’’روشن خیالی‘‘ اور ’’اعتدال پسندی‘‘ بڑ ے خوش نما الفاظ ہی نہیں‘ بڑے دل پذیر تصورات بھی ہیں۔ اگر مسلمان تہذیب و ثقافت‘ معاشرت اور شریعت پر اسلام کے فکری‘ نظریاتی اور اخلاقی تناظر میں غور کیا جائے‘ تو یہ اس دین اور تہذیب کی امتیازی خصوصیات میں سے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معاملہ عقیدے کا ہو یا عمل کا‘ فرد کی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی‘ عبادت ہو یا معیشت‘ حتیٰ کہ دوستی کے امور ہوں یا دشمنی اور جنگ کے‘ ان سب میں اسلام نے عدل کا حکم دیا ہے جو اعتدال اور توازن کی علامت ہے۔ اسلام نے ہر سطح پر ہراقدام کے لیے احتساب کی شرط لگائی ہے جو شعور‘ اختیار اور روشن خیالی پر منحصر ہے اور تعصب‘ جہل اور جانب داری سے محفوظ رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اُمت مسلمہ کو خیراُمت اور اُمت وسط قرار دیا ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام امور میں میانہ روی اور وسط کی راہ کو بہترین راستہ اور طریقہ قرار دیا ہے (خیر الامور اوسطہا)۔ اس لیے اگر روشن خیال اعتدال پسندی کی بات کی جائے تو اس پر تعجب یا اعتراض کچھ بے محل معلوم ہوتا ہے۔ لیکن مشکل یہ آپڑی ہے کہ آج جس ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کی بات کی جا رہی ہے اس کا پس منظر ہمارا اپنا دین‘ ہماری اپنی تہذیب‘ ہماری اپنی روایت اور ہماری ضرورت نہیں بلکہ وہ ایک خاص تاریخی عمل کا حصہ بن گئی ہے اور دنیا کے‘ خصوصیت سے‘ مسلم دنیا کے لیے جس نئے سیاسی اور تہذیبی نقشے میں رنگ بھرا جارہا ہے‘ اس کا اہم رنگ ہے۔ عالمی حالات اور رجحانات کا جائزہ لیجیے تو صاف نظر آ رہا ہے کہ اس کا تعلق بیرونی دبائو اور مطالبات سے ہے۔
جو نیا عالمی نظام وضع کیا جا رہا ہے وہ استعمار کی سب سے جامع اور گمبھیر صورت (version) ہے جس میں عسکری‘ سیاسی‘ معاشی اور ثقافتی پہلو مساوی اہمیت رکھتے ہیں۔ اس کا ہدف دنیا کے تمام ممالک اور اقوام کو ایک سوپر پاورامریکا کی صرف سیاسی اور عسکری چھتری تلے لانا نہیں بلکہ فکری‘ معاشی‘ مالیاتی اور ثقافتی طور پر بھی ایک ہی نظامِ اقدار (value system) سب پر مسلط کرنے کا منصوبہ ہے۔ اسے جبر واختیار اور ترغیب و ترہیب کے ہر ممکنہ ذرائع کے استعمال سے کامیاب کرانا مقصود ہے۔ اس ہمہ جہتی حکمت پر سرد جنگ کے دور کے ختم ہونے کے بعد سے‘ بڑی چابک دستی سے عمل کیا جا رہا ہے اور ۱۱ستمبر کے بعد کے اقدامات اس وسیع تر حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ اسے سمجھے بغیر روشن خیالی اور میانہ روی کی جو آوازیں آج اٹھ رہی ہیں‘ ان کی حقیقت اور مضمرات کو سمجھنا ممکن نہیں۔ اس ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کا کوئی تعلق ہماری اپنی ضروریات سے نہیں‘ یہ ہمارے اپنے تہذیبی لنگر سے مربوط اور وابستہ نہیں بلکہ یہ عنوان ہے اس تبدیلی کا‘ جو اسلام اور مسلم معاشرے اور تہذیب کو‘ اس کی اپنی اساس سے ہٹاکر‘ مغرب سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کی جا رہی ہے اور آج سے نہیں سامراج کی یلغار کے پہلے دور ہی سے کی جا رہی ہے۔ البتہ استعمار کی تازہ یورش میں اس کو ایک زیادہ مرکزی کردار دیا گیا ہے۔
گذشتہ ربع صدی میں امریکی دانش ور‘ پالیسی ساز اور میڈیا ایک نئی تہذیبی جنگ میں مصروف ہے اور اس کا ہدف مغرب کے لبرل‘ معاشی اور سیاسی نظام کو پوری دنیا پر مسلط کرنا ہے۔ ہم انھی صفحات میں اس سلسلے میں دسیوں کتب اور تحقیقی اور تجزیاتی رپورٹوں کا ذکر کر سکتے ہیں۔ اس پوری حکمت عملی کو مشہور امریکی رسالہ فارن پالیسی (Foreign Policy) کے ایڈیٹر جوزف نائی (Joseph Nye) نے اپنے ایک مضمون میں کسی تکلف کے بغیر مختصر طور پر بیان کردیا ہے۔ وہ کہتا ہے:
عالمی سیاست میں طاقت کی نوعیت میں تبدیلی آ رہی ہے۔ طاقت کا مطلب یہ ہے کہ آپ جو حاصل کرنا چاہتے ہیں حاصل کریں۔ اور اگر ضروری ہو تو اسے امر واقع بنانے کے لیے دوسروں کے رویوں کو تبدیل کر دیں۔
(Re-Ordering the World: The Long-term implications of 11th Sept. ed. by Mark Leonard. Foreword by Tony Blair, The Foreign Policy Centre, London 2002)
جنگ وہ آخری اور قطعی کھیل ہے جس میں عالمی سیاست کے کارڈ کھیلے جاتے ہیں اور طاقت کا تناسب ثابت کیا جاتا ہے۔
البتہ اب نیوکلیر اسلحے کے ایک کارفرما قوت بن جانے سے حالات کروٹ لے رہے ہیں۔ نیز دنیا کی مختلف اقوام میں قومیت کے تصور کے جاگزیں ہوجانے سے عالمی سیاست کے دروبست میں تبدیلی آگئی ہے۔ اسی طرح عالمی سرمایہ داری کی موجودہ شکل جس میں معاشی فوائد کا حصول‘ دنیا کے ممالک کی منڈیوں پر قبضے کے ذریعے ان سے فائدہ اٹھانے کے اسلوب‘ کثیرالقومی کمپنیوں کا کردار یہ سب جنگ اور محض قوت کے ذریعے دوسروں کو قبضے میں رکھنے کو اگر مشکل نہیں تو مہنگا (too costly)بنائے جا رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں فوجی اورمعاشی قوت جسے وہ Hard Power کہتا ہے مؤثرتو ہیں لیکن اب جن عوامل کا کردار بڑھ رہا ہے انھیں جوزف نائی Soft Powerکہتا ہے:
اس صورت میں یہ بات اہمیت رکھتی ہے کہ عالمی سیاست کا ایجنڈا ترتیب دیا جائے اور دوسروں کو فوجی اور اقتصادی ہتھیاروں کی دھمکی یا استعمال کے ذریعے بزور طاقت اس طرف لایا جائے۔ طاقت کا یہ پہلو کہ دوسرے وہ چاہنے لگیں جوآپ چاہتے ہیں‘ نرم طاقت (Soft Power)کہا جاتا ہے۔ نرم طاقت کا انحصار سیاسی ایجنڈے کو اس طرح ترتیب دینے کی قابلیت پر ہوتا ہے جو دوسروں کی ترجیحات کا تعین کرے۔
اس حکمت عملی پر مؤثر عمل کے لیے ابلاغ کی قوت کا استعمال مرکزی اہمیت رکھتا ہے اور اقتصادی قوت کا ہدف افکار‘ اقدار‘ کلچر کی تبدیلی ہے۔ اس نئی جنگ میںاصل مزاحم قوت مقابل تہذیب کا عقیدہ‘ نظریہ‘ اصول اور اقدار بن جاتے ہیں۔ اسلامی دنیا میں عوام کی اسلام سے وابستگی اور اپنی تہذیب اور اقدار کے بارے میں استقامت--- مغرب کے لیے سب سے بڑا دردسر بنی ہوئی ہے۔ جوزف نائی اعتراف کرتا ہے کہ:
یقینی طور پر ایسے علاقے ہیں‘ جیسے شرق اوسط‘ جہاں امریکی کلچر کے حوالے سے گومگو یا مکمل مخالفت کی کیفیت اس کی ’نرم طاقت‘ کو محدود کر دیتی ہے۔
یہ ہے اصل مخمصہ! اور اس کا حل تجویز ہوا ہے مسلم ممالک میں ’روشن خیالی‘ اور ’اعتدال پسندی‘ کی حکمت عملی کا فروغ کہ اس طرح مسلم دنیا کو اس کی اپنی بنیادوں سے ہلا کر مغرب کے رنگ میں رنگنے کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے مسلمان عورت کا حجاب بھی توپ اور میزائل کی طرح خطرناک تصور کیا جاتا ہے۔ اسلام سے مسلمانوں کی وابستگی اور اپنی ثقافت اور روایت سے محبت مغرب کی نگاہ میں اس کے عزائم کے حصول کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اسلام میں دین و سیاست کا ناقابلِ تقسیم ہونا اصل سدِّراہ ہے۔
جہاد کا جذبہ جو دفاع کا مؤثر ترین ذریعہ ہے‘ ان کی آنکھوں کا کانٹاہے۔ مسئلہ بنیاد پرستی نہیں‘ اسلام کا ایک مکمل نظامِ زندگی ہونے کا تصور ہے۔ یہ مغرب کی نگاہ میں اصل سنگِ راہ ہے۔ ایک جرمن مستشرق خاتون ایندریا لوئیگ (Andrea Lueg) اپنے ایک مضمون The Perception of Islam in Western Debate میں صاف الفاظ میں مغرب کے دانش وروں کے اس یقین کو یوں پیش کرتی ہے:
مغرب اسلام کو ایک ایسے مذہب کے طور پر زیربحث لاتا ہے جو اسلامی ممالک کے بے شمار سیاسی‘ ثقافتی اور سماجی مظاہرکا ذمہ دار ہے۔ یہ بالکل واضح ہے کہ اسلام ایک مذہب کی حیثیت سے مغربی ممالک میں خوف پیدا کرتا ہے۔ مذہب کا وہ خوف جو ہمارا خیال ہے کہ ہم نے اپنے روشن خیال معاشروں سے ختم کر دیا ہے۔
The Next Threat: Perception of Islam, ed. by Jochen Heppila and Andrea Lueg, Pluto Press, London 1995, p27)
مغرب اسلام کی بڑھتی ہوئی سیاسی مقبولیت کو خطرناک‘ یک رخی اور عجیب قرار دیتا ہے۔ جنگجو اسلام کے فروغ نے اس شدید بحث کا آغاز کر دیا ہے کہ مغرب اس کے بارے میں کیا کچھ کر سکتا ہے یا کرنا چاہیے۔ کچھ امریکی سرکاری افسران اور مبصرین نے پہلے ہی جنگجو اسلام کو مغرب کا اگلا دشمن قرار دے دیا ہے جس کو اسی طرح قابو میں رکھنے کی ضرورت ہے جس طرح سرد جنگ میں کمیونزم کو کیا گیا تھا۔ (ص ۱۳۱)
اس پس منظر میں امریکی اور یورپی دانش وروں اور پالیسی ساز اداروں کی کوشش ہے کہ اسلامی دنیا کو بنیاد پرست‘ جنگجو اور لبرل‘روشن خیال اور اعتدال پسندوں میں تقسیم کریں۔ جسے وہ بنیاد پرست‘ جہادی‘ اور مزاحم قوت سمجھتے ہیں اسے ختم کیا جائے اور اس کی جگہ اسلام کے ایک لبرل ورژن کو فروغ دیا جائے۔ نیوزویک کے مدیر بھارت نژاد امریکی فرید زکریا اسی حکمت عملی کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
اوّلین طور پر ہمیں عرب اعتدال پسند ریاستوں کی مدد کرنی چاہیے لیکن اس شرط پر کہ وہ فی الواقع اعتدال پسندی کو مکمل طور پر اختیار کریں۔ ہم مسلمان اعتدال پسند گروہ اور اہل علم تیار کر سکتے ہیں اور ان کی تازہ فکر عرب دنیا میں نشر کرسکتے ہیں جن کا مقصد یہ ہو کہ بنیاد پرستوں کی طاقت کو توڑا جائے۔ (Re Ordering The World ‘ ص ۴۷)
یہ ہے وہ پس منظر جس میں جنرل پرویز مشرف صاحب کی ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کی تازہ حکمت عملی کی اصل معنویت اور مناسبت (relevance) کو سمجھا جا سکتا ہے۔ نیتوں کا معاملہ تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے‘ لیکن انسانی جائزوں کا انحصار ظاہری عوامل ہی پر ہوتا ہے۔ جنرل صاحب نے اپنے اقتدار کے اولیں ایام میں اتاترک کی بات کی‘ پھر عوامی دبائو میں تاویلیں کیں‘ جب موقع ملا حدود قوانین اور اہانتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قانون کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا۔ موقع بے موقع اسلام میں لبرلزم کا ذکر کیا۔ پھر جہاد اور جنگِ آزادی اور دہشت گردی کے فرق کو یکسر نظرانداز کرنا شروع کیا اور اب کھل کر روشن خیال اعتدال پسندی کے نام سے اسلام میں نشات ثانیہ اور دہشت گردی کی تباہ کاریوں پر دل گرفتگی کا اظہار کرتے ہوئے اور تصادم کے مضراثرات سے خائف کرتے ہوئے نہ صرف روشن خیال اعتدال پسندی اور لبرلزم کا درس دے رہے ہیں بلکہ پہلی بار کھل کر کہہ رہے ہیں کہ اسلام کا جدت پسندی اور سیکولرازم سے کوئی تصادم نہیں‘ یہ ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں۔ سیکولرازم کی اتنی کھلی تائید انھوں نے پہلی بار کی ہے اور اس طرح روشن خیالی کی بلی تھیلی سے باہرآگئی ہے۔ اب ان کے پورے وعظ و تلقین کی شان نزول اور روشنی کا منبع بھی کسی پردے میں نہیں رہا۔ نیز یہ بھی کہ یہ آواز نئی نہیں‘ بلکہ بار بار اٹھائی جاتی رہی ہے۔ لبرلزم کے ایسے ہی وعظ ہم سو سال سے سن رہے ہیں۔ اقبال نے مغرب کے مقاصد کی تکمیل کرنے والے دانش وروں اور حکمرانوں کے فکری اور تہذیبی دیوالیہ پن کا بہت پہلے ماتم کر کے ان سے اُمت کو ہوشیار کیا تھا:
ترا وجود سراپا تجلیِ افرنگ
کہ تو وہاں کے عمارت گروں کی ہے تعمیر
مگر یہ پیکر خاکی خودی سے ہے خالی
فقط نیام ہے تُو زر و نگار و بے شمشیر
لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازۂ تجدید
مشرق میں ہے تقلیدِ فرنگی کا بہانہ
اسلام پر حملہ کبھی باہر سے ہوتا ہے ‘ کبھی اندر سے‘ کبھی کھل کر ہوتا ہے اور کبھی چھپ کر‘ اور کبھی تحریف کے ذریعے ہوتا ہے تو کبھی تعبیر کے نام پر۔ کبھی دشمنی کے انداز میں ہوتا ہے اور کبھی اصلاح کے نام پر۔ چراغ مصطفویؐ اور شرار بولہبی بہرصورت ہر دور میں اور ہر میدان میں برسرِپیکار رہے ہیں اور رہیں گے۔
روشن خیالی اور اعتدال پسندی وہی مطلوب ہے جو اللہ کی بندگی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے وابستہ ہو۔ ایمان‘ تقویٰ‘ عبادت‘ شریعت سے وفاداری‘ اُمت کے حقوق کی ادایگی اور آخرت کی جواب دہی کا احساس وہ فریم ورک فراہم کرتے ہیں جس میں اسلام کی انصاف‘ اعتدال اور توازن پر مبنی مثالی تہذیب کی صورت گری ہوتی ہے۔ یہ ہدایت پر مبنی اور ہویٰ (خواہشِ نفس) سے پاک روشن خیالی اور اعتدال پسندی ہے۔ جو روشن خیالی اور اعتدال پسندی اسلام میں معتبر ہے۔ اس کی بنیاد وہ دعا ہے جو ہر مسلمان نماز کی ہر رکعت میں اپنے رب سے مانگتا ہے یعنی:
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ o صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ
اے رب! ہمیں سیدھا راستہ دکھا‘ ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا‘ جو معتوب نہیں ہوئے‘ جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں۔
ہدایت کوئی مبہم اور غیرمتعین شے نہیں‘ وہ اللہ کی وحی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے عبارت ہے اور روشنی کا اصل منبع یہی رہنمائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روشن خیالی کا ماخذ اس سے ہٹ کر کوئی دوسری شے نہیں ہوسکتی۔ اللہ ہی کائنات کا نور ہے (اللّٰہ نور السموات والارض) اور اللہ کی کتاب ہی انسانوں کو تاریکیوں سے نور کی طرف لاتی ہے:
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ کُمْ بُرْھَانٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا (النساء ۴:۱۷۴)
لوگو! تمھارے رب کی طرف سے تمھارے پاس دلیل روشن آگئی ہے اور ہم نے تمھاری طرف ایسی روشنی بھیج دی ہے جو تمھیں صاف صاف راستہ دکھانے والی ہے۔
فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَاعْتَصَمُوْا بِہٖ فَسَیُدْخِلُہُمْ فِیْ رَحْمَۃٍ مِّنْہُ وَفَضْلٍ وَّیَہْدِیْہِمْ اِلَیْہِ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا (النساء ۴:۱۷۵)
اب جو لوگ اللہ کی بات مان لیں گے اور اس کی پناہ ڈھونڈیں گے ان کو اللہ اپنی رحمت اور فضل و کرم کے دامن میں لے لے گا اور اپنی طرف آنے کا سیدھا راستہ ان کو دکھا دے گا۔
یَّہْدِیْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہ‘ سُبُلَ السَّلٰمِ وَیُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِہٖ وَیَہْدِیْہِمْ اِلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ (المائدہ ۵:۱۶)
تمھارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی آگئی ہے اور ایک ایسی حق نما کتاب جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں سلامتی کے طریقے بتاتا ہے اور اپنے اذن سے ان کو اندھیروں سے نکال کر اُجالے کی طرف لاتا ہے اور راہِ راست کی طرف ان کی رہنمائی کرتا ہے۔
واضح رہے کہ راہ راست ہی اعتدال کی راہ ہے۔ اسی لیے اس اُمت کو اُمت وسط (البقرہ ۲:۱۴۳) اور انصاف اور عدل کو‘ جو توازن‘ حسن‘ ہم آہنگی اور میانہ روی کا جامع ہے‘ اس اُمت کا مشن اور اس کی امتیازی شان قرار دیا (النساء ۴:۱۳۵‘ المائدہ ۵:۸‘ الاعراف ۷:۲۹‘ النحل ۱۶:۹۰) اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی زندگی کے لیے یہ زریں اصول مقرر فرما دیا کہ خیرالامور اوسطھا --- تمام معاملات میں میانہ روی اور اعتدال پسندی ہی بہترین طریقہ ہے۔
حقیقی روشن خیالی اور اعتدال پسندی قرآن و سنت کی مکمل اطاعت اور پاسداری سے عبارت ہے جو ہمارے نظام زندگی میں پہلے سے موجود (built-in) ہے اسے کہیں باہر سے لانے اور دوسروں کی خواہشات اور مطالبات کی روشنی میں کسی انتخاب و اختیار (pick and choose) اور کسی تراش خراش کے ذریعے حاصل نہیں کیا جا سکتا کہ اللہ کی نگاہ میں اس کے دین میں کمی بیشی اور دوسروں کی خواہشات کی روشنی میں رد و قبول سے بڑا کوئی جرم نہیں۔ اس پر دنیا میں خسارے اور آخرت میں بدترین عذاب کی وعید ہے۔
اسلام میں روشن خیالی اور اعتدال پسندی کا جو مقام ہے‘ وہ شریعت کے اس کلّی مثالیے (paradigm) کا حصہ ہے‘ اس سے جدا کوئی جز نہیں۔ اس میں تحریف‘ غلو‘ قطع و برید اور جاہلانہ تعبیرات سے تحفظ اور الفاظ و معانی اور قانون اور روحِ قانون کا ناقابلِ انقطاع رشتہ ہے۔ حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کو ہمیشہ صحیح راستے پر قائم رکھنے کے لیے جو نسخۂ کیمیا تجویز فرمایا ہے‘ وہی روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے حدود اربعہ کو طے کر لیتا ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے:
عَنْ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمٰنِ الْعُذْرِیِّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَحْمِلُ ھَذَا الْعِلْمَ مِنْ کُلِّ خَلَفٍ عُدُوْ لُہٗ یَنْفُوْنَ عَنْہٗ تَحْرِیْفَ الْغَالِیْنَ وَاِنْتِحَالَ الْمُبْطِلِیْنَ وَتَاْوِیْلَ الْجَاھِلِیْنَ (مشکوٰۃ)
اس علم کے حامل ہر نسل میں وہ لوگ ہوں گے جو دیانت و تقویٰ سے متصف ہوں گے وہ اس دین کی غلوپسندوں کی تحریف‘ اہلِ باطل کی غلط نسبت و انتساب اور جاہلوں کی تاویلات سے حفاظت فرمائیں۔
یہ ہے اسلام کی کھلی شاہراہ۔ لیکن جس لبرلزم‘ ماڈرنزم‘ روشن خیالی اور اعتدال پسندی کی بات امریکی دانش ور اور پالیسی ساز کر رہے ہیں اور جس کی بازگشت خود ہمارے کچھ حکمرانوں اور دانش وروں کی تحریروں اور تقریروں میں سنی جاسکتی ہے اُس میں اور اس میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
چراغ مصطفویؐ سے جو روشن خیالی اور اعتدال پسندی رونما ہوتی ہے‘ وہ شریعت اسلامی کے بے کم و کاست اتباع سے عبارت ہے۔ اس کے مقابلے میں ’شراربولہبی‘ کا جو تقاضا اور مطالبہ ہے وہ یہ ہے کہ وقت کی جابر اور بالادست قوتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ان کے دین‘ اقدار اور تصورِ زندگی کو قبول کیا جائے‘ ان کے تصور ترقی کو اختیار کیا جائے‘ ان کے رنگ میں اپنے کو رنگ لیا جائے اور ان کے دیے ہوئے معیار کے مطابق اور ان کے پسندیدہ پیمانوں میں اللہ کے دین کو ڈھال دیا جائے۔ گویا جس طرح اکبر بادشاہ نے اپنے دور کے باغیوں کو خوش کرنے کے لیے ایک ’’دین الٰہی‘‘ بنانے کی جسارت کی تھی‘ اسی طرح آج امریکہ اور مغرب کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے ایک نیا ’اسلام‘ وضع کیا جائے جو اُمت کے مرکز سے ہٹ کر ملک اور مقامی مفادات کو مرکز بنائے اور جس کا اصل ہدف شریعت کو عملاً معطل کرکے دین و دنیا کی تفریق اور ماڈرنائزیشن کے نام پر مغربیت کے لیے راہ ہموار کرے۔ اس طرح اسلام کا نام باقی رکھ کر ایک سیکولر نظامِ زندگی پروان چڑھایا جائے تاکہ اسے امریکہ اور مغرب کے حکمران اور دانش ور ’روشن خیال اور اعتدال پسند‘ تسلیم کریں‘ جس کو وہ فنڈامنٹلزم اور انتہاپسندی قرار نہ دیں بلکہ اس ’اسلام‘ میں وہ اپنی تہذیبی اقدار اور عادات و اطوار کی جھلک دیکھ سکیں اور اس پر ’ترقی پسندی‘ کی مہر لگا سکیں۔
’چراغ مصطفویؐ ،اور ’شرار بولہبی‘ کی دائمی ستیزہ کاری اور اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسلام اور اکبری دین الٰہی کی پیکار کی یاد دہانی کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ ۱۱ستمبر کے بعد مسلم دنیا اور خصوصیت سے پاکستان پر امریکی اثرات بلکہ تسلط کا جو آغاز عسکری تعاون اور سیاسی تابع داری سے ہوا تھا‘ وہ اب نظریاتی‘ تعلیمی اور ثقافتی غلامی کے دائروں تک وسیع ہوتا جارہا ہے۔ اب اس کے لیے ایک تصوراتی خاکہ (conceptual framework) بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ جس کی خصوصی سعادت ہمارے جنرل پرویز مشرف کو حاصل ہو رہی ہے۔ پہلے انھوں نے اپنی تقریروں میں اور اپنے مختلف سیاسی حلیفوں سے ملاقاتوں میں ایک نئے وژن اور ایک تصوراتی ہیولا کی طرف اشارے کیے‘ پھر او آئی سی کے کولالمپور میں منعقد ہونے والے سربراہی اجلاس میں اس ادارے کی تشکیلِ نو کے عنوان سے اُمت مسلمہ کے لیے ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کی ایک حکمت عملی پیش کرنے کی سعی بلیغ فرمائی اور اب ۲ جون ۲۰۰۴ء کو امریکی روزنامے واشنگٹن پوسٹ کے ایک مضمون کی شکل میں اپنے اس نئے فلسفے کو‘ غالباً اپنی پہلی تحریر کے طور پر پیش کیا ہے جسے پاکستان کے تمام اخبارات نے بھی نمایاں طور پر شائع کیا ہے۔ او آئی سی کے وزراے خارجہ کے اجلاس منعقدہ استنبول میں ان کی پیش کردہ حکمت عملی (روشن خیال اعتدال پسندی- Enlightened Moderation)کو خود او آئی سی کے ہدف کے طور پر قبول کر لیا گیا ہے۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ اس تصوراتی خاکے اور حکمت عملی کا معروضی جائزہ لیا جائے اور اس کے حسن و قبح کو علمی تجزیے کے ذریعے واضح کیا جائے تاکہ اُمت کے رہے سہے گلشن کو شرار بولہبی کی آتش زنی سے محفوظ کیا جا سکے۔
دنیا ۹۰ء کے عشرے کے آغاز سے لے کر اب تک‘ ایک انتہائی ابتری اور افراتفری کے دور سے گزر رہی ہے اور اس تشویش ناک صورت حال میں بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ انتہاپسندوں‘ دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کے ہاتھوں معصوم افراد جس المناک صورت حال سے دوچار ہیں اور خاص طور پر میرے ہم مذہب مسلمان بھائی جس عذاب سے گزر رہے ہیں اس نے مجھے اس بات پر مائل کیا ہے کہ میں اس ابتری اور انتشار سے بھری دنیا کو بہتر بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کروں۔
دہشت گردی اور انتہا پسندی کے جرائم میں ملوث افراد بھی مسلمان ہیں اور ان کا نشانہ بننے والے بدنصیب بھی اسلام ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔
اور ان کی نگاہ میں اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ’’غیر مسلموں میں‘ غلط فہمی کی بنیاد ہی پر سہی مگر ایک عمومی تاثر یہ قائم ہو رہا ہے کہ اسلام عدم رواداری‘ انتہاپسندی اور دہشت گردی کا مذہب ہے‘‘۔
جنرل صاحب ان بے بنیاد تہمتوں سے اتنے خائف اور مرعوب ہیں کہ پہلے ہی شکست تسلیم کرلیتے ہیں یعنی ’’ہم اپنی دلیلوں کے ذریعے ذہنوں میں بیٹھے ہوئے اپنے خلاف تاثرات کو ختم کرنے کی جنگ جیتنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے‘‘۔ اور یہ سب کچھ اس لیے کہ ’’مسلمان آج دنیا میں بہت غریب‘ سب سے زیادہ غیرتعلیم یافتہ‘ سب سے زیادہ بے بس اور سب سے زیادہ عدم اتحاد و استحکام کے شکار گروہ کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں‘‘۔
اس تجزیے کے بعد جنرل صاحب مسئلے کا حل یہ بتاتے ہیں کہ مسلمان اور غیرمسلم دنیا دونوں ان کی ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کی حکمت عملی کو قبول کرلیں تو سب ٹھیک ہو سکتا ہے۔
جنرل صاحب نے تلقین تو مغربی اقوام کو بھی یہی کی ہے اور بہ کمالِ شفقت مغربی دنیا اور بالخصوص امریکا کو مخاطب کرکے کہا ہے کہ ’’مسلم دنیا کو درپیش تمام سیاسی تنازعات کو عدل و انصاف کے ساتھ مل کرحل کرنا ہوگا اور محروم اور پسماندہ مسلم دنیا کی سماجی اور معاشی ترقی کے لیے معاونت کرنا ہوگی‘‘۔ لیکن ان کا سارا زور اسلام کی ’اصلاح‘ اور مسلمانوں کے رویوں اور عمل کو تبدیل کرنے پر ہے۔ جنرل صاحب نے اسلام اور مسلمانوں کے لیے جو وژن پیش فرمایا ہے ‘ اس کا مرکزی خیال یہ ہے کہ:
ہمیں اعتدال کا راستہ اختیار کرنا ہوگا اور ہمیں کشادہ نظری کے ساتھ ایک ایسے رویے کو فروغ دینا ہوگا جو اس غلط تصور کو باطل قرار دے سکے کہ اسلام ایک جارحیت پسند دین ہے اور اسلام جدت پسندی‘ جمہوریت اور سیکولرازم سے متصادم ہے۔
اور اس سب کے باوجود جنرل صاحب متنبہ فرما رہے ہیں کہ:
یہ سب کرتے ہوئے یہ بات بھی ہمیں پیشِ نظر رکھنا ہوگی کہ جس دنیا میں ہم رہ رہے ہیں‘ ضروری نہیں ہے کہ ہر وقت ہمارے ساتھ پوری طرح وہی سلوک روا رکھا جائے جو حق و انصاف کے اصولوں کے عین مطابق ہو۔
جنرل پرویز مشرف صاحب نے اسلامی دنیا کی جہادی تحریکوں کو‘ ایک ایسے ڈھکے چھپے انداز میں جو ان کی سوچ اور دل کی کیفیت کی غمازی کرتا ہے‘ افغانستان میں روس کے استعماری حملے کے خلاف تحریکِ مزاحمت کا نتیجہ قرار دیا ہے اور ۱۹۹۰ء کے بعد رونما ہونے والی نام نہاد دہشت گردی کو اس سلسلے کی ایک کڑی قرار دیا ہے۔ وہ جہاد اور آزادی کی تحریکات اور دہشت گردی کے فرق کو سمجھنے اور بیان کرنے کی کوئی کوشش نہیں کرتے اور امریکی دانش وروں اور پروپیگنڈے کے ماہرین کی تیار کردہ نئی تثلیث یعنی ’بنیاد پرستی، انتہاپسندی اور دہشت گردی‘ کو سارے مسائل کی جڑ قرار دے کر ’روشن خیال‘میانہ روی اور اعتدال پسندی‘ کے داعی بن کر اسلامی دنیا میں نشاتِ ثانیہ کی ضرورت کی نشان دہی کر رہے ہیں۔ مضمون میں ایک پیراگراف اسلام کے اولین دور اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ماڈل کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے ہے مگر اس کے بعد نہ مسلمانوں کے عروج اور عالمی قوت بننے کے اسباب پر کوئی روشنی ڈالی ہے اور نہ موجودہ حالت زار کا کوئی علمی تجزیہ کیا ہے۔ بس تان اس پر ٹوٹتی ہے کہ معاشی ترقی اور سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں ہم پیچھے رہ گئے ہیں‘ مقابلے کی سکت ہم میں نہیں ہے۔ خرابی کی جڑ بنیاد پرستی‘ انتہا پسندی اور دہشت گردی ہے اور ہمارے لیے نجات کی کوئی راہ اس کے سوا نہیں کہ مغرب سے ہم آہنگی اختیار کریں اور ’’کشادہ نظری کے ساتھ ایک ایسے رویے کو فروغ دیں جو اس غلط تصور کو باطل کر دے کہ اسلام ایک جارحیت پسند دین ہے اور اسلام جدت پسندی‘ جمہوریت اور سیکولرازم سے متصادم نہیں۔
۱- جسے مغرب بنیاد پرستی‘ انتہا پسندی اور دہشت گردی کہتا ہے اسے ترک کر دو اور روشن خیال اعتدال پسندی اختیار کرو۔
۲- ساری توجہ معاشی ترقی‘ تعلیم‘ غربت کے خاتمے‘ صحت اور عدل و انصاف کے حصول پر مرکوز کر دو اور اس کے لیے جدت پسندی‘ جمہوریت اور سیکولرازم کا راستہ اختیار کرو۔
۳- اسلامی کانفرنس کی تنظیم کو مؤثر اور فعال بنائو اور اس میں نئی روح پھونکو تاکہ مسلم دنیا اکیسویں صدی کے چیلنجوں کا مقابلہ کر سکے۔
جنرل پرویز مشرف کے اس مضمون میں دو باتیں ایسی ہیں جن کو ہم مثبت سمجھتے ہیں۔ ایک‘ خواہ کتنے ہی ادب سے انھوں نے کہا ہو لیکن ان کا یہ ارشاد کہ ’’مغربی دنیا کو اور بالخصوص امریکا کو مسلم دنیا کو درپیش تمام سیاسی تنازعات کو عدل و انصاف کے ساتھ حل کرنا ہوگا اور محروم اور پس ماندہ دنیا کی سماجی اور معاشی ترقی میں معاونت کرنا ہوگی‘‘ اور دوسری یہ کہ مسلم دنیا کو اپنے گھر کی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے اور اس کے لیے ’’اپنی ساری توانائیاں غربت کو دُور کرنے‘ تعلیم اور صحت اور عدل و انصاف کے مثالی نظام کے ذریعے اپنے افرادی وسائل کو فروغ دینے کے لیے‘‘ صرف کرنی چاہییں۔ ان دونوں باتوں سے کسی کو اختلاف نہیں لیکن جس پس منظر میں انھوں نے روشن خیال اعتدال پسندی کی اپنی حکمت عملی کو پیش کیا ہے اور جن دلائل اور شواہد کے بل بوتے پر کیا ہے‘ وہ بڑا خام اور حالات کی بڑی غلط عکاسی کرنے والا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اُمت مسلمہ کا مقدمہ پیش کرنے میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں اور عملاً ان کی اس تحریر سے اسلام اور مسلمانوں پر مغرب کے تمام غلط اور ناروا اعتراضات کی بالواسطہ یا بلاواسطہ تائید ہوتی ہے۔ ہم خود ان کے اور تمام سوچنے سمجھنے والے اہل فکرودانش کے غور کے لیے چند گزارشات پیش کرتے ہیں:
۱- دہشت گردی نہ ۱۹۹۰ء کے عشرے سے شروع ہوئی ہے اورنہ اس کا تعلق محض مسلمانوں سے ہے جیسا کہ زیربحث مضمون سے ظاہر ہوتا ہے۔ اول تو دہشت گردی کی تعریف ضروری ہے کیوں کہ قوت کے استعمال کی ہر کوشش کو دہشت گردی نہیں کہا جا سکتا۔ پھر دہشت گردی صرف افراد یا گروہوں کی طرف سے ہی نہیں ہوتی حکومتوں کی طرف سے بھی ہوتی ہے۔ آج دہشت گردی کا زیادہ ارتکاب حکومتوں ہی کی طرف سے ہو رہا ہے بلکہ عوامی سطح پر رونما ہونے والی دہشت گردی بالعموم نتیجہ ہوتی ہے تبدیلی کے سیاسی اور پُرامن مواقع کے مسدود کیے جانے اور ریاستی تشدد اور قومی اور بالاتر قوتوں کے طاقت کے بے محابا اور بے جواز استعمال سے۔ دہشت گردی کو ختم کرنے کے نام پر جو دہشت گردی حکومتیں اور ریاستی ایجنسیاں انجام دیتی ہیں‘ وہ اس کی بدترین شکل ہے جسے آج دہشت گردی کہا جا رہا ہے۔ وہ دراصل ریاستی ظلم اور استبداد اور بالاتر قوتوں کا اپنے کو قانون‘ انصاف اور جمہوری روایات سے آزاد قرار دے لینے اور طاقت ور عناصر کی کمزوریوں پر دست درازیوں کی پیداوار ہے۔ یہ سیاسی مسائل کو سیاسی طریق کار سے حل نہ کرنے اور محض قوت سے حل کرنے کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
جنرل صاحب کے مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ جسے وہ اور امریکا دہشت گردی کہہ رہے ہیں وہ ۱۹۹۰ء میں افغانستان میں جہادی جدوجہد‘ روس کی پسپائی اور بعد میں امریکا کے تغافل سے پیدا ہوئی حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ نہ جہادی سرگرمیوں کا آغاز افغانستان میں روس کی فوج کشی سے ہوا اور نہ دنیا میں دہشت گردی کا آغازمسلم دنیا سے ہوا۔ بنیادی طور پر دہشت گردی یورپ کی استعماری اور فسطائی حکومتوں کے خلاف عوامی ردعمل کی ایک شکل کو قرار دیا گیا ہے جس میں غیر ریاستی عناصر مسلح سیاسی مقاصد کے لیے جدوجہد پر مجبور ہوئے ہیں۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں اورخصوصیت سے مغربی دنیا میں گذشتہ ڈیڑھ سو سال میں اور دنیا کے دوسرے ممالک میں بیرونی استعماری قوتوں کی مزاحمت کی مختلف تحریکوں نے اس راستے کو اختیار کیا ہے۔
یہ دورِ جدید کی تاریخ کا ایک خاص پہلو ہے جس کا کسی مذہب یا علاقے سے تعلق نہیں۔ سیکڑوں کتابیں اور ہزاروں مقالات اس کے مختلف پہلوئوں پرلکھے گئے ہیں۔ ہم صرف ایک کتاب کا حوالہ دیتے ہیں جسے مارتھا کرنسٹارڈ (Martha Crenstard )نے مرتب کیا ہے اور Terrorism in Context کے نام سے امریکا کی پینسلوانیا اسٹیٹ یونی ورسٹی پریس نے شائع کیا ہے۔ یہ کتاب ۱۱ستمبر کے واقعہ سے ۶ سال پہلے شائع ہوئی ہے اور اس میں مغرب اور مشرق کی درجنوں دہشت گرد تحریکوں کی پوری تاریخ بیان کی گئی ہے۔ نیز مغرب کے سیاسی مفکرین نے‘ خاص طور پر یورپ‘ لاطینی امریکا اور افریقہ کے دانش وروں نے ظالم حکمرانوں اور سامراجی حکومتوں کے خلاف مسلح جدوجہد کا کیا کیا جواز پیش کیا ہے اور اس بحث کو یورپ اور امریکا کے تاریخی تناظر میں انقلابی دہشت گردی (Revolutionary Terrorism) اور انارکسٹ دہشت گردی کے زمروں (Categories) میں بیان کیا ہے۔ شاید ہی دنیا کا کوئی حصہ ہو جہاں گذشتہ ڈیڑھ سو سال میں ایک نہیں‘ کئی کئی تحریکیں ایسی نہ اٹھی ہوں جنھیں آج کی اصطلاح میں دہشت گرد تحریک کہا جاتا ہے۔ ان کے کیا اسباب تھے‘ ذمہ داری کن عناصر پر تھی‘کن تحریکوں کے مثبت نتائج نکلے اور ان کے برپا کرنے والے قومی ہیرو ہی نہیں تاریخی کردار شمار کیے گئے۔ اگر جنرل صاحب اس پورے پس منظر سے واقف نہیں تو انھیں ایسے موضوع پر قلم نہیں اٹھانا چاہیے تھا۔
۲- جہادی تحریک کو بھی افغانستان سے وابستہ کردینا حقائق سے ناواقفیت ہے یا مسئلے کو الجھانے کی کوشش۔ جہاد اسی ماڈل کا ایک حصہ ہے جسے جنرل صاحب نے ضمنی طور پر اسلام کے ابتدائی دور کے نام سے پیش کیا ہے۔ دورِ جدید میں مغرب کی تمام استعماری قوتوں کا مقابلہ ہر مسلمان ملک میں جہاد ہی کے ذریعے سے کیا گیا اور اسی وجہ سے مغربی اقوام کا خصوصی ہدف جہاد کا تصور رہا جسے ’منسوخ‘ کرانے کے لیے ان کو جھوٹی نبوت تک کا کھیل کھیلنا پڑا۔ الجزائر کی جہادی تحریک جدید تاریخ کا ایک تابناک باب ہے۔ فلسطین میں صہیونی قوت کے خلاف جہاد کا آغاز جدیدانتفاضہ سے نہیں ۱۹۴۸ء کی جدوجہد سے ہوتا ہے جو آج تک جاری ہے۔ کشمیر میں بھی جہاد کا آغاز افغانستان سے روس کی پسپائی سے شروع نہیں ہوتا بلکہ ۱۹۴۷ء میں ڈوگرہ راج اور اس کے مظالم کے خلاف منظم انداز میں ہوا اور آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات کسی سیاسی خیرات یا اتفاقی حادثہ کی بنا پر بھارت سے آزاد نہیں ہوئے‘ یہ منظم جہادی جدوجہد سے آزاد کرائے گئے۔
جنرل صاحب نے جو تاریخی پس منظر بیان کیا ہے‘ وہ حقائق پر مبنی نہیں۔ اس سے بڑا ظلم یہ ہے کہ انھوں نے دہشت گردی کا سارا ملبہ مسلمانوں پر گرا دیا ہے۔ نہ اس کے عالمی پس منظر کاذکر کیا ہے‘ نہ ان حقیقی تاریخی‘ سیاسی اور تہذیبی اسباب و عوامل کا تجزیہ کیا ہے اور نہ مغربی اقوام کے اس کردار کی طرف کوئی اشارہ کیا ہے جو اس صورت حال کو پیدا کرنے کا ذریعہ بنے ہیں۔ کاش انھوں نے جرمن محققہ ایندریا لوئیگ ہی کا مطالعہ کر لیا ہوتا جو The Next Threat کے آخری باب میں اپنے نتائج تحقیق بیان کرتے ہوئے اعتراف کرتی ہے کہ:
ان بہت سی خوفناک چیزوں کا اسلام سے بہت کم تعلق ہے‘ بلکہ ان کی بنیادیں کچھ دوسری ہیں۔ اور ان دل دہلا دینے والے (shocking) کاموں میں سے کئی جدید مغربی معاشروں میں بھی موجود ہیں۔ مثال کے طور پر ‘ انتہا پسندی کی لادینی جڑیں بھی ہوسکتی ہیں‘ چاہے اس کے علم بردار اس کا انکار کریں۔ اس سے پہلے کہ ہم دوسروں کی انتہاپسندی کے بارے میں غضب میں آجائیں‘ ہمیں اپنے کلچر کی انتہاپسندی کا انکار نہیں کرنا چاہیے۔ جب جرمن نوجوان تارکینِ وطن کے ہوسٹل جلا ڈالنا چاہتے ہیں تو ان کا تعلق بھی انتہاپسندی اور غیرمعقولیت سے ہوتا ہے‘ صرف شراب نوشی اور فہم و فراست کے فقدان سے نہیں۔ لیکن شاید ہم میں سے کوئی ان جرائم کی بنیاد مذہب میں بتانے کا نہ سوچے یا یہ کہے کہ ان کا سرچشمہ مغرب کی عیسائی روایات ہیں۔ پس شرق اوسط کے لوگوں کی انتہاپسندی یا غیرمعقولیت کا تعلق ہمیشہ مذہب سے نہیں ہوتا۔ (ص ۱۵۷)
کاش ہمارے اہلِ قلم حقائق کی گہرائی تک جانے کی کوشش کریں اور ان گمبھیرمسائل کی گہرائی میں جاکر سیاسی‘ عمرانی اور نفسیاتی عوامل کی روشنی میں تجزیہ کریں۔ جنرل صاحب کا مضمون اس پہلو سے یک طرفہ‘ سطحی اور ملامتیہ انداز کا حامل ہے۔ ؎
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنھیں تصویر بنا آتی ہے
۳- جنرل پرویز مشرف نے مسلمانوں کو بنیاد پرستی‘ انتہا پسندی اور دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دیا ہے اور ان کے درمیان ایک عارضی تعلق (causal relationship)بھی دریافت کرنے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ بنیاد پرستی ایک مبہم اور خالص امریکی تصور ہے جس کا اسلام سے دُور کا بھی واسطہ نہیں۔ یہ انیسویں صدی کے آخر میں اور بیسویں صدی کے آغاز کی ایک عیسائی تبلیغی تحریک کی پیداوار تھا جسے گذشتہ چند برسوں سے مسلمانوں پر تھوپا جا رہا ہے۔ جنرل صاحب نے بے سوچے سمجھے اسے مسلمانوں سے وابستہ کردیا۔
انتہاپسندی ایک انسانی کمزوری ہے جو اہلِ مغرب میں بھی ہو سکتی ہے ‘ سیاست دانوں میں بھی‘ فوجیوں میں بھی اور کسی بھی گروہ یافرد میں۔ اس کا رشتہ نام نہاد بنیاد پرستی اور دہشت گردی سے جوڑنے کا کوئی منطقی جواز نہیں۔ دہشت گردی کے اپنے اسباب ہیں اور انتہاپسندی ایک بالکل دوسری شے ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر دہشت گردی انتہا پسندی کا نتیجہ ہو اور ہر انتہا پسندی دہشت گردی پر منتج ہو۔ جنرل صاحب کی یہ ساری بحث محض مغالطوں پر مبنی ہے اور پاکستان اور اسلام دونوں کی بڑی غلط نمایندگی کا ذریعہ بنی ہے۔ تعجب ہے کہ انھوں نے ایک لمحے کے لیے یہ بھی نہیں سوچا کہ اسلام اور مسلمانوں پر بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کا لیبل لگانے میں مغرب اور امریکا کے دانش وروں اور خصوصیت سے‘ صہیونی اہلِ قلم کا کیا کردار اور ان کے کیا مفادات وابستہ ہیں۔ کس طرح اسرائیل کے مظالم سے توجہ ہٹانے کے لیے وہ اسلام‘ عربوں اور مسلمانوں کی ایک خاص انداز میں منظرکشی کر رہے ہیں اور اس میں سیاسی مبصروں‘ دانش وروں اور صحافیوں کے ساتھ الیکٹرانک میڈیا بلکہ ہالی وڈ کی فلموں نے کیا کردار ادا کیا ہے۔ اگر ان تمام حقائق پر کسی کی نگاہ نہیں تو کیا ضروری ہے کہ جن موضوعات پر آپ کی گرفت نہیں ان پر آپ گوہر افشانی کریں۔ اسلام کے بارے میں مغرب کے خود ساختہ تصورات اور فضا کو خراب کرنے میں ان کے کردار کے بارے میں جوشین ہپلر اور ایندریا لوئیگ کا یہ جملہ قابلِ غور ہے کہ:
یہ کتاب اسلام کا نہیں ‘بلکہ اسلام کے بارے میں مغرب کے دشمنانہ رویے کا جائزہ لے گی] یا مزعومہ ’اسلامی خطرے‘ کا[۔ ہمارا ایک نظریہ ہے کہ اس وقت اسلامی خطرے کے بارے میں عوامی لٹریچر کا جو فیشن ہے‘ مفروضہ خطرے یعنی اسلام سے اس کا بہت کم سروکار ہے۔ اس کا زیادہ تعلق مغرب کے اندازِ فکر سے ہے جس کا ایک جزو سرد جنگ کے اختتام کی وجہ سے ہماری شناخت میں پایا جانے والا خلا ہے۔ یہ پہلو ہمارے اندر دل چسپی پیدا کرتا ہے۔ (ص -۱)
ان مصنفین نے یہ بھی کہا ہے کہ خود بنیاد پرستی کی ساری بحث پر بھی ازسرنو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کی نگاہ میں:
ہمارا استدلال یہ ہے کہ اگرچہ بنیاد پرستی خراب ہے لیکن اس کے ناقد لامحالہ اچھے نہیں ہیں اور ضرور کچھ کے درپردہ محرکات ہو سکتے ہیں۔(ص -۳)
یورپ کے کچھ دانش ور اتنا غور کرنے کو تیار ہیں لیکن ہمارے اپنے ذمہ دار حضرات آنکھیں بند کر کے وہی بات کہنے اور لکھنے میں عار محسوس نہیں کرتے جس کا اظہار مغرب کے متعصب حکمران اور دانش ور کر رہے ہیں! اور جن کے اخلاقی اور ذہنی افلاس کا یہ حال ہے کہ جب ان سے کسی دعوے کے لیے دلیل طلب کی جاتی ہے اور شواہد کی عدم موجودگی پر احتساب ہوتا ہے تو ان کے پاس اس کے سوا کہنے کے لیے کچھ نہیں ہوتا کہ بس میں یہ کہہ رہا ہوں۔
ہمارے پاس کوئی قابلِ اعتماد شہادت نہیں ہے کہ عراق اور القاعدہ نے امریکا پر حملوں میں تعاون کیا۔
تو اس کے جواب میں امریکی صدر جارج بش صاحب نے جو جواب دیا وہ گنیزبک میں درج کیے جانے کے لائق ہے :
The reason I keep insisting that there was a relationship between Iraq and Saddam and Al-Qaeeda is because there was a relationship between Iraq and Al-Qaeeda.
اس کی وجہ کہ میں برابر اصرار کرتا رہاہوں کہ عراق‘ صدام اور القاعدہ میں تعلق تھا یہ ہے کہ عراق اور القاعدہ میں تعلق تھا۔ (ٹائم ۲۸ جون ۲۰۰۴ئ)
دہشت گردی اور مسلمانوں کے سلسلے میں ہمارے جنرل صاحب اور جارج بش کے اسلوبِ استدالال میں بھی کوئی زیادہ فرق نہیں!
۴- جنرل پرویز مشرف کے مضمون میں دہشت گردی کے سارے منظر اور پیش منظر میں نہ ریاستی دہشت گردی کا کوئی ذکر ہے اور نہ دہشت گردی کے ارتکاب‘ فروغ اور دوام بخشنے میں امریکہ کے کردار پر کوئی گرفت بلکہ اس کا کوئی تذکرہ میں نہیں۔ امریکی قیادت کی بنیاد پرستی‘ انتہا پسندی اور دہشت گردی کا کوئی تذکرہ ان کی تحریر ہی نہیں۔ افغانستان اور عراق میں امریکہ جس دہشت گردی کا ارتکاب کر رہا ہے‘ اس پر ان کے ضمیر کی کسی خلش کا کوئی سایہ ان کی تحریر پر نہیں پڑا حالانکہ یہ ایک اہم موقع تھا کہ وہ امریکی قوم سے خطاب کر رہے تھے اور کچھ ان کو بھی آئینہ دکھانے کی خدمت انجام دیتے۔
امریکی دانش وروں اور عوام کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد امریکا کی اپنی دہشت گردی پر نالہ کناں ہے۔ چومسکی جیسے مفکر تو پہلے سے کہہ رہے ہیں کہ امریکا آج ایک غنڈہ ریاست (rogue state)بن چکا ہے۔ سابق امریکی اٹارنی جنرل ریمزے کلارک نے امریکا کے وحشیانہ مظالم پر کئی کتابیں لکھی ہیں اور عراق کی ۱۹۹۱ء کی جنگ سے پہلے‘ جنگ کے دوران اور جنگ کے بعد کے جنگی جرائم پر ایک بین الاقوامی ٹربیونل کی رپورٹ بھی موجود ہے جو ریمزے کلارک نے جنگی جرائم (War Crimes)کے نام سے قانونی مطالعوں اور ضروری شہادتوں کے ساتھ شائع کی ہے۔ دنیا بھر میں دہشت گردی کو فروغ دینے میں امریکہ کیا کردار ادا کر رہا ہے‘ اس پر درجنوں کتابیں شائع ہوچکی ہیں اور ناقابلِ تردید شواہد موجود ہیں۔ لیکن جنرل پرویز مشرف صاحب کی تحریر‘ امریکہ کے اس کردار کی طرف کوئی اشارہ تک نہیں کرتی۔ اس موقع پر شالمرز جانسن کی تحقیقی کتاب Blowback: The Costs and Consequences of American Empire سے دو اقتباس اصل حقیقت کے ادراک کے لیے مفید ہوں گے۔
ایک آدمی کی نظروں میں جو دہشت گرد ہے‘ بلاشبہہ وہی دوسرے کی نظروں میں آزادی کے لیے لڑنے والا ہے۔ جس چیز کو امریکی اہلکار اپنے معصوم شہریوں پر بلااشتعال دہشت گردحملے کہہ کر مذمت کرتے ہیں ‘ وہ اکثر سابقہ امریکی استعماری کارروائیوں کا ردعمل ہوتا ہے۔ دہشت گرد بے گناہ شہریوں اور غیرمحفوظ امریکی اہداف پر حملہ کرتے ہیں ‘ صرف اس وجہ سے کہ امریکی سپاہی اور ملاح اپنے بحری جہازوں سے کروز میزائل فائر کرتے ہیں اور آسمان کی بلندیوں پر بی-۵۲ طیاروں میں بیٹھ کر بم باری کرتے ہیں اور واشنگٹن سے جابر و استبدادی حکومتوں کی حمایت کی جاتی ہے۔ ڈیفنس سروس بورڈ کے اراکین نے اپنی ۱۹۹۷ء کی رپورٹ میں جو ڈیفنس کے انڈر سیکرٹری کو دی گئی‘ لکھا تھا: تاریخی حقائق عالمی حالات میں امریکا کی شرکت اور امریکا کے خلاف دہشت گرد حملوں میں اضافے کے درمیان واضح تعلق ظاہر کرتے ہیں۔ مزیدبرآں فوجی طاقت میں فرق کی وجہ سے قومی ریاستیں امریکا پر کھلم کھلا حملہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتیں اور یوں وہ سمندر پار عامل استعمال نہیں کر سکتیں۔ (ص-۹)
دہشت گردی کی تعریف یہ ہے کہ جس طاقت پر حملہ نہیں کیا جا سکتا اس کے جرائم پر توجہ دلانے کے لیے بے گناہوں کو نشانہ بنایا جائے۔ ۲۱ویں صدی کے بے گناہ‘ حالیہ عشروں کی استعماری مہمات کے مابعد اثرات کی تباہیوں کی غیرمتوقع فصل کاٹیں گے۔ اگرچہ بیشتر امریکی اس امر سے ناواقف ہیں کہ ان کے نام پر کیا کچھ کیا جاچکا ہے اور کیا جا رہا ہے‘ سب ہی انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی قوم کی عالمی منظر پر غلبہ پانے کی مسلسل کوششوں کی گراں قیمت ادا کریں گے۔ (ص ۳۳)
خدا کرے مسلمان قیادتوں کو کبھی یہ توفیق حاصل ہو کہ وہ بھی امریکا کی قیادت کو بتا سکیں کہ دنیا میں جو دہشت گردی ہو رہی ہے وہ اس کی کن پالیسیوں اور اقدامات کا ردعمل ہے اور آخری ذمہ داری کس پر ہے ع
اٹھا زمانہ میں جو بھی فتنہ اٹھا تیری رہ گزر سے پہلے!
۵- جنرل پرویز مشرف نے اسلام کے تاریخی کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آج کی زبوں حالی کا ذکر کیا ہے اور اس سے نکلنے کے لیے روشن خیال اعتدال پسندی کا درس دیا ہے اور ساتھ ہی معاشی اور تعلیمی ترقی کی بات کی ہے۔ بلاشبہہ معاشی اور تعلیمی ترقی اُمت کی بڑی ضرورت ہے لیکن ہمارا عروج اور ہمارا زوال محض مادی اسباب کی وجہ سے نہ تھا۔ اسلام کی اصل قوت اس کی دعوت‘ اس کے پیغام‘ اس کے اصول اور اس عملی نمونے میں تھی جو اسلاف نے پیش کیا۔ وہ اخلاقی قوت ان کا اصل سرمایہ تھی۔ دین و دنیا کی وحدت‘ انسانی مساوات‘ قانون کی بالادستی‘ حکمرانوں کی جواب دہی‘ شریعت کی پابندی‘ انصاف کی فراوانی‘ معاشرتی اور معاشی مساوات--- علم اور وسائل کے ساتھ عقیدہ‘ اخلاق‘ سیرت و کردار‘ اداروں کا استحکام اور احتساب کا موثر نظام ہماری قوت کا راز تھا۔ جب ان اصولوں اور اقدار کو فراموش کیا جانے لگا‘ جب عیش و عشرت اور سہولت کی زندگی اختیار کر لی گئی‘ جب جہاد اور اجتہاد کو ترک کر دیا گیا تو ہم دوسروں کے لیے تر نوالہ بن گئے‘ کمزور سے کمزور تر ہوتے گئے‘ غلامی اور محکومی کا نشانہ بنے اور آج بھی آزادی کے حصول کے باوجود دوسروں پر محتاجی اور ان کی سیاسی اور معاشی بالادستی کے تحت جینے کی مہلتیں مانگنے میں مصروف ہیں۔ اقبال نے مرض کی صحیح تشخیص کی تھی کہ:
اگرچہ زر بھی جہاں میں ہے قاضی الحاجات
جو فقر سے ہے میسر‘ تونگری سے نہیں
اگر جواں ہوں مری قوم کے جسور و غیور
قلندری مری کچھ کم سکندری سے نہیں
سبب کچھ اور ہے‘ تو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندۂ مومن کا بے زری سے نہیں
اگر جہاں میں مرا جوہر آشکار ہوا
قلندری سے ہوا ہے‘ تونگری سے نہیں
لیکن ہمارا کیا حال ہے؟ ہم کاسہ گدائی سے ترقی کی منزلیں طے کرنا چاہتے ہیں اور خداشناسی اور جہاد کا راستہ ترک کر کے عزت کے حصول کے خواب دیکھ رہے ہیں اور اقبال ہی کی اس بات کو بھول گئے ہیں کہ ؎
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے‘ نہ من تیرا نہ تن
عنقریب ایک وقت آئے گا جب دوسری قومیں اکٹھی ہو کر تم پر ٹوٹ پڑیں گی‘ جس طرح کھانے والے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ کسی نے پوچھا کیا ہم اس وقت قلیل تعداد میں ہوں گے؟
آپؐ نے فرمایا: تمھاری تعداد تو بہت زیادہ ہوگی لیکن تم سیلاب کے اوپر بہنے والے خس و خاشاک کی مانند ہوگے۔ اللہ تمھارے دشمن کے سینے سے تمھارا رعب چھین لے گا اور تمھارے دلوں میں ’وہن‘‘ ڈال دے گا۔
پوچھا: اللہ کے رسولؐ! یہ وہن کیا ہے؟ فرمایا: دنیا کی محبت اور موت (شہادت) سے نفرت۔
مسلمانوں کی تاریخ کے نشیب و فراز اور ان کے عروج و زوال کے جس تذکرے میں تجزیے کا یہ رخ موجود نہ ہو‘ اسے حقیقت پسندانہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
۶- جنرل مشرف نے معاشی ترقی‘ انصاف کی فراہمی‘ تعلیم کے فروغ اور جمہوریت کی بات بھی کی ہے لیکن کیا اس سوال سے اغماض برتا جا سکتا ہے کہ ان سب سے محرومی کے اسباب کیا ہیں اور وہ کون سے مفاد پرست طبقات ہیں جو وسائل پر قابض ہیں اور قوم کو ان سے محروم رکھے ہوئے ہیں؟ جمہوریت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مفاد پرست عناصر اور خود فوجی حکمرانوں کا کیا کردار ہے؟ انصاف سے کون محروم رکھے ہوئے ہیں؟ اداروں کے استحکام کی راہ میں کون رکاوٹ ہے؟ اس ملک کے حکمران طبقوں نے کون سی میانہ روی اختیار کی ہے۔ ساری مسلم دنیا کا جائزہ لے لیجیے۔ جن طبقات نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے وہ وہی ہیں جن پر لبرل کا لیبل ہے‘ جو ماڈرنزم کے علم بردار ہیں‘ جو سیکولر نظام کے حامی ہیں۔ یہی سامراجی قوتوں کے رفیقِ کار تھے اور یہی آزادی کے بعد اپنی ہی قوم کا خون چوسنے میں مصروف ہیں۔ ماڈرنزم کی قوتوں نے یورپ میں تو کچھ اچھے کام بھی کیے ہیں لیکن مسلم دنیا میںتو اصل ناکامی نام نہاد لبرل اور سیکولر لیڈرشپ کی ہے۔ کمال اتاترک اور شاہِ ایران اس ماڈرنزم کی علامت تھے۔ جمال عبدالناصر‘ صدام حسین‘ حافظ اسد‘ معمر قذافی‘ حبیب بورقیبہ‘ حواری بومدین‘ کس کس کا نام لیا جائے‘ یہ سب لبرل اور سیکولر قیادت تھی جس نے اسلامی دنیا کو ذلیل او ررسوا کیا۔ پاکستان میں کون سی قیادت ناکام ہوئی--- یہی لبرل سیکولر قیادت: جنرل ایوب سے جنرل پرویز مشرف تک۔ اقبال نے صحیح ہی کہا تھا ؎
زندہ کر سکتی ہے ایران و عرب کو کیونکر
یہ فرنگی مدنیت کہ جو ہے خود لبِ گور
اور ؎
نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کی
کہ روحِ شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی
۷- جنرل مشرف نے یہ بھی کہا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ان اسباب کی فکر کرنا ہوگی جو ناانصافی پیدا کر رہے ہیں اور لوگوں کو انتہاپسندی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ کیا جنرل صاحب بتا سکیں گے کہ خود اپنے ملک میں جسے وہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کہتے ہیں اس کے ازالے کے لیے اسباب کی تلاش اور ناانصافیوں اور محرومیوں کو دُور کرنے کے لیے انھوں نے کیا کیا؟ اور کیا وہ بھی صدر بش کی طرح محض قوت کے استعمال سے ان خرابیوں کا قلع قمع کرنے کی پالیسی پر گامزن نہیں جن کا حل صرف حقوق کی ادایگی‘ انصاف کے قیام‘ جمہوری عمل کے استحکام‘ مذاکرات اور سیاسی طریقے ہی سے کیا جا سکتا ہے۔
۸- جنرل مشرف نے سیکولرزم کے اسلام سے متصادم نہ ہونے کی بات بھی کی ہے جو اسلام کے تصورِ حیات اور پاکستان کے مقصدِ وجود کی نفی کے مترادف ہے۔ اگر یہ بات سیکولرازم کے تصور اور اس کے مضمرات سے عدمِ واقفیت کی بنا پر کی گئی ہے تو افسوس ناک ہے اور اگر جان بوجھ کر یہ شوشہ چھوڑا گیا ہے تو جنرل صاحب کو یاد رکھنا چاہیے کہ سکندر مرزا اور ایوب سے لے کر آج تک جس نے یہ بات کہی ہے‘ اس نے بالآخرمنہ کی کھائی ہے۔ اُمت مسلمہ لادینی نظریۂ حیات کو کبھی قبول نہیں کرسکتی۔ امریکی دین الٰہی کا اصل ہدف اسلامی دنیا میں دین و دنیا اور مذہب و سیاست کی تفریق کے نظام کو رائج کرنا اور اسلام کا ایک ایسا راہبانہ تصور فروغ دینا ہے جس میں دین گھر اور مسجد تک محدود ہو جائے اور دنیا کا نظام شیطانی نظریات کی پیروی میں چلایا جائے۔ شریعت معطل رہے اور جہاد منسوخ ہو جائے۔ لیکن یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اعلانِ جنگ کے مترادف ہے۔
استعماری دور میں بیرونی حکمران ایسی دسیوں کوششیں کرکے ناکام رہے ہیں اور اب وہ اپنے دیسی ساجھیوں کے ذریعے یہ کرانا چاہتے ہیں تو ان شاء اللہ اسی طرح اب بھی ناکام رہیں گے البتہ اس سے بہتوں کی دنیا اور آخرت دونوں تباہ کر دیں گے۔ ماضی میں نہ دین اکبری چل سکا اور نہ اب دین امریکی کے پنپنے کا کوئی امکان ہے۔ اللہ نے اپنے دین کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے اور اس دین سے ٹکر لینے کی جس نے بھی کوشش کی ہے بالآخر پاش پاش ہوا ہے۔ ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ یہ راستہ اختیار نہ کریں۔ ؎
مٹ نہیں سکتا کبھی مردِ مسلماں‘ کہ ہے
اس کی اذانوں سے فاش سرِّ کلیمؑ و خلیلؑ
اور مسلمان فرد اورقوم دونوں کے لیے عزت اور زندگی کا ایک ہی راستہ ہے یعنی ؎
حدیث بے خبراں ہے‘ تو بازمانہ بساز
زمانہ با تو نہ سازد‘ تو بازمانہ ستیز
ہر دور میں جنگ‘ جنگ کا اسلوب اور جنگی ہتھیار بدلتے رہے ہیں اور نئے نئے ہتھیار اسلحہ خانے کی زینت اور انسانیت کے لیے مصیبت بنتے رہے ہیں۔ جنگ عظیم دوم کے اختتام پر اگست ۱۹۴۵ء میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکا کے ایٹمی حملے نے اجتماعی تباہی کے ہتھیار Weapons of Mass Destruction (WMD)کی اصطلاح کو عالمی سیاست اور جنگ و صلح کی لغت میں ایک خاص مقام دے دیا۔ کیمیاوی‘ حیاتیاتی اور گیس پر مبنی اسلحے کے لیے یہ لفظ اس سے پہلے بھی استعمال ہوتا تھالیکن دورِ جدید میں ڈبلیو ایم ڈیز نے بڑی اہمیت اختیار کرلی ہے۔
۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد ’دہشت گردی‘ اور ’خودکش حملوں‘ کو بھی ایک قسم کا ڈبلیو ایم ڈی ہی بناکر پیش کیا جا رہا ہے اور ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ کے نام پر دنیا کو نہ صرف دہشت گردی کے ایک بدترین عفریت کی آماجگاہ بنا دیا گیا ہے‘ بلکہ اس نام نہاد جنگ کے پردے میں کچھ دوسری ہی قسم کے اجتماعی تباہی کے ہتھیاروں سے دنیا کے مختلف ممالک اور تہذیبوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان میں میڈیا کی ثقافتی یلغار اور مسلم ممالک کے تعلیمی نظام پر ایک کاری وار خصوصیت سے اہمیت اختیار کرگئے ہیں‘ جن کو ہم ڈبلیو ایم ڈیز ہی کی تازہ ترین شکل سمجھتے ہیں۔ اجتماعی تباہی کے ہتھیار جس طرح انسانوں اور شہروں کو جسمانی طور پر تباہ کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں‘ اسی طرح یہ نئے علمی اور فنی ہتھیار قلب و نظر کو مسخر کرنے‘ افراد‘ معاشروں اور تہذیبوں کے تشخص کو تہ وبالا کرنے اور ایک نوعیت کی نظریاتی نسل کشی (ideological genocide) کا مقصد حاصل کرنے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ویسے تو استعماری قوتوں نے ایسے حربے ہمیشہ ہی استعمال کیے ہیں اور اکبرالٰہ بادی نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ع
دل بدل جائیں گے تعلیم بدل جانے سے!
