مطالعہ کتاب


اختلاف راے علم و تحقیق کے لیے رحمت ہے۔ یہ صرف کھلی بحث‘ تنقیدی جائزے اور دیانت دارانہ بحث کے ذریعے ہی ممکن ہے کہ صحیح علمی قدروقیمت کا تعین ہوسکے۔ حقیقی مکالمے کے مفہوم میں یہ شامل ہے کہ دلائل کے لیے وسعت قلبی‘حقائق کا ادراک‘ اختلاف راے کے لیے  تحمل و برداشت ہو‘ جب کہ اہم ترین پہلو علمی دیانت اور اخلاقی بلندی ہے۔ اگر یہ نہیں ہے تو باقی سب کی کوئی اہمیت نہیں۔

پاکستان دنیا کے سیاسی نقشے پر ۱۹۴۷ء میں اُبھرا۔ اس نے مسلمانان ہند کی جمہوری جدوجہد کے نقطۂ عروج کی عکاسی کی جس کے تحت انھوں نے برطانوی راج سے ایک نئے دستوری نظام کے تحت آزادی حاصل کی۔ اس نے مسلمانوں کو اس قابل بنایا کہ وہ مسلم اکثریتی علاقوں میں ایک آزاد اور خودمختار ریاست قائم کرسکیں جہاں وہ اپنے ایمان‘ اقدار‘ نظریات اور تاریخی روایات کی روشنی میں سماجی‘ سیاسی‘ اقتصادی اور ثقافتی ترقی کرسکیں۔ یہ ان کی اسلامی تشخص سے وابستگی اور تعلق ہی تھا جس نے پوری سیاسی جدوجہد کے دوران مسئلے کو زندہ رکھا‘ خاص طور پر تحریکِ خلافت (۱۹۱۱ء-۱۹۲۵ء) اور تحریک پاکستان (۱۹۴۰ء-۱۹۴۷ء) کے دوران۔ محمداقبال کا مسلم لیگ کے اجلاس سے صدارتی خطاب (۱۹۳۰ء)‘ قائداعظم محمدعلی جناح اور دیگر مسلم لیگی قائدین کے سیکڑوں بیانات اور پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کا قرارداد مقاصد (مارچ ۱۹۴۹ء) کا منظور کرنا‘ ان سب پر ایک محتاط نظر‘ اس بات میں کوئی شبہہ باقی نہیں رہنے دیتی کہ اسلام ہی تحریکِ پاکستان اور ریاست اور معاشرے کا مرکزی نکتہ تھا‘جو اس تاریخی جدوجہد کے نتیجے میں ایک حقیقت کے طور پر اُبھر کر سامنے آیا۔

سیکولرلابی نے آئین ساز اسمبلی میں قرارداد مقاصد پر بحث کے دوران پہلی مرتبہ سر اُٹھایا۔ اس موقع پر‘ قائداعظم کی ۱۱ اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کو ہندو ممبران اسمبلی نے جن کا تعلق کانگریس پارٹی سے تھا‘ پورے زوروشور سے اُٹھایا۔ آئین ساز اسمبلی کے مسلم ممبران نے لیاقت علی خان‘ عبدالرب نشتر اور مولانا شبیراحمدعثمانی کی قیادت میں اس دعوے کو رد کردیا اور قراردادمقاصد تقریباً متفقہ طور پر منظور ہونے سے سیکولرلابی کا پول کھل کر رہ گیا۔ یہ افسوس ناک امر ہے کہ سیکولر لبرل لابی اسی غبارے میں پھر ہوا بھرنے کے عمل پر مصر ہے۔ جسٹس محمدمنیر فریب اور تحریف کے اس کھیل کے مرکزی کھلاڑی تھے۔ اپنی کتاب: From Jinnah To Zia (وین گارڈ بکس‘ لاہور‘ ۱۹۸۰ء) میں انھوں نے جناح کا پاکستان بطور سیکولر ریاست کے تصور کے حق میں مبینہ دلائل پیش کیے۔ پاکستان اور بیرون ملک میں پائی جانے والی تمام سیکولر لابی اس کتاب میں جناح سے وابستہ کیے جانے والے بیانات کو اس بحث میں بنیادی حوالے کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ اگرچہ جسٹس منیراور سیکولرلابی کے الزامات کو بہت سے مصنفین بشمول تبصرہ نگار نے چیلنج کیا ہے ‘ لیکن زیرتبصرہ مختصر اور جامع کتاب: سیکولرجناح میں سیکولر حضرات کے موقف پر بہت بھرپور‘ جان دار اور شواہد کے ساتھ کڑی تنقید کی گئی ہے۔ سلینہ کریم نے انتہائی محتاط تحقیقی کام سے جسٹس منیر اور تمام ہم خیال سیکولر لابی کے اسکالر ادیبوں کے ٹولے بشمول اردشیر کاؤس جی ‘ اشتیاق احمد‘ پرویز ہود بھائی‘ اے ایچ نیر وغیرہ جیسے مریضانہ ذہنیت کی حد تک لکھنے والوں کے موقف کا بھرپور اور زوردار انداز میں رد کردیا ہے۔

یہ کتاب اس بات کے بارے میں کوئی شک و شبہہ باقی نہیں چھوڑتی کہ قائداعظم کو جانتے بوجھتے غلط نقل (quote)کیا گیا ہے۔ درحقیقت انھیں نہ صرف چھانٹ چھانٹ کر اور سیاق و سباق سے ہٹتے ہوئے نقل کیا گیا ہے بلکہ جو الفاظ انھوں نے کبھی نہیں کہے‘ وہ ان سے منسوب کردیے گئے ہیں۔ مزیدبرآں ان مصنفین نے بڑی تعداد میں اور بکثرت پائے جانے والے ان شواہد سے صرفِ نظر کیا ہے جو قائداعظم کے اس نقطۂ نظر اور وژن کو واضح کرتے ہیں‘ جو وہ پاکستان کے بارے میں اسلام کے اصولوں پر مبنی اور ملّت اسلامیہ کی آرزؤں اور تمنائوں کے مطابق ریاست کے طور پر رکھتے تھے۔سلینہ کریم نے نہایت محتاط انداز میں قائداعظم کے رائٹر کے نمایندے کو دیے گئے اس انٹرویو کا جس کا عام طور پر حوالہ دیا جاتا ہے‘ اصل متن تلاش کیا ہے‘ اور حتمی طور پر ثابت کیا ہے کہ جسٹس منیر نے جو الفاظ ان سے منسوب کیے تھے‘ وہ اصل بیان میں تھے ہی نہیں۔ جسٹس منیر نے ان سے یہ منسوب کیا ہے کہ انھوں نے کہا: ’’نئی ریاست ایک جدید ریاست ہوگی جس میں اعلیٰ ترین اختیار (sovereignty)  عوام کے ہاتھ میں ہوگا‘‘۔

یہ بات دل چسپی کا باعث ہوگی کہ گرامر کی ایک غلطی کی وجہ سے مصنفہ اس رخ پر پڑیں اور بالآخر تحقیق کے بعد یہ دریافت ہوا کہ یہ اقتباس محض لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیے ایک جعل سازی تھا‘اور سب سے زیادہ پریشان کن پہلو یہ ہے کہ یہ بات ایک چیف جسٹس نے کی جسے انصاف اور سچائی کا نگہبان تصور کیا جاتا ہے۔

کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلا باب اس بیان سے متعلق ہے جو قائداعظم سے منسوب کیا جاتا ہے جوکہ جعل سازی کا ایک نمونہ ثابت ہوچکا ہے۔ باقی تین ابواب جناح سے متعلق دوسری ۱۲ فرضی باتوں کے بارے میں ہیں‘ جن کا تعلق ان کے مبینہ سیکولرزم یا ان کے اپنے نام نہاد سیکولر طرززندگی سے ہے۔ اس بحث میں محتاط محققہ نے ۴۰ سے زیادہ اقتباسات پیش کیے ہیں جن سے جناح کی اسلام کے عقیدے اور نظریے سے گہری وابستگی‘ اور انھوں نے ملّت اسلامیہ سے اسلام کے تحرک‘ تشخص اور پاکستان کی منزل کے تناظر میں جو پختہ عہد کیا تھا‘ ثابت ہوتا ہے۔ مصنفہ نے اپنے دعوے کو شک و شبہے سے بالاتر ناقابلِ تردید شواہد سے ثابت کیا ہے۔ انھوں نے سیکولر اور لبرل لابی کے اخلاقی اور علمی دیوالیہ پن کا بھی انکشاف کیا ہے جنھوں نے اپنے موقف کو‘ واقعات کو مسخ کر کے‘ حقائق سے انکار کرکے اور قبیح و ناروا علمی فروگذاشت کی بنیاد پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ سیکولر لابی کے ہردعوے کو حقائق اور ٹھوس دلائل سے رد کیا گیا ہے۔ بہرحال جناح کے ساتھ بالآخر انصاف کیا گیا ہے‘ جب کہ پاکستان میں انصاف تقسیم کرنے والوں نے ان کے سر ناانصافیاں منڈھی ہیں۔

اگرچہ زیرتبصرہ کتاب جناح کے پاکستان کے وژن اور جسٹس منیر اور ان کے پیرو اہلِ قلم کی فریب کاری جو انھوں نے برسوں پھیلائے رکھی‘ کے حوالے سے بھرپور ہے‘ تاہم مصنفہ نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اس کی حیثیت ایک تاریخ کی کتاب کی نہیں ہے۔ یہ اب بھی مفید ہوگا اگر اس بحث کے تاریخی تناظر میںاسی طرح کا قابلِ قدر علمی مطالعہ پیش کیا جائے۔

بحث کا پہلا مرحلہ ۱۹۴۹ء میں آئین ساز اسمبلی میں قرارداد مقاصد سے پہلے اور دوران بحث سے متعلق ہے۔ اس کے بعد ۱۹۵۳ء میں قادیانی مسئلے پر حکومت مخالف تحریک کے بعد کے اثرات کو سامنے لاتی ہے۔ جسٹس منیر کا اسلامی ریاست کے تصور اور جناح کے مبینہ سیکولر وژن کے بارے میں پہلا حملہ تحقیقاتی عدالت کی پنجاب میں فسادات کے بارے میں رپورٹ میں کیا گیا جو پنجاب ایکٹ II‘ ۱۹۵۴ء کے تحت قائم کی گئی تھی۔ یہ رپورٹ عام طور پر منیر رپورٹ ۱۹۵۶ء کے طور پر جانی جاتی ہے‘ اور اس پر مکمل تنقیدی جائزہ جماعت اسلامی پاکستان نے منیر رپورٹ کا تجزیہ ‘ (پنجاب ڈسٹربنس انکوائری رپورٹ کا تنقیدی جائزہ) کے عنوان سے شائع کیا‘ جو مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی نے لکھا اور اس تبصرہ نگار نے اس کا ترجمہ کیا۔

منیر رپورٹ  میں جناح کے ڈوم کیمپلز کے انٹرویو پر مبنی اسی مبینہ اقتباس (ص ۲۰۱) کا حوالہ دیا گیا ہے ‘جس کی حقیقت زیرتبصرہ کتاب میں بہت واضح طور پر کھول دی گئی ہے۔ہمارے جواب الجواب‘ منیر رپورٹ کا تجزیہ میں قائداعظم کے بارے میں اس موقف کو رد کردیا گیاتھا‘ مگر مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی جھجک نہیں کہ فریب دہی پوری طرح کھل کر سامنے نہیں آئی تھی جب تک کہ موجودہ کتاب سامنے نہیں آئی۔ اس تحقیق کا سہرا یقینا سلینہ کریم کو جاتا ہے۔

شریف المجاہد (قائداعظم جناح: اسٹڈیز ان دی انٹرپرٹیشن، قائداعظم اکیڈیمی‘ کراچی‘ ۱۹۷۸ء) اور دیگر بہت سے مصنفین بشمول تبصرہ نگار (کیا قائداعظم ایک دھوکا باز تھے؟  نیوایرا، کراچی‘ ۲۸ جنوری ۱۹۵۶ء) نے اس موضوع پر لکھا ہے اور قائداعظم کی اس مسئلے پر پوزیشن کو واضح کیا ہے۔بعض مقامات پر دھیمے‘ خوش گوار اور مناظرانہ انداز میں --- جس مشقت سے  سلینہ کریم نے تحقیق کی اور جس طرح سے انھوں نے جعل سازوں کی فریب دہی کا انکشاف کیا ہے‘ اپنے موضوع پر قابلِ تحسین کاوش ہے جو ریکارڈ درست رکھنے میں بھی مددگار ہے۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ یہ کتاب ایک آئینے کی مانند ہے جو قائداعظم کے پاکستان کے بارے میں حقیقی تصور اور سیکولر لابی کے مسخ شدہ بیانات دونوں کی عکاسی کرتی ہے۔

سلینہ کریم بجا طور پر دعویٰ کرتی ہیں کہ جناح نے اپنی تقریروں‘ تحریروں اور انٹرویو میں محض ایک بار بھی سیکولرزم کے نظریے کی واضح طور پر حمایت نہیں کی‘ یا پاکستان کے ایک سیکولر ریاست کے طور پر کوئی اشارہ بھی دیا ہے۔ درحقیقت انھوں نے بارہا پاکستان کے لیے ’مسلم ریاست‘، ’اسلامی ریاست‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے اور واضح طور پر کہا ہے کہ قیامِ پاکستان کے پیچھے جو تصور کارفرما تھا وہ ’اسلامی اصولوں‘ اور’اسلامی قانون‘ پر عمل درآمد تھا۔ تاہم ان سے قائد کے کئی بیانات میں اہم متعلقہ بیانات رہ گئے۔ مثال کے طور پر مسلمانانِ ہند کے لیے اپنے ایک پیغام (۸ستمبر‘ ۱۹۴۵ء) میں انھوں نے سیکولرزم کے نظریے پر ایک شدید ضرب لگائی۔ انھوں نے کہا:

ہرجہت میں مسلمان اپنی ذمہ داریاں زیادہ سے زیادہ محسوس کررہے ہیں۔ ہرمسلمان جانتا ہے کہ قرآنی احکام صرف مذہبی اور اخلاقی امور تک محدود نہیں ہیں۔ گبن کے بقول: اٹلانٹک سے گنگا تک قرآن کو ایک بنیادی ضابطے کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے‘ نہ صرف دینیات کے اعتبار سے بلکہ سول اور فوج داری ضابطوں اور ایسے قوانین کے لحاظ سے جو بنی نوع انسان کے افعال اور املاک پر اللہ تعالیٰ کے غیرمبدل قوانین کے طور پر محیط ہے۔ جہلا کے سوا ہر شخص اس امر سے واقف ہے کہ قرآن کریم مسلمانوں کا عام ضابطہ حیات ہے۔ ایک دینی‘ معاشرتی‘ سول‘ تجارتی‘ فوجی‘ عدالتی‘ فوج داری ضابطہ ہے۔ رسومِ مذہب ہی سے متعلق نہیں‘بلکہ روزانہ زندگی سے متعلق بھی۔ روح کی نجات سے لے کر جسمانی صحت تک‘ حقوق العباد سے لے کر فردِواحد کے حقوق تک‘ اخلاقیات سے لے کر جرائم تک اس دنیا میں سزا سے لے کر عقبیٰ میں سزا تک۔ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لازمی قرار دیا کہ ہرمسلمان کے پاس قرآن کریم کا ایک نسخہ ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنی رہنمائی خود کرسکے۔ لہٰذا اسلام محض روحانی عقائد اور نظریات یا رسم و رواج کی ادایگی تک محدود نہیں ہے۔ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور پورے مسلم معاشرے پر محیط ہے‘ زندگی کے ہرشعبے پرمن حیث المجموع اور انفرادی طور پر جاری و ساری ہے۔ (قائداعظم: تقاریر و بیانات‘ جلدسوم‘ ترجمہ:اقبال احمد صدیقی‘ بزمِ اقبال‘لاہور‘ ص ۴۷۴)

سیکولرزم سے متعلق ایک اور بہت اہم حوالہ‘ جو غالباً واحد حوالہ ہے جسے میں نے ان کی تقاریر اور بیانات میں پایا‘ پارٹیشن پلان کے اعلان کے بعد اور کراچی روانگی سے قبل‘ ۱۳ جولائی ۱۹۴۷ء کی ایک اہم پریس کانفرنس کے موقع پر سامنے آیا۔ان سے براہِ راست یہ سوال کیا گیا: پاکستان سیکولر ریاست ہوگی یا مذہبی ریاست؟مسٹر جناح نے جواب دیا: ’’آپ مجھ سے ایک احمقانہ سوال کر رہے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ مذہبی ریاست کے معنی کیا ہوتے ہیں‘‘۔ (ایک اخبار نویس نے کہا کہ مذہبی ریاست ایسی ریاست ہوتی ہے جس میں صرف کسی مخصوص مذہب کے لوگ‘ مثلاً مسلمان تو پورے شہری ہوسکتے ہیں اور غیرمسلم پورے شہری نہیں ہوسکتے)۔ مسٹر جناح نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’پھر مجھے ایسا لگتا ہے کہ پہلے میں نے جو کچھ کہا ہے (یعنی پاکستان میں اقلیتوں سے متعلق )وہ ایسے تھا جیسے چکنے گھڑے پر پانی گرا دیا جائے‘‘ (قہقہہ)۔ خدا کے لیے اپنے ذہن سے وہ واہیات باتیں نکال دیجیے جو کہی جارہی ہیں۔ مذہبی کا کیا مطلب ہے میں نہیں جانتا۔ (ایک صحافی نے کہاکہ ایسی ریاست جو مولانا چلائیں)۔ مسٹر جناح نے جواب دیا: ’’اس حکومت کے بارے میں کیا خیال ہے جو ہندستان میں پنڈت چلائیں گے؟‘‘ (قہقہہ)۔ مسٹر جناح نے کہا: ’’جب آپ جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں آپ نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا۔ ہم نے جمہوریت کا سبق تیرہ سو برس پہلے پڑھا تھا‘‘۔ (قائداعظم: تقاریر و بیانات‘ جلد چہارم‘ ایضاً‘ ص ۳۵۲)

سلینہ کریم نے کتاب کا آخری باب قائد کے ریاست اور معاشرے کے بارے میں وژن کے مختلف پہلوؤں کو قرآنی تعلیمات کی روشنی میں جائزے کے لیے مختص کیا ہے۔ یہ بحث مسٹر جناح کے اسلامی اقدار‘ اصولوں اور اسلامی روایات سے اور ان کے نقطۂ نظر کی گہری وابستگی کے کسی حد تک ادراک میں مددگار ہے‘ تاہم قرآن کے اقتصادی نظام اور خاص طور پر زکوٰۃ کا ایک سیاسی مسئلے کی بحث کے دوران تذکرہ باعثِ حیرت ہے۔ البتہ بحیثیت مجموعی کتاب میں جناح کے تصورِپاکستان پر بحث اُٹھائی گئی ہے جو اپنے موضوع پر لٹریچر میںمفید اضافہ ہے۔ مطالعہ پاکستان میں دل چسپی رکھنے والوں کو اس کتاب کا لازماً مطالعہ کرنا چاہیے۔(ترجمہ: امجد عباسی)

(Secular Jinnah: Munier's Hoax Exposed, by Saleena Karim, Laskeard, UK, Exposure Publishing, 2005, pp 148, ISBN: 1905363753)

 

آج مغرب‘ کرئہ ارض پر کسی جغرافیائی خطے کا نام نہیں‘ بلکہ ایک فکروفلسفے‘ ایک رویّے اور ایک استحصالی عفریت کا نام ہے‘ جو بقیہ ساری دنیا کو اپنی چراگاہ اور شکارگاہ تصور کرتا ہے۔ پیش نظر کتاب مغرب اور عالمِ اسلام کے مصنف خرم مراد کا مغرب سے تعلق بالواسطہ بھی تھا اور بلاواسطہ بھی۔ پاکستان میں انجینیرنگ کی تعلیم کے بعد بغرض مزید تعلیم وہ امریکا گئے اور اسلام کی نشرواشاعت کے لیے عرصے تک انھوں نے انگلستان میں بھی قیام کیا۔ اس طرح انھوں نے مغرب اور مغربی تہذیب کا صرف دُور ہی سے جلوہ نہیں دیکھا‘ بلکہ اس کے قلب و دماغ میں داخل ہوکر اس کا مشاہدہ کیا۔ لیکن وہ اس سے مرعوب نہیں ہوئے‘ بلکہ اپنے اسلامی ذہن سے اس کا مطالعہ کر کے اپنی گہری ایمانی وابستگی کی روشنی میں انھوں نے اس کا تجزیہ کیا۔

مغرب اور عالمِ اسلام اُن کے ۱۶ مضامین کا مجموعہ ہے‘ جن میں سے بیش تر ماہنامہ ترجمان القرآن لاہور میں شائع ہوچکے ہیں۔ پروفیسر سلیم منصور خالد نے انھیں بڑے سلیقے سے مرتب کیا ہے اوربعض مقامات پر تصریحات اور حواشی لکھے ہیں۔ کتاب کے آخر میں تفصیلی اشاریے سے قاری کو موضوعات تک رسائی میں بڑی آسانی ہوجاتی ہے۔

خرم مراد کا نقطۂ نظر (thesis) یہ ہے کہ اپنی تمام روشن خیالی اور ’معروضی‘ اندازِ تحقیق و تحریر کے باوجود یورپ (مغرب) کا ذہن آج بھی ازمنۂ وسطیٰ کے متعصب اور جاہل عیسائیوں سے مختلف نہیں‘ جنھوں نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم اوراسلام کے بارے میں جھوٹ اور مکر کے ہرہتھیار کو استعمال کر کے ہرزہ سرائی کی ایک طویل داستان رقم کی تھی۔ آج کے مغربی محققین‘ معروضیت اور متانت اور سائنسی طریق تجزیہ و تحقیق کا لبادہ اُوڑھ کر اسلام کی ایک ایسی تصویر   پیش کررہے ہیں‘ جو نہ صرف غیرمسلموں کے ذہن میں اسلام سے ایک تعصب اور نفرت پیدا کرنے میں فعال ہے‘ بلکہ نسلی مسلمانوں کی نژادِ نو کے دل میں بھی اپنے آبائی دین سے برگشتگی کا باعث   بن رہی ہے۔

عالمِ اسلام کے خلاف مغرب کی یہ جنگ‘ سیاسی اور معاشی بھی ہے‘ اور تہذیبی اور علمی بھی۔ خرم مرحوم کو اس کا واضح شعور تھا۔ ’قانونِ توہینِ رسالت‘ کے عنوان سے وہ کہتے ہیں کہ اس مسئلے پر مسلمانوں کے سخت ردِّعمل پر مغرب کا شوروغوغا اس امر کا غماز ہے کہ اُسے ہمارے احساسات کی کوئی پروا نہیں‘ یا وہ جانتا ہے کہ آں حضوؐر کی ذاتِ مبارکہ ہی ہماری قوت کا [سرچشمہ]… ہماری وحدت کا راز ہے (ص ۳۲)۔ بقولِ اقبال‘ ہمارے جسد میں رسالت ہی کی وجہ سے جان ہے۔ دنیا میں ہمارا وجود‘ ہمارا تشخص‘ ہمارا دین و آئین ذاتِ رسالت مآبؐ کی بنا پر ہے‘ اور حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مُطّہرہ پر حملہ کرکے اور پھر اس پر ہمارے ردِّعمل پر ہمیں مداہنت کی تلقین کرکے دراصل مغرب اس تعلق کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔

’نئی صلیبی جنگ اور دینی مدارس‘ کے عنوان سے انھوں نے یہ چشم کشا انکشاف کیے کہ برعظیم ہندوپاکستان میں ۹۵-۱۹۹۴ء میں تقریباً ایک ساتھ دینی مدارس کے خلاف کارروائیوں کا آغاز ہوا۔ یہ محض اتفاق نہیں‘ بلکہ اس کے ڈانڈے کہیں دُور جاکر ملتے ہیں۔ ہندستان میں     ندوہ (لکھنؤ)‘ دارالعلوم (دیوبند) اور دوسری درس گاہیں اس کا ہدف بنیں‘ اور پاکستان میں بھی  اہلِ مغرب اور اُن کے حلیف حکمرانوں نے ان مدرسوں کو فرقہ واریت اور دہشت گردی کا گڑھ قرار دیا۔ ’مغرب کے باج گزار حکمراں کیوں یہ کارروائیاں کر رہے ہیں؟ اس لیے کہ اُنھیں      یہ احساس ہے کہ یہی ادارے‘ مسلمانوں کے تشخص کو باقی رکھنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں‘ اوراسلام سے سرشار یہی ’بنیاد پرستی‘ اُن کے لیے خطرہ ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ مغرب‘ جو انسانی حقوق‘ قانون کی بالادستی‘ مہذب معاشرے اور  ’سول سوسائٹی‘ کی بات کرتا ہے‘ خود اپنے اندر خوف ناک دہشت گردوں کو پالتا ہے۔ ۱۹۹۵ء میں اوکلاہوما کے بم دھماکے میں‘ جس میں ۱۹۰ سے زیادہ جانوں کا اتلاف ہوا‘ اور شہر کے وسط میں بڑی تباہی پھیلی‘ شروع میں الزام مسلمانوں ہی پر لگایا گیا۔ مگر مجرم ایک ’سفیدفام، اصلی، نسلی امریکی‘ نکلا‘ جو اپنے جیسے ہزاروں امریکیوں پر مشتمل ایک منظم گروہ کا رُکن ہے۔ خرم کہتے ہیں کہ اب ’’اسلام، فنڈامنٹل ازم اور دہشت گردی‘‘ کی یہ خودساختہ تکون ختم ہونی چاہیے۔ مغرب اور اسلام کے درمیان اس طرح کی محاذ آرائی سے کسی کو فائدہ نہیں ہوگا۔

مگر یہ محاذ آرائی نئی نہیں۔ اکتوبر ۱۹۹۱ء میں میڈرڈ (اسپین) میں نام نہاد ’مشرقِ وسطیٰ  امن کانفرنس‘ میں عرب ممالک کو اسرائیل کے آگے گھٹنے ٹیکنے اور نام نہاد ’معاہدۂ امن‘ پر مجبور کیا گیا۔ اس طرح امریکا کی ’نیوورلڈ ڈپلومیسی‘ نے مسلمانوں کو ذلّت کا ایک اور جام پینے پر مجبور کردیا۔ اس ’معاہدے‘ کے لیے اس مخصوص شہر اور ملک کا انتخاب کیوں کیا گیا؟ خرم بتاتے ہیں کہ اس حادثے سے ٹھیک ۵۰۰ سال قبل نومبر ۱۴۹۱ء میں اسپین کی آخری عرب مسلم ریاست غرناطہ کے حکمراں ابوعبداللہ محمد نے عیسائی فاتح فرڈی نینڈ چہارم اور ملکہ ازابیلا کے آگے اسی طرح گھٹنے ٹیک دیے تھے‘ اور اس طرح حصولِ امن کے نام پر اسپین سے مسلم اقتدار کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ اندلس تا فلسطین‘ عبرت کے سفر میں وہ فلسطین‘ لبنان (صابرہ‘ شاتیلا‘ قانا ۱۹۹۶ئ) میں لاکھوں بے گناہوں کے قتل کی اندوہناک داستانیں سناتے ہیں۔

دنیا کی ترقی یافتہ ان ’مہذب‘ اقوام کے نزدیک جو ’اُن‘ کے گروہ سے نہیں‘ وہ انسان ہی نہیں۔ امریکی صدر جارج واشنگٹن کے بقول: ’’[ریڈ] انڈینوں میں کوئی چیز انسانی نہیں‘ سواے انسانی شکل کے‘‘۔ مہذب سفیدفام امریکیوں نے چند ہی سالوں میں ۲۰لاکھ سرخ ہندیوں کی آبادی گھٹاکر ۲ لاکھ کردی‘ اورانھیں بھی جنگلوں اور صحرائوں میں دھکیل دیا گیا۔ پھر بیسیویں صدی کے اواخر میں عین یورپ کے قلب میں بوسنیا کے مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا‘ وہ آج کے مغرب کی غیرجانب دار‘ مہذب پالیسی کا بھانڈا پھوڑ دینے کے لیے کافی ہے۔ کمیونزم کے زوال کے بعد یوگوسلاویہ منہدم ہوا اور اس کی ’خودمختار‘ ریاستیں آزاد ہوئیں۔ سربیا‘ کروشیا اورسلووینیا تو اقوام متحدہ اور یورپی برادری کی سرپرستی اور تحفظ میں آزاد ہوئیں‘ لیکن بوسنیا نے جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی اعلانِ آزادی کیا تو سربیا کے یونانی آرتھوڈوکس چرچ حکمرانوں اورعوام نے وہاں قتل و غارت اور تاراج کا وہ بازار گرم کیا‘ جس کی مثال حالیہ تاریخ میں کم ہی نظر آتی ہے۔ مسلمان آبادیوں کا محاصرہ کر کے شہریوں کو جانوروں کی طرح‘ بلکہ بدتر انداز میں باڑوں میں قید کرکے ذبح کیا گیا‘ لاشوں کا مُثلہ کیا گیا اور خواتین کی بے حرمتی۔ مدرسے‘ کتب خانے اور ثقافتی مرکز تباہ کردیے گئے اور صدیوں کا قیمتی ورثہ‘ جو دراصل ساری انسانیت کی میراث تھا‘ راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ یہ سب  کرئہ ارض کے کسی دُورافتادہ‘ بعید گوشے میں نہیں‘ یورپ اور اقوامِ متحدہ کی آنکھوں کے سامنے ہوا۔ خرم مراد یہ ہولناک داستانیں سنانے کے بعد کہتے ہیں: ’’ہم گڑے مُردے اُکھاڑ کر نفرت کا الائو نہیں سلگانا چاہتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ انسانوں کے درمیان امن و آشتی اور محبت عام ہو… سارے انسان ایک خدا کے بندے بن کر‘ اس کا خاندان بن کر ساتھ رہیں‘‘۔(ص ۱۶۶)

بدقسمتی سے بیش تر مسلم ممالک اور ان کے حکمرانوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ یورپ/مغرب سے تعلق (اور وہ بھی زبردستی کا فدویانہ تعلق) قائم کیے بغیر ہم گزارا نہیں کرسکتے۔ اس کی ایک مثال خود پاکستان ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’پاکستان کو بنے ہوئے مشکل سے دوماہ ہوئے تھے کہ حکومت نے میرلائق علی کو پاکستان کے ایلچی کے طور پر امداد کے لیے امریکا بھیجا۔ اور اس طرح پاک امریکی تعلقات کی وہ بنیاد پڑی جس کے نتیجے میں پاکستان امریکا کی ایک باج گزار ریاست بن کر رہ گیا۔ فاضل مصنف کے اس خیال سے تواختلاف کیا جاسکتاہے کہ ’’پاکستان… بنا ہی ایسی کس مپرسی کے عالم میں تھا کہ اس کے لیے شاید کسی بڑے ملک کی مدد حاصل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا…‘‘ (ص ۱۸۱)۔ ۲ ارب ڈالر کے سوال کوا مریکی حکومت نے جس طرح رَد کیا‘ اس کے بعد بھی پاکستان زندہ رہا‘ اور کسی طرح کی شکست و ریخت سے دوچار نہ ہوا۔ لیکن ان کی یہ رائے بالکل درست ہے کہ جس ناعاقبت اندیشی‘ ملک و ملّت کے مفادات سے لاپروائی اور بے مثال فدویانہ خودسپردگی کے ساتھ پاکستان کوامریکا کے ساتھ فوجی معاہدوں میںباندھنے اور اقتصادی امداد کی بھیک حاصل کرنے کی حکمت عملی اختیار کی گئی‘ بہرحال اس کی چنداں ضرورت نہ تھی‘‘(ص ۱۸۱)۔ دفاع‘ معاش اور ثقافت و تہذیب‘ سبھی شعبوں میں خودکفالت کے بغیر ہم عزت کی زندگی نہیں گزار سکتے۔

مغرب کے ساتھ ہمارے تعامل میں ایک مسئلہ، ’مسلم مسیحی تعلقات‘ کا بھی ہے۔ اس مسئلے پر یورپ کے پروٹسٹنٹ اور کیتھولک چرچوں نے جو رپورٹ تیار کی تھی‘ اُس میں ’برابرکے بدلے کی بنیاد‘ پر یہ کہا گیا تھا کہ اگر ایک عیسائی‘ مسلمان بن سکتا ہے‘ تو ایک مسلمان کیوں عیسائی نہیں      بن سکتا؟ اسی طرح یہ کہا گیا کہ توہینِ رسالتؐ پر مسلمان جو شور مچاتے ہیں‘ وہ آزادیِ اظہار کے منافی ہے۔ خرم کہتے ہیں کہ ہرمذہب اور معاشرے کے کچھ اپنے بنیادی مزعومات ہوتے ہیں‘ جن کی خلاف ورزی گوارا نہیں کی جاتی۔ مثلاً یورپ میں یہودیت یا ’سامیّت‘ کے خلاف کچھ کہنا برداشت نہیں کیا جاتا۔ وہاں بہت سے ملکوں میں خواتین کو حجاب کا حق‘ ذبیحہ‘ نمازِ جمعہ کا وقفہ قابلِ قبول نہیں ہے۔ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ بوسنیا ہرذی گووینیا میں مسلمانوں کے اجتماعی قتل‘ خواتین کی اجتماعی  بے حُرمتی اور ان کی اقتصادی بربادی کے جو واقعات ہوئے‘ اُن پر ’عیسائی یورپ‘ کا ردِّعمل کیا رہا؟ کیا یہ برابری کی بنیاد پرانصاف ہے؟

