۱۶برس بیت چکےہیں مگربھارتی ریاست گجرات میں ۲۰۰۲ء کے مسلمان متاثرین کے لیے ’فسادات‘ جیسے کہ ابھی تھمے نہیں ہیں۔کتنی ہی قانونی لڑائیاں لڑی جاچکی ہیں،کتنے ہی برباد شدہ مظلومین انصاف کی تلاش میں دَر دَر کی ٹھوکریں کھاکر خاموش بیٹھ گئے ہیں۔جنھیں فسادات میں ملوث ہونے پر سزائیں دی گئی تھیں، ان میں سے کتنے ہی اب ’آزاد ‘فضا میں سانس لے رہے ہیں۔
گذشتہ دنوں نروڈا پاٹیا (Naroda Patiya) میں ہولناک قتل عام کی مجرمہ گجرات کی سابق وزیر براے ترقی اطفال و نسواں، ڈاکٹر مایاکوڈنانی کو رہائی ملی ہے۔سیشن کورٹ نے کوڈنانی کو ۹۶مسلمانوں کے قتل عام کے لیے مجرم قرار دیاتھا، مگر گجرات ہائی کورٹ کو کوڈنانی کے ہاتھوں پرکسی مسلمان کے خون کے دھبے نظرہی نہیں آئے۔ رہے وہ بڑے سیاست دان، اعلیٰ پولیس افسراور اُونچے عہدوں پر فائز نوکرشاہی، جو گجرات میں ۲۸ فروری ۲۰۰۲ء کے مسلم کش فسادات کے منصوبہ ساز اورسازشی تھے،تووہ بھی تمام الزامات سے بچ نکلے ہیں۔
ان بنیادی سوالات کے جواب گجرات سے انڈین پولیس سروس (IPS) کے ایک اعلیٰ سابق افسر آربی سری کمار کی کتاب Gujrat Behind The Curtain (پس پردۂ گجرات) میں بڑی وضاحت کے ساتھ دیے گئے ہیں۔سری کمار کاکہنا ہے کہ مجرموں اورفسادیوں کو بچانے کے لیے قانون سے کھلواڑکیاگیا ، قانون کو توڑا مروڑا گیا اورجن ہاتھوں میں نظم ونسق کی ذمہ داری تھی، سیاسی آقاؤں نے انھی ہاتھوں کو یہ ذمہ داری سونپ دی کہ مجرموں اورفسادیوں کو بچانے کے لیے وہ جیسے بھی چاہیں قانون کی دھجیاں اڑائیں۔
آربی سری کمارفسادات کے ایام میں گجرات میں ڈائریکٹر جنرل آف پولیس کے منصب پر فائز تھے۔وہ محکمہ خفیہ کے سربراہ تھے۔جب انھوں نے یہ دیکھا کہ فسادات دانستہ کرائے جا رہے ہیں،منصوبہ بند ہیں اورساری سرکاری مشینری کا استعمال مسلمانوں کے خلاف کیا جارہاہے اور اس میں سرکاری افسر اور پولیس افسر سبھی، نریندر مودی کی حکومت کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے ہیں، تب انھوں نے آواز اٹھائی۔ اُس وقت ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندرمودی کو للکارا، اور بلاخوف و خطر فسادیوں کو بے نقاب کرنے کی مہم شروع کی۔ نتیجہ یہ کہ انھیں سرکاری عتاب جھیلنا پڑا،انتقامی تبادلے کے عذاب سے وہ گزرے، مقدمہ ہوا، مگرانھوں نے سچ سے منہ نہیں موڑا اور آج تک وہ ’گجرات۲۰۰۲ء‘ کی لڑائی لڑرہے ہیں۔
سری کمار نے انگریزی کتاب میں Gujrat Behind The Curtain لکھی۔ ہندی کے علاوہ اس کا اُردوترجمہ پس پردۂ گجرات کے نام سے ۱۳؍اپریل ۲۰۱۸ء کو ’فاروس میڈیا‘ نئی دہلی (ترجمہ: سیّد منصورآغا)نے شائع کیا ہے۔ ۲۵۰صفحات پر مشتمل یہ کتاب ۲۵۰بھارتی روپوں میں دستیاب ہے [برقی پتا:books@pharosmedia.com ]۔ کتاب کی بنیادان دوحقائق پر رکھی گئی ہے جسے سنگھی ٹولہ ابتدا ہی سے جھٹلاتا آرہاہے۔ایک تویہ کہ ’فسادات منصوبہ بند تھے ‘اور دوسرا یہ کہ’فسادیوں اورمجرموں کو بچانے کے لیے سرکاری مشنری کاغیر قانونی اورغیرآئینی استعمال کیاگیاـ‘۔
کتاب ۱۳؍ ابواب پر مشتمل ہے۔دوضمیمے اورایک’پیش لفظ‘ہے، جس میں آربی سری کمار نے کتاب لکھنے کی وجہ بتاتے ہوئے لکھاہے:’’ نہایت سفاکانہ، اقلیت کش تشددکی دل خراش وارداتوں کے مناظردیکھنے کے بعد میں نے تہیہ کرلیاتھا کہ میں اس تشددکے بارے میں ریاستی حکومت اوراس کے پیروکاربی جے پی کیمپ کی اس گمراہ کن تشہیر کو بے نقاب کروں گا کہ یہ سنگ دلانہ واقعات ہندوؤں کے ’اچانک بھڑک اٹھنے والے جذبات اورغیرمربوط واقعات‘ کانتیجہ تھے۔
’پیش لفظ‘ میں مصنّف سپریم کورٹ کی قائم کردہ ایس آئی ٹی (خصوصی تحقیقاتی ٹیم) اور کانگریس کاذکر کرتے ہیں: ایس آئی ٹی نے گجرات پولیس کی بی ٹیم کی طرح کام کیا اورذکیہ جعفری کی شکایت میں نامزد تمام ۶۲ ملزمان کو اپنی طویل رپورٹ میں پروانۂ بے گناہی عطا کردیا… کانگریس پارٹی اوراس کی سربراہی میں مرکزی حکومت کم سے کم ان امیدوں اورتوقعات کو بالکل بھی پورا نہیں کر سکیں جو فساد زدگان اورحقوقِ انسانی کے کارکنوں کو ان سے تھیں… سماج وادی حکومت نے بھی یوپی پولیس کے ان اہلکاروں سے شہادتیں حاصل کرنے کےلیے کچھ نہیں کیا، جو فروری ۲۰۰۲ء میں گجرات سے آنے والے رام بھگتوں اورکارسیوکوں کے جتھوں کی ایودھیا سے واپسی کے دوران ان کے ساتھ بھیجے گئے تھے اورگودھرا میں ٹرین آتشزدگی کے چشم دیدگواہ تھے‘‘۔
کتاب کے پہلے باب میں آربی سری کمار نے فسادات کی منصوبہ بندی کی تفصیلات پیش کی ہیں کہ: کیسے مشترکہ آبادیوں میں ہندوؤں کے مکانات اوردیگر املاک کی شناخت کے لیے ان پر کسی دیوی دیوتا کی تصویر بنا دی گئی، یامورتی نصب کردی گئی یا’اوم‘اور’سواستیکا‘کا نشان بنادیاگیا،تاکہ ’سنگھ پریوار‘ کے فسادی آسانی سے مسلمانوں کی املاک کو نشانہ بنا سکیں۔
دوسرے باب میں گودھرا ٹرین سانحے اورفسادات کاتفصیلی ذکر کیا ہے کہ: ’’۲۸فروری ۲۰۰۲ء کو وہ محافظ دستے کے ساتھ احمدآباد کی اپنی رہایش گاہ سے گاندھی نگر اپنے دفتر جا رہے تھے، تب مسلح ہجوم مسلم مخالف نعرے لگا رہاتھا اورپولیس غیر فعال اورخاموش تماشائی بنی ہوئی تھی‘‘۔ اس باب کاایک اہم حصہ ڈی جی پی کے چکرورتی سے ملاقات کی تفصیل پر مشتمل ہے: ’’ڈی جی پی مسٹر چکرورتی نے یہ ذکر بھی کیاکہ گودھرا سے واپس لوٹ کر ۲۷فروری کی دیر شام وزیر اعلیٰ (نریندرمودی)نے اپنی رہایش گاہ پر اعلیٰ افسران کی ایک میٹنگ طلب کی، جس میں انھوں نے کہا کہ عام طور سے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران پولیس ہندوؤں اورمسلمانو ں کے خلاف برابر کارروائی کرتی ہے،اب یہ نہیں چلے گا،ہندوؤں کوغصہ نکالنے کاموقع دیا جائے‘‘۔
آربی سری کمار فسادات روکنے،مسلمانوں کے اعتماد کو بحال کرنے اورمجرموں وفسادیوں کے خلاف کارروائی کرنے سے متعلق اپنی ان تدابیر وتجاویز کابھی ذکر کرتے ہیں، جن پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ چوتھے باب’گمراہ کن اطلاعات پر حق کی فتح‘میں چیف الیکشن کمشنر کے سامنے سرکاری دباؤمیں آئے بغیر، گجرات کی حقیقی صورتِ حال کی تفصیلات اورا س کے نتیجے میں اپنے خلاف سرکار کی انتقامی کارروائی کابھی ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’۲۰۰۲ء کے فسادات میں حکام کے مجرمانہ کردار کی شہادت، جن تین آئی پی ایس افسران راقم، راہل شرمااورسنجیو بھٹ نے کھل کر دی تھی، وہ ابھی تک انتقامی عتاب جھیل رہے ہیں، جب کہ دوانسپکٹروں کے علاوہ کسی کے خلاف فسادات میں مجرمانہ کردار ادا کرنے کے معاملے میں نہ توجرمانہ عائد کیا گیا اورنہ کوئی محکمہ جاتی کارروائی ہوئی‘۔
سپریم کورٹ کی ہدایت پر ڈاکٹرآرکے راگھون کی سربراہی میں بنائی گئی خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی)کو وہ ’خصوصی مدافعتی ٹیم‘کہہ کر اس کی کارکردگی اور غیرجانب داری پر سوالیہ نشان اُٹھاتے ہیں: ’’ذکیہ جعفری کی شکایت پر ایس آئی ٹی کلووزر رپورٹ ۲۶دسمبر ۲۰۱۳ءکو منظور کی گئی۔ یہ رپورٹ نہایت ناقص اورکھوکھلی ہے‘‘۔ سری کمار کے مطابق: ’’ذکیہ جعفری کی شکایت میں وزیر اعلیٰ (نریندرمودی) اور۶۲ دیگر ملزمان کو نسل کشی کے جرائم اورفساد زدگان کے لیے انصاف کی راہ روکنے کی غرض سے کریمنل جسٹس سسٹم میں ہیرا پھیری کے الزام اوراپنی انتظامی اورقانونی ذمہ داری ادا نہ کرنے کی بابت جواب دہی سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے ایس آئی ٹی نے دلائل کا جو حصار کھڑا کیا ہے،وہ انتہائی بودا ہے‘‘۔یہاں پر مصنّف نے کلووزررپورٹ کی خامیوں کو بھی فرداً فرداً گنوایا ہے۔
کتاب میں آربی سری کمار نے ایک بہت اہم اور بنیادی سوال اٹھایاہے؟’’۱۹۸۴ء کے سکھ مخالف فسادات کے چشم دید گواہ سکھ افسران نے، اور پھر۲۰۰۲ء کے گجرا ت قتل عام کے بعدمسلم افسروں واہل کاروں نے تفتیش کنندگان کے سامنے فساد کی سازش رچانے والے اور اس کا نفاذکرنے اورکرانے والے اعلیٰ سیاسی،انتظامی اورپولیس اہل کاروں کے خلاف سچی اور حقائق پر مبنی گواہی کیوں نہیں دی؟ وہ بتاتے ہیں: ’’چھے مسلم آئی اے ایس اورسات آئی پی ایس افسران دہلی کے سکھ افسران کی طرح اجتماعی کارپردازوں کے بارے میں قطعی خاموش رہے‘‘۔
ایک واقعہ،جو نروڈاپاٹیاقتل عام کاہے، اس کاسری کمار نے بڑا دل گداز ذکر کیاہے۔اسے پڑھ کر یہ سوال اٹھتاہے کہ صرف مایاکوڈنانی ہی کیوں، کیا وہ مسلم افسران بھی مجرم نہیں ہیں، جنھوں نے ’قتل عام‘کو ممکن ہونے دیا؟سری کمار تحریر کرتے ہیں: ۲۸فروری کی شام کے وقت جب میں آفس میں تھا، خورشید احمد(آئی پی ایس بیج نمبر۱۹۹۱)نے مجھے فون پر اطلاع دی کہ تقریباً ۴۰۰مسلم خاندان جو فسادیوں کی زدپرہیں، سیجاپورکے محفوظ کمانڈہیڈکوارٹر میں پناہ مانگ رہے ہیں۔مسٹر خورشید اس کمانڈہیڈکوارٹر کے کمانڈنٹ تھے جو کہ نروڈاپاٹیا سے متصل ہے، جہاں اس روز شام تک ۹۶مسلمانوںکو قتل کیاگیا۔کمانڈہیڈکوارٹرمحفوظ چار دیواری کے اندرہے اورمحافظ اس کی حفاظت پر تعینات رہتے ہیں۔وہ ان عام باشندوں کو ایس آرپی بٹالین ہیڈکوارٹر میں داخل ہونے کے لیے واضح اجازت چاہتے تھے۔میں نے ان کو فوراًفیکس پر یہ ہدایت بھیج دی تھی کہ جو لوگ حفاظت کی خاطر اندرآناچاہتے ہیں انھیں آنے دیا جائے اوران کو خالی بیرکوں میں جگہ دے دی جائے۔ درحقیقت کمانڈنٹ مسٹرخورشید اوران کے نائب ڈی وائی ایس پی مسٹرقریشی ان مسلمانوں کو، جن کی جانیں یقینی طور سے خطرے میں تھیں کیمپ کے اندرداخل ہونے کی اجازت دینے کے جوکھم سے گھبرائے ہوئے تھے۔میں نے ان کو یقین واطمینان دلایا کہ: ’’میرے تحریری حکم پر عمل کرنے میں ان پر کوئی الزام نہیں آئے گا‘‘۔بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ میرے تحریری حکم نامے کے باوجود کمانڈنٹ مسٹر خورشید احمد نے پناہ کے لیے منت سماجت کرتے بے سہارا، مظلوم اور نہتے مسلمانوں کو کیمپ میں داخلے کی اجازت نہیں دی تھی۔اطلاع یہ ہے کہ اس دن شام کو نروڈاپاٹیا میں جن ۹۶مسلمانوں کابہیمانہ قتل ہوا، یہ انھی میں سے تھے، جن کو کیمپ کے اندرپناہ دینے سے منع کردیاگیاتھا۔
بعد میں خورشید احمد سورت کے ڈپٹی کمشنر بنے۔ان کی اہلیہ شمیمہ(آئی اے ایس)ولساڈکی ضلع ڈویلپمنٹ افسراورسریندرنگرکی ضلع کلکٹربنیں۔اورڈپٹی کمانڈنٹ قریشی کو’امتیازی خدمات کے لیے صدرجمہوریہ ہند کا’پولس میڈل‘ملا۔اسی طرح دوسرے آئی پی ایس ،آئی اے سیداے ڈی جی پی بنائے گئے۔انھوں نے نریندر مودی کے لیے خوب کام کیا تھا اور پھر یہ بعد میں بی جے پی میں بھی شامل ہوئے۔ایک اورمسلم افسربعد میں مودی کے دفتر میں مشیر کے عہدے پر متمکن ہوئے۔
سری کمار نے ایسے ہی کئی اعلیٰ افسروں کے نام گنوائے ہیں، جنھیں فسادات کے دوران خون سے رنگے ہاتھوں ملزمان کو بچانے کے لیے ’انعام‘دیاگیا۔مزید ان افسران کے نام بھی گنوائے ہیں، جنھیں سچ بولنے پر سزا دی گئی۔ مصنف اپنے ذاتی مشاہدات اورسرکاری دستاویزات کو بطورثبوت استعمال کرکے ان چہروں کو بے نقاب کرنے میں پوری طرح سے کامیاب ہوئے ہیں جو ’گجرات ۲۰۰۲ء‘ کے فسادات کے منصوبہ ساز بھی تھے اورسازشی بھی۔ان میں اعلیٰ سرکاری افسران ہیں،پولیس افسران ہیں اورچوٹی کے سیاست دان ہیں۔سری کمار کی یہ دستاویزی کتاب مقننہ اور عاملہ کے شرمناک گٹھ جوڑ کو اُجاگرکرنے میں پوری طرح سے کامیاب ہے۔
حضور ِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ناموسِ رسالتؐ کو ہدف بنانے والوں کی جانب سے سوشل میڈیا (فیس بک ، ای میل وغیرہ) پر نازیبا، رکیک حملوں کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی عدالت میں مقدمہ پیش کیا گیا ۔ انھوں نے ۳۱ مارچ ۲۰۱۷ء کو ایک تفصیلی فیصلہ سنایا ۔ پیشِ نظر کتاب میں ۱۷۴ صفحات پر مشتمل اس فیصلے کے ساتھ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ،مفتی محمد تقی عثمانی، جسٹس فدا محمد خاں، عرفان صدیقی___ اور پھر مفتی منیب الرحمٰن، سیّد ساجد علی نقوی ، سیّد حسین مقدسی، الطاف حسن قریشی ، ڈاکٹر محسن نقوی، انصار عباسی، مولانا زاہد الراشدی ، ہارون الرشید ، اوریا مقبول جان، جاوید صدیق ،خورشید احمد ندیم ، جاوید چودھری ، حفیظ اللہ خاں نیازی، بابراعوان، محمدا عجاز الحق، حافظ ابتسام الٰہی ظہیر، ارشاد بھٹی، اسلم خان، اسرار احمد کسانہ، شاہد حنیف کے مضمون بھی شامل ہیں۔
پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی وہ انگریزی تقریر (مع اُردو ترجمہ)بھی کتاب میں شامل ہے، جو انھوں نے قومی اسمبلی میں متفقہ قرار داد کے ذریعے قادیانیوں کو دائرۂ اسلام سے خارج قرار دینے کے فیصلے اور دستوری ترمیم کے موقعے پر کی تھی۔
ناموسِ رسالتؐ کے اس تاریخی مقدمے کی رُوداد کچھ اس طرح ہے کہ درخواست گزار سلمان شاہد نے وفاقِ پاکستان اور چھے دوسروں کے خلاف جو درخواست دی، اس کی سماعت ۷مارچ ۲۰۱۷ء سے شروع ہوئی اور ۳۱ مارچ کو تاریخی فیصلہ آگیا۔
فیس بک (برقی میڈیا )پر بعض لوگوں نے جو نام نہاد مسلمان تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، اُمّہات المومنینؓ ،صحابہ کرامؓ، قرآن مجید اور حد یہ کہ اللہ تعالیٰ کی شان میں انتہائی گستاخانہ مواد ، خاکے، تصاویر ، تحریروں اور ویڈیوز کی شکل میں نشر کرنا شروع کر دیا تھا۔ درخواست گزارنے ڈائرکٹر جنرل ایف آئی اے کو اس توہین کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست کی، مگر اس پر مذکورہ محکمے کی طرف سے کوئی خاص کارروائی نہیں ہوئی۔
جسٹس شوکت صدیقی لکھتے ہیں: ’’عدالت ہذا کے رُو برو ایک ایسا مقدمہ پیش کیا گیا ہے کہ جس کی تفصیلات نے میرے رونگٹے کھڑے کر دیے ۔ آنکھوں کی اشک باری تو ایک فطری تقاضا تھا۔ میری روح بھی تڑپ کر رہ گئی۔ اس مقدمے کی سماعت کے دوران اپنے دل ودماغ پر گزرنے والی کیفیت الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں‘‘۔ (کتابِ مذکور:ص۴۸-۴۹)
عدالت نے چیمبر میں متعلقہ حکام کے سامنے مذکورہ قابلِ اعتراض مواد پیش کیا تو وہ بھی حیران رہ گئے۔ حکومت ِ پاکستان کے سیکریٹری داخلہ نے کہا کہ: ’’ ذاتِ باری تعالیٰ ، قرآنِ مجید اور دنیا کی معزز ترین ہستی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، آپ ؐ کے صحابہ رضی اللہ عنہم ، اہلِ بیت اور ازواجِ مطہراتؓ کے خلاف گھٹیا، اور شرم ناک مہم چلانے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی‘‘۔ (ایضاً،ص ۵۴)
۳۱ مارچ ۲۰۱۷ء کو مقدمے کی آخری سماعت ہوئی اور جسٹس صدیقی صاحب نے فیصلہ سنا دیا۔ پانچ بلاگرز ، جو ملک سے فرار ہو چکے تھے، انھیں پاکستان واپس لا کر ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی ہدایت کی گئی۔ وزارتِ داخلہ کو ہدایت کی گئی کہ ملک میں کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیموں (NGOs) کی نشان دہی کریں، جو ملک میں گستاخانہ اور فحش مواد کی اشاعت وتشہیر کر رہی ہیں، تا کہ ان کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔ محترم جج صاحب نے لکھا ہے: ’’عدالت کسی بھی غیر قانونی فعل اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی حوصلہ افزائی نہیں کر سکتی، لیکن ایسے واقعات اسی صورت میں رک سکتے ہیں، جب گستاخی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتکب عناصر کے خلاف بروقت اور دیانت دارانہ کارروائی ہو۔ ایسے مکروہ فعل کے خلاف پوری پاکستانی قوم مدّعی ہوتی ہے اور اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار‘‘۔(ایضاً،ص۶۴)
فیصلے میں مختلف اخباروں کے اقتباسات اور مفتی منیب الرحمٰن صاحب کا یہ بیان بھی پیش کیا گیا کہ: ’’قبل اس کے کہ مسلمان سڑکوں پر آجائیں اور ان کے جذبات بے قابو ہو جائیں۔ آئی ٹی کی وزارت کے حکام ، انٹیلی جنس ادارے اور دیگر حساس مراکز فوری اقدام کر کے عوام کے جذبات مشتعل ہونے سے بچائیں‘‘۔ (ایضاً،ص۷۴)
فیصلے میں پاکستان کی مجلس شوریٰ کے ایوان بالا (سینیٹ ) میں ۱۰ مارچ ۲۰۱۷ء اور ایوانِ زیریں (پارلیمنٹ ) کے ۱۴ مارچ ۲۰۱۷ء کی قرار دادوں کا بھی حوالہ دیا گیا، جن میں: ’’دین اور پیغمبر خاتم النبیین ؐ ، نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف توہین آمیز مواد کی اشاعت کو روکنے کے لیے فوری اقدامات‘‘ کا مطالبہ کیا گیا تھا۔(ایضاً،ص۷۶)
جہاں تک اس جرم کی سزا کا تعلق ہے ، فاضل جج نے قرآنِ مجید سے سورئہ احزاب (۳۳:۵۷) اور سورۂ توبہ (۹:۶۱-۶۹) کی آیات سے بھی فیصلے میں استشہاد کیا ہے۔ ’’مدینہ کے منافقین کی حرکات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیّت پہنچاتی تھیں، ان کی طعنہ زنی، اور بے ہودہ گفتگو جو وہ لوگ آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کرتے تھے، انھیں کفروالحاد کی گہرائیوں میں گرا دیتی تھی، جس پر وہ سزا کے مستوجب تھے۔ انھیں آگاہ کیا گیا کہ ان کے اعمال وافعال کو اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی بے ثمر قرار دیے گئے کہ وہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تضحیک کرتے تھے۔ مسلم قانون داں اس فیصلے پر پہنچے ہیں کہ اچھے اعمال وافعال کو اس دنیا میں اور آخرت میں بے ثمر بنادیا جانا بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے، اگر اس فوجداری جرم کو سزاے موت کا مستوجب قرار نہ دیا جائے۔ گویا ان مسلم قانون دانوں کے نزدیک آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر طعنہ زنی کرنے کے فعل کی سزا ، سزاے موت سے کم نہیں ہونی چاہیے‘‘ (ایضاً،ص۷۹-۸۰)۔ امام ابن تیمیہؒ نے بھی ایسے شخص کو کافر اور ’مباح الدّم‘ قرار دیاہے۔ گویا وہ سزاے موت کا مستوجب ہے (ایضاً،ص۸۱)۔ یہی موقف امام فخرالدین رازی، امام عمادالدین ابن کثیر ، علامہ شمس الدین قطبی، امام احمد بن علی ابوبکر جصاص ، ابولیث بن سعد کا بھی ہے، جن کے حوالے ڈاکٹر محمود احمد غازی کی تحریر سے لیے گئے ہیں۔
خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دینِ اسلام کے مخالف اور آپؐ کو ایذا پہنچانے والوں کے قتل کا حکم دیا تھا۔ جن میں کعب بن اشرف، یہود کا سرغنہ، ابورافع (حجاز کا بڑا سوداگر )، ابن خطل(بدگو) شامل تھے۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی اپنے فیصلے میں لکھتے ہیں: ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ادنیٰ سی بھی بے ادبی، توہین وتنقیص ، تحقیرواستخفاف، خواہ بالواسطہ ہو یا بلا واسطہ ، باالفاظِ صریح ہو یا بااندازِ اشارہ وکنایہ ، تحقیر کی نیت سے ہو یا بغیر نیت تحقیر کے، یہ تمام صورتیں گستاخی میں شامل ہیں۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات وعادات ، اخلاق واطوار ، آپ ؐ کے اسماے گرامی، اور ارشادات ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلقہ کسی بھی چیز کی ادنیٰ اور معمولی سی تحقیر، یا اس میں کوئی عیب نکالنا بھی گستاخی اور موجب کفر ہے۔ ہر شخص جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس میں عیب اور نقص کا متلاشی ہو، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق وکردار ، خصائل اور اوصافِ حمیدہ ، نسبِ پاک کی طہارت وپاکیزگی ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت وحرمت کی طرف عیب منسوب کرتا ہو، تو نہ صرف یہ کہ ضلالت وگمراہی اُس کا مقدر بن جاتی ہے، بلکہ ایسے بدبخت وجود سے اس زمین کو پاک کرنا بھی ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فقہاے اُمت ایسے بدبخت کے واجب القتل ہونے پر متفق ہیں‘‘۔ (ایضاً،ص ۱۰۵-۱۰۶)
اس مسئلے پر اجماع امت کا حوالہ دیتے ہوئے فاضل منصف نے مسلکِ مالکیہ کے قاضی عیاض اندلسی، حنابلہ کے ابن تیمیہ ، شافعیہ کے تقی الدین علی السبکی اور احناف کے محمد امین شامی کے حوالے دیے ہیں۔ ’اسلام میں محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی و قانونی حیثیت‘ کے عنوان سے قرآنِ مجید کی آیات وا حادیث، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم واحترام کے بارے میں احکام تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔
فاضل منصف نے برطانوی ہند میں مروجہ تعزیرات کے حوالوں سے بھی توہین مذہب کے قوانین کے حوالے دیے ہیں: ’’بین الاقوامی انجمنوں واداروں، بین الاقوامی معاہدات، بین الاقوامی اعلامیے ،اور یورپ کے مختلف ممالک کے قانون سے یہ واضح کیا ہے کہ توہین مذہب ، توہین مقدس شخصیات اور افراد واجتماع کے مذہبی جذبات واحساسات کا لحاظ اور اس ضمن میںاظہار ِ راے وتقریروبیان پر مناسب قانونی قدغن دنیا کے تمام مہذب ممالک کا خاصّہ ہے‘‘۔ (ایضاً،ص۱۹۰)
