تاریخ کے آئینے میں ہر دور کی تصویر دیکھی جاسکتی ہے، اور یہ بھی امرواقعہ ہے کہ جو قومیں تاریخ سے سبق نہیں سیکھتیں، تاریخ انھیں سبق سکھا کر رہتی ہے۔ افسوس کہ تاریخ سے سبق کم ہی لیا جاتا ہے اور ہر دور میں متکبر حکمران وہی غلطیاں دہراتے چلے جاتے ہیں، جن کے سبب ان سے پہلے حکمران عبرت کا نشان بنے تھے۔ ہماری اپنی خودپسند قیادت کا معاملہ بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔
مشرقی پاکستان میں جب آئینی اداروں کے کردار کو تسلیم کرنے سے انکار کے نتیجے میں بے چینی کا لاوا پک رہا تھا، تو اس وقت کے فوجی حکمران جنرل یحییٰ خان نے اعلان کیا تھا کہ ’’میں ہتھیاروں کی زبان استعمال کرکے سب کو سرنگوں کر لوں گا‘‘۔ جن اہلِ دانش نے اس کو مشورہ دیا کہ ہتھیاروں کی زبان نہیں، دلیل کا ہتھیار استعمال کرو تو اس نے اسے کمزوری اور بزدلی قرار دے کر مسترد کر دیا اور پھر اسی سال ۱۶ دسمبر کو قائداعظم ؒکے پاکستان کے دوٹکڑے ہوگئے۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے سانحے سے ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ ۱۹۷۳ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان کی منتخب حکومت برطرف کر کے فوجی حل کا تباہ کن راستہ اختیار کیا، اور ۱۹۷۳ء کے دستور کے مخلصانہ نفاذ سے جو برکتیں ملک و قوم کو حاصل ہوسکتی تھیں ان سے محروم کردیا۔ یہ آگ پیپلزپارٹی کے بعد وجود میں آنے والی ایک فوجی حکومت کے دور میں سرد پڑی اور تصادم کی وہ شکل ختم ہوئی جو قومی وجود کو تباہی کی طرف لے جارہی تھی۔
یہ افسوس کا مقام ہے کہ ۱۹۸۸ء کے بعد آنے والے نئے جمہوری اَدوار میں بھی نہ مرکزی قیادت نے اور نہ صوبے کی قیادت نے بلوچستان کے مسئلے کا صحیح حل تلاش کرنے کی کوئی منظم اور مؤثر کوشش کی، اور زیرزمین آگ پھر سُلگنے لگی، جسے جنرل پرویز مشرف کے فوجی حکمرانی کے دور نے ایک بار پھر بھڑکا کر دہکتا ہوا الائو بنادیا اور ۲۰۰۱ء کے بعد طاقت کی زبان استعمال کرنا شروع کی،جس کی شدت میں بہت اضافہ ہواہے۔ لاقانونیت کا دور دورہ ہے۔ لاپتا افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے اور مسخ شدہ لاشیں سامنے آرہی ہیں۔ نواب اکبر بگٹی جو بلوچستان کے مسئلے کے سیاسی حل کے لیے فیصلہ کن کردار ادا کرسکتے تھے، ان کو جس بے دردی اور رعونت کے ساتھ راستے سے ہٹایا گیا اور جس طرح انھیں سپردِ خاک کیا گیا، اس نے غم و غصے کا وہ سیلاب برپا کیا ہے، جس نے صوبے ہی نہیں ملک کے دروبست کو ہلا دیا ہے۔
سیاسی قیادت حالات کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے مسئلے کا سیاسی حل نکالنا چاہتی تھی۔ پارلیمنٹ موجود رہی مگر اسے اس مسئلے پر بحث کرنے اور اس کا حل نکالنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ماضی میں جائیں تو ایک پارلیمانی کمیٹی نے تین چار مہینے کی تگ و دو اور تمام متعلقہ عناصر سے کامیاب مذاکرات کے ذریعے مسئلے کے حل کی کچھ واضح راہیں تلاش کیں، مگر اس کا کام بھی معرضِ خطر میںڈال دیا گیا اور اسے پرکاہ کی حیثیت نہ دی گئی___ مستقبل پر بات کرنے سے پہلے صحیح صورت حال، اصل مسائل اور ان کے حل کے نقشۂ راہ پر مختصر گفتگو ہوجائے تو پھر شاید سنگ ہائے راہ سے نجات کا راستہ بھی نکالا جا سکے۔
