مطالعہ کتاب


’اسلام‘ ، ’جمہوریت‘ اور ’جدیدیت‘ ،معاصر اسلامی فکر کا مستقل مسئلہ رہا ہے۔ اس کے جوابات بھی مختلف اسلامی تحریکوں نے الگ الگ طریقے سے دیے ہیں۔ ان جوابات میں مفکرین اور محققین نے اسلامی تحریکوں کی حد بندی کی ہے۔ کچھ اسلامی مفکرین کہتے ہیں کہ ’اسلام اور جمہوریت میں توافق پیدا کیا جا سکتا ہے، جب کہ دوسرے اسلامی مفکرین کا خیال ہے کہ جمہوریت تو وہی ہے، جس کا ذکر قرآن میں ’شوریٰ‘ کے نام سے آیا ہے‘۔ یہ حضرات احادیث نبویؐ اور بعض فقہی آراء سے استشہاد کرتے ہیں جس کی رُو سے ’شوریٰ ‘واجب ہے۔ انھی میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں، جو کہتے ہیں کہ جمہوریت اور شوریٰ ایک ہی چیز ہے۔ یہ لوگ دستورِ مدینہ سے استدلال کرتے ہیں کہ وہ انسانی تاریخ میں مشترک شہریت کا پہلا معاہدہ تھا کیونکہ اس میں انصاف، کثرتیت اور اقلیتوں کی حفاظت کی بات کی گئی تھی، نیز یہ کہا گیا تھا سب مسلمان ایک امت کا حصہ ہیں۔  

اس کے برعکس اسلامی مفکرین کی ایک جماعت ایسی بھی ہے، جو کہتی ہے کہ ’جمہوریت اور اسلام ایک دوسرے کی ضد ہیں اور دونوں جمع نہیں ہو سکتے ہیں‘۔ یہ لوگ دو جماعتوں میں تقسیم ہو گئے ہیں: ایک روایت پسند ہے اور دوسری جہاد پر مبنی سرگرمیوں کی قائل۔ یہ دونوں قرآن اور سنت سے اپنے موقف کا استشہاد کرتے ہیں کہ ’حقِ حکومت‘ اللہ کا ہے، عوام کا نہیں ہے اور قانون سازی کا حق صرف اللہ کو ہے، پارلیمنٹ کو نہیں ہے۔ پہلے فریق کا کہنا ہے کہ ’جمہوریت‘ اسلام کے سیاسی طاقت اور حکومت کے تصور سے ٹکرا رہی ہے، جب کہ دوسرا فریق فقہی مباحث سے آگے بڑھ کر عقیدے کی بات کرتا ہے کہ جمہوریت کفر ہے بلکہ وہ اسے موجودہ زمانے کا ’طاغوت‘ کہتا ہے۔ 

یہ آراء اور تصورات ’قابلِ تبدیلی‘ اور ’نا قابلِ تبدیلی‘ اعتقادات پر مبنی ہیں، جو سوسائٹی کے بدلتے ہوئے سیاسی فکر و نظریات سے متاثر ہیں اور جو دنیا بھر میں جمہوریت کے پچھلی صدی کے آٹھویں عشرے سے چلن کا نتیجہ ہے۔ ان آراء کی وجہ سے عربی اور دوسری زبانوں میں بہت کچھ شائع ہوا ہے، جس کا موضوع ہے: فکری تجدید، جدیدیت، جمہوریت، لبرلزم اور سیاسی اسلام وغیرہ۔ 

 یہ سلسلہ ’عرب بہار‘ کے بعد مزید تیز ہو گیا ہے، جس کے بعد عرب قومیں آزادی، عزّت، برابری، جمہوریت اور سیاسی زندگی میں خواتین کے کردار کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ ان مسائل پر لکھنے والوں میں عالم اسلام کے کچھ مشہور سیاسی رہنما اور مجتہد شامل ہیں۔ مثلاً سوڈان کے سیاسی و دینی مفکر اور قائد ڈاکٹر حسن عبداللہ الترابی (م: ۲۰۱۶ء) جنھوں نے السیاسۃ و الحکم: النظم السلطانیۃ بین الأصول و سنن الواقع (۲۰۰۳ء) اس وقت لکھی، جب وہ سوڈان کی حکومت کے ساتھ اختلاف کے باعث جیل میں بند تھے، حالانکہ خود اسی حکومت کو لانے میں ان کا بڑا ہاتھ تھا۔ اُن لکھنے والوں میں تیونس کی تحریک نہضہ کے قائد راشد الغنوشی [پ:۲۲جون ۱۹۴۱ء]بھی شامل ہیں، جو اپنے ملک میں سیاسی اختلاف کی وجہ سے ۲۰۲۳ء سے جیل میں قید ہیں۔ انھوں نے الحریات العامۃ فی الدولۃ الاسلامیۃ  کتاب لکھی، جس کی پہلی جلد ۱۹۹۳ء میں شائع ہوئی اور دوسری جلد ۲۰۱۲ء میں۔ انھوں نے الدیمقراطیۃ وحقوق الانسان فی الاسلام بھی لکھی، جو مرکز الجزیرۃ برائے تحقیق اور الدار العربیۃ سے ۲۰۱۲ء میں شائع ہوئی۔  

  • راشد غنوشی اور اسلامی جمہوریت : راشد غنوشی نے اپنی ۲۰ سے زیادہ کتابوں میں اسلام میں آزادی اور جمہوریت کے بارے میں واضح موقف اختیار کیا ہے۔ اسی کے ساتھ انھوں نے ان افکار کو سیاسی طور پر تیونس میں پرکھا بھی ہے، جس کی وجہ سے عرب اور مغربی محققین کی نظر ان کی آراء پر مرکوز ہوئی ہے۔ ان محققین نے راشد غنوشی کے بارے میں اتنا کچھ لکھا ہے، جو کسی اور معاصر مسلم سیاسی مفکر کے بارے میں نہیں لکھا گیا ہے۔ ان میں جدید ترین کو شش امریکا کی میساچوسٹس یونی ورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر اینڈریو ایف مارچ کی ہے، جنھوں نے غنوشی کے ساتھ مل کر ان کے بارے میں On Muslim Democracy: Essays and Dialogues  کتاب لکھی ہے، جو اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس سے شائع ہوئی۔  

اس کتاب میں امریکی پروفیسر نے راشد غنوشی کےمتعدد عربی مقالوں کا انگریزی ترجمہ کیا ہے، اور کتاب میں غنوشی کے ساتھ ایک طویل انٹرویو بھی شامل ہے، جس میں انھوں نے اپنے فکری اور سیاسی سفر اور اس میں بڑی تبدیلیوں پر بات کی ہے اور بتایا ہے کہ وہ کیسے ’اسلامی جمہوریت‘ سے ’مسلم جمہوریت‘ تک پہنچے۔ یہ ۲۸۴ صفحات پر مشتمل کتاب ہے۔ اس کے بارے میں ۱۸ مارچ کو پروفیسر اینڈریو مارچ نے شہر ’سلا ‘(مراکش) میں اسلام اور جمہوریت پر بات کرتے ہوئے ایک کانفرنس میں اظہار خیال کیا، جس میں ممتاز اہلِ قلم، سیاسی رہنمااور اہلِ فکر شریک تھے۔ اس موقعے پر غنوشی کے ایڈوائزر برائے امور خارجہ رضا ادریس بھی موجود تھے۔  

پروفیسر مارچ نے کہا: کتاب لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ میں حکومت اور آزادی کے متعلق اسلامی افکار سے دلچسپی رکھتا ہوں۔ شیخ غنوشی کی کتاب الحریات العامۃ فی الدولۃ الاسلامیۃ (اسلامی حکومت میں عمومی آزادیاں) پڑھنے کے بعد ان سے ’استخلاف‘ (خلافت)کے بارے میں مزید بات کرنے کی خواہش ہوئی کیونکہ اسلامی سیاسی فکر میں یہ تصور ایک بنیادی مقام رکھتا ہے۔ میں سمجھنا چاہتا تھا کہ کس طرح تقلیدی ’خلافت‘ کا نظریہ عصری جمہوری تبدیلیوں سے متاثر ہوا ہے، بالعموم عرب اور اسلامی ممالک میں ’عرب بہار‘ کی وجہ سے جو حالات پیدا ہوئے اور بالخصوص تیونس میں جہاں سے ۲۰۱۱ء میں ’عرب بہار‘ کی پہلی چنگاری پھوٹی تھی۔  

  • تحریکِ نہضہ: پروفیسر مارچ نے مقدمے میں کتاب لکھنے کا سفر بھی بیان کیا ہے۔ اس کی ابتدا انھوں نے ییل یونی ورسٹی کے تعاون سے غنوشی کی کتاب ’اسلامی ریاست میں عمومی آزادیاں‘ کے ترجمے سے کی۔ اس کے بعد انھوں نے غنوشی سے ملاقات کی اور تیونس کے جمہوری تجربے اور ’عرب بہار‘ کے بارے میں لکھا، جس کی کامیابی میں غنوشی کا بڑا ہاتھ تھا۔ انھوں نے اس وقت کے صدر جمہوریہ الباجی قائد السبسی کے ساتھ مل کر کام کیا۔  

 دوسری اسلامی تحریکوں کے برعکس ،تحریک نہضہ نے اپنے سیکولر مخالفین کے لیے بہت نرمی کا رویہ اختیار کیا، تاکہ تیونس میں سیاسی استحکام پیدا ہوسکے۔ تحریک نہضہ اس سے بھی آگے تک گئی اور واضح طریقے سے الیکشن جیتنے کے با وجود، ایک ٹیکنوکریٹ حکومت کے حق میں دست بردار ہوگئی ۔ یہی نہیں بلکہ تیونس کے آئین بننے کے تین سال بعد مئی ۲۰۱۶ میں تحریک نہضہ نے کافی اندرونی بحث و مباحثہ کے بعد اپنی دسویں کانفرنس میں اعلان کیا کہ وہ عصرحاضر میں اسلامی احیا کے اپنے طریق کار سے آگے بڑھ کر اب اپنی سیاسی فکر کو ’مسلم جمہوریت‘ کا نام دیتی ہے۔  

اسی کے ساتھ تحریک نہضہ نے مسلم ڈیموکریٹس کو دعوت دی کہ وہ یہ راستہ اپنانے کے لیے مکالمہ شروع کریں تاکہ اسلامی سوچ اور جدیدکاری میں کوئی ٹکرائو باقی نہ رہے۔ اس نئی سوچ کے بارے میں حالات پر نظر رکھنے والوں کا تجزیہ تھا کہ اس طرح تحریک نہضہ اپنے اس تاریخی اور نظریاتی راستے سے ہٹ گئی ہے، جس پر وہ ابتدا میں کار بند تھی۔  

پروفیسر مارچ نے کہا کہ غنوشی کی گرفتاری اور ان کے ساتھ اب تک کا معاملہ تیونس میں ڈیموکریٹک تجربے کو پیچھے لے جانے والا قدم ہے۔ یہ صورت حال اس چیلنج کو واضح کرتی ہے، جو ’اسلامی جمہوریت‘ کو نہ صرف سیاسی تجربے کے طور پر بلکہ ایک فکر کے طور پر بھی درپیش ہے،جب کہ اسلامی جمہوریت اسلامی فریم ورک میں کثرتیت اور آزادی پر یقین رکھتی ہے۔ پروفیسر مارچ نے کہا کہ اس سے پہلے بھی ’اسلامی جمہوریت‘ کے بارے میں لکھا گیا ہے، لیکن ان کی کتاب انگریزی میں اس موضوع پر پہلی کتاب ہے، جس میں بنیادی اُمور اور تحریک نہضہ کو پیش کیا گیا ہے، جس نے اسلامی تحریکی سوچ سے تجاوز کرتے ہوئے ’مسلم جمہوریت‘ کے مفہوم کی وضاحت کی ہے۔ یہ مفہوم روایتی اسلامی سیاسی فکر سے آگے بڑھ کر ایک قدم ہے۔  

اسلام اور جمہوریت کے درمیان تعلق  

  • کیا ’مسلم جمہوریت‘ صرف ایک سیاسی اصطلاح ہے یا وہ ایک مکمل فکر ہے جو اسلامی تحریکی فکر سے آگے کا ایک قدم ہے؟  
  • کیا ’مسلم جمہوریت‘ ایک سیاسی اسلامی آئیڈیالوجی یا نظریہ ہے؟  
  • ’مسلم جمہوریت‘ کس طرح سابقہ اسلامی سیاسی نظریے یا اسلامی تحریکی فکر سے الگ ہے؟  
  • ’مسلم جمہوریت‘ کس طرح غیر اسلامی ڈیموکریٹک نظریات سے الگ ہے جو کثرتیت اور پارلیمانی جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں؟  
  • کیا یہاں معاملہ صرف الیکشن کے زمانے میں سیاسی مارکیٹنگ کا ہے یا یہ ’اسلامی جمہوریت‘ کی مخالفت کرنے والی سیاسی پارٹیوں کے خلاف اسٹرے ٹیجک فیصلہ ہے؟  

یہ وہ سوال ہیں جن پر پروفیسر مارچ نے اس کتاب میں گفتگو کی ہے اور اس کے لیے انھوں نے ’مسلم جمہوریت‘ کی اصطلاح کی تشریح کی غرض سے راشد غنوشی کے ۱۰ مقالات کا ترجمہ کیا ہے اور ان سے تفصیلی گفتگو بھی کی ہے، جس سے اس نظریے کی وضاحت ہوتی ہے۔ اس گفتگو سے پچھلے چالیس برسوں کے درمیان غنوشی کے بحیثیت سیاسی لیڈر پر روشنی پڑتی ہے۔  

راشد غنوشی نے اپنی سیاسی زندگی کی ابتدا ایک سیکولر اور قوم پرست لیڈر کے طور پر کی تھی اور دھیرے دھیرے نہضہ پارٹی کے ذریعے اسلامی تحریک میں شامل ہوئے تھے۔ اس دوران ان کو پریشانیوں، گرفتاریوں اور تعذیب کا سامنا کرنا پڑا۔ پچھلی صدی کے نویں عشرے میں ان کی پھانسی کا دو بار حکم صادر ہوا، جس کی وجہ سے وہ ۱۹۸۹ء سے لے کر ۲۰۱۱ء تک جلاوطن کے طور پر لندن میں مقیم رہے ،کیونکہ ان کے خیالات اور نظریات ان کے مخالفین کو نا پسند تھے۔ خصوصاً اس لیے کہ انھوں نے ایک نیا فکری ماڈل پیش کیا تھا، جس سے سیاسی اور اجتماعی تبدیلی کے خواہش مند مسلم ممالک کو ایک راستہ نظر آتا ہے۔  

اس کے برعکس غنوشی کے سیاسی مخالفین، یقین رکھتے ہیں جن میں اسلامی حرکیات سے تعلق رکھنے والے بعض پُرجوش حضرات اور سیکولر دونوں شامل ہیں کہ اسلامی تحریکی فکر اور جمہوریت کو ایک دوسرے سے قریب لانا ممکن نہیں ہے۔ ان کا خیال ہے کہ جمہوریت کا اسلامی حرکی پہلو یا اسلامی تحریکوں کا جمہوریت کے ذریعے اقتدار میں آناایک وقتی حربہ ہے تاکہ یہ لوگ حکومت پر قبضہ کرسکیں اور اس کے بعد یہ لوگ جمہوریت اور جمہوری قدروں کے خلاف بغاوت کر کے تاریخی اسلامی خلافت جیسی حکومت قائم کریں۔ مگر ان لوگوں کے برعکس تحریک نہضہ نے جمہوریت، سماجی امن و سلامتی اور وطن کی خاطر، حکومت میں سیاسی شرکت سے کنارہ کشی کا راستہ اپناکر دکھایا تھا۔ 

پروفیسر مارچ کے خیال میں غنوشی صرف ایک سیاسی لیڈر نہیں ہیں بلکہ وہ ایک مفکر اور مجدد ہیں، جنھوں نےاسلامی سیاسی روایت اور جدید جمہوریت کے درمیان قربت تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس گفتگو سے سیاسی کثرتیت، حقوق، آزادیاں، بالخصوص عقیدے اور ضمیر کی آزادی ، عوامی حکومت اور انصاف کے بارے میں غنوشی کے افکار واضح ہوتے ہیں۔  

  • اسلامی جمہوریت سے ’مسلم ڈیموکریسی‘ کی طرف: تیونس کا تجربہ دوسرے ممالک مثلاً ترکیہ، ملائشیا اور پاکستان وغیرہ سے مختلف ہے۔ ان کا تقابل راشد غنوشی کی فکر سے کرتے ہوئے پروفیسر مارچ ’اسلامی جمہوریت‘ اور ’مسلم ڈیموکریسی‘ کے درمیان فرق واضح کرتے ہیں۔ ’اسلامی جمہوریت‘ ریاست پر ایک اسلامی ماڈل نافذ کرنا چاہتی ہے،جب کہ ’مسلم ڈیموکریسی‘ کثرتیت کو ایک سیاسی حقیقت کے طور پر تسلیم کرتی ہے، جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ پروفیسر مارچ نے بتایا ہے کہ تیونس کے تجربے نے اس تبدیلی کو ایک حقیقت کے طور پر پیش کیا ہے جس کے تحت سیکولر، لبرل اور بائیں بازو کی پارٹیوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی بنیاد پر ایک زیادہ لچک دار طریقۂ کار اپنانا پڑتا ہے تاکہ سوسائٹی میں بہت سی مشکلات سے بچا جا سکے۔ اس کا بنیادی عنصر آزادی کا التزام ہے۔  

غنوشی کے خیال میں ’’آزادی صرف ایک لبرل قدر (value ) نہیں ہے بلکہ وہ کسی اخلاقی اور دینی عمل کے لیے ایک بنیادی شرط ہے اور دینی فضیلت کو حقیقی آزادی کے بغیر حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے‘‘۔ اسی کے ساتھ غنوشی سیاسی کثرتیت کاگہرے طور پر اعتراف کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں سیاسی کثرتیت کوئی جادو کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ سیاست کی حقیقت کوسمجھنے کا مسئلہ ہے۔ انھوں نے اشارہ کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دستورِ مدینہ بنایا اور نافذ کیا، جو اسلامی حکومت کی تاریخ میں پہلا سول دستور تھا۔ غنوشی کے خیال میں دستورِ مدینہ کثیرقومی ریاست کا سیاسی و انتظامی ماڈل تھا، جس میں سوسائٹی کے مختلف عناصر شہری انتظامی مصلحتوں کی بنیاد پر حکومت بناتے ہیں، نہ کہ دین یا عقیدے کی بنیاد پر۔  

پروفیسر مارچ کا کہنا ہے: برسوں کے سیاسی سفر کے دوران غنوشی،ایک خیالی، مثالی مرحلے سے نکل کر سیاسی واقعیت کے مرحلے میں داخل ہوئے اور ان کی سوچ زیادہ واضح ہو گئی کیونکہ وہ تجربے سے اس نتیجے پر پہنچے کہ سیاست میں مثالیت نہیں چلتی بلکہ مصلحتوں کے درمیان موافقت پیدا کرنی ہوتی ہے اور مسائل کو کم کیا جاتا ہے۔ اس سفر کے دوران غنوشی، اسلامی تحریک اور سیکولر لوگوں کے درمیان تعلقات کے بارے میں اس مرحلے تک پہنچے جس میں سیاسی کش مکش کو دینی نقطۂ نظر سے نہیں دیکھا جاتاہے، جس میں لوگوں کے درمیان دوست اور دشمن، دین دار اور کافر سمجھ کر تفریق نہیں کی جاتی۔ کیونکہ ’مسلم ڈیموکریسی‘ کے دائرے میں جمہوریت کے مخالف کو ’دشمن ‘سمجھا جاتا ہے، چاہے وہ شخص اسلام پسند ہو یا سیکولر، اور ’دوست‘ اس کو سمجھا جاتا ہے جو جمہوریت پر یقین رکھتا ہے، چاہے وہ نظریاتی طور پر کسی بھی بات پر یقین رکھتا ہو ۔دوستوں میں وہ شامل نہیں ہیں جو ڈکٹیٹرشپ یا سیاسی استبداد پر یقین رکھتے ہوں یا غیر ملکی طاقتوں کے بل پر کھڑے ہوں۔  

پروفیسر مارچ کے خیال میں: ’مسلم ڈیموکریسی‘ کی کامیابی کی وجہ یہ ہے کہ وہ استبداد کے خلاف ایک عملی متبادل پیش کرتی ہے جو آزادی، کثرتیت اور انصاف پر قائم ہے۔ اسلامی حکومت کا ایک مثالی ماڈل پیش کرنے کے بجائے ’مسلم ڈیموکریسی ‘ ایک ایسا نظام پیدا کرنا چاہتی ہے، جس میں مختلف نظریات کا آپس میں نبھا ہوسکے۔ پروفیسر مارچ نے لکھا ہے کہ میں نے راشد غنوشی سے زیادہ اس بات پر عمل کرنے والا کسی کو نہیں پایا۔ وہ اپنے ان نظریات کی وجہ سے اب تک دو رمضان جیل میں گزار چکے ہیں۔ ان کا جیل میں رہنا ’مسلم ڈیموکریسی‘ کے لیے ایک حقیقی امتحان ہے اور وہ یہ بھی واضح کرتا ہے کہ عالم اسلام میں جمہوریت کی جڑیں پھیلانا کتنا مشکل ہے۔ 

پروفیسر مارچ نے کہا کہ جمہوریت محض ایک نظام کا نام نہیں بلکہ وہ ایک کلچر ہے جس پر لوگوں کا یقین اور اعتماد ہونا ضروری ہے۔ اگر جمہوریت ، استبداد اور خانہ جنگی میں سے کسی ایک کو چننا ہو، تو ایسی حالت میں ’مسلم ڈیموکریسی‘ ہی بہترین حل ہے، جو مسلم معاشروں میں استحکام اور کثرتیت کی ضامن ہوگی۔ (الجزیرہ، ۲۷مارچ ۲۰۲۵ء) 

 ایک امریکی خاتون مؤرخ پروفیسر آڈری ٹروشکی (Audrey Truschke) کی مغل فرمانروا اورنگزیب عالمگیر کے بارے میں ایک ایسی کتاب جس نے ہندوتوادیوں میں ہلچل مچا دی، تو وہ سب آڈری ٹروشکی کے خلاف یکجا ہوگئے۔ ساورکر کے پرستار اور ’ہندوتوا‘ کے علَم بردار مؤرخ  وکرم سمپت اس میں پیش پیش تھے ۔ اب،جب کہ پھر اورنگزیب کے نام پر [انڈیا میں]سیاست کھیلی جا رہی ہے اور ان مباحث کو تازہ کیے رہتے ہیں۔ مغل فرمانروا اورنگزیب نہ ولی تھے اور نہ صوفی ۔اسی طرح اورنگزیب متعصب یا کٹّر مسلمان بھی نہیں تھے ۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ زیادہ تر مؤرخین نے اورنگزیب کی ذات، صفات اور خدمات کا مطالعہ انھی دو متضاد انتہاؤں سے کیا ہے۔ یا اگر کچھ ہٹ کر کرنا چاہا تو ان دونوں انتہاؤں کے درمیان سے یہ جگہ نکالی کہ اورنگزیب کو نہ قطعی متعصب قرار دیا اور نہ ان کے صوفی ہونے سےکُلّی طور پر انکار کیا ۔ یہ ایک طرح سے اورنگزیب کا دفاع کرنے کی سعی ہے ۔ مگر کیا ان بنیادوں پر اورنگزیب کا درست اور صحیح مطالعہ ممکن ہے؟