تا ہم، توہین مذہب ومذہبی شخصیت کے الزام پر کسی فرد کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لے کر خود فیصلہ کرے اور اپنے خیال کے مطابق ’مجرم‘ کو سزا دے ڈالے۔ کسی کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا: ’’___محض ایک جملے میں بیان کردہ وضاحت کو جانچے ، اور بغیر کسی فردِ جرم عائد کیے، بغیر شہادت قلم بند کیے، اسی موقعے پر اپنے تئیں یہ فیصلہ بھی کرے کہ مقتول واجب القتل ہے، اور پھر اسی لمحے اسی مقام پر فی الواقع اپنے ہاتھوں سے سزا کا نفاذ بھی کر ڈالے۔ کوئی معقول انسان مجرم --- کے اس اقدام کا دفاع نہیں کر سکتا، کیوںکہ ہم ایک ایسی ریاست کے باشندے ہیں ، جو ایک دستور ، ایک قانون ، ایک ضابطہ اور ایک طریقِ کار کے ما تحت ہے، اور ہر باشندہ اس امر کا پابند ہے کہ ریاست کی وضع کردہ حدود کے اندر رہے‘‘۔ (ایضاً،ص۲۰۲)
فاضل منصف نے عدالتِ عالیہ لاہور کے ۲۰۱۲ء کے فیصلوں کی طرف توجہ دلائی اور ان کے فوری نفاذ کا مطالبہ کیا:
فیصلے میں کہا گیا: [توہین مذہب و توہین اکابرین مذہب کا] ’’گھنائونا فعل ایک سازش کے تحت مسلسل جاری ہے۔ اس لیے وزارت ِ داخلہ اور دیگر متعلق اداروں کو یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ ’فیس بک‘ انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کر کے اس شرانگیزی کا مکمل خاتمہ کرائے ، اور یہ مطالبہ کرے کہ توہین اللہ رب العزت ، توہین رسالتؐ ،توہین امہات المومنین ؓ، توہین اہل بیت اطہارؓ، توہین صحابہ کرامؓ ، اور توہین قرآن پاک کی ناپاک جسارت کرنے والے صفحات کو نہ صرف بند کیا جائے ، بلکہ فیس بک ، انتظامیہ ایسے مواد کو اپنی منفی فہرست میں شامل کرے‘‘۔ (ایضاً،ص۲۱۶)
فاضل منصف کے اس تاریخی فیصلے کی ایک منفرد خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں انھوں نے کئی مقامات پر اپنی قلبی کیفیت کے اظہار کے لیے عربی ، فارسی اور اُردو کے نعتیہ اشعار (بعض جگہ پوری نعتیں ) سے استشہاد کیا ہے۔ ان شعراے کرام میں حسّان بن ثابت ، ابوطالب، عبدالرحمٰن جامی، شیخ سعدی، الطاف حسین حالی، ڈاکٹر محمد اقبال ، عبدالستار خاں نیازی، خالد محمود خالد، نعیم صدیقی اور مظفروارثی شامل ہیں۔ اس سیاق میں حالی کی مُسدّس کے اشعار ’’وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا ، مرادیں غریبوں کی بَر لانے والا‘‘ ، ہمارے خیال میں نعت کے بہترین اشعار میں سے ہیں، لیکن فاضل منصف کی نظروں سے رہ گئے ہیں۔
فیصلے کا اختتام بھی چند اشعار پر ہوتا ہے :
میں نہ زاہد ، نہ مجاہد، نہ مفسر ، نہ حکیم
میری ذات دلِ شرمندۂ عصیاں ہی سہی
کوئی نسبت تو ہوئی رحمتِ عالمؐ سے مجھے
آخری صَف کا مَیں ادنیٰ سا مسلماں ہی سہی
’ناموسِ رسالت ؐ ، جیسے بنیادی اور حساس مسئلے پر اس تاریخی فیصلے اور دوسری تحریروں کو مرتب کر کے کتابی شکل دینے ، صحت کے ساتھ بعض عربی یا انگریزی عبارتوں کے تراجم کا اہتمام کرنے، تفصیلی اشاریے مرتب کرنے کے لیے کتاب کے مرتب اور ان کے ہم کار شکریے کے مستحق ہیں۔ اس موضوع پر ایک ایسی کتاب منصہ شہود پر آگئی ہے، جو ہمیشہ حوالے کی کتاب تصوّر کی جائے گی۔ (ناموسِ رسالت ؐ : اعلٰی عدالتی فیصلہ، از جسٹس شوکت عزیز صدیقی ، مرتب : سلیم منصور خالد۔ ناشر:منشورات منصورہ لاہور۔ فون: ۳۵۲۵۲۲۱۱-۰۴۲۔صفحات:۳۴۸۔ قیمت:۴۸۰ روپے )
قطب الدین عزیز کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔ وہ لکھنؤ میں پیدا ہوئے، والدین کے ساتھ حیدر آباد دکن منتقل ہوئے اور وہیں پر ابتدائی تعلیم پائی ۔ پھر وہاں سے مدراس (چنائے ) اور بعد میں لندن اسکول آف اکنامکس سے اعلیٰ سند یافتہ ہوئے۔ پاکستان ہجرت کے بعدصحافت سے وابستہ ہو گئے۔ وزارت خارجہ میں اہم عہدوں پر سرفراز ہوئے اور کئی بیرونی ممالک میں پاکستان کی نمایندگی کی۔ اپنی مثبت فکر سے شغف کی بنا پر انھیں ادب، سیاست اور ثقافت کے حلقوں میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
پیش نظر کتاب خون اور آنسوؤں کا دریا کے مصنف قطب الدین عزیز نے مشرقی پاکستان کی ملک سے علیحدگی کی اَلم ناک داستان بیان کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ: مارچ ۱۹۷۱ء میں جب عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں تحریک سول نافرمانی کا آغاز کیا اور پورے صوبے میں لاقانونیت ، آتش زنی ، لُوٹ مار اور بے قابو قتل وغارت کا سلسلہ پھیل گیا تو پاکستان میں جنرل آغا یحییٰ خان کی صدارت میں مارشل لا حکومت نے مغربی پاکستان کے ذرائع ابلاغ کو ہدایت دی کہ یہ خبریں شائع نہ کی جائیں، مبادا اس سے مغربی پاکستان میں آباد بنگالیوں کو نقصان پہنچے ۔ اس طرح ان خبروں کو دبادیا گیا۔ اگرچہ مشرقی پاکستان کے تمام ذرائع ابلاغ دہشت گرد قوم پرست بنگالیوں کے ہاتھوں اسیر تھے، مگر وہاں سے کسی طرح جان بچا کر ہجرت کرکے آنے والوں کی داستانیں رفتہ رفتہ عام ہوتی گئیں۔ غیر ملکی ذرائع ابلاغ ، جو ابتداً بنگالیوں کے ’حق خود ارادی ‘ کے تناظر میں ساری ہنگامہ آرائی کو دیکھ رہے تھے، اب ’غیر جانب دار‘ بننے لگے۔ لندن کے سنڈے ٹائمز کے نمایندے اینتھونی مسکارن ہارس ، جس نے کئی مضامین میں پاکستانی فوج کو نشانہ بنایا تھا، کہ وہ بنگالیوں پر ظلم ڈھا رہی ہے، آخر سچ کہنے پر مجبور ہوئے ۔ وہ اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں: ’’ ہزاروں بدقسمت خاندانوں کو جو ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند کے وقت بہار سے ہجرت کر کے مشرقی پاکستان آئے تھے، انھیں بڑی بے رحمی سے صفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ عورتوں کی آبرو ریزی کی گئی ، یا خاص طور پر بنائے گئے چاقوئوں سے ان کی چھاتیوں کو کاٹ دیا گیا۔ بچے بھی اس ظلم سے بچ نہ سکے اور جو ذرا قسمت والے تھے، ان کو ان کے والدین کے ہمراہ قتل کر دیا گیا۔ لیکن ان میں ہزاروں ایسے بھی تھے، جن کو زندگی بھر کے لیے معذور کر دیا گیا۔ ان کی آنکھیں نکال دی گئیں اور ان کے بازو اور ٹانگیں کاٹ دی گئیں۔ غیر بنگالیوں کی ۲۰ ہزار سے زائد لاشیں بڑے بڑے شہروں جیسے چٹاگانگ ، کھلنا اور جیسور میں پائی گئی ہیں۔ اصل تعداد جو مجھے مشرقی بنگال میں بتائی گئی وہ ایک لاکھ سے زیادہ ہو سکتی ہے، کیوں کہ ہزاروں غیر بنگالی بغیر کسی نا م ونشان کے غائب کر دیے گئے ہیں‘‘۔ (ص ۱۹ )
مصنف نے ’’ مشرقی پاکستان کے ۳۳ ؍اضلاع اور شہروں ڈھاکہ ، نارائن گنج، چٹاگانگ ، چندرا گھونا اور رنگامتی ، کھلنا ، ست خیرہ ، دیناج پور، پاربتی پور، ٹھاکر گائوں ، لکشم ، راج باڑی، گو لندو، فرید پور کشتیا، چوا ڈنگا، مہر پور اور ظفر کنڈی ، اشوردی ، پاکسے ، نواکھالی، سلہٹ مووی بازار، بہراماڑا، نارکل ڈنگا، رنگ پور، نیلفاماری، سید پور، لال منیر ہاٹ، جیسور ، نریل ، باجر ڈنگا، جہنی ڈاہ، نواپاڑا، باری سال، میمن سنگھ ، راج شاہی اور ناٹور ، پبنہ اور سراج گنج ، کومیلا، برہمن باڑیا ، بوگرا اور نو گائوں ، سنتھارکے الگ عنوانات کے تحت ابواب میں ان علاقوں اور شہروں اور شہریوں کی دُکھ بھری داستانیں بیان کی ہیں، جو انھوں نے چشم دید گواہوں یا آپ بیتی بیان کرنے والوں سے خود سنیں اور ریکارڈ کیں۔ مصنف نےایک ٹیم کے ذریعے مشرقی پاکستان کے ۵۵ شہروں /قصبوں سے تعلق رکھنے والے گواہوں کے بیانات / شہادتیں اکٹھی کیں، اور بڑی احتیاط اور دیانت سے اسے رپورٹ کیا گیا ہے۔
مصنف کہتے ہیں کہ ’’میں اس وقت حواس باختہ ہو گیا اور اپنا خون رگوں میں جمتا ہوا محسوس کیا ، جب میں نے اپریل ۱۹۷۱ء کے وسط میں چٹاگانگ سے جان بچا کر کراچی آنے والے غیربنگالی پاکستانیوں سے ان کی رُوداد سنی ۔ ان کے کہنے کے مطابق : عوامی لیگ کے منظم دہشت گردوں اور باغیوں نے غیر بنگالیوں کو قصابوں کی طرح کاٹا ۔ یہ تفصیلات سن کر میری روح کانپ اُٹھی اور اپنی اس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے آج بھی میرے پاس الفاظ نہیں ہیں، کیوں کہ میں تو بنگالیوں کو نہایت شائستہ اور فن وادب کے ذوق کی وجہ سے پسند کرتا تھا ‘‘۔ (ص ۱۹)
امریکا اور یورپ میں بھارت نے منفی پروپیگنڈے کے لیے جنگی بنیادوں پر سیلابی ریلے کی طرح بے شمار کتابیں اور پمفلٹ شائع کیے۔ جن میں پاکستانی فوج پر لاکھوں بنگالیوں کو قتل کرنے کا الزام لگایا گیا۔ حکومت پاکستان مؤثر اور جوابی کارروائی نہ کرسکی ، اور جیسا کہ اُوپر بیان کیا گیا ہے، اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ مغربی پاکستان میں ردّ ِ عمل کے طور پر بنگالیوں پر ظلم نہ ہونے پائے۔
مشرقی پاکستان کے اس المیے میں جنرل یحییٰ خان (اس وقت کے صدر پاکستان ) اور ذوالفقار علی بھٹو کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ۷دسمبر۱۹۷۰ء کے انتخابات نے عملی طور پر ملک کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ دھونس ، دھاندلی اور تشدد کی سیاست نے قومی اسمبلی کی ۳۰۰ نشستوں میں مشرقی پاکستان کی مجیب پارٹی (عوامی لیگ) نے ۱۶۰ نشستیں جیت لیں اور ملک کی اکثریتی پارٹی بن گئی۔ مغربی پاکستان میں بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی نے ۸۱ نشستیں جیتیں۔ صدرجنرل یحییٰ خان نے انتخابات کے بعد دو ماہ تک تو اسمبلی کا اجلاس ہی نہ بلایا ۔ آخر ۳ مارچ ۱۹۷۱ء کو ڈھاکہ میں اجلاس طلب کیا گیا۔ لیکن مغربی پاکستان سے اکثریتی لیڈر بھٹو صاحب نے اصرار کیا کہ: ’’دستوری فارمولا اسمبلی اجلاس سے باہر طے کیا جائے، اور اگر دستور سازی کے لیے مقرر کردہ ۱۲۰دنوں میں دستور نہ بنا تو دستور ساز اسمبلی کا وجود خطرے میں پڑجائے گا‘‘۔ جب انھیں اس ضمن میں کامیابی حاصل نہ ہوسکی تو انھوں نے اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنے کا مطالبہ کر دیااور کہا کہ مغربی پاکستان سے کوئی منتخب رکن ڈھاکہ جائے گاتو اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ اور اس طرح ’اِدھر ہم ، اُدھر تم‘ کی بنیاد پڑگئی۔ اسمبلی کے اجلاس کے التوا سے مشرقی پاکستان میں ہنگامہ شروع ہو گیا۔ جس کو دبانے کے لیے وہاں ۲۵مارچ ۱۹۷۱ء کو فوجی ایکشن شروع کر دیا گیا۔مجیب کو گرفتار کر کے مغربی پاکستان لایا گیا اور بھٹو نے کہا : ’’خدا کا شکر ہے ، پاکستان بچ گیا‘‘ ۔ لیکن ’پاکستان ‘ کا مطلب صرف اس کا مغربی بازو تو نہیں تھا ! دراصل یہ پاکستان کے انہدام کی ابتدا تھی ، لیکن فاضل مصنف نے اس پوری کہانی سے صرفِ نظر اور بوجوہ اغماز کیا ہے۔
کتاب کے اختتامیےکے پہلے مضمون میں سیّدخالد کمال نے بنگلہ دیش میں بسنے اور اُردو بولنے والے بے وطن پاکستانیوں کے کرب اور المیے کو بڑی خوبی سے بیان کیا ہے۔ اسی حصے کے دوسرے مضمون میں مترجم سلیم منصور خالد نے ’۳۰ لاکھ کے قتل کا افسانہ …‘ کے عنوان سے ایک تفصیلی تحقیقی مقالے کا اضافہ کیا ہے ۔ علیحدگی پسند بنگالیوں نے پاکستانی فوج اور اُردو بولنے والے شہریوں پر یہ الزام لگایا تھا کہ انھوں نے ۳۰ لاکھ بنگالیوں کو قتل کیا اور ہزاروں بنگالی خواتین کو بے آبرو کیا ہے، مگر غیر جانب دار صحافیوں اور خود مشرقی پاکستان کے محاذ پر ہندستان کے فوجی کمانڈر جگجیت سنگھ اروڑا تک نے اس مبالغہ آمیزی کی نفی کی ہے۔ اس طرح دیگر بہت سے غیر ملکی اور خود ہندستانی صحافیوں اور تحقیق کاروں نے بھی پاکستانی فوج کے ہاتھوں بنگالیوں کے قتلِ عام کی تردید کی۔
تاریخ کو مسخ کرنے والے اس جھوٹ کا مقصد پاکستان کی یک جہتی کی حامی جماعت اسلامی اور پاکستانی فوج کے خلاف نفرت کو ہوا دینے کے سوا کچھ نہیں ۔ اس جلتی آگ کو سرد ہوتا دیکھ کر ۲۰۱۰ء کے بعد، عوامی لیگ کی حکومت نے ۳۸سال بعد ’جنگی ٹریبونل ‘ جیسی ’نام نہاد عدالتوں‘ کے ذریعے جماعت اسلامی اور البدر کے بنگالی ہم وطنوں پر، جو ۱۹۷۱ء میں متحدہ پاکستان کے حامی تھے ، مقدمے چلانے اور سزاے موت دینے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے (اسی ظالمانہ عدالتی ڈرامے کے نتیجے میں ۹۲سالہ پروفیسر غلام اعظم، سابق امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش جیل میں انتقال کر گئے)۔ دراصل جماعت اسلامی بنگلہ دیش میں ہونے والے تمام انتخابات میں بڑھتی ہوئی مقبولیت کے اشارے دے رہی تھی۔ مجیب کی بیٹی حسینہ واجد کے ہاتھوں ان مظالم کی لہر نہ جانے کہاں رُکے گی۔ بہر حال صاحب ِمقالہ سلیم منصور خالد کی خواہش ہے کہ :’’ بنگلہ دیش: دو قومی نظریے کی بنیاد پر ایک آزاد، خود مختار، اسلامی اور خوش حال ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر سرفراز رہے‘‘۔ (ص ۴۵۸)
کتاب کے آخر میں ۳۳ صفحے کا تفصیلی اشاریہ بڑی محنت سے مرتب کیا گیا ہے۔ اس اہتمام سے یہ کتاب اپنے موضو ع پر حوالے کی ایک نہایت مستند اور بہترین کتاب بن گئی ہے: خون اور آنسوؤں کا دریا، قطب الدین عزیز/ ترجمہ و تدوین :سلیم منصور خالد ، ظہور احمد قریشی، ناشر : منشورات، پوسٹ بکس: ۹۰۹۳، علّامہ اقبال ٹاؤن، لاہور۔ فون:۰۰۳۴۹۰۹- ۰۳۳۲۔ صفحات :۴۹۶، قیمت (مجلد): ۶۰۰ روپے۔
کسی قوم، معاشرے یا اجتماعیت پر اللہ تعالیٰ کا یہ فضل و احسان ہوتا ہے کہ اس میں اصحابِ علم و دانش کی فراوانی ہوتی ہے اور ارباب تدبر و تفکر کا وجود پایا جاتا ہے۔ لیکن اگر کسی اجتماعیت میں یہ جنس گراں مایہ کم ہو یا موجود ہی نہ ہو، تو سمجھ لیجیے کہ اس کی اُلٹی گنتی شروع ہوچکی ہے، چاہے ظاہربین نظریں اس کی شان و شوکت، ہائوہو اور کثرتِ تعداد سے کتنا ہی دھوکا کھا بیٹھیں۔
مسلم اُمہ کے لیے عام طور پر اور اسلامی تحریک ِ احیاے اسلام کے لیے خاص طور پر ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری ایسی ہی سرمایۂ ملّت ہستی تھی۔ ایک صاحب ِ علم و فضل اور تحریک ِ پاکستان سے وابستہ عظیم شخصیت مولانا ظفراحمد انصاری صاحب کے ہاں پیدا ہوئے۔ لڑکپن میں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان سے وابستہ ہوئے، اور اس تنظیم کی علمی، فکری اور تہذیبی تشکیل کا بنیادی کردار ادا کرنے والی سہ رکنی ٹیم (دو ارکان خرم مراد اور خورشیداحمد) میں کارہاے نمایاں انجام دیے۔ جمعیت کا انگریزی ترجمان Student's Voice درحقیقت خورشیداحمد صاحب اور ظفرصاحب کی رفاقت کا چشمۂ فیض تھا۔ اسی عرصے میں جناب خرم مراد، جمعیت کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے تو جمعیت کے دستور کی تدوین و تشکیل کا بنیادی کام بڑی جاں کاہی کے ساتھ اسی سہ رکنی ٹیم نے انجام دیا۔
ظفراسحاق تعلیم مکمل کرکے تدریس اور تحقیق سے وابستہ ہوئے۔ گیارہ برس کراچی یونی ورسٹی میں پڑھایا، ڈاکٹریٹ کے لیے میک گل یونی ورسٹی کینیڈا گئے اور پھر تدریس و تحقیق کے لیے بیرونِ ملک بھی خدمات انجام دیں۔ دل و جان، فکروخیال اور مال و حال کی دولت لیے زندگی کی آخری ساعت تک تحریک ِ اسلامی کا حصہ بنے رہے۔ تاہم، اس مقصد کے لیے انھوں نے اپنا میدانِ کار، جلسہ اور جلوس کے بجاے تعلیم، تربیت، تحقیق اور رابطے کو اپنی توجہات کا مرکز بنایا اور پوری زندگی اسی مورچے پر ڈٹے رہے اور اسی عالم میں ۲۴؍اپریل ۲۰۱۶ء کو رحلت فرمائی، انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
ماہ نامہ تعمیرافکار، کراچی کے مدیر جناب سیّد عزیز الرحمٰن شکریے کے مستحق ہیں کہ انھوں نے قارئین کو ایسی دل کش، علم پرور او ر تہذیب و شائستگی سے مملو شخصیت سے متعارف کرانے کے لیے یہ اشاعت ِ خاص پیش کی ہے۔ وہ آغاز میں لکھتے ہیں: ’’یہ اشاعت دراصل ڈاکٹر صاحب کو ایک طالب علمانہ خراجِ عقیدت ہے، اور بس۔ گزرنے والوں کو یاد رکھنا اور بھول جانے والوں کو ان گزرے ہوئوں کی یاد دلاتے رہنا… اور کسی اِدعا کے بغیر یہ خدمت انجام دینا، اس اشاعت [کا مقصد] ہے… حضرت ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمات کا دائرہ وسیع بھی تھا اور متنوع بھی۔ ہم اس کا احاطہ تو کیا، سرسری تذکرہ بھی نہیں کرسکے۔ یہ صرف ابتدائی نوعیت کا یادنامہ ہے‘‘(ص۹)۔ ہمارے خیال میں یہ سرسری تذکرہ نہیں بلکہ بے قدری اور مردم ناشناسی کے سنگین ماحول میں، ایک بھرپور خراجِ عقیدت ہے، جس پر جناب عزیز الرحمٰن مبارک باد کے مستحق ہیں۔
یہ خصوصی شمارہ جناب ظفر اسحاق انصاریؒ کی یاد میں مطبوعہ اور کچھ غیرمطبوعہ مضامین کے علاوہ ان کی چند تحریروں، کچھ دیباچوں اور خطوط پر مشتمل ہے۔ مشمولہ مضامین کی خوشبو کا رچائو، شخصی خوبیوں کے اعتراف کا بہائو اور ایک رشکِ دوراں شخصیت کی اُلفت، قاری کے ہم رکاب ہوتی ہے۔ ان احوال و آثار پر مشتمل ۲۸مضامین میں سے چند اقتباسات مطالعے کے لیے حاضر ہیں:
ظفرصاحب کے ۶۷ برس کے رفیق لبیب، پروفیسر خورشید احمد کہتے ہیں: ’’راجا بھائی [ظفراسحاق] اور خرم بھائی، تحریکِ اسلامی میں میرے پیش رو ہی نہیں بلکہ راستہ دکھانے والے بھی تھے۔خرم بھائی کو قرآن سے عشق تھا اور راجا بھائی سیاست اور اجتماعی علوم پر گہری نظر رکھتے تھے۔ جب وہ بی اے کے طالب علم تھے، اس وقت کراچی کے ایک روزنامے کی عملاً ادارت کے فرائض انجام دیتے تھے‘‘ (ص ۴۸)۔ ڈاکٹرسیّد سلمان ندوی نے بتایا ہے: ’’وہ مجلسی آدمی نہیں تھے، لیکن علمی راے پیش کرنے اور مدلل گفتگو کا عمدہ سلیقہ رکھتے تھے۔ انھوں نے تفہیم القرآن کا انگریزی ترجمہ کیا… [جو] قرآنِ کریم کے چند بہترین انگریزی ترجموں میں سے ایک ہے‘‘ (ص ۳۹، ۴۰)۔ پروفیسر خورشید احمد کے بقول: ’’مولانا مودودی نے ترجمۂ قرآن، اُردوے مبین میں کیا تھا، اور ظفراسحاق نے اسے انگریزیِ مبین میں ڈھال دیا، جو ایک سدابہار یادگاری کارنامہ ہے‘‘۔ (ص ۵۱)
طبعی طور پر: ’’[ظفرصاحب] ان چند افراد میں سے ایک تھے، جو اکثر و بیش تر وقت، کسی گہری سوچ بچار اور اسے احاطۂ تحریر میں لانے میں صرف فرماتے ہیں اور دنیا سے چلے جانے کے بعد اپنا سرمایۂ تحریر، صدقۂ جاریہ کے طور پر چھوڑ جاتے ہیں‘‘ (ڈاکٹر حافظ افتخار احمد،ص ۲۵)۔ ایک کرم فرما کہتے ہیں: ’’ان کی دل چسپی صرف فقہی احکام تک محدود نہیں تھی، وہ دین کے تمام بنیادی تصورات کو قرآنی تعلیمات کی روشنی میں سمجھنا چاہتے تھے‘‘ (ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی، ص ۷۲)۔ سچی بات یہ ہے کہ: ’’انصاری صاحب کا شمار اہلِ علم کے قبیلے کے ان معدودے چند افراد میں ہوتا ہے، جو جدید مغربی علوم اور افکار و علومِ اسلامی دونوں پر یکساں دسترس رکھتے ہیں‘‘ (احمد حاطب صدیقی، ص ۱۴۸)۔ اسی طرح مفتی محمد زاہد بیان کرتے ہیں: ’’ان کے انہماکِ علمی کا اندازہ تو ان کے علمی و تحقیقی کام کی وسعت اور گہرائی سے لگایا جاسکتا ہے… ایک طرف تو علم و تحقیق میں فنائیت کی حدتک پہنچا ہوا یہ انہماک، دوسری طرف ملنساری اور خوش خلقی ایسی کہ اس علمی انہماک نے خشکی نام کی کوئی چیز ان [کے مزاج] میں پیدا نہیں ہونے دی‘‘ (ص ۸۳)۔ پھر یہ کہ: ’’وہ زندگی کے آخری لمحات تک علمی کام کرتے اور دوسروں کو علمی کام پر [لگاتے] رہے۔ شدید بیماری کے زمانے میں بھی انھوں نے علمی کام مکمل کیے‘‘۔ (علی طارق، ص ۱۵۹)
کتب کی ترتیب و تدوین میں انھوں نے زندگی کا بڑا حصہ صرف کر دیا، یعنی دوسروں کی تحریروں کے معیار کو بلند تر بنانے کے لیے انتہا درجے تک محویت اور لگن کی راہ اپنائی۔ نصیراحمد سلیمی بتاتے ہیں: ’’کتب کی ایڈیٹنگ میں ان جیسی محنت کرنے والا خوش ذوق شاید ہی کوئی ہوگا۔ وہ ایک کتاب کے مسودے پر اتنی بار نظرثانی کرتے کہ اصل متن نظروں سے اوجھل ہوجاتا۔ ان کی ایڈیٹنگ کے ساتھ چھپنے والی کتب پر مختلف مصنّفین کے نام لکھے ہیں، لیکن حقیقت میں مصنّف کہلانے کے حق دار انصاری صاحب ہی تھے‘‘۔ (ص ۱۰۸)