بلوچستان پاکستان کے رقبے کا ۴۵ فی صد اور آبادی کے تقریباً ۶ فی صد پر مشتمل ہے۔ تقریباً ۹۰۰ کلومیٹر کا ساحلی علاقہ اور ایران اور افغانستان سے سیکڑوں کلومیٹر کی مشترک سرحد ہے۔ تیل، گیس، کوئلے اور دوسری قیمتی معدنیات سے مالا مال ہونے کے باوجود اس وقت یہ ملک کا غریب ترین صوبہ ہے۔ بلوچ اور پشتون، آبادی کا تقریباً ۸۸ فی صد ہیں اور آپس میں برابر برابر ہیں، جب کہ باقی ۱۲ فی صد وہ آبادکار (settlers) ہیں، جو آہستہ آہستہ اس سرزمین کا حصہ بن چکے ہیں۔ ۲۰۲۳ء کی مردم شماری کے مطابق بلوچستان کی آبادی پاکستان کی کُل آبادی کا ۶ء۲ فی صد (ایک کروڑ ۴۸ لاکھ ۹۴ ہزار ۴سو) تھی۔ قبائلی نظام اب بھی مضبوط ہے اور اس کی روایات معاشرے میں راسخ ہیں۔
معاشی ڈھانچا نہ ہونے کے برابر ہے اور آبادی کے دُور دراز علاقوں تک پھیلے ہونے کی وجہ سے مواصلات اور سہولتوں کی فراہمی کا کام مشکل اور نسبتاً مہنگا ہے۔ جو سہولت دوسرے صوبوں میں مثال کے طور پر ایک کروڑ روپے کے خرچ سے میسر آسکتی ہے، صوبہ بلوچستان میں تین سے چار گنا زیادہ اخراجات درکار ہوتے ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ وسائل کی فراہمی کا کام کبھی اس صوبے کے لیے انصاف اور ضروریات کی بنیاد پر نہ ہوسکا۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے دیہی علاقے میں غربت، پاکستان کی اوسط غربت سے تقریباً دگنی ہے۔
مرکزی اور صوبائی حکومتیں مسلسل دعویٰ کرتی آرہی ہیں کہ بلوچستان کے لیے کئی بڑے منصوبے (Mega Projects) اور تین ہزار سے زیادہ دوسرے ترقیاتی منصوبے زیرِتکمیل ہیں۔ اس مقصد کے لیے اربوں روپے مختص کیے گئے ہیں۔ نہریں، سڑکیں اور ڈیم تعمیر کیے گئے ہیں، لیکن اس کے باوجود بلوچستان میں نفرت اور بے چینی کی لہریں کیوں اٹھ رہی ہیں؟ گیس اور مواصلات کا نظام متاثر ہونے سے روزانہ کروڑوں روپے کا نقصان ہورہا ہے اور اس میں انسانی جانوں کا ضیاع سب سے بڑا المیہ ہے جس کی کسی قیمت پر تلافی نہیں ہوسکتی۔
یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ کیا یہ محض چند سرداروں کی سرکشی اور شرارت ہے، جو اپنے ذاتی فائدے کی خاطر صوبے کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں؟ کیا اس میں بیرونی ہاتھ ہے اور بھارت کے اپنے عزائم ہیں کہ وہ گوادر بندرگاہ کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے؟ امریکا کی اپنی سوچ ہے اور بلوچستان میں چین کے عمل دخل پر وہ مضطرب ہے۔ گوادر ہو یا سینڈک، ہر جگہ امریکا، انڈیا اور بعض عرب ملکوں کو چینیوں کا کردار نظرآتا ہے۔ ان سب تصورات میں کچھ نہ کچھ صداقت بھی ہوسکتی ہے لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ مخالف قوتیں حالات کو اسی وقت استعمال کر سکتی ہیں جب ان کے لیے حالات سازگار ہوں اور بگاڑ موجود ہو اور مسائل کو بروقت اور صحیح طریقے پر حل کرنے کی کوشش نہ کی جائے، اور یہ سمجھ لیا جائے کہ بس قوت کے ذریعے سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔
یہ ۲۰۰۴ء کی بات ہے کہ مجھے بطور پارلیمنٹیرین، بلوچستان کے حالات کا زیادہ گہرائی سے مطالعہ کرنے اور صوبے کے چند مرکزی مقامات کا تفصیلی دورہ کرنے، اپنی آنکھوں سے حالات کا مشاہدہ کرنے اور بہت سے ذمہ دار افراد سے حقائق کو جاننے اور مسائل کو سمجھنے کا موقع ملا۔ اس کے بعد جہاں مجھے یقین ہے کہ آج بھی تمام معاملات سیاسی عمل اور افہام و تفہیم کے ذریعے حل ہوسکتے ہیں، وہیں میرا یہ احساس اور بھی پختہ ہوگیا ہے کہ کچھ برسرِاقتدار قوتیں مسائل کو حل کرنے میں واقعی کوئی دل چسپی نہیں رکھتیں بلکہ انھیں مزید الجھانے اور بگاڑنے کے درپے ہیں۔ اس کی نمایاں ترین مثال وہ پارلیمانی کمیٹی ہے جس کا اعلان اپنے مختصر دورِ وزارتِ عظمیٰ میں چودھری شجاعت حسین نے کیا تھا۔ یہ اس حیثیت سے ایک منفرد کمیٹی تھی کہ اس میں پارلیمنٹ کی تمام سیاسی جماعتیں شریک تھیں بشمول قوم پرست جماعتوں کے، اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اس میں برسرِاقتدار جماعتیں اور اس کے حلیفوں کے نمائندے شامل تھے۔
اِس پارلیمانی کمیٹی نے مزید دو کمیٹیاں قائم کیں: ایک کمیٹی سینیٹر وسیم سجاد کی سربراہی میں، جس کا کام دستوری معاملات پر سفارشیں پیش کرنا تھا، اور دوسری کمیٹی سینیٹر مشاہد حسین سیّد کی سربراہی میں، جسے سیاسی اور معاشی معاملات پر سفارشات مرتب کرنا تھا۔ مجھے دوسری کمیٹی میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اس کمیٹی نے کھلے دل سے اور ملک کے مفاد میں اپنی پوری کارروائی آگے بڑھائی اور پارٹی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر، ملک کے مفاد اور انصاف کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر اپنی متفقہ سفارشات مرتب کیں۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ یہ سفارشات پارلیمنٹ کے سامنے باضابطہ طور پر پیش کرنے میں رکاوٹیں پیدا کی گئیں، ان پر عمل درآمد کی بات تو دُور کی چیز ہے۔ اس کے بعد سنگین واقعات رُونما ہوئے اور حالات مزید بگڑتے چلے گئے۔
ہماری نگاہ میں مسئلے کے حل کے لیے سب سے پہلے چند بنیادوں کا تعین اور چند حقائق کا فہم ضروری ہے:
۱- مسئلے کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں۔ مسئلہ سیاسی ہے اور اس کا حل بھی سیاسی ہی ہوسکتا ہے۔
۲- مسئلے کے حل کے لیے تمام متعلقہ عناصر کو افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کرنا ہوگا اور کوشش کرنا ہوگی کہ مکمل اتفاق رائے اور بصورت دیگر اکثریت کے مشورے سے معاملات کو طے کیا جائے۔
۳- یہ اصول تسلیم کیا جانا چاہیے کہ محض ’مضبوط مرکز‘ کا فلسفہ غلط اور انصاف کے اصولوں کے منافی ہے۔ ’مضبوط مرکز‘ اسی وقت ممکن ہے جب صوبے مکمل ہم آہنگی سے ایک دوسرے کے لیے مضبوطی کا ذریعہ اور وسیلہ بنیں۔ مرکز اور صوبوں میں تضاد و اختلاف کی جگہ مفاہمت اور ہم آہنگی کا رشتہ ہونا چاہیے۔ قومی دستور کا بھی یہی تقاضا ہے، جسے پورا نہیں کیا گیا۔