مغرب نے مسلم دنیا پر جو کاری زخم لگائے ہیں‘ اور جس طرح اُسے تاراج کیا ہے‘ اور کر رہا ہے‘ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا حکمت ِ عملی اختیار کی جائے؟ کیا عسکری مقابلہ اس کا حل ہے؟ خرم کا جواب نفی میں ہے۔ دوسرا حل بقاے باہمی اور کسی تصادم کے بغیر اپنے ملکوں/معاشروں میں اسلام کے مطابق اداروں کی تشکیل ہے۔ لیکن وہ محسوس کرتے ہیں کہ خود مغرب اس بقاے باہمی کے لیے تیار نہیں‘ اور مسلم ملکوں کی اکثریت میں جو برسرِاقتدار طبقے ہیں‘ وہ خود بھی مغرب کے مُطیع مُہرے ہیں۔ مسلمانوں کو اس صورت حال کے پیش نظر مغرب کے ساتھ مشترک اُمور تلاش کرکے ایک داعیانہ روش اختیار کرنی چاہیے‘ اور اجتہاد فکرونظر کے ذریعے خود اپنی اصلاح کے لیے ایک   لائحۂ عمل مرتب کرنا چاہیے۔

مسلمان یہ یقین رکھتا ہے کہ اس نے اللہ سے ایک ’ عہدِ وفا‘ کیا ہے۔ اس عہد کی تکمیل ہی میں ہماری بقا اور ترقی ہے۔ ’’دین جس راستے پر لے جاتا ہے‘ معاشی انصاف اور خوش حالی اس کے لازمی نشان ہاے منزل ہیں‘‘۔ لیکن یہ فی نفسہٖ نصب العین نہیں۔ ہماری آرزوئیں کیا ہیں؟ ’’ہم اُن جیسے بن جائیں‘ ہمیں اُن کا قرب حاصل ہو‘ ہم اُن کی داد و تحسین کے مستحق ٹھیریں‘ جو ترقی یافتہ اورمہذب کہلاتے ہیں___ حالاں کہ انھوں نے ہی زمین کو فساد اور ظلم و جور سے بھردیا ہے…‘‘

خرم کہتے ہیں کہ ’’آج اُمت کے لیے عصرِحاضر کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کاایک ہی طریقہ ہے… وہ اللہ تعالیٰ کی… اُس پکار پر… لبیک کہے: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو‘ اللہ اور    اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو‘ جب کہ رسولؐ تمھیں اس چیز کی طرف بلائیں جو تمھیں زندگی بخشنے والی ہے‘‘۔ (ص ۳۰۲)

خرم‘ نامساعد حالات میں بھی اُمید اور روشن مستقبل دیکھ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’آج اُمت میں اللہ اور رسولؐ کی پکار ہر طرف اُٹھ رہی ہے۔ مرد‘ عورت‘ بوڑھے‘ نوجوان‘ بچے سب اس پر لبیک کہہ رہے ہیں۔ اسلامی تحریکات نے جدوجہد کا دِیا جلا دیا ہے…‘‘ (ص ۲۰۳)۔ دنیا کا مستقبل اسلام ہے‘ لیکن مغربی ذہن کا خودساختہ خوف اسلام اور مسلمانوں ہی کو سب سے بڑا خطرہ قرار دیتا ہے۔ اس کے نزدیک: ’’[مسلمان] وہ روز بروز بڑھتی ہوئی سماجی اور سیاسی قوت ہیں جو مغرب کے مسلّمہ تصورات پر حملہ آور ہیں…‘‘۔ (ص ۳۱۱)

وہ سوال اٹھاتے ہیں کہ جب آج اُمت مسلمہ کی حالت ِزار یہ ہے کہ ہم ’اُن‘ کے قرضوں کے بغیر گزارا نہیں کرسکتے‘ ہمارا دفاع‘ اسکول‘ کالج‘ یونی ورسٹیاں‘ پارلیمنٹ‘ بنک‘ مارکیٹ‘ کارخانے اور تمام ادارے اُنھی کے نقشے اور تصورات کے مطابق کام کر رہے ہیں‘ ہمیں کہیں سیاسی استحکام نصیب نہیں‘ اقتصاد‘ تعلیم‘ ثقافت‘ سیاست‘ ہر لحاظ سے ہم پستی کی انتہائوں تک پہنچ چکے ہیں‘ تو پھر اس ’’کمزور اُمت سے انھیں اتنا خوف کیوں ہے؟‘‘ بات دراصل یہ ہے کہ مغرب کے کارفرمائوں کو یقین ہے کہ مستقبل کا ’فتنہ‘، فتنۂ اسلام ہے۔ آج دنیا کا ہر پانچواں انسان مسلمان ہے‘ اوردنیا کے گوشے گوشے میںاسلامی تحریکیں سراُٹھارہی ہیں ۔ لیکن اس تاریخی موقع پر مسلمانوں کو جوش سے نہیں‘ بلکہ ہوش سے کام لینا ہوگا۔ تحریروتقریر کے بجاے اسلامی زندگی کے عملی مظاہر‘ اور نفرت کے بجاے محبت سے دل جیتنے ہوں گے۔ اسلام کا پیغام دلوں کو مسخر کرنے والا ہونا چاہیے‘  نہ کہ تعصب اور نفرت کو اُبھارنے والا۔

مغربی ملکوں میں حکمرانوں اور عوام میں امتیاز کرنا ہوگا۔ حکمرانوں کی پالیسی اور ترجیحات اور ہوسکتی ہیں۔ ہمیں عوام تک رسائی حاصل کرنی ہوگی۔ ’’خود اُن ممالک کی راے عامہ کو اپنے حکمرانوں کے خلاف کھڑا کیا جائے۔ جب تک ہم معرکہ جیتنے کی پوزیشن میں نہ ہوں‘ معرکہ برپا نہ کیا جائے‘ نہ مقابلے میں غیرمطلوب شدت پیدا کی جائے…‘‘ (ص ۳۲۲)۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’جنت اگر مطلوب ہے‘ تو جنت کی وسعت کے لحاظ ہی سے‘ دلوں میںوسعت‘ خیالات میں وسعت‘ مقاصد میں وسعت‘ رویوں میںوسعت‘ اور اللہ کے لیے زیادہ سے زیادہ لٹانے اور مٹانے میں وسعت… ناگزیر ہے‘‘۔ (ص ۳۲۴)

خرم کے نزدیک ہماری حکمت عملی یہ ہونی چاہیے کہ جس طرح آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایک ملک میں اپنے ترجمان اور نمایندے بھیجے تھے‘ آج ایک ارب سے زائد مسلمان دنیاکے گوشے گوشے میں آپؐ  کے ترجمان اور نمایندے ہیں۔ اُن کے ہاتھ میں آپؐ کا خط ہے۔ جس کو بھی اپنی اس پوزیشن اور ذمہ داری کا احساس ہو‘ اُسے تڑپ کر کھڑا ہوجانا چاہیے۔ سلیقے سے‘ حکمت سے‘ موعظۂ حسنہ سے‘ انسانوں کو حضوؐر سے قریب لانا چاہیے۔ جتنا زور ہم آپؐ  کا دین  پیش کرنے پر لگاتے ہیں‘ اتنا ہی اہتمام ہمیں آپؐ  کی ذات‘ شخصیت‘ کردار‘ اُسوۂ حسنہ اور زندگی کو پیش کرنے پر لگانا چاہیے۔ جو سراجِ منیرسے جتنا قریب آئے گا‘ اس کا دل کھلا ہوگا‘ وہ حضوؐر کی روشنی اور حرارت میں سے حصہ پائے گا۔ جتنے لوگ حضوؐر کی رسالت پر ایمان لاتے جائیں گے‘ آپؐ  کے آستانے سے وابستہ ہوتے جائیں گے‘ اتنا ہی تہذیبی جنگ میں حضوؐر کے پیغام کی فتح کے امکانات بڑھتے جائیں گے‘‘ (ص ۲۸)۔ بقول اقبال     ؎

بے خبر! ُتو جوہرِ آئینۂ ایّام ہے

 ُتو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے

(خرم مراد: مغرب اور عالمِ اسلام (تدوین و ترتیب: سلیم منصورخالد)‘ منشورات‘ منصورہ‘ لاہور‘ ۲۰۰۶)

گوانتاناموبے ‘ کیوبا کے جنوب مشرق میں واقع ایک ۴۵ مربع میل جزیرے کا نام ہے ۔ ۱۹۰۳ء میں امریکا نے اس جزیرے کو کیوبا سے اجا رے پر لے کر یہاں ایک بحری فوجی اڈا قائم کیا جو تاحال قائم ہے ۔

ناین الیون کے سانحے کے بعد ہر اس فرد کو جو انصاف اور امن پر یقین رکھتا تھا ‘یہ امید تھی کہ امریکی حکومت سائنسی بنیادوں پر اس جرم کی تفتیش کرے گی‘ مکمل ثبوتوں اور شہادتوں کی روشنی میں ملزموں کو صفائی کا پورا موقع دے گی اور جرم ثابت ہو نے پرقرار واقعی سزا د ی جائے گی۔ اب پانچ سال بعد جو حقائق سامنے آرہے ہیں تومعلوم ہوتا ہے کہ ایسا کیوں نہیں ہوا‘ اور ایسا کیوں ہوا کہ ناین الیون کے وقوعے کے چند لمحوں بعد امریکا کے صہیونی نواز میڈیانے اعلان کر دیا کہ اس واقعے میں مسلمان ملوث ہیں‘ اور دو تین روز بعد امریکی صدر جارج بش نے اسلام کو نشانے پر لے کر صلیبی جنگوں کا اعلان کر دیا (بعد میں اس جنگ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دیا گیا)۔ ساتھ ہی تباہی و بربادی ‘ آگ اور خون اورظلم و بربریت کا ایک نہ ختم ہو نے والا ایک ایسا سلسلہ شروع کر دیا گیا کہ دنیا ناین الیون کو بھول گئی ۔ چنگیزخان ‘ ہٹلر ‘ مسولینی ‘ پول پاٹ ‘ ملاسووچ اور  ایرل شیرون جیسے سکّہ بند قاتل صدر بش کے سامنے بونے نظر آنے لگے ۔

مسٹربش کی اس شہرت میں یوں تو بہت سے واقعات اور کرداروں نے اہم کردار ادا کیا ہے‘ لیکن اس کی سرپرستی میں چلنے والے بدنام زمانہ قیدخانے گوا نتا ناموبے کو انسانیت کی تذلیل کے حوالے سے اہم مقام حاصل ہے۔

اس قید خانے کے تنگ و تاریک عقوبت خانوں اور اس سے قبل قندھار اور با گرام کے مذبح خانوں میں ‘ سورج کی روشنی اور تازہ ہوا کی لمس محسوس کیے بغیر زندگی کے تین سال گزار کر  آنے والے ایک پاکستانی نژاد بر طانوی مسلمان معظم بیگ کی یادداشتوں پر مبنی ایک جامع خود نوشت٭    کا یہاں مختصر مطالعہ پیش کیا جا رہا ہے ۔ یہ کتاب ‘ ایک تاریخی دستاویز ہے۔ پاکستان میں کئی قیدی واپس آئے ہیں لیکن ابھی تک کسی نے اس نوعیت کی خودنوشت شائع نہیں کی ہے۔

اس کتاب کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ مصنف کے ساتھ پہلے دن سے لے کر آخری روز تک جو کچھ گزری ‘ اس کو اس نے پوری جرأت اور دانش سے قلم بند کردیا ہے۔اس کتاب کے مطالعے سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ امریکا اور ان کے اتحادیو ں کی نظر میں مشکوک بننے کے بعد وہ کیسے     چند ڈالروں کے عوض بیچا گیا ‘ پھر اسلام آباد ‘ قندھار اور باگرام میںکس کس انداز سے ’روشن خیال‘ مسلم حکمرانوں کی عزت افزائی کا مستحق ٹھیرا ۔ ساتھ ہی ان ممالک میں متعین امریکی فوجیوں کی ذہنیت سے بھی واقفیت حاصل ہوتی ہے۔

مصنف کے آباو اجداد پاکستانی تھے۔ ان کے والد بر طانیہ میں ایک بنک کار کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے ہیں ۔ گھر میں ایک علمی اور ادبی ماحول میسر آنے اور اچھی تربیت پانے کی وجہ سے  معظم کی علمی استعداد ہمیشہ سے نمایاں رہی اور وہ معاشرے اور ہم جولیوں میں پائی جانے والی بہت سی برائیوں سے بچ گیا ۔ مصنف میں تبدیلی کے لیے جن واقعات نے اہم کردار ادا کیا‘ ان میں"Paki Go Home"ـ  جیسے اشتعال انگیز نعرے‘ نیشنل فرنٹ کے گوروں کے ہاتھوں ایشیائی باشندوںکی بلا وجہ مار پیٹ‘ اور پردہ یا حجاب میں ملبوس مسلمان خواتین کے ساتھ بدتمیزی کے مشاہدات شامل تھے۔

اپنی تاریخ‘ اور شناخت کی خاطر وہ ایک دن سکول میں پہننے والی جیکٹ پر پاکستان کا سبزہلالی جھنڈا سلواتا ہے جس کو دیکھ کر استادحکم دیتا ہے کہ اسے جیکٹ سے اتاردو‘ لیکن وہ استاد کا  یہ ناجائز مطالبہ ما ننے سے انکار کردیتا ہے ۔ مصنف نے اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں     بہت تفصیل سے لکھا ہے۔ اس کے اندر ظالم کے مقابلے میں مظلوم کی حمایت کے لیے آواز بلند کرنے کی خوبی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے ۔ اس کے دل میں فلسطین کی گلیوںمیںاسرائیل کے دیوہیکل ٹینکوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہونے والے گمنام اورمعصوم کرداروں کے لیے بڑا احترام ہے۔

بچپن میں وہ اسلام پر عمل کر نے میں اس قدر فعال دکھائی نہیں دیتا لیکن ۹۰ کے عشرے کے آغازمیں پہلی خلیجی جنگ اور بوسنیا ہرذی گووینا میں ہونے والے قتل عام پر امریکا ‘ مغرب اور بالخصوص برطانیہ کی سرد مہری اور خاموشی ‘اس کے ضمیر کو بیدار کر نے کا باعث بنتی ہے۔ اب وہ ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے کہ جہاں ضمیر یا اپنے وطن بر طانیہ میں سے کسی ایک کو انتخاب کرنے کا سوال ہے ۔ بالآخر وطنیت کے مقابلے میں ضمیر جیت جا تا ہے اور وہ پاکستان آتا ہے ۔کچھ دوستوں  کے ساتھ جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ کو دیکھتا ہے اور اپنے منصوبے کے مطابق افغانستان جاتا ہے۔ وہاں پر کشمیری مجاہدین کے ایک تربیتی مرکز الفجر میں کچھ دن گزارتا ہے ۔ یہاںپرکشمیری مہاجرین اس کو بھارتی فوج کے ہاتھوں کشمیر میں پیدا ہونے والی خوف ناک صورت حال اور اس بارے میں اقوام متحدہ کی خاموشی کے بارے میں تفصیل سے بتا تے ہیں ۔

مصنف یہاں پر تربیت پانے والے لوگوںکے سادہ طرز زندگی اور اسلام سے والہانہ محبت سے بہت متاثر ہو تا ہے ۔ اس کے بعد وہ بوسنیا کے مسلمانوں کی عملی مدد کے لیے کئی بار ادویات اور اشیاے خوردونوش لے کر جا تا ہے۔ وہاں پر ہونے والی تباہی اور بربادی کا بہ چشم خود مشاہدہ کرتا ہے۔ بوسنیا کی مسلمانوں کی مدد کے لیے دنیا بھر سے آئے ہوئے مجاہدین سے ملاقاتیں ہوتی ہیں اور بعد میں امن معا ہدے کے با وجود سرب اور کروٹس کے مقا بلے میں بوسنیا کا دفاع کرنے والے کمانڈروں کو ایک ایک کرکے قتل کرنے کے واقعات اس کی زندگی پر دور رس اثرات ڈالنے کا باعث بنتے ہیں۔پھر روس کے ہاتھوں چیچنیا میں جاری کشت وخون کے بارے میں جان کر وہ اپنے ایک دوسرے دوست کے ہمراہ کچھ نقدی اور سامان لے کر ترکی کے راستے چیچنیا جانے کی کوشش کرتا ہے  لیکن جارجیا کی سرحد سے واپس کردیا جا تا ہے۔وہاں سے چیچنیا کے وزیر خارجہ کے ہاتھ عطیات بھجوا کر ترکی سے واپس بر طانیہ آتا ہے ۔

اب وہ افغانستان میں بچیوں کے لیے کچھ اسکول کھو لنے کے ساتھ ساتھ پینے کے لیے صاف پانی کی فراہمی کی غرض سے دستی نلکے لگا نے‘ کنویں کھودنے اور زمینوں کو سیراب کر نے کے لیے بڑی بڑی مشینیں لگانے جیسے فلاحی کاموں کی طرف پوری یکسوئی کے ساتھ متو جہ ہوتا ہے ۔  اس مقصد کے لیے وہ بر طانیہ میں دیگر دوستوں کے ساتھ مل کر عطیات جمع کرتا ہے۔

۲۰۰۱ء کے وسط میں وہ اپنے بیوی بچوں سمیت برمنگھم سے کابل منتقل ہوتا ہے تاکہ رفاہی منصوبوں کی براہ راست نگرانی کی جاسکے ۔ اسی دوران ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا سانحہ ہو تا ہے اور تقریبا ًچند ہفتوں بعد افغانستان امریکی بم باری کی زد میں آجا تا ہے۔وہ بم باری اور حملوں کے خوف سے اپنے بچوں کو لوگر لے کر آتا ہے اور پھر تین ہفتے کے لیے وہ اپنے بیوی بچوں سے بچھڑجا تا ہے ۔ بالآخر بڑی مشکل سے ان کے بیوی بچے کسی نہ کسی طریقے سے اسلام آباد پہنچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔ یہاں پر وہ ایک گھرمیں قیام کر لیتا ہے‘ جہاں سے کچھ مہینوں کے بعد رات کی تاریکی میں امریکی اور پاکستانی خفیہ اداروں کے اہلکار اسے اغوا کر کے کچھ وقت کے لیے پاکستان میں رکھتے اور پھر افغانستان میں واقع ایک تفتیشی مرکز قندھار منتقل کردیتے ہیں ‘ جہاں سے وہ باگرام اور پھر وہاں سے گوانتا ناموبے پہنچا دیا جا تا ہے۔

گوانتاناموبے کا یہ قیدخانہ بنیادی طور پر تین بڑے بڑے حصوں پر مشتمل ہے: پہلا حصہ کیمپ ڈیلٹا (Dalta) ہے۔ یہ سب سے بڑا اور مرکزی کیمپ ہے جس کو فروری سے لے کر اپریل ۲۰۰۲ء کے درمیان تعمیر کیا گیا۔ اس میں قیدیوں کو رکھنے کے لیے چھے بڑے ہال اور کیمپ ایکو (Echo) کے نام سے ایک الگ قید خانہ ہے ۔ ایکوکیمپ میں رکھے جانے والے قیدی کو صرف اپنی آواز کی گونج کے علاوہ کسی اور ذی روح کی آواز سنائی نہیں دیتی ۔اس میں کسی کھڑکی کے بغیر کنکریٹ سے بنی ہوئی چھوٹی چھوٹی پنجرہ نما کوٹھڑیا ں ہوتی ہیں ‘ جس میں ایک عام قدوقامت والے انسان کے لیے سہولت کے ساتھ کھڑا ہو نا‘ بیٹھنا‘ یا لیٹنا ممکن نہیں رہتا ۔ہر کوٹھڑی میں لوہے کی چھوٹی سی چارپائی اور ایک ٹائلٹ ہوتا ہے ۔ ان کوٹھڑیوں میںدن رات تیز روشنی ہوتی ہے۔ یہاں پر صرف ایسے انتہائی اہم قیدیوں کو رکھا جا تا ہے جن کو امریکی صدر کے حکم سے جیل میں لگنے والی خصوصی فوجی عدالت کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے۔ نیز یہاں پر قیدیوں کو غیر سر کاری وکلا سے رابطے کی اجازت ہوتی ہے۔ مصنف نے ‘گوانتاناموبے میں دو سال اسی کیمپ ایکو‘ میں گزارے۔ اس قید خانے میں بڑے سخت فوجی قوانین نافذ ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں پر سرے سے کوئی قانون نہیں ہو گا۔ یہاں پر لا ئے جانے والے ہر فرد کو انسان کے بجاے گندی نالے کے کیڑے سے زیادہ بدتر ‘سانپ سے زیادہ خطر ناک اور ایک چھپکلی سے زیادہ کم ترسمجھا جاتاہے۔

کیمپ ایگوانا(Iguana) نسبتاً چھوٹا کیمپ  ہے اور بڑے مرکزی کیمپ کے حدود میں سمندر کی جانب تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔اس میں یاتوچھوٹی عمر کے قیدیوں رکھا جاتا ہے ‘ یا پھر ان قیدیوں کو رکھا جاتا ہے جن کو فوجی کمیشن ’کم خطرناک ‘ یا بالکل بے گناہ قرار دے چکے ہوتے ہیں ۔ ان کو نہ تو امریکا جانے کی اجازت ہو تی ہے اور نہ بعض قا نونی پیچیدگیوںکی وجہ سے اپنے آبائی وطن بھیجا جا سکتا ہے۔ گویاان کو یہاں پر قا نونی طور سے معلق کر کے رکھا جا تا ہے ۔

کیمپ ایکسرے (X-Ray) تشدد اور بربریت کے لیے مشہور ہے جس میں چھ سات سو کے درمیان قیدیوں کو رکھا جا تا تھا ۔ جو لائی ۲۰۰۳ء میں یہاں ۶۸۰ قیدی موجود تھے۔ یہاں پر کسی بھی قیدی کو اپنے وکیل سے ملنے کی اجازت نہیں ۔ ان قیدیوں کو لمبے عرصے تک جاگنے پر مجبور کر نا‘ سخت گرمی یا سردی میں رکھنا‘ کان کے پردے پھاڑنے والے شور میں رکھنا‘ بدترین جسمانی تشدد کے مختلف طریقوں سے گزارنا‘ الٹا لٹکانا‘ تیزروشنی میں رکھنا ‘ عزت نفس کو مجروح کر نے کی مختلف تراکیب آزمانااور اس جیسی دیگر بے شمار اذیتیں دینا شامل ہیں ۔

اس کتاب سے یہ حقیقت بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جاری اس جنگ کا نہ تو کوئی نصب العین ہے اور نہ امریکا اور اس کے اتحادی کسی اصول اور ضابطے کے پابندہیں۔ جس اہم مو ضوع پر مصنف نے زیادہ زور دیا ہے وہ اس جنگ کی قانونی حیثیت ‘ قندھار ‘ باگرام اور گوانتاناموبے میں تسلسل کے ساتھ جاری انسانیت کی توہین ‘ اور جینوا کنونشن کی بے دھڑک پامالی ہے۔ مصنف کا قندھار اور باگرام میں جن قیدیوں سے ملنا ہوا ہے‘ تقریباً ان سب میں یہ قدرِ مشترک پائی جاتی ہے کہ ان کو یا تو محض شک‘ شباہت (شلوارقمیص ‘ داڑھی اور پگڑی ) کی بنا پر دھرلیاگیا‘ یا پھر افغانستان کے مختلف سرداروں اور پاکستان کے خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں نے ان کو ڈالر بنانے کے چکر میں اُن کے اپنے گھروں سے ‘ راستوں سے ‘ بازاروں سے یا خدمت خلق کے مراکز سے کسی ثبوت کے بغیر‘ عمر ‘ صحت‘جنس ‘ مذہب ‘ رنگ ‘ نسل ‘زبان ‘علم‘ امن پسندی پر مبنی سابقہ کردار اور شجرہ نسب دیکھے بغیر‘ اس حالت میں اُٹھا یا کہ‘ ان کے قریبی رشتہ داروں تک کو ان کے مردہ یا زندہ ہونے کے بارے میں ہفتوں ‘مہینوں اور برسوں تک کوئی خبر نہیں ملی ۔ گرفتار کرنے کے بعد ان سب کو بدترین تشدد کا نشانہ بنا کر مکمل طو پریا نیم برہنہ کرکے آنکھوں پر پٹی کس دی جاتی ہے‘ اور پھرہاتھ پائوں باندھ کر بڑے بڑے دیوہیکل فوجی جہازوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح ایک دوسرے سے باندھ کر قندھار یا باگرام پہنچا دیا جا تا ہے۔

مصنف لکھتا ہے کہ جب مجھے قندھار ائرپورٹ پر اتا را گیا تو منہ پر بندھی ہو ئی پٹی کی وجہ سے مجھے سانس لینے میں سخت دقت پیش آرہی تھی۔ اس لیے میں نے ایک سپاہی سے اپیل کی کہ وہ پٹی ڈھیلی کردے ۔ جب وہ سپاہی پٹی ڈھیلی کر دیتا ہے تو میں احساس تشکر کی وجہ سے اس کو’ شکریہ‘ کہتا ہوں ۔ یہ سنتے ہی وہ فوجی غراتا ہوا واپس آتا ہے۔ مجھے ننگی گالی بکتاہے اور پٹی کو پہلے سے بھی سخت کس کر کہتا ہے کہ’’ کمزور ی دکھا کر تمھیں میری ہمدردی لینے کا کوئی حق نہیں ‘‘۔

قندھار اور باگرام پہنچتے ہی فو جی وردیوں میں ملبوس ‘ سوچنے کی صلاحیت سے مکمل طور پر عاری ‘عیسائی اور یہودی مذہبی جنونی ‘ ان بے گناہ قیدیوں کی چمڑی ادھیڑنے یا تکہ بوٹی کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہوتے ہیں ۔ جیسے ہی یہ قیدی جہاز سے اتارے جاتے ہیں ‘ سب کو سر یا داڑھی کے بالوں سے پکڑ کر زمین پر گھسیٹتا جا تا ہے‘ پسلیوں میں پائوں کی ٹھوکریں ماری جاتی ہیں ‘ جسم کے نازک حصوں پر پلاسٹک کی موٹی موٹی لاٹھیوں سے ضربیں لگائی جاتی ہیں‘ گالیاں دی جاتی ہیں‘ خوف سے سہمے ہوئے ان قیدیوں کے سامنے اسلامی شعائر تو کیا خدا‘ قرآن اوررسول ؐکا بھی مذاق اڑا یا جا تا ہے ۔ قندھار ائرپورٹ پر اتارتے ہی جو امریکی حجام میرے سرکے بال مونڈ رہا تھا وہ جب میری داڑھی مونڈنے لگا تو کہنے لگا۔’’اسے مونڈتے ہوئے مجھے زیادہ مزا آتاہے ـ‘‘۔

ایک قیدی اپنی پنجرہ نما کوٹھڑی میں نماز پڑھ رہا تھا ۔ ایک امریکی سارجنٹ نے اُس کو کوئی حکم دیا ‘لیکن وہ نماز میں مصروف ہونے کی وجہ سے اس پر فوراً عمل نہ کرسکا تو اس امریکی فوجی نے نمازی کو سرکے بالوں سے پکڑ لیا اور کوٹھڑی کے آخری کونے تک گھسیٹتا ہوا لے گیااور چیختے ہوئے کہا: ’’گدھے کے بچے !اب تم میری عبادت کرو گے ۔ادھر میں ہی تمھارا خدا ہوں‘‘۔ اسلام سے ان کو کس قدر بغض‘ کینہ اور عناد ہے ‘ اس کی بڑی مثال یہ تھی کہ ان بدبختوں نے رفع حاجت کے لیے استعمال ہو نے والی عمارت پر جلی حروف سے لکھا ہوا تھا: Fuck Islam"ــ"

قیدیوں کی عزت نفس مجروح کرنے کے لیے تلاشی کے بہانے قیدیوں کی شرم گاہوں پر تشدد کیا جاتا اور آپس میں فحش گفتگو کی جاتی ہے ۔ مادرزاد ننگا کر کے ہر قیدی کی مختلف سمتوں سے تصویریں بنا ئی جاتی ہیں۔ بعض اوقات کچھ تصویریں یہ فوجی اپنے دوستوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے محض اپنی بہادری کے ثبوت‘ یعنی ٹرافی کے طور پر دکھانے کے لیے ارسال کرتے ہیں۔ یہ قیدی جو پرائی عورتوں سے بات کر نے میں شرم اور حیا محسوس کرتے ہیں ‘ ان کو ذلیل کرنے کے لیے ان کے ساتھ فاحشہ فوجی عورتوں کو ایسی فحش حرکتیں کرنے کا حکم دیا جاتا ہے ‘ جس کو بیان کر نے کی ضرورت نہیں۔ اس تشدد اور توہین کے نتیجے میں کچھ قیدی جان سے چلے جاتے ہیں ‘ کچھ دماغی توازن کھو بیٹھتے ہیں ‘ کچھ اپنے بچوں اور رشتہ داروں سے دو بارہ ملنے کی موہوم سی امیدوں کے سہارے اپنے ناکردہ جرائم کا اقرار کر لیتے ہیں‘ اور کچھ مصنف کی طرح صبر اور استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

ایک دفعہ سی آئی اے کا ایک ایجنٹ مصنف کو جیل سے رہائی دلانے کے ساتھ ساتھ مالی منفعت کا لالچ دے کر سی آئی اے کے لیے کام کرنے کی پیش کش کر کے  چند دن بعد جواب دینے کے لیے کہتا ہے ۔ مصنف اس فیصلے پر پہنچتا ہے کہ یہ ایک آزمایش اورعقیدے کا امتحان ہے ۔ اس امتحان کو پاس کر کے ہی آزادی ملے گی ۔فیل ہونے کی صورت میں سب کچھ ہاتھ سے جائے گا‘ خاندان ‘وقار ‘عزت نفس اورآخرت۔پھر وہ قرآن میں سورۃ الممتحنہ (آزمایش ) کی ان آیات کو تصور میں لاتا ہے ‘ جن کا وہ صبح شام ورد کرتا رہتا ہے : ’’تم جہاں بھی ہو گے ‘موت تمھیں پاکر رہے گی‘‘ یعنی دنیا کی یہ زندگی تو چند دن کی عارضی زندگی ہے اور انسان اس زندگی میں جو کچھ کرتا ہے اس پر اس کی آخرت کا دارومدار ہے۔ اللہ فرماتا ہے: ’’اے ایمان لانے والو! میرے دشمنوں کو دوست مت بنائو۔ کیا تم اُن سے اس حالت میں بھی دوستی کرو گے‘ جب کہ وہ تمھارے پاس پہنچی ہوئی سچائی کو ٹھکراتے ہیں‘‘۔

گوانتاناموبے کے کیمپ ایکومیںمصنف سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی فوج کا ایک سپاہی کہتا ہے: ’’معظم! جس طرح کا سلوک تم لوگوں سے روا رکھا گیا ہے‘ اگر گرفتار ہوکر یہاں آنے سے قبل تم میںسے کوئی دہشت گردی میں ملوث نہیں بھی تھا ‘تو مجھے یقین ہے کہ رہائی کے بعد وہ ضرور دہشت گرد بنے گا ‘‘۔

مصنف کے بقول چونکہ نہانے پر پابندی تھی‘ اس لیے ان تنگ و تاریک کوٹھڑیوں میں ہفتوں بغیر نہائے رہنے کے نتیجے میں جسم سے بدبو آتی تھی ‘ جس کی وجہ سے امریکی ہم پر طنز کر نے کے لیے ہمیںبدبو دار لڑکے کہتے تھے۔ بعض قیدیوں کو ذلیل کرنے کے لیے ‘اُن کو تنگ کمرے میں ایک وزنی لوہے کی زنجیر کے ساتھ یوں باندھ دیا جاتاکہ وہ رفع حاجت کے لیے سیل کے اندر    بنی ہوئی لیٹرین تک بھی نہ پہنچ سکتے تھے ۔صرف ایک دائرے کے اندر جس حد تک حرکت ممکن تھی‘    اسی جگہ کو سونے اور اجابت‘ دونوں کے لیے استعمال پر مجبور تھے۔