لیکن اپنی کمیت اور کیفیت دونوں اعتبار سے تعلیم پر جدید حملے تباہی کے مہلک ہتھیار کی شکل اختیارکرگئے ہیں۔ اس حملے کے اہداف کیا ہیں؟ علامہ اقبال نے اس خداداد صلاحیت کی بنیاد پر جو فراست ایمانی اور تاریخی اور تہذیبی شعور کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے ان کو دی تھی‘ اُن سے اُمت مسلمہ کو بہت پہلے متنبہ کر دیا تھا۔ ضربِ کلیم میں ’نصیحت‘ کے عنوان سے شیطان کے اس حربے کو وہ یوں بیان کرتے ہیں:
اک لُردِ فرنگی نے کہا اپنے پسر سے
منظر وہ طلب کر کہ تری آنکھ نہ ہو سیر
بیچارے کے حق میں ہے یہی سب سے بڑا ظلم
بَرّے پہ اگر فاش کریں قاعدۂ شیر
سینے میں رہے رازِملُوکانہ تو بہتر
کرتے نہیں محکوم کو تیغوں سے کبھی زیر
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے‘ اسے پھیر
تاثیر میں اِکسیر سے بڑھ کر ہے یہ تیزاب
سونے کا ہمالہ ہو تو مٹی کا ہے اک ڈھیر
امریکا کی سامراجی اور صلیبی قیادت اس وقت عالمِ اسلام اور خصوصیت سے اس کی احیائی تحریکوں اور جہادی قوتوں کو زیر کرنے کے لیے جس حکمت عملی پر عمل پیرا ہے‘ اس میں فوجی قوت‘ معاشی دبائو اور پروپیگنڈے کی نفسیاتی جنگ کے ساتھ جو سب سے خطرناک ہتھیار استعمال کیا جارہا ہے وہ تعلیم کے نظام کو تبدیل کرواکے ذہنوں کو مسخر کرنے کے ذریعے اُمت کو غلامی کے نئے شکنجوں کی گرفت میں لینا ہے۔ فوجی قوت سے بلاشبہہ کچھ تھوڑے عرصے کے لیے مقابل قوت کو قابو میں کیا جا سکتا ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ ہر استعمار اور قبضے کے خلاف تحریک مزاحمت جلد یا بدیر رونما ہوتی ہے۔ معاشی دبائو بھی ایک عرصے تک چلتا ہے اور نفسیاتی حربے اور پروپیگنڈے کی تاثیر بھی محدود ہے۔ البتہ ذہنی غلامی‘ تعلیم کے ذریعے دل و دماغ کو مسخر کرنا‘ سوچنے کے انداز اور نفع و نقصان‘ خیروشر اور مطلوب اور نامطلوب کے پیمانوں کو بدل دینا ہی وہ حربہ ہے جس سے محکومی کو دوام دیا جاسکتا ہے--- اور اس وقت امریکی دانش ور اور سیاسی قیادت اور اس کے ’مراکز دانش‘ (think tanks)عوامی تباہی کے جس ہتھیار کواستعمال کرنے کے لیے سب سے زیادہ بے چین ہیں‘ وہ نظام تعلیم کی تبدیلی اور نصاب تعلیم میں ایسے تغیرات ہیں جو سوچنے کے انداز کو بدل سکیں اور اسلام کے انقلابی پیغام کو کسی ایسی شکل میں تبدیل کرسکیں کہ مذہبی حِس بھی تسکین پالے اور اسلام کا جہاں بانی اور تاریخ سازی کا کردار بھی ختم ہوجائے۔
اصل ہدف اسلام کا تصور‘ اس کا تاریخی کردار اور وہ احیائی قوتیں ہیں جو اسلام کو محض گھر اور مسجد تک محدود نہیں کرتیں بلکہ زندگی کے پورے نظام کو اس کے تابع لانا چاہتی ہیں‘ اور اس سے بھی بڑھ کر دنیا میں ظلم کے ہر نظام کو چیلنج کر کے انسانوں کو انصاف اور عزت کے حصول کے راستے کی دعوت دیتی ہیں۔ استعمار کا یہ وہی حربہ ہے جسے اقبال نے یوں بیان کیا تھا:
بہتر ہے کہ شیروں کو سکھا دیں رمِ آہُو
باقی نہ رہے شیر کی شیری کا فسانہٗ
کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضامند
تاویلِ مسائل کو بناتے ہیں بہانہ
سارا ہدف یہ ہے کہ اسلام ایک اجتماعی قوت کی حیثیت اختیار نہ کرے‘ دین و سیاست میں تفریق ہو‘ اور اہل ایمان کفر اور ظلم کی قوتوں کے خلاف ایک تحریک اور ایک چیلنج بن کر نہ ابھر سکیں‘ آپس میں بٹ جائیں اور ہر ملک اور ہر گروہ صرف اپنے آپ میں مگن ہو (’سب سے پہلے پاکستان‘ میں اس کی بازگشت سنی جاسکتی ہے)‘ اور ایک دوسرے کا معاون و مددگار بن کر انصاف کے حصول اور ظلم کے خلاف جدوجہد سے پہلوتہی کرلے--- اقبال نے متنبہ کیا تھا کہ:
ہے زندہ فقط وحدتِ افکار سے ملّت
وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد
وحدت کی حفاظت نہیں بے قوتِ بازو
آتی نہیں کچھ کام یہاں عقلِ خداداد
اے مردِ خدا تجھ کو وہ قوت نہیں حاصل
جا بیٹھ کسی غار میں اللہ کو کر یاد
مسکینی و محکومی و نومیدیِ جاوید
جس کا یہ تصوف ہو وہ اسلام کر ایجاد
مُلّا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
اور یہ اہل کلیسا کا نظامِ تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف
اُس کی تقدیر میں محکومی و مظلومی ہے
قوم جو کر نہ سکی اپنی خودی سے انصاف
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملّت کے گناہوں کو معاف
۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد جس نقشۂ جنگ کو ترتیب دیا گیا ہے اس میں فوج کشی‘ معاشی دبائو اور نفسیاتی اور ابلاغی جنگ کے ساتھ مسلمانوں کے دینی تعلیمی نظام کو سبوتاژ کرنا اور اسے دنیاوی علوم اور عصری مسائل کے نام پر اپنی جڑوں سے اکھاڑدینا ہے۔ جدید تعلیمی نظام میں جس حد تک بھی اسلام کے انقلابی تصورِ حیات اور خصوصیت سے حق و باطل کی کش مکش میں مسلمانوں کے کردار اور اجتماعی مقاصد اور وحدت اُمت کے تصورات پائے جاتے ہیں‘ ان کو تار تار کرنا اور محض دنیاطلبی‘ عیش پرستی‘ ہوس رانی‘ اور طائوس و رباب کی زندگی کا رسیا بنانا ہے۔اس کے لیے اصل ہدف اسلام کا یہ تصور زندگی ہے کہ مسلمان ایک نظریاتی اُمت ہیں‘ ایک جسم کے اعضا کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کا اپنا اخلاقی‘ معاشی‘ سیاسی‘ تہذیبی‘ مالیاتی اور ثقافتی نظام ہے۔ وہ ایک نظامِ نو کے داعی اور تہذیب و تمدن کے ایک منفرد تصور کے مطابق انفرادی اوراجتماعی زندگی کی تشکیل کی جدوجہد میں اپنا مستقبل دیکھتے ہیں۔ یہ تصور آج کی امریکی قیادت کی نگاہ میں اس کے مفادات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور وہ اسے ’خطرہ‘ بناکر ایک طرف مسلمانوں کی عسکری قوت کو غیرمؤثر بنانے‘ ان کے معاشی وسائل کو گلوبلائزیشن کے نام پر اپنی گرفت میں لانے اور سب سے بڑھ کر فکری یلغار اور تعلیم کے بطور ایک مہلک ہتھیار کے بے محابا استعمال سے ان کو اپنی غلامی میں لانے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ کام سرکاری ذرائع کے ساتھ مسلمان ملکوں کے اپنے حکمرانوں‘ لبرل طبقات اور بیرونی سرمایے سے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کے ذریعے انجام دینا چاہتے ہیں جس کے لیے سرمایہ پانی کی طرح بہایا جارہا ہے اور مفید مطلب حکمرانوں کو آلۂ کار بنایا جا رہا ہے۔
اسلام کے تصورِحکومت‘ ملّت کی وحدت‘ جہاد اور ظلم کے خلاف جدوجہد کے جذبے کو اصل ہدف بنایا گیا ہے۔ بنیاد پرستی‘ عسکریت‘ تشدد‘ انتہاپرستی اور اس نوعیت کے تمام اتہامات مسلمانوں پر اور خصوصیت سے دینی قوتوں پر لگائے جا رہے ہیں۔ مسلم دنیا میں حکمرانوں اور عوام میں کش مکش برپا کرنے اور ان کو ایک دوسرے کے خلاف صف آراکرنے کے لیے نت نئے حربے استعمال کیے جارہے ہیں‘ اور نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اس کے لیے چھتری کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ اگر ایک طرف حفظ ماتقدم حملے(pre-emptive strike) اور حکومتوں کی تبدیلی (regime change)کی حکمت عملی پر عمل ہو رہا ہے تو دوسری طرف دینی تعلیم کے نظام کو تبدیل کرنے‘ اسے سرکاری گرفت میں لانے‘ اور ملکی تعلیمی نظام میں نصاب اور تعلیمی اہداف کو تبدیل کرانے اور ذہنوں کو تبدیل کرنے اور اپنا ہم نوا بنانے کے منصوبوں پر پوری شدومد کے ساتھ عمل کیا جا رہا ہے۔ افغانستان اور عراق کو تو مکمل طور پر اپنے زیرتسلط لے آیا گیا ہے لیکن اس تہذیبی اور تعلیمی جنگ کا ہدف پورا عالمِ اسلام ہے جس میں خصوصیت سے اس وقت سعودی عرب‘ مصر اور پاکستان نشانہ ہیں۔
امریکا کی اس حکمت عملی کی یہ جھلکیاں صدربش سے لے کر ان کے دفاع کے وزیررمزفیلڈ‘ قومی سلامتی کی مشیر کنڈولیزا رائس اور وزیرخارجہ کولن پاول کے بیانات میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ لیکن اس کا بہت واضح اور مکمل اظہار حال ہی میں شائع ہونے والی دو اہم رپورٹوں میں ہوا ہے جس میں جنگ کا پورا نقشہ دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک رپورٹ وہاں کے مشہور تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن کے قومی سلامتی کے تحقیقی شعبے نے تیار کی ہے اورCivil Democratic Islam: Partners, Resources and Strategiesکے عنوان سے حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔ اسےCheryl Benardنے مرتب کیا ہے۔ اس کی تیاری میں آٹھ دوسرے دانش وروں نے شرکت کی ہے جن میں کابل میں امریکی سفیر زلمے خلیل زاد بھی شریک ہیں۔
رپورٹ کا بنیادی تصور یہ ہے کہ آج اسلام ایک دھماکا خیز شکل اختیار کرگیا ہے جو اندرونی اور بیرونی جدوجہد میں مصروف ہے تاکہ اپنی اقدار اور اپنے تشخص کو ابھارسکے اور ان کی روشنی میں دنیا میں اپنا مقام حاصل کرسکے۔ اس پس منظر میں امریکا اور مغربی دنیا کا مفاد اور ہدف یہ ہونا چاہیے کہ اسلامی دنیا ایک ایسی صورت اختیار کرے جو مغرب کے ساتھ ہم آہنگ ہو--- یعنی جمہوری اس معنی میں کہ سماجی اعتبار سے ترقی پسند (socially progressive) ہو اور بین الاقوامی طور پر قابلِ قبول رویہ اختیار کرے۔ اس کے لیے امریکی پالیسی کیا ہو؟ رپورٹ کہتی ہے:
اس لیے دانش مندی کی بات یہ ہے کہ اسلامی دنیا میں ان عناصر کی حوصلہ افزائی کی جائے جو عالمی امن اور عالمی برادری سے ہم آہنگ ہیں اور جمہوریت اور جدیدیت کو پسند کرتے ہیں۔
۱- بنیاد پرست (fundamentalists)جو مغربی تہذیب کے خلاف ہیں اور اسلامی قانون اور اخلاقیات کا وہ تصور رکھتے ہیں جو رپورٹ کے مصنفین کی نگاہ میں جدیدیت سے متصادم ہے۔ یہ مغرب کے لیے سب سے بڑا خطرہ اور نتیجتاً اہم ترین دشمن ہیں۔
۲- دوسراگروہ قدامت پسندوں (traditionalists)کا ہے جو تبدیلی‘ تجدد اور جدیدیت سے خائف ہیں اور روایت کے اسیر رہنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ یہ بھی ہمارے دشمن ہیں مگر نمبر ایک کے مقابلے میں غنیمت ہیں۔
۳- تیسرا گروہ جدیدیت پسندوں (modernists)کا ہے جو اسلامی دنیا کو آج کی مغربی دنیا (جسے رپورٹ عالمی برادری global community قرار دیتی ہے)سے ہم آہنگ کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے اسلام کو جدید بنانے کے خواہاں ہیں۔ یہ ہمارے لیے قابلِ قبول ہیں باوجودیکہ یہ گروہ اسلام سے رشتہ باقی رکھنا چاہتا ہے۔
۴- چوتھا گروہ جو مغرب کے لیے سب سے زیادہ پسندیدہ ہے وہ لادینیوں (secularists)کا ہے جو دین و دنیا اور مذہب اور سیاست کی علیحدگی کے کھلے کھلے قائل ہیں‘ اور مغرب کے ماحول کی مکمل پیروی کرتے ہوئے مذہب کو ذاتی مسئلے اور اجتماعی امور کو مغربی صنعتی جمہوریوں کے طور طریق پر چلانا چاہتے ہیں۔
اصل رپورٹ میں ان چاروں کے درمیان بھی تقسیم در تقسیم کی نشان دہی کی گئی ہے جن میں سب سے ’فسادی‘ اور خطرناک وہ بنیاد پرست ہیں جو ان کی نگاہ میں تشدد کے طریقے اختیار کرتے ہیں۔ تمام بنیاد پرست دہشت گرد نہیں خطرناک ضرور ہیں۔ اسی طرح قدامت پسندوں‘ جدیدیت پسندوں اور لادینیوں میں بھی کم از کم دو دو گروہ ہیں۔
۱- قائدین اور رول ماڈل تیار کرنا۔ وہ جدیدیت پسند جن کے ستائے جانے کا اندیشہ ہے ان کو شہری حقوق کے حوصلہ مند قائدین کے طور پر سامنے لایا جائے جو وہ فی الحقیقت ہیں۔ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ یہ مفید مطلب ہے۔
۲- سیاسی حد رسائی (out reach)کے معاملات میں جدیدیت پسند عام مسلمانوں کو شامل کیا جائے تاکہ آبادی کی بنیاد پر حقیقی صورت حال کی صحیح عکاسی ہو۔ مسلمانوں کی اسلامیت کو مصنوعی طور پر ابھارنے سے احتراز کیا جائے۔ اس کے بجاے ان کو اس بات کا عادی بنایا جائے کہ اسلام ان کی شناخت کا بس ایک حصہ ہو سکتا ہے۔
۳- اسلامی دنیا میں سول سوسائٹی کی حمایت کی جائے۔ یہ بحرانی حالات‘ میں مہاجروں کی دیکھ بھال میں اور تنازعے کے بعد کی صورت حال میں خاص طور پر اہمیت رکھتا ہے۔ اس صورت میں ایک جمہوری قیادت سامنے آسکتی ہے اورمقامی این جی اوز اور دوسری شہری انجمنوں کے ذریعے عملی تجربہ حاصل کر سکتی ہے۔ دیہی اور پڑوسی کی سطح پر بھی یہ انجمنیں ایک ایسا انفراسٹرکچر ہیں جو سیاسی شعور بیدار کرسکتی ہیں اور معتدل جدیدیت پسند قیادت ابھار سکتی ہیں۔
۴- مغربی اسلام ‘ جرمن اسلام اور امریکی اسلام وغیرہ کو تشکیل دینا۔ اس کے لیے ان معاشروں کی ہیئت کا اور ان کے ہاں رائج فکروعمل کے ارتقا کا بہتر فہم حاصل کرنے کی ضرورت ہوگی۔ ان کے نظریات کا استنباط کرنے‘ اظہار کرنے اور ان کو قانونی شکل دینے (codifying)میں مدد دی جائے۔
۵- انتہاپسند اسلام سے وابستہ افراد اور موقفوں کو بے جواز قرار دیا جائے۔ بنیاد پرست خودساختہ قائدین کے غیراخلاقی اور منافقانہ افعال کو عام کیا جائے۔ مغرب پر بداخلاقی اور سطحیت کے الزامات‘ بنیاد پرستوں کے اسلحہ خانے کا پرکشش حصہ ہیں‘ جب کہ انھی نکات پر وہ خود بہت زیادہ حملے کی زد میں ہیں۔
۶- عوامی ذرائع ابلاغ میں عرب صحافیوں کی حوصلہ افزائی کرنا کہ وہ بنیاد پرست قائدین کی زندگیوں‘ عادات و اطوار اور بدعنوانیوں پر تفتیشی رپورٹنگ کریں۔ ان واقعات کی تشہیر کی جائے جو ان کی بے رحمی کو ظاہر کرتی ہے‘ مثلاً حال ہی میں آتش زنی کے واقعے میں سعودی اسکول میں لڑکیوں کی اموات‘ جب کہ مذہبی پولیس نے آگے بجھانے والوں کو جلتے ہوئے اسکول کی عمارت سے لڑکیوں کو نکالنے سے ہاتھ پکڑ کر روکا کیونکہ وہ باپردہ نہ تھیں۔ اور ان کی منافقت جس کا اظہار اس سے ہوتا ہے کہ سعودی مذہبی انتظامیہ تارک وطن کارکنوں کو اپنے نئے پیدا ہونے والے بچوں کی تصویریں منگوانے سے اس بنیاد پر روکتی ہے کہ اسلام میں تصویر بنانا منع ہے‘ جب کہ ان کے اپنے دفاتر میں شاہ فیصل وغیرہ کی بڑی بڑی تصاویر آویزاں ہیں۔
۷- دینی سرگرمیوں کی مالی معاونت کے نظام کو درہم برہم کیا جائے‘ اس لیے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کو وسائل فراہم کرنے میں خیراتی اداروں کا کردار ۱۱ستمبر کے بعد زیادہ واضح طور پر سمجھا جا رہا ہے۔ ضروری ہوگیا ہے کہ سرکاری سطح پر تحقیقات ہوں اور مسلسل جاری رہیں۔
۸- خوش حال اور معتدل اسلام کے نمونے کے طور پر مناسب نظریات رکھنے والے ممالک اور علاقوں یا گروپوں کی شناخت کرکے اور ان کی سرگرمی سے مدد کرکے تشہیر کی جائے۔ ان کی کامیابیوں کو شہرت دی جائے۔
۹- تصوف کے مقام ومرتبے کو بلند کیا جائے۔ مضبوط صوفی روایات کے حامل ممالک کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ اپنی تاریخ کے اس حصے کو اہمیت دیں اور اسے اپنے اسکول کے نصاب میں شامل کریں۔ صوفی اسلام پر زیادہ توجہ دی جائے۔
۱۰- انقلابی اسلامی تحریکوں کے بڑی عمر کے وابستگان کے نظریات تبدیل ہونے کی آسانی سے توقع نہیں کی جاسکتی۔ لیکن اگر جمہوری اسلام کا پیغام متعلقہ ممالک کے اسکول نصابات میں اور سرکاری میڈیا میں داخل کر دیا جائے تو ان کی نوخیز نسل پر اثرانداز ہوا جا سکتا ہے۔ انقلابی بنیاد پرستوں نے تعلیم میں رسوخ حاصل کرنے کے لیے بہت بڑی کوششیں کی ہیں اور اس کا امکان بہت کم ہے کہ وہ کسی لڑائی کے بغیر اپنی قائم شدہ جڑیں چھوڑ دیں۔ یہ میدان ان سے واپس حاصل کرنے کے لیے ایک بھرپور کوشش کی ضرورت ہوگی۔
اس ۱۰ نکاتی حکمت عملی کو بروے کار لانے کے لیے ایک مفصل پروگرام اور ترجیحات ہی نہیں بلکہ پورے سیاسی اور نظریاتی کھیل کا نقشۂ کار بھی رپورٹ کی زینت ہے۔ میکاولی کی سیاست تو مشہور تھی ہی‘ مگر بش کے امریکا نے میکاولی کی سیاست کا جو اکیسویں صدی کا ایڈیشن مرتب کیا ہے‘ اس کے خدوخال ہی دیکھ لیں اور اس آئینے میں غیروں ہی کے نہیں اپنوں کے بیانات‘ عزائم اور اعلانات کی تصویر بھی دیکھ لیں کہ کس طرح ماڈرن اور ماڈریٹ اور روشن خیال اسلام کا تانابانا بنا جا رہا ہے:
مجموعی حکمت عملی کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے ضروری ہوگاکہ درج ذیل خصوصی سرگرمیاں بھی کی جائیں:
___ ان کے افکار کی توسیع واشاعت کی جائے۔
___ ان کی عوام اور نوجوانوں کے لیے لکھنے کے لیے حوصلہ افزائی کی جائے۔
___ اسلامیات کے نصاب میں ان کے افکار کو متعارف کروایا جائے۔
___ ان کو عوامی پلیٹ فارم مہیا کیا جائے۔
___ مذہب کے بنیادی تصورات کے بارے میں ان کے افکار ونظریات کو ان بنیاد پرستوں اور روایت پسندوں کے مقابلے میں عام کیا جائے جو پہلے سے ہی اپنے نظریات کی اشاعت کے لیے ویب سائٹس‘ اشاعتی ادارے‘ تعلیمی ادارے اور دیگر ذرائع استعمال کرتے ہیں۔
___ غیرمطمئن مسلم نئی نسل کے لیے جدیدیت کو متبادل ثقافت کے طور پر پیش کیا جائے۔
___ قبل از اسلام اور غیر اسلامی تاریخ اور ثقافت سے متعلق بیداری کو سہولت پہنچاکر اور حوصلہ افزائی کرکے متعلقہ ممالک کے میڈیا اور نصاب کے ذریعے عام کیا جائے۔
___ لادینی شہری اور ثقافتی اداروں اور پروگراموں کی حوصلہ افزائی اور امداد کی جائے۔
___ روایت پسندوں کی بنیاد پرستوں کے تشدد اور انتہاپسندی پر تنقید کو عام کر کے‘ اور روایت پسندوں اور بنیاد پرستوں کے درمیان اختلاف کو ہوا دے کر۔
___ روایت پسندوں اور بنیاد پرستوں کے درمیان اتحاد کی روک تھام کرکے۔
___ ان جدیدیت پسندوں اور روایت پسندوں کے درمیان تعاون کو فروغ دیا جائے جو اس تناظر میں ایک دوسرے کے قریب ہیں۔ روایت پسندوں کے اداروں میں جدیدیت پسندوں کی موجودگی اور حیثیت کو بڑھا یا جائے۔
___ روایت پسندوں کے مختلف حلقوں کے درمیان امتیاز برتا جائے۔
___ ان عناصر کی حوصلہ افزائی کی جائے جو جدیدیت سے قریب تر ہیں--- جیساکہ دوسروں کے مقابلے میں فقہ حنفیہ۔ ایسے فتاویٰ جاری کیے جائیں جو قبولیت عام حاصل کرکے دقیانوسی وہابی فتووں کی حیثیت کو کمزور کریں۔
___ صوفی ازم کی شہرت اور مقبولیت کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
___ اسلامی تعبیرات کے سوال پر ان کے نقاط نظر میں پائے جانے والے اختلافات کو چیلنج کرکے اور بے نقاب کر کے۔
___ غیرقانونی گروپوں اور سرگرمیوں سے ان کے تعلقات کو بے نقاب کر کے۔
___ ان کی پُرتشدد سرگرمیوں کے نتائج کو عام کر کے۔
___ اپنی اقوام کی فلاح و بہبود کے صحیح رخ پر تعمیروترقی کرنے کی نااہلیت کو ظاہر کرکے۔
___ ان پیغامات کوبالخصوص نوجوانوں‘ نیک روایت پسند آبادی‘ مغرب میں مسلم اقلیتوں اور خواتین کو پہنچاکر۔
___ انتہا پسند بنیاد پرستوں اور دہشت گردوں کے کارہاے نمایاں کی تعریف کرنے اور انھیں احترام دینے سے اجتناب کرکے اور اس کے بجاے انھیں خبطی اور بزدل‘ نہ کہ بدی کے ہیرو کے طور پر پیش کر کے۔
___ صحافیوں کی حوصلہ افزائی کر کے کہ وہ بنیاد پرستوں اور دہشت گردوں کے حلقوں میں تفتیشی رپورٹنگ کے ذریعے بدعنوانی‘ منافقت اور اخلاقی گراوٹ کے معاملات کو سامنے لائیں۔
___ بنیاد پرستی کو بطور مشترکہ دشمن تسلیم کرنے کی حوصلہ افزائی کر کے‘ قوم پرستی اور بائیں بازو کے نظریات کی بنیاد پر امریکا مخالف قوتوں کے ساتھ لادینی عناصر کے اتحادوں کی حوصلہ شکنی کر کے۔
___ اس نظریے کی حمایت کر کے کہ مذہب اور ریاست اسلام میں بھی جدا جدا ہوسکتے ہیں اور اس سے ایمان کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔ (ص ۶۱-۶۶)
تہذیبی‘ فکری اور تعلیمی جنگ کا پورا نقشۂ کار آپ کے سامنے ہے۔ اگر اب بھی کسی کو امریکی سامراج کی تازہ ترین صلیبی جنگ کے اصل اہداف‘ مقاصد اور مضمرات کو سمجھنے میں مشکل پیش آرہی ہے تو اس کی وجہ امریکی دانش وروں کی صاف گوئی کی کمی نہیں‘ اپنی کج فہمی یا تغافل جاہلانہ ہوسکتی ہے۔ رہے ہمارے حکمران اور لبرل دانش ور‘ تو ذرا امریکا بہادر کے ان ارشادات کا موازنہ اپنے حکمرانوں‘ وزراے تعلیم بلکہ کچھ ’علماے کرام‘ کی گوہرافشانیوں سے کرکے دیکھ لیجیے۔ صاف نظر آجائے گا کہ ؎
انھی کے مطلب کی کہہ رہا ہوں‘ زباں میری ہے بات ان کی
انھی کی محفل سنوارتا ہوں‘ چراغ میرا ہے رات ان کی
دوسری طرف اس سے بھی زیادہ اہم رپورٹ وہ ہے جو ایک اعلیٰ اختیاراتی مشاورتی گروپ نے مرتب کی ہے جس میں ۱۴ اہم سابق سفیر اور چوٹی کے دانش ور تھے اور جس کے صدر سابق سفیر ایڈورڈ پی ڈجرجن(Edward P. Djerejan) تھے اور جسے امریکی ایوان نمایندگان کی Committee on Appropriationنے مرتب کرایا ہے۔ اس گروپ نے مسلم دنیا کے اہم ممالک کا دورہ کیا اور جہاں نہ جا سکا وہاں ٹی وی کانفرنس کے ذریعے وہاں کے اہم لوگوں سے رابطہ کیا۔ مدیر ترجمان القرآن کو بھی ایک ایسی ہی کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا۔ یہ رپورٹ اکتوبر ۲۰۰۳ء میںChanging Minds Winning Peace: A New Strategic Direction for U.S. Public Diplomacy in the Arab and Muslim World کے نام سے شائع ہوئی ہے‘ اور امریکی کانگریس کی متعلقہ کمیٹیوں اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے اس سے استفادہ کیا ہے۔۱؎
اس رپورٹ کا مثبت پہلو تو یہ ہے کہ اس میں امریکا کے بارے میں عالمِ اسلام اور عرب دنیا میں پائی جانے والی بے چینی بلکہ نفرت کا واضح اعتراف موجود ہے۔ البتہ اصلاحِ احوال کے لیے امریکا کی پالیسیوں پر نظرثانی کا تو بالکل ضمنی طور پر ذکر کرتی ہے لیکن اصل توجہ اس پر ہے کہ دنیا ہمیں صحیح طور پر سمجھ نہیں رہی‘ اس لیے خوب وسائل خرچ کر کے امریکی نقطۂ نظر کو دنیا کو سمجھانے اور عرب اور اسلامی دنیا کے تعلیمی‘ سیاسی اور سماجی نظام میں ایسی تبدیلیوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے جو امریکا کی ساکھ کو بڑھانے اور ان کو امریکا کا ہم نوا بنانے میں موثر ہوسکیں۔ سرمایے کا بے محابا استعمال‘ نظام تعلیم کو متاثر کرنا‘ ریڈیوا ورٹی وی کا موثر استعمال‘ وفود کے تبادلے‘ طلبہ قیادتوں‘ فوجی ذمہ داروں کے تبادلہ پروگراموں‘ امریکی لٹریچر کی ان ممالک کی زبانوں میں فراہمی‘ امریکی سینٹرز کا قیام‘ امریکا میں ان ملکوں کی زبانوں کے جاننے والوں کا خصوصی پروگرام وغیرہ بھی توجہ کا مرکز رہی ہیں۔ اس خدشے کا بھی اعتراف ہے کہ جمہوریت کے فروغ سے کہیں مذہبی انتہاپسند ان ممالک میں غلبہ نہ حاصل کرلیں۔
ہم ان تمام اخباری مضامین اور بیانات سے صرفِ نظر کر رہے ہیں جن میں مدرسے کی تعلیم‘ جہادی کلچر کی فسوں کاریوں اور نام نہاد بنیاد پرست تنظیموں کی سرگرمیوں کو ہدف تنقیدوملامت بنایا گیا ہے اور جس نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں پیالی میں طوفان (storm in a cup of tea) کا سماں پیدا کر دیا ہے۔ امریکا کے کارفرما عناصر کے ذہن کو بنانے اور خود پالیسی ساز اداروں کو متاثر کرنے میں اس کا بھی بڑا دخل ہے۔ پالیسی ساز اداروں اور ’مراکز دانش‘ کی رپورٹوں کے جائزے سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم اس وقت خاص ہدف ہیں۔
اس پس منظر میں پاکستان میں جنرل پرویز مشرف اور ان کی ٹیم کے ذریعے جو تبدیلیاں نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم میں لائی جا رہی ہیں‘ ان کے بے لاگ جائزے کی اشد ضرورت ہے۔ اس لیے کہ سرکاری اعلانات برأت کے علی الرغم یہ ایک حقیقت ہے کہ ان نام نہاد اصلاحات کے ڈانڈے امریکی پالیسی اور مطالبات سے ملتے ہیں جس کا اعتراف امریکی وزیرخارجہ جناب کولن پاول نے امریکا کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے سامنے اپنے ایک بیان میں ۱۰ مارچ ۲۰۰۴ء کو ان الفاظ میں کیا کہ: ’’پاکستانی مدارس دہشت گردوں کی آماجگاہ ہیں جس کے لیے ہم مشرف اور دیگر اسلامی ممالک کے سربراہوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں‘‘۔ اسی طرح امریکا کی سلامتی کی مشیر کونڈولیزارائس کا یہ بیان بھی ایک جہانِ معنی اپنے اندر رکھتا ہے کہ ’’اسلامی ممالک بشمول پاکستان کا تعلیمی نصاب بڑا مسئلہ تھا اور ہم اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی مشاورت سے بڑی تبدیلیاں کررہے ہیں‘‘۔
ہماری وزیرتعلیم خواہ کتناہی یہ کہتی رہیں کہ: ’’نصاب میں تبدیلی اور اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی منصوبہ بندی ہماری اپنی ہے‘ کوئی امریکی یا بیرونی دبائو کا شاخسانہ نہیں‘‘۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس کے پیچھے امریکا کی عالمی حکمت کا دبائو موجود ہے اور ایک موقع پر تو کونڈاولیزارائس نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ: ’’پاکستان میں تعلیمی نصاب میں تبدیلی کے پیچھے ہماری ہدایات کارفرما ہیں‘‘۔اب تو ’زبانِ خنجر‘ اور ’آستیں کا لہو‘ دونوں پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ تعلیمی نظام اور تعلیمی نصاب دونوں میں کی جانے والی تبدیلیوں کی اصل شان نزول کیا ہے؟
بلاشبہہ یہ تبدیلیاں ۱۱ستمبر کے واقعے کے بعد ہی شروع ہوگئی تھیں اور ان میں سے کچھ جنرل پرویز مشرف کے اپنے سیکولر اور لبرل رجحانات کے زیراثر بھی ہوسکتی ہیں لیکن تعلیم کو سیکولرائز کرنے کی مہم میں تیزی ۱۱ستمبر کے بعد کی امریکی پالیسیوں کے نتیجے میں آئی ہے۔
اس پس منظر میں کچھ تبدیلیاں تو وہ ہیں جو خاموشی سے وزارتِ تعلیم کے ذریعے لائی جارہی تھیں لیکن ایک دھماکا اس رپورٹ کی اشاعت سے ہوا جسے مغربی سرمایے کے بل بوتے پر ایک این جی او نے سیکولر اور لبرل دانش وروں کے ایک گروہ سے تیار کروایا اور The Subtle Subversionکے نام سے یہ رپورٹ اے ایچ نیر اور احمدسلیم کی ادارت میں Sustainable Development Policy Institute (SDPI)نے شائع کی جس پر وزارت تعلیم کی ایک کمیٹی نے باقاعدہ غور کیا۔ خدا بھلا کرے ان اہلِ قلم اور پارلیمنٹ کے ارکان کا جنھوں نے اس پر بروقت گرفت کی اور وزارتِ تعلیم کو ایک دفاعی پوزیشن میںڈال دیا۔ یہ رپورٹ اس ذہن کی کھلی عکاسی کرتی ہے جو تعلیم کے نظام کو کلی طور پر غیراسلامی بناکر مغرب کے لبرل فریم ورک میں لانا چاہتا ہے اور جو امریکا کے اصل اہداف کو فروغ دینے میں مصروف ہے۔ اس گروہ نے کوشش تو یہ کی تھی کہ وزارتِ تعلیم کے ذریعے اپنے مذموم اہداف کو حاصل کر لے لیکن یہ بھی اللہ تعالیٰ کی ایک سنت ہے کہ وہ شر سے کبھی کبھی خیر بھی نمودار کرتا ہے‘ اسی طرح جس طرح رات سے دن رونما ہوتا ہے۔ اس رپورٹ کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ مخالف قوتوں کا پورا کھیل سامنے آگیا اور قوم جو ایک حد تک غفلت کا شکار تھی‘ چونک اٹھی اور جو تبدیلیاں خاموشی سے لائی جارہی تھیں وہ ایک دم سب کے سامنے آگئیں۔ اس سلسلے میں روزنامہ نواے وقت و روزنامہ انصاف اور اسلامی جمعیت طلبہ ‘ اسلامی جمعیت طالبات اور تنظیم اساتذہ نے بھی بہت کلیدی کردار ادا کیا۔
اس طرح نظام تعلیم اور نصابِ تعلیم کا مسئلہ قومی بحث اور پارلیمنٹ میں احتساب کا موضوع بن گئے۔ ہم نے جو پس منظر پیش کیا ہے اس میں اس بحث کی اصل معنویت کو سمجھا جا سکتا ہے۔ ہم آیندہ شمارے میں ان شاء اللہ‘ ایس ڈی پی آئی کی رپورٹ اور وزارتِ تعلیم کے مختلف اقدامات کا تفصیلی جائزہ لیں گے۔
بیسویں صدی میں اسلامی فکر کی تشکیل نو اور اسلامی احیا کی جدید تحریکیں ایک زندہ حقیقت ہیں۔ ان تحریکوں کے ظہور اور نشووارتقا کی تاریخ میں چند شخصیات بہت نمایاں نظر آتی ہیں‘ اور ہر معروضی اور منصفانہ جائزے میں ان کی حیثیت مرکزی اور کلیدی ہے‘ ان میں سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کو ایک منفرد اور ممتاز مقام حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ ربع صدی میں مشرق اور مغرب‘ برعظیم پاک و ہند‘ عالمِ عربی‘ جنوب مشرقی ایشیا‘ یورپ اور امریکا سے اسلام اور عالمِ اسلام کے بارے میں جو بھی اہم کتاب یا تحقیقی مقالہ شائع ہوا ہے‘ اس میں سید مودودیؒ کا تذکرہ پایا جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس تحقیق و تالیف کا مقصد کیا ہے؟ سید مودودیؒ کی عظمت و خدمات اور ان کے کارناموںکا اعتراف یا انھیں تنقید و ملامت کا ہدف بنانا۔
۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کے واقعے کے جلو میں کتابوں کا جو ریلا آرہا ہے یا پھر ’اسلامی بنیاد پرستی‘، ’مسلم انتہا پسندی‘، ’سیاسی اسلام‘، ’عسکری اسلام‘ حتیٰ کہ ’اسلامی دہشت گردی‘ کے حوالوںسے جوفکری یورش جاری ہے‘ اس میں بھی ہر صاحب ِ قلم اپنے اپنے مقاصد اور تجزیوں اور جائزوں کے مطابق سید مودودی کو نشانہ بنانے میں کوئی کوتاہی نہیں کر رہا۔یہاں مقصد ان فکری حملوں اور قلم کاریوں کا احتساب کرنا نہیں ہے بلکہ صرف اس طرف توجہ دلانا ہے کہ آج اسلام کی تہذیبی قوت اور مسلمانوں کی احیائی تحریکوں پر یلغار کرنے والے حلقے عالمِ اسلام کی جن شخصیات کو بحث کا مرکز و مداربنا رہے ہیں‘ان میں سید مودودیؒ سرفہرست ہیں۔ ایک طرف مغربی یا مغرب زدہ مخالفین ان کے افکار کو فتنے کی جڑ قرار دے رہے ہیں‘ تو دوسری طرف اسلام کے بہی خواہ جس تبدیلی پر فخرکررہے ہیں اور جس سرمایے کی حفاظت کے لیے کوشاں ہیں ‘وہ گواہی دیتے ہیں کہ اس قیمتی امانت کو اُمت کے لیے حرزجاں بنانے میں سید مودودیؒ کی خدمات کتنی بھرپور اور فیصلہ کن ہیں۔
ترجمان القرآن کی اس اشاعت ِ خاص کی مناسبت سے ہم نے مناسب سمجھا کہ کچھ وقت اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں صرف کریں کہ بیسویں صدی میں احیاے اسلام کی جدوجہد میں دوسرے احیائی مفکرین اورمصلحین کے ساتھ‘ سید مودودیؒ کا اصل کارنامہ کیا ہے۔ وہ کارنامہ کہ جس نے اِس صدی کے آغاز اور اس کے اختتام کے حالات میں اتنا بنیادی اور انقلابی فرق پیدا کر دیا کہ دشمن جس اُمت کو بیمار اور بے کار سمجھ کر اس کی ’تجہیزوتکفین‘ کی تیاریاں کررہے تھے‘ وہ ایک بار پھر ایک ’عالمی خطرہ‘ تصور کی جا رہی ہے۔ جن سامراجی قوتوں نے سمجھ لیا تھا کہ اب دنیا ان کی چراگاہ ہے۔ انھیں اب ’تہذیبوں کے تصادم‘ کاخطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ چنانچہ وہ نئی استعماری یلغار اور صلیبی جنگوں (Crusades)کا آغاز کرتے ہوئے‘ بارود‘ جھوٹ اور تباہی کی پوری قوت کے ساتھ عملاً میدان میں کود پڑے ہیں۔
وَمَا عَلَی اللّٰہِ بِمُسْتَنکَرٍ
اَن یَجْمَعَ العَالَمَ فِی وَاحِدٖ
اللہ کی ذات سے بعید نہیں کہ وہ ایک عالم ]کی ساری خوبیاں [کسی فردِ واحد میں جمع کر دے۔
ہمارے دور میں سیدمودودیؒ پر اللہ تعالیٰ کا یہ خاص کرم تھا جس کے نتیجے میں اُمت کو نئی زندگی ملی۔
فکری میدان میں ان کے کام پر بہت پیش رفت ہوئی ہے اور اس سے زیادہ مستقبل میں ہوگی۔ بحیثیت مفسرقرآن (تفہیم القرآن ‘ قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘ رسائل و مسائل)‘ حدیث کے خادم (سنّت کی آئینی حیثیت‘ تفہیم الحدیث‘تفہیمات) سیرت نگار (سرورِعالمؐ، نشری تقریریں) فقیہ (تفہیم القرآن‘ رسائل ومسائل) متکلم اور عصرحاضر کے اجتماعی علوم کے ناقد اور ان میدانوں میں اسلامی فکر کے شارح اور ترجمان کی حیثیت سے انھوں نے سیکڑوں چراغ روشن کیے ہیں۔ اس کے ساتھ انھوں نے اپنے عہد کی فکر کو صرف متاثر ہی نہیں کیا‘ بلکہ ایک نیا رخ دینے کی کامیاب کوشش کی ہے‘ جس کے نتیجے میں آج دنیا کے گوشے گوشے سے ان کے افکار کی صداے بازگشت سنی جا سکتی ہیں۔
اس وقت مقصد ان پہلوئوں پر گفتگو نہیں‘ بلکہ سیدمودودیؒ کے پورے لٹریچر کو سامنے رکھ کر ہم ان کے مرکزی کارنامے (contribution ) پر توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں۔ اس مناسبت سے صرف چند کلیدی امور پر اور وہ بھی ان کے مجموعی وژن اور اس نئے مثالیے (paradigm ) کا تعین و تشریح موضوع ہوگا‘ جس کی تشکیل اور ترویج میں سید صاحب کا مرکزی کردار رہا ہے۔ بلاشبہہ بیسویں صدی میں علامہ اقبال ؒ،مولانا ابوالکلام آزادؒ اور مولانا اشرف علی تھانویؒ سے لے کر حسن البناؒ، سید قطب ؒاور مالک بن نبیؒ تک مفکرین نے اپنے اپنے انداز میں اس وژن‘ اس فکر اور اس مثالیے کی تشکیل و تکمیل میں اپنا اپنا حصہ بٹایا‘ لیکن سچی بات یہی ہے کہ ع
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور
اس مطالعے میں ہم پہلے مختصراً یہ تعین کریں گے کہ سید مودودیؒ نے فکری میدان میں اصل کارنامہ کیا انجام دیا‘ تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ ان کے اصلاحی کام کے بنیادی خدوخال کس فکری اساس کے برگ و بار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسی پس منظر میں یہ دیکھیں گے کہ اکیسویں صدی اور خصوصیت سے ۱۱ستمبر کے بعد کی دنیا اور اس میں اُمت مسلمہ کو درپیش چیلنجوںسے عہدہ برآ ہونے کے لیے سید مودودی کے روشن کردہ چراغ کیا روشنی فراہم کرتے ہیں اور اسلامی تحریکات اور ان کے قائدین کو بالخصوص جو مسائل درپیش ہیں۔ سیدمودودیؒ کے فکر اور اصلاحی حکمت عملی کی روشنی میں انھیں کس طرح اور کس رخ پر آگے بڑھتے ہوئے حل کیا جاسکتا ہے۔ سیدمودودی کے خیالات حرفِ آخر نہیں ہیں اور ہماری یہ کوشش بھی ایک جسارت سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی ہے۔ اس کے باوصف ہم یہ متعین کرنے کی ایک طالب علمانہ کاوش کررہے ہیں کہ بیسویں صدی میں تو سید مودودی نے جو کچھ خدمت انجام دی ہے اس کی عظمت اپنی جگہ‘ لیکن ان کی فکر اور تجربے سے بھرپور رہنمائی (inspiration) لیتے ہوئے ہمیں اکیسویں صدی میں کیا کرنے کی ضرورت ہے؟
ہم ابتدا ہی میں یہ بات کہہ دینا چاہتے ہیں کہ مولانا مودودی ایک انسان تھے اور کسی انسان کی فکر یا عمل ہمیشہ کے لیے نمونہ نہیں بن سکتے۔ یہ مقام تو صرف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے جن کی رہنمائی اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں: وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی o اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌ یُّوْحٰی - (النجم: ۵۳:۳-۴)،’’وہ اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتا‘ یہ تو ایک وحی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے‘‘۔اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ خود مولانا مودودی نے جو تربیت ہمیں دی‘ اس میں سب سے نمایاں پہلو یہی تھا کہ انھوں نے نہ خود کو تنقید واحتساب سے بالا رکھا اور نہ ہمیں شخصیت پرستی کی راہ پر ڈالا۔
شروع ہی میں یہ وضاحت کر دینا بھی ضروری ہے‘ کہ ’فکرمودودی‘ خود کوئی مستقل بالذات چیز نہیں ہے‘ بلکہ مولانا مودودیؒ کی اصل کوشش یہ تھی کہ قرآن و سنت کی تعلیم کو اس کی اصل روح کے مطابق عصری حالات و ظروف کے پس منظرمیں پیش کریں اور اُمت کا رشتہ قرآن وسنت سے جوڑیں۔
مولانا مودودیؒ کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے قرآن و سنت کو تحریک اور اُمت کے لیے ہدایت اور روشنی کے منبع کے طور پر پیش کیا اور اس کسوٹی پر حال اور ماضی کی ہر کوشش کو پرکھنے کا درس دیا۔ یہی وجہ ہے کہ تحریکِ اسلامی کوئی مذہبی فرقہ یا مسلک نہیں ہے‘ بلکہ اس نے سب فرقوں اور مسلکوں کو قرآن و سنت کی بنیاد پر ایک متحرک قوت میں ڈھال دینے کی کوشش ہے۔ بلاشبہہ‘ اللہ تعالیٰ ہر دور میں انسانوں ہی کو اپنے پیغام کی تجدید اور تنفیذ کے لیے ذریعہ بناتا ہے۔ چنانچہ اس حد تک ان ایسے برگزیدہ انسانوں کا ذکر اور ان کی خدمات کا اعتراف بھی فطری امر ہے جو اس کارعظیم میں انسانوں کو اٹھانے‘ منظم و متحرک کرنے اور پھر ایک متعین راہِ عمل پر گامزن ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔ اس لیے ہماری توجہ کا مرکز بھی ان رجال کار کی ذات سے زیادہ دین اسلام کی تفہیم‘ اس کے مقام اور سربلندی کے لیے ان کی کوششیں ہوں گی۔
مولانا مودودیؒ کے اس علمی اور فکری کام کے لیے چار پہلو اہم ہیں: پہلا دین کا وہ تصور جسے انھوں نے اجاگر کیا۔ دوسرا وہ ’طرزِفکر‘ جس کے ذریعے اس کام کو انجام دیا گیا۔ تیسرے تبدیلی احوال اور احیاے دین کے لیے وہ ’حکمت عملی‘ جو اپنے زمانے کے حالات کی روشنی میں انھوں نے مرتب کی۔ چوتھے وہ عملی جدوجہد‘ اس کے اصول وضوابط اور تنظیمی ڈھانچے اور راستے جن پر عملاً انھوں نے اپنی جدوجہد کو مرکوز کیا۔
ہم اس مضمون میں زیادہ توجہ مولانا مودودی کے ’طرزِفکر‘ پر مرکوز کرنا چاہتے ہیں اور باقی تینوں کے بارے میں صرف مختصر اشارات پر اکتفا کریں گے اور یہ اس لیے کہ اکیسویں صدی کے لیے مولانا مودودی کے پیغام کا استنباط کرنے کے لیے توجہ کا مرکز ’فکر‘ سے بھی زیادہ ’طرزِفکر‘ ہی کو ہونا چاہیے۔
۱- حق‘ حق ہے اور اسے کسی دوسرے سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اللہ حق ہے‘ اللہ کا رسولؐ حق ہے‘ اللہ کی کتاب حق ہے‘ اللہ کا دین حق ہے‘ اوراللہ کا وعدہ یعنی آخرت ‘جنت اور جہنم حق ہیں۔ ان سب کو ہمیں صرف حق ہونے کی حیثیت ہی سے قبول کرنا چاہیے۔ یہ ان کے حق ہونے کا تقاضا ہے۔ اس لیے کہ حق خود سب سے بڑی طاقت ہے--- ایمان حق کو حق تسلیم کرنے ہی سے عبارت ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ اسے یکسوئی کے ساتھ قبول کیا جائے اور زندگی کی تمام وسعتوں میں یک رنگی اور وفاداری کا ثبوت پیش کیا جائے‘ اور حق کے غلبے کی جدوجہد میں تن‘ من‘ دھن سے جُت جائیں: قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o لاَ شَرِیْکَ لَہٗج (الانعام ۶:۱۶۲-۱۶۳)، ’’کہو‘ میری نماز‘ میرے تمام مراسمِ عبودیت‘ میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں‘‘۔ گویا حق کے غلبے کی جدوجہد بھی حق ہی کا ایک حصہ ہے جسے صاحبِ حق کے بتائے ہوئے طریقے ہی سے جاری و ساری رکھا جاسکتا ہے۔ یہ طریقہ اسوہ انبیا علیہم السلام اور منہج رسالتؐ ہے اور اس کا آخری اور مکمل ترین ماڈل محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ کامل ہے۔
۲- تاریخِ انسانی میں انسان کے سامنے صرف دو ہی راستے ہوسکتے ہیں--- ایک اللہ کی ہدایت اور اللہ کے رسولوں اور انعام یافتہ پیروکاروں کا راستہ‘ اور دوسرا انسانوں کا اپنا اختراع کردہ راستہ‘ خواہ اس کا نام‘ شکل اور زمانہ کچھ بھی ہو۔ بنی نوع انسان کا اصل مسئلہ ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ وہ اللہ کا ہدایت کردہ راستہ اختیار کریں یا انسان کا اپنا خودساختہ راستہ--- آج بھی انسان کا بنیادی مسئلہ یہی ہے اور ہمیشہ رہے گا: ’’پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمھارے پاس پہنچے‘ تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے‘ اُن کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا‘ اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے‘ وہ آگ میں جانے والے ہیں‘ جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔( البقرہ ۲:۳۸-۳۹)
۳- انبیا علیہم السلام کے بتائے ہوئے طریقے کا نام دین اسلام ہے۔ کائنات کا پورا نظام اللہ کے قانون کے مطابق چل رہا ہے‘ لیکن اس فرق کے ساتھ کہ کائنات کی ہر شے اللہ کے قانون کی پابند ہے۔ البتہ انسانوں کو آزادی کی نعمت سے نوازا گیا ہے اور ان کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ بہ رضا و رغبت اللہ کے قانون (دین) کو قبول کر کے اپنی فطرت اور کائنات کے نظام سے ہم آہنگ ہوجائیں--- یہ سپردگی ہی اسلام ہے اور اسی کے ذریعے دل کا چین اور زندگی اور کائنات میں امن و سکون میسرآسکتا ہے۔
۴- زندگی ایک ناقابلِ تقسیم وحدت ہے‘ اور دین اسلام نام ہے زندگی کے پورے نظام کو اللہ کی بندگی میں لانے کا۔مراسم عبادت سے لے کر انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر پہلو کو اللہ کے رنگ میں رنگا ہونا چاہیے: (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃًص وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِط (البقرہ۲:۲۰۸)، ’’اے ایمان لانے والو‘ تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو‘‘۔ اور صِبْغَۃَ اللّٰہِج وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃًز (البقرہ۲:۱۳۸)، ’’کہو:اللہ کا رنگ اختیار کرو۔ اس کے رنگ سے اچھا اور کس کا رنگ ہوگا‘‘۔ یہ ہدایت زندگی کے ہر شعبے اور سرگرمی کے لیے رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ دین کامل اور مکمل ہے۔ اس ابدی ہدایت کا ایک معجزاتی پہلو یہ ہے کہ جہاں اس میں ہر زمانے کے لیے زندگی کی جملہ ضروریات کے لیے رہنمائی موجود ہے‘ وہیں اس کے نظامِ کار میں وہ گنجایش بھی موجود ہے جو مرورزمانہ کی تبدیلیوں اور ضروریات کے تقاضوں کو پورا کر سکے۔ گویا ثبات اور تغیر کا ایک حسین امتزاج ہے جو اس کے نظام کا حصہ ہے۔ جو تبدیلی اور تسلسل کے لیے ایک خودکار انتظام کا بندوبست کر دیتا ہے۔
۵- یہ دین اعتدال‘ انصاف‘ توازن اور راہِ وسط کی نشان دہی کرتا ہے: وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ (البقرہ۲:۱۴۳) ، ’’اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اُمت وسط‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو‘‘۔دین اسلام فطرت سے ہم آہنگ ہے‘ عدل اورفلاح کا ضامن ہے‘ حشووزوائد سے پاک ہے‘ آزادی اور ترقی کا علم بردار ہے۔ یہ دین جسم و جاں‘ روح و بدن‘ مادی اور روحانی‘ اخلاقی اور دنیوی ہر ضرورت کو پورا کرتا ہے۔ یہ ’وسطیہ‘ اس کی شان ہے (خیرالامور اوسطھا) جو اس کا حصہ (built-in) اور شناخت ہے اور کہیں باہر سے نہیں لائی جاتی۔ خود ساختہ اعتدال کے نام پر کسی تراش خراش کی اسے حاجت نہیں۔ اعتماد‘ رواداری‘ استقامت اور حکمت اس کے اپنے اصول اور شناخت کے ذرائع ہیں۔
یہ حق‘ یہ ہدایت‘ یہ دین بھی آپ سے آپ نافذ نہیں ہوتا‘بلکہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایمان‘ عمل اور جدوجہد کا راستہ تعلیم فرمایا ہے اور انبیاے کرام ؑنے اپنے عمل اور اپنی تحریک سے اس کے لیے نقشہ راہ (road map) فراہم کر دیا ہے‘ جو یہ ہے:
۱- اسے پورے یقین کے ساتھ قبول کرو (ایمان)
۲- اس پر خود عمل کرو اور استقامت کے ساتھ کرو۔ (اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا - الاحقاف ۴۶:۱۳)
۳- تمام انسانوں کو اس کی دعوت دو۔ (وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلاً مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحاً- حم السجدہ ۴۱:۳۳)
۴- اس دین کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تعمیرنو کرو--- اسے پوری زندگی پر غالب اور حکمران کر لو۔ (ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّـہٖ - الصف ۶۱:۹)
ایمان اس کا نقطۂ آغاز ہے‘ عمل اس ایمان کا اولین تقاضا ہے‘ عبادت اور اللہ کی اطاعت اور بندگی اس کا فطری مظہر اور اللہ کی رضا اس کا مطلوب و مقصود ہے۔ یہ عبادت محض مراسم عبادت تک محدود نہیں بلکہ پوری زندگی کو اللہ کے قانون اور ہدایت کے مطابق ڈھالنے اور سنوارنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ پھر ایمان ہی کا یہ تقاضا ہے کہ اس شمع کو روشن کیا جائے اور اس نور کو پھیلانے کے لیے انفرادی اور اجتماعی جدوجہد کی جائے ایک مسلسل‘ جاں گسل‘ نہ ختم ہونے والی جدوجہد۔
اسی جدوجہد کا نام جہاد ہے‘ جو نفس کے خلاف جہاد سے شروع ہو کر اللہ کی زمین پر اللہ کے دین کے قیام اور اس کے دیے ہوئے قانونِ حیات کے نفاذ کے ہر کوشش اور ہر قربانی سے عبارت ہے اور یہی عبادت کی معراج ہے۔ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ میں بتائوں تم کو وہ تجارت جو تمھیں عذاب الیم سے بچا دے؟ ایمان لائو اللہ اور اس کے رسولؐ پر‘ اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے۔ یہی تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو‘‘۔(الصف ۶۱:۱۰-۱۱)
دعوت اور جہاد ایک ہی جدوجہد کے مختلف رخ ہیں۔ اس میں جبر اور دہشت گردی کا کوئی شائبہ بھی نہیں۔ (لاَ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِلا،دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔البقرہ ۲:۲۵۶) یہ پیغام دلیل‘ مباحثے اور مجادلے‘ دعوت اور ڈائیلاگ‘ محبت‘ دردمندی اور خدمت سے انسانوں تک پہنچایا جاتا ہے لیکن اگر اسے قوت سے دبانے اور روکنے کی کوشش کی جائے تو پھر ظلم اور طغیان کا مردانہ وار مقابلہ اور جان اور مال کی قربانی بھی اسی جدوجہد کے اعلیٰ مراحل میں شامل ہے۔ اسی دعوت اور جدوجہد کے نتیجے میں مسلمان فرد (مرد و عورت) مسلم خاندان‘ مسلم معاشرہ‘ اسلامی ریاست و حکومت اور انصاف پر مبنی عالمی نظام وجود میں آتے ہیں۔
۶- یہ ساری جدوجہد انفرادی ذمہ داری بھی ہے اور اجتماعی بھی۔ ہرمسلمان‘ اُمت مسلمہ کا حصہ ہے ۔ یہ اُمت ایک صاحب مشن اور صاحب شریعت اُمت ہے۔ جس کا مقصد وجود اور فرضِ منصبی ہی دین حق کی شہادت‘اللہ کی بندگی کی دعوت‘ امربالمعروف اور نہی عن المنکر‘ قیام انصاف‘ مظلوموں کی مدد و اعانت اور پوری انسانیت کو اس کے رب کی بندگی کی طرف بلانا اور بندگی رب کے نظام کو قائم کرنا ہے۔ (کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِط- اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو‘ بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔(اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰)
۷- اس مشن (قولی اور عملی شہادت‘ انفرادی اور اجتماعی شہادت‘ اقامت دین) کے لیے جو راستہ ‘اللہ کے رسولؐ نے طے کر دیا ہے وہ ہے:
اپنی اصلاح --- اجتماعیت کی اصلاح--- اخلاق و کردار اور علم و تقویٰ کی قوت کے ساتھ وسائل و ذرائع کا موثر ترین استعمال‘ قوت کے منبع کی تسخیر‘ بہترین صلاحیت اور استطاعت کا حصول اور طاقت کی ہر شکل کو اللہ کا مطیع اور اس کے پیغام کو پھیلانے کی خدمت کا آلہ کار بنانا‘ تاکہ عدل و انصاف قائم ہوسکے‘ حق حق دار کو مل سکے اور ظلم و استحصال کا خاتمہ ہو سکے۔ چنگیزیت سے انسانیت کو محفوظ رکھنے کا یہی طریقہ ہے اور یہ بھی عبادت ہی کی ایک شکل ہے۔ (وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ - الانفال ۸:۶۰‘ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبِ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِج - الحدید۵۷:۲۵)
اولاً: ایمان‘ اخلاقی برتری‘ اعلیٰ کردار اور تقویٰ اور خدا ترسی کی زندگی۔
ثانیاً: فکری قوت اور قیادت۔
ثالثاً: اجتماعی قوت--- اخلاقی‘ معاشی‘ مادی‘ سیاسی‘ سائنسی‘ عسکری--- مقابلے کی قوت‘ تاکہ وقت کے تقاضوں اور عصری حالات کا مقابلہ کیا جا سکے۔
یہ کام اللہ سے تعلق‘ فکری گہرائی اور اجتماعی طاقت تینوں کے بیک وقت حصول اور مقابلے کی طاقت کی فراہمی ہی سے انجام دیا جا سکتا ہے۔ اس لیے ایمان‘ اجتہاد اور جہاد ہی وہ ستون ہیں جن پر دین کی عمارت کی تعمیر ممکن ہے اور انھی پر اس کے استحکام کا انحصار ہے۔
سیاسی مغلوبیت‘ ذہنی انتشار‘ اخلاقی خلفشار‘ اور تہذیبی پراگندگی کے ماحول میں سیدابوالاعلیٰ مودودی کی یہ آواز ایک نئے وژن کا پیغام دیتی تھی۔ سید مودودیؒ کی یہ پکار قرآن کی طرف رجوع کرنے (back to the Quran) اور قرآن کی صداقت پر کامل ایمان کے ذریعے پیش قدمی کرنے (forward with the Quran)کی دعوت تھی۔ سید مودودی کی یہی وہ فکر تھی جس نے اُمت کی مضطرب روحوں کو روشنی کا پیغام دیا‘ دلیل اور تعین کے ساتھ دین کا اصل وژن پیش کیا۔ یہی وہ دعوت تھی جس نے اُمت کونئے اعتماد‘ ولولے اور اُمید سے شادکام کیا۔ ایک طرف اسلام کی شاہراہ عمل کو صاف لفظوں میں پیش کیا تو دوسری طرف انھیں انفرادی اور اجتماعی جدوجہد کا راستہ دکھایا۔ اسلام کو مسلم معاشرے کی ایک کارفرما قوت بنانے کی دعوت دی اور اسلام کو ایک عالمی پیغام اور زندگی کے دھارے کو بدلنے والی تحریک کے طور پر صرف روشناس ہی نہیں کرایا‘ بلکہ فکری اور عملی و تنظیمی جدوجہد کے ذریعے ایک ملک گیر اور بالآخر عالمی جدوجہد میں منظم کر دیا۔
سید مودودیؒکے کارنامے پر نگاہ ڈالی جائے تو صاف نظرآتا ہے کہ انھوں نے پہلے دن سے یہ محسوس کر لیا تھا کہ ان کے دور کے مسلمانوں کی سب سے پہلی ضرورت تصورِ دین کی اصلاح ہے۔ مختلف داخلی اور خارجی اسباب کے نتیجے میںخود مسلمانوں نے بھی زندگی کو مختلف خانوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ انھوں نے دین کو گھر‘ مسجد اور زیادہ سے زیادہ مدرسے اور چند مذہبی رسوم و رواج تک محدود کر لیا تھا اور اسی پر قانع ہوگئے تھے۔ دین کے اس تصور پر ضرب کاری لگانا وقت کی اہم ضرورت تھی‘ تاکہ قرآن کا تصورِ دین اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے برپا کردہ انقلاب کا تصور ایک بار پھر کسی کمی بیشی کے بغیر ان کے سامنے رکھا جا سکے اور انھیں توحید اور عبادت کا صحیح مفہوم سمجھایا جا سکے۔
پھر قول و فعل کا تضاد مسلمانوں کو کھائے جا رہا تھا‘ جس نے اسلام کی برکتوں سے ان کی زندگیوں کو محروم کر دیا تھا۔ سید مودودیؒ نے ایمان اور عمل‘ عبادت اور زندگی کے تمام شعبوں سے اس کے ربط کو واضح کیا۔ اسی طرح اجتماعی زندگی اور نظام کا بگاڑ‘ قیادت کا غلط ہاتھوں میں چلا جانا اور مسلمانوں کا قوت اور اقتدار سے محروم ہو کر‘ ایک محکوم قوم بن جانا تھا۔ یہ وہ اسباب تھے جن کے نتیجے میں مسلمان اپنے اصل مشن اور کردار سے غافل ہوگئے تھے اور چھوٹے چھوٹے مفادات کے پجاری بن گئے تھے۔ سید مودودی نے زوال اور کمزوری کے ان تمام اسباب کو ٹھیک ٹھیک متعین کرکے ان کا موثر سدباب کرنے کا بیڑا اٹھایا اور اپنی اور اُمت کی ساری توجہ کو جزوی اور وقتی مسائل اور معاملات سے ہٹاکر چند مرکزی نکات پر مرکوز کیا‘ جنھیں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے:
یہ چھ نکات ہیں جن پر سیدمودودی علیہ الرحمہ نے اُمت مسلمہ کو جمع کرنے اور بیسویں صدی کی اسلامی جدوجہد کو ان کے مطابق مرتب کرنے کی سعی کی۔
میں جس چیز کو سید مودودی کی ’طرزِفکر‘ کہتا ہوں اس کا پہلا نکتہ دین کا یہ تصور‘ دین کی دعوت اور اقامت کا یہ وژن اور اس وژن کے مطابق اُمت کو متحرک کرنے کے لیے وہ تنظیمی اقدام ہے‘ جو جماعت اسلامی اور اس کی برادر تنظیموں کی شکل میں‘ ان کی قیادت اور رہنمائی میں وجود میں آئیں۔ لیکن سیدمرحوم کے ’طرزِفکر‘ کا پورا احاطہ صرف اس مرکزی نکتے کی شکل میں نہیں کیاجاسکتا۔ اس کے لیے ان اصولوں اور ضابطوں کی نشان دہی بھی ضروری ہے جو سید مودودیؒ کو اس مرکزی نکتے تک لائی اور جس کے لیے انھوں نے اپنی ساٹھ سالہ جدوجہد میں اپنے ساتھیوں ہی کو نہیں‘ پوری اُمت کو بھی تلقین اور وصیت کی۔ اس رہنمائی کے مرکزی نکات یہ ہیں:
ا - اسلامی فکروعمل کی آبیاری کہ اُمت اور اس کے ایک ایک فرد کی قوت کا اصل منبع اللہ سے تعلق اور ایمان‘ رب کی پہچان ہے۔ صرف اسی خالق و مالک کے دامن کو تھامنے کا نام ایمان کامل ہے۔ عقل اور وسائل کا اپنا مقام ہے اور بہت اہم مقام ہے‘ لیکن اولین چیز اللہ پر ایمان اور اس کے صحیح تقاضوں کا شعور ہے۔ پھر اللہ پر بھروسا اور صرف اس سے استعانت ہی مسلمانوں کی قوت کا اصل منبع ہے۔ توحید کی حقیقت کو پانا زندگی کے تمام معاملات کے حل کے لیے شاہ کلید کی حیثیت رکھتا ہے۔
ب- قرآن و سنت اس اُمت کی رہنمائی کا اصل سرچشمہ ہیں۔ فقہ‘ تاریخ‘ مسلمانوں کے افکار‘ اجتہادات اور تجربات سب اپنے اپنے مقام پر ضروری ہیں۔ ماضی سے رشتہ اور روایت کا احترام‘ تہذیبی شناخت اور تسلسل کے لیے ضروری ہیں‘ لیکن ہدایت کے ماخذ کی ترتیب میں قرآن سب سے اولین ہے اور سنت اس کا لازمی حصہ۔ اسلاف سے محبت‘ ان سے تعلق‘ ان کا احترام ازبس ضروری ہے‘ لیکن حق کا معیار صرف اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ اور طریقہ ہے۔ اولین دور میں مسلمانوں کی ترقی کا اصل سبب اللہ سے رشتہ اور اللہ کی کتاب سے تعلق اور اللہ کے رسولؐ کو یہ مرکزی حیثیت دینا تھا۔ افسوس کہ بعد میں یہ ترتیب بدل گئی۔
فقہ کا بڑا اہم کردار ہے اور رہے گا‘ لیکن ہر دور میں اور خصوصیت سے آج کے دور میں تمدن کے احوال و ظروف کی ہر سطح پر ایسی بنیادی تبدیلیاں واقع ہوگئی ہیں کہ زندگی سے دین کی مفید مطلب مطابقت (relevence )کو دوبارہ منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام اسی وقت ممکن ہے کہ الاول فالاول کے اصول پر قرآن و سنت کو مرکزی حیثیت دی جائے اور ان کے سائے تلے فقہ اور روایت سے استفادہ کیا جائے ‘اور خصوصیت سے نئے مسائل کے حل کے لیے اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسولؐ کی سنت ہی کو اولین سرچشمہ بنایا جائے۔ اجتہاد اور فکری آزادی پر جو خودساختہ اور ناروا پابندیاں لگ گئی ہیں‘ ان سے چھٹکارا پایا جائے۔ یہ کام نہ درایت سے بغاوت کے انداز میں ہو اور نہ روایت کا اسیر بن کر کیا جائے۔ فکری اور عملی جدوجہد کے لیے بھی اور تعلیم کے پورے نظام میں بھی اعتدال کے ساتھ صحیح ترتیب کا احیا ضروری ہے۔
ج- اس کام کو انجام دینے کے لیے اصول اور فروع‘ مقصد اور پالیسی کے فرق‘ نصب العین اور اقدار اور ضابطوں اور طریق کار کا تعلق‘ بنیاد اور تفصیل میں تمیز‘ منصوص اور غیرمنصوص اور مسنون اور غیرمسنون کے مراتب کا لحاظ اور سنت اور بدعت کی حقیقی تفہیم ضروری ہے۔ تقلید کے لمبے دور میں ان ترجیحات‘اور بنیادی اصولوں اورضابطوں کو نظرانداز کر دیا گیا تھا اور آج تجدید و احیا کا کام انجام دینے کے لیے ان کی پاس داری ضروری ہے۔
ان تمام پہلوئوں پر کھل کر بحث ہو‘ ترجیحات کا صحیح تعین ہو اور تقدیم و تاخیر اور راجع ]رجوع کرنے والی[ اور غیر راجع کی حدود اور شکلوں کا صحیح شعور پیدا کیا جائے۔ نیز عصری حالات کے مطابق لیکن قرآن وسنت سے مکمل وفاداری کے ساتھ‘ روایت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ وقت کے تقاضوںکے مطابق اسلام کو زندگی کا رہنما بنایا جائے‘ تاکہ جمود کو توڑ کر صحت مند حرکت کو پھر حقیقت کا روپ دیا جائے۔ ایسی ہی حرکت میں برکت ہے۔
د- اس کام کو انجام دینے کے لیے زمانے کے حالات‘ مسائل اور ان تبدیلیوں کا تنقیدی مطالعہ اور تجزیہ بھی نہایت ضروری ہے۔ درحقیقت یہ اتنا ہی ضروری ہے جتنا اپنے اصل نصب العین‘ اصول و اقدار‘ قانون واحکام‘ ترجیحات اور مطلوبہ خطوط کار کے تنفیذی عمل کا اطلاق۔ ایک طرف اُمت مسلمہ کی موجودہ حالت (status quo) اور روایت پر ہونا چاہیے تو دوسری طرف دورِحاضر کی غالب تہذیب اور اس کے زیراثر پوری دنیا کے نظام اور طریق واردات کا محاکمہ ہونا چاہیے۔ہماری اپنی تہذیبی ترقی کے سلسلے کا جو انقطاع واقع ہوا ہے‘ اسے بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور جو خلا واقع ہوا ہے‘ اسے پورا کرنے کے لیے اجتہادی بصیرت کی ضرورت ہے‘ جو نہ غالب تہذیب کی نقالی سے ممکن ہے اور نہ خود اندھی تقلید پر انحصار کرنے سے کچھ خیر رونما ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے خیروشر میں تمیز اور اپنے تجربات میں سے مفید کو جاری رکھنا اور راہ کی رکاوٹوں کو دُور کرنا اور غالب تہذیب کا بھی ایسی ناقدانہ نگاہ سے مطالعہ کرنا کہ اس کے ان پہلوئوں سے استفادہ ممکن ہو جو ترقی کے اصل اسباب ہیں اور ان تمام برائیوں اور خباثتوں سے اجتناب کرنا کہ جو انسانی زندگی کو بگاڑ اور فساد کی جہنم میں دھکیل رہے ہیں۔ خذما صفا ودع ما کدر۔
ہ- اس پورے کام کو انجام دینے میں ایک اور پہلو کی فکر ضروری ہے۔ وہ پہلو‘ وہ مقصد اور نظریے سے حقیقی معنوں میں مکمل وفاداری (کمٹ منٹ) کے ساتھ حقیقت پسندی (realism) اور اپنے دین کے اصولوں کا نئے حالات میں اطلاق اور اس کے لیے جس دانش و بصیرت (practical wisdom) کی ضرورت ہے‘ اس کا ٹھیک ٹھیک استعمال ہے۔ سید مودودی نے اس سلسلے میں بار بار حکیم حاذق کی مثال دی ہے جو بزرگوں کے نسخوں کا آنکھیں بند کر کے استعمال نہیں کرتا‘ بلکہ مریض کے حال اور دوائوں کی خاصیت کو سامنے رکھ کر طب کے ابدی اصولوں کا ہر ہر مریض پر الگ الگ اطلاق کرتا ہے۔ سید مودودی نے صاف لفظوں میں کہا تھا :’’ حقیقی مصلح کی تعریف یہ ہے کہ وہ اجتہاد وفکر سے کام لیتا ہے اور وقت اور موقعے کے لحاظ سے جو مناسب ترین تدبیر ہوتی ہے‘ اسے اختیار کرتا ہے‘‘۔ یہ زاویہ نظر سید مودودیؒ کے ’طرزِفکر‘ کا اہم حصہ ہے۔
یہ وہ مرکزی نکات ہیں جن سے سید مودودی کا ’طرزِفکر‘ عبارت ہے۔ اس میں مقصد کا شعور‘ اور دین کے سرچشموں سے وفاداری بھی ہے اور اس کے ساتھ آزادی فکر‘ شوریٰ‘ نئے تجربات‘ عصری ضروریات کا شعور‘ مقابلے کی قوت کی فراہمی اور مردان کار کی تیاری سب شامل ہیں۔ سید مودودی نے نئے حالات میں نئی حکمت عملی اختیار کرنے اور نئے تجربات کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ اور یہ بھی ان کے ’طرزِفکر‘ کا ایک اہم پہلو ہے۔
سیدمودودیؒ کے طرزِفکر کے مختلف گوشوں پر کلام کرنے کے بعد‘ اس موضوع پر بات کرنا مناسب ہوگا کہ اکیسویں صدی کے اوائل میں پاکستان ہی نہیں‘ پوری دنیا میں آج تحریکِ اسلامی کس مرحلے میں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فکری میدان میں اسلام کے ایک مکمل اور جامع دین اور نظریۂ حیات ہونے اور اس نظریے کو غالب کرنے کے لیے انفرادی جدوجہد کے ساتھ اجتماعی تحریک کی ضرورت تو اب روزِ روشن کی طرح واضح ہے۔
اسلامی تحریکوں کے مؤسسین نے (اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتیں بارش کرے) یہ کام بڑی خوبی کے ساتھ انجام دیا ہے اور ان کے اخلاص سے اجتماعی جدوجہد کا آغاز ہوگیا ہے--- لیکن ہمارے خیال میں یہ صرف آغاز ہوا ہے‘ تکمیل کی منزل ابھی بہت دُور ہے اور ہمیں اور پوری اُمت کو مسلسل دعوت عمل دے رہی ہے۔ اس آغاز نے جہاں مسلمانوں کو نیاجذبہ‘ نئی روشنی‘ نئی اُمنگ اور زندگی کے لیے ایک خوب صورت ہدف فراہم کیا ہے‘ وہیں مخالفین کے لیے بھی خطرے کی گھنٹیاں بج گئی ہیں۔ اسی لیے وقت کے فرعونوں اور ہامانوں کی زبان سے ’کروسیڈ‘ کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں اور مختلف عنوانوں سے اسلامی احیا کو اصل نشانہ اور خطرہ بناکر پیش کیا جارہا ہے۔ ہاروڈ یونی ورسٹی کے امریکی پروفیسر سیموئیل ہنٹنگٹننے اپنی کتاب The Clash of Civilizations (تہذیبوں کا تصادم) میں بہت صاف الفاظ میں مغرب کے نقشۂ جنگ کو پیش کر دیا ہے:
مغرب کا حقیقی مسئلہ اسلامی بنیاد پرستی نہیں ہے‘ بلکہ خود اسلام ہے۔ اسلام جو ایک مختلف تہذیب ہے جس کے ماننے والے اپنے تشخص کی فوقیت کے علاوہ طاقت کی کمزوری کا شکار ہیں۔ ادھر اسلام کے لیے‘ سی آئی اے یا امریکی محکمہ دفاع اصل مسئلہ نہیں ہیں‘ بلکہ خود مغرب مسئلہ ہے‘ جو ایک مختلف تہذیب ہے۔ ایسی تہذیب‘ جس کے ماننے والے اپنی ثقافت کی آفاقیت کے قائل ہیں‘ اور اپنی ثقافت کو پوری دنیا پر حاوی کرناچاہتے ہیں۔ یہ وہ بنیادی عوامل ہیں‘ جو اسلام اور مغرب کے درمیان تصادم کو فروغ دے رہے ہیں۔(حوالہ بالا‘ ص ۲۱۷-۲۱۸)
مغربی مفکرین اسلام کو ہوّا اور دشمن بناکر پیش کر رہے ہیں اور اس کی روشنی میں نقشۂ جنگ بنانے میں مصروف ہیں‘ جب کہ مسلمان اُمت اور اسلامی تحریکوں کا اصل مسئلہ کسی سے جنگ یا مقابلہ نہیں‘ بلکہ اپنے گھر کی اصلاح اور تعمیرہے۔ افکار و نظریات کا تبادلہ اور رد و قبول انسان کا بنیادی حق ہے‘ جسے جنگ سے منسلک نہیں کرنا چاہیے۔ اہلِ مغرب کے دانش وروں اور ان کے اہلِ حل و عقد کا مرض بھی اس اقتباس سے واضح ہے کہ وہ طاقت کی بنیاد پر یہ اپنا حق سمجھتا ہے کہ اپنے تصورات اور کلچر کو دوسروں پر مسلط کرے۔ امرواقعہ یہ ہے کہ بگاڑ کی جڑ اسلام یا مسلمانوں کی بے بسی نہیں‘ مغرب کا یہ فاسد نظریہ ہے۔ لیکن آج مسلمان اس سے غافل ہیں کہ اپنی پوزیشن کو دلیل کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کریں اور مغربی میڈیا نے عام لوگوں کے ذہنوں کو جس طرح مسموم کر دیا ہے‘ اس کا بھرپور مقابلہ کر سکیں۔
یہ مقابلہ کسی ادھورے عمل اور قریبی یا مختصر راستے (shortcut) سے نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے تو وہی طریقہ اختیار کرنا پڑے گا‘ جو بیسویں صدی کے آغاز میں ساری کمزوریوں کے باوجود احیاے اسلام کی تحریکات کے مؤسسین نے اختیار کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بیسویں صدی کے آغاز اور اکیسویں صدی کے اوائل میں بہت سی مماثلتیں دیکھ رہے ہیں۔ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد افغانستان اور عراق پر امریکا کی وحشیانہ فوج کشی اور ساری دنیا میں نام نہاد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر فکری‘ ابلاغی‘ سیاسی اور عسکری میدانوں میں خونیں جارحیت نے صورت حال کو اور بھی گمبھیر بنا دیا ہے۔ اس وقت محض جذباتی انداز میں کوئی فوری انتقامی کارروائی اسلام اور مسلمانوں کے حقیقی مقاصد اور اہداف کی خدمت نہیں کرسکتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ بیسویں صدی کے فکر اور تجربات کی روشنی میں‘ اکیسویں صدی کے لیے مسلمان اور خصوصیت سے اسلامی تحریکیں اپنی حکمت عملی وضع کریں۔
اس وقت جو بنیادی چیلنج مسلم اُمہ کو درپیش ہیں ان کے دو بڑے بڑے محاذ ہیں: ایک دفاعی اور دوسرا تعمیری۔ ان دونوں کے بارے میں کچھ معروضات پیش کی جا رہی ہیں:
جس طرح بیسویں صدی کے آغاز میں یورپی استعمار‘مسلم دنیا پر مسلط تھا‘ اسی طرح اب اکیسویں صدی کے آغاز میں ہمارا واسطہ امریکی استعمار سے ہے‘ لیکن جوہری فرق کے ساتھ۔
اس وقت امریکا عسکری اعتبار سے واحد سوپر پاور ہے۔ اس کا جنگی بجٹ باقی تمام دنیا کے تمام ممالک کے مجموعی بجٹ کے برابر ہے۔ اس کی معاشی صلاحیت دنیا کی معیشت کا ایک چوتھائی ہونے کے باوجود ایسی نہیں ہے کہ بہت لمبے عرصے تک وہ محض عسکری قوت کے بل پر دنیا کے بڑے حصے کو اپنے قابو میں رکھ سکے۔
ہرچند کہ امریکا کی کوشش ہے اور یہی اس کی موجودہ قیادت کا اعلان شدہ ہدف بھی یہ ہے کہ وہ آیندہ پچیس پچاس سال تک واحد سوپر پاور رہے اور کوئی مدمقابل اُبھرنے نہ پائے۔ لیکن یہ دھونس اور دعویٰ‘ قدرت کے قانون کے خلاف ہے۔ البتہ عسکری قوت کے ساتھ ابلاغی قوت ایک ایسے مقام پر ہے کہ دنیا کی آبادی کے بڑے حصے کے ذہنوں کو اس سے مسموم اور خائف کیا جاسکتا ہے اور کیا جا رہا ہے۔ تاہم‘ اس میدان میں بھی یہ قوت اور اختیار غیرمحدود نہیں ہے اور صحیح معلومات کو چھپانے اور دنیا کو دھوکے میں رکھنے کی ایک حد ہے--- جیساکہ عراق پر حملے کے اسباب کے سلسلے میں سامنے آیا ہے۔ پھر دنیا کے دوسرے ممالک‘ خصوصیت سے یورپ کے بڑے ملک‘ چین اور ایک حد تک روس ابھی امریکا کو چیلنج نہیں کر رہے‘ لیکن پوری طرح اس کے ساتھ بھی نہیں ہیں۔ امریکا کی اس کھلی دھونس کے خلاف ان معاشروں میں اضطراب اور بے چینی کی لہریں ابھر رہی ہیں۔بے اطمینانی کی یہ لہر ساری دنیا میں اور خاص طور پر یورپ حتیٰ کہ امریکا میں عوامی قوت کی صورت میں ابھر رہی ہے۔
عالم گیریت(globalization) کے بہت سے نقصانات اور خطرات ہیں‘ لیکن اس کے کچھ مثبت پہلو بھی ہیں اور ان میں سے ایک گہرا جذبہ بغاوت ہے جو روز بروز بڑھ رہا ہے اور عالمی سطح پر ایک مثبت پہلو ہے ۔ آج کی دنیا کا سب سے پریشان کن پہلو عسکری‘ سیاسی‘ معاشی اور فنی سطح پر قوت کی عدمِ مساوات ہے--- لیکن اس کے خلاف متبادل اضطرابی لہروں (countervailing powers) کا رونما ہونا بھی ایک فطری عمل ہے۔ اس کے لیے صبر اور حکمت سے کام کرنے‘ فوری تصادم سے بچنے‘ صحیح تیاری کرنے‘ عالمی سطح پر اقدام کے لیے مناسب امکان کو تلاش کرنا ضروری ہے۔
۱- اکیسویں صدی کا سب سے اہم پہلو ’عالم گیریت‘ ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں‘ کہ تمام ناہمواریوں کے باوجود اب پوری دنیا ایک اکائی بنتی جا رہی ہے اور کسی کے لیے بھی اس سے الگ تھلگ رہنا ممکن نہیں رہا۔ اب صرف اپنی دنیا میں بند رہنے کا راستہ قابلِ عمل نہیں رہا۔ آپ چاہیں یا نہ چاہیں‘ دنیا کا ہر واقعہ آپ کو متاثر کر رہا ہے۔ تجارت اور سرمایہ کاری ہی نہیں‘ سرمایہ‘ اشیا‘ انسانوں اور معلومات کی برق رفتار نقل و حرکت کی وجہ سے حالات میں جوہری فرق واقع ہوچکا ہے‘ جس نے بے شمار خطرات اور مسائل کو جنم دیا ہے‘ اور ساتھ ہی بے پناہ امکانات کا دروازہ بھی کھول دیا ہے۔
ماضی میں تحریکِ اسلامی کے لیے ممکن تھا کہ اس کے اولین اور اصل مخاطب صرف مسلمان ہوں‘ لیکن آج یہ ممکن نہیں رہا۔ اس لیے جو کچھ مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے‘ اسے ساری دنیا میں سنا جا رہا ہے اور نتائج اخذ کیے جا رہے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہوگیا ہے کہ اسلام کے علم بردار صرف خود کلامی تک دعوت کو محدود نہ رکھیں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ فکری سرحدیں بہت دُور دُور تک پھیل گئی ہیں۔ اس لیے غیرمسلموں سے خطاب اور ان تک دعوت کو موخر نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بڑا بنیادی فرق ہے جسے ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
۲- مشرق اور مغرب اس طرح شیروشکر ہوگئے ہیں کہ دونوں کے الگ الگ مسائل ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے جملہ پہلوئوں سے صرفِ نظر کرکے کلام ممکن نہیں رہا۔ بلاشبہہ مسلم دنیا کا مسئلہ یہ ہے کہ خدا پر ایمان‘ اللہ کے رسولؐ سے وابستگی اور اسلام سے ایمانی‘ جذباتی اور ثقافتی تعلق موجود رہے ‘مگر دین کے صحیح اور مکمل تصور اور دین کے انفرادی اور اجتماعی تقاضوں کی تکمیل اور احترام میں کمی کے نتیجے میں یہ ہدف نہیں پایا جاسکتا۔ اس لیے اسلامی احیا کے ساتھ ایمان کا تعلق اجتماعی نظام زندگی کے لیے حقیقی چیلنج بن جاتا ہے۔
دوسری طرف مغربی دنیا میں اجتماعی زندگی متعدد خوبیوں اور وسائل سے مالا مال ہے‘ جن میں قانون کی حکمرانی‘ رائے کی آزادی‘ انصاف کے حصول میں سہولت‘ دولت کی فراوانی‘ تعلیم و تحقیق‘ اور ایجاد و اختراع کا عام ہونا قابل ذکر ہیں۔ لیکن دولت اور وسائل کی ارزانی میں اخلاقی اقدار کی پامالی‘ انسانی تعلقات کی تباہی‘ خاندانی نظام کا انتشار‘ جرائم اور ظلم واستحصال کی بہتات اور سب سے بڑھ کر دل کا چین‘ روح کا سکون اور اللہ سے تعلق کا فقدان‘ زندگی کو اجیرن بنائے ہوئے ہے۔ اس پس منظر میں بات صرف نظام کے اصلاح و احوال کی نہیں‘ دل کی اصلاح اور اللہ سے تعلق کی یافت کی ہے۔ ہر اس تعلق کی بنیاد پر اخلاقی اقدار کے احیا اور ہر سطح پر انصاف کے حصول کی خواہش کا جذبہ ہے۔ یہ دونوں پس منظر اب دو الگ الگ دنیا میں نہیں ہیں‘ بلکہ ایک ہی میدان کے دو محاذ ہیں۔ تحریکِ اسلامی اس جوہری فرق کو نظرانداز نہیں کرسکتی۔
۳- پھر اس نئے عالمی تناظر میں ایک عالمی طاقت کا ہمہ پہلو غلبہ ہے اور اس کے نتیجے میں سیاسی‘ مادی اور تہذیبی میدانوں میں وسائل‘ قوت اور اختیارات میں ایک شدید عدمِ توازن رونما ہوگیا ہے۔ یہ ایک ایسے معاشی اور سیاسی نظام کا غلبہ ہے جو ساری دنیا کے وسائل کو ایک محدود اقلیت کی خدمت اور چاکری کے لیے وقف کر رہا ہے۔ سرمایہ داری کا نیا روپ اور منڈی کی معیشت (مارکیٹ اکانومی) کے نام پر مغربی اقوام اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کا دنیا پر غلبہ آج ایک دوسرے میدانِ جنگ کا منظر پیش کرتے ہیں۔ مخصوص استعماری مقاصد کی حامل نام نہاد این جی اوز کا ایک خاص کردار ہے اور ریاستی قوت (state power)کے ساتھ ملٹی نیشنل کارپوریشن اور این جی اوز اس معاشی اور نظریاتی عالمی میدان کے اصل کردار ہیں‘ جن سے معاملہ کرنا وقت کا اہم چیلنج ہے۔
۳- ماضی کے سامراج کے لیے صحیح لفظ نوآبادیت (colonialism )تھا‘ جس میں سامراجی قوتیں دوسرے ممالک پر قبضے (occupation )کے ذریعے ان کے وسائل پر تسلط جماتی تھیں۔ آج کے سامراج نے بالکل ایک دوسرا روپ دھار لیا ہے۔ اب قبضہ بھی ایک حربہ ہے لیکن اصل حربہ وسائل کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنا اور عملاً دوسرے ممالک پر قبضے کے بغیر ان کے وسائل اور مردانِ کار کو اپنی گرفت میں لے لینا ہے۔ جس کے لیے میڈیا سے لے کر معاشی تسلط اور سیاسی دخل اندازی‘ دھوکا دہی اور وفاداریوں کی خرید کا راستہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ بالادستی حاصل کرنے کے سامراجی ہدف نے نقشۂ جنگ کو بالکل بدل دیا ہے۔
۵- فکری غلبہ اور ثقافتی اور تہذیبی تسلط ہمیشہ سے اہم تھے مگر آج کے میڈیا اور انفارمیشن ٹکنالوجی کے انقلاب میں ابلاغ کے ذرائع اور مائیکروچپ (micro-chip) نے ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔ اثروتاثیر کی یہ قوتیں غالب اقوام کو وہ مدد دے رہی ہیں جو اس سے پہلے کبھی حاصل نہیں تھیں۔ اب اس نئے حربے سے فوج کشی کے بغیر ملکوں‘ علاقوں اور قوموں کو فتح کیا جاسکتا ہے اور ان کی سیاسی‘ معاشی اور تہذیبی زندگی ہی کو متاثر نہیں کیا جا سکتا بلکہ ان کے ذہنوں کو بھی مسموم ‘ مفلوج اور محکوم بنایا جا سکتا ہے۔
۶- اس تناظر میں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس وقت مغربی اقوام اور خصوصیت سے امریکا کی قیادت ان عناصر کے ہاتھوں میں ہے جو ایک نئی قدامت پسند تحریک(neo-con) سے وابستہ ہیں۔ جس میں عیسائی مذہبی قوتوں کے ساتھ عالمی صہیونی طاقت بھی شریک ہے (اور اسے برہمنیت کی بھی تائید حاصل ہے)۔ اس قوت کا گٹھ جوڑ امریکا کے بم باز اور ہلاکت پرور حکمرانوں سے ہوگیا ہے۔ یہ اتحاد عالمی دراندازیوں کی حکمت عملی وضع کر رہا ہے۔ یہ اسلام اور مسلمانوں کو اپنے اصل ہدف اور مقابل کی حیثیت سے سامنے رکھے ہوئے ہیں۔ اصل ہدف جیساکہ ہم نے سیموئیل ہنٹنگٹن کے اقتباس سے پیش کیا ‘اسلام ہے‘ محض نام نہاد دہشت گردی نہیں۔ جنگ صرف سیاسی محاذ پر نہیں‘ فکری اور تہذیبی محاذ پر بھی مسلط کی گئی ہے۔
یہ ہے اکیسویں صدی کا وہ تناظر جس میں اسلامی تحریکات کو اپنی داخلی اور عالمی حکمت عملی وضع کرنی ہے۔ ان حالات کا صحیح اور گہرا ادراک اولین ضرورت ہے۔
آج ’زمانہ شناسی‘ یا وقت کی نبض اور رفتار کو سمجھنے کی پہلے سے بھی زیادہ ضرورت ہے اور اس بات کی ضرورت ہے کہ یہ کام پوری دیانت‘ علمی گہرائی‘ حقیقت پسندی اور انصاف کے ساتھ کیا جائے اور ہر تعصب سے بالا ہوکر کیا جائے۔ تنقید کرنے سے پہلے تفہیم کی ضرورت ہے۔ تفہیم ہی سے یہ متعین ہوسکے گا کہ کیا قابلِ قبول ہے اور کیا ناقابلِ قبول۔ کہاں کوئی اشتراک ممکن ہے اور کہاں مقابلہ ناگزیر ہے۔ اور مقابلہ بھی مناسب تیاری‘ صحیح حکمت عملی ‘ طویل اور مختصر مدت کی ترجیحات کے تعین اور اپنی قوت کے صحیح اندازے کے ساتھ ہونا چاہیے۔
ان حالات سے خوف زدہ ہونے یا امریکا اور وقت کی غالب قوتوں کا کاسہ لیس بن جانے اور ان کی چھتری تلے پناہ لینے سے اُمت مسلمہ کو احتراز کرنا چاہیے۔ تصادم نہ اس وقت ممکن ہے اور نہ مطلوب۔ لیکن حاشیہ برادری بھی کوئی غیرت مندانہ راستہ نہیںہے۔ عزت اور وقارکا راستہ ہی محتاط مزاحمت کا راستہ ہے‘ اور مقابلے کے لیے اس جنگ میں تمام ہی حلیفوں سے سیاسی ‘ریاستی اور عوامی سطح پر تعاون ضروری ہے۔ مسلمان اُمت اور ممالک کے لیے تنہائی (isolation) سے بچنا ضروری ہے۔ آپس کے تعاون اور اتحاد کی بھی اشد ضرورت ہے۔ موثر ڈپلومیسی ہی کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ اور مستقبل کی منصوبہ بندی ہوسکتی ہے۔ ہمیں خود اور دوسروں سے مل کر انسانی حقوق‘ آزادی اور قانون کی حکمرانی کے لیے کھلے دل سے کام کرنا چاہیے۔ بین الاقوامی قانون کے احترام‘ حقیقی جمہوری قدروں کے تحفظ اور انصاف کے حصول کے لیے عالمی جدوجہد میں مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ ان سب قوتوں سے تعاون کرنا اور تعاون حاصل کرنا چاہیے جن سے جزوی طور پر ہی سہی مقاصد کا اشتراک ممکن ہے۔
۱- حکومتوں سے بات چیت اور افہام و تفہیم
۲- ان ممالک کے عوام اور اہل دانش تک رسائی اور اپنی بات پہنچانے کی کوشش
۳- پھر ان ممالک میں ایسے تمام عناصر سے ربط اور تعاون کی راہوں کی تلاش‘ جن سے کلی یا جزوی اشتراک عمل ممکن ہے۔
یہ نہ توسمجھوتے کا راستہ ہے اور نہ کسی کمزوری کی علامت ہے۔ یہ حقیقت پسندی کا تقاضا‘ اور دعوت کا راستہ ہے۔
اس سلسلے میں مسلمان حکمرانوں سے بھی ربط کی ضرورت ہے اور ان میں برے اور کم برے میں تمیز کرنا ہوگا۔ بلاشبہہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اُمت کے عوام اور حکمرانوں میں بعدالمشرقین ہے اور ان کے درمیان نہ صرف ایک خلیج حائل ہے ‘بلکہ دونوں کے عزائم‘ جذبات‘ اہداف اور مفادات تک میں ایک واضح تفاوت بلکہ تضاد ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکہ کے ہم نوا‘ اس پر اعتماد کرنے والے اور اس کے حلیف حکمران بھی دل کے کسی نہ کسی گوشے میں یہ احساس رکھتے ہیں کہ کسی وقت بھی وہ ان کو دھوکادے سکتا ہے۔ ان حالات میں ان حکمرانوں کا اپنا مفاد بھی اسی میں ہے کہ اپنے عوام سے قریب ہوں اور ان سے تصادم کی جگہ ایسا رشتہ قائم کریں کہ مل جل کر سب کے مفاد کا تحفظ ہوسکے۔ یہ نازک اور مشکل کام ہے لیکن اسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ اسلامی تحریکات کو سمجھنا چاہیے کہ ان کی اصل طاقت اللہ پربھروسے کے بعد عوام کی طاقت ہی ہوسکتی ہے اور انھیں وہ راستہ اختیار کرنا چاہیے جس سے وہ عوام کو ساتھ لے کر اپنے ملک اور اُمت مسلمہ کے مفاد کا بھی تحفظ کرسکیں۔ اس مقصد کے لیے جس حد تک اور جس طرح مسلمان حکمرانوں پر اثرانداز ہونا ممکن ہو‘ اس کی فکر کرنی چاہیے۔
اس کے ساتھ ان عالمی مسائل پر ایک واضح موقف اختیار کرنا ضروری ہے جو آج انسانیت کے مرکزی مسائل ہیں۔ ان میں انسانی حقوق‘ عدل اجتماعی‘ معاشی ترقی اور دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم‘ خاندان کے نظام کا انتشار‘ طبقاتی تصادم‘ مظلوم اقوام کی دادرسی اور دنیا کو ظالم حکمرانوں اور سرمایہ پرستوں کی گرفت سے نجات سرفہرست مسائل ہیں۔
عالمی سطح پر ہماری نگاہ میں آج سب سے بڑا مسئلہ ’ورلڈ میڈیا‘ میں مسلمانوں اور خصوصیت سے اسلامی تحریکات کے لیے جگہ حاصل کرنا اور اپنی بات کو دنیا تک پہنچانے کے لیے راستہ نکالنا ہے۔ آج میڈیا کی قوت‘ عسکری قوت سے کسی طرح کم نہیں۔ اسلامی تحریکات نے حرف مطبوعہ (printed word)کو تو ذریعہ بنایا ہے‘ لیکن جدید ابلاغی ذرائع میں جو چیزیں سب سے اہم ہیں‘ یعنی الیکٹرانک میڈیا اور ڈیجیٹل پاور بڑی حد تک یہ ذرائع ابھی ہماری دسترس سے باہر ہیں اور یہ ہماری بہت بڑی کمزوری ہے۔ اس میدان میں خلا کو پُر کرنا اولین اہمیت کا حامل ہے۔
اسی طرح ساری کمزوریوں اور مشکلات کے باوجود‘ مسلمان ملکوں کا اتحاد‘ ان کا مشترک محاذ‘ اور متعین مسائل کے بارے میں ایک مشترک موقف‘ معاشی اور سرمایہ کاری کے میدان میں تعاون اور بالآخر عسکری تعاون اور ہم آہنگی بھی وقت کی ضرورت‘ اور سب کے مفاد میں ہیں۔
مسلم ممالک کا تعاون اسلام اور اُمت کے تصور کا تقاضا تو ہے ہی‘ لیکن آج تو یہ ہر ملک‘ حتیٰ کہ اس کے حکمرانوں کی بھی ایک ضرورت بن گیا ہے۔ اس لیے اسلامی تحریکات کو عالمی سطح کی حکمت عملی بناتے وقت ان پہلوئوںکو سامنے رکھنا چاہیے۔
دین کا مجموعی تصور اور بنیادی اصولوں کی تشریح کے باب میں مؤسسین نے بڑا قیمتی اور راہ کشا کام کیا ہے‘ لیکن اس سلسلے میں چند اہم کام ہیں جن کی طرف توجہ وقت کا تقاضا ہے۔
مولانا مودودیؒ کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا ایک اہم ذریعہ اس علمی کام کو جاری رکھنا‘ آگے بڑھانا اور نئے تقاضوںکو پورا کرنا ہے جس کا آغاز انھوں نے ۸۰ سال پہلے کیا تھا۔
پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اصولی اور مرکزی تصورات تو مؤسسین نے واضح کردیے ہیں‘ لیکن ان میں مزید وسعت پیدا کرنا‘ تفصیلات کا تعین کرنا‘ خصوصیت سے زندگی کے مختلف شعبوںمیں اسلام کی رہنمائی کو فکری (conceptional) پہلو کے ساتھ اطلاقی (applied) شکل میں مرتب کرنا جو ایک متوازن پالیسی کی صورت گری کر سکے‘ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ نیز ہر میدان میں نئے علمی چیلنجوں کا موثر مقابلہ بھی علمی اور تحقیقی پروگرام کا حصہ ہونا چاہیے۔
اس کے ساتھ یہ پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ مؤسسین کے مخاطب بالعموم مسلمان تھے اور وہ بھی اپنے اپنے ملک اور خطے کے لوگ‘ جیسا کہ ہم نے پہلے اشارہ کیا۔ آج دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ اسلام‘ مشرق اور مغرب میں موضوعِ گفتگو ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ غیرمسلموں کی ذہنی اور تہذیبی سطح سامنے رکھ کر اور دنیا کے تمام انسانوں کو مخاطب کرتے ہوئے اسلام کے پیغام کو آج کی زبان میں اور آج کے ایشوزکی روشنی میں پیش کیا جائے۔ یہ پیغام ان زبانوں میں پیش کیاجائے جن کے ذریعے ہم دنیا کی بڑی آبادی تک پہنچ سکیں۔ اس سلسلے میں انگریزی زبان نے خصوصی اہمیت اختیار کر لی ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
مغربی تہذیب اور اس کی اہم تحریکوں‘ سوشلزم اور سرمایہ داری کے بارے میں مؤسسین نے بڑی وقیع علمی تنقید اور احتساب کا اہتمام کیا ہے۔ لیکن انسانی علوم کی اسلامی بنیادوں پر تشکیلِ نو اور آج کے سیاسی‘ معاشی‘ سماجی‘ سائنسی مباحث کی روشنی میں اسلام کی تعلیمات کی صحیح ترجمانی اور خصوصیت سے سیکولرزم اور موڈرنزم کی نئی تشکیلات‘ سرمایہ داری کی جدید شکل‘ لبرلزم اور تحریک نسواں کی جدید شکل اور مسلم ممالک کے معاشی‘ سیاسی‘ سماجی‘ علاقائی‘ لسانی مسائل اور اقلیتوں کے کردار کے سلسلے میں بے شمار امور اور معاملات ہیں‘ جن پر غوروفکر‘ تحقیق و جستجو اور بحث و مباحثے کے بعد مثبت طور پر ہمیں اپنا موقف پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ساری ضرورتیں صرف مؤسسین کی علمی خدمات کی تحسین اور صرف انھی کے آثار کی طباعت سے پوری نہیں ہوسکتیں۔ اس کے لیے تووہی کام جاری رکھنا ہوگا جو اسلامی تحریک کے مؤسسین نے شروع کیا تھا۔
اس سلسلے میں جو تجربات اب تک ہوئے ہیں‘ ان کے جائزے اور احتساب کی ضرورت ہے۔ اتحاد اور الحاق کے فوائد اور مضمرات پر بھی غوروفکر کی ضرورت ہے۔ ایران‘ پاکستان‘ ملایشیا‘ ترکی‘ الجزائر‘ سوڈان‘ یمن جہاں بھی مفید تجربات ہوئے ہیں‘ ان کے گہرے اور ناقدانہ مطالعے اور تجزیے کی ضرورت ہے۔ بلاشبہہ تبدیلی کے عمومی عمل کی تو نشان دہی کر دی گئی ہے‘ مگر اس کی عملی تفصیلات اور اس کے گوناگوں تقاضوں پر کام کی ضرورت ہے۔ اقتدار کو متاثر کرنا‘ اقتدار میں بامعنی شرکت‘ اقتدار پر دسترس‘ غرض کتنے ہی پہلو ہیں جن کے بارے میں اسٹرے ٹیجک غوروفکر کی اشد ضرورت ہے۔ اسی طرح مختلف ملکوں میں سیاسی تجربات کے جو نتائج نکلے ہیں اور جو مسائل و مشکلات سامنے آئی ہیں‘ وہ بڑے وسیع پیمانے پر مطالعے‘ بحث مباحثے‘ شوریٰ اور نئے اقدامات کے متقاضی ہیں۔
ہمارا مقصد بیرونی اور اندرونی‘ دفاعی اور داخلی‘ تعمیری میدانوں کے تمام مسائل کا احاطہ نہیں ہے۔ ہم صرف یہ توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ ان دونوں میدانوں میں جو مسائل اور معاملات آج درپیش ہیں‘ ان کے حل کے لیے بیسویں صدی کی اسلامی فکر میں ایک اصولی رہنمائی تو موجود ہے لیکن وقت کی اصل ضرورت اس ’طرزِفکر‘ کی روشنی میں آج کے مسائل کے لیے فکری اور عملی جدوجہد ہے۔ اس کام کی انجام دہی کے لیے ضروری ہے کہ قرآن و سنت ہی کو اصل ماخذ بنایا جائے۔ مؤسسین کی فکر سے اسی طرح استفادہ کیا جائے جس طرح انھوں نے اپنے پیش رووں کے قیمتی کام سے استفادہ کیا ‘لیکن اسی پر قناعت کیے رکھنا خود ان کے ساتھ بڑی ناانصافی ہوگی۔
ہماری نگاہ میں سید مودودیؒ کا اصل پیغام اکیسویں صدی کے لیے یہ ہے کہ وژن‘ مقصد اور اصول پر یکسوئی کے ساتھ قائم رہا جائے۔ اپنے پیش رووں کی فکر اور خدمات سے احترام اور وفاداری کے ساتھ استفادہ کرتے ہوئے‘ جدید اور نئے مسائل اور معاملات سے صرفِ نظر نہ کیا جائے بلکہ پوری قوت سے ان سے نبردآزما ہونے کی سعی کی جائے۔ فکر کے ساتھ ’طرزِفکر‘ کو توجہ اور نئی جدوجہد میں مرکزی اہمیت دی جائے۔ جس روش اور طریق کار (methodology) سے مؤسسین نے کام کیا اس میں بہتری اور تازگی پیدا کی جائے‘ نئے حالات اور مسائل کے لیے پوری شدومد سے اسے روبہ عمل بھی لایا جائے۔ اس فکر کو وسعت اور عمق دونوں میدانوں میں آگے بڑھایا جائے۔ لیکن اس کے ساتھ نئی فکر‘ نئی ٹکنالوجی ‘ نئی مہارت‘ اور نئے تجربات کے بارے میں اسی شوق اور جذبے سے جدوجہد کی جائے جس سے پیش رووں نے اپنے زمانے میں کی تھی اور ہمارے لیے روشن نقوشِ راہ مرتب کیے تھے --- کہ آگے بڑھنے اور نئی دنیا تلاش کرنے کا یہی طریقہ ہے ؎
شاید کہ زمیں ہے وہ کسی اور جہاں کی
تو جس کو سمجھتا ہے فلک اپنے جہاں کا
پاکستان کے مستقبل کا منظر اس وقت دھندلا گیا جب ستمبر ۲۰۰۱ء کی ایک رات جنرل پرویز مشرف نے امریکی صدر بش کو یقین دہانی کرا دی کہ پاکستان‘ انٹیلی جنس‘ لاجسٹک سپورٹ اور فضائی حدود کے آزادانہ استعمال کے ذریعے افغانستان کی طالبان حکومت کے خلاف امریکی جارحیت کے ساتھ ہے۔ پرویز مشرف نے اس طرح امریکا کا فرنٹ لائن حلیف بننے کا اعلان کر دیا اور اس کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح انھوں نے پاکستان کو بچالیا اور ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘کا نعرہ لگایا۔
ان سے سوال کیا گیا کہ اگر کل کشمیر کے مجاہدین کی حمایت ترک کرنے کے لیے اسی طرح کی دھمکی کا سامنا کرنا پڑے تو ان کا ردعمل کیا ہوگا تو انھوں نے کہا کہ ’’کشمیر ہمارا خون ہے۔ ہم کسی طرح بھی کشمیری مجاہدین کی حمایت سے دست کش نہیں ہوں گے‘‘۔ لیکن جو یوٹرن (u-turn) افغانستان پر امریکی حملے کے وقت لیا گیا تھا‘ اس کے نتیجے کے طور پر حکومت پاکستان کشمیری مجاہدین کی جدوجہد کو بھی بالآخر’’سرحد پار دہشت گردی‘‘ تسلیم کرنے پر مجبور ہوئی اور اب عملاً حکومت کشمیری مجاہدین کی حمایت سے دستبردار ہوگئی ہے۔ اس یوٹرن یا قلابازی کے نتیجے ہی میں اب حکومت پاکستان نے اپنے سائنس دانوں کی تذلیل کی ہے اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ملزموں کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔
۱- پاکستان پر الزام ہے کہ وہ افغانستان میں اتحادی فوجوں کی مزاحمت کرنے والوں یا القاعدہ کو پناہ دے رہا ہے۔
۲- پاکستان ایران‘ لیبیا اور شمالی کوریا کو ایٹمی ٹکنالوجی کے پھیلائو کا ذمہ دار ہے۔
۳- پاکستان‘ بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں سرحد پار دہشت گردی کا مرتکب ہے۔
۴- پاکستانی معاشرہ ایک انتہا پسند مذہبی معاشرہ ہے۔
جنرل پرویز مشرف اپنی پالیسیوں کے ذریعے دنیا کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ پاکستان افغانستان میں اتحادی فوجوں کا حلیف اور پشتی بان ہے‘ اور یہ باور کرانے کے لیے وہ ان تمام عناصر کے خلاف فوجی آپریشن کرنے کے لیے تیار ہے جن پر افغانستان میں مزاحمت کی حمایت کا الزام ہے۔ ان میں وزیرستان اور مہمند کے قبائل اور پاکستان میں واقع دینی مدارس بھی شامل ہیں۔ اس طرح پرویز مشرف صاحب امریکا اور اس کے اتحادیوں کے محض ایک مبہم الزام کو رفع کرنے کی خاطر پاکستان کی فوج کو مغربی سرحد پر آباد قبائل اور پاکستان کے محب اسلام اور محب وطن عوام سے لڑانا چاہتے ہیں۔ اس سے امریکا کا الزام تو رفع نہیں ہوگا لیکن پاکستان کے اندر انتشار پھیل جائے گا اور فوج اپنے فطری حلیفوں کی حریف بن جائے گی۔ یہ دشمن کا کھیل ہے جو پاکستان کی فوج کو عوام‘ قبائل اور دینی جماعتوں کی تائید سے محروم کر کے اس کے عزم و حوصلے اور مورال کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔
ایٹمی ٹکنالوجی کی منتقلی کے بارے میں مبینہ طور پر حکومت پاکستان کو امریکی‘ برطانوی جاسوسی اداروں اور انٹرنیشنل اٹامک انرجی اتھارٹی (IAEA) نے ثبوت فراہم کیے ہیں کہ لیبیا‘ ایران اور شمالی کوریا کو ایٹمی ٹکنالوجی کی منتقلی میں پاکستان کا ہاتھ ہے۔ افغانستان پر حملہ کرتے وقت بھی امریکا نے الزام لگایا تھا کہ نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور واشنگٹن کے پینٹاگان کے حملوں میں افغانستان کی طالبان حکومت کا ہاتھ ہے۔ اسی طرح عراق پر حملے سے قبل امریکا کا دعویٰ تھا کہ اس کے پاس ثبوت ہے کہ عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں۔ لیکن عراق کا چپہ چپہ چھان مارنے کے باوجود آج تک عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے کیمیائی ہتھیاروں یا ایٹمی ہتھیاروں کا کوئی سراغ نہیں مل سکا جس کی وجہ سے برطانوی حکومت اس وقت شدید تنقید کا سامنا کر رہی ہے ‘اور برطانوی وزیراعظم مسٹر ٹونی بلیر یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ اگر ان کو یقین ہوتا کہ عراق میں تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود نہیں ہیں تو وہ عراق پر حملے کی حمایت نہ کرتے۔ خود صدر بش کو اس سلسلے میں غلط بیانی کرنے اور قوم اور کانگریس کو گمراہ کرنے کے الزام سے سابقہ درپیش ہے۔
جارحانہ عزائم رکھنے والی استعماری طاقتیں کمزور اقوام کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرنے سے پہلے ہمیشہ اُلٹے سیدھے بہانے تراشتی ہیں۔ پاکستان کے حکمران‘ بالخصوص پرویزمشرف صاحب‘ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ایٹمی ٹکنالوجی کی منتقلی کو حکومت ِ پاکستان اور افواجِ پاکستان کی بجاے چند سائنس دانوں کی ذاتی حرص کا نتیجہ قرار دے کر بین الاقوامی نظروں میں سرخرو ہوجائیں گے تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔ اسی کے نتیجے میں خود پاکستان کے انگریزی پریس میں افواجِ پاکستان اور حکومتِ پاکستان کے خلاف مہم شروع ہوگئی ہے اور یہ برملا کہا جا رہا ہے کہ سائنس دانوں کے لیے تنہا یہ کام کرنا ممکن نہیں تھا‘ اور اگر محض سائنس دانوں نے یہ کام کیا ہے تو یہ پاکستان اور اس کے سلامتی کے نظام کی ناکامی کا ثبوت ہے۔ اس بنیاد پر خود پاکستان کو ایک غیرذمہ دار ملک قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ ایٹمی ٹکنالوجی جیسے حساس اداروں کی حفاظت کرنے کے قابل نہیں ہے۔
پاکستان کے حکمرانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ امریکا نے اسے ایٹمی طاقت کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیا ہے اور وہ اسے نیوکلیئر کلب کا ممبرنہیں بنائے گا۔ اسرائیل اور بھارت کا معاملہ بالکل الگ ہے۔ اسرائیل کی حفاظت امریکی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ہے۔ بھارت کو امریکا نے اپنی حکمت عملیوں کا حلیف (strategic partner)قرار دیا ہے اور وہ اسے چین کی طاقت کو روکنے کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ پاکستان یہ یقین دہانیاں کرا رہا ہے کہ اس کا ایٹمی ہتھیار خالصتاً دفاعی نوعیت کا ہے اور بھارت کے مقابلے کے لیے اگر اس کے پاس یہ دفاعی ہتھیار موجود نہ ہو تو طاقت کا توازن بگڑ جائے گا اور جنوبی ایشیا کا امن برقرار نہیں رہے گا۔ اس کے باوجود امریکا اور مغربی طاقتیں اسے ’’اسلامی بم‘‘ قرار دے کر کہہ رہی ہیں کہ یہ اسرائیل کے سر پر منڈلانے والا ایک مستقل خطرہ ہے۔ کولن پاول نے واضح اعلان کیا ہے کہ وہ اسرائیل کو ہر طرح کے خطرات سے آزاد اور بے فکر کرنے کا پابند ہے۔
پاکستان کی حکومت نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے پوری دنیا کے سامنے ایٹمی ٹکنالوجی کی منتقلی کے ’’جرم‘‘ کا ’’اعتراف‘‘ کروا کر خود پاکستان کے خلاف ناقابلِ تردید شہادت فراہم کی ہے۔ امریکا کو جب بھی افغانستان سے فراغت ملے گی اور اسے پاکستان کی حمایت کی ضرورت نہیں ہوگی‘ تو وہ اسی شہادت کو بنیاد بنائے گا اورپاکستانی فوج اور پاکستانی حکومت کو ایٹمی ٹکنالوجی کی منتقلی میں فریق ٹھیرا کر اسی بنیاد پر پاکستان کو اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کرے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس کے بعد بھی ہم امریکا کے حلیف رہیںگے؟ کیا ہم امریکا کے اس طرح کے مطالبے کے سامنے بھی ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا جواز پیش کر کے سرتسلیم خم کر دیں گے؟ اس وقت حکمرانوں سے فوری طور پر اس بنیادی سوال کا جواب طلب کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ سوال کسی مفروضے پر مبنی نہیں ہے۔ یہ سوال ایک عملی صورت حال سے اُبھر کر سامنے آیا ہے۔ کیا ہم امریکا‘ بھارت‘ اسرائیل گٹھ جوڑ کے سامنے واقعی بے بس ہیں؟ یا ہم نے اپنی آزادی اور خودمختاری کی حفاظت کرنے کے لیے کوئی متبادل راستہ سوچ رکھا ہے؟ ہمارے حکمرانوں نے کئی بار کہا ہے کہ ہم کشمیر اور ایٹمی پروگرام پر کوئی سودے بازی نہیں کریں گے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ نیوکلیئر طاقت کے طور پر پاکستان کو اپنی خودمختاری اور آزادی سے محروم کرنا ممکن نہیں ہے۔ لیکن جو راستہ سائنس دانوں کی تذلیل کرکے ہم نے اختیار کیا ہے‘ یہ ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت کا راستہ نہیں ہے بلکہ ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے کا راستہ ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت کا آغاز ہوچکا ہے۔ پاکستان کی کوشش ہوگی کہ کشمیر کے مسئلے کو مرکزی نکتے کے طور پر لیا جائے کیونکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان معمول کے تعلقات بحال ہونے میں یہی سدراہ ہے۔ دوسرے نکات میں سیاچین‘ وولر بیراج‘ سرکریک‘ تجارتی تعلقات کی بحالی اور ثقافتی وفود کا تبادلہ شامل ہے۔ سیاچین‘ وولر بیراج‘ سرکریک ’دریائوں کا مسئلہ‘ سب مسئلۂ کشمیر کے شاخسانے ہیں۔ کشمیر پر پاکستان کا قومی موقف ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ یہ تقسیمِ ہند کے ایجنڈے کا باقی ماندہ حصہ ہے اور اس کا فیصلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کی مرضی سے کیا جائے‘ جب کہ بھارت مصر ہے کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے اور اگر کوئی مسئلہ ہے تو صرف اتنا ہے کہ اس کے ایک حصے پر پاکستان کا قبضہ ہے۔ اب تک کا تجربہ تو یہی ہے کہ جب بھی پاکستان اور بھارتی وفود آمنے سامنے بیٹھے ہیں‘ پاکستانی وفد نے تو انتہائی ذمہ داری کے ساتھ پوری تیاری کر کے کشمیر کے مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنے کے لیے تجاویز فراہم کی ہیں‘ لیکن بھارتی وفود نے انتہائی غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اٹوٹ انگ والے موقف ہی کو دہرایا ہے۔
جنوری ۲۰۰۴ء میں سارک کانفرنس‘ اسلام آباد کے موقع پر دونوں ممالک کے ذرائع ابلاغ اور حکومتوں نے کشمیر کے مسئلے پر ’’جمود ٹوٹنے‘‘ کی جو فضا پیدا کی ہے‘ بظاہر اس میں کامیابی کے امکانات نظر نہیں آئے۔ حکومت پاکستان نے اپوزیشن کو اپنی خوش فہمی کی وجوہ کے بارے میں بھی کچھ نہیں بتایا۔ دونوں ممالک کے درمیان اچھے تعلقات کے قیام میں اصل رکاوٹ مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل سے بھارت کا انکار ہے۔ اگر بین الاقوامی دبائو کے تحت اس بنیادی مسئلے کو نظرانداز کر کے باہمی اعتماد بحال کرنے کے بہانے دوسرے امور کو اولیت دی جائے گی تو اسے قومی مفادات اور مصلحتوں کے خلاف اور کشمیریوںسے بے وفائی قرار دیا جائے گا۔ جب تک کشمیر کے مسئلے کا منصفانہ حل تلاش نہیں کیا جاتا‘ اس وقت تک مظفرآباد‘ سری نگر روڈ کھولنا اور اس پر بس چلانا کنٹرول لائن کو بین الاقوامی سرحد میں تبدیل کرنا ہے‘ اور کشمیر کے مستقل تقسیم اور مسلم اکثریت کے ایک بڑے اور خوب صورت علاقے اور پورے پاکستان کی شہ رگ کو بھارت کے حوالے کرنے کے مترادف ہے۔ کشمیر کے مسئلے کا یہ ’’حل‘‘ نہ کشمیریوں کو قبول ہے‘ نہ پاکستانیوں کو‘ اور نہ اس طرح مسئلہ حل ہی ہوسکے گا۔ نہ امن قائم ہوگا‘ نہ تعلقات بحال ہوں گے‘ البتہ حکومت پاکستان ایک بار پھر اپنی کوتاہ اندیشی‘ بے ہمتی اور بودے پن کا ثبوت فراہم کرے گی۔ یہ امریکا کے اور بھارت کے سامنے بھی اپنی بے بسی کا مظاہرہ ہوگا اور اس کے بعد پاکستانی فوج اپنے موجودہ حجم کا جواز ہی کھو دے گی۔
ہمیں اندیشہ ہے کہ دنیا کو یہ باور کرانے کے لیے کہ ’’پاکستان انتہاپسند مذہبی معاشرہ نہیں ہے‘‘ پرویز مشرف حکومت کہیں پاکستان کے بنیادی نظریہ اسلام ہی سے دستبردار نہ ہو جائے۔ حال ہی میں انھوں نے حدود قوانین پر نظرثانی کرنے کی ضرورت پر اظہارخیال کیا ہے۔ پاکستان میں عورت کے مقام کے حوالے سے جو کمیشن بنا ہے ‘اس میں ایسے لوگوںکو شامل کیا گیا ہے جو مسلمہ اسلامی قوانین کو متنازعہ بنانے کی شہرت رکھتے ہیں۔ پرویز مشرف نے اپنی ترقی پسندی اور ماڈرن ازم کے اظہار کے لیے پارلیمنٹ میں ۲۰ فی صد نشستیں خواتین کے لیے مخصوص کر دی ہیں اور ہماری دیہی کونسلوں میں بھی خواتین کی نمایندگی کو لازمی قرار دیا ہے۔
اسی طرح اقلیتوں کو نہ صرف مخلوط انتخاب کے ذریعے عمومی نمایندوں کے انتخاب پر اثرانداز ہونے کا موقع دیا ہے بلکہ ساتھ ہی دہری نمایندگی کے طور پر مخصوص نشستوں پر اسمبلیوں میں ان کی موجودگی کو بھی یقینی بنا دیا ہے۔ یہ عمل خود مغرب کے مسلمہ معروف جمہوری اصولوں کے منافی ہے۔ دنیا کے کسی بھی جمہوری ملک (امریکا‘ برطانیہ‘ فرانس وغیرہ) میں اس کی مثال موجود نہیں ہے۔ امریکا میں تقریباً ۷۰لاکھ مسلمان بستے ہیں لیکن ان کی کانگریس میں ایک بھی مسلمان ممبر نہیں ہے۔ فرانس میں مسلمانوں کی تعداد وہاں کی کل آبادی کا تقریباً ۶ فی صد ہے لیکن ان کی پارلیمنٹ میں کوئی مسلمان موجود نہیں ہے‘ جب کہ پاکستان میں ۳فی صد اقلیتوں میں سے ہر ایک اقلیت کو قومی اسمبلی میں نمایندگی کا حق دیا گیا ہے اور ساتھ ہی جداگانہ طرزانتخاب کو منسوخ کرکے مخلوط طرزانتخاب بھی رائج کر دیا گیا ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود بین الاقوامی طور پر مغرب میں پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ برے سلوک کا واویلا کیا جا رہا ہے‘ اور اس کے لیے قرآنی حدود کے قوانین اور توہین رسالتؐ کے قانون کے تحت عورتوں اور اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کا جھوٹا پروپیگنڈا زوروں پر ہے۔
پرویز مشرف صاحب کا معذرت خواہانہ رویہ مغرب کو یہ باور کرانے میں ناکام رہا ہے کہ پاکستانی معاشرہ اعتدال پسند ہے۔ دراصل مغربی میڈیا نے بدنیتی کی بنا پرحقائق کو نظرانداز کرکے یہ جھوٹا پروپیگنڈا کیا ہے کہ ہم انتہاپسند ہیں (اسلام کا تو بنیادی مزاج ہی اعتدال و توازن کا ہے)۔
ارسطو اور افلاطون جیسے فلسفیوں نے غلام کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ غلام وہ ہوتا ہے جو اپنے لیے سوچنے اور عمل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ انھوں نے یہ بات شاید اس لیے کہی تھی کہ غلام خود تو فکروعمل کی صلاحیت سے محروم ہیں‘ اس لیے اب یہ آزاد لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ غلاموں کے لیے سوچیںاور منصوبہ بندی کریں۔ مگر وقت گذرنے کے ساتھ‘ آزاد لوگوں کی یہ ذمہ داری‘ سفیدفام لوگوں کی ذمہ دار بن گئی اور اب نئے عالمی نظام کے تحت یہ ’’ذمہ داری‘‘ امریکا کو منتقل ہوگئی ہے۔ شاید اسی لیے مسلمان ممالک کے حکمران امریکی آقائوں کے اشاروں پر چلتے ہیں کہ اس طرح انھیں مزید برسرِاقتدار رہنے اور اپنی قوموں کا استحصال کرنے کے لیے کچھ مزید مہلت مل جائے گی۔
امریکا کی علانیہ پالیسی ہے کہ اسے کسی ملک میں مداخلت کرنے کے لیے کسی سے پوچھنے کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ وہ کسی ملک سے بزعم خویش کوئی خطرہ محسوس کرے تواس خطرے سے محفوظ ہونے اور اس کا سدباب کرنے کے لیے حفظ ماتقدم کے طور پر حملہ (pre-emptive strike) کرسکتا ہے‘ اور اس طرح کرنے کے لیے اسے اقوامِ متحدہ یا کسی دوسرے ادارے سے پوچھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اصل میں سرکش ریاست (rougue state)کی صحیح تعریف یہی ہے کہ وہ ہرطرح کے بین الاقوامی ضابطوں کی پابندی سے آزاد ہوتی ہے۔ اس تعریف کے مطابق آج صرف امریکا ہی ایک حقیقی سرکش ریاست ہے۔ افغانستان اور عراق پر جارحانہ قبضہ کرنے کے بعد اب اس نے ایران کو بھی مارچ کے آخر تک اپنے ایٹمی پروگرام کو کلیتاً ختم کرنے کا نوٹس دے دیا ہے۔ اس کے جواب میں ایرانی وزیرخارجہ نے کہا ہے کہ ایران ایٹم بم بنانے کا ارادہ نہیں رکھتا لیکن اس کے پاس ایٹمی ایندھن بنانے کی صلاحیت موجود ہے اور وہ نہ صرف اس صلاحیت کو برقرار رکھے گا بلکہ بین الاقوامی منڈی میں ایٹمی ایندھن کو فروخت بھی کرے گا۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ایٹمی پروگرام ایران کے لیے ایک اعزاز اور باعث افتخار ہے اور کوئی بھی ملک اپنے اعزاز اور اپنے مفاد اور مصلحت سے دستبردار نہیں ہوتا۔
ایرانی وزیرخارجہ کے اس بیان کے بعد ہمارے سامنے مستقبل کا خطرناک نقشہ بالکل واضح ہے۔ ایک اہم سوال تو یہ ہے کہ اگر امریکا پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے قبل ایران میں مداخلت کرنے کا ارادہ ظاہر کرے تو پاکستان کا رویہ کیا ہوگا؟ کیا وہ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ بلند کرکے افغانستان کی طرح اپنے اس مسلمان پڑوسی کے خلاف بھی فرنٹ لائن اسٹیٹ بننے کے لیے تیار ہوگا؟ (اور پھر اپنی باری کا انتظار کرے گا) ‘یا آنے والے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایران سمیت خطے کے دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر باہمی دفاع کا کوئی اہتمام کرے گا؟ امریکا نے چین پر بھی ایٹمی ٹکنالوجی کی منتقلی کا الزام عائد کرکے پاکستان‘ ایران اور چین میں تعاون کا راستہ پیدا کر دیا ہے۔
بڑھتے ہوئے امریکی استعمار سے انسانیت کو بچانے کے لیے تیاری کرنے اور سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کا فرض ہے کہ نئے راستوں کی تلاش‘ ملکی دفاع اور سلامتی کی خاطر تمام سیاسی قوتوں کو مفاہمت کی دعوت دے اور انتقامی رویے چھوڑ کر (تمام سیاسی رہنمائوں سمیت) وسیع ترمشاورت کا اہتمام کرے‘ تاکہ باہمی اعتماد و مفاہمت کے ذریعے بڑے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے تدابیر سوچی جا سکیں۔
سترھویں ترمیمی بل کے پاس ہونے پر یہ پروپیگنڈا مہم شروع کردی گئی ہے کہ متحدہ مجلس عمل کا حکمرانوں کے ساتھ سمجھوتا ہوگیا ہے اور مجلس عمل نے وردی میں صدر کو قبول کرکے فوجی مداخلت کو آئینی جواز فراہم کر دیا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مجلس عمل نے سترھواں ترمیمی بل پاس کیا ہے‘ ایل ایف او کو آئین کا حصہ تسلیم نہیں کیا۔
جنرل پرویز مشرف اور ان کے ہم نوائوں کا ابتدا سے یہ دعویٰ تھا کہ سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کو آئین میں ترمیم کا حق دیا ہے‘ اس لیے انھوں نے ایل ایف او کی صورت میں آئین میں جو ترامیم کی ہیں‘ وہ آئین کا حصہ بن گئی ہیں اور پارلیمنٹ سے انھیں منظور کرانا کوئی آئینی ضرورت نہیں ہے۔ ہم نے ان کا یہ موقف تسلیم نہیں کیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ صرف وہی ترامیم آئین کا حصہ متصور ہوں گی جو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی دو تہائی اکثریت سے پاس ہوجائیں گی۔ وزیراعظم ہائوس میں تمام پارٹیوں کے سربراہوں کے اجلاس میں (جس میں اپوزیشن پارٹیوں کے سربراہ بشمول اے آرڈی بھی شریک تھے) ایل ایف او کے سات متنازعہ نکات کی نشان دہی کی گئی:
۱- ایل ایف او آئین کا حصہ نہیں ہے۔
۲- ریفرنڈم کے ذریعے صدر کا انتخاب آئینی نہیں ہے۔
۳- آئینی دفعات کو معطل کرکے ایل ایف او کے ذریعے چیف آف آرمی سٹاف اور صدر کے عہدے کو یکجا کرنے کی گنجایش نکالی گئی ہے۔ یہ غیر آئینی بات ہے۔ آئین کی متعلقہ دفعات کا بحال ہونا آئین کی بحالی کا لازمی تقاضا ہے۔
۴- ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں توسیع ناقابلِ قبول ہے۔
۵- بلدیاتی انتخاب اور پولیس آرڈر ۲۰۰۲ء صوبائی دائرہ کار ہے‘ اسے واپس صوبوں کے حوالے کر دیا جائے۔
۶- قومی سلامتی کونسل کے ادارے کو آئین سے نکال دیا جائے۔
۷- ۵۸-۲‘بی کے تحت صدر کو اسمبلیاں توڑنے کا غیرمشروط اختیار نہیں ہونا چاہیے۔
تقریباً چار ماہ تک مذاکرات ہوتے رہے۔ ان مذاکرات میں آخری دو تین نشستوں کے علاوہ اے آر ڈی کی جماعتوں نے بھی پوری دل چسپی سے حصہ لیا اور جو سمجھوتہ ہوا ہے‘ بڑی حد تک ان کے مندوبین کو بھی اس سے اتفاق تھا۔ ہم نے اپنے سمجھوتے کے نکات کسی مرحلے پر بھی چھپاکر نہیں رکھے اور مذاکرات کی نشستوں کے بعد پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے تمام ممبران کو باقاعدہ باخبر کرتے رہے اور پریس کے سامنے بھی اپنا موقف واضح کرتے رہے۔
چنانچہ سترھویں آئینی ترمیم کے ذریعے ہم نے بڑی حد تک حکومت سے اپنا موقف منوالیا ہے اور اس سال کے آخر تک جب جنرل پرویز مشرف چیف آف آرمی سٹاف نہیںرہیں گے تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ فوج کا عمل دخل سیاست میں باقی نہیں رہا۔ کچھ لوگ یہ شبہہ ظاہر کر رہے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف آئینی تقاضے کو پورا نہیں کریں گے اور آئین کو نظرانداز کرکے دونوں عہدوں پر بدستور براجمان رہیں گے‘ لیکن اگر پرویز مشرف یہ کرنے کی کوشش کریں گے‘ تو یہ ایک نیا مارشل لا ہوگا اور نئے مارشل لا کی صورت میں پرویز مشرف کو خود دست بردار ہونا پڑے گا۔ اس کا امکان اس لیے بھی نہیں ہے کہ فوج پہلے ہی کافی بدنام ہوچکی ہے‘ اور ماضی میں فوج کی مداخلت اس مرحلے پر ہوئی ہے جب سیاست دان اپنی ناقص کارکردگی کی بنا پر لوگوں کی نظروں سے گر گئے اور لوگ خود فوج کی مداخلت کا مطالبہ کرنے لگے۔
اس وقت صورت حال برعکس ہے۔ فوج کی مداخلت سے لوگ تنگ آچکے ہیں اور ان کی واپسی کا پرزور مطالبہ کر رہے ہیں۔ اب جوں جوں وقت گزر رہا ہے‘ یہ بات لوگوں کے سامنے کھل کر آرہی ہے کہ داخلی اور خارجہ پالیسی پر رائے کے لحاظ سے ملک میں اصل حزبِ اختلاف متحدہ مجلس عمل ہی ہے جس کا اختلاف‘ نہ ذاتیات پر مبنی ہے‘ نہ اقتدار کے حصول تک محدود ہے ‘اور نہ کسی کی جلاوطنی یا عدالتی مقدمات کی بناپر ہی ہے بلکہ اصولی طور پر حکومت کی داخلی اور خارجہ پالیسیوںسے بنیادی اختلاف کی بنا پر ہے۔ یہ اختلاف رفتہ رفتہ لوگوں پر واضح ہو رہا ہے اور مخالفانہ جھوٹے پروپیگنڈے کی قلعی کھل رہی ہے۔
جنرل پرویز مشرف نے بالآخر ۱۷ جنوری ۲۰۰۴ء کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلا س سے خطاب کرکے وہ دستوری قرض اتار دیا جو ۱۴ماہ سے ان پر واجب تھا اور وہ مختلف بہانوں کے سہارے اس ذمہ داری کی ادایگی سے مسلسل گریز کرتے آرہے تھے--- کبھی اسمبلی کو ’غیرمہذب‘ گردان کر اور کبھی اس دستوری ضرورت کو غیرضروری بتلا کر--- یا شاید سب سے زیادہ ایک مجرم ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہو کر کہ جس ریفرنڈم پر ان کے قصرصدارت کی دیواریں اٹھائی گئی تھیں اس کی اصل حقیقت سے خود ان سے زیادہ کون واقف تھا؟ لیکن اللہ کی اپنی حکمتیں ہوتی ہیں کہ شاید اس تاخیر کے ذریعے قدرت کو سب کو یہ یاد دہانی کرانا مطلوب ہو کہ جب تک ۱۷ویں دستوری ترمیم کے ذریعے ان کی صدارت کو کسی نہ کسی درجے میں سندجواز میسرنہ آجائے‘ پارلیمنٹ کی تکمیل اور سیاسی عمل کا حقیقی اجرا نہ ہو سکے گا۔ شکر ہے کہ یہ مرحلہ اب گزر گیا ہے لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا جنرل صاحب اور ان کے رفقاے کار نے دستوری بحران کے اس جاں گسل دور سے کوئی سبق سیکھا ہے؟ اور کیا وہ فی الحقیقت ایک نئے اور صحیح معنی میں جمہوری اور دستوری عمل (process) کا حصہ بننے کو تیار ہیں؟یا اس سب کے باوجود حسب سابق فوج کی کمین گاہ میں بیٹھ کر ہی کاروبارِ سیاست و حکومت چلانے پر مصر رہیں گے؟ کیا وہ کابینی حکومت کے صدر کے طور پر کام کرنا چاہتے ہیں یا چیف ایگزیکٹو نہ ہوتے ہوئے بھی اسی حیثیت کے تسلسل کا ڈراما رچانا چاہتے ہیں؟
یہ خطاب ان کے لیے ایک آزمایش اور امتحان ہی نہ تھا بلکہ ان کو ایک تاریخی موقع بھی فراہم کر رہا تھا جس کے ذریعے وہ ایک نئے دور کے آغاز کی نوید قوم کو سنا سکتے تھے۔ لیکن ہم بڑے تاسف سے اس حقیقت کااظہار کرتے ہیں کہ انھوں نے ایک بڑے نادر موقع کو ضائع کر دیا اور ایک ایسی گھسی پٹی اور بے جان تقریر کا اپنے نامۂ اعمال میں اضافہ کر لیا جو نہ دستور کے تقاضوں کو پورا کرتی ہے‘ نہ پارلیمانی روایات کی امین ہے اور نہ اس تبدیلی کی نوید اپنے دامن میں رکھتی ہے جس کی قوم منتظر تھی مگر ع
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
دستور کی دفعہ ۵۶ (۳) کے مطابق قومی اسمبلی کے ہر نئے انتخاب اور پارلیمنٹ کے ہر نئے سال کے آغاز پر صدرمملکت کے لیے ضروری ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرے۔ اس دفعہ کا مقصد یہ ہے کہ صدر‘ کابینہ کے ایما پر اس خطاب کے ذریعے پارلیمنٹ کے سامنے حکومت کی پالیسی اور نقشہ کار کو رکھے جس پر دونوں ایوانوں میں بحث ہو اور اس طرح سال بھر کے کام کا ایک واضح پروگرام وجود میں آسکے۔ بالعموم اس خطاب کے تین حصے ہوتے ہیں‘ ایک حکومت کی سالِ گذشتہ کی کارگزاری کا جائزہ‘ دوسرے سالِ رواں کے درپیش مسائل کے بارے میں حکومتی موقف اور تیسرے سال کے دوران پارلیمنٹ کے کرنے کے کاموں کی نشان دہی بشمول قانون سازی۔ جنرل صاحب کی ۳۵ منٹ کی اس تقریر میں ’در مدح خود می گوید‘ کے کچھ سُر اور تال تو ضرور موجود ہیں‘ اسی طرح کچھ وعظ اور پندونصیحت کی نوع کی باتیں بھی ہیں اور سب سے بڑھ کر اپنے زعم میں کچھ چیلنجوں کی بھی انھوں نے نشان دہی فرمائی ہے‘ لیکن جمالی حکومت کی کارکردگی‘ آیندہ کے منصوبے‘ بنیادی امور کے بارے میں پالیسی اور سال بھر کی قانون سازی کا پروگرام‘ ان سب کے ذکر سے وہ خالی ہے۔ گویا ؎
ہم گئے تھے عرض کرنے مدعا
اور عرض مدعا ہی رہ گیا
سب سے تشویش ناک بات یہ ہے کہ جس بات کو انھوں نے درپیش چیلنجوں کا نام دیا ہے وہ دراصل بیرونی دنیا کے اعتراضات اور شاہکار الزامات ہیں جنھیں نہ معلوم کس خوف یا مصلحت سے انھوں نے کسی محاسبے اور نقدوجائزے کے بغیر اپنے اور اپنے ملک و قوم کے سر منڈھ دیا ہے اور ان کا بھرپور جواب دینے سے کلی اجتناب کرکے دنیا کے سامنے اپنے قومی موقف کے اعلان کا ایک سنہری موقع انھوں نے گنوا دیا ہے۔ ان کے جن مشیروں نے بھی ان کے ساتھ یہ ہاتھ کیا ہے ‘اس سے ان کو ناقابلِ تلافی نقصان ہوا ہے۔
ہم یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ ۱۷ ویں ترمیم کے سلسلے میں اپنے تحفظات کے باوصف متحدہ مجلسِ عمل نے جس بالغ نظری کا مظاہرہ کیا تھا اور اپنے سارے شور شرابے کے باوجود اے آرڈی اور دوسری جماعتیں جس طرح اب کم از کم پارلیمنٹ کی کارروائی میں شریک ہوگئی تھیں‘ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انھیں ایک قومی مفاہمت کی دعوت دینی چاہیے۔ یہ موقع تھا کہ جنرل صاحب بالغ نظری کے ساتھ وسعت ِ قلب کا مظاہرہ کرتے اور قوم کو بیرونی حالات اور اندرونی مسائل کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک قومی اتفاق رائے کی طرف بلاتے۔ دل بڑا کر کے یہ کہتے کہ گذشتہ چار سال میں جو کچھ کرسکتا تھا‘ میں نے کیا اور اب ملک میں منتخب پارلیمنٹ ہے اور نئے عزم اور نئے انتظام کی ضرورت ہے۔ سب جماعتوں اور سب افراد کو میں ایک نئے آغاز اور ایک نئے اجماع کی دعوت دیتا ہوں تاکہ صحیح اور مستحکم جمہوری عمل شروع ہو سکے‘ تاکہ دستور کی بالادستی ہو‘ پارلیمنٹ کی حاکمیت مستحکم ہو‘ برسرِاقتدار جماعتیں اور حزبِ اختلاف کم از کم سب ایک قدر مشرک پر جمع ہوں اور پاکستان کا جو حقیقی وژن ہے--- یعنی ایک مثالی اسلامی‘ جمہوری‘ فلاحی فیڈرل نظامِ حکومت کا قیام--- اس کے لیے سب اپنے اپنے انداز میں سرگرمِ عمل ہوں۔ ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر مستقبل کی تعمیرکے لیے ہر ایک کو اس کا کردار ادا کرنے کی دعوت دیتے۔ صاف کہتے کہ فوج کے سیاسی کردار کا دور اب ختم ہوگیا ہے اور فوج اپنی دفاعی ذمہ داریوں کی ادایگی کے لیے پوری یکسوئی کے ساتھ سرگرمِ عمل ہو رہی ہے اور سیاسی نظام اب قوم کے منتخب نمایندوں کے ہاتھوں میں امانت ہے۔ اس امانت کا تقاضا یہ ہے کہ منتخب نمایندے جو ملک کی آزادی اور سالمیت‘ اس کے نظریاتی اور تہذیبی تشخص کی حفاظت‘ اس کی معاشی اور سماجی ترقی اور عوام کے مسائل اور اُمت مسلمہ کی امنگوں کی تکمیل کے لیے سرگرمِ عمل ہوجائیں۔ میں صدر کی حیثیت سے جو ریاست اور وفاق کی علامت ہے‘ دستور کے تحت اپنے فرائض کی انجام دہی اور جواب دہی کا راستہ اختیار کر رہا ہوں اور اب نظامِ حکومت کو چلانے کی ذمہ داری وزیراعظم‘ کابینہ اور پارلیمنٹ کی ہے جس کا میں بھی ایک حصہ ہوں۔ آیئے !ہم سب مل کر دستور کی بالادستی‘ قانون کی حکمرانی‘ اداروں کے استحکام اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے اپنے اور قوم کے تمام وسائل کو دیانت اور محنت کے ساتھ استعمال کریں اور اس طرح ہم سب مل کر اس عظیم مشن کے حصول کے لیے تن‘ من ‘دھن سے سرگرم ہو جائیں۔
یہ تھی وقت کی اصل ضرورت!--- لیکن جنرل صاحب کی تقریر میں ہمیں کیا ملتا ہے--- چند دعوے جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں‘ چند الزامات اور اتہامات جن کو انھوں نے خود اوڑھ لیا ہے۔ یہ کسی کی کوئی خدمت نہیں‘ اور کچھ وعظ و نصیحت‘ جس کا کوئی محل نہ تھا۔ اس تقریر سے قطعاً یہ اندازہ تک نہیں ہوتا کہ ملک میں انتخابات کے بعد کوئی نئی تبدیلی واقع ہوئی ہے‘ کوئی منتخب حکومت وجود میں آئی ہے‘ اس کا کوئی منشور اور مستقبل کا وژن ہے جسے حقیقت کا روپ دینے کے لیے اس کے پاس کوئی پروگرام ہے‘ کچھ اہداف ہیں‘ کچھ پالیسی کے خطوط کار ہیں‘ کوئی واضح نقشہ راہ ہے۔ قانون سازی کا کوئی ایجنڈا ہے۔ وزیراعظم‘ کابینہ‘پارلیمنٹ‘ منصوبے‘ پالیسیاں‘ قانون سازی--- ان سب کے ذکر سے تقریرخالی ہے۔ خارجہ پالیسی‘ معاشی پالیسی‘ تعلیمی پالیسی‘ صحت اور اجتماعی بہبود کے نشانِ راہ‘ اخلاقی اور نظریاتی تشکیلِ نو کے مسائل کا کوئی پرتو اس میں نظرنہیں آتا۔ وزیراعظم ظفراللہ جمالی کا تو وزنِ بیت کے لیے بھی نام تک نہیں آیا چہ جائیکہ انھوں نے وزارتِ عظمیٰ کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد جو تقریر کی تھی اور اس میں ایک پروگرام اپنے کرنے کے کاموں کے عنوان سے قوم کے سامنے رکھا تھا اس کا کوئی جائزہ پیش کیا جاتا کہ کیا حاصل کیا جا سکا ہے اور کیا ابھی حاصل کرنا ہے۔ پوری تقریر ایک بالکل دوسری ہی wave length پر انڈیل دی گئی ہے اور ہمیں معاف رکھا جائے اگر عرض کریں کہ پوری تقریر پر خوف‘ دبائو اور ایک گونہ بے بسی کی فضا چھائی ہوئی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ کسی شدید دبائو میں خیالات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ کوئی وژن‘ کوئی حوصلہ‘ کوئی پیغام‘ کسی منزل کے نشان اس میں موجود نہیں--- یہ ایک سانحہ ہے جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے‘ کم ہے۔
اس وقت بین الاقوامی سطح پر کئی بڑے اہم مسائل اور ایشوز پر دنیا کے سارے ہی ملک‘ اقوام اور اہلِ نظر گفتگو کر رہے ہیں۔ ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کے بعد دنیا کے پورے سیکورٹی سسٹم کا نقشہ بدل گیا ہے۔ عالمی برادری نے جو کچھ دو سو سال کی جمہوری جدوجہد سے حاصل کیا تھا وہ معرض خطرمیں ہے۔ اقوامِ متحدہ کی حیثیت اور کردار کے بارے میں اقوامِ عالم پریشان ہیں‘ بین الاقوامی قانون کے مسلّمات تک کو غیرمحکم بنایا جا رہا ہے‘ بلاجواز آزاد اور خودمختار ممالک کو مختلف شکنجوں میں کسنے کی کوششیں ہو رہی ہیں‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر قانون‘ اصول‘ روایات سب پامال کیے جا رہے ہیں‘ ثبوت کے بغیر تعزیر کو رواج دیا جا رہا ہے‘ قیادت کی تبدیلی اور محض موہوم اور ناقابلِ التفات خطرات کے سہارے اقوامِ عالم پر فوج کشی کا راستہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ ان تمام حالات میں ایک آزاد ملک کا رویہ کیا ہو اور وہ کس طرح دوسرے تمام امن پسند اور خوددار ممالک کے ساتھ مل کر نئی عالمی سامراجیت کے چنگل سے خود بچنے اور دوسروں کو بچانے کے لیے کیا راستہ اختیار کریں۔ عالمی برادری کس طرح عوامی سطح پر بنیادی انسانی اقدار اور آزادیوں کے تحفظ کے لیے ہاتھ پائوں مار رہی ہے اور ورلڈ سوشل فورم کے انداز میں کس طرح عوامی سطح پر سامراجیت اور لاقانونیت کے خلاف انسان منظم ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس صورت حال میں ایک آزاد ملک کا رویہ کیا ہونا چاہیے؟ اور پاکستان اور اُمت مسلمہ کو کیا راستہ اختیار کرنا چاہیے؟اس کا کوئی شعور جنرل صاحب کے خطاب میں نظرنہیں آتا۔
آج دنیا میں اس وقت جو تہذیبی کش مکش کا راگ الاپا جا رہا ہے اور اس کا ہدف کس طرح دنیابھر میں اسلام اور مسلمانوں کو بنایا جا رہا ہے؟ اس چیلنج کا ہم کس طرح مقابلہ کرسکتے ہیں؟ کیا دوسروں کے لیے لگائے ہوئے الزامات کو ہم خود اپنے سر منڈھ لیں اور دوسروں کو خوش کرنے کے لیے اپنے تصورات اور عقائد تک کو قطع و برید کا نشانہ بنائیں یادلیل اور شرافت لیکن ہمت اور قوت کے ساتھ اپنے دفاع اور اپنے تصورات کی تشریح و توضیح کی خدمت انجام دیں۔ اس سلسلے میں بھی تقریر خاموش ہے اور کوئی وژن اور کوئی پیغام جنرل صاحب کی تقریر میں دُور دُور نظرنہیں آتا۔
دنیا کی اقوام پر عالم گیریت (گلوبلائزیشن) کے نام پر جو ظلم کیا جا رہا ہے‘ دولت کا ارتکاز جس طرح چند ملکوں اور چند ہاتھوں میں ہو رہا ہے‘ آزاد تجارت کے نام پر ترقی پذیر ممالک اور پس ماندہ اقوام کو جس طرح معاشی ترقی اور صنعت و حرفت کے میدانوں میں پیچھے دھکیلا جا رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں دنیا چند سامراجی ممالک کی بالادستی کا شکار ہوکر ان کی چراگاہ بنتی جا رہی ہے‘ اس سے کیسے بچا جائے؟ ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ ممالک میں دولت کی نسبت جو ۱۹۵۰ء میں ایک اور تیس (۳۰:۱) تھی اور جو ۱۹۸۰ء تک ایک اور ساٹھ (۶۰:۱) ہوگئی تھی اب ایک اور پچاسی (۸۵:۱) تک پہنچ گئی ہے اس کا انجام کیا ہوگا؟ اور کیا وقت نہیں آگیا کہ سب مل کر ان حالات کو بدلنے کی سعی کریں اور ایک منصفانہ عالمی نظام کے قیام کے لیے جدوجہد کریں۔ یہ سارے مسائل خارجہ پالیسی اور عالمی تعلقات کے دروبست کو ازسرنو منظم کرنے کا تقاضا کر رہے ہیں لیکن کیا ان کا کوئی احساس اور شعور ہماری قیادت کو ہے؟
ابھی سارک کانفرنس اسی اسلام آباد میں منعقد ہوئی ہے (۶ جنوری)۔ پاک بھارت تعلقات کے سلسلے میں ایک غیرمعمولی صورت حال رونما ہوئی ہے۔ بھارت‘ امریکہ اور اسرائیل کی اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ بالکل واضح ہے۔ علاقے میں بھارت کے ایک عالمی طاقت کے طور پر اُبھرنے اور اس کو اُبھارنے کے لیے بہت کچھ ہو رہا ہے۔ امریکہ نے بھارت کو اٹیمی اور میزائل ٹکنالوجی میں شریک کرنے کا اعلان کیا ہے اور یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر وہ این پی ٹی پر دستخط کردے توجو مقام امریکہ کی پالیسی میں اسرائیل کا ہے‘ وہی بھارت کو دیا جا سکتا ہے۔ ادھر روس سے دو بلین ڈالر کی دفاعی خریداری کی جا رہی ہے جس میں نیا ہوائی جہاز بردار پانی کا جہاز ایڈمرل گورشکوف اور مگ ۲۹کا ایک انبوہ شامل ہے جس سے علاقے کا توازنِ قوت شدید متاثر ہوا ہے۔ مگر یہ سب جنرل مشرف کی تقریر کا موضوع نہیںبن سکے۔ کیا یہ سب امور اس بات کے متقاضی نہ تھے کہ صدر کے خطاب میں ان کا احاطہ کیا جائے‘ تجزیہ کیا جائے‘ اور پارلیمنٹ کو نہ صرف اعتماد میں لیا جائے بلکہ پارلیمنٹ کو دعوت دی جائے کہ وہ اس سلسلے میں ضروری پالیسی خطوط کار مقرر کرے لیکن ان تمام معاملات کی کوئی پرچھائیں تک تقریر میں نظر نہیں آئی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ۶جنوری اور ۱۷جنوری میں کوئی ربط و تعلق ہی نہیں۔
اسی طرح کشمیر کا مسئلہ جو ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے اس کا کوئی ذکر موجود نہیں۔ بس ایک جملے میں بھارت کے موقف کی اپنے الفاظ میں جگالی کر دی گئی ہے جو سہل انگاری کی انتہا ہے۔ پاک افغان تعلقات‘ پاک بھارت تعلقات‘ پاک چین تعلقات اور سب سے بڑھ کر خود پاک امریکہ تعلقات گہرے غوروفکر اور بحث و مباحثے کے محتاج ہیں۔ پاکستان نے یک طرفہ طور پر بھارت کو جو رعایتیں دی ہیں اور ان کا جو جواب ادھر سے ملا ہے کہ کشمیر میں تشدد بڑھ گیا ہے اور بھارتی فوج پوری بے خوفی کے ساتھ معصوم انسانوں اور آزادی کے متوالوں کے سروں کی فصل کاٹ رہی ہے‘ لائن آف کنٹرول پر لوہے کے کانٹوں کی باڑ لگا رہی ہے اور ہم کشمیریوں کی آزادی کی اس جدوجہد سے یک جہتی تک کا کوئی پیغام دینے سے گریزاں ہیں۔ فلسطین کا مسئلہ ہو یا شیشان کا یا کوئی اور مسلم مسئلہ‘ ہم خاموش ہیں اور صرف واشنگٹن کے اشارہ چشم و آبرو پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ کیا اسی کا نام قومی مفاد کی پاسداری اور اولیت ہے؟
جنرل پرویز مشرف نے بڑی دیدہ دلیری سے دعویٰ کیا ہے کہ ’’قوم سے کیے گئے تمام وعدے پورے ہوگئے ہیں‘ جس میں حقیقی جمہوریت کا قیام شامل ہے‘‘۔ چوری اور سینہ زوری کی اس سے بڑھ کر بھی کوئی مثال ہو سکتی ہے؟ جمہوریت کی بحالی کی پہلی شرط دستور کی بحالی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا قیام ہے۔ ۱۷ویں دستوری ترمیم کے ذریعے ملک کو دستور اور جمہوریت کے راستے کی طرف لانے کے لیے ایک قدم--- صرف ایک قدم--- اٹھایا گیا ہے لیکن پارلیمنٹ کااصل کام تو باقی ہے کہ فوجی دور کے ساڑھے تین سو قوانین اورفرامین کا جائزہ لے کر ان کو دستور اور جمہوری اصولوں کے مطابق بنائے۔اس کے لیے ایک ۱۲ رکنی کمیٹی کے قیام کا فیصلہ بھی پارلیمنٹ نے وزیراعظم کی تحریک پر کر لیا ہے مگر اس کا اور اس کے کرنے کے کام کاکوئی ذکر تقریر میں موجود نہیں حالانکہ جمہوریت کی بحالی کے لیے اس کی حیثیت فیصلہ کن ہے۔ اس کے بعد‘ جنرل صاحب کو فوج کی سربراہی سے جلد از جلد فارغ ہوکر پوری یکسوئی کے ساتھ سویلین صدر کی حیثیت سے دستور کے تحت اپنے فرائض انجام دینے کا راستہ اختیار کرنا ہے۔ اختیارات میں جو عدمِ توازن پیدا کر دیا گیا ہے اسے دُور کیا جانا ہے تاکہ ملک کا ہر ادارہ بشمول فوج دستور کے مطابق اپنے اپنے دائرہ کار میں مصروفِ عمل ہو سکے۔
معیشت کے بارے میں بھی جو دعوے کیے گئے ہیں ان کو صرف جزوی طور پر ہی قبول کیا جاسکتا ہے۔ کلاں معاشی اشاریے (macro economic indicators) معیشت کی پوری تصویر پیش نہیں کرتے۔ وہ صرف ایک حصے کی عکاسی کرتے ہیں۔ دوسرے حصے بھی اتنے ہی یا اس سے بھی زیادہ اہم ہیں۔ اس وقت کیفیت یہ ہے کہ افراطِ زر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ابھی اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے جو مالیاتی پالیسی بیان جاری کیا ہے (۲۰ جنوری ۲۰۰۴ئ) اس کی رو سے اگست ۲۰۰۳ء کے بعد افراطِ زر میں برابر اضافہ ہو رہا ہے اور خاص طور پر تیل‘ ٹرانسپورٹ اور سب سے بڑھ کر اشیاے خوردنی کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ دسمبر ۲۰۰۲ء کے مقابلے میں دسمبر ۲۰۰۳ء میں گندم کی قیمت میں ۴.۱۹ فی صد‘ گوشت میں ۲۲ فی صد اور ترکاریوں میں ۵.۱۵ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح بے روزگاری جو دس سال پہلے لیبر فورس کے صرف ۳ فی صد تک محدود تھی اب بڑھ کر ۹ فی صد تک پہنچ گئی ہے اور غربت جو ۱۹۸۰ میں آبادی کے صرف ۲۰ فی صد کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھی‘ اب بڑھ کر ۴۰ فی صد تک پہنچ گئی ہے۔ سرکاری اعداد وشمار میں بے شمار تضادات ہیں اور وزارتِ خزانہ ۳۲ اور ۳۳ فی صد کی آبادی کی غربت کی بات کر رہی ہے لیکن آزاد ماہرین تجارت اور ایشین ڈویلپمنٹ بنک اور دوسرے بیرونی ادارے ۴۰ فی صد کی خبر دے رہے ہیں جو زمینی حقائق سے زیادہ قریب معلوم ہوتی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ جنرل صاحب نے تصویر کا صرف ایک رخ پیش کر کے نہ اپنے ساتھ انصاف کیا ہے اور نہ قوم کے ساتھ۔
جنرل پرویز مشرف نے اپنی تقریر میں جو سب سے بڑا ظلم اس قوم کے ساتھ کیا ہے‘ وہ یہ ہے کہ ہمارے مخالف ہم پر جو الزامات اور اتہامات لگا رہے ہیں نہ معلوم کس مصلحت سے انھوں نے ان کو من و عن تسلیم کر کے خود اپنے اوپر اوڑھ لیا ہے۔ بجاے اس کے کہ ان اعتراضات کا بے لاگ جائزہ لیتے۔ ان میں اگر کسی حد تک کوئی بات درست تھی تو اس کی اصلاح کا پروگرام قوم کے سامنے رکھتے۔ ان میں جو باتیں صراحتاً غلط اور اتہام کا درجہ رکھتی ہیں ان کی بھرپور تردید کرتے اور اصل حقائق کو دلیل اور قوتِ بیان کے ساتھ پیش کرتے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ صدربش کے جھوٹ کے سیلاب میں جنرل صاحب بھی خس و خاشاک کی طرح بہہ گئے ہیں۔ اگر امریکہ کے دائیں بازو کے بنیاد پرست (neo-cons) مسلمانوں کو دہشت گرد کہہ رہے ہیں تو جنرل صاحب بھی انھی کی آواز میں آواز ملانے لگتے ہیں۔ اگر اسرائیل اور بھارت اپنے وطن کی آزادی اور اپنے دین و ایمان اور عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگا دینے والوں کو دہشت گرد کہتے ہیں تو ہمارے صدرصاحب کی تقریر میں بھی انھی کی آواز بازگشت سنائی دیتی ہے حتیٰ کہ اب جو بات جنرل صاحب ۱۷جنوری کو کہی ہے توفوراً ہی ۱۸ جنوری کو اس کی داد ایڈوانی صاحب نے خوشی کے شادیانے بجا کر دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر آگرہ میں جنرل صاحب نے یہ کہہ دیا ہوتا تو سارے معاملات کبھی کے طے ہوچکے ہوتے‘ یعنی ان کا قصہ ہی تمام ہوجاتا۔ سنیے‘ لال کشن ایڈوانی کرنال میں آل انڈیا فورسزکی کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کیا فرماتے ہیں:
یہ بہت اچھا بیان ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ پاکستان کے اس موقف سے علاقے میں دہشت گردی کے پھیلائو کا روکنا یقینی ہوجائے گا۔ ان بیانات نے علاقے کی صورت حال کو یکدم بدل دیا ہے۔ جہاد یا کسی اور نام پر دہشت گردی کا مقابلہ تمام اقوام کو اجتماعی طور پر کرنا ہے۔ (دی نیوز‘ ۱۹ جنوری ۲۰۰۴ئ)
کل تک یہی جنرل صاحب فرماتے تھے کہ جنگِ آزادی اور دہشت گردی الگ الگ ہیں‘ جہاد کو کبھی دہشت گردی نہیں کہا جا سکتا اور کشمیر میں وہاں کے مظلوم مسلمان اپنے ایمان اور آزادی کے لیے استعماری تسلط (occupation)کے خلاف صف آرا ہیں۔ آج وہی مجاہد دہشت گرد بن گئے اور جو زبان واجپائی اور ایڈوانی استعمال کر رہے تھے وہ صدرِ پاکستان ۶ جنوری کے مشترکہ اعلامیہ کے بعد اب ۱۷ جنوری کے پارلیمنٹ سے خطاب میں بھی ارشاد فرما رہے ہیں اور اس پسپائی اور یوٹرن کا نام ’’حکمت ‘‘اور ’’لچک‘‘ رکھا گیا ہے۔
بھارتی‘ صہیونی اور امریکی انتہا پسند پاکستانی معاشرے کو غیرمعتدل اور پُرتشدد معاشرہ کہتے ہیں تاکہ ہمیں ناقابلِ اعتبار ٹھیرائیں اور ہمارے جوہری سرمایے کو غیرمحفوظ قرار دیں۔ جنرل پرویز مشرف صاحب بھی اپنی تقریر میں پاکستان کی وہی تصویر پیش کرنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتے ہیں۔ اسلام بلاشبہہ اعتدال‘ امن اور اخوت کا مذہب ہے لیکن کون سا معاشرہ ہے جو انسانی کمزوریوں سے پاک ہے۔ کیا امریکہ میں تشدد‘ غنڈہ گردی اور عدم رواداری موجود نہیں۔ کیا رنگ‘ نسل زبان اور اندازِ بودوباش کی بنیاد پر وہاں انسانوں کے درمیان تمیز اور تفریق عام نہیں۔ کیا کالے امریکی جو امریکہ کی آبادی کا پانچواں حصہ ہیں اور ہسپانیہ اور میکسیکو سے آکر آباد ہونے والے لوگ جو اس وقت امریکہ کی آبادی کا ایک چوتھائی ہوچکے ہیں‘ اسی طرح برائون نسل کے لوگ--- کیا ان سب کے خلاف تعصب کا معاملہ نہیں کیا جا رہا؟ کیا یہ ایک حقیقت نہیں کہ آج امریکہ میں آبادی کے تناسب سے جیلوں میں محبوس لوگوں کی تعداددنیا کے بیشترممالک سے زیادہ ہے؟ نیز ان میں بھی کالے امریکی تعداد کے لحاظ سے آبادی میں اپنے تناسب سے دوگنا ہیں؟ کیا دنیا میں امریکہ سول آبادی میں سب سے زیادہ اسلحہ رکھنے والا ملک نہیں؟ اقوامِ متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن کے سابق صدراور آئرلینڈ کی سابق صدر میری روبسن نے ابھی جنوری ۲۰۰۴ء میں اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ امریکہ دنیا کا سب سے پُرتشدد (violent)ملک ہے۔
دنیا میں ۶۳۹ ملین کی تعداد میں چھوٹا اسلحہ ہے اور ۱۶ بلین بارودی یونٹ ہر سال استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے ۴۰ فی صد یعنی ۲۵۰ ملین ہتھیار صرف امریکہ میں ہیں‘ جب کہ امریکہ کی آبادی دنیا کی آبادی کا صرف ۸.۵ فی صد یعنی ۶ فی صد سے بھی کم ہے۔ امریکہ کی گن لابی مضبوط ترین لابی ہے اور خود امریکی دستور کی ضمانت کا سہارا لیتی ہے۔ میری روبسن کہتی ہیں کہ ۱۱ستمبر کے بعد صورت حال اور بھی خراب ہوگئی ہے۔(دی نیوز‘ ۴ جنوری ۲۰۰۴ئ)
جنرل پرویز مشرف نے چار چیلنجوں کا ذکر کیا ہے جن پر کھل کر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ ’’سب سے پہلے تو منفی تاثرات کو کیسے زائل کیا جا سکتا ہے؟‘‘ پھر کمالِ سادگی سے وہ ہر منفی پروپیگنڈے کو‘ اس کی صحت و عدمِ صحت پر کلام کیے بغیر قبول کرلیتے ہیں اور اس کے خلاف جہاد کا علَم بلند کرنے کا اعلان فرما دیتے ہیں۔
ان کی نگاہ میں پہلا مسئلہ یہ ہے کہ’’ہمیں اپنے سرحدی علاقوں میںایسے غیرملکی عناصر کے خلاف جو ہمارے ملک کے اندر اور افغانستان میں دہشت گردی کا باعث بن سکیں‘ بھرپور طاقت سے کارروائی کرنا ہوگی‘‘۔ سوال یہ ہے کہ ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کے بعد جن مجبوریوں کے باعث بھی ہم نے امریکہ کا ساتھ دیا‘ کیا وہ اب ہمیشہ کے لیے ہمارے پائوں کی بیڑیاں بن گئی ہیں۔ آج ہر عرب القاعدہ ہے اور ہر افغانی طالبان بن گیا ہے۔ یہ امریکہ کا خبط (phobia) ہے جس کا نہ زمینی حقائق سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہمارے مصالح اور حالات سے اس کو کوئی نسبت ہے۔
عرب ہمارے اچھے دوست ہیں اور افغانی اور پاکستانی دین ‘ جغرافیہ‘ تاریخ اور ثقافت کے دیرینہ رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں۔ ہم اپنے دوستوں کو دوسروں کی ناروا نازبرداریوں کی خاطردشمن بنانے پر کیوں تلے ہوئے ہیں۔ افغانستان پر امریکی سامراجی فوج کشی کے لیے کندھا فراہم کرنے کا ہم نے یہ جواز دیا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے گا اور امریکہ ہمارا ساتھ دے گا‘ ہمارے ایٹمی اثاثے محفوظ ہوجائیں گے‘ افغانستان میں جو حکومت بنے گی وہ ہمارے مشورے سے بنے گی‘ شمالی اتحاد کو اقتدار نہیں دیا جائے گا اور علاقے میں ہمارا کردار بڑھے گا‘ افغانستان میں جنگ لمبی نہیں ہوگی بلکہ محدود اور مختصر وقت میں معاملات طے ہوجائیں گے--- لیکن ہوا کیا؟
افغانستان کے زمینی حقائق کو نظرانداز کر کے امریکہ اپنے مقاصد کے لیے جو دروبست بنارہا ہے ہم تابع مہمل کی طرح اس کے آلہ کار بن رہے ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادی جس ڈیونڈر لائن کی حفاظت نہیں کرسکتے ‘انھیں ہم سے اس کی حفاظت کرنے کے مطالبے کا کیا حق ہے؟ شمالی علاقہ جات کی ایک تہذیب اور روایات ہیں‘ اپنا نظام ہے اور قائداعظم نے پوری بالغ نظری سے اس انتظام کا اہتمام کیا تھا۔ آج ہم نے خود اپنی شمالی سرحدوں کو غیرمحفوظ بنا دیا ہے اور ۷۰ ہزار فوج وہاں تعینات ہے اور ایک دلدل میں پھنستی چلی جا رہی ہے--- اور کس کے فائدے کی خاطر؟ امریکہ کا حال یہ ہے کہ جنرل صاحب کی تعریف تو وہ ضرور کرتا ہے لیکن ہماری ہرخدمت اور چاکری کے بعد ھل من مزید کی پکار لگاتا ہے اور مزید کے لیے بلیک میل کرتا ہے۔ افغانستان میں بھارت کا اثر بڑھ رہا ہے اور ہم نے گذشتہ ربع صدی میں جو نیک نامی اور محبت و احترام حاصل کیا تھا‘ وہ خاک میں مل گیا ہے۔ کیا وقت نہیں آگیا کہ ہم ایمان داری سے افغانستان کے معاملات کو افغانوں پر چھوڑ دیں اور فی الحقیقت کسی قسم کی بھی مداخلت کا راستہ ترک کردیں۔ امریکہ سے صاف کہہ دیں کہ جو کچھ ہم کرسکتے تھے ہم نے کر دیا۔ اب آپ اور افغان عوام خود اپنے معاملات کو سنبھالیں۔ ہمارے لیے سب افغانی برابر ہیں اور ہماری زمین سب کے لیے امن اور اخوت کا گھر ہے۔ ہمیں نہ عربوں سے خطرہ ہے اورنہ افغانوں سے--- امریکہ کی خاطر ہم اپنے دوستوں کو دشمنوں کی صف میں کیوں دھکیل رہے ہیں؟
افغانستان ہو یا عراق‘ ان ممالک کے مسائل کا حل افغانستان اور عراق سے امریکی اور اس کے اتحادیوں کی فوجوں کی جلد از جلد واپسی اور وہاں کے لوگوں کا باہم افہام و تفہیم سے اپنے معاملات سنبھالنے میں ہے۔ ہم کسی بھی دھڑے کی تائید یا مخالفت نہ کریں اور ساری توجہ اپنے حالات کی اصلاح پر صرف کریں اور یہ معاملات پوری طرح شفاف انداز میں انجام پائیں۔ البتہ امریکہ کو یہ پیغام جلد جانا چاہیے کہ دہشت گردی کے انسداد کے نام پر جو دہشت گردی وہ دنیا بھر میں کرتا پھر رہا ہے اس کی ایک حد ہے۔ اب ہمارے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ’’ بہت ہوگیا!‘‘ (enough is enough)کی بنیاد پر خارجہ پالیسی میں نئی راہیں اختیار کریں۔
کشمیر کے حوالے سے ہمارے اوپر جو الزامات ہیں ان سے نبٹنے کا واحد راستہ کشمیر کا پُرامن اور منصفانہ حل ہے۔ اس سلسلے میں جو پیش رفت ہوئی ہے‘ اسے نیک نیتی کے ساتھ اور کشمیریوں کی امنگوں کے ساتھ حل کی طرف لے جانا ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ الزام کیا ہے اور وہ کہاں تک درست ہے؟ یہ تو بھارت کی چال ہے کہ اس نے ریاست جموں و کشمیر پر جھوٹ اور دھوکے اور قوت کے ذریعے قبضہ کیا‘ اور اپنے سارے عہدوپیمان کو توڑ کر وہاں کے عوام کی امنگوں کا خون کر رہا ہے بلکہ ان کی رائے معلوم کرنے تک کی ضرورت کا منکر ہے۔ پاکستان اور تمام کشمیری خواہ وہ مقبوضہ کشمیر میں ہوں‘ آزاد کشمیر میں ہوں‘ پاکستان میں ہوں یا دنیا کے کسی اور علاقے میں ہوں‘ اس کے فریق ہیں۔ مسئلہ کسی زمین کے ٹکڑے کا نہیں‘ سوا کروڑ انسانوں کے حق خودارادیت کا ہے جو بین الاقوامی قانون‘ اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور قراردادوں کے تحت ایک مسلّمہ حق ہے۔ کشمیر کی جنگِ آزادی ایک قومی تحریکِ مزاحمت ہے جس کے سیاسی اور عسکری دونوں پہلو ہیں اور جو ان کا حق ہیں۔ اقوامِ متحدہ کا چارٹر آزادی کی جنگ کے حق کو تسلیم کرتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس حق کو تسلیم کیا ہے۔ غیر جانب دار ممالک کے چارٹر نے اسے مانا ہے۔ ابھی حال ہی میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے پاکستان ہی کی قرارداد کے ذریعے عظیم اکثریت سے ایک بار پھر اس حق کا اعادہ کیا ہے۔ اس جدوجہد کی تائید ہمارا قانونی‘ سیاسی اور اخلاقی حق ہی نہیں‘ فرض بھی ہے۔ کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں تازہ ترین معلومات کے مطابق ۸۷ ہزار ۶ سو ۷۸ افراد شہید ہوچکے ہیں جن میں سے ۶ ہزار ۷ سو کو زیرحراست شہید کیا گیا ہے۔ ۹ہزار سے زیادہ دخترانِ کشمیر کی اجتماعی آبروریزی کی گئی ہے اور ایک لاکھ سے زائد مکانات‘ باغات اور دکانیں مسمار کی جا چکی ہیں۔ لائن آف کنٹرول کے ساتھ آہنی کانٹوں کی باڑ لگائی جا رہی ہے اور جس طرح سیاچن پر قبضہ کر کے شملہ معاہدے میں کیے جانے والے status quo تبدیل نہ کرنے کے معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی ہے اسی طرح باڑ لگا کر نئی خلاف ورزی کی جا رہی ہے؟
پاکستان نے اپنی اصولی پوزیشن کو جس پر قومی اتفاق رائے تھا‘ بیرونی دبائو کے نتیجے میں تبدیل کردیا ہے اور مسلسل پسپائی اختیار کر رہا ہے۔ ہمارا موقف تھا کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے سوا کوئی حل ممکن نہیں‘ اس سے ہم ہٹ گئے ہیں۔ ہمارا دعویٰ تھا کہ یہ سہ فریقی مسئلہ ہے اور پاکستان‘ بھارت اور کشمیر کے نمایندے ہی بات چیت کا حق رکھتے ہیں‘ اس سے بھی ہم ہٹ گئے ہیں۔ پھر ہماری حکمت عملی تھی کہ بھارت سے تعلقات کو معمول پر لانا‘ کشمیر کے مرکزی اور محوری مسئلے (core issue) کے حل کے بغیر ممکن نہیں۔ اب ہم بھارت کے موقف پر آگئے ہیں کہ پہلے تعلقات کی بحالی اورکشمیر پر بات چیت بھی (چہ جائیکہ مسئلے کاحل) بعد میں! اور سب سے بڑھ کر اب جنگِ آزادی‘ جہادِ کشمیر اور دہشت گردی کے فرق کو بھی ہم بھول گئے ہیں جس کا پرچار ہم آگرہ تک کرتے رہے ہیں اور جنرل صاحب نے خود بھارت کے میڈیا کے سامنے جرأت سے اس موقف کو پیش کیا تھا۔ لیکن اب کارگل کی پسپائی کی طرح وہ ہر محاذ سے پسپائی اختیار کر رہے ہیں اور کشمیر کے مجاہدوں اور سیاسی تحریک کو جو پیغام دے رہے ہیں وہ انتہائی مایوس کن ہی نہیں‘ قومی مفادات کے یکسرمنافی ہے۔
جنرل صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ انصاف اور حق کے حصول کے لیے بھیک نہیں مانگی جاتی۔ یہ تاریخ کا سبق ہے جو قوم اپنے حق کے حصول کے لیے قربانی اور جدوجہد کا راستہ ترک کردیتی ہے‘ اپنی آزادی کی حفاظت کے لیے کمربستہ نہیں ہوتی اور جو دشمن کے ہر مطالبے کے آگے سرتسلیم خم کر دیتی ہے وہ اپنی آزادی کا تحفظ بھی نہیں کر سکتی اور محکومی اور غلامی اس کا مقدر ہوجاتی ہے۔
اگر بھارت کشمیر کے مسئلے پر مذاکرات کے لیے کسی درجے میں تیار ہوا ہے‘ تووہ کشمیریوں کی جنگِ آزادی اور قربانیوں کی وجہ سے ہوا ہے‘ کسی انصاف پسندی اور دوست نوازی کی وجہ سے نہیں۔ اگر یہ دبائو باقی نہیں رہتا تو کچھ بھی حاصل نہیں کیا جا سکے گا۔پھر جس طرح ہم کشمیری عوام کو مایوس کر رہے ہیںاورمحض دوطرفہ انداز میں معاملات کو نمٹانے کی کوشش کر رہے ہیں‘ وہ نہایت غیرحقیقت پسندانہ ہے۔ اگر ہندستان کی ہزارسال کی تاریخ اور کشمیر پر مذاکرات کی ۵۶سال کی داستان سامنے رہے‘ تو اس سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ جس نیک نیتی کی بات جنرل صاحب کر رہے ہیں وہ بھارتی قیادت کے طریق اور اس کے تاریخی کردار سے مکمل اغماض پر مبنی ہے اور ایسی ہی نیک نیتی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کا انجام تباہی ہوتا ہے۔ (Hell is paved with good intentions)
جوہری ہتھیاروں کے عدمِ پھیلائو کے بارے میں جنرل صاحب نے بیرونی الزام اور دبائو کا ذکر کیا ہے۔ ہم ان کے اس اعلان کا تو خیرمقدم کرتے ہیں کہ پاکستان اپنی ایٹمی صلاحیت کی حفاظت کرے گا اور اسے مزید ترقی دے گا۔ آزادی اور عزت کی حفاظت کا یہی راستہ ہے لیکن عملاً جس کمزوری کا مظاہرہ وہ اور ان کی حکومت ایٹمی سائنس دانوں کے سلسلے میں عالمی ایٹمی ایجنسی (IAEA) کے نام نہاد خط کے باب میں کر رہی ہے وہ نہایت تشویش ناک اور شرمناک ہے۔ پاکستان کسی این پی ٹی کا رکن نہیں اور اس پر کوئی قانونی پابندی نہیں۔ امریکہ کے ذریعے جو جوہری پھیلائو دنیا میں ہوا ہے وہ ایک کھلا راز ہے۔ جرمنی‘کینیڈا‘ فرانس نے اپنے اپنے ممدوحین کے لیے جو کچھ کیا ہے‘ وہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ہم آخرکیوں ہر چیز اپنے اوپر اوڑھ لیں اور اپنے ہی قومی ہیروز کی بے عزتی پر تل جائیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ایران کے نائب وزیرخارجہ اور کرنل قذافی کے صاحبزادے سیف الاسلام خود کہہ رہے ہیں کہ ہم نے پاکستان یا کسی مسلمان ملک کا نام نہیں لیا اور ہم ہیں کہ امریکی‘ صہیونی اور بھارتی پروپیگنڈے سے خائف ہوکر اپنی ہی جڑوں پر کلہاڑی چلانے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ ڈی بریفنگ کس بلا کا نام ہے؟ اپنے معزز سائنس دانوں سے آپ شرافت سے بات چیت کرسکتے ہیں۔ گرفتاریاں‘ راتوں کو گھروں سے اٹھانا‘ اہلِ خانہ سے ربط و تعلق کی اجازت نہ دینا‘ آپس میں مشورہ اور وکیل تک رسائی کے انسانی حق سے محرومی--- یہ کس مہذب معاشرے کے طور طریقے ہیں۔ یہ راستہ ایٹمی قوت کے استحکام کا نہیں‘ اس کو تباہ کر دینے کا ہے اور قوم کسی کو اس کی اجازت اور موقع نہیں دے گی۔
معاشرے میں انتہا پسندی اور عدمِ اعتدال کے الزام کو بھی جنرل صاحب نے ایک چیلنج کی حیثیت سے پیش کیا ہے اور یہاں بھی وہ خود انصاف اور توازن کی راہ اختیار نہیں کرسکے۔ اسلام ہے ہی اعتدال کا نام اور اس امت کو قرآن نے اُمت وسط ہی قرار دیا ہے۔ ہر معاشرے میں کچھ نہ کچھ بے اعتدالی رونما ہوتی رہتی ہے اور اس کا علاج تعلیم و تلقین‘ اچھی مثال‘ آزاد مکالمے و مجادلے اور افہام و تفہیم ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ اس کے لیے بگاڑ کی تشخیص اور اس کے اسباب کو رفع کرنا بھی ضروری ہے۔ پھر جہاں ایسی چیزیں کچھ خاص سیاسی‘ گروہی‘ علاقائی‘ لسانی یا فرقہ وارانہ مفادات کی بنا پر ظہورپذیر ہوں وہاں‘ ان تمام حالات کا ادراک اور اصلاح ضروری ہے۔ پاکستان میں ملّی یک جہتی کونسل اور متحدہ مجلسِ عمل نے یہی راستہ اختیار کیا اور الحمدللہ حالات کو مثبت انداز میں متاثر کیا۔ بات سخت ہے لیکن حقیقت ہے کہ تشدد مسلکی نام پر ہو یا لسانی اور نسلی‘ اس کو طرح دینے میں ملکی ایجنسیوں اور بیرونی سازشوں کا بڑا دخل ہے اور یہ تمام معلومات سرکاری ریکارڈ میں ہیں اور پارلیمنٹ کی کمیٹیوں کے سامنے پیش کی جانے والی شہادتوں اور پریس میں طبع ہونے والی معلومات کی بنیاد پر مستند (authenticated) ہیں۔ اس مسئلے پر بھی نہ الزام کو آنکھیں بند کرکے اپنے سر اوڑھنے کی ضرورت ہے اور نہ خرابی جتنی ہے اور جن وجوہ سے ہے ان کو نظرانداز کرنا ہی صحیح ہے۔ خود جنرل صاحب کو جس طرح نشانہ بنایا گیا ہے اس کے بارے میں قوی خدشہ ہے کہ یہ کام ان لوگوں کا ہے جو ان کو‘ فوج کو‘ اور حکومت کو دینی اور جہادی قوتوں کے خلاف برسرِکار کرنا چاہتے اور ملک میں فساد اور تصادم کی فضا پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ان تمام پہلوئوں کونظرانداز کرکے بس انتہاپسندی کے خلاف جہاد کی باتیں کرنا بڑی سطحی بات ہے اور معکوس نتائج دے سکتی ہے۔ اصول پرستی اور انتہاپسندی میں فرق اسی طرح ضروری ہے جس طرح جہاد اور دہشت گردی ہیں۔
یہ بات بھی سامنے رہنی چاہیے کہ مغربی میڈیا میں پاکستانی معاشرے میں تشدد کی بات کو حد اور تناسب سے بڑھا کر (out of proportion) پھیلانے اور اس کا ڈھول پیٹنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ پاکستانی قوم کو غیرذمہ دار ثابت کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہ دعویٰ کرسکیں کہ ہماری ایٹمی صلاحیت قابلِ اعتماد ہاتھوں میں نہیں۔ یہ بڑا خطرناک کھیل ہے اور ہمیں اس سے باخبر ہونا چاہیے اور کسی ایسے جال میں نہیں پھنسنا چاہیے۔ اصلاحِ احوال ضروری ہے‘ مگر حقائق کو ہر مبالغے سے محفوظ رکھتے ہوئے۔
اگر ان چند افسوس ناک واقعات کی بنیاد پر جو پاکستان میں ہوئے ہیں‘ اس ملک اور اس کے معاشرے کو انتہاپسند اور تشدد پر مبنی قرار دیا جا سکتا ہے تو پھر بھارت میں جو کچھ ہو رہا ہے اور صرف کشمیر ہی نہیں ۱۶ دوسری آزادی کی تحریکوں کو کچلنے کے لیے کیا جا رہا ہے‘ مسلمانوں‘ دلت اورعیسائیوں کو جس طرح قتل و غارت گری اور لوٹ مار کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور پوٹا (POTA) جیسے قوانین کے ذریعے ہزاروں انسانوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے‘ اسے کیا کہیں گے۔ بات صرف بھارت تک محدود نہیں‘ امریکہ کے معاشرے کا کیا حال ہے۔ کیا وہاں امریکی دہشت پسند گروہوں کی کمی ہے؟ Ku Klux Klanسے لے کر اوکلاہاما کی تباہ کاری کے ذمہ دار گروہوں تک کا انکار کیا جا سکتا ہے؟ کیا امریکہ میں ہر آٹھ منٹ پر ایک قتل نہیں ہوتا؟ کیا امریکہ کے اہم ترین شہروں میں سڑکیں ہی نہیں‘ گھربلکہ ہوٹل تک محفوظ ہیں؟ جو بھی فائیوسٹار ہوٹلوں میں ٹھیرے ہیں‘ جانتے ہیں کہ وہاں جاتے ہی ہوٹل کا عملہ اپنی حفاظت آپ کرنے کے لیے کیا کچھ ہدایات نہیں دیتا۔ لاطینی امریکہ کے ملکوں کا حال تو اور بھی تباہ ہے لیکن کسی ملک کا سربراہ اس طرح اپنے ملک میں تشدد اور بے اعتدالی کا ڈھنڈورا نہیں پیٹتا اور یہ تاثر نہیں دیتا کہ اس کا ملک انتہاپسندی اور تشدد کے فروغ کا ذریعہ بن رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ایک پُرامن ملک ہے اور اگر کچھ ناخوش گوار واقعات یہاں ہوئے ہیں‘ تو وہ خاص حالات کی پیداوار ہیں جن میں بیرونی ہاتھ اور ایجنسیوں کے کردار سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ بلاشبہہ جو بھی کمزوری ہمارے ملک میں ہے اس کی اصلاح کی ضرورت ہے اور اس کا کوئی جواز نہیں ہو سکتا لیکن محض دوسروں کے کہنے پر ایسے الزامات کو اوڑھ لینا اور انھیں حقیقت سمجھ کر پورے معاشرہ اور ملک کو بدنام کرنا‘ یہ دشمنوں کا کھیل ہے جس میں ہمیں کسی کا آلہ کار نہیں بننا چاہیے۔
جس طرح جنرل پرویز مشرف نے اس پوری بات کو چیلنج قرار دے کر پیش کیا ہے‘ وہ مصنوعی ہے اور حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
پاکستان کی فوج قوم کا قیمتی اثاثہ اور دفاع وطن کے باب میں ہماری متاع ہے لیکن جنرل پرویز مشرف نے فوج کے بارے میں بھی جو اندازِ بیان اختیار کیا ہے‘ اسے صحت مندقرار نہیں دیا جا سکتا۔ فوج کی خدمات بیش بہا ہیں اور ہم سب کو ان پر فخر ہے لیکن فوج تنقید و احتساب سے بالا نہیں اور فوجی قیادت نے سیاست میں مداخلت کر کے اور ہماری تاریخ کے ۵۶ برسوں میں سے تقریباً نصف مدت ملک کے سیاہ و سفید کا مالک ہو کر جو غلطیاں کی ہیں اور ان کے نتیجے میں جو تباہ کاریاں واقع ہوئی ہیں ان کی ذمہ داری سے فوج کی ان قیادتوں کو کیسے بری قرار دیا جاسکتا ہے جو اقتدار پر قابض تھیں۔
اس مسئلے کے دو پہلو ہیں: سپریم کورٹ کا فیصلہ چشم کشاہے۔ دوسرا پہلو فوج کی عظیم خدمات اور دفاع وطن کے لیے قربانیاں ہیں لیکن اس کے ساتھ انسانی سطح پر کچھ اہم میدانوں میں فوجی قیادتوں کی غلطیاں بلکہ بھیانک غلطیاں بھی ایک حقیقت ہیں۔ دنیا میں ہر جگہ فوج کی بحیثیت ادارہ تحفظ اور قدرومنزلت کے ساتھ انفرادی فوجی اقدامات یا اجتماعی کوتاہیوں پر احتساب بھی کیا جاتا ہے اور اسے غلط محرکات اور فوج کو بدنام کرنے کے نام پر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ صحیح راستہ درمیان کا راستہ ہے۔ فوج بھی باقی سب اداروں کی طرح محترم ہے اور اس کا احتساب بھی قانون کی بالادستی کا ایک حصہ ہے۔ کوئی بھی مقدس گائے نہیں اور کسی کو بھی قانون سے بالا ہونے کا مقام نہیں دیا جا سکتا۔
فوج کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ مکمل طور پر صرف دفاعِ وطن کے لیے مخصوص ہو اور سیاست میں دراندازی کر کے اپنے کو متنازع نہ بنائے۔ اور اگر فوج سیاست میں دخیل ہوگی تو پھر اس کا بھی اسی طرح جائزہ لیا جائے گا جس طرح سیاسی جماعتوں‘ عناصر اور قیادتوں کا۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری نگاہ میں اس وقت ملک کو جو اہم اندرونی چیلنج درپیش ہیں‘ ان میں ایک یہ بھی ہے کہ کسی طرح جلد از جلد فوج کو صرف دفاع وطن کی ذمہ داری کے لیے مخصوص کر دیا جائے اور اس کے سیاسی کردار کو ختم کیا جائے تاکہ وہ متنازع نہ بنے اور قوم کے احترام اور تعاون کی مستحق رہے۔
ایک بڑا اہم پہلو سیاسی استحکام‘ سیاسی اداروں کا مؤثر ہونا‘ اور قوم کو اعتماد میں لے کر اندرونی سیاسی مضبوطی کا حصول ہے۔ جنرل صاحب نے استحکام کے دو ستونوں‘ یعنی فوج اور معیشت کا ذکر تو کیا ہے لیکن تیسرے ستون‘ یعنی سیاسی استحکام‘ حقیقی جمہوریت کا مؤثر اور معتبر ہونا‘ قانون کی حکمرانی اور انصاف پر مبنی نظام کا فروغ اور چوتھے ستون‘ یعنی نظریاتی‘ اخلاقی اور تہذیبی تشخص کی مضبوطی کا ذکر نہیں کیا۔ قومیں اپنے نظریات اور اپنے عزائم کی بنیاد پر بڑے بڑے معرکے سر کرتی ہیں اور بڑی بڑی آزمایشوں کا مقابلہ کرتی ہیں۔ اخلاقی قوتیں مادی قوتوں کی تقویت کا باعث ہوتی ہیں اورمادی قوت اخلاقی اور نظریاتی قوت اور استحکام کے بغیر اپنی اصل استعداد کو حاصل نہیں کر سکتی۔ اس لیے اندرونی محاذ کی مضبوطی کے لیے معاشی اور دفاعی قوت کے ساتھ ساتھ سیاسی اور جمہوری استحکام اورنظریاتی اور تہذیبی محاذ کی تقویت ازبس ضروری ہے۔ ان میں سے کسی ایک کوبھی نظرانداز کرنا مہلک ہو سکتا ہے۔ سیاسی‘ معاشی‘ دفاعی ہر میدان میں نشیب و فرازممکن ہیں اور تاریخی حقیقت ہیں لیکن اصل فیصلہ کن قوت ایمان‘ نظریاتی اعتماد‘ اخلاقی قوت اور مستقبل کا وژن ہے۔ جنرل صاحب کی تقریر میں یہ دوسرے پہلو مفقود ہیں‘ جب کہ سیاسی ‘ معاشی اور دفاعی میدان میں تسلسل اور بقا کے لیے یہ فیصلہ کن ہیں۔ جنگیں عسکری ہوں یا نظریاتی‘ ان کا اصل انحصار قومی ارادے (national will) اور خودی کی قوت پر ہوتا ہے اور اگر یہی پہلو ہمارے پالیسی ساز افراد اور اداروں کے سامنے نہ ہوں تو اس سے بڑا المیہ ممکن نہیں۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ قوم کو تیار کیا جائے اور فیصلے افرادنہ کریں بلکہ ادارے کریں اور قوم کے عزائم اور امنگوں کی روشنی میں کریں۔ خوف کے تحت کیے جانے والے فیصلے صرف پسپائی اور شکست پر ہی منتج ہوسکتے ہیں‘ کبھی بھی فتح کی نوید نہیں لا سکتے۔
آخر میں ہم پارلیمنٹ کے ارکان سے یہ استدعا کرتے ہیں کہ پارلیمانی روایات کے مطابق صدر کے خطاب پر دونوں ایوانوں میں مفصل بحث ہونی چاہیے اور جن امور کا انھوں نے ذکر کیا ہے اور جن سے وہ پہلوتہی کرگئے ہیں‘ان سب پر پوری تیاری کے ساتھ بات ہونی چاہیے تاکہ پارلیمنٹ ملکی اور غیرملکی مسائل کی روشنی میں کوئی نقشہ راہ قوم اور حکومت کے سامنے پیش کرسکے۔ آج جس طرح اسلام‘ دینی مدارس‘ جہاد اور قومی اقدار و روایات کو پوری دنیا میں نشانۂ تنقید بنایا جا رہا ہے‘ اس کا تقاضا ہے کہ پورے تدبر اور تحمل لیکن مکمل اعتماد کے ساتھ اپنے موقف کو پیش کیا جائے۔ اگر ہمارے عمل میں کوئی خرابی اور کمزوری ہے تو اس کی اصلاح کی بھی پوری فکر کی جائے لیکن محض پرائے شگون پر ناک کٹوانے کی حماقت کا ارتکاب نہ کیا جائے۔ اقبال اور قائداعظم نے جس یقین‘ تدبر اور بالغ نظری سے اسلام اور مسلمانوں کے مقدمے کو پیش کیا اور بالآخر مقدمہ جیت گئے اسی طرح آج بھی اپنے مقدمے کو پیش کرنے اور اپنی قوم کو تیار کرکے حالات کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ دشمن کو گالی دینے سے کام نہیں چلے گا لیکن دوست اور دشمن میں صحیح صحیح تمیز کے بغیر بھی ہم اپنے مفادات کا تحفظ اور اپنے مقاصد کا حصول نہیں کرسکتے۔ ۱۹۳۰ء کے تاریخی خطبے میں علامہ اقبال نے بڑی پتے کی بات کہی تھی جس کا ادراک آج اور بھی ضروری ہے۔ انھوں نے کہا تھا:
ایک سبق جو میں نے تاریخِ اسلام سے سیکھا ہے وہ یہ ہے کہ آڑے وقت میں اسلام ہی نے مسلمانوں کی زندگی کو قائم رکھا ہے۔ مسلمانوں نے اسلام کی حفاظت نہیں کی‘ اسلام نے مسلمانوں کی حفاظت کی ہے۔ اگر آج آپ اپنی نگاہیں پھر اسلام پر جما دیں اور اس کے حیات بخش تخیل میں رچ بس جائیں تو آپ کی منتشر اور پراگندہ قوتیں ازسرِنو جمع ہو جائیں گی اور آپ کا وجود ہلاکت و بربادی سے محفوظ ہوجائے گا۔
تحریکِ پاکستان اور قیامِ پاکستان اسی جدوجہد کا ثمرہ ہے۔ آج پھر اسی سبق کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ قائداعظم نے اسی کے سہارے پاکستان بنا دیا اور ہم اسی کے سہارے پاکستان کی حفاظت کرسکتے ہیں اور ترقی کی منزلیں طے کر سکتے ہیں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ کے معزز ارکان اور خود صدر صاحب کو قائداعظم کے وژن کی یاد دہانی کرا دی جائے تاکہ آگے کے سفر کے بارے میں ان کا دکھایا ہوا راستہ ایک بار پھر ہماری نگاہوں کے سامنے ہو۔ ۱۹۴۸ء میں مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ کراچی سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:
وہ کون سا رشتہ ہے جس میں منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسدِواحد کی طرح ہیں؟ وہ کون سی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے؟ وہ کون سا لنگر ہے جس سے اس اُمت کی کشتی محفوظ کردی گئی ہے؟ وہ رشتہ وہ چٹان‘ وہ لنگرخدا کی کتاب قرآنِ کریم ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے‘ ہم میں زیادہ سے زیادہ اعتماد پیدا ہوتا جائے گا… ایک خدا‘ ایک رسولؐ، ایک کتاب‘ ایک اُمت۔
اس وقت میدانِ سیاست میں ہندو مسلمانوں کی جنگ ہو رہی ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ فتح یاب کون ہوگا۔ علمِ غیب خدا کو ہے لیکن میں ایک مسلمان کی حیثیت سے علی الاعلان کہہ سکتا ہوں کہ اگر ہم قرآن مجید کو اپنا آخری اور قطعی رہبر بناکر شیوہ صبر و رضا پر کاربند ہوجائیں اور اس ارشادِ خداوندی کو کبھی فراموش نہ کریں کہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں تو ہمیں دنیا کی کوئی طاقت یا کئی طاقتیں مل کر بھی مغلوب نہیں کرسکتیں۔ ہم تعداد میں کم ہونے کے باوجود فتح یاب ہوں گے جس طرح مٹھی بھر مسلمانوں نے ایران و روم کی سلطنتوں کے تحت الٹ دیے تھے۔
میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اس اسوہ حسنہ پر چلنے میں ہے جو قانون عطا کرنے والے پیغمبراسلامؐ نے ہمارے لیے بنایا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی جمہوریت کی بنیادیں صحیح معنوں میں اسلامی تصورات اور اصولوں پر رکھیں۔
ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔
میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ اس سنہری اصولوں والے ضابطۂ حیات پر عمل کرنا ہے جو پیغمبراسلامؐ نے ہمارے لیے قائم کر رکھا ہے۔ ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اسلامی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہییں۔ اسلام کا سبق یہ ہے کہ مملکت کے امور وسائل کے بارے میں فیصلے باہمی بحث و تمحیص اور مشوروں سے کیا کرو۔
اقبال اور قائداعظم کا وژن بالکل واضح ہے‘ کیا ہم اس وژن کے مطابق پاکستان کی تعمیرکے لیے جدوجہد کرنے اور اس جدوجہد کا حق ادا کرنے کے لیے تیار ہیں؟
اکتوبر۲۰۰۲ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں (دسمبرمیں) جو پارلیمنٹ وجود میں آئی تھی‘ اس نے اپنا پہلا سال جوں توں کرکے مکمل کرلیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف اور ظفراللہ جمالی کے نام نہاد اشتراک اقتدار پرمبنی حکومت کے پہلے سال کو جنرل صاحب کے تین سالہ بلاشرکت غیرے اقتدار کا تسلسل ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اپوزیشن اور خصوصیت سے متحدہ مجلس عمل کی ساری کوشش اور کاوش کے باوجود جنرل پرویز مشرف کی ہٹ دھرمی‘ جمالی حکومت کی کمزوری اور علاقے کے بارے میں امریکی پالیسی کے باعث پارلیمنٹ اپنی بالادستی قائم نہ کر سکی۔ اس طرح پورا سال ایک ایسی کش مکش کی نذر ہوگیا جس کے نتیجے میں جمہوری سفر صحیح معنوں میں شروع ہی نہیں ہوسکا۔ یہ ایک ایسا سانحہ ہے جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔
اس صورت حال سے ملک کی فوجی اور سیاسی قیادت کی معاملہ فہمی کی جو تصویر قوم کے سامنے آتی ہے وہ اپنے اندر تشویش کے بے شمار پہلو رکھتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور اللہ تعالیٰ جو بھی مواقع قوم کو دے رہا ہے‘ اس کی قیادت ان کو ضائع کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب عالمی طاقتیں پوری مسلم دنیا پرشدید یورش کر رہی ہیں اور ہماری آزادی‘ حاکمیت‘ دینی تشخص اور ملّی وقار سب اس کی زد میں ہیں‘ ہماری قیادت خطرناک حد تک عاقبت نااندیشی کی روش پر گامزن ہے بلکہ اس مہلک راستے پر چلنے پر مصر ہے۔
سالِ گذشتہ (۲۰۰۳ئ)کے آخری مہینے کے وسط میں (۱۷ دسمبر کے آس پاس) تین واقعات ایسے ظہور پذیر ہوئے ہیں جن پر سنجیدگی سے غوروفکر کی ضرورت ہے۔ اگر بصیرت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو بظاہر آزاد اور مستقل بالذات (self-contained) ہونے کے باوجود ان واقعات میں واضح طور پر باہمی ربط و تعلق نظر آتا ہے۔
پہلا واقعہ ۱۸ دسمبر سے شروع ہونے والی مجلسِ عمل کی عوامی تحریک ہے جو اگرچہ ایل ایف او کے بارے میں حکومت کے مسلسل لیت ولعل اور سردمہری کے نتیجے میں رونما ہوئی ہے لیکن دراصل اب وہ پاکستان اور اُمت مسلمہ کو جو خطرات اس وقت درپیش ہیں اور جن کے بارے میں حکومتِ وقت تجاہل اور تغافل ہی کی مجرم نہیں بلکہ عملاً ان کو اور بھی گمبھیر کرنے کا ذریعہ بنی ہوئی ہے‘ ان کا مقابلہ کرنے کے لیے قوم کو بیدار اور منظم کرنے کا عنوان بن گئی ہے۔ تحریک کے شروع ہوجانے کے بعد حکومت نے ایل ایف او کی حد تک مجلسِ عمل سے طے شدہ معاملات کو پارلیمنٹ میں دستوری ترمیمی بل کی شکل میں لانے کے لیے کچھ سرگرمی دکھائی ہے (ان سطور کے ضبطِ تحریر میں لاتے وقت تک کچھ پیش رفت کے آثار نظر آ رہے ہیں گوبعد از خرابیِ بسیار)۔ لیکن ایم ایم اے نے افہام و تفہیم اور معاملہ فہمی کی اعلیٰ صفات کا مظاہرہ کرتے ہوئے دستوری تنازعے کا حل نکالنے کے لیے ایک بار پھر دستِ تعاون بڑھایا ہے مگر اس واضح اعلان کے ساتھ کہ دستوری گتھی کو سلجھانے میں تعاون کو کسی صورت میں بھی اقتدار میں اشتراک یا جنرل پرویز مشرف پر کسی درجے میں بھی اعتماد کے اظہار سے وابستہ نہیں کیا جا سکتا اور اس کی بنیادی وجہ جنرل صاحب کی خارجہ‘ داخلہ‘ ثقافتی اور نظریاتی پالیسیوں سے مجلس کا شدید اختلاف ہے ۔ ملک کی تعمیرِنو کے لیے مجلس اپنے ایجنڈے پر کسی سمجھوتے کے لیے قطعاً تیار نہیں۔
مجلسِ عمل نے ایک طرف پوری بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دستوری تنازعے کے حل کی ایک اور کوشش پر آمادگی کا اظہار کیا ہے (اور ہماری دعا ہے کہ یہ کوشش کامیاب ہو اور ماضی کی کوششوں کی طرح درمیان میں تعطل کی نذر نہ ہو جائے) تو دوسری طرف پاکستان اور اُمت مسلمہ کو درپیش معاملات کے سلسلے میں اسے جنرل صاحب کی پالیسیوں سے جو اصولی اور جوہری اختلاف ہے‘ اس پر پوری استقامت دکھا کر تعاونوا علی البر والتقویٰ ولا تعانوا علی الاثم والعدوان (نیکی اور تقویٰ کے معاملات میں تعاون کرو مگر گناہ اور زیادتی و بے انصافی کے باب میں ہرگز تعاون نہ کرو) کے قرآنی اصول کے مطابق اپنی پالیسی پر ثابت قدم رہنے کی اعلیٰ مثال قائم کی گئی ہے۔
ہم اس امر کا بار بار اظہار کرچکے ہیں کہ ایل ایف او کا مسئلہ محض کوئی نظری مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس پر پورے نظام کے جواز (legitimacy)کا انحصارہے اور اس کے ساتھ ہی ملک کے مستقبل کے جمہوری نظام کے ارتقا کا دارومدار بھی اسی پر ہے۔ ایل ایف او کے تحت انتخابات میں شرکت ایک ناگزیر برائی اور ایک وقتی ضرورت تھی کہ اس کے بغیر جمہوری عمل شروع نہیں ہوسکتا تھا اور پارلیمنٹ اپنا کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں آسکتی تھی۔ لیکن ایک بار جب پارلیمنٹ وجود میں آگئی اور سول حکمرانی کے دور کا آغاز ہوگیا تو اولین اہمیت اس چیز کو حاصل تھی کہ دستوری اور جمہوری مسلمات کے سلسلے میں ایل ایف او کے بنیادی انحرافات‘ کی تصحیح کر دی جائے اور وہ یہ ہیں:
۱- دستوری ترمیم کا حق کسی ایک فرد کو حاصل نہیں ہے اور نہ سپریم کورٹ کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ خود دستوری ترمیم کرے یا کسی کو کرنے کا اختیار دے۔ اس لیے ضروری ہے کہ تمام دستوری ترامیم منتخب پارلیمنٹ کے سامنے لائی جائیں اور وہ ان میں سے جن کو مناسب سمجھے قبول کرے اور جن کو ملک اور قوم کے مفاد کے خلاف سمجھے انھیں رد کر دے۔
۲- جمہوریت کا سب سے بنیادی اصول عوامی نمایندوں کا یہ اختیار ہے کہ وہ دستور کی حفاظت کریں۔ دستور کے مطابق حکومت سازی کا فریضہ انجام دیں‘ قانون سازی اور پالیسی سازی کا منبع عوام کا منتخب ایوان ہو اور حکومت اور اس کے سارے کارپرداز (سول ہوں یا فوجی) اس کے سامنے جواب دہ ہوں اور اس کی طے کردہ پالیسی پر گامزن!
۳- دستور‘ پارلیمنٹ اور منتخب نمایندوں پر کسی فرد یا گروہ کو بالادستی حاصل نہ ہو اور جس طرح سول انتظامیہ اور باقی تمام ادارے دستور کے مطابق سول حکومت کے ماتحت ہوتے ہیں‘ اسی طرح فوج بھی سول حکومت کے ماتحت ہو۔
۴- ۱۹۷۳ء کے دستور میں اسلامی‘ پارلیمانی اور وفاقی نظام کا جو نقشہ قوم کے مکمل اتفاق سے وضع کیا گیا ہے اسے بحال کیا جائے اور پوری دیانت سے اس پر عمل کیا جائے۔ اگر یہ مقصد ایک جست میںحاصل نہ ہو تب بھی اقساط میں اور تدریج کے ساتھ اس ہدف کو حاصل کرنے کی جدوجہد کی جائے۔
بنیادی طور پر یہی چار چیزیں ہیں جن کے تحفظ کے لیے ایل ایف اوکے اوپر سارے مذاکرات ہوئے اور اس کی ۲۹ دفعات میں سے ۲۲ کو مصلحتاً قبول کر کے باقی سات میں ایسی ترامیم کرانے کی کوششیں کی گئیں جو دستور کو ان چاروں اصولوں سے کم سے کم حد تک ہم آہنگ کرسکیں۔ بلاشبہہ جو معاہدہ مجلسِ عمل اور حکومت کے درمیان ہوا ہے وہ معیاری نہیں‘ صرف گوارا حد تک قابلِ قبول ہے لیکن یہ حکمت کا تقاضا تھا کہ سیاسی تعطل سے نکلنے کے لیے کوئی راستہ بنایا جائے اور کم از کم حد تک جمہوری عمل کو شروع کردیا جائے تاکہ رخ تبدیل ہو‘ اور آیندہ زیادہ سیاسی قوت حاصل کر کے دستوری نظام اور سیاسی پالیسیوں کو مزید جمہوری بنایا جائے۔ گاڑی کو پٹڑی پر لانا پہلی ضرورت ہے۔ پھر اس کو اچھی رفتار سے چلانے اور منزل تک پہنچنے کے بہترین طریقوں پر گامزن کرنے کی سعی و جہد ہوسکتی ہے۔
یہی وہ مصلحت ہے جس کی بنا پر مجلسِ عمل نے کم سے کم قابلِ قبول پیکج کو قبول کرنے اور ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کی حکمت عملی اختیار کی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس بات کو بھی واضح کر دیا ہے کہ ہمیں جنرل پرویز مشرف اور جمالی حکومت کی بیشترپالیسیوں سے شدید اختلاف ہے اور ہم ان کو اعتمادکا ووٹ کسی قیمت پر نہیں دے سکتے۔ ہم حزبِ اختلاف کا کردار ادا کرتے ہوئے ان پالیسیوں کو تبدیل کرانے کی جمہوری اور عوامی جدوجہد جاری رکھیں گے اور حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے۔
یہ حکمت کی شاہراہِ وسط ہے اور ہماری دعا ہے کہ حکومت اس اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے لیے اب کوئی اور چال نہ چلے اور جلد از جلد پارلیمنٹ میں دستوری ترامیم کا بل لاکر نئے سال کا آغاز ایک بہتر جمہوری فضا کو ہموار کرنے سے کرے۔ ہم علی وجہ البصیرت اس راستے کو اختیار کررہے ہیں اور ایک خاص لابی کی طرف سے ’’بی ٹیم‘‘ اور ’’ملا-ملٹری اتحاد‘‘ کی سطحی پھبتیوں سے آمریت سے جمہوریت کی طرف لوٹنے کی راہ کھوٹی نہیں کی جاسکتی۔ البتہ دو باتیں بہت صاف ہیں اور ان کے بارے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔
اولاً :ہم نے یہ دستوری پیکج وقت کی نزاکت اور ضرورت کے مطابق قبول کیا ہے اور اسے کم سے کم آخری حد(bottom line) کے طور پر اختیارکیا ہے۔ یہ ہماری حکمت عملی کا پہلا قدم ہے۔ جیسے جیسے ہمیں مزید عوامی تائید حاصل ہوگی اور دوسری سیاسی قوتوں کا تعاون ملے گا ہم مزید دستوری ترامیم کے ذریعے اپنے تصور کے مطابق اصلاحات کرنے کے لیے جدوجہد جاری رکھیںگے اور دستور کو ۱۹۷۳ء کے اصل دستور کی دفعات اور روح کے مطابق ایک حقیقی اسلامی پارلیمانی اور وفاقی دستور بنانے اور اس میں مزید بہتری لانے کی کوشش جاری رکھیں گے‘ نیز جہاں جہاں اور جس حد تک اس سے انحراف ہوا ہے اس کی تصحیح کی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ موجودہ حالات میں دستوری اصلاح کا عمل ایک ہی ہلّے میں مکمل نہیں ہو سکتا۔
دوسری چیز یہ ہے کہ خارجہ اور داخلہ میدانوں میں جو غلط پالیسیاں جنرل صاحب نے اختیار کی ہیں اور جن کی طوعاً وکرہاً جمالی حکومت تائید کر رہی ہے‘ ان پر گرفت کرنے اور انھیں تبدیل کرنے کے لیے پارلیمانی اور عوامی جدوجہد ہم جاری رکھیں گے اور جہاں جتنی قوت ہمیں حاصل ہے اس کو ہر غلطی کی اصلاح کے لیے استعمال کریں گے۔ ہم عوامی قوت کو اس طرح منظم و موثر بناناچاہتے ہیں کہ پاکستان کی اسلامی اور جمہوری شناخت مضبوط تر ہو‘ ملک پر امریکی سامراجی اقتدار کی گرفت سے نجات حاصل کی جائے اور اپنی آزادی‘ حاکمیت‘ معاشی خودانحصاری‘ دفاعی صلاحیت اور نظریاتی اور تہذیبی تشخص کی مکمل حفاظت ہو‘ قومی کشمیرپالیسی اور ملت اسلامیہ سے ہماری وفاداری اور اس کے تمام مسائل کے بارے میں پوری یکسوئی کے ساتھ حق وانصاف کی مکمل پاس داری کرتے ہوئے ہم اپنا مثبت کردار ادا کرسکیں۔ دنیا کے تمام ممالک سے‘ بھارت سمیت‘ ہم دوستی کے قائل ہیں مگر یہ دوستی عزت اور حق وا نصاف کی بنیادوں پر ہوسکتی ہے۔ اس لیے کہ تاریخ کا یہی فیصلہ ہے کہ قوموں اور گروہوں کے درمیان دوستی اور تعاون اسی وقت پایدار ہوسکتے ہیں‘ جب وہ ہر قسم کے جبر‘ دبائو اور ناانصافی سے پاک ہوں۔ مجلسِ عمل اور تمام دینی اور جمہوری قوتیں ان شاء اللہ ان مقاصد کے حصول کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گی۔ ہماری جدوجہدکسی تصادم کے لیے نہیں ہے بلکہ ان مقاصد کے لیے عوام کو بیدار کرنے‘ ان کو منظم کرنے اور تمام دینی اور جمہوری قوتوں کو ملک و قوم کی آزادی اور اس کے اجتماعی مقاصد کے حصول کے لیے مسلسل سرگرم عمل رکھنے کے لیے ہے۔ یہ کام ہمیں حکمت اور استقامت کے ساتھ اور پورے تسلسل سے انجام دینا ہے۔ یہ کوئی وقتی کام نہیں بلکہ ایک مستقل ذمہ داری ہے جو جہدِمسلسل ہی سے پوری کی جا سکتی ہے۔
اس مہینے کا دوسرا اہم واقعہ راولپنڈی کے حساس علاقے میں لئی نالہ پُل کو پانچ بموں سے اڑانے سے متعلق ہے جس کا بظاہر ہدف جنرل پرویز مشرف کا قافلہ تھا۔ اس واقعے کی مذمت ہم نے بروقت کی اور تمام دینی اور سیاسی قوتوں نے اسے ایک مجرمانہ اور ناقابلِ معافی فعل قرار دیا ہے۔ ہم تشدد کی سیاست کے ہمیشہ سے مخالف ہیں اور اسے صحت مند معاشرے کے لیے ایک عظیم خطرہ سمجھتے ہیں۔ یہ ہم آج نہیں کہہ رہے بلکہ تحریکِ اسلامی کا پہلے دن سے یہ موقف ہے کہ تبدیلی کا صحیح طریقہ دعوتی‘ جمہوری اور دستوری طریقہ ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان نے اپنے دستور میں بڑے واشگاف الفاظ میں یہ کہا ہے‘ہمیشہ اس پر عمل کیا ہے اور سب کو اس کی دعوت دی ہے:
جماعت اپنے پیش نظر اصلاح اور انقلاب کے لیے جمہوری اور آئینی طریقوں سے کام کرے گی‘ یعنی تبلیغ و تلقین اور اشاعتِ افکار کے ذریعے سے ذہنوں اور سیرتوں کی اصلاح کی جائے اور راے عامہ کو ان تعمیرات کے لیے ہموار کیا جائے جو جماعت کے پیشِ نظر ہیں۔ جماعت اپنے نصب العین کے حصول کی جدوجہد خفیہ تحریکوں کے طرز پر نہیں کرے گی بلکہ کھلم کھلا اور علانیہ کرے گی۔(دفعہ ۵)
اس سلسلے میں اسلامی تحریک کے کارکنوں کو میری آخری نصیحت یہ ہے کہ انھیں خفیہ تحریکیں چلانے اور اسلحے کے ذریعے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ کرنی چاہیے۔ یہ بھی دراصل بے صبری اور جلدبازی ہی کی ایک صورت ہے اور نتائج کے اعتبار سے دوسری صورتوں کی بہ نسبت زیادہ خراب ہے۔ ایک صحیح انقلاب ہمیشہ عوامی تحریک ہی کے ذریعے برپا ہوتا ہے۔ کھلے بندوں عام دعوت پھیلایئے‘ بڑے پیمانے پر اذہان اور افکار کی اصلاح کیجیے۔ لوگوں کے خیالات بدلیے‘ اخلاق کے ہتھیاروں سے دلوں کو مسخر کیجیے اور اس کوشش میں جو خطرات اور مصائب پیش آئیں ان کا مردانہ وار مقابلہ کیجیے۔ اس طرح بتدریج جو انقلاب برپا ہوگا‘ وہ ایسا پایدار اور مستحکم ہوگا جسے مخالف طاقتوں کے ہوائی طوفان محو نہ کرسکیں گے۔ جلدبازی سے کام لے کر مصنوعی طریقوں سے اگر کوئی انقلاب رونما ہو بھی جائے تو جس راستے سے وہ آئے گا اسی راستے سے وہ مٹایا بھی جا سکے گا۔ (’’دنیاے اسلام میں اسلامی تحریکات کے لیے طریق کار‘‘، تفہیمات‘ جلد سوم‘ ص ۳۶۲-۳۶۳)
مولانا مودودیؒ نے جنرل محمد ایوب کو بھی متنبہ کیا تھا کہ انھوں نے فوجی انقلاب کا راستہ اختیار کر کے قوم کو بہت غلط راستے پر ڈالا ہے۔ اسی طرح عالمِ اسلامی میں فوج کے سیاسی کردار پر انتباہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھاکہ ’’یاد رکھیے جو تبدیلی بندوق کی نالی سے آتی ہے وہ بندوق کی نالی ہی سے تبدیلی کا خطرہ مول لیتی ہے‘‘۔ اس اصولی پوزیشن کی روشنی میں راولپنڈی کے واقعے کو گہرائی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس سے جو باتیں سامنے آتی ہیں ان میں سے چند پر ٹھنڈے غوروفکر کی ضرورت ہے۔ یہ غوروفکر قوم کے تمام عناصر کے لیے بشمول اس ملک کی فوجی قیادت ضروری ہے ۔
پہلی بات یہ ہے کہ کسی بھی ملک یا قوم میں اصل استحکام اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب اس میں اولاً مکمل طور پر دستور اور قانون کی حکمرانی ہو‘ اور ثانیاً افراد کے مقابلے میں اداروں کے استحکام کی فکر کی جائے۔ حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے وقت جو بات سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہی تھی وہ تاریخ کا روشن ترین سبق ہے۔ اُمت غم و اندوہ میں نڈھال تھی اور حضرت عمرؓ جیسے جلیل القدر صحابی تک نے یہ کہہ دیا تھا کہ جو کہے گا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں‘ اس کا سر قلم کر دوں گا‘ لیکن دین حق اور مزاجِ نبوت کے شناسا حضرت ابوبکرؓ نے قرآن کی آیات تلاوت کر کے یاد دلایا کہ کوئی انسان ہمیشہ نہیں رہ سکتا۔ حی و قیوم صرف اللہ کی ذات ہے اور جس نے اللہ کے دین کو تھاما وہ استحکام کی راہ پر گامزن ہوا۔ یہی بات خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بیان فرمائی ہے کہ علیکم بسنتی وسنۃ خلفاء الراشدین ‘یعنی مسلمانوں کے لیے صحیح راستہ اللہ کے رسول اور اس کے راشد خلفا کی سنت کی پیروی ہے ۔ گویا اللہ کا رسول اللہ کو پیارا ہوا لیکن اس کی سنت اور اس کے راستے پر چلنے والوں کی سنت ابدی ہے اور استحکام اور تسلسل کی ضامن ۔
لہٰذا استحکام قانون کی حکمرانی اور اداروں کے دوام سے حاصل ہوتا ہے۔ یہی وہ خیر ہے جسے دنیانے بھی تجربات سے سیکھا ہے۔ قومی معاملات میں استحکام اداروں کے مستحکم ہونے سے آتا ہے اور جہاں کسی نظام کا انحصار محض افراد پر ہو وہ بہت ہی بودا اور کمزور ہے۔ فرانس کے اس وزیراعظم کا مشہور واقعہ ہے جس کی قیادت میں فرانس نے جنگ عظیم اول میں کامیابی حاصل کی تھی کہ کوئی انسان ناگزیر نہیں۔ جب کسی نے کہا: جناب وزیراعظم! آپ فرانس کے اقبال کے لیے ناگزیر ہیں‘ تو اس نے یہ تاریخی جملہ کہا کہ ’’قبرستان ناگزیر انسانوں سے بھرا پڑا ہے‘‘۔ اور جب دوسری جنگ کے دوران ونسٹن چرچل سے پوچھا گیا کہ فتح کے بارے میں تمھارے اعتماد کی بنیاد کیا ہے تو اس نے کہا کہ اگر انگلستان کی عدالتیں انصاف کر رہی ہیں تو انگلستان کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔
ہمارا اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ ہم نے اداروں کے استحکام کو نظرانداز کیا ہے اور ہر مدعی نے یہی ڈھونگ رچایا ہے کہ ملک کی سالمیت اور ترقی کا انحصار میری ذات پر ہے‘ میں ہی عقل کل اور ہر دستور اور قانون سے بالا ہوں۔ ملک غلام محمد نے بھی یہی کھیل کھیلا اور دستور ساز اسمبلی اور قانون کی حکمرانی کا تیا پانچہ کرڈالا۔ جنرل ایوب خان نے بھی یہی کیا اور جب ان پر دل کا دورہ پڑا تو ٹی وی پر آکر چل پھر کر انھیں دکھانا پڑا کہ وہ زندہ ہیں۔ ایوب کا اپنا بنایا ہوا دستور ان کی زندگی میں ہی ان کا ساتھ نہ دے سکا اور خود انھوں نے قومی اسمبلی کے اسپیکر کی جگہ مسلح افواج کے کمانڈر ان چیف جنرل یحییٰ خاں (مارچ ۱۹۶۹ئ) کو اقتدار سونپ دیا۔ ایوب ہوں یا یحییٰ‘ ذوالفقارعلی بھٹو ہوں یا نواز شریف‘ جنرل ضیا الحق ہوں یا جنرل پرویز مشرف‘ سب اس مغالطے کا شکار اور اداروں کی کمزوری‘ تباہی اور عدمِ استحکام کے مجرم ہیں۔ اس واقعے کا اصل سبق یہ ہے کہ دستور‘ قانون اور اداروں کی فکر کی جائے اور انھیں مستحکم کیا جائے۔
دوسری بات سوچنے کی یہ ہے کہ کسی سطح پر بھی سیاست میں قوت اور گولی کے استعمال کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا۔ جس طرح سے یہ چیز افراد اور گروہوں کے لیے غلط ہے اسی طرح یہ ان لوگوں کے لیے بھی غلط ہے جن کو قوم اور ملک کی حفاظت اور اس کے دفاع کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ ہمیں بحیثیت قوم اور قوم کے تمام عناصر کو بشمول فوج اور پولیس اس پر غور کرنا چاہیے کہ ہر ایک اپنے اپنے دستوری دائرے میں رہ کر اپنا کردار ادا کرے۔ ’’قانونِ ضرورت‘‘ کے نام پر جس سیاسی دہشت گردی اور فوجی مداخلت کا دروازہ ہماری عدالتوں نے کھول دیا ہے‘ اب اسے ہمیشہ کے لیے بند ہوجانا چاہیے۔ سطحی انداز میں ایک دہشت گردی کی مذمت اور آئینی دہشت گردی کے دوسرے تمام اسالیب سے اغماض حالات کو سدھارنے کا راستہ نہیں۔ ہم پوری دیانت اور دردمندی سے دہشت گردی کے ہر راستے کو بند کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ اس پر قوم کا اجماع ہو۔ سب کے لیے ضروری ہے کہ خلوصِ دل سے اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں اور ان حدود کی پاسداری کا عہد کریں جو اداروں کے استحکام‘ دستوری نظام کی پرورش اور ترقی‘ قانون کی بالادستی اور حقوق کی مکمل پاسداری کی راہ ہموار کرسکے۔
اس افسوس ناک واقعے پر جنرل صاحب کے ممدوح ملک امریکہ کے ایک روزنامے واشنگٹن ٹائمز نے جو اداریہ لکھا ہے‘ اس کے کچھ حصے اس لائق ہیں کہ جنرل صاحب خود اور ان کے وہ ساتھی جو ہر روز جنرل صاحب کے ہاتھ مضبوط کرنے کے راگ الاپتے ہیں (اور درحقیقت وہ اداروں کو کمزور کرنے کی پالیسی پر عامل ہیں) ذرا غور سے پڑھیں:
قاتلانہ حملے کے واقعات عجیب اور حیرت انگیز ہیں۔ جس نے بھی بم نصب کیے اس نے بڑے حیرت انگیز طور پر کیا ہوگا اس لیے کہ ۸۰۰ سے ۱۰۰۰ پونڈ تک کے بم خفیہ طور پر اتارے اور نصب نہیں کیے جاسکتے۔ خاص طور پر اس لیے کہ یہ بم فوج کی دسویں کور کے ہیڈکوارٹر سے آدھے میل کے فاصلے پر اور ملک کے محفوظ ترین علاقے میں واقع پُل پر نصب کیے گئے تھے۔ امکانات یہ ہوسکتے ہیں کہ مشرف کے اندرونی حلقے میں سے کوئی اس کے خلاف سازش کر رہا ہے‘ یا اس کو ڈرامائی انداز سے تنبیہہ کر رہا ہے۔ غیر یقینی تفصیلات سے قطع نظر‘ قاتلانہ حملہ اس ضرورت کو واضح کرتاہے کہ پاکستان کو اپنے موجودہ صدر کے بغیر‘مستقبل کے لیے جمہوریت کو اندرونی طور پر مضبوط کرنے کی تیاری کرنا چاہیے۔ پاکستان میں کیا ہوتا اگر اس بم نے مشرف کو قتل کر دیا ہوتا؟ اس کے بارے میں اندازے لگائے جاسکتے ہیں۔ مگر اب اس پر سوچنا چاہیے۔ صدارتی قتل کے نتیجے میں سینیٹ کے چیئرمین محمد میاں سومرو اور وائس چیف آف آرمی اسٹاف جنرل یوسف اقتدار سنبھالیں گے۔ دونوں سیاسی طور پرکمزور شخصیات ہیں اور ان کی قیادت عدمِ استحکام اور غیریقینی صورت حال ---ایک فوجی انقلاب تک لے جائے گی۔ (اداریہ واشنگٹن ٹائمز‘ مشرف پر حملہ‘ ۱۸ دسمبر ۲۰۰۳ئ)
بہت سے غیرملکی سرمایہ کاروں اور مغربی سفارت کاروں کو اندیشہ ہے کہ اگر جنرل مشرف جانشینی کے کسی واضح نظام کے بغیر مر گئے تو پاکستان عدمِ استحکام اور انتشار کا شکار ہوجائے گا۔ انھوں نے اس سے اتفاق کیا کہ نظام اور اداروں کو ابھی قائم ہونا ہے۔ جب اصرار کیا گیا کہ جانشینی کا نظام کیسے چلے گا؟ تو جنرل مشرف نے غیریقینی کا اظہار کیا: ’’میں نہیں سمجھتا کہ یہ کسی دوسرے جنرل کا مسئلہ ہے۔ میرے خیال سے یہ نظام کی بات ہے۔ ارے! میں نے تو اس پر درحقیقت سوچا ہی نہیں‘‘۔ پوچھا گیا کہ اتوار کے واقعے میں بال بال بچ جانے کے بعد‘ اس ممکنہ واقعے کے بارے میں اب سوچنا چاہیے تو انھوں نے اتفاق کیا: ’’ہاں‘ یہ کرنا چاہیے‘‘۔(رائٹر‘ ڈان‘ ۱۹ دسمبر ۲۰۰۳ئ)
ہم جنرل صاحب کے قافلے پر حملے کی ایک بار پھر مذمت کرتے ہیں اور اس رجحان کو قوم اور ملک کے لیے تباہ کن سمجھتے ہیں۔ لیکن ہم اُتنا ہی ضروری اس امر کا اظہاربھی سمجھتے ہیں کہ ملک کی سب سے بڑی ضرورت اداروں کا استحکام‘ دستور کا احترام‘ قانون کی بالادستی اور انصاف پر مبنی امن اور احترامِ باہمی ہے۔ اس سے ہٹ کر جو بھی راستہ اختیار کیا جائے گا وہ تباہی کا راستہ ہے اور اس سے ملک اور قوم کو بچانا اس کے تمام بہی خواہوں کا فرض ہے۔ واشنگٹن ٹائمز اور خود رائٹر کے نمایندوں نے جو سوال اٹھائے ہیں اور جنرل صاحب نے جو جواب دیے ہیں‘ کیا یہی وہ مستحکم جمہوریت (sustainable democracy) ہے جس کے عطا کرنے کا دعویٰ جنرل صاحب نے کیا ہے؟
اس مہینے کا تیسرا اہم واقعہ کشمیر پر جنرل پرویز مشرف کا افسوس ناک ہی نہیں شرم ناک یوٹرن (U-turn) ہے۔ ۱۸دسمبر کو رائٹر کو دیے جانے والے انٹرویو ہی میں انھوں نے ۵۶سالہ قومی پالیسی کو دریابرد کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کی قراردوں کو ایک طرف رکھ کر استصواب کے متبادل سرابوں کی بات کی ہے اور اسے ’’لچک‘‘ اور ’’میانہ روی‘‘سے تعبیرکیا ہے‘ اور اس خطرے کا بھی اظہار کر دیا ہے کہ اگر بھارت ان کی اس half-way پسپائی کا خیرمقدم نہیں کرتا تو پاکستان میں انتہا پسندوں کو اُبھرنے کا موقع مل جائے گا۔
ہم اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے حق میں ہیں لیکن اب ہم نے ان کو ایک طرف رکھ دیا ہے۔ ہرچیز‘ خود عسکریت پسندی میں کمی بنیادی طور پر مکالمے کے عمل کی طرف آگے بڑھ رہی ہے۔ اگر یہ سیاسی مکالمہ واقع نہیں ہوتا‘ تو کون جیتے گا اور کون ہارے گا؟ یہ اعتدال پسند ہیں جو ہاریں گے اور انتہاپسند ہیں جو جیتیں گے اور ٹھیک یہی دراصل واقع ہو رہا ہے۔
جنرل صاحب نے اتنے کھل کر یہ بات پہلی بار کہی ہے لیکن صاف نظر آ رہا تھا کہ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعے اور اس کے بعد امریکہ کی گرفت میں جکڑے جانے کے بعد وہ آہستہ آہستہ اس مقام کی طرف پسپائی اختیار کر رہے ہیں۔ انھوں نے لچک کی بات بار بار کی۔ پھر وہ چار نکاتی فارمولے کا راگ الاپتے رہے جس میں سیاست خارجہ کا ایک مضحکہ خیز اصول انھوں نے وضع کیا کہ ہر وہ حل ترک کر دیا جائے جو کسی بھی فریق کے لیے قابلِ قبول نہ ہو۔ اس کا نتیجہ بندگلی کے سوا کیا ہو سکتا ہے؟ پھر انھوں نے جنگِ آزادی اور حق خوداختیاری کے لیے جدوجہد اور دہشت گردی کے فرق کو عملاً نظرانداز کرنا شروع کر دیا‘ حتیٰ کہ بھارت کی نام نہاد سرحد پار دہشت گردی کے الفاظ تک کی بازگشت خود ان کے بیانوں میں سنائی دینے لگی۔ پھر اعتماد قائم کرنے والے اقدامات (CBMs)کے گن گائے جانے لگے۔
اس کے بعد وہ قلابازی لگائی گئی جو بھارت کی ۵۶سالہ سرحدی خلاف ورزیوں کا خود بھارت کے لیے ایک انعام تھی‘ یعنی خلاف ورزیوں کا نشانہ بننے والوں کی طرف سے سیزفائر اور اسے سیاچن تک پھیلا دینا! اس کے بعد ایک ہی اور بم ہو سکتا تھا اور وہ جنرل صاحب نے خود ہی ۱۸دسمبر کو ۱۹۷۱ء کے ۱۶دسمبر کا ماتم کرنے والی قوم پر داغ دیا۔ بھارت برابر اعلان کررہا تھا کہ اقوامِ متحدہ کی قرردادیں بے کار اور غیرمتعلق ہوچکی ہیں۔ اس بارے میں جنرل صاحب نے یہ کہہ کر کہ ہم اقوامِ متحدہ کی قراردادوں سے رضاکارانہ طور پر دستبردار ہوتے ہیں ایسے صدمے سے دوچار کیا ہے قوم سکتے کے عالم میں ہے۔ جمالی صاحب کہہ رہے ہیں کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں ہی کشمیر کے مسئلے کا حل ہوسکتی ہیں۔ وزیرخارجہ معذرتیں کر رہیں کہ جنرل صاحب کا مفہوم یہ نہیں‘ وزیراطلاعات اپنے ردے چڑھانے کی مشق فرما رہے ہیں۔ وزارتِ خارجہ کا ترجمان سرکھجلا رہا ہے‘ مگر جنرل صاحب نے وہ اعلان کر ڈالا جس سے بھارت کی قیادت کی باچھیں کھل گئیں اور ان کے ایوانوں میں گھی کے چراغ جلائے گئے اور امریکہ اُچھل پڑا کہ بالآخر پاکستان نے ریفرنڈم سے دستبرداری کا اعلان کر دیا۔
بات بہت واضح ہے اور وزیرخارجہ‘ وزیراطلاعات اور دفترخارجہ کی یاوہ گوئیاں اس پر پردہ نہیں ڈال سکیں۔ امریکہ اور بھارت نے اپنا مقصد بظاہر حاصل کرلیا ہے۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان رچرڈ بوشر (Richard Boucher) کے الفاظ قابلِ غور ہیں:
امریکہ صدر مشرف کی تجویز کا خیرمقدم کرتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کشمیر کی حیثیت متعین کرنے کے لیے ریفرنڈم کے مطالبے کو ترک کرنا ایک تعمیری قدم ہے۔
اگر کشمیر کے بارے میں پاکستان کے موقف میں تبدیلی آگئی ہے یا اس میں کوئی اصلاح اور ترمیم کی گئی ہے تو بھارت اس کا خیرمقدم کرے گا۔ سخت گیر موقف پاکستان نے اختیار کر رکھا تھا اور وہ مذاکرات میں کشمیر کو مرکزی حیثیت دینے پر اصرار کرتا تھا ‘ جب کہ ہم نے ہمیشہ لچک کا مظاہرہ کیا۔
پاکستان کشمیر میں عسکریت پسندی کی حمایت ترک کر دے کیونکہ کشمیر میں انسانی حقوق کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہو رہی۔ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے جس سے ہم کسی صورت دستبردار نہیں ہوسکتے۔
میرا خیال ہے کہ استصواب یا ریفرنڈم ہی کشمیری عوام کی مرضی معلوم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ میں نہیں سمجھتی کہ اس کا کوئی اور راستہ بھی ہے۔
لیکن اپنے ہی جرنیل صاحب نے جو کارگل کے ہیرو بھی سمجھے جاتے ہیں‘ استصواب رائے سے دستبرداری کا اعلان کر دیا اور اسے لچک‘ آدھا رستہ طے کرنا اور اعتدال کا رویہ قرار دیا ع اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے --- گویا اب ہر پسپائی بہادری اور جرأت مندی ہے۔ اصولوں سے ہر انحراف کا نام اعتدال اور ماڈریشن ہے‘ حق پر اصرار انتہاپسندی ہے اور آزادی اور خودمختاری کی بات تشدد اور دہشت گردی کے مترادف ہیع
جنرل صاحب کا یہ اعلان درحقیقت اس بگاڑ کا ایک مظہر ہے جو شخصِ واحد کی حکمرانی اور ایل ایف او کے نام پر انھیں مختارِ کل بنا دینے کا نتیجہ ہے۔ جب ایک شخص پورے نظام کا کرتا دھرتا بن جائے اور ہر جواب دہی اور احتساب سے بالا ہو‘ نہ اسے کابینہ کی ضرورت کا احساس ہو‘ اور نہ اس کی رائے کا خیال ہو اور نہ پارلیمنٹ کی ہم نوائی اور تائید اس کے لیے کوئی اہمیت رکھتی ہو‘ اور نہ قوم کے احساسات‘ جذبات اور عزائم کی اس کی نگاہ میں کوئی وقعت ہو تو پھر قومیں ایسے ہی انحرافات اور حادثات سے دوچار ہوتی ہیں۔ مشرقی پاکستان ہم نے اس کے نتیجے میں کھو دیا۔ فلسطین کے معاملے میں یاسرعرفات نے یہی کیا۔ عراق میں صدام یہی کھیل کھیلتا رہا اور بالکل اسی طرح اب کرنل قذافی نے بھی ہر احتساب سے بالاہو کر اپنی دفاعی صلاحیت کو خود ہی دریابرد کر دیا ہے اور کوئی نہیں جو تباہی کے اِنھی ہتھیاروں کے بارے میں اسرائیل کا نام بھی لے! آمریت اور فردِ واحد کی حکمرانی کا یہی نتیجہ ہوتا ہے۔ دراصل یہ اس نظام کا بگاڑ ہے جس میں قوم‘ پارلیمنٹ‘ کابینہ‘ سب غیرمتعلق ہو کر رہ جاتے ہیں۔
ہمارا سب سے پہلا اعتراض یہی ہے کہ جنرل صاحب کو اس اعلان کا حق اور اختیار کس نے دیا؟ انھوں نے دستور‘ قانون‘ روایات‘ قومی احساسات و عزائم‘ ہر چیزکی دھجیاں بکھیر دی ہیں اور قوم کی قسمت سے کھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی صدارت آج تک آئینی و اخلاقی جواز سے محروم ہے۔ چیف آف اسٹاف بھی وہ محض خود اپنے دعوے اور خود اپنی مدت ملازمت کو توسیع دینے سے بنے ہوئے ہیں جس کا کوئی قانونی اور دستوری جواز نہیں۔ خارجہ پالیسی ہو یا داخلی معاملات‘ دستور کے تحت صدر وزیراعظم کی ہدایت (ایڈوائس) کا پابند ہے‘ بجز ان معاملات کے جہاں دستور نے اس کو اختیار (discretion) دیا ہو۔ لیکن جنرل صاحب خود کو کسی دستور‘ قانون اور ضابطے کے پابند نہیں اور یہ دستوری نظام سے ایسا انحراف ہے جس کی کسی کو اجازت نہیں دی جاسکتی۔
دوسری بات یہ ہے کہ کشمیر کا معاملہ پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اسے قائداعظم نے شہ رگ قرار دیا تھا اور اسے قیامِ پاکستان کے نامکمل ایجنڈے کی حیثیت حاصل ہے۔ کشمیر کا تنازع محض پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی سرحدی تنازع نہیں ہے جیسا کہ بے نظیربھٹو نے بھارت اور چین کے سرحدی تنازعے کے مماثل قرار دے کر کیا ہے۔ یہ ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کا مسئلہ ہے جس کے بڑے حصے پر بھارت نے ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے اور اس قبضے کو پاکستان ہی نہیں‘ اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی قانون کے تحت ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ جموں و کشمیر کے عوام نے اس غاصبانہ قبضے کو قبول نہیں کیا اور اس کے خلاف سرگرمِ جہاد ہیں اور بیش بہا قربانیاں دے رہے ہیں۔ پاکستان کی سلامتی اور معاشی وجود ریاست جموں و کشمیرکے مستقبل سے وابستہ ہے۔ پاکستان کے دستور میں دفعہ ۲۵۷ موجود ہے جو کشمیر کے مستقبل کو استصواب رائے سے وابستہ کرتی ہے۔ یہ ہمارا قومی موقف ہے اس میں تبدیلی کا کسی کو اختیار نہیں۔
یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر ہمارا اور کشمیری عوام کا موقف جس قانونی‘ سیاسی اوراخلاقی بنیاد پراستوار ہے وہ اقوام متحدہ کی قراردادیں ہی ہیں۔ بھارت نے یہ دعویٰ کیا کہ ڈوگرہ مہاراجا نے بھارت سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کر دیے ہیں (جس کا کوئی ثبوت نہیں)۔ پھر ایک نام نہاد دستور ساز اسمبلی نے اس الحاق کی توثیق کر دی اور اس طرح وہ بھارت کا اٹوٹ انگ بن گیا۔ اقوامِ متحدہ نے بھارت کے اس دعوے کو غلط قرار دیا اور بالآخر خود بھارت نے تسلیم کیا کہ ریاست کے مستقبل کا فیصلہ ہونا باقی ہے جو وہاں کے عوام کی مرضی کو استصواب کے ذریعے معلوم کر کے کیا جائے گا۔
وقت کے گزرنے سے اس مسئلے کے قانونی‘ سیاسی اور اخلاقی کسی بھی پہلو پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یورپی استعمار کئی صدیوں تک درجنوں ممالک پر قابض رہے مگر اس سے ان کے آزادی کا حق متاثر نہیں ہوا۔ میکائوکا چینی علاقہ ۵۰۰ سال استعمار کے قبضے میں رہا لیکن اس پر چین کا حق ثابت رہا اور بالآخروہ چین کو حاصل ہوگیا۔ ہانگ کانگ ۱۰۰سال برطانیہ کے قبضے میں رہا لیکن پھر چین کی طرف لوٹا۔ مرورزمانہ کا ان معاملات پر کبھی اثر نہیں پڑتا لیکن ظلم ہے کہ جس طرح برطانوی سامراج نے کشمیری عوام کو نظرانداز کرکے ڈوگروں کے ہاتھوں انھیں فروخت کر دیا تھا اسی طرح ہم اقوامِ متحدہ کی قراردادوں سے دستبردار ہوکر خود اپنے اور کشمیری عوام کے قانونی موقف پر خاک ڈال رہے ہیں۔ اگر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ہٹا دیا جائے تو پھر ڈوگرہ مہاراجا کی دستاویز الحاق کے سوا کیا چیز باقی رہ جاتی ہے؟
۱- جموں و کشمیر کی ریاست کے مستقبل کا مسئلہ متنازع اور غیرتصفیہ شدہ ہے اور اس امر کو ابھی طے ہونا ہے کہ ریاست کے مستقبل کی حیثیت (status) کیا ہوگی؟
۲- ریاست کے مستقبل کا فیصلہ ریاست کے عوام اپنی آزاد مرضی سے کریں گے۔
۳- یہ فیصلہ بین الاقوامی انتظام میں آزاد استصواب رائے کے ذریعے ہوگا جس میں بھارت یا پاکستان کسی کی مداخلت نہ ہو‘ اور وہاں کے عوام شفاف طریقے سے اپنا مستقبل طے کر لیں۔
یہ کوئی سرحدی تنازع نہیں اور نہ کوئی فرقہ وارانہ مسئلہ ہے جیسا کہ بھارت دعویٰ کرتا ہے۔ اب ذرا غور کیجیے کہ جن قراردادوں کو ایک طرف رکھ دینے کی بات جنرل صاحب نے کی ہے وہ کیا اصول طے کر رہی ہیں اور ان کو ایک طرف رکھنے سے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔
سب سے اہم مرکزی قرارداد ۵ جنوری ۱۹۴۹ء کی ہے۔ UNCIP کی یہ قرارداد اہم قانونی بنیاد ہے جس میں یہ اصول طے کیا گیا ہے کہ:
ریاست جموں و کشمیر کے بھارت یا پاکستان سے الحاق کا مسئلہ ایک آزادانہ اور غیرجانبدار استصواب کے جمہوری ذریعے سے طے کیا جائے گا۔
حکومتِ ہندستان اور حکومتِ پاکستان اپنی اس خواہش کا ازسرنو اعلان کرتے ہیں کہ جموں و کشمیر کی ریاست کے مستقبل کی حیثیت کا تعین عوام کی رائے کے مطابق کیا جائے اور اس مقصد کے لیے طے شدہ شرائط کے مطابق دونوں حکومتیں کمیشن کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کر رہی ہیں تاکہ ایسے منصفانہ اور معتدل حالات پیدا کیے جاسکیں جن میں آزادانہ اظہار یقینی ہو۔
The Security Council,
Having heard statements from representatives of the Governments of India and Pakistan concerning the dispute over the State of Jammu and Kashmir,
Reminding the Government and authorities concerned of the principle embodied in its resolutions of 21 April 1948 (S/726), 3 June 1948, March 1950 (S/1469) and 30 March 1951 (S/2017/Rev,1), and the United Nations Commission for India and Pakistan resolutions of 13 August 1948 (S/1100, Para 75) and 5 January 1949 (S/1196, Para 15),that the final disposition of the State of Jammu and Kashmir will be made in accordance with the will of the people expressed through the democratic method of a free and impartial plebiscite conducted under the auspices of the United Nations,
1. Reaffirms the affirmation in its resolution of 30 March 1951 and declares that the convening of a Constituent Assembly as recommended by the General Council of the "All Jammu and Kashimr National Conference" and any action that Assembly may have taken or might attempt to take to determine the future shape and affiliation of the entire State or any part thereof, or action by the Assemby, would not constitute a disposition of the State in accordance with the above principle;
2. Decides to continue its consideration of the dispute.
(Resolution Adopted by the Security Council, 24 January 1957 (S/3779).
واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ اور اس کے متعلقہ اداروں نے کشمیر کے مسئلے پر ۱۸ قراردادیں منظور کی ہیں اور کشمیر کا مسئلہ آج بھی اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے۔
ہم یہ بات بھی بڑے دکھ سے کہنے پر مجبور ہیں کہ جس طرح جنرل صاحب قِسم قِسم کے بیانات کی چاند ماری کر رہے ہیں اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ سیاست خارجہ کے بنیادی اصولوں اور اسالیب تک سے ناواقف ہیں۔ ایسے اعلانات کر کے وہ خود اپنی قوم کے پائوں پر کلہاڑی ما رہے ہیں۔
یہ بھی سفارت کاری کا ایک اصول ہے کہ مذاکرات شروع ہونے سے پہلے کوئی کھلاڑی اپنے بہترین پتے میز پر نہیں ڈالتا لیکن جنرل صاحب کا انداز ایک ماہر سفارت کار کا نہیں ایک اناڑی جواری کا سا ہے جس کے مقدر میں اپنی دولت لٹانے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
بھارت کی قیادت سے معاملہ کرنے کا گر کسی کو سیکھنا ہو تو قائداعظم سے سیکھے جنھوں نے کانگریس کی قیادت سے پچاس سال چومکھی لڑی اور بالآخر پاکستان حاصل کر کے رہے۔ نہرو اور بھارتی صحافت ان پر پھبتی کستے تھے کہ جناح کے پاس کیا دھرا ہے وہ ایک ٹائپ رائٹر کے سہارے اپنی لڑائی لڑ رہے ہیں لیکن قائداعظم نے قوم کو ساتھ لے کر دو دشمنوں کا مقابلہ کیا یعنی انگریز حکمران اور کانگریس قیادت۔
۱۹۰۶ء میں جداگانہ انتخاب کے مطالبہ سے لے کر ۱۹۴۶ء میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے لیے راہداری کے مطالبے تک وہ کانگریس کی قیادت سے جان دار سفارت کاری کے ذریعے اپنے مطالبات منواتے رہے‘ اور ہر کامیابی کے بعد نئے مطالبات پر بات چیت کے لیے اسے مجبور کرتے رہے‘ جب کہ ہماری قیادت کایہ حال ہے کہ نیوکلیر پاور ہوتے ہوئے بھی صرف رعایتیں دے رہے ہیں‘ بھارتی مطالبات مان رہے ہیں‘ مسلسل پسپائی اختیار کررہے ہیں اور پھر بھی ابھی تک ان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی بھیک ہی مانگ رہے ہیں۔ سفارت کاری کا یہ اسلوب ذہنی شکست اور سیاسی اور مادی کمزوری کا مظہر ہے۔ جنرل صاحب نے یہ راستہ اختیار کرکے پوری قوم کا منہ کالا کیا ہے اور ہمارے قومی مفاد پر ضرب کاری لگائی ہے۔ امریکہ کے آگے تو انھوں نے گھٹنے ٹیکے ہی تھے اور اب بھارت کے آگے بھی ہتھیار ڈالتے نظر آرہے ہیں۔ کیا قوم نے اس ملک کی فوج کو اپنا پیٹ کاٹ کر اسی ذلّت کے لیے منظم اور مضبوط کیا تھا؟
ہم صاف کہنا چاہتے ہیں جنرل صاحب نے جو کچھ کہا ہے ‘وہ ان کی ذاتی پسپائی تو ہو سکتی ہے پاکستان کی قوم کی پالیسی اور موقف نہیں ہو سکتا اور جموں و کشمیر کے غیور مسلمان بھی اس سے برأت کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ اپنی آزادی‘ ایمان اور تہذیبی شناخت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور پاکستانی قوم ان کے ساتھ ہے۔ وہ سیاسی جدوجہد سے اپنا حق حاصل کرنے کے لیے لڑرہے ہیں اور ان شاء اللہ ایک دن اسے حاصل کر کے رہیں گے۔ بھارت کی سات لاکھ فوج ان کے عزم و ایمان اور جذبۂ جہاد کو مضمحل نہ کرسکی۔ موجودہ پاکستانی قیادت کی بے وفائی بھی ان شاء اللہ ان کی ہمتوں کو پست نہیں کر سکتی اور ان کو یقین ہے کہ پاکستانی قوم ان کے ساتھ ہے اور سب سے بڑھ کر وہ جن کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت ان کا اصل سہارا ہے۔ پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ کشمیر پالیسی کا ایک بار پھر صاف الفاظ میں اعلان کرے اور جنرل صاحب کا احتساب کرے تاکہ وہ یا کوئی اور طالع آزما قوم کے اصولی موقف سے ہٹ کر کوئی بات نہ کہہ سکے۔
کشمیر کا مسئلہ پوری قوم کا مسئلہ ہے اور بھارت ہی نہیں پوری دنیا کو اس حقیقت کو سمجھ لینا چاہیے کہ امن وہی دیرپا ہو سکتا ہے جو انصاف پر قائم ہو۔ ظلم اور مجبوری کی خاموشی یا محکومی ہمیشہ عارضی ہوتی ہے اور حق بالآخر غالب ہوکر رہتا ہے۔ پاکستانی قوم اور جموں و کشمیر کے مسلمان ان ۸۰ ہزار شہیدوں کے خون سے کبھی غداری اور بے وفائی نہیں کریں گے جنھوں نے حق اور اصول کی خاطر اپنی جانیں دی ہیں۔ سیاسی جدوجہد ہو یا فوجی مقابلے--- ان میں نشیب و فراز توآسکتے ہیں اور آتے رہتے ہیں لیکن جو قوم اپنی آزادی اور ایمان کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگانے کا عزم کرلیتی ہے پھر اسے کوئی محکوم نہیں کر سکا۔ عزت اور آزادی وہ چیزیں ہیں جن کا سودا نہیں کیا جاتا اور حق وہ شے ہے جو اپنی ذات میں حق ہے۔ وہ اعتدال‘ سمجھوتے اور انتہاپسندی کی اصطلاحوں سے بالاتر شے ہے۔ نہ وہ کسی تراش خراش کا متحمل ہوتا ہے اور نہ اسے کسی جھوٹے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ دوسروں کی بیساکھیوں کا محتاج نہیں‘ بلکہ خود اپنی بنیادوں پر قائم ہوتا ہے اور بالآخر باطل پر غالب رہتا ہے۔ جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقًا۔
آج پاکستانی قوم کے سامنے اصل سوال یہ نہیں ہے کہ امریکہ اور بھارت کی خوشنودی حاصل کرکے کیا اور کہاں کہاں لچک دکھائے بلکہ اصل ایشو یہ ہے کہ اپنی آزادی‘ اپنا ایمان‘ اپنا دین‘ اپنی تہذیب‘ اپنی معیشت اور اپنی عزت کی حفاظت کے لیے کس طرح سینہ سپر ہوجائے تاکہ باہرسے دبائو ڈالنے والوں اور اندر سے دبنے والوں دونوں کا مقابلہ کر کے اپنا اصل مقام حاصل کرے۔ استقامت اور حکمت ہی ہمارا اصل زادِ راہ ہیں اور سب سے بڑھ کر اللہ پر بھروسا اور اس سے مدد اور نصرت کی طلب!
جوئے خوں سر سے گزر ہی کیوں نہ جائے
آستانِ یار سے اٹھ جائیں کیا؟
۱- اگرچہ دستور کو معرض التوا میں ڈال دیا گیا ہے لیکن دراصل ملک کا نظام ۱۹۷۳ء کے دستور کے مطابق ہی چلنا چاہیے اور موجودہ فوجی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ نظامِ حکومت کو چلانے کے سلسلے میں دستور سے صرف ناگزیر حد تک انحراف کرے اور عملاً تمام معاملات کو دستور کے مطابق یا اس سے قریب ترین انداز میں طے کرے۔ نیز شخصی آزادی‘ بنیادی حقوق اور عدالتوں کی بالادستی پر کوئی آنچ نہ آنے دے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ حکومت کے تمام اقدام و احکام عدالتی محاسبے (judicial review)کی گرفت میں ہوں گے۔
۲- دستور کے تحت کام کرتے ہوئے اگر کہیں کوئی حقیقی مشکل پیش آئے تو اس مشکل کو رفع کرنے کی حد تک چیف ایگزیکٹو کو دستور میں ترمیم کا اختیار ہوگا‘ مگر وہ کوئی ایسی ترمیم کرنے کا مجاز نہیں ہوگا جو دستور کے بنیادی ڈھانچے کو متاثرکرے جس میں پارلیمانی نظام‘ فیڈرل نظامِ حکمرانی‘ عدلیہ کی آزادی‘ بنیادی حقوق کا تحفظ اور ریاست کا اسلامی کیریکٹر شامل ہیں۔
۳- ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء سے تین سال کے اندر اندر نئے انتخابات کے انعقاد کے ذریعے فوج اپنی بارکوں میں واپس چلی جائے گی اور اقتدار عوام کے منتخب نمایندوں کو منتقل کر دیا جائے گا تاکہ سول حکومت نظامِ حکومت کی ذمہ داری سنبھالے اور دستور کے مطابق کاروبارِ سلطنت چلایا جاسکے۔
اس فیصلے کی اصل روح یہ تھی کہ اقتدار منتخب سول حکومت کو منتقل کر دیا جائے اور فوج کا اصل کام صرف دفاع وطن کی ذمہ داری ہو۔
جنرل پرویز مشرف نے اس فیصلے کو دستور میں من مانی تبدیلیوں کے جواز کے لیے تو بڑی بے دردی اور بے باکی سے استعمال کیاہے مگر فی الحقیقت اس فیصلے کو دل سے قبول نہیں کیا اور انتقالِ اقتدار(transfer of power) کے اصول کی واضح خلاف ورزی کرتے ہوئے صرف محدود اشتراکِ اقتدار (power sharing) کا ایک بندوبست وضع کرنے کے لیے استعمال کیا۔ یہ عمل فیصلے کے الفاظ اور روح دونوں کے منافی ہے۔ جنرل صاحب کی ساری کوشش یہ رہی ہے کہ اصل قوت اور اختیار حسب سابق انھی کے پاس رہے۔ سول نظام کی بحالی ایک ظاہری اور نمایشی عمل سے زیادہ نہ ہو اور قوت اورفیصلوں کا مرکز ان کی ذات اور ان کے معتمد علیہ افراد رہیں۔ اس کے لیے دستور کے ڈھانچے میں لیگل فریم ورک آرڈر (ایل ایف او) کے ذریعے ایسی تبدیلیاں کر دی گئیں کہ طاقت کی کنجی صرف ان کے ہاتھ میں ہو‘ پھر ایل ایف او کو بھی پارلیمنٹ میں لائے بغیر دستور پر مسلط کر دیا گیا۔اس نے دستوری نظام کا حلیہ ہی بگاڑدیا ہے۔ وہ اپنے لائے ہوئے ایل ایف او سے بھی بڑھ کر عملاً اس طرح پورے نظام پر چھائے ہوئے ہیں کہ قومی سلامتی‘ خارجہ پالیسی‘ معاشی پالیسی‘ انتظامی مشینری سب ان کے تابع مہمل ہے۔ دستور‘ قانون‘ روایات‘ سب کو بالاے طاق رکھ کر یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے اور صرف دھونس‘ ہوس اقتدار اور فوجی قوت کے بل بوتے پر نظام چلایا جا رہا ہے جسے ’’خاکی جمہوریت‘‘ کے سوا کسی دوسرے نام سے موسوم نہیں کیا جا سکتا۔
جنرل صاحب نے بارہا یہ کہا ہے کہ ۱۹۹۹ء سے پہلے ملک ’جعلی جمہوریت‘ (sham democracy) کے دور میں تھا اور اب میں ’حقیقی جمہوریت‘لانا چاہتا ہوں جسے کبھی انھوں نے real democracy (حقیقی جمہوریت)کہا اور کبھی substance of democracy (جوہرجمہوریت)لیکن فی الحقیقت جو کچھ انھوں نے قوم کو دیا وہ ’جعلی جمہوریت‘ کی ہی بدترین صورت ہے۔خود ان کے مجرم ضمیر نے ایک آدھ بار ان سے اس کا اس طرح اعتراف کرا لیا ہے کہ:
حقیقت یہ ہے کہ مئی ۲۰۰۲ء کے ریفرنڈم کے تماشے سے شروع ہونے اور اکتوبر ۲۰۰۲ء کے انتخابات کے ذریعے صورت پذیر ہونے والے سول نظام کو صرف فوجی حکمرانی کی ایک شکل ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوری قوتیں مجبور ہیں کہ بحالیِ جمہوریت اور دستور کی بالادستی کی جدوجہد کو اولیں اہمیت دیں۔ اس لیے کہ جمہوریت کی بحالی کا خواب اسی وقت شرمندئہ تعبیر ہو سکتا ہے جب دستور مکمل طور پر اور اپنی اصل شکل میں بحال ہو‘ پارلیمنٹ کی بالادستی قائم ہو‘ وزیراعظم اور کابینہ پارلیمنٹ کی منتخب کردہ اور اس کے سامنے جواب دہ ہو‘ عدالتیں خودمختار ہوں اور سیاست میں فوج کا عمل دخل عملاً ختم ہو‘ وہ سول نظام کے ماتحت ہوکر ان حدود کے اندر اپنی ذمہ داریاں پوری کرے جو دستور نے اس کے لیے مقرر کی ہیں۔ الیکشن اور پارلیمنٹ کے وجود میں آجانے کے ایک سال بعد بھی جمہوریت کی بحالی کی راہ میں لیگل فریم ورک آرڈر اور جنرل پرویز مشرف کی ضد اصل رکاوٹ ہیں‘ جس نے ملک کے پورے نظام کی چولیں ہلا دی ہیں۔
جب تک لیگل فریم ورک آرڈر پارلیمنٹ میں زیربحث نہیں آتا اور پارلیمنٹ اسے ضروری ترمیم کے بعد منظور نہیں کرتی‘ ملک دستوری بحران کی گرفت میں رہے گا‘ سارے دستوری ادارے غیر موثر رہیں گے اور پاکستان جمہوریت اور ترقی کی راہ پر گامزن نہ ہو سکے گا۔
اس پس منظر میں ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کی عاقبت نااندیشی‘ ظفراللہ جمالی کی مخلوط حکومت کی کمزوری اور پارلیمنٹ کی بے عملی کے نتیجے میں ملک و قوم کا ایک قیمتی سال ضائع کر دیا گیا ہے اور مورخ اسے پاکستان کی تاریخ کا ایک ضائع شدہ سال ہی شمار کرے گا۔ اکتوبر ۲۰۰۳ء کے انتخابات اورمنتخب پارلیمنٹ کے وجود میں آنے سے بس اتنا فرق پڑا ہے کہ ملک کھلی فوجی حکومت کی جگہ ایک ’خاکی جمہوریت‘ کے چنگل میں آگیا ہے اور اپنے ہوں یا غیرکوئی بھی اسے جمہوریت تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ حزب اختلاف کی جماعتیں مجبور ہوئی ہیں کہ پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کریں اور ایک سال میں تقریباً پچاس مرتبہ انھیں اسمبلی اور سینیٹ سے واک آئوٹ کرنا اور پریس کے ذریعے اپنا نقطۂ نظر قوم کے سامنے پیش کرنا پڑا ہے۔ یورپی یونین نے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ نہ صرف انتخابات خامیوں سے پُر تھے بلکہ ایل ایف او کی وجہ سے پارلیمنٹ با اختیار حیثیت سے محروم ہے۔ دولت مشترکہ نے جمہوریت کی بحالی کے عمل کو مکمل تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے اور خود جنرل صاحب کے پشت پناہ اور مداح خواں صدر بش بھی پاکستان کو اس فہرست میں شامل نہیں کرتے جو انھوں نے مسلم ممالک میں جمہوری حکومتوں کے بارے میں اپنی نومبر ۲۰۰۳ء کی بدنامِ زمانہ تقریر میں پیش کی ہے۔
بات بہت واضح ہے کسی بھی ملک میں بیک وقت جمہوریت اور فوجی قیادت کی حکمرانی (یعنی مارشل لا) ممکن نہیں۔ کاروبارِ حکومت میں فوج کو بالادستی جمہوریت اور دستوریت (constitutionalism) کی نفی ہے۔فوج کو سول نظام کے تابع ہونا ہوگا اور ملک میں دستور کی بالادستی اور پارلیمنٹ کی بالاتر اتھارٹی قائم کرنا ہوگی‘ جو جمہوریت کی روح کو بحال کرنے کی شرط ہے۔ اس پر مہر تصدیق سپریم کورٹ کے فل بنچ کے اس فیصلے نے لگا دی ہے جو اس نے نومبر ۲۰۰۳ء میں ایک سرکاری ملازم کے سیاست میں حصہ لینے کے بارے میں دیا ہے اور صاف الفاظ میں کہا ہے کہ جمہوری نظام میں دستور اور قواعد و ضوابط کے تحت کسی سرکاری ملازم کو‘ سول یا فوجی‘ سیاست میں حصہ لینے کا اختیار نہیں۔
اس وقت ملک جس کش مکش میں مبتلا ہے اس کی جڑ ’’خاکی جمہوریت‘‘ کا وہ باطل تصور ہے جو کبھی عبوری دور اور کبھی تسلسل کے نام سے ملک پر مسلط کر دیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ کے ارکان کی ایک تعداد نے ایک بار پھر وہی غلطی کی ہے جو ماضی میں سیاست دان فوجی اقتدار کے لیے دست و بازو بن کر کرتے رہے ہیں حالانکہ پارلیمنٹ کا اصل فرض اور عوام کے منتخب نمایندے ہونے کی حیثیت سے ان کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ وہ دستور کی بحالی اور سول نظامِ حکمرانی کے قیام کو اولیت دیں۔ سال رواں میں پارلیمنٹ اور خصوصیت سے حکمران الائنس کی اصل ناکامی یہ ہے کہ اس نے اکتوبر ۲۰۰۳ء کے انتخابات کے تقاضوں کو پورا کرنے میں مجرمانہ غفلت سے کام لیا ہے اور محض اقتدار کا مزہ لوٹنے کے لیے ایک ایسے مخلوط سیاسی نظام (political hybrid) کو ملک پر مسلط کر دیا ہے جو فوجی حکمرانی کی ایک قبیح شکل ہے اور جس کے نتیجے میں اوپر سے نیچے تک سارا نظامِ حکومت شترگربگی کا شکار ہے۔
مشرف جمالی حکومت کے ایک سال پر نظر ڈالی جائے تو اس کا سب سے زیادہ پریشان کن‘ بلکہ اندوہناک پہلو اداروں کی تباہی (structural deformity) ہے جس سے ملک دوچار کر دیا گیا ہے۔ اور نتیجہ ظاہر ہے کہ پورا نظام ٹھٹھرا ہوا ہے‘ کسی سمت میں کوئی پیش قدمی نہیں ہو رہی‘ پارلیمنٹ بالاتر قوتوں کی یرغمال بن گئی ہے اور جنرل مشرف سے لے کر وزیراعظم جمالی تک اس کی کارکردگی سے مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے اسمبلیوں کی برطرفی اور نظام کی بساط لپیٹ دیے جانے کے خطرات ہر وقت سروں پر منڈلا رہے ہیں۔ یہ صورتِ حال اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک پارلیمنٹ اور سول حکومت اپنی بالادستی دستوری اور عملی ہر دو پہلو سے نہیں منوا لیتی۔ حزبِ اختلاف کی جدوجہد اقتدار میں شرکت کے لیے نہیں(اقتدار تو اسے بار بار پیش کیا گیا) بلکہ یہ جدوجہد نظام کو پٹڑی پر لانے کے لیے ہے جس کے بغیر حالات کے بہتر ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ ملک میں اس وقت جو بھی مخدوش حالات ہیں وہ اسی بنیادی خرابی کا شاخسانہ ہیں۔
جنرل پرویز مشرف اور جمالی صاحب اور ان کے رفقاے کار نے ملک کو جس بحران میں مبتلا کر رکھا ہے اس کا ایک بہت ہی اہم اور تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ ملک کا نظامِ حکمرانی سندِجواز (legitimacy) سے محروم ہوگیا ہے۔ یہی واضح نہیں کہ کس دستور کے تحت نظامِ حکومت چلایا جارہا ہے۔ ۱۹۷۳ء کا دستور کتنا بحال ہوا ہے‘ ایل ایف او جسے جنرل صاحب اپنے اقتدار کا اصل ستون قرار دے رہے ہیں وہ پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر دستور کا حصہ کیسے بن گیا؟ اور اگر وہ دستور کا حصہ نہیں ہے تو پھر وہ دستور پر بالاتر دستور (supra constitution) کیسے بن سکتا ہے؟ عدلیہ کس دستور کے تحت کام کر رہی ہے؟
حزبِ اختلاف کی تمام جماعتیں اسے دستور کا حصہ تسلیم نہیں کرتیں۔ پوری وکلا برادری اس دھاندلی کے خلاف صف آرا ہے۔ اس باب میں حکومت اور حزبِ اختلاف میں کوئی قدر مشترک نہیں۔ عدلیہ اور قانون دان اور وکلاء ایک دوسرے سے نبردآزما ہیں۔ مرکز‘ صوبے اور لوکل باڈیز کا نظام سبھی دستوری تحفظ سے محروم ہیں۔ پارلیمنٹ‘ حکمران اور عدلیہ کس دستور کے پابند ہیں اور ان کے دستوری حلف کی کیا حیثیت ہے؟ عدلیہ کے ججوں کی ایک بڑی تعداد نے عبوری آئین کے تحت حلف لیا تھا اب اس کی کیا حیثیت ہے؟ اگر ملک کا سیاسی اور قانونی نظام ہی جواز سے محروم ہو اور قوت اور اختیارات کا پورا دروبست ہی مشکوک ہو تو وہ نظام کیسے چل سکتا ہے؟
یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی ملک دستوری انحراف کے دور سے دستور کی بحالی کے دور میں داخل ہوتا ہے تو دورِ انحراف کے اقدامات کو قانونی جواز (indemnity)پارلیمنٹ کے فیصلے کے ذریعے دیا جاتا ہے۔ یہی ۱۹۷۳ء کے دستور میں اس کی دفعات ۲۷۰-۲۶۹ کی شکل میں کیا گیا اور یہی جنرل ضیا الحق مرحوم کے مارشل لاکے بعد ۱۹۸۵ء میں جمہوریت کے احیا کے وقت آٹھویں ترمیم کی شکل میں کیا گیا اور دستور کی دفعہ ۲۷۱ اس کا واضح ثبوت ہے۔ لیکن جنرل پرویز مشرف اس معاہدے کے باوجود جو ایم ایم اے سے جمالی صاحب کی ٹیم (ایس ایم ظفرکمیٹی) نے کیا اس صاف اور سیدھی بات سے پہلو بچا رہے ہیں اور ملک کے پورے دستوری‘ سیاسی اور انتظامی ڈھانچے کو مخدوش بنائے ہوئے ہیں۔ اس سال کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ یہ بنیادی مسئلہ حل نہیں ہوا‘ بدستور حل طلب ہے۔ جب تک یہ حل نہیں ہوتا کسی مثبت پیش رفت کی توقع عبث ہے۔
دوسری بنیادی چیز کا تعلق تقسیمِ اختیارات (checks & balances) سے ہے جس کا جنرل صاب موقع بہ موقع ذکر کرتے رہتے ہیں۔پارلیمنٹ کے وجود میں آنے کے بعد پورے ایک سال کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ قوتِ اختیار اور فیصلوں کا مرکز جنرل صاحب کی ذات ہی ہے اور انھوں نے پورا نظام اس طرح وضع کیا ہے کہ اصل قوت انھیں حاصل رہے‘ باقی سب نمایشی ہے۔ نام نہاد ریفرنڈم کے ذریعے انھوں نے صدر بننے کا دعویٰ کیا جب کہ دستور میں ریفرنڈم کے ذریعے صدر کے انتخاب کی کوئی گنجایش نہیں۔ وہ منتخب صدر نہیں اور عملاً ملک ایک خود مسلط کردہ غیر آئینی صدر کے تحت کام کر رہا ہے۔ پھر انتخابات کو متاثر کرنے اور اس سے بھی پہلے ایک کنگز پارٹی بنانے اور اسے اکثریت دلانے کی کوشش کی گئی۔ جب وہ کوشش ناکام ہوگئی اور انتخاب میں بھی عوام کے تین چوتھائی ووٹ انھی جماعتوں کو حاصل ہوئے جو جنرل صاحب کے ساتھ نہ تھیں اور سرکاری جماعت کو سادہ اکثریت بھی میسر نہ آئی تو دھونس اور دھاندلی کے ساتھ وفاداریوں کی تبدیلی‘ ضمیر کی خریدوفروخت‘ نیب (NAB) کے بے محابا استعمال کے ذریعے زیرتفتیش ارکان اسمبلیوں کو جن میں سے کچھ پر باہر جانے پر پابندی بھی تھی‘ شامل حکومت کرکے مصنوعی اکثریت حاصل کی گئی۔ پیپلز پارٹی کو توڑ کر پیٹریاٹس کا ڈھونگ رچایا گیا اور اس میں ٹوٹنے والے دس ارکان میں سے چھے کو وزارت سے نواز دیا گیا۔ ایم کیو ایم کو بھی طہارت کا اشنان دے کر شریکِ اقتدار کر لیا گیا اور اس طرح ایک ایسی سیاسی حکومت بنائی گئی جس میں وزیراعظم کو ووٹ اسمبلی میں دیے گئے مگر ان کا انتخاب کسی اور نے کیا۔
وزیراعظم کی کابینہ کا انتخاب بھی وزیراعظم یا پارلیمنٹ نے نہیں کیا بلکہ یہ سب کام ان کے لیے کسی اور نے کیا بشمول وزارتوں کی تقسیم۔ یہی وجہ ہے کہ کابینہ تو وزیراعظم کی ہے مگر وہ خود اعتراف کرتے ہیں کہ بہت سے وزیر ان کی بات نہیں سنتے‘ اس کی سنتے ہیں جس نے ان کو وزارت سے نوازا ہے۔ وزیراعظم صاحب کو بھی کہنا پڑتا ہے کہ ان کا ’باس‘ کوئی اور ہے حالانکہ پارلیمانی نظام کی روح ہی یہ ہے کہ کابینہ وزیراعظم بناتا ہے جو اس کے اور پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ ہوتی ہے۔ صدر وزیراعظم کی ایڈوائس کا پابند ہوتا ہے لیکن یہاں معاملہ بالکل الٹا ہے۔ قومی سلامتی کے امور ہوں یا خارجہ سیاست کے‘ معاشی و مالی معاملات ہوں یا انتظامی‘ گورنروں کا تقرر ہو یا سول انتظامیہ اور پولیس افسران کا‘ بین الاقوامی معاہدات کا معاملہ ہو یا لوکل گورنمنٹ کے اختیارت اور تنازعات کا‘ سب کا مرجع و مرکزجنرل صاحب کی ذات ہے۔ وہ بیرونِ پاکستان دورے اور معاہدات اس شان سے کرتے ہیں کہ وزیرخارجہ تک ان کے ساتھ نہیں ہوتے۔ صدربش سے ملنے جاتے ہیں تو اپنے معتمد وزیرخزانہ اور دستوری امور کے مشیر شریف الدین پیرزادہ صاحب کو لے کرجاتے ہیں۔ وہ وزیراعظم اور بیرونی سفرا سے فوجی وردی میں ملتے ہیں‘ حتیٰ کہ بیرونی سفروں سے ان کے پروانہ تقرری کی وصولی کی تقریب میں بھی فوجی وردی میں شریک ہوتے ہیں۔ اس اندازِ حکمرانی کو کون جمہوری قرار دے سکتا ہے جہاں حکمرانی کا منبع فوجی صدارت ہے نہ کہ پارلیمنٹ اور اس کا منتخب کردہ وزیراعظم اور کابینہ۔
ہمیں معاف رکھا جائے اگر یہ کہیں کہ جو انتظامِ حکمرانی جنرل صاحب نے مرتب کیا ہے اور جس کے مطابق وہ عمل کر رہے ہیں اس میں وزیراعظم ایک بھاری بھرکم show piece (محض دکھاوے کی چیز) سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ جمالی صاحب پر بہادر شاہ ظفر کا شبہ ہوتا ہے جو زبانِ حال سے گویا ہے کہ
یا مجھے افسر شاہانہ بنایا ہوتا
یا مرا تاج گدایانہ بنایا ہوتا
اس نظام میں تقسیمِ اختیارات کا کوئی تصور نہیں۔ سب کے لیے صرف تحدیدات (checks) ہیں۔ اقتدار کا سارا سرمایہ صرف ایک فرد کے کھاتے میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ پورے سال سے ایک تماشائی بنی کھڑی ہے‘ قومی اور عوامی امور پر کوئی بحث‘ کوئی قانون سازی‘ کوئی پالیسی سازی اس کے دامن میں نظر نہیں آتی۔
پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے ساتھ کس طرح معاملہ کیا گیا ہے اس کا کچھ اندازہ اس سے کیجیے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس انتخابات کے ۴۰ دن کے بعد بلایا گیا تاکہ سرکاری پارٹی کے لیے اکثریت (خواہ وہ ایک ووٹ کی ہو اور وہ ووٹ بھی غالباً اس شخص کا جس کی جماعت کو خلافِ قانون قرار دیا گیا تھا اور خود بھی بصدِافسوس تشدد کا نشانہ بن گیا) وضع کرلی جائے۔ سندھ کی صوبائی اسمبلی کا اجلاس تو اسی مصلحت کی خاطر ۶۳ دن کے بعد بلایا گیا۔ قومی اسمبلی کو دستوری طور پر سال میں ۱۳۰ دن اجلاس کرنا ہوتا ہے لیکن پہلے ۹ مہینے میں صرف ۵۷ دن اجلاس ہوئے اور آخری تین مہینے میں جیسے تیسے ۸۳ دن بھگتا دیے گئے اور وہ بھی اس طرح کہ ہفتہ میں ۳ دن ایک ایک گھنٹے کا اجلاس ہوتا تھا اور ۴ دن کی چھٹی کو بھی اجلاس کے ایامِ کار میں شمار کرلیا جاتا تھا۔ سینیٹ کا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں۔ مارچ میں پہلا سیشن ہوا ہے اور اب ۸مہینے گزر گئے ہیں لیکن سینیٹ صرف ۲۸ دن کے لیے اجلاس میں رہا ہے جن میں عملاً صرف ۱۸ دن کام ہوا ہے اور ۱۸میں ۶دن حزبِ اختلاف کے طلب کرنے پر (requisition) منعقد ہونے تھے اور ایک دن حلف برداری کے لیے تھا۔ گویا حکومت کی طرف سے صرف ۱۱ دن کارروائی ہوئی ہے‘ جب کہ سینیٹ کے لیے بھی دستوری طور پر سال میں ۹۰ دن ملنا ضروری ہے۔
اسمبلی نے پورے سال میں صرف دو بل منظور کیے ہیں جن میں سے ایک فائی نانس بل تھا جسے صرف ۵ دن میں کسی بحث کے بغیر نمٹا دیا گیا جب کہ ماضی میں بجٹ پر معمولاً ۴ ہفتے بحث ہوتی تھی۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس جسے ہر سال کے شروع میں ہونا چاہیے‘ جس سے صدر خطاب کرتا ہے اور جسے پارلیمانی سال کا آغاز شمار کیا جاتا ہے آج تک نہیں ہوا۔ دستور کے مطابق پارلیمنٹ کے وجود میںآنے کے بعد قومی مالیاتی کمیشن‘ مشترکہ مفادات کی کونسل اور قومی اقتصادی کونسل کوقائم ہونا چاہیے۔ مالیاتی کمیشن ایک سال کے بعد قائم ہوا ہے اور باقی دونوں دستوری ادارے آج تک نہیں قائم کیے گئے۔ اسمبلی کی مجالس قائمہ کا تقرر (نامکمل اور مشتبہ شکل میں) بارھویں مہینے ہوا ہے اور سینیٹ میں تومجالس قائمہ آج تک قائم ہی نہیں ہوئیں حتیٰ کہ سینیٹ کی مالیاتی کمیٹی جو سارے مالی معاملات کی ذمہ دار ہوتی ہے وہ تک نہیں بنی ہے۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی جو سب سے طاقتور اور محاسبے کے لیے سب سے اہم کمیٹی ہے‘ اس نے آج تک کام شروع ہی نہیں کیا ہے۔
ارکان اسمبلی نے ۱۶۰ استحقاق کی قراردادیں داخل کرا رکھی ہیں جن کا تعلق ذاتی معاملات سے ہے۔ ماضی میں ہر سال پارلیمنٹ نے اوسطاً ۲۸ بل منظور کیے ہیں لیکن موجودہ قومی اسمبلی نے عملاً کوئی قانون سازی نہیں کی بلکہ حکومت نے تو بل پیش کرنے کی بھی زحمت نہیں فرمائی۔ اگر اسمبلی اور سینیٹ کے order of the day کا مطالعہ کیا جائے تو حکومت کے پاس سرکاری دنوں میں کوئی ایجنڈا ہی نہیںہوتا تھا۔ سینیٹ میںارکان کے نجی بلوں کی تعداد سرکاری بلوں سے کہیں زیادہ ہے‘ گو ان پر بھی کوئی بحث اور فیصلے نہیں ہوسکے۔ قومی اسمبلی میں کورم بھی ایک مسئلہ رہا ہے اور کم از کم ایک درجن مواقع پر کورم نہ ہونے کے سبب اجلاس ملتوی کرنا پڑا ہے۔ ایک جائزے کے مطابق ۱۰ ارکان ایسے ہیں جو پورے سال میں غائب رہے ہیں اور اس میں سرفہرست سرکاری پارٹی کے پارلیمانی لیڈر کا نام آتا ہے۔
ایک طرف یہ افسوس ناک کارکردگی ہے‘ جس کے بارے میں حزبِ اختلاف کے بائیکاٹ کو الزام دیا جاتا ہے حالانکہ حزبِ اختلاف کے واک آئوٹ کے بعد‘ سرکاری پارٹی کو کام کی کھلی چھٹی تھی جس کا کوئی فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ دوسری طرف ارکان پارلیمنٹ نے بیرونی دوروں پر بڑا وقت صرف کیا۔ صرف گذشتہ دو مہینے میں ۳۲ ارکان نے امریکہ کا سفر کیا جس کاڈیڑھ کروڑ روپے سے زیادہ بوجھ قومی خزانے پر پڑا۔ سب سے زیادہ قابلِ اعتراض بلکہ مجرمانہ کارروائی سال کے آخری دن ارکانِ پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات میں ۱۱۷ فی صد اضافہ ہے اور وہ بھی اس غریب ملک میں جس میں آبادی کا ۳۳ سے ۴۰ فی صد خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہا ہے‘ جہاں خودکشی اور فاقہ کشی زندگی کا معمول بن رہے ہیں اور وہ بھی ایسے ارکان پارلیمنٹ کے لیے جن کے اثاثوں کا حال ہی میں جو ریکارڈ شائع ہوا ہے‘ اس کے مطابق ان میں سے ایک چوتھائی کروڑپتی ہیں اور بقیہ ۷۰فی صد لکھ پتی۔بمشکل ۵ فی صد ایسے ہیں جو سرکاری تنخواہ پر گزارا کرنے والے ہیں۔
پارلیمنٹ کی کارکردگی کا ریکارڈنہایت مایوس کن ہے اور اس کے دو پہلو ایسے ہیں جن کا نوٹس نہ لینا مجرمانہ چشم پوشی ہوگا۔ پہلا یہ کہ اس پارلیمنٹ نے خود اپنے مقام اور اختیارات سے غفلت برت کر اور ایل ایف او کو زیربحث نہ لا کر اپنی جو تصویر قوم کے سامنے پیش کی ہے وہ بے حد ناقابلِ رشک ہے۔ اس کے ارکان‘ خصوصیت سے سرکاری الائنس سے وابستہ ارکان نے ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور اقتدار کی خاطر اصولی معاملات سے صرفِ نظر کیا۔ یہ جمہوریت کے مستقبل کے لیے نیک فال نہیں۔ دوسری قابلِ گرفت چیز پارلیمنٹ کے ارکان کی اپنی پارلیمانی ذمہ داریوں سے اغماض اور محض ذاتی استحقاق اور مالی مراعات میں دلچسپی ہے۔ اسلام میں تو سیاست ایک خدمت ہے لیکن مغربی جمہوریتوں میں بھی ارکانِ اسمبلی ملک و قوم اور اپنے حلقہ انتخاب کی خدمت کے لیے ان تھک کوشش کرتے ہیں‘ جب کہ ہمارے ملک میں پارلیمنٹ کے ارکان کی دل چسپی نہ قومی امور سے ہے اور نہ عوام کی خدمت سے بلکہ وہ مراعات میں دل چسپی رکھتے ہیں جو جمہوریت کے مستقبل کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ جنرل مشرف کی ’’خاکی جمہوریت‘‘ میں یہ خرابی دوچند ہو گئی ہے جو بہت تشویش ناک ہے۔
اس سال کے جائزے سے جو حیران کن اور تشویش ناک صورت حال سامنے آئی ہے اس میں صرف حکومت اور پارلیمنٹ کی عدم کارکردگی ہی نمایاں نہیں بلکہ صاف نظر آ رہا ہے کہ اگر حالات کو قابو میں نہ لایا گیا تو ملک میں اداروں کی تباہی (institutional breakdown) اور روایات کی پامالی اس مقام پر پہنچ سکتی ہے جس سے واپسی ممکن نہ ہو۔ جنرل صاحب نے اداروں کو مضبوط کرنے اور سیاست سے پاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا مگر ان کے چارسالہ دور کا حاصل یہ ہے کہ ہر ادارہ کمزور سے کمزور تر ہو رہا ہے اور سیاست اور سرکاری مداخلت بلکہ حکمرانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہر قانون اور ضابطے کی پامالی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عدلیہ کا وقار معرض خطر میں ہے۔ ایک طرف عدلیہ اور پارلیمنٹ میں کش مکش ہے تو دوسری طرف عدلیہ اور وکلا (Bench & Bar) دست و گریباں ہیں اور ان میں کشیدگی اتنی گمبھیر ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ حد یہ کہ پاکستان بار کونسل نے جو بار کا اعلیٰ ترین سرکاری طور پر تسلیم شدہ ادارہ ہے‘ عدلیہ کے ’’کارناموں‘‘ کے بارے میں قرطاس ابیض شائع کیا ہے جس میں عدلیہ کی جو تصویر نظر آتی ہے وہ شرم ناک ہے۔ اس سے زیادہ نظامِ عدل کی زبوں حالی کا کیا تصور کیا جا سکتا ہے؟
سیاسی پارٹیوں کو نہ صرف ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے بلکہ پارٹیوں کو تقسیم در تقسیم کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اور یہ بھی وفاداریوں کی خرید و فروخت کے ذریعے۔ اسی طرح مرکز اور صوبوں کے درمیان کش مکش ہے۔ مسئلہ پانی کا ہو‘ محصولات کی تقسیم کا ہو‘ سرکاری افسروںکے تقرر اور تبدیلی کا ہو‘ ہر معاملہ الجھا ہوا ہے اور دلوں کو پھاڑنے اور بھائی کو بھائی سے جدا کرنے کا ذریعہ بنا ہواہے۔ صوبائی اسمبلیاں اتفاق رائے سے ایسی قراردادیں بھی منظور کررہی ہیں جو مرکزی اقدامات اور اعلانات کو چیلنج کر رہی ہیں۔ اعلیٰ ترین سرکاری ادارے اتفاق رائے سے فیصلہ کرنے سے محروم ہیں۔ ضلعی نظام کو صوبائی حکومتوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ پولیس بے لگام ہو رہی ہے اور جگہ جگہ عوام اور پولیس کا تصادم روز مرہ کا معمول ہو رہا ہے۔ لاقانونیت کا عفریت بے قابو ہورہا ہے اور ایک اندازے کے مطابق صوبہ سرحد کو چھوڑ کر ملک میں جرائم میں دوسو سے تین سو فی صد اضافہ ہوا ہے اور پولیس اور حکمران عناصر کا ایک حصہ بھی ان میں ملوث ہے۔ سول ججوں کو جیل خانے میںہلاک کیا جاتا ہے اور مجرم گرفت میں نہیں آتے۔ ڈاکے‘ قتل‘ اجتماعی زیادتیاں‘ تاوان کے لیے اغوا کی بھرمار ہے اور کوئی ظالموں اور قانون کا دامن تار تار کرنے والوں کو گرفت میں لانے والا نہیں۔مسجدیں اور امام بارگاہیں خون سے آلودہ ہیں اور مجرم قانون کی گرفت سے باہر۔ یہ صورت حال بہت ہی پریشان کن ہے اور اس میں بڑا دخل اس امر کا ہے کہ دستور اور قانون کی حکمرانی نہیں۔ اگر بڑے بڑے دستور توڑنے والے احتساب سے بالا ہیں تو پھرعام لوگ قانون شکنی میں پیچھے کیوں رہیں؟ اگر ملک کا نظام سندِجواز سے محروم ہے تو پھر عام آدمی اور افسر سے جائز (legitimate)عمل کی توقع کیسے کی جائے؟
اداروں کی تباہی کا ایک نہایت خطرناک پہلو یہ ہے کہ اب فوج اور سول سوسائٹی میں کش مکش اور تصادم کی ایسی مثالیں سامنے آ رہی ہیں جو ملک کے مستقبل کے لیے بری فال ہیں۔ اوکاڑہ کے مزارعوں سے تصادم‘ جرنیل کی گاڑی کے شیشوں پر سپاہی کے اعتراض کا معاملہ۔ ہم بڑے دکھ سے کہنا چاہتے ہیں کہ فوج جسے پوری قوم کی معتمدعلیہ ہونا چاہیے اور جسے سب کی تائید حاصل ہونا چاہیے وہ بار بار کی سیاسی دراندازیوں اور فوجی حکمرانی کے دور میں سیاست‘معیشت اور انتظامی امور میں ملوث ہونے کی وجہ سے اب سیاسی اختلاف اور انتظامی بدعنوانیوں کا ہدف بن رہی ہے۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں ڈھائی سو فوجی افسر انتظامی مشینری میں داخل کیے گئے تو جنرل مشرف کے دور میں یہ تعداد بڑھ کر ۱۰۲۷ ہوگئی ہے جو سول نظام کی بحالی اور شدید تنقید کی وجہ سے تبدیلیوں کے باوجود اس وقت ۷۰۰ سے زیادہ ہے‘ جب کہ سول انتظامیہ کے کئی سو افراد اوایس ڈی (’افسر بہ کار خاص‘)اور فارغ خطی کاشکار ہیں۔ فوجی ضرورتوں اور اعزازات کے نام پر زمینوں کے حصول‘ کنٹونمنٹ کے نظام کا سول انتظام سے بالا ہونا اور پھر سابق فوجیوں اور ان کے لیے قائم کیے گئے اداروں کا معاشی امپائر کی شکل اختیار کرلینا بھی تشویش اور کشیدگی کا باعث ہو رہا ہے۔ ایک گروہ کی نگاہ میں اس طرح فوج کی دفاع کی صلاحیت کمزور ہو رہی ہے اور اس کے کچھ عناصر ایک vested inteestکی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ اس پس منظر میں چیف آف اسٹاف اور صدارت کے عہدوں کا ایک ہی شخص کے پاس ہونا‘ گورنری اور دوسرے اہم مقامات پر سابق فوجیوں کی موجودگی‘ سول انتظامیہ اور سفارتی عہدوں پر ان کا تقرر‘ صنعت‘ بنک کاری‘ تعلیم‘ غرض ہر میدان میں ان کے لیے ایک مخصوص مقام اور حیثیت کا انتظام اور انصرام سول نظام اور ملٹری کے معاملات کو متاثر کر رہا ہے اور ان میں جوہری تبدیلیوںکا ذریعہ بن رہا ہے جو فوج پر قومی اعتماد‘ اس کی غیرمتنازع حیثیت‘ اور اس کی دفاعی صلاحیت کو متاثر کر رہا ہے۔ فوجی قیادت اور سول انتظامیہ میں بھی بعد بلکہ ایک طرح کی رقابت (rivalry) کو جنم دے رہا ہے‘ فوج اور پولیس کے تعلقات میں کشیدگی رونما ہو رہی ہے اور سب سے بڑھ کر فوج اور عوام کے درمیان خلیج حائل ہو رہی ہے جو بہت خطرناک ہے۔ اگر جنرل مشرف اور فوج کی قیادت ان زمینی حقائق سے واقف نہیں تو یہ ایک سانحہ ہے اور اگر وہ اب بھی ان حالات کو سدھارنے کی فکر سے غافل ہیں تو یہ فوج اور ملک دونوں کے لیے اپنے دامن میں بڑے خطرات رکھتا ہے۔
ہم پوری دردمندی کے ساتھ فوجی قیادت اور سیاسی عناصر سے اپیل کرتے ہیں کہ ان معاملات کا سنجیدگی سے نوٹس لیں اور حالات کو سنبھالنے کی کوشش کریں۔ ملک پہلے ہی بیرونی خطرات اور اندرونی مشکلات میں مبتلا ہے۔ اداروں کے استحکام کے ذریعے ہی ہم ان خطرات اور مشکلات کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ سول اور فوجی دونوں ادارے اپنی اپنی حدود میں رہ کر ہی اس ملک کے استحکام اور مضبوطی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ پارلیمنٹ‘ عدلیہ‘ سیاسی جماعتیں‘ وکلا‘ صنعت کار‘ تاجر‘ اساتذہ‘ طلبا‘ غرض ہر ایک کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کی حق تلفی کے بغیر یہ کام انجام دینا چاہیے۔ اسی میں سب کے لیے خیر ہے۔
دستوری‘ اداراتی اور سیاسی خلفشار اور شتر گربگی کے ساتھ ملک کی معاشی صورت حال بھی دگرگوں نظرآتی ہے۔ اس میدان میں گذشتہ چار سال اور خصوصیت سے پچھلے سال کی کارکردگی مثبت اور منفی دونوں پہلو اپنے جلو میں لیے ہوئے ہے۔ عالمی منڈیوں میں روپے کی قیمت میں بحیثیت مجموعی استحکام رہا‘ زرمبادلہ کے ذخائر میں معتدبہ اضافہ ہوا جس نے عالمی منڈی میں پاکستان کی rating کو بہتر بنایا۔ یہ ذخیرہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ۱۱ بلین ڈالر سے متجاوز کرگیا جو تقریباً سال بھر کی درآمدات کے مساوی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اس مثبت پہلو کا صرف جزوی کریڈٹ حکومت کی پالیسی کو جاتا ہے کیونکہ یہ اس کی میکرو اسٹابی لائی زیشن کا ایک نتیجہ ضرور ہے لیکن اس کے حصول میں بیرونی ترسیلات اور آزاد منڈی سے ڈالر کی خرید (kerb buying) کا بڑا حصہ ہے۔ زرمبادلہ کے ان ذخائر میں اضافہ ملکی پیداوار اور برآمدات میں نمایاں اضافے کا نتیجہ نہیں بلکہ اس میں بڑا دخل عالمی حالات اور مرکزی بنک کی زرمبادلہ کے managment کی کارگزاری کا ہے۔ اس کا جزوی طور پر جو کریڈٹ حکومت کو جاتا ہے اور جس میں سالِ رواں میں تسلسل کی پالیسی کا بھی عمل دخل ہے‘ اس کے اعتراف میں ہمیں کوئی باک نہیں‘ لیکن جو پہلو بہت ہی تشویش ناک ہے وہ یہ ہے کہ اس کا کوئی حقیقی فائدہ عوام کو نہیں ملا۔
بیرونی قرضوں کے باب میں مرکزی حکومت کو ریلیف ضرور ملا مگر ملک میں غربت میں نہ صرف یہ کہ کمی نہیں ہوئی بلکہ واضح اضافہ ہوا ہے جس پر شماریات کی اُلٹ پھیر(jugglery) سے پردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔ اسٹیٹ بنک کی تازہ رپورٹ اس پر گواہ ہے۔ غربت جس کی گرفت میں ۱۵سال پہلے آبادی کا صرف ۲۰ فی صد تھا اب وہ ۳۳ فی صد ہوگیا ہے اور آزاد معاشی ماہرین کے اندازے کے مطابق یہ ۴۰ فی صد سے کم نہیں۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ ۱۴ کروڑ آبادی میں ۵ سے ۶کروڑ انسان دو وقت کی روٹی سے محروم ہیں۔ اقوام متحدہ کی سالانہ رپورٹ ۲۰۰۳ء جو ابھی شائع ہوئی ہے اس میں عالمی برادری میں ہماری غربت کی پوزیشن اور بھی نیچے چلی گئی ہے اور اب ہمارا مقام ۱۳۸ سے کم ہو کر ۱۴۴ پر آگیا ہے۔بے روزگاری میں بھی ۴۰ فی صد کے لگ بھگ اضافہ ہے جس کا نتیجہ ہے کہ فاقہ کشی کی نوبت ہے اور لوگ خودکشی کا الم ناک راستہ اختیار کر رہے ہیں۔
قیمتوں میں اضافے کا رجحان بھی برابر جاری ہے۔ اس ایک سال میں پیٹرول و تیل کی قیمتوں میں ۲۱ بار اضافہ اور صرف تین بار کمی ہوئی ہے اور مجموعی طور پر تیل کی قیمت میں ۳۰ فی صد کے لگ بھگ اضافہ ہوا ہے۔ یہی حال بجلی‘ پانی‘ گیس‘ ادویات اور دوسری ضروریاتِ زندگی کی قیمتوں کا ہے۔ اس نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ اس پر مستزاد زندگی کے ہر شعبہ میں اور ہر سطح پر بدعنوانی اور کرپشن کا دور دورہ ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ۲۰۰۳ء کی رپورٹ کرپشن میں اضافے کی تصویر پیش کرتی ہے۔ حکومت کے سارے دعووں کے باوجود بیرونی اور اندرونی سرمایہ کاری میں خاطرخواہ اضافہ نہیں ہوا اور نہ ہی اضمحلال کے شکار معاشرتی اقتصادی ڈھانچے کو مضبوط کرنے اور ترقی دینے کی کوئی موثر کوشش سامنے آئی ہے۔ خواہ نظری طور پرModis' rating میں اضافہ ہو گیا ہو مگر عملاً بلاواسطہ بیرونی سرمایہ کاری ۱۹۹۰ء کے عشرے کے مقابلے میں نہیں بلکہ خود۲۰۰۱-۲۰۰۲ء کے مقابلے میں بھی کم ہوئی ہے اور ایشین ڈویلپمنٹ بنک کے تازہ ترین تبصرہ کی رو سے اس کی بڑی وجہ وہ سیاسی بحران اور بے یقینی ہے جس میں ملک مبتلا ہے:
غیریقینی قومی اور علاقائی صورت حال کی وجہ سے پاکستان کے لیے بیرونی قرضوں کی سطح کم رہی ہے۔ اس کا ایک عنصر غیریقینی سیاسی منظر ہے لیکن سرمایہ کاری کی عمومی فضا کے خراب معاشی اور ادارتی پہلوئوں نے بھی منفی اثر ڈالا ہے۔ (دی نیوز‘ ۱۵ نومبر۲۰۰۳ئ)
بنک کاری کا شعبہ مشکلات سے دوچار ہے۔ قومی بنکوں نے ۱۴۵۹ شاخیں بند کرنے اور عملے میں تقریباً ۴۰ فی صد کمی کے باوجود نہ اخراجات میں کمی کی ہے اور نہ non-performing قرضوں کی پوزیشن خطرے سے باہر ہوئی ہے۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی نے کوئی کام شروع نہیں کیا لیکن وزارتِ خزانہ کی ایک رپورٹ جو ۲۰۰۱-۲۰۰۰ء سے متعلق ہے یہ خبردیتی ہے کہ سرکاری محکموں کے آڈٹ سے پتا چلتا ہے کہ ۱۰ کھرب ۴۷ ارب روپے کی رقوم میں سے ایک کھرب ۴۲ارب اور ۹۰ کروڑ روپے کی رقوم کا استعمال قواعد کے مطابق نہیں ہوا۔ یعنی ۱۰فی صد سے بھی زیادہ سرکاری اخراجات یا بلاجواز تھے یا ان کا ناجائز استعمال ہوا۔
اس صورتِ حال کو کسی پہلو سے بھی قابلِ رشک قرار نہیں دیا جا سکتا۔
خارجہ سیاست کے باب میں بھی کارکردگی مایوس کن ہے۔ ہم جس طرح امریکہ کے شکنجے میں کسے جاچکے ہیں وہ ملک کی آزادی اور حاکمیت کو مجروح کر رہا ہے۔ عالمی وقار میں کوئی اضافہ نہیں ہوا بلکہ ہمارے روایتی دوست بھی پہلے جیسی گرمجوشی نہیں دکھا رہے جو بہت تشویش ناک ہے۔ امریکہ کی دوستی تو کبھی بھی قابلِ اعتماد نہ تھی۔ اس کا مسلسل رویہ یہ ہے کہ ہر خدمت اور چاکری کے بعد ھل من مزید کا مطالبہ کرتا ہے۔ اور نیوکلیر پھیلائو اور دہشت گردی میں مطلوبہ سے کم تعاون پر ہاتھ مروڑنے اور بلیک میل کرنے کا وطیرہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ چین اور ایران سے تعلقات میں پہلی سی گرمی نہیں۔ بھارت کی ساری ناز برداریوں کے باوجود اس کا رویہ خطرناک حد تک معاندانہ اور ہمارا شرم ناک حد تک عاجزانہ ہے۔ افغانستان میں بھارت کا عمل دخل بڑھ رہا ہے اور ہمارے تعلقات کشیدہ ہیں‘ بلکہ اب تو بھارت تاجکستان میں فوجی اڈے بنارہا ہے اور ہمارا عالم ہے کہ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم! قابلِ اعتماد دوستوں کا فقدان ہے۔ جو حقیقی دوست تھے اور ہمیں ان سے کبھی کوئی خطرہ نہ تھا‘ ان کو ہم نے دشمن قرار دے دیا ہے۔ عرب دنیا کے عوام میں ہماری عزت خاک میں مل چکی ہے۔ خود جنرل صاحب فرما رہے ہیں کہ ’’اگر کوئی مشکل وقت آیا تو کوئی ہمارا ساتھ دینے والا نہیں ہوگا‘‘۔اس سے زیادہ خارجہ سیاست کے افلاس کی کیا کیفیت ہوسکتی ہے ۔ یہ سب اس حالت میں ہے کہ قومی سلامتی اور خارجہ سیاست کی ساری باگ ڈور پارلیمنٹ یا وزارت خارجہ کے ہاتھ میں نہیں بلکہ بلاواسطہ ایوان صدارت کی گرفت میں ہے اور بش سے ساری ذاتی دوستی اور ’’جب چاہوں ٹیلی فون کر لوں‘‘ کی تعلیوں کے باوجود ہماری مقبولیت کا گراف نیچے گیا ہے اور آزادی اور خودانحصاری کی فصیل میں بڑے بڑے شگاف پڑگئے ہیں۔ داخلی اور خارجہ کارکردگی کا یہ جائزہ روشنی سے محروم اور تاریکیوں اور مسائل کے گمبھیر بادلوں سے فضا کی آلودگی کا منظرپیش کرتا ہے۔
اس سال کا ہمارا یہ جائزہ نامکمل رہے گا اگر ہم مرکزی اداروں اور قیادت کی مایوس کن کارکردگی کے مقابلہ میں صوبہ سرحد کی متحدہ مجلس عمل کی حکومت اور اسمبلی کی کارکردگی کے چند پہلوئوں کا ذکر نہ کریں جو امید کی ایک کرن کی حیثیت رکھتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اکتوبر ۲۰۰۲ء کے انتخابات میں ایم ایم اے کی کامیابی ایک تاریخی امر ہے جس سے پاکستان کی سیاست میں جوہری تبدیلیوں کا آغاز ہوگیا ہے۔ ایم ایم اے کا قیام انتخابات سے صرف دو ماہ قبل ہوا اور اسے انتخابی مہم کے لیے بہت کم وقت ملا لیکن اس کے باوجود صوبہ سرحد اور صوبہ بلوچستان ہی میں نہیں‘ بلکہ ملک کے اہم ترین سیاسی اور تجارتی شہروں یعنی کراچی‘ لاہور‘ اسلام آباد‘ راولپنڈی‘ حیدرآباد اور گوجرانوالہ میں اس کی کامیابی اور ملک کے مختلف علاقوں میں ایک معتدبہ تعداد میں اس کے نمایندوں کا دوسری اور تیسری پوزیشن حاصل کرنا ملک گیر پیمانے پر ایک نئے رجحان کا غماز ہے۔ عوام دینی قوتوں کے اتحاد میں اپنے لیے ایک روشن مستقبل کی جھلک دیکھتے ہیں۔ وہ روایتی سیاسی جماعتوں سے مایوس ہیں جو بااثر اور مخصوص طبقات کے مفادات کی محافظ بن کر رہ گئی ہیں اور جنھیں بار بار مواقع دینے کے باوجود عوام ان کی کارکردگی سے مایوس ہیں اور موجودہ پارلیمنٹ کی عدم کارکردگی نے بھی ان کے اس احساس کو اور بھی قوی کر دیا ہے کہ ان جماعتوں اور طبقوں کے پاس دینے کے لیے کچھ نہیں۔ ایم ایم اے کی پوری قیادت عوام میں سے ہے اور اس کا تعلق متوسط طبقے سے ہے جو عوام کے مسائل اور معاملات سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ ایم ایم اے نے ملکی اور بین الاقوامی ایشوز پر ایک واضح پالیسی اختیار کی ہے اور وہ ملک کی آزادی‘ معاشی خوش حالی اور دینی اخلاقی اور تہذیبی تشخص کی حفاظت کی علم بردار ہے۔ وہ خودانحصاری کی داعی اور ملک کی امریکی حاشیہ برداری سے نجات کے لیے کوشاں ہے۔
اکتوبر کے انتخابات کے بعد صرف صوبہ سرحد سے اسے اکثریت حاصل تھی اس لیے اس نے اس صوبے میں اپنی حکومت قائم کی اور مرکز میںاپنے اصولی موقف کے مطابق حزبِ اختلاف کا کردار ادا کر رہی ہے۔ سرحد میں حکومت اور اسمبلی کی کارکردگی کے چند پہلو‘ ان تمام مشکلات اور تحدیدات کے باوجود جو مرکز کی طرف سے اسے پیش آئیں اور مرکز کے نمایندے کی گورنری کے منصب پر موجودگی اور اس کی سیاسی معاملات میں مداخلت نے جنھیں اور بھی گمبھیر کر دیا تھا‘ نوٹ کرنے کے لائق ہیں۔
پہلی چیزیہ ہے کہ سرحد میں ایک مختصر کابینہ بنائی گئی جس نے پورے سال بڑی محنت سے کام کیا اور سادگی‘ عوام کی خدمت گزاری اور ہر وقت ان کی پہنچ میں ہونے اور ان کے درمیان پہلے کی طرح زندگی کے شب و روز گزارنے کی اچھی مثال قائم کی۔ مراعات کی لوٹ کھسوٹ کے مقابلے میں خدمت کی ایک شاہراہ روشن کی۔ الحمدللہ اس کا اعتراف دوست دشمن سب کر رہے ہیں۔
دوسری چیز اسمبلی کی کارکردگی ہے۔ صوبائی اسمبلی قومی اور صوبائی معاملات پر بحث و مشورے کا محور اور مرکز رہی ہے۔ دستوری اعتبار سے سال میں صوبائی اسمبلی کا اجلاس ۷۰ دن ہونا ضروری ہے مگر سرحد اسمبلی نے ۹۹ دن کام کیا اور ان بارہ مہینوں میں ایک بار بھی کورم کا مسئلہ پیش نہ آیا۔ اس سال ۱۳ بل منظور کیے جن کا تعلق زندگی اور حکمرانی کے مختلف شعبوں سے تھا۔ خصوصیت سے شریعت بل‘ ہائیڈل پاور بل‘ غیرمنقولہ جایدادوں کا بل‘ ہیلتھ اور ہوسپٹل سروس بل وغیرہ۔ ان ۱۳ بلوں کے علاوہ بھی تین بل اسمبلی میں آئے جن میں ایک نامنظور ہوا اور دو ضروری تائید نہ ہونے کی وجہ سے پیش نہیں ہو سکے۔ اسمبلی میں ۶۶ قراردادیں متفقہ طور پر اور دس اکثریتی ووٹ سے منظور ہوئیں جن کا تعلق ملکی اور صوبائی مسائل سے تھا۔ ان میں عالمی امور پر صوبے کی اسمبلی کی رائے بھی شامل ہے۔ پانی‘ بجلی‘ تعلیم‘ صحت جیسے امور کے بارے میں قراردادیں بھی ہیں۔
سرحد اسمبلی کی کارکردگی کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ تمام امور پر کھل کر بحث ہوئی اور حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان نہ صرف یہ کہ بڑی خوش گوار فضا رہی بلکہ بیشتر معاملات میں حکومت اور حزبِ اختلاف نے مکمل ہم آہنگی کے ساتھ کام کیا اور سرحد کی روایات کے مطابق جرگے کے طریقہ کو اختیار کیا۔ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے کہ صوبہ سرحد کا بجٹ اور شریعت بل دونوں مکمل اتفاق رائے سے منظور ہوئے۔ صوبائی اسمبلی کے ارکان کے ذریعے جو ترقیاتی فنڈاستعمال ہوتے ہیں ان میں حکومتی جماعت اور حزبِ اختلاف کے ارکان کے درمیان کوئی تفریق نہیں کی گئی۔
سرحد اسمبلی نے اپنی ۲۹ مجالس قائمہ بھی پہلی فرصت میں قائم کر دیں جو اسمبلی کے ساتھ ساتھ اپنا کام انجام دے رہی ہیں۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی نے بڑی موثر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور متعدد بدمعاملگیوں کا سراغ لگایا ہے اور ان کا احتساب کیا ہے۔ تمام بلوں پر متعلقہ کمیٹیوں نے غور کیا ہے اور ہیلتھ کمیٹی نے ماضی میں (فوجی حکومت کے دور میں) اختیار کی جانے والی کئی پالیسیوں میں تبدیلی کی ہے اور کمیٹی کی رپورٹ کو سرحداسمبلی سے منظورکرا کے نافذ کرا دیا ہے۔
صوبہ میں تعلیم‘ صحت اور ڈویلپمنٹ کے میدانوں میں نئی پالیسیوں اور اقدامات کااہتمام کیا گیا ہے اور صوبے کے حقوق‘ خصوصیت سے پن بجلی کے سلسلے میں صوبے کی رائلٹی کے معاملے میں واضح پالیسی اختیار کی گئی ہے اور اسے بھی کل جماعتی بنیادوں پر آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ بجٹ میں بھی کئی اہم امور میں پہل قدمی کی گئی جن میں فلاحی بجٹ (welfare budget) ایک لازمی حصہ کے طور پر شامل کرنا اہمیت کا حامل ہے۔ عام ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا ہے مگر کابینہ اور ارکانِ اسمبلی نے اپنے مشاہروں میں کوئی اضافہ نہیں کیا بلکہ وزیراعلیٰ اور سینیر وزیر نے اپنے اپنے مشاہرے میں علامتی کمی کا اعلان کیا ہے۔
صوبہ سرحد میں اسلامی بنک کاری کو متعارف کرانے کے الیکشن کے دعویٰ پر بھی پوری سنجیدگی سے کام ہوا ہے اور پہلے ہی سال اسٹیٹ بنک کی اجازت اور تعاون سے خیبربنک کی ایک شاخ نے مکمل اسلامی بنک کاری کا آغاز کر دیا ہے اور اس شاخ کا باقاعدہ افتتاح ۲۷رمضان المبارک کو عمل میں آ رہا ہے۔
صوبہ سرحد میں ایم ایم اے نے جو روشن مثال قائم کی ہے جو مستقبل کے لیے ایک نیک فال ہے ۔ ایم ایم اے کو تقسیم کرنے اور بدنام کرنے کی ساری کوششوں کے باوجود الحمدللہ ایم ایم اے نے نہ صرف یہ کہ اپنے اتحاد کو قائم رکھا ہے بلکہ حکمرانی‘ عوامی خدمت اور اسلامی شعائر کے مکمل احترام کی ایک روشن مثال قائم کی ہے۔ بلاشبہہ یہ صرف ایک آغاز ہے اور ابھی بہت کام کرنا ہے لیکن انگریزی محاورے کے مطابق: Well begun is half done ۔ اس سرسری موازنے سے قوم کے سامنے امید کی ایک نئی کرن آتی ہے اور اقبال کا ہم زباں ہو کر یہ کہا جا سکتا ہے ؎
کھول کر آنکھیں مرے آئینہ گفتار میں
آنے والے دور کی دھندلی سی ایک تصویر دیکھ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
انسان پر اللہ تعالیٰ کے انعام و الطاف کی کوئی انتہا نہیں‘ لیکن اس کا سب سے بڑا انعام وہ ہدایت ہے جو اس نے روزِ اول سے وحی اور رسالت و نبوت کے ذریعے اپنے بندوں کو عطا کی‘ تاکہ زندگی گزارنے کی شاہراہ روزِ روشن کی طرح ان کے سامنے عیاں ہو اور وہ جہالت اور ظلم کی تاریکیوں میں ٹامک ٹوئیاں ہی نہ مارتے رہیں۔ اس سب سے بڑے انعام کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے--- اور اسلام نام ہی اس انعام کا شکر ادا کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہنے کا ہے! یہی عبادت ہے‘ یہی دین کا حاصل ہے اور یہی دنیا اور آخرت کی کامیابی کا راستہ ہے!
اللہ کی وحی قرآن کی شکل میں مکمل ہوگئی اور افضل الانبیا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوئہ حسنہ ‘ عالمِ انسانی کے لیے ایک بے مثال نمونہ بن کر سامنے آگیا۔ چنانچہ زمین و آسمان کے خالق اور مالک نے یہ اعلان کر دیا :
اَلْیَوْمَ اَکْـمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاط (المائدہ ۵:۳) آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔
اب یہ ذمہ داری اُمت مسلمہ کو سونپی گئی ہے کہ وہ شہادتِ حق‘ دعوت الی اللہ‘ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا کارِ نبوت انجام دے‘ تاکہ وہ حق کی علم بردار ہو اور اللہ کی اس نعمت کو اللہ کے بندوں تک پہنچانے اور ان کو اس کی زندگی بخش توانائی سے شادکام کرنے کی جدوجہد میں ہمیشہ مصروف رہے۔ ہر دور میں‘ ہر علاقے میں‘ اور ہر قسم کے حالات میں ایسے نفوس قدسیہ سے اُمت اور انسانیت کو برابر نوازنے کا اہتمام فرما دیا‘ جو اللہ کی ہدایت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور طریقے کی طرف لوگوں کو بلاتے رہیں اور اقامت دین کی دعوت دینے اور دین کو عملاً نافذکرنے کی جدوجہد میں سرگرم رہیں۔
ہدایت کے اس نظام کو بھی کارِ نبوت کی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے انعام کا حصہ قرار دیا ہے۔ جن پاکباز انسانوں کو اس کام پر لگایا ہے ان کے اس انتخاب کے لیے اصطفٰی اور اجتبٰیکے وہی محترم الفاظ استعمال کیے ہیں‘ جو انبیا ے کرام کے انتخاب اور تیاری کے لیے استعمال کیے گئے ہیں اور ان انعام یافتہ مخلصین کا شمار بھی انبیاے کرام ہی کے قافلے میں کیا گیا ہے: وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِـیّٖنَ وَالصِّدِّیْـقِیْنَ وَالشُّھَدَآئِ وَالصّٰلِحِیْنَج وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا o ذٰلِکَ الْفَضْلُ مِنَ اللّٰہِط وَکَفٰی بِاللّٰہِ عَلِیْمًا o (النساء ۴:۶۹-۷۰) ’’جو لوگ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے‘ یعنی انبیا ؑ اور صدیقین اور شہدا اور صالحین--- کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں! یہ حقیقی فضل ہے جو اللہ کی طرف سے ملتا ہے اور حقیقت جاننے کے لیے بس اللہ ہی کا علم کافی ہے‘‘۔
بیسویں صدی کا آغاز مسلمان اُمت کے لیے ان بدترین حالات میں ہوا‘ جن کا آج تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس تاریک دور ہی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خصوصی فضل سے ایسے افراد سے اُمت کو نوازا جنھوں نے ہر میدان میں چومکھی لڑائی لڑی اور تاریکیوں کا سینہ چیر کر شمع ہدایت و رسالت کی روشنی کو اس طرح پھیلادیاکہ غفلت‘ غلامی اور مظلومیت کی رات چھٹ گئی اور احیاے اسلام اور اُمت کے ایک عالم گیر قوت کی حیثیت سے اُبھرنے کے آثار صبحِ نو کی طرح نمودار ہو گئے ہیں۔
جن نفوسِ قدسیہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ کام لیا ان میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ ۱۷ سالہ نوجوان نے ۱۹۲۰ء میں اپنے ایمان اور ضمیر کے تقاضے کے طور پر احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کی جو ننھی منی شمع روشن کی تھی‘ ۱۹۳۰ء کے عشرے میں علمی اور فکری اُفق اس کی ضوفشانی سے منور ہو چکے تھے۔ پھر ۲۶ اگست ۱۹۴۱ء سے شروع ہونے والی ایک منظم اور اجتماعی جدوجہد کی رہنمائی کرتے ہوئے‘ ۱۹۷۹ء میں جب یہ مجاہد اپنے رفیق اعلیٰ کی طرف لوٹ گیا تو یہ دعوت اسلامی احیا کی عالمی لہر بن کر مشرق و مغرب کے دور دراز گوشوں تک پھیل کر ایک جان دار تحریک بن چکی تھی۔ شیخ یوسف القرضاوی نے ۲۶ ستمبر ۱۹۷۹ء کو لاہور میں سید مودودیؒ کی نمازِ جنازہ پڑھانے کے بعد جو الفاظ کہے‘ وہ محض ایک فرد کے جذبات کا مظہر نہیں بلکہ تاریخ کی گونج ہیں:
سید ابوالاعلیٰ کا یہ جنازہ ایک ریفرنڈم ہے کہ پاکستان کے مسلمان صرف اسلام چاہتے ہیں۔ ان کے فقید المثال جنازے نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اللہ کے ہاں مقبول بندوں میں سے ہیں۔ لاکھوں افراد ان کی رحلت پر رو رہے ہیں۔ یہ گویا بجاے خود شہادت ہے کہ مولا نا کی ذات حسنات کا مجموعہ تھی۔
سید مودودیؒ صرف پاکستان ہی کے نہیں‘ پوری اُمت مسلمہ اور ساری انسانیت کا سرمایہ اور میراث ہیں۔ ایک نادرہ روزگار مفکر‘ ایک بے باک قائد‘ ایک زمانہ ساز مدبر‘ ایک حیات آفریں شخصیت‘ ایک نئے دور کا نقیب --- اور سب سے بڑھ کر اللہ کا ایک تابع دار بندہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عاشق‘ شیدائی اور مطیع فرمان۔ سید مودودیؒ کی شخصیت کا آئینہ وہ دعا ہے جو انھوں نے ۱۹۳۸ء کے حوصلہ شکن حالات میں اپنے رب کے حضور کی تھی:
اے پروردگار‘ میں ایک مجاہد کے ایمان کا طالب ہوں‘ ایسا دل مانگتا ہوں جو سمندر کی طوفانی موجوں کے مقابلے میں ٹوٹی ہوئی کشتی لے جانے پر بے جھجک آمادہ ہو جائے‘ ایسی روح مانگتا ہوں جو شکست کھانے اور سپر رکھ دینے کا تصور بھی نہ کر سکتی ہو…
اور جب اس داعی الی الحق نے ہجرت کا راستہ اختیار کر کے‘ قافلۂ حق کے جانبازوں کی صف بندی کی تو اس کا دل یوں زبان بن گیا:
جب اس بندئہ حق کو ظالم اقتدار نے سولی پر چڑھانے کی سزا کا اعلان کیا ‘تب بھی اس کے ایمان اور عزم کی شان ایک سچے بندۂ رحمن کی شایانِ شان تھی: ’’میں کسی سے رحم کی اپیل نہیں کروں گا اور اپنا معاملہ اپنے خدا کے حوالے کرتا ہوں۔ زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں‘ آسمان پر ہوتے ہیں۔ اگر وہاں میری موت کا فیصلہ ہو چکا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے موت سے نہیں بچا سکتی۔ اگر وہاں سے میری موت کا فیصلہ نہیں ہوا تو دنیا کی کوئی طاقت میرا بال بھی بیکا نہیں کر سکتی‘‘۔اور الحمدللہ‘ اقتدار وہ سزا نہ دے سکا۔
حق کے متعلق یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ وہ بجاے خود حق ہے--- وہ ایسی مستقل اقدار کا نام ہے جو سراسر صحیح اور صادق ہیں۔ اگر تمام دنیا اس سے منحرف ہوجائے‘ تب بھی وہ حق ہی ہے۔ مصائب حق پر نہیں‘ اہل حق پر آتے ہیں۔ لیکن جو لوگ سمجھ کر کامل قلبی اطمینان کے ساتھ یہ فیصلہ کرچکے ہوں کہ انھیں بہرحال حق پر قائم رہنا اور اس کا بول بالا کرنے کے لیے اپنا سارا سرمایۂ حیات لگا دینا ہے‘ وہ مصائب میں مبتلا ضرور ہو سکتے ہیں لیکن ناکام کبھی نہیں ہوسکتے۔
سید مودودیؒ کی ۷۶ سالہ زندگی‘ حق پرستی اور حق کے لیے جان کی بازی لگا دینے سے عبارت ہے۔ بیسویں صدی میں جو بھی روشنی ہے‘ اسے جلابخشنے میں اللہ کے فضل اور اس کی سنت کے مطابق ان کا بھی ایک منفرد کردار ہے۔ ہم بے جا شخصی تذکرے‘ یا غلو کے قائل نہیں‘ لیکن احسان مندی اور محسن شناسی کی تعلیم بھی اسی اسلام نے ہی دی ہے‘ جس نے شخصیت پرستی سے اجتناب کا حکم دیا ہے--- اور ترجمان القرآن کا یہ خاص شمارہ جس کا پہلا حصہ آپ کے ہاتھ میں ہے--- ان شاء اللہ دوسرا بھی چند ماہ بعد حاضرخدمت کیا جائے گا‘ درحقیقت اسی احسان مندی کا اعتراف اور اسی محسن شناسی کا ایک اظہار ہے۔
اس ’اشاعت خاص‘ کے لیے کام میرے عزیز بھائی سلیم منصور خالد نے کیا ہے‘ جو اس کے ’مہمان مدیر‘ ہیں۔ان کے لیے اجر کی دعا کرتے ہیں۔ مجلس ادارت کی رہنمائی اور برادرم مسلم سجاد اور برادرم رفیع الدین ہاشمی کی معاونت کا اس خدمت میں ایک قیمتی حصہ ہے۔
ترجمان کا یہ خاص نمبر ایک تاریخی دستاویز‘ ایک عہد کی داستان‘ ایک مجاہد کی ۶۰ سالہ جدوجہد کی ایمان افروز کہانی اور اکیسویں صدی کے انسان کے لیے زندگی کا پیغام ہے۔ جو بھی اس زندگی‘ اس جدوجہد ‘ اس کش مکش اور اس راہِ عمل پر کھلے ذہن اور قلب سلیم کی رہنمائی میں غور کرنے اور چلنے کی کوشش کرے گا‘ کامیاب و کامران ہوگا۔ درخواست ہے کہ ہر فرد‘ اللہ تعالیٰ کے شکر کے ساتھ‘ اللہ کے اس پاک باز بندے کے لیے بہترین دعائوں کا تحفہ بھیجنے میں بخل سے کام نہیں لے ‘ کہ جس نے بیسویں صدی کے ستم زدہ انسان کو اکیسویں صدی میں قدم رکھتے وقت یہ احساس دلایا کہ’ہمارے بعد اندھیرا نہیں اُجالا ہے‘اورجس کے بارے میں امیرخسرو کے الفاظ میں دل گواہی دیتا ہے کہ ؎
آفاق ہا گردیدہ ام ‘ مہربتاں ورزیدہ ام
بسیار خوباں دیدہ ام‘ لیکن تو چیزے دیگری
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
الجھے ہوئے معاملات کو سلجھانا اور اختلافی امور کو حل کرنا حکمت و دانائی کا شیوہ ہے مگر اسے کیا کہا جائے کہ اب اقتدار پر قابض جرنیل اور ان کے ہم نوا دانش ور طے شدہ معاملات کو متنازع بنانے کی مشق بڑی بے دردی سے کر رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ ہے کہ اندرونی مسائل اور مشکلات کی دلدل سے نکلنے کی کوئی راہ پیدا ہو رہی ہے‘ اور نہ خارجہ سیاست میں کہیں روشنی کی کوئی کرن ہی نظر آرہی ہے--- ژولیدہ فکری‘ تضادات اور کہہ مکرنیوں کے سیلاب کے ساتھ اب اصولی موقف اور قومی زندگی کے ثابت اور مستحکم امور بھی مشتبہ اور غیرمعتبر ہوتے جا رہے ہیں اور مفاد کے نام پر ہر اصول‘ ہر حقیقت اور ہر مسلّمہ کلیے سے انحراف کا دروازہ کھولا جا رہا ہے۔ چنانچہ صرف کنفیوژن میں اضافہ ہو رہا ہے‘ پالیسی کے روشن خطوط دھندلا گئے ہیں اور دلیل کی جگہ ایک ایسے شوروغوغا نے لے لی ہے کہ ع کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی!
مصائب تو بہت تھے مگر ذہنی افلاس اور بے اصولی کا جو منظر خارجہ سیاست کے میدان میں نظر آ رہا ہے‘ اس نے ملک و ملّت کو ایسے خطرات سے دوچار کر دیا ہے جن کا اگر بروقت مقابلہ نہ کیا گیا تو پاکستان کے نظریاتی وجود اور تاریخی کردار کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ ان تمام معاملات کا تعلق محض وقتی مصلحتوں سے نہیں بلکہ معاملہ اصول اور ملک و ملّت کے اسٹرے ٹیجک مفادات کا ہے جنھیں محض کسی کی خوشنودی یا کچھ مراعات کی توقع کی خاطر قربان نہیں کیا جا سکتا۔
یہ ایک بڑا چونکا دینے والا سوال ہے کہ آخر اس وقت یہ شوشہ کیوں چھوڑا گیا ہے؟ فلسطین میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ انتفاضہ الاقصیٰ کو تیسرا سال ہے۔ ڈھائی تین ہزار مسلمان مرد‘ عورت اور بچے اس عرصے میں شہیدہو چکے ہیں۔ فلسطین میں انسانی حقوق کے ادارے ’’لائ‘‘(law) کی رپورٹ کے مطابق صہیونیوں نے ۱۹۴۸ء سے لے کر اب تک ۱۵لاکھ افراد کو گرفتار کیا ہے اور ان کو ٹارچر کا نشانہ بنایا ہے اور طویل عرصے تک بلامقدمہ چلائے جیلوں میں رکھا ہے۔ ۳ لاکھ فلسطینیوں کو زخمی کیا اور ان میں سے ۴۰ ہزار سے زیادہ کو مستقلاً معذور کر دیا ہے۔ سرزمین فلسطین سے اس کے اصل عرب باشندوں میں سے اتنی بڑی تعداد کو ملک بدر کیا ہے کہ اب فلسطین سے باہر فلسطینی مہاجرین کی تعداد۴۵ لاکھ تک پہنچ چکی ہے جو اسرائیل کی پوری یہودی آبادی کے برابر ہے۔ آج بھی مہاجر کیمپوں میں رہنے والوں کی تعداد ۸ لاکھ کے قریب ہے۔ ۱۷۰ ہسپتالوں ‘ ۳۱۵ اسکولوں اور سات یونی ورسٹیوں کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے۔ عرب علاقے کے ۶۰ فی صد کھیت کھلیان جلا کر خاکستر کر دیے گئے ہیں‘ ۳۷۰فیکٹریاں تباہ کی ہیں‘ ۶ لاکھ سے زائد جانوروں کوموت کے گھاٹ اتار دیا ہے اور اب عرب علاقوں میں ۲۱۰میل لمبی آہنی فصیل بنائی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں عربوں کی لٹی پھٹی زمین کا مزید ۱۰‘۱۵فی صد پر اسرائیلی قبضہ ہوگا۔ جس علاقے کو مستقبل کی عرب ریاست کا محل سمجھا جا رہا ہے وہ ٹکڑوں میں بٹ جائے گی اور اسرائیل کی فوج اور آبادکار ان پر بدستور قابض رہیں گے۔
ظلم و ستم کی اس نہ ختم ہونے والی سوچی سمجھی اسٹرے ٹیجی کی روشنی میں یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ اسرائیل امن کی کسی بھی تجویز پر عمل پیرا ہونے کے لیے تیار نہیںہے۔ نام نہاد روڈمیپ اور اپنی پسند کے فلسطینی وزیراعظم اور پولیس سربراہ کے تقرر کے باوجود نہتے عوام پر ٹینکوں اور ایف-۱۶ سے حملے ہو رہے ہیں۔ ہدف بنا کر سیاسی قائدین اور علما کو قتل کیا جا رہا ہے۔پوری عرب آبادی کو فصیلوں کے ذریعے محصور کیا جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ یاسرعرفات کو بھی کونے سے لگا دیا گیا ہے۔ صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ جسے ’’روڈمیپ‘‘ کہا جا رہا ہے وہ ایک سراب سے زیادہ نہیں کہ فلسطینیوں کے قدموں تلے کوئی روڈ ہی نہیں ،’’میپ‘‘ کی تو بات ہی کیا!
ایک طرف حالات کی یہ ہولناک صورت ہے اور دوسری طرف جنرل پرویز مشرف کے کیمپ ڈیوڈ کے دورے سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کے سوال پر اچانک خود کلامی شروع ہو گئی۔ اس کے بعد سیکرٹری وزارتِ خارجہ اور سیکرٹری اطلاعات نے اسرائیل کے تسلیم کیے جانے کے حق میں وعظ شروع کر دیا۔ جنرل صاحب کے علاوہ وزیر داخلہ اور سردار عبدالقیوم بھی میدان میں کود پڑے اور جولائی ۲۰۰۳ء کے Jan's Intelligence Digestنے تو اعلان ہی کردیا کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کر چکا ہے۔ اس کے الفاظ میں:
پاکستان کے حکام خصوصیت سے مشرف سے قریب فوجی قیادت اسرائیل کے ساتھ براہ راست روابط قائم کرنے کا پہلے ہی فیصلہ کر چکی ہے۔ مشرف اپنے ایجنڈے کے ساتھ مستقبل قریب میں آگے بڑھنے کے لیے پُرعزم ہیں۔
اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ پاکستان کو مستحکم کرنے کی جنرل پرویز مشرف کی کوششوں‘ نیز ان کے اپنے سیاسی مستقبل پر لازماً اہم اثرات مرتب کرے گا۔
دفاعی امور کے بارے میں سراغ رسانی کی اس رپورٹ کا ماحصل یہ ہے کہ فیصلہ تو ہوچکا ہے البتہ ’’جنرل مشرف اندرونِ ملک اور بیرون ملک اس کے ممکنہ اثرات کو ضرور جانچنا چاہتے ہیں‘‘۔
ہم اپنی رائے تو دلائل کے ساتھ پیش کریں گے لیکن اپنی بحث کا نتیجہ بالکل واضح الفاظ میں پہلے ہی بیان کر دینا چاہتے ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کرنا ہمالہ سے بڑی غلطی ہوگی جو قوم کے احتجاج اور نفرت ہی نہیں‘ خدانخواستہ اللہ کے غیض و غضب کو بھی دعوت دینے کا ذریعہ بنے گی۔ یہ پاکستان اور جنرل مشرف کے سیاسی مستقبل کو استحکام بخشنے کا نہیں‘ فوری طور پر عدمِ استحکام کی نذر کرنے کا ذریعہ ہوگا۔ اس شوشے کے چھوڑے جانے کے بعد سے آج تک جو کچھ اس کے بارے میں لکھا گیا ہے یا تقاریر اور تبصروں میں جو کچھ کہا گیا ہے اس کا تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ انگلیوں پر گنے جانے والے افراد کے سوا پوری قوم‘ تمام اہم کالم نگاروں اور تمام قابلِ ذکر سیاسی حلقوں نے اس کی مخالفت کی ہے۔ اسے قومی مفاد اور پاکستان کے تاریخی اور اصولی موقف کی ضد اور ایک بے وقت کی راگنی قرار دیا ہے اور اس شبہہ کا اظہار کیا ہے کہ یہ پاکستان کے اندر سے اُبھرنے والا ایک رجحان نہیں بلکہ باہر سے ہم پر مسلط کیا جانے والا ایک فتنہ ہے--- کوئی معشوق ہے اس پردہ زنگاری میں!
کسی ملک کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا سوال بین الاقوامی قانون‘ سفارت کاری اور تجارت سے متعلق ہے۔ دنیا کے ہر ملک کے لیے ضروری نہیں کہ ہر دوسرے ملک کو لازماً تسلیم کرے‘ یا اس سے سفارت کاری اور تجارت کا رشتہ استوار کرے۔ بنیادی طور پر اس مسئلے کا تعلق دو ہی پہلوئوں سے ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ کیا وہ ریاست یا ملک جس سے معاملہ کیا جا رہا ہے ایک مبنی برحق اور صاحب ِ اقتدار ملک ہے یا نہیں؟ اور دوسرے یہ کہ اس سے سفارتی یا تجارتی رشتہ استوار کرنا ہمارے مفاد میں ہے یا نہیں؟ پہلا سوال اپنے قانونی‘ سیاسی اور اخلاقی پہلو رکھتا ہے اور دوسرا خالص مفادات سے متعلق ہے۔ بین الاقوامی قانون اور روایات کی روشنی میں یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر وہ ملک جس سے آپ حالت جنگ (state of war) میں نہ ہوں‘ آپ لازماً اسے تسلیم کریں یا اس سے سفارتی اور تجارتی تعلقات کا رشتہ استوار کریں۔ نیز مختلف وجوہ سے دنیا کے دسیوں ممالک نے برسہا برس تک دوسرے ممالک کو تسلیم نہیں کیا اور کوئی آسمان نہیں گر پڑا۔
خالص قانونی نقطۂ نظر سے کسی ملک کو تسلیم کرنے کے معنی اسے ایک جائز وجود (legitimate entity) تسلیم کرنا ہے۔ بین الاقوامی قانون کی رو سے اس کے لیے اس ملک کے بارے میں چار امور یقینی ہونا چاہییں: ۱- متعین جغرافیائی حدود (defined geographical borders) ۲-آبادی ۳- اپنے حدود میں مکمل آزادی اور ۴- قبضہ۔
یہ حاکمیت (sovereignty) کے لازمی اجزا ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کسی وجہ سے کوئی ملک ان میں سے کسی پہلو سے بھی متنازع ہو تو اسے تسلیم کرنے میں تردد کیا جاتاہے۔ وہ ملک یا علاقہ جو کسی دوسری قوت کے تابع (کنٹرول میں) ہو اسے آزاد تسلیم نہیں کیا جاتا‘ یا اگر کسی اور وجہ سے اسے جواز (legitimacy) سے محروم تصور کیا جاتا ہو تب بھی اسے تسلیم نہیں جاتا اور یہ سلسلہ صدیوں پر محیط ہو سکتا ہے۔ فاک لینڈ پر انگلستان کے قبضے کو ڈیڑھ سو سال سے زیادہ ہونے کے باوجود‘ ارجنٹائن نے اسے آج تک قبول نہیں کیا۔ روس‘چین‘ تائیوان سب ان مراحل سے گزرے ہیں۔ جموںو کشمیر کے دو تہائی حصے پر بھارت کا قبضہ ہے مگر نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر جانے کی وجہ سے صرف قبضے کی بنیاد پر اسے قانونی جواز حاصل نہیں ہوگا۔ اسرائیل کے تسلیم کیے جانے کے سلسلے میں بھی سب سے پہلا اصولی‘ قانونی‘اخلاقی اور سیاسی سوال یہی ہے کہ کیا اسرائیل ایک مبنی برحق ’’جائز‘‘ (legitimate) ریاست ہے؟اس کے عملی وجود (de facto existence) سے توکوئی انکار نہیں کرتا۔ جس طرح صدیوں پر محیط برطانوی‘ فرانسیسی‘ اطالوی‘ ہسپانوی‘ ولندیزی اور دوسرے استعماری طاقتوں کے وجود کا انکار نہیں کیا جا سکتا یا جس طرح جنوبی افریقہ میں سفیدفام پورپیوں کی نسلی ریاست (apartheid state) کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ان ریاستوں کو محض قبضے اور اقتدار کی وجہ سے جائز تسلیم نہیں کیا گیا اور بالآخر حالات کی تبدیلی سے آزاد قومی ریاستیں وجود میں آئیں جن کو یواین چارٹر کے تحت سندِجواز حاصل ہوئی۔
ارضِ فلسطین بنی اسرائیل کا اصل مسکن نہ تھا۔ یہ اس سرزمین پر ۱۳ سو برس قبل مسیح میں داخل ہوئے اور ۲۰۰ سال کی کش مکش کے بعد اس پرقابض ہوگئے۔ دو بار یہ اس سرزمین سے بے دخل کیے گئے۔ ۱۳۵ء میں رومیوں نے بنی اسرائیل کو ارضِ فلسطین سے مکمل طور پر نکال باہر کیا۔ گذشتہ ۶ ہزار سال کی تاریخ میں شمالی فلسطین میں بنی اسرائیل کا قیام چار پانچ سو برس اور جنوبی فلسطین میں کل آٹھ نو سو برس رہا جبکہ عرب شمالی فلسطین میں ڈھائی ہزار سال سے اور جنوبی فلسطین میں تقریباً ۲ ہزار سال سے مسلسل آباد چلے آ رہے ہیں۔
ارضِ فلسطین پر یہودیوں کے دعوے کی بنیاد بائبل میں درج نام نہاد الٰہی وعدے پر ہے جسے زیادہ سے زیادہ ایک خیالی مفروضہ (myth) قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس تصوراتی استحقاق کی بنیاد پر انیسویں صدی کے آخر میں یورپ کے دولت مند اور سیاسی طور پر طالع آزما یہودی قیادت نے فلسطین میں یہودی ریاست قائم کرنے کے لیے ایک سیاسی تحریک صہیونیت (Zionism) کا آغاز کیا۔ انھوں نے دولت‘ ظلم و تشدد‘ سیاسی جوڑ توڑ اور سامراجی سازشوں کے ذریعے بالآخر عربوں اور ترکوں کو لڑا کر‘ برطانوی انتداب (mandate) کے دور میں اس سرزمین پر اپنے قدم جمائے۔ یوں ۱۴ مئی ۱۹۴۸ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ایک قرارداد کے تحت‘ لیکن دراصل فوجی قوت اور اہل فلسطین کے جبری انخلا اور نسل کشی (genocide) کے ذریعے‘ اسرائیل کے قیام کا ہدف حاصل کیا گیا۔ ایک یہودی دانش ور اور ادیب آرتھر کویئسلر(Arther Koestler) اپنی جوانی میں صہیونیت کے طلسم کا شکار تھا اور جرمنی میں اپنا گھربار چھوڑ کر فلسطین کی صہیونی بستیوں (kibbutz) میں نقل مکانی کرنے والوں میں شامل تھا۔ مگر جب اس نے بچشم سر اس ظلم کو دیکھا جس کا نشانہ اہلِ فلسطین کو بنایا گیا تو اس نے ایک مختصر جملے میں اس تاریخی ظلم کو یوں بیان کیا:
کیا ستم ہے کہ ایک قوم نے ایک دوسری قوم کو ایک تیسری قوم کا ملک (بڑی فیاضی سے) تحفتاًدینے کا حلفیہ وعدہ کیا۔ (آرتھر کویئسلر‘ Promise and Fulfilment لندن‘ ۱۹۴۹ئ‘ص ۴)
۱۹۱۴ء میں فلسطین میں صرف ۳ ہزار یہودی گھرانے آباد تھے اور پہلی جنگِ عظیم کے بعد وسیع پیمانے پر یہودیوں کو غیر قانونی طور پر ارضِ فلسطین منتقل کرنے کے باوجود فلسطین میں یہودیوں کی کل آبادی صرف ۵۶ ہزار تھی‘ جب کہ اس وقت فلسطینی عربوں کی تعداد ۶ لاکھ ۴۴ ہزار تھی۔ ساری قتل و غارت گری اور تشدد کے باوجود ۱۹۴۸ء میں جب اسرائیل کو جبراً ریاستی حیثیت دی گئی‘ یہودی ارضِ فلسطین میں صرف ۶.۵ فی صد زمین کے مالک تھے اور فلسطین کی آبادی میں ان کا حصہ بمشکل ۳۳ فی صد تھا۔ واضح رہے کہ گذشتہ ۳۰سال میں دنیا کے ۸۰ ممالک سے چن چن کر یہودیوں کو لا کر یہاں آباد کرنے اور خود فلسطینیوں کو ان کے گھربار سے نکالنے اور ان کی بستیوں کی بستیوں کو تاراج کرنے کے ذریعے یہودی آبادی ۱۰ گنا سے زیادہ بڑھا لی گئی تھی۔ اقوام متحدہ کی قرارداد کے ذریعے یہودیوں کو ارضِ فلسطین کا ۵۶ فی صد سونے کی طشتری میں رکھ کر دے دیا گیا اور باقی ۴۴فی صد فلسطینیوں کی آزاد ریاست کو دیا گیا لیکن اسرائیل کے جنگجو گروپوں نے عملاً ۱۹۴۸ء ہی میں ارضِ فلسطین کے ۷۸ فی صد پر بزور قبضہ کرلیا اور پھر ۱۹۶۷ء میں باقی تمام فلسطین بشمول مشرقی بیت المقدس اپنے قبضہ میں لے لیا۔
مقصد یہاں ظلم کی یہ پوری دل خراش داستان بیان کرنا نہیں بلکہ اس تاریخی حقیقت کو نمایاں کرنا ہے کہ اسرائیل ایک حقیقی اور فطری ریاست نہیں جو ایک علاقے میں اس کے رہنے والوں کے حق خود ارادی کی بنیاد پر وجود میں آئی ہو بلکہ ایک چرائی ہوئی (stolen) ریاست ہے جو ایک سرزمین کے اپنے باسیوں کو بے دخل کر کے‘ باہر سے لائے ہوئے افراد (colonisers) کے تسلط کو قائم کرنے سے وجود میں آئی ہے۔ اس ریاست کے قیام کے اس عمل (genesis) کو سمجھے بغیر علاقے میں اس کی نوعیت کو سمجھنا ممکن نہیں۔ یہ مشرق وسطیٰ کی ایک ریاست نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ کے قلب--- فلسطین میں ایک یورپی استحصالی قوم کے تسلط اور غلبے سے عبارت ہے جو بین الاقوامی قانون میں ہر جواز (legitimacy) سے محروم ہے اور رہے گی--- اس کے جواز کی صرف ایک بنیاد ہے اور وہ ہے: جبرکے ذریعے قبضہ (occupation by force) ۔ اور محض قبضے کو کسی بھی ملک کے لیے جوازتسلیم کرنا بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہی نہیں بین الاقوامی امن کے لیے ایک مستقل خطرہ بھی ہے۔
امریکی اخبار انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون (۲۵ جولائی ۲۰۰۳ئ)میں ایک مضمون نگار John V. Whitbeek جو بین الاقوامی قانون کا ماہر ہے موجودہ نام نہاد روڈمیپ کو ایک مغالطہ (illusion) قرار دے رہا ہے۔ اس نے مسئلے کی صحیح تنقیح کی ہے:
"The roadmap builds on a false premise, that the real problem is Palestinian resistance to the 36 years occuption and not THE OCCUPATION ITSELF.
موصوف نے صحیح نتیجہ نکالا ہے کہ مسئلہ فلسطینیوں کی طرف سے تشدد نہیں بلکہ ان کی سرزمین پر اسرائیلی قبضہ ہے۔ جب تک قبضہ ختم نہیں ہوگا امن کا قیام ممکن نہیں۔
جبری تسلط: اسرائیلی یہودی اس علاقے کے اصل باسی نہیں تھے‘ اور آج تک نہیں ہیں۔ انھیں ساری دنیا سے لاکر‘ ملک کے اصل باشندوں کو اپنے گھروں سے بے گھر کر کے ناجائز طور پر‘ محض قوت کے بل بوتے‘ اور استعماری تحفظ کی چھتری تلے دوسروں کے ملک پر غلبہ دیا گیا اور پھر اقوام متحدہ کو استعمال کیا گیا تاکہ کوئی قانونی جواز فراہم کیا جا سکے۔ یہ باہر سے آئے ہوئے اپنے کلچر اور زندگی کو اس علاقے پر مسلط کر رہے ہیں اور صرف قوت کے بل بوتے پر موجود ہیں۔
استصواب کے بغیر: اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد کے ذریعے وجود میں آیا ہے اور وہ بھی اقوام متحدہ کے چارٹر کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے جس کی رو سے صرف کسی علاقے کے لوگ اپنی آزاد مرضی اور استصواب رائے کے ذریعے اپنی آزادی حاصل کرسکتے ہیں۔ چونکہ مسلمان عرب فلسطین کی آبادی کا ۶۶ فی صد تھے اس لیے اقوام متحدہ نے امریکہ‘ برطانیہ اور روس کی ملی بھگت سے استصواب کے طریقے کو ماننے سے انکار کر دیا اور محض اقوام متحدہ کی قرارداد سے فلسطین کو تقسیم کر کے دو ریاستوں کے قیام کی قرارداد منظور کی۔ یہ بھی اس طرح کیا گیا کہ جنرل اسمبلی میں ووٹ کو دو بار موخر کیا گیا۔ اس لیے کہ اس وقت کے ۵۶ ممالک میں سے صرف ۳۰ اس قرارداد کے حق میں تھے‘ ۱۳ خلاف تھے اور ۱۳ غیر جانب دار تھے اور اس طرح دو تہائی اکثریت حاصل نہیں ہو پا رہی تھی۔ دو بار ووٹ موخر کر کے امریکہ اور عالمی صہیونی ایجنسی نے اپنا اثر اور سرمایہ استعمال کر کے تین غیر جانب دار ممالک (ہیٹی‘ فلپائن اور لائبریا--- جو سب امریکہ کے زیراثر تھے) کو تقسیم کی قرارداد کے حق میں ووٹ دینے پر مجبور کیا۔ گویا اقوام متحدہ کے چارٹر کی تین کھلی کھلی خلاف ورزیوں پر یہ قرارداد منظور ہوئی۔ (الف) استصواب کے بغیر ایک ملک کے مستقبل کا فیصلہ (ب) دو بار ووٹ موخر کرنا (ج) تین ملکوںسے زبردستی (under duress) تائید حاصل کرنا (یہ تمام حقائق تاریخ کا حصہ ہیں اور امریکی کانگریس میں اہم ارکان کی تقریروں میں اعتراف کی شکل میں موجود ہیں)۔
قانون اور عالمی آداب کی خلاف ورزیاں یہاں تک ہی محدود نہ تھیں بلکہ قرارداد منظور ہونے سے پہلے اسرائیل کا اپنی قوت سے حاصل کردہ غیر متعین علاقے پر اپنی حکومت کا اعلان اور اس کا امریکہ اور روس دونوں کی طرف سے تسلیم کیا جانا (recognition) بھی قانون اور عالمی آداب کی کھلی خلاف ورزی تھی۔ یہ ہیں تاریخی حقائق--- اور اسرائیل کو تسلیم کرنا اس پورے تاریخی ظلم اور دھاندلی کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔
غیر متعین سرحدیں: اسرائیل وہ واحدملک ہے جس کا قیام‘ وجود اور انحصار آبادی کے مسلسل غیر فطری انتقال‘ تشدد اور قوت کے ذریعے علاقے پر قبضے اور جنگ اور قوت کے ذریعے مسلسل اپنی سرحدوں میں اضافے پر ہے۔ آج بھی اس کی حدود متعین نہیں۔اقوام متحدہ کی قرارداد میں ارضِ فلسطین کا ۵۶ فی صد اسے حاصل ہوا‘ جسے فوج کشی کے ذریعے ۱۹۶۷ء تک ۷۸ فی صد کر لیا گیا۔ ۱۹۶۷ء کی جنگ کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد ۲۴۲ اور ۳۸۳ کے ذریعے جنگ سے قبل کی حدود پر واپسی کے احکام جاری کیے گئے اور ۲۰ سے زیادہ قراردادوں میں اس کا اعادہ کیا گیا مگر اسرائیل نے اسے تسلیم نہیں کیا۔ اب جس روڈمیپ کی بات ہو رہی ہے اس میں عملاً فلسطینیوں کے باقی ماندہ ۲۲ فی صد میں سے بھی تقریباً ۴۰ فی صد عملاً اسرائیل کے قبضے میں ہوگا اور باقی علاقہ جسے ابھی فلسطین اتھارٹی اور ۲۰۰۵ء کے بعد فلسطینی ریاست کہا جائے گا کس مپرسی اور بے چارگی کے عالم میں ہوگا ۔ وہ سارا علاقہ نہ آپس میں مربوط ہوگا اور نہ ایک حصے سے دوسرے حصے میں اسرائیلی چوکیوں سے گزرے بغیر آمدورفت ممکن ہوگی۔ نیز یہ نام نہاد ریاست ہمیشہ فوج سے بھی محروم رہے گی اور اس کی امن عامہ کی دیکھ بھال (policing) اسرائیل کی ذمہ داری ہوگی جس کا اقتدار شاہراہوں اور پانی کے تمام ذخائر پر ہوگا۔
جو لوگ آج اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کررہے ہیں وہ کس چیز کو تسلیم کرنے کے مدعی ہیں--- ہماری نگاہ میں تو اسرائیلی ریاست کا وجود ہی ہرجواز سے محروم ہے لیکن جو اقوام متحدہ کی قرارداد کی بنیاد پر دو ریاستوںکی بات کرتے ہیں ان کو اتنا تو صبر کرنا چاہیے کہ نام نہاد ریاستوں کے حدود تو واضح ہو جائیں۔ لچک دار‘ غیر متعین تبدیل ہونے والی سرحدات (flexible, undefined changing boundries) کی حالت کو تسلیم کرنے کے کیا معنی ہیں؟
یہاں یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ اسرائیل ریاست کی نظریاتی اساس ہی وسعت پذیر حدود (expanding boundries) پر ہے جو امپریلزم کا دوسرا نام اور پورے علاقے کے لیے مسلسل خطرے کا پیغام ہے۔ اسرائیل اور اس کی قیادت نے اس معاملے کو ڈھکا چھپا نہیں رکھا ہے اور علی الاعلان کہا ہے کہ ہمارا ہدف عظیم تر اسرائیل (greater Israel) ہے۔ بن گورین ۱۹۴۸ء میں اس کا اظہار اس طرح کرتا ہے:
عرب اتحاد کا زد پذیر پہلو لبنان ہے۔ اس ملک میں مسلمانوں کی برتری مصنوعی ہے‘ اور اسے بآسانی ختم کیا جا سکتا ہے۔ وہاں ایک عیسائی ریاست بننی چاہیے۔ جس کی جنوبی سرحد Litani ہو۔ ہم اس ریاست کے ساتھ اتحاد کا ایک معاہدہ کریں گے۔ اس طرح سے جب ہم عرب لیجن کی طاقت کو توڑ دیں گے ‘ اور عمان پربم باری کرچکے ہوں گے تو اس کے بعد شام کا سقوط ہوگا۔ اور اگر مصر نے ہم پر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی تو ہم پورٹ سعید‘ اسکندریہ اور قاہرہ کو بم باری کا نشانہ بنائیں گے۔اس طرح سے ہمیں اس جنگ کا خاتمہ کرنا ہے اور یوں ہم اپنے آباواجداد کی طرف سے مصر‘ اسیریہ اور چالڈیہ کا بدلا اتاردیں گے۔ (بن گورین کی ڈائری‘ ۲۱ مئی ۱۹۴۸ئ)
اس سے پہلے عالمی صہیونی تحریک (World Zionist Organization) نے ۱۹۱۹ء میں ورسائی امن کانفرنس (Versailles Peace Conference) کے موقع پر اپنی مجوزہ یہودی ریاست کا جو نقشہ پیش کیا تھا: اس کی رُو سے اسرائیل جن علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے ان میں دریاے نیل تک مصر‘ پورا اُردن‘ پورا شام‘ پورا لبنان‘عراق کا بڑا حصہ‘ ترکی کا جنوبی علاقہ اور مدینہ منورہ تک حجاز کا پورا بالائی علاقہ شامل ہے۔ (D.H Miller: My Diary at the Conference of Paris with Documents, Vol v, p 17)
اصولی طور پر مملکت اسرائیل کی شمالی سرحد میں گولان ہائٹس کو شامل ہونا چاہیے۔ ۱۹۱۸ء میں سلطنت عثمانیہ کے ٹوٹنے‘ اور فلسطین پر برطانیہ کے انتداب کے قیام کے بعد استعماری حکمرانوں کے ایسے عہد میں یک طرفہ فیصلوں کی وجہ سے یہ شامل نہ ہوسکا جو گزر چکا ہے اور اب کبھی نہیں لوٹے گا۔ ہم ان یک طرفہ فیصلوں کے پابند نہیں ہیں…
فلسطین ایک علاقہ ہے جس کا نمایاں جغرافیائی فیچر یہ ہے کہ دریاے اُردن اس کی حدود متعین نہیں کرتا بلکہ اس کے بیچ میں بہتا ہے۔ (ولادیمیر جیبوٹس‘ سولھویں صہیونی کانگرس ۱۹۲۹ء کے موقع پر)
مثال کے طور پر امریکہ کے اعلان آزادی کو لیجیے۔ اس میں علاقائی حدود کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ ہمارے لیے ضروری نہیں ہے کہ ہم اپنی ریاست کی حدود بیان کریں۔(بن گورین کی ڈائری‘ ۱۴ مئی ۱۹۴۸ئ)
صورت حال کو علیٰ حالہ ہی باقی رکھنے سے بھی کام نہیں چلے گا۔ ہمیں ایک ایسی حرکی ریاست قائم کرنا ہے جو توسیع پسند ہو۔ (Ben Gurion in Rebirth and Destiny of Israel, دی فلاسوفیکل پریس‘ نیویارک‘ ۱۹۵۴ئ)
گذشتہ ۱۶ سو برسوں میں ہمارے لوگ ایک ملک اور قوم کی تعمیر اور اس کی توسیع‘ مزید یہودی جمع کرنے اور اضافی آبادیاں قائم کرنے میں مصروف رہے ہیں تاکہ اپنی حدود کو وسیع کریں۔ کوئی یہودی یہ نہ کہے کہ یہ عمل ختم ہوگیا ہے‘ کوئی یہودی یہ نہ کہے کہ ہم منزل کے قریب ہیں۔ (موشے دیان‘ MAARIV ‘۷ جولائی ۱۹۶۸ئ)
ہمارے آباواجداد ان حدود تک پہنچ گئے جو تقسیم کے منصوبے میں تسلیم کیے گئے تھے۔ ہماری نسل ۱۹۴۹ء کی حدو دتک پہنچ گئی۔ اب شش ایام کی نسل سویز‘ اُردن اور گولان ہائٹس تک پہنچ گئی ہے۔ یہ منزل نہیں ہے۔ موجودہ جنگ بندی لائن کے بعد نئی جنگ بندی لائنیںہوں گے۔ یہ اُردن سے شام تک جائیں گے شاید لبنان تک اور شاید وسط شام تک۔ (دی ٹائمز‘ لندن‘ ۲۵ جون ۱۹۶۹ئ)
یہ ہے اسرائیل کا اپنے عزائم اور اہداف کا کھلا کھلا اظہار۔ کیا اس کے بعد بھی اس میں کوئی شک رہ جاتا ہے کہ اپنی فطرت کے اعتبار سے اسرائیل ایک امن پسند ریاست نہیں ایک سامراجی قوت ہے جس کو تسلیم کرنے کے معنی سامراج کو سندجواز دینا ہے۔ ذرا یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ سامراجیت کی تعریف کیا ہے۔ مشہور ویبسٹر ڈکشنری اس کی تعریف یوں کرتی ہے:
امپریلزم: کسی قوم کا اپنے اختیار اور حدود کو توسیع دینے کی پالیسی‘ عمل یا وکالت‘ خصوصاً براہِ راست علاقے حاصل کر کے یا دوسرے علاقوں کی سیاسی اور معاشی زندگی کے اوپر بالواسطہ کنٹرول حاصل کرکے۔ (ویبسٹر‘ نئی کالج ڈکشنری‘ ۱۹۸۱ئ)
مناسب ہوگا کہ اس موقع پر ایسی اسرائیلی ریاست کے بارے میں مغرب کے چند اہم افراد کی آرا اور خیالات کو بھی پیش کر دیا جائے:
اگر ایک ایسی یہودی ریاست کی تشکیلِ نو مناسب ہے جس کا وجود ۲ ہزار سال سے نہ تھا‘ تو ایک ہزار سال مزید پیچھے کیوں نہ جائیں اور کین اینائٹ (cannanite) ریاست کو کیوں نہ دوبارہ قائم کریں۔ یہودیوں کے برخلاف کین اینائٹس اب بھی وہاں ہیں (ایچ جی ویلز)
فلسطین میں بدامنی کا سبب اور واحد سبب صہیونی تحریک اور اس کے ساتھ ہمارے وعدے ہیں۔ (ونسٹن چرچل‘ تقریر دارالعوام‘ ۱۴ جون ۱۹۲۱ئ)
فلسطین میں صہیونی ریاست صرف جبر کے ذریعے قائم کی جا سکتی ہے اور قائم رکھی جاسکتی ہے اور ہمیں اس میں فریق نہ ہونا چاہیے۔ (صدر روزولٹ‘ ۵ مارچ ۱۹۴۵ئ)
یہودی ریاست کے تخیل کی میرے دل میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ میں نہیں سمجھ سکا ہوں کہ اس کی ضرورت کیا ہے۔ اس کا تعلق تنگ نظری اور معاشی رکاوٹوں سے ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ بدی ہے۔ میں ہمیشہ اس کا مخالف رہا ہوں۔ (البرٹ آئن سٹائن‘ ۱۹۴۶ئ)
آیئے غور کریں ۱۹۱۷ء سے اب تک کیا ہوا ہے۔ سیاسی صہیونیوں نے فلسطین کا پورا ملک لے لیا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پوری دنیا نے ایک قوم سے ایک ملک کی چوری میں شرکت کی ہے‘ حمایت کی ہے اور اس پر یقین رکھا ہے۔ زمینیں‘ مکانات‘ رسوم و رواج‘ معیشت‘ غرض جو چیز بھی عربوں کی تھی‘ اس کی جگہ اسرائیلی کنٹرول اور اثر نے لے لی ہے۔ یہاں تک کہ ملک کا نام بھی۔ یہ مفروضہ کہ فلسطین یہودیوں کا وطن ہے اور انھیں ‘ جو ان کا حق ہے‘ اس کو واپس لینے میں ان کی مدد چاہیے‘ اس کا اتنا زوردار پروپیگنڈا کیا گیا ہے کہ جو کوئی فلسطین پر یہودیوں کے قبضے کی حمایت نہ کرے تو اس پر امتیاز کرنے (discrimination) اور یہودیت دشمنی (anti semitism) کا الزام لگ جاتا ہے۔ مگر اس کے باوجود ہمارے لیے صحیح رویہ صرف یہ ہے کہ دوسروں کے جذباتی ردعمل کو نظرانداز کر کے حقائق کو پیش کرنے پر اصرار کریں--- اور اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو پھر اس المناک ناانصافی کا کوئی مستقل اور منصفانہ حل کبھی نہیں ہوگا۔ (جورے پبلی کیشنز‘ لاس اینجلس‘ ۱۹۸۹ئ)
نسل پرست ریاست :بات یہیں تک نہیں۔ اسرائیل صرف ایک سامراجی اور اپنی سرحدوں کو مسلسل بڑھانے والی ریاست ہی نہیں وہ ایک نسل پرست (racist) ریاست بھی ہے۔ اگر دنیا کے کسی حصے میں یہودیوں کی اکثریت ہو اور وہ وہاں ایک یہودی ریاست قائم کرنا چاہیں تو جس طرح دنیا میں ہندو ریاستیں (نیپال)ہیں‘ یا بدھ مت ریاستیں ہیں (تھائی لینڈ‘سری لنکا) یا عیسائی ریاستیں ہیں (بشمول Vatican)‘ اسی طرح اگر ایک یہودی ریاست بھی ہو تو کسے اعتراض ہو سکتا ہے۔ لیکن اسرائیل کی بنیاد یہ نہیں ہے۔ دوسروں کی زمین پر‘ ان کو اپنے گھروں سے بے دخل کر کے‘جبر اور ظلم کے ذریعے ریاست قائم کرنے کے ساتھ دعویٰ یہ بھی ہے کہ یہودی قوم نسلی بنیادوں پر دوسری اقوام سے مختلف اور بالاتر ہے اور دوسرے کم تر ہیں اس لیے یہ ایک بالاتر ریاست کی حیثیت سے ان پر حکمران ہونے کا حق رکھتی ہے۔ یہ بالکل جنوبی افریقہ کی نسل پرستانہ ذہنیت ہے۔ یہ وہ چیزہے جواسرائیل کو اقوام متحدہ کے چارٹر اور انٹرنیشنل چارٹر آف ہیومن رائٹس کے برعکس ایک نسل پرست ریاست بناتی ہے اور علاقے کے تمام ممالک اور اقوام کے لیے خطرہ بناتی ہے‘ جب کہ عسکری اعتبار سے اور ایٹمی صلاحیت سے آراستہ ہونے کی وجہ سے اسے علاقے کے سارے ممالک پر ویسے بھی بالادستی حاصل ہے۔
صہیونی عالمی تحریک کے صدر ڈاکٹر ویزمین نے جو اسرائیل کا پہلا صدر بنا‘ ۱۹۱۸ء میں بالفور اعلان کے ضمن میں جمہوریت کے بنیادی اصول اکثریت اور اقلیت کا مذاق اڑاتے ہوئے عربوں کو حقارت سے مقامی (native) اور یہودیوں کو ان سے صلاحیت (qualititavely) کے اعتبار سے مختلف قرار دیا تھا۔
جمہوری اصول تعداد کو اہمیت دیتا ہے اور خوف ناک تعداد ہمارے خلاف پڑتی ہے‘ اس لیے کہ ایک یہودی کے مقابلے میں پانچ عرب ہیں۔ یہ نظام اس حقیقت کو ملحوظ نہیں رکھتا کہ ایک یہودی اور ایک عرب میں ایک بنیادی فرق ہے جو یہودی کی صلاحیت میں فوقیت پر مبنی ہے۔ موجودہ نظام یہودی کو اسی سطح پر لے آتا ہے جس پر ایک مقامی ہے۔
جب آئن سٹائن نے ڈاکٹر ویزمین سے پوچھا کہ اگر فلسطین یہودیوں کو دے دیا جائے تو پھر عربوں کا کیا ہوگا تو ویزمین نے کہا: کون سے عرب؟ ان کی حیثیت ہی کیا ہے؟
ہمارے ملک میں صرف یہودیوں کے لیے جگہ ہے۔ ہم عربوں سے کہیں گے: باہر نکل جائو۔ اگر وہ یہ نہ مانیں اور مزاحمت کریں تو پھر ہم ان کو طاقت کے زور سے نکال باہر کریں گے۔ (راجر گارودی (The Case of Israel: A Study of Political Zionism, London, 1983)
یہی وہ تصور ہے جس کے تحفظ کے لیے عربوں کو اسرائیل میں دوسرے اور تیسرے درجے کی شہریت کے حقوق بھی حاصل نہیں اور دوسری طرف قانون مراجعت (Law of Return) کے تحت دنیا کے ہر یہودی کو اسرائیل کی شہریت حاصل کرنے کا نسلی اختیار حاصل ہے۔ ابھی ۳۱جولائی ۲۰۰۳ء کو اسرائیل کی پارلیمنٹ نے جو قانون منظور کیا ہے اور جس کی تنسیخ کا مطالبہ اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن نے کیا ہے‘ وہ یہ ہے کہ اگر ایک عرب فلسطین کے مغربی کنارے کا رہنے والا اسرائیل میں کسی عرب خاتون سے جو اسرائیل کی شہری ہے شادی کرتا ہے تو انھیں اسرائیل میں رہنے کا حق نہیں ہوگا۔ یا دونوں الگ الگ رہیں‘ یا اسرائیل کو چھوڑ دیں۔ اس سے زیادہ اس کا کیا ثبوت درکار ہے کہ اسرائیل ایک جمہوری نہیں‘ ایک نسل پرست ریاست ہے اور اس کو تسلیم کرنا انسانیت کے آج تک کے حاصل شدہ اکرام کی نفی ہوگا۔ فرانس کا مشہور مفکر راجر گارودی اسرائیل کے خلاف اپنی چارج شیٹ میں صاف الفاظ میں لکھتا ہے:
۱- اسرائیلی ریاست جہاں قائم کی گئی ہے اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس کا ریکارڈ اسے ان بدترین ریاستوں میں شمار کراتا ہے جن سے اس کے قریبی روابط ہیں: ۱-امریکہ ۲- جنوبی افریقہ ۳- ایل سیلوے ڈور ‘گوئٹے مالا‘ پیراگوئے۔
۲- اسرائیلی ریاست کا بنیادی عقیدہ (سیاسی صہیونیت) یہودی روایت سے پیدا نہیں ہوا۔ وہ صرف مغربی قوم پرستی بلکہ۱۹ویں صدی کی استعماریت سے وجود میں آیا ہے۔ یہ نسل پرستی‘ قوم پرستی اور استعماریت کی ایک شکل ہے۔
۳- یہ ریاست اقوام متحدہ کے ایک غلط فیصلے‘ دبائو اور بدعنوانی کے نتیجے میں قائم ہوئی ہے۔ اور مغرب سے ملنے والے اسلحے اور مال کے زور پر قائم ہے اور ان سب سے بڑھ کر امریکہ کی غیر مشروط اور غیرمحدود مدد پر۔
۴- یہ کوئی مقدس ریاست نہیں ہے۔ (ایضاً، ص ۱۵۷-۱۵۸)
فلسطینی ریاست کی کس مپرسی : اسرائیل کا جو کردار گذشتہ ۵۵ سالوں میں رہا ہے اور جو مظالم وہ اس وقت بھی فلسطینیوںپر ڈھا رہا ہے‘ ان کو نظرانداز کر کے اور فلسطین اتھارٹی کی بے بسی کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کا نام دینا ایک ایسی جسارت ہے جو کوئی شخص بہ قائمی ہوش و حواس نہیں کر سکتا۔ ۲۲ عرب ملکوں میں سے صرف دو (یعنی مصر اور اُردن) نے اعلانیہ طور پر اسرائیل کو تسلیم کیا ہے مگر شدید مجبوری کے تحت۔ ان دونوں نے بھی ایک عرصے سے اپنے سفیروں کو واپس بلایا ہوا ہے۔ رہا معاملہ یاسر عرفات اور فلسطین اتھارٹی کا‘ تو وہ تو ابھی ریاست کے مراحل کے دور دور بھی نہیں اور محض اسرائیل کے چنگل سے نکلنے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔ ان کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات بالکل ایسی ہی ہوگی جیسے کوئی یہ کہے کہ قائداعظم نے برطانوی سامراج کو تسلیم کرلیا تھا کیونکہ جدوجہد آزادی کے مراحل میں وہ انڈین قانون ساز اسمبلی میں شریک ہوگئے تھے۔ فلسطینی آج اپنے حالات کے مطابق سیاسی اور جہادی ہر راستے سے اپنی آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ اسے ’تسلیم کرنا‘ قرار دینا حقائق کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ اور دوسرے ممالک کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ اسرائیل پر جو بھی تھوڑا بہت عالمی دبائو ہو سکتا ہے اسے بھی کسی فیصلہ کن مرحلے سے گزرے بغیر ختم کر دیا جائے۔ یہ اہلِ فلسطین کی جدوجہد آزادی کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔
اسلامی نقطۂ نظر سے: اسرائیل کو تسلیم کرنے کا معاملہ محض ایک ریاست کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا معاملہ نہیں۔ ارضِ فلسطین صرف فلسطینیوں اور عربوں کے لیے اہم نہیں‘ تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے بھی اہم ہے۔ القدس ہمارے لیے حرم کا درجہ رکھتا ہے جہاں مسجد الاقصیٰ اور قبۃ الصخریٰ واقع ہیں اور جو حرم مکہ اور مسجد نبوی کے بعد قبلہ اول کی حیثیت سے دنیا کی تمام مساجد کے مقابلے میں سب سے محترم عبادت گاہ ہے‘ جس کی تقدیس پر قرآن گواہ ہے: سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَاط اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُo (بنی اسرائیل ۱۷:۱) ’’پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجدِحرام سے دور کی اس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔ حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ‘‘۔
پاکستان سے دشمنی: پاکستان پہلے دن سے اور خصوصیت سے نیوکلیر صلاحیت کے حصول کے بعد‘ اسرائیل کا ایک واضح ہدف ہے اور بھارت کے ساتھ مل کر اسرائیل اس پورے علاقے اور خصوصیت سے پاکستان کو غیر مستحکم (de-stabilize) کرنے میں عملاً سرگرم ہے۔ بن گورین نے صاف لفظوں میں اسرائیل کے عزائم کو بیان کر دیا تھا‘ کیا ہماری قیادت ان حقائق سے ناآشنا ہے۔ جیوئش کرانیکل کے ۱۹ اگست ۱۹۶۷ء کے شمارے میں بن گورین کا اعلان ان الفاظ میں موجود ہے:
ہماری عالمی صہیونی تحریک کو فوری طور پر ان خطرات کا نوٹس لینا چاہیے جو ہمیں مملکت پاکستان کی طرف سے ہیں۔ اب عالمی صہیونی تحریک کا ہدف اول پاکستان ہونا چاہیے کیونکہ یہ نظریاتی ریاست اسرائیل کی سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے اور اس (پاکستان) کا ہر باشندہ عربوں سے لگائو رکھتا ہے اور یہودیوں سے نفرت کرتا ہے۔ یہ (پاکستان) عرب کا شیدائی ہمارے لیے عربوں سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ چنانچہ صہیونیوںکے لیے ضروری ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف فوری اقدامات کرے۔
اس کے بعد گورین نے بھارت اور اسرائیل گٹھ جوڑ کو سراہتے ہوئے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ ’’چونکہ ہندستان میں بسنے والوں کی اکثریت ہندوئوں کی ہے‘ جن کے دلوں میں صدیوں سے مسلمانوں کے خلاف دشمنی اور نفرت بھری پڑی ہے‘ اس لیے ہندستان ہمارے لیے اہم ترین اڈا ہے‘ جہاں سے ہم پاکستان کے خلاف ہرقسم کی کارروائیاں کرسکتے ہیں۔ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اس نہایت کارآمد اڈے سے پورا فائدہ اٹھائیں اور انتہائی چالاک اور خفیہ کارروائیوں سے پاکستانیوں پر زبردست وار کر کے انھیں کچل کر رکھ دیں۔
ایک دوسرے اسرائیلی وزیراعظم شیمون پیریز نے ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کے واقعے کے بعد نیوزویک کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اور جنرل مشرف اب ایک ہی کشتی کے سوارہیں لیکن ذرا انداز بیان کا تیکھا پن ملاحظہ ہو۔ صدربش کی دہشت پسندی کے خلاف اسٹرے ٹیجی اور اس کے ذیل میں اسرائیل کے گرم جوشی سے حصہ نہ لینے (low profile) کے ضمن میں فرماتے ہیں:
میں نے اسے بتایا ہم تمھاری حکمت عملی سمجھتے ہیں۔ ایک اچھے یہودی لڑکے کی طرح میں نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ میں پاکستان کے صدر مشرف کی حفاظت کے لیے دعا کروں گا۔ یہ ایک بہت ہی زیادہ غیرمتوقع تجربہ ہے۔ لیکن ہم آپ کی حکمت عملی کو سمجھتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ خود اپنا کوئی ایجنڈا وضع کریں۔ (نیوزویک‘ ۵ نومبر ۲۰۰۱ئ‘ ص ۳۳)
اس انٹرویو میں طالبان کے بعد عراق پر حملے کا مشورہ بھی موجود ہے اور واضح رہے کہ پس منظر میں کہوٹہ پر بھارت یا اسرائیل کے پیشگی حملے (pre-emptive strike) کے خدشات بھی موجود ہیں۔
عین اس وقت جب جنرل صاحب اور ان کے ہم نوا اسرائیل کو تسلیم کرنے پر قومی بحث کی بات کر رہے تھے اسرائیل کے سرکاری نمایندے نے اعلان کیا ہے کہ ایریل شیرون ستمبر میں بھارت کا دورہ کریں گے اور یہ کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر لے تب بھی اسرائیل پاکستان کے مقابلے میں بھارت سے تعلقات کو زیادہ اہمیت دیتا ہے (اوصاف‘ لندن‘ ۱۲ جولائی ۲۰۳)۔ اس سے پہلے ۹ جنوری کے دی نیشن میں پیریز کا بیان بھی قابلِ توجہ ہے جو عین بھارت کی لام بندی کے وقت دیا گیا تھا کہ ’’اگر ہندستان کی پاکستان سے جنگ ہوتی ہے تو ہندستان جو بھی فیصلہ کرے گا اسرائیل ہندستان کا ساتھ دے گا‘‘۔ کیا یہی وہ اسرائیل ہے جس سے دوستی اور خیر کی توقعات باندھی جا رہی ہیں ع
دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض!
علامہ اقبال اور قائداعظم کے وژن کی باتیں ہماری قیادتیں بہت کرتی ہیں۔ لیکن کیا ان کو اسرائیل اور صہیونی عزائم اورایجنڈے کے بارے میں اقبال اورقائداعظم کے خیالات اور احساسات کا کوئی پاس ہے۔ علامہ اقبال کو یورپ کے پنجۂ یہود میں ہونے کا مکمل ادراک تھا اور صہیونی دعوے کے بارے میں بڑے واضح الفاظ سے انھوں نے کہا تھا کہ ؎
ہے خاکِ فلسطین پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا
فلسطین کے بارے میں ہمارے موقف کی وضاحت ہمارے نمایندے نے اقوام متحدہ میںکر دی ہے۔ مجھے اب بھی امید ہے کہ تقسیم فلسطین کا منصوبہ مسترد کر دیا جائے گا ورنہ ایک خوفناک کش مکش اور تصادم ناگزیر اور لازمی امر ہے۔ یہ کش مکش محض عربوں اور تقسیم کا منصوبہ نافذ کرنے والوں کے درمیان نہ ہوگی بلکہ پوری اسلامی دنیا اس فیصلے کے خلاف بغاوت کرے گی کیونکہ ایسے فیصلے (اسرائیل کے قیام) کی حمایت نہ تو تاریخی اعتبار سے کی جا سکتی ہے اور نہ سیاسی اور اخلاقی طور پر۔ ایسے حالات میں پاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ ہوگا کہ عربوں کی مکمل اور غیرمشروط حمایت کرے اور (عربوں کے خلاف) اشتعال اور دست درازیوں کو روکنے کے لیے جو کچھ بھی اس کے بس میں ہو‘ پورے جوش اور جذبے اور طاقت سے بروے کار لائے۔
۱۹۳۳ء سے ۱۹۴۸ء تک قائداعظم کے کم از کم ایک درجن بیان اور خود امریکی صدر ٹرومین کے نام ان کا خط اسرائیل کے خلاف ان کے موقف کا منہ بولتا اعلان ہے۔ لیکن ہماری قیادت کا حال یہ ہے کہ آنکھیں ہیں مگر دیکھتی نہیں‘ کان ہیں مگر سنتے نہیں‘ اور دل ہیں کہ سوچنے کی زحمت ہی نہیں کرتے۔
اسلام نے خارجہ سیاست کے جو اصول دیے ہیں ان کی روشنی میں بھی ہمارے لیے اس امر کا کوئی جواز نہیں کہ اسرائیل جو ایک کھلی کھلی جارح قوت ہے اور ہمارے کلمہ گو بھائیوں اور مظلوم انسانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے ہم کسی موہوم مفاد کی خاطر اس ہمہ گیر خون خرابے کے لمحے اسے سندجواز فراہم کریں اور فلسطین‘ عرب اور دنیا بھر کے مسلمانوں اور مظلوم عوام سے اپنے کو کاٹ لیں۔ عرب عوام ہمارے اصل شریک کاررواں ہیں‘ ہمارے ہم راہی وہ حکمران اور مفادپرست عناصر نہیں جن کو اُمت کا مفاد عزیز نہیں اور جو مغرب کے آقائوں کی خوشنودی کو اپنی معراج سمجھتے ہیں۔
حال ہی میں فلسطین میں جو سروے ہوا ہے اس کی رو سے آبادی کا ۹.۸۷ فی صد الاقصیٰ انتفاضہ کے حق میں ہیں۔ ۳.۶۵ فی صد اسرائیل کے علاقوںمیں اور ۵.۶۰ فی صد مقبوضہ غربی حصوں میں عسکری اورجہادی اقدام کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ ۹.۵۹ فی صد خودکش حملوں کے حق میں ہیں۔ ابومازن کو جن کا اعتماد حاصل ہے وہ آبادی کا صرف ۸.۱ فی صد ہیں اور ۸.۶۷ فی صد کا خیال ہے کہ موصوف کو وزیراعظم صرف بیرونی دبائو میں بنایا گیا ہے البتہ ۹.۵۱ فی صد کا خیال ہے کہ موجودہ حالات میں مسئلے کا حل دو آزاد ریاستوں کے قیام کی شکل میں ممکن ہے بشرطیکہ فلسطین کی ریاست بھی حاکمیت کے معیار پر پوری اترے اور اپنے معاملات کی خودمختار ہو (امپیکٹ انٹرنیشنل‘ مئی ۲۰۰۳ئ‘ ص ۱۳)۔ لیکن ظاہر ہے کہ فی الحال ایک ایسی فلسطینی ریاست کے قیام کا امکان دُور دُور تک نظر نہیں آتا۔ ایسے حالات میں اپنے اصولی موقف سے ذرا سا بھی ہٹنا حد درجہ تباہ کن ہوگا۔ ان حالات میں ہمارا کام اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کر کے اس کے ہاتھ مضبوط کرنا نہیں‘ --- اپنے مظلوم بھائیوں اور بہنوں کی ہر ممکن مدد اور ان کی حوصلہ افزائی ہے۔ قرآن تو صاف کہتا ہے:
لاَ یَنْھٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْھُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَیْھِمْط اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ o اِنَّمَا یَنْھٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ قٰتَلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَاَخْرَجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ وَظٰھَرُوْا عَلٰٓی اِخْرَاجِکُمْ اَنْ تَوَلَّوْھُمْج وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَo (الممتحنہ۶۰:۸-۹) اللہ تمھیں اِس بات سے نہیں روکتا کہ تم اُن لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتائو کرو جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ وہ تمھیں جس بات سے روکتا ہے وہ تو یہ ہے کہ تم اُن لوگوں سے دوستی کرو جنھوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نکالا ہے اور تمھارے اخراج میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے۔ اُن سے جو لوگ دوستی کریں وہی ظالم ہیں۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
کسی ملک اور حکومت کی خارجہ پالیسی کی کامیابی یا ناکامی کو جانچنے کے دو ہی پیمانے ہوسکتے ہیں--- ایک ملکی اور ملّی مفادات کا موثر تحفظ اور مطلوبہ مقاصد و اہداف کا حصول اور دوسرے عالمی برادری میں ساکھ‘ دوستوں اور حلیفوں کی تعداد میں اضافہ اور دشمنوں اور مخالفین میں کمی یا کم از کم ان کے شر کی تحدید۔ ویسے تو ہماری خارجہ پالیسی کبھی بھی بہت کامیاب نہیں رہی البتہ جنرل ایوب کے دور میں امریکہ کی حاشیہ برداری کے آغاز سے تو ہم نے اپنے ایک آزاد اور دنیا کے سب سے بڑے مسلم ملک کی اپنی حیثیت اور مقام و مرتبے کو نظرانداز کر کے امریکی نقشے میں رنگ بھرنے والے ایک خادم کی حیثیت سے اپنے اثرونفوذ اور کارفرمائی کے امکانات کو بہت محدود کر لیا۔ اس طرح دوسروں پر انحصار اور محتاجی ہمارا مقدر بن گئی جس کا سب سے تکلیف دہ نشیب ۱۹۷۱ء کی شکست اور نصف ملک سے محرومی تھا۔
اس تاریک ریکارڈ کے باوجود گذشتہ پچاس سالہ خارجہ سیاست میں کچھ روشن پہلو بھی رہے جن میں اُمت مسلمہ کے مسائل کے بارے میں ہمارا کردار‘ چین سے دوستی‘ برطانوی اور فرانسیسی استعمار کے خلاف مسلمان اور دوسرے ممالک کی جنگ آزادی میں معاونت‘ افغانستان میں روسی جارحیت کے مقابلے میں برادر ملک کے عوام سے تعاون‘ وسط ایشیا کے مسلمان ملکوں کی آزادی میں کردار‘ اور بوسنیا اور کوسووا کے مظلوم مسلمانوں کی مدد نمایاں ہیں۔
۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد سے جو پالیسیاں جنرل پرویز مشرف کی قیادت میں اختیار کی گئی ہیں اور جن کا سلسلہ دستور کی نامکمل بحالی اور جمالی حکومت کے قیام کے باوجود جاری بلکہ روز افزوں ہے‘ اس کے نتیجے میں ملک بیرونی دبائو اور اندرونی انتشار کے ایک ایسے دور میں داخل ہوگیا ہے جو تاریک ترین ہونے کے ساتھ مستقبل کے لیے اپنے اندر بڑے خطرات لیے ہوئے ہے۔ یہ ناکامی اور نامرادی کی ایک ہولناک تصویر پیش کر رہا ہے۔ اگر ایک طرف بے اصولی‘ تضادات اور ایڈہاکزم کا وہ منظرہے جو قلابازیوں اور یو ٹرنز کا ریکارڈ قائم کر رہا ہے تو دوسری طرف ملک نہ صرف یہ کہ دوستوں اور عالمی عوامی تائید سے محروم ہو رہا ہے بلکہ دوسروں پر انحصار ہر دور سے زیادہ ہو گیا ہے۔ خصوصیت سے امریکہ کی حاشیہ برداری نے تو وہ رنگ اختیار کرلیا ہے کہ اب ہماری آزادی‘ حاکمیت‘ نظریۂ حیات‘ تہذیبی تشخص‘ دفاعی صلاحیت‘ معاشی خودانحصاری اور علاقائی مفادات سب معرضِ خطر میں ہیں۔
یہ حالات اس امر کا تقاضا کرتے ہیں کہ خارجہ سیاست کا بے لاگ جائزہ لیا جائے‘ پالیسی سازوں میں اصول اور مفادات دونوں کا واضح ادراک پیدا کیا جائے اور خالص معروضی انداز میں بین الاقوامی اور علاقے کے حالات اور چیلنجوں کی روشنی میں خارجہ پالیسی کی تشکیلِ نو کے خطوط پر قومی اتفاق رائے پیدا کیاجائے۔
بلاشبہہ یہ جائزہ اور تجزیہ زیادہ سے زیادہ معروضی انداز میں ہونا چاہیے۔ اس بارے میں جنرل پرویز مشرف کی یہ بات درست ہے کہ ان معاملات کو جذباتی انداز میں طے نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اگر ایک طرف حقائق کا صحیح صحیح ادراک کیا جائے تو وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ خارجہ پالیسی کی یہ تشکیل صرف اور صرف قومی مقاصد‘ اہداف اور مفادات کے محوری حوالے سے ہونی چاہیے۔ اور اسی کسوٹی پر موجودہ روش کا جائزہ بھی مطلوب ہے۔ یہ کام نہ جذباتی انداز میں ہونا چاہیے اور نہ دوسروں کے دیے ہوئے احکامات اور تصورات کے فریم ورک میں۔ ضروری ہے کہ یہ کام غلامانہ اور مرعوب ذہن کے ساتھ نہ ہو بلکہ صحیح معنی میں آزاد ذہن کے ساتھ اور خود اپنے ملکی اور ملّی مفادات‘ ضروریات اور سب سے بڑھ کر حق و انصاف کے مسلمہ اصولوں سے وفاداری کے جذبے سے ہو۔ نیز پوری قوم اور اس کے سیاسی اداروں اور خصوصیت سے پارلیمنٹ اور میڈیا کی بھرپور شرکت سے ہو۔ جہاں ہم الزام تراشی کو گناہ سمجھتے ہیں‘ وہیں حقائق کے بے لاگ جائزے سے فرار کو بھی ایک قومی جرم تصور کرتے ہیں اور محض پروپیگنڈے کے ذریعے اور کثرتِ تکرار کے سہارے ایک منکر کو معروف بناکر پیش کرنے کو بددیانتی اور قوم سے بے وفائی سمجھتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اخلاص‘ علمی دیانت اور حقائق کی پاسداری کے ساتھ ہر قسم کی مداہنت سے دامن بچاتے ہوئے حالات کا جائزہ لیا جائے اور قوم‘ پارلیمنٹ اور قیادت کو ہمالیہ کی برابری کرنے والی غلطیوں سے بچانے اور پاکستان اور اُمت مسلمہ کی اصل منزل کی طرف پیش قدمی کے لائق بنانے والی پالیسیوں اور اہداف کو دلیل کے ساتھ پیش کیا جائے ع
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
قوم اور قیادت کو اس بات کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ جنرل پرویز مشرف نے ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد امریکی صدر اور وزیرخارجہ کی دھمکی کے تحت جو قلابازی کھائی ہے اس نے ہماری خارجہ پالیسی کو بالکل پٹڑی سے اُتار دیا ہے۔ بش صاحب نے تو بلاشبہہ یہ کہا تھا کہ ’’یا تم ہمارے ساتھ ہو یا دہشت گردی کے ساتھ--- اگر ہمارے ساتھ ہو تو سیدھے سیدھے نہ صرف یہ کہ اپنی زمین اور اپنے ہوائی راستے ہمارے حوالے کر دو بلکہ اپنے دل اور دماغ بھی ہمارے قبضے میں دے دو۔ اگر ایسا نہ کیا تو پھر پتھر کے دور کی طرف واپس جانے کے لیے تیار ہوجائو‘‘۔ صدر بش‘ جن کی پالیسیوں کے اصل کارساز امریکہ کے عیسائی بنیاد پرست اور عالمی صہیونی لابی کے شاطردانش ور اور سیاست کار ہیں‘ دنیا کو ایک نئے امریکی استعمار کے جال میں گرفتار کرنے اور ایک جدید سامراج کے قیام کے لیے سرگرم ہیں۔ عالمی راے عامہ کے برعکس چند ممالک کی قیادتیں جن میں اسرائیل‘ برطانیہ‘ اسپین‘آسٹریلیا اور پولینڈ پیش پیش ہیں اپنے اپنے مخصوص مفادات اور عزائم کی خاطر ان کا ساتھ دے رہی ہیں۔ لیکن اس نئے سامراجی کھیل میں مسلمان ممالک کی قیادت میں سب سے پیش پیش جنرل پرویز مشرف ہیں۔ جن عرب ممالک نے طوعاً و کرہاً امریکہ کا ساتھ دیا ہے انھوں نے کچھ پردہ رکھا ہے لیکن جنرل صاحب کا معاملہ سب سے مختلف ہے۔ انھوں نے سب کچھ دائو پر لگا دیا ہے اور حاصل کچھ بھی نہیں کیا ہے۔ بش صاحب سے شاباشی‘ جرأت مندی کے سرٹیفیکیٹ اور کیمپ ڈیوڈ کی چند گھنٹے کی ملاقات! ان کی گفتار کا جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ ع
انھی کے مطلب کی کہہ رہا ہوں‘ زبان میری ہے بات ان کی
اور اگر پالیسی اوراس کے حاصلات کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ بات جو ’’پاکستان فرسٹ‘‘ کے دعوے سے شروع ہوئی تھی‘ وہ ’’مُش فرسٹ‘‘ سے ہوتی ہوتی ’’بش فرسٹ‘‘ تک پہنچ گئی ہے اور اب عالم یہ ہے کہ جس تین بلین ڈالر کی دھوم تھی اور جنھیں امریکی بجٹ ۲۰۰۴ئ-۲۰۰۵ء سے شروع ہو کر پانچ سال میں نازل ہونا تھا‘ ان کے بارے میں کانگرس میں نیا بل آگیا ہے اور اس رقم کو جہادِ آزادی کا گلا گھونٹنے اور نیوکلیر استعداد کو قابو کرنے سے مشروط کیا جا رہا ہے۔ افغانستان میں جہاں بات صرف ہفتوں میں معاملہ ختم ہونے کی تھی‘ دو سال ہونے کو آرہے ہیں اور امریکہ کے ساتھ ہم بھی دلدل میں پھنسے جا رہے ہیں‘ کابل میں سفارت خانے پر حملہ اور دو ہفتے اس کے بند رہنے کی نوبت آگئی ہے اور پاک افغان سرحد پر کشیدگی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی بلکہ لفظوں کی جنگ کا آغاز ہوگیا ہے اور پاکستان میں تخریب کاری کے ڈانڈے سرحد پار دیکھے جا سکتے ہیں۔
کشمیر ہماری شہ رگ ہے اور اس کے بارے میں ہر مشکل کے باوجود ہم اپنے اصولی موقف پر ڈٹے رہے ہیں‘ اب امریکہ اور اس کے حلیف ہی بھارت کی زبان استعمال نہیں کر رہے بلکہ ساری کہہ مکرنیوں کے باوجود خود جنرل صاحب کی تقاریر اور سفارت کاریوں میں ’’جنگ آزادی‘‘ اور ’’دہشت گردی‘‘ کا فرق مٹتا نظر آرہا ہے۔ امریکہ کی حاشیہ برداری اب اس مقام پر پہنچتی نظر آ رہی ہے جہاں اس کی خوشنودی کی خاطر عراق میں امریکہ اور برطانیہ کے منہ پر ملی جانے والی کالک میں سے اپنا حصہ نکالنے کے لیے پاکستانی فوج کی ترسیل اور فلسطین میں خاک و خون کی ہولی کے گرم ہونے کے باوجود اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں شروع ہو گئی ہیں ع
پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
ان حالات میں اور بھی ضروری ہو گیا ہے کہ خارجہ پالیسی کا بے لاگ جائزہ لیا جائے‘ اہم مسائل کے بارے میں صحیح موقف کو دلائل سے بیان کیا جائے اور قوم اور قیادت دونوں کے باب میں حق نصیحت ادا کرنے کا فرض انجام دیا جائے۔ قرآن نے حق کی شہادت کی یہی ذمہ داری اسلام کے علم برداروں کے لیے لازم کی ہے۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ انصاف کے علم بردار اور اللہ کے لیے سچی گواہی دینے والے بنو‘ اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب‘ اللہ تم سے زیادہ ان کا خیرخواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہشِ نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلوتہی کی تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔(النساء ۴:۱۳۵)
اس وقت پاکستان کی خارجہ پالیسی کو لیا جائے یا داخلہ پالیسی کو‘ اس کا المیہ یہ ہے کہ فوج کی جس قیادت نے ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو اقتدار پر قبضہ کیا تھا وہ اکتوبر ۲۰۰۲ء کے انتخابات کے باوجود اقتدار چھوڑنے اور انتخابی نتائج کو قبول کرنے کو تیار نہیں اور محض جبر‘ قوت اور عسکری طاقت کے غلط استعمال کے ذریعے ملک کی قیادت پر اپنی گرفت اسی طرح جاری رکھنا چاہتی ہے جس طرح اسے فوجی حکمرانی کے دور میں حاصل تھی۔ معاشی ترقی اور مبادلہ خارجہ کے ذخائر میں اضافے کو پالیسیوں کے تسلسل کے لیے بطور دلیل پیش کیا جا رہا ہے اور اس کی کوئی فکر نہیں کہ عملاً معیشت کس بگاڑ کی گرفت میں ہے اور عام آدمی کی زندگی کس تباہی سے دوچار ہے۔ غربت میں اضافہ ہو رہا ہے اور تازہ اعداد و شمار کی روشنی میں اگر آبادی میں اضافہ سوا دو فی صد سالانہ ہے تو غریبوں کی آبادی میں اضافہ دس فی صد سالانہ کی رفتار سے ہے (بحوالہ ڈان‘ ۱۶جولائی ۲۰۰۳ئ‘ ڈاکٹرشاہد جاوید برکی کا مضمون)۔ بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے اور ۱۷ جولائی ۲۰۰۳ء کو شائع ہونے والی UN Human Development Report 2003 کی رو سے Human Development Index کے باب میں پاکستان کی پوزیشن مزید خراب ہوئی ہے۔ چند سال پہلے ہم دنیا کے ۱۹۰ ممالک میں ۱۲۰ نمبر پر تھے جس سے گر کر اس رپورٹ کے مطابق اب ہمارا نمبر۱۴۴ ہے۔ یعنی ۲۴ مزید ملکوں سے ہم پیچھے آگئے ہیں۔ جو ملک سیاسی اور معاشی اعتبار سے اندرونی قوت و استحکام سے محروم ہو‘ وہ بین الاقوامی دنیا میں اچھی ساکھ کا حامل کیسے ہو سکتا ہے۔
محض امریکہ کی قیادت کی خوشنودی خارجہ پالیسی کی کامیابی کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔ امریکہ تو اپنے مفاد میں ہر دور میں اپنے اپنے ملکوں کو تباہ اور کمزور کرنے والے آمروںکی سرپرستی کرتا رہا ہے اور ان سے اپنے مفادات حاصل کرتا رہا ہے۔ ویت نام کے تھیو‘ ڈومینکن ری پبلک کے جنرل ٹروجیلو‘ فلپائن کے مارکوس‘پاناما کے مینویل نوریجو ‘ ایران کے رضاشاہ‘ مصرکے انورالسادات اور حسنی مبارک سے لے کر پاکستان کے فوجی حکمرانوں (ایوب خان سے پرویز مشرف) تک کو امریکہ کی آشیرباد حاصل رہی ہے اور وہ ان کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرتا رہا ہے۔ اس پس منظر میں ۱۱ستمبرکے بعد پاکستان کی خارجہ پالیسی کو جس طرح امریکہ کے مفادات کے تابع کردیا گیا ہے اس سے ملک کی آزادی‘ سالمیت اور نظریاتی تشخص کو شدید خطرہ ہے۔
جنرل صاحب نے پالیسی کی تمام باگ ڈور اپنے ہاتھ میں رکھی ہوئی ہے اور وزیراعظم‘ کابینہ‘ پارلیمنٹ سب غیر متعلق ہو کر رہ گئے ہیں۔ دستور کا جس طرح حلیہ بگاڑا گیا ہے وہ خود ایک المیہ ہے لیکن اس کا نتیجہ ہے کہ خارجہ اور داخلہ دونوں پالیسیوں کی باگ ڈور جنرل صاحب ہی کے ہاتھ میں ہے اور اپنے جن غیرمنتخب پسندیدہ افراد کو چاہتے ہیں اعتماد میں لیتے ہیں اور خود ان کے سیاسی طنبورے کچھ بھی کہتے رہیں وہ وہی کچھ کر رہے ہیں جو خود کرنا چاہتے ہیں اور جس کا سلسلۂ نسب بش انتظامیہ کی خواہشات سے ملتا ہے۔ ایک ماہ میں چار مغربی اور تین عرب ممالک کا دورہ وہ صدر فرماتے ہیں جن کی صدارت کی قانونی حیثیت (legality) بھی معتبر نہیں اور اگر بہ فرض محال اس کو تسلیم بھی کر لیا جائے تب بھی خارجہ سیاست دستور ہی نہیں‘ خود ایل ایف او کے تحت بھی صدر کی ذمہ داری نہیں۔ وزیراعظم اور وزیر خارجہ اور پارلیمنٹ سب غیرمتعلق ہو کر رہ گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے جس طرح ایک فردِ واحد کو دستور میں ترمیم کا حق نہیں دیا جا سکتا اسی طرح خارجہ یا داخلی سیاست بھی کسی ایک فرد کے ہاتھوں میں نہیں چھوڑی جا سکتی۔ پالیسیوں کے افلاس اور حالات کی خرابی کا بڑا سبب پالیسی سازی اور حکمرانی کے اس پورے عمل (process) کا بگاڑ ہے‘ جس کی اصلاح کے بغیر تبدیلی ممکن نہیں۔
اس اصولی بات کے بعد ہم چاہتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف نے اپنے ان سات ملکوں کے دوروں سے قبل‘ ان کے دوران اور ان سے واپسی پر خارجہ سیاست کے سلسلے میں جن بنیادی ایشوز کو اٹھایا ہے ان پر مختصر کلام کریں اور قوم اور پارلیمنٹ کے ساتھ خود ان کو اور ان کے قریبی رفقا کو دعوت دیں کہ اپنے موقف اور اس کے مضمرات پر ازسرنو غور کریں اور ضد اور ہٹ دھرمی کا رویہ ترک کر کے صرف حقائق اور دلیل و برہان کی بنیاد پر پالیسی سازی کے اصول کو تسلیم کریں اور صحیح جمہوری اور قانونی عمل (process) کے ذریعے پالیسیاںبنانے اور ان پر احتساب کا راستہ اختیار کریں۔
ہم نے جنرل صاحب کے امریکہ کے دورے کے بارے میں پہلے بھی لکھا ہے اور ایک بار پھر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ محض ’’درمدح خود می گوید‘‘ سے نہ حقائق تبدیل ہوتے ہیں اور نہ تلخ نتائج پر دھول ڈالی جا سکتی ہے۔
کیمپ ڈیوڈ میں پاکستان کے لیے کیا حاصل کیا جا سکا اور امریکہ کی خوشنودی کے لیے کیا کچھ قربان کر دیاگیا ہے؟ اس کی بیلنس شیٹ کو بہت عرصے تک ٹالا نہیں جا سکتا۔ امریکہ میں پاکستانی جن مصائب کا شکارہیں ان میں کوئی کمی آئی ہے؟ گنٹاناموبے کے عقوبت خانے میں جو پاکستانی آج بھی قید ہیں اور دو سال ہونے کو آرہے ہیں لیکن ہر داد رسی سے محروم ہیں ان کے بارے میں کیا حاصل ہوا؟ کشمیرکے مسئلے پر ہمارے موقف کو کہاں کوئی پذیرائی حاصل ہوسکی اور کہاں ہم خود کشمیرکی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو اس زمرے میں شامل کرنے کے مرتکب ہوئے جو امریکہ اور بھارت نے دہشت گردوں کے لیے مقرر کر رکھا ہے۔ افسوس کہ پہلی مرتبہ برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیرنے امریکی کانگریس کے سامنے اپنے خطاب میں کشمیر اور فلسطین کے حوالے سے terrorists کا لفظ استعمال کیا اوریہ جنرل صاحب کے امریکہ اور برطانیہ دونوں کے دورے کے بعد ہوا۔ تین بلین ڈالر کے معاشی پیکج کی بڑی دھوم ہے لیکن ایک سال کے بعد شروع ہونے اور پانچ سال پر پھیلے ہوئے اس انتظام کا ابھی آغاز بھی نہیں ہوا کہ امریکی کانگرس میں بل آگیا ہے کہ ہر سال صدر امریکہ کو تصدیق کرنا ہوگی کہ:
۱- کشمیر میں تمام ٹریننگ کیمپ بند ہیں۔
۲- لائن آف کنٹرول سے کوئی آر پار نہیں ہو رہا۔
۳- پاکستان جنگ آزادی کے فرزانوں کی کوئی مدد نہیں کر رہا۔
۴- پاکستان کی نیوکلیر استعداد قابو میں ہے اور امریکہ کے احکام کی (یعنی جوہری عدم پھیلائو جس میں خود اپنی صلاحیت کا بہتر کرنا اور up-grading بھی شامل ہے) مکمل پاسداری کی جا رہی ہے۔
جنرل صاحب نے بڑے طمطراق سے کہا تھا کہ امداد غیر مشروط ہے حالانکہ وائٹ ہائوس کے ترجمان نے تین شرائط کا ذکر اس وقت بھی کیا تھا۔ اب ان میں سے جمہوریت کی طرف پیش رفت خارج کر دی گئی ہے اورکشمیر کی ناکہ بندی کی ہر تدبیر شامل کی جا رہی ہے۔
کیا اسی کا نام خارجہ سیاست کی کامیابی ہے؟
جنرل صاحب نے افغانستان پر امریکی فوج کشی کے لیے پاکستان کا کندھا فراہم کرتے وقت کہا تھا کہ امریکہ کا یہ آپریشن مختصر ہوگا اور صرف متعین اہداف تک محدود ہوگا۔ اس کا حشر بھی سب کے سامنے ہے۔ ہزاروں معصوم افغان شہید کیے جا چکے ہیں‘ سیکڑوں شہر اور دیہات بمباری سے تباہ ہوچکے ہیں‘ ملک دوبارہ بدنظمی اور وار لارڈز کے قبضے میں ہے۔ امریکی فوجیوں‘ سرکاری افواج اور عوام کے درمیان مسلسل تصادم ہے اور وہ روز افزوں ہے۔ لیکن اس سے بڑھ کر وہ پاکستان جس کے جہادِ افغانستان میں تعاون کے سبب پوری افغان قوم ممنونیت کے جذبات سے معمور تھی اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہماری سرحدوں پر سکون تھا اور دونوں ممالک میں بھرپور تعاون کی فضا تھی--- وہ سکون درہم برہم ہوگیا ہے۔ ڈیورنڈ لائن کا تنازع ایک بار پھر اٹھ کھڑا ہوا ہے‘ پاکستان کی سفارت خانے پر سنگ باری ہو رہی ہے‘ سرحدوں پر کشیدگی ہے‘ قبائلی علاقے میں فوج لگا دی گئی ہے اور دونوں طرف سے فوجیں صف آرا ہیں۔ امریکی کمانڈر کہہ رہے ہیں کہ ہم ۵۰ فی صد تعاون پر مطمئن نہیںہیں‘ ۱۰۰ فی صد اطاعت مطلوب ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔
اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کرزئی صاحب نے اپنے تازہ انٹرویو میں جنرل صاحب پر بے اعتمادی کا کھل کر اظہار کر دیا ہے۔ لندن کے روزنامہ ڈیلی ٹیلی گراف کو انٹرویو دیتے ہوئے کرزئی صاحب نے کہا ہے کہ ہم پاکستان سے ’’مہذب رویے‘‘ کے متوقع ہیں۔ ان کے الفاظ جنرل پرویز مشرف کی افغان پالیسی کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
پاکستان کو افغانستان کے خلاف جارحانہ اقدامات سے باز رہنا چاہیے اور انتہاپسندوں کی جانب سے سرحدپار حملے بند ہوجانے چاہییں۔ ہم خاموش تماشائی بنے نہیں رہ سکتے۔ کرزئی نے واضح کیا کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف نے ان کو ذاتی طور پر دھوکا دیا۔ انھوں نے کہا کہ ہم پاکستان کے ساتھ دوستی اور افہام و تفہیم کا رشتہ پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔ امریکہ اور پاکستان دونوں کو اس سلسلے میں کوئی شبہہ نہیں ہونا چاہیے کہ یہ پاکستان کے موجودہ رویے کے ساتھ ممکن نہیں۔ (ڈیلی ٹیلی گراف‘ ۱۷ جولائی ۲۰۰۳ئ)
واضح رہے کہ طالبان کے سات سالہ دور میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک بھی سرحدی واقعہ رونما نہیں ہوا تھا اور ڈیورنڈ لائن کے سلسلے میں جو بھی تحفظات دونوں طرف سے ہیں‘ وہ تعلقات کو متاثر کرنے کا ذریعہ نہ بنے۔ لیکن امریکہ کے احکامات کے تحت سرحد کو بند کرنے کا اقدام اور علاقہ غیر میں فوجیں بھیجنے کے نتیجے میں جو صورتِ حال رونما ہوئی ہے وہ بالآخر دونوں برادر ممالک کے تعلقات کو بگاڑنے کا ذریعہ بن رہی ہے۔ جنرل صاحب کے کیمپ ڈیوڈ کے سفر سے دو ماہ قبل پاکستان کے سیکرٹری داخلہ امریکہ سے سرحد بند کرنے کا معاملہ طے کر آئے تھے اور اس پر عمل کا شاخسانہ ہے کہ دوست دشمن میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ افغانستان میں امریکی بری طرح ناکام ہیں اور کوئی بھی ہدف حاصل نہیں کر پائے ہیں۔ شمالی علاقوں کی قیادت اور پشتون عوام میںبعد بڑھ رہا ہے۔ کابل حکومت کا اثر و رسوخ چند شہروں تک محدود ہے۔ امریکہ مخالف رجحانات تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور بیرونی افواج اور ان کے افغان معاونین کے خلاف تحریکِ مزاحمت زور پکڑ رہی ہے۔ افغانستان میں بھارتی اثرات بڑھ رہے ہیں اور اسرائیل بھی قدم جمانے کی کوشش کر رہا ہے۔ بھارت کو جلال آباد اور قندھار تک میں سفارتی دفاتر قائم کرنے کا موقع مل گیا ہے اور وہاں سے پاکستان کے خلاف تخریب کاری کی منصوبہ بندیاں ہو رہی ہیں۔ کبھی جس strategic depthکی باتیں ہو رہی تھیں وہ اب strategic dearth میں تبدیل ہو گئی ہے۔ پاکستانی فوج کی ایک معقول تعداد (ایک اندازے کے مطابق ۵۰ ہزار سے ایک لاکھ) اب شمالی سرحد پر پابند ہوگئی ہے اور ہماری ساری خدمات اور کارگزاریوں کے باوجود کابل کے حکمران اور افغانستان میں امریکی فوجی قیادت دونوں ہم سے ناخوش ہیں‘ افغان عوام تو پہلے ہی کبیدہ خاطر اور مایوس تھے۔ یہ ہے ہماری ۱۱ستمبر کے بعد کی افغان پالیسی کا حشر!