آڈری ٹروشکی نے اپنی کتاب Aurangzeb: The Man the and The Myth  (’’اورنگزیب : ایک شخص اور فرضی قصے‘‘، اُردو ترجمہ: اقبال حسین، فہد ہاشمی) میں اورنگزیب کا مطالعہ جدید پیمانے پر پیش کیا ہے ۔مصنّفہ کے مطابق: ’’ماضی کے تئیں ایمان دار رہتے ہوئے ہمیں چاہیے کہ بحیثیت ایک شہزادہ اور بحیثیت ایک بادشاہ، ان کی مکمل تصویر پیش کریں‘‘۔ ایک جگہ وہ لکھتی ہیں کہ میری یہ کوشش رہی ہے کہ اورنگزیب کی زندگی اور دورِ حکومت کا ایک تاریخی خاکہ تیار کیا جائے، اور اس طرح غلط بیانیوں کے انبار تلے دبے اورنگزیب کو بحیثیت ایک بادشاہ اور ایک انسان، بازیابی کو ممکن بنایا جا سکے جن کے بارے میں صدیوں سے ہم نے افواہوں کو من و عن قبول کرنے میں سادگی اور جہالت سے کام لیا ہے‘‘۔

 وہ کون سی غلط بیانیاں ہیں جن کے انبار تلے اورنگزیب دبے ہوئے ہیں؟ اس سوال کا جواب مشکل نہیں ہے ۔ آڈری نے آٹھ ابواب میں ، جو محض ۱۲۸ صفحات پر مشتمل ہیں، اورنگزیب کی ایک انسان، شہزادے اور شہنشاہ کی حیثیت سے وہ تصویر پیش کی ہے، جو ان کی خوبیوں اور خامیوں کو پوری طرح عیاں کردیتی ہے۔ جن کے تعلق سے فرضی قصوں کا ایک ایسا جال بنا گیا ہے کہ لوگ اس میں پھنستے ہی چلے جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں بقول آڈری: ’’ اکیسویں صدی کے جنوبی ایشیا میں اورنگزیب کی شبیہ غلط بیانی اور تردید کے بھنور میں پھنس کر رہ گئی ہے، اور اورنگزیب کی ذات ایک پہیلی بن گئی ہے ‘‘۔

اورنگزیب نے ۴۹ سال تک ۱۵ کروڑ انسانوں پر حکومت کی۔ ان کے دور میں مغلیہ سلطنت کی آبادی پورے یورپ سے زیادہ تھی اور وہ خود اپنے وقت کے امیرترین انسان تھے۔ جب ۱۷۰۷ء میں انھوں نے دنیا سے کوچ کیا تب مغل ہندستان جغرافیائی اور معاشی بنیاد پر دنیا کی سب سے بڑی حکومت بن چکا تھا، مگر اورنگزیب دنیا سے جاتے ہوئے خوش نہیں تھے، انھیں یہ لگ رہا تھا کہ ان کی زندگی ناکام رہی ہے ۔ بستر مرگ سے تحریر کیے گئے اپنے ایک خط میں انھوں نے لکھا ہے: ’’میں ایک اجنبی کی حیثیت سے آیا ہوں، اور ایک اجنبی ہی کی طرح چلا جاؤں گا۔‘‘انھیں یہ احساس تھا کہ ایک بادشاہ کے طور پر وہ اپنی ذمہ داریوں کی پوری طرح ادائیگی نہیں کرسکے۔

ایک خط میں اورنگزیب نے یہ اعتراف کیا ہے:’’ حکمرانی کی ذمہ داریوں اور عوام کی اعلیٰ درجے میں خدمت اور ان کے تحفظ کے مَیں لائق نہیں تھا‘‘۔ دنیا اورنگزیب کو سخت مذہبی فرد سمجھتی ہے، بلکہ اسی چیز کو ان کا سب سے بڑا ’جرم‘ قرار دیتی ہے، لیکن انھوں نے ایک خط میں اپنی دینی کوتاہیوں کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’میں جلد ہی خدا کی عدالت میں ایک گناہ گار کے طور پر سامنا کروں گا‘‘۔ اپنے آخری خط میں دنیا سے کوچ کا اظہار جذباتی انداز میں کرتے ہوئے تین بار ’’خداحافظ، خدا حافظ، خدا حافظ‘‘ لکھا ہے ۔ مذکورہ خطوط سے اورنگزیب کی تصویر، اُس تصویر سے بالکل الگ صورت میں اُبھرتی ہے کہ جو تصویر ہمیں دکھائی جاتی ہے۔

اورنگزیب کو یہ احساسِ محرومی زندگی بھر دامن گیر رہا کہ وہ عوام کی حفاظت نہیں کر سکے، اور حکمرانی کے فرائض ادا نہیں ہو سکے۔ یہ کہ وہ ساری زندگی خدا کو ایسے بھولے رہے کہ مذہبی تعلیمات پر عمل نہیں کرسکے۔ لیکن آج اُن کے سارے ’کرم فرما‘ انھیں کٹّر مذہبی، ظالم بادشاہ، متعصب اور جبراً ہندوؤں کا مذہب تبدیل کرنے والے کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں ۔ آڈری ٹروشکی نے اپنی اس کتاب کے ذریعے ان کی درست تصویر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

یہ کتاب ہمیں بہت سی ایسی باتیں بھی بتاتی ہے، جو انڈیا کی ’ہندوتوا سیاست‘ اور بھگوا تاریخ اور صحافت ہم سے چھپاتی ہے ۔ مثلاً یہ تو بتایا جاتا ہے کہ اورنگزیب نے ’ہولی‘ پر روک لگائی تھی، مگر یہ امرواقعہ چھپایا جاتا ہے کہ اورنگزیب نے ’عیدالفطر‘ اور ’بقرعید‘ پر بھی اسی طرح روک لگائی تھی ۔ آڈری ٹروشکی لکھتی ہیں ’’اورنگزیب نے ’نوروز‘ پر بھاری بھرکم تقریبات کے انعقاد کو محدود کیا، اور مسلمانوں کے بڑے تہواروں عیدالفطر اور عیدالاضحی کے موقعوں پر بڑے پیمانے پر جشن منا نے کے رسم و رواج کو بھی منسوخ کر دیا تھا۔ بالکل اسی طرح انھوں نے ہندوؤں کے تہواروں ’ہولی‘ اور ’دیوالی‘ کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے محرم کے یادگاری جلوس سے متعلق ہنگامہ خیزی پر بھی لگام کسنے کی کوشش کی تھی ۔‘‘یہ احکامات ایک تو اس لیے تھے کہ انھیں رنگ رلیاں کرنے والوں کے بے ہنگم جوش و خروش سے کسی قدر بیزاری تھی، اور دوسرا مقصد عوام کی حفاظت تھی کہ ایسے مواقع پر اکثر پُرتشدد ہنگامے ہو جاتے تھے ۔

آڈری یہ بھی بتاتی ہیں کہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے ان مذہبی تہواروں پر فضول خرچی اور لہوولعب پر گرفت کرنے کے لیے احکامات تو دیے گئے، مگر ان پر کبھی پوری طرح عمل نہیں ہوا، یہاں تک کہ درباری اور شاہی خاندان کے افراد بھی تہوار مناتے رہے ۔ پروپیگنڈا مواد یہ تو بتاتا ہے کہ اورنگزیب نے بہت سارے لوگوں کو جبراً مسلمان بنایا تھا، مگر یہ نہیں بتاتا کہ کچھ لوگوں نے مغلیہ سلسلۂ مراتب میں ترقی کے لیے بھی اسلام قبول کیا تھا اور کچھ لوگوں نے دوسرے محرکات اور ترقی کے حصول کے لیے بھی اسلام قبول کیا تھا ۔

آڈری کے مطابق: تبدیلیٔ مذہب کرنے والے لوگ اورنگزیب کی تنقیدی نظر میں آجاتے تھے، اپنے ایک خط میں ایسے ہی دو لوگوں کی، جنھوں نے اپنے قبولِ اسلام کی فخریہ تشہیر کی تھی، اورنگزیب نے مذمت کی تھی اور انھیں قید کرنے کا حکم دیا تھا ۔ آڈری نے لکھا ہے: ’’ مجموعی طور پر اورنگزیب کے ہندستان میں نسبتاً ہندوؤں کی قلیل تعداد نے اسلام قبول کیا تھا‘‘۔ اسی طرح لکھا ہے کہ یہ بات بھی سامنے نہیں لائی جاتی کہ اورنگزیب اپنی مسلمان رعایا کے تئیں اقدامی کارروائی میں پہل کیا کرتے تھے ۔ انھوں نے شیخ احمد سرہندی نقشبندیؒ (مجدد الف ثانی)کی کچھ تحریروں پر بھی پابندی عائد کر دی تھی، مہدویہ فرقے کے چند درجن افراد قتل کردیئے تھے، اپنی شہزادگی میں شیعہ اور اسماعیلی بوہرہ فرقے پر نگرانی سخت کردی تھی۔ اسماعیلی بوہرہ فرقہ کے لیے یہ حکم دیا کہ وہ اپنی مساجد میں سنّی طریقے سے نماز پڑھیں ۔ لیکن پھر یہی اورنگزیب دوسری طرف ہندو مذہبی برادری کے لیے نرم رو تھے ۔

آڈری ٹروشکی بتاتی ہیں: ’’اورنگزیب کا یہ ماننا تھا کہ اسلامی تعلیمات اور مغلیہ روایات نے انھیں ہندو مندروں، زیارت گاہوں، اور مقدس شخصیتوں کی حفاظت کے لیے پابند کیا تھا‘‘۔ ان پر ہندو مندروں کی مسماری کا الزام لگتا ہے، لیکن مصنّفہ لکھتی ہیں: ’’ اورنگزیب کی سلطنت میں زمین کا پورا خطہ ہندو اور جین مندروں سے مزین تھا ۔ یہ مذہبی ادارے مغل حکومت کی محافظت میں تھے،  اورنگزیب عموماً ان کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے کوشاں رہتے تھے ۔ علیٰ ہذا القیاس، جب کبھی کوئی خاص مندر یا اس سے منسلک لوگ شاہی سلطنت کے مفاد کے خلاف کسی عمل میں شامل ہوتے، تب مغل نقطۂ نظر کے تحت ایسے خیر سگالی عمل کو منسوخ بھی کر دیا جاتا تھا ۔اسی اسکیم پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اورنگزیب نے کچھ مخصوص مندروں کے انہدام کا حکم صادر کیا تھا‘‘ ۔

اس ضمن میں بنارس کے وشوناتھ مندر اور متھرا کے کیشو دیوا مندر کے انہدام کا الزام اورنگزیب پر لگتا ہے، مگر یہ بات سامنے نہیں لائی جاتی کہ یہ مذہبی بنیادوں پر نہیں بلکہ سیاسی اقدامی فیصلے تھے، اور مقصد کچھ لوگوں کو ان کی سیاسی غلطیوں کی سزا دینا تھا ۔ ورنہ اورنگزیب کے دور میں کثیر پیمانے پر مندر بنے، مندروں کو بڑی بڑی جاگیریں دی گئیں اور ان کی حفاظت کی گئی ۔ بنارس کے پنڈتوں کی حفاظت کا فرمان تک جاری کیا گیا ۔ شہنشاہ کے امراء میں ۵۰ فی صد ہندو تھے، جن میں مراٹھے سب سے زیادہ تھے ۔ مگر ایک سچ یہ بھی ہے کہ شیواجی، جو مراٹھا تھے، آخر دم تک ان کے لیے دردِسر بنے رہے۔

اس کتاب میں اورنگزیب اور شیواجی کی ملاقات کا دلچسپ احوال شامل ہے، نیز شیواجی کے تعلق سے دیگر اہم باتیں بھی درج ہیں ۔ یہ کہا جاتا ہے کہ اورنگزیب ’جزیہ‘ لیتے تھے، لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ برہمن پروہتوں، راجپوت اور مراٹھا درباریوں، اور ہندو منصب داروں سے ’جزیہ‘ نہیں لیا جاتا تھا۔ جین، سکھ، اور دیگر غیر مسلم عوام پر جزیہ کی ادائیگی لازم تھی، لیکن ساتھ ہی ساتھ انھیں کچھ مخصوص حقوقِ فراہم کیے گئے تھے اور ان کے تحفظ کو یقینی بنایا گیا تھا۔

 آڈری بتاتی ہیں کہ علما کی ایک بڑی تعداد کو بادشاہ کی مذہبی سنجیدگی پر شبہ تھا۔ انھی علما کو، اور جو مذہب تبدیل کرکے مسلمان بنے تھے، انھیں ’جزیہ‘ کی وصولی میں لگایا گیا تھا۔ اس طرح علما کے حلقے میں اورنگزیب کی ساکھ کچھ بحال ہوئی تھی، مگر بہت سے مسلم امراء اور شاہی خاندان کے افراد، جن میں اورنگزیب کی بہن جہاں آراء بھی شامل تھیں، وہ ’جزیہ‘ وصولی کے ناقص انتظامی فیصلے کا مذاق اڑاتے تھے کہ ’جزیہ‘ وصولی کے بعد بڑا حصہ وصول کرنے والے ہڑپ کرلیتےتھے ، بادشاہ اس کو روکنے میں بے بس تھا ۔

اورنگزیب نے ہندو مذہبی کتابوں کے تراجم پر کوئی روک نہیں لگائی،بلکہ ’رامائن‘ کے فارسی تراجم تحفتاً قبول کیے ۔ اورنگزیب کے دربار میں اخبار بھی تھا، جی ہاں انھیں اپنی حکومت کے ہرکونے کی خبر پڑھ کر سنائی جاتی تھی ۔ اپنے بھائیوں کو قتل کرنے کے واقعات پر آج تک سخت ردعمل ظاہر کیا جاتا ہے، لیکن بقول آڈری: مغلوں میں سیاسی طاقت کے حصول پر خاندان کے تمام مردوں کا دعویٰ ہوتا تھا ۔ اکبر بادشاہ نے قانونی حق داروں کو کم کر کے اسے صرف بیٹوں تک محدود کر دیا تھا، لہٰذا حکومت کے حصول کے لیے اورنگزیب نے اپنے بھائیوں کے ساتھ جو کچھ کیا، وہی کارروائیاں ان کے بھائی بھی موقع پاتے تو اورنگزیب کے ساتھ کرتے ۔

اورنگزیب کے ہاتھوں والد شہنشاہ شاہجہاں کی بے دخلی اور قید کرنا ایک سخت افسوس ناک عمل سمجھا جاتا تھا اور مغل سلطنت کے قاضی القضاۃ (چیف جسٹس)نے اس پر برہمی کا اظہار کیا تھا، جس پہ انھیں ہٹا دیا گیا تھا ۔ اسی طرح بیرون ملک بھی ان کا یہ عمل ناپسندیدہ قرار پایا تھا۔ ’شریف مکہ‘ نے تو اورنگزیب کو ہندستان کا جائز بادشاہ ماننے سے انکار کر دیا تھا ۔ صفوی حکمران شاہ سلیمان نے تو اس کی مذمت کی تھی ۔ دراصل اپنے والد سے برتاؤ کے معاملے میں اورنگزیب کو کبھی چھٹکارا نہیں ملا۔ کہا جاتا ہے کہ اورنگزیب نے موسیقی پر پابندی لگا دی تھی، لیکن سچی بات یہ ہے کہ انھوں نے کچھ مخصوص قسم کی موسیقی پر، وہ بھی صرف اپنے ایوان ہی میںپابندی لگائی تھی ۔ اورنگزیب کے سب سے چھوٹے بیٹے کام بخش کی والدہ اودیپوری ایک مغنیہ تھیں، جو علالت کے دنوں میں اورنگ زیب کے ساتھ رہیں۔

ایک دلچسپ بات آڈری نے یہ لکھی ہے: اورنگزیب نے کئی بار ریاستی مفاد میں اسلامی اصولوں پر سمجھوتہ کیا۔ اسی لیے علمائے دین کی ایک قابلِ ذکر تعداد اور خاص طور پر قاضی القضاۃ سے پورے عہد حکومت میں نہیں نبھی۔ حالانکہ دوسری طرف حقیقت یہ بھی ہے کہ انھوں نے فتاویٰ عالمگیری کو ترتیب دینے کے لیے بہت سے قابل علمائے کرام کو خصوصی وظائف بھی دیئے۔

اورنگزیب کی یہ تصویر، جو آڈری ٹروشکی نے دکھائی ہے، یہ کسی متشدد شہنشاہ کی نہیں ہے، لیکن قوم پرست ہندو نظریے کی رُو سے ظہیرالدین بابر اور اورنگزیب عالم گیر ظالم بادشاہ ہیں۔  سیکولر ذہن کے حامل دانش وروں اور مؤرخوں کی ایک اچھی خاصی تعداد بھی نسل پرست ہندوئوں کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے اورنگزیب کو متشدد مسلمان ہی قرار دیتی ہے ۔

انڈیا کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنی کتاب ڈسکوری آف انڈیا  میں اورنگزیب کو ایک متعصب اور متشدد حد تک کٹّر مذہبی کہا اور مذمت کی ہے ۔ مؤرخ جادو ناتھ سرکار نے بھی متعصب قرار دیا ہے ۔پاکستانی ’ترقی پسند‘ ڈرامہ نگار شاہد ندیم نے تو یہ تک کہہ دیا ہے کہ ’’اورنگزیب نے اپنے بھائی داراشکوہ پر فتح حاصل کرکے تقسیم کے بیج بودیے تھے‘‘۔ آڈری لکھتی ہیں کہ اورنگزیب بحیثیت ایک ’شر‘ اور ’متعصب‘ ہونے کے فرضی قصوں کو بہت ہی کم تاریخی شہادتوں کی موجودگی کے بغیر پھیلایا گیا، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بی جے پی اور دیگر قوم پرست جماعتوں سے سیاسی و نظریاتی طور پر متفق نہ ہونے والے افراد بھی اورنگزیب کو ’شر‘ قرار دیتے اور ’متعصب‘ کہتے ہیں۔ افسوس کہ اپنی وصیت کے مطابق خلد آباد میں کھلے آسمان تلے ایک معمولی سی قبر میں دفنائے گئے۔ اورنگزیب تاریخ کا ایک ایسا زندہ تار بن گئے ہیں، جس میں مسلسل برقی رو دوڑتی رہتی ہے۔ انڈیا کی حالیہ سیاست ان کے نام کو مکمل مٹانے کے درپے ہے۔ اسی لیے دہلی میں ان کے نام کی سڑک کو دوسرا نام دے دیا گیا ہے ۔ لیکن بقول آڈری اس طرح کی باتوں سے اورنگزیب کا نام مٹنے کے بجائے لوگوں کے ذہن پر مزید گہرا نقش ہو گیا ہے اور مسلمانوں کو اورنگزیب کی اولاد کہا جانے لگا ہے۔

 آڈری کے بقول: غالباً اورنگزیب اس بات سے مطمئن ہوتے کہ انھیں فراموش کر دیا گیا ہے، لیکن لوگ ہیں کہ انھیں بھولنے کو تیار نہیں ہیں ۔ قصوروار بی جے پی اور سنگھ پریوار ہے، جو بار بار ان کا نام لیتی رہتی ہے ۔ کتاب شاندار ہے،اور موضوع کی دلچسپی کے سبب اس کا مطالعہ مفید ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کی کتاب کتابیات اقبال  اقبالیاتی دنیا میں غیرمعمولی علمی اضافہ ہے۔ ڈاکٹر ہاشمی نے اپنی زندگی اقبالیات کی تفہیم کے ابلاغ اور فروغ کے لیے وقف کیے رکھی ہے۔ انھوںنے اقبالیات کے متنوع موضوعات پر کئی کتابیں لکھیں، لیکن کتابیات اقبال کو ان کی زندگی بھر کی علمی تحقیق اور جستجو کا ثمر قرار دیا جا سکتا ہے۔ علم کے حصول کے باب میں دو پہلو بہت اہم ہیں: ایک علم کیا ہے؟ اور دوسرا یہ کہ علم کہاں ہے؟ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی کتاب کتابیات اقبال دوسرے سوال کا شافی جواب ہے، جو دنیا کی اکتالیس زبانوں میں چھ ہزار سے زائد کتب، رسائل اور تحقیقی مقالات پر مشتمل ۱۷۳۲ صفحات پر محیط ہے۔

 کتابیات اقبال بلاشبہہ اقبالیاتی ادب کا ایسا ذخیرہ ہے، جو اہل علم اور اقبالیات کے محققین کے لیے اقبالیات کی متنوع جہتوں پر موجود تحقیقی مواد تک رسائی کا مستند ذریعہ ہے۔ کتابیات نگاری کی روایت کا آغاز مسلم دنیا سے ہی ہوا۔ اگر اس تناظر میں ہم کتابیات اقبال کو دیکھیں تو اس کا شجرۂ نسب حاجی خلیفہ کی کشف الظنون اور ابن ندیم کی الفہرست سے ملتا ہے۔ اقبالیات کا کوئی محقق مستقبل میں کتابیات اقبال سے مستغنی نہیں ہو سکے گا۔

کتابیات اقبالکے لیے مواد کہاں کہاں سے لیا گیا؟ خود ڈاکٹر ہاشمی صاحب کے بقول انھوں نے فٹ پاتھ سے لے کر اعلیٰ علمی مراکز تک، جہاں بھی ان کو رسائی میسر ہوئی، کتابیات اقبال کے مواد کے حصول کے لیے تگ و دو کی (ص۱۷)۔ اس دوران انھوں نے کتابیات نگاری کے اس بنیادی اور آفاقی اصول کو ہمیشہ پیش نظر رکھا کہ کتابیات نگار کو اس سے کوئی سرو کار نہیں کہ کون سی کتاب موافقانہ ہے یا مخالفانہ، اپنی نوعیت میں اہم ہے یا غیر اہم۔ انھوںنے کتابیات کے زمرے میں آنے والے ہر مواد کو اپنی کتاب کا حصہ بنایا (ص۲۵)۔

کتابیات اقبالپر اتنا پھیلاہوا کام بلاشبہہ یہ ایک ادارے کے کرنے کا تھا، لیکن ڈاکٹرہاشمی نے فردِواحد ہوتے ہوئے ادارے کی سطح کا یہ کام تنِ تنہا انجام دیا، اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اتنا بڑا منصوبہ بغیر اغلاط کے مکمل کرنا خود ایک بہت بڑا علمی کارنامہ ہے، جسے ڈاکٹر ہاشمی علامہ اقبال ہی کا فیضان قرار دیتے ہیں (ص ۴۰)۔