قیدی افراد کو امریکی حکومت کی طرف سے جنگی قیدی کی حیثیت نہ دینے اور اس قید خانے پر امریکی عدالتوں کے قوانین کے نفاذ سے انکار کے موضوع پر بعض وکلا کی طرف سے اٹھائے جانے والے ایک دل چسپ نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مصنف لکھتا ہے : وکلا نے امریکی سپریم کورٹ کے سامنے یہ موقف رکھا کہ اگر گوانتاناموبے کے جزیرے پر رہنے والی جنگلی چھپکلی  Iguana (اس کے نام پر ایک قید خانے کا نام بھی رکھا گیا ہے) کے تحفظ کے لیے امریکی قوانین پر عمل درآمد کیا جاسکتا ہے‘ تو پھر وہاں کسی فرد جرم کے بغیر قید کیے جانے والے انسانوں پر وہی قوانین کیوں لاگو نہیں کیے جاتے؟

اس کتاب کے آخر میں مصنف اپنے دوستوں اور بہی خواہوں اور سب سے بڑھ کر اپنے اہل خانہ کے ساتھ ساتھ حق اور سچائی کے لیے آواز اٹھانے والے ان سب لوگوں کو سلام پیش کرتا ہے جنھوں نے آزمایش کی ان گھڑیوں میں اس کا ساتھ دیا ‘ اس کی حو صلہ افزائی کی اور انھی کی   اَن تھک کوششوں سے اس کی رہائی ممکن ہوسکی۔

مصنف دنیا بھر میں پھیلے ہوئے انصاف پسند اور امن پسند لوگوں سے یہ اپیل کر تا ہے کہ گوانتاناموبے‘ قندھار ‘ باگرام اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے امریکی اتحادیوں کی نگرانی میں قائم    خفیہ فوجی قید خانوں میں کسی فرد جرم کے بغیر گلنے سڑنے والے قیدیوں کو نہ بھولیں۔

بیسویں صدی میں اُمتِ اسلامیہ کے علمی اُفق کو جن روشن ستاروں نے تابناک کیا‘ ان میں جرمن نومسلم محمد اسد (لیوپولڈ ویز) کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ اسد کی پیدایش ایک یہودی گھرانے میں ۱۹۰۰ء میں ہوئی۔ ۲۳ سال کی عمر میں ایک نوعمر صحافی کی حیثیت سے عرب دنیا میں تین سال گزارے اور اس تاریخی علاقے کے بدلتے ہوئے حالات کی عکاسی کے ذریعے بڑانام پایا لیکن اس سے بڑا انعام ایمان کی دولت کی بازیافت کی شکل میں اس کی زندگی کا حاصل بن گیا۔ ستمبر۱۹۲۶ء میں جرمنی میں مشہور خیری برادران میں سے بڑے بھائی عبدالجبار خیری کے دستِ شفقت پر قبولِ اسلام کی بیعت کی اور پھر آخری سانس تک اللہ سے وفا کا رشتہ نبھاتے ہوئے اسلامی فکر کی تشکیل اور دعوت میں ۶۶سال صرف کر کے بالآخر ۱۹۹۳ء میں رب حقیقی سے جاملے۔

محمداسد کی داستان محض ایک انسان کی داستان نہیں‘ ایک تاریخ ساز دور کی علامت اور عنوان ہے۔ ایک بے تاب روح‘ خطروں کو انگیز کرنے والا ایک نوجوان‘ ایک تہذیب سے ایک دوسری تہذیب کا مسافر‘ ایک محقق اور مفکر‘ ایک سیاسی تجزیہ نگار اور سفارت کار‘ اور سب سے بڑھ کر قرآن کا ایک مخلص خادم___ اسد کی چند آرا سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن فکری اور تہذیبی میدانوں میں ان کے مجتہدانہ اور مجاہدانہ کارناموں سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

اسد نے مسلمانوں کی نئی نسلوں کے افکار کو متاثر کیا اور اسلامی دنیا میں اپنا مقام بنایا۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ بیسویں صدی میں‘ مغربی دنیا سے دائرۂ اسلام میں داخل ہونے والے اشخاص میں سب سے نمایاں مقام محمداسد ہی کو حاصل ہے اور بجاطور پر زیرنظر کتاب میں اسے ’اسلام کے لیے یورپ کا تحفہ‘ قرار دیا گیا ہے۔ ان کے لیے یہ الفاظ ایک دوسرے جرمن نومسلم ولفریڈ ہوف مین (Wilfred Hoffman)نے استعمال کیے ہیں‘اور یہ بھی بڑا نادر توارد ہے کہ خود مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی نے بھی چودھری نیاز علی خاں صاحب کے نام اپنے ایک خط میں غالباً ۱۹۳۶ء میں محمداسد کے بارے میں یہ تاریخی جملہ لکھا تھا: ’’میرا خیال یہ ہے کہ دورِ جدید میں اسلام کو جتنے غنائم یورپ سے ملے ہیں‘ ان میں یہ سب سے زیادہ قیمتی ہیرا ہے‘‘۔

یہ تحقیقی کتاب اس ہیرے کی زندگی‘ خدمات اور نگارشات پرمشتمل ہے جسے محمد اکرام چغتائی صاحب نے بڑی محنت‘ محبت اور قابلیت سے مرتب کیا ہے اور اس سلسلے میں اُمتِ مسلمہ پر بالعموم اور ملتِ اسلامیہ پاکستان پر بالخصوص جو قرض تھا‘ اسے فراخ دلی سے اداکردیا ہے۔ یہ ایک     فرضِ کفایہ تھا جو انھوں نے اور ٹروتھ سوسائٹی نے ادا کیا ہے اور ہم اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے بہترین اجر کی دعا کرتے ہیں۔

محمد اسد سے میرا بھی اولین تعارف‘ سیکڑوں بلکہ ہزاروں نوجوانوں اور طالبینِ حق کی طرح ان کی پہلی کتاب Islam at The Crossroadsکے ذریعے ہوا۔ میری اپنی زندگی میں قیامِ پاکستان کے بعد کے دو سال بڑے فیصلہ کن تھے اور ایک طرح میں بھی دوسرے نوجوانوں کی طرح ایک دوراہے پر کھڑا تھا___ ایک طرف مغربی تہذیب اور مغرب سے اٹھنے والی تحریکوں کی    چمک دمک تھی‘ اور دوسری طرف تحریکِ پاکستان کا نظریاتی آدرش اور اسلام کے ایک عالمی پیغام اور تحریکِ انقلاب ہونے کا احساس۔ دونوں کی اپنی اپنی کشش تھی اور میرے جیسے نوجوانوں کا      معمّا کہ ع

ادھر جاتا ہے دیکھیں یا ادھر پروانہ آتاہے

اقبال کے ایمان افروز کلام اور مولانا مودودی کے دل و دماغ کو مسخر کرنے والے   لٹریچر کے ساتھ جس کتاب نے خود مجھے اس دوراہے سے نجات دلائی اور شاہ راہِ اسلام کی طرف رواں دواں کردیا‘ وہ اسد کی یہی کتاب تھی۔ اس وقت سے اسد سے ایک گہرا ذہنی اور قلبی تعلق قائم ہوا اور پھر اس وارفتگی کے عالم میںتلاشِ بسیار کے بعد عرفات کے شمارے اور صحیح بخاری کے ترجمے کے پانچ ابواب حاصل کیے اور وردِجان کرلیے۔ اسٹوڈنٹس وائس (اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کا انگریزی ترجمان) کے دورِادارت میں محمد اسد سے بھرپور استفادہ کیا اور ان سے ملنے کے لیے بے چین رہا۔ یہ خواہش ۱۹۵۴ء میں پوری ہوئی جب محمد اسد چند دن کے لیے پاکستان آئے۔ کراچی میں سندھ کلب میں میری اور ظفراسحاق انصاری اور خرم مراد کی ان سے ملاقات ہوئی اور جو تصویر ذہن میں بنائی تھی‘ اس کے مطابق پایا۔

اس زمانے میں اسد پاکستان کے اقوام متحدہ کے مشن سے فارغ ہوچکے تھے اور وزارتِ خارجہ کے افسران سے خاصے بددل تھے۔ انھوں نے یہ ذکر بھی کیا کہ Road to Mecca       (شاہ راہِ مکہ)شائع ہو رہی ہے (بلکہ مجھے فخرہے کہ اس کا ایک نسخہ انھوں نے مجھے بھیجا جس پر اسٹوڈنٹس وائس میں تبصرہ میں نے ہی لکھا تھا)۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ اس کی دوسری جِلد لکھنا چاہتا ہوں جس میں پاکستان کی اس وقت کی قیادت پر تنقید بھی ہوگی۔ افسوس یہ جلد شائع نہ ہوسکی اور پتا نہیں اس کے نوٹس یا نامکمل مسودہ کہاں ہے۔ اس مجموعے میں بھی اس کاکوئی سراغ نہیں ملا۔ محمداسد نے میرے نام ایک خط میں بھی دو سال بعد اس کا ذکر کیا تھا۔

محمد اسد کی گم شدہ پونجی میں اس مذکورہ دوسری جِلدکا نامکمل مسودہ یا نوٹس‘ صحیح بخاری کے کچھ دوسرے ابواب کے بارے میں ان کے نوٹس‘ اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے نمایندے کی حیثیت سے ان کی تقاریر میری نگاہ میں قابلِ ذکر ہیں اور اب بھی ان کی تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ کم از کم اقوام متحدہ کے ریکارڈ سے ان کی تقاریر کی نقول حاصل کی جاسکتی ہیں۔ اسی طرح جو خطوط اور رپورٹیں انھوںنے وزارتِ خارجہ کو اس زمانے میں لکھی تھیں‘ انھیں بھی حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

محمد اسد سے میرے تعلق کی نوعیت ایک استاد اور شاگرد اور ایک ہیرو اور اس کے مشتاق (fan) کی ہے ‘اور جو تعلق ۱۹۴۹ء میں قائم ہوا تھا وہ ۱۹۹۲ء تک قائم رہا۔ پھران سے بارہا ملاقاتیں ہوئیں اور ان کی شفقت میں اضافہ ہی ہوا۔ ۱۹۷۶ء کی لندن کانفرنس میں برادرم سالم عزام کے ساتھ مجھے کانفرنس کے سیکرٹری جنرل کے فرائض انجام دینے کی سعادت حاصل ہے اور اس زمانے میں محمد اسد سے ہمہ وقت استفادے کا موقع ملا۔ فکری اعتبارسے میں نے ان کی اپروچ میں کوئی تبدیلی محسوس نہیں کی‘ البتہ اُمت کے حالات سے دل گرفتگی اور مسلمانوں کی قیادتوں سے مایوسی آخری ۳۰سال میں کچھ زیادہ ہی محسوس ہوئی۔

افکار وعلمی خدمات

محمد اسد کبھی بھی سرگرم کارکن (activist) نہ تھے لیکن فکری اعتبار سے ان کا کارنامہ    بڑا واضح ہے اور اس میں چار چیزیں بہت نمایاں ہیں:

پہلی چیز مغربی تہذیب اور یہود عیسائی روایت (Judo-Christian Tradition) کے بارے میں ان کا واضح اور مبنی برحق تبصرہ و تجزیہ ہے۔ مغرب کی قابلِ قدر چیزوں کے کھلے دل سے اعتراف کے ساتھ مغربی تہذیب اور عیسائی تہذیبی روایت کی جو بنیادی خامی اور کمزوری ہے‘ اس کا نہایت واضح ادراک اور دوٹوک اظہار ان کا بڑا علمی کارنامہ ہے۔ زندگی کی روحانی اور مادی خانوں میں تقسیم برائی کی اصل جڑ ہے اور اس سلسلے میں عیسائی روایت اور مغربی تہذیب کا اسے اس کی   انتہا تک پہنچا دینے کا انھیں مکمل ادراک تھا۔ اس حوالے سے اپنی زندگی کے کسی بھی دور میں وہ کسی شش و پنج یا الجھائو (confusion)کا شکار نہیں ہوئے۔ مغرب کے تصورِ کائنات‘ انسان‘ تاریخ اور معاشرے پر ان کی گہری نظر تھی اور اسلام سے اس کے تصادم کا انھیں پورا پورا شعور و ادراک تھا۔ وہ کسی تہذیبی تصادم کے قائل نہ تھے مگر تہذیبوں کے اساسی فرق کے بارے میں انھوں نے کبھی سمجھوتا نہ کیا۔ اسلام کے ایک مکمل دین ہونے اور اس دین کی بنیاد پر اس کی تہذیب کے منفرد اظہار کو یقینی بنانے اور دورِحاضر میں اسلام کی بنیاد پر صرف انفرادی کردار ہی نہیں‘ بلکہ اجتماعی نظام کی تشکیلِ نو کے وہ داعی تھے اور اپنے اس مؤقف کو دلیل اور یقین کے ساتھ پیش کرتے تھے۔ اسلام کا یہ جامع تصور ان کے فکر اور کارنامے کا دوسرا نمایاں پہلوہے۔

ان کا تیسرا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اُمت کے زوال کے اسباب کا گہری نظر سے مطالعہ کیا اور اس سلسلے میں جن بنیادی کمزوریوںکی نشان دہی کی‘ ان میں تصورِدین کے غبارآلود ہوجانے کے ساتھ‘ سیرت و کردار کے فقدان‘ دین و دنیا کی عملی تقسیم‘ اجتہاد سے غفلت اور رسم و رواج کی محکومی اور سب سے بڑھ کر قرآن وسنت سے بلاواسطہ تعلق اور استفادے کی جگہ ثانوی مآ خذ پر ضرورت سے زیادہ انحصار بلکہ ان کی اندھی تقلید شامل ہیں۔ فقہی مسالک سے وابستگی کے بارے میں ان کی پوزیشن ظاہری مکتب ِفکر سے قریب تھی۔ ان کی دعوت کا خلاصہ قرآن و سنت سے    رجوع اور ان کی بنیاد پرمستقبل کی تعمیروتشکیل تھا۔ قرآن ان کی فکر کا محور رہا اورحدیث اور سنت کو وہ اسلامی نشاتِ ثانیہ کی اساس سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے تمام بڑے قیمتی مضامین کے باوصف جن کا موضوع اسلامی قانون‘ اسلامی ریاست اور مسلمانوں کی اصل ثقافتی شناخت تھا‘ ان کا اصل علمی کارنامہ قرآن پاک کا ترجمہ و تفسیر اور صحیح بخاری کے چند ابواب کا ترجمہ اور تشریح ہے   جن کی حیثیت میری نگاہ میں اس دور میں کلاسک کی ہے۔ پھر روڈ ٹو مکہ ان کی وہ کتاب ہے  جو علمی‘ ادبی‘ تہذیبی‘ ہر اعتبار سے ایک منفرد کارنامہ اور صدیوں زندہ رہنے والی سوغات ہے۔

محمد اسد کے کام کی اہمیت کا چوتھا پہلو‘ دورِ جدید میں اسلام کے اطلاق اور نفاذ کے سلسلے میں ان کی حکمت عملی‘ اور اسی سلسلے میں تحریکِ پاکستان سے ان کی وابستگی اور پاکستان کے بارے میں ان کا وِژن اور وہ عملی کوششیں ہیں جو عرفات‘ قومی تعمیرنو کے ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے ان کی نگارشات‘ ان کی تقاریر اور پھر ان کی دو کتابیں: Islam at The Crossroadsاور The Principles of State and Government in Islamہیں۔ عرفات کے زمانے کے یہ مضامین دورِحاضر میں نفاذِ اسلام کا وژن اور اس کے لیے واضح حکمت عملی پیش  کرتے ہیں۔ چند امور پر اختلاف کے باوجود اس باب میں محمد اسد کے وژن اور فکر اور دورِجدید کی اسلامی تحریکات کے وِژن میں بڑی مناسبت اور یکسانی ہے حالانکہ وہ کبھی بھی ان تحریکوں سے عملاً وابستہ نہیں رہے۔ اس سلسلے میں ایک جرمن مبصر کارل گنٹرسائمن (Karl Gunter Simon) کے مضمون سے ایک اقتباس دل چسپی کا باعث ہوگا جو محمد اسد سے ایک اہم انٹرویو پر مبنی ہے اور  جرمن پرچے‘ Frankfurter Allgemine Zeiting میں ۱۸ نومبر ۱۹۸۸ء کو ان کے انتقال سے چار سال قبل شائع ہواتھا:

لیوپولڈویز کو بھلایا جا چکا ہے لیکن کم سے کم اسلامی دنیا میں محمداسد مشہور ہیں۔وہ اس سال ۸۸ برس کے ہوجائیں گے:

’’احیاے اسلام کے لیے ہمیں باہر سے ماڈل تلاش نہیں کرنے چاہییں۔ ہمیں بس پرانے بھولے ہوئے اصولوں کو تازہ کرنے کی ضرورت ہے۔ بیرونی تہذیبیں ہمیں   نیا تحرک دے سکتی ہیں لیکن کوئی غیراسلامی چیز اسلام کے مکمل نمونے کا بدل نہیں بن سکتی‘ خواہ اس کا ماخذ مغرب ہو یا مشرق۔ اسلام کے روحانی اور اجتماعی ادارے (خود مکمل ہیں ان کو کسی بیرونی مدد سے) بہتر نہیں بنایا جاسکتا۔ اسلام کا زوال درحقیقت ہمارے قلوب کی موت یا دلوں کا خالی ہوجانا ہے…‘‘

کیا یہ اخوان المسلمون کا کوئی مناظرانہ موقف ہے؟ یا بنیاد پرستوں کا اعلان‘ خواہ وہ دنیا کے کسی بھی گوشے میں ہوں؟ نہیں‘ قطعی نہیں۔ یہ جدید بیانات ایک پرانی کتاب میں پائے جاتے ہیں جو ۱۹۳۳ء میں لکھی گئی‘ یعنی Islam at The Crossroads۔ یہ محمد اسد کی پہلی کتاب تھی (حوالہ مذکورہ کتاب‘ ص ۲۴)

اقبال اس فکر کو ۱۱-۱۹۱۰ء سے پیش کر رہے تھے۔ حسن البناء نے ۱۹۲۸ء میں    تحریک اخوان المسلمون کا آغاز اسی پیغام کے ساتھ کیا۔ سید مودودی نے ۱۹۳۳ء میں ترجمان القرآن اسی کلمے کی بنیاد پر اجتماعی زندگی میں انقلاب برپا کرنے کے لیے نکالا‘ اور محمداسد نے ۱۹۳۳ء میں یہی بات اپنے دل نشین انداز میں کہی۔ دو کا تعلق برعظیم پاک و ہند سے تھا‘ ایک مصر کے گلزار کا پھول تھا اور ایک یورپ کے روحانی قبرستان کی زندہ آواز___ لیکن سب  ایک ہی بات کہہ رہے تھے‘ اس لیے کہ ان سب کی رہنمائی کا سرچشمہ قرآن پاک اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھی۔ محمداسد بیسویں صدی میں اسلام کے نشاتِ ثانیہ کے معماروں میں سے   ایک تھے اور انھوں نے مغرب اور مشرق کے فرق کو ختم کر کے اسلام کے عالمی پیغام کی صداقت کو الم نشرح کیا۔

تحریکِ پاکستان اور پاکستان سے تعلّق

محمد اسد کے یہاں پاکستان اور تحریکِ پاکستان کے اصل مقاصد اور اہداف کا بڑا واضح اِدراک ہے اور آج کی پاکستان کی نام نہاد قیادتوں کے لیے اسد کی تحریروں میں بڑا سبق ہے اور پاکستانی قوم کے لیے عبرت کا پیغام بھی۔ دیکھیے محمد اسد فروری ۱۹۴۷ء میں اپنے پرچے عرفات میں کس وضاحت‘ فکری سلاست اور علمی دیانت کے ساتھ پاکستان کے تصور کو بیان کرتے ہیں۔ ماضی میں اُبھرنے والی بہت سی اصلاحی تحریکوں کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

تحریکِ پاکستان اس طرح کی تمام صوفیانہ تحریکوں سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ یہ کسی روحانی رہنما پر لوگوں کے اعتقاد سے جذبہ و توانائی حاصل نہیں کرتی‘ بلکہ اس کا یہ ادراک___ جو بیش تر معاملات میں ہدایت دیتا ہے‘ اور علمی حلقوں میں صاف صاف سمجھا جاتا ہے___ کہ اسلام (پورے نظامِ زندگی کی تعمیرنو کی)ایک معقول تدبیر ہے‘ اور اس کی سماجی و اقتصادی اسکیم انسانیت کو درپیش تمام مسائل کا حل فراہم کرسکتی ہے‘ اور اس کا واضح تقاضا یہ ہے کہ اس کے اصولوں کی پیروی کی جائے۔ نظریۂ پاکستان کا  یہ علمی پہلو اس کا سب سے اہم پہلو ہے۔ اس کی تاریخ کا ہم کھلی آنکھوں سے مطالعہ کریں تو ہم یہ پائیں گے کہ اپنے اوّلین دور میں اسلام کی فتح کی وجہ اس کی انسان کی فہم‘ دانش اور عقل عام سے اپیل ہے۔

تحریکِ پاکستان‘ جس کی کوئی نظیر جدید مسلم تاریخ میں موجود نہیں ہے‘ ایک نئے اسلامی ارتقا کا نقطۂ آغاز ہوسکتی ہے‘ اگر مسلمان یہ محسوس کریں‘ اور جب پاکستان حاصل ہوجائے تب بھی محسوس کرتے رہیں کہ اس تحریک کا حقیقی تاریخی جواز اس بات میں نہیں ہے کہ ہم اس ملک کے دوسرے باشندوں سے لباس‘ گفتگو یا سلام کرنے کے طریقے میں مختلف ہیں‘ یا دوسری آبادیوں سے جو ہماری شکایات ہیں‘ اس میں‘ یا ان لوگوں کے لیے جو محض عادتاً اپنے کو مسلمان کہتے ہیں‘ زیادہ معاشی مواقع اور ترقی کے امکانات حاصل کریں‘ بلکہ ایک سچا اسلامی معاشرہ قائم کرنے میں ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسلام کے احکامات کو عملی زندگی میں نافذ کرنا۔ (ص ۸۶۳- ۸۶۵)

پھر مئی ۱۹۴۷ء میں جب قیامِ پاکستان کے امکانات اُفق پر روشن ہوگئے تھے‘ قائداعظم اور لیاقت علی خاں کی تقریروں اور دعووں کا حوالہ دینے کے ساتھ کس دل سوزی سے پاکستان کی انفرادیت (uniqueness) کو بیان کرتے ہیں:

جہاں تک مسلمان عوام کا تعلق ہے‘ تحریکِ پاکستان ان کے اس وجدان کا حصہ ہے کہ وہ ایک نظریاتی برادری ہیں‘ اس لیے ایک خودمختار سیاسی وجود کا حق رکھتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں‘ وہ محسوس کرتے ہیں اورجانتے ہیں کہ ان کی برادری کا وجود دوسری برادریوں کی طرح کسی نسلی وابستگی یا کچھ ثقافتی روایات کے اشتراک پر مبنی نہیں ہے‘ بلکہ صرف اور صرف اس حقیقت پر مبنی ہے کہ وہ اسلام کے نظریۂ حیات سے مشترک وابستگی رکھتے ہیں۔ اور یہ کہ انھیں اپنی برادری کے وجود کے لیے جوازایک سماجی و سیاسی نظام قائم کرکے فراہم کرنا چاہیے جس میں اس نظریۂ حیات‘ یعنی شریعت کا عملی نمونہ دیکھا جاسکے گا۔ (ص ۹۱۲)

پھر دیکھیے کہ کس فکری دیانت اور جذبۂ ایمانی کے ساتھ اپنے دل کو چیر کر ملّتِ اسلامیہ پاکستان اور اس کی قیادت کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ پہلے ان کو مغرب کے تجربات سے متنبہ کرتے ہیں کہ تمھیں آزادی ملنے والی ہے‘ مگر دیکھو محض غیرمسلموں کے اعتراضات اور نفع عاجلہ کے چکر میں نہ پڑجانا بلکہ اپنے اصل مقصد پر قائم رہنا۔ اس غلط فہمی میں بھی نہ رہنا کہ اسلام تو طویل عرصے کا ہدف ہے اور فوری طور پر وہ کرنے کے چکر میں پڑ جائو جو وقتی مصلحت کا تقاضا ہو۔ کہتے ہیں:

ہم یہ نہیں چاہتے۔ ہم پاکستان کے ذریعے اسلام کو صرف اپنی زندگیوں میں ایک حقیقت بنانا چاہتے ہیں۔ ہم اس لیے پاکستان چاہتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک   اس قابل ہو کہ لفظ کے وسیع ترین مفہوم میں ایک سچی اسلامی زندگی بسر کرسکے۔ اور      یہ بالکل ناممکن ہے کہ کوئی شخص اللہ کے رسولؐ کی بتائی ہوئی اسکیم کے مطابق زندگی گزار سکے‘ جب تک کہ پورا معاشرہ شعوری طور پر اس کے مطابق نہ ہو اور اسلام کے قانون کو ملک کا قانون نہ بنائے۔ (ص ۹۱۸)

ایک جملے میں محمداسد نے پوری تحریکِ پاکستان کا جوہر اور ہدف یوں بیان کردیا جو مئی ۱۹۴۷ء میں ان کے اس مضمون کے آخری پیراگراف کا حصہ ہے:

مسلمان عوام وجدانی طور پر پاکستان کی اسلامی اہمیت کو محسوس کرتے ہیں اور واقعی ایسے حالات کی خواہش رکھتے ہیں جن میں معاشرے کے ارتقا کا نقطۂ آغاز لا الٰہ الا اللہ ہو۔ (ص ۹۲۵)

افسوس کہ پاکستان کی سیاسی قیادتوں نے اس اصل منزل کو مفاد پرستی اور وقتی مصلحتوں کی تلاش میں گم کردیا۔ محمداسد کو اس کا بے پناہ قلق تھا۔

دو منفرد پھلو

محمد اسد کی زندگی کے دو پہلو ایسے ہیں جن کا اعتراف نہ کرنا بڑا ظلم ہوگا اور ان میں سے کم از کم ایک میں‘ مجھے وہ دورِحاضر میں منفرد نظرآتے ہیں۔ میں نے سیکڑوں نومسلموں کے حالاتِ زندگی کا مطالعہ کیا ہے اور ایک بڑی تعداد سے ذاتی طور پر تعلقات رکھنے کی سعادت پائی ہے۔

نوجوانی میں ایک کتاب ابراہیم باوانی مرحوم کی دعوت پر Islam Our Choice کے عنوان سے مرتب بھی کی تھی اور اس کے لیے بھی بڑی تعداد میں قبولِ اسلام کی سچی داستانوں کو  پڑھا تھا۔ ستاروں کی اس کہکشاں میں ایک سے ایک دل نواز شخصیت کی تصویرِ حیات دیکھی جاسکتی ہے اور ہرہرفرد اسلام کی کسی نہ کسی خوبی کافریفتہ ہوکر حلقۂ بگوش اسلام ہوا۔ زیادہ کا تعلق اسلام کی تعلیمات اور قرآن کے دل فریب پیغام سے ہے۔ لیکن محمد اسد کی ایک ذات ایسی ہے جو مسلمانوں سے مسحور ہوکر اسلام کی متلاشی اور پھر اس کی گرویدہ ہوئی۔

دل پر پہلی ہی چوٹ اس وقت لگی جب ۲۳سالہ جرمن نوجوان عرب دنیا میں ٹرین میں  سفر کرتا ہے اور کھانے کے وقت اس کا عرب ہم سفر اس اجنبی کو جانے بغیر اسے کھانے میں   شریک ہونے کی دعوت دیتا ہے۔ خودپسند اور اپنی ذات کے خول میں گم مغربی دنیا کے اس نوجوان کے لیے یہ بڑا عجیب تجربہ تھا۔ پھر جس سے بھی وہ ملتا ہے‘ جس بستی میں جاتا ہے‘ جس جگہ قیام کرتا ہے‘ اسے ایک دوسری ہی قسم کی مخلوق ملتی ہے جن کے باہمی تعلقات‘ بھائی چارے‘ محبت اور دکھ درد میں شرکت پر مبنی ہیں۔ عجیب معاشرہ ہے جو مسافر کی قدر کرتا ہے اور مہمان داری کو سعادت سمجھتا ہے۔ جو کھانا کھلا کر بل پیش نہیں کرتا۔

لیوپولڈ ویز کو یہ تجربہ بڑا عجیب لگتا ہے مگر اس کی روح اس دنیا میں بڑا سکون اور بڑی اپنائیت پاتی ہے۔ روح کی پیاس کے لیے یہاں سیرابی کا بڑا سامان ہے۔ یہ کلچر اسے اپنی طرف کھینچتا ہے اور وہ اس جستجو میں لگ جاتا ہے کہ انسانی معاشرے کے اس ماڈل کو بنانے والے عناصر کیا ہیں___ یہ اسے اسلام اور اس کے حیات بخش پیغام تک لے آتے ہیں۔ تین سال کی صحرانوردی میں وہ اس تہذیب سے دُور ہوتا جاتا ہے جہاں اس نے آنکھ کھولی تھی‘ اور اب اس کی آنکھوں کو وہ دنیا بھا جاتی ہے جس میں اب وہ زندگی گزار رہا ہے۔ پھر اسلام‘ جیساکہ اس نے ایک جگہ لکھا ہے‘ اس کے دل میں بس ایک چور کی طرح خاموشی سے داخل ہوجاتا اور پھر اس دل کو    اپنا گھر بنالیتاہے۔ چورکی تمثیل یہاں ختم ہوجاتی ہے۔ چور چپکے چپکے داخل ہوتا ہے مگر کچھ لے کر چپکے چپکے نکل جاتا ہے۔ اسلام داخل تو چپکے چپکے ہی ہوتاہے لیکن کچھ لینے کے لیے نہیں‘ کچھ دینے کے لیے اورپھر ہمیشہ اسی گھر میں رہنے کے لیے۔

لیوپولڈ ویز ایک طلسمی عمل کے ذریعے اسی دنیا کا ہوجاتا ہے جس کی خبر دوسروں کو دینے کے لیے صحافی کے لباس میں وہ ان کے درمیان آیا تھا۔ اب یہاں اس نے نہ ختم ہونے والی دوستیاں استوار کرلی ہیں۔ اب یہاں اس نے اس معاشرے کی ان اقدار کو جو اس کے لیے پہلے بالکل نئی تھیں اپنی شخصیت کا حصہ بنالیا ہے۔ اب اس کے دل کی دنیا میں ایک انقلاب آگیا ہے اور بالآخر وہ چیز جو غیرشعوری طور پر اس کے روح و بدن میں داخل ہوگئی تھی‘ وہ اسے شعوری طور پر  قبول کرلیتا ہے اور کلمۂ شہادت ادا کرکے اس کا پوری دنیا کے سامنے اعلان کر ڈالتا ہے۔   ہزاروں لاکھوں انسان اسلام کے راستے مسلمانوں میں داخل ہوئے۔محمد اسد مسلم دنیا کے   بیسویں صدی کے گئے گزرے حال میں بھی مسلمانوں کے ذریعے اسلام تک پہنچا اور پھر اسلام کو اس نے اس طرح اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا کہ مسلمانوں ہی کی حالت کی اصلاح کے لیے دل گرفتہ اور سرگرم عمل ہوگیا۔ تبدیلی (conversion )یا رجوع (reversion) کی تاریخ کا یہ بڑا دل چسپ اور سبق آموز واقعہ ہے۔

محمد اسد کی زندگی کا دوسرا پہلو جس نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا‘ وہ یہ ہے کہ  اسد نے صرف اسلام ہی کو قبول نہیں کیا بلکہ عملاً اس نے اسلامی دنیا ہی کو اپنا مسکن بنا لیا۔ اس نے مغرب سے دین کاناتا ہی نہیں توڑا بلکہ جغرافیائی سفر کر کے وہ پھر اس دنیا کا حصہ ہی بن گیا جس نے اسے مقناطیس کی طرح اپنی طرف کھینچا۔ وہ امریکا اور یورپ میں بھی رہا لیکن اس کی روح کو      سکون بدوؤں (bedoein) کی دنیا ہی میں ملتا ہے۔ اس کی آخری شریکِ حیات پولااسد نے ایک جگہ لکھا ہے کہ اسد کی روح بدوی (bedoein) تھی اور صحرا کی دنیا میں وہ سب سے زیادہ اپنے گھر کی طرح ہوتا تھا۔ اس نے صحیح معنوں میں ہجرت کی اور اپنی اسلامی زندگی کے ۶۶سال عرب دنیا‘ ہندستان‘ پاکستان اور تیونس میں گزارے‘ اور آخری ایام میں اس کا قیام اسپین کے    اس علاقے میں رہا جواندلس اور عرب دنیا کا روحانی اور ثقافتی حصہ تھا بلکہ آج بھی اس کی فضائیں باقی اسپین سے مختلف اور عرب دنیا کے ہم ساز ہیں۔