خود میرا بھی ایک تجربہ ہے۔ یہ ۱۹۷۷ء کی بات ہے۔ میں نے ذاتی شوق کے تحت جمعیت کے ناظم اعلیٰ عبدالملک مجاہد صاحب سے اجازت لی، اور اسلامی جمعیت طلبہ کے دستور کا انگریزی ترجمہ کرنے کے لیے پروفیسر عبدالحمد صدیقی صاحب سے درخواست کی۔ انھوں نے علالت کے باعث انگریزی کے ایک پروفیسر صاحب کو یہ کام سونپ دیا۔ جوں ہی ترجمہ ہاتھ میں آیا،تو میں نے زندگی میں پہلی بار تخاطب کا اعزاز حاصل کرتے ہوئے ازراہِ احتیاط وہ ترجمہ انصاری صاحب کو سعودی عرب بھیج دیا۔ پھر کیا تھا، جناب! انھوں نے مذکورہ ترجمے کی ایک ایک سطر ادھیڑ کر رکھ دی۔ سارا ترجمہ جگہ جگہ سے تبدیل کر کے واپس بھیجا۔ میں نے کمپوز کرایا تو خط آیا: ’’جوں ہی پروف نکلیں دوبارہ بھیجیں‘‘۔ ایک بار بھیجا اور پھر دوبارہ، سہ بارہ بھیجا، قصّہ کوتاہ ڈیڑھ سال میں آٹھ پروف انھوں نے ٹھیک کرکر کے واپس بھیجے۔ شائع ہونے کے بعد اپنی دل چسپی کے لیے میںنے بنیادی مسودے کے ساتھ موازنہ کیا تو سواے دفعات کی گنتی اور جمعیت کے نام کے، ہر چیز تبدیل تھی۔ یہ محنت، یہ توجہ، یہ جز رسی اور ایسی ذمہ داری کہ مثال پیش کرنا ممکن نہیں۔
تہذیبی ترفع ظفرصاحب کی شخصیت کا امتیازی پہلو تھا: ’’سلام میں پہل، مسکرا کر ملنا، محبت سے مصافحہ اور تمام متعلقین کے حال اَحوال دریافت کرنا ان کی مخصوص عادتیں تھیں…ایک مرتبہ جب وہ بہ طور صدرِ جامعہ (بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی) فرائض انجام دے رہے تھے، اطلاع ملی کہ طلبہ کے احتجاجی جلوس میں مخلوط ماحول دیکھنے میں آیا ہے۔ جس کا انھوں نے فوری نوٹس لیا اور سختی سے ہدایت کی کہ آیندہ اس قسم کا ماحول جامعہ میں برداشت نہیں کیا جائے گا‘‘ (ڈاکٹر سہیل حسن، ص۷۹)۔ اور یہ کہ: ’’ڈاکٹر صاحب بلاشبہہ ایسے خوش نصیبوں میں سے تھے، جو حق کو دائرۂ شعور کا زندہ مرکز بنا لیتے ہیں اور خیر کو دائرۂ وجود کا… بارہا دیکھا کہ کسی نے منہ پر ان کی تعریف کرنے کی کوشش کی تو انھوں نے ابتدائی فقرہ بھی پورا نہ ہونے دیا۔اپنی مدح سننے سے گریز کا یہ عمل رسمی عاجزی کے ساتھ نہیں، بلکہ بے تکلفی اور قدرے ناگواری کے ساتھ ہوا کرتا تھا‘‘ (احمد جاوید، ص ۴۴)۔ پھر یہ کہ: ’’ایک بہترین انسان اور تحقیق و تعلیم میں ہمہ تن مشغول رہنے والی شخصیت تھے، جو کسی طبعی علالت کو علمی و تحقیقی کام میں سنگِ گراں نہیں بننے دیتے تھے‘‘۔ (ڈاکٹر جمیلہ شوکت، ص ۹۱)
طبیعت میں ایسی انسان پروری، شگفتگی اور دل آویزی کہ: ’’یوں ہی خیال آتا ہے کہ اگر مولانا مودودی صاحب کے پیش کردہ نظریا ت کے نتیجے میں [ظفراسحاق] انصاری صاحب جیسے لوگ پیدا ہونے لگیں، تو ہم جیسے [تصوف کے طرف دار] لوگ اسی پر مطمئن ہوجائیں، کیوںکہ تصوف کا منشا بھی تو یہی ہے کہ ایسا معاشرہ قائم ہو، جس میں انسان انسان کی ڈھال بنے، اس کے لیے تلوار نہ بن جائے‘‘۔ (ڈاکٹر نجیبہ عارف، ص ۱۱۹)
قرآنِ عظیم سے محبت اور سیرتِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے شیفتگی کے مظاہر ان کی زندگی میں کئی حوالوں سے سامنے آتے ہیں: ’’ڈاکٹر صاحب انتہائی رقیق القلب تھے۔ میں نے خود دیکھا جب ایک محفل میں نعت ِ رسولؐ پڑھی جارہی تھی اور آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے‘‘ (ڈاکٹر ضیاء الدین رحمانی، ص ۱۴۶)۔ ڈاکٹر صاحبزادہ ساجد الرحمٰن لکھتے ہیں: ’’نعتیہ اشعار سناتے وقت ان کی آنکھوں میں تیرتے آنسو، سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے والہانہ عشق کے غماز ہوا کرتے تھے۔ گاہے کوئی پسندیدہ شعر سنانے کو جی چاہتا تو دفتر بلواتے اور محبت سے سناتے۔ ایک مرتبہ آسی جونپوری کا ایک شعر رندھی ہوئی آواز میں سنایا ؎
وہاں پہنچ کے یہ کہنا صبا سلام کے بعد
تیرے نام کی رَٹ ہے ، خدا کے نام کے بعد
ایک مرتبہ طلب فرمایا اور ماہرالقادری کا یہ شعر سنایا:
تاروں سے یہ کہہ دو کوچ کریں، خورشید منور آتے ہیں
قوموں کے پیمبر آ تو چکے، اب سب کے پیمبر آتے ہیں
(ص ۶۷)
وہ ایک بہترین مترجم، شان دار مصنّف،اعلیٰ پاے کے دانش ور، شفیق استاد اور نجیب الطرفین انسان تھے۔ کارِ تحقیق اور اشاعت ِ دین ہی کے جذبے نے انھیں اُردو کے علاوہ عربی، فارسی، انگریزی، جرمن اور فرانسیسی زبانوں پر دسترس کے حصول پہ اُبھارا۔ان کی وفات پر جناب مجیب الرحمٰن شامی نے دُکھ کا اظہار اس آہ کی صورت میں کیا: ’’ڈاکٹر ظفراسحاق انصاری رخصت ہوئے تو اربابِ صحافت اور سیاست کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔ کسی نے ایک کان سے سنا بھی، تو دوسرے سے اُڑا دیا۔ نہ صدر مملکت کا کوئی بیان نظر سے گزرا، نہ وزیراعظم کی توجہ ہوئی، اور سراج صاحب بھی لاتعلق نظر آئے… شوروغوغا کو زندگی سمجھ لینے والے معاشرے بالآخر کہاں پہنچ جاتے ہیں، یہ جانے والے کے لیے نہیں، یہاں رہ جانے والوں کے لیے سوچنے کا مقام ہے‘‘۔ (ص ۹۶)
اس مختصر تبصراتی مضمون میں اسی قدر ذکرِ یار ممکن ہے، جب کہ راہروانِ عشق، اس داستانِ لذیذ کو مذکورہ اشاعت کے مطالعے ہی سے آویزئہ گوش بنا سکتے ہیں۔ [اشاعت ِ خاص، ماہ نامہ تعمیرافکار، کراچی]، مدیر:سیّد عزیز الرحمٰن۔ ناشر: زوّار اکیڈمی پبلی کیشنز ۔ فون: ۳۶۶۸۴۷۹۰- ۰۲۱۔ صفحات: ۳۰۴۔ قیمت: ۴۵۰ روپے۔
افغانستان ، ایران اور ترکی سے اسلامیانِ ہند کا تعلق اور رابطہ دورِ غلامی ہی سے رہا ہے۔ بعض وجوہ سے، افغانستان اور ایران کی نسبت ترکی سے تعلق اُستوار تر ہوتا گیا اور آج پاکستان کا جتنا گہرا ربط وتعلق ترکی کے ساتھ ہے، کسی اور مسلمان ملک سے نہیں ہے (حرمین شریفین سے عقیدت کی بنا پر سعودی عرب سے تعلق ایک دوسری نوعیت رکھتا ہے )۔ ۲۰ویں صدی کے ابتدائی عشروں میں بر عظیم کے مسلمانوں نے جس والہانہ انداز میں دامے ، درمے، سخنے ترکوں کی مدد کی، اس نے ترکوں کے دل جیت لیے اور ان ترک دلوں میں ہمیشہ کے لیے ایک جگہ بنا لی۔ برعظیم کے مسلمانوں خصوصاً پاکستان کے لیے ترکوں کے دل آج بھی دھڑکتے ہیں۔
ترکی سے متعلق حال ہی میں دو کتابیں نظر سے گزریں۔ مندرجہ بالا پس منظر کے حوالے سے ذیل میں ان کتابوں کا تعارف پیش کیا جا رہا ہے۔
1
ڈاکٹر نثار کا تعلق بہار سے تھا۔ پہلی ہجرت کر کے مشرقی پاکستان اور دوسری ہجرت کے نتیجے میں کراچی پہنچے ۔ ۱۹۶۵ء میں آر سی ڈی کے وظیفے پر انقرہ یونی ورسٹی سے ایم اے کیا اور ۱۹۷۱ء میں استنبول یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ پھر انقرہ منتقل ہو گئے اور وہیں پیوند ِخاک ہوئے ۔ وہ چار زبانوں (ترکی ، اُردو ، انگریزی اور جرمن ) پر دسترس رکھتے تھے۔ ۳۶سال ترکی ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی غیر ملکی نشریات سے وابستہ رہے، اور ۳۶ سال تک پاکستانی سفارت خانے میں’ افسرِ اطلاعات‘ کے طور پر خدمات انجام دیں۔ کچھ عرصہ درس وتدریس اور صحافت میں بھی گزرا۔
ان متنوّع مصروفیات کے ساتھ ، ڈاکٹر نثار نے قلم وقرطاس سے بھی تعلق بر قرار رکھا۔ مصروفیت کیسی ہی ہو، ان کا قلم برابر رواں رہتا تھا۔ ان کی ۵۰ سے زائد تصانیف وتالیف اور کتب ِ تراجم، قلم وقرطاس سے ان کے گہرے تعلق کو ظاہر کرتی ہیں۔(کتب ِ تراجم میں تفہیم القرآن، سیرتِ سرورِ عالم ، سود، سنت کی آئینی حیثیت ، مسئلہ جبرو قدر ، تعلیمات اور علامہ اقبال کا منتخب اردو کلام شامل ہے )۔ وہ ہفت روزہ اخبار جہاں اور ہفت روزہ تکبیر کراچی میں کئی سال تک ’مکتوب ترکی ‘ لکھا کرتے تھے۔ ڈاکٹر حافظ محمد سہیل شفیق کی مرتبہ زیر نظر کتاب انھی مکاتیب کا مجموعہ ہے۔ تقدیم نگار جناب محمد راشد شیخ نے انھیں یاد کرتے ہوئے متأسفانہ لکھا ہے کہ ڈاکٹر اسرار کی خدمات کا اعتراف نہیں کیا گیا۔ راشد صاحب کے نام اسرار صاحب کے ۲۱خطوط بھی شاملِ کتاب ہیں۔
۴۳ مکاتیب (یا راشد شیخ کے بقول ’رپورٹوں‘ ) میں خاصا تنوع ہے۔ بنیادی موضوع ترک، ترک قوم ، ترک عوام وخواص ، ترک مشاہیر، ترک معاشرہ ، ترک صحافت اور ترک سیاست ہے۔ مضامین پڑھتے ہوئے ترکی کے بارے میں بہت سی ایسی چیزوں کا پتا چلتا ہے جن سے تاریخ کے عام طالب علم بھی واقف نہیں ہوں گے، مثلاً: ’’ترکی تضادات کا ملک ہے بلکہ یوں کہہ لیجیے کہ اجتماعِ ضدّین ہے___ ترکی واحد سیکولر ریاست ہے جس کی ۹۸ فی صد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے اور جہاں ۶۵ سال کے لادینی نظام اور مذہب دشمن ظالمانہ قوانین کے باوجود، لوگوں کا اسلامی جذبہ سرد نہیں ہوا بلکہ نمایاں طور پر ابھرا ہے۔ علاوہ ازیں ترکی اکیلا مسلمان ملک ہے جہاں سے پلے بوائے اور پلے مَین جیسے بین الاقوامی شہرت کے فحش رسائل کے ترکی اڈیشن نکلتے ہیں اور مقامی اخبار ورسائل میں بھی مخر ّب ِ اخلاق تصویریں اور مضامین شائع ہوتے ہیں اور جہاں اسلام نام کا ماہنامہ اور بعض دوسرے اخبارات وجرائد لاکھوں کی تعداد میں چھپتے ہیں ۔ ایک طرف ننگوں کے کلب قائم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے اور دوسری طرف مذہبی ذہن کی خواتین کے سر ڈھانپنے یا پردہ کرنے پر ایک طوفانِ بد تمیزی اٹھایا جا رہا ہے۔ ان تضادات کی تازہ ترین مثال عیسائیوں کی مشنری سرگرمیاں ہیں۔ واضح رہے کہ ترکی میں ساری آئینی اورقانونی پابندیاں مسلمانوں کے لیے ہیں۔ غیر مسلم اس سے بَری ہیں ‘‘ ۔ ( ص۵۳-۵۴، ۳ مارچ ۱۹۸۸ء کی تحریر ) ۔ ڈاکٹر نثار کا خیال ہے کہ عیسائیت کے پرچار کا راستہ اتاترک اور عصمت انونو کی مذہب دشمنی نے ہموار کیا: مساجد کی بے حُرمتی، مدارس بند، حج ممنوع اور عربی میں اذان پر پابندی۔ عصمت انونوکے ایک چہیتے وزیر سراچ اوغلو نے پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا:’’حضرات آپ مجھے ۳۰سال کی مہلت دیجیے، اس ملک سے مذہب کا نام و نشان مٹا دوں گا‘‘۔ یہ مذہب دشمنی ۱۹۴۵ء تک جاری رہی۔
ایک مکتوب (۱۲ مارچ ۱۹۹۸ء ) بہ عنوان: ’’ترک ذرائع ابلاغ فحاشی کی تمام حدود پھلانگ گئے ‘‘ سے اندازہ ہوتا ہے کہ ترکی کے سرکاری نشریاتی اداروں کے علاوہ تقریباً ۳۰ ٹیلی ویژن چینل انتہا درجے کی آزادی سے چل رہے ہیں۔ ڈاکٹر اسرار بڑے تأسف کے ساتھ لکھتے ہیں: ’’میڈیا کو اپنی آزادی کا گہرا شعور اور احساس ہے اور اس آزادی پر ذرا سی آنچ آتے ہی وہ فوراً ڈٹ جاتے ہیں ۔ صدرِ مملکت اور وزیر اعظم پر بھی تنقید کے تیر چلاتے ہیں۔تا ہم بامقصد صحافت ، سنجیدہ اور صحیح رپورٹنگ ، معتبر اور بے لاگ تبصرے کا شدید فقدان ہے‘‘ (ص ۶۴ )۔ مصنف نے زیرِ نظر مکتوب میں ترکی میڈیا (۱۹۸۸ء )کی جو کیفیت بتائی ہے وہ پاکستان کے ۲۰۱۷ ء کے میڈیا سے بڑی مماثلت رکھتی ہے۔ ٹی وی چینلوں کو حدود میں رکھنے کے لیے ادارے اور قوانین ترکی میں بھی موجود تھے اور پاکستان میں بھی موجود ہیں لیکن دونوں جگہ عموماً یہ غیر فعاّل ہیں، اور مجرمین کے خلاف کوئی مؤثر تا دیبی کارروائی کرنے سے قاصر ہیں۔
2
تحریکِ خلافت کے زمانے میں ہندستانی مسلمانوں نے ’’ جان، بیٹا! خلافت پہ دے دو ‘‘ کے جذبے سے ترکوںکے ساتھ جذبۂ اخوت کا حق ادا کیا ۔ شعرا نے نظمیں لکھیں اور عوام الناس نے درہم ودینار ارسال کیے۔ مگر زیر نظر کتاب دفتر اعانۂ ہند (مرتبہ: ڈاکٹر خلیل طوق آر) سے پتا چلتا ہے کہ جذبۂ اخوت کا اظہار ما قبل انیسویں صدی میں بھی اُسی طرح ہوتا رہا ہے۔ ۷۸-۱۸۷۷ء میں روس اور ترکی میں جنگ کی خبریں ہندستان پہنچیں تو یہاں کی انجمنوں اور اداروں نے چندہ جمع کر کر کے ترکی بھیجنا شروع کیا۔ چوں کہ ہندستانی باشندے ، ترکوں کو مظلوم سمجھتے تھے اس لیے : ’’نہ صرف ہندستان کے مسلمان بلکہ ہندو، پارسی، عیسائی، یہاں تک کہ انگریز افسر بھی [شاید روس دشمنی میں] ان چندوں میں پیسے دیتے تھے۔ امیر تو امیر ، غریب بھی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ترکوں سے تعاون کرنے کے لیے پیش پیش تھے۔ نواب سے لے کر حجام تک، ملکہ سے لے کر اپنی کمائی چندے میں دینے والی بیوہ خواتین اور حتیٰ کہ بالا خانوں کی طوائفوں اور دلّالوں تک ہرہندستانی اس کارِ خیر میں حصّہ لینا چاہتا تھا‘‘(ص xii)۔چندہ دینے والوں میں ریاستوں کے نواب ، انجمنوں کے صدور ، انگریزی فوج کے مسلمان سپاہی ، مدرسوں کے مولوی اور سرکاری ملازم بھی شامل تھے۔ ان لوگوں میں بڑے شہروں اور قصبوں کے علاوہ ہندستان کے مختلف صوبوں اور دُور دراز واقع دیہاتوں میں رہنے والے بھی تھے۔ جن جن اداروں یا افراد کے تو سّط سے جتنا جتنا چندہ آتا تھا، ترکی میں اس کا ریکارڈ تحریری طور پر رکھا جاتا تھا۔ بعدازاں اس ریکارڈ کو دفتر اعانۂ ہند کے نام سے کتابی شکل میں شائع کر دیا گیا ۔ کتاب کا ایک نسخہ استنبول یونی روسٹی میں موجود ہے۔
ڈاکٹر خلیل طوق آر ( استاد شعبۂ اردو ، استنبول یونی ورسٹی ) نے مذکورہ کتاب کی عکسی نقل، ایک سیرحاصل مقدمے کے ساتھ شائع کی ہے۔ جملہ اندراجات بزبانِ ترکی خطِ نستعلیق میں ہیں ۔ رقوم کی صراحت ’روپیہ، آنہ ،پائی ‘ سے کی گئی ہے۔ اگر یہی کتاب یا ایسی ہی کوئی کتاب ، اتا ترک کے دور میں تیار کی گئی ہوتی تو ہم اردو قارئین نہ جان سکتے کہ کیالکھا ہے کیوں کہ اتا ترک (ترکوں کا باپ) نے رسم الخط تبدیل کر کے اپنے ’بیٹوں‘ (ترکوں) کو مسلمانانِ عالم سے کاٹ دیا اور رومن (انگریزی) رسم الخط کے ذریعے یورپی بننے کی کوشش کی، مگر ما بعد حکمرانوں کی پوری کوششوں کے باوجود ، یورپی یونین ترکی کو رکنیت دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ زیرنظر کتاب، ادارۂ تالیف وترجمہ، پنجاب یونی ورسٹی کے ناظم ڈاکٹر محمد کامران نے شیخ الجامعہ ( ڈاکٹر مجاہد کامران ) کی منظور کردہ خاص گرانٹ سے شائع کی ہے۔ (صفحات : ۳۶۰ ، قیمت: ۵۰۰ روپے )
مغرب میںاسلام اور مسلمانوں سے علمی دل چسپی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مستشرقین، مؤرخین، ماہرین علوم انسانی اور ماہرین عمرانیات ڈیڑھ سو سال سے زائدمدت سے دنیا کے مختلف خطوں کے اسلامی معاشروں کے اندرونی محرکات کا فہم حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہے ہیں۔البتہ کچھ حالیہ بلکہ نا خوش گوار واقعات نے اہل مغرب کومسلم ذہن پر ایک تازہ نظر ڈالنے اور مسلم دُنیا میں پیش آنے والی تبدیلیوں کے عمل سے اسلامی روایات کا تعلق دریافت کرنے کی ضرورت اور طلب میں مزید شدت پیدا کر دی ہے۔
برطانیہ اور یورپ میں ’اسلامو فوبیا‘ کے ظہور کے بعد سے اور امریکا میں ’دہشت گردی کا خبط‘ پیدا ہوجانے کے نتیجے میں ریڈیکل اسلام (انقلابی اسلام)، خانہ ساز دہشت گرد،مسلم بنیاد پرست، قدامت پسند سلفی اورجہادیوں جیسے موضوعات پر تصنیفات کا ایک سیلاب اُمڈ آیاہے۔ اس امر کی حقیقی ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ نہ صرف مسلم دنیاکی تازہ ترین تبدیلیوں پر، بلکہ اسلام اور سیاست، اسلام اور خواتین اور اسلام اور سماجی تغیرات وغیرہ کے باہمی تعلق پر بھی علمی، معروضی اور مستند مآخذ سے استفادہ کرتے ہوئے کام کیا جائے۔
دو جلدوں پر مشتمل زیر نظر تحقیقی کام’اسلام اور سیاست‘ جس میں ۴۱۲ مقالات ہیں، اس ضرورت کی تکمیل کی طرف ایک سنجیدہ کوشش ہے۔اس میں ۲۰۰ سے زائدمقالات نئے ہیں،جب کہ بقیہ تمام مقالات اوکسفرڈ انسائی کلو پیڈیا آف دی اسلامک ورلڈ ۲۰۰۹ء (مدیر:جان ایل ایسپوزیٹو) سے ماخوذ ہیں، جن پر مزید تنقیح کرکے انکی ترتیب نو کی گئی ہے۔مدیر اعلیٰ عماد الدین شاہین نے تمام معلومات کو جس پُرمعنی انداز سے باہم مربوط کرنے کابھاری بھرکم اور کٹھن کام کیا ہے اس پر وہ داد وتحسین کے مستحق ہیں۔
مضمون نگاروں میں مغربی اور مسلم دُنیا کے معروف محققین شامل ہیں۔اس قسم کے منصوبوں میں جس بڑے مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ یہ ہے کہ کسی ایسے صاحبِ علم کو تلاش کیا جائے جو مطلوبہ معلومات تک راست رسائی رکھتا ہو۔ مستشرقین کا ایک بڑا کمال یہ رہاہے کہ وہ اپنے زیرتحقیق افراد کی زبان و تہذیب کا علم رکھتے تھے۔ آج کے دور میں اسلام اور مسلمانوں پر کیے جانے والے جدید علمی کاموں میں بالعموم اس بنیادی شرط کا فقدان پایا جاتاہے۔حتیٰ کہ اِس قابل توجہ کاوش میں بھی بیش تر انگریزی اور دیگر یورپی زبانوں ہی کے مآخذ پرانحصار کیا گیا ہے۔ صرف چند مصنّفین نے اُردو، عربی، فارسی،ملائی، انڈونیشی، ترکی، سواحلی اور مسلم دنیا کی دیگر زبانوں میں پائے جانے والے اصل مآخذ پر نظر ڈالی ہے۔ یہ پہلوخاص توجہ کا مستحق ہے۔ اِس مفید کام کی آیندہ طباعتوں کی تیاری کے وقت،اس کا خیال رکھنا چاہیے۔
موضوعات کا تنوع باعث دل چسپی ہے اورنظریات کے وسیع سلسلے کا احاطہ کرتاہے۔ چند روایتی موضوعات، مثلاً خلافت، فقہ، اُصولِ فقہ، اجتہاد اورمتعدد جدید مسائل، جیسے اقتدار اور قانونی جواز، آئین اور اُصولِ آئین،تعلیم، حکمرانی،علم کی اسلامی تشکیل اور القاعدہ جیسے موضوعات پر ان دونوں جلدوں میں پیش کیا جانے والا تحقیقی کام اہلِ مغرب کے لیے ایک حوالہ بن گیا ہے، اور اس کا مطالعہ اسلام اور موجودہ اسلامی دنیا کا علم حاصل کرنے والے ہر مغربی طالب علم کے لیے مفید ہے۔ گو، مضامین عموماً اسلام اور سیاست ہی کے گرد گھومتے ہیں۔
انسانی کوشش ہونے کے سبب ہرانسانی کام کی طرح اس تحقیقی کام میں بھی مزید بہتری اورتازہ ترین معلومات شامل کرنے کی گنجایش موجود ہے۔ بے شمار اعلیٰ درجے کی تصنیفات میں بھی تحقیقِ مزیدکا دریچہ کھلا رکھا جاتا رہا ہے۔ چناں چہ چند ایسے گوشے نشان دہی کے لایق ہیں، جن میں مزید بہتری لانے کی ضرورت ہے۔
پہلے خلیفۂ راشد سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہٗ(م: ۶۳۴ئ) پر مضمون میں’رِدّہ‘(ارتداد) کو ’سیاسی بغاوت‘ کے طور پر پیش کیا گیا ہے (جلد:۱، ص:۱۶)۔ لفظ’رِدّہ‘ایک دینی اصطلاح ہے، سیاسی نہیں۔اس کا سادہ مطلب ہے مرتد ہو جانا،یعنی کچھ قبائل کی طرف سے اسلام کے پانچ بنیادی عقاید میں سے ایک کا انکار کر دینا۔ زکوٰۃ دینے سے انکار کردینا جو فرض ہے، اسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک ستون اور عبادت ہے۔ عبادت کو مسئلہ کہنا نفس مضمون سے گمراہ کن حد تک ناواقفیت کا نتیجہ ہے ۔
احمدیت پر مضمون اگرچہ خوش اسلوبی سے لکھا گیا ہے، مگر نقائص اور سنگین اغلاط نے اس کا ناس مار دیا ہے۔مصنف کی یہ حجت کہ یہ معاملہ …’احمدیت اور سوادِ اعظم کے سنی اسلام کے مابین تنازع‘ … تھا، یا …’مذہبی مقتدرین سے تنازع‘… تھا(ص ۵۰-۵۱)۔ یا علماے دین سے تنازع تھا___ حقیقی صورتِ حال کی عکاسی نہیں کرتا۔
یہ بھی درست نہیں کہ …’’تنازع میں اشتعال انگیزی اس حقیقت کا نتیجہ تھی کہ علما نے احمدیت کی مخالفت میں محمد[صلی اللہ علیہ وسلّم] کے ناموس کے جذباتی مسئلے پر ساری توجہ مرکوز کردی‘‘(ص۵۱)۔مزید برآں یہ تبصرہ بھی گمراہ کن اور بعید از حقیقت ہے کہ …’’احمدیت اُن علما سے تصادُم پر مجبور تھی، جو محسوس کرنے لگے تھے کہ اسلام کے متولی کی حیثیت سے اوراسلامی تعلیمات اور اسلامی قوانین کے شارح و ترجمان کی حیثیت سے انھیں جو مقام اور منصب حاصل ہے اُس کی جڑیں کھودی جارہی ہیں‘‘-(ص۵۱)
حقیقت میںتنازع احمدیت اور ’سنی سوادِ اعظم کے اسلام‘ میں نہیں ہے، جیسا کہ خیال ظاہر کیا گیا ہے۔احمدیت کو اسلام کے تمام مکاتب فکر شیعہ، سنی ، سلفی، ہر ایک دائرۂ اسلام سے خارج تسلیم کرتا ہے۔ اس کی وجہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلّم کی ختم نبوت کے معاملے میں احمدیوںکا ایسامؤقف ہے۔یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر تمام مسلم علما اور پوری امت مسلمہ کا اجماع ہے۔ دعواے نبوت کرنے والا ، خواہ اس کے دعوے کی کوئی بھی شکل ہواور ایسے کسی شخص کے دعوے کی تصدیق کرنے والا،خواہ وہ کوئی بھی ہو، خود بخود دائرئہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔اس مسئلے کا تعلق نہ کبھی علماکے کردار سے رہا ہے، نہ اس میں کسی ایک آیت یا کسی حکم کی تعبیر و تشریح کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ یہ موقف مسلم اُمہ کا غیر مبہم اجماعی مؤقف ہے اور متفق علیہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کی ۱۰۰فی صد مسلم آبادی احمدیوں کو مسلمان تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے۔
اپنے طور پر وہ جو بھی تعبیر پیش کرتے ہوںاس سے سنیوں یا شیعوں کی قانونی تعبیر پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ شاید اس پہلو کو سب سے زیادہ نظر انداز کیا گیا ہے کہ خود احمدی اُس ۱۰۰فی صدمسلم آبادی کے متعلق، جو دنیا بھر میں ۶ئ۱؍ارب سے زائد ہے، کیا نقطۂ نگاہ رکھتے ہیں؟احمدیت کے حقیقی نمایندے، یعنی اُن کے خلیفہ سے پاکستان کی پارلیمان میں سوال کیا گیا کہ احمدیوں کے نزدیک غیر احمدی کیا ہیں؟ اُس کا جواب بڑا سادہ ساتھا: ’غیر مسلم‘۔ بہ الفاظ دیگر احمدیوں کو اسلام کا ایک ’فرقہ‘ کہنا اس لیے مضحکہ خیز بات ہے کہ وہ دنیا کی پوری غیر احمدی آبادی کو جس میں دنیاکے تمام مسلمان شامل ہیں’غیر مسلم‘ گردانتے ہیں۔احمدیوں کے نزدیک پوری مسلم اُمہ ہی ’غیر مسلم‘ ہے۔انھیں امت مسلمہ کا ایک ’فرقہ‘ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے؟