۴- چوتھا بنیادی اصول یہ ہے کہ جس طرح زنجیر کی مضبوطی کا انحصار اس کی کمزور ترین کڑی پر ہوتا ہے، اسی طرح ملک کی مضبوطی کے لیے بھی ضروری ہے کہ کمزور اور غریب طبقے کو اتنا مضبوط کیا جائے اور اس سطح پر لایا جائے کہ سب برابری اور خوش حالی کے مقام پر آجائیں۔ دوسرے الفاظ میں سب انصاف کے حصول اور کمزور کو مضبوط بنانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوں۔ انصاف نام ہی توازن اور برابری کا ہے اور یہی چیز آج تک ہماری معاشی منصوبہ بندی اور سیاسی پالیسی میں مفقود رہی ہے۔
۵- اس پورے عمل میں اصل اہمیت افراد، علاقے، صوبے اور پوری قوم کے حقوق کا تحفظ اور سیاسی اور معاشی عمل میں تمام عاملین کی بھرپور شرکت اور کارفرمائی کو حاصل ہے۔ فردِواحد کی حکومت یا محض کسی خاص گروہ اور مقتدر گروہ کے ہاتھوں میں قوت اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت کا ارتکاز خرابی کی جڑ ہے۔ مسئلہ معاشی ہے مگر اس سے بھی زیادہ صوبوں کے اپنے وسائل پر اختیار اور سیاسی اور معاشی فیصلوں میں شرکت اور ترجیحات کے تعین کا ہے۔ منہ بند کرنے کے لیے کچھ گرانٹس یا مراعات کے دے دینے سے مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ ملکیت، اختیار اور اقتدار اور فیصلوں میں شرکت کے انتظام کو ازسرِنو مرتب کرنا اصل ضرورت ہے۔ ترقی بلاشبہہ مطلوب ہے مگر اس انداز میںکہ رشتہ حاکم اور محکوم کا نہ ہو بلکہ سب کے فیصلے سے اور سب کی شراکت سے معاملات طے ہوں۔ وسائل پر اختیار بھی آزادی کا لازمی حصہ ہے۔
۶- اس سلسلے میں پاکستانی فوج کے لیے ضروری ہے کہ وہ صرف اور صرف دفاعِ وطن کی ذمہ داری سول حکمرانی کے تحت انجام دے۔ ساری خرابیوں کی جڑ سیاسی اور اجتماعی معاملات میں فوج کی مداخلت اور اس کا ایک مقتدر سیاسی قوت بن جانا ہے۔ فوج کے سوچنے کا انداز (mind-set) سول نظام سے بہت مختلف ہے اور دونوں کا اپنے اپنے حدود میں رہ کر تعاون ہی ملک کے نظام کی صحت کی ضمانت ہوسکتا ہے۔ تحکمانہ انداز بگاڑ پیدا کرتا ہے، اس سے خیر رُونما نہیں ہوسکتا۔
ان اصولوں کی روشنی میں یہ چند تجاویز پیش نظر رہنی چاہئیں:
بلوچستان ہی نہیں، تمام صوبوں اور ملک کے سب علاقوں اور متاثرہ افراد کے مسائل افہام و تفہیم سے حل ہوسکتے ہیں۔ یہ سب صرف اسی وقت ممکن ہے، جب اصل فیصلے پارلیمنٹ میں ہوں، عوام کے مشورے سے ہوں۔ مکالمے کے ذریعے سیاسی معاملات کو طے کیا جائے۔ فوجی اور سول مقتدرہ کی گرفت کو مفادات کی سطح سے بلند ہوکر ختم کیا جائے، اور عوام اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے جمہوری اداروں کے ذریعے اپنی قسمت کا فیصلہ خود کریں۔
صوبائی قیادت کی بھی بڑی ذمہ داری ہے۔ بلوچستان کی صوبائی قیادتیں بھی حالات کے بگاڑ کے سلسلے میں ایک حد تک ذمہ دار رہی ہیں لیکن زیادہ ذمہ داری مرکزی قیادت اور خصوصیت سے حکمران طبقے پر عائد ہوتی ہے۔
اسی طرح ہم یہ انتباہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ بلوچستان میں ظلم و زیادتی کا معاملہ یک طرفہ نہیں ہے۔ نسل پرستی کا پرچم اُٹھانے والوں نے جس طرح ملک عزیز کے دوسرے حصوں سے تعلق رکھنے والے شہریوں پر زندگی تنگ کی ہے اور شناختی کارڈ دیکھ دیکھ کر ان کو قتل کیا ہے۔ ان کا یہ فعل اخلاقی، تہذیبی اور انسانی حوالوں سے ایک قبیح اور شرمناک حرکت ہے، اور اس ضمن میں جعفرایکسپریس کا واقعہ اندوہ ناک ہے۔
