعد یہ رپورٹ جاری کی کہ ۱۶سال سے ۲۴ سال کی عمر کی ۵۲ فی صد لڑکیوں نے کہا کہ وہ بچے پیدا نہیں کریں گی۔ جب اُن سے سوال کیا گیا کہ اُنھوں نے یہ فیصلہ کیوں کیا ہے تو اُن کا کہنا تھا کہ ہم اپنا کیریئر بنانا چاہتی ہیں۔ بچے اس راستے میں رکاوٹ بنیں گے۔
روس نے عالمی منظرنامے پر طویل عرصے تک اہم کردار ادا کیا ہے۔ روس میں ہر تین میں سے دو حمل ضائع کرا دیے جاتے ہیں۔ ہر روسی عورت ۵ء۲ سے چار بار اسقاطِ حمل کے عمل سے گزرتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ روس میں شرحِ اموات‘ شرح پیدایش سے ۷۰ فی صد زیادہ ہے۔ ۲۰۵۰ء تک روس کی ۱۴ کروڑ ۷۰لاکھ آبادی گھٹ کر ۱۱کروڑ ۴۰لاکھ رہ جائے گی۔ ۱۶سالہ سے کم عمر لوگوں کی تعداد ۲کروڑ ۶۰لاکھ سے ایک کروڑ ۶۰لاکھ رہ جائے گی۔ ۷۰برس تک امریکا سے پنجہ آزمائی کرنے والے روس کی حالت یہ ہوچکی ہے کہ اوسطاً ۱۰عورتوں سے مجموعی طور پر ۵ء۱۳ بچے پیدا ہوتے ہیں۔ اس سے زیادہ اولاد پیدا کرنا وہ اپنے لیے توہین سمجھتی ہیں۔ ۲۰۵۰ء میں ۱۵ سال سے کم عمر بچوں کی تعداد ۲کروڑ ۶۰ لاکھ سے گھٹ کر ایک کروڑ ۶۰لاکھ رہ جائے گی‘ جب کہ موجودہ ایک کروڑ ۸۰لاکھ بوڑھے اس وقت تک پونے تین کروڑ بوڑھوں میں تبدیل ہوجائیں گے۔
پال کریک رابرٹس کا کہنا ہے کہ اس صدی کے اختتام تک انگریز قوم اپنے ہی وطن برطانیہ عظمیٰ میں اقلیت میں تبدیل ہوجائے گی۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی ملک کی اصلی آبادی جنگ‘ قحط یا وبائی امراض کے بجاے رضاکارانہ طور پر اپنی تعداد کم کر رہی ہے۔ لندن شہر میں مختلف نسلوں اور زبانوں سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد ۴۰ فی صد ہے۔ انگریزوں کی شرحِ پیدایش میں ۳فی صد کمی آتی رہی تو لندن میں گورے انگریز اقلیت بن کر گھومتے پھرتے نظرآئیں گے۔ ۱۹۲۴ء سے شرحِ پیدایش میں کمی ہوتی چلی جارہی ہے۔ اس وقت شرحِ پیدایش ۶۶ء۱ فی عورت ہے۔ برطانیہ کو اس کا احساس نہیں ہے کہ انگلینڈ اور ویلز کے رہنے والوں کی تعداد میں خوف ناک کمی ہوگی تو اُن کا اپنا ملک ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ برطانیہ اور اہلِ برطانیہ کو اس کا اندازہ ہو یا نہ ہو‘ صورت حال اسی سمت میں آگے بڑھ رہی ہے۔
یورپ کے تمام ممالک میں‘ اسپین میں شرحِ پیدایش سب سے کم ہے۔ اٹلی‘ رومانیہ اور چیک ری پبلک میں شرحِ تولید ۲ء۱ فی بچہ فی عورت تک جاپہنچی ہے‘ جب کہ اسپین میں یہ شرح ۰۷ء۱ تک پہنچ چکی ہے۔ آیندہ ۵۰برسوں میں اسپین کی آبادی میں ۲۵ فی صد کمی ہوجائے گی اور ۶۵سال سے زائد عمر کے باشندوں میں ۱۱۷ فی صد اضافہ ہوجائے گا۔ میڈرڈ کے ماہر سماجیات وکٹرپیریز ڈِیاز کا کہنا ہے کہ ’’ہمارے وطن میں چند نسل قبل ہر گھرانے میں آٹھ سے ۱۲ افراد کی موجودگی عام بات تھی۔ اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ سیکڑوں شادی شدہ جوڑے ایسے مل جاتے ہیں جنھوں نے اولاد پیدا کرنے کی زحمت تک نہ کی۔ اگر ایک بچہ پیدا ہوگیا تو دوسرے کے بارے میں سوچنا بھی گوارا نہیں‘‘۔ ۱۹۵۰ء میں اسپین کی آبادی مراکش سے تین گنا زیادہ تھی۔۲۰۵۰ء میں مراکش کی آبادی اسپین سے تین گنا ہوجائے گی۔ آج اگر ۱۰۰ اسپینی جوڑے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوں تو ساری زندگی میں یہ ۱۰۰ گھرانے ۵۸ بچے پیدا کریں گے۔ ان کے پوتوں کی تعداد ۳۳ ہوگی اور ان کے پڑپوتوں کی تعداد ۱۹ رہ جائے گی اور اُس وقت تک اہلِ اسپین کی اوسط عمر بھی ۵۵سال تک گھٹ جائے گی۔ اسپین اور مراکش کے درمیان آبنائے جبل الطارق کی رکاوٹ ہے۔ مراکش کی بڑھتی ہوئی آبادی نجانے کس وقت اسپین کو غلام بنا لے۔
بچانن کا کہنا ہے کہ ۱۹۶۰ء میں امریکی‘ آسٹریلوی‘ اہلِ کینیڈا اور اہلِ یورپ کی مجموعی آبادی ۷۵ کروڑ تھی۔ اُس وقت دنیا کی آبادی ۳ ارب تھی اور مغربی اقوام کی تعداد ایک چوتھائی بنتی تھی اور اُن سب کی معقول شرحِ پیدایش تھی۔ مالتھس کے پیروکاروں نے انھیں خوب ڈرایا کہ وسائل کم پڑ رہے ہیں۔ آبادی کم کرو‘ سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ لیکن آبادی کم کرنے کے باعث اُن کی زبان‘ اُن کی تہذیب‘اُن کی نسل بلکہ اُن کے ممالک کی بقا کا بھی مسئلہ بن چکا ہے۔
۲۰۰۰ء میں دنیا کی آبادی ۳ ارب سے بڑھ کر ۶ ارب ہوچکی ہے لیکن اہلِ یورپ نے اولاد پیدا کرنا تقریباً بند کردیا ہے۔ کئی ممالک میں شرحِ پیدایش ایک مقام پر رُک گئی ہے‘ جب کہ کئی اور ممالک میں یہ شرح گرتی چلی جارہی ہے۔ حد سے حد کوشش یہ ہے کہ دو افراد پر مشتمل ایک خاندان سے دو افراد وجود میں آجائیں۔
مصنف کے مطابق ۲۰۵۰ء تک دنیا کی آبادی ۶ ارب سے ۹ ارب ہوجائے گی لیکن آبادی میں یہ سارے کا سارا اضافہ ایشیا‘ افریقہ اور لاطینی امریکا میں ہوگا۔ لیکن یورپی نسل کے ۱۰کروڑ افراد صفحۂ ہستی سے مٹ چکے ہوں گے۔ انھیں اس کا احساس بھی نہ ہوگا کہ اپنی پُرسکون زندگی کی تلاش میں اُنھوں نے اپنے قبیلوں اور نسلوں کو موت کے گھاٹ اُتارنے میں اہم کردار ادا کیا۔
۱۹۶۰ء میں یورپی نسل کے افراد‘دنیا کی آبادی کا چوتھا حصہ تھے۔ تحدید نسل پروگرام پر عمل درآمد کرتے کرتے ۲۰۰۰ء میں وہ دنیا کی آبادی کا چھٹا حصہ رہ گئے اور ۲۰۵۰ء میں سفید یورپی اقوام دنیا کی آبادی کا دسواں حصہ رہ جائیں گی۔ یورپی اقوام colonializationکی جس پالیسی پر ۱۷ویں اور ۱۸ویں صدی میں عمل پیرا رہے اُس کا دورِثانی اب کبھی نہیں آئے گا۔
بن ویٹین برگ کا کہنا ہے کہ اگر یورپ نے کم آبادی کے مسئلے کا حل تلاش نہ کیا تو یورپ مٹ جائے گا۔ دنیا میں ۲۰ممالک ایسے ہیں کہ جن کی شرحِ پیدایش سب سے کم ہے اور اُن میں سے ۱۸ یورپ میں ہیں۔ اگر یورپی ممالک چاہتے ہیں کہ موجودہ نسل کی جگہ لینے کے لیے اتنے ہی افراد وجود میں آجائیں تو ہر یورپی عورت کو ۱ء۲ بچے فی کس پیدا کرنا ہوں گے‘ جب کہ مجموعی طور پر یہ شرح ۴ء۱ فی عورت ہے۔ یہ صفر شرحِ آبادی نہیں‘ صفر آبادی کا اعلان ہے۔
مغربی تہذیب کا گہوارا (یورپ) مغربی تہذیب کا قبرستان بن جائے گا۔ Bologna کی جان ھاپکنز یونی ورسٹی کے ڈاکٹر جان وہلیس کا کہنا ہے: ’’خودمختاری کے لیے عورت کو جس قدر معاش کی ضرورت ہے اوروہ اُس سے زیادہ کما سکتی ہے تو پھر شوہر کی کیا ضرورت ہے؟ اور اگر آپ کو جنسی لطف بھی مل جائے اور بچے بھی پیدا نہ کرنا پڑیں توخاندان بنانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ کیتھولک اٹلی اور سیکولر برطانیہ میں یہی ہو رہا ہے___ شادی کیوں کریں؟‘‘
شوہروں‘ بیویوں اور بچوں کو خاندانی ذمہ داریوں سے فارغ کر کے یورپ کے سوشلسٹوں نے خاندان کی ضرورت ہی کو ختم کردیا ہے۔ آہستہ آہستہ خاندان ختم ہورہے ہیں۔ خاندانوں کے ختم ہونے سے یورپ بھی ختم ہو رہا ہے۔ ۲۰۵۰ء تک یورپ سے جس قدر لوگ فوت ہوجائیں گے اُن کی مجموعی آبادی بیلجیم‘ ہالینڈ‘ ڈنمارک‘ سویڈن‘ ناروے اور جرمنی کی آبادی سے زیادہ ہوگی۔ اگر یورپ کی آج کی عورتیں چاہتی ہیں کہ اُن کی نسلیں‘ اُن کے خاندان‘ اُن کی ثقافت اور اُن کے ممالک دنیا کے نقشے پر موجود رہیں تو اُنھیں اتنے ہی بچے پیدا کرنے ہوں گے جتنے اُن کی نانیوں اور دادیوں نے پیداکیے تھے___ ہے کوئی جو فطرت کے انتقام اور مغرب کی خودکُشی سے سبق سیکھے!
(The Death of The West by Patrick J. Buchanan, Published by: Thomas Dunne Books, St. Martin's Griffin, 175 Fifth Avenue, New York. 10010, pp310).