یہ بات بھی صاف طور پر سمجھ لینی چاہیے کہ علما کی بالادستی کبھی اصل مسئلہ نہیں رہی ۔ یہ بنیادی مسئلہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی ختم نبوت پر ایمان کا مسئلہ ہے اور اصل تنازع مرزا غلام احمد کا یہ باطل دعویٰ ہے کہ وہ مسیح ہے، مصلح ہے اور غیر قانون ساز (غیر تشریعی) نبی ہے، جس کی بنا پر مرزا نے جہاد کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ان دو بنیادی مختلف فیہ عقاید کے سبب دنیا بھر کے تمام شیعہ اور سنی علما نے احمدیت کو ایک نیا مذہب قراردیا جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
دیوبند تحریک پر مضمون (جلد اوّل، ص:۲۶۱-۲۶۴) میں اس تعلیمی تحریک اور مسلک کی تعریف یوں بیان کی گئی ہے …’’برصغیر کے علما کے مسالک میں سے ایک بڑا مسلک جو دیگر فرقہ وارانہ مسالک شیعہ، احمدی،جماعت اسلامی،علی گڑھ اوردوسرے معتدل حریف سنی گروہوں، مثلاً بریلوی (اہل سنت و الجماعت) اور اہل حدیث سمیت متعدد مسالک کی صف میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے‘‘ (ص:۲۶۲)۔یہاں ’مسلکی تقسیم‘ کی اصطلاح نے بات کو الجھا دیا ہے اور مسالک اور غیراسلام میں کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے۔ اس میں وہ بھی شامل کر دیے گئے ہیںجو اپنے آپ کو’فرقہ‘ قرار دیتے ہیں نہ انھیں ’فرقہ‘ کہا جاسکتا ہے۔علی گڑھ سے مراد علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ہے جو ایک تعلیمی ادارہ ہے، مسلک نہیں۔جماعت اسلامی ایک سماجی-سیاسی تحریکِ احیاے دین ہے۔ اس میں شمولیت کے دروازے تمام مسالک پرکھلے ہوئے ہیں اوراس کے ارکان میں مختلف مسالک کے لوگ شامل ہیں۔یہ جماعت کسی خاص مسلک سے وابستہ ہے نہ اس کا اپنا کوئی فقہی مسلک ہے۔دوسری طرف احمدیت کوئی مسلک یا فرقہ نہیں ہے۔ یہ ایک مذہب ہے جس کا اپنا الگ پیغمبر ہے اور اس کے الگ پیروکار ہیںجو اسے ایک علاحدہ مذہب اور ایک جداگانہ اُمت بناتے ہیں۔یہ غلط مبحث مقالات کے علمی مقام کو بہت گرا دیتا ہے۔
جماعت اسلامی پر مضمون (جلد اوّل، ص۶۲۷- ۶۲۹) میں اس جماعت کی تاریخ کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے۔ تاہم، مصنف نے کسی ایک بھی اصل اُردو ماخذ کا حوالہ نہیں دیا۔ مزیدبرآںمصنف کے کچھ بیانات متضاد ہیںاور کچھ بے بنیاد۔مثلاً یہ کہا گیا ہے کہ: ’’پاکستانی حکام نے جماعت پر بھارت نواز جذبات رکھنے اور پاکستان دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا‘‘(ص۶۲۷)۔ ایک نام نہاد اعلیٰ تعلیمی ادارے کے اشاعتی مرکز سے طبع ہونے والے دائرۃ المعارف میں یہ بے بنیاد الزام، اور ایک نیک نام تحریک کو بدنام کرنے والے غیر مصدقہ بیان پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ جماعت اسلامی ۱۹۴۱ء میں اپنی ابتدا ہی سے ایک نظریاتی تحریک کے طور پر کام کر رہی ہے اوراس نے برطانوی حکومت کے دور میں سیاست میں حصہ نہیں لیا۔پاکستان میں جب ۱۹۴۹ء میں قراردادِ مقاصد منظور کر لی گئی تو جماعت نے ایک دینی سیاسی جماعت کی حیثیت سے اپنی تنظیم نو کی، فرقہ وارانہ فکر سے اس کی وابستگی کبھی نہیں رہی۔ برعظیم پاک و ہند کے باقی حصوں میں جماعت اسلامی کے نام سے چار قطعاً آزاد جماعتیں بھارت، بنگلہ دیش،نیپال اور سری لنکا میں کام کر رہی ہیں، مگر ان میں سے ہر ایک کا اپنا الگ الگ دستور ہے، علاحدہ قیادت ہے، اور جداگانہ نظریاتی، سماجی اور معاشی لائحہ عمل ہے۔
لشکر جہاد پر مضمون(جلد دوم، ص ۱)ہمیں قیمتی معلومات فراہم کرتاہے، اگرچہ درست املا Laskar Jihad نہیں Lashkar-i-Jihad ہے۔ مصنف اس کے بانی جعفر عمر طالب کے حوالے سے کہتا ہے:’’اس کی تعلیم سلفی/ وہابی فکر رکھنے والے تعلیمی ادارے میں ہوئی ۔پھراس نے سید مودودی انسٹیٹیوٹ لاہور، پاکستان جاکراپنی تعلیم جاری رکھی جہاں سلفی فکر سے اُس کی وابستگی برقرار رہی‘‘(جلد دوم، ص ۱)۔مضمون نگار نے ان دو متضاد باتوں کو خلط ملط کرکے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے سنگین غلطی کی ہے۔ سلفی مکتبۂ فکرمحمد بن عبدالوہاب کے افکار پر مبنی ایک مذہبی اور عملی تشکیل ہے۔سید مودودی انسٹی ٹیوٹ، لاہور کا کسی طرح سے بھی اس مکتبۂ فکر سے کوئی تعلق نہیں۔دونوں کو ایک دوسرے سے نتھی کرنا بالکل گمراہ کن ہے۔
ایک اور سازشی قسم کا تضاد مولانا مودودی پر مضمون (جلد دوم، ص:۴۳-۴۷) میں پایا جاتا ہے۔اس میں بیان کیا گیا ہے کہ: ’’مودودی کا مجددانہ مؤقف جامد فرقہ واریت تھا۔ مسلمانوں کے حقوق پر زور دیتا تھا،ان کی سلامتی اور ترقی کے لیے لائحہ عمل تجویز کرتا تھا، اوراسلام کو خالص رکھنے کے مفاد میں ہندوؤں سے ہرقسم کے تہذیبی، سماجی اور سیاسی تعلقات کے مقاطعہ کا مطالبہ کرتا تھا۔ یہاں تک کہ ہندستانی مسلمانوں کے لیے ایک علاحدہ تہذیبی وطن کی وکالت بھی وہ بہت بڑھ چڑھ کر کرتا رہا‘‘۔(جلد دوم،ص۴۵، خط کشیدگی از مبصر)
اس بیان کے بعد اسی مضمون میںاس امر کی نشان دہی بھی کی گئی ہے کہ:’’جلد ہی اُسے ریاست کے دشمن کی حیثیت سے شناخت کر لیا گیا۔ اُس پر پاکستان کی مخالفت کرنے کا اوربھارت کا تخریبی آلۂ کار ہونے کا الزام لگایا گیا‘‘(جلد دوم، ص ۴۶)۔ یہاں مولانا مودودی کے نقطۂ نظر کو خطرناک حدتک الجھاکر اورسراسر غلط پیش کیا گیا ہے۔ مولانا مودودی نے اس نظریے کی تشریح کی تھی کہ مسلمان اپنے عقیدے، اپنے دین اور اپنی ثقافت کی بنیاد پرایک قوم کی تشکیل کرتے ہیں۔علاحدہ وطن کا سوال اسی دینی اور ثقافتی شناخت کے تناظر میں اُٹھا تھاتاکہ ہندستان کے اُن خطوں میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، انھیں سیاسی اقتدار حاصل ہو سکے۔ہندوؤں کے ساتھ سماجی و سیاسی تعلقات کا سوال اصل مسئلہ ہی نہیں تھا،کیوں کہ یہ دونوں فریق بڑے دوستانہ اور پُرامن طریقے سے ایک ہزار سال تک مسلم دورِ حکمرانی میں دو جداگانہ تہذیبی دھاروں کی حیثیت سے ساتھ رہ چکے تھے، اور توقع تھی کہ دو آزاد ریاستوں کی حیثیت سے بھی پُرامن بقاے باہمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور اقلیتوں کے حقوق کا احترام کرتے ہوئے ساتھ رہیں گے۔ بدقسمتی سے مصنف اصل صورتِ حال کو اس کے درست ، نظریاتی اور تاریخی پس منظرمیں پیش کرنے میں ناکام رہا ہے۔اس مضمون کے تضادات کو دیکھ کر اس کا قاری الجھ کر رہ جانے کے سوا کچھ نہیں کرسکتا۔ پاکستان میں جماعت اسلامی کی حیثیت کو بھی درست طریقے سے پیش نہیں کیا گیا۔حقیقت یہ ہے کہ جماعت اسلامی ایک دینی تحریک ہونے کے سبب سیاسی جماعت ہے۔ملک کی پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں اس کی نمایندگی ہے اوراس کے ارکان وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں اہم وزارتی مناصب پر فائز رہے ہیں۔
پاکستان پر مضمون (جلد دوم، ص: ۲۲۵-۲۳۲) میں ۱۹۴۷ء سے ۲۰۰۹ء تک پاکستان میں ہونے والی سیاسی پیش رفت کا ایک جائزہ لیا گیا ہے۔تاہم، یہ موضوع مزید عمیق تجزیہ پیش کرنے کا متقاضی تھا۔اس میں اُن اسباب پر روشنی ڈالنے کی ضرورت تھی، جنھوں نے برعظیم کے مسلمانوں کو اقبال اور قائد اعظم کے تصورات سے تحریک حاصل کرکے قیام پاکستان کا مطالبہ کرنے پر مجبور کیا۔پاکستان کی انفرادیت اس دعوے میں مضمر ہے کہ یہ ملک ایک ایسے نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے، جس نے قومیت کا ایک نیا تصور پیش کیا ہے۔ اس تصور قومیت کی بنیاد دین اور ملت اسلامیہ کے تصور پر ہے ،یہ محض کسی خطۂ ارضی پر نہیں بلکہ نظریے اور اجتماعیت پر،رنگ، نسل،اور زبان کا امتیاز کیے بغیر تمام شہریوں کے حقوق کے تحفظ پر ہے۔
پاکستان میں رہنے والے چھوٹے فرقوں کا حوالہ دیتے ہوئے مصنف نے اسماعیلیوں کا ذکر کیا ہے… ’جو اثناعشری فرقے کا ایک ذیلی فرقہ ہیں‘ (جلد دوم، ص:۲۲۵)۔ان معلومات کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔اسماعیلی اپنا روحانی تعلق امام جعفر کے بعد امام اسماعیل سے جوڑتے ہیں،جب کہ ۱۲؍ اماموں کو ماننے والے یا اثناعشری یہ پختہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ امام موسیٰ الکاظم بن جعفر الصادق امامت کے جائز حق دار ہیںاور اُن کی پیروی اُس وقت تک کی جاتی رہے گی جب تک کہ بارھویں امام محمد (قائم آلِ محمدؐ) کا انتظار باقی ہے۔ (دیکھیے: محمد بن عبدالکریم شہرستانی، کتاب الملل و النحل، ترجمہ:A.K. Kazi and J.G. Flynn, London, Kegan Paul International, 1984, pp.144-145)۔ اسماعیلی اور اثناعشری دو علاحدہ وجود ہیں اور اوّل الذکرکواثنا عشریوں کا ذیلی فرقہ نہیں کہا جاسکتا۔
دو جلدوں پر مشتمل یہ تحقیقی کام مسلم دنیا پر عصری محققین کے سیاسی جائزوں پر مبنی معلومات کا ایک ذخیرہ ہے لیکن واضح طور پر مضامین مغربی زاویۂ نظر کی نمایندگی کرتے ہیں ۔مصنّفین نے بیش تر مغربی ذرائع علم پر بھروسا کیا ہے،جب کہ ان موضوعات پر عربی ،فارسی، ترکی،اُردو اور دیگر مسلم زبانوں میں اعلیٰ تصنیفات موجود ہیں۔
(اوکسفرڈ انسائی کلوپیڈیا آف اسلام اینڈ پالیٹکس، مدیر اعلیٰ: عماد الدین شاہین۔ ناشر: اوکسفرڈ، اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس، ۲۰۱۴ئ۔ صفحات: جلد اوّل: ۷۱۴،جلد دوم:۶۹۵۔)
ڈاکٹر صفدر محمود سیاسیات اور تاریخ کے معلّم رہے ہیں۔ سیاست اور تاریخ کا آپس میں گہرا تعلق ہے، چنانچہ ہماری سیاسی اور ملّی تاریخ کے دو بڑے کرداروں (اقبال اور جناح)اور ایک بڑے محور (پاکستان) سے ان کی دل چسپی فطری ہے___ اگر معلّم صاحب ِ نظر ہو اور قلم و قرطاس سے بھی علاقہ رکھتا ہو، تو وہ معلّمی کی ملازمت سے سبک دوش ہونے کے بعد بھی، اپنے خیالات کے اظہار سے کبھی سبک دوش نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر صفدر محمود صاحب گذشتہ ڈیڑھ دو عشروں سے ہزاروں قارئین کو قومی، ملّی،علمی، تہذیبی اور تعلیمی زندگی کے مختلف پہلوئوں کے متعلق اپنے خیالات سے مستفید کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں انھوں نے سیکڑوں ہی کالم لکھے ہوں گے۔
ڈاکٹر موصوف کے نسبتاً مفصل مضامین کا مجموعہ اقبال، جناح اور پاکستان کے عنوان سے چند برس پہلے شائع ہوا تھا، جس کا مطالعہ پیشِ نظر ہے۔ قائداعظم محمدعلی جناح کی شخصیت بلاشبہہ بہت دل کش تھی۔ انھوں نے پاکستان کا مقدمہ جس قانونی اور سیاسی مہارت سے لڑا اور برعظیم کی ملّت ِاسلامیہ کی ڈولتی ہوئی کشتی کو کھینچ کر سلامتی سے ساحل پر لے آئے، اس نے انھیں لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کا محبوب لیڈر بنا دیا۔ قائداعظم، ڈاکٹر صفدر محمود کے بھی محبوب لیڈر ہیں۔
جب انسان کسی شخصیت کا گرویدہ ہو تو وہ کوئی نہ کوئی ’اتفاق‘ یا ’مناسبت‘ تلاش کر لیتا ہے۔ جس کی بظاہر تو کوئی اہمیت نہیں ہوتی مگر وہ اسے اپنی عقیدت اور گرویدگی کو مستحکم کرنے کا ذریعہ بنالیتا ہے۔ دیکھیے، صفدر محمود نے ایک ’اتفاق‘ اور ’مناسبت‘ تلاش کی ہے۔ لکھتے ہیں: ’’یہ ایک دل چسپ اتفاق ہے کہ قائداعظم کی واحد اولاد، یعنی ان کی بیٹی دِینا جناح نے ۱۴؍اور۱۵؍اگست ۱۹۱۹ء کی درمیانی شب کو جنم لیا۔ ان کی دوسری اولاد اس کے صحیح ۲۸برس بعد ۱۴؍ اور ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء کی درمیانی شب کو معرضِ وجود میں آئی اور اس کا نام ’پاکستان‘ رکھا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ قائداعظم اپنی اولاد کو دل و جان سے چاہتے تھے‘‘۔ (ص ۳۰)
قائداعظم مغربی تعلیمی اداروں کے تعلیم یافتہ تھے اور اپنی ظاہری وضع قطع، رہن سہن اور لباس و اَطوار سے وہ ایک جدید اور تہذیبِ مغرب میں ڈھلے ہوئے ماڈرن قسم کے شخص معلوم ہوتے تھے۔ صفدر محمود صاحب نے ان کے کچھ ایسے پہلو دکھائے ہیں جن سے وہ پکّے پیڈے، اوّل و آخر اور مذہبی فرقوں سے ماورا خالص مسلمان نظر آتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ محمد علی جناح نے اپنا نکاح ایک سُنّی عالم مولانا نذیراحمد صدیقی سے پڑھوایا (جو مولانا شاہ احمد نورانی کے سگے تایا تھے)۔ یہ معلوم ہے کہ قائداعظم کا خاندانی تعلق اِثناعشری فرقے سے تھا مگر ان کے نزدیک فرقوں کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ زیرنظر کتاب میں بتایا گیا ہے کہ ایک بار کسی نے قائداعظم سے پوچھا: آپ کا تعلق کس فرقے سے ہے؟ قائداعظم نے جواباً سائل سے پوچھا: آں حضور نبی کریمؐ کا مذہب کیا تھا؟ ظاہر ہے قائداعظم کا جواب بہت معنی خیز اور بلیغ تھا۔
ڈاکٹر صفدر محمود نے بجا طور پر قائداعظم کو ایک سچا، کھرا اور باوقار انسان قرار دیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ قائداعظم کے ہاں راست گوئی اور عظمت ِکردار سیرت النبیؐ کے گہرے مطالعے کا اعجاز تھی۔ وہ کہتے ہیں: قائداعظم کی تقریریں پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ مسلمانوں سے محبت، اسلام کی بقا اور عظمت، اسوۂ حسنہ، اپنے ضمیر اور اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی جیسے احساسات و تصورات، اُن کے خون میں شامل تھے۔ ڈاکٹر موصوف، قائداعظم کی ۱۹۳۹ء کی ایک تقریر کے حوالے سے کہتے ہیں کہ انھیں برعظیم کے مسلمانوں کے مسلّمہ راہنما کا مقام اور مرتبہ اس وجہ سے ملا کہ وہ خدا کے حضور سرخرو ہونے اور کفر کی طاقتوں کے غلبے میں اسلام کو سربلند رکھتے ہوئے مرنے کی آرزو اور رضاے الٰہی کی تمنا رکھتے تھے (ص ۳۶)۔ وہ سرتاپا سچے مسلمان اور پکّے مومن تھے۔ صفدر محمود صاحب مولانا اشرف علی تھانوی کے ایک خواب کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’میرا دل گواہی دیتا ہے کہ یہ خواب سچا ہے‘‘۔ وہ خواب کیا تھا؟ لکھتے ہیں:
مولانا اشرف علی تھانوی نہ صرف عالم و فاضل شخصیت اور مفسر قرآن تھے بلکہ ایک بلند روحانی مرتبہ بھی رکھتے تھے اور ان کے لاکھوں معتقدین ہندو پاکستان میں بکھرے ہوئے ہیں۔ تعمیر پاکستان اور علماے ربانی کے مصنف منشی عبدالرحمن نے [قائداعظم کا مذہب و عقیدہ کے] ص ۱۱۱ پر لکھا ہے کہ مولانا اشرف علی تھانوی کے خواہر زادے مولانا ظفر احمد عثمانی فرماتے ہیں کہ ایک روز حضرت تھانوی نے مجھے بلایا اور فرمایا: ’’میں خواب بہت کم دیکھتا ہوں مگر آج میں نے ایک عجیب خواب دیکھا ہے۔ ایک بہت بڑا مجمع ہے گویا کہ میدانِ حشر معلوم ہو رہا ہے۔ اس مجمع میں اولیا، علما اور صلحا کرسیوں پر بیٹھے ہیں اور مسٹر محمد علی جناح بھی عربی لباس پہنے ایک کرسی پر تشریف فرما ہیں۔ میرے دل میں خیال گزرا: یہ اس مجمعے میں کیسے شامل ہوگئے؟ تو مجھ سے کہا گیا کہ محمدعلی جناح آج کل اسلام کی بڑی خدمت کر رہے ہیں، اسی واسطے ان کو یہ درجہ دیا گیا ہے‘‘۔ یقینا اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کا اتنا سا صلہ تو ضرور ہوگا۔ انھی مولانا اشرف علی تھانوی نے ۴جولائی ۱۹۴۳ء کو مولانا شبیراحمد عثمانی اور مولانا ظفر احمد عثمانی کو طلب کیا اور فرمایا: ’’۱۹۴۰ء کی قراردادِ پاکستان کو کامیابی نصیب ہوگی۔ میرا وقت آخری ہے۔ میں زندہ رہتا تو ضرور کام کرتا۔ مشیت ِایزدی یہی ہے کہ مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن قائم ہو۔ قیامِ پاکستان کے لیے جو کچھ ہوسکے، کرنا اور اپنے مریدوں کو بھی کام کرنے پر اُبھارنا۔ تم دونوں عثمانیوں میں سے ایک میرا جنازہ پڑھائے گا اور دوسرا عثمانی جناح صاحب کا جنازہ پڑھائے گا‘‘۔
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی قیامِ پاکستان سے کئی برس قبل اللہ کو پیارے ہوگئے لیکن چشم فلک نے دیکھا کہ پاکستان قائم ہوا، مولانا ظفر عثمانی نے تھانوی صاحب کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور سوا پانچ سال قبل کی گئی پیشین گوئی کے مطابق قائداعظمؒ کی نمازِ جنازہ مولانا شبیراحمد عثمانی نے پڑھائی۔ (ص ۳۵-۳۶)
ان دنوں ڈاکٹر صفدر محمود ایک کثیر الاشاعت اخبار میں کالم لکھتے ہیں۔ اسی اخبار کے کچھ بزعمِ خویش دانش ور کالم نویس وقتاً فوقتاً ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں کہ قائداعظم ایک سیکولر شخص تھے اور وہ پاکستان کو بھی سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے۔ انھوں نے اس موضوع پر بھی بحث کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قائداعظم نے اپنی تقریروں یا تحریروں میں کبھی لفظ ’سیکولرازم‘ استعمال نہیں کیا۔ ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر (جس کا سیکولرسٹ دانش ور سہارا لیتے ہیں) فی البدیہہ تھی اور خود قائد نے کہا تھا کہ یہ کوئی سوچا سمجھا بیان نہیں ہے۔
جب انھوں نے یہ کہا کہ آپ آزاد ہیں، مندر میں پوجا کریں، یا مسجد میں عبادت کریں۔ آپ کا کس مذہب، ذات یا عقیدے سے تعلق ہے، اس سے حکومت کو سروکار نہیں (ص۴۲)، تو اس کے یہ معنٰی نہیں کہ پاکستان سے اسلام کو بے دخل کردیا جائے گا بلکہ مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ بطور شہری، مسلمان، ہندو، سکھ، عیسائی وغیرہ برابر کا درجہ رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر صفدرمحمود کہتے ہیں کہ قائداعظم کو اسلام سے گہرا لگائو تھا۔ اسلام ان کے تیقّن اور باطن کا حصہ تھا۔ انھوں نے قرآن اور سیرت کا گہرا مطالعہ کر رکھا تھا۔ اس ضمن میں انھوں نے قائداعظم کی تقریروں کے کچھ حوالے بھی دیے ہیں، مثلاً:
۱- ’’اسلام پاکستان کے قانون کی بنیاد ہوگا اور پاکستان میں کوئی قانون اسلام کے خلاف نہیں ہوگا‘‘۔ (پشاور، نومبر ۱۹۴۵ئ)
۲- ’’میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اسوئہ حسنہ پر چلنے میں ہے جو ہمیں قانون عطا کرنے والے پیغمبرؐ اسلام نے دیا ہے‘‘۔ (سبّی، بلوچستان، ۱۴فروری ۱۹۴۷ئ)
۳- ’’میرا آپ تمام لوگوں سے یہی مطالبہ ہے کہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کے لیے بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہ کریں‘‘ ۔ (لاہور، ۳۰؍اکتوبر ۱۹۴۷ئ)
۴- ’’میں ان لوگوں کے عزائم کو نہیں سمجھ سکا جو جان بوجھ کر شرارت کر رہے ہیں اور یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ پاکستان کے آئین کی بنیاد شریعت پر نہیں ہوگی۔ ہماری زندگی پر آج بھی اسلامی اصولوں کا اسی طرح اطلاق ہوتا ہے جس طرح ۱۳۰۰ سال پہلے ہوتا تھا‘‘۔ (کراچی، ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ئ)
اس طویل مضمون کے آخر میں ڈاکٹر صفدر محمود نے قارئین سے سوال کیا ہے: ’’اب آپ خود فیصلہ کرلیجیے کہ کیا قائداعظم ذہنی طور پر سیکولر تھے اور کیا وہ پاکستان کے لیے کسی سیکولر نظام کا خواب دیکھتے تھے؟‘‘
زیرنظر کتاب میں مصنف نے تصورِ پاکستان کے مختلف پہلوئوں، تعبیرات اور تحریکِ پاکستان کے مختلف عنوانات (تقسیم ہند کی تجویز، خطبۂ الٰہ آباد، قراردادِ لاہور، کابینہ مشن پلان) پر بھی بحث کی ہے۔ ان سب مباحث میں قائداعظم کی ذات، ان کی شخصیت اور ان کے بیانات و تقاریر کا حوالہ بار بار آیا ہے۔ آٹھویں مضمون بہ عنوان: ’قائداعظم سے منسوب غلط بیانات و احکامات‘ میں بعض بے بنیاد اور مشکوک روایات کو دلائل کے ساتھ رد کیا ہے، مثلاً قائداعظم سے ایک جملہ منسوب ہے: ’’پاکستان میں نے اور میرے ٹائپ رائٹر نے بنایا‘‘۔ ڈاکٹر صفدر محمود لکھتے ہیں کہ اس کی کوئی اصل ہے، نہ کوئی حوالہ۔ ڈاکٹر مبارک علی نے ۲۵دسمبر ۲۰۰۱ء کو روزنامہ ڈان میں اپنے ایک مضمون میں قائداعظم سے یہ جملہ منسوب کیا تھا: He said that he and his typwriter made Pakistan۔ ڈاکٹر صفدر محمود کہتے ہیں کہ جب میں نے سوال کیا کہ حوالہ کیا ہے؟ تو جواب میں ڈاکٹر مبارک علی نے اعتراف کیا کہ اس جملے کی صحت کے لیے ان کے پاس کوئی تحریری ثبوت نہیں ہے، البتہ میں نے یہ بات مسلم لیگی لیڈر احمد سعید کرمانی سے سنی تھی۔ صفدر محمود صاحب کرمانی صاحب کے پاس پہنچے تو کرمانی نے مکمل نفی میں جواب دیا۔ وہ کہتے ہیں: میں نے اپنی گفتگو لکھ کر ڈاکٹر مبارک علی کو بھیجی مگر انھوں نے چپ سادھ لی۔
راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ ڈاکٹر مبارک علی جیسے غالی اشتراکی کو ایسی ہی حرکت زیبا ہے۔ اس سے پہلے وہ اصلاحِ احوال کے لیے سرسیّداحمد خاں،شبلی اور اقبال جیسے اکابر کی کاوشوں کو رد کرچکے ہیں۔ ان کے خیال میں سرسیّداحمد خاں جاگیردارانہ ذہن رکھتے تھے اور ان کی تمام تر کاوشوں کا مقصود مسلم عوام کی بھلائی نہیں،بلکہ امرا، زمین داروں اور جاگیرداروں کے مفادات کا تحفظ تھا۔ انھیں تو یہ بات بھی کھٹکتی اور بُری لگتی ہے کہ شبلی نے الفاروق، النعمان اور المامون لکھ کر مسلمانوں کو ان کے ماضی کی عظمت کا احساس دلا کر اپنی شان دار روایات پر ’ بے جا فخر‘ کرنا سکھایا۔ اور عبدالحلیم شرر نے تاریخی ناول لکھ کر ان میں مسلمانوں کی عظمت اور برتری کو پیش کیا‘۔ وہ مسلم فتوحات کو بھی ’سامراجیت‘ کے ذیل میں شمار کرتے ہیں۔
علامہ اقبال کی شاعری، ڈاکٹر مبارک علی کے نزدیک ’مغرب کے خلاف نفرت کے جذبات‘ پیدا کرتی ہے۔ اقبال جمہور دشمن تھے، معاشرے میں عورت کے صحیح مقام کا تعین نہیں کرسکے اور معاشرے کو کوئی مثبت پیغام دینے میں ناکام رہے۔ بحیثیت مجموعی ان کے افکار اور شاعری معاشرے کی ترقی اور شعور بیدار کرنے میں قطعی ناکام رہی ہے۔ (ملاحظہ ہو: ڈاکٹر مبارک علی کا کتابچہ سرسیّد اور اقبال: آگہی پبلی کیشنز، حیدرآباد، سندھ، ۱۹۸۴ئ)
وہ سندھ یونی ورسٹی میں تاریخ کے استاد تھے مگر وہاں ان کی دال نہیں گلی۔ لاہور کے بائیں بازو والوں نے انھیں خوش آمدید کہا۔ درحقیقت مبارک علی کا شمار قائداعظم کے بقول ’جان بوجھ کر شرارت‘ کرنے اور یہ پروپیگنڈا کرنے والوں میں ہونا چاہیے جو یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے آئین کی بنیاد شریعت پر نہیں ہوگی (ص ۴۷)۔ صفدر محمود صاحب نے مبارک علی کے اس جھوٹ کی بھی تردید کی ہے کہ قائداعظم کہتے تھے کہ میں پاکستان کا واحد خالق (sole creator) ہوں۔
اسی مضمون میں صفدر محمود صاحب نے قائداعظم سے منسوب اس فقرے ’’میری جیب میں کھوٹے سکّے ڈال دیے گئے ہیں‘‘ پر بھی بحث کرتے ہوئے کہا ہے کہ قائداعظم نے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کی۔
راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ مذکورہ بالا جملے کے راوی میاں عبدالعزیز مالواڈہ ہیں، اور ان کا بیان قلم بند کرنے والے سابق سیکرٹری مالیات حکومت ِ پاکستان جناب ممتاز حسن تھے، جو تحریکِ پاکستان کے پُرجوش مؤیّد اور محب ِ وطن پاکستانی تھے اور قائداعظم اور اقبال سے بے پایاں عقیدت رکھتے تھے۔ اس کا حوالہ ہے: نقوش لاہور کا اقبال نمبر، حصہ دوم،ص ۶۲۶،۱۹۷۷ئ۔
پروفیسر محمد منور نے بھی اس فقرے کو صحیح سمجھتے ہوئے اپنے مضامین میں اس کا حوالہ دیا ہے۔ صفدر محمود صاحب غور فرمائیں کہ اِنھی کھوٹے سکّوں کی کثرت کی وجہ سے آج پاکستان اس حال کو پہنچا ہوا ہے، لہٰذا قائداعظم نے جب اور جس مناسبت سے بھی کھوٹے سکّوں کا ذکر کیا تو کچھ غلط نہیں کیا۔کتاب کے آخر میں تین ضمیمے شامل ہیں۔
چودھری رحمت علی، تحریکِ آزادیِ ہند کے ایک اہم کردار تھے۔ جنوری ۱۹۳۳ء میں انھوں نے Now or Never (اب یا کبھی نہیں) نامی کتابچہ شائع کیا تھا جو ڈاکٹر صفدر محمود کے بقول: ’’پاکستان کے مقدمے کی ایک مکمل دستاویز‘‘ ہے۔ کتاب کے ضمیمہ نمبر ایک میں انھوں نے چودھری رحمت علی مرحوم کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ مسلمانوں کے لیے ایک نازک اور ایک حد تک مایوسی کے دور میں، وہ ایک پُرخلوص والہانہ جذبے سے برطانیہ کے مقتدر حلقوں تک پاکستان کا جواز ثابت کرنے اور پیغام پہنچانے میں لگے رہے۔ باستثناے اقبال اس وقت تک مسلمانوں نے ایک الگ اور آزاد مسلم ریاست کے بارے میں سوچا نہ تھا۔ ’’ Now or Never ہماری تحریکِ آزادی میں جلنے والا وہ چراغ ہے جس نے نہ صرف مسلمانوں کی منزل کی نشان دہی کی بلکہ مسلمانوں کی اجتماعی سوچ کی سمت بھی متعین کردی۔ اس لحاظ سے ہم بہ حیثیت قوم چودھری رحمت علی کے احسان مند ہیں‘‘ (ص۱۴۷)۔ آخر میں مصنف اظہار افسوس کرتے ہیں کہ چودھری رحمت علی کی جذباتی افتادِ طبع سے معاملہ بگڑ گیا۔ انھیں زمینی حقائق کا احساس نہ ہوا (انھوں نے ۳جون ۱۹۴۷ء کے تقسیم ہند منصوبے کو The greatest betrayal (عظیم ترین غداری) قرار دیا۔ انھوں نے قائداعظم کے خلاف زہر اُگلا۔ کاش تقسیم سے قبل وہ ہندستان آکر عملاً تحریکِ آزادی میں حصہ لیتے۔ تقسیم کے بعد وہ پاکستان آئے تو قدرتی طور پر خفیہ اداروں نے ان کی نگرانی کی، مایوس ہوکر واپس برطانیہ چلے گئے۔
ضمیمہ نمبر۲ میں قائداعظم کے اے ڈی بریگیڈیئر نوراے حسین کا ایک مضمون نقل کیا ہے جس میں انھوں نے قائداعظم سے منسوب بعض بے بنیاد باتوں کی تردید کی ہے۔
ڈاکٹر صفدر محمود کے یہ مضامین ان کے برسوں کے غوروفکر اور تحقیق کا ثمر ہیں۔ جیساکہ انھوں نے دیباچے میں لکھا ہے: ان کے اظہارخیال کا انداز واسلوب غیر روایتی ہے۔ بلاشبہہ قاری اس کتاب کے مطالعے سے بہت کچھ حاصل کرتا ہے۔ یہ احساس نہیں ہوتا کہ روپے کے ساتھ، وقت بھی ضائع کیا ہے۔
آخر میں صاحب ِ کتاب سے ایک شکوہ: کتاب کے عنوان میں لفظ ’اقبال‘ سب سے پہلے مگر آزادی یا قیامِ پاکستان میں ان کے حصے اور خدمات پر کوئی مکمل مضمون کتاب میں شامل نہیں ہے۔ قاری کو تیسرے ضمیمے میں خطبۂ الٰہ آباد پر صرف پروفیسر شریف المجاہد کا مضمون میسر آتا ہے۔ قیامِ پاکستان کے ضمن میں کیا علامہ اقبال کی خدمات، قائداعظم سے کم ہیں؟
(اقبال، جناح اور پاکستان، ڈاکٹر صفدر محمود۔ ناشر: سنگِ میل پبلی کیشنز، لوئرمال، لاہور)
زیر نظر تحقیقی کتاب تاریخی اور عہد حاضر دونوں اعتبار سے مسلم دشمن تعصبات پر ایک اچھی عالمانہ اور معلوماتی کاوش ہے۔ اس کے مصنفین نے صلیبی جنگوں کے زمانے (پانچویں سے گیارھویں صدی عیسوی ) سے آج تک مغرب میں مسلمانوں سے نفرت کی مختلف شکلوں کا تفصیلی جائزہ لیاہے۔ اس تحقیق میں مسلم مخالف جذبات کا مختلف جہتوں سے جائزہ لیا گیا ہے جس میں سیاسی، تعلقات عامہ، فلسفہ، تاریخ، قانون، سماجیات، ثقافت اور ادب شامل ہیں۔ یہ آج کے دور کے سیاسی مسائل اور تنازعات کا بھی گہرا ادراک فراہم کرتی ہے جن میں مسلم معاشرے میں عورت کا مقام، ’’حجاب‘‘کا تنازعہ، نام نہاد غیرت کے نام پر قتل، جبری شادیاں اوراسلام اور مسلمانوں کی نمایندگی میں میڈیا کا کردار؛ اس کے علاوہ آج کے دور کے خصوصی مسائل جن میں کثیر الثقافتی معاشرے اور ان میں مسلمانوں کا انضمام اورمغرب کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی منظم اسلام مخالف مہمات شامل ہیں۔
یہ کتاب ۱۰؍ ابواب پر مشتمل ہے، جب کہ اشاریہ (ص ۲۱۶تا۲۲۲)بھی شاملِ اشاعت ہے۔ کتاب کا ہر باب ایک تحقیقی مقالے پر مبنی ہے اور مصنفین مغربی دنیا کی نامور یونی ورسٹیوںسے وابستہ افراد ہیں۔ ابواب کے عنوانات حسب ذیل ہیں: ’’برطانوی اور مسلمان، دور جدید کے ابتدائی عرصے میں : تعصب سے رواداری (کے نظریے) تک‘‘ (ص ۷-۲۵)، ’’ترک مخالف جنون اور بلقانی مسلمانوں کا خروج‘‘(ص ۲۶-۴۲)، ’’کیا دیواریں سن سکتی ہیں؟‘‘(ص ۴۳-۶۰)، ’’خواتین کی لاشوں پر صلیبی جنگ‘‘(ص ۶۱-۷۸)، ’’فرانس میں مسلمانوں کا حجاب اور اسرائیل میں فوجی وردی: شہریت بطور نقاب، ایک تقابلی جائزہ‘‘(ص ۷۹-۱۰۳)، ’’لی پانتوثانی: مغربی یورپ میں اسلام کے خلاف عصر حاضر کا سیاسی تحرک‘‘ (ص ۱۰۴-۱۲۵)، ردّ نسل پرستی (مسلمانوں کے تناظر میں)(ص ۱۲۶-۱۴۵)۔ ’’ ان کی اکثریت سے نجات پائیں‘‘: برطانوی اخبارات میں مسلمانوں کے حوالے سے انتخابی رپورٹنگ‘‘ (ص ۱۴۶-۱۶۸)، ’’برطانیہ اور فرانس میں مسلمان نسلی اور گروہی درجہ بندی میں کہاں کھڑے ہیں؟: (۱۹۸۸ء تا ۲۰۰۸ ء) عوامی راے پر مبنی سروے سے حاصل کیے گئے حقائق‘‘(ص ۱۶۹-۱۹۰)، ریاست ہاے متحدہ امریکا میں اسلاموفوبیا سے مقابلہ: مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے امریکی شہریوں میں شہری حقوق کے حوالے سے سوچ کی بیداری‘‘ (ص ۱۹۱-۲۱۵)
تعارفی باب ’’مغرب میں مسلم مخالف تعصب، ماضی اور حال ‘‘ میں مدیرہ ملیحہ ملک اس تحقیق کے مقاصد بیان کرتی ہیں: ’’آج کے مغرب میں مسلمانوں کو سمجھنا ناممکن ہے جب تک کہ ہمیں اس بات کا بہتر ادارک نہ ہو کہ ماضی میں ان کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھا گیا ہے(ص ۱ )۔‘‘ وہ اس بات پر بحث کرتی ہیں کہ مغرب میں مسلمانوں سے تعصب کی موجودہ شکلوں کو سمجھنے کے لیے اسے تاریخی تناظر میں دیکھا جاناضروری ہے ، خصوصاً قرون وسطیٰ میںکہ جب اس نفرت کا بیج بویا گیا۔
پہلے مقالے میں نبیل مطار نے سولھویں سے اٹھارھویں صدی عیسوی کے انگریزی ادب، تھیٹر، مصوری، سفارت کاری، کلچر اور سفریات میں مسلمانوں کے بیان کا تجزیہ کیا ہے۔ اس دور میں مغرب میں مسلمانوں کے بارے میں دو مختلف نظریات پروان چڑھے۔ پہلا نظریہ عموماً جانب دارانہ اور دقیانوسی تھا اور اس کے خالق اس دور کے مذہبی اور ادبی مصنفین تھے۔ تاہم دوسرا نظریہ کچھ کم معاندانہ اور بظاہر مثبت دکھائی دیتا تھا۔ یہ نظریہ مسلمانوں کے ساتھ براہ راست میل جول کے نتیجے میں پروان چڑھا اور اس کے خالق عموماً تاجر اور سفارت کار تھے جن کا ان مسلمانوں سے براہِ راست واسطہ پڑا جو تجارت کی غرض سے بحیرئہ روم میں سفر کرتے تھے یا سفارتی دوروں کے دوران لندن اور استنبول جیسے طاقت کے مراکز میں جاتے تھے۔ مصنف اس صورت حال کا تذکرہ یوں کرتا ہے: ’’منبر پر بیٹھا مبلغ چاہے محمد]صلی اللہ علیہ وسلم[ کی ذات پر کیچڑ اچھالے اور اسلام کا مذاق اڑائے، لیکن اس کے بعد پریوی کونسل کو (سفارتی )خطوط ملتے جن میں محمد[صلی اللہ علیہ وسلم] کے ماننے والوں سے تجارت کے وسیع امکانات، اسلامی دنیا میں موجود لامحدود وسائل اور بنیادی صنعتی ضروریات کا ذکر ہوتا۔ اس کے باوجود تخیل کی زرخیز دنیا میں تعصب زوروں پر رہا: اور اس سے بھی بڑھ کر طاقت کے ایوانوں میں۔۔۔‘‘(ص ۱۰)
دوسرے مقالے میں سلوبودان دراکولک نے سلاوی عیسائیوں کی مسلمانوں سے نفرت کی تاریخی اور سماجی وجوہ جاننے کی کوشش کی ہے جو ۹۰ کی دہائی میں بلقان سے مسلمانوں کے مکمل خاتمے کی کوشش کی وجہ بنی۔ان کا کہنا ہے کہ سلاوی عیسائی بلقانی مسلمانوں کوعثمانی ترک قرار دیتے تھے جو درحقیقت ان کے ہم نسل اور ہم زبان تھے۔ ’’ترک بیسویں صدی میںا یسے داخل ہوئے کہ انھیں عیسائیت کا قابل نفرت مذہبی اور نسلی دشمن قرار دے کر ان سے خوف کھایاجاتا تھا۔ ان احساسات نے ترک اور غیر ترک مسلمانوں کو تسلیم نہ کرنے کو رواج دیا اور ان لوگوں کے خاتمے کی سوچ نے جنم لیا جو ’ترک‘بن گئے اورعیسائیت، یورپ اور اپنے نسلی رشتے داروں کے ساتھ دھوکا کیا‘‘(ص ۴۰)۔ اس دعوے میں سیمیول ہن ٹنگٹن کے تہذیبوں کے تصادم (The Clash of Civilizations)کے نظریے کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے ،یعنی مذہب پر مبنی مختلف نظریات رکھنے والے افراد کے درمیان محاذآرائی لازم ہے۔
تیسرے مقالے میں گِل انیدجر دنیا کے بارے میں مغربی مسیحیت کے نظریے کی ساخت کا تجزیہ کرتے ہیں کہ مسیحیت ایک خصوصی کردارہے جو خود اور دوسروں (غیروں) کے درمیان دیوار کھڑی کرتا ہے اور اچھے اغیار اور بُرے اغیار کے درمیان بھی۔ ان دیواروں کے درمیان بھی اندرونی اور بیرونی دونوں اقسام کی نظریاتی کش مکش موجود ہے۔ ’’یہ دیواریں نام ور ہستیاں بھی ہوسکتی ہیں اور بسا اوقات محض افسانوی بھی۔ اس کے باوجود یہ عجیب قسم کے مخصوص اثرات رکھتی ہیں اورایسی عادات کو رواج دیتی ہیں جنھیں سمجھنے کے لیے تخیل کی مدد درکار ہو تی ہے، لیکن ان کے سماجی اور معاشرتی نتائج حقیقی ہوتے ہیں جہاں ’غیر‘محض خیالی وجود رکھتے ہیں‘‘(ص ۴۴)۔ اس تقسیم کی بنیاد دُہری مخالفت پر ہے اور مذہب، سیاست، یہود دشمنی اور اسلاموفوبیاکی بنیاد پر تقسیم عمل میں لائی گئی ہے۔
اگلے دو مقالوں میں سونیا فرنانڈس اور لورا بلسکی نے مسلمان کمیونٹی کو توجہ کا مرکز بنایا ہے اور لبرل ازم، سیکولرازم اور عمومی مساوات جیسے بنیادی مغربی نظریات پر سوالات اٹھائے ہیں۔ فرنانڈس نے مسلم مخالف تعصب کی تاریخ کا صلیبی جنگوں (۴۸۸ء-۶۹۰ء/۱۰۹۵ء-۱۲۹۱ء) سے سراغ لگانے کی کوشش کی ہے، جب اسلام اور اس کے ماننے والوں کو پردیسی اور اجنبی قرار دیا جاتا تھا، جب کہ اس کے مقابلے میں مغرب کو دانش اور تہذیب کا مرکز گردانا جاتا تھا۔ یہ رویے سیون سیون اور نائن الیون کے واقعات کے بعد معیار قرار پائے اور ’’دہشت گردی کی جنگ‘‘ مسلمانوں کو پس منظر سے نکال کر پیش منظر میں لے آئی۔ ان کاکہنا ہے کہ عورتوں کے حقوق کے حوالے سے تشویش کے ظاہری پردے کے پیچھے مسلم مخالف تعصب چھپا ہوا ہے(ص ۶۱)۔ ان کی گفتگو کا محور صنف کی بنیاد پر پیدا ہونے والے مسائل ہیں جن میں حجاب، نام نہاد جبری شادیاں اور غیرت کے نام پر قتل شامل ہیں،تاکہ وہ طور طریقے سامنے لائے جا سکیں جنھوں نے اسلامو فوبیا کو رواج دیا اور اسے بظاہر بالکل عمومی چیز بنا دیا۔ وہ کہتی ہیں: ’’عورتوں کے برابری کے حقوق جیسے معاملات کو اسلام مخالف صلیبی جنگوں کے لیے جواز بنانے جیسی اسلاموفوبیا پر مبنی روایات کے مسلسل استعمال کا نتیجہ غالب ’گورے‘ مغربی لبرل کلچر کے یہاں تشدد اور عدم مساوات جیسی روایات کی پردہ پوشی کی صورت میں نکلا۔‘‘ (ص ۷۶)۔ لورا بلسکی نے علامتی لباس پہننے کے حوالے سے دو متنازع کیس لیے۔ پہلے کیس میں فرانس میں سکول جانے والی مسلمان بچیوں پر اسکارف لینے پر پابندی عائد کردی گئی اور دوسرے کیس میں اسرائیل میں ایک فلسطینی پروفیسر نے یہودی طلبہ کو کلاس میں فوجی یونی فارم پہننے سے روک دیا۔ ان دونوں کیسوں کے نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے لورا اس رویے پر بحث کرتی ہیں جو شہریت کے لبادے میں چھپایا گیا ہے اور مطالبہ کرتی ہیں کہ شہریت کے اصول وضوابط دوبارہ طے کیے جائیں تاکہ جمہوری اور کثیر تمدنی معاشروں میں مساوات کو فروغ دیا جا سکے (ص ۱۰۳)۔
چھٹے مقالے میں ہینز جارج بٹزاور سوسی مرٹ کہتے ہیں کہ دائیں بازو کے وطن پرست انتہائی سیکولر یورپی معاشرے میں عیسائیت کی ان مستند اقداراور اصولوں کے فروغ اور دفاع کے لیے کوشاں ہیںجسے ان ممالک کا ورثہ اور تاریخ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہی پارٹیاں نسلی اقلیتوں کے ہاں صنفی برابری اور عورتوں کے حقوق جیسی لبرل اقدار کے فروغ اور دفاع کا دعویٰ کرتی بھی نظر آتی ہیں(ص ۱۲۴)۔ دوسری جانب، ’’وہ اظہار راے کی آزادی، وسعت نظر، رواداری اوریک جہتی وغیرہ کو مرکزی اقدار قرار دے کر ان کی پاسداری اور فروغ کی بات کرتے ہیں،۔۔۔ان اقدار کی بنیاد پر یہ وطن پرست کچھ پابندیاں عائد کرنا چاہتے ہیں تاکہ نسلی اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں کو تمام شہری اور سماجی حقوق حاصل کرنے سے روکا جا سکے‘‘ (ص ۱۲۴)۔ مصنفین کے مطابق ان وطن پرست اور انتہائی دائیں بازو کے علَم برداروں نے بہت سارے ایسے نظریات، سفارشات اور مطالبات پیش کیے ہیں جو ’’بعد میں مسلمانوں کے مغربی اور یورپی معاشرے میں انضمام کے عمل میں رکاوٹ ڈالنے یا اس کو مکمل طور پر ختم کرنے پر منتج ہوئے‘‘ (ص ۱۱۵)۔
ساتویں مقالے میں ناصر میر اور طارق مودودبرطانوی لبرل سیاسی ایجنڈے کا مطالعہ کرتے ہیں جو مسلمانوں کو ان بنیادوں پر ایک ’نسلی گروہ‘ کے طور پر قبول نہیں کرتاجن بنیادوں پر یہودیوں اور سکھوںکو تسلیم کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے معاملے میں: ’’عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ کسی صنفی، نسلی یا جنسی شناخت کسی نسلی گروہ سے منسوب ہوتی ہے یا وہ پیدایشی ہوتی ہے، جب کہ مسلمان ہونا منتخب کردہ مذہبی عقائد پر منحصر ہے، اس لیے مسلمانوں کو ان دوسری قسموں کی شناخت رکھنے والوں کی نسبت کم قانونی تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے‘‘ (ص ۱۳۶)۔ مصنفین کے مطابق برطانوی لبرل اظہار راے کی آزادی کو، جسے عموماً مسلمانوں کا مذاق اڑانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، لبرل جمہوریتوں میں دانش ورانہ مباحث کی صحت کی ایک علامت قرار دیا جاتا ہے۔
آٹھویں مقالے میں جان ای رچرڈسن برطانیہ میں انتخابات کی رپورٹنگ کا جائزہ لیتے ہیں۔ اخباری خبریں مسلمانوں کو ایسے گروہ کے طور پر الگ کردیتی ہیںجس کا امکان ہے کہ وہ اپنے عقیدے اور نسلی وابستگی کی بنیاد پر ووٹ ڈالیں گے، نہ کہ سیاسی اور اخلاقی اقدار کی بنیاد پر۔ ڈیلی میل میں لکھا گیا: ’’نوجوان مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ اپنی پیدایش کے ملک میں اپنی انفرادی ذمہ داری پر اپنے عقیدے سے وفادار ی کو فوقیت دیں۔ ان کی برین واشنگ کی جاتی ہے کہ وہ دنیا میں مسلمانوں پر کسی بھی وجہ سے آنے والی اُفتاد کو اپنی ذاتی تذلیل سمجھیں‘‘ (ص ۱۵۸)۔
نویں مقالے میں ایرک بیلیچ برطانیہ اور فرانس میں مسلم مخالف تعصب کی سطح کو ناپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انھوں نے ۱۹۸۸ء سے ۲۰۰۸ء تک ہونے والے عوامی راے پر مبنی اہم جائزوں کی مدد سے مسلمانوں سے سلوک کا جائزہ لیا اور اس کا دوسرے مذاہب اور نسلی گروہوں سے تقابل بھی کیا۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ دونوں ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ منفی رویوں میں گذشتہ ۲۰برس کے دوران اضافہ ہوا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’’ایک گروہ کے حوالے سے پریشان کن مضبوط دلیل موجود ہے۔۔۔جو قومی مراتب میں تیزی سے نیچے کو جا رہا ہے۔۔۔اگر یہ رجحان مزید تحقیق سے ثابت ہوجاتا ہے تو یہ ’اسلاموفوبیا‘ کے نظریے کے لیے بہترین جواز ہو گا تاکہ سول سوسائٹی اور ریاستوں کو برطانیہ، فرانس اور دوسرے ممالک میں مسلم مخالف تعصب کے خلاف متحرک کیا جائے‘‘۔ (ص ۱۸۹، ۱۹۰)
آخری مقالے میں ایرک لوّ تجزیاتی انداز میں امریکا میں اسلاموفوبیا کو نسلی تناظر میں دیکھتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اسلاموفوبیا نہ صرف نسلی تعصب میں اضافے کا سبب ہے بلکہ یہی اس کی بنیاد بھی بنتا ہے۔۔۔کہ افراد کی ظاہری وضع قطع کیسی ہے‘‘ (ص ۱۹۲)۔ اس کا کہنا ہے کہ امریکا میں ’اسلاموفوبیا کے عروج‘کاتعلق ’’مشرق وسطیٰ میں رونما ہونے والے کئی واقعات سے ہے۔۔۔خصوصاً امریکا کی نام نہاد ’بدمعاش ریاستوں‘ کی پالیسی۔۔ فلسطین کے ساتھ تنازعے میں اسرائیل کے ساتھ مستقل و غیر مشروط تعاون اور مشرق وسطیٰ کے حوالے سے ’سٹراسی‘ اور نوقدامت پسندانہ سوچ اور نظریات‘‘ (ص ۲۰۳)۔
اس کتاب میں شامل مقالات کے مطالعے سے بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے، اور اسی قدر اہم معلومات فٹ نوٹ، گرافس، جدول، تصاویر اورشماریاتی معلومات میں بھی موجود ہیں۔ یہ کتاب آج کے مسلمان کو درپیش انتہائی اہم مسائل پر علمی تحقیق کا ایک شاہکار ہے۔اسے مسلم مخالف تعصبات کے خلاف کی جانے والی کاوشوں کے سلسلے کی اولین کوشش قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ کتاب مغربی کلچر کے علَم برداروں کے لیے ایک آئینہ ہے جو ان کی جانب سے اسلام کو بدنام کرنے اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے مذموم مقاصد کو عیاں کرتا ہے۔ یہ مجموعہ نہ صرف اسلام کے بارے میں عام غلط فہمیوں کے ازالے کا مقصد پورا کرتا ہے، بلکہ یہ مسلمان پالیسی سازوں، محققین، مدرسین، دانش وروں، ماہرین ادب اور طلبہ کے لیے مفید ذریعہ بھی ہے۔یہ کتاب ان افراد کے لیے بھی یکساں مفید ہے جو اسلام اور اسلامی اقدار کو عام کرنے کے لیے کوشاںہیں، جوبین المذاہب ہم آہنگی کے علَم بردار ہیں یا جومسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں۔ (ترجمہ: اویس احمد)۔ (بہ شکریہ سہ ماہی Insights، جلد۳، شمارہ۱، ۲۰۱۰ء، دعوہ اکیڈمی، اسلام آباد)
بیسویں صدی میں اُبھرنے والی تحریکاتِ اسلامی اور تحریکاتِ حریت کی دعوت کا ایک اہم پہلو نفاذِ شریعت یا نظامِ اسلامی کی خواہش رہا ہے۔ یہ تحریکات شمالی افریقہ میں ہوں یا مشرق وسطیٰ میں یا جنوب مشرقی ایشیا میں، ان کے منشور مغربی لادینیت اور آمرانہ نظاموں کی جگہ اسلام کے اصولِ عدل پر مبنی سیاسی نظام کے نفاذ کو اپنا مقصد وحید قرار دیتے ہیں۔ دوسری جانب ان تحریکات کے نقاد انھیں یہ الزام دیتے ہیں کہ یہ تحریکات ماضی کی طرف سفر کرنا چاہتی ہیں اور اسلامی شریعت کو جو ان کے اندازے کے مطابق نیم مہذب بدویانہ روایات پر مبنی ہے، سائنس اور ٹکنالوجی کے دور میں، کم فہم انسانوں پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔
اسلامی شریعت کی قدامت پسندی، انتہا پسندی اور انسانی حقوق کے تصور سے متصادم ہونے کے مفروضے کو اتنی شدت اور تکرار سے بیان کیا گیا ہے کہ آج بہت سے پڑھے لکھے مسلمان بھی اپنی سادہ لوحی میں اسلامی شریعت کو محض چند ’جابرانہ سزائوں‘ کا مجموعہ سمجھنے لگے ہیں۔ ضرورت پہلے بھی تھی لیکن جتنی شدت سے آج ہے، شاید پہلے کبھی نہیں تھی کہ اسلامی شریعت کے صحیح خدوخال کو براہِ راست اس کے مصادر کی روشنی میں اہلِ علم اور عام قارئین کے سامنے سادہ الفاظ میں رکھا جائے۔
قرآن کریم کا یہ خصوصی اسلوب ہے کہ وہ اکثر احکامِ الٰہی کے تذکرے کے ساتھ ان کی حکمت و علّت کو بھی سمجھاتا جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ علّت بہت واضح ہوتی ہے اور بعض اوقات غوروفکر کے بعد علّت کا پتا چلتا ہے۔ یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ قرآن کریم انسان کی تخلیق کا سبب اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بندگی و عبادت کو قرار دیتا ہے۔ انبیاے کرام کی بعثت اور نزولِ کتب ِ سماوی کی غایت انسانوں کو نظامِ عدل اور تحفظ فراہم کرنا قرار دیتا ہے لیکن بعض اوقات نص میں غایت کی صراحت نہیں ہوتی اور ایک طالب علم غوروفکر کے نتیجے میں غایت اور سبب تک پہنچتا ہے۔ قرآن کریم اپنے بارے میں کہتا ہے کہ یہ ایک موعظہ، نصیحت اور سینوں کے امراض کے لیے شفا ہے (یونس ۱۰:۵۷)۔ اسی طرح وہ کہتا ہے کہ یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں تمام انسانوں کے لیے، اور ہدایت و رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو یقین لائیں۔ (الجاثیہ ۴۵:۲۰)
یہ آیات واضح کرتی ہیں کہ قرآن کریم دلوں کے امراض کی شفا اور رحمت ہے۔ اس میں کوئی بھی حکم ایسا نہیں ہے جس میں کوئی دقت، مشکل، سختی، یا شدت پائی جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ تمھارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا‘‘ (البقرہ ۲:۱۸۵)۔ اس کے برخلاف شیطان اور اس کی ذُریت اپنی ہرہر چال سے انسان کو گمراہی، شدت پسندی، بُغض و عداوت، دشمنی اور قتل و غارت کی طرف للچا کر لے جانا چاہتی ہے۔ ’’شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمھارے درمیان عداوت اور بُغض ڈال دے اور تمھیں خدا کی یاد سے اور نماز سے روک دے۔ پھر کیا تم ان چیزوں سے باز رہو گے؟‘‘ (المائدہ ۵:۹۱) ۔ ان آیات پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ شارع اپنے احکام کے اسباب و علل بھی بیان فرماتا ہے تاکہ انسان شریعت پر بربناے تحقیق عمل کرے اور اس کی حکمتوں سے براہِ راست آگاہ ہو۔
شریعت لغت میں پانی کے چشمے کو جانے والے راستے کو کہتے ہیں۔ جس طرح پانی انسان کو زندگی دیتا ہے، اسی طرح شریعت انسان کو زندگی گزارنے کا طریقہ اور ادب سکھاتی ہے۔ جس طرح پانی انسان کے جسم سے گندگی کو دُور کردیتا ہے، شریعت کی آبیاری انسان کی معاشی، معاشرتی، سیاسی اور دیگر سرگرمیوں کو فساد سے پاک کر کے اللہ کی مرضی کے تابع بنا دیتی ہے۔
شریعت کے احکام کس نوعیت کے ہوتے ہیں اور ان کی نوعیت کا تعین کس طرح کیا جائے گا، مزید یہ کہ حکمِ شرعی کی تطبیق کن کن حالات میں ہوئی، اس کے لیے کون سی حکمت عملی اختیار کی جائے گی___ یہ اور اس سے ملتے جلتے بے شمار سوالات کا جواب علم مقاصد و مصالح کا موضوع ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مقاصد ِشریعت اور مصالحِ عامہ ایسے اہم علمی شعبے ہیں جن کے بغیر ایک مسلمان زندگی میں ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اُمت مسلمہ کی ایک بڑی تعداد نے محض سنی سنائی پر اعتماد کر کے شریعت کو ایک انتہائی مشکل اور ناقابلِ عمل ضابطہ سمجھ لیا ہے، جب کہ شریعت کی آفاقیت اور عملیت اس کے ہرہر حکم سے واضح ہوتی ہے۔
مقاصد شریعت ایک انتہائی اہم تدریسی مضمون ہے لیکن بہت کم دینی مدارس اس پر اتنی توجہ دیتے ہیں جس کا یہ مستحق ہے۔ عموماً پانچ معروف مقاصد کا تذکرہ اور چند مثالوں سے ان کی وضاحت کو کافی سمجھا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس شعبۂ علم پر سالہا سال غوروفکر کرنے کے باوجود یہ کہنا مشکل ہے کہ ایک شخص اس علم کا احاطہ کرسکا ہے۔
سوڈان کے نام ور فقیہ ڈاکٹر یوسف حامد العالم نے عصرحاصر میں مقاصدِ شریعت اور مصالح کی اسی اہمیت کے پیش نظر اس موضوع پر قلم اُٹھایا ہے اور زیرتبصرہ کتاب تحریر کی ہے۔ یہ تصنیف ان کے ڈاکٹریٹ کے مقالے پر مبنی ہے جسے جامعہ الازہر میں پیش کیا گیا۔ راقم الحروف کو ان سے دو تین کانفرنسوں میں ذاتی طور پر ملاقات کا موقع بھی ملا اور ان کے علم اور خلوص نے بہت متاثر کیا۔ اللہ تعالیٰ انھیں اس خدمت پر اعلیٰ درجات سے نوازے، آمین! مقاصد شریعت پر عصرِحاضر میں جو علمی کام ہوا ہے یہ کتاب اس میں ایک اہم علمی اضافہ ہے۔
زیرتبصرہ کتاب پانچ فصول میں منقسم ہے۔ فصل اوّل اہداف سے بحث کرتی ہے جس میں ہدف کی لغوی اور شرعی تعریف، شارع کے مقصد کے منافی عمل کرنے کے نتائج، اور مقاصد ِ شارع کی معرفت کے لیے اجتہاد کی ضرورت سے بحث کی گئی ہے۔
فصل دوم مصلحت سے بحث کرتی ہے جسے ہمارے ہاں مصلحت عامہ کہا جاتا ہے۔ باب دوم میں مصالح کا تفصیلی بیان ہے جس میں دین کی حفاظت، جان کی حفاظت، نسل کی حفاظت اور مال کی حفاظت شامل ہیں۔ خلاصۂ بحث، حواشی و تعلیقات اور مراجع و مصادر پر کتاب کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔
مقاصد اور مصالح کا تعین اور صحیح تطبیق ایک تحقیق طلب امر ہے۔ عام طور پر مصلحت کا استعمال کسی شر سے بچنے کے لیے کیا جاتا ہے اور اس کی اصل بنیاد، یعنی شارع کی منشا کا دریافت کرنا، اور پھر منشا سے مطابقت رکھتے ہوئے ایک حکمت عملی وضع کرنا علم الاصول کا مقصد ہے۔ اس حوالے سے مصنف بحث دوم کے زیرعنوان بہت قیمتی نکات زیربحث لاتے ہیں۔ مثلاً ’’کوئی بھی مکلف کسی جائز کام کو اس حیثیت سے کرتا ہے جو شارع کے مقصد کے خلاف ہے تو حقیقتاً یہ سمجھا جائے گا کہ وہ ناجائز کام کر رہا ہے‘‘ (ص ۱۰۴)۔ اس طرح وہ تحریر کرتے ہیں: ’’جب مکلف کا ارادہ شارع کے ارادے کے خلاف ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مکلف نے شارع کے مقصد کو ناقابلِ اعتبار قرار دے دیا، اور جس امر کو شارع نے مقصد نہیں سمجھا تھا اسے مقصد قرار دے دیا‘‘ (ص ۱۰۴)۔ ان دونوں سادہ سے نکات پر اگر غور کیا جائے تو ایک عام شخص کے لیے بھی ان میں غیرمعمولی حکمت و دانائی پائی جاتی ہے۔ ایسے ہی ان نکات کی اہمیت اسلامی تحریکوں کے کارکنوں کے لیے غیرمعمولی طور پر اہم ہے۔
ان اصولوں کی بنیاد قرآن کریم کا وہ حکم ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْم بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی وَ یَتَّبِــعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَھَنَّمَ ط وَ سَآئَ تْ مَصِیْرًاo (النساء ۴:۱۱۵) ’’مگر جو شخص رسولؐ کی مخالفت پر کمربستہ ہو اور اہلِ ایمان کی روش کے سوا کسی اور روش پر چلے، درآں حالے کہ اس پر راہِ راست واضح ہوچکی ہو، تو اس کو ہم اُسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اسے جہنم میں جھونکیں گے جو بدترین جاے قرار ہے‘‘۔اس قرآنی آیت سے استدلال کرتے ہوئے مصنف کہتے ہیں: ’’مصالح کے حصول اور مفاسد سے بچنے کے لیے ایسے اعمال کا سہارا لینا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیے آپؐ کی کھلی مخالفت ہے، اور آپؐ کی مخالفت درحقیقت اس وحی کی مخالفت ہے جو آپؐ اللہ کی طرف سے لے کر تشریف لائے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کا ارشاد ہے: رسول اکرمؐ اور آپؐ کے بعد خلفا نے کچھ طریقے چھوڑے ہیں، انھی کو اختیار کرنا کتاب اللہ کی تصدیق، اطاعت رسولؐ کی تکمیل اور دین کی قوت کا باعث ہے‘‘۔ (الموافقات ،ج۲، ص ۳۳۴)
شارع کے مقاصد کے خلاف جو عمل بھی کیا جائے گا وہ باطل ہوگا۔ مندرجہ بالا استدلال سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہرحکمت عملی کو اختیار کرنے سے پہلے اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ وہ کہاں تک مقاصد شریعت سے مطابقت رکھتی ہے۔ مشہور حدیث ہے کہ اعمال کی بنیاد نیت پر ہے۔ اقرارِ توحید و رسالت اور صلوٰۃ اور دیگر عبادات قربِ الٰہی کے حصول کے لیے ہیں اور یہی شارع کا مقصود ہے۔ لیکن ان اعمال سے کسی کی نیت دنیوی مفاد کا حصول ہو یا دنیوی نقصان سے بچنا مقصود ہو، تو اس کا یہ عمل شارع کے مقصد سے ہٹ جانے کے سبب باطل ہوجائے گا۔ زکوٰۃ کی فرضیت سے شارع کا مقصد مال داروں کو حرص اور دولت کی محبت و پرستش سے نکالنا ہے اور ہبہ کرنا ایک نیکی کا کام ہے، لیکن اگر ایک شخص زکوٰۃ کی ادایگی سے بچنے کے لیے اپنا مال عین واجب مدت سے قبل کسی اور کو ہبہ کردے تو شارع کے دونوں مقاصد کے خلاف عمل کرے گا۔
یہ دو مثالیں محض بات کو آسان کر کے سمجھانے کے لیے عرض کی گئی ہیں۔ مصنف نے کتاب میں ہر ہر نکتے کی وضاحت کے لیے مثالیں دے کر مقاصد و مصالح کے علم کو آسان بنا کر پیش کیا ہے۔ہم دوبارہ اپنی بات کو دہراتے ہیں کہ یہ فقہ کا ایک ایسا شعبہ ہے جو فقہ کا مصدر ہے اور اسی بنیاد پر فقہ وجود میں آتا ہے۔ اس لیے دین کو سمجھنے اور زندگی کے اہم معاملات میں اس کی تطبیق طے کرنے کے لیے مقاصد اور مصالح کا سمجھنا، اور حتی الامکان مقاصد و مصالح اور قواعد کو سامنے رکھتے ہوئے حکمت عملی وضع کرنا ہی دین کا تقاضا ہے۔
یہ کتاب تحریک اسلامی کی قیادت اور کارکنوں کے لیے ایک عمدہ فکری غذا فراہم کرتی ہے۔ مقاصد شریعت کا جاننا تحریکِ اسلامی کی قیادت کے لیے نہ صرف ضروری ہے بلکہ ان پر مسلسل غور اور ان کی ہمہ وقت تطبیق کے بغیر تحریک آگے نہیں بڑھ سکتی ۔ یہ طے کرنا کہ اس وقت تحریک کی ترجیح کیا ہو، کیا تمام قوت محض تربیت کے نظام کی اصلاح پر لگا دی جائے، تحقیق و تجزیے کو اولیت دی جائے، یا سیاسی محاذ پر تمام توجہ مرکوز کردی جائے، یا معاشرتی فلاح کے کاموں کو فوقیت دی جائے، خواتین کے کن مسائل کو ملک گیر تحریک کا موضوع بنایا جائے، عوام الناس کے کون سے مسائل ہیں جن پر مہم چلائی جائے، تعلیمی میدان میں ہماری اولیت کیا ہو، کاروبار و تجارت کرنے والوں سے تعلق کی نوعیت کیا ہو___ غرض تحریکی مسائل و معاملات میں جب تک مقاصد کا علم گہرائی کے ساتھ حاصل نہ کرلیا جائے یہ طے کرنا بہت مشکل ہے کہ تحریک کی حکمت عملی کہاں تک اصولِ شریعت کی پیروی کررہی ہے۔
تحریک کے نظامِ تربیت میں اس موضوع پر مستقلاً توجہ کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر یوسف حامدالعالم کی یہ تحقیقی کتاب سلاستِ بیان کی بنا پر تربیتی لٹریچر میں شامل ہونی چاہیے اور اسلامی فقہ سے گہری واقفیت رکھنے والے اساتذہ کے ذریعے اس کی تعلیم کا بندوبست کیا جانا چاہیے۔
(اسلامی شریعت مقاصد اور مصالح ، یوسف حامد العالم، مترجم: محمدطفیل ہاشمی۔ ناشر: ادارہ تحقیقاتِ اسلامی، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد۔ صفحات (بڑی تقطیع): ۶۴۵ ۔ ہدیہ: ۹۰۰ روپے)
قرآن پاک کی تفسیر کا سلسلہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے شروع ہوا اور کسی انقطاع کے بغیر تسلسل کے ساتھ پندرہ صدیوں سے جاری ہے ۔ اب تک مختلف زبانوں ، مختلف ملکوں اور مختلف النوع اتنی تفسیر یں وجود میں آچکی ہیں کہ ان کا شمار ممکن نہیں ہے۔ یہ قرآن پاک کی شان لاینقضی عجائبہ(ترمذی)(اس کے عجائب ختم نہ ہوں گے) کا تقاضا ہے ۔ چنانچہ ہر تفسیر میں نئے نئے نکات سامنے آتے رہتے ہیں اور کوئی تفسیر دوسری تفسیر سے مستغنی کر دینے والی نہیں ہے ۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ سے لے کر شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ ، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ، شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی ، مفتی اعظم پاکستان مولانا محمد شفیعؒ اور دیگر جلیل القدر علما و مفسرین عظام نے گراںقدر علمی ، فقہی اور روحانی نکات پر مشتمل تفاسیر پیش کیں جو اہل علم کے ہاں مقبول ہوئیں اور ان سے استفادہ سے تفسیری سلسلے کو بڑھنے اورپھیلنے میں مدد ملی۔ دورِ حاضر میں مفکر اسلام سید ابوالاعلیٰ مودودیؓ کی تفسیر تفہیم القرآن اور شہید اسلام سیدقطب کی تفسیر فی ظلال القرآن کے ذریعہ قرآن پاک کا فہم و شعور علما و مشایخ کے دائرے سے نکل کر عوام تک پہنچ گیا ۔ ان تفاسیر کے ذریعے بڑی تعداد میں عوام اور جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں نے قرآن پاک سے فیض حاصل کیا۔ لیکن لاینقضی عجائبہ کے فرمانِ رسولؐکی صداقت کے ظہور کا سلسلہ جاری و ساری ہے ۔
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی صاحب بھی ان خوش قسمت ہستیوں میں شامل ہیں جنھیں تفسیر قرآن کی فضلیت حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ ان کی زندگی قرآن پاک میں غورو فکر ، تفسیر ی ذخیرے کے مطالعے اور دروس قرآن دینے میں گزری جواب کتابی شکل میں مرتب ہو کر سامنے آگئے ہیں۔ یہ دروس ڈاکٹر صاحب نے طلبا، اساتذہ، مختلف طبقات سے وابستہ افراد کے سامنے دیے اورپھر بذریعہ املا ان کی کتابت کروائی اور کتابی شکل میں مرتب کروایا ۔ اس تفسیر کے مقام و مرتبے کو جاننے کے لیے ضروری ہے کہ تفسیر کی شرائط کو جانا جائے اور ان شرائط کی روشنی میں اس کا جائزہ لیا جائے ۔
۱-قرآن و سنت عربی زبان میں نازل ہوئے ہیں۔ اس لیے مفسر کے لیے ضروری ہے کہ وہ عربی زبان ، اس کی باریکیوں ، اس کے اصناف و انواع ، اس کے محاسن سے پوری طرح واقف ہو۔ وہ عربی زبان کی باریکیوں ، خوبیوں ،اشاروں ، کنایوں اور استعاروں سے جس قدر زیادہ واقف ہو گا، اسی قدر تفسیر کا حق ادا کر سکے گا۔
۲- قرآن پاک کی ایک دعوت اور اس کا ایک مشن ہے۔ اس کے لیے نبیؐ نے ایک تحریک برپاکی۔ اس تحریک کے مختلف ادوار تھے ۔ ہر دور میں قرآن پاک کا ایک حصہ نازل ہوا۔ ۸۵مکّی سورتیں ہیں اور ۲۹ مدنی سورتیں ۔ ان سورتوں کے نزول کے وقت نبیؐ اور آپؐ کی جماعت جس مرحلے میں تھی، اس مرحلے کو سمجھنا ضروری ہے ۔ ان مراحل کو شان نزول سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اس طرح بعض آیات کی خصوصی شان نزول بھی ہوتی ہیں ۔ تفسیر کو سمجھنے کے لیے ان کا سمجھنا ضروری ہے۔
۳-قرآن وسنت ایک نظام ہے جسے نبیؐ نے اپنے دور میں عملاً نافذ فرمایا اور اس کے بعد کے ادوار میں نافذ رہا۔ قرآن پاک کو سمجھنے کے لیے اس نظام اور اس پر تعامل کو سمجھنا ضروری ہے ۔ قرآن پاک پر عمل کو جو شکل اور صورت نبی کریمؐ ، صحابہ کرام ؓ ، تابعین ، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین اور سلف صالحین نے دی ، اسے نظر انداز کر کے محض لغت کی بنیاد پر تفسیر گمراہی کا سبب بن سکتی ہے ۔ جن لوگوں نے ایسا کیا ہے انھوں نے تفسیر کے بجاے تحریف کا ارتکاب کیا ہے ۔
۴-فصیح عربی زبان کی بنیاد پر ایسی تفسیر کی جاسکتی ہے جو قرآن و سنت ،اجماع صحابہ و سلف صالحین کے تعامل سے متصادم نہ ہو ۔
۵-عقل سلیم کے ذریعے بھی تفسیر کی جاسکتی ہے، جب کہ وہ قرآن وسنت ، اجماع صحابہ و تابعین و سلف صالحین سے ثابت شدہ امور سے متصادم نہ ہو۔
محترم ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی صاحب عربی زبان ، اردوا دب میں بھی مہارتِ تامہ رکھتے ہیں۔ تحریک اور دعوت کے مختلف مراحل اور تاریخ اسلام میں بھی بصیرت رکھتے ہیں۔ اسلام کو ایک نظام کی حیثیت سے انھوں نے اچھی طرح سمجھا ہے اور شریعت اسلامیہ میں گہرائی کے حامل ہیں ۔ تعامل اُمت ،تفسیری اور فقہی ذخیرے پر بھی عبور رکھتے ہیں اور ایک مفسر میں جو خوبیاں اور کمالات ہونے چاہییں، جن کا اجمالی ذکر درج بالا سطور میں ہوا ہے، وہ بھی ان میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں ۔
تفسیر روح القرآن کے امتیازات کے ضمن میں اس کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس کا اسلوب عام تفاسیر سے مختلف ہے ۔ عام تفاسیر مفسر کی تحریر کا نتیجہ ہوتی ہیں اور یہ دروس دراصل ڈاکٹرصاحب کی اِملا کا نتیجہ ہے ۔یہ ان کے دروس ہیں جو انھوں نے ہفتہ وار محافل میں پڑھے لکھے شائقین علوم قرآنیہ کے سامنے پیش کیے ہیں ۔ ان میں علما، پروفیسر ، دانش ور ، صحافی ، تاجر ، وکلا، کالجوں، یونی ورسٹیوں اور مدارس کے طلبا ، کارکنان تحریک اسلامی اور عامۃ المسلمین ان کے مخاطب ہیں اور بڑی تعداد میں ذو ق وشوق کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب انھیں اپنے علم اور ولولہ انگیز خطابت کے شہ پاروں سے فیض پہنچاتے ہیں ۔ ایک بلند پایہ خطیب کی خطابت ، جب کہ وہ قرآنی علوم سے دلوں اور دماغوں کو منور کر رہی ہو، کی اثر انگیزی کا آپ اندازہ کر سکتے ہیں ۔ قرآن پاک کی زبان خطابت کی زبان ہے ۔ اس کی تفسیر بھی خطیبانہ انداز میں ہو تو ظاہر ہے کہ قرآن پاک کے اثر کو اس تفسیر سے زیادہ کر دے گی جو خطابت کے انداز کے بجاے تحریر کے انداز میں ہو گی ۔ ان دروس کا اثر پڑھنے والے پر اس طرح ہوتا ہے جس طرح ایک سامع پر خطیب کے خطبے سے ہوتا ہے۔
دوسرا امتیاز یہ ہے کہ قرآن پاک ایسی کتاب ہے جو معاشرے کے لیے ایک غذا اور دوا کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اگر اس کتاب کے ذریعے مسلمان معاشرے کو روحانی غذا نہ دی جائے اور کفارو منافقین کا علاج نہ کیا جائے تو اس کتاب کو اس کا حقیقی اور واقعی مقام نہیں دیاجاسکتا ۔ ڈاکٹر صاحب اس کتاب کو معاشرے پر منطبق کرتے ہیں اور اس میں اہل ایمان کے لیے جو غذا اور کفار و منافقین کے لیے جو دوا ہے اسے پوری طرح واضح کرتے ہیں ۔ مغرب اوراہل مغرب کے لیے اس میں جو پیغام ہے اسے واضح کرتے ہیں ۔ اہل ایمان کو ان کے شرسے باخبر کر کے اس سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں ۔ تفسیری نوٹس ہر جگہ اس بات کے گواہ ہیں ۔
ا س تفسیر کے مطالعے سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو قرآن پاک اور اس کے علوم و فنون پر مکمل عبور حاصل ہے ۔ انھیں صرف ونحو ، معانی بلاغت ، اصول فقہ ، لغت عربیہ ، اصولِ تفسیر، احادیث نبویہؐ، آثار صحابہ و تابعین ، اقوال ائمہ مجتہدین ، قدیم و جدید علم کلام ، قدیم وجدید مفسرین کے تفسیری ذخیرے ، تاریخ و قصص ، مستشرقین وملحدین کے لٹریچر ، منکرین سنت اور قادیانیت کے شکوک و شبہات اور ان کی تردید پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ انھیں مضامین قرآن ، التذکیر باٰلاء اللہ ، التذکیر بایام اللہ، التذکیر بالموت وبما بعد الموت ، علم المخاصمہ ، علم الاحکام پر مکمل دسترس حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور جلالی وجمالی شانوں کو جدید سائنسی معلومات کی روشنی میں اس قدر شرح و بسط سے اور ایسے انداز سے پیش کرتے ہیں کہ انسان اس کی لذت سے سرشار ہو کر ان کے مطالعے میں اس طرح مستغرق ہوجاتا ہے کہ مضمون دل و دماغ میں اُتر جاتا ہے ۔
ڈاکٹر صاحب عالم ہیں تو ایسے کہ تبحر علمی ان کی تقریر و تحریر سے نمایا ں ہوتا ہے ۔ ادیب ہیں تو ایسے کہ ادب ان کی لونڈی نظر آتا ہے۔ خطیب ہیں تو ایسے کہ ان کی شعلہ بیانی آدمی کو مسحور کردیتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں ذہانت و فطانت اور حافظے کی نعمتوں سے نہایت وافر مقدار میں مالامال کیا ہے ۔ حافظ العلوم مولانا معین الدین خٹک رحمۃ اللہ علیہ کا حافظہ ضرب المثل تھا ، انھیں چلتا پھرتا ٹیپ ریکارڈ کہاجاتا تھا ۔ لیکن ڈاکٹر صاحب کی تفسیر سے اندازہ ہوا کہ ان کا حافظہ بھی مثالی ہے۔ انھیں عربی ادب کی طرح اردو ادب پر بھی عبور حاصل ہے ۔ اُردو زبان کے محاورے اور شعرا کے ہزاروں شعرازبر مستحضر ہیں ۔ موقع و محل کی مناسبت سے اشعار کے ذریعے کلام کو مدلل اور مزین کرنا ان کا کمال ہے ۔ ہر مضمون کی تشریح اس طرح کرتے ہیں کہ قاری اسے اچھی طرح ذہن نشین کرلے ۔ ایسے انداز سے دلیل پیش کرتے ہیں کہ بات دل میں اتر جائے ۔ عقلی دلائل کی تفہیم کے ساتھ نقلی دلائل کا انبار لگا دیتے ہیں ۔ قدیم و جدید تفاسیر سے نقول پیش کرتے ہیں ۔ منکرین سنت اور مستشرقین کو مسکت جواب دیتے ہیں۔بلاشبہہ ان کے دروس علم اور معلومات کا خزانہ ہیں جو دریا کی سی روانی کے ساتھ بہتا چلا جاتا ہے ۔یہ تفسیر علما ، طلبہ ، طالبات ، مبلغین اور اسلامی تحریک کے کارکنان کے لیے بے مثال تحفہ ہے ۔ وہ اس سے بھر پوراستفادہ کر کے اپنے علم میں اضافہ کریں اور قرآن پاک کے علوم کی اشاعت کے ذریعے اسلامی انقلاب برپا کردیں۔