کتابیات اقبالمیں علامہ اقبال کی سوانح، فکر و فن، فلسفہ، شخصیت اور شاعری کی مختلف جہات سے متعلقہ مواد کو گیارہ زمروں کے تحت شامل کیا گیا ہے:

۱- تصانیفِ اقبال۲-تراجم اقبال۳-کتب ِحوالہ۴-سوانحی کتابیں۵-فکر و فن پر تحقیق و تنقید۶-جامعاتی تحقیق۷-تشریحاتِ اقبال۸-منظوم کتابیں۹-متفرق کتابیں ۱۰-رسائل و جرائد کے اقبال نمبر۱۱-منسوباتِ اقبال/متعلقاتِ اقبال

کتابیات اقبالجیسے بڑے منصوبے میں متعلقہ مواد کے کلی احاطے کا دعویٰ نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ اقبالیاتی ادب ایک روز افزوں شعبہ ہے، جس میں ہر روز کسی نہ کسی تحریر اور تصنیف کا اضافہ ہورہا ہے۔ اسی لیے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے نہ صرف یہ کہ اس میں وہ تمام مواد شامل کیا ہے، جس تک ان کی رسائی ہو سکی بلکہ اس کے ساتھ اس پہلو کو بھی نظرانداز نہیں کیا کہ اس کتاب میں کیا شامل نہیں ہے اور کتاب کے دیباچے میں انھوں نے اس نکتے کی وضاحت کر دی:

  • اقبال نمبروں کے ماسوا، متفرق رسائل و اخبارات یا کتابوں میں شائع ہونے والے متفرق مضامین کے حوالے، زیر نظر کتابیات کی حدود میں نہیں آتے۔(ص ۲۶)
  • بعض کتابوں کے عنوان (Title)میں اقبال کا نام آتا ہے،مگر ان کا موضوع اقبالیات نہیں، کچھ اور ہے۔ ان میں اقبال کا ذکر ضمناً آیا ہے۔ ایسی کتابوں کے حوالے کتابیات کے  دس ابواب میں شامل نہیں کیے گئے۔ تاہم، محض اس خیال سے کہ اقبالیاتی عنوان کی کتابوں کا حوالہ کتابیات میں نہ پاکر، بعض قارئین اسے کتابیات نگار کی بے خبری قرار دیں گے یا پریشان ہوں گے، ایسی معدودے چند کتابوں کی فہرست ضمیمہ نمبر ایک(اول) ’منسوباتِ اقبال‘ کے تحت دی گئی ہے۔کچھ کتابیں ایسی ہیں،جو علامہ اقبال کے خاص موضوعات (خودی، عشق، فقر، اجتہاد وغیرہ) یا اقبالیاتی شخصیات سے بحث کرتی ہیں،ان کا اندراج ’متعلقاتِ اقبال‘ کے تحت کیا گیا ہے۔(ص ۲۸)
  • کتابوں پر سالِ اشاعت کے ساتھ تاریخ و ماہ اشاعت کا اندراج نہیں کیا گیا، مگر رسائل کے اندراج میں ماہ و سالِ اشاعت (اور بعض صورتوں میں تاریخ بھی) بالالتزام درج کیے گئے ہیں۔
  • حوالوں اور اندراجات کو مقدور بھر مکمل کرنے کی کوشش کی گئی ہے، تاہم بعض اندراجات سوفی صد مکمل نہیں ہوسکے۔ نامکمل حوالوں کو کتابیات سے خارج کردینے کے مقابلے میں، یہ زیادہ مناسب سمجھا گیا کہ کوئی حوالہ جس قدر بھی دستیاب ہو، اسے درج کردیا جائے تاکہ آئندہ اس کی تکمیل کے لیے بنیاد فراہم ہوجائے۔
  • بیش تر کتابوں اور رسالوں کے کتابیاتی کوائف، براہِ راست اور ذاتی ملاحظے کے ذریعے جمع و مرتب کیے گئے ہیں۔ جو کتابیں یا رسالے راقم کو دستیاب نہ ہوسکے اور ان کا حوالہ بالواسطہ دستیاب ہوا، ان کے اندراجات کے ساتھ، حصول معلومات کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔
  • متعدد اقبالیاتی کتابوں اور رسالوں خصوصاً جامعات کے [بعض]تحقیقی مقالات تک رسائی نہیں ہوسکی، اس لیے اگر کسی اقبالیاتی کتاب کا حوالہ، اس کتابیات میں نظر نہ آئے تو سمجھ لیجیے کہ اس میںکتا بیات نگار کی کوتاہی سے زیادہ حالات کے جبر کو دخل ہے۔

محققین کے لیے کتابیات اقبال  نہ صرف اقبالیاتی مواد تک رسائی کا مستند ذریعہ ہے، بلکہ ان کی تربیت کا سامان بھی رکھتی ہے۔ تاحال اُردو کی دنیا میں کتابیات نگاری میں یکسانیت کا حامل کوئی معیاری اسلوب متعارف نہیں کروایا جا سکا۔ یہی وجہ ہے کہ کتابیات اقبال میں شامل کتب، رسائل اور تحقیقی مقالات کے جائزے سے یہ پہلو سامنے آتا ہے کہ اردو میں شائع ہونے والی تحقیقی کتب میں حوالے کے طریق، ناشر، مصنف، مضمون نگار، سالِ اشاعت اور کسی بھی کتاب کو اقبالیات کے زمرے میں شامل کرنے یا نہ شامل کرنے کے حوالے سے کئی سہو اور تسامحات نظر آتے ہیں۔ ان تسامحات کا ازالہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے، جب اُردو تحقیق میں کتابیات نگاری کا یکسانیت کا حامل ایسا اسلوب اختیار کر لیا جائے، جو نہ صرف اردو میں تحقیق و تصنیف کرنے والے تمام شعبہ جات کے محققین کی ضروریات اور علمی تقاضوں کو پورا کرتا ہو بلکہ وہ کتابیات نگاری کے بین الاقوامی طے شدہ معیارات سے بھی ہم آہنگ ہو۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ڈاکٹر صاحب نے اقبالیات پر شائع ہونے والی کتب میں کتابیات نگار ی اور حوالہ جات سے متعلق اس طرح کے تسامحات کی نہ صرف نشاندہی کی ہے بلکہ ان کا حل اور بہتر متبادل بھی پیش کیے ہیں ۔

کتابیات اقبالکے جملہ تحقیقی اور فنی محاسن اور امتیازات کے باعث اقبالیات کا کوئی محقق اب اس سے مستغنی نہیں ہوسکتا۔ یہ کتاب نہ صرف اقبالیات پر موجود دنیا کی اکتالیس زبانوں میں لکھی گئی، کتب اور تحریروں تک رسائی کا ذریعہ ہے بلکہ اردو دان طبقے کے لیے دنیا کی ان زبانوں میں ہونے والے اقبالیاتی تحقیقی کام کا تعارف بھی ممکن ہو گیا ہے۔ جیسا کہ خود ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے کہ زیر نظر کتابیات کی تیاری میں راقم کا خاصا وقت صرف ہوا ہے۔ اس کا محرک علامہ اقبال سے وابستگی و دل بستگی ہے، اور ایک طرح کی علمی لگن کا جذبہ بھی....  میں اسے علامہ کا فیضان سمجھتا ہوں کہ اقبال پر ایک ایسی جامع کتابیات تیار ہوگئی کہ اردو کے کسی اور ادیب یا شاعر کے بارے میں ایسی جامع اور تفصیلی و توضیحی کتابیات اردو توکیا، غالباًانگریزی میں بھی نہیں ملتی۔ اُمید ہے کہ تحقیقِ اقبالیات کے مختلف منصوبوں اور کاموں میں یہ کتابیات معاون و رہنما ثابت ہوگی۔(ص۴۰)

کتابیات اقبال سے اقبالیات کے میدان میں تکرار کا دروازہ بھی بند ہو جائے گا کیونکہ اکثر ایک ہی موضوع پر کئی مصنّفین، تحقیقی ادارے اور جامعات تحقیق کروا رہے ہوتے ہیں۔ کتابیات اقبال  اس مکرر مشقت کو ختم کر دے گی اور پہلے سے مختلف موضوعات پر ہونے والی تحقیق کی روشنی میں محققین کے لیے ممکن ہو گا کہ وہ اقبالیات پر تحقیق کے نئے گوشوں سے تعارف حاصل کریں۔ ۱۹۷۷ء سے اب تک ڈاکٹر صاحب کی اس کتاب پر مسلسل محنت بتاتی ہے کہ کتابیات اقبالان کی نصف صدی سے زیادہ اقبالیات کے ساتھ وابستگی، شغف اور تحقیق و جستجو کا نتیجہ ہے۔ ۱۹۸۸ء میں اقبال اکادمی کی طرف سے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کو سونپا جانے والا یہ تحقیقی منصوبہ اقبال اکادمی ہی سے شائع کیا جانا تھا لیکن کچھ اسباب کے باعث کتاب اقبال اکادمی پاکستان سے شائع نہ ہو سکی، اور ’ـنور دیدہ اش روشن کند چشم زلیخا را‘ کے مصداق کتابیات اقبالکی ’اشاعت اقبال بین الاقوامی ادارہ برائے تحقیق و مکالمہ‘ (IRD)، اسلام آباد سے عمل میں آئی۔

بیرم بلچی نے اپنی کتاب Islam in Central Asia and The Caucasus Since the Fall of the Soviat Union [اشتراکی روس کے زوال کے بعد وسطی ایشیا اور قفقاز میں اسلام] میں اس خطے میں اسلامی تہذیب کے احیا کے امکانات کی نسبت سے مطالعہ پیش کیا ہے۔ گذشتہ ۳۰ برسوں کے دوران رُونما ہونے والی تبدیلیاں، جو ان ممالک کی آزادی کے بعد سامنے آئیں، ان کا ایک جائزہ پیش کیا ہے۔اشتراکی روس کے انہدام کے بعد روسی فیڈریشن اور نوآزاد مسلم ریاستیں اس بات پر گہری نظر رکھے ہوئے تھیں کہ دیگر مسلم ممالک مثلاً ایران، ترکی اور مصر وغیرہ کی نظریاتی تحریکیں کس طرح اس خطے پر اثرانداز ہوسکتی ہیں؟ پہلے عشرے میں ان کے رجحانات اور تجربات میں ایک تدریجی ارتقا پایا گیا۔ یہ ممالک پہلے تو اپنی کھوئی ہوئی پہچان حاصل کرنے کے لیے محتاط انداز سے آگے بڑھے، اور اسلامی احیائی قوتوں سے مزاحمت پر منتج ہوئے (ص ۱۸۸،۱۸۹)۔ ان مسلم ممالک کے حکمرانوں کے نزدیک مسلم شناخت ایک محدود زاویہ رکھتی ہے، ان کا یہ غلط مفروضہ ایک وہم کے سوا کچھ نہیں ہے (ص۲)۔

اپنی آزادی کے آغاز ہی سے وسطی ایشیا کی حکمران مسلم قیادت نے ایک جزئی اور محدود قسم کے رویے کو فروغ دیا، جو ان کی مفاداتی ترجیحات سے ہم آہنگ تھا۔ ازبکستان نے معاشرے کی تنظیم میں دینی رجحانات کو اپنی گرفت میں رکھا (ص ۱۸۸،۱۸۹)۔ یہ منہج صر ف ازبکستان تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ دیگر مسلم ریاستوں میں بھی کم وبیش ایسے ہی معاملات اور رویوں کو برتا گیا (ص۱۱۵)۔ ازبکستان تو ایک واضح مثال ہے کہ کیسے وہاں اشتراکی روس ہی کے تربیت یافتہ افراد کی موجودگی میں، کس طرح مذہبی اُمور سے نبٹنے کے لیے صف بندی کی گئی، جس سے ایک نیا قومی تشخص وجود میں آیا (ص ۱۱۴، ۱۱۵)۔

وسطی ایشیا کی سیاسی قیادت کی شروع سے یہ کوشش رہی کہ کس طرح اپنے عوام کو دینی رجحانات کے اثرات سے دُور رکھا جائے۔ عام طور پر اس حوالے سے ترکی کو مصطفیٰ کمال ماڈل کی نسبت سے دیکھا گیا، کہ ترکی نے اسلامی اثرات کو کھرچنے اور روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے تھے اور کس طرح اسلامی پیش قدمی کے سامنے مزاحمتیں کھڑی کی تھیں (ص۵۱)۔ یہ کتاب ان ریاستوں میں اجتماعی دینی میراث کو اَزسرنو مرتب کرنے کی منظم کاوشوں کو سامنے لاتی ہے، جس کے تحت خاص طور پر دین کے محدود مطالعے کے ساتھ، دین کی ایک بانجھ اور بے فیض تعبیر کو فروغ دیا گیا اور اس کی بنیاد خوف، ہیجان اور بسااوقات خیالی روایات پر رکھی گئی۔ ایسے قوانین اور ضابطوں کو بروئے کار لایا گیا، جو مذہب اسلام کے فروغ کے آگے بند باندھ سکیں (ص ۱۲۹)۔

ہرچند کہ ایران اپنے شمالی پڑوسیوں میں خاص دل چسپی رکھتا تھا، لیکن ایران کے حوالے سے ایک عمومی سلبی تاثر کی وجہ سے ایران کو ان ممالک میں نفوذ کے ضمن میں کوئی قابلِ ذکر کامیابی نہ مل سکی۔ جن لوگوں کے فکروخیال اور شخصیتوں کی آبیاری اشتراکی روس کےدورمیں ہوئی تھی، وہ آج تک بیرونی اثرات کو شک کی نگاہ سے دیکھتے آئے ہیں اور ان کے لیے اب بھی سیکولرزم، الحاد یا لادینیت ہی سب سے پسندیدہ نظریہ ہے، جس کی ڈھال کے پیچھے وہ خود کو محفوظ سمجھتے ہیں (ص۹۱)۔

کتاب کے مصنف نے عربوں کے حوالے سے عموماً اورسعودی عرب کے حوالے سے خصوصاً ایک تاریخی تجزیہ پیش کیا ہے، جس سے اس کا مقصد ’سلفی اثرات‘ کے فروغ کے بارے میں بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ ہے اور لکھا ہے کہ ازبکستان میں سعودی اثرات کے حوالے سے کافی منفی رویے پائے جاتے ہیں، کیونکہ وہ سعودی عرب کی دینی روایات کو ’رجعت پسندی‘ اور قبائلی معاشرے کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان وسطی ایشیائی مسلم ممالک نے حج کے سفرپر پابندی لگارکھی ہے۔ اس کا مقصد اپنے عوام کے آزاد انہ سفر پر پابندی ہے، تاکہ ان کے شہریوں کی آزادانہ آمدورفت کے نتیجے میں دینی و تحریکی خیالات اور نظریات کے آنے اور ان کو پھیلنے سے روکا جاسکے۔ یوں مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ سے نسبت رکھنے والے تمام نظریات اور دینی رجحانات کے فروغ کو ناممکن بنایا جاسکے (ص ۱۰۷)۔

 ان وسطی ایشیائی مسلم حکمرانوں کو یہ بھی خوف لاحق رہا ہے کہ ’’حاجی مکہ سے اسلام کی نشاتِ ثانیہ کے احساسات سے سرشار ہوکر لوٹیں گے، اور یہی فکر اپنے دیگر ہم وطن لوگوں میں بھی منتقل کردیں گے، جس سے وسطی ایشیا میں پائی جانے والی ازبک اکائی بتدریج منتشر ہوجائے گی اور بالآخر ازبک حکام اس مزاحمتی سوچ کے سامنے بے اثر ہوجائیں گے‘‘ (ص ۱۴۰)۔

اس طرح وسطی ایشیا کی ریاستیں ’اسلامی شدت پسندی‘ کا خطرہ کھڑا کرکے دینی رویوں کے فروغ کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا چاہتی ہیں۔ ان کے زیادہ تر ادارے نہ صرف شدت پسندی کی بھرپور مذمت کرتے ہیں بلکہ اس کے مقابلے میں ایک غیرسیاسی اور معتدل مذہبی تعبیر کو ترجیح دیتے ہیں۔

یہ کتاب وسطی ایشیا اور قفقاز کے خطے میں، ۱۹۹۱ء میں آزادی کے بعد سے دینی رویوں اور رجحانات میں ہونے والی تبدیلیوں کے مطالعے کے لیے ایک مفید ماخذ ہے۔ مصنف نے اپنے مشاہدات،علمی حقائق اور تجزیات بیان کیے ہیں، جن سے وسطی ایشیا کی قیادت کے اقدامات اور اپنے خطے کی دیگر قوتوں سے تعلقات کے بارے میں ان کی سوچ اور ترجیحات سمجھنے میں خاصی مدد ملتی ہے۔یہ کتاب ہرسٹ اینڈ کمپنی لندن نے شائع کی ہے، جو ۲۴۸ صفحات پر مشتمل ہے۔ (مسلم ورلڈ بک ریویو، جلد۴۲،شمارہ۱، ص ۴۴)

زینب الغزالی ۲ جنوری ۱۹۱۷ ء کو قاہرہ کے شمال میں ضلع دقہیلہ کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئیں۔ گھر میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد سرکاری اسکول میں سیکنڈری اسکول تک تعلیم حاصل کی۔ پھر  الازہر یونی ور سٹی کے معروف اساتذہ سے فیض حاصل کیا۔ زینب الغزالیؒ دور طالب علمی ہی سے خواتین اور طالبات میں پُرجوش اور شعلہ بیان خطیبہ کی حیثیت سے مشہور تھیں۔ان کے لیکچرز اور درس قرآن کے حلقوں میں خواتین کی ایک بڑی تعداد شرکت کرتی تھی اور یہ تعداد ہزاروں تک بھی پہنچ جاتی تھی۔ابن طلون مسجد میں ہر ہفتے ان کے دروس کا اہتمام ہوتا جس میں دُور دراز علاقوں سے خواتین شرکت کرتی تھیں ۔ ۱۹۳۷ء میں انھوں نے خواتین کی ایک تنظیم کی بِنا ڈالی جس کا نام ’السیدات المسلمات‘ تھا ۔اس تنظیم کو بعد میںانھوں نے حسن البنا شہیدؒکے کہنے پر الاخوان المسلمون میں ضم کر دیا۔آپ ایک بے باک داعیہ اور راہ حق کی ایک عظیم مسافراور مجاہدہ تھیں جنھیں مصری آمر جمال ناصر نے ۱۹۶۵ء میں قید کرکے طرح طرح کی اذیتیں دیں ۔

زینب الغزالیؒ نے مصر میں اباحیت پسندوں اور دین بے زار طبقوں کی نیندیں حرام کر دی تھیں اور اسلام کو متبادل کے طور پرپیش کرنے کے لیے پوری قوت صرف کر دی تھی۔ انھوں نے خواتین میں اسلام کے دیے گئے حقوق کی بھر پور وضاحت کی، اور خواتین کے درمیان اسلامی بیداری کا علَم بلند کیا اور ان کے اندر حوصلہ ، جذبۂ ایمان اور عزم و استقلال پیدا کیا ۔ موصوفہ ایک بہترین مصنفہ بھی تھیں۔ ان کی چند اہم کتابوں کے نام یہ ہیں :(۱) ایام حیاتی (۲)نظرات فی کتاب اللہ (۳) غریرۃ المراۃ مشکلات الشباب والفتیات (۴) الی بنتی (۵) تاملات فی الدین و الحیاۃ ۔ ان میں سے کئی کتابوں کا دوسری زبانوں میں ترجمہ بھی ہوچکا ہے۔ ان کے علاوہ السیدات المسلماتایک معروف ہفتہ وار رسالہ تھا ،اس میں بھی وہ مسلسل مضامین لکھتی رہتی تھیں۔ ۳؍اگست ۲۰۰۵ء کو اس عظیم داعیہ و مفسرہ کا انتقال ۸۸ برس کی عمر میں ہوا۔ { FR 645 }

تفسیری خدمات

زینب الغزالی کا قرآن مجید سے گہرا تعلق تھا۔ آپ قرآن مجید کے پیغام کو دوسری خواتین تک پہنچانے میں ہمہ وقت مصروف رہتی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’میں نے ۶۰سال سے زائد کا عرصہ اللہ کی کتاب کو سمجھنے اوراس کو اس کے بندوں تک پہنچانے کے لیے صرف کیا ہے‘‘۔ انھوں نے نظرات فی کتاب اللہ کے عنوان سے تفسیر لکھی۔ اس تفسیر کا پس منظر یہ ہے کہ ایک دن ایک اشاعتی ادارہ کی مالکہ خاتون کی جانب سے پیغام آیا کہ ’’میں کم عمر بچوں و بچیوں کے لیے ۲۸،۲۹اور ۳۰ویں پارے کی ایسی آسان تفسیر لکھوانا چاہتی ہوں، جو ان کی زبان اور معیار کے مطابق ہو‘‘۔ زینب نے جواب دیا کہ ’’میں نے کبھی تفسیر لکھنے کے بارے میں سوچا نہیں ہے‘‘۔ مگر جب اس خاتون نے اصرار کیا تو پہلے انھوں نے استخارہ کیا اور دعا کی ،پھر اللہ کے نام سے کام شروع کیا اور تین پاروں کی تفسیر تیار کر لی ۔جب وہ مسودہ لے کر اس خاتون کی تلاش میں نکلیں تو ان کا کہیں پتہ نہ چلا۔ واپس لوٹتے ہوئے شیخ محمد الملعم کے پاس چلی گئیں اور ان سے دریافت کیا کہ ’’کیا آپ اسے شائع کرسکتے ہیں ؟‘‘ انھوں نے اسے دیکھا اور کہا: ’’ہاں، مگر ایک شرط ہے ،وہ یہ کہ آپ پورے قرآن کی تفسیر لکھیں ‘‘۔اس کے بعد انھوں نے مکمل تفسیر لکھی۔

تفسیرکے مقدمے میں موصوفہ لکھتی ہیں: ’’میں نے قرآن پڑھا ہی نہیں بلکہ اسے اپنی زندگی بنانے کی کوشش کی کہ جس کتاب سے میں اس قدر محبت کرتی ہوں ، اسے دوسرے لوگوں تک پہنچاؤںتاکہ وہ بھی اس سے محبت کرنے لگیں‘‘ ۔

زینب الغزالی نے تفسیر لکھتے وقت نہایت غور و فکر سے کام لیا ہے ۔ انھوں نے جیل کی کال کوٹھریوں اور تنہائیوں میں اور پھر رہائی کے بعد قرآن مجید کی آیات پر غور و فکر جاری رکھا۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے قدیم و جدید عربی تفاسیر سے بھی بھر پور استفادہ کیا۔ وہ لکھتی ہیں: ’’میں نے قرطبی کی تفسیر ، حافظ ابن کثیر کی تفسیر کو بڑے ذوق و شوق کے ساتھ پڑھا، اور پھر آلوسی، ابوالسعود، قاسمی اور رازی کی تفسیروں کے ساتھ سیّد قطب شہید ؒکی تفسیر فی ظلال القرآن سے بھی استفادہ کیا ہے‘‘۔ انھوں نے احادیث کے ذخیرے کو بھی قرآن مجید کی تشریح و توضیح کا ذریعہ بنایا۔ اس حوالے سے وہ لکھتی ہیں:’’ حدیث، اللہ کی کتاب قرآن کی بہترین تفسیر ہے‘‘۔ اس تفسیر میں جگہ جگہ اقوال صحابہ اور سلف صالحین کے اقوال سے بھی استدلال کیا گیا ہے ۔غرض کہ یہ تفسیر، تفسیر بالماثور کا بہترین نمونہ ہے ۔