محمد اسد: یورپ کا اسلام کے لیے تحفہ‘ محمد اسد کی زندگی‘ اس کے افکار و نظریات‘ اس کے اثرات اور تاریخی خدمات کا ایک جامع مرقع ہے۔ پہلی جِلد میں اسد کی شخصیت‘ افکار اور علمی اور ثقافتی خدمات کے بارے میں ۲۸مضامین ہیں جن میں علمی اور تحقیقی مقالات کے ساتھ شخصی تاثرات‘ اور اسد کی کتابوں پر تنقیدی نگارشات شامل ہیں جو ان کی زندگی اور ان کے افکار کے ہرہرپہلو کے بارے میں سیرحاصل معلومات فراہم کرتے ہیںاور ان ایشوز کو زیربحث لاتے ہیں جن پر اسد نے کلام کیا ہے۔ دوسری جِلد کا بیش تر حصہ محمد اسد کے قیمتی مضامین اور رشحاتِ قلم کا مجموعہ ہے اور اس سارے علمی خزانے کو ایک جگہ جمع کرکے مرتب محترم نے بڑی قیمتی خدمت انجام دی ہے۔ اس طرح ان دو جلدوں میں محمداسد کی شخصیت اور ان کے افکار اور علمی خدمات کا بھرپور احاطہ کرلیا گیا ہے۔ محترم اکرام چغتائی صاحب نے یہ خدمت بڑی محنت اور دقّتِ نظر سے انجام دی ہے اور تلاش و جستجو اور تحقیق و تسوید کا بڑا اعلیٰ معیار قائم کیا ہے۔ طباعت کامعیار بھی نہایت نفیس ہے اور سارا کام بڑی خوش ذوقی سے انجام دیا گیا ہے۔ جیساکہ میں نے عرض کیا پوری اُمت کی طرف سے دی ٹروتھ سوسائٹی اور صاحبِ کتاب نے یہ فرضِ کفایہ ادا کیا ہے ‘اور اسی کتاب کے ایک    مقالہ نگار مظفراقبال کا یہ گلہ کہ اسد ایک فراموش شدہ (forgotten)پاکستانی ہے‘ اب کسی نہ کسی حد تک دُور ہوگیا ہے۔ اس خدمت کے لیے چغتائی صاحب اور ان کے رفقاے کار مبارک باد کے مستحق ہیں۔

اگرچہ سوشلزم کمیونزم کا زمینی آئیڈیل منہدم ہوچکا ہے‘ لیکن جس مسئلے کے حل کرنے کا ادّعا لے کر وہ آیا تھا‘ وہ مسئلہ [جوں کا توں] باقی ہے: سماجی قوت کا بے حیائی سے اور دولت کا   بے محابا استعمال‘ جو بیش تر صورتوں میں حوادث کا رُخ متعین کرتے ہیں اور اگر بیسویں صدی کا عالمی سبق ایک صحت بخش ٹیکے کے طور پر ناکام رہا‘ تو ایک وسیع سرخ بگولہ ایک دفعہ پھر [اپنی قہرسامانیوں کے ساتھ] مکمل صورت میں نمودار ہوجائے گا۔ (الیگزندر سولزنٹبین‘ نیویارک ٹائمز‘ ۲۸ نومبر ۱۹۹۳ئ)

جدید سرمایہ دارانہ نظام کی عمر اب ۴۰۰ سال ہونے کو آئی ہے۔ اس کا آغاز سترھویں صدی سے ہوتا ہے‘ جب صنعتی شعبے میں ولندیزی (ڈچ) ایجادات و اختراعات اور زرعی شعبے میں ان کی پیش رفت نے انھیں مالیات میں امامت کا مرتبہ عطا کر دیا تھا۔ اس جدید سرمایہ داری میں ان کے بعد امامت کا شرف برطانیہ کو حاصل ہوا۔ اگرچہ ایجادات اور صنعتی شعبے میں وہاں بھی پیش رفت ہوئی‘ لیکن اٹھارھویں/انیسویں صدی میں برطانیہ کی عالمی قیادت کی بڑی وجہ اس کی نوآبادیات (استعمار) تھیں۔ بیسویںصدی کے وسط تک (دوسری جنگِ عظیم کے بعد) برطانیہ اپنی پوزیشن کھوچکا تھا‘ اور عالمی سرمایہ داری کے نظام کی قیادت ریاست ہاے متحدہ امریکا کے ہاتھ میں آچکی تھی۔ بیسویں صدی کے اواخر اور اکیسویں صدی کے آغاز میں امریکا واضح طور پر عالمی معیشت و سیاست کے فیصلہ کن قائد کے طور پر اُبھرا ہے۔ لیکن اس کی معیشت کی برتری اٹھارھویں/انیسویں صدی کے ’برطانیہ عظمیٰ‘ کے نوآبادیاتی نظام کے نمونے پر نہیں‘ بلکہ ایک آزاد (اور کارآمد) امیگریشن پالیسی (جس کے نتیجے میں محنتی‘ ہنرمند‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ افرادی قوت وافر مقدار میں مہیا ہوگئی) اور ایجادات و فنیات میں پیش رفت سے ہوئی۔

اب ہمارے ملک ‘ بلکہ شاید ساری دنیا میں ایک عام تصور یہ ہے کہ ریاست ہاے متحدہ امریکا اپنی دولت اور خوش حالی کی وجہ سے محنت کشوں کے لیے جنت ہے۔ نظامِ سرمایہ داری کے قائد نے منڈی کی معیشت‘ آزاد تجارت اور کھلی مسابقت کے ذریعے نہ صرف یہ کہ پابند معاشی نظام (اشتراکیت/سوشلزم) کو شکست دی ہے‘ بلکہ عام انسانوں اور معاشی کارکنوں کے لیے مسرت‘ خوش حالی اور ترقی کے ایسے زینے مہیا کر دیے ہیں‘ جہاں آسمان ہی رفعتوں کی حد ہے۔

Business Weaksکے چیف اکانومسٹ ولیم وُلمان اور این کولاموسکا نے اس تصور کو چیلنج کیا ہے۔ ان کی زیرنظر کتاب The Judas Economy: The Triumph of Capital and the Betrayal of Work  [یہودا کی معیشت: سرمائے کی فتح اور محنت کے ساتھ دغا] تین حصوں پر مشتمل ہے: سرمائے کی فتح‘ محنت کے ساتھ دغا اور سرمایہ داری کو خود اپنے آپ سے بچانا۔

سرمائے اور مزدور کی کش مکش‘ عہد قبلِ تاریخ کے پرویز اور شیریں فرہاد کی داستان سے بھی زیادہ قدیم ہے۔ یورپ میں صنعتی انقلاب کے ساتھ ساتھ یہ آویزش اور زیادہ شدید ہوگئی‘ تاہم اختراعات اور نوآبادیاتی وفد کی لوٹ کھسوٹ کے نتیجے میں حاصل ہونے والی دولت کا کچھ حصہ محروم طبقات تک بھی پہنچا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی طباعت اور نشرواشاعت کے سیلاب کے نتیجے میں محرومی کا شعور بھی شدید ہونے لگا جس کا نقطۂ عروج کارل مارکس اور فریڈرک اینجلز کی تحریروں میں ملتا ہے۔ اگرچہ یہ داستان بھی بڑی دل چسپ اور چشم کشا ہے‘ تاہم وُلمان اور کولاموسکا نے پیش نظر کتاب میں اپنے مطالعے کو سردجنگ کے خاتمے (بیسویں صدی کے آخری عشرے) میں امریکا میں سرمائے اور محنت کے تعلقات پر مرکوز رکھا ہے۔

محنت کش سے اُن کی مراد وہ لوگ ہیں جو اپنی روزی‘ اپنی جسمانی مشقت‘ مہارت یا دماغی ریاضت سے کماتے ہیں‘ چاہے وہ مشین پر کھڑے ہوں‘ یا کسی دفتر میں اعلیٰ عہدے کی ذمہ داری اٹھائے ہوئے ہوں۔ معاش کے لیے کام کرنا اُنھیں اُس گروہ سے الگ کرتا ہے‘ جن کے اپنے ’’اثاثوں‘‘ کی ملکیت سے حاصل ہونے والی آمدنی اُنھیں کسی طرح کی ’’محنت‘‘ سے مستغنی کردیتی ہے۔ بقول اُن کے ’’وہ امریکی، جو اپنی روزی کے لیے کام کرتے ہیں‘ ایک ایسی دوڑ میں مصروف ہیں‘ جس کا کوئی خطِ اختتام نہیں۔ ۱۹۸۸ء میں سردجنگ کے اختتام کے بعد سے انھوں نے بڑی سخت محنت کی ہے کہ کوئی معاشی معجزہ کردکھائیں‘ تاہم وہ ایک ایسی معیشت میں گزربسر کر رہے ہیں‘ جہاں ان کا معیار زندگی ایک ٹھیرائو کا شکار ہوگیا ہے‘ اور جہاں انھیں کوئی سکون میسر نہیں۔ سردجنگ میں یہ امریکا کی فتح کے عواقب ہیں‘‘۔ (ص ۱)

امریکی محنت کش کو اُس کے آجر اور سیاست دان جو دلاسے دیتے ہیں‘ وہ عموماً سراب ہی ثابت ہوتے ہیں۔ ۱۹۹۰ء کے بعد سے معیشت کے پھیلائو اور کارپوریٹ منافعوں میں زبردست اضافوں کے باوجود کارکنوں کی مُزد میں اضافوں کا تناسب نہایت حقیر ہے۔ یہ بات ایک عام محنت کش کے لیے تو درست ہے ہی‘ لیکن عنقریب ان اعلیٰ درجے کے ملازموں (elite workers) کے لیے بھی درست ہوگی‘ جن کی آمدنیوں نے انھیں اب تک خوش حالی کے دائرے میں رکھا ہے۔   یہ بھی مستقبل میں سخت دبائو محسوس کریں گے۔ (ص ۲)

اگرچہ دیوارِ برلن کے انہدام اور سوویت یونین کے خاتمے کو سرمایہ داری کی آخری فتح کے طور پر قبول کرلیا گیا ہے‘ اور بوڈاپسٹ سے بیجنگ تک ریاستی ملکیت میںکام کرنے والی صنعتیں‘ منڈی کی معیشت کی حامل کمپنیوں اور کارپوریشنوں کو بخشی جارہی ہیں‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ سرماے نے وہ قوت حاصل کرلی ہے‘ جو شاید ماضی میں اُسے کبھی حاصل نہیں ہوئی تھی۔ آزاد اور سریع الحرکت سرمایہ‘ دنیا میں جہاں زیادہ نفع دیکھتا ہے‘ آسانی سے منتقل ہوجاتا ہے۔ اب امریکا میں صورت حال یہ ہے کہ کارپوریٹ منافع تو بڑھ رہاہے‘ لیکن کارکنوں کے معاوضے میں اضافہ نہیں ہورہا۔ ۱۹۹۰ء کی دہائی میں فیملی انکم (ایک خاندان کی آمدنی) میں کمی ہوئی ہے۔ ملازموں کا تحفظ‘ پنشن اور علاج معالجے کی سہولتیں کم ہوئی ہیں‘اور متوسط طبقے کی دولت اور اثاثے بھی زوال پذیر ہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس ’’آزاد معیشت‘‘ کی میکانیت کے تحت محنت کشوں اور کارکنوں (جسمانی اور ذہنی دونوں) کی آزادانہ نقل و حرکت کی بناپر دوسری اور تیسری دنیا کی افرادی قوت بڑی آسانی سے شمالی امریکا اور یورپ کے اُن علاقوں میں منتقل ہو رہی ہے‘ جہاں انھیں اپنے وطن کے مقابلے میں بہرحال کچھ زیادہ معاوضے اور سہولتیں دست یاب ہیں۔ مگر اس کے نتیجے میں امریکا کی افرادی قوت‘ خواہ وہ نیلی وردی والے مزدور ہوں یا اعلیٰ عہدوں پر مامور باصلاحیت‘ منتظم‘ سبھی اپنی ملازمتوں میں کٹوتی کا شکار ہورہے ہیں۔ (ص ۶)

اب صورت حال یہ ہے کہ مغربی دنیا کے محنت کشوں (بشمول اعلیٰ تعلیم‘ تربیت یافتہ طبقہ‘ اعلیٰ عہدوں پر فائز کارکنوں) کو محنت کی ایک کھلی منڈی میں مسابقت کا سامنا ہے۔ جاپان کے بعد چین‘ ہندستان‘ انڈونیشیا‘ ملایشیا‘ کوریا اور لاطینی امریکا سے ہنرمند محنت کشوں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ کارکنوں کی اتنی بڑی تعداد بازارِ معاش (job market)میں داخل ہو رہی ہے کہ امریکا اور کینیڈا‘ بلکہ مغربی یورپ کے سبھی ملکوں میں طبقۂ وسطیٰ اور خوش حال کارکنوں کو اپنے مستقبل کے بارے میں کھلے خطرات کا سامنا ہے۔ ’’ہم اب ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں‘ جہاں سرمائے کے مقابلے میں محنت کی بہتات ہے‘‘ (ص ۷۶)۔ چوں کہ اس کے نتیجے میں اُجرتیں تو منجمد ہوتی جارہی ہیں‘ اور سرمائے کا نفع بڑھتا جا رہا ہے‘ چوں کہ عوامل پیداوار میں اب طلب و رسد کے قانون کے تحت مزدور ارزاں ہے‘ اس لیے اس کا استحصال کیا جا سکتا ہے‘اُسے اپنی شرائط پر کام کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔

مصنفین دعویٰ کرتے ہیں کہ سرمایہ داری کے حالیہ فروغ کے بعد اب مغربی سرمائے کے لیے ضروری نہیں رہا کہ وہ نسلی یورپین (مغربی) آبادی کو اپنے ہمراہ لے کرچلے۔ مشرقی ایشیا میں ایسے باصلاحیت‘ منتظم اور ماہرین نسبتاً سستے داموں پر دستیاب ہوگئے ہیں۔ سرکاری خرچ پر    نسبتاً سستی تعلیم‘ سخت محنت‘ غیرملکی پیشہ ورانہ تربیت اور آگے بڑھنے کے مجنونانہ جوش سے آراستہ یہ ’اعلیٰ طبقہ‘ (elite class) اب اپنی اچھی کارکردگی کے ساتھ مغربی سرمائے کو مہیا ہوگیا ہے: اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سرمائے اور محنت کے درمیان جو بقاے باہمی (symbiotic) رشتہ قائم ہوا تھا‘ ختم ہوچکا ہے۔ مغرب کے محنت کش کے لیے یہ بُری خبر ہے۔

چوں کہ بڑے صنعتی اور کاروباری ادارے بھی اپنی لاگت/منافع کے تناسب کو ہمیشہ اپنے فائدے میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں‘اس لیے یہاں بھی اس پالیسی کا بوجھ عموماً نچلے درجے کے کارکنوں ہی کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ پیداوار کے جدید طریقوں کی بنا پر چھانٹیوں (’down sizing ‘ اور ’right sizing ‘)کا شکار عموماً نچلے محنت کش ہی ہوتے ہیں‘ اور ’فربہ‘ منتظمین اعلیٰ (CEO's) کی صحت اس سے متاثر نہیں ہوتی۔ (ص ۸۱)

’’[امریکا] تاریخ کے ایک ایسے دور میں جھونکا جاچکا ہے جہاں مالیات ہی سب پر حاکم ہے۔ میوچل فنڈز اور اسٹاک ایکسچینج ریسرچ کی تجربہ گاہ اور فیکٹری کی جگہ مرکزی اہمیت اختیار کرگئے ہیں۔ کاروبار کی تعلیم کے بڑے مرکزی اسکولوں سے فارغ ہونے والے اب حقیقی معیشت کے بجاے انوسٹمنٹ بینکنگ کا رخ کر رہے ہیں…‘‘ مگر ان کا انجام بھی وہی ہوگا‘ جو اٹھارھویں صدی کے ڈچ اور انیسویں /بیسویں صدی کے برطانوی سرمایہ کاروں کے نتیجے میں ان کی معیشت کا ہوا۔ ’’وال اسٹریٹ کی حیرت انگیز فراست کی خطا بھی جلد سامنے آجائے گی‘‘۔(ص ۱۴۲)

ہارورڈ یونی ورسٹی کے جوزف شوم پیٹر (Joseph A. Schumpeter) اگرچہ دائیں بازو کی سیاست کے دانش ور ماہر معاشیات ہیں‘ لیکن عالمی سرمایہ داری کے اِن رجحانات میں انھیں بھی تباہی کے آثار نظر آتے ہیں: ’’نظامِ سرمایہ داری‘ ایک عقلی ذہنی افتاد کو تشکیل دیتا ہے‘ جو دوسرے بہت سے اداروں کی اخلاقی بالادستی کو تباہ کردینے کے بعد آخرکار خود اپنی بالادستی کے بھی درپے ہوجاتی ہے‘‘ (ص ۲۲۱)۔ نیویارک ٹائمز کے ٹامس فرائیڈمین کے مطابق جو لوگ ایک ایسی یک رُخی دنیا کی تعمیر میں لگے ہوئے ہیں‘ جہاں کاروبار اور اعداد و شمار کی مالیات ہی سب کچھ ہے‘ انھیں اس عالم گیریت کے خلاف ایک شدید ردعمل کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ (ص ۲۲۱)

اس تباہی سے بچنے کے لیے کتاب کے مصنفین‘ کاروبار اور صنعت کے شعبوں میں ریاست کی زیادہ مداخلت کی تلقین کرتے ہیں۔ کارکنوں کی پیشہ ورانہ رہنمائی اور ایک پیشے سے دوسرے پیشے میں آسان منتقلی‘ اور اس سلسلے میں حکومتی امداد‘ عالمی سرمایہ داری کے منفی اثرات سے کارکنوں کی حفاظت کے لیے ریاست کے زیادہ فعال کردار‘ نیز محنت کشوں اور دوسرے کارکنوں کی صحت‘ بے روزگاری اور پنشن سے متعلق بہتر اور زیادہ مؤثر اقدامات کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ (ص ۲۱۸-۲۱۹)

یہ کتاب‘ نظامِ سرمایہ داری کو خود اپنے ستم اور اس سے جنم لینے والی بربادی سے بچانے کی ایک مخلصانہ کوشش محسوس ہوتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سرمایہ داری (جس کے ساتھ استحصال کا نظام لازم و ملزوم ہے) کو بچا لینا کسی طرح بھی مقصود اور خوش آیند قرار دیا جا سکتا ہے؟ کیا شمالی امریکا اور مغربی یورپ کے محنت کشوں کی فلاح و بہبود کو آدرش قرار دیا جا سکتا ہے؟ اب اگر ہم عالمی معیشت کا جائزہ لیں‘ تو نظر آتا ہے کہ عالم گیریت کے نتیجے میں اگرچہ تیسری دنیا کے بعض گوشوں اور طبقات (نیز افراد) میں معاشی خوش حالی نظر آتی ہے‘ لیکن وسیع تر تناظر میں واضح طور پر نظر آتا ہے کہ خطِ غربت کے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کا تناسب بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کی ایک مثال ہندستان ہے‘ جہاں کمپیوٹر اور اطلاعی فنیات میں پیش رفت سے اگرچہ ایک گونہ خوش حالی آئی ہے‘ لیکن بہار اور بنگال کے علاقوں میں شدید غربت کے مارے کروڑوں انسان ناقابلِ تصور ہلاکت کا شکار ہیں۔ کچھ اس طرح کی صورت حال انڈونیشیا‘ ملایشیا‘ فلپائن اور مشرقی یورپ کے بعض خطوں کی ہے۔ افریقہ (خصوصاً وسطی افریقہ) قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود لوٹ کھسوٹ‘ بدانتظامی‘ بھوک اور بیماری (خصوصاً ایڈز) کا اس بری طرح شکار ہے کہ وہاں آبادی کم ہوتی جارہی ہے۔ شاید عالمی سطح پر معیشت اور مالیات کو کنٹرول کرنے والوں نے یہ منصوبہ بندی کرلی ہے کہ ایک بہتر دنیا کی تشکیل یوں ہی ممکن ہے۔

عیسائی روایات کے مطابق یہودا‘ حضرت عیسٰی علیہ السلام کا وہ منافق حواری تھا‘ جس نے اپنے تھوڑے فائدے (۳۰ درہم) کے لیے آں جناب سے غداری کی۔ آخری عشائیے میں جب وہ ایک باغ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ روپوش تھے‘ اس نے آپ کی پیشانی کو بوسہ دے کر رومی سپاہیوں کو آپ کا پتا دیا اور یوں گرفتار کرایا۔ (The Judas Economy: The Triumph of Capital and the Betrayal of Work ، [یہودا کی معیشت: سرمائے کی فتح اور محنت کے ساتھ دغا]‘ ولیم وُلمان (William Wolman) اور این کولاموسکا (Anne Colamosca)‘ ایڈیسن ویزلی پبلشنگ کمپنی‘ ریڈنگ‘ میساچوسٹس‘ ۱۹۹۷ئ‘ صفحات: ۲۴۰)

اجتماعی زندگی مختلف سطحوں پر رواں دواں رہتی ہے جس میں حالات میں خرابی‘ الجھائو اور سدھار کی موجیں پہلو بہ پہلو چلتی ہیں۔ بلاشبہہ دوسری اقوام کی بھی قومی زندگی کو گوناگوں چیلنجوں کا سامنا ہوگا‘ لیکن پاکستان کئی حوالوں سے منفرد نوعیت کے حالات و واقعات کے بھنور میں گھرا نظر آتاہے۔

بدقسمتی سے ہماری یونی ورسٹیوں میں‘خصوصاً سماجی علوم پر ہونے والی تحقیق اور تجزیہ کاری‘ بیش تر صورتوں میں بے رنگ‘ بے لطف اور بڑی حد تک بے مغز بھی ہے۔ ان دانش کدوں میں زندہ موضوعات پر دادِ تحقیق دینا غالباً شجرممنوعہ ہے‘ اسی لیے تحقیق ایک لگے بندھے (stereotype) اسلوب میں لڑکھڑاتی نظرآتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل علم و صحافت کو‘ ہماری جامعاتی سطح کی تحقیقات سے کوئی قلبی رغبت نہیں ہے۔ اس تناظر میں ایسے اہلِ قلم غنیمت ہیں جو ’’چراغ اپنے  جلا رہے ہیں‘‘۔ عبدالکریم عابد ایسے دانش وروں میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں‘ جنھوں نے مختلف اخباروں میں کالم نگاری اور اداریہ نویسی کے ذریعے قوم کی بروقت رہنمائی کی ہے۔

عبدالکریم عابد کی تازہ کتاب سیاسی‘ سماجی تجزیے موضوعات کی بوقلمونی کے ساتھ علمی گہرائی اور مشاہداتی وسعت کا ایک قیمتی نمونہ ہے۔ ان کے ہاں کسی نام نہاد اسکالر کا سا جامد اسلوب نہیں ہے اور نہ کارزارِ سیاست کے کھلاڑی جیسا یک رخا پن‘ بلکہ ان کے چھوٹے چھوٹے مضامین میں انصاف‘ اظہار اور اطلاع کا جھرنا پھوٹ رہا ہے۔ وہ فلسفے‘ سیاسیات‘ ادب‘ آرٹ اور تاریخ کی عبرت آموز تفصیلات اور وجدآفریں تجزیے پیش کرتے ہیں۔ ان کی یادداشت قابلِ رشک ہے اور سماجی سطح پر تعلقات کا دائرہ بڑا وسیع ہے۔ انداز نگارش رواں دواں ہے اور لکھنے والے کے ذہنی توازن اورپختہ فکری کا پتا دیتا ہے۔ یہ کتاب عبدالکریم عابد کے ۴۹ مضامین پر مشتمل ہے‘ جن میں بیشتر کی اشاعت جسارت اور فرائیڈے اسپیشل میں ہوئی۔

جناب عابد نے اپنی زندگی کی ساٹھ بہاریں صحافت و سیاست‘ اور ادب و دانش کے ویرانوں (یا مرغزاروں) میںگزاری ہیں۔ وہ ایمان اور عقیدے کی پختگی اور تشخص کا امتیاز رکھنے کے باوجود‘ پیشہ ورانہ دیانت اور تجزیاتی معروضیت پر آنچ نہیں آنے دیتے۔

ہماری قومی تاریخ کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں: ’’پاکستان پان اسلام ازم کے جذبے کی پیداوار ہے اور اس جذبے کے بغیر پاکستان کو نہ مضبوط بنایا جا سکتا ہے‘ نہ چلایا جا سکتا ہے      (ص ۱۷۳)--- پاکستان کی سیاسی زندگی میں‘ اہلِ سیاست کا یہ وطیرہ ہے کہ وہ اپنی نااہلی‘ ناعاقبت اندیشی ‘ اور مرغِ بادنما جیسی فطرت کے ہاتھوں وطن عزیزکو کھیل تماشے کی طرح برتنے میں ]کوئی[ عار محسوس نہیں کرتے‘ لیکن جوں ہی عوام میں کوئی بے چینی پیدا ہوتی ہے تو یہ لیڈر حضرات اپنی توپوں کا رخ دوسری قومیت کی طرف پھیر دیتے ہیں‘‘۔

پاکستان کے تمام المیوں کا ذمہ دار پنجاب کو قرار دینا ہماری سیاست میں ایک چلتا سکّہ ہے‘ عابد صاحب نے تفصیل سے اس کا تجزیہ کیا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’ہماری سیاست کا فیشن پنجاب کو مطعون کرنا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ خداوندان پنجاب کے جرائم بہت ہیں… لیکن دوسرے صوبوں کے اہلِ سیاست نے کیاکسی اچھے کردار کا مظاہرہ کیا (ص ۱۷۹)… یہ حسین شہید سہروردی تھے جنھوں نے مسلمانوں کے اتحاد ] کے نظریے [ کو زیروجمع زیرو قرار دے کر اینگلو امریکی طاقتوں کے سامنے سجدہ ریزی کا مسلک پورے دھڑلے سے اختیار کیا (ص ۱۸۱)… جمہوریت کی تباہی کے عمل میں پنجاب کے علاوہ دوسرے صوبوں کی سیاسی قیادت کی بے اصولی اور موقع پرستی بھی شامل ] رہی ہے[۔ صورتِ حال ہرگز یہ نہیں تھی کہ پنجاب میں صرف حکمران طبقہ تھا‘ بلکہ یہاں جمہوریت‘ وفاقیت‘ صوبائی خودمختاری اور منصفانہ اقتصادی نظام کے لیے جدوجہد کرنے والے لوگ موجود اور خاصے منظم تھے لیکن دوسرے صوبوں کی سیاسی قیادتوں نے ان سیاسی عناصر کے ساتھ اشتراکِ عمل کے بجاے ] پنجاب کے[ حکمران طبقے کے ہاتھوں کھلونا بننا پسند کیا۔ انھوں نے اپنا سارا وزن‘ جمہوریت اور وفاقیت کے بجاے آمریت اور غیر جمہوری مرکز کے پلڑے میں ڈال دیا (ص ۱۲۵)… سرحد کے قیوم خاں کوئی معمولی رہنما نہیں تھے] انھوں[ نے اتحاد کے لیے کبھی پنجاب کی عوامی قوتوں کو پسند نہیں کیا]بلکہ[ ان کا گٹھ جوڑ اوپر کے اس حکمران طبقے سے تھا جس نے ظلم و جبر کی حکومت قائم کر رکھی تھی۔ ان کے سائے میں خود خان قیوم کی حکومت بھی حزبِ اختلاف کو کچلنے کی کارروائیاں بے جھجک کرتی رہی۔ انھوں نے مانکی شریف کا لحاظ کیا نہ دوسرے مسلم لیگیوں کا‘ اور سرحد کا مردِ آہن بن کر اپنے ہتھوڑے سے جمہوریت کا سر کچلتے رہے۔ ادھر غفار خاں کو سواے پختونستان کی رَٹ لگانے کے‘ دوسری کوئی بات ہی نہیں سوجھتی تھی (ص ۱۲۶)… بھٹوصاحب نے سرحد‘ بلوچستان میں نمایندہ حکومتوں کو ختم کیا‘ بلوچستان پر فوج کشی کی تو ایک طرف اکبربگٹی نے ] بھٹو صاحب کا ساتھ دے کر[ ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا‘ اور دوسری طرف سندھ سے حفیظ پیرزادہ‘ ممتاز بھٹو‘ طالب المولیٰ نے تالیاں بجا کر اس کا خیرمقدم کیا۔ اس کا مطلب تھا کہ جمہوریت نہ کسی کو عزیز ہے نہ کسی کو مطلوب۔ اب بلا سے اگر جمہوریت ذبح ہوتی ہے تو ہوجائے‘ ہم کیوں اس کا غم کریں۔ یہی ذہنیت تھی جس نے آخرکار جمہوریت اور سندھی رہنمائوں کے چند روزہ اقتدار‘ سب کو ختم کر دیا (ص ۱۲۹)… سب کھیل جو آمریت‘ چھوٹے صوبوں کے جغادری لیڈروں کی مدد سے کھیلتی رہی ہے‘ اور اب بھی کھیل رہی ہے اس کا تجزیہ کیا جانا چاہیے۔ بے شک پنجاب کا حکمران طبقہ بڑا لعنتی ہے‘ مگر اس لعنتی گروہ کے ساتھی ہر صوبے میں پائے جاتے ہیں۔ جب تک یہ لوگ اپنی ضمیرفروشی ترک کر کے‘ پنجاب کے حکمران طبقے کے بجاے‘ پنجاب کے جمہوریت پسند اور سیاسی عناصر کو تقویت نہیں پہنچائیں گے‘ اس وقت تک ] پاکستان[ آمریت کے چنگل میں پھنسا رہے گا۔ اس لیے چھوٹے صوبوں کے لوگ اپنے لیے پرانی ضمیرفروش قیادت کے بجاے نئی قیادت تلاش کریں‘ جس کا اصولوں پر واقعی ایمان ہو‘ اور وہ استقامت کا مظاہرہ کرے‘ورنہ صرف پنجاب کو گالیاں دیتے رہنے سے کچھ نہیں ہوگا‘‘ (ص ۱۲۹‘ ۱۳۰) وغیرہ۔

یہ تبصرہ تو ماضی پر تھا‘ اب دورِ جنرل مشرف میں پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر ابھرنے والے ان ناسوروں کی ایسی سچی تصویرکشی بھی کی ہے۔ میرظفراللہ خاں جمالی کا بے آبرو ہو کر کوچہ بدر ہونا‘ آنسو بہانا اور پھر کپڑے جھاڑ کر‘ حکمران طبقے کی تعریف پر کمربستہ ہونا عبرت کی جا ہے۔ پنجاب کے چودھریوں اور وڈیروں کا اپنے جیسے خاندانی خدمت گاروں اور پارہ صفت انسانوں کو جمع کر کے ملازمین ریاست کی چوکھٹ پر سجدہ ریز کرانے کی خواری مول لینا ایک گھنائونافعل ہے۔ کراچی سے ایم کیو ایم قسم کی بھتہ خور قیادت کا کذب و دہشت گردی وغیرہ۔

سماجی زندگی پر ادب کے کردار و احوال پر بھی بڑے جان دار تبصرے سامنے آتے ہیں۔ اس کے ساتھ علامہ اقبال کے کارنامے اور ان کے بارے میں نام نہاد ترقی پسندوں کا رویّہ زیربحث آیا ہے‘ لکھتے ہیں: ’’وہ قنوطیت اور بے عملی کے خلاف ساری زندگی جہاد کرتا رہا‘ اور اس جہاد کے سبب ہی برصغیر کے مسلمان عوام نے اقبال کو ملّت کے اقبال کا ستارہ سمجھا‘ لیکن ترقی پسندوں کو یہ ناگوار گزرا۔ اخترحسین رائے پوری نے رسالہ اردو‘ جولائی ۱۹۳۵ء میں لکھا:’’اقبال فاشتّیت کا ترجمان ہے۔ وہ مسلمانوں اور ہندستان کے لیے خطرناک ہے‘ یہی بات روزنامہ پرتاپ کے مدیرمہاشے کرشن نے ایک اداریے میں لکھی تھی: ’’شمالی ہند کا ایک خطرناک مسلمان‘‘۔ ]تاہم[ اقبال جب مسلمان عوام کا شاعر بن گیا تو ترقی پسندوں نے یہ کوشش کی کہ اسے ترجمان اشتراکیت ظاہر کریں‘ لیکن وہ دھوکا دہی کی اس واردات میں کامیاب نہیں ہوسکے…اس ضمن میں سب سے شاہکار چیز علامہ اقبال پر وہ رنگین فلم تھی‘ جو فیض احمد فیض نے کرنل فقیر وحید الدین کے سرمائے سے بنائی تھی۔ اس فلم کو میں نے بھی کراچی میں دیکھا‘ اور جب ہال سے باہر نکلا تو ممتاز حسن آگ بگولا نظرآئے۔ وہ کہنے لگے: ’’اس فلم سے اصل اقبال جو مسلمان تھا‘ غائب کر دیا گیا ہے‘ اور وہ جعلی اقبال رکھ دیا گیا ہے‘ جو مارکس اور لینن کا پیرو نظرآتا ہے‘‘۔ ہم دونوں کرنل فقیر سید وحید الدین کے مکان پر بھی گئے۔ ممتاز صاحب نے ان سے کہا: ’’مجھے افسوس ہے کہ آپ کے سرمائے سے اقبال پر ایسی فلم بنی‘ جس میں اقبال کو مسخ کر کے پیش کیا گیا ہے‘‘۔ کرنل صاحب نے ان کی گفتگو سن کر فیصلہ کیا کہ یہ فلم عوام میں نمایش کے لیے پیش نہیں کی جائے گی ‘ اور اسے ضائع کر دیا جائے گا۔ کرنل صاحب نے کہا: ’’میں یہ سمجھ لوں گا کہ جو سرمایہ اس فلم پر صرف کیا گیا‘ وہ کوئی چور لے اڑا‘‘۔ اس کے بعد فیض صاحب اور کرنل صاحب کے تعلقات میں کھنچائو پیدا ہوگیا (ص ۱۱۱-۱۱۴)وغیرہ۔