بالکل اسی طرح ریاست کے ذمہ دار مسلح اداروں کی جانب سے بلاجواز کسی سول آبادی کو نشانہ بنانا بھی قانونی اور اخلاقی درجے میں بدترین فعل ہے، جس کی قیمت پورے ملک کو ادا کرنے کے لیے نقصان اُٹھانا پڑتا ہے۔ پورے پاکستان کا دامن بلوچ ہم وطنوں کے لیے کھلی بانہوں کے ساتھ کشادہ رو ہے، مگر گذشتہ برسوں کے دوران علاقائی و نسلی بنیاد پر قتل کرنے کا یہ کلچر بدترین فسطائیت بن گیا ہے اور جو اس انڈین ڈیزائن کا حصہ ہے، جس کے تحت ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان میں غیربنگالی سول آبادی کا قتل عام کیا گیا تھا اور پھر ۱۹۸۵ء کے بعد کراچی و حیدرآباد میں مخصوص نسل پرستی کی آگ بھڑکائی گئی تھی۔
بلوچستان کی سیاسی و معاشی ناہمواری اپنی جگہ بڑی تلخ حقیقت ہے ، جس کی ذمہ داری ایک طرف مرکزی و صوبائی حکومت پر آتی ہے تو دوسری جانب خود بلوچستان کے مقتدرطبقوں اور نوابوں کی ایک نسل کو اس ظلم سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ مگر اس میں اہم بات یہ ہے کہ مبالغہ آمیز پروپیگنڈے کے ساتھ نفرت کی آگ بھڑکانے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ جھوٹ کی کوئی اخلاقی بنیاد نہیں ہوتی۔
مشرقی پاکستان میں جھوٹے اعداد و شمار کی آگ بھڑکا کر نہ صرف ملک توڑا گیا، بلکہ انڈیا کی غلامی کا طوق بھی پہن لیا گیا جس سے نکلنے کی آج تک کوششیں جاری ہیں۔ آج خود بنگلہ دیش میں تسلیم کیا جارہا ہے کہ ’’اگر تلہ سازش کیس سچا تھا اور مغربی پاکستان کے خلاف معاشی ہمواری کا پروپیگنڈا جھوٹا تھا‘‘۔ ہم سوشل میڈیا پر متحرک دشمن ملک اور دشمن کے ہاتھوں آلہ کار بننے والوں کے صریح جھوٹ پھیلانے کے عمل کو ایک گھنائونا کھیل تصور کرتے ہیں۔ افسوس کہ لوگ نادانی میں ایسی جھوٹی اور مبالغہ آمیز پوسٹیں آگے پھیلاتے چلے جاتے ہیں۔ اس ضمن میں خاص طور پر نسلِ نو کو احتیاط برتنی چاہیے کہ آخرکار اس کا نقصان اسی درخت کو پہنچے گا، جس پر ان کا آشیانہ ہے۔
۸فروری ۲۰۱۲ء کو امریکی کانگریس کیSurveillance and Oversight کمیٹی نے بلوچستان کے مسئلے پر باقاعدہ ایک نشست منعقد کی ہے، اور ۱۷فروری ۲۰۱۲ء کو اس کمیٹی کی سربراہ ڈینا روہربافر نے کانگریس میں ایک مسودۂ قانون اپنے دو مزید ساتھیوں کے ساتھ جمع کرا دیا جس میں بلوچستان کے پاکستان سے الگ ملک بنائے جانے اور علیحدگی پسند بلوچوں کی جدوجہد کی تائید اور سرپرستی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ یہ شرانگیز اقدام امریکی سیاسی قوتوں کی طرف سے اس نوعیت کی کوئی پہلی کوشش نہیں ہے۔ امریکا ایک طرف تو پاکستان سے تعاون کے مطالبے کرتا ہے اور دوسری طرف پاکستان کی آزادی، حاکمیت، خودمختاری اور استحکام پر بے دریغ حملے کرتا ہے۔ اس کی زمین اور فضائی حدود کو پامال کرتا ہے اور ملک میں تخریب کاری کی نہ صرف سرپرستی کرتا ہے، بلکہ سی آئی اے کے امریکی کارندوں اور پاکستان سے بھرتی کیے گئے کرائے کے گماشتوں (Mercenaries)کو بے دریغ استعمال کرتا ہے۔ بھارت بہت پہلے سے اس قسم کی مذموم حرکتوں کی پشتی بانی کرتا رہا ہے اور اب امریکی بھارتی اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ کا یہ مشترک ہدف ہے۔