انھوں نے تفسیر میں اسلام کو ایک مکمل نظام حیات کے طور پر پیش کیا ہے، اوراللہ تعالیٰ کے احکام کی عصری معنویت کو پیش نظر رکھا ہے ۔ قرآن مجید کے معنی و مطالب اور احکام کو ہمارے موجودہ زمانے کے حالات سے سچی اور مخلصانہ کوشش کے ساتھ مربوط کیا گیا ہے ،تاکہ ان احکام کی رہنمائی میںاور ان مطالب کے دائرے میں ہمارے موجودہ حالات کو سنوارا جاسکے۔ اکثر وبیش تر متجددین ،مغربی مصنّفین اور مستشرقین اپنی کج روی میں یہ کہتے ہیں کہ ’’قرآنی تفاسیر میں ’مردانہ سوچ‘ غالب ہے اور نسائی اپروچ (Feministic Approach)کا فقدان ہے جس کے نتیجے میں خواتین کو سماجی میدانوں میں نظر انداز کیا جاتا ہے‘‘۔ اس طرح مستشرقین ،متجددین اور ’فیمی نزم‘ کے علَم برداروں نے قرآن مجید کی ایسی تعبیر یں پیش کیں، جو ان کی مذموم ذہنی اختراعات اور موشگافیوں پر مبنی ہیں۔ ’فیمی نزم‘ کی علَم بردار خواتین ڈاکٹر فاطمہ مرنیسی ، ڈاکٹر آمنہ ودود ، اسماء برلاس ،  رفعت حسن وغیرہ نے اس اختراع کو عام کرنے کی کوششیں کیں ۔ان ’فیمی نسٹ‘ خواتین کا کہنا ہے کہ عالم اسلام میں خواتین کے حقوق غصب کرنے کے لیے دینی مصادر کی تشریح اپنی اپنی مرضی سے کرکے خواتین کے حقوق اور مقام کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ حالانکہ مسلم عالمات و فاضلات خواتین نے بھی تفاسیر لکھیں توانھوں نے روایتی فکر اور منہج کو ہی آگے بڑھایا ۔انھی میں سے ایک یہ تفسیر زینب الغزالی نے لکھی ہے، جس میں خواتین کی نفسیات و ضروریات ، جزبات و احساسات اور ان کے رجحانات کا بھرپورخیال رکھا گیا اور جہاں جہاں خواتین کے مسائل اور احکامات کے بارے میں ہدایات ہیں، ایک خاتون نے ہی ان کی مدلل تفسیر بیان کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِ بِمَا فَضَّلَ اللہُ بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ۝۰ۭ (النساء۴ :۳۴) مرد عورتوں کے جملہ معاملات کے ذمہ دار اور منتظم ہیں اس لیے اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دے رکھی ہے اور اس لیے کہ وہ اپنے مال خرچ کرتے ہیں ۔

زینب الغزلی لکھتی ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ طے کیا جارہا ہے کہ مرد، عورتوں پر ذمہ دار ہیں اور ان کو خاندان میں قیادت کا حق ہے ۔اس سے گھر میں عورت کے ذمہ دار ہونے اور گھر کی ملکہ ہونے کی نفی نہیں ہوتی ہے۔اسے حق ہے کہ اپنے گھر یلو معاملات میں تصرف کرے، تاکہ خاندان کے مفادات کی حفاظت ہو اور اس کا اتحاد اور یک جہتی قائم ہو ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ مرد بیوی اور اولاد پر خرچ کرنے کا ذمہ دار ہے۔اسی طرح وہ گھریلو امور و معاملات میں اپنی بیوی کے ساتھ شریک ہے ۔ان دونوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ قرآن اور حدیث سے منہج اختیار کریں، کیوں کہ خاندان امت کا پہلا مدرسہ ہے اور بیوی اپنے گھر کے اندر اپنے خاندان کے امور و معاملات کی ذمہ دار ہے ۔شوہر اور اولاد کی سلامتی کے بارے میں اس سے اللہ کے سامنے سوال کیا جائے گا۔یہ سب اسی وقت ہوسکتا ہے کہ جب عورت رضا مندی ،محبت اور اللہ کی اطاعت و فرماں برداری کے ساتھ اپنے اُوپر مرد کے قوام ہونے کو عین انصاف اور اپنے مفاد میں مان لے ،کیوںکہ یہ ذمہ داری مرد کو عورت کے ساتھ انصاف کرنے اور بہترین معاملات کرنے کا مکلف بناتی ہے ہراس چیز میں جس کی عورت کو ضرورت پڑتی ہے ‘‘.... مرد کے’ قوام‘ ہونے کا صحیح فہم عورت کو اپنے شوہر پر بھروسا اور اس پر اطمینان پیدا کرتا ہے، جس کے نتیجے میں ازدواجی زندگی پُرامن اور پایدار بن جاتی ہے ۔اس طرح عورت اپنے گھر کو چلانے اور اپنی اولاد کی تربیت کے لیے فارغ ہوجاتی ہے ‘‘۔

 مفسرہ ہر سورہ کے آغاز میں نہایت عمدہ اور جامع تعارف پیش کرتی ہیں ۔ مثال کے طور پر سورئہ فاتحہ کا مختصر و جامع تعارف کراتے ہوئے لکھتی ہیں کہ: ’’فاتحہ الکتاب ،یہ سب سے پہلی سورہ ہے جو پوری سات آیتوں کے ساتھ یکبارگی نازل ہوئی ہے ۔یہ جامع سورت ہے۔اس کی آیات میں قرآن مجید کے سبھی مقاصد ،عقیدہ اور تشریع کو جامع انداز میں بیان کیا گیا ہے ۔اس کی چھوٹی چھوٹی چندآیتوں میں توحید ،توکل، مشرکین، گمراہوں اور اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل نہ کر کے ان کو معطل کرنے والوں کا کافی و شافی بیان ہے‘‘(ص:۴۱)۔

دارالتوزیع والنشر، قاہرہ نے شائع کیا ہے۔ ڈاکٹر عبد الحمید اطہر ندوی نے اس تفسیر کو اردو جامہ پہنایا۔ یہ ترجمہ بہت ہی آسان زبان میں ہے اور اصل تفسیر کی روح کو اُردو میں منتقل کیا گیا ہے۔ اردو ترجمہ کا مقدمہ ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی صاحب نے لکھا ہے ۔ علاوہ ازیں تقریظ کے طور پر مولانا امین عثمانی مرحوم کی تحریر بھی جلد اول میں شامل ہے۔ یہ دعوتی نوعیت کی ایک بہترین تفسیر ہے اور مرووخواتین کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ المنارپبلشنگ ہاوس ،نئی دہلی نے ۲۰۲۰ء میں اس کو شائع کیا ہے ۔

ساورکر کے عقیدے کے مطابق: ’’ شہریت مذہب کی بنیاد پر دی جائے‘‘۔ اور اسی بنیادپر سی اے اے سے مسلمانوں کو باہر رکھا گیا ہے۔ شہریت کے متنازعہ قانون: سی اے اے، این آر سی اور این پی آر، آر ایس ایس کا وہ ایجنڈا ہے، جسے سنگھ کے بانی کیشو بلی رام ہیڈگیوار نے عملی شکل دی اور اس کے بعد سنگھ کے دیگر بانیان اس ایجنڈے کو نہ صرف سنوارتے رہے بلکہ اسے عملی شکل دینے کے لیے کوشاں بھی رہے۔

آج ’سَنگھ‘ اور بی جے پی کا وہ حکمران ٹولہ جو سی اے اے، این آر سی، این پی آر کو لاگو کرنے کے لیے حرکت میں ہے، وہ دراصل اسی ایجنڈے کو بھارتی شہریوں پر تھونپنے کی ایک کوشش ہے۔ مودی اور امیت شا تو بس آر ایس ایس کے بانیان کا ایجنڈا مسلط کرنے کے لیے تمام تر سرکاری وسائل و ذرائع کا بشمول مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ اور صحافت کا اندھادھند استعمال کر رہے ہیں۔

یہ بانیان کون ہیں؟ بھارت کی آزادی کے لیے ان کا کوئی کردار ہے بھی یا نہیں؟ ان سوالات کے جوابات سینیر صحافی نیلانجن مکھوپادھیائے کی کتاب The RSS: Icons of The Indian Right  [صفحات: ۴۹۹، پبلشرز ٹرنکوبار] میں تفصیل سے دیے ہیں۔مصنف نے جو کچھ لکھا ہے، اسے مضبوط شہادتوں اور مسکت دلائل سے ثابت بھی کیا ہے۔ کتاب میں ہیڈگیوار کے علاوہ آرایس ایس کے جن بانیان اور لیڈروں کا تذکرہ شامل ہے، وہ وی ڈی ساورکر، ایم ایس گولوالکر، شیاما پرساد مکھرجی، دین دیال اپادھیائے، بالا صاحب دیورس، وجئے راجے سندھیا، اٹل بہاری واجپائی، ایل کے اڈوانی، اشوک سنگھل اور بال ٹھاکرے ہیں۔

آر ایس ایس کے بانیان کی اس فہرست میں آخرالذکر نام دیکھ کر ابتدا میں کچھ حیرت ہوئی تھی، کیونکہ ٹھاکر ے نہ کبھی آر ایس ایس کے رکن رہے اور نہ عہدے دار۔ مگر اس فہرست میں ان کا نام اس لیے درست ہے کہ اپنی حمایت سے سنگھی نظریات کو انھوں نے زبردست تقویت دی۔

بات سی اے اے، این آر سی اور این پی آر سے شروع ہوئی تھی، لہٰذا اسی بات کا اعادہ کرتے ہیں ۔کیشوبلی رام ہیڈگیوار کے باب میں مصنف نے پہلے سرسنگھ چالک کی اس بات پر کہ تمام ہندستانی بلالحاظ مذہب ’ہندو‘ ہی ہیں، زور دیتے ہوئے اسے ’ گھرواپسی‘ تحریک کی بنیاد قرار دیا ہے۔ یہ تحریک لوگوں کو ’ہندو دھرم‘ میں داخل کراتی ہے، اور جو داخل نہ ہو، وہ ’غیر‘ کہلاتا ہے۔ ہیڈگیوار کا یہی فلسفہ تقسیم ہند کے بعد ’ملکی‘ اور ’غیرملکی‘ میں بدل دیا گیا۔ ونایک دامودر ساورکر کے باب میں اس پر تفصیل سے بات کی گئی ہے: ’’ساورکر کا یہ عقیدہ تھا کہ نظریاتی طور پر، قومیت اور شہریت کو صرف شہری ہونے کی نہیں بلکہ اس کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر طے کیا جاسکتا ہے‘‘۔ اور اسی بنیادپر سی اے اے سے مسلمانوںکو باہر رکھا گیا ہے۔

آر ایس ایس کے دوسرے سر سنگھ چالک مادھو سداشیو گولوالکر کے باب میں اس پر مزید بحث کی گئی ہے۔ جس کے مطابق تقسیم ہند کے بعد جو مسلمان بھارت میں رہ گئے تھے، گولوالکر انھیں ’بچے کھچے‘ کہتے اوراس بات پر زور دیتے تھے کہ ہندوپاک کے درمیان ہندوؤں اور مسلمانوں کے تبادلے کا منصوبہ بنایا جائے تاکہ جو ’بچے کھچے‘ مسلمان ہیں، انھیں بھارت سے نکالا جاسکے۔  سنگھی نظریہ ساز شیاما پرشاد مکھرجی کے باب میں بھارتیہ جن سنگھ کے جنرل سیکرٹری آشوتوش لہری کو ان کی طرف سے دی گئی اس ہدایت کا ذکر ہے: ’’اب ان مسلمانوں کو جو ’ہندو استھان‘ میں رہتے ہیں ہم یہاں سے نکال باہر کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ اگر وہ رہے تو غداری، تخریب کاری اور وطن دشمنی کریں گے‘‘۔

دین دیال اپادھیائے چوٹی کے سنگھی قائد نے بھی ’’بلاتفریق مذہب سب ہندو ہیں‘‘پر زور دے کر ’’ان پر جو خود کو ’ہندو‘ نہیں کہتے، ہندستان کے دروازے بند‘‘ کرنے کی پوری کوشش کی تھی۔

کتاب میں آر ایس ایس کے تیسرے سر سنگھ چالک بالاصاحب دیورس پر سب سے طویل اور ایک ہوش ربا باب ہے، جس میں دیورس کے بقول: ’’مہاجر اور گھس بیٹھئے برابر نہیں ہوسکتے، ہندوجو بنگلہ دیش سے آتے ہیں وہ الگ ہیں کیونکہ وہ مہاجر ہیں، جو اپنے گھر سے اسلامی حکومت کے ہاتھوں ستائے جانے کی وجہ سے بھاگے، اس لیے آسام کے ہندوؤں کو چاہیے کہ وہ ان کا خیرمقدم کریں۔ لیکن بنگلہ دیشی مسلمانوں کا بالکل نہیں کیونکہ ان کی آمد سے آبادی کا توازن بگڑ جائے گا‘‘۔ یہی وہ ’دلیل‘ ہے، جو آج مودی اور امیت شا کی جوڑی سی اے اے کے حق میں دےرہی ہے۔

نیلانجن لکھتے ہیں کہ بال ٹھاکرے نے تو باقاعدہ ’بھیونڈی کو مِنی پاکستان‘ کانام دے دیا تھا۔ بعد میں وہ بنگلہ دیشیوں کی بات بھی کرنے لگے تھے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ مہاراشٹر میں کانگریس اور این سی پی جیسی سیکولر پارٹیوں کی مدد سے وزیراعلیٰ بننے والے شیوسینا پرمکھ ادھو ٹھاکرے سی اے اے کےحامی ہیں اور ان کے چچا زاد بھائی راج ٹھاکرے، مہاراشٹر نونرمان سینا کے سربراہ تو خم ٹھونک کر پاکستانیوں اور بنگلہ دیشیوں کو بھگانے کے لیے میدان میں آچکے ہیں۔ یہ دراصل ملک کو ’ہندوراشٹر‘ میں تبدیل کرنے کی تحریک ہے۔ نیلانجن نے کتاب میں سنگھ اور جرمنی کے نازی، اٹلی کے فاشسٹ اوردیگر ’قوم پرست جماعتوں‘ کے درمیان روابط کو غیرجانب داری کے ساتھ اُجاگر کیا ہے۔

زیرتبصرہ کتاب کے مطابق ہیڈگیوار کے دست راست ڈاکٹر مونجے کی ڈائری میں اس تعلق سے بہت ساری باتیں تحریر ہیں۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں: ’’ہندوؤں کومنظم کرنے کی کوشش اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی، جب تک کہ ماضی کے شیواجی یا مسولینی یا ہٹلر جیسا ہمارا ہندو ڈکٹیٹر نہ ہو‘‘۔ برطانیہ کے محکمۂ خفیہ کی رپورٹ کابھی مصنف نے حوالہ دیا ہے کہ ’’سنگھ کو یہ یقین ہے کہ مستقبل کے ہندستان میں یہ وہی بن جائیں گے جو ’فاشسٹ‘ اٹلی میں اور ’نازی‘ جرمنی میں ہیں‘‘۔

نیلانجن نے کتاب کے ابتدائیے میں تحریر کیا ہے:’’اس کتاب میں، مَیں نے ’’آر ایس ایس کے بانیان کے نظریے ہی نہیں ان کے باطن کو ٹٹولنے کی بھی کوشش کی ہے‘‘ اور وہ اس میں یقینا کامیاب ہیں۔ چاہے ساورکر کی شخصیت کا ظاہروباطن ہو یا ٹھاکرے اور دیورس اور واجپائی کی شخصیت کا، نیلانجن بغیر کسی جانب داری کے سب واضح کردیتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ ’’دیورس ایک طرح سے ’غیرمذہبی‘ تھے۔ لیکن آر ایس ایس کا سر سنگھ چالک بننے کے بعدانھوں نے ’پوجاپاٹ‘ شروع کردی تھی۔ واجپائی نے بی جے پی کے قیام کے بعد کچھ عرصے کے لیے بطور حکمت عملی گاندھی جی کی فکر کواپنایا، مگر پھر دین دیال اپادھیائے کے سنگھی فلسفے پر واپس آگئے‘‘۔

مصنف نے گیارہ کی گیارہ شخصیات کی ’مفاد پرستی‘ اور ’خودغرضی‘ کو اُجاگر کیا ہے۔ ہیڈگیوار کم عمری میں انگریز مخالف تھے، مگر حیرت انگیز بات ہے کہ آرایس ایس کے قیام کے بعد آزادی کی تحریک سے مسلسل غائب رہے۔ساورکر نے انگریزوں سے معافی مانگی تاکہ سیاسی زندگی کو آگے بڑھاسکیں۔ ٹھاکرے نے علاقائیت کے نام پر اپنی دکان چمکائی، واجپائی مکھوٹا بنے رہے، اور اسی کے نتیجے میں ملک کے وزیراعظم بنے۔

نیلانجن کی یہ کتاب آرایس ایس کے گیارہ بانیان کے ظاہروباطن کو عیاں کرنے کے ساتھ آر ایس ایس کے قیام کی تاریخ کو بھی سامنے لاتی ہے اور آر ایس ایس اور کانگریس کے ’پیچیدہ‘ مگر حیران کردینے والے رشتے اور رابطے بھی ظاہر کرتی ہے۔ یہ رشتہ، محبت اور نفرت کا رہا ہے۔ پنڈت نہرو اور گاندھی جی آر ایس ایس کے سخت مخالف تھے۔مگر سردار پٹیل کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں ایسےبھی کانگریسی تھے، جو آر ایس ایس اور کانگریس کے ’رشتے‘ کو مضبوط کرنے کے منصوبے بنارہے تھے۔ یہ کتاب ملک کی آزادی کی تاریخ میں آر ایس ایس اور ہندو ’توادیوں‘ کے منفی کردار کو بھی اُجاگر کرتی ہے۔ اور ۱۹۴۷ء سے پہلے اور بعد میں نفرت کی تاریخ پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔

یہ کتاب گاندھی جی کے قتل اور اس میں آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا کے کردار کی تفصیلات پیش کرتی ہے اور مسئلہ کشمیر، بالخصوص آرٹیکل ۳۷۰ کابھی ذکر کرتی ہے جس کی مخالفت شیاماپرساد مکھرجی نے کی تھی اور کشمیر کی جیل میں ’مُردہ‘ پائے گئے تھے۔ یہ ایک دل چسپ، معلوماتی اور عبرت ناک کتاب ہے جو کمال درجے غیرجانب داری سے لکھی گئی ہے۔ اسے بھارت میں انگریزی کے ایک بڑے اشاعتی ادارے Tranquebar نے اہتمام سے شائع کیا ہے۔

کشمیر کی تاریخ اور اس سے وابستہ تاریخی المیے پر بہت سی کتب شائع ہوئی ہیں، لیکن بعض کتب اپنی معلومات کی وسعت اور اسلوب کی شُستگی کے باعث پُراثر علمی شان رکھتی ہیں۔ اسی نوعیت کی ایک کتاب Kashmir: A Walk Through History ہے، جس کے مصنف خالدبشیر احمد کا تعلق وادیِ کشمیر سے ہے۔ موصوف تحقیق و تصنیف کے ساتھ اعلیٰ ادبی ذوق رکھتے ہیں۔ آپ کشمیر ایڈمنسٹریٹو سروسز کے ممبر بھی رہ چکے ہیں۔ اس سے پہلے تاریخِ کشمیر پر ایک کتاب Kashmir: Exposing the Myth Behind the Narrative لکھ چکے ہیں۔

زیرتعارف کتاب میں انھوں نے کشمیر کی تاریخ کے چند بنیادی واقعات کو تحقیق کے بعد قلم بند کیا ہے۔ غیر ریاستی اور غیرمسلم مؤرخین کے حوالے سے کشمیر پر تاریخی حقائق پیش کیے ہیں۔ خاص طور پر ڈوگروں کے مظالم اور نیشنل کانفرنس کے قائدین کی دغابازیوں کو بھی بیان کیا گیا ہے۔

پہلا باب ہے ’لاپتا مسجد‘ (The Missing Mosque)۔ سری نگر شہر کی ’تخت سلیمانی‘ نامی پہاڑی جس کو آج ’شنکر اچاریہ‘ پہاڑی کے نام سے جانا جاتا ہے، اس پر ایک مسجد کے وجود کو تاریخی حوالوں اور دستاویزات سے ثابت کیا ہے۔ ڈوگرہ دور میں مسجد کے وجود کو ختم کرنے اور اس جگہ کو بھگوان شیو کے لیے وقف کرنےجیسی مذموم حرکت پر تحقیقی ثبوت دیے ہیں۔

دوسرا باب ہے ’یاترا کی تاریخ‘ (History of Pilgrimage) بتایا گیا ہے کہ امرناتھ یاترا کو سیاسی مقاصد کے لیے کس طرح استعمال کیا جاتا ہے؟ امرناتھ گپھا، سری نگر سے ۱۴۵کلومیٹر کی دُوری پر واقع ہے۔ اس گپھا میں پانی کے قطرے ٹپکنے سے برف کا ٹکڑا جم جاتا ہے، جس کو ہندو لوگ’شیولنگم‘ کہتے ہیں۔اس یاترا کو اب مذہبی کے بجائے سیاسی رنگ دے کر زیادہ سے زیادہ یاتریوں کو اس گپھا کے درشن کرائےجاتے ہیں۔ پہلے چندسو افراد پندرہ دنوں کے لیے یاترا پر آتے تھے۔ اب اس یاترا کی مدت دو ماہ تک پہنچا دی گئی ہے۔ پہلے چند ہزار یاتری جاتے تھے اور اب یاتریوں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے۔ یہ یاتری دریاے سندھ کے منبعے کو لاہی اور تھجو اسن گلیشیرز کے درمیان واقع امرناتھ گپھا کے درشن کرتے ہیں اور آبی وسائل کے ساتھ ساتھ جنگلات کی تباہی کا سبب بن رہے ہیں اورپانی آلودہ ہورہا ہے۔ اس یاترا کو سیاسی رنگ کے باوجود کشمیری مسلمانوں نے ان شردھالوؤں کی میزبانی کا بہترین حق ادا کیا ہے۔