اس نوعیت کے تجزیاتی نکات سے عابد صاحب نے ان دقیق بحثوں کو ایک عام فہم اسلوب میں سمو کر رکھ دیا ہے۔

کتاب کا سب سے زیادہ دل چسپ اور فکرانگیز حصہ وہ ہے‘ جس میں انھوں نے  تحریکِ آزادی‘ تحریکِ پاکستان‘ جدید مسلم قیادت اور علما کے حرکی تجربات وغیرہ کو موضوع بحث بنایا ہے۔ تاریخ کے سیاسی اور منطقی پہلو کو ایسے قائل کر دینے والے لہجے میں بیان کیا ہے کہ ایک اوسط درجے کی تعلیمی قابلیت رکھنے والا فرد بھی اس سے روشنی حاصل کرکے مستقبل کی تاریکیوں کو ختم کرنے پر سوچ بچار شروع کر دیتا ہے۔ سید احمد شہید کی تحریک‘ علامہ شبلی نعمانی کے نظریات‘ مغرب زدہ حکمران‘ پاکستانی سیاست میں جاگیردار طبقے کا کردار‘ جدید تعلیم اور ماڈرن اسلام اور موجودہ اقتصادی نظام وغیرہ کے حوالے سے ایک جہان معانی‘ نظرنواز ہوتا ہے۔

عبدالکریم عابد کہتے ہیں:’’ایک مثالی اسلامی لیڈرشپ کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ تعلق باللہ اور تعلق بالعوام دونوں کی مالک ہوتی ہے۔ اس کا خدا اور خلقِ خدا ہر دو سے رابطہ ہوتا ہے۔   (ص ۱۷۲)… اسلام کے نام لیوائوں پر یہ خاص ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ وقت کے اقتصادی چیلنج کا جواب پیش کریں۔ اگر ان کے پاس اس چیلنج کا کوئی جواب نہیں ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ان کا اسلام اصلی اسلام نہیں ہے‘ کیونکہ وہ اصلی اسلام ہوتا تو اس کے پاس عوام کے اقتصادی اطمینان کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا اور یہ محرومی جو نظر آرہی ہے نہ ہوتی‘‘ (ص ۲۳۱)۔

معاشی ناہمواری کے موجودہ ظالمانہ شکنجے پر عابد صاحب نے جان دار بحث کی ہے۔ اس نگارخانہ دانش و حکمت کے دلآویز رنگ گوناگوں ہیں: موضوعات کا تنوع ہے‘ بحث       کی وسعت‘ نقطہ نظر کی کشادگی اور اسلوب تحریر سادہ مگر دل چسپ اور پُرکشش۔ ابتدائیہ جناب سید منور حسن نے تحریر کیا ہے۔ مناسب ہوتا کہ ہر مضمون کے آخر میں اس کی تاریخِ اشاعت بھی درج ہوتی۔ اس کتاب کو منشورات (منصورہ‘لاہور) نے شائع کیا ہے۔ صفحات ۳۶۰ اور قیمت ۱۵۰ روپے ہے۔

انسانی حقوق کے عالم گیر منشور میں روے زمین کے تمام انسانوں کو یکساں حقوق کا حق دار قرار دیا گیا ہے لیکن نسلی امتیاز اور لسانی و مذہبی تفریق و تعصب نہ صرف آج بھی موجود ہے بلکہ حکومتیں اس کی سرپرستی کرتی ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی سیکڑوں تنظیمیں اس قسم کے سروے شائع کرتی رہتی ہیں کہ کہاں کہاں قوم‘ قبیلے‘ گروہ یا اجتماعیت کے خلاف مذہب‘ نسل‘ خاندان‘ علاقے‘ پیشے یا صدیوں سے جاری رواج کی بنا پر ظلم و تشدد یا تعصب و امتیاز برتا جا رہا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ نسلی امتیاز کے خاتمے کے لیے قراردادیں تو موجود ہیں مگر ان پر عمل درآمد نہیں ہے‘ سب غالب اقوام ’’دہشت گردی کے خاتمے‘‘ کے نام پر انسانی حقوق پامال کرنے میں مصروف ہیں۔ ایسے میں آواز کون بلند کرے گا۔

یُوری ڈیوس کی کتاب Apartheid Israel, Possibilities for the Struggle Withinکی اشاعت سے اسرائیل اور امریکا کے یہودی نواز حلقوں میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اس کتاب کے مصنف عرصۂ دراز سے انسانی حقوق کی سربلندی کے لیے کام کر رہے ہیں‘ اُن کا مرکز توجہ اسرائیل ہے جو ۱۵ مئی ۱۹۴۸ء سے قبل فلسطین تھا اور برطانیہ کے زیرانتظام تھا۔ یُوری نے انسانی حقوق کے عالم گیر منشور کی روشنی میں جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت اور اسرائیل کی نسل پرست حکومت کا ٹھوس حقائق کی روشنی میں جائزہ لیا ہے۔         وہ انسانیت پروری اور انسان دوستی کے ناطے یہ چاہتے ہیں کہ آج جو حقوق‘ مثلاً جرمنوں یا فرانسیسیوں کو حاصل ہیں وہ فلسطینیوں کو بھی حاصل ہوجائیں۔ اُن کی دوسری دل چسپی اس امر میں ہے کہ مختلف افریقی ممالک میں بالعموم اور جنوبی افریقہ میں بالخصوص نسلی امتیاز اور تعصب کے خاتمے کے لیے عالمی برادری نے جو جدوجہد کی ہے وہ اسرائیل کے خلاف بھی کی جائے۔

یوری ڈیوس کی تحریریں متنازعہ قرار دے دی گئی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اسرائیل کی پارلیمنٹ کے رُکن رہے ہیں۔ وہ تاریخی تحقیق کی روشنی میں جب اس حقیقت کو واشگاف کرتے ہیں کہ برطانوی انتداب کے دورمیں ارضِ فلسطین پر یہودیوں کی آبادی سات فی صد تھی‘  بالفور اعلان کی روشنی میں بے زمین قوم کو غیرآباد سرزمین پر لاکر بسا دیا گیا۔ مصنف نے اُن  ۵۰۰ دیہاتوں کی مقامی فلسطینی آبادی اور اُن کی زیرملکیت اراضی کی تفصیل فراہم کی ہے جن کو اسرائیلی فوجیوں نے ظلم و زیادتی اور وحشیانہ تشدد کے ذریعے خالی کرا لیا۔ جوانوں‘ بوڑھوں‘ بچوں اور عورتوں کے ساتھ اس جبری انخلا میں جو سلوک روا رکھا گیا اُس کو چشمِ تصور سے بھی دیکھیں تو روح کانپ اٹھتی ہے۔ بیت المقدس شہر‘ یروشلم‘ الخلیل‘ ہَبرون‘ اریحا‘ جیریکو اور دیگر شہروں کے نام تبدیل کر کے اُن کی سیکڑوں سال پر محیط اسلامی شناخت نسل پرست حکومت نے ختم کرنے کی کوشش کی۔ بیت لحم‘ جافا‘ رملے‘ لدِّہ‘ جنین‘ طُل قرم‘ حیفا‘ عکرے‘ نظارت‘ صفاد‘ طبریاس‘ لیبان اور غزہ پورے کے پورے خالی کرا لیے گئے۔

برطانوی حکومت نے اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان اور بندوبست کیا تھا لیکن ڈیوس کا خیال ہے کہ اسرائیل کی حکومت کو نہ ۵۰ برس قبل یہ حق حاصل تھا نہ آج حاصل ہے کہ اس سرزمین پر سیکڑوں برس سے قیام پذیر لوگوں کو اپنے گھروں‘ زرعی اراضی‘ دیہاتوں اور قصبوں سے نکال پھینکیں اور بعدازاں دلیل یہ پیش کریں کہ یہ لوگ یہاں سے جاچکے ہیں‘ اراضی کے سروے کے دوران ان کو موجود نہ پایا گیا‘ لہٰذا یہ اسرائیل (مقبوضہ فلسطین) میں واپس آنے کا کوئی حق نہیں رکھتے۔ جنوبی افریقہ کی نسل پرست سفید قوم اقلیت میں تھی لیکن وہ سیاہ فام اکثریت پر حکمران تھی اور اُس نے ۲ کروڑ میں سے ایک کروڑ ۲۰ لاکھ افریقیوں کو افریقہ کا باشندہ تسلیم کرنے سے انکار کر رکھا تھا۔ یہی حال اسرائیل کا ہے۔ اُس نے ۶۰ لاکھ فلسطینیوں میں سے ۵۰ لاکھ کو فلسطین کا حقیقی باشندہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ عالمی قراردادوں اور سفارتی دبائو کے باوجود مختلف خلیجی و یورپی ممالک میں مقیم فلسطینیوں کو اسرائیل واپسی کا حق دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ جنوبی افریقہ میں سیاہ سفید کا امتیاز تھا‘ اسرائیل میں یہودی‘ غیریہودی کی بنا پر فیصلے ہوتے ہیں۔ نسل پرست سفید یورپی اقوام جنوبی افریقہ کی حکومت کی پشتیبان تھیں‘ سوپرپاور اسرائیل ’’مشرق وسطیٰ کی واحد جمہوریت‘‘ کا سرپرست ہے۔ واشنگٹن اسرائیل کو عرصۂ دراز سے ۲ ارب ڈالر سالانہ امداد ترقیاتی منصوبوں کے لیے ادا کر ہی رہا ہے۔ حال ہی میں مزید ایک ارب ڈالر سالانہ امداد کی منظوری دے دی گئی ہے تاکہ اسرائیل ’’مقامی دہشت گرد تنظیموں اور سرگرمیوں‘‘ کا سدباب کر سکے‘ جس طرح امریکا عراق میں بندوق کی نوک پر کر رہا ہے۔

مصنف نے ۱۹۵۰ء میں لاگو ہونے والے Absentee's in Property Law پر شدید تنقید کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب اسرائیل قائم ہوا تو مقامی یہودیوں کے پاس ۲۰لاکھ دنوم (۵لاکھ ایکڑ) زمین تھی۔ حکومت کو برطانوی انتظامیہ سے ۴ لاکھ دنوم (ایک لاکھ ایکڑ) اراضی ملی۔ ۲ کروڑ ۲ لاکھ ۲۵ہزار دنوم (تقریباً ۵۱ لاکھ ایکڑ) قانونی طور پر عربوں کی اراضی تھی لیکن فلسطینی عورتوں کے برہنہ جلوس نکال کر اور فلسطینی کسانوں کو قطاروں میں کھڑا کر کے قتل کرکے بہت بڑے رقبے پر قبضہ جما لیا گیا۔ آج اسرائیل کا رقبہ ۲۰ ہزار ۸ سو ۵۰ مربع کلومیٹر ہے اور یُوری ڈیوس انسانی حقوق کے عالم گیر منشور کی روشنی میں جمہوریت اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھنے والوں کا تعاون چاہتا ہے تاکہ فلسطینیوں کو اُن کی اراضی واپس دلائی جاسکے۔ اُس کی دلیل یہ ہے کہ نسل پرست استعمار اسرائیل کو محدود نہ کیا گیا تو بعد کے ادوار میں کئی توسیع پسند ممالک دوسرے ممالک کو باجگزار بناسکتے ہیں اور اُن کی نسلوں کو ختم کر سکتے ہیں۔ آج نصف کروڑ کے قریب فلسطینی شام‘ لبنان‘ اردن‘ یورپ و امریکا میں درجہ دوم کے شہری بنے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ جنوبی افریقہ کے سیاہ فام لوگ نسلی امتیاز والی حکومت کا حق رکھتے تھے اور فلسطینی نسلی امتیاز کے خاتمے اور اپنے وطن واپس لوٹنے کے حق دار نہیں ہیں۔ اس دُھرے معیار کا خاتمہ ہونا چاہیے۔

کتاب کے پہلے باب ’صہیونیت‘ میں مصنف عالمی صہیونی تنظیم(WZO)  اور جیوش ایجنسی کے کردار کا خصوصی ذکر کرتا ہے کہ یہ دونوں تنظیمیں برس ہا برس سے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے آرتھوڈوکس اور پروگریسو یہودیوں کو سمجھا رہی ہیں کہ جو یہودی ہے اُسے توریت کی تعلیمات کے مطابق سرزمین اسرائیل پر سکونت اختیار کرنا چاہیے۔ ۸۵ ممالک کے یہودی‘ خالصتاً نسلی بنیادوں پر اسرائیل میں لاکر بسا دیے گئے ہیں۔ رُوس کے لاکھوں یہودی اسرائیل میں لائے گئے۔ امریکا سے بھی کئی ہزار سالانہ کی شرح سے یہودی خصوصی طیاروں میں’’امن کی سرزمین‘‘ پہنچ رہے ہیں۔ یہودی ہونے کے دعویدار بھارت کے ایک قبیلے کے سے یہودی اکابر علما ملاقات کرچکے ہیں اور ان کی تاریخی و نسلی روایات کو درست اور اُنھیں بنی اسرائیل کے گم شدہ ۱۲قبیلوں میں سے ایک تسلیم کر لیا گیا ہے اور جلد ہی اُن کو اسرائیل پہنچا دیا جائے گا۔ اس کے مقابلے میں اُن ۱۳لاکھ عربوں کی حالتِ زار پر غور فرمایئے کہ جنھیں اپنی ملازمت سے گھر واپس جانے تک کئی بار شناختی کاغذات معائنے کے لیے پیش کرنا پڑتے ہیں۔ رفح ٹرمینل اسرائیلی حکم پر ڈیڑھ ماہ تک بند رکھا گیا اور کئی لوگ علاج کی سہولت سے بھی محروم ہوگئے۔ ایک فلسطینی عورت نے اسی حالت میں بچے کو جنم دیا‘ مرج الظہران کی سرد پہاڑیوں پر کئی سو فلسطینیوں کو سازوسامان کے بغیر دھکیل دیا گیا تاکہ وہ سردی سے مرجائیں۔ اسلامی تحریک مزاحمت کے بانی شیخ احمد یاسینؒ اور دوسرے سربراہ ڈاکٹر عبدالعزیز رنتیسیؒ کو باضابطہ منصوبہ بندی کرکے شہید کیا گیا اور وزیراعظم اپنے گھر میں بیٹھ کر ان کارروائیوں کی براہ راست نگرانی کر رہا تھا۔ اُن ۴ ہزار فلسطینیوں کو بھول جایئے جو پچھلے ساڑھے تین برسوں میں ہلاک کر دیے گئے‘ اُن کی عمریں دو ماہ سے ۸۴ برس تک تھیں‘ اِن کارروائیوں کے لیے صرف ایک الزام کافی ہے کہ ’’یہ لوگ اسرائیل کی مسلح فوج کی کارروائیوں میں مزاحم‘‘ تھے۔ ڈیوس یہ سوال اٹھانے میں برحق ہے کہ ’’کیا سکنڈے نیویا میں‘ مشرقی یورپ میں‘ مغربی ممالک میں اور شمالی امریکا میں بھی انسانوں کے ساتھ ایسا سلوک برداشت کیا جاسکتا ہے؟‘‘

اعداد و شمار کے مطابق ۷۰ فی صد فلسطینی اسرائیل کی نسل پرست ریاست کے زیرانتظام خطِ غربت سے نیچے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اُن کی کاشتکاری‘ کاروبار‘ ملازمت‘ ہر چیز انتشار اور تذبذب کا شکار ہے۔ ایک یہودی عالم نے فتویٰ دیا ہے کہ غیریہودی کا خون‘ یہودی کے پائوں کے ناخن سے بھی کم اہمیت کا حامل ہے۔ لہٰذا اسرائیل میں قائم ہونے والی حکومتیں اس کی بالکل پروا نہیں کرتیں کہ اُن کے زیرتسلط علاقوں میں عرب باشندوںکو جو وہاں کے حقیقی باشندے ہیں‘ بنیادی حقوق حاصل ہیں یا نہیں۔ اسرائیل میں حکومت دائیں بازو کی ہو یا بائیں بازو کی‘ اُن کی اولین کوشش یہی چلی آ رہی ہے کہ فلسطینیوں کا ناطقہ بند کیے رکھا جائے۔ مسجد الاقصیٰ کو (معاذاللہ) نقشۂ ارض سے مٹا دیا جائے اور یہاں پر عظیم الشان ہیکل سلیمانی تعمیر کر دیا جائے۔

اسرائیل نے ۱۹۶۷ء کی چھے روزہ جنگ میں عرب ممالک کو شکست دی تھی‘ نیز مغربی کنارہ اور غزہ کی پٹی پر بزور طاقت قبضہ کر لیا تھا۔ اسرائیل کا اس پر یقین ہے کہ اس کی سرحدیں نیل سے فرات تک ہیں اور سعودی عرب‘ شام‘ لبنان‘ اُردن سمیت کئی عرب ممالک پر اسرائیل دائمی تسلط جمالینا چاہتا ہے تاکہ دنیا پر بنی اسرائیل کی حکمرانی کا خواب حقیقی روپ اختیار کر لے۔

غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے کی حالتِ زار کے بارے میں ڈیوس لکھتے ہیں: ’’۱۹۶۷ء سے ۳۰ لاکھ فلسطینی عرب باشندے اسرائیل کے فوجی تسلط میں ہیں۔ اُن کو اسرائیل کی شہریت بھی نہیں دی جاتی‘اُن کو جایداد اور زمین خریدنے کا حق بھی حاصل نہیں ہے۔ اُن کو شہری حقوق بھی حاصل نہیں ہیں۔ اسرئیل کی جیلیں غزہ اور مغربی کنارے کے باشندوں سے بھری رہتی ہیں (اس وقت بھی اسرائیلی جیلوں میں ۸ ہزار فلسطینی قید ہیں اور بھوک ہڑتال کیے ہوئے ہیں)۔ اُن کے گھروں کو باقاعدہ منصوبہ بندی سے مسمار کیا جاتا ہے۔ سرکاری طور پر شہریوں پر حملے کیے جاتے ہیں۔ شہریوں پر بموں سے حملہ سرکاری انتظام میں کیا جاتا ہے (شیخ احمد یاسینؒ اور ڈاکٹر عبدالعزیز رنتیسیؒ کو سرکاری انتظام اور سرکاری نگرانی میں شہید کیا گیا)۔ بار بار سزائیں دے کر اُن کو جسمانی طور پر معذور اور ناکارہ بنا دیا جاتا ہے۔ فلسطینیوں سے زمین چھینی جاتی ہے اور اسرائیلوں کے جتّھے وہاں لاکر بسا دیے جاتے ہیں۔ اِن کے گھروں اوربازاروں کے درمیان دیوار کھڑی کی جارہی ہے ]اسرائیل فلسطینی آبادیوں کے گردا گرد جو متنازعہ دیوار تعمیر کر رہا ہے اُس کی لمبائی ۶۵۰ کلومیٹر اور بلندی ۸ میٹر ہے[۔ فوجی حملوں سے‘ تشدد سے‘ جھوٹے مقدمات سے‘ نظربند اور قید کرنے سے‘ کرفیو کے نفاذ سے‘ علاقے کے گھیرائو سے‘ دیہاتوں اور شہروں کے محاصرے سے فلسطینیوں کی زندگی دُوبھر کر دی گئی ہے۔ اس پر مستزاد ملازمت اور کاروبار سے محرومی‘ پانی اور غذائی اجناس حاصل کرنے میں رکاوٹ اور طبی امداد حاصل کرنے میں درپیش رکاوٹیں ہیں جن کی بنا پر اسرائیل کا چہرہ سابقہ جنوبی افریقہ سے بھی بھدّا نظرآتاہے‘‘ (ص ۱۶۶)

یُوری اسرائیل کو یہودی ریاست قرار دینے کی شدید مذمت کرتا ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے آئین میں اس کے لیے جمہوری یا پارلیمانی ریاست نہیں‘ بلکہ ’’یہودی ریاست‘‘ کا ذکر ہے۔ دنیا کا ہر یہودی یہاں آکر ملازمت حاصل کر سکتا ہے‘ کاروبار کر سکتا ہے اور شان دار زندگی گزار سکتا ہے لیکن ۵ہزار برس سے مقیم فلسطینیوں کے لیے زندگی دُوبھر بنا دی گئی ہے۔

ابوغریب جیل کے واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک مبصر نے کہا کہ فلسطینی قیدیوں کی حالت اِن سے زیادہ ژولیدہ ہے۔نسل پرست اسرائیل نے مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر قبضہ جما رکھا ہے اور عربوں کی ریاستیں تو درکنار تمام اسلامی دنیا بھی انھیں واگزار کرانے کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھا رہیں۔

اس کتاب کے پہلے باب ’’صہیونیت‘‘ میں صہیونی تحریک کی تاریخ‘تھیوڈر ہرزل کے کردار‘ عالمی صہیونی تحریک کی طویل جدوجہد پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے اور فلسطینیوں کے جبری اور کئی برسوں تک جاری رہنے والے انخلا کو بنیاد بناکر اسرائیل کو نسل پرست ریاست قرار دیا گیا ہے۔ یُوری کا کہنا ہے کہ ’’فلسطینیوں کا اجتماعی‘ جبری انخلا انسانی حقوق کے عالم گیر منشور کی خلاف ورزی ہے‘‘ (ص ۸)۔ ہٹلر کے ہاتھوں ۶۰لاکھ یہودیوں کے قتل کو وہ مبالغہ آمیز قرار دیتا ہے۔ اُس کا خیال یہ ہے کہ یہودیوں کی اتنی بڑی تعداد میں قتلِ عام کی داستانیں اس لیے مشہور کی گئیں تاکہ ارضِ فلسطین پر قبضہ جمایا جائے اور ایک بے وطن قوم کے ساتھ ہمدردی کے جذبات ابھارے جاسکیں۔ ڈیوس تسلیم کرتا ہے کہ انسانی حقوق کے لیے یہ آواز بلند کرنے کے نتیجے میں مجھے ’اچھوت‘ قرار دے دیا گیا ہے اور میں اپنی ہی سرزمین پر اجنبی ہوں (ص ۱۰)۔ اُس کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے اپنے استعمار اور آمریت پر پردہ ڈالنے کے لیے سب سے بہتر یہی سمجھا ہے کہ فلسطین کا ایک ایک انچ ریاستی تصرف میں آجائے‘ بعد میں سیاسی جنگ تو وہ کسی بھی پلیٹ فارم پر امریکا کی مدد سے جیت سکتا ہے (ص ۱۸)۔ یہ پالیسی اسرائیل کو یہودی قومی فنڈ (JNF) کے نائب سربراہ جوزف ویز نے دی تھی۔ (ص ۱۹)

یہودیوں کے ظالمانہ کردار کے حوالے سے دیریاسین کے کئی واقعات بیان کیے گئے ہیں کہ اس علاقے کو فلسطینیوں سے خالی کرانے کے لیے اور عوام پر دہشت بٹھانے کے لیے ذبح کرنے سے لے کر جلا کر راکھ کر دینے تک کے حربے استعمال کیے گئے۔ پہلے باب میں عالمی صہیونی تحریک کے مکروہ عزائم اور اِن کے خوفناک منصوبوں پر بھی تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔

یُوری کے نزدیک یہ حکومتی غفلت نہیں‘ یہودی نسل کی فلسطینی عرب نسل کو اپنی تہذیب و ثقافت اور تاریخ سے محروم کر دینے کی کوشش ہے (ص ۵)۔ وہ اس پر اظہار افسوس کرتا ہے کہ معروف ذرائع ابلاغ بھی اسرائیل کو ’’مشرقِ وسطیٰ کی واحد جمہوری کونپل‘‘ سمجھتے ہیں اور عرب ممالک کی بادشاہتوں کو عوام دشمن قرار دے کر اسرائیل کے کردار کو قابلِ تعریف بناکر پیش کرتے  چلے آرہے ہیں۔ اس صورت حال میں اسلامی تاریخی آثار کی فکر کون کرے گا (ص ۳۸)۔ اس سلسلے میں وہ اقوامِ متحدہ اور اسرائیل کے معاملات پر بھی روشنی ڈالتا ہے اور اس کے بعد یہ    دل چسپ بحث اٹھاتا ہے کہ اصل میں یہودی کون ہے (ص ۷۱)۔ یُوری اس پر یقین رکھتا ہے کہ اقوامِ متحدہ نے انسانی حقوق کا منشور جو ۱۹۴۸ء میں تیار ہوا تھا اُس پر ہی عمل درآمد کر لیا جائے تو فلسطینی بہتر زندگی کا راستہ دیکھ سکتے ہیں۔

اگلے ابواب میں اسرائیل پی ایل او معاہدوں میں جس طرح اسرائیل کے وجود کو تسلیم کیا گیا اور جس طرح یاسر عرفات کو شکار کیا گیا اُس کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ فلسطین میں اسرائیل نسل پرستی مخالف تحریک (MAIAP) کا تعارف بھی کرایا گیا‘ نیز فلسطینی تاریخ میں جو اتار چڑھائو آئے ہیں اُن کا کہیں کہیں سرسری جائزہ لیاگیا ہے۔

یُوری ڈیوس کی کتاب ہر لحاظ سے ایک جامع کتاب ہے اور اس میں اسرائیل کی نسل پرستی کے حوالے سے ممکنہ حد تک تمام معلومات اکٹھی کر دی گئی ہیں۔ اُمت کے صاحبِ دل اور فہیم طبقے کے لیے ضروری ہے کہ اپنے دشمنوں کو بے نقاب کرنے کے لیے اپنی صلاحیتوں کو مجتمع کریں۔ بابری مسجد تو زمین بوس ہوچکی ہے‘ مسجد الاقصیٰ کے دشمن اپنے ’حتمی وار‘ کے لیے پر تول رہے ہیں۔ اس کے سدباب کے لیے تیاری کی بھی ضرورت ہے اور بیداری کی بھی۔ انسانی حقوق کا ایک کارکن تحقیق کی بنیاد پر اتنا کچھ کہہ سکتا ہے‘ اگر امت مسلمہ کا ہر فرد اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہے‘ اور اس کا کھل کر اظہار کرے تو بھی نقشہ تبدیل ہو سکتا ہے۔ (Apartheid Israel, Possibilities for the Struggle Within‘ Yri Davis ‘زیڈ-ای- ڈی پبلشرز‘ لندن‘ نیویارک‘ قیمت: ۹۵.۱۴ ڈالر۔ صفحات: ۲۴۸)

اسلامی لٹریچر کی چوٹی کی کتب کا انگریزی ترجمہ اس دور کا ایک چیلنج ہے۔ حال ہی میں ادارہ تحقیقات اسلامی اسلام آباد نے‘ ہالینڈ کے علومِ اسلامی کے مرکز لائڈن سے ۱۹۹۶ء میں شائع شدہ مارسیہ کے ہرمینسن کا حجۃ اللّٰہ البالغہ کا ترجمہ شائع کیا ہے۔ اس کے تعارف کے موقع پر اصل کتاب اور صاحب ِ کتاب کے بارے میں کچھ گزارشات بے محل نہ ہوں گی۔

شاہ ولی ؒاللہ محدث دہلوی (۱۷۰۳ئ-۱۷۶۲ئ) اٹھارھویں صدی میں نہ صرف برعظیم بلکہ عالم اسلام کے ایک ممتاز عالم دین‘ محدث‘مفکر اور فقیہہ ہیں‘ جنھیں بعض حضرات نے بجاطور پر مجدّدین اُمت میں شمار کیا ہے۔ ابن خلدون کے بعد آپ سب سے بڑے عمرانی مفکر (social scientist) ہیں۔مختلف علوم و فنون پر ان کی ۴۰ کے قریب کتابیں عربی اور فارسی زبان میں مطبوعہ ملتی ہیں۔ سات کتابوں کا ذکر مختلف تذکروں میں ملتاہے مگر ان کے مسودات ابھی تک معدوم ہیں۔ آپ کی یہ جملہ کتب قرآن‘ تفسیر‘ حدیث‘ اصول فقہ‘ عقائد و کلام‘ تصوف‘ تاریخ اور سیرت جیسے اہم موضوعات پر لکھی گئی ہیں۔ ہرچند یہ تمام کتب اپنے اپنے دائرہ علمی میں ایک ممتاز حیثیت رکھتی ہیں مگر ان سب میں گل سرسبد کی حیثیت ان کی تصنیف  حجۃ اللّٰہ البالغہ کو حاصل ہے۔ برعظیم میں علم حدیث کے مطالعہ و تحقیق کی سب سے محکم روایت کے بانی خود شاہ ولی ؒ اللہ ہیں‘ جن سے برعظیم کے تمام مکاتب فکر اور مسالک نے خوشہ چینی کی ہے اور فیض حاصل کیا ہے۔ آپ کے نامور فرزندوں نے اس علمی اور عملی سلسلے کو مزید کمالات عطا کیے ہیں۔ برعظیم کے اسلامیان بالخصوص اور پوری ملت اسلامیہ کے بالعموم ‘ اس خاندان کی خدمات سے کبھی صرفِ نظر نہ کرسکیں گے۔

حجۃ اللّٰہ البالغہ ‘ شاہ ولی  ؒاللہ نے حرمین سے واپسی (دسمبر ۱۷۳۲ئ) کے بعد لکھنا شروع کی اور قیاساً انھوں نے اسے ۱۷۴۲ء تک ختم کرلیا تھا۔ اس کتاب کے مطالعے سے ان کی محدثانہ بصیرت کا احساس ہوتا ہے۔ یہ کتاب نہ صرف اپنے عہد کی سب سے ممتاز تصنیف ہے جس نے برعظیم کی فرقہ وارانہ فضا میں اسلام کے مسلکِ اعتدال کو پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی بلکہ مابعد کی صدیوں میں سیکڑوں علماے عرب وعجم کو بھی متاثر کیا جن میں علامہ رشید رضا ؒ، علامہ محمداقبال ؒاورسیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے نام بطور خاص لیے جا سکتے ہیں۔

شاہ ولی ؒاللہ نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ اورنگ زیب عالم گیر کی وفات (۱۷۰۷ئ) کے بعد مغل خاندان کے تیز رفتار انحطاط کا دور تھا۔ ۶۰ برسوں میں دہلی کے تخت پر ۱۰حکمران براجمان ہوئے مگر استحکامِ سلطنت نام کی کوئی شے دکھائی نہیں دیتی۔ اس دور میں مسلمان فقہی طبقات میں منقسم اور تقلیدِ جامد کی گرفت میں تھے‘ تصوف کے مختلف سلاسل میں بٹے ہوئے تھے‘ یا برعظیم کی مخصوص فضا میں شیعہ سُنّی تعصبات کے باعث اُمت واحدہ کا تصور معدوم ہوتا جا رہا تھا۔ شاہ صاحب نے اس اختلاف زدہ ماحول میں اور فقہی نزاعات کی دلدل میں اترے ہوئے علما و صوفیا کو ایک مسلکِ اعتدال  پر لانے کی کامیاب علمی کوشش کی۔ اس لحاظ سے حرمین سے واپسی کے بعد ان کی بیشتر تحریروں بالخصوص حجۃ اللّٰہ البالغہ کا موضوع مختلف فقہی طبقات کے عقائد و افکار میں مطابقت کے پہلو نمایاں کرکے ان میں اعتدال کی روش اور اُمت واحدہ کے احسا س کو بیداراور تازہ کرنا ہے۔ اس علمی منہج اور مقصود کے لیے انھوں نے قرآن مجید کے بعد سب سے زیادہ استفادہ احادیث صحیحہ سے کیا۔ شاہ صاحب کے اس عظیم کام کو اسلوبِ تطبیق کا نام دیا جا سکتا ہے۔ تطبیق کا یہ اسلوب اورفن   شاہ صاحب کی تحریروں کا امتیاز اور کمال ہے اور اس کے اثرات نے اُمت کے جمود کو توڑ کر جہادی اور اجتہادی فکر کی لہریں پیدا کیں۔