امریکا اس وقت پاکستان کے خلاف تین B کی حکمت عملی پر گامزن ہے: Bribe (رشوت)، Blackmail (کمزوری سے فائدہ اُٹھانا) اور Bullet (گولی) کا استعمال ۔ وقتاً فوقتاً امریکی تھنک ٹینکوں کی رپورٹوں اور امریکی کانگریس کی کارروائیوں کی شکل میں معاملہ زیادہ ہی گمبھیر ہوتا جارہا ہے۔ افسوس ہے کہ ہماری سیاسی اور فوجی قیادت اب بھی امریکا کے اصل کھیل کو سمجھنے اور اس کے مقابلے کے لیے جان دار حکمت عملی بنانے سے قاصر ہے۔ان حالات میں قوم کے لیے اس کے سوا کوئی اور عزّت اور آزادی کا راستہ باقی نہیں رہا ہے کہ ایسی قیادت سے نجات پائے اور ایسی قیادت کو برسرِاقتدار لائے جو پاکستان کی آزادی، حاکمیت، استحکام اور مفادات کی بھرپور انداز میں حفاظت کرسکے۔
بلوچستان کے مسئلے کے دو اہم پہلو ہیں اور دونوں ہی بے حد اہم اور فوری اقدام کا مطالبہ کرتے ہیں:
امریکا جو کھیل کھیل رہا ہے وہ نیا نہیں۔ اس کا ہدف پاکستان کی آزادی، اس کا نظریاتی تشخص اور اس کی ایٹمی صلاحیت پر ضرب لگانا ہے اور اب ایک عرصے سے اس ہمہ گیر حکمت عملی کے ایک پہلو کی حیثیت سے بلوچستان کارڈ استعمال کیا جارہا ہے۔ ہنری کسنجر سے لے کر حالیہ قیادت تک سب کے سامنے ایک مرکزی ہدف مقامی چہروں کے ذریعے اُمت مسلمہ کی تقسیم در تقسیم اور اس کے وسائل پر بلاواسطہ یا بالواسطہ قبضہ ہے۔ اس پالیسی کا پہلا ہدف مقامی قومیتوں کے ہتھیار کے ذریعے دولت عثمانیہ کا شیرازہ منتشر کرنا تھا۔ پھر افریقہ کو چھوٹے چھوٹے ملکوں میں بانٹ کر غیرمؤثر کردیا گیا۔ ’بالفور ڈیکلریشن‘ کے سہارے عالمِ عرب بلکہ عالم اسلام کے قلب میں اسرائیل کا خنجر گھونپنا بھی کچھ دوسرے مقاصد کے ساتھ ساتھ اسی حکمت عملی کا ایک حصہ تھا۔ پاکستان کو ۱۹۷۱ء میں دولخت کرنا، سوڈان اور انڈونیشیا کے اعضا کو کاٹ کر اپنی باج گزار ریاستیں وجود میں لانا، عراق اور افغانستان میں زبان، نسل اور مسلک کی بنیاد پر ان ممالک کی سرحدوں کو بدلنے کی کوشش کرنا، کرد قومیت کو عراق، شام اور ترکیہ کے علاقوں میں ہوا دینا ۔ پھر عراق، ایران، شام، لیبیا ، یمن اور ترکیہ میں دہشت گردی اور خون خرابے کی آگ بھڑکانا، یہ سب اسی حکمت عملی کے مختلف پہلو ہیں۔
پاکستان کی مغربی سرحد پہ خونیں کارروائیاں ہوں، یا مقبوضہ جموں و کشمیر میں برہمنی سامراجیت کی یلغار، یہ وارداتیں بھی اسی صہیونی اور صلیبی جنگ کے شاخسانے ہیں۔ ذرا پیچھے جائیں تو یہ ۲۰۰۶ء کی بات ہے رالف پیٹرز نے Armed Forces Journal US میں Blood Borders (خونیں سرحدیں) کے عنوان سے ایک شرانگیزمضمون لکھا تھا، جس میں پاکستان کی تقسیم اور تبدیل کی جانے والی سرحدوں کا نقشہ چھاپا تھا۔ اس میں آزاد بلوچستان کو ایک الگ ملک کی حیثیت سے دکھایا گیا تھا۔ بھارت اور امریکا دونوں اپنے اپنے انداز میں پاکستان میں تخریب کاری کے ساتھ علیحدگی کی تحریکوں کی سرپرستی کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کے اندرونی حالات کو خراب کرنے کی کوششیں تیز تر ہوگئی ہیں۔ نیز امریکا اور انڈیا دونوں کی نگاہ میں پاکستان اور چین کا قریبی تعلق اور خصوصیت سے بلوچستان میں ’سی پیک‘ کا راستہ روکنے اور پاکستان ایران گیس پائپ لائن اور بجلی کی فراہمی میں تعاون کو مؤخر و ملتوی اور معاملے کو خراب کرنا ہے۔