تیسرے باب ’جموں میں قتل عام‘ (Jammu Massacres) میں ۱۹۴۷ء کے دل دوز واقعات کا ذکر ہے، جس میں شیخ عبداللہ کی قیادت میں کانگریس نوازنیشنل کانفرنس کی قیادت کی دغابازیوں کی خوب خبر لی ہے۔ تقسیم ہند کے ڈیڑھ ماہ بعد جموں شہر کے مسلمانوں کو یہ کہہ کر گاڑیوں میں لادا گیا کہ آپ کو پاکستان بھیج دیا جائے گا۔ لیکن ان معصوم اور نہتے مسلمانوں کو راستے میں ہی گولیوں، تلواروں اور برچھیوں سے تہ تیغ کرکے ان کی لاشوں کو دریا بُرد کرنے کے علاوہ نذرِ آتش بھی کر دیا گیا۔ مصنف نے مثال کے طور پر ایک واقعے کا ذکر کیا ہے: [ترجمہ] جموں کے شہر ادھم پور میں ۲۵؍اکتوبر ۱۹۴۷ء عید کے دن مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔ سیکڑوں افرادپریڈ گراؤنڈ میں جمع تھے اور اُن کو دو چیزوں میں سے ایک کا انتخاب کرنے کو کہا گیا: ’’موت یا ہندو مذہب قبول کرنا‘‘۔ پھر ہلّہ بول کر بہت سے نہتے مسلمانوں کو قتل کر دیا گیا۔ اس قتل عام میں سے چند زندہ بچ جانے والوں میں وزیرہ بیگم کا کہنا تھا: بچوں کے گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو کھانے کے ساتھ ملا کر پکایا گیا اور یہ کھانا ان زندہ بچ جانے والے مسلمانوں کوکھلایا گیا۔ وزیرہ بیگم کا کہنا ہے کہ میں نے کھانے میں بچوں کی انگلیوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے خود اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ اسی طرح سے چودھری عبداللہ خان کی بیٹی رضیہ بیگم کا کو ٹھاکر بلون سنگھ کے ہاتھوں اغوا اور پھر زبردستی شادی رچانے کا دل دوز سانحہ بھی درج ہے۔

چوتھا باب ’خون ریزی کے عینی شاہد‘ (Eye Witnessess to Bloodshed) جموں میں قتل عام کے چشم دید گواہوں میں کرشن دیوسیٹھی، ویدبھیم، پروفیسرعبدالعزیزبٹ، چودھری شبیراحمد سلیری، محمود احمد خان، بلراج پُری، چودھری فتح محمد، خواجہ عبدالرؤف، وزیرہ بیگم، حاجی محمدبشیر، جمال الدین عبدالرشید کنتھ شامل ہیں۔ انھوں نے روح فرسا رُودادیں بیان کی ہیں۔ وزیرہ بیگم نے قتل عام کے بعد جموں میں زندہ بچ جانے والے مسلمانوں کےایک کیمپ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا: [ترجمہ] ’’جب شیخ عبداللہ ، زندہ بچ جانے والے مسلمانوں کے کیمپ میں گئے، تو وہاں موجود مسلمانوں نے اپنے اُوپر مظالم کا تذکرہ کیا۔ جواب میں شیخ عبداللہ نے کہا:’’یہ سب کچھ جموں کے مسلمانوں کے ساتھ ہونا ہی تھا، کیوں کہ انھوں نے مجھے کبھی اپنا لیڈر تسلیم ہی نہیں کیا‘‘۔

پانچویں باب میں ’جناح اور کشمیر‘ (Jinnah and Kashmir) میں قائداعظم کے کشمیر میں مختلف دوروں، خاص طورپر ۱۹۴۴ء کے دورے کا تفصیل سے ذکر ہے۔ مسلم کانفرنس اور نیشنل کانفرنس کے قائداعظم کے لیے الگ الگ جلسے کا تذکرہ ہے۔ بارہ مولا میں مسلم کانفرنس کے منعقدہ جلسے میں تقریر کے دوران نیشنل کانفرنس کے کارکنوں، نے جن کی قیادت مقبول شیروانی کر رہے تھے، قائد اور مسلم کانفرنس کے خلاف نعرے بازی کے واقعے کو بھی صفحۂ قرطاس پہ رقم کیا ہے۔

چھٹے باب میں ’باقاعدہ لکھا ہوا تنازع‘ (A Scripted Controversy) میں اُردو زبان کے خلاف روزِ اوّل سے سازشوں کا احوال لکھا ہے۔ ۱۹۸۲ء میں ایک اسمبلی ممبر مرحوم غلام احمد شنٹو اسمبلی میں اُردو زبان کے حق میں تقریر کے دوران دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے۔ مصنف نے ان کو ’شہیدِ اُردو‘ کے لقب سے یاد کیا ہے۔ واضح رہے کہ جموں و کشمیر سے روزِ اوّل سے اُردو زبان و ادب کو نکال دینے کے لیے سازشیں جاری ہیں۔

ساتویں باب ’ ایک صدی کی یادیں‘ (Recolletions of Century) میں محمدصدیق پرے مرحوم نے اپنی سوسالہ زندگی کے چند واقعات بیان کیے ہیں۔

کشمیر میں سیاسی جدوجہد کے حوالے سے چودھری غلام عباس کی عظیم قربانیاں ہیں۔ ان کے تذکرے کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ عینی گواہان اور مؤرخین کے ساتھ کشمیر کی تاریخی جگہوں کی تصاویر نے بھی کتاب کو زینت بخشی ہے۔ کتاب گلشن بُکس سری نگرکشمیر نے شائع کی ہے۔

یہ ایک معمّا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے مرکزی مسلم خطے سے انتہائی دُور واقع جنوبی ایشیا میں، بنگالی مسلمان کس طرح دنیا بھر میں ’دوسری سب سے بڑی نسلی آبادیـ‘ بن گئے۔ محمودالرحمان نے اپنی کتاب The Political History of Muslim Bengal(کیمبرج، برطانیہ، ۲۰۱۹ء) میں اس موضوع پر مطالعہ پیش کیا ہے۔ محمود الرحمان نے اس سوال کا جواب، سرتھامس واکر آرنلڈ [م:۱۹۳۰ء ] کے ہاں تلاش کیا ہے۔ آرنلڈ نے ۱۸۹۶ء میں تبلیغِ اسلام کے موضوع پر ایک کتاب The Preaching of Islamلکھی تھی، جس میں انھوں نے بتایا: ’’تاہم،یہ بنگال ہی ہے، جہاں ہندستان کے مسلم تبلیغی اداروںنے دعوتی اعتبار سے عظیم ترین کامیابی حاصل کیـ‘‘۔

محمود الرحمان کی یہ کتاب انتہائی باریک بین تحقیق اور بھرپور غوروفکر پر مبنی ہے۔ یہ ان لوگوں کی تاریخ ہے،جو،ملک میں بھاری اکثریت کے حامل ہونے کے باوجود، اپنی تاریخ، میراث اور شناخت کھودینے کے گمبھیر خطرے سے دوچار ہیں۔ انجینیر محمود الرحمان ایک مصنف اور اخبار کے مدیر کی حیثیت سے زیادہ وسیع تعارف رکھتے ہیں۔ انسانی حقوق اور اظہار راے کی آزادی کے علَم بردار کی حیثیت سے ان کا پختہ موقف ہے: ایک صحافی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ پُرآشوب حالات میں بھی سیاسی طور پر فعال رہے۔ سچائی کا پرچم اُٹھانے کی انھوں نے بھاری قیمت ادا کی اور بنگلہ دیش کی حسینہ واجد حکومت کے زمانے میں قید اور اذیت برداشت کی۔قید کے دوران انھوں نے اپنی قوم کو کامیابی اور خوشی کے نغمے میں شریک کرنے کا فیصلہ کیا۔ مصنف کے نزدیک یہ نغمۂ جاں فزا ’اسلام کی سربلندی کے لیے ایک نہ ختم ہونے والی جنگ‘ ہے۔
متعدد جدید اور قدیم حوالہ جات دیتے ہوئے، مصنّف نے یہ بات ثابت کی ہے کہ ملک کے نام،زبان اور آزادانہ شناخت کے سبھی آثار یہاں مسلم دورِ سلاطین ہی میں ملتے ہیں۔ ایک ممتاز ہندو مؤرخ، ڈاکٹر نہار رنجن راے نے اعتراف کیا ہے: ’’بنگال میں ہندو راج کے تمام عہد میں، ــ’بنگلہ‘ کا نام بھی تحقیر کی نظر سے دیکھا جاتا تھا، اور اسے دوسرے، تیسرے درجے کی ادنیٰ زبان سمجھا جاتا تھا‘‘۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ:’’مسلم پٹھان (افغان )راج کے دنوں میں ’بنگلہ‘ کو عزت کا مقام ملا اور یہ احترام اکبر بادشاہ کے دور میں اپنے کمال کو پہنچا، جب تمام بنگال کو صوبہ بنگال کی حیثیت دی گئی‘‘۔ (دیکھیے: رنجن راے، History of Bengal:The Early Period، ۱۹۴۹ء)

جہاں تک بنگلہ زبان اورادب کاتعلق ہے،مصنف نے اظہارِ افسوس کیا ہے: ’’بدقسمتی سے بنگلہ دیشی حکومت نے بنگالی زبان کی ترقی کے لیے بنگال میں مسلمان حکمرانوںکی عظیم خدمات کو زیادہ تر نظرانداز کر دیا ہے‘‘ (ص۱۵)۔ حالاںکہ بنگالی زبان کو تو برہمن حکمران طبقے ہی نے مکمل طور پر نظرانداز کیا تھا۔ ان کے نزدیک سنسکرت قابلِ احترام تھی، جب کہ بنگالی زبان کو وہ ’کسانوں اور ماہی گیروں‘ کی زبان سمجھتے تھے اور اس کا مذاق اُڑاتے ہوئے اس کو ’پکھی بھاشا‘ یا پرندوں کی زبان کہتے تھے۔ اعلیٰ طبقوں میں بنگلہ کا استعمال گناہ سمجھا جاتا تھا، جس کی سزا ’روراوا‘(Rourava)   جہنم میں جلنے کی اذیت ہے (ص ۱۵)۔ محمود الرحمان نے بنگالی زبان کے ماخذ تلاش کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ممتاز مؤرخین مثلاً ڈاکٹردینش چندر سین اورسکومر سین کے موقف کے مطابق: ’’مسلمانوں کی طرف سے بنگال کی فتح، دراصل بنگالی زبان کی خوش بختی اور بنگالی زبان کے ارتقا کا ایک مرکزی ذریعہ بنی‘‘۔ مصنّف ’چریاپد‘ نے متنازعہ مسئلے کا ذکر کیا ہے، لیکن مفصل طور پر یہ نہیں بتاتا کہ کس طرح بنگال میں مسلم دورِحکمرانی کو ’بنگالی ادبی سرمایے کا تاریک دور‘ قرار دے ڈالا؟ 
اس تمام مسلم دورِ حکومت کو ’بنگلہ کے لیے تاریک دور‘ قرار دینے کا آغاز اس وقت ہوا، جب ڈھاکا یونی ورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر ہرپرشاد شاستری نے افسانہ گھڑتے ہوئے کہا:  ’’۱۲۰۳ءمیں پہلے مسلمان حکمران اختیارالدین محمدبختیارخلجی [م:۱۲۰۶ء]کے ہاتھوں فتح بنگال کے نتیجے میں یہاں بہت تباہی واقع ہوئی۔ یہاں تک کہ شاعر اور فنکار اپنی شاعری اور ادبی شاہکاروں کے ساتھ نیپال کی جانب فرار ہوگئے‘‘۔ شاستری صاحب نے یہ دعویٰ کردیا، اور ہندوئوں کے علاوہ ترقی پسند مسلم یا بنگلہ قوم پرستی کے حامل مسلمان اہلِ قلم نے اس دعوے کو کسی نہ کسی شکل میں مان لیا۔ تاہم، اس دعوے کی تائید میں کوئی ٹھوس ادبی ثبوت نہیں پیش کیا جاسکا۔

دراصل اڑھائی سو سالہ مسلم راج محض بنگال کے شمال مغربی علاقے تک ہی محدود رہا۔  اس عرصے میں اگر  مسلم حکمرانوں نے کسی چیز کواپنی غارت گری اور مذمت کے قابل سمجھا ہوتا، تو وہ   بت پرستی ہوتی،لیکن اس ضمن میں قطعی طور پر کوئی ثبوت دستیاب نہیں کہ اس دور میں کسی بھی غیرمسلم عبادت گاہ کو تباہ کیا گیا یا اس کی بے حرمتی کی گئی ہو۔اس کے برعکس اس امر کا معقول ثبوت موجود ہے کہ مسلم حکمرانوں نے غیرمسلم عبادت گاہوں کی تزئین وآرایش کے لیے بھاری سرکاری امدادی رقوم فراہم کیں۔مذہبی رسوم، تہوار اور سماجی تقریبات بلاروک ٹوک جاری رہیں۔مسلم حکمران بنگالی ادب (مختلف قسم کی تحریریں، نثر اور شاعری) کے سرپرست تھے۔ ایک ممتاز ہندو مؤرخ راکھل داس بندو پاڈے کے مطابق،علاء الدین حسین شاہ نے کبندرا پرمیشورکو ہندومذہبی کتاب، مہابھارت کا بنگالی زبان میں ترجمہ کرنے کا کام سونپا تھا۔بنگالی زبان کے متعدد ابتدائی شاعر مسلمان تھے، جن میں سے الول، دولت قاضی، محمدساگر اور مگن صدیقی ٹھاکر ممتاز حیثیت کے مالک تھے۔ بلاشبہہ مسلم دورِ حکومت بنگلہ ادب کی ترویج و اشاعت کا بھی سنہرا دور تھا۔ تاہم، مسلم تاریخ اور مسلم دورِحکمرانی کو بدنام کرنے اور بنگالی قوم پرستی کو گہرا کرنے کے لیے پورا زور لگایا جارہا ہے کہ بنگلہ زبان کی نظموں میں استعمال شدہ ذخیرۂ الفاظ کو کھینچ تان کر مشرقی ہندستانی زبانوں، مثلاً آسامی، اُڑیا، ہندی اور مراٹھی سے مشابہ کہا جارہا ہے، جو دانستہ طور پر بنگالی زبان کی تاریخ کو مسخ کرنے کی سازش ہے۔ 

بنگال کی ابتدائی تاریخ کے بارے محمود الرحمان نے لکھا ہے کہ کس طرح بودھ مت نے سرزمین بنگال میں بے روک ٹوک شاہی اختیارات استعمال کیے۔۷ ویںصدی میں ہندو بادشاہ ششنکاکے سوا،بدھوں کی پالاخاندانی سلطنت نے ۵۰۰ برس سے زائدعرصے تک حکومت کی اور پھر بودھ پالا بادشاہوں کے دربار میں موجود ہندو سرکاری افسران نے گیارھویں صدی میں بودھ اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔ ہندوسینا بادشاہ ہوںنے برہمنیت کا شدت سے نفاذکیا اور بودھ مت کے پیروکاروں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے۔ اسی طرح نچلی ذات کے ہندوئوں کے خلاف وسیع پیمانے پر متعصبانہ کارروائیاں کیں،جس کے نتیجے میں ان میںسے بہت سے نیپال کی سرحد سے ملحقہ علاقوں کی طرف فرار ہوگئے۔  پھر انسانی مساوات کے علَم بردار اسلام کے پیغام کوان مظلوم بنگالیوں نے ایک خوش آیند تبدیلی کی حیثیت سے دیکھا، جس نے بختیارخلجی کی فتح کا راستہ ہموار کیا۔
اس طرح سارا عظیم تربنگال بتدریج مسلم راج کے تحت آ گیا،نتیجہ یہ کہ بے مثال امن اور خوش حالی سامنے آئی۔ اس نظریے یا دعوے کی تصدیق متعدد سفرناموں سے ہوتی ہے جو غیرملکی سیاحوں کی طرف سے تصنیف کیے گئے۔دیگر فاتحین، جنھوںنے اپنے پیچھے لُوٹ مار اور غارت گری کے آثار چھوڑے، ان کے برعکس تمام مسلم فاتحین نے بنگال کو اپنے وطن کی حیثیت سے اپنا لیا۔ مسلمان سلطانوں،بادشاہوں اور نوابوں کی خاندانی سلطنتوںنے خدمت اور انصاف کے جذبے کے تحت حکومت کی۔ مسلم راج میں بنگال عملی طور پر آزاد اور خودمختار تھا۔ بنگال میں ۲۵۰برس کے مسلم راج کا اختتام ۲۳جون۱۷۵۷ء کو اس وقت ہوا، جب نواب سراج الدولہ [م: ۲جولائی ۱۷۵۷ء]کو جنگ پلاسی میں برطانوی گورنر رابرٹ کلائیو[م: ۱۷۷۴ء] سے شکست ہوئی۔پلاسی کی شکست کے بعد جو کچھ ہوا،اس کے متعلق مصنّف نے لکھا ہے: ’’استعماری قوت کی طرف سے جبری فاقہ کشی کے ذریعے بنگالیوں کا اجتماعی قتل عام ہوا‘‘۔ جواہر لعل نہرو [م: ۱۹۶۴ء] کے بقول: ’’یہ ایک خالص لُوٹ مارتھی کہ انتہائی بھیانک قحط (Famine) نے بنگال کو اپنی لپیٹ میں لے لیا‘‘۔ دوانگریز مؤرخین ایڈورڈ تھامسن اورجی ٹی گیرٹ نے بھی اس امر کی تائید کی:’’یہ ایک ایسی عظیم تباہی تھی، جس کا اس پاگل پن سے بھی مقابلہ نہیں کیا جا سکتا‘‘ جس نے ہسپانوی جرنیل اور نواب، پیزارو [م:۱۵۴۱ء] اور کورتیس [م: ۱۵۴۷ء] کے زمانۂ حکمرانی میں ان کے زیرانتظام علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ دو سو برس کے دوران برطانوی راج کی بنیادی حکمت عملی، ہندوآبادی کی سرپرستی اور مسلم بغاوت کو کچل دینے پر مشتمل تھی‘‘۔ (ص ۳۹)

مسلمانوں کوکچلنے کے لیے انگریزوں کو ہندوئوں کی معاونت کی ضرورت تھی، جنھوں نے استعماری حکمرانوں سے مکمل تعاون کیا(ص ۴۹)۔حتیٰ کہ نہرونے بھی اعتراف کیا ہے: ’’نیا انگریزی تعلیم یافتہ طبقہ،جس میں ہندو قابل ذکر ہیں، انگلینڈ کی طرف تعریفی انعام حاصل کرنے کی نظروں سے دیکھ کر اُمید کر رہا تھا کہ وہ ان کی مدد اور تعاون سے ترقی کرے گا‘‘۔ نراد سی چودھری نے اعتراف کیا ہے کہ ’’پڑھے لکھے ہندو طبقے،دانش وروں، شاعروں، مصنّفین اور فنکاروںنے بھی فعال اور دانستہ وہ راستہ اپنایا کہ مسلمانوں کوسماجی منظرنامے سے باہر دھکیل دیا جائے، حد یہ کہ ان کی بنگالی شناخت سے بھی انکار کردیا گیا۔ مراد یہ کہ نام نہاد بنگالی نشاتِ ثانیہ،ایک واضح مسلم مخالف خصوصیت کی حامل تحریک تھی‘‘۔(ص ۴۸-۵۰)
برطانوی سامراجیوں کے ساتھ بنگالی ہندوئوں کا تعاون ۱۹۰۳ء میں اس وقت یکایک  بحران کا شکار ہوگیا، جب برطانویوں نے بنگالی مسلمانوں کے خلاف ہندوئوں کے معاندانہ اقدامات اور کارروائیوں کا بتدریج اعتراف کرنا شروع کر دیا۔ پھر اس وقت کے وائسرائے [۱۸۹۹ء- ۱۹۰۵ء] لارڈکرزن نے [۱۶؍اکتوبر ۱۹۰۵ء کو] انتظامی وجوہ کی بنا پر فیصلہ کیا کہ بنگال پریذیڈنسی کے غیرمعمولی بڑے صوبے کو دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے: پہلا مسلم اکثریتی مشرقی بنگال اور آسام، ڈھاکا   بطور دارالحکومت، جب کہ مغربی بنگال،چھوٹا ناگ پور،بہار اور اُڑیسہ کا دارالحکومت کلکتہ ہو۔لیکن ہندو نفسیات میں کوئی بھی مسلم اکثریتی صوبہ، نفرت انگیزشے سے کم نہیں تھا، اس لیے وہ ہندوئوں کے لیے ناقابلِ قبول تھا۔ اس طرح برہمن، مسلم اکثریت پر معاشی اور ثقافتی غلبے سے محروم ہوجاتے، جنھیںوہ ہمیشہ اپنے غلام سمجھتے تھے۔

مشہور بنگالی شاعر رابندر ناتھ ٹیگور[م: ۱۹۴۱ء]سمیت ہر قسم کے ہندوئوںنے اس تقسیم پر شدیدر دعمل کا اظہار کیا اور اس فیصلے کے خلاف ایک مسلح جدوجہدشروع کر دی۔ دسمبر۱۹۱۱ءمیں برطانوی بادشاہ [۱۹۱۰ء- ۱۹۳۶ء] جارج پنجم ہندستان کے دور ے پر آیا۔ اس موقعے پر اس نے دہلی دربار میں بنگال کی تقسیم کی منسوخی کااعلان کیا۔وائسرائے [۱۶-۱۹۱۰ء] لارڈ چارلس ہارڈنگزنے بنگالی مسلمانوں کو پہنچنے والے معاشی و سماجی نقصان کا ازالہ کرنے کے لیے [۲فروری ۱۹۱۲ء کو] ڈھاکا یونی ورسٹی کی پیش کش کی تھی۔لیکن ہندئووں نے ڈھاکا یونی ورسٹی کے قیام تک شدید مخالفت کی، حالانکہ یہ محض مسلمانوں کے لیے نہیں تھی۔ لیکن چونکہ یہ مسلم اکثریتی علاقے میں قائم ہورہی تھی،  اس لیے برہمن کو قبول نہیں تھی۔ ہندوئوں کے نزدیک،مشرقی بنگال کے کسانوں کے لیے تعلیم تک رسائی کا نظریہ اشتعال انگیزتھا۔ سخت مخالفت کے بعد۱۹۲۱ءمیں بالآخر ڈھاکا یونی ورسٹی کا قیام عمل میں آگیا۔

بنگال اورہندستان میں ہندو مسلم تعلقات سمجھنے کے لیے یہ کتاب بہت مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ واضح رہے کہ ہندو رہنما ہر شعبۂ زندگی میں مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی میں مصروف تھے۔ ہندئووں کے اس طرزِعمل کی مزید تصدیق سابق بھارتی وزیرخارجہ [۱۹۹۸ء-۲۰۰۲ء] جسونت سنگھ نے ان الفاظ میں کی ہے: بانی ِ پاکستان محمدعلی جناح ۱۹۳۷ء تک پاکستان جیسی ایک الگ ریاست کے متعلق نہیں سوچ رہے تھے اور وہ ایسی متحدوفاقی حکومت کے حق میں تھے، جہاں اقلیتی مسلمانوں کے حقوق اور ان کا تحفظ ہو‘‘۔ تاہم،یہ کانگریسی رہنماہی تھے، جنھوں نے جناح کو مجبور کیا کہ وہ طویل عرصے سے اپنے اس مطالبے سے دست بردار ہو جائیں کہ متحدہ ہندستان ہی اس مسئلے کا حل ہے۔(ص ۶۲-۶۴)
پاکستان کی تخلیق،جس کے لیے برعظیم کے مسلمانوں کی طر ف سے غیرمعمولی اور عدیم المثال قربانی دی گئی تھی،روزاوّل ہی سے بعض گمبھیر مسائل کے باعث کمزور بنیادوں کی حامل ریاست نظرآتی تھی۔ دونوں حصوں کے درمیان طویل فاصلہ،زبان کے اختلاف،جمہوری قدروں کے فقدان اور اس سے بھی اہم ، سیاست دانوں کی ہوسِ اقتدار اور استحصال کے رجحانات مشرقی پاکستان کے سقوط کا اہم سبب بنے۔ بھارت نے پاکستان توڑنے کے لیے اس فضا کو پوری قوت سے استعمال کیا جس نے بنگال کے عوام کو خود مسلمان بھائیوں ہی سے آزادی حاصل کرنے کی خواہش سے آلودہ کردیا۔ ۱۶دسمبر۱۹۷۱ء کو پاکستان سے علیحدگی اختیار کرنے سے ایک نئی بنگلہ دیشی قوم وجود میں آئی۔ ہندوئوں کے لیے لفظ ’بنگلہ دیشی‘ ناقابلِ قبول ہے کہ یہ متحدہ بنگالی قوم پرستی سے الگ تشخص کا مظہر ہے۔اس پورے منظرنامے میں مایوسی کی بات یہ اُبھر کر سامنے آئی ہے کہ آزادی کی یہ دوبارہ خواہش بھی، خوشامد،موقع پرستی اور ذاتی مفاد کی خاطر اقتدار کے لالچ جیسی بیماریوں کا علاج نہ کرسکی۔
محمود الرحمان کی کتاب کا مطالعہ موجودہ بنگلہ دیشی حکومت کی طرف سے’بھارت کے حق میں خودسپردگی پر مبنی حکمت عملی‘کے پس منظر میں کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش کی مسلم میراث کو ختم، مسخ اور تباہ کر کے بھارت کی خوش نودی حاصل کی جارہی ہے۔ [کتاب دیکھیے: The  Political History of Muslim Bengal: An Unfinished Battle of Faith کیمبرج اسکالرز پبلشرز، کیمبرج، برطانیہ، صفحات: ۳۹۲، ۲۰۱۹ء]۔(مسلم ورلڈ بک ریویو، خزاں، لسٹر، برطانیہ، ۲۰۱۹ء۔ انگریزی سے ترجمہ: ادارہ)

کئی تجزیہ کار بھارت کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو یورپ کی قدامت مگر غیر فرقہ پرست جماعتوں، یعنی جرمنی کی ’کرسچن ڈیموکریٹ‘ یا برطانیہ کی ’ٹوری پارٹی‘ سے تشبیہہ دے کر دھوکا کھا جاتے ہیں۔ ان یورپی سیاسی جماعتوں کے برعکس بی جے پی کی کمان اس کے اپنے ہاتھوں میں نہیں ہے۔ اس کی طاقت کا اصل سرچشمہ اور نکیل ہندو نسل پرستوں کی تنظیم راشٹریہ سیویم سنگھ (آرایس ایس)کے پاس ہے، جو بلاشبہہ فی الوقت دنیا کی سب سے بڑی خفیہ تنظیم ہے۔ جس کے مالی وانتظامی معاملات کے بارے میں بہت ہی کم معلومات ابھی تک منظر عام پر آئی ہیں۔ اگرچہ آر ایس ایس اپنے آپ کو ایک ’ثقافتی تنظیم ‘کے طور پر متعارف کرواتی ہے، مگر حال ہی میں اس کے سربراہ موہن بھاگوت نے یہ کہہ کر چونکا دیا کہ: ’ہنگامی صورت حا ل میں ہماری تنظیم صرف تین دن سے بھی کم وقفے میں ۲۰لاکھ سیوم سیوکوں (کارکنوں) کو اکٹھا کر کے میدان جنگ میں لا سکتی ہے، جب کہ فوج کو ’لام بندی‘ (اپنے سپاہیوں کی تیاری) میں کئی ما ہ درکار ہوتے ہیں‘‘۔ دراصل وہ یہ بتا رہے تھے، کہ آرایس ایس کی تنظیمی صلاحیت اور نظم و ضبط فوج سے بدرجہا بہتر ہے۔ 
معروف مصنف اور قانون دان اے جی نورانی نے حال ہی میں اپنی ۵۰۰صفحات پر مشتمل جامع، تحقیقی اور گہری تصنیف A Menace to India  The RSS:میں اس تنظیم کے حوالے سے کئی انکشافات کیے ہیں۔ اس کتاب کو لیفٹ ورڈبکس نے مارچ ۲۰۱۹ء میں شائع کیا ہے۔اگرچہ بی جے پی کے لیڈر روز مرہ کے فیصلے کرنے میں آزاد ہوتے ہیں، مگر اہم فیصلوں کے لیے ان کوآرایس ایس سے اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔ بی جے پی میں سب سے طاقت ور آرگنائزنگ جنرل سیکرٹری آر ایس ایس ہی کا نمایندہ ہوتا ہے۔ آر ایس ایس کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ ایک خاص پوزیشن کے بعد صرف غیر شادی شدہ کارکنان کو ہی اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی اہلیہ جسودھا بن کو شادی کے چند سا ل بعد ہی چھوڑ دیاتھا، یعنی آر ایس ایس کی پوری لیڈرشپ ’کنواروں‘ پر مشتمل ہے۔ 
آر ایس ایس کے سب سے نچلے یونٹ کو ’شاکھا‘ کہتے ہیں۔ ایک شہر یا قصبے میں کئی ’شاکھائیں‘ ہوسکتی ہیں۔ ہفتہ میں کئی روز دہلی کے پارکوں میں یہ ’شاکھائیں‘ دفاعی اور جارحانہ مشقوں کے ساتھ ساتھ لاٹھی ، جوڈو، کراٹے اور یوگا کا اہتمام کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ورزش کے ساتھ ساتھ یونٹ کا انچارج ذہن سازی کا کام بھی کرتا ہے۔آر ایس ایس کے سربراہ کو ’سرسنگھ چالک‘ کہتے ہیں اور اس کی مدد کے لیے چار ’راشٹریہ سہکرواہ‘ یعنی سیکرٹری ہوتے ہیں۔ اس کے بعد یہ چھے تنظیمی ڈھانچوں پر مشتمل ہے۔ جن میں: کیندریہ کاریہ کاری منڈل، اکھل بھارتیہ پرتیندی سبھا، پرانت یا ضلع سنگھ چالک، پرچارک، پرانت یا ضلع کاری کاری منڈل اور پرانت پرتیندی سبھا شامل ہیں۔ پرانت پرچارک علاقے یا ضلع کا منتظم ہوتا ہے، اس کا غیرشادی شدہ یا گھریلو مصروفیات سے آزاد ہونا لازم ہوتا ہے۔ بی جے پی کی اعلیٰ لیڈرشپ میں فی الوقت وزیراعظم مودی اور صدر امیت شاہ آرایس ایس کے کارکنان رہے ہیں۔ 
اے جی نورانی کے بقول: ’’اس تنظیم کی فلاسفی ہی فرقہ واریت، جمہوریت مخالف اور فاشزم پر استوار ہے ۔ سیاست میں چونکہ کئی بار سمجھوتوں اور مصالحت سے کام لینا پڑتا ہے، اس لیے اس میدان میں براہ راست کودنے کے بجاے، آر ایس ایس نے ۱۹۵۱ء میں جَن سنگھ اور پھر ۱۹۸۰ء میں بی جے پی تشکیل دی‘‘۔ بی جے پی پر اس کی گرفت کے حوالے سے نورانی کا کہنا ہے کہ: ’’آر ایس ایس کے ایما پر اس کے تین نہایت طاقت ور صدور ماولی چندر ا شرما، بلراج مدھوک اور ایل کے ایڈوانی کو برخاست کیا گیا۔ ایڈوانی کا قصور تھا کہ ۲۰۰۵ء میں کراچی میں اس نے بانیِ پاکستان محمد علی جناح کو ایک عظیم شخصیت قرار دیا تھا‘‘۔
نورانی صاحب کے بقول: ’’آر ایس ایس کے تقریباً ۱۰۰سے زائد شعبہ جات الگ الگ میدانوں میں سرگرمِ عمل ہیں۔ جیسا کہ سیاسی میدان میں بی جے پی، حفاظت یا سکیورٹی کے لیے (بالفاظ دیگر غنڈا گردی کے لیے) بجرنگ دل، مزدورں یا ورکروں کے لیے بھارتیہ مزدور سنگھ، دانش وروں کے لیے وچار منچ، غرض یہ کہ سوسائٹی کے ہر طبقے کی رہنمائی کے لیے کوئی نہ کوئی تنظیم ہے۔ حتی ٰکہ پچھلے کچھ عرصے سے آر ایس ایس نے ’مسلم راشٹریہ منچ‘ اور جماعت علما نامی دو تنظیمیں قائم کرکے انھیں مسلمانوں میں کام کرنے کے لیے مختص کیا ہے۔ گذشتہ انتخابات کے دوران یہ تنظیمیں کشمیر میں خاصی سرگرم تھیں۔ان سبھی تنظیموں کے لیے آر ایس ایس کیڈر بنانے کا کام کرتی ہے، اور ان کے لیے اسکولوں اور کالجوں ہی سے طالب علموں کی مقامی شاخوں کے ذریعے ذہن سازی کی جاتی ہے۔ اس وقت کُل شاخوں کی تعداد کم وبیش۸۷۷ ۸۴, ہے۔ گذشتہ برس ۲۰سے ۳۵سال کی عمر کے ایک لاکھ افراد تنظیم میں شامل ہوئے۔ بھارت کے ۸۸ فی صد بلاک میں یہ تنظیمیں پھیل چکی ہیں، جو ملک اور بیرون ملک کے مختلف مقامات پر ہندوؤں کو انتہاپسندانہ نظریاتی بنیاد پر جوڑنے کا کام کررہی ہیں۔ 
’’بھارت سے باہر کے ممالک میں ان کی ۳۹ممالک میں شاخیں ہیں۔ یہ شاخیں ’ہندو سوئم سیوک سنگھ‘ (HSS)کے نام سے کام رہی ہیں۔بھارت سے باہر آر ایس ایس کی سب سے زیادہ شاخیں نیپال میں ہیں۔ پھر امریکا میں اس کی شاخوں کی تعداد۱۴۶ ہے اور برطانیہ میں ۸۴شاخیں ہیں۔ یہ کینیا کے اندر بھی کافی مضبوط پوزیشن میں ہے اور ان کا دائرۂ کار پڑوسی ممالک تنزانیہ، یوگنڈا، موریشس اور جنوبی افریقا تک پھیلا ہوا ہے۔دل چسپ بات یہ ہے کہ ان کی پانچ شاخیں مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک میں بھی ہیں۔ چوں کہ عرب ممالک میں جماعتی اور گروہی سرگرمیوں کی کھلی اجازت نہیں ہے، اس لیے وہاں کی شاخیں خفیہ طریقے سے گھروں تک محدود ہیں۔ بتایا جاتا ہے، کہ بابری مسجد کی مسماری اور رام مندر کی تعمیر کے لیے سب سے زیادہ چندا خودعرب ممالک ہی سے آیا تھا۔ فن لینڈ میں ایک الیکٹرانک شاخ ہے، جہاں ویڈیو کیمرے کے ذریعے ۲۰ممالک کے افراد جمع ہوتے ہیں، حالاں کہ ان ممالک میں آر ایس ایس کی باضابطہ شاخ موجود نہیں ہے۔ بیرون ملک آر ایس ایس کی سرگرمیوں کے انچارج رام مادھو اس وقت بی جے پی کے قومی جنرل سیکریٹری بھی ہیں۔ وہی کشمیر امور کو بھی دیکھتے ہیں، اور وزیراعظم مودی کے بیرونی دوروں کے دوران بیرون ملک مقیم بھارتیوں کی تقاریب منعقد کراتے ہیں‘‘۔
آر ایس ایس کے ایک مرکزی لیڈر سے گفتگو کے دوران مَیں نے پوچھا کہ: ’مسلمان، جو بھارت کے صدیوں سے رہنے والے شہری ہیں، ان کے بارے میں آپ کی کیا راے ہے‘؟ تو ان کا کہنا تھا کہ: ’مسلمانوں سے ان کو کوئی شکایت نہیں ہے، اگر وہ ہندو جذبات کا خیال رکھیں‘۔ میں نے پوچھا کہ: ’ہندو جذبات سے آپ کی کیا مراد ہے؟‘ توان کا کہنا تھاکہ: ’ہندو کم و بیش ۳۲کروڑدیو ی دیوتائوں پر یقین رکھتے ہیں۔ ہمارے لیے یہ کوئی ناک کا مسئلہ نہیں کہ ہم پیغمبرؐاسلام کی بھی اسی طرح عزت افزائی کرنا چاہتے ہیں، مگر مسلمان اس کی اجازت نہیں دیتے، اور نہ اپنے یہاں کسی ہندو دیوی دیوتا کی تصویر یا مورتی رکھتے ہیں‘۔ اپنے دفتر کی دیوار پربابا گورو نانک اور گورو گوبند سنگھ کی لٹکتی تصویر اور کونے میں مہاتما بدھ اور مہاویر کی مورتیوںکی طرف اشارہ کرتے ہوئے، انھوںنے کہا کہ: ’دیگر مذاہب، یعنی سکھوں، بدھوں اور جینیوں نے ہندوئوں کے ساتھ رہنے کا سلیقہ سیکھا ہے، جو مسلمانوں کو بھی سیکھنا پڑے گا‘۔
’گجرات فسادات کے بعد ۲۰۰۲ء میں ایک مسلم وفد آر ایس ایس کے اُس وقت کے سربراہ کے سدرشن جی سے ملنے ان کے صدر دفتر ناگ پور چلا گیا جس میں اعلیٰ پایہ کے مسلم دانش ور شامل تھے۔ ملاقات کا مقصد ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی کو کم کرنے کے لیے انھیں قائل کرنا تھا۔ اس وفد کے ایک رکن نے بتایا: ’’جب ہم نے سدرشن جی سے پوچھا کہ کیا مسلمانوں اور ہندوؤں میں مفاہمت نہیں ہوسکتی ہے؟ کیا دوستانہ ماحول میں نہیں رہا جاسکتا ہے؟‘‘ جواب میں سدرشن نے مسلم وفد کو بتایا کہ: ’آر ایس ایس جیسی شدت پسند تنظیم، مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرسکتی ہے، لیکن اس کے لیے شرط ہے۔ آپ لوگ(مسلمان)کہتے ہیں کہ اسلام ہی برحق اور سچا دین ہے، آپ یہ بات کہنا چھوڑ دیجیے اور کہیے کہ اسلام بھی سچا دین ہے تو ہماری آپ کے ساتھ مفاہمت ہوسکتی ہے‘۔ ’اسلام ہی حق‘ ہے، کے بجاے ’اسلام بھی حق‘ ہے، کا مطالبہ کرنا بظاہر ایک معمولی بات ہے اور یہ مطالبہ اب فرقہ پرست ہی نہیں ، بلکہ خود ساختہ لبرل مسلمانوں کی طرف سے بھی کیا جاتاہے۔ تاہم، آرایس ایس اُس وفد کواس بات پر قائل نہیں کرسکی کہ وفد کے تمام لوگ دینی علوم سے واقفیت رکھتے اور یہ جانتے تھے کہ ا س مطالبے کو ماننے سے ان کے ایمان کا کیا حشر ہوگا۔ 

]ہم چین کی ترقی، یک جہتی اور دوستی کے قدر دان ہیں۔ یہی قدردانی اور دوستی تقاضا کرتی ہے کہ عوامی جمہوریہ چین کی سیاسی قیادت کے سامنے یہ حقیقت واضح کی جائے کہ: ’’دنیا کے مختلف حصوں میں بسنے والے مسلمان، محض علاقائی یا نسلی اقلیت یااکثریت نہیں ہیں بلکہ (مسلمان ایک نبی کی ایک ہی اُمت کی حیثیت سے شناخت رکھتے ہیں)۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا مغربی و امریکی سامراج، مسلمانوں کو علاقوں، ملکوں اور نسلوں کی بنیاد پر دیکھنے کے بجاے، انھیں صرف مسلمان کی حیثیت سے مخاطب کرتاہے۔ اس ابدی حقیقت اور تاریخی سچائی کی طرف متوجہ کرتے ہوئے یہ بات عرض کرنا چاہتے ہیں کہ چین کی جہاں دیدہ سیاسی قیادت کو ایغور مسلمانوں کے حوالے سے بھی یہی حقیقت پیش نظر رکھنی چاہیے۔ یہ امرواقعہ بھی ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہیے کہ چین، تجارت اور اسٹرے ٹیجک تعلقات کے حوالے سے، سب سے زیادہ قریب مسلم ممالک ہی سے ہے۔ وہ اپنے ہاں بسنے والے مسلمانوں کے مسائل کو فوجی یا جبری انداز سے حل کرنے کے بجاے، وہاں رہنے والے مسلمانوں کے دینی، سماجی اور معاشی مفادات کو حق و انصاف کی بنیاد پر حل کرتا ہے اور ان کی تہذیب و ثقافت کا احترام کرتا ہے تو یہ بات خود چین کے مفاد میں ہوگی۔ اس طرح ایک جانب وہ مسلمان حکومتوں سے بڑھ کر ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے دل میں جگہ بنا سکے گا تو دوسری جانب اپنے لیے ملک اور ملک سے باہر خیرسگالی کے جذبات کو پروان چڑھاپائے گا۔ س م خ