آج اُمت مسلمہ میں اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود جو اتحادِ اُمت کی ایک خواہش  اور شریعت ِاسلامی کے احیا کی جو ایک تڑپ پائی جاتی ہے‘ اس میں شاہ صاحب کی تصنیف   حجۃ اللّٰہ البالغہ کا بہت نمایاں کردار ہے۔ شاہ صاحب نے ایک طرف حنفی‘ شافعی‘ حنبلی‘ مالکی اور اہلحدیث کے درمیان مشترکہ فکر کی اساس کو واضح کیا‘ تو دوسری طرف صوفی اور غیرصوفی علما کے درمیان موافقت تلاش کی۔ تیسری طرف معتزلہ‘ اشاعرہ‘ ماتریدیہ اور اہل حدیث کے درمیان فلسفہ و شریعت کی مغائرت کو دُور کر کے قربت کی راہیں کھولیں‘ اور چوتھی طرف تسنن اور تشیع کے درمیان بڑھتے ہوئے سیاسی اختلافات کو اعتدال اور ادب کی حدود سے شناسا کیا۔ اس تمام ترعلمی کاوش اور عملی جدوجہد میں ان کا اصل ہتھیار اصولِ مطابقت ہے‘ جس کا چشمہء صافی کتاب و سنت کے علاوہ کچھ اور نہیں‘ مگر انھی منابع علم اور مصادر تحقیق سے انھوں نے استخراج نتائج کا ایک ایسا جہان آباد کیا جسے ہم ملت اسلامی کے فکر وعمل میں الہیات کی تشکیلِ جدید کا نام دے سکتے ہیں۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر بعد کی صدیوں میں تاریخ دعوت و عزیمت کے قافلے فکر ولی اللہٰی سے استفادہ کرتے رہے اور ہنوز کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

اٹھارھویں صدی عیسوی میں فلسفۂ اسلام کی تدوین کا یہ عظیم شاہکار‘ یعنی حجۃ اللّٰہ البالغہ جو عربی زبان کی دو جلدوں پرمشتمل ہے ‘سامنے آیا ہے۔ اس کا آغاز مابعدالطبیعیاتی افکار و مسائل سے ہوتا ہے اور پھر عبادات اور احکامِ شریعت کے عظیم تر مصالح کی وضاحت پر ختم ہوتا ہے۔ اس کام کے لیے جس نوعیت کی شخصیت کا ہونا ضروری تھا ‘ اس کے متعلق خود شاہ صاحب لکھتے ہیں: ’’صرف وہی شخص اس میدان کا شہسوار بن سکتا ہے‘ جس کو تمام علومِ دینیہ پرکامل عبور ہو‘ نیز اس علم کے متعلق‘ اسی کو وہبی شرح صدر حاصل ہو سکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے علم لدنی سے بہرۂ وافی عطا کیا ہو اور اس کے سینے کو تعلیمات الٰہیہ کے اسرار سمجھنے سے بھردیا ہو۔ یہ بھی شرط ہے کہ اس کا ذہن غیرمعمولی طور پر زود رس ہو اور وہ نگاہ ژرف بیں رکھتا ہو‘ ساتھ ہی اس میں یہ قابلیت ہو کہ دقیق سے دقیق مضمون کو وہ عام فہم پیرایے میں بیان کر سکے۔ نئے اصول قائم کر کے‘ ان سے نتائج اخذ کرنے کی وہ کامل استعداد رکھتا ہو اور منقول کو معقول کے ساتھ تطبیق دینے اور قابلِ قبول صورت میں لوگوں کے سامنے پیش کرنے میں اس کو پوری دسترس حاصل ہو‘‘۔

زیرتبصرہ کتاب اسی حجۃ اللّٰہ البالغہ کا انگریزی ترجمہ ہے جسے پاکستانی نژاد محقق اور اسکالر ڈاکٹر فضل الرحمن کے ایما پر امریکی خاتون اور الٰہیات کی محققہ مارسیہ کے ہرمینسن نے کیا ہے‘ جسے اس مترجم نے عربی کے دو اور ایک اُردو ترجمے کی مدد سے مکمل کیا ہے۔ عربی زبان میں اس کا ایک محقق نسخہ ایک مصری اسکالر السیدسابق نے ۱۹۵۳ء میں مرتب کیاتھا۔ فاضل مترجمہ نے اس اہم کتاب کے کامل ترجمے کی بجاے اس کے سات اہم ابواب میں شامل ۸۵ مباحث کے ترجمے پر اکتفا کیا ہے۔ اصل کتاب کی فہرست اور اس ترجمے کے مندرجات کے تقابل سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ کن کن ابواب کے کن کن مباحث کونظرانداز کیا گیا ہے۔ کاش! فاضل مترجمہ نظرانداز کردہ حصوں کو شامل نہ کرنے کی وجوہ بھی لکھ دیتیں‘ تو مناسب ہوتا۔

شاہ ولی ؒاللہ کی اس شاہکار تصنیف پر فاضل مترجمہ نے اپنا دیباچہ تحریر کرتے ہوئے یہ بات واضح کی ہے کہ ان کی اس کتاب کا لوازمہ ان کی بہت سی دیگر کتابوں میں بھی ملتا ہے۔ ترجمے کے مطالعے سے احساس ہوتا ہے کہ وہ اس کتاب کے مقصدِ تحریر سے بخوبی آگاہ ہیں۔ مغرب کی علمی تحقیق کے طرز کے مطابق متن کے فٹ نوٹس میں کچھ حوالوں کی تخریج اور چند مقامات پر مختصر حواشی کا التزام بھی کیا گیا ہے۔ انتہاے آخر میں کتابیات کے علاوہ قرآنی آیات‘ احادیث‘ اسما اور مضامین و اصطلاحات کے اشاریے بھی ترتیب دیے گئے ہیں‘ جس سے کتاب کی افادیت میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ ترجمہ حسنِ طباعت کا ایک عمدہ نمونہ ہے اور ارزاں قیمت پر دستیاب ہے۔ اس انگریزی ترجمے سے مسلم اور غیرمسلم دنیا کے انگریزی خواں حضرات اسلام کے عقائد‘ عبادات‘معاملات‘ امورمملکت‘ اخلاق و معاشرت کے علاوہ اس کی عمرانی‘ تمدنی‘ ثقافتی اور معاشی تعلیمات کے بارے میں  واضح علم حاصل کرسکیں گے۔ موجودہ عہد کے وہ تمام اہل فکرونظر جو الٰہیات کی اسلامی تشکیلِ جدید کے موضوع سے دل چسپی رکھتے ہیں‘ اس ترجمے کے مطالعے سے ایک جدید زبان اور ایک جدید تر اسلوب میں برعظیم کے سب سے بڑے مفکر‘ محدث‘ فقیہہ اور مجتہد کے روشن خیالات سے مستفید ہوسکیں گے۔ امید ہے کہ ہماری جامعات کے اساتذہ اور طلبہ اور ہمارے قانونی‘ عدالتی‘ معاشی   اور معاشرتی اداروں سے متعلق اربابِ اختیار اس سے کماحقہ استفادہ کریں گے۔ ( The Conclusive Argument From God ‘ ] حجۃ اللّٰہ البالغہ[ شاہ ولی اللہ دہلویؒ،مترجم: مارسیہ کے‘ ہرمینسن (Marcia K. Hermansen) ‘ادارہ تحقیقات اسلامی‘ بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۵۰۶۔ قیمت: ۵۵۰ روپے‘۲۰۰۳ئ)

مغرب (مغربی یورپ اور امریکہ) کے معاشروں کو اکیسویں صدی میں جن مسائل کا سامنا کرنا پڑا‘ ان میں سے ایک روایتی ازدواجی رشتوں کی شکست و ریخت اور نتیجتاً خاندان کی ٹوٹ پھوٹ کا مسئلہ ہے۔ ’’تغیرجنس کا معاشرہ: نسوانیت زدہ برطانیہ اور مردانگی سے محروم مرد‘‘ (The Sex Change Society - Feminized Britain and the Neutered Male)جدید دنیا کے اس رجحان کا ایک تحقیقی اور نہایت سنجیدہ مطالعہ ہے۔ مصنفہ میلینی فلپس (Melanie Phillips)نے اگرچہ اپنی اس تحقیقی کوشش کو بڑی حد تک صرف برطانوی معاشرے کے مطالعے ہی تک محدود رکھا ہے‘ لیکن یہ بات واضح ہے کہ جس رجحان کی طرف برطانوی معاشرے کی حرکت کی نشان دہی کی گئی ہے‘ وہ کسی طرح بھی صرف برطانیہ تک محدود نہیں‘ بلکہ آج کی دنیا کا قائد مغرب دنیا کے سبھی معاشروں کو اسی سمت میں کشاں کشاں لے   جا رہا ہے‘ اور عموماً اس رجحان کو ’’ترقی‘‘ کی علامتوں میں سے ایک علامت کے طور پر لیا جا رہا ہے۔

آزادیِ نسواں کا تصور نیا نہیں‘ لیکن اب اس کے ساتھ جو ایک نیا تصور اُبھارا گیا ہے‘ وہ مرد کی مذمت ہے۔ جدید مغربی معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ‘ نوعِ انسانی کا ’’مذکّر‘‘ہے۔ انھیں کام اور پیشے کی پروا نہیں‘ بے روزگار‘ بے کار اور لڑکیوں اور عورتوں سے چالاکی میں فزوں‘ یہ نوجوان لڑکے اور مرد اپنے فطری رجحان‘ یعنی عصمت دری اور غارت گری میں ہر جگہ مصروف نظر آتے ہیں۔ اسکول سے نکلتے ہی وہ شراب اورمنشیات میں اور دوسرے جرائم میں مشغول اور ’’گرل فرینڈز‘‘ کو قطار اندر قطار اولاد کی نعمت سے بہرہ ور کرتے پائے جاتے ہیں۔ آج کتابوں اور مضامین کا انبار ان موضوعات (لڑکے‘ مرد اور مردانگی) سے اٹا پڑا ہے۔ ’’لونڈاپے کا رویہ (Laddish behaviour) ‘برطانوی حکومت کے لیے ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ وزیرداخلہ جیک اسٹرا (Jack Straw) فرماتے ہیں: ’’بے ہنر‘ کم تعلیم یافتہ نوجوانوں سے نمٹنا ہمارے لیے اہم ترین‘ واحد نہایت سنجیدہ مسئلہ ہے‘ جس سے ہم دوچار ہیں‘‘۔

نوجوانوں سے کہا جا رہا ہے کہ سنجیدگی اختیار کریں‘ اپنی ذمّہ داریاں محسوس کریں‘ اور اینڈی برن کے رویے سے گریز کریں‘ جس نے ۱۵ سالوں میں بے قید نکاح سے نوکم سن لڑکیوں سے نو بچے پیدا کرلیے‘ جن کی اس پر کوئی ذمّہ داری نہیں‘ کیوں کہ اس کا بوجھ تو حکومت اُٹھاتی ہے۔ اب وہ ۳۱ سال کا ہے‘ اور کہتاہے کہ ’’میں صرف بچے پیدا کرنے ہی کے کام آسکتا ہوں‘ اور کوئی کام مجھ سے ہونہیں سکتا!‘‘ اس کا خیال ہے کہ اس طرح سے وہ ایک سماجی خدمت انجام دے رہا ہے‘ کیوں کہ ’’ان مائوں‘‘ کو سرکاری فلیٹ کے حصول میں ترجیح حاصل ہو جاتی ہے۔ یہ نوجوان دوسرے کارنامے بھی انجام دیتے ہیں‘ جن میں لوٹ مار‘ نشے کی حالت میں ڈرائیونگ‘ توڑپھوڑ،’’گینگ وار‘‘ پولیس اور قانون نافذ کرنے والوں سے لڑائیاں‘ڈکیتیاں‘ اور عورتوں کو مارنا پیٹنا اور قتل جیسی وارداتیں شامل ہیں۔

اس طرح کی بہت سی کہانیاں ہر روز اخباروں میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ مرد کی تصویرکشی یوں کی جا رہی ہے کہ وہ پیدایشی طور پر عورت باز‘ سفّاک اور نامعتبر ہوتا ہے۔ یہی ان کا اصلی کردار ہے۔ اس کے مقابلے میں عورت سدا کی دکھیاری‘ صبروبرداشت کا پیکر اور مرد کی زیادتیوں کا شکار رہی ہے‘ اور ہے۔ اب خواتین مردوں کی جو تصویرکشی کر رہی ہیں بہت سے حلقے انھیں ایک فطری ردعمل قرار دیتے ہیں۔ مردوں کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ انھیں بہ نظر تحقیر دیکھا جاتا ہے: یہ معاشرے کے اُس احمق طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جسے ہر شعبے میں خواتین کے مقابلے میں شکست کا سامنا ہے۔ نہ صرف وہ خواتین کے مقابلے میں کم عقل‘ بلکہ کم تر درجے کے اخلاق کے حامل‘ کندذہن‘ اُجڈ‘ بدتمیز‘ حسِ لطیف سے عاری‘ خودغرض‘ محدود مقاصد کے پرستار‘ سماج دشمن اور حد یہ کہ جنسی طور پر بھی پس ماندہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیںاور پھر پیدایشی طور پر وہ متشدد بھی ہیں۔ گویا وہ کسی دوسری دنیا کی مخلوق ہیں‘ اور یہاں صرف انسانوں کی آبادی بڑھانے کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ بھلا ہو جدید سائنس کااب ان کا یہ کردار بھی محدود ہوچلا ہے۔ نئی فنّیات نے ان کے وجود کو بے مصرف بنا دیا ہے‘ کیوں کہ نسل کو چلانے کے لیے ہمیں ’’اسپرم فارم‘‘ پر صرف چند ہی معطی درکار ہوں گے‘ جہاں انھیں تھوڑا سا پیزا‘ تھوڑی سی شراب اور ’’پلے بوائے‘‘ میگزین جیسی چند چیزوں کی ضرورت ہوگی اور بس۔ نسل کُشی کے لیے ان کروڑوں مردوں کی کیا ضرورت ہے؟

میڈیا‘غلط نہیں کہتا۔ اب لڑکیاں‘ لڑکوں کے مقابلے میں بہتر کارکردگی دکھا رہی ہیں۔ (انگلستان میں) ۱۹۹۶ء میں مردوں کے مقابلے میں زیادہ خواتین طبّی تعلیم کے اداروں میں داخل ہوئیں‘ اور ۱۹۹۱ء میں قانون کے پیشے میں داخل ہونے والوں میں خواتین کی اکثریت تھی۔ سبھی تعلیمی اداروں میں لڑکیاں‘ لڑکوں کے مقابلے میں آگے ہیں‘ اب وہ کسی بھی میدان میں کیوں پیچھے رہیں؟

صاف نظرآرہا ہے کہ مرد سخت دبائو کا شکار ہیں۔ مرد محسوس کرتے ہیں کہ ان کی مردانگی خطرے میں ہے۔ مگر دبائو کا شکار تو خواتین بھی ہو رہی ہیں۔ اب ان کی ذمّہ داریاں گھر تک محدود نہیں رہیں۔ کام کرنے والی خواتین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے‘ اور ان کی ذمّہ داریاں بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔ انھیں گھر اور بچوں کو بھی دیکھنا ہوتا ہے ‘ اور اپنے کام (پیشے) کے ساتھ بھی انصاف کرنا ہوتا ہے‘ تاہم ان کی جسمانی ساخت ہی ہر ماہ انھیںیاد دلاتی ہے کہ وہ مختلف ہیں۔ پھر فطری طور پر بچے بھی انھی کو پیدا کرنے ہوتے ہیں‘ اگرچہ بہت سی خواتین اس بچے پیدا کرنے کے رول سے اب انکاری ہوتی جا رہی ہیں۔ ’ایک زمانہ تھا کہ کچھ کام مردوں کے کرنے کے ہوا کرتے تھے‘ اور کچھ عورتوں کے۔ اب عورتیں‘ مردوں کے کام کر رہی ہیں‘ مگر مرد عورتوں کے کام نہیں کر رہے‘  (ایک ۱۴ سالہ لڑکی)۔

اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ۱۹۸۶ء سے غیرشادی شدہ تنہا مائوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ۱۹۷۶ء میں غیرشادی شدہ مائیں ۹ فی صد تھیں‘ ۱۹۹۶ء میں ۳۶ فی صد ولادتیں بلانکاح ہوئیں‘ اور اب انگلستان میں نصف حمل شادی کے بغیرہی قرار پاتے ہیں (ص ۳۶)۔ پہلے اس طرح کی مائوں کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا‘ اب اس طرح کی کوئی بات نہیں بلکہ یہ عورت کا حق ہے کہ جب چاہے اور جیسے چاہے ماں بن جائے (یا نہ بنے)۔

اکیلی مائوں (Lone mothers) کی تحقیر کی بجاے تعظیم کی جاتی ہے اور ان کی رُوح حرّیت کو بہ نظراستحسان دیکھا جاتا ہے۔ اب عورتیں یہ محسوس کرنے لگی ہیں کہ انھیں بچوں کی پرورش کے لیے مردوں کی ضرورت نہیں‘ پرورش تو بعد کا مرحلہ ہے‘ انھیں ’’بارور‘‘ہونے کے لیے بھی کسی مرد کی ضرورت نہیں۔ کیرول فاکس (Carol Fox) --- اسکاٹش پارلیمان کے لیے لیبرامیدوار --- نے خود کو دوسرے بچے کی ماں بنانے کے لیے ۱۵ ہزار پائونڈ خرچ کیے اور بارھویں کوشش کے بعد مصنوعی طور پر بارآور ہونے میں کامیاب ہوئی (اس کی پہلی بیٹی نتاشا بھی یونہی پیدا ہوئی تھی)۔بلاشوہر بچوں کی پیدایش (اگر خواہش ہو) اب شرم کی بجاے فخرکی بات ہے‘ اور مشہور خواتین اسے ایک بلند درجے کی علامت (status symbol) کے طور پر لیتی ہیں۔ بہت سی خواتین برملا کہتی ہیں کہ وہ اپنے دوستوں کو ایک ’’ذریعے‘‘ یا ’’آلۂ کار‘‘کے طور پر استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں محسوس کرتیں۔ ایک نیا رجحان یہ بھی ہے کہ مصنوعی تخم کاری سے پہلے کئی مردوں کے تخم یوں باہم آمیز کر دیے جائیں کہ پتا ہی نہ چل سکے کہ ہونے والے بچے کا باپ کون ہے!

خواتین میں آزادی کی یہ لہرکم سن لڑکیوں کو بھی اپنی آغوش میں لے چکی ہے۔ صرف انگلستان میں ہر سال (۱۹۹۹ئ) ۹۰ ہزار نوبالغ لڑکیاں (teenagers)حاملہ ہوتی ہیں‘(ان میں سے ۷ہزار ۷ سو کی عمر ۱۶ سال سے کم ہوتی ہے)‘ اور۵۶ ہزار بچے پیدا کرتی ہیں۔ ان میں سے اکثر خود بھی ’’تنہا مائوں‘‘ کی اولاد ہوتی ہیں۔ فطری طور پر وہ اپنے بچوں کی اس سماجی ماحول میں پرورش نہیں کرپاتیں (نہ انھیں اس کی تعلیم دی گئی تھی) کہ وہ متوازن ذہنی اور نفسیاتی اٹھان کے ساتھ پرورش پائیں۔ ۹ سے ۱۵ سال کی عمر کی ان مائوں کے بچے ظاہر ہے مسائل کا انبار ہوتے ہیں۔

مردوں پر انحصار سے آزادی کے نتیجے میں نہ صرف شادی کے بندھن کمزور ہوئے ہیں‘ بلکہ طلاقوں کی بھی کثرت ہوئی ہے۔ وکیلوں کے مطابق طلاق کی بڑی وجہ بُرا کردار نہیں‘ بلکہ  میاں بیوی میں گفتگو اور رابطے کی کمی‘ شوہر کا توقعات پر پورا نہ اُترنا اور ایسی ہی چھوٹی موٹی اور نامعلوم وجوہ ہوتی ہیں۔ تعلیم اور ملازمتوں کے مواقع نے خواتین کی توقعات بڑھا دی ہیں‘ اور اب وہ کم پر گزارہ کرنے پر تیار نہیں۔

مابعد الطلاق کلچر میں (خصوصاً جہاں خواتین مناسب روزگار سے بہرہ ور ہوں)    ’’ہم خانگی‘‘ نے بھی فروغ پایا ہے۔ ۱۹۸۰ء اور ۱۹۹۵ء کے درمیان انگلستان میں غیرشادی شدہ مرد کے ساتھ ایک ہی گھر (فلیٹ) میں رہنے والی عورتوں کی تعداد ۱۱ فی صد سے بڑھ کر ۵۵ فی صد تک پہنچ گئی۔ یہ غیرشادی شدہ جوڑے میاں بیوی کے مقابلے میں خود کو زیادہ آزاد‘ زیادہ ’’محفوظ‘‘اور طلاق اور وراثت کے قانونی جھمیلوں سے دُور محسوس کرتے ہیں۔ اگرچہ ان تعلقات کا دورانیہ اوسطاً دو سال سے زیادہ نہیں ہوتا‘ لیکن اس دوران بچوں کی پیدایش سے اس تعلق کی بقا پر عموماً منفی اثرات ہی مرتب ہوتے ہیں۔ چوں کہ ہم خانگی کے اس تعلق میں دونوں فریق عموماً معاشی طور پر آزاد ہوتے ہیں‘ اور اس طرح کوئی کسی کا ’’قوام‘‘نہیں ہوتا‘ یہ تعلقات زیادہ دن نہیں چلتے۔ جہاں مرد ہی کماتے ہیں‘ وہ جلد ہی ’’نکھٹو اور بے روزگار ساتھی‘‘ سے بے زار ہوجاتے ہیں۔ اس طرح کلاسیکی عیسائیت نے ساری عمر کے لیے جس بندھن کی رِیت ڈالی تھی وہ ٹوٹ چکا ہے‘ اور اس میں نقصان عورت ہی کا ہوا ہے۔

عورت (خصوصاً ماں) تنہا اپنا اور اپنے بچوں کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتی۔ نکاح‘ صرف مردکے ساتھ اختلاط ہی نہیں۔ وہ آنے والی نسل (جس کی پیدایش صرف عورت ہی کے ذمّے ہے) کا محافظ اور ایک خاندان کا سربراہ بھی ہوتا ہے۔ لیکن ۱۹۷۲ء میں امریکی مفکرۂ سماجیات جیسی برنارڈ (Jessie Bernard) نے کہا تھا کہ ’’شادی‘ عورت کے لیے نقصان دہ‘ خطرناک ہوسکتی ہے‘‘۔ حقوقِ نسواں کی علم بردار تنظیموں نے اس کو خوب اُچھالا‘ مگر حقیقت اس کے خلاف ہے۔ شادی شدہ خواتین میں بیماریوں اور ناوقت اموات کا تناسب کم ہے۔ ذہنی‘ جسمانی اور سماجی طور پر وہ زیادہ متوازن اور خوش و خرم رہتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے بیشتر معاشروں میں مردوں اور عورتوں کے درمیان یہ فطری تقسیمِ کار ایک زمانے سے موجود اور اب بھی قائم ہے کہ مرد کو بنیادی طور پر معاشی بوجھ اُٹھانے والا‘ اور عورت کو بنیادی طور پر گھر کی دیکھ بھال اور بچوں کی پرورش کا رول دیا گیا ہے۔ یہ ان کی ذہنی‘ جسمانی اورنفسیاتی ساخت کے عین مطابق ہے۔ بدقسمتی سے غیر فطری طور پر خواتین کی آزادی کے نام پرتقسیمِ کار کے اس توازن کو بگاڑ دیا گیا ہے۔ عورتوں کو کام کرنے اور روزی کمانے پر راغب کیا جا رہا ہے کہ وہ معاشرے کی ’’مفید‘‘ اور ’’کارآمد‘‘شہری بن سکیں‘ تاہم انگلستان اور بعض دوسرے مغربی ملکوں میں بچوں کو پالنے اور اُن کا خرچ اُٹھانے کی بیشتر ذمہ داری باپ کی بجاے ریاست نے سنبھال لی ہے۔ کیوں کہ   بے شوہر کی ایسی بیشتر مائیں کم یافت کے پیشوں سے منسلک ہیں‘ اور وہ بچوں والے گھر کا پورا بوجھ نہیں اُٹھا سکتیں۔ بے باپ کی ان کی یہ اولاد بھی شفقت و تربیت ِ پدری سے محروم اُٹھتی ہے‘ اور ایک ’’بے راہ رَو‘‘ اور خاطی نسل ہی کو جنم دیتی ہے۔کیوں کہ معاشی طور پر مصروف ماں کے پاس باپ کے خلا کو پُرکرنے کا وقت نہیں ہوتا‘ اور نہ وہ ایسے وسیع تر خاندان کی باسی ہوتی ہے‘ جہاں دوسرے لوگ اولاد کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داریاں لے لیں۔ اس طرح ریاست بھی اس نئے رجحان کے فروغ میں اپنا کردار اداکر رہی ہے۔

تحریکِ نسواں کے کئی رنگ ہیں۔ جیسا کہ شروع میں کہا جا چکا ہے‘ مردوں کو خلقی طور پر غیرذمّہ دار‘ بدخو‘ تُندمزاج اور غبی دکھایا گیا۔ ایک دوسرے رنگ میں ان کی تصویرکشی یوں کی گئی کہ وہ عیاری سے عورتوں کا استحصال کرنے والے‘ انھیں غلام (لونڈی؟) بنانے والے اور کسی بھی اخلاقی معیار سے عاری ایک مخلوق ہیں۔ مظلوم عورتوں کو خاندان کے ’’بیگار کیمپ‘‘ سے چھٹکارا پالینا چاہیے‘ اور اپنی خواہش اور ضرورت پر ہی ان سے مرضی کے مطابق تعلق قائم کرنا چاہیے۔ پہلے ’’مساوی حقوق‘‘ اور صنفی برابری کی بات ہوئی اور پھر ’’نسائی برتری‘‘ کا فلسفہ پیش کیا گیا‘ اور تحریک نے اب ایک جارحانہ روش اختیار کرلی ہے‘ جس میں مردوں کا مقام شہد کی مکھیوں کے نکھٹّو نر(drones) سے زیادہ نہیں ہے۔ ایک ’’معتدل‘‘رجحان یہ بھی تھا کہ صنفی رول کا اختلاف فطرت کا پیدا کردہ نہیں‘بلکہ مصنوعی اور معاشرے کا پیدا کردہ ہے۔ ’’نہ ہر زن است و نہ ہر مرد‘ مرد‘‘ (ہر عورت‘ عورت نہیں‘ اور نہ ہر مرد‘ مرد ہوتا ہے)۔ جسمانی اور خلقی فرق بہت معمولی سا ہے‘ جسے بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ بچوں اور بچیوں کو شروع سے امتیازی تعلیم و تربیت دی جاتی ہے‘ جو درست نہیں۔ باروری کو مانع حمل طریقوں سے روکا جا سکتا ہے‘ اور ضرورت ہو تو مصنوعی طریقوں سے اولاد بھی پیدا کی جا سکتی ہے۔

امریکہ کے ماہرین عضویات اور ماہرین نفسیات اب انسانوں کی ایسی نوع کی بات کرنے لگے ہیں‘ جو صنفی امتیازات سے بلند ہو‘ یا جس میں دونوں اصناف کی خصوصیات موجود ہوں! اس طرح باپ اور ماں کا جھگڑا ہی ختم ہوجائے۔ اولگا سلورسٹین  (Olga Silverstein) ’’صنفی اختلاف کے خاتمے‘‘ کی بات کرتی ہیں‘ اور سوسان مولر اوکن (Susan Moller Okin) ایک ایسے ’’عادلانہ مستقبل‘‘ کی نوید دیتی ہیں‘ جو ’’صنف ]کی آلایش[ سے پاک ہوگا‘‘۔ یہ تجویز بھی سامنے آئی ہے کہ مردوں کا کچھ اس طرح علاج کیا جائے کہ ان میں عورتوں کی خصوصیات پیدا ہوجائیں۔ اس طرح مردوں نے نسوانیت کے جس جال میں طبقۂ اناث کو پھانس رکھا ہے‘ اس سے آزادی‘ ایک مثالی معاشرے کے لیے ناگزیر ہے۔ (ص ۱۷۴-۱۷۵)

یہ تو تھی نسائی تحریکوں کی بات۔ مغرب میں خود ریاست اور سرکاری مشینری بھی ’’ماضی کی غلطیوں‘‘ کی اصلاح کرنے میں پیچھے نہیں۔ ۱۹۹۹ء میں برطانیہ کے وزیرخزانہ گورڈن برائون (G.Brown) نے بجٹ پیش کرتے ہوئے نوید سنائی کہ یہ ’’خواتین کے لیے بجٹ ہے‘‘۔ ساری تنہا مائیں کام کرنا چاہتی ہیں‘ اور ریاست بھی انھیں مفید کام پر لگانا چاہتی ہے۔ بے شادی والی مائیں‘ سرکاری امداد وصول کرنے والا سب سے بڑا گروہ بن چکی ہیں‘ اس لیے انھیں روزی کمانے پر آمادہ کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ اب صورت یہ ہے کہ جاب مارکیٹ میں آسامیاں تو محدود ہیں‘ اور امیدوار زیادہ۔ حکومتی پالیسی یہ ہے کہ تنہا مائوں کو شادی شدہ پر‘ اور کام کرنے والی مائوں کو خواتین خانہ پر ترجیح دی جائے۔ یہ بھی ایک طرح کی سماجی انجینیرنگ ہے۔ اگرچہ ’’قدامت پسند‘‘ اور ’’جدید لیبر‘‘ دونوں گروہ‘ شادی خانہ آبادی کی اہمیت پر وعظ کہتے رہتے ہیں‘ لیکن عملاً صورتِ حال یہ ہے کہ بقول  فائننشل ٹائمز (Financial Times) حکومت کی پالیسی کے مطابق بچے کے سارے فوائد ماں ہی کے حصے میں جاتے ہیں‘ اور آج کی مائیں مردوں سے آزاد اور کل وقتی ماں کے تصور سے دُور ہٹتی جا رہی ہیں۔

مصنفہ کہتی ہیں کہ کوئی مہذب معاشرہ یہ توقع نہیں رکھے گا کہ عورت روزی کمانے اور گھر کی دیکھ بھال اور بچوں کی پرورش کی دُہری ذمہ داریوں کا بوجھ اُٹھائے۔ لاکھوں نوجوان خواتین کو روزی کمانے کے لیے بازار میں بھیج کر نہ صرف مسابقت میں اضافہ کر دیا گیا ہے ‘ بلکہ اس طرح تنخواہ/مزدوری کی شرح میں بھی کمی ہوئی ہے (سرمایہ داری میں طلب و رسد کا قانون)۔ نوجوان مردوں کی کم یافت‘ انھیں شادی کو ملتوی کرنے (یا اس سے دست بردار ہونے) پر مجبور کر دیتی ہے‘ اس سے پھر ’’بلانکاح ازدواج‘‘ اور ’’ہم خانگی‘‘، ’’یک زوجی‘‘ یا ’’تنہا مادری‘‘ کے مسائل جنم لیتے ہیں‘ اور پھر وہی سماجی اور اقتصادی مسائل پیدا ہوجاتے ہیں‘ جنھیں حل کرنے یا کم کرنے کے لیے یہ تدبیریں کی گئی تھیں۔ برطانیہ میں’’شعوری طور پر‘ تدریجاً‘ پدریّت کو تباہ کیا جارہا ہے‘‘۔اور اس کے نتیجے میں مردوں اور لڑکوں میں مایوسی‘ غیرذمّہ دارانہ رویے اور تشدد کے رجحانات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لڑکے‘ اب اسکول میں پس ماندہ ہوتے جا رہے ہیں۔ مردوں کے گروہ اور تنظیمیں وجود میں آرہی ہیں‘ جنھیں حکومت اور معاشرے سے بڑی شکایتیں ہیں۔ مردوں نے اپنی نئی نسل میں دل چسپی لیناکم کر دی ہے۔ نئی فنیّات نے خواتین کو بڑی حد تک مردوں سے مستغنی کر دیا ہے۔

’’عورتوں کی آزادی اور مردوں کی غیرذمّہ داری‘‘ ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں۔ خاندان کی شکست و ریخت‘ معاشرے کی شکست و ریخت کا پیش خیمہ ہے‘ اگرچہ اس کا اعتراف نہیں کیا جا رہا۔ خواتین کی حقیقی شکایات اور ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے تدارک نے اب نوبت یہاں تک پہنچا دی ہے کہ ریاست اور ابلاغ کے سارے ذرائع مردوں کو دوسرے‘ بلکہ تیسرے درجے کی صنف سے بڑھ کر کوئی درجہ دینے کے لیے رضامند نظر نہیں آتے۔ حقیقت یہ ہے کہ مرد اور عورت کا تعلق بہت پیچیدہ اور نازک ہے۔ انسانی معاشرے نے ہزاروں سال کے تجربے کے بعد ایک خاندانی نظام وضع کیا ہے‘ جس میں باپ کا ایک کردار ہے‘ اور ایک کردار ماں کا۔ مرد اور عورت صنفی طور پر مختلف ہیں۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے۔ دونوں کے حقوق مساوی ہیں‘ مگر یکساں نہیں۔ان کے درمیان تقسیمِ کار عین تقاضاے فطرت ہے۔ سبھی سماجوں میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ کچھ بوجھ وہ ہیں‘ جو عورتیں نہیں اُٹھا سکتیں اور کچھ وہ ہیں‘ جن کے لیے مرد بنائے ہی نہیں گئے اور صرف عورتیں ہی انھیں اٹھا سکتی ہیں۔ مردو زن کی کلّی مساوات کا تصور بھی اسی قدر احمقانہ ہے‘ جس قدر عورت کی برتری کا۔

بدقسمتی سے ’’بے خدا‘‘ معاشروں میں توازن کم ہی نظرآتا ہے۔ کہیں تو یہ کہا جا رہا تھا کہ ’اے عورت‘ تیرا ہی نام کمزوری ہے (شیکسپیئر)‘ اور ’وہ آدمی کتنا بے وقوف ہوتا ہے‘ جو ایک عیار عورت کا شکار ہو کر بیوی کا بوجھ اٹھا لیتا ہے‘ (شوپنہائر)۔ کہیں اُسے محض خادمہ اور لونڈی سے بڑھ کر کوئی درجہ نہیں دیاجاتا‘ اور حیوانوں کی طرح اس کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ اور پھر جب پنڈولم دوسری سمت میں حرکت کرتا ہے‘ تو نئی آزاد عورت وجود میں آتی ہے‘ جو قیدِنکاح ہی نہیں‘ خود کو ہرقیدسے آزاد تصور کرتی ہے--- شاید اُسے معلوم نہیں کہ اس کی یہ آزادی بھی ایک عیار اور سفاک مرد کا دامِ تزویر ہے! (Melanie Phillips: The  Sex-Change Society - Feminised Britain and the Neutered Man; The Social Market Foundation, London, 1990.)

سوشل مارکیٹ فائونڈیشن‘ برطانیہ کا ایک خودمختار ادارہ ہے‘ جو معاشیات اور دوسرے سماجی مسائل پر تحقیق کے لیے اہل فکر کو دعوت دیتا ہے‘ اور ان کی نگارشات کی اشاعت کا انتظام کرتا ہے۔ میلینی فلپس ایک سماجی محقق‘ شادی شدہ اور دو بچوں کی ماں‘ ایک برطانوی شہری ہیں۔

۱۳ فروری ۱۹۹۷ء کو جب میں عالمی بنک (ورلڈ بنک) کے چیف اکانومسٹ اور سینئروائس پریذنڈنٹ کی حیثیت میں واشنگٹن میں اپنے دفترکی عظیم الشان جدید عمارت میں داخل ہوا‘ تو پہلی چیز جس پر میری توجہ مرکوز ہوئی وہ اس ادارے کا رہنما اصول تھا: ’’ہمارا خواب ہے ایک ایسی دنیا جس میں غربت نہ ہو‘‘ … سڑک کی دوسری جانب سرکاری ثروت کا ایک دوسرا تاب ناک شاہ کار سربلند تھا۔ یہ     بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (انٹرنیشنل مانٹیری فنڈ:IMF ) کی عمارت تھی۔ سنگ مرمر  اور پھولوں سے سجی ہوئی۔ اس کی اندرونی ساخت کو دیکھ کر غیرملکی وزراے خزانہ  اس بات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ آئی ایم ایف دولت و حشمت اور قوت کے مراکز کی نمایندگی کرتا ہے۔ (جوزف اسٹیگ لٹز‘ Globalization and its Discontents)


۱۹۹۹ء میں سیاٹل (seattle) میں جب ورلڈ ٹریڈآرگنائزیشن (WTO) کے اجلاس کے موقع پر بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہوئے اور ہزاروں امریکی سڑکوں پر نکل آئے تو انھوں نے ساری دنیا کو چونکا دیا تھا۔ عالم گیریت٭ کی لہرکے نتیجے میں پس ماندہ اور نام نہاد ’’ترقی پذیر‘‘ ملکوں میں غلط قسم کی ’’کفایت شعاری‘‘ اور نج کاری کے پروگراموں پر عوام کے احتجاج اور مظاہرے کوئی نئی بات تو نہ تھے‘ لیکن امریکہ جیسے ’’ترقی یافتہ‘‘ اور خوش حال ملک میں عوام کو کیا پڑی تھی کہ وہ عالم گیریت کی اس علامت‘ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے تھے؟ عالم گیریت اور معاشی غلبے کی اس ظالمانہ حکمت ِ عملی کو‘ جس میں کمزور اور طاقت ور کو ایک ہی اکھاڑے میں اُتار دیا گیا ہے‘ ہزار معصومیت کے پردوں میں ملفوف کیا جائے مگر پچھلی (بیسویں) صدی کے اواخر ہی میں محسوس ہونے لگا تھا کہ دنیا کے اربوں عوام کے خلاف دنیا کے قارون اور ہامان ایسی سازشیں کر رہے ہیں جن کے خلاف     مؤثر احتجاج نہ کیا گیا تو عام انسان پھر کبھی سر نہ اُٹھا سکے گا۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(IMF)‘ عالمی بنک(World Bank) اور عالمی تجارتی ادارے (WTO) کے خلاف اب ساری دنیا میں چیخ وپکار کا وہ سلسلہ شروع ہوا ہے‘ کہ ان اداروں کا جہاں بھی کوئی بڑا اجلاس ہوتا ہے‘ باشعور اور حسّاس شہری احتجاجاً سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ مگر مزے کی بات یہ ہے کہ احتجاجوں کے یہ سلسلے بڑی حد تک ’’ترقی یافتہ‘‘ اور امیرملکوں کے شہریوں ہی نے شروع کیے ہیں‘ اور پس ماندہ ملک اور ان کے شہری‘ جو ان کی پالیسیوں سے سب سے زیادہ متاثر اور ان کے غمزوں کے زیادہ گھائل ہیں اب تک خواب سے بیدار ہوتے نہیں محسوس ہوتے۔ اس کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہو کہ آلامِ روزگار میں انھیں اس طرح اسیر کر دیا گیا ہے کہ انھیں ہوش ہی نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے!

یہ عالم گیریت‘ بنیادی طور پر ساری دنیا کے ملکوں اور عوام کے درمیان تجارت‘ اور مفادات (بڑی حد تک معاشی مفادات) کے انضمام اور پیوستگی (integration)کا نام ہے‘ جو رسل و رسائل اور ابلاغ کے ذرائع میں عظیم الشان انقلاب کے نتیجے میں واقع ہوئی ہے۔ کہا گیا ہے کہ آمدورفت‘ رسل و رسائل‘ ابلاغ و اطلاع کی سُرعت اور سہولت کے نتیجے میں ساری دنیا کے ملک اور ان کے شہریوں کے درمیان نہ صرف فاصلے کم ہوئے ہیں‘ بلکہ بہت سی رکاوٹیں بھی دُور ہوئی ہیں‘ اور قدغنیں ڈھیلی پڑتی جا رہی ہیں۔ ان سہولتوں سے اشیا‘ خدمات‘ سرمائے اور اطلاع و آگاہی (علم؟) کے آزادانہ ‘ بے روک ٹوک بہائو میں تیزی اور آسانی پیدا ہو گئی ہے۔ دنیا ایک ’’عالمی قصبے‘‘ (global village) میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ ملکوں کے درمیان سیاسی لکیریں دُھندلی پڑتی جا رہی ہیں ‘ اور ساری دنیا کے لوگ ایک دوسرے سے جڑتے جا رہے ہیں۔

کیا یہ سب کچھ خوش آیند نہیں؟ کون اپنے بچے کو مرتا دیکھنا چاہتا ہے‘ جب کہ اس کے مرض کو رفع کرنے کی تدبیر اور دوا دنیا میں کہیں نہ کہیں موجود ہو۔ بہتر معاشی مواقع‘ آزاد منڈی‘ اشیا اور خدمات کی آزادانہ خریدوفروخت میں ناروا پابندیوں کے ختم ہونے سے کسے خوشی نہ ہوگی؟ بہت سے دانش وروں (اور بے شعور عوام) کا کہنا ہے کہ رسل و رسائل کے جدید ذرائع اور اُن سے بڑھ کر علم و آگاہی کے نئے وسائل نے جس طرح فاصلوں کو بے معنی بنا دیا ہے‘ اور دنیا کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے‘ اس کے زیراثر عالم گیریت نہ صرف ناگزیر ہے‘ بلکہ مستحسن بھی ہے‘ جب کہ بہت سے سوچنے سمجھنے والے ذہن اس کے فوری اور دُور رس نتائج سے مطمئن نہیں۔ جوزف اسٹیگ لٹز(Joseph Stiglitz)کی تازہ ترین تصنیف ’’عالم گیریت اور اس کے اضطراب‘‘ (Globalization and its Discontents)اس نئے رجحان پر روشنی ڈالنے کی ایک وقیع کوشش ہے‘ اگرچہ بعض دفعہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس رجحان سے نہیں‘ بلکہ اس کے کارپردازوں سے غیرمطمئن ہیں۔

جوزف اسٹیگ لٹزبنیادی طور پر ’’ریاضیاتی معاشیات‘‘ کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں‘ تاہم عالمی اطلاقی معاشیات پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔ ۱۹۸۰ء میں وہ چین کے حکمرانوں کو ضابطی معیشت (command economy)سے ’’آزادمعیشت‘‘کی سمت سفر کے سلسلے میں مشورے دے رہے تھے۔ گویا تعلق ان کا بھی اسی معاشی فلسفے سے ہے‘ جس کے برگ و بار میں یہ جدید معاشی رجحان بھی شامل ہے۔ ۱۹۹۳ء میں وہ امریکی صدر کلنٹن کے مشیرانِ معاشیات کی کونسل میں شامل ہوئے‘ جس کے وہ صدرنشین بھی رہے‘ اور وہاں سے وہ ۱۹۹۷ء میں عالمی بنک کے چیف اکانومسٹ اور سینیروائس پریذیڈنٹ کے عہدے پر پہنچے۔ ۲۰۰۱ء میں انھیں معاشیات میں نوبل انعام دیا گیا۔ انھوں نے کئی امریکی اداروں بشمول جامعہ کولمبیا میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیے ہیں۔

جیساکہ اُوپر کہا جا چکا ہے ‘ اسٹیگ لٹزفی نفسہٖ عالم گیریت کے خلاف نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عالم گیریت تو آزادانہ تجارت کی راہ میں رکاوٹوں کو دُور کرنے اور قومی معیشتوں کے درمیان باہم ارتباط کا نام ہے۔ یہ تمام قوموں‘ بشمول غریب اور پس ماندہ ملکوں کی بھلائی اور خوش حالی میں ممدومعاون ہوسکتی ہے۔ لیکن عالم گیریت کو جس رُخ پر ڈالا جا رہا ہے‘ بین الاقوامی تجارت پر سے جس انداز میں پابندیاں ختم کی جا رہی ہیں‘ خصوصاً غریب ملکوں پر جو پالیسیاں تھوپی جا رہی ہیں‘ ان پر ازسرنو غور کی ضرورت ہے۔ آزاد معیشت میں بنیادی طور پر اطلاع اور آگاہی کے حق کو تسلیم کیا جاتا ہے مگر ان کا مشاہدہ ہے کہ آزاد معیشت کے علم بردار ملکوں اور وہاں کام کرنے والے تجارتی اداروں کے ہاں اطلاع کی راہیںیک طرفہ ہیں۔ کارکن اور آجر‘ قرض دار اور قرض خواہ‘ انشورنس کمپنی اور انشورنس خریدنے والے کے درمیان آگاہی کا رشتہ دوطرفہ نہیں۔اسی طرح آئی ایم ایف کی پالیسیاں بھی اس فرسودہ نظریے پر استوار ہیں کہ منڈی کی معیشت میں خود درستی کا ایک نظام موجود ہے‘ اور سرکاری دخل اندازی (حکومتوں کے کردار) کے ہٹائے بغیر ملکوں میں معیشت کی اصلاحِ احوال ممکن نہیں۔

عالم گیریت کے حامی ہمیں بتاتے ہیں کہ آزادانہ بین الاقوامی تجارت کے زیراثر  ترقی پذیر ملکوں کی برآمدات میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس سے ایشیا اور افریقہ کے بہت سے ملکوں میں برآمدی مصنوعات کی تیاری کے لیے صنعتیں وجود میں آئی ہیں‘ کارخانے لگے ہیں‘ لوگوں کو روزگار فراہم ہوئے ہیں‘ اطلاعات کی فراہمی‘ تعلیم و تربیت کے مواقع‘ بہترصحت ‘ بڑے منصوبوں کے لیے قرض اور امداد سے ترقی کی راہیں کھلی ہیں‘ پس ماندہ ممالک اور عوام نئی حرفتوں اور صنعتوں سے آشنا ہوئے ہیں‘ اور لوگوں کی آمدنیوں اور معیارِ زندگی میں اضافہ ہوا ہے۔     عالم گیریت--- جو اس سرمایہ دارانہ نظام کا عطیہ ہے‘ جس کا سرخیل امریکہ ہے--- اب ترقی کا ہم معنی لفظ بن گئی ہے۔ اس کے بغیر کوئی ملک آگے بڑھنے‘ ترقی کرنے‘ پھلنے پھولنے اور اپنے شہریوں کو بہتر زندگی سے آشنا کرنے کا تصور نہیں کر سکتا۔

ان معصوم آرزوئوں اور جائز خواہشات کا ڈول جولائی ۱۹۴۴ء میں ڈالا گیا۔ یورپ میں دوسری جنگ عظیم کا اختتام قریب نظر آرہا تھا۔ یورپ زخموں سے چور تھا‘ جس کی بحالی ضروری تھی‘اور پھر ایشیا اور افریقہ میں آزادی کی لہریں تُند ہوتی نظر آتی تھیں۔ مستقبل میں  نوآبادیات کے پرانے نظام کو باقی رکھنا غیردانش مندانہ محسوس ہوتا تھا (یہ رائے صاحب ِکتاب کی نہیں ہے)۔ اب اتحادی طاقتوں کے پالیسی سازیورپ کی ’’تعمیرنو‘‘ کی منصوبہ بندی کے لیے برٹین وڈس (Bretton Woods) میں جمع ہوئے۔ اس کانفرنس میں اُس ’’بین الاقوامی  بنک براے تعمیروترقی‘‘(The International Bank for Reconstruction and Development) کی بنیاد پڑی جسے اب عام طور پر ’’عالمی بنک‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ’’بین الاقوامی مالیاتی فنڈ‘‘یا آئی ایم ایف کا ڈول بھی وہیں ڈالا گیا اور اس کے ذمے یہ فریضہ تفویض ہوا کہ عالمی معاشی توازن پر نظر رکھے اور اُسے بگڑنے نہ دے۔ پچھلی صدی میں ۳۰ کے عشرے میں امریکہ سے جو عالمی کساد بازاری شروع ہوئی تھی‘ اس طرح کے معاشی جذر اور نشیب پیدا نہ ہونے پائیں۔ فلسفہ یہ تھا کہ بعض اوقات بعض ملکوں میں معاشی سرگرمیاں درست انداز میں نہیں ہوتیں۔ منڈیاں صحیح طریقے سے کام نہیں کرتیں۔ مجموعی طلب میں اگر دنیا کے ایک گوشے میں بھی کمی آنے لگے‘ تو اس کے اثرات دوسرے ملکوں پر بھی پڑتے ہیں۔ وہاں بھی پیداوار کو گھٹانا ناگزیر ہو جاتا ہے‘ اور پیداوار میں کمی کرنے کے لیے لوگوں کو بے روزگار کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ صنعتی اور پیداآوری سرگرمیوں میں پستی کے رجحان سے پھر معاشی بدحالی جنم لیتی ہے‘ اور یوں ایک طرح کا زنجیری ردّعمل شروع ہو جاتا ہے۔ کہا یہ گیا کہ ایک ایسے  عالمی بنک کی ضرورت ہے جو معاشی دبائو کے شکار ملکوں کو مطلوبہ سرمایہ مہیا کرسکے‘ یعنی ان کی مالی مدد کرسکے (ایک مہاجن ہو‘ جو سود پر قرض دے سکے!)۔ رسماً توعالمی بنک ایک پبلک ادارہ ہے ‘ جس کا سرمایہ دنیا کے بہت سے ملکوں کے سرمایہ داروں نے مہیا کیا ہے ‘ اور گویا یہ ایک طرح کی ’’مالیاتی اقوامِ متحدہ‘‘ ہے۔ مگر اس میں موثر قوت اور کنٹرول صرف ’’بڑے ترقی یافتہ‘‘ ملکوں ہی کے ہاتھ میں ہے ‘اور عملاً صرف ایک ملک --- امریکہ-- موثر ویٹو کا اختیار رکھتا ہے۔

مصنف کے مطابق اگرچہ اپنی تشکیل کے وقت اس ادارے کا مقصد یہی تھا کہ خراب اقتصادی کارکردگی والے ملکوں پر دبائوڈالے کہ وہ اپنی معاشی پالیسیوں کی اصلاح کریں‘ پیداوار بڑھانے کی طرف توجہ دیں‘ ٹیکسوں میں کمی کریں‘ شرحِ سود گھٹائیں‘ عوامی خدمات پر خرچ کریں اور سرکاری اخراجات میں اضافہ کریں‘ اور یوں معاشی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے کوشش کریں‘ لیکن آج عملاً صورتِ حال یہ ہے کہ آئی ایم ایف صرف اُسی وقت کسی ملک کو فنڈ جاری کرتا ہے جب وہ ملک اس کی شرائط پر اور اس کی پالیسیوں کے مطابق کام کرنے پر آمادہ ہو‘ اپنے میزانیے کے خسارے میں کمی کے لیے سرکاری اخراجات میںکمی کے لیے راضی ہو جائے‘ یعنی تعلیم‘ صحتِ عامہ اور عوامی مفاد کی ذمّہ داریوں سے دست کش ہونے پر تیار ہو جائے‘ ٹیکسوں کو بڑھانے اور شرحِ سود میں اضافے کو قبول کرے اور یوں مفادِ عامہ کی معیشت کے بجائے ساہوکاری معیشت اپنانے پر تیار ہو جائے۔

مصنف کو اعتراف ہے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام واشنگٹن کے ایما پر اور اس کی خواہش کے مطابق ‘ حکماً نافذ کیے جاتے ہیں۔ آئی ایم ایف اور ان جیسے بین الاقوامی اداروں کے اراکین ’’امداد‘‘ لینے والے ملکوں کے پنج ستارہ ہوٹلوں میں قیام کرتے ہیں‘ وہاں کے مرکزی بنک اور وزارتِ خزانہ کے افسران سے اعداد و شمار کی ٹھنڈی فضائوں میں گفتگو کرتے ہیں۔ انھیں نہیں معلوم کہ ’’افراطِ زر کو روکنے‘‘ اور ’’معاشی اصلاحات‘‘ اور ’’نج کاری‘‘ کے جو منصوبے وہ لے کر آئے ہیں ‘ مغربی بنکوں کے قرضوں کی وصول یابی کے جو پروگرام وہ پیش کر رہے ہیں‘ ان سے کتنے لوگ متاثر ہوں گے۔ بے روزگار ہونے والے تو انسان ہیں۔ ان کے خاندان‘ بیوی‘ بچے اور لواحقین ہیں جن کی زندگیاں اجیرن ہو جائیں گی‘ ان کی پالیسی‘ بلکہ احکام کی وجہ سے کتنے لوگ تباہ و برباد ہو جائیں گے۔ ’’جدید ہائی ٹیک جنگ اس طرح ڈیزائن کی گئی ہے کہ ]متحاربین کے درمیان[ جسمانی رابطے کی نوبت ہی نہیں آتی… ۵۰ ہزار فٹ کی بلندی سے بم گرانے والوں کو یہ ’’محسوس‘‘ نہیں ہوتا کہ ان کے اس فعل کے کیا نتائج نکل رہے ہیں۔ جدید معاشی نظم کاری اور منصوبہ بندی بھی اسی طرح کی ہے۔ اعلیٰ ترین ہوٹل کے پُرتعیش کمروں میں بیٹھ کر کروڑوں عوام کے لیے منصوبہ سازوں کو ’’محسوس‘‘ ہی نہیں ہوتا کہ جن کی قسمتوں کے فیصلے وہ کرنے جا رہے ہیں‘ وہ کس بربادی کا شکار ہوں گے۔ اگر وہ اُن کے درمیان ہوتے‘ ان کو ذاتی طور پر جانتے ہوتے‘ ان سے رابطے میں ہوتے‘ تووہ شاید یہ فیصلے نہ کرتے‘‘۔

کیا یہ مصنف کی سادگی اور بھولپن ہے یا تجاہلِ عارفانہ؟ وہ خود اس بات سے آگاہ ہیں کہ گذشتہ نصف صدی میں یہ ادارے اور ان کا تیسرا ساتھی ’’عالمی تجارتی ادارہ‘‘ (WTO)  ترقی پذیر اور غیر ترقی یافتہ ملکوںپر کیا کیا ستم نہیں ڈھا چکے ہیں؟ انھیں اعتراف ہے کہ پچھلی رُبع صدی میں آئی ایم ایف کی ’’کوششوں کے باوصف‘‘ ساری دنیا میں معاشی بحرانوں میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ سرمائے کی منڈیوں کی بے لگام آزادیوں سے غریب ملکوں کی معیشت مزید زوال کا شکار ہوئی ہے‘ اور جب ایک ملک بحران کا شکار ہوتا ہے‘ تو آئی ایم ایف کے قرضے اور اس کے دیے ہوئے پروگرام نہ صرف یہ کہ ا س کے توازن کو بحال کرنے میں ناکام ہوتے ہیں‘ بلکہ ان کے نتیجے میں مرض کی شدت میں اور اضافہ ہی ہوتا ہے۔ خاص طور پر یہ پروگرام ملک کے نچلے طبقے کے لیے مزید غربت اور عذاب کا باعث ہوتے ہیں۔

عالمی تجارتی ادارے نے یہ فلسفہ دیا کہ بہت سے ملک اپنی معیشت کو بچانے یا فروغ دینے کے لیے درآمدات پر بے جا پابندیاں یا محاصل عائدکرتے ہیں‘ جو ایک غلط پالیسی ہے‘ اور اس سے ان کے ’’پڑوسیوں‘‘ کا نقصان ہوتا ہے۔ ایک ایسا بین الاقوامی ادارہ ہونا چاہیے‘ جو اشیا اور خدمات کی آزادانہ نقل و حرکت کو پروان چڑھائے۔ مگر ہوا یہ کہ اس ادارے اور ’’محصولات اور تجارت پر عمومی اتفاق‘‘ (GATT: General Agreement on Tariffs and Trade) سے خسارہ صرف غریب ملکوں ‘ خصوصاً ان کے معاشی طور پر پس ماندہ طبقوں ہی کے حصے میں آیا ہے۔ تحفظ سے محرومی کے نتیجے میں ایشیا اور افریقہ کے پس ماندہ ملک‘ خام مال پیدا اور مہیا کرنے والے اور ترقی یافتہ ملکوں کی مصنوعات کے صارف بن گئے ہیں۔ وہ مصنوعات‘ جو امریکہ‘ برطانیہ‘ جاپان‘ فرانس اور دوسرے ’’ترقی یافتہ ممالک‘‘ تیار کرتے ہیں۔ ’’ترقی پذیر‘‘ ملکوں کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ تجارتی پابندیاں ہٹائیں اور اپنے ملکوں میں درآمدات کو آزادانہ آنے دیں‘ جب کہ وہ ان کی مصنوعات پر کئی وجوہ سے پابندیاں لگا دیتے ہیں (مصنوعات غیرمعیاری ہیں‘ بچوں سے مشقت لی جا رہی ہے‘ وغیرہ)۔ غریب ملکوں کی صنعتیں دم توڑ رہی ہیں‘ کارخانے بند اور مزدور بے روزگار ہو رہے ہیں۔ کئی ملکوں میں توکسان بھی اپنے کھیت کی پیداوار اس قیمت پر فروخت نہیں کر پا رہے‘ جو امریکہ اور یورپ میں حکومتی اعانت کی وجہ سے ارزاں قیمت پر دست یاب ہو جاتی ہے۔ ان پالیسیوں کے نتیجے میں نہ صرف صنعتی سرگرمیاں ختم ہوتی جارہی ہیں‘ بلکہ کسان بھی تباہ حال ہوتے جا رہے ہیں۔ صنعتی ملکوں کو جس خام مال (بشمول زرعی اجناس روئی‘ پٹ سن‘ چمڑا‘ معدنیات‘ معدنی تیل‘ گیس وغیرہ) کی ضرورت ہے‘ اس کی قیمت کا تعین وہ خود کرلیتے ہیں‘ کیوں کہ انھیں اونے پونے برآمد کیے بغیر یہ غریب ملک وہ اشیا اور خدمات حاصل نہیں کرسکتے‘ جن کا انھیں چسکا لگا دیا گیا ہے۔ کاریں اور کمپیوٹر‘ جدید طبّی آلات و سہولیات‘ برقیات‘ تفریح اور آگاہی کے لیے نئے وسائل اور آلات اور ’’غریبوں کی بہت سی عیاشیاں‘‘ (کوکا کولا‘ پیپسی‘ کے ایف سی کی تلی ہوئی مرغیاں‘ پیزا‘ درآمد شدہ ٹافیاں‘چاکلیٹ اور کھلونے) اس وقت تک دست یاب نہیں ہوں گے جب تک آپ کے پاس زرمبادلہ نہ ہوگا۔ اور زرِمبادلہ کے لیے آپ کو اپنے اثاثے اور خود اپنے آپ کو کسی نہ کسی قیمت پر فروخت کرنا ہوگا کہ جی-سیون (سات اہم ترین (گریٹ!) ترقی یافتہ صنعتی ملکوں: امریکہ‘ جاپان‘ جرمنی‘ کینیڈا‘ اٹلی‘ فرانس اور برطانیہ) کا تقاضا یہی ہے۔

مروّجہ معاشی فلسفے کی ایک حکمت ِعملی نج کاری بھی ہے۔ خود اسٹیگ لٹزبھی اس کے حامی ہیں۔ ان کے خیال میں بہت سے پس ماندہ اور ترقی پذیر ملکوں میں حکومتیں وہ کام کر رہی ہیں جو انھیں نہیں کرنے چاہییں۔ بھلا حکومت کو فولاد کے کارخانے لگانے اور چلانے سے کیا سروکار؟ اس طرح کے بڑے منصوبوں میں وہ اپنا وقت‘ توجہ اور سرمایہ ’’ضائع‘‘ کرتی ہیں‘ اور بہت سے کرنے کے کام رہ جاتے ہیں‘ تاہم مصنف سے یہ اعتراف کیے بغیر نہیں رہا جاتا کہ دنیا میں سب سے بہتر کارکردگی دکھانے والے فولادی کارخانے وہ ہیں جو کوریا اور تائیوان کی حکومتیں چلا رہی ہیں۔ ہمارے خیال میں بات یہ نہیں کہ کوئی صنعت حکومت کی تحویل میں ہے‘ یا نجی ہاتھوں میں‘ بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ انھیں چلانے والے کتنے اہل اور دیانت دار ہیں۔

بدقسمتی سے آئی ایم ایف اور عالمی بنک نے اس مسئلے کو ٹھیٹھ سرمایہ دارانہ فلسفے اور منڈی کی معیشت کے نقطۂ نظر سے دیکھا ہے‘ اور اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ بہت سے ملکوں میں قومی اثاثے اور ’’کاروبار‘‘ جو عوام کے خون پسینے ‘ محنت اور سرمائے سے وجود میں آئے تھے‘ اونے پونے     نجی پارٹیوں کو فروخت کیے جا رہے ہیں۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ نہ صرف پاکستان اور بھارت میں‘ بلکہ ان جیسے بہت سے ترقی پذیر ملکوں میں ’’کارپوریٹ گلوبلائزیشن‘‘ کی پالیسی‘ تمام معاشی‘ سماجی اور سیاسی بیماریوں کی واحد دوا کے طور پر پیش کی جا رہی ہے‘ اس کی حمایت اور وکالت کی جا رہی ہے۔ معاشی بزرجمہراور سیاسی دانش ور ’’تجارتی جسدکاری‘‘ (corporatization) اور نج کاری کے حق میں دلائل دیتے نہیں تھکتے‘ اور تیسری دنیا کے بیشتر ملکوں کے حکمراں اپنے مادرِ وطن کے قدرتی وسائل‘ اثاثے‘ اور وہ بنیادی ڈھانچے جو ایک صدی میں وجود میں آئے تھے‘ ملکی اور غیر ملکی آڑھتیوں کو بیچنے کے لیے بے قرار نظر آتے ہیں۔ ملکی تعلیم اور تعلیمی ادارے‘ صحت‘ بجلی‘ گیس‘ تیل‘ کوئلہ‘ لوہے اور فولاد کی صنعت‘ ٹیلی فون‘ رسل و رسائل‘ سڑکیں‘ ریلوے اور قومی علَم بردار فضائی کمپنیاں اور بندرگاہیں‘ حتیٰ کہ پینے کے پانی (بوتلوں کی شکل میں) نج کاری کے نتیجے میں عالمی ساہوکاروں کی نذرکیے جا رہے ہیں 

قومے فروختند وچہ ارزاں فروختند

کیا دنیا کے اربوں عوام کے خلاف کوئی بڑی سازش ہوئی ہے؟ مصنف کے خیال میں ایسانہیں۔ ابتدا میں نیتیں تو نیک تھیں لیکن ان بین الاقوامی اداروں کے کردار میں تبدیلیاں ۱۹۸۰ء کے عشرے سے واقع ہوئیں‘ جب امریکہ میں رونالڈ ریگن اور برطانیہ میں مارگریٹ تھیچر نہ صرف اپنے اپنے ملکوں میں بلکہ ساری دنیا میں منڈی کی معیشت کا پرچار کر رہے تھے۔ دعویٰ یہی تھا کہ یہ نظام ساری دنیا کے غریب اور ترقی پذیر ملکوں کو فلاح اور خوش حالی سے ہم کنار کرسکتا ہے۔ اگرچہ وال اسٹریٹ اور آئی ایم ایف کے خلاف ایسی شہادتیں مہیا کرنا دشوار ہے جنھیں عدالت میں ثابت کیا جا سکے‘ مگر اقوامِ عالم کے خلاف ان کی سازشوں کے انداز نہایت ’’لطیف‘‘ اور خفیہ ہیں۔بند دروازوں کے عقب میں ایک خفیہ اجلاس‘ کسی کے بیان یا گفتگو کا ایک مخصوص لہجہ‘ ایک بظاہر سادہ سی دستاویز--- کروڑوں انسانوں کی زندگی پراثراندازہو جاتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی نہایت شُستہ معذرت اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوتی کہ ان ترقی پذیر ملکوں کے کروڑوں عوام کو جو سختیاں برداشت کرنی پڑ رہی ہیں‘ وہ بہشت کی طرف جانے والے راستے کی سختیاں اوردشواریاں ہیں۔ انھیں توانگیز کرنا ہی ہوگا۔ یا پھر وہ اس طرح کی شکایات کو ایک محکوم نوآبادی کی صداے احتجاج کے طور پر حقارت سے ردّ کر دیتے ہیں۔

یہ ایک نیا استعمار ہے ‘ جس میں حاکموں کی ذمہ داری نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر آپ نے جانور پالے ہیں کہ ان کا دودھ اور گوشت حاصل کریں‘ تو آپ کی یہ ذمہ داری بھی ہوتی ہے  کہ انھیں کھلائیں پلائیں‘ اُن کی دیکھ بھال کریں اور ان کی حفاظت کریں۔ لیکن جب آپ جنگل میں شکار کے لیے نکلتے ہیں‘ توشکار ہونے والے کسی جانور کی کوئی ذمہ داری آپ پر نہیں ہوتی۔ آپ بھی آزاد ہوتے ہیں اور وہ بھی!