oتفسیر روح القرآن (۱۲جلدیں)،مؤلف: ڈاکٹر مولانا محمد اسلم صدیقی ۔ ناشر: ادارہ ھدًی للناس، ۳۴۳-مہران بلاک، علامہ اقبال ٹائون، لاہور۔ فون: ۳۵۴۲۶۸۰۰-۰۴۲۔ صفحات: ۷۷۶۷۔ قیمت: ۸۵۰۰ روپے۔
مغرب میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں بالعموم منفی تاثر پایا جاتا ہے جو مبنی برحقیقت نہیں۔ مسلمانوں کو مسلسل ’بنیاد پرست، ’دقیانوس‘، ’دہشت گرد‘، انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا جاتا ہے۔ مزید یہ الزام بھی دیا جاتا ہے کہ مسلمان جمہوریت کو ناپسند کرتے ہیں اور دنیا پر شریعت مسلط کرنا چاہتے ہیں، نیز مغرب کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اسی طرح ایک طویل عرصہ سے جہاد کے بارے میں بھی مغرب میں غلط فہمی پائی جاتی ہے۔ ان غلط مفروضوں اور مبہم اور غیرحقیقی تصورات کی بنیاد پر مغرب کی عالمِ اسلام کے بارے میں بنائی جانے والی حکمت عملی مزید غلط فہمیوں کو پھیلانے اور نتیجتاً مسلمانوں کے ساتھ محاذآرائی کی شکل اختیار کرچکی ہے جس سے دنیا کا امن بھی متاثر ہو رہا ہے۔ ان حالات میں یہ سمجھنا بہت ضروری ہوگیا ہے کہ مسلمانوں کا حقیقی موقف کیا ہے، اور ان کا پُرتشدد ردعمل کن وجوہات کی بنا پر سامنے آرہا ہے؟ بالکل اسی طرح مغرب کی حکمت عملی کا حقیقت پسند اور غیرجانب دار جائزہ، نیز مسائل کے حل کے لیے مبنی برانصاف لائحہ عمل کی ضرورت شدت سے محسوس ہورہی ہے۔ اس پس منظر میں اگر مغربی مفکرین کی طرف سے کوئی معروضی مطالعہ سامنے آئے تو ایسے جائزے کو عالمی امن کے قیام کی کوششوں کی طرف ایک صحت مند اقدام سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
راجر ہارڈی نے اپنی کتاب The Muslim Revolt [مسلم بغاوت ] میں سیاسی اسلام کے تناظر میں مذکورہ بالا مسائل کے پیش نظر جامع تجزیہ پیش کیا ہے اور سوڈان، سعودی عرب، ترکی، انڈونیشیا، ملایشیا، پاکستان اور ایران میں درپیش مسائل کا غیر جانب داری سے جائزہ لیا ہے۔ مصنف بی بی سی سے وابستہ ہونے کی وجہ سے مسلم مفکرین، سرگرم لوگوں (activists) اور عوام سے براہِ راست رابطے میں رہا ہے۔ ہارڈی نے بہت سے عصری سیاسی و سماجی مسائل پر مسلم اسکالروں، عوام اور حکمران طبقے کے ردعمل پر مبنی قیمتی معلومات تنقیدی نقطۂ نظر سے پیش کی ہیں۔
’سیاسی اسلام‘ کا سفر اسلام کو بطور معاشرہ اور تہذیب کے طور پر متعارف کرانے کی کوشش سے ہوتا ہے۔ عمومی تاثر کے برعکس ہارڈی یہ محسوس کرتا ہے کہ عربوں نے اصولی طور پر اسلام کو تلوار کے زور پر مسلط نہیں کیا۔ ان کی زبان عربی منصفانہ انداز میں بتدریج پھیلی اور مذہب مزید آہستگی سے اب بھی پھیل رہا ہے۔ یہ صرف ۱۰ویں اور ۱۳ویں صدی عیسوی کا زمانہ ہی نہ تھا جب مشرق وسطیٰ کے باشندوں نے اسلام قبول کیا....عملی مقاصد کے حصول کے لیے ریاست نے ایک خالص عرب مہم جوئی کے بجاے بطور مسلم ریاست کردار ادا کیا۔ (ص ۱۱-۱۲)
ہارڈی مسلمانوں میں عالمی سطح پر پائی جانے والی اسلامی ریاست یا شریعہ بطور قانون کے نفاذ کی خواہش کو جاننے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ اس نے قائداعظم محمد علی جناح کے تصورِ پاکستان کو جس سادگی سے پیش کیا ہے اس پر اسے موردِ الزام نہیں ٹھیرایا جاسکتا۔ اس کے تجزیے میں بھی قائداعظم کے بارے میں عمومی غلط فہمی پائی جاتی ہے، یعنی یہ کہ وہ سیکولر اور لبرل تھے (ص ۵۹)۔ اگرچہ حقیقت یہ ہے کہ قائداعظم نے قیامِ پاکستان سے قبل اور اس کے وجود میں آجانے کے بعد پاکستان کے ایک اسلامی ریاست ہونے کے تصور کو بارہا پیش کیا (دیکھیے: امریکی عوام سے خطاب، ۲۳ فروری ۱۹۴۸ئ)۔ اپنے ایک دوسرے بیان میں انھوں نے ان لوگوں کو متنبہ کیا ہے جنھوں نے مسئلے کو اُلجھانے کی کوشش کی ہے: ’’بلاشبہہ جب ہم اسلام کے بارے میں بات کرتے ہیں تو بہت سے لوگ اس کی تحسین نہیں کرتے۔ اسلام محض اصولوں، روایات اور روحانی طریقوں کا نام نہیں ہے۔ اسلام ہرمسلمان کا ضابطۂ حیات بھی ہے جو اس کی زندگی اور رویے کو ترتیب دیتا ہے، حتیٰ کہ سیاست اور اقتصادیات کو بھی۔ یہ عزت و احترام، اعلیٰ اخلاقی اقدار، صحیح رویے اور سب کے لیے انصاف جیسے اعلیٰ اصولوں پر مبنی ہے‘‘۔
ہارڈی کا یہ نقطۂ نظر کہ مذہبی جماعتیں پارلیمنٹ میں زیادہ نشستیں نہیں جیت سکتیں اور ان کے ووٹ بنک کا موازنہ جب دیگر سیاسی جماعتوں سے کیا جاتا ہے تو محدود ہے، تنقیدی تجزیہ چاہتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ایک عام ووٹر کو کبھی بھی سیکولر اور ’مذہبی‘ گروہوں کے درمیان انتخاب کا مرحلہ درپیش نہیں آیا۔ حتیٰ کہ وہ جو ’سیکولر‘ کہلاتے ہیں ہمیشہ عوام کی اسلام سے وابستگی کو استعمال کر کے ان کا استحصال کرتے رہے اور ان کی حمایت حاصل کرتے رہے۔ اس کی نمایاں مثال پاکستان پیپلزپارٹی ہے جس کے راہنما ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی جذبات کو سیاسی طور پر اس وقت استعمال کیا جب انھوں نے جمعہ کی چھٹی کا اعلان کیا، قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دیا اور پاکستان میں شراب کی کھلے عام فروخت اور استعمال پر پابندی عائد کی تھی۔ ۱۹۷۳ء کے دستور میں بھی جو متفقہ طور پر ان کے دورِ امارت میںمنظور کیا گیا، پاکستان کو اسلامی جمہوریہ قرار دیا گیا اور دستوری طور پر ریاست کو اس بات کا قانوناً پابند کیا گیا کہ ۱۰ سال کے اندر اندر پاکستان کا قانونی نظام مکمل طور پر اسلامی کردیا جائے گا۔ان تاریخی حقائق کے تناظر میں جب ضیاء الحق کو پاکستان میں اسلامائزیشن کا علَم بردار (چیمپئن) قرار دیا جاتا ہے تو یہ ان کے ساتھ غیرضروری فیاضی اور بے جا تحسین کے مترادف ہے۔ (ص۳۱-۶۳)
ہارڈی مسلمانوں کے ساتھ مغرب کے دہرے اخلاقی معیار پر بھی کڑی تنقید کرتا ہے۔ اس کے خیال میں یہ کہنے میں کہ قانون کا احترام کرنے والے اور محنتی مسلمانوں کے ساتھ عام شہریوں کی طرح پیش آیا جاتا ہے، ناگزیر حد تک تضاد پایا جاتا ہے۔ ان کی مساجد کی نگرانی کی جاتی ہے، ان پر دبائو ڈالا جاتا ہے کہ وہ انفرادی اور خاندانی رویوں میں تبدیلی لائیں، اور ریاستی سطح پر دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر قانون سازی میں سختی کے نتیجے میں شہری آزادیاں متاثر ہورہی ہیں۔ مغرب کے اس دہرے اخلاقی معیار کے نتیجے میں وہ اسلام کا نیا حریف بن گیا ہے۔ ہارڈی کی یہ تصنیف کثیرثقافتی باہمی بقا کا بھی ایک اہم مطالعہ ہے۔ (ص۱۸۵)
مصنف دہشت گردوں اور اسلام پسندوں کو ہدف بنانے کے نام پر بے گناہ شہریوں پر قوت کے استعمال اور ڈرون حملوں کو بھی تنقیدی نظر سے دیکھتا ہے۔ وہ مراد ہوف مین کے نقطۂ نظر کی تائید کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’سرد جنگ کی طرح یہ نئی جنگ بھی ایک نظریاتی جہت رکھتی ہے جوکہ ’سوفٹ پاور‘ (سفارت کاری، انٹیلی جنس، پروپیگنڈا، اقتصادی امداد وغیرہ) جیسے ہتھیاروں کے حساس استعمال کی متقاضی ہے لیکن سرد جنگ اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے درمیان ایک اہم فرق ہے۔ ناٹو اور وارسا پیکٹ کا جب موازنہ کیا جاتا ہے تو امریکا کی لازمی طور پر حکومتوں سے محاذآرائی تھی نہ کہ عوام سے جو اتحادی یا امکانی اتحادی تھے۔ اب امریکا ریڈیکل اسلام کے خلاف جسے ہمیشہ عوام کی تائید حاصل ہوتی ہے، غیرمقبول مسلم حکومتوں کا اتحادی ہے۔ یہ پوری دلجمعی کے ساتھ کسی جدوجہد کو جاری رکھنے کے لیے زیادہ کمزور موقف ہے‘‘۔ (ص ۱۸۷-۱۸۸)
ہارڈی عالمی جہاد کا بھی جائزہ لیتا ہے۔ اس کے نزدیک اس کا سبب انسانیت کی تذلیل پر مبنی روایات ہیں۔ ان روایتوں کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ مغرب___ روایتی فوجی اور اقتصادی طاقت اور عالم گیریت کے نئے ہتھیار سے مسلح___ اسلام کے ساتھ حالت ِ جنگ میں ہے۔ (ص۱۹۱)
مغرب کی جارحیت فلسطین، عراق، افغانستان، کشمیر اور وسطی ایشیا کی جمہوریائوں سے محاذآرائی پر مبنی خطے میں پوری طرح عیاں ہے۔ جہاد کے حمایتی تشدد کو مغربی جارحیت سے نجات کا ذریعہ قرار دیتے ہیں اور اس کا جواز مذہب سے مہیا کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تذلیل سے نجات دلاتا ہے اور ندامت کو فخر سے اور بے بسی کو قوت میں بدل دیتا ہے (ص ۱۹۲)۔ اس موقف کا اظہار بھرپور تاثر کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ ہارڈی کی راے میں جڑواں ٹاور پر حملہ جہادیوں کے اس مضبوط موقف کی تسکین کا باعث تھا۔القاعدہ کا نقطۂ نظر مسلم نوجوانوں کو تشخص، نظریہ اور ایک ایسا ذریعہ فراہم کرنا ہے جو انھیں یہ بتاتا ہے کہ وہ کون ہیں، انھیں کیوں اس پر عمل کرنا چاہیے،اور کیا کرنا چاہیے۔ (ص ۱۹۳)
امریکا کی ۲۰۰۱ء میں افغانستان اور ۲۰۰۳ء میں عراق پر جارحیت نے مغرب کی اسلام کے خلاف عالمی جنگ کے القاعدہ کے موقف کی تصدیق کردی۔ اس کی مزید تائید ابوغرائب جیل میں قیدیوں کی تذلیل کے قصے اور گوانتاناموبے جیل میں قیدیوں کے ساتھ توہین آمیز رویے نے کردی۔ اس سب نے نام نہاد القاعدہ کے حربوں اور حکمت عملی کے لیے جلتی پر تیل کا کام کیا اور امریکی پالیسیوں کی مسلم دنیا میں ناپسندیدگی اور حمایت سے محرومی میں اضافہ کیا۔
ہارڈی کے تجزیے کی روشنی میں ۲۰۰۹ء میں وائٹ ہائوس کی مسلم دنیا سے متعلق حکمت عملی میں ایک واضح تبدیلی نظر آتی ہے، اوّلاً: سی آئی اے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کو تیزی سے اس کے صحیح مقام پر واپس لانے میں زیادہ سرگرمِ عمل دکھائی دیتی ہے۔یہ افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں متعین اہداف پر حملوں پر توجہ مرکوز کر رہی ہے۔ یہ حکمت عملی القاعدہ کو اپنے دفاع پر مجبور کردیتی ہے۔ دوم: سرکاری بیانات میں ’جہادی‘ یا ’مسلم‘ دنیا کی اصطلاحات سے اجتناب کرتے ہوئے ’دنیا میں پائے جانے والے مسلمان‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ گو، اس سے حتمی تجزیے کے طور پر امریکا کے مسلمانوں کے بارے میں رویے میں امریکا اور بیرونِ امریکا میں کوئی بڑا تغیر واقع نہیں ہوا، اور نہ مسلمانوں کے امریکا کے مسلمانوں کے مفادات کے خلاف محاذ آرائی اور تصادم کے تصور میں ہی کوئی تبدیلی آئی ہے۔ سوم: ان حالات پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے جو تشدد اور انتہاپسندی میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ چنانچہ غربت کے خاتمے اور شرحِ خواندگی میں اضافے کے پروگراموں نے توجہ حاصل کرلی ہے۔ چہارم: امریکی حکام اور ماہرین پر یہ بات بھی عیاں ہوتی جارہی ہے کہ مسائل کو فوجی قوت کے استعمال سے حل نہیں کیا جاسکتا۔ مسلم دنیا کے پسے ہوئے مسلمانوں کی سماجی، اقتصادی اور سیاسی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی حل بھی تلاش کیا جانا چاہیے۔ پنجم: امریکا کو مسلم دنیا میں اپنی حکمت عملی کے نفاذ کے لیے عالمی دبائو بڑھانے کے لیے دنیا کی دیگر اقوام کو بھی اس میں شریک کرنا چاہیے۔ناٹو افواج کی افغانستان ، عراق اور لیبیا وغیرہ میں براہِ راست مداخلت نام نہاد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کو ایک کثیرقومی جدوجہد بنادیتی ہے۔ ششم: عراق، افغانستان اور پاکستان میں جمہوریت کے فروغ کے لیے غیرمعمولی کاوشیں لازماً کی جانی چاہییں۔ یہ نئی حکمت عملی ایک عام آدمی میں اس یقین کو پختہ کرتی ہے کہ مسلم دنیا میں آمر حکمران، اسلام پسندوں، بنیاد پرستوں اور جہادیوں کو پیدا کرنے کا سبب ہیں، جب کہ امریکا اور اس کے اتحادی آزادی، حریت ، انسانی حقوق اور جمہوریت کے علَم بردار ہیں۔ تاہم کوئی بھی اس زمینی حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ مصر، تیونس، مراکش، یمن وغیرہ کے جابروں اور آمروں کو امریکا کی مسلسل حمایت حاصل رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا اور اس کے مغربی اتحادی جنگ ِ عظیم کے بعد مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں آمر حکمرانوں کی تخلیق کے پیچھے تھے۔
نائن الیون کے بعد نام نہاد لبرل جمہوری معاشرے کے ودیعت کردہ تضادات مزید نمایاں ہوکر سامنے آئے۔ نہ صرف مسلم دنیا میں بلکہ امریکا اور یورپ میں پیدا ہونے اور پلنے بڑھنے والے مسلمانوں کو بھی پہلے سے قائم تصورات کی بنا پر ’ماڈریٹ‘، ’ریڈیکل‘، ’لبرل‘،’دقیانوسی‘یا ’بنیاد پرست‘ قرار دیا گیا۔ اس طرح سے مسلمانوں کے بارے میں قائم کیا گیا تاثر ان کی شخصیت کا حقیقی عکس نہیں ہے۔ یہ عمومی تاثر کہ ’مسلمان جمہوریت سے نفرت‘ کرتے ہیں یا ’مسلمان ہماری آزادی سے نفرت‘ کرتے ہیں، جیساکہ بش نے دعویٰ کیا تھا، اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں حقیقی تصور کو جاننے میں ایک رکاوٹ ثابت ہو رہا ہے۔
لاعلمی یا حقیقی مسائل کو پوری طرح قصداً جانے بغیر کیے جانے والے فیصلے صحیح پالیسی فیصلوں کے نہ ہونے کا باعث بنتے ہیں۔ ہارڈی کا یہ تاثر مبنی برحقیقت ہے: ’’مسلم دنیا کے مرکز سے لے کر موریتانیہ سے مینڈانائو تک بیش تر علاقوں میں مسلمانوں کو بُری حکمرانی کا سامنا ہے، ان کے انسانی حقوق کا استحصال کیا جا رہا ہے، اور ان کی معاشی ترقی روک دی گئی ہے۔ یہ مسائل حقیقی ہیں اور مغرب کو ان کا براہِ راست ذمہ دار بھی نہیں ٹھیرایا جاسکتا۔ لیکن بیرونی قوتوں کے کردار کو نظرانداز کرنا___ ان کی غوروفکر سے عاری مداخلت، ان کی آمر حکمرانوں پر عنایات، ان کا انسانی حقوق اور جمہوریت کے بارے میں دہرا معیار___ مسئلے کے ایک اہم پہلو سے آنکھیں بند کرلینے کے مترادف ہے‘‘۔ (ص ۲۰۱)
غلط تصورات پر مبنی خارجہ پالیسی کسی بھی ابلاغی خلا کو پُر نہیں کرسکتی، اور نہ باہمی اعتماد ہی کو قائم کرسکتی ہے۔ امریکا اور یورپی حکومتی پالیسیوں کی عالمی سطح پر مسلمانوں کی طرف سے مخالفت کی ایک بڑی وجہ ان کی ناقص ڈھل مل خارجہ پالیسی، اور یہ تصور ہے کہ فوج، طاقت اور دولت ہی مسئلے کا حل ہیں۔ سابق برطانوی خارجہ سیکرٹری ڈگلس ہرڈ یہ کہنے میں پوری طرح حق بجانب تھے: ’’ہم نے غزا، فلوجا اور چیچنیا میں بہت سے لوگوں کو ہلاک کر کے دہشت گردی کو فروغ دیا ہے۔ ان علاقوں میں اپنے رویے سے اسرائیلی، امریکی اور روسی ہر وقت دہشت گردوں کو تیار کر رہے ہیں‘‘۔ (بی بی سی ریڈیو- ۴، ۲۲؍اپریل ۲۰۰۴ئ)
مسلمان ممالک پر طولانی قبضہ اور ڈرون حملے صورت حال کو مزید خراب کرنے کا باعث بنیں گے، جب تک کہ دہشت گردی کو فروغ دینے کا یہ سلسلہ بند نہ کیا جائے، اور تعلیم کے ذریعے مسلمانوں کا ذہن تبدیل کرنے کی نرم پالیسی نہیں اپنائی جاتی۔ ایسے میں محض متاثرہ علاقوں میں سماجی ترقی کے لیے دی جانے والی خیراتی امداد کوئی بہتری نہیں پیدا کرسکتی۔
مغرب اور عالمی مسلم کمیونٹی کے باہمی تعلقات کے مستقبل کا انحصار نام نہاد امن افواج کے انخلا میں ہے جو کہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر عوام پرکھلم کھلا حملوںمیں ملوث ہے۔ یورپ اور امریکا کی اسرائیل، افغانستان، عراق، لیبیا، یمن اور پاکستان کے بارے میں خارجہ پالیسی ایک حقیقی تبدیلی مسلمانوں اور مغرب کے درمیان اعتماد پیدا کرنے کے لیے راہ ہموار کرسکتی ہے۔ یہ مغرب اور بنی نوع انسان کے مفاد میں ہے کہ عالمی امن کے حصول کے لیے اور مسلم دنیا میں مجروح عوام کے احترام اور حقوق کی بحالی کے لیے مزاحمت اور تصادم کو کم کرے۔
زیرتبصرہ کتاب امریکا اور اس کے اتحادیوں کی عالم اسلام کے بارے میں خارجہ پالیسی میں مثالی تبدیلی تجویز کرتی ہے۔ مغرب کی جمہوریت، آزادی (لبرلا ئزیشن) اور عالم گیریت کے نام پر مسلم دنیا کے معاملات میں بلاجواز مداخلت مسلمانوں کو مزید برگشتہ کرے گی اور پُرامن بقاے باہمی کے امکانات کو مزید کم کرے گی۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی مسلم دنیا میں غیرمقبول، کرپٹ آمر حکومتوں کی خفیہ یا کھلی حمایت اور سرپرستی بھی بند ہونی چاہیے۔ اگر ہم دنیا میں ایک پُرامن عالمی نظام چاہتے ہیں تو مسلمانوں کے ذہن اور نفسیات، اسلامی اقدار اور تمدن کو سمجھنے کے لیے ایک مخلصانہ سوچ کو سب سے پہلے سامنے آنا چاہیے۔ اس لیے کہ ’’ایک نئی سوچ کے بغیر جو کہ اسلام کے تصورِ حیات اور عالمِ اسلام کے عدم اطمینان کی وجوہات پر یقینی گرفت رکھتی ہو یہ ممکن نہیں۔ دوسری صورت میں مسلمانوں کی بغاوت صدیوں تک جاری رہے گی‘‘ (ص ۲۰۲)۔ (تبصرہ: مسلم ورلڈ بک ریویو، برطانیہ، جلد ۳۲، شمارہ ۲، ۲۰۱۲ئ۔ ترجمہ: امجد عباسی)
The Muslim Revolt: A Journey Through Political Islam )
راجر ہارڈی، ناشر: C.Hurst & Co ، لندن، ۲۰۱۰ئ، ISBN: 9781849040327، صفحات: ۲۳۹)
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی مقبولِ عام اور مشہور کتاب خطبات کا انگریزی ترجمہ جب اسلامک فائونڈیشن لسٹر ، برطانیہ سے Let us be Muslims کے نام سے شائع کیا گیا تو محترم خرم مراد نے ترجمہ کرنے کے ساتھ ایک طویل مقدمہ بھی لکھا، جس میں اس کتاب کی خصوصیات مؤثرانداز سے پیش کی گئیں۔ اس مقدمے کا ترجمہ تذکرۂ سید مودودی میں شائع کیا گیا۔ اس ترجمے پر محترم مقدمہ نگار نے خود نظرثانی بھی کی تھی۔ اس کا ایک حصہ ہم پیش کر رہے ہیں۔ مکمل مطالعے کے لیے تذکرۂ سید مودودی-۲ ملاحظہ کیجیے۔ (ادارہ)
اسلام ایک روایتی مذہب نہیں، بلکہ دُنیا میں خداخوفی، عبادت گزاری اور آخرت میں رضاے الٰہی کے تابع ابدی کامرانی کا پیغام ہے۔ یہ پیغام محض انفرادی وعظ و تلقین کا آوازہ نہیں، بلکہ عمل اور اجتماعی جدوجہد کی پکار بھی ہے۔ اس سرمدی پیغام کو انبیا ؑو رُسل ؑنے پھیلایا، عام کیا، اس راستے میں اپنی زندگیوں کو نثار کیا، اور خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مکمل کیا۔ بعدازاں یہ ذمہ داری پوری اُمت اسلامیہ پر عائد ہوگئی کہ وہ ہدایت ِ ربانی کو عام کریں۔ یہ شمعِ ہدایت ظلمت اور تاریکی، جبر اور صُلح، محکومی اور حاکمیت ،گویا کہ ہررنگ میں روشن اور منور رہی۔ بلاشبہہ کبھی اس لَو کا ہالہ وسیع رہا، اور کبھی مایوسی کی اتھاہ یوں سامنے آئی کہ دل بیٹھنے لگے، اور یہ ان سعید رُوحوں کا کمال اور ربِ کریم کی برکت و عنایت ہے کہ دیپ سے دیپ روشن ہوتے رہے۔
ان باکمال شخصیات میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی (۱۹۰۳ئ-۱۹۷۹ئ) کا اسمِ گرامی تاریخ کے اوراق پر ثبت ہوچکا ہے۔ تاریخ کے اوراق میں جگہ پانا بھی شاید کوئی بڑے کمال کی بات نہیں ہے۔ لیکن مولانا کی عظمت و بزرگی کا اصل راز وہ حکمت اور تدبر ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے راستے پر چلنے اور لوگوں کو چلانے کے لیے انھیں عطا فرمایا۔ اس ضمن میں مولانا مودودی کا راہوارِقلم، مولانا کا طرزِ استدلال، مولانا کے طرزِ بیان اور مولانا کی بصیرت افروز رہنمائی وہ انعام ہے جس نے ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے، بھٹکے ذہنوں کو صراطِ مستقیم پر چلانے اور جمودزدہ زندگیوں کو جہادِعظیم میں کھپا دینے کا کارنامہ انجام دیا....
مولانا مودودی کی کتاب خطبات کوئی معمولی کاوش نہیں ہے۔اگرچہ یہ کتاب عام اور معروف موضوعات اور سیدھی سادی سچی باتوں پر مشتمل ہے، جن کو عام اور کم پڑھے لکھے یا اَن پڑھ لوگوں کے سامنے سادہ الفاظ اور انھی کی روزمرہ کی زبان میں پیش کیا گیا تھا، مگر خدا کے فضل و کرم سے اس کتاب نے مولانا کی کسی بھی اس سے زیادہ علمی کتاب کے مقابلے میں کہیں زیادہ لوگوں کے دلوں میں ہل چل پیدا کی ہے، اور کہیں زیادہ زندگیوں کو اپنا رُخ بدل کر اپنے خالقِ حقیقی کے ساتھ وابستہ ہوکر زندگی گزارنے کی راہ پر گامزن کردیا ہے....
سید مودودی کی تمام تحریروں میں خطبات کے الفاظ اگرچہ وہ ایک دُور دراز مقام پر ایک چھوٹی سی مسجد کی چار دیواری میں بولے گئے، اپنے زمان و مکاں کی حدود کو عبور کر کے اثرانداز ہوتے ہیں۔ ان الفاظ نے اپنے قاریوں کے دل و دماغ میں جو تاثر پیدا کیا ہے وہ ٹھیک ٹھیک ان کے مقصد اور پیغام کی اس گہرائی اور اخلاص کے تناسب سے ہے جو ان الفاظ میں کارفرما ہے۔ انھوں نے بے شمار لوگوں کو ان کی کمزوریوں کا شعور دیا ہے، اور ان کے ایمان میں اخلاص پیدا کیا ہے....
اس کتاب میں مولانا مودودی کی گفتگو کے موضوعات وہ ہیں جو اسلام میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں، یعنی، ایمان اور اسلام، علم و عملِ صالح، تقویٰ، دُنیا و آخرت، عبادت، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور جہاد۔ یہ تمام بالکل وہی موضوعات ہیں جن پر تمام مذہبی اہلِ قلم اور واعظین کلام کرتے رہتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر مولانا کے خطاب میں کیا منفرد خصوصیت ہے؟ یہ سوال بالکل بجا ہے۔ آیئے اس کا جواب تلاش کرتے ہیں۔
اگرچہ اس میں شک نہیں کہ مولانا کا بیان بھی ان موضوعات کی حقیقت کے بارے میں بڑا واضح اور منفرد و غیرمعمولی نوعیت کا حامل ہوتا ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ ان تمام معمولی اور روزمرہ کے موضوعات کے ابتدائی، اصلی اور حقیقی معانی کا احیا کرکے، اور ہماری آج کی زندگی کے ساتھ جوڑ کے، ان کو ایک بالکل مختلف انقلابی مقام دے دیتے ہیں۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ وہ ہرموضوع کا ٹھیک وہی مقام بحال کردیتے ہیں جو اسے اسلام میں حاصل ہے۔ دوسری بات یہ ہے اور یہ ان کا منفرد کارنامہ ہے کہ وہ ان سب کی ان باہم کڑیوں کو آپس میں پھر سے جوڑ دیتے ہیں جو عرصے سے ہماری زندگی میں فکروعمل کے دائرے میں ٹوٹ چکی ہیں اور جن کو ہم بالکل فراموش کربیٹھے ہیں۔ ایمان، اسلام، دنیا و آخرت، نماز، روزہ، یہ سب موجود ہیں، لیکن یہ سب اپنے دائرے اور حلقے تک محدود ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم ان سب کو ایک علیحدہ اکائی تصور کیے بیٹھے ہیں، اور ایک علیحدہ اکائی کے طور پر ہی ان سب سے معاملہ کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ اس لیے اگرچہ ہر جُز اپنے مقام پر موجود ہو اور مسخ بھی نہ ہوا ہو، اور اس میں کوئی غیرمتعلق حصہ شامل بھی نہ کیا گیا ہو، پھر بھی مولانا کی تمثیل کے مطابق، یہ سب پُرزوں کی حیثیت میں رہتے ہیں اور ایک مجسم گھڑیال کی صورت اختیار نہیں کرتے، کیونکہ وہ علیحدہ علیحدہ ہیں۔ مولانا ان سب پُرزوں کو جمع کرلیتے ہیں اور ہمیں ان کو جوڑنے کا طریقہ سکھاتے ہیں۔ اچانک جو چیز غیراہم اور غیرمتعلق تھی، ایک مرکزی حیثیت اختیار کرلیتی ہے اور ہماری زندگی کا مقدر بن جاتی ہے۔ اس طرح باوجود اس کے کہ ان کے موضوعات معروف اور عام ہیں، اور باوجود اس کے کہ وہ طویل، بلند آہنگ اور شان دار خطابت کے لبادے میں ملبوس نہیں کیے گئے، اپنے گہرے نقوش دلوں پر مرتسم کرتے چلے جاتے ہیں۔
مولانا کے موضوعات کی گراں قدری، قوت اور وسعت یقینی طور پر بہت وقیع اور عمیق ہے۔ لیکن ہم بآسانی ایسی سات کڑیوں کا تذکرہ کرسکتے ہیں، جن کے درمیان انھوں نے دوبارہ ربط قائم کیا ہے:
۶- چھٹے یہ کہ وہ تاریخ کو بھی ایمان کے ساتھ منسلک کرتے ہیں۔ ایمان محض ایک مابعد الطبیعی یا روحانی قوت نہیں، وہ تاریخ اور تقدیر ساز ہے۔ اس طرح تاریخ، زندگی اور ایمان، دونوں کے لیے نہایت اہم ہوجاتی ہے۔ ہم خاموشی سے معطل ہوکر نہیں بیٹھ سکتے، بلکہ ہمیں آگے بڑھ کر تاریخ کا رُخ موڑنے کی عملی کوشش کرنی چاہیے۔ اس سعی و عمل کا نام جہاد ہے۔
ایمان کا مفہوم تو سب جانتے ہیں، مگر پھر بھی خرابی یہ پیدا ہوگئی ہے کہ صاحب ِ ایمان لوگوں کی عملی زندگی سے ایمان غیرمتعلق ہوکر رہ گیا ہے، یا اس کا مقام اب زندگی کے کناروں پر ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ مثلاً: یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ ایمان پر ایک پیدایشی ورثے کے طور پر حق قائم رہتا ہے، خواہ عمل کچھ بھی ہو۔ یا، صرف کلمے کے الفاظ زبان سے ادا کردینے ہی کو ایمان کے مساوی بنا لیا گیا ہے۔ یا، ایمان کا مقام زندگی کے دُور دراز گوشوں اور کونوں تک محدود کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ یا، ایمان کو ایک بے ضرر شے بنا دیا گیا ہے۔
’’یہ کوئی نسلی چیز نہیں ہے کہ ماں باپ سے وراثت میں یہ خود بخود آپ کو حاصل ہوجائے اور خود بخود تمام عمر آپ کے ساتھ لگی رہے، خواہ آپ اس کی پروا کریں یا نہ کریں۔ بلکہ ایسی نعمت ہے کہ اس کے حاصل کرنے کے لیے خود آپ کی کوشش شرط ہے‘‘۔ (خطبات، ص ۳۱)
’’ہرشخص جو مسلمان کے گھر پیدا ہوا ہے، جس کا نام مسلمانوں کا سا ہے، جو مسلمانوں کے سے کپڑے پہنتا ہے، اور جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے، حقیقت میں وہ مسلمان نہیں ہے‘‘۔ (ایضاً،ص ۳۲)
اس لیے کہ: ’’ایک کافر اور ایک مسلمان میں اصلی فرق نام کا نہیں کہ وہ رام پرشاد ہے اور یہ عبداللہ ہے، اس لیے وہ کافر ہے اور یہ مسلمان۔ اسی طرح ایک کافر اور ایک مسلمان میں اصلی فرق لباس کا بھی نہیں ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۳۲)
اسی طرح وہ کہتے ہیں: ’’بس یہی حال کلمۂ طیبہ کا ہے۔ فقط چھے سات لفظ بول دینے سے اتنا بڑا فرق نہیں ہوتا کہ آدمی کافر سے مسلمان ہوجائے، ناپاک سے پاک ہوجائے، مردُود سے محبوب بن جائے، دوزخی سے جنتی بن جائے‘‘۔ (ایضاً، ص ۵۵)
اسلام میں کلمۂ طیبہ پڑھنے کے لیے کسی پر جبر نہیں کیا جاسکتا، مگر ہاں! ایک دفعہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوجانے کے بعد زندگی کے ظاہری اور باطنی پہلوئوں میں کلمے کے تقاضوں کی پابندی لازم اور فرض ہے۔ مولانا اس پہلو کو یوں واضح کرتے ہیں:
’’اس بات کا اقرار کرنے کے بعد تمھیں یہ کہنے کا کیا حق ہے کہ یہ جان میری ہے، جسم میرا ہے، مال میرا ہے، اور فلاں چیز میری ہے۔ دوسرے کو مالک کہنا اور پھر اس کی چیز کو اپنی قرار دینا، بالکل ایک لغو بات ہے۔ اگر درحقیقت یہ بات سچے دل سے مانتے ہو کہ ان سب چیزوں کا مالک خدا ہی ہے… تو جس طرح مالک کہتا ہے اسی طرح تمھیں ان چیزوں سے کام لینا چاہیے۔ ان کی مرضی کے خلاف ان سے کام لیتے ہو تو دھوکا بازی کرتے ہو‘‘۔ (ایضاً، ص ۵۹)
اسی طرح وہ کہتے ہیں: ’’اب آپ کو یہ کہنے کا حق ہی نہ رہا کہ میری راے یہ ہے، یا دُنیا کا دستور یہ ہے، یا خاندان کا رواج یہ ہے، یا فلاں حضرت یا فلاں بزرگ یہ فرماتے ہیں۔ خدا کے کلام اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مقابلے میں اب ان میں سے کوئی چیز بھی آپ نہیں کرسکتے‘‘۔ (ایضاً، ص ۵۱)
سید مودودیؒ ایک بہت بڑے بت شکن واقع ہوئے ہیں، کیونکہ ایمان کے ساتھ بت پرستی نہیں چل سکتی۔ لیکن ان کی فکروتشویش کا موضوع پتھر کے بت نہیں ہیں، اور نہ مظاہر فطرت۔ بلکہ دلوں کے اندر بیٹھے بت ہیں، یعنی اپنی ذات، اپنا معاشرہ، اپنی تہذیب، بلکہ خود اپنے جیسے انسان، جو کہ اکثر انسانی زندگی میں خدا کا درجہ حاصل کرلیتے ہیں۔
اکثر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کیا ہے؟ مولانا مودودی اس نکتے کو نہایت سادگی اور بڑی وسعت کے ساتھ یوں بیان کرتے ہیں:’’خدا کے مقابلے میں اپنی آزادی و خودمختاری سے دست بردار ہو جانا ’اسلام‘ ہے۔ خدا کی پادشاہی و فرماں روائی کے آگے سرِتسلیم خم کر دینا اسلام ہے.... خدا کے حوالے کرنے یا خدا کے سپرد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے اپنی کتاب اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے جو ہدایت بھیجی ہے، اس کو قبول کیا جائے۔ اس میں چون و چرا نہ کی جائے اور زندگی میں جو معاملہ بھی پیش آئے، اس میں صرف قرآن اور سنت ِ رسولؐ کی پیروی کی جائے‘‘۔ (ایضاً، ص ۵۰)
لیکن پھر بھی لوگ اپنی ذاتی خواہشات کے بندے اور غلام ہوتے ہیں اور انھی کی تکمیل کو مقصدِحیات قرار دیتے ہیں۔ ان کے لیے محض یہ امر قابلِ اطمینان ہوتا ہے کہ معاشرے کا چلن کیا ہے؟ ___ وہ ہرگز یہ نہیں دیکھتے کہ قرآن کیا کہتا ہے، سنت میں ان کے لیے کیا اسوئہ حسنہ ہے۔ مولانا فرماتے ہیں: ’’اگر اسے معلوم ہوجائے کہ قرآن و سنت کی ہدایت یہ ہے اور پھر وہ اس کے جواب میں کہتا ہے کہ میری عقل اسے قبول نہیں کرتی۔ اس لیے مَیں اس بات کو نہیں مانتا یا باپ دادا سے تو اس کے خلاف عمل ہو رہا ہے، لہٰذا میں اس کی پیروی نہ کروں گا، یا دنیا کا طریقہ اس کے خلاف ہے، لہٰذا میں اسی پر چلوں گا، تو ایسا شخص ہرگز مسلمان نہیں ہے۔ [یہاں پہنچ کر مولانا مودودی دوٹوک انداز سے کہتے ہیں] وہ جھوٹ کہتا ہے: اگر اپنے کو مسلمان کہتا ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۵۱)
خدا کو چھوڑ کر جس کے ساتھ اطاعت و وفاداری کا رشتہ قائم کیا جائے، وہ ایک خدا ہے۔ یہ اپنا نفس ہو، اپنا معاشرہ، خاندان اور قوم ہو، اپنے جیسے انسان ہوں، جیسے حکمران، دولت مند، اور گم کردہ راہ دانش ور___ ان کی گمراہ کن اطاعت گزاری کے بتوں پر کاری ضرب لگاتے ہوئے، مولانا فرماتے ہیں: ’’بھائیو! آج مَیں نے آپ کے سامنے جن تین بتوں کا ذکر کیا ہے، ان کی بندگی اصل شرک ہے۔ آپ نے پتھر کے بت توڑ دیے، اینٹ اور چونے سے بنے ہوئے بت خانے ڈھا دیے، مگر سینوں میں جو بت خانے بنے ہوئے ہیں، ان کی طرف کم توجہ کی۔ سب سے زیادہ ضروری، بلکہ مسلمان ہونے کے لیے اوّلین شرط ان بتوں کو توڑنا ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۹۰)
کیونکہ یہ امر بدیہی طور پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ:’’جس نے یہ تینوں بت اپنے دل میں بٹھا رکھے ہوں، اس کا بندۂ خدا ہونا مشکل ہے۔ وہ دن میں پانچ وقت کی نمازیں پڑھ کر اور دکھاوے کے روزے رکھ کر اور مسلمانوں کی سی شکل بنا کر انسانوں کو دھوکا دے سکتا ہے، خود اپنے نفس کو بھی دھوکا دے سکتا ہے کہ مَیں پکا مسلمان ہوں، مگر خدا کو دھوکا نہیں دے سکتا‘‘۔ (ایضاً، ص ۹۰)
ایمان و بت پرستی کی حقیقت، اور ہماری زندگیوں میں ایمان کے مقتضیات پر بصیرت افروز روشنی ڈالتے ہوئے وہ یوں وضاحت کرتے ہیں: ’’اور اگر وہ [مسلمان] بعض معاملات میں تو خدا کی ہدایت کو مانتا، اور بعض میں اپنے نفس کی خواہشات کو یا رسم و رواج کو، یا انسانوں کے قانون کو، خدا کے قانون پر ترجیح دیتا ہو، تو جس قدر بھی وہ خدا کے قانون کی بغاوت کرتا ہے، اسی قدر کفر میں مبتلا ہے۔ کوئی آدھا کافر ہے، کوئی چوتھائی کافر ہے، کسی میں دسواں حصہ کفر کا ہے اور کسی میں بیسواں حصہ، غرض جتنی خدا کے قانون سے بغاوت ہے، اتنا ہی کفر۔ (ایضاً، ص ۹۰)
ایک فرد کی جانب سے بظاہر دعویٰ ٔایمان اور اس کے برعکس دل کی دُنیا کو، اس کے کسی چھوٹے سے گوشے کو بھی خدا، اطاعت ِخدا اور خوفِ خداسے خالی رکھنے کے رویے کو مولانا مودودی خالص منافقانہ روش قرار دیتے ہیں۔ کیا مولانا مودودی مسلمانوں کی تکفیر کا کام کر رہے ہیں؟ نہیں! اپنے خطبات کے مندرجہ بالا بیانات سے پیدا ہونے والی ممکنہ غلط فہمی کی وہ ساتھ ہی ساتھ فوراً تردید کردیتے ہیں۔ اپنے لہجے کی شدت کے بارے میں جو دل گرفتگی، حسرت اور کرب کا نتیجہ ہے، فرماتے ہیں: ’’میرے عزیز بھائیو! کہیں یہ نہ سمجھ لینا کہ مَیں مسلمانوں کو کافر بنانے چلا ہوں، نہیں میرا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۴۱-۴۲)
اس لہجے سے ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ عمومی سوچ اور روایتی عمل میں ایک زلزلہ برپا کرکے، قاری کو رُکنے، ٹھٹھکنے اور نئے سرے سے اپنے اندازِ فکر اور طرزِعمل پر نظرثانی کرنے، احتساب کرنے اور جائزہ لینے پر آمادہ کیا جائے۔ پہاڑوں کی تنگنائوں کی شوریدہ سرموجیں اب کھلے میدانی اور پُرسکون دریا کی مانند سرگرم سفر نظر آتی ہیں۔ اب وہ بڑے نرم لہجے میں سمجھا رہے ہیں: ’’یہ کسوٹی اس غرض کے لیے نہیں ہے کہ اس پر آپ دوسروں کو پرکھیں اور ان کے مومن یا منافق اور مُسلم یا کافر ہونے کا فیصلہ کریں بلکہ یہ کسوٹی اس غرض کے لیے ہے کہ اس پر خود اپنے آپ کو پرکھیں، اور آخرت کی عدالت میں جانے سے پہلے اپنا کھوٹ معلوم کرکے یہیں اُسے دُور کرنے کی فکر کریں‘‘۔ (ایضاً، ص ۱۱۰)
مولانا مودودی نے ایمان کے دو درجات بیان کیے ہیں۔ انھوں نے ان دونوں کا بڑا اہم اور نمایاں فرق بھی بیان کیا ہے۔ پہلا درجہ ایمان کے زبانی اقرار کا درجہ ہے۔ اسے وہ ’قانونی ایمان‘ کہتے ہیں۔ دوسرا درجہ وفاو عمل کے سانچے میں ڈھلے ہوئے قلبی ایمان کا ہے۔ اسے وہ حقیقی ایمان کہتے ہیں۔ یہی خدا کا پسندیدہ ایمان ہے اور یہی آخرت میں ہمارے لیے خدا کی رضا اور جزاے خیر کا ضامن ہے، نیز اس دنیا میں بھی خدا کے انعام و اکرام کا مستحق قرار دیتا ہے۔ خطبات میں اُنھوں نے بالکل واضح طور پر کہا ہے کہ ان کا موضوع اس تحریر میں حقیقی ایمان ہے۔ اس لیے کہ یہی اللہ کو مطلوب ہے اور یہی ہماری دنیاوی زندگی میں بھی اہمیت رکھتا ہے۔
لیکن اسی کے ساتھ وہ حکیمانہ طریقے سے ’قانونی ایمان‘ کی اہمیت پر بھی زور دیتے ہیں، کیونکہ یہی ایمان مُسلم اُمت میں رُکنیت کا سبب بنتا ہے۔ دین اور شریعت کے درمیان اہم فرق و امتیاز واضح کرکے فرقہ پرستی کی بنیادوں پر کاری ضرب لگاتے ہیں، جو آپس میں تفرقہ و تکفیر کا اصل سبب ہے۔ صحیح اسلام کو اپنے بلیغ انداز میں بیان کرنے کے باوجود اور اپنی تمام ایسی شعلہ نوائی کے باوجود کہ فرقہ پرستوں کو اس طرح مخاطب کرنا’’ تم لوگ مسلمان نہیں ہو‘‘، ’’یہ قطعی منافقت ہے‘‘ کے الفاظ استعمال نہیں کیے۔ مولانا نے کبھی اپنی زندگی میں کسی کے خلاف کفر کا فتویٰ صادر نہیں کیا بلکہ وہ ہمارے سامنے اس معاملے میں تحمل و بُردباری کی ایسی مثالیں پیش کرتے ہیں جو کہ آج کل بڑی کمیاب ہیں۔
’’نوکر…جس طرح آقا کے حکم کے ماننے پر مجبور ہے، اسی طرح میری سمجھ کو بھی ماننے پر مجبور ہے۔ اگر تو میری سمجھ کو نہ مانے گا، تو مَیں اپنے اختیار سے تجھ کو آقا کی نوکری سے خارج کرادوں گا۔ غور کرو یہ کتنی بڑی بات ہے۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’جو شخص کسی مسلمان کو ناحق کافر کہے گا، اس کا قول خود اسی پر پلٹ جائے گا‘‘۔ کیونکہ مسلمان کو تو خدا نے اپنے حکم کا غلام بنایا ہے، مگر یہ شخص کہتا ہے کہ ’’نہیں، تم میری سمجھ اور میری راے کی بھی غلامی کرو‘‘۔ یعنی صرف خدا ہی تمھارا خدا نہیں ہے، بلکہ مَیں بھی چھوٹا خدا ہوں‘‘۔(ایضاً، ص ۱۲۵)
دوسری طرف اگر عبادات صحیح طریقے سے انجام دی جائیں تو وہ پوری زندگی کو ایمان کے دائرۂ کار میں لاسکتی ہیں، یا دوسرے الفاظ میں خدا اور خدائی احکام کے تحت۔ ہم اگر ان کے خطاب ’’عبادت کے صحیح معنی‘‘ کو پڑھیں تو ہم یہ محسوس کرسکتے ہیں کہ کس قدر زوردار طریقے سے مولانا مودودی نے اس اہم نکتے پر اپنے دلائل دیے ہیں۔
مولانا مودودی کہتے ہیں کہ نماز کا مقصد یہ ہے کہ ہم ہر اس چیز سے اپنے ہاتھ روک لیں، ہراس رویّے سے اپنا پہلو بچا لیں، جو خدا کو ناپسند ہے: ’’لیکن اگر کوئی ایسا ہے کہ اتنی زبردست اصلاح کرنے والی چیز [نماز] سے بھی اس کی اصلاح نہیں ہوتی تو [پھر جان لینا چاہیے کہ] یہ اس کی طینت کی خرابی ہے، نماز کی خرابی نہیں۔ پانی اور صابن کا قصور نہیں، اس کی وجہ کوئلے کی اپنی سیاہی ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۱۵۸)
مولانا مودودی نے ایسی بے روح مذہبیت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے جو خالی دلوں اور تقسیم شدہ اطاعتوں پر مبنی ہوتی ہے۔ وہ پوچھتے ہیں کہ آپ ایسے ملازم کو کیا کہیں گے جو اپنی منصبی ذمہ داریاں ادا کرنے کے بجاے، محض اپنے آقا کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا رہے، اور اس کے نام کی مالا جپتا رہے۔ آقا اسے حکم دے کہ چور کا ہاتھ کاٹ دو،مگر ملازم اس پر عمل کرنے کے بجاے وہیں کھڑا رہے، اور خوش الحانی سے بار بار کہتا رہے کہ ’’چور کا ہاتھ کاٹ دو، چور کا ہاتھ کاٹ دو‘‘، مگر اس نظام کو قائم کرنے کے لیے انگلی بھی نہ ہلائے، جہاں چور کا ہاتھ کاٹا جاسکے۔ بالکل اسی طرح ایک مسلمان جب یہ کرے کہ قرآن کے احکام پر عمل کرنے کے بجاے اسے بس جوابی طور پر خوش الحانی سے ان احکام کو زبان سے دہراتا ہی رہے تو کیا اسے عبادت کہا جائے گا؟
’’مگر کیسی حیرت کی بات ہے کہ جو لوگ رات دن، خدا کے قانون کو توڑتے ہیں، کفار و مشرکین کے احکام پر عمل کرتے ہیں، اور اپنی زندگی کے معاملات میں خدا کے احکام کی کوئی پروا نہیں کرتے، ان کی نماز اور روزے اور تسبیح اور تلاوتِ قرآن اور حج و زکوٰۃ کو آپ خدا کی عبادت سمجھتے ہیں۔ یہ غلط فہمی بھی اسی وجہ سے ہے کہ آپ عبادت کے اصل مطلب سے ناواقف ہیں‘‘۔ (ایضاً، ص ۱۳۵)
’’مگر اب مَیں تمھیں بتاتا ہوں کہ جس دل میں جہاد کی نیت نہ ہو، اور جس کے پیشِ نظر جہاد کا مقصد نہ ہو ، اس کی ساری عبادتیں بے معنی ہیں۔ ان بے معنی عبادت گزاریوں سے اگر تم گمان رکھتے ہو، کہ خدا کا تقرب نصیب ہوتا ہے تو خدا کے ہاں جاکر تم دیکھ لو گے کہ اُنھوں نے تم کو اس سے کتنا قریب کیا‘‘۔ (ایضاً، ص ۳۱۸)
’’لہٰذا اگر آپ واقعی اس دین (اسلام) کو حق سمجھتے ہیں ، تو آپ کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس دین کو زمین میں قائم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں، اور یا تو اسے قائم کر چھوڑیں، یا اسی کوشش میں جان دے دیں‘‘۔ (ایضاً، ص ۳۲۶)
مگر کیوں؟___ مولانا کا دانش آفرین استدلال بڑا واضح اور معقول ہے۔ سب سے پہلے وہ بتاتے ہیں کہ اللہ اور اس کے آخری رسولؐ پر ایمان لانے اور قرآن کریم کو کتابِ ہدایت تسلیم کرنے کا تقاضا یہی ہے کہ ہماری پوری کی پوری زندگی تابع امرِرب ہوجائے، اسی لیے:
’’[مسلمان سے] اسلام یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنے بادشاہ کے ملک میں اس کا قانون جاری کرنے کے لیے اُٹھیں، اس کی رعیّت میں سے جو لوگ باغی ہوگئے ہیں اور خود مالک المُلک بن بیٹھے ہیں، ان کا زور توڑیں اور اللہ کی رعیّت کو دوسروں کی رعیّت بننے سے بچائیں۔ اسلام کی نگاہ میں یہ بات ہرگز کافی نہیں ہے کہ تم نے خدا کو خدا اور اس کے قانون کو قانونِ برحق مان لیا___ نہیں! اس کو ماننے کے ساتھ ہی آپ سے آپ یہ فرض تم پر عائد ہوجاتا ہے کہ جہاں بھی تم ہو، جس سرزمین میں بھی تمھاری سکونت ہو، وہاں خلقِ خدا کی اصلاح کے لیے اُٹھو، حکومت کے غلط اصول کو صحیح اصول سے بدلنے کی کوشش کرو، ناخدا ترس اور شُتر بے مہار قسم کے لوگوں سے قانون سازی اور فرماں روائی کا اقتدار چھین لو، اور بندگانِ خدا کی رہنمائی و سربراہ کاری اپنے ہاتھ میں لے کر خدا کے قانون کے مطابق آخرت کی ذمہ داری و جواب دہی کا اور خدا کے عالم الغیب ہونے کا یقین رکھتے ہوئے، حکومت کے معاملات انجام دو۔ اسی کوشش اور اسی جدوجہد کا نام جہاد ہے۔ (ایضاً، ص ۳۱۴)
اگر ایسا نہ ہو تو پھر وہ دو دینوں کے تحت زندگی گزارتے ہیں۔ مولانا مودودی اس دوعملی پر ضرب لگاتے ہیں جس میں عموماً مسلمان اس طرح دو دینوں پر عمل پیرا نظر آتے ہیں۔ ایک دین ہمارے دماغ میں ہوتا ہے یا زیادہ سے زیادہ ذاتی و خانگی زندگی میں، اور دوسرا دین اجتماعی زندگی میں:’’حکومت کے بغیر دین بالکل ایسا ہے، جیسے ایک عمارت کا نقشہ آپ کے دماغ میں ہو، مگر عمارت زمین پر موجود نہ ہو۔ ایسے دماغی نقشے ہونے کا فائدہ ہی کیا ہے؟ جب کہ آپ رہیں گے اس عمارت میں جو فی الواقع موجود ہوگی؟‘‘(ایضاً، ص ۳۲۲)
مولانا مودودی، انسانی نفسیات پر گہری نظر رکھتے ہوئے واضح طور پر یہ اعلان کرتے ہیں کہ کسی انسان کے لیے بیک وقت دو دینوں اور دو مذہبوں پر عمل کرنا ممکن نہیں ہے: ’’حقیقت میں تو آپ اسی کے دین پر ہیں جس کی اطاعت واقعی آپ کر رہے ہیں۔ پھر یہ جھوٹ نہیں تو کیا ہے کہ جس کی اطاعت آپ نہیں کر رہے، اس کو اپنا حاکم اور اس کے دین کو اپنا دین کہیں؟ اور اگر زبان سے آپ کہتے بھی ہیں، یا دل میں ایسا سمجھتے بھی ہیں، تو اس کا فائدہ اور اثر کیا ہے؟ آپ کا یہ کہنا کہ ہم اس کی شریعت پر ایمان لاتے ہیں، بالکل ہی بے معنی ہے، جب کہ آپ کی زندگی کے معاملات اس کی شریعت کے دائرے سے نکل گئے ہوں، اور کسی دوسری شریعت پر چل رہے ہوں‘‘۔ (ایضاً، ص۳۲۰)
تیسرے، ظاہر ہے کہ یہ صورتِ حال ایک صاحب ِ ایمان کے لیے ہرگز قابلِ قبول نہیں ہوسکتی: ’’کسی دوسرے دین کے ساتھ یہ دین [اسلام] شرکت کہاں قبول کرسکتا ہے؟ اور کون سا دین ہے جو دوسرے دین کی شرکت قبول کرتا ہو؟ ہردین کی طرح یہ دین بھی یہی کہتا ہے کہ اقتدار خالصاً و مخلصاً میرا ہونا چاہیے، اور ہر دوسرا دین میرے مقابلے میں مغلوب ہوجانا چاہیے، ورنہ میری پیروی نہیں ہوسکتی‘‘۔ (ایضاً، ص ۳۲۴)
چوتھی دلیل وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ انسان پر انسان کی خدائی، حکومت اور اقتدار ہی زمین پر فتنہ و فساد کی ساری خرابیوں کی جڑ ہے۔ اس لیے: ’’جو کوئی حقیقت میں خدا کی زمین سے فتنہ و فساد کو مٹانا چاہتا ہو، اور واقعی یہ چاہتا ہو کہ خلقِ خدا کی اصلاح ہو، تو اس کے لیے محض واعظ اور ناصح بن کر کام کرنا فضول ہے۔ اسے اُٹھنا چاہیے اور غلط اصول کی حکومت کا خاتمہ کر کے، غلط کار لوگوں کے ہاتھ سے اقتدار چھین کر صحیح اصول اور صحیح طریقے کی حکومت قائم کرنی چاہیے‘‘۔ (ایضاً، ص ۳۱۱)
اس سوال کی گرفت کو اور مضبوط بناتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’یہ قطعی ناممکن ہے کہ کوئی قوم خدا کے کلام کی حامل ہو اور پھر دنیا میں ذلیل و خوارہو، دوسروں کی محکوم ہو، پائوں میں روندی اور جوتیوں سے ٹھکرائی جائے۔ اس کے گلے میں غلامی کا پھندا ہو، اور غیروں کے ہاتھ میں اس کی باگیں ہوں، اور وہ اس کو اس طرح ہانکیں جیسے جانور ہانکتے ہیں‘‘۔ (ایضاً، ص ۴۸)
یہ سب کچھ کیوں کر وقوع پذیر ہوگیا ہے؟ مولانا مودودی یقین بھری آواز میں پکارتے ہیں: ’اگر تمھارا ایمان ہے کہ خدا ظالم نہیں ہے، اور اگر تم یقین رکھتے ہو کہ خدا کی فرماں برداری کا بدلہ ذلت سے نہیں مل سکتا، تو پھر ہمیں ماننا پڑے گا کہ مسلمان ہونے کا دعویٰ جو تم کرتے ہو، اسی میں کوئی غلطی ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۴۰)
یہی وہ صورتِ حال ہے جس میں موجودہ مسلمانوں کے قرآن سے تعلق اور ایمان شکن رویّے کی یوں وضاحت کرتے ہیں:’’پس جو قوم خدا کی کتاب رکھتی ہو اور پھر بھی ذلیل و خوار اور محکوم و مغلوب ہو تو سمجھ لیجیے کہ وہ ضرور کتابِ الٰہی پر ظلم کر رہی ہے۔ اور اس پر یہ سارا وبال اسی ظلم کا ہے۔ خدا کے اس غضب سے نجات پانے کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں کہ اُس کی کتاب کے ساتھ ظلم کرنا چھوڑ دیا جائے اور اُس کا حق ادا کرنے کی کوشش کی جائے‘‘۔ (ایضاً، ص ۴۹)
اگرچہ ہمیں کتاب میں سے کثرت سے اقتباسات دینے پڑے ہیں، لیکن مولانا مودودی کی اس کتاب کے مختلف موضوعات کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے یہ ضروری تھا۔ مندرجہ بالا گزارشات یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہیں کہ مولانا کی یہ کتاب کس قدر منفرد اور بے مثال ہے۔
دراصل یہی موضوعات ہیں جن میں مولانا نے مسلمانوں کو صحیح اسلام کی طرف پلٹ آنے کی جو دعوت دی ہے، اس کی اہمیت اور نزاکت میں اصل رنگ انھی موضوعات کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ ہر چیز جو اپنے ابتدائی معنی و مفہوم کو کھو دیتی ہے یا جو صحیح رُوح سے خالی ہوچکی ہے، اس کتاب میں اس کا احیا کردیا گیا ہے___ مگر سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے ان سب مطالب کو ایک لڑی میں پرو دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام کی تاثیر دوسرے واعظوں اور خطیبوں کے مقابلے میں بے پناہ ہوگئی ہے ، اگرچہ وہ لوگ یہی باتیں بیان کرتے ہیں جو مولانا مرحوم نے کی ہیں۔ اس لیے کہ یہ ایمان اس طرح زندگی، عمل، عبادت، جہاد اور تاریخ کے ساتھ جڑ کر ہی اپنی وہ اصل قوت حاصل کرلیتا ہے جو انسان اور اس کی دُنیا میں انقلاب لاسکتی ہے۔