یہ ایک دل چسپ اور رُلا دینے والا رپورتاژ ہے ___ رپورتاژ کو اہل نقد بالعموم افسانوی ادب (fiction) میں شمار کرتے ہیں، مگر زیر نظر کتاب میں حقیقت ہی حقیقت ہے، افسانہ نہیں ہے۔ قاری مطالعے کے دوران  ڈاکٹر شفیق انجم کی خوب صورت نثر کی بے ساختہ داد دیتا ہے۔
مصنف کو ملازمتی مصروفیات کے سلسلے میں کچھ عرصہ سنکیانگ میں رہنے کا موقع ملا۔ وہ لکھتے ہیں :’’مختصر مدّت کی یہ رفاقت عمر بھر کی رفاقت محسوس ہوتی ہے ۔ میں نے اسے صرف دیکھا ہی نہیں، سوچا، سمجھا، چکھااور بھگتا بھی ہے۔ اس قربت و رفاقت کے کچھ زاویے میں نے اپنی نظمیہ کہانیوں میں نقش کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ نظمیہ کہانیاں: جلا وطن، خود کلامی اور سنکیانگ میں محبت کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہو چکی ہیں۔ زیر نظر تحریر سنکیانگ نامہ میں کچھ مزید زاویوں کو سمیٹنے اور بیان کرنے کی کوشش کی ہے‘‘۔ (ص۶) 
یہ کتاب سنکیانگ کے ایغور مسلمانوں کے شان دار ’ماضی‘ اور درد ناک ’حال‘ کی رُودادِ زندگی ہے۔ جہاں تک سنکیانگ میں ایغور وں کے ’مستقبل‘ کا تعلق ہے: ’’زمین اس کی ہوتی ہے جس کے پاس طاقت ہو‘‘ (ص ۷)۔ اس اعتبار سے ایغوروں کا ’مستقبل‘ بظاہر دکھائی نہیں دیتا، کیوں کہ موجودہ حکومت ان سے جس طرح معاملہ کر رہی ہے، کوئی دن جاتا ہے (اور یہ چند برسوں کی بات ہے ) کہ وہ نابود کردیے یا دُور دُور بکھیر دیے جائیں گے۔ پھر وجود کہاں؟ اور زمین کا ذکر کہاں؟
مصنف کہتے ہیں : ’’چین سے ہمارا دوستی کا ایک مضبوط رشتہ قائم ہے، یہ رشتہ قائم رہنا اور پھلنا پھولنا چاہیے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان پہلوئوں پر ضرور بات ہونی چاہیے، جو اس پُر خلوص رشتے میں دُکھ اور تکلیف کے عناصر شامل کیے جا رہے ہیں، انھی میں سے ایک سنکیانگ ہے‘‘۔ (ص ۱۲)
اس طرح یہ کتاب سنکیانگ کے ایغوروں کے دکھوں کی کہانی ہے۔ سنکیانگ ۱۶لاکھ ۶۴ہزار ۸سو ۹۷مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ چین نے جس کثرت سے یہاں سٹرکیں، پُل اور عمارتیں بنائی ہیں، اسی کثرت سے چین کے مختلف علاقوں سے چینی باشندوں کو لا لا کر سنکیانگ میں بسا یا ہے۔ بقول مصنف: ’’کسی زمانے میں یہاں مسلمان واحد اکثریت تھے، لیکن چینی عمل داری کے بعد منظم آباد کاری کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اب یہ تناسب ۴۵/۵۵ کا ہو گیا ہے اور آنے والے برسوں میں مسلم اکثریت آٹے میں نمک کے برابر رہ جائے گی‘‘۔ (ص۱۸)
 مصنف نے سنکیانگ کے مختلف شہروں کے محل وقوع کے ساتھ ان کا تعارف کرایا ہے ۔ مختلف علاقوں کے لوگوں سے تبادلۂ خیال کیا ، ان کے ناگفتہ بہ حالات سنے اور ان میں سے بعض واقعات نقل کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’سنکیانگ مکمل طور پر ایک پولیس اسٹیٹ ہے۔ غیر ملکی سیّاح بکثرت آتے ہیںمگر ایک دودن کے قیام سے انھیں اصلیت کا پتا نہیں چلتا، ہاں طویل قیام سے بخوبی سمجھ لیتے ہیں کہ سنکیانگ میں ایغور ہونے کا مطلب سسکتی موت ہے ۔ بظاہر یہ لوگ زندہ ہیں لیکن انھیں اندر سے مار دیا گیا ہے۔ یہ خبریں تو اب عالمی میڈیا پر بھی عام ہیں کہ سنکیانگ میں ایغوروں کے لیے بڑے بڑے ’حراستی کیمپ‘ بنائے گئے ہیں، جہاں لاکھوں کی تعداد میں لوگ لائے جاتے اور انھیں اذیت ناک مراحل سے گزار کر وفا دار بننے کی تربیت دی جاتی ہے۔ ان کیمپوں کی موجودگی سے چینی حکومت انکاری ہے اور اسے چین دشمن عناصر کا پروپیگنڈا کہہ کر رد کیا جاتا ہے۔ لیکن واقفانِ حال جانتے ہیں کہ ’حراستی کیمپ‘ ہونے نہ ہونے کی بات ایک طرف، یہاں تو گھر گھر ، گلی گلی، کوچہ کوچہ حراست معصوم لوگوں کو دبوچے بیٹھی ہے۔ ہر ایغور ’مشکوک‘ ہے، ہر ایغور ’دہشت گرد‘ ہے اور ہرایغور پر لازم ہے کہ وہ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے چینی حکومت سے وفاداری کا ورد کرتا رہے۔ پولیس کی نگرانی کے ساتھ ہر ایغور گھرانے پر ایک چینی گھرانا مامور ہے۔ نجی معاملات میں یہ چینی گھرانا دوستی کے لیبل اور باہمی تعاون ومدد کے سلوگن کے ساتھ ایغور گھرانے کی کوتوالی کرتا ہے۔ باہمی شادیوں اورثقافتی اشتراک کی راہ نکالتا ہے اور اگر کہیں کسی طرح کی کم آمادگی یا گریز کی صورت دیکھتا ہے تو نہ جانے پولیس کو کیسے معلوم ہو جاتا ہے کہ فلاں ایغور گھرانے کے فلاں فرد یا پورے گھرانے کو ’خصوصی تربیت کی ضرورت ہے‘۔ پس ’تربیت‘ دی جاتی ہے ، اور ایسی کہ دائیں بائیں والوں کے بھی اوسان خطا ہوجاتے ہیں‘‘ ۔ (ص۵۳) 
ایک اور جگہ کہتے ہیں: ’’ارومچی کے جنوبی علاقے میں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ یہاں مساجد موجود ہیں، جن کا احاطہ محدود کر کے ان کے گرد باڑیں لگا دی گئی ہیں۔ گیٹ میں سکینر اور کیمرے ، ہر مسجد کے سامنے پولیس بکتر بند گاڑیاں چوبیس گھنٹے کھڑی رہتی ہیں۔ مسجد صرف نماز کے وقت کھلتی ہے اور پھر مقفل۔ ہر نمازی کی شناخت نوٹ ہوتی ہے ۔ پس، گنے چنے بوڑھے ہی نماز کے اوقات میں نظر آتے ہیں۔ مساجد کے علاوہ گھروں میں قرآن شریف یا کوئی بھی مذہبی متن یا آثار رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ داڑھی رکھنے پر پابندی، روزے پربھی پابندی ، رمضان میں جان بوجھ کر دفتروں میں آفیشل لنچ رکھے جاتے ہیں۔ جو ایغور ملازمت میں ہیں، ان کی جامع رپورٹ بنتی ہے ، نگرانی ہوتی ہے۔ رات دن سولی پر لٹکتے رہتے ہیں، پھر بھی اعتباری قرار نہیں پاتے ‘‘ (ص۵۴- ۵۵) ۔اسی طرح: ’’مسلم ثقافت کا زور توڑنے کے لیے بدھ مذہبی ثقافت کو مقابل لایا جارہاہے‘‘ (ص۶۶)۔’’چینی حلقوں میں ان [ایغور مسلمانوں]کی کوئی عزت نہیں۔ یہ لوگ حکومتی مشینری میں اعلیٰ عہدے بھی رکھتے ہیں اور بہت قابل پروفیسر ، ڈاکٹر اور انجینیر اور کاروباری لوگ بھی ہیں، لیکن نسلاً ایغور ہونا ان کے لیے ایک تہمت بنا رہتا ہے‘‘۔  (ص۷۷)
مصنف نے اپنے مشاہدے کو صرف ایغوروں کی مظلومیت تک محدود نہیں رکھا، بلکہ ان کی ثقافت، تعلیم اور ان کے خوردو نوش کی عادت کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ ریستورانوں میں چائے ، کھانے، چکن تکے، سیخ کباب ، نمکین اور میٹھے بسکٹ ، کلچے ، کرانچی جلیبی، پیزہ اور یہاں کے پھل___ جو ایغور دُور دراز دیہی علاقوں میں رہتے ہیں ، وہ قدر ے عافیت میں ہیں (مگر تابکے ؟)۔ لوگ   حلیم اور خوش گفتار ہیں۔ دھول مٹی سے اَٹے ، لتھڑے، لیکن دل کے غنی وباد شاہ اور مہمان نوازی میں بے مثل ۔ مسافروں کے پہنچتے ہی ہر ایک بقدرِ استطاعت خدمت میں جُت جاتا ہے ۔ پانی،   دودھ اور میوے پیش کیے جاتے ہیں ۔ رسم کے مطابق بھیڑ یا دنبہ ذبح کر کے خوان سجایا جاتا ہے۔ اپنے پاس بھیڑ میسر نہ ہو تو ساتھ والوں سے اُدھار لے لی جاتی ہے۔ زبان اجنبی ہے، چہرے اجنبی ہیں، منظر وماحول اجنبی ہے، لیکن خلوص وایثار ومحبت کے جذبے اپنے اپنے سے ہیں۔ 
ایغوروں اور چینیوں کے عقائد و تجربات، نظریہ ہاے زندگی اور رسومات و مشاغل الگ الگ ہیں۔ مصنف کا اخذ کردہ نتیجہ انھی کے الفاظ میں درج ذیل ہے: 
’’چین، سنکیانگ سے جانے کا نہیں۔ سرحدیں سیل ہیں اور ایسی سیل کہ کوئی پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا ہے ۔ شہروں شہر نا کہ بندی اور ایسی ناکہ بندی کہ ایک شہر کی ہوا بھی دوسرے شہر جانے سے گریز کرتی ہے۔ شہروں اور قصبوں کے اندر ہر ہر کالونی کی الگ الگ ناکہ بندی ہے۔ ہر کالونی کی ہر منزل کی الگ ناکہ بندی ۔ ہر منزل کے ہر گھر کی الگ ناکہ بندی ۔اور ہر گھر کے ہر فرد کی الگ ناکہ بندی۔ اتنے حصار اور اتنے کڑے حصار ہیں کہ بے بسی سینہ پیٹتی ، بین کرتی رہتی ہے، لیکن کوئی نہیں سنتا۔ جب جس کو اٹھانا ہو، اٹھا لیا جاتا ہے۔ ایک ایک قیدی کے لیے چھے چھے بم پروف گاڑیوں کا قافلہ چلتا ہے، اور معلوم نہیں جانے والا کہاں جاتا ہے۔ شہروں شہر بکتر بند گاڑیوں میں دہشت گشت کرتی رہتی ہے۔ ٹینک اور راکٹ بردار گاڑیاں چوک چوراہوں میں کھڑے ہیں۔ جگہ جگہ پولیس سٹیشن ہیں۔ فوج الگ سے تیارو چوکس کھڑی ہے۔ تو ایسے میں یہ کہنا کہ یہ سارا اہتمام حفاظت کے لیے ہے، کتنا مضحکہ خیز لگتا ہے۔ کیا حفاظت کا یہ اہتمام چین کے باقی شہروں میں بھی ہے؟ کیا [اُن] عالمی اہمیت کے حامل شہروں میں بھی ہے؟ کیا بیجنگ ، شنگھائی اور گوانگ زو جیسے عالمی اہمیت کے حامل شہروں میں اس سے زیادہ اہتمام کی ضرورت نہیں ؟ جواب ملتا ہے: ’نہیں، کیونکہ وہاں ایغور نہیں‘۔توگویا ایغوروں کا ہونا چین کی سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ سمجھ لیا گیا ہے‘‘۔ (ص۷۸)
مصنف نے آخر میں لکھا ہے:’’سنکیانگ چینیوں کا ہے اور سنکیانگ کے باشندے بھی چینیوں کے ۔ کوئی کچھ نہیں کر سکتا___ مگر دوست کو دوستی کا حوالہ دے کر، درخواست تو کی جا سکتی ہے اگرچہ واضح ہے کہ شنوائی کی کوئی صورت نہیں۔ کسی طور کسی کا دل نہیں پسیجے گا، کسی طور کوئی آمادۂ رحم  نہ ہو گا کہ طاقت ، بے مہار طاقت فریادیں نہیں سنتی، حکم لگاتی ہے، حکم نافذ کرتی ہے۔ اور مظلوم وبے کس لوگ مرتے ، اذیت ناک موت مرتے رہتے ہیں___ تاریخِ انسانی میں ایسا ہوتا رہا ہے اور ہرجغرافیے سے جڑی کہانیوں میں یہ بات مشترک ہے کہ زور والے زیر دستوں پر چڑھ دوڑے اور انسانیت انھیں دیکھ دیکھ شرماتی رہی۔ ترقی اور ارتقا کے خروش میں خون کی ندیاں بہائی جاتی رہیں اور کوئی کسی کے لیے کچھ بھی نہ کرسکا۔ دُکھ ہوتا ہے اور سوچ غالب آتی ہے کہ آخر انسان ترقی اور کمال کی منزلوں پر پہنچ کر بھی دوسروں کو معاف کرنا اور جینے کا حق دینا کیوں نہیں سیکھ پاتا؟ اپنے بچے اپنے ہیں تو دوسروں کے بچے بھی اپنوں کی طرح کیوں نہیںلگتے؟ رنگ، نسل، قوم، قبیلے اگر تفاخر کا باعث ہیں تو اپنے تفاخر کے ساتھ دوسروں کے تفاخر کا احترام کیوں نہیں کیا جاتا؟ تجارت ، کاروبار اور مال واسباب کی دوڑ دھوپ اگر زندگی کے لیے ہے تو پھر یہ سب کچھ پانے کی خواہش میں زندگی ، زندگی کو کیوں کاٹ کھاتی ہے؟ شاید انسان طاقت کے نشے میں اندھا ہو جاتا ہے۔ شاید انسان  خدا بننا چاہتا ہے؟ لیکن جان لینا چاہیے کہ زمین حاکم تو پالتی ہے لیکن کسی کو خدا نہیں بننے دیتی ___  یہ زمین کی سرشت ہے۔ اور یقینا آسمان کی سرشت بھی یہی ہے___  ایسے میں کیا ہی اچھا ہو کہ حاکم، محکوموں پر مہربانی کریں تو سب کی زندگیوں میں خوشیوں کے پھول کھل سکتے ہیں‘‘۔(ص ۷۹-۸۰)
مصنف کی اس درد بھری اپیل پر دوستوں کو بھی دھیان دینا چاہیے اور اپنے آپ کو اُمت ِ مسلمہ سے منسوب کرنے والے حاکموں کو بھی سفارتی اور اخلاقی سطح پر اپنا فرض ادا کرنا چاہیے۔ اس رُودادِ اَلم کو پڑھنے کے لیے ملاحظہ ہو:سنکیانگ نامہ ،ڈاکٹر شفیق انجم ۔ الفتح پبلی کیشنز، ۳۹۲-اے ،گلی نمبر ۵۔اے، لین نمبر ۵، گل ریز ہائوسنگ سکیم۔۲ ، راولپنڈی ۔ صفحات : ۸۰ ۔ قیمت :۲۵۰ روپے۔ 

ایک اعلیٰ بھارتی پولیس افسر وبھوتی نارائن رائے (Vibhuti Narain Ray) کی تحریر کردہ یہ کتاب Hashimpura 22 May فرقہ وارانہ فسادات کی داستان ہی نہیں ہندستانی مسلمانوں  کی مظلومیت ، بے چارگی اور انصاف سے محرومی کا نوحہ بھی ہے ۔ یہ کتاب تحریر کرنے میں    وبھوتی نارائن رائے کو ،جو ہندی کے ایک اعلیٰ پائے کے ادیب بھی ہیں،۲۹ سال لگے !اور کتاب ہاشم پورہ قتل عام کی ۳۰ویں برسی پر شائع ہوئی ۔ تین عشروں پر پھیلے عرصے کو مختصر نہیں کہا جاسکتا۔ تاہم، اس طویل مدت کے دوران میں بھی نہ تو میرٹھ، ملیانہ اور ہاشم پورہ قتل عام کے متاثرین کو انصاف مل سکا ہے اور نہ ان قصورواروں کو کہ جنھیں میرٹھ کے مسلمان ’مجرم‘ قرار دیتے ہیں،کوئی سزا ہی دی جاسکی ہے ۔پھر یہ ’قصوروار‘ یا ’ مجرم‘ کوئی اور نہیں پولیس والے ہی ہیں ، یوپی کی بدنام زمانہ پی اے سی (پراونشل آرمڈ کانسٹیبلری ) کے جوان۔ یہ کتاب اس لیے خصوصی اہمیت رکھتی ہے کہ پولیس والوں کی درندگی اور مسلمانوں کی مظلومیت کو، ایک پولیس والے نے ہی اُجاگر کیا ہے ۔

یہ کتاب ابتدائیے اور نو ابواب پر مشتمل ہے۔ ہاشم پورہ کے قتل عام کی داستان انتہائی  دل دہلانے والے انداز میں تحریر کی گئی ہے ۔حقائق اور سچائی سے کہیں رُوگردانی نہیں کی گئی ہے۔ میرٹھ کے فسادات کا دور، شدیدقسم کی فرقہ پرستی کا دور تھا۔ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کی تحریک زوروں پر تھی، تب بھارتی وزیراعظم راجیوگاندھی (م: ۲۱مئی ۱۹۹۱ء)نے مسجد کا بند دروازہ کھلوا دیا تھا۔فرقہ وارانہ کشیدگی کا عالم یہ تھا کہ پی اے سی نے اپنے ہی ایک مسلم افسر کی اس وقت جان لے لی تھی، جب اس نے مسلمانوں کو ہراساں کیے جانے کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ انھی حالات میں۲۲ مئی۱۹۸۷ء کو وہ واردات ہوئی جسے وبھوتی رائے نے ’ہندستان میں حراستی قتل کی سب سے بڑی واردات‘ قرار دیا ہے ۔ اس رات جو کچھ ہوا رائے نے پہلے باب میں اسے بڑی تفصیل کے ساتھ تحریر کیا ہے۔ انھوں نے یہ پتا لگانے کی بھی کوشش کی ہے کہ ہاشم پورہ قتل عام کی بنیادی ’وجہ ‘ کیا تھی؟

بات ۲۱مئی ۱۹۸۷ءسے شروع ہوتی ہے جب ایک فوجی افسر میجر ستیش چندرکوشک کےبھائی پربھات کوشک کو ، جو مکان کی چھت پر تھا ایک گولی آکر لگی اور اس کی موت واقع ہوگئی۔ یاد رہے کہ ستیش اور پربھات کی خالہ شکنتلا شرما اس زمانے میں بھارتیہ جنتاپارٹی میں ایک شعلہ بیان لیڈرتھیں۔ ۲۱مئی کو پربھات کی موت ہوئی اور۲۲مئی کو پی اے سی کی ۴۱ویں بٹالین کمانڈر سریندر پال سنگھ کی قیادت میں ہاشم پورہ پہنچی ۔ موقعے کے گواہ بتاتے ہیں کہ پی اے سی کی ٹکڑی کے ساتھ میجر ستیش چندر کوشک بھی تھے۔ ۴۲مسلم نوجوانوں کو بندوق کی نوک پر گھروں سے نکال کر ٹرک میں بھرا گیا ۔ ٹرک پہلے مرادنگر پہنچا پھر مکن پور، جہاں اپرگنگا اور ہنڈن ندی کے کنارے پرمسلم نوجوانوں کو ٹرک سے اُترنے کے لیے کہا گیا ، وہ جیسے جیسے اترتے گئے ویسے ویسے پی اے سی والے انھیں گولی مارکر ندی میں پھینکتے گئے ۔ ’ ہاشم پورہ ۲۲مئی‘ ان ہی مقتولین کی داستان ہے ۔ دوایسے افراد کی زبانی یہ رُودادِ الم رائے نےجمع کی ہے، جو گولی باری سے اللہ کی مشیت سے اس لیے بچ نکلے تھے کہ دنیا کے سامنے پی اے سی کی درندگی کو افشا کرسکیں۔ رائےلکھتے ہیں:

رات کے کوئی ساڑھے دس بجے ہوں گے ، ہاپوڑ سے میں بس ابھی واپس لوٹا ہی تھا۔ ضلع مجسٹریٹ نسیم زیدی کو ان کی سرکاری رہایش گاہ پرچھوڑ کر میں سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کے طور پر اپنے گھر کے قریب پہنچا تو میری کار کی ہیڈلائٹس ڈرے سہمے وہاں کھڑے سب انسپکٹر وی بی سنگھ پر پڑیں، جو لنک روڈ پولیس اسٹیشن کے انچارج تھے۔ مجھے احساس سا ہوا کہ اس کے حلقے میں کوئی خوف ناک بات ہوگئی ہے ۔ میں نے ڈرائیور سے کارروکنے کو کہا اور باہر نکل آیا ۔

اس کے بعد وبھوتی رائے نے وی بی سنگھ کی زبانی یہ خبر سننے کی تفصیل بیان کی ہے کہ ’’پی اے سی نے چند مسلمانوں کو قتل کردیا ہے‘‘۔رائے کے دماغ میں سوالات اٹھنے لگے ، انھیں کیوں قتل کیا گیا ہے؟ کتنوں کو قتل کیا گیا ہے؟ انھیں کہاں سے اٹھایا گیا تھا؟ رائے نے ان سوالات پر صرف غور ہی نہیں کیا بلکہ وہ مرادنگر کی سمت روانہ ہوئے ۔ اپرگنگا اور ہنڈن ندی کے قریب ہونے والے قتل عام سے تین افراد بابودین، ذوالفقار اور قمرالدین بچ نکلے تھے ۔ بابودین کورائے نے ندی سے نکالا تھا، اس کو دوگولیاں لگی تھیں ۔دوسرے دو افراد بھی زخمی مگر زندہ تھے۔

آج ۳۰سال بعد لوگوں کے ذہنوں سے ہاشم پورہ قتل عام کے نقوش محو ہوچکے ہیں، جنھیں دوبارہ اُجاگر کرنے کا کام رائے نے اس کتاب سے کیا ہے۔۔ رائے نے اسے ’آزاد ہندستان میں حراستی قتل کی سب سے بڑی واردات‘ کہا ہے۔ وہ اسے ’ریاست کی بہت بڑی ناکامی‘ قرار دیتے ہیں‘۔ان کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک ایسی واردات ہے جس میں ریاست کے ایجنٹ، قاتلوں کے ساتھی بنے ہوئے تھے اور یہ ناقابلِ معافی جرم ہے ‘۔

جب ہاشم پورہ کی واردات ہوئی تھی تب رائے پڑوسی ضلع غازی آباد میں پولیس سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر فائز تھے ۔انھوں نے ذکر کیا ہے کہ وہ پی اے سی کی چھاؤنی بھی گئے اور اس ٹرک کو بھی دیکھا جس میں مسلمانوں کو بھر کرلے جایا گیا تھا، ٹرک کو پانی سے دھویا جارہا تھا۔رائے نے اعلیٰ پولیس افسران تک ’قتل عام‘ کی خبر پہنچائی۔ قتل عام کا معاملہ درج کرانے کے لیے ہر ممکنہ کوشش کی۔ انھوں نے تفتیشی ایجنسیوں کی چھان بین پر نگاہ رکھی۔ پراونشل آرمڈ کانسٹیبلری (پی اے سی) کی نقل وحرکت پر نظر رکھی۔ انھوں نے دیکھا کہ ’ ریاست اور پولیس نے مل کر قتل عام کی ایک المناک واردات پر پردہ ڈال دیا ہے ۔ ‘

 رائے نے ۲۲مئی کے روزہی اعلیٰ پولیس افسران کے سامنے پی اے سی کی چھاؤنی پر ’چھاپہ مارنے‘ کی تجویز پیش کی تھی جو ٹھکرادی گئی تھی۔ یہ تجویز انھوں نے صرف اعلیٰ  پولیس افسران کو نہیں اس وقت کے کانگریسی وزیراعلیٰ ویر بہادر سنگھ کے سامنے بھی رکھی تھی اور انھیں ’قتل عام‘ کی واردات سے بھی باخبر کیا تھا۔ پھر یہ تجویزبھی سامنے رکھی تھی کہ پی اے سی کی چھاؤنی پر چھاپہ مارا جانا چاہیے تاکہ ثبوت اکٹھے کیے جاسکیں‘‘۔ مگر کانگریس نے ہمیشہ کی طرح میرٹھ فسادات اور ہاشم پورہ قتل عام کو بھی نہ صرف دبانے کی بلکہ ساری واردات کو ’ من گھڑت‘ قرار دینے کی کوشش کی اور اس میں وہ اعلیٰ پولیس افسر بھی شریک تھے، جنھیں یہ خبر رائے نے خود دی تھی کہ قتل عام ہوا ہے۔ رائے کہتے ہیں کہ: ’’ہاشم پورہ کے مقتولین اور متاثرین کیسے جمہوریت کے تینوں ستونوں کی طرف سے نظرانداز کیے گئے، بلکہ تینوں ہی ستونوں، یعنی مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ نے ان سے ’ ناانصافی‘ کی‘‘۔ وہ لکھتے ہیں کہ: ’’ہاشم پورہ قتل عام کی کہا نی ہندستانی ریاست اور اقلیتوں کے درمیان گھناؤنے غیرمتوازن تعلقات، پولیس کے اخلاقی رویّے اور پریشان کن سست رفتار عدالتی نظام کی کہانی ہے‘‘۔ رائے کے مطابق: ’’ ہاشم پورہ آج بھی بہیمانہ ریاستی جبر اور ایک بے ریڑھ کی ایسی ریاست و حکومت کی علامت بنا ہوا ہے ،جو اپنے ہی لوگوں ۔۔۔قاتلوں کے آگے سرنگوں ہوگئی تھی‘‘۔

ایک پولیس اور انٹیلی جینس افسر کے طور پر رائے نے تفصیل سے بتا یا ہے کہ کیسے ’ تفتیش‘ کا رخ موڑا گیا ۔وہ بہت سارے چہروں سے پردہ اٹھاتے ہیں اور بہت سارے کرداروں کے ’رویّے‘ کو اُجاگر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کیسے اپرگنگا اور ہنڈن ندی کے قریب ہوئے قتل عام سے بچنے والے نوجوانوں کو وہ محفوظ ٹھکانے تک لے گئے ۔ وہ بھارتی سیاست دان اور دانش ور سیّدشہاب الدین (م: ۴مارچ ۲۰۱۷ء) سے ملاقات اور بابودین کو ان کے سامنے پیش کرنے کے ساتھ، ان کی ڈاکٹر صاحبزادی کی جاںفشانی اور انھی کے ذریعے ہاشم پورہ قتل عام کو اُجاگر کرنے کا ذکر بھی بڑی وضاحت سے کرتے ہیں ۔