امریکا کے ان جارحانہ عزائم کو سمجھنا اور ان کا مؤثر انداز میں مقابلہ کرنا دفاعِ پاکستان کا اہم ترین پہلو ہے۔ اس کے لیے ’امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے نکلنا اور علاقے کے ممالک کے تعاون سے فیصلہ کن جدوجہد کرنا وقت کی اصل ضرورت ہے۔ اس کے لیے قوم کو بیدار اور متحرک کرنا ازبس ضروری ہے۔
مسئلے کا دوسرا پہلو بلوچستان کے حالات اور ان کی اصلاح ہے۔ بیرونی ہاتھ اپنا کام کر رہا ہے مگر اسے یہ کھیل کھیلنے کا موقع ہماری اپنی سنگین غلطیاں اور حالات کو بروقت قابو میں نہ لانے بلکہ مزید بگاڑنے والی پالیسیاں ہیں۔
ہمیں بڑے دُکھ سے یہ حقیقت بیان کرنا پڑ رہی ہے کہ بلوچستان اپنی تمام اسٹرے ٹیجک اہمیت اور معدنی اور مادی وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود ملک کا پس ماندہ ترین صوبہ ہے اور معاشی اور سیاسی اعتبار سے بنیادی ڈھانچے سے محروم ہے۔
جب تک یہ مسئلہ اپنے تمام سیاسی، سماجی اور معاشی پہلوئوں کے ساتھ حل نہیں ہوتا، بیرونی قوتوں کے کردار پر بھی قابو نہیں پایا جاسکتا۔ اصل مسئلہ سیاسی، معاشی اور اخلاقی ہے۔ حقیقی شکایات کا ازالہ ہونا چاہیے۔ فوجی آپریشن کسی بھی نام یا کسی بھی عنوان سے ہو، وہ مسائل کا حل نہیں۔ حل کا ایک ہی راستہ ہے، اور وہ اس مسئلے سے متاثر تمام طبقات کو افہام و تفہیم اور حق و انصاف کی بنیاد پر مل جل کر حالات کی اصلاح کے لیے مجتمع اور متحرک کرنا ہے۔
مذاکرات کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ اعتماد کا فقدان بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ اس لیے اعتماد کی بحالی ہی پہلا قدم ہوسکتا ہے جس کے لیے فوجی آپریشن کا خاتمہ، عام معافی، تمام گرفتار شدہ اور لاپتا افراد کی بازیابی، اور بہتر فضا میں تمام سیاسی اور دینی قوتوں کی شرکت سے معاملات کو سنبھالنا ہے۔بیرونی قوتوں کا کھیل بھی اسی وقت ناکام بنایا جاسکتا ہے، جب ہم اپنے معاملات کی اصلاح کریں اور جو حقیقی شکایات اور محرومیاں ہیں ان کی تلافی کا سامان کریں۔اصل چیز اعتماد کی بحالی، سیاسی عمل کو شروع کرنا اور تمام قوتوں کو اس عمل کا حصہ بنانا ہے۔ عوام ہی کو حقیقی طور پر بااختیار بنانے سے نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔ بہت وقت ضائع ہوچکا ہے۔ ایک ایک دن اور ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ یہ ہمارا گھر ہے اور ہم ہی کو اسے بچانا اور اس کی تعمیرنو کی ذمہ داری ادا کرنا ہے۔ مسئلہ صرف بلوچستان کا نہیں بلکہ پاکستان کا ہے۔ بلوچستان کا پاکستان سے باہر کوئی مستقبل نہیں ہے اور نہ پاکستان کا بلوچستان کے بغیر وجود ممکن ہے۔ سیاسی اور عسکری دونوں قیادتوں کا امتحان ہے۔ اس لیے کہ ؎
یہ گھڑی محشر کی ہے ، تو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل ، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے