اشارات


امتحان اور آزمایش کی وہ گھڑی جو کئی مہینے سے سروں پر منڈلا رہی تھی‘ اب قوم کے سامنے ہے اور صدارت پر قابض جنرل پرویز مشرف نے دستور‘ قانون ‘ آدابِ سیاست اور اصولِ اخلاق کو بالاے طاق رکھ کر پورے فوجی کروفر کے ساتھ موجودہ اسمبلیوں سے وردی میں صدارتی انتخاب لڑنے کا اعلان کردیا ہے اور سپریم کورٹ تک کو ایک دھمکی آمیز بیان سے نوازا ہے کہ ’’اگر میں صدر منتخب ہوگیا تو ۱۶ نومبر ۲۰۰۷ء تک چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے سے فارغ ہوجائوں گا‘‘۔

الیکشن کمیشن نے بھی ۱۹۸۸ء کے انتخابی قواعد میں ۱۰ستمبر یہ تبدیلی کر کے (اس تبدیلی کی منظوری بھی جنرل پرویز مشرف ہی سے لی گئی ہے) کہ صدر کے انتخاب پر دستور کی دفعہ ۶۳ کا  اطلاق نہیں ہوگا‘اپنی تابع داری کا بھرپور اظہار کردیا ہے۔سپریم کورٹ میں یہ مسئلہ زیرغور    (sub judice) ہے کہ صدر دو عہدے رکھ سکتا ہے یا نہیں اور کیا فوج کا چیف آف اسٹاف صدارت کا امیدوار بن سکتا ہے یا نہیں‘ لیکن عدالت کے فیصلے کا انتظار کیے بغیر الیکشن کمیشن نے صدارتی انتخاب کا شیڈول جاری کردیا ہے اور دستور کی دفعہ ۶۳ کی بے دخلی کے ساتھ ایک اور ترمیم یہ بھی کردی ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کے سوا کوئی اور ریٹرننگ آفیسر کسی امیدوار کے کاغذات کو رد یا قبول نہیں کرسکتا۔ .ُ

جنرل صاحب نے جس آخری مُکے کی دھمکی دی تھی‘ اس کا بھرپور استعمال شروع ہوگیا ہے۔ اس کاآغاز ۱۰ستمبر کو جناب نواز شریف کے ساتھ بدسلوکی‘ سپریم کورٹ کے ۲۳ اگست کے فیصلے کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے انھیں اپنے ملک میں واپس آنے کے حق سے محروم کرنے‘ نیز ان کے اغوا اور ملک بدری سے کیا گیا‘ اور اب ہر ممکن ہتھکنڈے سے جمہوری سیاسی جدوجہد کا راستہ قوت سے روکنے اور ریاست کی مشینری کو حزبِ اختلاف کے قائدین اور سیاسی کارکنوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاری‘ راستوں کی بندش‘ اور جمہوری احتجاج کے ہر عمل کو ناکام بنانے کا عمل زورشور سے پورے ملک میں جاری ہے۔

اس وقت قوم کو اور اس کے ساتھ‘ قوم اور دستور کی حفاظت کرنے والے اعلیٰ ترین ادارے __سپریم کورٹ __ دونوں کو ہماری تاریخ کے نازک ترین امتحان سے سابقہ ہے۔ سپریم کورٹ کا امتحان یہ ہے کہ اس نے بڑی عظیم قربانی اور جدوجہد کے بعد ۲۰ جولائی کو جو آزادی اور عزت حاصل کی ہے‘ وہ اس کی حفاظت کرپاتی ہے یا’نظریۂ ضرورت‘ کے جس دیو استبداد کو دفن کرنے کی بشارت دی گئی تھی اسے اور بھی گہرا دفن کیا جاتا ہے یا خدانخواستہ نئی زندگی دینے کا سامان کیا جاتا ہے؟

صدارتی انتخاب اور اس کے لیے اہلیت کے سلسلے میں جو مقدمات اس وقت سپریم کورٹ کے زیرسماعت ہیں‘ ان کا فیصلہ چند دن میں آنے کی توقع ہے اور ہم یہ امید رکھتے ہیں اور یہی دعا کرتے ہیں کہ عدالت پوری آزادی اور دیانت کے ساتھ دستور کے مطابق حق و انصاف کی روشنی میں خالص میرٹ پر فیصلہ کرے۔ ہم کوئی بدگمانی نہیں کرنا چاہتے لیکن کسی خوش فہمی کی بھی گنجایش نہیں۔ اصل مسئلہ ملک اور قوم کے مستقبل کا‘ اس کی آزادی اور حاکمیت کا‘ اور اس ملک کے آیندہ کے نظامِ حکمرانی کا ہے کہ یہ ملک جمہوریت اور دستور اور قانون کی بالادستی کا گہوارہ بنتا ہے یا خدانخواستہ آمریت اور سیاست میں فوج کی مداخلت کی دلدل میں گھرا رہتا ہے اور ایک تباہی کے بعد دوسری تباہی کا سفر شروع کر دیتاہے؟

اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ اس نازک لمحے پر قوم اور عدالت دونوں کی توجہ ایک بار پھر نہایت اختصار سے اصل مسائل (issues) پر مرکوز کرا دیں۔ عدالت جو بھی فیصلہ کرے‘ دستوری نظام کا تقاضا ہے کہ اس کا احترام کیا جائے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے اور پاکستان کی ۶۰سالہ تاریخ اس پر گواہ ہے کہ سیاست دانوں اور پارلیمنٹ کی طرح عدالت نے بھی بودے سہاروں کے     بل بوتے پر ’نظریۂ ضرورت‘ کے تحت دستوری اور جمہوری نظام کو فروغ دینے اور اس کے تحفظ کرنے کے باب میں ہمیشہ وہ کردار ادا نہیں کیا جس کی قوم کو ان سے توقع تھی اور جو بے لاگ  عدل و انصاف کی اعلیٰ روایات سے مطابقت رکھتا ہو۔ بلاشبہہ قانون کے مسلمہ اصول courts' right to revisit کی بنیاد ہی یہ ہے کہ انسانوں کا اعلیٰ ترین ادارہ بھی غلطی کرسکتا ہے اور اس کی اصلاح کا دروازہ کھلا رہنا چاہیے ___اس لیے کہ اصل فیصلہ تو پھر تاریخ کے قاضی ہی کا ہوتا ہے اور تاریخ بڑی بے لاگ نقاد ہے۔ نیز درست فیصلہ وہی ہوتاہے جو قوم کے ضمیر کی آواز ہو‘ اس لیے کہ ملک کے اصل نگہبان ۱۶ کروڑ عوام ہیں‘ جو قرارداد مقاصد کے واضح الفاظ میں اللہ کی حاکمیت کے تابع حکمرانی کے اختیارات کے اصل امین (trustee) ہیں اور ان کے دیے ہوئے اختیار کے تحت جس کا اظہار ایک طرف دستور اور قانون کی شکل میں ہوتاہے تو دوسری طرف ان کی آزاد مرضی سے منتخب ہونے والے افراد اور ادارے انجام دیتے ہیں اور ان سے بار بار متعین وقفوں سے مینڈیٹ (اختیار) حاصل کرتے ہیں۔ قانون کسی کی ذاتی مرضی کا نام نہیں بلکہ اس پورے دستوری نظام اور اداراتی انتظام سے عبارت ہے اور عدلیہ کا اس میں بڑا اہم مقام اور کردارہے۔ بات نامکمل رہے گی اگر اس امر کی تذکیر بھی نہ کی جائے کہ عوام اور تاریخ دونوں اپنا فیصلہ دیتے ہیں اور وہ بڑا کھرا فیصلہ ہوتا ہے لیکن ایک آخری فیصلہ جو سب سے بھاری ہے‘وہ ہے جو خود اللہ تعالیٰ فرمائے گا اور اس فیصلے سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ عدالت اور عوام سب کو اس آخری فیصلے کے پورے احساس اور شعور کے ساتھ اپنا اپنا کردار اداکرنا چاہیے کہ کامیابی کا یہی راستہ ہے۔