راجیوگاندھی، پی چدمبرم (اُن دنوں وزیر داخلہ تھے)، ایل کے اڈوانی وغیرہ کا ذکر بھی کتاب میں موجود ہے ۔راجیوگاندھی نے پہلے ’ دل چسپی‘ دکھائی تھی اور پھر ’بے رخی‘۔ اس زمانے کی میرٹھ کی کانگریسی مسلمان رکن پارلیمنٹ محسنہ قدوائی (پ:۱۹۳۲ء)ان کے قلم کی کاٹ سے نہیں بچ پاتیں کہ جنھوں نے دوٹوک انداز میں، پارلیمانی اور عوامی سطح پر وبھوتی رائے کی مدد کرنے سے انکار کردیا تھا۔ وہ اپنی تحریر میں مسلم قائدین پر بھی برملا تنقید کرتے ہیں ۔ ان کے قلم کی دھار کے سامنے  سپرنٹنڈنٹ آف پولیس، سی آئی ڈی سیّد خالد رضوی اور اس وقت کے ضلع مجسٹریٹ نسیم زیدی پردے کے پیچھے چھپ نہیں پاتے۔

وبھوتی نارائن رائے نے جس کتاب کو تحریر کرنے کا آغاز۱۹۸۷ء سے کیا تھا اس کی تکمیل وہ ہاشم پورہ قتل عام کے مقدمے کے فیصلے کے بعد کرنا چاہتے تھے ۔ فیصلہ ۲۱مارچ ۲۰۱۵ءکو آیا ، اس سے قبل ۲۱جنوری ۲۰۱۵ءکو فیصلہ محفوظ کرلیا گیا تھا۔ عدالت نے اپنے فیصلےمیں تمام ملزم پولیس والوں کو بری کردیا ۔ رائے اس فیصلے پر کہتے ہیں کہ’ فیصلہ افسوس ناک ضرور ہے مگر اُمید کے برخلاف نہیں‘۔ رائے نے تسلیم کیا ہے کہ تفتیش کو دانستہ غلط رخ دیا گیا ۔ آخرکار ۳۱؍اکتوبر ۲۰۱۸ء کو، ۳۱برس بعد دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس ایس مرلی دھر اور جسٹس ونود گویل نے فیصلہ سناتے ہوئے، ہاشم پورہ قتل عام کے جرم میں پولیس کے ۱۶سابق افسروں کو عمرقید کی سزا سنا دی ہے۔

وبھوتی نارائن رائے (پ: ۲۸نومبر۱۹۵۱ء ، اعظم گڑھ، اور الٰہ آباد یونی ورسٹی سے ایم اے انگریزی) کی یہ کتاب Hashimpura 22 May: The Forgotten Story of Indian's Biggest Custodial Killing  ۳۰۴صفحات پر مشتمل ہے، جسے پینگوین ،انڈیا نے جولائی ۲۰۱۶ء میں شائع کیا ہے۔ بھارتی ۳۹۹ روپے یا ۱۵؍ڈالر اس کی قیمت ہے۔ جو شخص ’عظیم جمہوری ہندستان‘ کے غیرجمہوری چہرے کو دیکھنا چاہتا ہے، اسے یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔ انگریزی کے علاوہ   یہ ہندی میں بھی دستیاب ہے، مگر اب تک اُردو ترجمہ شائع نہیں ہوا۔ممکن ہے کوئی صاحب یہ خدمت انجام دے رہے ہوں۔

کتاب بے گناہ قیدی کیوں لکھی گئی ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس کے مصنف قانونی عدالت کے علاوہ عوامی عدالت میں بھی اپنا اور اپنے جیل کے ساتھی قیدیوں کا مقدمہ پیش کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ لوگ یہ دیکھ لیں کہ بھارت کی حکومتیں، پولیس، تفتیشی ایجنسیاں اور قانونی نظام کیسے دہشت گردی کے معاملات میں بے قصور ملوث کیے جانے والوں سے آنکھیں پھیر لیتا ہے۔یا بالفاظِ دیگر یہ نظام کیسے بے قصوروں کو جھوٹے معاملات ومقدمات میں ملوث کرنے میں پیش پیش رہتا ہے۔

ممبئی کے سلسلہ وار لوکل ٹرین بم دھماکوں ۱۱جولائی ۲۰۰۶ء کے مقدمے سے بَری ’بے گناہ قیدی‘ عبدالواحد شیخ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں؛’’ہم یہ بات شرح صدر کے ساتھ کہتے ہیں کہ ۱۱جولائی   بم بلاسٹ کیس میں گرفتار تمام قیدی بے گناہ ہیں۔ گذشتہ ۱۰ برسوں سے زائد عرصہ سے وہ قید و بند کی صعوبتیں بلا سبب برداشت کر رہے ہیں۔ ان کا گناہ صرف یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں‘‘ (ص ۸)۔ اس ملک کا ایک بہت بڑا طبقہ عبدالواحد شیخ کی اس بات کو تسلیم کرتا ہے، جن میں مسلمان ہی نہیں غیرمتعصب غیرمسلم بھی شامل ہیں۔ عبدالواحد شیخ تو ’۱۱جولائی مقدمے‘ سے بَری ہوگئے لیکن مکوکا (MCOCA) کورٹ نے ستمبر۲۰۱۵ء میں مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے ان ۱۲؍افراد کو ’ذمہ دار‘ قرار دیا ہے، جنھیں ان کے اعزہ و اقارب اور دوست احباب ہی نہیں، بلکہ ملک کی کئی غیر سرکاری تنظیمیں بشمول جمعیۃ العلماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) بھی بے گناہ سمجھتی ہیں۔ واضح رہے کہ جمعیۃ العلماء مہاراشٹر کا ’شعبہ قانونی اُمور‘ گلزار اعظمی کی زیرقیادت دہشت گردی کے کئی بے معنی مقدمات میں قانونی جنگ کے محاذ پر ہے۔ ان بارہ ’بے گناہوں‘ میں سے پانچ کو پھانسی کی سزا سنائی گئی اور سات کو عمر قید۔

عبدالواحد شیخ کی ۴۵۹صفحات پر مشتمل کتاب ’ بے گناہ قیدی‘ حال ہی میں منظرِ عام پر آئی ہے۔ اسے نئی دہلی کے اسی اشاعتی ادارے[books@pharasmedia.com] نے شائع کیا ہے، جس نے مہاراشٹر کے مستعفی انسپکٹر جنرل آف پولیس ایس ایم مشرف کی محققانہ کتاب کرکرے کے قاتل کون؟ شائع کرکے اے ٹی ایس (اینٹی ٹیررازم اسکواڈ)کے سربراہ آنجہانی ہیمنت کرکرے کی موت میں سنگھی دہشت گردوں کو ملوث بتایا تھا۔ اسی طرح ۲۶نومبر کے ممبئی کے دہشت گردانہ حملوں کو ایک نیا تناظر فراہم کیا تھا۔

مصنف نے ’تمہید ‘کے عنوان سے تحریر کیا ہے:’’دل میں یہ بات تھی کہ ’۱۱جولائی کیس‘ میں جس طرح ہمیں پھنسایا گیا، اس بارے میں تفصیل سے لکھ کر عوام کو آگاہ کرنا ضروری ہے،تاکہ خدانخواستہ اگر مستقبل میں پولیس کسی بے گناہ پر بم بلاسٹ کا کیس ڈالے، تو وہ کس طرح ذہنی طور پر تیار ہوکر کورٹ کچہری کا مقابلہ کرے، تاکہ پولیس کے شر سے زیادہ سے زیادہ محفوظ رہے اور پہلے روز سے بے خوف ہوکر کورٹ میں اپنا دفاع کرسکے ۔ یہ کتاب اس مقصد سے لکھی گئی ہے‘‘۔ کتاب چھے ابواب میں منقسم ہے۔

پہلا باب ’پولیس کا افسانہ‘ کے عنوان سے ہے۔ اس باب میں ضمنی عنوانات کے تحت کھارسب وے (باندرہ )بلاسٹ ،جوگیشوری بلاسٹ ، بوریولی بلاسٹ اور میرا روڈ بلاسٹ کے حقائق اُجاگر کیے گئے ہیں۔ ’سرکاری دہشت گردی‘ کے ضمنی عنوان کے تحت اے ٹی ایس کی چارج شیٹ کا ذکر ہے۔ اس کے بعد اے ٹی ایس کی چارج شیٹ کے مطابق ’جھوٹی کہانی‘ کے  ضمنی عنوان سے چارج شیٹ کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے ۔ چارج شیٹ میں ملزمان پر منصوبہ بند سازش کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ ان پراسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا (SIMI) اور لشکرطیبہ اور پاکستان میں دہشت گردوں سے روابط کا الزام عائد کرکے دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’پاکستان سے آنے والے دہشت گردوں کو فرار کرانے میں ملزمان کا کردار رہا ہے‘ ۔ چارج شیٹ سے منسلک ۱۲ ہزار سے زائد صفحات کو جوڑا گیا ہے۔ دوہزار سے زائد گواہوں کی فہرست شامل کی گئی ہے ۔ عبدالواحد شیخ تحریر کرتے ہیں ’’اے ٹی ایس پولیس کی یہ چارج شیٹ اور اس میں بیان کردہ کہانی سفید جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ہے‘‘(ص ۱۹)۔ وہ سفید جھوٹ کی وضاحت کرتے ہوئے کئی سوال اٹھاتے ہیں،مثلاً یہ کہ پولیس کسی ایک بھی پاکستانی کو زندہ گرفتار کرنے میں کیوں کامیاب نہیں ہوئی؟

چارج شیٹ میں بارہ پاکستانیوں کے نام دیے گئے ہیں، جو دومہینے تک ملزمان کے ساتھ رہے اور بم بلاسٹ کرکے چلے گئے لیکن پولیس کسی کو نہیں پکڑسکی۔ انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ تمام تیرہ ملزمان نے عدالت کوزبانی اور تحریری طور پر یہ بتایا ہے کہ ہم سب بے گناہ ہیں اور اس کیس میں غلط طریقے سے پھنسائے گئے ہیں۔ پھر ان ملزموں نے اپنا کال ڈیٹا ریکارڈ اور اس کی لوکیشن کورٹ میں پیش کرکے بھی اپنی بے گناہی ثابت کی اور یہ بتایا ہے کہ بلاسٹ کے وقت وہ ممبئی میں نہیں بلکہ دوسرے شہروں میں تھے۔ سوال یہ ہے کہ ان کے مصدقہ کال ڈیٹا ریکارڈ اور لوکیشن پر کیوں اعتبار نہیں کیا گیا ؟ اسی طرح سوال یہ بھی ہے کہ پھر پُراسرار طریقے سے ملزموں کے موبائل فون کے کال ڈیٹا ریکارڈ کیوں غائب کردیے گئے ؟

 بہت سے سوالات کے ساتھ عبدالواحد نے جھوٹی گواہیاں گھڑنے اور پولیس کے ذریعے جھوٹے شواہد اور ثبوتوں کو جمع کرنے کے طریق کار پر بھی روشنی ڈالی ہے، اور یہ بتایا ہے کہ اے ٹی ایس نے ان گواہوں کو، جن کی گواہی سے اے ٹی ایس کے افسانے کی قلعی کھل جاتی،  کورٹ میں گواہی کے لیے بلایا ہی نہیں! پھر پولیس آج تک عدالت میں یہ ثابت نہیں کرسکی ہے کہ گرفتار ملزمان پابندی (ban) سے پہلے ایس آئی ایم (اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ)کے ممبر تھے۔ اس باب میں ملزمان پر ٹارچر، دباؤ اور زوروجبر اور دھمکیاں دینے کا بھی ذکر ہے، اور ان حلف ناموں کا بھی، جو ملزمان نے دیے ہیں اور جن سے پولیس کا اصل چہرہ عیاں ہوکر سامنے آتا ہے ۔

دوسرے باب کا عنوان ’اقبالیہ بیان کی حقیقت‘ ہے۔ مصنف کا دعویٰ ہے کہ ’اعترافِ جرم‘ خود پولیس کے ہاتھوں تیار کیے جاتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ڈی سی پی نے کچھ لکھے ہوئے، کچھ ٹائپ کیے ہوئے کاغذات ملزم کے سامنے بڑھادیے کہ دستخط کرو۔ کسی ملزم نے کہا کہ مجھے   پڑھنے دیا جائے تو ڈی سی پی نے انکار کردیا ور اے ٹی ایس والوں کو اشارہ کرکے کہنے لگا کہ     تم لوگوں نے اس کو ’برابر گرم‘ (ٹارچر) نہیں کیا ہے۔ پھر ملزم نے احتجاج کیا تو اسے بلیک میل کیا گیا: ’’تیرے بھائی کو اور تیری بیوی کو اٹھاکر لائے ہیں۔ اگر تم نے دستخط نہیں کیے تو تیرے گھر والوں کو بم بلاسٹ کے کیس میں گرفتار کرلیں گے ، یہ ہمارے لیے کچھ مشکل نہیں ہے اور دنیا کی کوئی طاقت ہمارا بال بیکا نہیں کرسکتی ‘‘۔ اس باب میں اس وقت کے ’اینٹی ٹیررازم اسکواڈ‘ کے سربراہ پی رگھوونشی کی مذموم سرگرمیوں کا بھی ذکر ہے۔

تیسرے باب کا عنوان ہے ’نان فکشن(حقیقی)‘۔ اس میں ’۱۱جولائی کیس‘ کے ملزمان کے وہ حلف نامے اور بیانات پیش کیے گئے ہیں، جن میں انھوں نے خود کو بے گناہ کہا ہے اور بتایا ہے کہ پولیس نے انھیں جھوٹے کیس میں پھنسایا ہے۔ ان حلف ناموں کا مطالعہ رونگٹے کھڑے کردیتا ہے۔ ایک مثال ملاحظہ کیجیے۔ کمال احمد انصاری کو کورٹ نے ’مجرم‘ قرار دیا ہے۔ کورٹ میں اس کا ۱۷جولائی ۲۰۱۲ء کا پیش کردہ حلف نامہ چونکانے والا ہے۔ ایک جگہ تحریر ہے؛’’مجھے اے ٹی ایس والوں نے تھرڈ ڈگری ٹارچر کرنے کے بعد لالچ دینا شروع کیا کہ ’تو اس جھوٹی کہانی کے لیے ہاں کردے، ’تجھے ہم چارلاکھ روپے دیں گے ، تو سرکاری گواہ بن جا۔‘ میں نے ان کو منع کیا تو   اے ٹی ایس والوں نے میرے ساتھی ملزموں کو روپے اور فلیٹ کا لالچ دیا اور اے ٹی ایس چیف کے پی رگھوونشی نے ڈرانا شروع کیا کہ ہم لوگ تمھارے گھروالوں کو بھی پھنسائیں گے‘‘۔(ص۱۲۶)

مصنف ایک ملزم ڈاکٹر تنویر انصاری کا بیان پیش کرتے ہیں:’’۲۱نومبر۲۰۰۶ء کو جیل افسر گووند پاٹل مجھے انڈابیرک سے نکال کر جیل سپرنٹنڈنٹ شریمتی سواتی ساٹھے کے آفس میں لے گیا۔ تھوڑی دیر بعد رگھوونشی وہاں آیا تو مجھے اس کے سامنے زبردستی بٹھایا گیا۔ رگھوونشی غصّے میں تھا، کیوںکہ میں نے اس کے بتائے ہوئے طریقے پر نہ چل کر کنفیشن [اعترافی بیان]کا انکار کردیا تھا۔ وہ مجھے سرکاری گواہ بناکر جلد جیل سے نکلنے کا مشورہ دیتا رہا۔ اس نے مجھے اور میرے گھر والوں کو گالیاں دیں۔ ’سوچ لو اور اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرلو‘۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا‘‘۔ (ص۱۴۵)

احتشام قطب الدین کے بیان میں حیرت انگیز طور پر ڈی جی ونجارا کا ذکر ملاحظہ کریں: ’’ایک افسر نے مجھ سے پوچھ تاچھ کی اور کہا: ’’ہم کسی مسلمان کو پکڑتے ہیں تو اس کو گولی سے اڑادیتے ہیں‘‘۔ مئی ۲۰۰۷ء میں اس افسر کا فوٹو میں نے اخبار میں دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ افسر گجرات اے ٹی ایس کا چیف ڈی جی ونجارا ہے، جو سہراب الدین کے فرضی انکاؤنٹر کیس میں گرفتار ہوا‘‘۔(ص۱۶۶)

اس باب میں اے سی پی ونود بھٹ کی سنسنی خیز خودکشی کا بھی ذکر ہے۔ ونود بھٹ نے احتشام سے یوں گفتگو کی: اگست ۲۰۰۶ء کے آخری ہفتے میں مجھے بھوئی واڑہ اے ٹی ایس لاک اَپ کی دوسری منزل پر، اے سی پی ونود بھٹ کے سامنے لے گئے۔ جو بات چیت ہوئی وہ اس طرح ہے:

ونود بھٹ: میں نے اس کیس کے سارے کاغذات کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ پایا ہے کہ تم اور دیگر گرفتار ملزم ’۱۱جولائی بم بلاسٹ‘ میں ملوث نہیں ہو۔

احتشام: ہم یہی کہہ رہے ہیں کہ ہم بے گناہ ہیں ۔ پھر ہمیں اس کیس میں کیوں گرفتار کیا گیا؟

بھٹ: اصل مجرم نہیں ملے اس لیے ۔

احتشام: یہ سب کس کے اشارے پر ہورہا ہے ؟

بھٹ: پولیس کمشنر اے این رائے اور اے ٹی ایس چیف کے پی رگھوونشی مجھ پر سخت دباؤ ڈال رہے ہیں کہ تمھارے خلاف بم بلاسٹ کیس کی جھوٹی چارج شیٹ تیار کرکے کورٹ میں داخل کروں۔

احتشام: کیا آپ ایسا کریں گے؟

بھٹ: نہیں ،حالانکہ وہ میری بیوی کو ایک کیس میں پھنسانے کی بات کررہے ہیں۔

احتشام: کیا ہم چھوٹ جائیں گے ؟

بھٹ: اللہ پر بھروسا رکھو۔ مرجاؤں گا لیکن بے گناہوں کو اس کیس میں نہیں پھنساؤں گا۔

اس واقعے کے کچھ دن بعد ونود بھٹ نے خودکشی کرلی ۔

چوتھا باب ’پولیس ٹارچر(تعذیب)‘ کے عنوان سے ہے ۔ اس باب میں ’چکّی کا پٹّہ‘ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے، کہ جسمانی ٹارچر کے لیے پولیس سب سے زیادہ ’چکّی کے پٹّے‘ کا استعمال کرتی ہے۔ ہم نے اے ٹی ایس پولیس اسٹیشن میں جتنے ’پٹّے‘ دیکھے ہیں، ان پر یہ جملے ہندی زبان میں صاف طو رپر لکھے ہوئے تھے: (۱) سچ بول پٹّہ (۲) میری آواز سنو (۳) اندھا قانون (۴) یہاں پتھر بولتا ہے (۵) بولنے والا پٹّہ (بحوالہ ص۳۶۷)۔ ۱۸۰ڈگری ٹارچر، ننگا کرنا ، مخصوص اعضا پر بجلی کے جھٹکے، مقعد میں ٹارچر، آگ اور پانی کا عذاب، بالوں کا ٹارچر، سردی کا ٹارچر، نیند سے محروم کرنا، اکیلے بند کرنا، قتل کرنے کا ناٹک، حسیاتی بمباری اور گالیاں وغیرہ ٹارچر کے مختلف طریقے ہیں، جن پر کتاب میں بھرپور روشنی ڈالی گئی ہے (ص ۳۶۹ تا ۳۷۴)۔ ’جھوٹ بتانے والے ٹیسٹ‘ کے حقائق بھی اُجاگر کیے گئے ہیں۔

پانچواں باب ’انڈین مجاہدین‘ کے عنوان سے ہے۔ اس میں ’انڈین مجاہدین‘ نامی ایک پُراسرار تنظیم کا تذکرہ ہے۔ عبدالواحد شیخ نے جگہ جگہ کورٹ کے رویّے پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ:’’ کورٹ میں بال کی کھال اُتاری جاتی ہے اور ہر دستاویز کو باریکی سے جانچ پرکھ کر قبول کیا جاتا ہے، تو پھر (دفاعی گواہ) صادق (اسرار احمد شیخ)کے نام کے حلفیہ بیان کو اس کے دستخط کے بغیر کورٹ نے کیسے قبول کیا؟ کورٹ نے صادق کو عدالت میں بلاکر یہ جاننے کی کوشش بھی نہیں کی کہ یہ بیان تمھارا ہے یا نہیں؟ اور تم نے اس بیان پر دستخط کیوں نہیں کیے ؟‘‘ (ص۴۰۰)

چھٹا باب ’پولیس اسٹیٹ‘ انتہائی اہم باب ہے۔اس باب میں جرمن بیکری بلاسٹ سے لے کر صحافی آشیش کھیتان کے اسٹنگ آپریشن، مالیگاؤں بم بلاسٹ ۲۰۰۶ء، اورنگ آباد اسلحہ ضبطی کیس، اورنگ آباد میں سابق فوجی کے گھر سے ہتھیار کی برآمدگی اور اکثردھام مندر حملہ تک، الگ ضمنی عنوانات سے مصنف نے یہ ثابت کیا ہے کہ بھارت پولیس اسٹیٹ میں تبدیل ہوگیا ہے۔   وہ لکھتے ہیں: ’’پولیس کی غیر قانونی حراست کے دوران کئی پولیس افسران نے ہم سے بار بار کہا کہ مسلمان ملک کے غدار ہیں‘‘۔ ’’پاکستان کے خالق، دہشت گردی کے جنم داتا اور وطن پر بوجھ ہیں‘‘۔ انسپکٹر کھانولکر ، ورپے اور دھامنکر اکثر کہتے تھے کہ: ’’ہمیں اتنی پاور حاصل ہے کہ ہم کسی بھی مسلمان کو کسی بھی وقت انکاونٹر میں مارسکتے ہیں، بم بلاسٹ میں گرفتار کرکے پھانسی دلاسکتے ہیں، زندگی برباد کرسکتے ہیں اور کوئی ہمارا بال بیکا نہیں کرسکتا۔ اور یہی کام ’۱۱جولائی کیس‘ میں ہوا ہے‘‘۔

یہ کتاب ان مسلمانوں کا، جو دہشت گردی میں گرفتار کیے گئے مگرجو خود کو بے گناہ قرار دیتے ہیں ،اور حقائق بھی ان کی بے گناہی کی توثیق کرتے ہیں، مقدمہ عوامی عدالت میں پیش کرتی ہے۔ کیا لوگ جاگیں گے اور انصاف کی فراہمی کے لیے آواز بلند کریں گے؟

کتاب کے مصنف ’آخری بات‘ کے زیرعنوان ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’ملک کی موجودہ صورت حال میں اس کتاب میں لکھی ہوئی اکثر باتوں سے انکار یا اختلاف مشکل ہے۔ ہم بس اتنا چاہتے ہیں کہ اس جھوٹے کیس میں پھنسائے جانے کی وجہ سے ہم جس کرب سے گزرے ہیں، ملت کا دوسرا فرد اس سے نہ گزرے اور ملت کے علما و دانش وَر اس سلسلے کو روکنے کے لیے کوئی   لائحۂ عمل تیار کریں۔ خدارا ،کچھ کیجیے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے‘‘۔ (ص۴۵۹)