دوسرا بڑا مسئلہ پاک بھارت تعلقات اور مسئلہ کشمیر کے منصفانہ اور پایدار حل کا ہے۔ یہاں جو بھیانک غلطی ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ پہلے دن سے ہم نے ’’terrorism‘‘ کے بارے میں اپنے موقف کی نہ موثر وضاحت کی اور نہ امریکہ اور بھارت سے تعلقات کے سلسلے میں ان کے اور اپنے موقف کے فرق کو تسلیم کرایا۔ آنکھیں بند کر کے تائید کر دی گئی اور اس کا نتیجہ ہے کہ جنیوا میں اقوامِ متحدہ انسانی حقوق کا کمیشن تو اپنے ۲۰۰۳ء کے اجتماع میں یہ کہتا ہے کہ جنگِ آزادی کے مجاہد اپنا الگ مقام رکھتے ہیں اور ان کو دہشت گرد قرار نہیں دیا جا سکتا اور ہم تسلیم کرلیتے ہیں کہ لائن آف کنٹرول سے کوئی نام نہاد دراندازی نہیں ہونے دیں گے اور اپنی زمین کو کسی قسم کی دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ عملاً بھی مجاہدین کے سارے کیمپ ختم کر دیے جاتے ہیں اور مجاہدین کو عملاً دہشت گردوں کے زمرے میں شامل کر دیا جاتا ہے بلکہ جہاد کی بات کو بھی ترک کر دیا جاتا ہے اور وہ فوج جس کا موٹو ہی جہاد فی سبیل اللہ ہے اس کے سربراہ کی زبان جہاد کی بات کرتے ہوئے گنگ ہو جاتی ہے۔
بھارت نے اس صورتِ حال کا پورا فائدہ اٹھایا ہے اور ہم ایک ردعمل کی (reactionary) صورتِ حال کے اسیرہوگئے ہیں۔ بھارت میں امریکی سفیر کھل کر اور غالباً پہلی مرتبہ کشمیر کی جنگِ آزادی کو دہشت گردی اور پاکستان کو اس کا پشتی بان قرار دیتا ہے اور ہمارے احتجاج میں بھی کوئی جان باقی نہیں رہی ہے۔ مذاکرات کی بھیک مانگ رہے ہیں اور اصل ایشوز پر کوئی واضح موقف باقی نہیں رہا ہے۔ جنرل صاحب یہاں تک چلے گئے ہیں کہ کشمیر کے دس بارہ حل کی بات کرتے ہیں اور لچک کے نام پر تجویز دیتے ہیں کہ process of elimination کو بروے کار لایا جائے اور جو حل دونوں کے لیے بالکل قابلِ قبول نہ ہو اس کو ترک کر دیا جائے۔ دوسرے الفاظ میںاگر بھارت یہ کہے کہ استصواب راے اور کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کو ہم تسلیم نہیں کرتے تو یہ راستہ ترک کر دیا جائے۔ اگر اسی کا نام سیاست خارجہ ہے تو پھر ’’کار عقلاں تمام خواب شد‘‘۔
اس تمام ژولیدہ فکری اور سمجھوتہ کاری سے ہم جموں و کشمیر کے عوام کو کیا پیغام دے رہے ہیں--- ان عوام کو جو ۵۵سال سے بھارت کے تسلط کے خلاف صف آرا ہیں‘ جنھوں نے تقسیم کے فوراً بعد تین لاکھ جانوں کی قربانی دی اور جو ۱۹۸۹ء سے جہادِ آزادی کے دورِ نو میں ۸۰ہزار جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں اور بھارت کی سات لاکھ فوجوں کا مردانہ وار مقابلہ کر رہے ہیں اور کسی قیمت پر بھی اس کے قبضے (occuption)کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ اصل ایشو ہی ریاست جموں و کشمیر پر بھارت کے ناجائز اور محض مبنی بر جبر تسلط کا ہے۔ مسئلے کا کوئی حل وہاں کے عوام کی مرضی سے ان کے مستقبل کو طے کرنے کے سوا نہیں ہوسکتا۔ لیکن ہم تعلقات کو معمول پر لانے (normalization) کے فریب میں ایک بار پھر مبتلا ہوگئے ہیں اور اسی سوراخ سے دوبارہ ڈسے جانے کے لیے آمادہ ہیں جس سے ۱۹۴۷ء کے بعد سے برابر ڈسے جا رہے ہیں--- کیا یہی جنرل صاحب کی خارجہ پالیسی کا کارنامہ ہے۔
بلاشبہہ کشمیر کا مسئلہ ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ یہ محض سرحدی تنازع یا زمین کا جھگڑا نہیں۔ سوا کروڑ مسلمانوں کے حق خود ارادیت کا مسئلہ ہے اور جس اصول پر پاکستان قائم ہوا تھا اس کے اطلاق اور تقسیمِ ہند کے نامکمل ایجنڈے کی تکمیل کا مسئلہ ہے۔ یہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور جموں و کشمیر کے عوام کی آزاد مرضی سے ان کی خواہشات کے مطابق حل ہو جائے تو بھارت سے دوستی کے حقوق کے باہمی احترام کی بنیاد پر تعلقات استوار ہونے کے امکانات روشن ہوں گے۔ ہماری دلی خواہش ہے کہ تقسیم کے اصل منصوبے کے مطابق دونوں ملک عزت و احترام سے اپنے تعلقات استوار کریں لیکن جیساکہ چیئرمین چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل عزیزاحمد خاں نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بعد بھی پاک بھارت تعلقات کا انحصار علاقے کے تمام ممالک کی حاکمیت کے احترام پر مبنی ہے۔ اگر بھارت کے رویے اور عزائم پر علاقے میں بالادستی کا بھوت سوار رہتا ہے اور چھوٹے ممالک کو وہ اپنا باج گزار بنا کر رکھنا چاہتا ہے‘ نیز پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی پالیسی پر عامل رہتا ہے جیسا کہ وہ اس وقت کر رہا ہے: بھوٹان اور نیپال کے بعد بنگلہ دیش‘ سری لنکا‘ مالدیپ پر گرفت مضبوط کرنے‘ چین سے بظاہر دوستی استوار کرنے‘ ایران سے تعلقات کا وہ آہنگ جس میں پاکستان کو بائی پاس کیا جاسکے‘ افغانستان میں اثر و رسوخ کا ایسا نظام جس کے ذریعے پاکستان پر دبائو ڈالا جا سکے‘ وسطی ایشیا میں اسرائیل کے ساتھ قدم جمانے کی کوشش‘ امریکہ سے ایسے تعلقات جن کی زد پاکستان پر بھی پڑتی ہو‘ اسرائیل سے اسٹرٹیجک گٹھ جوڑ‘ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کا حصول‘ ایٹمی صلاحیت کا عالمی طاقت بننے کے لیے استعمال‘ عسکری قوت میں مسلسل اضافہ جو علاقے کے فوجی توازن کو تہہ و بالا کر دے--- یہ وہ تمام پہلو ہیں جن کو پاکستان اور علاقے کے دوسرے ممالک نظرانداز نہیں کرسکتے۔
دوستی کے خالی خولی نعرے اور اعتماد بنانے والے نام نہاد حربے علاقائی حقائق کو نہ تبدیل کرسکتے ہیں اور نہ ان سے پیدا ہونے والے خطرات کے مقابلے کی کوئی سبیل پیدا کرسکتے ہیں۔ اس لیے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو ٹھوس حقائق‘ دوسرے ممالک کے عزائم کے حقیقی ادراک اور خود اپنے مقاصد‘ مفادات اور اہداف کی روشنی میں ایک اقدامی پالیسی کے جملہ پہلوئوںکا احاطہ ہی پاکستان کے تحفظ اور ترقی کا ضامن ہو سکتا ہے۔ کیا ہماری خارجہ پالیسی میں ان تمام پہلوئوں کے شعور کی کوئی جھلک دیکھی جا سکتی ہے؟
جنرل پرویز مشرف نے اپنے حالیہ دوروں میں خارجہ پالیسی کے سلسلے میں تین نئے موضوعات کو چھیڑا ہے۔ یہ موضوعات اور ان پر بحث کا یہ وقت دونوںاہمیت کے حامل ہیں۔ بظاہر ان کا مقصد امریکہ کی خوشنودی ہے‘ جو ایک خوش فہمی سے زیادہ نہیں۔ لیکن اگر گہرائی میں جاکر تجزیہ کیا جائے تو یہ دراصل پوری خارجہ پالیسی ہی نہیں‘ پاکستان کے نظریاتی رخ کی تبدیلی کا پیش خیمہ اور اس کے لیے اولیں اقدام ہوسکتا ہے۔ اس لیے گربہ کشتن روزِ اول کے اصول پر یہی وہ وقت ہے کہ ان خطرناک feelers کا سرتوڑ دیا جائے اور پوری قوم کو ان کے خطرات اور مضمرات سے آگاہ کر کے اپنی نظریاتی سرحدوں‘ اپنے سیاسی‘ دفاعی اور تہذیبی وجود کی حفاظت اور تاریخی قومی عزائم کی تکمیل کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کی جائے۔
پہلی چیز کا تعلق دہشت گردی کے نام پر کی جانے والی جنگ میں ہمارے کردار کا ہے۔ جنرل صاحب اور ان کے رفقا نے ملک کو ایک ہیجانی انداز میں ۱۱ستمبر کے واقعے کے بعد‘ اس سانحے کے اسباب اور ذمہ دار افراد کے بارے میں کسی معروضی تحقیق کے بغیر‘ایک ایسی جنگ میں جھونک دیا جس کی کوئی انتہانہیں‘ جس کا کوئی واضح ہدف اور متعین منزل نہیں‘ جس کی قیادت ایک ایسے ملک کے ہاتھ میں ہے جو کسی دوسرے کو خاطر میں نہیں لاتا‘ جس کے اپنے عالمی عزائم ہیں اور جس پر ایک مذہبی بنیاد پرست گروہ چھایا ہوا ہے جو حق و انصاف اور سچ اور جھوٹ سب سے بالا ہوکر محض اپنے مذموم مقاصد کے لیے سب کچھ کرنے پر تلا ہوا ہے۔
ہم نے اپنے کو ایک ایسی جنگ میں جھونک دیا ہے اور اب امریکہ کی دم سے بندھے‘ بے بسی کے عالم میں اس کے پیچھے پیچھے گھسٹ رہے ہیں اور کیفیت یہ ہے کہ ع
نے ہاتھ باگ پر ہے‘ نہ پا ہے رکاب میں
امریکہ دہشت گردی کے عنوان کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ اسامہ بن لادن پہلا ہدف تھا مگر اس پر کوئی جرم ثابت کیے بغیر اعلانِ جنگ کر دیا گیا۔ وہ آج تک نہیں پکڑا گیا مگر اس کے نام پر دوسرا سال ہے کہ ایک عالمی جنگ کا بازار گرم ہے۔ طالبان نے کوئی جرم نہیں کیا تھا مگر اسامہ کو پناہ دینے کے الزام پر ان پر فوج کُشی کی گئی اور اب افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی خدمت انجام دی جا رہی ہے اور ایک ایسا ملک‘ جو چاہے غریب اور غیرترقی یافتہ تھا مگر آزاد اور پُرامن تھا‘مسلسل جنگ اور خانہ جنگی کی آگ میں جھونک دیا گیاہے اور پاکستان اور افغانستان کو بھی ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کر دیا گیا۔ ملاعمر اب بھی گرفت سے باہر ہیں اور طالبان کا ہّوا سروں پر منڈلا رہا ہے۔ عراق پر صریح جھوٹ اور اب خود اپنے اعتراف کے مطابق محض راے عامہ کو ساتھ ملانے کے لیے غلط اور بے بنیاد الزامات کو ہوا دے کر حملہ‘ ملک کی تباہی اور اس کے وسائل پر قبضے کا ڈراما رچایا گیا ہے۔ شمالی کوریا پردبائو جاری ہے‘ ایران اور شام پر بندوقیں تانی جا رہی ہیں‘ اسرائیل کو کھل کھیلنے کا ہر موقع دیا جا رہا ہے اور صاف نظر آ رہا ہے کہ چند مغربی اقوام (برطانیہ‘ اسپین‘ آسٹریلیا‘ پولینڈ) کے علاوہ بھارت اور اسرائیل اس نام نہاد جنگ سے مستفید ہونے والے (beneficiaries)اصل فریق ہیں۔ البتہ ہم دم چھلے کی طرح امریکہ کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ اخلاقی‘ مالی‘ سیاسی‘ ہر اعتبار سے نقصان اٹھا رہے ہیں مگر امریکہ سے نتھی ہیں۔
اس سے بھی زیادہ خطرناک وہ نظریاتی جنگ ہے جو اسلام‘ اور اس کے دین و دنیا اور مذہب اور ریاست کی یک جائی کے تصور کے خلاف امریکی دانش وروں اور سیاست کاروں نے شروع کی ہوئی ہے۔ ’’سیاسی اسلام‘‘ کو ہدف بنایا جا رہا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ ایسا اسلام تو قبول ہے جو گھر اور مسجد تک محدود ہو لیکن اسلام کا یہ تصور کہ زندگی کے پورے نظام کو اللہ کی ہدایت کی روشی سے منور کیا جائے‘ قابلِ قبول نہیں۔ اس تصورِ دین کا نام بنیاد پرستی‘ انتہاپرستی‘ رجعت ‘ جہادی کلچر اور دہشت گردی رکھا گیا ہے۔ دینی تعلیم کا نظام اس تصور کامنبع ہے اس لیے اس نظام کی تبدیلی نئی صلیبی جنگ کا ہدف ہے۔
اس نظریاتی جنگ میں بھی معلوم ہوتا ہے کہ جرنیل پرویز مشرف صدر بش کے ہم رکاب ہیں اور اس پورے سفر میں اسلام کے ایک ترقی پسند اور لبرل تصور کے داعی کے طور پر اُبھرے ہیں۔ یہ وہی راستہ ہے جو استعمار کے پہلے دور میں ماڈرن اسلام کے نام پر اختیار کیا گیا تھا اور جسے اُمت نے علامہ اقبال‘ جمال الدین افغانی‘ محمد علی جوہر‘ ابوالکلام آزاد‘ سید مودودی‘ حسن البنا شہید‘ سعید نورسی‘محمدعبدہ‘ رشید رضا‘ مالک بن نبی اور سید قطب جیسے مفکرین اور مجاہدین کی سرکردگی میں دفن کر دیا تھا۔ شیطان اپنے اسی حربے کو ایک بار پھر اختیار کر رہا ہے اور افسوس ہے کہ جنرل پرویز مشرف غالباً سوچے سمجھے بغیر اور تمام عواقب و مضمرات کا ادراک کیے بغیر اس صلیبی جنگ میں بھی شریک ہوگئے ہیں اورترقی پسند اسلام کو بھی خارجہ پالیسی کا ایک نظریاتی ستون (plank) بنانے کا خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں۔ یہ ایک المناک غلطی ہے۔ پاکستان کے عوام اور اُمت مسلمہ اس تصور کو بار بار رد کر چکی ہے اور خود پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی سیکولر عناصر نے یہ بازی کھیلی ہے انھیں بری طرح شکست ہوئی ہے۔
اسلام وہی ہے جو قرآن و سنت کے ذریعے اس اُمت کو ملا ہے اور جب تک قرآن و سنت محفوظ ہیں اور ان کی حفاظت کی ضمانت خود زمین و آسمان کے مالک نے دی ہے‘ اسلام کے چہرے کوکوئی مسخ نہیں کر سکتا اور نہ اس کے جسم پر کوئی دوسرا چہرہ نصب کرسکتا ہے۔ البتہ اس کوشش کا ایک نتیجہ ضرور نکل سکتا ہے اور وہ ہے ملک و ملّت کے درمیان نظریاتی کش مکش اور تصادم اور قوم کی صلاحیتوں کا ضیاع۔ ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ جنرل صاحب اس لاحاصل تصادم سے اپنے کو بھی بچائیں اور قوم کو بھی اور امریکہ کی خوشنودی کی خاطر اسلام میں تراش خراش اور ایک قابلِ قبول وژن تیار کرنے کی کوشش نہ کریں اور یاد رکھیں کہ ؎
نورِ حق ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاھِھِمْط وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ o (الصف۶۱:۸)
یہ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔
تاریخ گواہ ہے کہ اسلام پر جو بھی ضرب لگی ہے اور اُمت کو جس نشیب سے بھی سابقہ پیش آیا ہے‘ اسلام پھر قوت بن کر اُبھرا ہے اور اُمت نئے فراز سے شادکام ہوئی ہے ؎
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ اُبھرے گا‘ جتنا کہ دبا دیں گے
دوسرا شوشہ جو اس زمانے میں چھوڑا گیا ہے‘ وہ عراق میں امریکہ کی دعوت پر اور ان کی مدد کے لیے پاکستانی افواج کو بھیجنے کا ہے۔ ستم ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے کسی مشورے‘ کسی قومی مشاورت‘ کسی پارلیمانی بحث کے بغیر اس سے ’’اصولی اتفاق‘‘ کااعلان بھی کر دیا اور صرف ’’مصارفِ لام بندی‘‘ اور کمانڈ کی بات کر کے مسئلے کو الجھانے کی کوشش کی۔
بات بہت صاف ہے۔ اگر پاکستانی فوج محض بھاڑے کے ٹٹو کی حیثیت رکھتی ہے اور وہ ایک آزاد اور اسلام کی علم بردار قوم کی وہ فوج نہیں جو ایمان‘ تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ کے آدرش کی دین ہے تو وہ اسے جہاں چاہیں بھیجیں اور جس جہنم میں جھونکنا چاہیں جھونک دیں لیکن نہ پاکستان کی فوج کسی ایسے بکائو مال (mercenaries)کا طائفہ ہے اور نہ پاکستانی قوم ایسی بے ضمیراور بے غیرت قوم ہے کہ اپنے شاہینوں کو امریکہ کی ایک ناجائز جنگ کی آگ میں جھونکنے دیں۔ یہ فوج کسی کی ذاتی جاگیر نہیں کہ جہاں چاہے بھیج دے اور جس جنگ کا چاہے اسے ایندھن بنا دے۔ ایک مسلمان فوج اور ’’ضمیرفروشوں‘‘ میں یہی فرق ہے کہ وہ حق کے لیے تو جان کی بازی لگا دیتی ہے لیکن محض پیسے کی خاطر ظالموں کا آلہ کار نہیں بنتی۔ مولانا محمد علی جوہر نے خوب کہا تھا کہ ؎
مصلحت کوش مری فطرت پاکیزہ نہ تھی
قول انشا کو کبھی حکمِ الٰہی نہ کہا
گر یہی میری خطا ہے تو خطا کار ہوں میں
میں نے شمشیرفروشوں کو سپاہی نہ کہا
عراق کی جنگ کی حقیقت کونظرانداز کر کے‘ اور آج عراق میں جو کھیل امریکہ کھیل رہا ہے اور اس کی جو قیمت اسے ادا کرنا پڑ رہی ہے اس کے ادراک کے بغیر محض جناب بش کے ارشاد عالی کی تعمیل میں اپنی فوج بھیجنے اور اسے اصولی طور پر ایک صحیح بات کہنے کی جسارت وہی شخص کر سکتا ہے جو یا حالات کا کوئی ادراک نہ رکھتا ہو یا پھر قوم اور فوج دونوں کو دھوکا دینے کی جسارت کر رہا ہو۔
۱- یہ جنگ امریکی قیادت کے ہوسِ انتقام اور سامراجی عزائم کی جنگ ہے جس کی ساری دنیا کے عوام نے مخالفت کی‘ ڈیڑھ سو سے زیادہ ممالک نے اس میں شرکت سے انکار کیا‘ دنیا کی آبادی کے ۹۰ فی صد نے اسے ناجائز قرار دیا‘ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے بھی امریکہ اس کی تائید حاصل نہ کر سکا اور اس کے سہارے ایڑی چوٹی کے زور لگا دینے کے باوجود جنگ کے بعد بھی اسے سلامتی کونسل سے جواز نہ مل سکا اور کونسل نے اپنی قرارداد ۱۴۸۳ کے ذریعے امریکہ اور برطانیہ کو قابض طاقت (occupying power) قرار دیا۔ ایسی ناجائز اور بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی کی جانے والی فوج کُشی میں شرکت کا کوئی قانونی‘ اخلاقی اور سیاسی جواز ممکن نہیں۔
۲- جنگ کے بعد اب اس بات پر خود امریکہ اور برطانیہ میں کھلے بندوںاحتساب ہورہا ہے کہ جنگ کے لیے جن وجوہ کو سندِجواز بنایا گیا تھا وہ محض کذب اور دھوکے پر مبنی تھیں اور امریکی اور برطانوی قیادت نے اپنی پارلیمنٹوں اور اپنے عوام کو صریح دھوکا دیا۔ بش صاحب کی جنوری ۲۰۰۳ء کی State of the Nation تقریر جھوٹ پر مبنی تھی اور یہی حالت اس قرارداد کی تھی جو برطانوی پارلیمنٹ میں منظور کرائی گئی۔ دونوں ملکوں میں اب عوام اور سیاسی قوتیں احتساب اور جواب دہی کی بات کر رہی ہیں اور راے عامہ کے جائزوں میں قیادت کی ساکھ برابر روبہ زوال ہے۔ جنگ کے مبنی برباطل ہونے کے ان واضح اعترافات کے باوجود یہ سوچنا بھی ایک گناہ اور انسانیت کے خلاف ظلم ہے کہ ایسی جنگ برپا کرنے والوں کی معاونت کے لیے ایک مسلمان ملک کی فوج بھیجی جائے۔
۳- عراق میں یکم مئی کو جنگ کے خاتمے کے اعلان کے بعد بھی امریکی اور برطانوی فوج کو شدید مزاحمت کا سامنا ہے جو روز بروز بڑھ رہی ہے۔ امریکہ کے ۱۵۰ سے زیادہ فوجی مارے جا چکے ہیں اور برطانیہ کے ۳۰ سے زائد۔ فوج میں شدید بے چینی ہے اور ہر میت جو امریکہ یا برطانیہ جا رہی ہے ایک کہرام کو جنم دے رہی ہے۔ امریکہ کے ایک لاکھ ۴۸ ہزار فوجی عراق میں اسیر ہیں اور وہ ان میں سے بیشتر کو جلد از جلد واپس بلانا چاہتا ہے اور ان کی جگہ بھاڑے کے ٹٹوں کو عراقی عوام کی مزاحمت کا نشانہ بنانا چاہتا ہے۔ برطانیہ نے اپنے ۱۷ ہزار فوجیوں کے لیے مزید کمک بھیجنے سے انکار کر دیا اور امریکہ اس کے تھرڈ ڈویژن کو واپس بھیجنے اور متبادل افواج کو لانے کو مشکل پا رہا ہے۔ اس نے فرانس سے فوج طلب کی جس نے انکار کر دیا۔ بھارت سے طلب کی اس نے انکار کر دیا۔ پاکستان سے طلب کی اور وہ جرأت انکار سے بھی محروم ہے اور چور دروازے تلاش کر رہا ہے۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ ایک ناحق جنگ‘ ایک ظالمانہ اور سامراجی جنگ اور ایک ایسی صورت حال میں جہاں ایک مسلمان عرب ملک پر امریکہ قابض ہے اس بات کا تصور بھی کیسے کیا جا سکتا ہے کہ اس خونی کھیل میں اپنے فوجیوں کو جھونک دیا جائے۔ کہا جا رہا ہے کہ اگر عراقی عوام درخواست کریں یا وہاں کی امریکہ کی نامزد کونسل درخواست کرے تو غور کرسکتے ہیں۔ کونسل ایک امریکی نامزد ادارہ ہے جس میں اعلیٰ اختیار عراق کے نئے امریکی وائسرائے پال بریمر کو حاصل ہے۔ امریکہ نے عراق کے انتظام کو اقوامِ متحدہ کے حوالے کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ وہاں فوجی اور سیاسی دونوں نظام دونوں امریکہ کے تحت ہیں۔ ایسے حالات میں کسی آزاد اور غیرت مند ملک کے لیے ممکن نہیں کہ اپنی فوج وہاں بھیجے۔ بھارت نے پوری جرأت کے ساتھ انکار کر دیا لیکن ہماری قیادت حیص بیص کا شکار ہے۔
۴- تمام تجزیہ نگار اس بات کا اب کھل کر اظہار کر رہے ہیں کہ عراق میں ایک قومی تحریک مزاحمت وجود میں آگئی ہے۔ امریکہ ویت نام جیسے حالات سے دوچار ہونے کے خطرات سے بچنے کے لیے دوسروںکو اس آگ میں جھونکنے کے لیے دوڑ دھوپ کر رہا ہے۔ ولیم شوکراس نے لندن کے اخبار ایوننگ اسٹینڈرڈ کی ۲۵مارچ ۲۰۰۳ء کی اشاعت میں جنگ سے پہلے ہی اس کی پیش گوئی کر دی تھی اور اب عالم گیریت کے مطالعے کے ییل مرکز کے ایک مطالعے میں جو یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا برکلے کے پروفیسر آر ویل اسکیل نے مرتب کیا ہے صاف لفظوں میں کہا گیا ہے کہ:
ہمارا واسطہ ایک منتشر بھوت سے ہے جو دہشت گردی اور گوریلا جنگ سے مل کر بناہے۔ اس کا صفایا کرنا ہندچینی میں ہمارا جن گوریلا فوجوں سے واسطہ پڑا تھا‘ اس سے زیادہ سخت ہوگا۔ (ایشین ایج‘ لندن‘ ۲۱ جولائی ۲۰۰۳ئ)
کیا اس جہنم میں ہم محض امریکیوں کے نقصانات کم کرنے کے لیے اپنے مجاہد فوجیوں کو بھیجنے کے مرتکب ہو سکتے ہیں۔
۵- عراق میں خود امریکیوں نے جس گورننگ کونسل کو نامزد کیا ہے اس تک نے اپنے پہلے ہی اجلاس میں امریکہ کے سارے دبائو کے باوجود صدر بش کا شکریہ ادا کرنے اور اسے عراق کا نجات دہندہ قرار دینے سے انکار کر دیا اور عراق کی سڑکوں اور گلیوں میں جو نعرے لگائے جارہے ہیں وہ امریکی کالم نگار نیل میک فرگوارہر کے بیان کے مطابق یہ ہیں:
"No to America! No to Colonialism
No to Tyranny! No to Devil".
(نیویارک ٹائمز‘ ۲۲ جولائی ۲۰۰۳ئ)
یہ ہے عراق کی عوامی فضا ۔ ہم کس کا ساتھ دینا چاہتے ہیں--- عوام کا یا ان پر تسلط حاصل کرنے والی امریکی افواج اور اس کی نامزد انتظامیہ کا؟
۶- ہمیں ان تاریخی حقائق کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ برطانوی استعمارکے دور میں پہلی جنگ کے بعد برطانیہ کی افواج میں شامل برعظیم کے سپاہیوں نے عراق کے لوگوں پر گولیاں چلائی تھیں اور جہادِ آزادی کے متوالوں کو کچلنے کی جنگ میں برطانوی استعماری افواج کے شانہ بشانہ شرمناک کردار ادا کیا تھا جس کی یادیں آج بھی موجود ہیں۔ کیا آزادی کے بعد اور اس دور کی پہلی آزاد مسلم مملکت کا شرف رکھنے والے پاکستان کی فوجوں کو پھر اس کی قیادت ایک ایسی ہی شرمناک جنگ میں جھونکنا چاہتی ہے؟ اس طرح پاکستانی قوم اور عراقی قوم میں محبت کا رشتہ استوار ہوگا یا نفرت کا؟ امریکہ کے فوجی تو عراقی عوام کی نفرت کا نشانہ بن رہے ہیں۔ کیا پاکستان کی فوجی قیادت پاکستانی فوج اور پاکستانی قوم دونوں کے منہ پر یہ کالک ملنے کی خدمت انجام دینا چاہتی ہے۔
۷- امریکہ کے جو عزائم عراق میں سیاسی بندربانٹ‘ اس کے تیل پر قبضے‘ تعمیرنو کے نام پر امریکی کمپنیوں کے تسلط کے قیام اور ہمیشہ کے لیے عراق کو عسکری اعتبار سے ایک غیرموثر ملک بنانے والے ہیں ان سے ہم ناواقف نہیں۔جو نقشہ کل کے لیے بن رہا ہے وہ عراق‘ عرب دنیا اور عالمِ اسلام سب کے مفاد کے خلاف ہے۔ کیا ہم میں اتنی بھی سیاسی فراست نہیں کہ نوشتہ دیوار کو پڑھ سکیں؟ اور امریکہ کے اس خونی کھیل میں محض چند پیسوں کی خاطر شریک نہ ہوں۔
۸- انگلستان میں ابھی جولائی کے دوسرے ہفتے میں ان ۱۴ ممالک کے سربراہوں کا اجتماع ہوا جو سوشل ڈیموکریسی کے علم بردار ہیں۔ ٹونی بلیر نے پوری کوشش کی کہ کسی طرح ان کو عراق کی جنگ اور غربت کے خاتمے اور تعمیرنو کے نام پر کیے جانے والے منصوبوں میں شریک کریں لیکن سب نے بہ اتفاق اس میدانِ جنگ میں قدم رکھنے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے اس اصول کو بھی تسلیم کرنے سے انکارکر دیا کہ ناپسندیدہ حکومتوں کو ہٹانے‘ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے اور جابر حکومتوں کے خاتمے کے لیے کسی بھی ملک کو اقدام کا اختیار دیں۔ ان کا ایک ہی مطالبہ تھا‘ امن کو جو بھی خطرہ ہو اس کا مقابلہ کرنے کا صرف ایک راستہ ہے اور وہ ہے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے فیصلے کے ذریعے‘ بین الاقوامی قانون کے مطابق۔ ان کا اعلامیہ بہت واضح ہے:
ہم اس بارے میں بالکل واضح ہیں کہ اس نوعیت کے انسانی بحران کا مقابلہ کرنے کے لیے عالمی کارروائی کی اجازت دینے والا واحد ادارہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ہے۔ (دی انڈی پنڈنٹ‘ ۱۵ جولائی ۲۰۰۳ئ)
کیا اس اعلامیے میں پاکستان کی قیادت کے لیے کوئی پیغام نہیں؟
۹- آخری بات یہ ہے کہ عراق پر قبضے کے جملہ مقاصد میں ایک اہم مقصد اسرائیل کی تقویت اور اسے علاقے کا چوکیدار بنانا ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اس کا اعتراف دوست دشمن سب کرتے ہیں۔امریکہ کی صہیونی لابی اور اسرائیلی وزیراعظم شیرون نے عراق کی جنگ کو حقیقت بنانے میں بڑا نمایاں کردار ادا کیا اور عراق کی تباہی پر سکھ اور چین کا سانس لیا۔ دی انڈی پنڈنٹ نے اپنے ایک حالیہ اداریے میں اس کا کھل کر اعتراف کیا ہے:
عراق میں جنگ کا ایک سبب یہ تھا کہ علاقائی خطرے کا خاتمہ کیا جائے‘ اور امید کی جائے کہ اس طرح شرق اوسط میں امن فروغ پائے گا۔ عراق کے اندر داخلی سلامتی کتنی ہی غیراطمینان بخش ہو اور اس کے ہتھیاروں کے بارے میں تنازع کتنا ہی بھڑک رہا ہو‘ اس جنگ نے اسرائیل کے لیے ایک خطرے کاخاتمہ کر دیا ہے اور خطے کے دوسرے ممکنہ جنگ کرنے والوں کے لیے تنبیہ کا کردار ادا کیا ہے۔ اب اسرائیل کے لیے دنیا ایک نسبتاً زیادہ محفوظ جگہ ہو گئی ہے۔ (اداریہ ‘ ۱۵جولائی ۲۰۰۳ئ)
یہ ہے عراق پر امریکی قبضے کی اصل حقیقت۔ کیا پاکستان کی فوجی قیادت اسرائیل کی تقویت کے لیے کھیلے جانے والے اس کھیل میں اپنے لیے کوئی کردار تلاش کرنے کی حماقت کرنے کے لیے پر تول رہی ہے۔ کیا اب اس ملک کی قیادت میں اس کھیل کو سمجھنے والا کوئی موجود نہیں۔ اَلَیْسَ مِنْکُمْ رَجُلٌ رَشِیْد؟
اس خطرناک کھیل کا ایک اور شاخسانہ اسرائیل کو تسلیم کرانے کے لیے امریکی دبائو اور ترغیبات سے عبارت ہے۔ جنرل صاحب کے دورے سے پہلے ہی اس کے شوشے چھوڑے جانے لگے تھے اور دورے کے دوران اور اس کے بعد اس بارے میں نت نئے نکتے تراشے جارہے ہیں جن کے تجزیے کی ضرورت ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اسرائیل ہی نہیں اُمت مسلمہ اور عالم انسانیت کے تمام ہی مسائل کے بارے میں مبنی برحق خارجہ پالیسی کے خدوخال متعین کیے جائیں۔ یہ موضوعات مستقل بحث کا تقاضا کرتے ہیں‘ اس لیے ان شاء اللہ ان پر آیندہ کبھی گفتگو ہوگی۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
جنرل پرویز مشرف امریکہ اور تین یورپی ممالک کے دورے پر ایک نرالی شان سے روانہ ہوئے۔ داخلی طور پر انھوں نے بیک وقت دو محاذِ جنگ گرم کیے اور پے بہ پے ’’کمانڈو ایکشن‘‘ کے ذریعے ایک طرف اس جمہوری عمل کو تابڑ توڑ حملوں سے نوازا جس کا خالق ہونے کا وہ خود ہی دعویٰ کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ کی تحقیر میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ کبھی اس کے ارکان کو ’’غیرمہذب‘‘کے خطاب سے نوازا اور کبھی اس پر فوج کی گرفت کو مضبوط رکھنے کے لیے اپنی مجوزہ قومی سلامتی کونسل اور وردی کی ضرورت کو پوری شان تحکم کے ساتھ بیان فرمایا۔ مرکز اور صوبوں کے دستور پر مبنی معاہدہ باہمی (contractual relationship) کو مجروح کیا‘ ضلعی قیادت کے نظام کو مرکز میں اپنے اقتدار کی تائید کے لیے استعمال کیا اور پھر بھارتی ٹی وی این ڈی ٹی وی کو جو انٹرویو دیا اس کے مطابق: انتخابات کے بعد پاکستان میں پارلیمنٹ اور جمہوریت کی جو شکل سامنے آئی ہے‘ اس پر انھوں نے افسوس کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا ملک ایک برسرِکار جمہوریت لانے میں ناکام رہا ہے۔ خود اپنے ریفرنڈم کے بارے میں جنرل صاحب نے کہا کہ یہ ایک غلطی تھا۔ (نواے وقت‘ لاہور‘ ۱۴ جون ۲۰۰۳ئ)
جنرل صاحب نے دوسرا محاذ صوبہ سرحد میں شریعت بل کی منظوری کو ہدف بناکر بظاہر ایم ایم اے کے لیکن دراصل اسلام اور اس کے نظام قانون و تہذیب و تمدن کے خلاف کھولا ہے اور اس کے لیے صوبہ سرحد میں لائی جانے والی اصلاحات کو ’’طالبانائزیشن‘‘ (Talibanization) کا نام دے کر صوبے کی حکومت اور اسمبلی تک کی بساط لپیٹ دینے کی دھمکی دی ہے۔
ان دو داخلی محاذوں کے ساتھ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے سلسلے میں بھی انھوں نے ضروری سمجھا کہ چند ایسے واضح اشارے دے دیں جن میں ان کے مستقبل کے عزائم کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ ان اشاروں کو ایک خاص معنویت اس سے حاصل ہوتی ہے کہ ان کا اظہار قوم کو ان حادثات کے لیے تیار کرنا ہے جن کے لیے کیمپ ڈیوڈ کی محفل سجائی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ صدر جارج بش نے جنرل صاحب کو کیمپ ڈیوڈ کی صدارتی آرام گاہ میں دن گزاری کی جو دعوت دی ہے اسے ان کے حواری ایک سفارتی اعزاز قرار دے رہے ہیں مگر اہل نظر اس میں بڑے خطرات دیکھ رہے ہیں--- ویسے ہی خطرات جن میں آج عالم عرب اور خصوصیت سے اہل فلسطین گھرے ہوئے ہیں اور جن کا آغاز ۱۹۷۸ء میں انورالسادات اور یاسرعرفات کی کیمپ ڈیوڈ میں شرف بازیابی سے ہوا تھا۔ انورالسادات کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کی سزا ان کی اپنی قوم نے دی اور یاسرعرفات آج نشانِ عبرت بنے ہوئے ہیں کہ کل کا کیمپ ڈیوڈ کا یہ مہمان آج اس لائق بھی نہیں کہ اس کا منہ بھی دیکھا جائے۔
جنرل پرویز مشرف کے بیانات میں جن اشاروں کو صاف دیکھا جا سکتا ہے وہ اسرائیل کے بارے میں پالیسی پر نظرثانی‘ کشمیر کے ایک اصولی حل سے ہٹ کر دس بارہ حل کی بات‘ عراق میں امریکی افواج کے منہ پر جو کالک ملی جا رہی ہے اس میں پاکستان کے حصے کی تلاش‘ نام نہاد اسلامی انتہاپسندی کے خلاف محاذ آرائی اور اس اہم سفر میں وزیرخارجہ کی جگہ ان وزیرخزانہ کی ہم سفری جو کہوٹہ کی حساس تنصیبات کا تازہ تازہ معائنہ کر کے جا رہے ہیں اور باخبر حلقوں کے بقول پاکستان کی نیوکلیر صلاحیت کا رشتہ امریکہ کی جوہری توانائی کی حکمت عملی کی چھتری سے جوڑنے کے خواہش مند ہیں۔ اس طرح جناب شریف الدین پیرزادہ کا ہم سفر ہونا بھی بڑا معنی خیز ہے کہ وہ ایل ایف او کے مصنف اور ہرفوجی حکمران کے مشیر اور اس کے لیے سندجواز فراہم کرنے کے ماہر شمار کیے جاتے ہیں۔
داخلی اور خارجی محاذ پر فوج کے خود مقرر کردہ (self-appointed) سربراہ کی‘ جو صدر مملکت ہونے کا بھی مدعی ہے‘ یہ ترک تازیاں بڑی چشم کشا اور ایک خطرناک صورت حال کی غماز ہیں۔ اس لیے اصل مسائل کے بارے میں کلام کرنے سے پہلے ہم اس اصولی بات کو پوری وضاحت اور قوت سے قوم اور دنیا کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں کہ کسی ایک فرد کو یہ اختیار نہیں کہ قوم اور اس کی پارلیمنٹ کے فیصلے کے بغیر ایسے اہم امور پر کوئی من مانا موقف اختیار کرے۔
جنرل صاحب بڑے شوق سے ان ممالک کا دورہ کریں لیکن انھیں پاکستانی قوم اور اسلامی مملکت پاکستان کی طرف سے ان معاملات پر پارلیمنٹ اور قوم کی منظوری کے بغیر کسی معاہدے اور پالیسی کی تبدیلی کے اقرار و اعلان کا حق نہیں۔ امریکہ اور یورپی ممالک کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ کوئی ایک فرد اپنی ذاتی ترجیحات کے مطابق پوری قوم کو پابند کرنے کا اختیار نہیںرکھتا۔ جنرل صاحب کو دستور اور قانون کے اعتبار سے اقتدار کا کوئی جواز (legitimacy) حاصل نہیں۔ وہ نہ صرف اپنے نامزد کردہ صدر ہیں بلکہ چیف آف اسٹاف کی توسیع بھی خود ہی حاصل کیے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے دستور میں صدر کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ خود خارجہ اور داخلہ پالیسی بنائے۔ دستوری ڈھانچے میں تو وہ کابینہ کا حصہ بھی نہیں ہیں۔ حتیٰ کہ ایل ایف او‘ جو خود متنازع ہے‘ اور زیادہ سے زیادہ ایک دستوری تجویز ہے‘ وہ دستور کا حصہ نہیں‘ اس کے تحت بھی داخلی اور خارجی پالیسی کے ان بنیادی امور اور ان کے بارے میں پالیسی فیصلے (policy decisions) اور معاہدے کرنے کا اختیار کابینہ کو حاصل ہے‘ صدر کو نہیں۔
یہاں پر دستور میں پائے جانے والے اس سقم کی نشان دہی بھی ضروری ہے کہ ایسے اہم معاملات کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی توثیق کی کوئی شرط نہیں حالانکہ دنیا کے بیشترممالک میں پالیسی سازی کا آخری اختیار اور بین الاقوامی معاہدات کی توثیق کا حق پارلیمنٹ کو حاصل ہوتا ہے جو کھلی بحث کے بعد یہ ذمہ داری ادا کرتی ہے۔ پاکستان کے مسائل اور مشکلات کی ایک بنیادی وجہ یہی فردِواحد کی حکمرانی کا اسلوب ہے جسے اب ختم ہونا چاہیے ورنہ یہاں جمہوریت کبھی پنپ نہیں سکتی۔ جنرل صاحب کی ان ترک تازیوں پر بظاہر وزیراعظم ظفراللہ جمالی صاحب بھی دبے الفاظ میں مضطرب نظرآتے ہیں مگر کھل کر عوام کے حقوق کی حفاظت‘ پارلیمنٹ کی بالادستی کے قیام اور خود اپنے صحیح مقام کے حصول کی کوئی کوشش کرتے نظرنہیں آتے۔ کشمیرپالیسی کے دس بارہ حل‘ اسرائیل کے بارے میں پالیسی پرنظرثانی اور نیوکلیر صلاحیت کے بارے میں نئی سوچ کے بارے میں کیے جانے والے سوالوں کے جواب میں دی نیشن کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے دل کی بات اس طرح ان کی زبان پر آجاتی ہے کہ:
اللہ تعالیٰ معاف کرے‘ ایسے فیصلے کرنے والا ظفراللہ جمالی آخری شخص ہوگا۔ کسی بھی حکومت کو ایسے ایشوز پر پوری قوم اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔ (نواے وقت‘ ۱۸ جون ۲۰۰۳ئ)
اس لیے ہم سب سے پہلے جس بات کا برملا اظہار ضروری سمجھتے ہیں وہ پالیسی سازی اور بین الاقوامی معاہدات اور عالمی قوتوں سے قول و قرار کے بارے میں صحیح طریق کار کے بارے میں حتمی فیصلہ ہے۔ حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں کو اولیں اہمیت اس امر کو دینی چاہیے اور اس بارے میں ایک پروٹوکول پر فوری طور پر اتفاق رائے ضروری ہے جسے پہلی فرصت میں دستور کا حصہ بنا لیا جائے۔ اس طرح ہر حکمران ایک ضابطے کا پابند ہوگا اور قوم اور پارلیمنٹ ہر اہم فیصلے کی ذمہ دار ہوسکے گی۔
اسلام کی درست تعبیر
جنرل پرویز مشرف نے لاہور میں وکلا کے نام نہاد کنونشن میں‘ پھر کوہاٹ میں پاک جاپان دوستی سرنگ کے افتتاح کے موقع پر‘ اس کے بعد بھارتی ٹی وی این ڈی ٹی وی اور بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے اور لندن میں پاکستانیوں سے خطاب کرتے ہوئے جسے وہ ’’اسلامی انتہاپسندی‘‘ اور طالبان کا ’’اسلام‘‘ کہتے ہیں‘ خصوصیت سے نشانہ بنایا ہے۔ داڑھی‘ شلوارقمیض‘ حجاب‘ عورت کی اشتہاری نمایش پر گرفت وغیرہ پر بڑے سطحی اور تلخ انداز میں تنقید بلکہ تضحیک کی ہے۔ اس پر ’’دقیانوسی اسلام‘‘ کا فتویٰ لگایا ہے اور بزعم خود لبرل‘ ترقی پسند‘ روشن خیال اسلام کی باتیں کی ہیں اور وہی گھسی پٹی بات کہی ہے کہ اقبال اور قائداعظم تھیوکریسی کے مخالف تھے اور پروگریسو اسلام قائم کرنا چاہتے تھے۔ صوبہ سرحد میں شریعت بل کے کتابِ قانون کا حصہ بننے پر اپنی برافروختگی کے اظہار میں یہاں تک فرما گئے ہیں کہ اگر طالبانائزیشن کا یہ عمل آگے بڑھتا ہے تو وہ اسمبلی توڑنے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ جنرل صاحب کے ان ہی ارشادات کا آج ہم جائزہ لینا چاہتے ہیں۔
پہلی بات جنرل صاحب اور ان کے فکری ہم سفروں اور موید قلم کاروں کی خدمت میں ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ آپ کے یہ ارشادات کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ جب سے مغربی استعمار نے مسلم دنیا پر تسلط حاصل کیا ہے‘ ایک طبقہ اپنی روشن خیالی اور ترقی پسندی کے زعم میں ایسے ہی خیالات کا اظہار کرتا رہا ہے اور اسے مغرب کے حلقوں میں جو بھی مقبولیت حاصل ہوئی ہے اُمت اسلامیہ کے اجتماعی ضمیر نے اس لبرلزم اور روشن خیالی کو مغرب کی کورانہ تقلید اور استعماری آقائوں کی چاکری قرار دیا ہے۔ اس طرزِفکر کو کبھی پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔ یہ ایک نہایت مختصر اقلیت کی سوچ تو رہی ہے لیکن اُمت نے اسے کبھی قبول نہیں کیا۔ جس اقبال کا جنرل صاحب بار بار ذکر کرتے ہیں اس نے اس طرزِفکر کی دھجیاں بکھیر دی ہیں اور جن قائداعظم کے اسلام کی وہ بات کرتے ہیں‘ وہ اپنی تمام تر مغربی تعلیم اور قانونی مہارت کے باوجود اسلام کے بارے میں وہی نقطۂ نظر رکھتے تھے جس پر اُمت کا اجماع ہے اور جس کا اساسی اصول یہ ہے کہ اسلام محض ذاتی زندگی تک محدود نہیں بلکہ انسان کی پوری زندگی کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے‘ جس میں اصول واقدار اور بنیادی ادارات سے لے کر شکل و شباہت‘ رہن سہن‘ لباس اور خوراک‘ ہر پہلو کے لیے ہدایت اور ضابطے ہیں۔ دین و دنیا کی وحدت اور سیاست اور مذہب کی یک رنگی اس کا طرئہ امتیاز ہے۔ اسلام نہ ملّا کا ہے اور نہ طالبان کا‘ نہ کسی مسٹر کی اختراع ہے اور نہ کسی جرنیل کی--- اسلام اللہ کا دین ہے جو قرآن پاک کی شکل میں محفوظ اور متعین ہے اور جس کا ماڈل صرف ایک ذاتِ پاک ہے یعنی اللہ کے برگزیدہ نبی اور ہمارے حقیقی قائد سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم! اور قرآن و سنت ہی ہر دور اور ہر علاقے کے لیے اسلام کا اصل ماخذ ہیں۔ بلاشبہہ اسلام کی اپنی حکمت انقلاب ہے لیکن جس چیز کو قرآن و سنت نے طے کر دیا وہ حتمی ہے اور اس میں تراش خراش کا اختیار کسی کو حاصل نہیں۔
طالبان کی بات تو ہم بعد میں کریں گے لیکن اصل ایشو یہ ہے کہ اسلام وہی معتبر ہے جو قرآن وسنت سے ثابت ہے۔ مسلمانوں کی نگاہ میں ان کی منزل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دیا ہوا اسلام اور اس کا نمونہ ہے--- وہ نہیں جو بش کو پسند ہو یا جسے مغرب کے سیاست دان یا دانش ور پروگریسو اور لبرل قرار دیں۔ آج امریکہ کا اصل ہدف ہی قرآن وسنت کا اسلام ہے جسے کبھی ’’فرسودہ مذہب‘‘ کہا جاتا ہے‘ کبھی ’’جہادی دین‘‘ کہہ کر اسے انتہاپسندی قرار دیا جاتا ہے‘ کبھی ’’بنیاد پرستی‘‘ کا لیبل اس پر لگایا جاتا ہے اور کبھی ’’طالبان کا اسلام‘‘ یا ’’ملّا کا اسلام‘‘ کہہ کر اس کی تحقیر کی جاتی ہے۔ یہ سب مغربی آقائوں کو خوش کرنے کے حربے ہیں۔ اسلام ایک ہے اور ہمارا ماڈل نہ طالبان ہیں‘ نہ ایران ہے‘ نہ سعودی عرب اور نہ سوڈان کا اسلام۔ ہمارے لیے اصل سرچشمہ ء ہدایت قرآن و سنت ہیں۔ جہاں تک طالبان‘ ایران‘ سعودی عرب‘ سوڈان یا باقی مسلم دنیا کے ممالک اور تحریکات قرآن و سنت کے مطابق عمل پیرا ہیں وہ معتبر ہے اور جہاں وہ اس سے ہٹے ہوئے ہیں وہ اصلاح طلب ہے اور ہمارا مطلوب و مقصود نہیں۔ البتہ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ ہمارا اور اُمت مسلمہ کا مقصد اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا اور خوشنودی ہے۔ بش اور بلیر کے لیے قابلِ قبول ہونا اور ان سے داد و دہش کی طلب ہماری منزل نہیں۔ معیار صرف ایک ہے اور وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم اور رہنمائی ہے۔ اس لیے کہ اللہ کا پسند کردہ طریقہ ہمارے لیے اسلام ہے:
تھیوکریسی کا اسلام میں کوئی وجود نہیں لیکن تھیوکریسی کا نام لے کر اسلامی نظامِ زندگی‘ اس کے قانون‘ معاشرتی اقدار‘ سیاسی احکام‘ معاشی ضابطوں‘ ثقافتی حدود و اہداف کو نظرانداز کرنا اور مذہب کو محض افراد کا ذاتی معاملہ قرار دینا اسلام سے انحراف ہی نہیں‘ بغاوت ہے۔ اور اس کے لیے اقبال اور قائداعظم کا سہارا لینا بدترین علمی بددیانتی ہے۔ انگریز دانش ور بیورلی نکلسن اپنی کتاب Verdict on India (مطبوعہ ۱۹۴۴ئ) میں قائداعظم سے تحریک پاکستان کے مقاصد اور مذہب اور ریاست کے تعلق کے بارے میں اپنے انٹرویو کا حال یوں بیان کرتا ہے:
قائداعظم : آپ یہ حقیقت کبھی نظرانداز نہ کریں کہ اسلام صرف نظامِ عبادات کا نام نہیں‘ یہ تو ایک ایسا دین ہے جو اپنے پیروکاروں کو زندگی کا ایک حقیقت پسندانہ اور عملی نظامِ حیات دیتا ہے۔میں زندگی کی ہر اہم چیز کے معنوں میں سوچ رہا ہوں۔ میں اپنی تاریخ‘ اپنے ہیروز‘ اپنے آرٹ‘ اپنے فن تعمیر‘ اپنی موسیقی‘ اپنے قوانین‘ اپنے نظامِ عدل و انصاف کے معنوں میں سوچ رہا ہوں۔ ان تمام شعبوں میں ہمارا نقطۂ نظر ہندوئوں سے انقلابی طور پر نہ صرف مختلف ہے بلکہ بسااوقات متصادم بھی ہے۔ ہماری اور ہندوئوں کی زندگیوں میں ایسی کوئی چیز نہیں جو ہمیں بنیادی طور پر ہم رشتہ کرسکے۔ ہمارے نام‘ ہمارا لباس‘ ہماری خوراک ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ہماری اقتصادی زندگی‘ ہمارے تعلیمی تصورات‘ جانوروں تک کے بارے میں ہمارا نقطۂ نظر‘ ہم زندگی کے ہر مقام پر ایک دوسرے کو چیلنج کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر گائے کا ابدی مسئلہ لے لیں‘ ہم گائے کو کھاتے ہیں اور وہ اس کی عبادت کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے مقصد وجود کے بارے میں قائداعظم نے صاف الفاظ میں کہا کہ: ’’مسلمان پاکستان کا مطالبہ اس لیے کر رہے ہیں کہ وہ اپنے ضابطہ حیات ‘ اپنی روایات اور اسلامی قوانین کے مطابق حکومت کرسکیں‘‘۔
اور انھی خیالات کا اظہار اور بھی شدت کے ساتھ قائداعظم نے میلادنبویؐ کے موقع پر ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب میں کیا اور صاف الفاظ میں شریعت کا لفظ استعمال کرکے کیا کہ تیرہ سو سال پہلے انسانیت کو دیے جانے والے اصول اور قوانین آج بھی اتنے ہی قابلِ عمل اور آج کے انسان کے لیے ضروری ہیں جتنے تیرہ سو سال پہلے تھے۔
بات اسلام کی ہے ‘ کسی خاص گروہ یا طبقے کی خواہشات اور عادات کی نہیں۔ محض طالبان کا ہوّا دکھا کر شریعت اسلامی سے فرار کی کوئی کوشش بھی مقبول و محترم نہیں ہوسکتی۔ رہا معاملہ علامہ اقبال کا تو ان کا تو سارا فلسفہ‘ سارا شعری سرمایہ دین ودنیا کی وحدت اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونے کے مطابق مسلمانوں کی پوری انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ڈھال دینے کے لیے وقف ہے۔ ترقی پسند اور لبرل اسلام کے داعیوں کے لیے ان کے پاس تنقید اور ترہیب کے سوا کچھ نہیں ؎
جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
وہ مغرب کی ذہنی‘ ثقافتی اور سیاسی ہر قسم کی غلامی سے بغاوت کی دعوت دیتے ہیں اور کس طنز سے فرماتے ہیں ؎
ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب
کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق
لبرل اسلام کے دعوے داروں سے اقبال کا خطاب کچھ اس طرح ہے ؎
ترا وجود سراپا تجلّی افرنگ
کہ تو وہاں کے عمارت گروں کی ہے تعمیر
مگر یہ پیکرخاکی خودی سے ہے خالی
فقط نیام ہے تو‘ زرنگار و بے شمشیر
لبرل اسلام کے داعی آج بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ نماز‘ روزہ اور داڑھی کی اجازت ہے۔ پھر یہ شریعت کے نفاذ کی بات چہ معنی ؟ لیکن دیکھیے اقبال نے کس طرح اس کا جواب دیا ہے ؎
ملّا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
اقبال ہوں یا قائداعظم یا اُمت مسلمہ پاک و ہند--- انھوں نے کسی ایسے اسلام کے لیے جدوجہد نہیں کی تھی جو بش اور بلیر کے لیے قابلِ قبول ہو۔ جس چیز کو جنرل پرویز دقیانوسی اور ازکار رفتہ کہہ رہے ہیں وہ وہ ابدی اور لازوال ہدایت ہے جس کا سرچشمہ اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور نمونہ ہے۔ مسلمانوں کی نگاہ میں صرف وہی معتبر اور مقبول ہے۔ استعماری قوتوں نے اسلام کو ’’ریفارم‘‘ (reform)کرنے کا کھیل ماضی میں بھی کھیلا ہے اور آج بھی کھیل رہی ہیں اور ان کا آلہ کار بننے والے کل بھی ناکام و نامراد رہے اور ان شاء اللہ آج بھی رہیں گے۔
دوسری بات ہم طالبان کے حوالے سے بھی بہت صاف طور پر کہنا چاہتے ہیں کہ طالبان کا افغانستان میں ظہور اور غلبہ خاص حالات کا رہین منت تھا۔ پاکستانی حکمران‘ پاکستانی فوج کی قیادت‘ اور سعودی عرب اور امریکہ کے سیاست کار یہ سب ان کی پشت پر تھے۔ ’’طالبان کا اسلام‘‘ ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کو وجود میں نہیں آیا۔ اپنے فہم اور شعور کے مطابق وہ پہلے دن سے ایک خاص انداز میں اپنا اجتماعی نظام چلا رہے تھے‘ جس کے کچھ پہلو نہایت روشن اور تابندہ تھے اورکچھ پہلوئوں سے ان کے نظام میں کچھ خامیاں اور کمزوریاں تھیں۔
افغانستان ایک قبائلی معاشرہ ہے اور طالبان اسی قبائلی نظام کا حصہ تھے جو پشتون آئین‘ قانون‘ روایات اور ضوابط سے عبارت ہے۔ بلاشبہہ اس کی صورت گری میں اسلامی شریعت کا بھی ایک نمایاں حصہ ہے لیکن طالبان کا تصور اجتماعیت بنیادی طور پر پشتون آئین اور روایات پر مبنی تھا اور جس حد تک اسلام اس کا حصہ ہے وہ اس میں شامل تھا۔ تاہم ان کی پالیسیوں کا ایک حصہ ان کی اپنی روایات پر مبنی تھا‘ جو پاکستان یا دنیا کے دوسرے ممالک اور علاقوںکے لیے متعلق (relevant) نہیں۔ اس لیے صوبہ سرحد میں جو اصلاحات لانے کی کوشش کی جا رہی ہے ان پر طالبان کے حوالے سے کی پھبتی کسی طرح بھی صادق نہیں آتی۔
کہنے والے آج طالبان کو جوچاہے کہہ لیں‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ طالبان نے اس افغانستان کو امن و انصاف دیا جو شدید اور خون آشام خانہ جنگی کی گرفت میں تھا اور جہاں لوٹ مار کا دور دورہ تھا اور وار لارڈز (war lords) نے زندگی اجیرن کر دی تھی۔ طالبان کے دور میں وہ سارا علاقہ جو ان کے زیرحکومت تھا امن اور انصاف کا گہوارا بن گیا تھا اور وار لارڈز کو بے اثر کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح افیون کی کاشت کو چندسال میں ختم کر کے انھوں نے ایک بڑی لعنت سے افغانستان ہی نہیں پوری دنیا کو نجات دلائی اور ان کے اس کارنامے کا خود امریکہ تک نے اعتراف کیا۔یہ بجا کہ معاشی ترقی‘ تعلیم کے فروغ اور خصوصیت سے خواتین کی تعلیم اور ملک کی دوسری قومیتوں سے مصالحت کے سلسلے میں ان کی پالیسیوں میں خامی موجود تھی۔ پاکستان اور عالمِ اسلام کی دینی شخصیات اور تحریکات نے ان کے اچھے کاموں کی قدرافزائی کے ساتھ ان کو ان کمزوریوں کی طرف متوجہ کیا تھا اور وہ تعلیم‘ ترقی اور مصالحت کی راہ پر چل بھی پڑے تھے۔
دیکھنے کی بات یہ ہے کہ جو آج ان پر زبان طعن دراز کر رہے ہیں‘ ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء سے پہلے ان کو طالبان میںکوئی خامی نظر نہیں آتی تھی اور آج انھیں کوئی خوبی نظر نہیں آ رہی ہے۔ طالبان کا عروج پیپلز پارٹی جیسی نام نہاد لبرل سیاسی جماعت کے دور میں اور اس کی مکمل تائید سے ہوا‘ فوج کی قیادت بھی ان کی پشت پر تھی۔ امریکہ بھی ان کا موید تھا اور مئی ۲۰۰۱ء تک ان سے گہرے سیاسی‘ سفارتی اور معاشی تعلقات استوار کرنے میں مصروف تھا۔ سارا نزلہ اس لیے گرا کہ انھوں نے امریکی استعمار کا آلہ کار بننے سے انکار کر دیا اور جس شخص یا گروہ کو پناہ دی تھی دلیل اور ثبوت کے بغیر اسے امریکہ کو پیش کرنے سے انکار کر دیا۔
پاکستان کے لیے طالبان حلیف اور ساتھی تھے اور پاکستان سے کوئی بے وفائی انھوں نے نہیں کی۔ پاکستان کے فوجی حکمرانوں نے ہی امریکہ کی خوشنودی کے لیے یوٹرن لیا اور اپنے ہی دوستوں اور بھائیوں کو تباہ کرنے کے لیے امریکہ کو اپنی زمین اور اپنا کندھا فراہم کردیا۔ امریکہ کی نارتھ کمانڈ کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کے عوام پر امریکی افواج نے ۵۷ ہزار سے زیادہ فضائی حملے ہماری سرزمین یا ہماری فضائی حدود کو استعمال کرکے کیے اور ہم بھی ان کے اس ظلم اور فساد میں شریک ہوئے اور جو دوست اور حلیف تھے ان کو دشمن بنالیا۔
طالبان کا اسلام نہ ۱۱ستمبر کے بعد رونما ہوا اور نہ۱۱ ستمبر سے پہلے اس کا وجود تھا۔ پاکستان کے ان سے ہم رنگ اور ہم ساز ہونے کا قصہ تو سب ہی کے سامنے ہے لیکن امریکہ بھی اس میں کتنا شریک تھا اور طالبان سے کس کس طرح کی پینگیں بڑھا رہا تھا اس کا پورا حال اگر کبھی پوشیدہ تھا تو اب نہیں ہے۔ دسیوں کتابیں گذشتہ دو سال میں اس پر آچکی ہیں اور دو فرانسیسی صحافیوں کی کتاب Forbidden Truth: U.S. - Taliban Secret Oil Diplomacy جو فرانس ہی نہیں امریکہ میں بھی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی (best seller) کتاب ہے اور جس کا انگریزی ایڈیشن امریکہ اور برطانیہ سے ۲۰۰۲ء میں شائع ہوا ہے‘ ایک اہم دستاویزی ثبوت ہے۔ بلاشبہہ ان کتب میں حقائق اور افسانے‘ واقعات اور اختراعات سب کچھ موجود ہیں مگر جو بات ناقابلِ تردید ہے وہ ۱۱ستمبر کے سانحے سے پہلے طالبان سے تعلقات‘ دوستی اور اپنے مفادات کے لیے ان سے پینگیں بڑھانا ہے۔ اس وقت ’’طالبان کا اسلام‘‘ کسی کو پریشان نہیں کر رہا تھا اور سیاسی تائید‘ معاشی مفادات کا حصول‘ اور مالی امداد کی فراوانی یہ سب جائز تھا۔
رہا ہمارا معاملہ‘ تو ہماری تحریریں گواہ ہیں کہ ہم نے طالبان کے اچھے کاموں کی تعریف کی اور ان کی خامیوں پر ان کو دلسوزی کے ساتھ متوجہ کیا اور ان خامیوں سے کبھی صرفِ نظر نہیں کیا۔ آج ہم ان کی مظلومیت کی بنا پر ان سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں اور اسے بزدلی ہی نہیں‘ بداخلاقی بھی سمجھتے ہیں کہ محض امریکہ کو خوش کرنے کے لیے اپنے مظلوم بھائیوں کے حق میں کلمہ خیر بھی کہنے سے اجتناب کریں۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو اپنے رویے پر شرمسار ہونا چاہیے‘ چہ جائیکہ وہ طالبان کو ان کی مظلومیت کے اس دور میں نشانۂ تضحیک بنائیں۔
جہاں تک صوبہ سرحد میں متحدہ مجلسِ عمل کی انتخابی کامیابی اور صوبائی حکومت کی نفاذِ اسلام کی کوششوں کا تعلق ہے‘ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ متحدہ مجلسِ عمل عوام کی بھرپور تائید اور جمہوری ذریعے سے برسرِاقتدار آئی ہے۔ وہ کسی چوردروازے سے اقتدار پر قابض نہیں ہوئی۔ جنرل پرویز مشرف کی صدارت کو کوئی دستوری یا اخلاقی جواز بھی حاصل نہیں۔ وہ ایک خود مقرر کردہ (self-appointed) صدر ہیں۔ اس طرح دوسری ٹرم کی حد تک انھوں نے خود ہی اپنے آپ کو چیف آف اسٹاف بنا لیا ہے۔ ۲۰۰۲ء میں نام نہاد صدارتی ریفرنڈم کے بارے میں وہ صرف اپنی شرمندگی کا اظہار ہی کرنے پر مجبور نہیں ہوئے‘ اب وہ اس کو ایک غلطی بھی تسلیم کرتے ہیں گو اس غلطی کے منطقی تقاضوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ متحدہ مجلسِ عمل نے ان کو دستور کے مطابق صدر منتخب ہونے کا ہر موقع دیا اور تعاون تک وعدہ کیا بشرطیکہ وہ غیرقانونی اور غیردستوری اختیارات اور ناجائز دستوری ترمیمات سے دستبردار ہوجائیں لیکن وہ دستوری اور قانونی طریقہ اختیار کرنے سے اب تک گریزاں ہیں اور اس طرح صرف قوت اور فوجی اتھارٹی کے ناجائز استعمال کے ذریعے اقتدار پر رہنے پر مصر ہیں۔ اس کے برعکس متحدہ مجلسِ عمل نے خالص قانونی اور جمہوری راستہ اختیار کیا ہے اور عوام کے ووٹ کے ذریعے برسرِاقتدار آئے ہیں۔ وزیراعظم ظفراللہ جمالی صاحب بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ:
لیکن جنرل پرویز مشرف صاحب کے گرجنے برسنے کا اور ہی انداز ہے۔ وہ منتخب اسمبلی کو صرف اس لیے توڑنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں کہ وہ ان کے مزعومہ ترقی پسند اسلام کو دین سے انحراف سمجھتی ہے اور جو مینڈیٹ قوم نے اس کو دیا ہے اس کے مطابق عمل کرنا چاہتی ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ وہ اس زعم میں مبتلا ہیں کہ انھیں اس کام پر نعوذ باللہ‘ اللہ تعالیٰ نے مامور کیا ہے۔ اس طرح وہ ظل الٰہی (divine right of kings) کے فرسودہ نظریے کا احیا کرنے کا جرم کر رہے ہیں۔
ایک طرف جنرل صاحب ہیں جنھیں غیرمنتخب اور خودساختہ صدرکے سوا کوئی حیثیت حاصل نہیں۔ دوسری طرف صوبے کی منتخب اسمبلی اور قیادت ہے جو اسمبلی کے ذریعے‘ ملک کے دستور کے مطابق‘ تحریک پاکستان کے مقاصد کی تکمیل اور اقبال اور قائداعظم کے قوم سے کیے ہوئے وعدوں کی تعمیل میں جمہوری اور تعلیمی ذرائع سے شریعت نافذ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ قوم کے سامنے یہ دو ماڈل بالکل واضح ہیں اور قوم یا دنیا کی آنکھوں میں دھول نہیںجھونکی جاسکتی۔
سرحد کی حکومت کے خلاف صرف سیاسی دبائو اور معاشی اور مالیاتی وسائل سے محرومی ہی کے وار نہیں کیے جا رہے بلکہ سب سے بڑھ کر‘ ایک پروپیگنڈا وار پہلے دن سے شروع کردی گئی ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑھا چڑھا کر پھیلایا جاتا ہے اور مثبت اور تعمیری کاموں کا ذکر تک نہیں ہوتا۔
صوبہ سرحد کی حکومت نے پہلے دن سے سادگی اور کفایت شعاری کو اختیار کیا۔ متعدد وزیروں نے سرکاری مکان تک نہ لیے‘ اپنے دفتر اور گھر دونوں کے دروازے عام انسانوں کے لیے کھول دیے۔ اپنے رہن سہن کا انداز وہی رکھا جو پہلے تھا اورملک کی تاریخ میں پہلی بار وزیراعلیٰ اور سینیروزیر نے بجٹ میں اپنی تنخواہیں دو ہزار روپے ماہانہ اور باقی تمام وزرا نے ایک ہزار روپے ماہانہ کی کمی کی جب کہ مرکز اور پنجاب اور سندھ کی حکومتوں نے وزیروں کی تنخواہوں میں نمایاں اضافے کا راستہ اختیار کیا اور نئی گاڑیوں اور مہنگی رہایش گاہوں پر غریب عوام کی دولت کو استعمال کرنے سے دریغ نہیں کیا۔ صوبے میں قومی زبان کو سرکاری زبان کی حیثیت سے اختیار کیا اور عملاً کاروبار حکومت میں اس کے نفاذ کا آغاز کر دیا۔ جرائم کی رفتار صوبے میں باقی تمام ملک سے نصف ہے اور امن و امان کی صورت حال سب سے بہتر ہے۔ آٹے کی قیمت میں کمی ہوئی ہے اور سرکاری ہسپتالوں میں کم از کم شعبۂ حادثات میں فوری امداد اور مفت ادویہ کی فراہمی کا آغاز کر دیا ہے۔ ترقیاتی اور عمومی بجٹ میں تعلیم کو اولیت دی ہے اور سرحد وہ واحد صوبہ ہے جس نے تعلیم کے لیے اپنے بجٹ کا ۴.۲۸ فی صد مختص کیا ہے‘ جب کہ پنجاب اور سندھ میں یہ حصہ ۱۹ اور ۵.۱۳ فی صد ہے اور مرکز میں صرف ۶فی صد کے قریب۔ خواتین کی تعلیم کو واضح ترجیح دی گئی ہے اور صحت کے میدان میں بھی ان کے لیے خصوصی انتظامات کا اعلان کیا ہے۔
سرحد کا بجٹ اس پہلو سے بھی منفرد ہے کہ کسی صوبے نے پہلی بار بجٹ سازی کے بارے میں ایک نیا وژن پیش کیا ہے کہ عمومی انتظامی اور ترقیاتی بجٹ کی دوگونہ تقسیم کو آیندہ کے لیے بدل کر بجٹ کے لیے تین دھاروں (streams)کو متعین کیا ہے‘ یعنی انتظامی‘ فلاحی اور ترقیاتی۔ یہ اسلام کی اولیں روایات سے مطابقت رکھتا ہے جب حضرت عمر فاروق ؓ کے دور میںباقاعدہ بیت المال کا آغاز ہوا تو اس کے دو شعبے تھے اموال المسلمین اور اموال الصدقہ۔ اس وژن کو سرحد کے بجٹ میں سمونے کی کوشش کی گئی ہے۔
نفاذِ شریعت کے یہ وہ تمام پہلوہیں جن کو نظرانداز کیا جا رہا ہے اور چند ضمنی باتوں کو جن کے بارے میں بھی ایک ہمدردانہ تعبیرممکن ہے‘ ایم ایم اے کے تصور اسلام کا نام دے کر پروپیگنڈے کا طوفان برپا کیا جا رہا ہے۔ خود جنرل پرویز اس میں شدت پیدا کرنے کے لیے دو اسلاموں کی باتیں کر رہے ہیں۔ ایک انتہا پسند اسلام اور دوسرا لبرل اسلام--- اور امریکہ اور یورپی ممالک سے انتہاپسند اسلام کو کچلنے اور لبرل اسلام کی پشتی بانی کرنے کے لیے واویلا کر رہے ہیں اور اس طرح محض اپنی ذات کی خاطر اسلام اور پاکستان دونوں کو بدنام کرنے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ امن و امان کی صورتِ حال اگر کہیں خراب ہے تو وہ کراچی ہے جہاں ماہنامہ ہیرالڈ کراچی کے ایک تازہ جائزے کے مطابق ہر روز صرف پولیس کی سرپرستی میں پچاس کاریں لوٹی جا رہی ہیں۔ صوبے میں ایم کیو ایم کے حکومت میں آتے ہی اور گورنر عشرت کا اقتدار نازل ہوتے ہی بھتّے کا کاروبار شروع ہو گیا ہے۔ قتل اور بوریوں میں لاشوں کا سلسلہ ایک بار پھر شہر میں خوف و ہراس کا باعث بن گیا ہے۔
ہیرالڈ ہی کی رپورٹ ہے کہ صوبائی محکمہ انصاف کے مطابق روزانہ بنیادوں پر خود پولیس کے خلاف دسیوں کیس درج ہو رہے ہیں۔ ۲۰ مارچ ۲۰۰۱ء سے ۱۹مارچ ۲۰۰۲ء تک ۳۲۸ شکایات پولیس کے خلاف درج کی گئی لیکن ۲۰ مارچ ۲۰۰۲ء سے ۱۹مارچ ۲۰۰۳ء تک کے عرصے کے دوران کراچی پولیس کے خلاف ۴۸۰ کیسوں کی شناخت کی گئی۔ کراچی کے بارے میں ٹائم کی رپورٹ میں اگر مبالغہ بھی ہو تو بھی یہ شہر ایک بار پھر مخدوش حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ بلوچستان اور پنجاب میں فرقہ وارانہ قتل کے واقعات روز افزوں ہیں۔ گیس پائپ لائن ایک ہی مہینے میں دو بار میزائلوں سے اڑائی جاتی ہے اور کروڑوں کا نقصان ہوتا ہے۔ وزیراعظم صاحب کے اپنے علاقے میں پولیس کا ڈی آئی جی دن دھاڑے مار دیا جاتا ہے اور کوئٹہ میں پولیس کے زیر حراست نوجوان قتل کیے جاتے ہیں۔ یہ سب جنرل صاحب کے لیے کسی تشویش کا سامان نہیں فراہم کرتے البتہ ان کی نینداگر اڑ جاتی ہے تو اس پر کہ پیپسی کے بورڈوں پر عورتوں کی تصویروں پر کپڑا کیوں چڑھا دیا گیا۔ یہ ہے بالغ نظر (mature) قیادت کا احساسِ تناسب (sense of proportion) !
سرحد اسمبلی نے جو شریعت بل منظور کیا ہے غالباً جنرل پرویز اور ان کے قلم بکف گوریلوں نے اس کا مطالعہ نہیں کیا‘ اس لیے کہ اس میں طالبان کا کوئی ’’سایہ‘‘ (ghost) موجود نہیں۔ وہ بل دستور کے تحت منتخب اسمبلی میں پیش کیا گیا جس کو اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کیا۔ سیکولر پارٹیوں نے ۲۱ ترامیم بل میں پیش کیں جن کو بعد میں واپس لے لیا اور ساری جماعتوں نے مکمل اتفاق راے سے اسے منظور کیا۔ ایک بھی ووٹ اس کے خلاف نہیں آیا۔ قانون کا آپ تجزیہ کرلیں اس میں تعلیم‘ عورتوں کے حقوق‘ غیرمسلموں کے حقوق‘ انصاف کے حصول کو آسان بنانا اور معاشی اور اجتماعی زندگی کو فساد‘ ناہمواریوں اور استحصال سے پاک کرنے کے اہداف مقرر کیے گئے ہیں۔ تمام کام قانون کے دائرے میں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے سے کرنے کا خاکہ مرتب کیا گیا ہے۔ پوری منصوبہ سازی اور قانون سازی‘ باہمی مشاورت سے کرنے کا عندیہ ہے۔ تین کمیشن بنائے جا رہے ہیں جو مشورے سے اپنی سفارشات دیں گے اور پھر ان کی روشنی میں اسمبلی مزید قانون سازی کرے گی۔ اس پورے عمل میں یہ عوام کی شرکت‘ راے عامہ کی تربیت اور تعلیمی انقلاب کے ذریعے تبدیلی کو اولیت دی گئی ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ایسے تعمیری انداز کو’’انتہا پسندی‘‘ اور ’’طالبانائزیشن‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔ اگر یہ بدنیتی پر مبنی نہیں تو کم علمی اور غلط فہمی کے بارے میں تو کوئی شبہہ نہیں ہوسکتا۔ لیکن یہ راستہ قوموں کی ترقی کا راستہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ہم پوری قوم اور خصوصیت سے حکمران پارٹی کے ارکان کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ کھلے ذہن سے قانون کے مسودے کو پڑھیں اور علم اور دیانت کے ساتھ اس بحث میں حصہ لے۔ یہی ملک و قوم کے لیے بہتر ہے۔
آخر میں ہم قوم کے سوچنے سمجھنے والے عناصر کے اس احساس کو بھی ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں کہ کیمپ ڈیوڈ کے مذاکرات میں حصہ لینے والی جنرل صاحب کی ٹیم میں جناب شریف الدین پیرزادہ کی شرکت سے یہ خدشات پیدا ہو رہے ہیں کہ ایل ایف او کا رشتہ اب اسلام آباد سے بڑھ کر واشنگٹن سے استوار ہو رہا ہے۔ ویسے تو امریکہ کو جمہوریت پر بڑا ناز ہے اور دنیا بھر میں وہ جمہوریت کی ترویج ہی کو اپنے استعماری پروگرام کا اصل ہدف قرار دیتا ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جمہوریت کے لیے زبانی جمع خرچ اپنی جگہ‘ لیکن امریکہ نے ہمیشہ اپنے مفاد کے لیے بادشاہوں‘ ڈکٹیٹروں اور فوجی حکمرانوں کو استعمال کیا ہے۔ تازہ ترین مثال جنرل پرویز مشرف سے دوستی بلکہ یاری کا رشتہ ہے۔ کیا وہ وقت تھا کہ کلنٹن صاحب ملاقات کے روادار نہ تھے‘ آئے تو اسے دورہ نہیں stop over قرار دیا۔ شرط لگا دی کہ وردی میں ملاقات نہیں ہوگی۔ اور سوٹ والی ملاقات کا مصافحہ تک کا فوٹو نہ تصویر کی صورت میں آئے گا اور نہ ٹی وی کیمرے کی آنکھ کا تارہ بنے گا۔ مفاد کی ہوائوں کے رخ کی ذرا سی تبدیلی نے انھی جنرل صاحب کو اب دوست بنا دیا اور کیمپ ڈیوڈ کی قربت کا سزاوار کردیا۔ ترکی میں پارلیمنٹ نے جو جمہوری کردار ادا کیا اس پر امریکی قیادت ناراض ہے اور امریکی وزیر دفاع ریمز فیلڈ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’’ترکی کی فوج نے ہماری توقعات پوری نہیں کیں‘‘۔ یہ ہے امریکہ کی جمہوریت نوازی!
لگتا یوں ہے کہ اب ’’وردی والی جمہوریت‘‘ کو امریکہ کی سند ملنے والی ہے۔ لیکن جنرل صاحب اور بش صاحب دونوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ فیصلے پاکستانی قوم کرے گی‘ کیمپ ڈیوڈ یا لندن میں یہ معاملات طے نہیں ہوں گے۔ پاکستانی قوم ملک میں حقیقی جمہوریت کی خواہش مند ہے اور وہ فوج کو وہ احترام اور مقام دینا چاہتی ہے جو دفاع وطن کے لیے ضروری ہے۔ سیاست میں فوج کی مداخلت کے باب کو اب ختم ہونا چاہیے‘ ورنہ ڈر ہے کہ فوج روز بروز زیادہ سے زیادہ متنازع بنتی جائے گی اور بالآخر فوجی قیادت کے غلط فیصلوں کے نتیجے میں قوم اور فوج میں بُعدپیدا ہوگا جو دونوں کے لیے برا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں فوجی حکمرانوں کاکردار کسی طرح بھی قابل رشک نہیں رہا اور آج ہم بہت دکھ سے یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ پہلے تو عوام کے غم و غصے کا نشانہ صرف وہ حکمران ہوتے تھے جو فوج کو زینہ بنا کر حکومت پر قابض ہوتے تھے مگر اب بے چینی اور اضطراب کا رخ فوج کی طرف بحیثیت ایک ادارے کے ہوتا جا رہا ہے جو بہت تشویش ناک ہے۔ ان حالات میں جنرل صاحب کے ذہن اور عزائم کی جو جھلکیاں ان کے امریکہ جانے سے پہلے کے بیانات سے مترشح ہیں وہ ملک اور فوج دونوں کے لیے نہایت پریشان کن ہیں۔ ذرا غور کریںکہ جنرل صاحب کیا پیغام دے رہے ہیں:
یہ صرف چند نمونے ہیں لیکن موصوف کا ذہن سمجھنے کے لیے کافی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ قرآن کے استعارے میں اس بدقسمت خاتون کی راہ پر بڑھ رہے ہیں جو سوت بڑی محنت سے خودکاتتی ہے۔ پھر اسے خود ہی ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہے۔ وَلاَ تَکُوْنُوْا کَالَّتِیْ نَقَضَتْ غَزْلَھَا مِنْم بَعْدِ قُوَّۃٍ اَنْکَاثًاط (النحل ۱۶:۹۲) خدا کرے ایسا نہ ہو لیکن ہے یہ سب کے لیے لمحۂ فکریہ! ان سارے خدشات اور امکانات کی روشنی میں پارلیمنٹ کے تمام ارکان کو غور کرنا چاہیے کہ ہوا کا رُخ کیا ہے اور کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ تمام سیاسی قوتیں دستور اور ملک میں حقیقی جمہوریت کے فروغ کے لیے کوئی لائحہ عمل تیار کریں اور محض فوجی طالع آزمائوں کو سہارا دینے کی روش ترک کریں۔ جمہوریت کبھی بھی جرنیلوں کی سرپرستی (tutelage) کے ذریعے فروغ نہیں پاسکتی۔ جمہوری استحکام کا انحصار دستور اورملکی اداروں کے استحکام کے ذریعے ممکن ہے۔ اگر سیاست دان مراعات اور وزارتوں کی خاطر جرنیلوں کے آلہ کار بننے کو ترجیح دیں اور عدالت کے ججوں کو دستور میں ایسی دفعات نظرنہ آئیں جو حاضرسروس (in service) فوجی کے صدر ہونے میں مانع ہوں تو پھر جمہوریت کا مستقبل روشن کیسے ہوسکتا ہے؟ سرکاری پارٹی اور عدلیہ نے قوم کو مایوس کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن سوال کسی ایک پارٹی اور ایک ادارے کا نہیں‘ اس ملک کے ۱۴کروڑ انسانوں کی آزادی‘خودمختاری‘ ان کے حقوق اور ان کے مستقبل کا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ حقوق اسی وقت حاصل ہوتے ہیں جب ان کے لیے جدوجہد کی جائے اور قربانیاں دی جائیں اور آزادی کی حفاظت اسی وقت ممکن ہے جب ہر فرد اپنی اور قوم کی آزادی کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگانے کے لیے تیار ہو۔ اقبال نے اس حقیقت کو کتنے صاف الفاظ میں بیان کر دیا تھا ؎
نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سوداے خام خونِ جگر کے بغیر
آج اگر ہمیںاپنی آزادی اور اپنے حقوق کی خود اپنوں کی دست درازیوں سے حفاظت کرنی ہے تو اس کے لیے ایمان‘ استقامت‘ ایثار و قربانی اور جدوجہد کا راستہ اختیار کرنا ہوگا ؎
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکمِ اذاں‘ لا الٰہ الا اللہ
(اشاعت عام کے لیے کتابچہ دستیاب ہے: منشورات‘ منصورہ‘ لاہور)
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
پاک بھارت مذاکرات کی ضرورت اور افادیت کا کون کافر منکر ہوگا۔ اس سلسلے میں جو بھی پیش رفت ہو سر آنکھوں پر‘ چشم ما روشن دلِ ماشاد! البتہ جو بات سمجھنے اور سمجھانے کی ہے وہ صرف اتنی ہے کہ مذاکرات نہ محض ملاقات کا نام ہیں اور نہ خود کلامی کے انداز میں اپنی اپنی پوزیشن کے اعادے کا۔ مذاکرات اسی وقت مفید اور نتیجہ خیز ہوسکتے ہیں جب کم از کم تنازعے کا ادراک اور اعتراف ہو اور حل کی تلاش کی خواہش اور جستجو۔ اگر عالم یہ ہو کہ ایک طرف شاعرانہ گم گشتگی کے ساتھ ’’دوستی کاہاتھ‘‘ بڑھایا جائے اور دوسری طرف ’’اٹوٹ انگ‘‘ کا نعرۂ مستانہ لگایا جائے اور ’’سرحد پار دراندازی‘‘ بلکہ ’’دہشت گردی‘‘ کا راگ مسلسل الاپا جائے تو پھر بات چیت اور افہام تفہیم کا دروازہ کیسے کھلے؟ بقول غالب ؎
حضرت ناصح گر آئیں‘ دیدہ و دل فرشِ راہ
پاک بھارت تعلقات میں استحکام اور سدھار کی راہ میں حائل ایک اور رکاوٹ وہ غیر حقیقت پسندانہ انداز ہے جس میں دوستی اور مخالفت دونوں کا رنگ آہنگ رچا بسا نظر آتا ہے۔ مخالفت ہو تو تلخی اتنی بڑھتی ہے کہ چشم زدن میں بات گالم گلوچ اور تیغ و تفنگ تک پہنچ جاتی ہے اور پھر اگر دوستی کی ہوائیں چلتی ہیں تو پل بھر میں رازو نیازاور لطف و التفات کا کچھ ایسا سماں بندھ جاتا ہے گویا تلخی اور تصادم کے کوئی اسباب ہی نہ تھے اور نہ جسم پر کوئی زخم لگے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے امیدوں کے قصرتعمیر ہونے لگتے ہیں‘ شاعرانہ بلند خیالیاں فضا پر چھا جاتی ہیں اور لاہور کی پُرفریب الفت رانیوں اور آگرہ کی ’’ایسی بلندی‘ ایسی پستی‘‘ کی کیفیات طاری ہو جاتی ہیں۔ کبھی معاہدوں کے لیے میزیں سجائی جاتی ہیں اور کبھی الوداع کہنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جاتی۔ کبھی پیش ضرب کاری (pre-emptive strike) کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ ۱۶ ماہ تک فوجیں کیل کانٹے سے لیس آنکھیں چار کیے رہتی ہیں اور نیوکلیر اسلحہ اپنے خول میں کلبلانے لگتا ہے اور کبھی ایک طرف سے دوستی کے پھول ’’زندگی کی آخری خواہش‘‘ بن کر سرحد پار گل پاشی کرنے لگتے ہیں تو دوسری طرف ’’سنجیدگی اور خلوص‘‘کے دریا دریافت ہو جاتے ہیں اور توقعات کے تاج محل ریت کی زمین پر بلند ہوتے نظر آتے ہیں۔
یہ جذباتیت اورعدم توازن‘ اور زمینی حقائق اور تلخ تاریخی عوامل کو نظرانداز کرکے خیالی ترک تازیاں بھی مسائل کی تفہیم اور حالات کے سدھار میں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ نہ ایسی دوستی حقیقت پر مبنی ہے اور نہ ایسی دشمنی واحد آپشن۔ حریف سنگ ہونے کے لیے زندگی کے حقائق پر نظر ضروری ہے۔ جذباتی انداز میں ’’چوٹی کی ملاقاتیں‘‘ راہ کی مشکلات کا حقیقی جواب نہیں۔ ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ صرف ٹھنڈے دل سے معاملات اور تنازعات کا تجزیہ اور ٹھوس اور حقیقت پسندی پر مبنی ہوم ورک سے حل کی راہیں استوارہوسکتی ہیں۔ جو حقیقی قوتیں اور دبائو مسئلے کو اجاگر کرنے کا ذریعہ بنی ہیں‘ ان کے موثر ترہوئے بغیر مذاکرات کی کوئی گاڑی آگے نہیں بڑھ سکتی۔
اعتماد بحال کرنے والے نام نہاد اقدامات کے چکر میں ہم ۱۹۴۹ء کے لیاقت نہرو معاہدے سے لے کر ۱۹۶۵ء کے معاہدہ تاشقند‘ ۱۹۷۳ء کے شملہ معاہدہ اور ۱۹۹۹ء کے ’’اعلانِ لاہور‘‘ تک گھرے رہے ہیں اور معاملہ ’’ہنوز دلی دور است‘‘ کا ہے۔ ہماری نگاہ میں کلیدی مسئلے دو ہیں‘ باقی تمام امور ضمنی یا ذیلی ہیں۔
پہلا بنیادی مسئلہ ایک دوسرے کو کھلے دل سے تسلیم کرنے کا ہے۔ محض مینارِ پاکستان پر حاضری کا نہیں۔ بھارت نے پہلے دن سے ملک کی تقسیم کو ایک ’’ناجائز عمل‘‘ سمجھا اور صاف الفاظ میں اس کا اعلان کیا ہے۔ ۳ جون ۱۹۴۷ء کی تقسیمِ ہند کی تجویز کو تسلیم کرتے ہوئے کانگریس کی ورکنگ کمیٹی اور اس کی تمام لیڈرشپ نے کھلے لفظوں میں کہا تھا کہ یہ عارضی ہے اور بھارت کو پھرایک ہونا ہے۔ ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان کو بہ زور (ہماری اپنی غلطیوں کے سہارے) پاکستان سے جدا کرنے پر اندرا گاندھی نے اعلان کیا تھا کہ آج ہم نے مسلمانوں سے ان کے ہزارسالہ اقتدار اور تقسیم ملک کے ’’ظلم‘‘ دونوں کا بدلہ لے لیا۔ بی جے پی‘ آر ایس ایس اور ہندو بنیاد پرست جماعتوں کا منشور ہی یہ ہے کہ اکھنڈ بھارت قائم کرنا ہے اور تقسیم کی لکیر کو مٹانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے اہل علم کی ایک تعداد پاکستان کو برعظیم میں برطانوی اقتدار کی ایک جانشین ریاست (succeeding state) قرار نہیں دیتے بلکہ اسے ایک علیحدگی پسند اور باغی ریاست (seceeding state) قرار دیتے ہیں۔ یہ ان کا سوچا سمجھا ذہن (mind set) ہے جس سے پالیسی اور رویے دونوں کے دھارے پھوٹتے ہیں۔ اس ذہن کو تبدیل کیے بغیر‘ اور ایک دوسرے کو مبنی برحق ریاست تسلیم کیے بغیر‘ حالات میں بنیادی تبدیلی مشکل ہے۔
گذشتہ سال گجرات کے انتخابات میں صرف مسلمانوں کاقاتل مودی ہی نہیں‘ ایڈوانی اور واجپائی سمیت پوری بی جے پی کی قیادت نے ساری الیکشن کی مہم مشرف ‘پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف پاکستان دشمنی کی بنیاد پر چلائی اور اپنی سر پر لٹکتی شکست کو کامیابی میں بدل دیا۔ ابھی ۲ مئی ۲۰۰۳ء کو بی بی سی کے Question Time India پروگرام میں بی جے پی /شیوسینا کے رکن پارلیمنٹ نے فخر سے کہا کہ بھارت کو پاکستان میں خودکش حملہ آور بھیجنے چاہیں اور دعویٰ کیا کہ وہ خودخودکش حملہ آوروں کے ایسے گروہ میں شرکت کے لیے آمادہ ہیں۔ جب ایشین ایج کی ایڈیٹر نے اسے مہذب معاشرے کے آداب کے خلاف قرار دیا تو حاضرین کی ۷۰ فی صد نے (واضح رہے کہ بی بی سی کے ان پروگراموں میں مختلف طبقات کے مہذب پڑھے لکھے لوگ ہی بلائے جاتے ہیں) بڑے جوش و خروش سے پاکستان کو ایسے حملوں کا نشانہ بنانے کی تائید کی۔نیز جب ایک ای میل کے ذریعے کشمیر کی لائن آف کنٹرول کو مستقل سرحد بنانے کی تجویز آئی تو بی جے پی کے نائب وزیر خارجہ دج وی جے سنگھ نے نفرت اور غصے سے یہ اعلان کیا کہ ہمیں پورا کشمیر چاہیے ‘محض لائن آف کنٹرول کو سرحد نہیں مان سکتے!
یہ وہ ذہنیت ہے جو تعلقات کی راہ میں سدّ سکندری کی طرح حائل ہے۔ پاکستان میں بھی بھارت کے خلاف شعلہ بیانیاں کرنے والے موجود ہیں لیکن بحیثیت مجموعی پاکستان کی ریاست‘ اس کی کسی بھی حکومت اور اہم سیاسی قیادت نے ریڈکلف ایوارڈ کی ساری زیادتیوں اور حق تلفیوں کے باوجود‘ بھارت کے کسی علاقے پر کوئی دعویٰ نہیں کیا اور کشمیر کے مسئلے کے سوا جو متنازعہ ہے‘ ہمارے درمیان سیاسی جغرافیے کے بارے میں کوئی جھگڑا نہیں۔ پاکستان بھارت کو کھلے دل سے تسلیم کرتا ہے البتہ برابر کی خودمختار حیثیت کی بنیاد پرمعاملہ کرنا چاہتا ہے‘ جب کہ بھارت پاکستان کو جسم میں کانٹے کی حیثیت دیتا ہے اور ایک باج گزار ملک کی حیثیت سے دیکھنا چاہتا ہے بلکہ اپنا ہی کٹا ہوا انگ قرار دیتا ہے۔
پہلا مسئلہ جس پر حقیقت پسندی کے ساتھ افہام و تفہیم کی ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کو برابری کے ساتھ تسلیم کرنا اور نظریاتی اور تہذیبی اختلاف کو تحقیر کی نظر سے نہیںاحترام کی نظر سے دیکھنے کی روایت ڈالنا ہے۔ دو قومی نظریہ جو ہماری ریاست کی بنیاد ہے‘ ان کی نگاہ میں وہی بِس کی گانٹھ ہے۔ نظریاتی اور تہذیبی اختلاف کو وہ معتبر ماننے کو تیار نہیں اور یہی ان کی عدم رواداری بلکہ جارحیت کا منبع ہے۔ اگر اختلاف کو معتبرمان کر برابری کی بنیاد پر دوستی کی بات ہو تو پاکستان اس کے لیے کافی حد تک آگے (more than half way) جانے کے لیے تیار ہے اور اس میں پاکستان کی تمام سیاسی اور دینی قوتوں میں کوئی اختلاف نہیں۔ البتہ بھارت کو اپنا نظریاتی اور تہذیبی تسلط قائم کرنے کا رویہ ترک کرنا ہوگا‘ اسے ہماری سیاسی اور تہذیبی شناخت کے مبنی برحق ہونے پر حرف گیری ختم کرنا ہوگی اور علاقے میںاپنی اپنی تہذیبی و ثقافتی انفرادیت کی بنیاد ایک دوسرے سے تعاون کی روایت مستحکم کرنا ہوگی۔ ثقافتی اور معاشی رشتے--- محض اعتماد بحال کرنے کے اقدامات نہیں---صرف اسی وقت بارآور ہوسکتے ہیں جب تعلقات برابری اور احترام کی بنیادوں پہ استوارہوں ورنہ یا ان پر نفاق کا سایہ ہرلمحہ موجود رہے گا یا پھر وہ سامراجی اور برتری اور کمتری کے کسی نہ کسی فریم ورک کے اسیر رہیں گے جو صحت مند اور باوقار تعاون کے منافی ہے۔
دوسرا بنیادی اور کلیدی مسئلہ جموں و کشمیر کی ریاست کے مستقبل سے متعلق ہے۔ دستور‘ قانون اور بین الاقوامی عہدوپیمان ہر اعتبار سے کشمیر کا پورا علاقہ ایک متنازعہ علاقہ ہے جو تقسیم ملک کے ایجنڈے کا نامکمل حصہ ہے۔ بھارت صرف قوت سے ریاست کے بڑے حصے پر قابض ہے اور شملہ معاہدہ کے بعد اس کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے دھوکے سے سیاچین پر بھی قابض ہو گیا ہے۔ سیاچین یا وولربیرج یا سر کریک کے مسائل کوئی مستقل بالذات مسائل نہیں ہیں‘ مسئلہ کشمیر ہی کا ایک حصہ ہیں۔ کشمیری عوام نے ہر دور میں اور خاص کر گذشتہ چودہ سالوں میں سیاسی اور عسکری جدوجہد کے ذریعے بھارت سے اپنی مکمل علیحدگی (alienation) کا بھرپوراظہار کردیا ہے۔ یہ حقیقت دنیا کے سامنے ہے جس کی شہادت ۶۰‘۷۰ ہزار افراد نے اپنے خون سے دی ہے کہ نہ وہ بھارت کا حصہ ہیں اور نہ ان کے لیے کوئی ایسا انتظام قابلِ قبول ہے جس میں وہ بھارت کے دستور کے تحت ہوں۔ انھیں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار ہونا چاہیے اور جو حق شمالی آئرلینڈ اور مشرقی تیمور کو دیا گیا ہے‘ وہی ان کو دیا جائے تاکہ وہ اپنی آزاد مرضی سے اپنے مستقبل کو طے کرسکیں۔
مسئلہ کشمیر کے تین فریق ہیں: پاکستان‘ بھارت اور جموں و کشمیر کے عوام۔ اور مسئلے کا کوئی حل اس کے سوا نہیں کہ یہ تینوں کھلے دل سے مذاکرات کریں۔ حق خود ارادیت اور تقسیم ہند کے طے شدہ اصولوں کی روشنی میں آج کے حالات کے مطابق ریاست کے عوام کو اپنا مستقبل طے کرنے کا آزادانہ موقع دیں اور اس کے تفصیلی عملی طریق کار کو باہمی مشاورت سے خود طے کریں یا غیرجانب دار عالمی انتظام کے تحت اس کا راستہ نکالیں۔
مذاکرات کا موضوع یہی دونوں کلیدی معاملات ہیں اور مذاکرات کا ہدف ان دونوں معاملات کے مبنی برحق اور افہام و تفہیم سے طے ہونے والے متفقہ لائحہ عمل کو ہونا چاہیے۔بیرونی دبائو‘ قوت کے مظاہرے اور سیاسی عجلت پسندی سے ایسے بنیادی مسائل نہ ماضی میں طے ہوئے ہیں اور نہ آج ہوسکتے ہیں۔ ’’کچھ کر دکھانے‘‘ کا جذبہ اور نوبل انعام کا مستحق بننے کی خواہشات خواہ کتنی ہی دل پسند ہوں‘ تاریخی حقائق اور عوامی خواہشات کا بدل نہیں ہوسکتیں۔ ڈپلومیسی کے کتنے ہی راستے (tracks) کیوں نہ ہوں‘زمینی حقائق اور جموں و کشمیر کے عوام کی خواہشات اور ان کے حصہ لینے ہی سے مسئلے کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ روڈمیپ اسی وقت مفید ہو سکتا ہے جب روڈ ہو--- اور روڈ صرف ایک ہے‘ یعنی بین الاقوامی معاہدات کے مطابق استصواب رائے۔ اس کا کوئی شارٹ کٹ نہیں۔ جموں و کشمیر کے عوام نے جس تاریخی شعور کا مظاہرہ کیا ہے‘ بیرونی تسلط کے خلاف جس جرأت‘ استقلال سے مزاحمت کی تاریخ رقم کی ہے‘ آزادی کے لیے قربانیوںکا جو نذرانہ پیش کیا ہے اور غیرمنصفانہ سمجھوتے کے ہر راستے کو جس طرح رد کیا ہے اس کا تقاضا ہے کہ ان کو اپنے مستقبل کو طے کرنے کا موقع دیا جائے۔ نیز بھارت اور پاکستان دونوں کو‘ اگر وہ مسئلے کا حل چاہتے ہیں‘ وہ راستہ اختیار کرنا چاہیے جس کے نتیجے میں جموں و کشمیر کے عوام اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اپنا مستقبل طے کر سکیں اور جو فیصلہ بھی وہ کرلیں اسے کھلے دل سے قبول کر لیا جائے۔ اس سلسلے میں پاکستانی عوام اور جموں و کشمیر کے عوام کے درمیان مکمل یک جہتی ہے اور پاکستانی حکومتیں بھی اسی موقف کو اپنا اصولی موقف اور قومی پالیسی قرار دیتی رہی ہیں۔ اگر ۵۵ سال ہم اس پر قائم رہے ہیںتوکوئی وجہ نہیں کہ آج اس سے انحرف کر کے کوئی اور راستہ اختیار کیا جائے۔ دوستی وہی پایدار اور مستحکم ہوسکتی ہے جو حقائق اور انصاف پر مبنی ہو۔ دبائو یا مصلحت کے تحت ہونے والے معاملات تارِ عنکبوت کی طرح ہوتے ہیں اور زندہ قومیں وقتی مصلحتوں کی خاطر اصولی موقف ترک نہیں کیا کرتیں۔
آج پاکستان کی قیادت اور قوم دونوں کا امتحان ہے کہ وہ ایک نسبتاً معاندانہ بین الاقوامی ماحول میں بھی کس حد تک ایمان‘ استقامت اور تاریخی شعور کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ مذاکرات ضرور کیجیے اور جتنی بار موقع ملے‘ کیجیے لیکن تاریخی حقائق ‘ اصول انصاف اور اہل کشمیر کے حق پر سمجھوتہ کرنے کے ظلم سے اپنے دامن کو بچائے رکھیے۔ تاریخ کا سبق ہے کہ کبھی ایک قوم کسی دوسری قوم کو محض قوت اور جبر سے ہمیشہ کے لیے مغلوب نہیں رکھ سکی ہے۔ فرعون کے دور میں بنی اسرائیل سے لے کر دورِ جدید کے استعماری نظام کے زیرتسلط اقوام کی تاریخ تک اس پر شاہد ہے: ولن تجد لسنۃ اللّٰہ تبدیلا، اور اللہ کی سنت بدلا نہیں کرتی۔ وقت ہمارے ساتھ ہے‘ ضرورت یکسوئی‘ صبر اور استقامت کی ہے۔
پاکستانی قوم اور قیادت دونوں کے لیے ضروری ہے کہ بھارت کی تازہ نام نہاد دوستی اور مذاکرات کی پیش کش کے اصل مقاصد اور اہداف کا ٹھیک ٹھیک ادراک کرے۔ نیز امریکہ کا اس علاقے اور خصوصیت سے چین‘ بھارت اور پاکستان کے سلسلے میں کیا منصوبہ اور پالیسی ہے اس کا بھی گہری نظر سے جائزہ لے اور تاریخی حقائق کی روشنی میں تجزیہ کرے۔ پھر اپنے قومی مفادات اور علاقے کے بارے میں اپنے وژن کی روشنی میں پالیسی کے مقاصد طے کرے‘ ان کے حصول کی حکمت عملی کا تعین کرے اور ان پر موثرانداز میں عمل کرنے کے لیے نقشہ کار مرتب کرے۔ اس وقت جنرل پرویز مشرف‘ وزیراعظم ظفراللہ جمالی‘وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری اور شیخ رشیداحمد جس نوعیت کے اور جس رفتار سے بیانات دے رہے ہیں ان سے ژولیدہ فکری‘ عجلت پسندی‘ رومانوی توقعات اور آج تک کی اس پالیسی سے عملی انحراف کے واضح خطوط نظر آرہے ہیں جس پر ملک میں اتفاق رائے تھا۔ ایک طرف اصولی موقف میں عدم تبدیلی کا دعویٰ ہے اور دوسری طرف وہ سب کچھ کہا اور کیا جا رہا ہے جس کا اس اصولی موقف سے کوئی علاقہ نہیں بلکہ اس سے صریح انحراف ہے۔ یہ صورت حال بڑی خطرناک ہے۔
یہ سب کچھ بڑی حد تک ایک فردِ واحد کے اشارہ چشم و آبرو پر ہو رہا ہے‘ نہ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا گیا ہے اور نہ کسی معقول اور موثر قومی سطح کی افہام و تفہیم کا اہتمام کیا گیا ہے۔ دوسری طرف ملک پر امریکی قیادت کی یلغار ہے اور ہدف محض ۱۱ ستمبر اور نام نہاد عالمی دہشت گردی ہی نہیں‘ پاک بھارت تعلقات اور مسئلہ کشمیر کا امریکی منصوبے کے مطابق ’’حل‘‘ یا بہ الفاظ صحیح تر ’’تحلیل‘‘ بھی ہے‘ اس لیے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ قوم کے سامنے ان چاروں پہلوئوں یعنی بھارت کے اہداف‘ امریکہ کا منصوبہ‘ پاکستانی قیادت کی لچک اور منتشرخیالی اور اقبال اور قائداعظم کے وژن کے مطابق مسئلہ کشمیر پر اصل قومی موقف اور اس کے حصول کے لیے صحیح حکمت عملی کے بارے میں ضروری گزارشات پیش کریں۔
بھارت نے آگرہ کے بعد کشمیر کے بارے میں اپنی پرانی حکمت عملی کو ایک نیا رنگ دیا۔ ایک طرف ریاستی تشدد میں کئی گنا اضافہ کر دیا۔ پوٹا (POTA)کے ذریعے کشمیری قیادت کی زبان بندی اور ان کو دہشت گردی کے نام پر حراست اور تشدد کا نشانہ بنانے کی جارحانہ پالیسی پر عمل شروع کیا تو دوسری طرف پاکستان کو عالمی برادری میں تنہا (isolate) کرنے کے لیے سفارتی مہم تیز تر کی اور تیسری طرف جموں و کشمیرمیں نئے انتخابات کا ڈھونگ رچا کر نیشنل کانفرنس کی جگہ نئے چہروں کو پرانا سیاسی کردار ادا کرنے پر مامور کیا۔ اس زمانے میں ۱۱ ستمبر کا واقعہ پیش آیا اور بھارت نے اس کے سہارے امریکہ سے رشتے کو مضبوط تر کرنے‘امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ نیا گٹھ جوڑ قائم کرنے اور دہشت گردی کے خلاف مہم میں امریکہ کا دست راست بننے اور پاکستان کو کارنر کرنے کی بازی چلی۔ پاکستان نے امریکہ کو اپنا کندھا پیش کردیا‘ اس سے بھارت اپنے تمام مقاصد تو حاصل نہیں کر سکا البتہ تین مقاصد حاصل کرنے میں وہ کامیاب ہوگیا۔ پہلا: امریکہ سے strategic partnership‘ جب کہ ہم سے صرف tactical alliance ہے۔ دوسرا: اسرائیل سے قریبی تعاون‘ پالیسی میں باہمی ربط‘ انٹیلی جنس کی شراکت اور مشترک فوجی ٹریننگ کے نظام کا قیام ۔اور تیسرا: کشمیر میں تحریک آزادی کو دہشت گردی کی صف میں شامل کرانا۔
اس میں سب سے افسوس ناک اور ناقابلِ فہم رویہ جنرل پرویز مشرف صاحب کا رہا جنھوں نے ۱۱ستمبر کے سلسلے میں امریکہ سے تعاون بلکہ امریکہ کے آگے سپرڈالنے کے موقع پر دعویٰ کیا تھا کہ یہ سب کچھ انھوں نے تین ضمانتوں کے ساتھ کیا ہے‘ یعنی اول: افغانستان میں امریکی ایکشن مختصر اور متعین اہداف تک محدود ہوگا‘ دوم: کشمیر کے سلسلے میں پاکستان کے موقف کا تحفظ اور سوم: پاکستان کے strategic resources یعنی ایٹمی صلاحیت کا دفاع۔ لیکن صاف نظر آ رہا ہے کہ یہ تینوں ضمانتیں پادر ہوا ثابت ہوئیں اور ایک ایک کرکے ہر بات کی نفی ہوگئی۔ افغانستان میں آج تک خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے اور خون خرابے کے اس سلسلے کی کوئی انتہا نظر نہیں آرہی۔کشمیر کے سلسلے میں جنوری اور پھر مئی ۲۰۰۳ء میں جنرل صاحب نے پسپائی اختیار کی اور ’سرحد پار دراندازی‘ مجاہد تنظیموں پر پابندی اور پاکستان کی سرزمین کے نام نہاد دہشت گردی کے لیے استعمال نہ کیے جانے کی ضمانت‘ یہ سب کچھ انھوں نے خود طشتری پر رکھ کر امریکہ اور بھارت کو دے دیا اور اس کے ساتھ یہ بھی گردان جاری رہی کہ اصولی موقف میں تبدیلی نہیں کی گئی۔
اس پورے معاملے کا سب سے نقصان دہ پہلو یہی ہے کہ جنگ آزادی اور دہشت گردی کا اصولی اور مسلمہ فرق نظرانداز کر دیا گیا اور بھارت اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے شاطرانہ کھیل میں پروپیگنڈے کی حد تک کامیاب رہا۔ واجپائی صاحب اپنی اس کامیابی کا اظہاربھارتی پارلیمنٹ میں ۸ مئی ۲۰۰۳ء کو یوں کرتے ہیں:
میں نے بڑی کامیابی کے ساتھ عالمی برادری کوقائل کر لیا ہے کہ پاکستان کو کشمیر میں دراندازی روکنی چاہیے۔
بھارت مسئلہ کشمیر اور پاک بھارت تعلقات کے باب میں جس مسئلے کو سب سے اہم اور کلیدی سمجھتا ہے وہ ’سرحد پار دہشت گردی‘ ہے اور امریکہ کے صدر‘ سیکرٹری آف اسٹیٹ اور ان کے پورے طائفے نے بھارت کی ہاں میں ہاں ملائی ہے اور بالآخر جنرل پرویز مشرف سے یہ یقین دہانی حاصل کر لی ہے کہ ’’پاکستان کی طرف سے کشمیر میں لائن آف کنٹرول پار کرنے کی اجازت یا موقع کسی کو نہ دیا جائے اور یہ کہ آزاد کشمیر میں کشمیری مجاہدین کا کوئی کیمپ نہیں اور اگر کوئی ہیں تو وہ کل ختم کر دیے جائیں گے‘‘۔ یہ امریکی نائب وزیرخارجہ رچرڈ آرمٹیج کے الفاظ ہیں۔
۱۸ اپریل ۲۰۰۳ء کو واجپائی صاحب نے اس شاعرانہ انداز میں کہ ’’منہ پھیرکر اِدھر کو‘ اُدھر کو بڑھائے ہاتھ‘‘ سری نگر سے پاکستان کے لیے دوستی کا سندیسہ دیا جس پر پاکستان کی قیادت بغلیں بجا رہی ہے اور ان کی ’’سنجیدگی اور خلوص‘‘ کے گیت گا رہی ہے۔ لیکن واجپائی صاحب نے ۸ مئی کو اپنی پارلیمنٹ میں صاف الفاظ میں اعلان کر دیا کہ ’’جموں و کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اور نئے حالات میں بھی رہے گا۔ اب تقسیم کا زمانہ نہیں اس لیے کشمیر کی بھی تقسیم نہیں ہوگی۔ کشمیرہم سے کوئی چھین نہیں سکتا‘‘۔ نیز یہ بھی کہ سرحد پار دراندازی بندکرنا ہوگی۔ اس کے بغیر مذاکرات کے لیے ماحول سازگار نہیں۔ اور وہی پرانی بات کہ بھارت مرحلہ بہ مرحلہ (step by step) اپروچ پر کاربند ہوگا جس کے معنی یہ ہیں کہ پہلے اعتماد بحال کرنے والے اقدام (سی بی ایم) ہوں‘ تجارت بڑھے‘ بھارت کو انتہائی پسندیدہ ملک (most favoured nation) کا مقام دیا جائے‘ ہوائی راستے کھولے جائیں‘ ثقافتی تبادلے ہوں۔ پھر باقی امور پر بات چیت ہوگی۔ یہی لفظ بہ لفظ وہ حکمت عملی ہے جس پر بھارت ۱۹۴۹ء سے مصر ہے۔ شملہ معاہدے میں اسی کو بنیاد بنایا گیا تھا۔ دو طرفہ گفتگو کا وعدہ کیا گیا تھا مگر ۱۹۷۲ء اور ۱۹۹۹ء کے درمیان ۴۵ بار بھارت اور پاکستان کے نمایندے ملے‘ جن میں ایک تجزیے کے مطابق چھ بار اور دوسرے کے مطابق آٹھ بار کشمیر کا نام لیا گیا‘ مگر فی الحقیقت صرف ایک بار۔ وہ بھی ۱۹۹۴ء میں جب مقبوضہ کشمیر میں جہادی تحریک اپنے عروج پر تھی‘ عملاً بات چیت ہوئی جو حسب توقع نتیجہ خیز نہ ہوئی۔ یہ ہے بھارت کی حکمت عملی اور اس کا ریکارڈ۔
۱۸ اپریل کی پیش کش کے بعد واجپائی‘ ایڈوانی‘ جارج فرنانڈس اور یشونت سنہا سب نے بعینہٖ وہی بات کہی ہے جو پہلے سے کہتے چلے آ رہے ہیں حتیٰ کہ فرنانڈس نے ۱۷ مئی کو سری نگر میں صاف کہا ہے سیزفائرکا سوال نہیں۔ ایڈوانی نے ۹ مئی کو پارلیمنٹ میں کہا ہے کہ:
میں ان (واجپائی) کے ساتھ بالکل متفق ہوں۔ اگر دہشت گردی کا انفراسٹرکچر ختم نہ کیا گیا تو پاکستان کے ساتھ کوئی دوستی نہیں ہو سکتی۔
بھارتی پارلیمنٹ کے اس اجلاس میں پوری بھارتی قیادت نے بشمول واجپائی ۱۹۹۴ء کے پارلیمنٹ کے ریزولیوشن پر قائم رہنے کا اعادہ کیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ جموں و کشمیر کی پوری ریاست بشمول آزاد کشمیر بھارت کا حصہ ہے اور ریاست کی تقسیم کا کوئی سوال ہی نہیں۔ پارلیمنٹ میں کہا گیا کہ پاکستان سے مذاکرات کی بنیاد ۱۹۹۴ء کا یہ ریزولیوشن ہوگا۔ انھی باتوں کا اعادہ ۱۹ مئی کو بھارتی وزیرخارجہ یشونت سنہا نے کیا ہے۔ اس سب کے باوجود ہمارے وزیراعظم‘ وزیرخارجہ اور وزیراطلاعات بھارت کی سنجیدگی اور خلوص کی باتیں کر رہے ہیں اور کشمیر کے مسئلے کے حل کی نوید سنا رہے ہیں بلکہ اس مژدہ جانفزا کی متوقع تاریخ پیدایش کے بارے میں بھی اشارے کر رہے ہیں حالانکہ بھارت کی قیادت اپنے موقف اور حکمت عملی سے سرمو ہٹتی نظر نہیں آرہی ؎
دیکھ مسجد میں شکستِ رشتہ تسبیح شیخ
ار بت کدے میں برہمن کی پختہ زناری بھی دیکھ
۱- دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی عالمی جنگ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان پر اتنا دبائو کہ وہ جہاد کشمیر اور تحریکِ مزاحمت سے دست کش ہو جائے اور عملاً اسی قسم کا یوٹرن کرا لیا جائے جس طرح افغانستان میں ۲۰۰۱ء میں ہوا۔
۲- پاکستان کو مرحلہ وار راستے پر ڈال کر ہوائی سفر‘ تجارت‘ ثقافت اور دوسرے میدانوںمیں بھارت کے اہداف حاصل کرنے کے لیے مجبور کیا جائے۔
۳- امریکہ اور اسرائیل سے اپنے تعلقات کو مضبوط کرکے ایک موثر اتحاد: امریکہ اسرائیل بھارت محورکے طور پر قائم کیا جائے اور کشمیر میں خونی حکمت عملی جاری رکھی جائے جس پر اسرائیل فلسطین میں عمل پیرا ہے۔ اس کے لیے صرف اسرائیلی انٹیلی جنس کا تعاون نہیں‘ بلکہ اسرائیلی حربے (tactics) اور ٹکنالوجی دونوں کو استعمال کیا جائے۔
۴- پاکستان کو غیر جانب دار (neutralize)کر کے ریاستی قوت اور تشدد کے ذریعے (واضح رہے کہ ۱۸ اپریل کے بعد بھارت نے گن شپ ہیلی کاپٹر استعمال کیے ہیں اور ایک ہی ہلّے میں ۵۶ افراد شہید کیے ہیں) کشمیر کی تحریک مزاحمت کو پاکستان سے مایوس کر کے نرمی اور سختی (carrot and stick) کی پالیسی کے تحت بھارت کے دستور کے تحت خودمختاری کے نام پر کسی انتظام کو قائم کر دیا جائے اور اس کے لیے امریکی اور عالمی تائید حاصل کرلی جائے۔
۵- لائن آف کنٹرول کوعملاً سرحد بنا دیا جائے البتہ پاکستان پر دبائو جاری رکھا جائے کہ آزاد کشمیربھی بھارت کے زیرتسلط کشمیر کا حصہ ہے۔
۶- اگر اس میں کامیابی ہو جائے تو پھر کشمیر کی معاشی ترقی کے نام پر کشمیر سے پاکستان آنے والے دریائوں پر بجلی اور زراعت کے لیے بند (dams) بنائے جائیں اور پاکستان کو اس کے پانی سے محروم کر کے شدید معاشی دبائو کاشکار کیا جائے۔
۷- امریکی اور اسرائیلی تائید سے بالآخر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھارت کے لیے مستقل نشست حاصل کی جائے‘ مستقل نشست کی بنیاد پر اپنی ایٹمی صلاحیت کو تحفظ دیا جائے اور پاکستان کی ایٹمی طاقت کی حیثیت ختم (de-nuclearize) کرنے کے امریکی منصوبے کے لیے عالمی دبائو استعمال کیا جائے۔
۸- بالآخر علاقے پر بھارت کی بالادستی قائم کی جائے اور پاکستان کو یا توکسی نوع کی کنفیڈریشن میں لایا جائے یا کم از کم سیاست‘ تجارت‘ ثقافت اور میڈیا کے ذریعے تقسیم کی لائن کو عملاً غیرموثر بنا دیاجائے۔ اس کے لیے پاکستان کو ایک جمہوری اور سیکولر ملک بنانے کے لیے دبائو ڈالا جائے۔
یہ ہے بھارت کا وہ عظیم منصوبہ جس پر عمل کا آغاز ۱۸ اپریل کی دوستی کی پیش کش سے ہوا ہے۔ ورنہ کسی پہلو سے بھی بھارت کے رویے میں کوئی ایسی تبدیلی نہیں آئی ہے جس سے مسئلہ کشیر کو کشمیر کے عوام کی مرضی کے مطابق حل کرنے اور پاکستان سے بھارت کے تعلقات دو آزاد مساوی ممالک کی حیثیت سے استوار ہونے کا کوئی اشارہ بھی ملتا ہو ؎
نہ وہ بدلے‘ نہ دل بدلا‘ نہ دل کی آرزو بدلی
میں کیسے اعتبار انقلابِ آسماں کر لوں
امریکہ کے اہداف اور عزائم کے بارے میں ہمیں کوئی شبہہ نہیں ہوناچاہیے۔ بلاشبہہ افغانستان پر اپنے حملے میں اس نے دل کھول کر پاکستان کو استعمال کیا۔ اور ہم نے عملاً امریکہ کی ایک کالونی کی حیثیت سے اپنے کو استعمال ہونے دیا۔ اسی ہفتے امریکہ کی سنٹرل کمانڈ کی جو رپورٹ شائع ہوئی ہے اس نے وہ تمام تفصیلات دنیا کے سامنے کھول کر رکھ دی ہیں جن پر آج تک پردہ پڑا ہوا تھا۔ امریکہ نے پاکستان سے ۵۷ ہزار اڑانیں (sorties)کیں اور ملک کو اس دوستی اور تعاون میں ۱۰ ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ اہل پاکستان اس بارے میں کسی شک میں نہ تھے لیکن اس خدمت کے باوجود پاکستان‘ اس کے نیوکلیر اثاثہ جات اور مسلمانوں کا جذبۂ جہاد امریکہ کی موجودہ قیادت کی آنکھوں میںکانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے۔ صدر جارج بش نے ریاض اور دارالبیضاکے واقعات کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جن ملکوں تک پہنچنے کا اعلان کیا ہے‘ ان میں شام‘ کوریا‘ ایران‘ صومالیہ‘ سعودی عرب‘ کینیا کے ساتھ پاکستان کا نام نامی بھی موجود ہے۔
بھارت اور اسرائیل اس وقت امریکہ کے اہم ترین اتحادی (strategic partners) ہیںاور پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اس کی نگاہ میں ایک ناقابلِ برداشت خطرہ ہے۔ ایک طرف دوستی کے دعوے ہیں اور دوسری طرف سی آئی اے نے برعظیم کا جو نقشہ جاری کیا ہے اس میں بھارت کے زیرقبضہ کشمیر کو ’انڈین اسٹیٹ آف جموں و کشمیر‘ کہا گیا ہے‘ جب کہ آزاد کشمیر کو Pakistan controlled areas of Kashmir قرار دیا گیا ہے۔ اس سے بھی زیادہ آنکھیں کھول دینے والی وہ قرارداد ہے جو ۷ مئی ۲۰۰۳ء کو امریکی کانگریس کے ایوان نمایندگان کی بین الاقوامی تعلقات کمیٹی نے متفقہ طور پر منظور کی ہے۔ اور جس میں امریکی صدر سے کہا گیا ہے کہ:
کانگریس کو بتائیں کہ پاکستان سرحد پار دہشت گردی ختم کرنے ‘آزاد جموں و کشمیر میں دہشت گردی کیمپ ختم کرنے اور جوہری پھیلائو روکنے کے دعووں کو کس حد تک پورا کر رہا ہے۔
یہ اس سے بھی زیادہ بدتر‘ شرم ناک اور جارحانہ قرارداد ہے جو پریسلر نے افغان جہاد کے آخری ایام میں منظور کرائی تھی اور جس کے تحت ۱۹۸۹ء سے پاکستان کے خلاف امریکی پابندیاںلگائیگئی تھیں۔
امریکہ کا ہدف پاکستان کو بے بس (corner) کرنا‘اس کی ایٹمی صلاحیت پر قابو حاصل کرنا اور مسلمانوں کے اندر سے روح جہاد کو کمزور اور بالآخر ختم کرنا ہے۔ خود ملک میں سیکولر نظریات کا فروغ اور لادین قوتوں کی تائید و تقویت اس کا حصہ ہے۔ موجودہ قیادت امریکہ پر اعتماد اور اس سے دوستی کا ایک خطرناک کھیل کھیل رہی ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ وہ نہ توامریکہ سے دوستی کی تاریخ سے کوئی سبق سیکھ رہی ہے اور نہ عالم اسلام کے بارے میں امریکہ کے موجودہ عزائم کا اسے کوئی شعور و ادراک ہے۔
ان حالات میں قوم کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیںکہ اس قیادت پر بھروسا نہ کرے اور اپنے مفاد اور اپنے دین و ایمان‘ ثقافت و تمدن اور سلامتی کے تحفظ کے لیے خود موثر اقدام کرے۔ ہمیں خطرہ ہے کہ ایل ایف او کے معاملے میں جو خطرناک کھیل برسرِاقتدار قوتیں کھیل رہی ہیں وہ بھی علاقے کے لیے امریکی عزائم سے غیرمتعلق نہیں۔ فوج جسے کبھی قوم کی مکمل تائید حاصل تھی اور جس کا آج بھی موٹو ایمان‘ تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ ہے‘ اسے عوام کے اعتماد سے محروم کیا جا رہا ہے اور ایسے حالات پیدا کیے جا رہے ہیں کہ قوم اور فوج ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار نہ ہوں بلکہ باہم دست و گریباں اور تصادم کا شکار ہو جائیں۔ جو بالآخر پاکستان کی سلامتی کو کمزور کرنے کا باعث اور علاقہ میں قوت کا توازن بھارت کے حق میں کرنے پر منتج ہوسکتا ہے۔
جنرل پرویز مشرف اور مرکزی حکومت کے دوسرے ذمہ دار حضرات کے چند بیانات کی طرف ہم اشارہ کر چکے ہیں۔ ان بیانات میں تضاد اور انتشار فکری کا سماں نظر آتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان بیانات میں بھارت اور امریکہ کی موجودہ قیادت کے بارے میں خوش خیالیوں اور خوش فہمیوں کی اتنی کثیر مقدار دیکھی جا سکتی ہے جس کی کوئی توجیہ سفارتی آداب کے نام پر نہیں کی جا سکتی۔ ایک طرف اصولی موقف پر استقامت کا دعویٰ ہے‘ کشمیر کی مرکزی حیثیت کا اعلان ہے‘ تقسیم کشمیر اور لائن آف کنٹرول کو سرحد بنانے سے برأت کا اظہار ہے تو دوسری طرف کبھی ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کی بات ہے، اور کبھی ان کی تقریروں اور تحریروں میں’’پاکستان یا کشمیر؟‘‘ جیسے فتنہ انگیز جملے یا اعلان کی بھی بازگشت ہے۔ اسی طرح feelerکے طور پر چناب پلان کا ذکر ہے اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے بارے میں سہل انگاری کا رویہ ہے‘ جہاد پر معذرت اور جنگ ِ آزادی اور دہشت گردی کے فرق کے بارے میں معذرت خواہانہ رویہ ہے‘ جہادی تنظیموں پر پابندیاں اور مجاہدین کے کیمپوں سے گلوخلاصی کی باتیں ہیں۔ کبھی کشمیر کے مسئلے کے حل کے بغیر تجارت کا لفظ سننے کے لیے تیار نہ تھے اور اب ’’تجارت اورثقافت پہلے‘‘ کے بھارتی مطالبے پر سجدہ ریز ہیں--- اور ان سب پر مستزاد بھارت کے مذاکرات کے ۵۵ سالہ ناکام تجربات اور امریکہ کی دوستیوں اور بے وفائیوں کی الم ناک تاریخ کے باوجود‘ دونوںسے خوش فہمی اور خوش اعتقادی کا ایسا اظہار ہے جو خود فریبی کی حدود کو چھونے لگتا ہے۔ اگر یہ سب ناتجربہ کاری اور پاک ہند تاریخ اور امریکہ کی دو سو سالہ کارگزاریوں سے ناواقفیت کی بنیاد پر ہے تو سخت خطرناک ہے اور اگر اس زعم پر مبنی ہے کہ جو قائداعظم اور آج تک کی قیادت نہیں کرسکی وہ ہم کر دکھائیں گے تو اس کا نام خود اعتمادی نہیں‘ خودفریبی ہے۔ اس پس منظرمیں ضروری ہوگیا ہے کہ قوم اور موجودہ قیادت کے سامنے چند بنیادی حقائق کو بلاکم وکاست رکھ دیا جائے اور پارلیمنٹ‘ سیاسی اور دینی قوتوں اور ملک کے بالغ نظرصحافیوںاور دانش وروں سے درخواست کی جائے کہ وہ اجتماعی احتساب کے ذریعے قیادت کو راہِ ثواب سے نہ ہٹنے دیں۔
۱- پہلی اہم ترین بات یہ ہے کہ مذاکرات میں اصولی موقف پر ذرا سی بھی لچک نہایت خطرناک ہو سکتی ہے۔ اگر ہمارا موقف مبنی برحق ہے اور بین الاقوامی قانون‘اقوامِ متحدہ کی قراردادیں‘ یو این او اور غیر جانب دار تحریک (NAM) کا چارٹر اور بھارت اور پاکستان کی قیادتوں کے وعدے (commitments) اور سب سے بڑھ کر جموں اور کشمیر کے عوام کی کھلی تائید ہمارے موقف کے حق میں ہے تو پھر ہمارے لیے کسی قسم کی بھی کمزوری دکھانے اور انصاف کی راہ سے پیچھے ہٹنے کا کیا جواز ہوسکتا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ محض زمین کا تنازع نہیںہے‘ یہ ایک اصولی مسئلہ ہے اور ایک کروڑ ۴۰ لاکھ انسانوں کے حق خود ارادیت کا مسئلہ ہے۔ مرور زمانہ سے یہ حق نہ کمزور پڑتا ہے اور نہ پادر ہوا ہو جاتا ہے۔ قومیں اس کے لیے برسوں نہیں‘ صدیوں لڑتی ہیں۔ اور کشمیری عوام نے اپنے خون کی گواہی دے کر حصولِ آزادی کے عزم کا ایسا مظاہرہ کیا ہے جس کی نظیر کم ہی ملتی ہے۔ یہ سیاسی جنگ کے ساتھ اعصابی جنگ بھی ہے اور اس میں فتح اسی کا مقدر ہے جو اپنے موقف پر ڈٹا رہے اور اعصاب کی کمزوری کا مظاہرہ نہ کرے۔معاشی ترقی اور دفاع پر اخراجات کا ہّوا دکھا کر جو لوگ پسپائی کی باتیں کرتے ہیں وہ حقائق سے آنکھیں چراتے ہیں۔
معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہماری غلط معاشی پالیسیاں‘ بدانتظامی اور کرپشن ہیں اور سود پر حاصل کیے جانے والے قرضوں کی جونکیں ہیں جو ملک کی معیشت کے خون کو چوس رہی ہیں۔ مرکزی حکومت کی محصولات سے حاصل ہونے والی آمدنی کا نصف‘ اس سود کی نذر ہو جاتا ہے ‘ جب کہ دفاعی اخراجات بجٹ کا صرف ۳۰ فی صد ہیں۔ معاشی ترقی کے ان متوالوں کو ترقی کا دشمن یہ bottom less sink نظرنہیں آتا اور نہ اپنی غلط کاریاں اور عیاشیاں دکھائی دیتی ہیں۔ نزلہ کشمیر اور اس کی تابناک جنگ ِ آزادی پر گرتا ہے۔ یہ خلط مبحث نہیں تو اور کیا ہے؟ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کی بات بھی کی جاتی ہے مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ کشمیر کے بغیرپاکستان نامکمل اور خالص اسٹرے ٹیجک اور معاشی اعتبار سے شدید خطرے میں (vulnerable)ہے۔ اگر کشمیر بقول قائداعظم‘پاکستان کی شہ رگ ہے تو پاکستان اور شہ رگ میں فرق کیسے کیا جا سکتا ہے؟ قائدعظم نے تو کشمیر میں ۲۸ اکتوبر ۱۹۴۷ء ہی کو پاکستان کی فوجیں بھیجنے کے احکام جاری کر دیے تھے مگر افسوس کہ اس وقت کے برطانوی کمانڈر ان چیف نے ان کو ماننے سے انکار کر دیا اور خود مرکزی کابینہ کے کوتاہ نظر ارکان نے قائد کی رائے کے خلاف فیصلہ دیا۔ قائداعظم نے چودھری غلام عباس کو خود یہ بتایا کہ:
اس کے بعد میں نے کابینہ کا اجلاس طلب کر کے یہی تجویز اپنے رفقا کے سامنے رکھ دی۔ لیکن تم جانتے ہو کہ کیا نتیجہ نکلا؟ کابینہ نے میری تجویز مسترد کر دی۔ اس لیے کشمیر کے معاملے میں ہم نہ صرف صحیح بس کھو بیٹھے بلکہ غلط بس میں بٹھائے گئے۔
لیکن کچھ بھی ہو کشمیر کے متعلق مایوسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا۔ ان شاء اللہ ہم کشمیر لے کر رہیںگے (ملاحظہ ہو: کشمیری مسلمانوںکی جدوجہد آزادی‘ ۱۸۹۴ء سے ۱۹۴۷ء تک‘ از پروفیسر محمد سرور عباس‘ صفحہ ۴۵۴-۴۵۵)
۲- دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ بھارت سے مذاکرات میں کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب بھارتی قیادت کی نفسیات‘ ان کے مذاکراتی حربوں اور چالوں سے واقفیت ہو۔ برطانوی دور میں جس طرح قائداعظم نے کانگریس سے معاملات طے کیے ہیں اس کی تاریخ سے آگاہی ضروری ہے۔ پاکستان بھارت مذاکرات کی دل خراش داستان کے نشیب و فراز جاننا بھی ناگزیر ہے۔ قائداعظم نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے کیا کیا جتن نہ کیے لیکن بالآخر وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اپنا راستہ الگ بنائے بغیر‘ کوئی چارئہ کار نہیں۔ قائداعظم نے شیخ عبداللہ کو بہت سمجھایا لیکن اُس وقت اس نے ان کی ایک نہ سنی اور پھر اسے خود اعتراف کرنا پڑا کہ بھارت کی قیادت کی سیاست کس طرح دھوکے اور عیاری پر مبنی ہے۔ شیخ عبداللہ کی خودنوشت کا مطالعہ اس پہلو سے چشم کشا ہے۔ جنرل پرویز مشرف اور جناب ظفراللہ جمالی کو اس کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ سمجھ سکیں کہ بھارت سے کس طرح معاملہ کرنا چاہیے۔
شیخ عبداللہ! میںنے اپنے یہ بال دھوپ میں سفید نہیں کیے ہیں۔ تمھیں باپ کی حیثیت سے سمجھا رہا ہوں۔ وقت آئے گا تو تم مجھے یاد کرو گے۔
شیخ عبداللہ اس وقت تو قائد کی نصیحت کو نہ سمجھے لیکن پنڈت نہرونے‘ جو ان کے جگری دوست بھی تھے نے جب چانکیا سیاست کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیریوں کے حق خود ارادیت اور استصواب سے برأت کا اعلان کیا تب شیخ عبداللہ کو ان کی سیاست کا اصل چہرہ نظر آیا۔ ۱۳سال بھارت کی جیل میں گزارنے کے بعد ۱۹۶۸ء کے ایک انٹرویو میں وہ کہتے ہیں:
ہندستان نے عارضی شمولیت کا وعدہ توڑ کر یہ اعلان کر دیا کہ کشمیر ہندستان کا حصہ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ میںنے پریشان ہوکر نہرو سے جو آزادی اور جمہوریت کے بہت بڑے علم بردار تھے‘ کہا کہ ہندستان کے وہ وعدے کیا ہوئے جو اس نے عارضی شمولیت کے بعد کیے تھے۔ جواب میں پنڈت نہرو نے کہا: ’’شیخ محمد عبداللہ! وہ سب تو تماشا تھا‘‘ اور میں بیان نہیں کر سکتا کہ پنڈت نہرو کا جواب سن کر مجھے کتنی حیرت ہوئی‘ میرا دل کس بری طرح ٹوٹ کر چکنا چور ہوگیا۔ (ماہنامہ شبستان‘ دہلی)
بھارت سے مذاکرات کرنے والی ہر ٹیم کو یہ تاریخ نظر میں رکھنی چاہیے۔
۳- بھارت سے مذاکرات میں سب سے بڑا جال (trap) مرحلہ بہ مرحلہ اپروچ اور مسائل پر الگ الگ بات چیت ہے۔ یہی کھیل فلسطین میں اسرائیل اور امریکہ نے کھیلا ہے اور یہی اب کشمیر میں کھیلا جانے والا ہے۔ اصل مسئلے کو مؤخر کرنا اور جزوی معاملات پر کچھ لو اور کچھ دو کا رویہ اختیار کرنا وہ خطرناک سانپ ہے جو مسئلے کے حل کے ہر امکان کو ہڑپ کر جائے گا اور حاصل کچھ نہ ہوگا۔ بھارت سے معاملہ کرنے کا صرف ایک طریقہ ہے اوروہ یہ کہ کشمیر میں تحریکِ مزاحمت کا دبائو ناقابلِ برداشت ہو جائے‘ عالمی دبائو جس حد تک ممکن ہو موثر بنایا جائے‘ پاکستان دفاعی حیثیت سے مستعد ہو اور تمام متعلقہ امور پر ایک جامع منصوبے کے ذریعے معاملات کو طے کیا جائے۔ اس سے ہٹ کر راستہ کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو کا راستہ ہے جس کا انجام ہماری زمین پر مخالف کا قبضہ‘ دائمی محکومی اور پاکستان کو ٹکڑے کر کے غیر موثر حصوں میں تقسیم کرنا (balkanization) ہے۔ فلسطین کی زبوں حالی سے اگر کوئی سبق ملتا ہے تو وہ یہ ہے کہ جزواً جزواً (piecemeal) معاملات سے احتراز کیا جائے اور جامع منصوبے (comprehensive package) پر اصرار کیا جائے ‘ خواہ اس میں کتنا بھی وقت لگے۔
۴- چوتھا مسئلہ اعتماد بحال کرنے والے اقدامات (سی بی ایم) کا ہے۔ لیکن ہمارے لیے اعتماد مضبوط کرنے والے اصل عوامل اور اقدامات وہ نہیں جن کا مطالبہ بھارت کر رہا ہے اور ہررعایت اور نرمی کے بعد ھل من مزید کی پکار لگاتا ہے بلکہ وہ ہیں جو جموں اور کشمیر کے عوام اور تحریکِ آزادی کے جانبازوں کے اعتماد کو مضبوط کریں اور انھیں مزید حوصلہ دیں۔ آج ہماری حکومت ہر وہ اقدام کر رہی ہے جس سے کشمیر کے عوام مایوس ہوں‘ مجاہدین آزادی کی ہمتوں پر اوس پڑے اور بھارت کے ایوانوں میں خوشی کے چراغ روشن ہوں۔ اس سے زیادہ غیرحقیقت پسندانہ اور تباہ کن حکمت عملی کوئی نہیں ہوسکتی اور قوم تحریکِ آزادی پر ضرب لگانے والے ان اقدامات پر حکومت اوران عناصرکو جو ان کی تائید کر رہے ہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ ہم کو اس وقت ماضی سے بڑھ کر اس سے یک جہتی کا اظہار کرنا چاہیے اور انھیں جدوجہد تیز تر کرنے کا حوصلہ دینا چاہیے۔ ہمیں عالمی راے عامہ اور اپنی خارجہ سیاست کو اس رخ پر موڑنا چاہیے کہ بھارت فی الفور پوٹا (POTA)جیسے جابرانہ قوانین کو منسوخ کرے جن پر ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی سخت احتساب کیا ہے‘ ریاستی تشدد کو روکے‘ فوجوں اور بارڈر سیکورٹی فورس اور اسپیشل فورس جن کو ختم کرنے کا وعدہ خود مفتی نے انتخابات کے موقع پر کیا تھا کو فوراً ختم کرے‘ تمام اسیروں کو رہا کرے اور عوام کو سیاسی آزادی دے تاکہ وہ کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کرسکیں۔
اگر آج بھارت مذاکرات کی بات کررہا ہے تو وہ اس لیے نہیں کہ اس کی سوچ میں تبدیلی آگئی ہے یا امریکہ کے دبائو میں ایسا کر رہا ہے بلکہ اصل دبائواگر کوئی ہے تو وہ جموں و کشمیر کے عوام کی جدوجہد آزادی کا ہے۔ بھارت نے دیکھ لیا ہے کہ ۷ لاکھ فوج اور اربوں روپے کو آگ لگا دینے کے باوجود وہ اس تحریک کو کمزور نہیں کر سکا ہے۔ جو لولے لنگڑے اور طے شدہ نتائج حاصل کرنے والے انتخابات پچھلے سال جموں و کشمیر میں ہوئے تھے وہ بھی دراصل بھارت کے اقتدار اور اس کی قتلِ کشمیر میں شریک نیشنل کانفرنس کے خلاف تھے‘ کسی مفتی یا کسی کانگریس کے حق میں نہ تھے۔آج اگر پاکستان کی عاقبت نااندیش قیادت کے مختلف اقدامات سے تحریکِ آزادی کشمیر کمزور ہوتی ہے تو یہ ایک ناقابل معافی جرم ہوگا۔ اصل ضرورت ایسے اقدامات (سی بی ایم) کی ہے جو اس تحریک کو تقویت دیں۔ یہی وہ چیز ہے جو بھارت کو مذاکرات اور بالآخر اصل مسئلے کے حل پر اسی طرح مجبور کرے گی‘ جس طرح گذشتہ صدی میں دنیا کے ۱۵۰ ممالک میں آزادی کی تحریکات نے کیا۔ آخر جب ۱۹۴۵ء میں اقوامِ متحدہ قائم ہوئی ہے تو اس میں شریک ممالک کی تعداد صرف ۴۵ تھی اور آج یہ ۱۹۲ ہے جس میں سے بیشتر نے لڑکر اپنی آزادی حاصل کی ہے۔ اور یہی جذبہ کشمیر میں آج بھی موجزن ہے۔ اسی ہفتے حریت کانفرنس کے اجلاس میں حریت کے قائدین ہی نہیں بلکہ کشمیرٹائمز کے ہندو ایڈیٹر تک نے مجاہدین کو خطاب کرتے ہوئے جو کچھ کہا ہے وہ ہماری قیادت کے لیے چشم کشا ہوسکتا ہے۔ اے ایف پی کی رپورٹ ہے:
ہندو اکثریتی علاقے جموں کے ایک معروف دانش ور ویدبھاسن نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل عوام کی خواہشات کے مطابق ہونا چاہیے۔ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیریوں کو کرنا ہے‘ نہ کہ بھارت یا پاکستان کو۔ اگر آپ آزادی کا نصب العین حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو جدوجہد کو جاری رکھنا ہوگا‘ اتحاد برقرار رکھنا ہوگا‘ اور تحریک کو مثبت سمت دینا ہوگی۔ انھوں نے کہا: آزادی کے لیے لڑنے والوں کو اپنے مقصد میں کامیابی کے لیے امریکہ یا کسی ملک پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔ اگر آپ کو مدد طلب ہی کرنا ہے تو دنیا کے لوگوں سے طلب کیجیے نہ کہ مختلف ملکوں کی حکومتوں سے۔ (دی نیوز‘ ۲۰ مئی ۲۰۰۳ئ)
اصل میدان جموں و کشمیر ہے‘ اسلام آباد یا دہلی نہیں۔ اور جو بھی اس مقصد سے مخلص ہے اسے ایسے اقدامات کی فکر کرنی چاہیے جو جہاد آزادی کی تقویت کا باعث ہوں۔
۵- ہمارا ایک بڑا اہم محاذ خود ملک کی راے عامہ کو متحرک کرنا اور اسے اتنا قوی کرنا ہے کہ حکومت وقت کوئی غلط اقدام نہ کر ڈالے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکمران بڑی عجلت میں ہیں اور امریکہ جو کبھی ۲۰۰۴ء کی بات کرتا ہے اور کبھی ۲۰۰۵ء کی‘ اس کے چکر میں یہ حضرات ایک تاریخی جدوجہد کو مصلحتوں کے پتھر سے پاش پاش کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان کے قدم روکنا اور تحریک کو اس کے اصل مقاصد کے لیے جاری رکھنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
۶- ایک اہم کام عالمی راے عامہ تک اصل حقائق پہنچانا اور اسے کشمیر کی جدوجہد آزادی کے حق میں ہموار کرنا ہے۔ غضب ہے کہ یکم جون کو ہونے والی جی-ایٹ کے سربراہی اجلاس میں بھارت کو دعوت دی گئی ہے جہاں وہ نام نہاد سرحد پار دہشت گردی کا مسئلہ اٹھانے کے دعوے کر رہا ہے اور ہماری وزارتِ خارجہ خوابِ غفلت کا شکار ہے۔ ہم اصل حقائق بھی دنیا کے سامنے رکھنے سے قاصر ہیں حالانکہ یورپی یونین کی پارلیمنٹ نے کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف قرارداد منظور کی ہے اور جنیوا میں اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے صاف الفاظ میں جدوجہد آزادی کی حمایت کی ہے۔ سیکورٹی کونسل کی صدارت کے باوجود ہم مسئلہ اٹھانے میں شرما رہے ہیں حالانکہ اس وقت ایک عالم گیر سفارتی مہم کی ضرورت ہے جس میں ہمارے سفارت کاروں کے ساتھ جموں و کشمیر کے مظلوم عوام کے نمایندوں کو بھی شریک کرکے دنیا کو حقائق سے آگاہ کرنا ناگزیرہے۔
۷- آخری بات یہ کہ ہماری قیادت اقبال اور قائداعظم کا نام صبح و شام لیتی ہے لیکن ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے اور ان کے وژن کے مطابق پاکستان کی تعمیرسے مجرمانہ تغافل برتتی ہے۔ اقبال نے کشمیر کی آزادی کی جدوجہد میں نمایاں حصہ لیا تھا اور یہ راستہ دکھا دیا تھا کہ جہاد آزادی ہی کے ذریعے کشمیر اپنا حق حاصل کر سکتا ہے۔ اقبال اور قائداعظم نے کشمیر اور پاکستان کے ناقابلِ انقطاع تعلق کو واضح کر دیا تھا۔ ان کی وصیت ہی یہ ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر کوئی سمجھوتا نہ کیا جائے بلکہ اپنی شہ رگ کو دشمن کے چنگل سے آزاد کیا جائے۔ ہم ان اشارات کو اقبال اور قائداعظم کے تاریخی الفاظ پر ختم کرتے ہیں۔ پاکستانی قوم اور اس کی قیادت ‘خصوصیت سے مذاکرات کرنے والے تمام افراد سے درخواست کرتے ہیں کہ ان الفاظ کو حرزِ جان بنالیں اور قائد کے اس وژن سے ہٹ کر ہرگز کوئی سمجھوتا نہ کریں۔
کشمیر کا مسئلہ تمام مسلمانان ہندستان کی سیاسی حیات اور موت کا مسئلہ ہے۔ اہل کشمیر سے ناروا سلوک‘ ان کی جائز اور دیرینہ شکایات سے بے اعتنائی اور ان کے سیاسی حقوق کا تسلیم نہ کرنا‘ مسلمانانِ ہند کے حقوق کو تسلیم کرنے سے انکار ہے۔ حق بات بھی یہی ہے کہ اہل خطہ کشمیر ملت اسلامیہ کا جزولاینفک ہے۔ ان کی تقدیر کو اپنی تقدیر نہ سمجھنا تمام ملت کو تباہی و بربادی کے حوالے کر دینا ہے۔ اگر مسلمانوں کو ہندستان میں ایک مضبوط و مستحکم قوم بننا ہے تو دو نکتوں کو ہر وقت ذہن میں رکھنا ہوگا۔ اول یہ کہ شمال مغربی سرحدی صوبے کو مستثنیٰ کرتے ہوئے حدود ہند کے اندر جغرافیائی اعتبار سے کشمیر ہی وہ خطہ ہے جو مذہب اور کلچر کی حیثیت سے خالصتاًاسلامی ہے۔ دوسری بات جسے مسلمانان ہند کبھی نظرانداز نہیں کر سکتے یہ ہے کہ ان کی پوری قوم میں سب سے بڑھ کر اگر صناعی و ہنرمندی اور تجارت کو بخوبی پھیلانے کے جوہر نمایاں طور پر کسی طبقے میں موجود ہیں تو وہ اس خطے کا گروہ ہے۔ بہرحال وہ قوم اسلامی ہند کے جسم کا بہترین حصہ ہیں۔ اگر وہ حصہ درد و مصیبت میں مبتلا ہے تو یہ ہو نہیں سکتا کہ باقی افراد ملت فراغت کی نیند سوجائیں۔ (بحوالہ کشمیری مسلمانوں کی جدوجہد آزادی‘ ص ۴۷۱)
کشمیر کا مسئلہ نہایت نازک مسئلہ ہے لیکن اس حقیقت کو کوئی انصاف پسند قوم اور ملک نظر انداز نہیں کر سکتا کہ کشمیر تمدنی‘ ثقافتی‘ جغرافیائی‘ معاشرتی اور سیاسی طور پر پاکستان کا ایک حصہ ہے۔ جب بھی اور جس نقطہ نظرسے بھی نقشے پر نظرڈالی جائے گی یہ حقیقت واضح ہوجائے گی کہ کشمیر سیاسی اور دفاعی حیثیت سے پاکستان کی شہ رگ ہے۔ کوئی ملک اور قوم اسے برداشت نہیں کر سکتی کہ اپنی شہ رگ کو دشمن کی تلوار کے نیچے دے۔ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے۔ ایک ایسا حصہ جسے پاکستان سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ مجھے یہ کہتے ہوئے قطعاً کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ ریڈکلف ایوارڈ میں مسلمانوں کے ساتھ دھوکا کیا گیا۔ (ایضًا‘ص ۴۷۲)