اس وقت عدالت اور قوم دونوں کے سامنے اصل سوال ایک اور صرف ایک ہے ___ یعنی ملک کا مستقبل کا نظام کیساہوگا ___آمریت یا جمہوریت‘ شخصی حکمرانی یا دستور اور قانون کی بالادستی‘ انصرامِ حکومت کا عوام کے حقیقی نمایندوں کے ہاتھوں میں ہونا یا جبر اور قوت سے مسلط کیے جانے والے افراد کی حکمرانی‘ اور واضح الفاظ میں سیاسی نظام میں فوج کی مداخلت بلکہ بالادستی یا فوج کے کردار کا دستور کے مطابق سول قیادت کے ماتحت صرف دفاعی ذمہ داریوں تک محدود ہونا۔ عدالت کے فیصلے کا اصل موضوع یہی ایشو ہے‘ مجوزہ صدارتی انتخاب کامرکزی نکتہ بھی یہی مسئلہ ہے‘ ملک میں سیاسی جماعتوں‘ وکلا اور سول سوسائٹی کی جدوجہدکا محور بھی یہی چیز ہے‘ اور آنے والے قومی اور صوبائی انتخابات کی جدوجہد کا محور بھی یہی چیز ہے‘اور آنے والے قومی اور صوبائی انتخابات کا مرکزی موضوع بھی یہی فیصلہ کن امر ہے۔

عدالت میں جس مرکزی سوال پر بحث ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ:

کیا موجودہ اسمبلیاں نیا صدر منتخب کرسکتی ہیں‘ یا اس کا سیدھا راستہ غیر جانب دار نظام کے تحت‘ آزاد اور معتمد علیہ الیکشن کمیشن کے ذریعے‘ شفاف انتخابات ہیں جن کے ذریعے قوم نیامینڈیٹ دے اور اس کی روشنی میں صدر‘ پارلیمنٹ اور انتظامیہ سب اپنا اپناکردار ادا کریں۔

دوسرا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ کیا کوئی شخص فوج کے چیف آف اسٹاف کے عہدے پر فائز ہوتے ہوئے صدارتی انتخاب میں حصہ لے سکتا ہے اور کیا کوئی قانون یا ضابطہ کسی فردکو یہ ’حق‘  دے سکتا ہے؟

تیسرا مسئلہ جو ماضی کے کچھ عدالتی فیصلوں کی بنا پر پیدا کردیا گیا ہے‘ یہ ہے کہ کیا صدر کے انتخاب کے لیے دستور کی دفعہ ۶۳ لاگو ہوتی ہے یا نہیں؟ دستور میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کی اہلیت کے لیے دو شقیں ہیں یعنی دفعہ ۶۲ اور دفعہ ۶۳۔ لیکن کیا صدر کے لیے صرف دفعہ ۶۲ لاگو ہوتی ہے اور دفعہ ۶۳ کا اس انتخاب سے کوئی تعلق نہیں‘ جیساکہ سرکاری حلقے دعویٰ کررہے ہیں اور الیکشن کمیشن سے انھوں نے اس تعبیر کے مطابق ضوابط کار میں تبدیلی کرا لی ہے۔

چوتھا مسئلہ جو نسبتاً ٹیکنیکل نوعیت کا ہے یہ ہے کہ کیا اس مرحلے پر عدالت عظمیٰ کو اس باب میں مداخلت کرنی چاہیے؟

عدالت جو بھی فیصلہ کرے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ عوام کی تفہیم کے لیے ان چاروں امور کے بارے میں چند اہم گزارشات پیش کردیں:

سب سے پہلے یہ بات سامنے رہنی چاہیے کہ دستور کے تحت ہمارے ملک کا نظام پارلیمانی نظام ہے اورآٹھویں ترمیم اور سترھویں ترمیم میں جو بھی اختیارات صدر کو دیے گئے ہیں اور اس کے نتیجے میں توازن اختیارات میں جو بھی سقم رونما ہوا ہے ‘اس کے علی الرغم نظامِ حکومت پارلیمانی ہے اور چند صواب دیدی اختیارات (discretionary powers) کے سوا صدر‘ وزیراعظم کے مشورے کا پابند ہے جو چیف ایگزیکٹو کی حیثیت رکھتا ہے۔ صدر‘ حکومت کا سربراہ نہیں’’مملکت کا سربراہ اور جمہوریہ کے اتحاد کی نمایندگی کرتا ہے‘‘۔ دفعہ ۴۱ کی اس حیثیت کا تقاضا ہے کہ صدر غیر جانب دار ہو‘ جماعتی سیاست سے بالا ہو‘ اور غیرمتنازع شخصیت کا حامل ہو۔ عدالت نے متعدد فیصلوں میں اس اصول کو بیان کیا ہے کہ جس نے صدر کی اس حیثیت کو ایک قانونی تقاضے (settled law) کا درجہ دے دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے ’میاں نواز شریف بنام صدر پاکستان‘ (PLD 1993 SC 473) کے فیصلے میں اس اصول کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

بلاشبہہ وفاق کے اتحاد کی علامت کے طور پر صدر کو دستور میں غیر جانب دار مقام حاصل ہے‘ اور اس حیثیت میںاس کو ریاست کے تمام عمّال میں سب سے زیادہ احترام اورعزت کا حق حاصل ہے۔ لیکن یہ بھی اتنا ہی اہم ہے کہ اس اعلیٰ منصب کے وقار کی حفاظت وبقا کے لیے اور دستورکے تحت غیر جانب دار حیثیت سے صدرکو سیاسی جھگڑوں سے اپنے کو الگ رکھنا چاہیے۔ اگر صدر سیاسی کھیل کی کشش سے اپنے کو دُور نہ رکھ سکے یا وہ اسمبلی میں دوسرے سیاسی عناصر کے ساتھ فریق بنے تو قومی معاملات میں ایک غیرجانب دار ثالث اور وفاق کے اتحاد کی علامت کے طور پر اس کی حیثیت مجروح ہوجائے گی۔