(Joseph E. Stiglitz, Globalization and its Discontents, London, Allen Lane, Penguin Books, 2002, pp 282, £16.99)

۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء سے بہت پہلے ہی مغرب اور اسلام اور اہل مغرب اور مسلمانوں کے باہمی تعلقات‘ اہل دانش اور عوام میں گفتگو اور عام بحث کا موضوع بن گئے تھے۔ ۱۹۹۶ء میں ہن ٹنگٹن نے ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ کا جو نظریہ پیش کیا تھا‘ یہ اُس برسات کا پہلا قطرہ نہیں تھا‘ تاہم اس کے بعد تو اس طرح کے موضوعات پر مضامین اور کتابوں کا ایک سیلاب ہے‘ جس کے تھمنے کے آثار نہیں۔ زیرنظر کتاب  Muslims and the West: Encounter and Dialogue (مسلمان اور مغرب: مڈبھیڑ اور مکالمہ) جسے بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد کے ذیلی ادارے اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور جارج ٹائون یونی ورسٹی واشنگٹن کے سینٹر فار مسلم کرسچین اسٹینڈنگ نے شائع کیا ہے‘ اسی سلسلے کی ایک تازہ کڑی ہے‘ جو ۱۹۹۷ء میں منعقدہ مذاکرے میں پڑھے جانے والے ۱۲ منتخب مقالات کا مجموعہ ہے‘ جو ’’اسلام آباد کی سحرآگیں فضا‘‘ میں ساری دنیا کے منتخب ’’علما‘ مفکرین‘ کارپردازانِ سرکار اور ذہن کو تشکیل دینے والوں‘‘ کے سامنے پیش کیے گئے۔

کتاب کے ابتدایئے میں مرتبین میں سے ایک (ایسپوزیٹو) کے ۱۹۹۰ء میں شائع شدہ مضمون کا ایک اقتباس ہے۔ ایک مسلمان‘ اپنے عیسائی دوست سے کہتا ہے: ’’مجھے یہ بات غمگین کر دیتی ہے کہ اتنے بہت سے لوگ یہ گمان رکھتے ہیں کہ تاریخ کا اگلا دور‘ آپ کی دنیا اور میری دنیا میں تصادم کا دور ہوگا۔ یہ بات درست ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ بھڑے ہوئے ہیں اور ہماری کہنیاں ایک دوسرے سے ٹکرا رہی ہیں۔ ماضی میں بھی کئی دفعہ ہماری کہنیاں ایک دوسرے سے ٹکرائی ہیں لیکن یسوع کی پیدایش کے تقریباً  ۲ ہزار سال بعد‘ اور ہمارے محمد ]یونہی لکھا ہے[ کی پیدایش کے ۱۴۰۰ سال بعد مجھے یہ سوال کرنے دیجیے کہ کیا اب پھر ایسا ہونا ضروری ہے؟‘‘

مرتبین کے خیال میں ایسا ضروری نہیں۔ آگے کیا ہوگا‘ اس کا انحصار ان دو تہذیبوں کے قائدین کی دانائی‘ وژن‘ وسیع القلبی ‘ برداشت اور دُوربینی پرہے۔

کلیدی مقالے (Muslims and the West in History)میں اسماعیل ابراہیم نواب نے امید ظاہر کی ہے کہ ’’ان دو عظیم تہذیبوں کے وارثین‘ امن وتعاون کے بیج بوئیں گے اور ان شاء اللہ اس فصل سے تمام انسانیت کو فائدہ ہوگا‘‘۔ مغرب میں اسلام اور بانی اسلام کے بارے میں جو غلط فہمیاں ہیں‘ دُور ہوں گی۔ ۱۸ ویں/۱۹ ویں صدی میں مسلم ملکوں پر مغرب کے غلبے کی تلخیاں ختم ہو جائیں گی اور جو کروڑوں مسلمان مغرب میں مقیم ہیں ان کے مقامی باشندوں سے تعلقات بتدریج خوش گوار ہوں گے۔ عبدالرحمن قدوائی نے انگریزی ادب میں عرب مسلم امیج کا جائزہ لیا ہے۔ مغربی مورخ‘ ادیب‘ شاعر مسلمانوں اور اسلام کو کیا دیکھتے ہیں: چمک دار آنکھوں‘ ہوا میں اُڑتے بالوں والی حوریں کس طرح انگریزی ادب میں رقص کرتی نظر آتی ہیں۔ حسین مُطلب کے مضمون کا بھی یہی موضوع ہے۔ انھوں نے صلیبی جنگوں‘ نوآبادیاتی ادوار اور پھر آج کی دُنیا میں مغربی سیکولر فکر اوراسلامی فکر کا ایک تقابلی مطالعہ کیا ہے۔ ان کے خیال میں باہمی مفاہمت اور باثمر تعلقات کے لیے مسائل کی جڑوں تک پہنچنا ضروری ہے۔ رحمت دائوت اغلو نے بھی ان دو تہذیبوں کے باہمی ادراک کا جائزہ لیا ہے: ہم ایک دوسرے کو کس طرح دیکھتے ہیں؟ اس ’’عالمی عہد‘‘ میں اسے بدلنے کی ضرورت ہے۔ محمد خالد مسعود اور جین اسمتھ کا بھی یہی موضوع ہے‘ اورباہمی ’’غلط فہمیوں‘‘ کو دُور کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ مستنصرمیر کا کہنا ہے کہ جدیدیت کے چیلنج سے یہودی اور عیسائی جس طرح عہدہ برآ ہوئے ہیں‘ مسلمانوں کے لیے اس میں رہنمائی کا سامان ہے۔ جدیدیت مسلمانوں پر بھی وہی اثرات مرتب کرے گی‘ جو اس سے پہلے دو ’’اہل کتاب‘‘ پر کر چکی ہے۔

مسلمان‘ غیروں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ مختلف مسلم ممالک اور معاشروں میں شماریاتی طریق سے اس کا جائزہ ریاض حسن نے لیا ہے: مسلمانوں کی اکثریت‘ مستقبل میں اسلام کے رول کے بارے میں پرُامید ہے‘ تاہم بعض مسلم ممالک (مصر) میں بہت سے لوگوں کا عیسائیت اور یہودیت کے بارے میں بھی یہی خیال ہے۔ لیکن مصنف کے نزدیک اکیسویں صدی کے ’’ہم آہنگ‘‘ مستقبل کے لیے مسلمانوں اور دوسری دنیا کے درمیان بہتر مفاہمت کی ضرورت ہے۔

تماراسون (جدیدیت‘ اسلام اور مغرب) کہتی ہیں کہ مغرب کو سمجھنا چاہیے کہ سارے مسلمان عقل کے خلاف اور حکومت الٰہیہ کے قائل نہیں۔ مسلمان بھی سمجھ لیں کہ مغرب‘ مذہب کے خلاف اور لادینی نہیں ہے۔ اس تفہیم سے ایک باثمر مکالمے کی صورت پیدا ہوگی۔ مظفراقبال نے ابتدائی دور سے عہدجدید تک مسلم عیسائی تعلقات کا جائزہ لیا ہے۔ ان کے خیال میں اسلام فہمی کے بارے میں مغربی ذہن کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ مسلمانوں کا تصورِ اِلٰہ ہے۔ مغرب‘ غیر مذہبی نظر تو آتا ہے‘ مگر حقیقتاً وہ عیسائی رسومِ عبادت میں ڈوبا ہوا ہے۔ مسلمانوں کو تعددِ ازواج‘ عورت کے مرتبے‘ دہشت گردی اور اس طرح کے معاملات کے بارے میں مغرب کی غلط فہمیوں کو دُور کرنا ہوگا۔

اِی وون یزبک حداد کا مقالہ Islamism: A Designer Ideology for Resistance, Change and Empowerment فکرانگیز اور کچھ مختلف ہے۔ کہتی ہیں: ’’بنیاد پرستی‘‘ کی اصطلاح ان تمام مسلمانوں کی فکر کے لیے استعمال ہونے لگی ہے‘ جنھیں صہیونی‘ لبرل اور امریکہ حامی مسلم حکمراں پسند نہیں کرتے۔ اسلام کی نشات ثانیہ سے انھیں خوف آتاہے۔ بن گوریان: ’’اسلام کے علاوہ ہمیں کسی چیز کا خوف نہیں‘‘۔ شمعون پیرز: ’’جب تک اسلام اپنی تلوار نہیں رکھ دیتا ہم خود کو محفوظ نہیں محسوس کریںگے‘‘۔ اسحقٰ رابین: ’’مذہب اسلام ہی ہمارا واحد دشمن ہے‘‘۔ حداد کہتی ہیں کہ مغرب کی قابل احترام اقدار کو ساری دنیا میں نافذ کرنے کا مقدس عزم آج کے امریکہ ہی کا مشن نہیں‘ بلکہ یہ تو کئی صدیوں سے سارے یورپ کا خواب ہے۔ ساری دنیا کو مہذب بنانے کا ٹھیکہ اب امریکہ کے حصے میں آیا ہے۔ بقول یوسف القرضاوی اسلام اگر امور مملکت‘قانون و اختیار‘ اور عملی زندگی سے کنارہ کش ہو کر عیسائیت کی طرح ایک رسمی و رواجی مذہب کی طرح باقی رہے تو مغرب کو کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ اب یہ فیصلہ خود مسلمانوں کو کرنا ہوگا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔

ولی رضا نصر نے States and Islamization میں مسلم دنیا میں ریاستی سطح پر اسلام کے عمل دخل پر روشنی ڈالی ہے۔ پچھلے دو عشروں میں پبلک پالیسی اور سیاست میں اسلام کی دخل اندازی بڑھی ہے‘ تاہم بہت سے مسلم حکمرانوں نے اسلام کو سیاست پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے ہی استعمال کیا ہے۔ وہ مسلم ملکوں کی تین اقسام کرتے ہیں: استردادی لامذہبی (ترکی‘ الجزائر)‘ موقع پرست اسلامیت والے (مصر‘ ترکی‘ اُردن‘ انڈونیشیا) اور کلی اسلام نافذین (پاکستان‘ ملائیشیا)‘ تاہم ہر صورت میں اسلام کو ریاستی اختیار و اقتدار مستحکم کرنے کے لیے ہی استعمال کیا گیا۔

اسلام آباد کے اس علمی شغل (مذاکرے) اور اس کے نتیجے میں ولادت پانے والی اس خوب صورت کتاب کے مقاصد میں اسلام اور مغرب کے ایک دوسرے کے بارے میں ادراک‘ ان کی اہمیت اور صحت‘ مسلمانوں اور اہل مغرب کے تعلقات کے بارے میں مسائل‘ باہم بہتر تفہیم اور تعلقات کے امکانات اور ان کے لیے مطلوبات کا جائزہ لینا تھا‘ تاکہ ’’ایک صحیح معنوں میں‘ پرامن‘ باہم روادار‘ کثیر الجہتی عالمی معاشرہ‘‘ وجود میں آسکے۔

بقاے باہمی ‘ بلاشبہ ایک مقصد عالی ہے‘ تاہم بدقسمتی سے بہت سے مسلمان امکان کو ناممکن ہی خیال کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک اللہ کی مشیت‘ جس کی تکمیل کے مسلمان مکلّف ہیں‘ یوں بیان کی گئی ہے: ’’وہ ]اللہ ہی تو ہے[ جس نے اپنے پیغام بر کو ہدایت اور دین حق ]زندگی کے صحیح راستے کی طرف رہنمائی[ کے ساتھ بھیجا تاکہ اُسے تمام ادیان پر غالب کر دے… محمد ]صلی اللہ علیہ وسلم[اللہ کے رسول‘ اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں ]دین حق کے منکرین[ پر سخت ہیں اور آپس میں شفیق و رحیم ہیں… اُن کی مثال… اس کھیتی کی طرح ہے‘ جس نے اپنی کونپل نکالی‘ پھروہ سخت ہوئی اور موٹی ہوگئی اور اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہو گئی… کہ کسانوں کو اس سے خوشی ہوتی ہے‘ اور کافروں کو اُن سے غصہ اور جلن…‘‘ (الفتح ۴۸:۲۸- ۲۹)

Muslims and the West: Encounter and Dialogue)‘ مرتبین: ظفر اسحاق انصاری‘ جان ایل ایسپوزیٹو‘ ناشر: اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘ فیصل مسجد‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۳۵۳+۲۰۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔)

 

پروفیسر فتح محمد ملک کے کالموں کا پہلا مجموعہ‘  کشمیر کی کہانی :عالمی ضمیر سے چند سوالات کے نام سے حال ہی میں شائع ہوا ہے۔ کتاب دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے’’کشمیر تیمور نہیں‘‘ اور ’’مشرقی تیمور کشمیر نہیں‘‘۔ ۳۸ شذرات کا یہ مرقع بہ ظاہر کشمیر میں جدوجہد آزادی اور حق خود ارادیت کے مسلمہ اصول کے بارے میں مغربی اقوام اور خصوصیت سے امریکہ کی دوغلی پالیسی کے مختلف پہلوئوں پر کلام کرتاہے لیکن فی الحقیقت یہ دورحاضر میں اسلامی احیا کی جدوجہد‘ تحریک پاکستان کی روح اور اہداف‘ اسلام مخالف قوتوں کے اصل عزائم اور ریشہ دوانیوں اور سب سے بڑھ کر خود ملّت اسلامیہ پاکستان کے مختلف کرداروں کے رول کا‘ ایک سچے مسلمان اور ایک پکے پاکستانی کی نگاہ سے بے لاگ اور بصیرت افروز محاکمہ ہے۔ ان میں حقائق کا صحیح ادراک‘ واقعات کا نظرافروز تجزیہ‘ عالمی سازشوں کی حقیقت پسندانہ عکاسی‘ پاکستانی قیادت اور ہر سطح کے نام نہاد ترقی پسندوں کے کارناموں کا محاسبہ ہے جو بڑے جچے تلے‘معقول اور معتدل انداز میں دردمندی‘ اصلاح اور اُمت کو بیدار کرنے کے جذبے کے ساتھ کیا گیا ہے۔ بحیثیت مجموعی یہ مشکل کام اس خلوص اور دیانت سے انجام دیا گیا ہے کہ دل گواہی دیتا ہے کہ تبصرہ نگار سخن فہم ہے‘ غالب کا طرف دار نہیں!

جہاد کشمیر کے اسلامی تشخص اور ۱۹۳۱ء کی تحریک کشمیر سے لے کر آج کی جدوجہد تک کے نظریاتی نقوش کتاب کے ہر صفحے پر نمایاں ہیں۔ ان مختصر تحریروں کے آئینے میں اس تاریخی اور نظریاتی کش مکش کی صحیح تصویر دیکھی جا سکتی ہے جسے سمجھے بغیر نہ تو تحریک پاکستان کو سمجھا جا سکتا ہے نہ جہاد حریت کشمیر کو‘ اور نہ پاک بھارت کش مکش کے اصل اسباب کو‘اور نہ امریکہ بھارت دوستی کے حقیقی محرکات کو۔ یہ مسلمانان پاکستان کے لیے ایک دعوت فکر وعمل ہے کہ وہ اس خواب سے بیدار ہوں جس میں مغرب کے جادوگروں اور لادینیت اور ترقی پسندی کے متوالوں نے خواب آور گولیاں کھلا کر ان کو بستر نشین کر دیا ہے۔ جہاد کی پکار اور اقبال کے بیداری کے پیغام کا اعادہ بڑے دل نشین انداز میں کیا گیا ہے اور آج کے تناظر میں اس طرح کیا گیا ہے کہ ماضی کی یہ قم باذن اللّٰہ کی پکار آج کے پاکستانی کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کا پیغام بن گئی ہے۔ یہ کتاب محض نوحہ غم نہیں‘ جہاد کی پکار ہے جو علمی متانت اور ادبی حسن کے ساتھ دی گئی ہے۔ یہ کتاب ایک پیغام ہے جو گذشتہ تین سال کے اہم واقعات کے پس منظر میں تحلیل و تجزیے کے ساتھ اہل وطن کو دعوت دیتی ہے کہ اپنے ملک‘ اس کے اسلامی تشخص اور مجاہدین کشمیر کی سرفروشانہ جدوجہد کو اس کی کامیابی تک پہنچانے کے لیے سرگرم عمل ہو جائیں‘ امریکہ کے اصل عزائم اور کھیل کو سمجھیں۔ خود پاکستان میں امریکہ کے آلہ کار جو کردار ادا کر رہے ہیں ‘ اسے ناکام بنانے اور اپنی اصل منزل کی طرف بڑھنے کی فکر کریں۔ اس میں ایوب خان اور محمد شعیب سے لے کر بے نظیر اور نواز شریف تک سب کی اصل تصویر دیکھی جا سکتی ہے۔ تاشقند سے شملہ‘ شملہ سے لاہور‘ لاہور سے کارگل اور کارگل سے واشنگٹن پسپائی اور غداری کے سارے منظر آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں۔ افغانستان میں کیا ہو رہا ہے‘ انڈونیشیا کو کیسے پارہ پارہ کیا جا رہا ہے‘ چین کے بارے میں کیا عزائم ہیں‘ امریکہ اور بھارت گٹھ جوڑ کی حقیقی شکل و صورت کیا ہے--- ہلکے پھلکے انداز میںلیکن صداقت اور حقیقت پسندی کے ساتھ پورانقشہ جنگ سامنے آجاتا ہے۔ کل ’’پان اسلامزم‘‘ کا ہّوا کھڑا کیا تھا آج اسلامی بنیاد پرستی اور تشدد کا راگ الاپا جا رہا ہے۔ مقصد ایک ہی ہے : مسلمان کے دل سے ’’روح محمدؐ   ‘‘ کو نکالنا اور امریکہ اور مغرب کی ذہنی‘ تہذیبی‘ معاشی اور سیاسی غلامی میں جکڑ دینا--- خواہ اس کی شکل کیسی ہی ریشمی اور پرکار ہو!

نواز شریف اور بے نظیر نے جس طرح امریکہ کے آگے گھٹنے ٹیکے‘ بھارت سے معاملہ کرنے کی کوشش کی‘ کشمیر کے جہاد سے بے وفائی کی‘ ان کا بے لاگ احتساب‘ اور جہاد کشمیر کی تائید و معاونت اور طالبان سے آزمایش کی اس گھڑی میں یگانگت و ہم آہنگی کا اظہار جس سلیقے سے کیا گیا ہے وہ ملک صاحب کی سیاسی بصیرت اور قوت ایمانی کا مظہر ہے۔ بے نظیر کی امریکہ نوازی اور ذوالفقار علی بھٹو کی امریکہ بے زاری کا جس طرح موازنہ کیا ہے وہ چشم کشا اور خود پیپلز پارٹی اور لبرل عناصر کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ملک صاحب کا بھٹو کے لیے نرم گوشہ کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں جس کا اظہار بار بار اس کتاب میں بھی ہوتا ہے۔ میری رائے میں یہ ہر صاحب الرائے شخص کا حق ہے لیکن اس کے ساتھ جس دیانت اور ملی غیرت سے انھوں نے بے نظیر اور ترقی پسندوں کے پورے ہی طبقہ زہاد پر گرفت کی ہے وہ ان کے اخلاص‘ غیر جانب داری اور اصابت رائے کا  ثبوت ہے۔

ملک صاحب لکھتے ہیں:

یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہمارے دانش ور‘ ہماری افسر شاہی اور ہمارے سیاست دانوں میں ایسے عناصر کی کمی نہیں جو امریکی خوشنودی اور بھارت دوستی کی خاطر اپنا نظریاتی وجود مٹا دینے کو ترقی پسندی‘ روشن خیالی‘ اور امن دوستی کی علامت سمجھتے ہیں۔ میں ایسے عناصر کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کا جغرافیائی وجود پاکستان کے نظریاتی وجود سے برآمد ہوا تھا اور اگر آج ہم اپنے نظریاتی وجود کو بھارت سے دوستی کی بھیک وصول کرنے اور امریکہ سے روشن خیالی کی سند پانے کی خاطر مٹا دیں گے تو پھر کل ہمارا جغرافیائی وجود بھی قائم نہیں رہ سکے گا۔ (ص ۴۲)

کشمیر کی تحریک آزادی کے نظریاتی تشخص کے خلاف بھارت اور امریکہ کا رویہ تو جارحانہ ہے ہی‘  بے نظیر اور نواز شریف جیسے لوگ بھی معذرت خواہانہ رویہ اختیار کر کے مغرب سے اپنی روشن خیالی کا سرٹیفیکیٹ لینا چاہتے ہیں ۔لیکن ملک صاحب صاف لکھتے ہیں:

اس طرزفکر کی بنیادی خامی یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کی غالب اکثریت کے علاقوں میں عوام اپنے دینی عقائد پر قائم رہتے ہوئے اپنی کلچرل روایات کے مطابق زندہ رہنے کا عوامی‘ جمہوری‘ انسانی حق مانگتے ہیں تو اس میں خرابی کی کیا بات ہے؟ (ص ۹۶)

پھر مغرب اور اس کے مسلمان حواریوں کے بارے میں لکھتے ہیں:

مغربی ذرائع ابلاغ پوری دنیا میں ایک موثر کردار کے حامل ہیں۔ خود مسلمان ملکوں کے اہل علم و دانش ان ذرائع سے پھیلائے جانے والے طرزفکر و احساس کو اپنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ چنانچہ پاکستانی دانش ور بھی ان ہی مغربی مفروضوں کی جگالی کرتے پائے جاتے ہیں۔ وہ ترقی پسند اور سابق انقلابی دانش ور بھی جو لاطینی امریکہ کے گوریلا مجاہدچی گویرا کے مقلد ہونے پر نازاں رہتے ہیں‘ کشمیر میں مسلمانوں کی گوریلا جنگ کو ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کی گالی دیتے ہیں۔ اپنے اس رویے کو روشن خیالی کا ثبوت بنا کر پیش کرتے پھرتے ہیں۔ یہ کتنا بڑا ستم ہے کہ خود مسلمان دانش ور اپنی اسلامی شناخت پر معذرت خواہ ہیں۔ (ص ۹۷)

اسی طرح مغرب کے رویے کے بارے میں اپنے استعجاب کا اظہار یوں کرتے ہیں:

حیرت تو یورپ کے اور امریکہ کے ارباب فکر و دانش پر اور ارباب بست و کشاد پر ہے جو اس وقت تک مسلمانوں کو انسانی حقوق دینے پر آمادہ نہیں ہوتے جب تک مسلمان اپنی اسلامی شناخت سے دست بردار ہونے پر تیار نہ ہوں۔ کشمیری مسلمان اپنی اسلامی شناخت روز بروز نمایاں سے نمایاں تر کرتے چلے آرہے ہیں‘ اس لیے دنیاے مغرب ان پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والی فاشسٹ قوت کی عملی دست گیری اور نظریاتی حمایت سے حقوق انسانی کی پامالی میں مصروف ہے۔ (ص ۹۷)

یہ تو امریکہ اور یورپ کا تاریخی کردار ہے‘اس لیے ہمیں اگر حیرت ہے تو ملک صاحب کی اس حیرت پر ہے!

بھارت کی ثقافتی یلغار پر بھی ملک صاحب نے بھرپور گرفت کی ہے۔ بسنت کے موقع پر بھارتی وفد کی سربراہ وکرم ساہنی کے اس ارشادکا کہ:’’ پاکستان اور بھارت کا کلچر اور مٹی ایک ہے‘‘ ملک صاحب نے بہ ایں الفاظ تعاقب کیا ہے:

تحریک پاکستان کے دوران بھی متحدہ ہندستانی قومیت کے علم برداروں نے برعظیم کے مخلوط کلچر کی آواز بہت زور شور کے ساتھ اٹھائی تھی اور ’’ایک کلچر ایک ملک‘‘ کی سیاست چمکائی تھی مگر اس زمانے میں اقبال کی فکر ہماری رہنما تھی‘ اور ہم مخلوط ہندستانی کلچر کے بجائے جداگانہ مسلمان کلچر کے علم بردار بن کر ایک جداگانہ مسلمان مملکت کے قیام کی جدوجہد میں مصروف تھے۔ چنانچہ ’’ایک کلچر ایک مٹی‘‘ کی سی باتیں ہمیں ایک سامراجی جال معلوم دیتی تھیں۔ نتیجہ یہ کہ ہم اس جال سے بچ کر چلے اور قیام پاکستان کی منزل تک پہنچنے میں کامران ہوئے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ آزادی کے ۵۰سال بعد نئے شکاری وہی پرانے جال لے کر ہمارے حکمران طبقے کی میزبانی کے لطف اٹھا رہے ہیں اور حکمران طبقہ پلٹ کر یہ نہیں کہتا کہ دوستی اپنی جگہ مگر کلچر جداگانہ مسلمانی شناخت رکھتا ہے۔ کیونکہ یہ منفرد مسلمان کلچر اسلام کے تصور کائنات سے پھوٹا ہے۔ ہمارا یہ جداگانہ کلچر اکھنڈ بھارت میں خطرات کی زد میں آنے والا تھا‘ اس لیے اس کی بقا اورتحفظ و ترقی کی خاطر ہم نے عوامی جمہوری جدوجہد سے اپنی جداگانہ مملکت پاکستان حاصل کی۔ (ص ۱۵)

ملک صاحب نے صحیح انتباہ کیا ہے کہ:

ہمارے ارباب اختیار کو یہ حقیقت کبھی فراموش نہ کرنی چاہیے کہ ہندو ذہن کے مطابق تاریخ کی سب سے بڑی غلطی پاکستان کا قیام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی وزیراعظم پر دبائو ڈالا جا رہا ہے کہ بس کے بجائے ٹینک پر بیٹھ کر پاکستان جائیں۔ اس ضمن میں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ہندو انتہا پسندوں کے نزدیک برعظیم میں مسلمانوں کا وجود بھی ایک تاریخی غلطی ہے۔ چنانچہ یہ ایجنڈا پاکستان کی تباہی پر ہی بس نہیں کرے گا بلکہ میری‘ آپ کی اور ہم سب کی فنا پر تمام ہوگا۔ اس لیے ابھی وقت ہے کہ ہم بھارت سے کہیں کہ بس بھئی بس! (ص ۱۶)

نواز شریف کے دور میں ’’جنگ سلسلہ اخبارات‘‘ کے توسط سے سرکاری پلان اور اخراجات پر منعقد ہونے والی کانفرنس پر‘جو ’’انڈوامریکن لابی‘‘ کا کارنامہ تھی‘ تبصرہ کرتے ہوئے ملک صاحب نے پورے پاک بھارت اور کشمیری تناظرکو جس طرح بیان کیا ہے وہ ایک سچے پاکستانی اور مسلمان کے دل کی آواز ہے:

بھارتی سیاست دانوں اور صحافیوں نے پاکستان کی سرزمین پر پاکستان کی نظریاتی بنیادوں پر اوچھے وار کیے۔ پاکستان کے حکمران مسکراتے رہے۔ اس تجربے سے ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے موجدوں اور سرمایہ داروں نے سوچا کہ اب اعلان لاہور کی گھڑی آپہنچی۔ چنانچہ اعلان لاہور داغ دیا گیا کہ بھائی ڈرو نہیں ہم پہلے انسان ہیں اور بعد میں مسلمان۔ وہ جو اوّل مسلمان ہیں اور آخر مسلمان--- ظاہر بھی مسلمان ہیں اور باطن بھی مسلمان۔انھوں نے اعلان لاہور پر وہ کہرام مچایا کہ ہمیشہ یاد رہے گا۔ واجپائی کو لاہور کی سڑکوں پر قدم دھرنے کی اجازت نہ دینے والوں میں سے جو لوگ جیلوں میں ڈالے گئے وہ ابھی جیلوں سے رہا بھی نہ ہوئے تھے کہ ان کے جنون پسند ساتھیوں نے کارگل کی چوٹیوں سے بانگ انا الحق بلند کر دی۔ (ص ۴۴)

جہادی تنظیموں کے خلاف امریکی اور بھارتی یلغار کا پردہ ملک صاحب نے بار بار چاک کیا ہے اور اقبال کے پیغام جہاد میں آزادی‘ ایمان اور عزت کی تلاش کی یاد دہانی کرائی ہے۔ نیز مولانا ابوالکلام آزاد کا ایک طویل اقتباس بھی دیا ہے جس کا ماحصل یہ ہے کہ:

یہی وہ اسلام ہے جس کو قرآن جہاد فی سبیل اللہ سے تعبیر کرتا ہے اور کبھی اسلام کی جگہ جہاد اور جہاد کی جگہ اسلام‘ کبھی مسلم کی جگہ مجاہد اور کبھی مجاہد کی جگہ مسلم بولتا ہے… میں جہاد کو صرف ایک رکن اسلامی‘ ایک فرض دینی‘ ایک حکم شرعی بتلاتا ہوں حالانکہ میں تو صاف صاف کہتا ہوں کہ اسلام کی حقیقت ہی جہاد ہے‘ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ اسلام سے اگر جہاد کو الگ کر لیا جائے تو وہ ایک ایسا لفظ ہوگا جس میں معنی نہ ہوں ‘ ایک اسم ہوگا‘ جس کا مسمّٰی نہ ہو۔

کشمیر کی کہانی میں بلاشبہ عالمی ضمیر کے لیے بہت سے چبھتے ہوئے سوال ہیں لیکن خود مسلمانوں کے ارباب بست و کشاد اور لبرلزم اور ترقی پسندی کے دعوے دار دانش وروں‘ صحافیوں اور سیاست دانوں کے لیے ان سے بھی زیادہ تیکھے سوال ہیں۔ کاش کہ وہ ان کا جواب اس ضمیر میں تلاش کرنے کی کوشش کریں جسے افیون پر افیون دے کر مردہ کیا جا رہا ہے۔ ملک صاحب کی اس کتاب کی آخری سطریں ایک انتباہ بھی ہیں اور امید کی ایک کرن بھی۔

افغانستان میں طالبان حکومت کو ختم کرنے اور کشمیر میں جہادی تحریکوں کو ناکام بنانے کی خاطر ابلیس کے سیاسی فرزندوں کی سیاسی دست گیری کرنے والے اہل سیاست و دانش کی حکمت اور حکمت عملی کو اقبال کی نظم ]اشارہ ہے ’’روح محمدؐ  ‘‘ اور ملا کو کوہ و دمن سے نکالنے والی نظم[ کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔

ساتھ ساتھ اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا بھی لازم ہے کہ بقول اقبال:

بھروسا کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
کہ دنیا میں فقط مردان حُر کی آنکھ ہے بینا

کشمیر کی کہانی حسن طباعت کے اعتبار سے بھی ایک کامیاب پیش کش ہے۔ زبان و بیان کی نزاکتیں میرا میدان نہیں لیکن monsterکا ترجمہ ’’جن‘‘ (ص ۶۳) کچھ کھٹکا۔ عفریت‘ بھوت یا دیو شاید بہتر رہتا۔ انگریزی الفاظ کے اسپیلنگ اور ترتیب مسئلہ بنی رہتی ہیں‘ یہاں بھی صحت کے غیر معمولی اہتمام کے باوجود غلطیاں موجود ہیں (مثلاً صفحہ ۹۱ پر proxy)۔

محترمہ بے نظیر صاحبہ نے جس طرح امریکہ کی آواز میں آواز ملائی ہے اور جس طرح وہ بھارت نوازی میں نواز شریف سے بھی بڑھ کر پیش پیش ہیں‘ اس پر ملک صاحب نے بجاطور پر بھرپور گرفت کی ہے اور بے نظیر اور ذوالفقار بھٹو کے بیانات کو جس طرح آمنے سامنے کھڑا کر دیا ہے‘ وہ خاصے کی چیز ہے۔ باپ بیٹی اور پی پی پی کے دو سربراہوں کے متضاد موقف ایک طرح سے پاکستانی سیاست پر جان دار تبصرے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ البتہ امریکہ‘ بھارت اور جمہوریت کے بارے میں ذوالفقار بھٹو کے تضادات کی کوئی جھلک نہیں آسکی‘ بلکہ بین السطور بھٹو صاحب کے سلسلے میں ایک خفی رومانیت کا  شبہ ہوتا ہے۔ بھٹو صاحب کی چین پالیسی‘ خارجہ امور پر گہری نظر اور معیشت میں بنیادی صنعتوں کو اہمیت دینے کا میں بھی قائل ہوں لیکن امریکہ اور بھارت کے بارے میں جو قلابازیاں اوروں نے کھائی ہیں بھٹو صاحب کا دامن بھی اس سے پاک نہیں۔ تاشقند کے راز فاش کرنے کے سلسلے میں تو ملک صاحب کی توقعات بھی نامراد ہی رہیں۔

مصنف نے جہاں بجاطور پر سیاسی قائدین پر گرفت کی ہے کہ وہ امریکہ سے اپنے جواز کی سند لانے کے لیے لین ڈوری لگاتے رہے ہیں‘ وہاں اس قافلہ عاشقاں میں قاضی حسین احمد کا ذکر مبنی برانصاف نہیں۔ جس نے بھی لاہور اور اسلام آباد اور واشنگٹن اور نیویارک میں قاضی صاحب کے بیانات کا کسی تعصب کے بغیر مطالعہ کیا ہے وہ گواہی دے گا کہ ہر جگہ انھوں نے امریکہ اور اس کی قیادت کی آنکھوں سے آنکھیں ملا کر بات کی ہے‘ انھوں نے ہمیشہ پاکستان ‘فلسطین اور عالم اسلام کے بارے میں امریکہ کے رویے پر بھرپور گرفت کی ہے۔ باعزت تعاون کی راہیں تو ضرور کھلی رکھی ہیں لیکن اپنے رویّے میں مداہنت یا التفات طلبی کا کوئی شائبہ بھی نہیں آنے دیا    ؎

پروازہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
شاہیں کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور

] کشمیر کی کہانی: عالمی ضمیر سے چند سوالات‘ از پروفیسر فتح محمد ملک۔ دوست پبلی کیشنز‘    اسلام آباد۔ صفحات: ۱۶۴‘ قیمت: ۱۲۰ روپے۔[