سپریم کورٹ کی طرف سے دستور کے اس واضح تقاضے کی نشان دہی کی موجودگی میں جنرل پرویز مشرف جو کردار ادا کر رہے ہیں‘ وہ دستور کے الفاظ اور روح دونوں کے منافی بلکہ دستور کو مسخ (subvert) کرنے کے مترادف ہے جو ان کے اس عہد کے بھی خلاف ہے جو بطور صدر دستور کی اطاعت اور فرماں برداری کے لیے وہ ایک نہیں دو بار لے چکے ہیں اور اس باب میں صرف ان کے یہی کارہاے نمایاں انھیں آیندہ انتخاب کے لیے نااہل بنا دیتے ہیں‘ اس لیے کہ دستور کی دفعہ ۴۷(۱) کے تحت ’’دستور کی خلاف ورزی یا فاش غلط روی کے کسی الزام میں اس کا مواخذہ کیا جاسکتا ہے‘‘۔ بلاشبہہ مواخذے کا ایک خاص طریق کار ہے مگر دستور کی خلاف ورزی دستور کے تحت عہدہ صدارت کے لیے نااہل بنا دینے والا ایک جرم ہے۔

جنرل پرویز مشرف کو صدارت کے لیے نااہل بنا دینے والی دوسری بات ان کا چیف آف اسٹاف کا عہدہ ہے۔ اگر یہ تسلیم کربھی لیا جائے کہ سترھویں ترمیم کے ذریعے انھیں دوعہدے رکھنے کی رخصت دے دی گئی تھی تب بھی یہ تو ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ یہ حد ۳۱ دسمبر ۲۰۰۴ء کو ختم ہوگئی اور پارلیمنٹ سے جس قانون کا سہارا لے کر اسے آج تک توسیع دی گئی ہے‘ وہ خود سترھویں ترمیم کی ضد ہے اور ایک فاسد قانون (bad law) ہے۔ نیز یہ توسیع اس معاہدے (covenant) کی خلاف ورزی ہے جس کے تحت ۳۱ دسمبر ۲۰۰۴ء تک کے لیے یہ رخصت دی گئی تھی۔اس معاہدے کا عوام کے سامنے اقرار جنرل صاحب ۲۴ مارچ ۲۰۰۳ء کو اپنے خطاب میں کیا ہے جسے سترھویں ترمیم کے ساتویں نکتۂ اقرار (seventh point of agreement) کے طور پر انھوں نے تسلیم کیا ہے۔ یکم جنوری ۲۰۰۵ء سے دو عہدوں کے باعث ان کی صدارت امرواقع (de facto) تو قرار دی جاسکتی ہے لیکن امر جائز (de jure) کسی پہلو سے تسلیم نہیں  کیا جاسکتا۔ لیکن اب ان کا دعویٰ ہے کہ وہ آیندہ پانچ سال کے لیے وردی میں صدارت کے امیدوار بن سکتے ہیں‘ خواہ منتخب ہونے کے بعد وردی اتارنے کا وہ وعدہ ایک بار پھر کیوں نہ کر رہے ہوں۔ جس نے پہلا وعدہ وفا نہ کیا ہو‘ اس کے دوسرے وعدے پر اعتبار کون کرے گا۔ لیکن مسئلہ آیندہ پانچ سال کے لیے اپنے آپ کو صدارت کے لیے پیش کرنے والے امیدوار کی الیکشن کے وقت اہلیت کا ہے اور وہ جنرل صاحب کو حاصل نہیں۔ اس لیے کہ دستور اور کسی بھی قانون کے تحت ایک حاضرسروس جرنیل کو کسی سیاسی عہدے کے لیے اپنے کو امیدوار بناکر پیش کرنے کا اختیار نہیں دیا گیا بلکہ یہ ایک جرم ہے جس کی سزا ملک کے قانون کے تحت ۱۰ سال قید ہے‘ اور وہ تمام افراد بھی اس سزا کے مستوجب ہوسکتے ہیںجو کسی فوجی افسر کو ایک سیاسی عہدے کے لیے نامزد کریں۔

اسی نااہلیت سے فرار کی خاطریہ ڈراما رچایا جا رہا ہے کہ دستور کی دفعہ ۶۳ کا اطلاق صدارتی امیدوار پر نہیں ہوتا۔ دیکھیے عدالت کیا فیصلہ دیتی ہے لیکن عقل و تجربے دونوں اس بارے میں کسی ابہام کی گنجایش نہیں چھوڑتے۔ دستور کی دفعہ ۴۱ (۲) صاف الفاظ میں کہتی ہے کہ:

کوئی شخص اس وقت تک صدر کی حیثیت سے انتخاب کا اہل نہیں ہوگا تاوقتیکہ وہ کم از کم ۴۵ سال کی عمر کا مسلمان نہ ہو اور قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کا اہل نہ ہو۔

انگریزی میں الفاظ shall not be qualified for election ہیں اور پھر    قومی اسمبلی کی رکنیت کے سلسلے میں بھی is qualified to be elected ہیں۔

اب جو بقراطی نکتہ لایا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ دفعہ ۶۲ qualifications بیان کرتی ہے اور دفعہ ۶۳disqualifications۔ساتھ ہی اعتراف کیا جاتا ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے رکن کے لیے تو ۶۲ اور ۶۳ دونوں لاگو ہیں لیکن صدر کے لیے ۶۳ لاگو نہیں۔

اس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ ۶۲ اور ۶۳ دونوں مل کر اہلیت کا تعین کرتی ہیں اور یہ دونوں دفعات composite ہیں‘ separable نہیں۔ دوسرے الفاظ میں اہلیت کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ ’عدم اہلیت‘ کی کوئی بات اس میں نہ پائی جاتی ہو۔ یہ منفی پہلو ہے۔ جس میں کوئی بھی عدم اہلیت کی بات پائی جائے گی‘ وہ پہلے ہی مرحلے میں اہلیت کی دوڑ سے باہر ہوجائے گا۔ البتہ جس میں عدم اہلیت کی کوئی کیفیت نہ ہو‘ وہ بھی آپ سے آپ اہل نہیں بن جاتا بلکہ اس میں مزید اہلیت کی کچھ مثبت صفات ہونی چاہییں۔ اس طرح منفی اور مثبت دونوں پہلوؤں کے تناظر میں کسی شخص کی اہلیت کا تعین ہوسکتا ہے۔ ان میں سے ایک کو دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔

بھارت کی سپریم کورٹ نے بھی ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب کی صدارت کے سلسلے میں دائر کیے جانے والے ایک مقدمے میں یہی فیصلہ دیاتھا کہ ’نااہلیت‘ اور ’اہلیت‘ کے بارے میں دستور کی دفعات کو ملا کر لیا جائے گا۔ یہی عقل کا تقاضا ہے لیکن ناطقہ سر بہ گریباں ہے کہ کیسے کیسے لائق فائق حضرات یہ فرما رہے ہیں کہ منفی صفات (دفعہ ۶۳) کا اہلیت اور اس کی مثبت صفات (دفعہ ۶۲) سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن وہ ایک لمحہ اس بات پر بھی غور نہیں کرتے کہ جس سترھویں ترمیم کا اتنا شور ہے‘ خود اس میں صاف الفاظ میں لکھا گیا ہے کہ دفعہ ۴۷ (۷ بی):

بشرطیکہ آرٹیکل ۶۳ کی دفعہ ۱ کا پیراگراف د: دسمبر ۲۰۰۴ء کے ۳۱ویں دن سے نافذ ہوگا۔

ساری بات بھول جائیے اور اسے بھی نظرانداز کردیجیے کہ دفعہ ۶۳ میں کیا گنجایش ہے اور کیا نہیں ہے‘ صرف یہ بات کہ دستور کی اس شق میں صدر کے لیے دفعہ ۶۳ کے operative ہونے کا واضح اقرار موجود ہے اس دلیل کے تار وپود بکھیر دیتا ہے کہ دفعہ ۶۳ کا تعلق صرف رکن اسمبلی سے ہے‘ صدر سے نہیں۔

رہا یہ مسئلہ کہ کیا موجودہ اسمبلیاں اگلے پانچ سال کے نئے صدر کا انتخاب کرسکتی ہیں یا نہیں‘ اس کا تعلق دستور اور علم سیاست کے ایک بنیادی اصول سے ہے۔ معاملہ اسمبلی کا ہو یا صدر کا‘ ایک خاص مدت کے بعد انتخاب کی ضرورت صرف ایک وجہ سے ہوتی ہے اوروہ یہ ہے کہ عوام‘ جو اصل حکمران ہیں اور جن کی تائید اور اعتماد کے بغیر نظام کو جواز (legitimacy) حاصل نہیں ہوتا‘ ان سے زندگی میں صرف ایک بار استصواب کافی نہیں بلکہ وقفہ وقفہ سے ان سے نیا مینڈیٹ لیے بغیر نظامِ حکمرانی جمہوری اور دستوری قرار نہیں دیا جاسکتا۔ نیا انتخاب دراصل نیا مینڈیٹ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو اسمبلی اپنا مینڈیٹ ختم کرچکی ہو وہ آیندہ کے لیے کسی اور کو مینڈیٹ کیسے دے سکتی ہے؟ اتنی صاف بات اور ایسے مسلمہ اصول کو نظرانداز کرکے قانونی موشگافیاں کی جارہی ہیں اور بظاہر پڑھے لکھے لوگ یہ کھیل کھیل رہے ہیں اور بڑی ڈھٹائی سے یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر صوبائی اسمبلیاں‘ سینٹ کے ارکان کو ۹ سال کے لیے منتخب کرسکتی ہیں تو قومی اسمبلی‘ سینٹ اور صوبائی اسمبلیاں صدر کو ۱۰ سال کے لیے کیوں منتخب نہیں کرسکتیں حالانکہ یہ صریح خلط مبحث ہے۔ سینٹ ناقابلِ تحلیل ہے اور اس میں نیا مینڈیٹ حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہر تین سال کے بعد نصف ارکان کا نیا انتخاب ہوتا ہے اور اس پورے عمل میں سینٹ اور صوبائی اسمبلیاں فطری تبدیلی کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ رہا معاملہ صدر کے انتخاب کا تو وہ الیکٹرول کالج کے ہر بار نئے مینڈیٹ کا تقاضا کرتا ہے اوریہ مینڈیٹ مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے نئے انتخاب ہی سے حاصل ہوسکتا ہے ورنہ اسے صریح انتخابی دھاندلی کے کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا۔

البتہ اس سلسلے میں ایک اعتراف ضروری ہے۔ ایل ایف او کے ذریعے دستور کی دفعہ ۲۲۴ میں ایک لفظ کی تبدیلی سے قومی اسمبلی کے انتخاب کے دورانیے کو تبدیل کردیا گیا جس نے موجودہ دھاندلی کے لیے گنجایش پیدا کی ورنہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرنے سے ۶۰ دن پہلے نئے انتخاب کے لیے آپ سے آپ تحلیل ہوجاتیں۔ ہمیں اس غلطی کا اعتراف کرنا چاہیے کہ سترھویں ترمیم کے موقعے پر ایم ایم اے کی مذاکراتی ٹیم نے اس دُور رس تبدیلی کا نوٹس نہیں لیا۔ اصل دفعہ یہ تھی:

"A general election to the National Assembly or a Provincial Assembly shall be held within a period of sixty days immediately PRECEDING the  day on which the term of the Assembly is due to expire".

ایل ایف او کے ذریعے لفظ PRECEDING کو تبدیل کر کے FOLLOWING لکھ دیا گیا۔ اس کی آج implication یہ ہے کہ اسمبلیوں کا انتخاب ۱۶ اکتوبر کے ۶۰دن بعد تک کیا جاسکتا ہے‘ جب کہ اصل دستوری شق کی روشنی میں یہ انتخاب ۱۶ اکتوبر سے پہلے ۶۰ دن قبل  ہوجانا چاہیے تھا۔ اس طرح صدر کی مدت (پانچ سال) ختم ہونے سے پہلے اسمبلیوں کے انتخابات لازماً ہوچکے ہوتے۔ کمال ہوشیاری بلکہ عیاری سے یہ یک لفظی ترمیم دستور میں کی گئی اور ’انتہاے سادگی سے کھا گیا مزدورمات‘ کے مترادف ہم سب یہ دھوکا کھا گئے۔ ضمناً یہ بھی عرض کردیں کہ دستور کی دفعہ ۴۱ (۷ بی) میں بھی اگر ۶۳ (۱ڈی) کے ساتھ دفعہ ۴۳ کا اندراج کرا لیا جاتا تو پھر ۳۱ دسمبر ۲۰۰۴ء کے بعد باوردی صدارت کے لیے آگے بڑھنے کا کوئی چور دروازہ باقی نہ رہتا۔ خود احتسابی کا تقاضا ہے کہ ان پہلوؤں پر بھی نگاہ ڈالی جائے اور دستوری اور قانونی معاملات کو جس قانونی مہارت اور عرق ریزی سے انجام دینے کی ضرورت ہے‘ اس کا پورا پورا اہتمام کیا جائے۔ جو دھوکا حکمرانوں نے دیا‘ وہ صریح وعدہ خلافی تھی اور دو عہدوں کا قانون دستور اور معاہدہ دونوں کے خلاف تھا مگر کچھ کوتاہیاں ہماری طرف سے بھی رہیں جن کے بارے میں آیندہ سبق سیکھنا ضروری ہے۔

رہا معاملہ ان امور کے بارے میں عدالت کی مداخلت کی ضرورت کا‘ تو ہم صرف اتنا ہی عرض کریں گے کہ عدالت عظمیٰ کی ذمہ داری دستور کے تحت قانون کی تعبیر اور دستور کی حفاظت کی ہے اور اس وقت دستور اور اس کے تحت وجود میں آنے والا پورا نظام معرضِ خطر میں ہے۔ اگر اس وقت عدالت عظمیٰ اپنے فرض منصبی کو ادا نہیں کرتی تو تاریخ اور یہ قوم اسے کبھی معاف نہیں کرے گی۔ اس موقعے پر ہم عدالت عظمیٰ اور قوم دونوں کو اپنے الفاظ میں نہیں‘ سپریم کورٹ کے جج جسٹس محمدیعقوب علی (جو بعد میں چیف جسٹس بنے) کے اس تاریخی ارشاد کی طرف متوجہ کریں گے جو انھوں نے عاصمہ جیلانی کے مشہور زمانہ کیس میں رقم کیے تھے:

میونسپل کورٹس کے جج جنھوں نے دستور کے تحفظ‘ بقا اور دفاع کاحلف اٹھایا ہے‘ حلف نہیں توڑیں گے اور نہ اعلان کریں گے کہ غاصب کی بالاتر قوت کی وجہ سے وہ اپنے قانونی فرائض سے فارغ ہوگئے ہیں۔ اگر ججوں کو معلوم ہو کہ ریاست کے انتظامی عہدے دار ان کے احکامات نافذ کرنے کے لیے رضامندنہیں ہیں تو ان کے لیے صرف یہی راستہ کھلا ہے کہ اپنا منصب چھوڑ دیں۔ جو لوگ غاصب کی خدمت کرنے کے خواہش مند ہوں وہ اس کے مسلط کردہ لیگل آرڈر کے تحت عہدہ سنبھال سکتے ہیں لیکن یہ ججوں کے ذاتی فیصلے اور صواب دید پر منحصر ہے‘ اس کا کوئی قانونی اثر نہیں ہوگا۔ اگر وہ دوسرا راستہ اختیار کریں تو وہ یہ تسلیم کر رہے ہوں گے کہ ’جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘ اور یوں غاصب کے شریک کار ہوجائیں گے۔ یہی نتیجہ ہوگا اگر وہ اپنے حلف کو نظرانداز کردیں‘ قومی نظام کی تباہی کو جائز تسلیم کرلیں اور غاصب کے غیر قانونی‘ انتظامی اقدامات کو تسلیم کریں۔

آج جنرل پرویز مشرف کی پوزیشن جنرل یحییٰ خان کی پوزیشن سے سرِمُو بھی مختلف نہیں۔ کیاآج کی عدالت اپنا فرض ادا کرے گی اور حقیقی فراست اور جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے عدل و انصاف کا بول بولا کرکے اس ملک میں عدلیہ کی عزت اور وقار اور اس پر عوام کے اعتماد کو نئی بلندیوں سے ہم کنار کرنے کا کارنامہ انجام دے گی؟


بلاشبہہ عدالت دستور اور قانون کے دائرے میں ہی اپنافیصلہ دے گی اور یہی اس کی ذمہ داری ہے لیکن یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ عدالت دستور اور قانون کے الفاظ کے ساتھ اصولِ قانون‘ تعبیر ِدستور کے مسلمہ قواعد اور اپنے فیصلوں کے سیاسی اور اخلاقی مضمرات سے صرفِ نظر نہیں کرسکتی۔ یہ ’نظریۂ ضرورت‘ کی قبیل کی کوئی شے نہیں بلکہ اس کا تعلق مقاصدِ قانون اور روحِ دستور سے ہے___ یعنی ملک میں دستور کا بنیادی ڈھانچا اور نظامِ حکومت کے اصول اور فریم ورک۔ دستور کا گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو اس کے چار ہی بنیادی ستون ہیں:

1  قرارداد مقاصد اور دستور کا اسلامی کردار

2  پارلیمانی جمہوریت

3  وفاقی نظام

4 عوام دوست فلاحی معاشرے کا قیام

ان چاروں بنیادی ستونوں کی روشنی میں اگر حالات کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت جنرل مشرف اور ان کے صدارتی انتخاب کا تعلق محض ایک فرد کی ذات سے نہیں بلکہ وہ اب عنوان ہیں اس پورے سیاسی‘ نظریاتی اور تہذیبی کش مکش کا جس میں آج ملک اور قوم مبتلا ہیں۔ اس کے پانچ پہلو ایسے ہیں جن پر توجہ مرکوز کیے بغیر اس کش مکش کا صحیح شعور و ادراک ممکن نہیں جو آج درپیش ہے۔

  •  پہلی چیز آمریت اور جمہوریت میں سے ایک کا انتخاب ہے۔جمہوریت اور شخصی حکمرانی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے‘ یہ ایک دوسرے کی ضد ہیں۔جنرل پرویز مشرف کے آٹھ سالہ دور سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ ان کا مزاج‘طریق کار‘ اندازِ حکمرانی شخصی آمریت کی بدترین شکل ہے۔ انھوں نے ملک کے دستور کو ہر سطح پر مسخ کر دیا ہے۔ پارلیمانی نظام پر صدارتی نظام کو مسلط کردیا ہے۔ وزیراعظم‘ کابینہ اور پارلیمنٹ ان کے مُہرے ہیں اور تابع مہمل۔ وزیراعظم شامل باجا ضرور ہیں لیکن ملک کے چیف ایگزیکٹو کا کردار جنرل صاحب ادا کر رہے ہیں اور نظامِ حکومت ان کے اشارے پر اور ان کے معتمد علیہ ساتھیوں کے ذریعے (جو فوجی اور سول بیورو کریسی کا ایک مخصوص ٹولہ ہے) چلایا جا رہا ہے۔ اس کا سب سے واضح مظاہرہ پیپلز پارٹی کی رہنما محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ سے صدر کی مذاکراتی ٹیم کی شکل میں ہوا‘ جو صدر‘ ان کے چیف آف اسٹاف‘ آئی ایس آئی کے حاضر سروس جرنیل اور قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری اور صدر صاحب کے معتمدعلیہ بیورو کریٹ پر مشتمل تھی۔

یہی وجہ ہے کہ جنرل صاحب وردی اتار کر نئے انتخابات کے ذریعے وجود میں آنے والی قومی و صوبائی اسمبلیوں سے عام شہری کی طرح دستور کے تحت صدارت کے حصول کے لیے مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔وہ چاہتے ہیں کہ وردی سمیت اپنے کو قوم پر مسلط کردیں اور پھر اپنے زیرانتظام اور صرف اپنی مرضی کے مطابق انتخابات کا ڈھونگ رچائیں۔ موجودہ اسمبلیوں سے اور وردی کے ساتھ صدارت کا انتخاب جمہوریت کا گلا گھونٹنے اور جمہوریت کو بیخ و بُن سے اُکھاڑنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔ یہ کھلی کھلی شخصی آمریت کے لیے راہ ہموار کرنے کی سازش ہے ۔ اور اگر اس کا راستہ اس پہلے قدم پر نہ روکا گیا تو پھر دستور کی بالادستی اور عوام کی ان کے حقیقی نمایندوں کے ذریعے حکمرانی کا خواب شرمندئہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔

  •  دوسرا بنیادی مسئلہ (issue) ملک کی سیاست میں فوج کے کردار کا ہے اور فوج کے ساتھ ہیئت حاکمہ (establishment) کے گٹھ جوڑ کا ہے۔ جس کے دوسرے شریک سول انتظامیہ کا ایک بااثر گروہ اور سیاسی میدان کے مفاد پرست عناصر ہیں۔ یہ وہ ہیئت حاکمہ ہے    جو ملک پر قابض ہے اور کسی صورت اقتدار پر اپنی گرفت چھوڑنے اور ملک کے عوام کو اپنی قسمت   کا مالک ہونے کا موقع نہیں دینا چاہتی بلکہ عوام کی حاکمیت میںاپنے اقتدار کی موت دیکھتی ہے۔ مسلم لیگ (ق) جو ق نہیں دراصل پرویز مشرف لیگ (PML)بن چکی ہے اور ایم کیو ایم اس کے کلیدی کردار ہیں۔ آیندہ انتخاب اس سلسلے میں ایک فیصلہ کن مرحلے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کیا یہی پیران تسمہ پا ملک پر مسلط رہتے ہیں یا عوام کے حقیقی نمایندے منصفانہ سیاسی عمل کے ذریعے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس فوجی سول ہیئت حاکمہ سے نجات طویل اور   دانش مندانہ حکمت عملی کے ذریعے ہی حاصل کی جاسکے گی لیکن اس کا پہلا قدم آزاداور منصفانہ انتخاب کے ذریعے ایسی اسمبلیوں کا وجود میں آنا ہے جو فوج اور انتظامیہ (بشمول لوکل گورنمنٹ اور پولیس) کی بیساکھیوں اور ایجنسیوں کی سیاست سے آزاد ہوں اور عوام کے حقیقی نمایندوں کا کردار ادا کرسکیں۔
  •  تیسرا بنیادی مسئلہ اس وقت پاکستان کی آزادی اور خودمختاری کا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج ہماری خارجہ سیاست‘ ہماری معیشت‘ حتیٰ کہ ہمارا نظامِ تعلیم اور ہماری تہذیبی زندگی پر امریکا اور اس کا سامراجی ایجنڈا اس حد تک حاوی ہوگیا ہے کہ اب حکمران نہ صرف بیرونی قوتوں کے دبائو میں ہیں بلکہ ان کے آلۂ کار بن گئے ہیں۔ جس طرح ملک کی فوج کو اپنی قوم کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے‘ جس طرح پورے قبائلی علاقے کو سول وار کی آگ میں دھکیل دیا گیا ہے‘ جس طرح بلوچستان میں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کر دی گئی ہے‘ جس طرح اسلام آباد میں مسجد اور مدرسے کی تقدیس کو پامال اور معصوموں کے خون سے ہولی کھیلی گئی ہے ‘ جس طرح دینی تعلیمی نظام کو تباہ و برباد کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں‘ جس طرح قومی تعلیمی پالیسی کو بیرونی طاقتوں کے اشاروں پر بدلا جا رہا ہے‘ جس طرح کراچی جیسے شہر کو فسطائی قوتوں کی گرفت میں دے دیا گیا ہے‘ جس طرح عدالتوں کو متاثر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے‘ جس طرح پاکستان کی نیوکلیر صلاحیت کو منجمد کیا گیا ہے اور ملک کی خارجہ اور داخلہ ہر پالیسی کو امریکا کے نئے قانون بسلسلہ نائن الیون کمیشن کی زد میں دے دیا گیا ہے اور ہر قسم کی بیرونی امداد کو اس سے نتھی کردیا گیا ہے___ وہ ملک کی آزادی اور حاکمیت پر ضربِ کاری ہے۔

اب تو یہ مداخلت اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ امریکا‘ برطانیہ اور اس کے اشاروں پر چلنے والے دوسرے حکمران آیندہ کے سیاسی دروبست کی صورت گری فرما رہے ہیں۔ سیاسی اتحاد بنانے کا کام ان کے اشارے پر اور ان کی عملی شراکت سے ہو رہا ہے‘ اور کسے ملک میں آنے دیا جائے گا اور کسے اغوا کرکے ملک بدر کردیا جائے گا‘ اس کام میں بھی حکمران‘ بیرونی ایجنسیاں‘ برطانیہ کا دفترخارجہ اور امریکا کا اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ‘ سب ملوث (involve) ہیں۔اس کے بعد ہماری آزادی اور خودمختاری کی کیا حیثیت رہ گئی ہے۔

اس وقت قوم کے سامنے یہ بنیادی سوال ہے کہ آیندہ اس کے حکمران امریکا اور برطانیہ کے مقرر کردہ اور پسندیدہ افراد ہوں گے یا وہ جو پاکستانی قوم کے معتمدعلیہ‘ صرف اپنی ملت کے مفاد اور عزائم کے ترجمان ہوں اور اس کے سامنے جواب دہ ہوں۔ بھارتی کالم نگار پرافل بیدوائی (Praful Bidwai) جس کے مضامین پاکستانی اخبارات میں باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں‘ کتنا لطف لے کر ہماری قیادت کے امریکا کے کٹھ پتلیوں کا کردا ر ادا کرنے کا ذکر کرتا ہے:

امریکا پاکستان کے معاملات میں جارحانہ طور پر مداخلت کر رہا ہے اور اس کی فوجی حکومت کو خفیہ لیکن مضبوط حمایت فراہم کر رہا ہے۔ اگرچہ امریکا کا کہناہے کہ نوازشریف کی جلاوطنی پاکستان کا داخلی مسئلہ ہے‘ سب کو معلوم ہے کہ جنوبی وسطی ایشیا کے اسسٹنٹ سکرٹری آف اسٹیٹ رچرڈ بائوچر خاص اس موقع پر‘ جب کہ نواز شریف کے اخراج کا ڈراما روبۂ عمل تھا‘ اسلام آباد میں موجود تھے۔ رچرڈ بائوچر نے عملاً واشنگٹن کے وائس راے کی حیثیت سے کام کیا ہے اور اس مفروضے پر کہ طالبان اور القاعدہ کے خلاف امریکا کی جنگ میں وہ ایک قابلِ اعتماد حلیف ہے‘ حکومت کو مشورہ دینے اور اس کی بقا یقینی بنانے کے لیے ہر چھٹے ہفتے اوسطاً ایک چکر لگاتے رہے۔ اسلام آباد میں ڈپٹی سکرٹری آف اسٹیٹ اور سابق نیشنل انٹیلی جنس ڈائرکٹرجان نیگرو پونٹے بھی     ان کے ساتھ شریک تھے۔ واضح رہے کہ امریکا چاہتا ہے کہ مشرف اور پاکستان کی سیاسی طاقتوں خصوصاً مسز بھٹو کی پیپلز پارٹی کے درمیان شراکت اقتدار کے نظام کی  براہِ راست نگرانی کرے۔ گذشتہ مہینے ہی پرویز مشرف ایمرجنسی لگانے کا ارادہ کر رہے تھے لیکن رات کو ۲ بجے سکرٹری آف اسٹیٹ کونڈولیزارائس نے ۱۷منٹ کی طویل ٹیلی فون کال میں انھیں اس سے متنبہ کیا۔ ہر کوئی اندازہ لگاسکتا ہے کہ موجودہ حالات میں امریکا کا رویہ کیا ہوگا۔ اگر وہ اپنے مخصوص فوری مقاصد کے حصول کے طریقے کے مطابق، یعنی ’کسی بھی قیمت پر دہشت گردی کے خلاف‘اس کی اصل دل چسپی ہوئی تو پرویز مشرف کے ان مہم جویانہ اقدامات کا ساتھ دے گا جو وہ پُرتشدد ہنگاموں کو   محدود رکھنے کے لیے اور کسی طرح اس ڈیل کو بچانے کے لیے کرے جو وہ مسزبھٹو سے کرنا چاہ رہا ہے…

امریکا بے نظیر بھٹو کی شراکت اقتدار کی ڈیل صرف اس لیے نہیں چاہتا ہے کہ انھوں نے امریکا کا کہا پورا کرنے کا وعدہ کیا ہے‘ بلکہ اس لیے بھی کہ اسے اندیشہ ہے کہ نوازشریف معتدل اسلامی ایم ایم اے سے پھر مل جائیں گے۔

بھارت ہی کی ایک دوسری کالم نگار سیما مصطفی ایشین ایج میں لکھتی ہے:

یہ بالکل واضح ہے کہ انھوں نے مکمل کنٹرول کی پوزیشن حاصل کرلی ہے۔ وہ پاکستان آتے جاتے ہیں اوربہت مدت ہوئی کہ ان کے بیانات نے اس ملک کی خودمختاری کی مقدس حد کو پار کرلیا ہے  جسے انھوں نے اپنا اتحادی کہا ہے‘ اور جس کی اندرونی سیاست میں انھیں غیرمعمولی دل چسپی ہے۔صدر مشرف کو پھر امریکا سے کھلی اجازت مل گئی ہے۔ بش انتظامیہ کی طرف سے ان کی حمایت بالکل واضح الفاظ میں کی جارہی ہے…

کسی کو بھی پاکستان میں حقیقی جمہوریت واپس آتی نظر نہیں آرہی۔ امریکا سترپوشی (figleaf) کے طور پر اسے استعمال کر رہا ہے تاکہ علاقے میں اپنی مسلسل موجودگی برقرار رکھے اور دہشت گردی کے خلاف اپنی حامی قیادت کو برسرِاقتدار لاسکے۔ موت کا بوسہ اپنا زہر قوم میں پھیلا رہا ہے‘ جب کہ کسی کے پاس بھی مطلوبہ تریاق نہیں ہے۔

لندن کے اخبار گارجین میں Declan Walsh رقم طراز ہے:

مشرف کے سیاسی عزائم کے لیے بھی گھڑی کی سوئیاں آگے بڑھ رہی ہیں۔ وہ موجودہ پارلیمنٹ سے ۱۵ستمبر اور ۱۵ اکتوبر کے درمیان صدر منتخب ہونا چاہتے ہیں۔ طاقت ور حلیف ان کی پشت پر ہیں‘ خاص طور پر برطانیہ اور امریکا۔ وہ پرویز مشرف کو ایک نیوکلیر اسلحے سے مسلح ملک کو مستحکم کرنے کے لیے اپنا محفوظ ترین بہترین خیال کرتے ہیں۔

سعودی انٹیلی جنس چیف کی ایک ایسی مداخلت کے بعد‘ یعنی ان کا گذشتہ ہفتے پاکستان آنا کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی‘ اب نواز شریف جدہ میں بے بس ہیں۔ پاکستان کے خفیہ ادارے کے سربراہ لیفٹیننٹ کرنل اشفاق کیانی نے بھی حالیہ بھٹو مذاکرات میں کلیدی کردار ادا کیا۔ صرف یہی بات کہ مسلم دنیا میں امریکا اور برطانیہ کے اہم ترین حلیفوں کے معاملات میں خفیہ سربراہوں کو بالادستی حاصل ہے‘ جمہوریت کی نازک صورت حال کی نشان دہی کرتی ہے--- (گارجین‘ ۱۱ستمبر ۲۰۰۷ء)

  •  بیرونی مداخلت اور غیرملکی آقائوں کی خوشنودی کی تلاش ہی کا ایک شاخسانہ وہ نظریاتی  کش مکش ہے جس میں غیرفطری طور پر ملک کو جھونک دیا گیا ہے اور قومی اتفاق راے پیدا کرنے کے بجاے قوم کو دو بڑے دھاروں میں بانٹنے اور ان کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرنے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ ہمارا اشارہ ہے ایک طرف نام نہاد انتہا پسندی اور مذہبی شدت پسندی کا کیمپ اور دوسری طرف روشن خیال‘ میانہ رو اور لبرل عناصر کا اکٹھ۔کبھی مُلّا ملٹری اتحاد کی بات کی جاتی ہے اور کبھی ملٹری اور لبرل عناصر کے الائنس کی‘ حالانکہ اصل کش مکش مفاد پرست عناصر اور  عوام الناس اور ملک کی عظیم اکثریت کے درمیان ہے۔ اس سے توجہ ہٹانے اور اپنے مفادات کو مستحکم کرنے کے لیے ہر جرم معاف اور ہر گناہ ثواب بن جاتا ہے اور جن کو جنرل صاحب نے اپنی کتاب میں چور‘ لٹیرے اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیاتھا‘ ان ہی سے سیاست کی پینگیں بڑھائی جاتی ہیں‘ شراکت اقتدار کی بساط بچھانے کے لیے بھاگ دوڑ کی جاتی ہے۔ حالانکہ نہ تو انتہاپسندی ہمارا مسئلہ ہے اور نہ نام نہاد روشن خیالی۔ یہ سب امریکا کے شاطروں کے کھیل ہیں اور ہمارے جرنیل اور نام نہاد لبرل اس کے مہرے بنے ہوئے ہیں۔ شیعہ سُنّی کی کش مکش کا ڈراما بھی اس کھیل کا حصہ ہے۔

قوم کو اس نظریاتی کش مکش سے نکالنے اور پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کی روشنی میں قومی یک جہتی اور مفاہمت پیدا کرنے کی ضرورت ہے جس کی راہ میں جرنیلی قیادت اور امریکا سے حکمرانی کی پرچیاں حاصل کرنے والے سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔

  •  ایک پانچواں مسئلہ جسے بہت سوچ سمجھ کر نہایت ماہرانہ انداز میں اٹھایا جا رہا ہے وہ دو حکمت عملیوں کے درمیان مقابلے کا ہے جس میں سے ایک کو تصادم خیز (confrontationist) اور دوسرے کو تدریجی تبدیلی (transitionalist) کے داعی کے روپ میں پیش کیا جا رہا ہے اور تصادم انگیزی کی تہمت دینی قوتوں اور مسلم لیگ (ن) پر لگائی جارہی ہے‘ جب کہ مشرف لیگ‘ ایم کیو ایم اور پی پی پی کو تدریجی تبدیلی کے علَم بردار بناکر پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ اندازِ بیاں صرف امریکا اور جنرل پرویز مشرف ہی نے اختیار نہیں کیا بلکہ خود محترمہ بے نظیر بھٹو بھی اسی زبان میں کلام فرما رہی ہیں اور اپنے مضامین میں یہی ہّوا کھڑا کررہی ہیں۔ لطف یہ ہے کہ دعوے تو یہ کیے جارہے ہیں لیکن تصادم کا راستہ مُکے دکھا کر خود جرنیل صاحب اختیار کر رہے ہیں۔ وکلا اور سول سوسائٹی کے پُرامن احتجاج کا راستہ ۱۲ مئی کو ایم کیو ایم کے مسلح دستوں (armed squads) نے روکا     اور جنرل صاحب نے ادھر اسلام آباد میں ہاتھ اٹھا کر اسے عوامی قوت کی فتح قرار دیا۔سپریم کورٹ کے میاں نوازشریف کے حق واپسی اور ملک میں محفوظ داخلے کے حکم کے پرخچے اڑانے اور  عدالت کی کھلی کھلی خلاف ورزی کرنے اور سینہ زوری کا رویہ اختیار کیاگیا۔ اے پی ڈی ایم کے پُرامن جمہوری احتجاج کو قوت کے ذریعے روکنے‘ ہزاروں کارکنوں اور قائدین کو گرفتار کرنے اور اظہار راے پر پابندیاں لگانے کا کام کیا جا رہا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا انتظار کیے بغیر صدارتی اعلان کا نامناسب عجلت (indecent haste) سے اہتمام کیا جا رہا ہے اور مقابل کی جمہوری قوتوں کو تصادم انگیزی کے عنوان سے اُچھالا جا رہا ہے۔

یہ پانچ بڑے بڑے مسائل ہیں جو اس وقت قوم کے سامنے ہیں اور آنے والے انتخابات ہی وہ میدان ہیں جن میں ان تمام مسائل اور چیلنجوں کا حل نکالا جاسکتا ہے۔ راستہ صرف ایک ہے ___ منظم اور پُرامن عوامی قوت کے ذریعے صدارتی انتخاب کے ڈھونگ کو روکنا اور آزاد اور شفاف انتخابات کو حقیقت بنانا ہے۔ اس کے لیے ضروری اقدام یہ ہیں:

  • جنرل پرویز مشرف اور موجودہ حکومت کا استعفا اور ایک مکمل طور پر غیرجانب دار قومی حکومت کا قیام جس کی اولین ذمہ داری انتخابات کا انعقاد ہو۔
  • آزاد اور بااختیار الیکشن کمیشن کا قیام جو تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے مشورے سے ہو اور جو ووٹروں کی صحیح فہرستوں کے مطابق مکمل غیر جانب داری کے ساتھ قومی اور صوبائی انتخابات کا اہتمام کرے۔
  •  سب جماعتوں اور قائدین کو مساوی بنیاد پر سیاسی سرگرمیوں میں شرکت اور انتخابات میں حصہ لینے کا موقع۔
  • فوج اور فوج اور سول نظام سے متعلق تمام ایجنسیوں کا سیاست سے مکمل احتراز اور    ان کے فرائض کو ان کے اپنے پیشہ ورانہ دائرے تک سختی سے محدود کرنا۔
  • عدلیہ اور میڈیا کی آزادی۔
  •  ملکی پالیسیوں کی تشکیل میں بیرونی مداخلت کا خاتمہ ۔
  • انتخابات کے عمل کے عالمی میڈیا کو بلاکسی رکاوٹ cover کرنے کے مواقع ۔

اگر حکومت اس خالص دستوری اور جمہوری عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرے تو اپوزیشن کی تمام جماعتوں کی مشترکہ حکمت عملی کے ذریعے آمریت کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا‘ اسمبلیوں سے استعفے‘ عوام کو متحرک کرنا اور عوامی جدوجہد کے ذریعے آزاد اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد‘ یہی وہ راستہ ہے جس سے ملک کو غیروں کی گرفت سے محفوظ رکھا جاسکتاہے اور اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کرنے والوں کی گرفت سے بھی نکالا جاسکتا ہے۔ ایک ملک گیر پُرامن لیکن مؤثر عوامی جدوجہد ہی کے راستے سے تبدیلی لائی جاسکتی ہے اور اس سلسلے میں غفلت‘ کوتاہی‘ اور سمجھوتوں کی تلاش سمِ قاتل کی حیثیت رکھتی ہے    ؎

اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جن  دِیوں میں جان ہوگی وہ دِیے رہ جائیں گے

جنرل پرویز مشرف کے آٹھ سالہ دورِاقتدار میںزندگی کے ہر شعبے میں خرابی اور بگاڑ میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے لیکن اس کا سب سے خطرناک پہلو وہ ضرب کاری ہے جو ملک کی آزادی اور حاکمیت‘ سلامتی اور استحکام اور نظریاتی اور تہذیی شناخت پر لگی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے آزادی کی ۶۰سالہ تاریخ میں یومِ آزادی کے موقع پر سوگواری‘ بے یقینی اور اضطراب کا جو عالم اس سال تھا   وہ کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ قوم کے سر شرم سے جھک گئے جب یہ خبر آئی کہ قبائلی علاقوں میں  سیاہ جھنڈے تک لہرائے گئے اور اسلام آباد میں وزیراعظم کو یہ جرأت نہیں ہوئی کہ کھلی فضا میں  قومی پرچم کی رونمائی کریں۔ اس تقریب کا اہتمام بھی کانفرنس ہال کی پختہ چھت تلے کیا گیا!

اس یومِ آزادی پر لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے خونی المیے کا سایہ تھا اور معصوم بچوں اور بچیوں کی دل گداز چیخیں اور قران پاک کے انسانوں کے خونی لوتھڑوں میں گڈمڈ اوراق نوحہ کناں تھے۔ وزیرستان‘ سوات‘ ہنگو‘ بنوں‘ کوئٹہ اور کوہلو میں بندوقوں کی گھن گرج اور بموں کی بارش اور انسانی لاشوں کے کشتے تھے۔ اور ان سب پر مستزاد امریکی انتظامیہ اور صدارتی امیدواروں کی دھمکیاں اور اعلانات تھے کہ اپنی آزادی اور خودمختاری کی اوقات پہچانو‘ سیدھے سیدھے ہمارے احکام کی تعمیل کرو اور ساتھ ہی تیار رہو کہ’قابل اعتماد‘ معلومات ملنے پر ہم خود تمھارے علاقوں پر بھی فوج کشی سے دریغ نہیں کریں گے۔ یہ کچھ توافغانستان میں امریکا اور ناٹو کے کمانڈر اور واشنگٹن میں ترجمان کہہ رہے تھے‘ جب کہ صدربش خود بھی گول مول انداز میں یہی پیغام دے رہے تھے مگر وہاں کے ایک صدارتی امیدوار نے تو تمام حدود کو پھاند کر صرف پاکستان ہی نہیں‘ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پر بھی بم باری اور لشکرکشی کی دھمکیاں دے ڈالیں۔

امریکی کانگریس نے ۲۷ جولائی کو نائن الیون کمیشن کی سفارشات پر وہ قانون منظور کرلیا جس کے نتیجے میں پاکستان کے لیے امریکی امداد کو شرم ناک اور ذلت آمیز شرائط اور سالانہ    سرٹی فکیٹ کے اجراسے مشروط کر کے پاکستانی قیادت کو آئینہ دکھایا گیا ہے کہ تمھاری چھے سالہ ’گراںقدر خدمات‘ اور امریکا کی خوش نودی کے لیے خود اپنے مسلمان بھائیوں‘ بہنوں اور بچوں کا خون بہانے کا یہ ہے صلہ۔ ساتھ ہی بھارت سے نیوکلیر تعاون کے معاہدے کو قانون کا درجہ دے دیا گیا تاکہ علاقے پر بھارت کی بالادستی کے قیام‘ پاکستان پر نیوکلیر دبائو میں اضافے اور اس کی توانائی کی ضروریات کے بارے میں ہتک آمیز تمسخر کا مظاہرہ‘ اور پاکستان کے سب سے قابلِ اعتماد دوست چین کے گرد ائرہ تنگ کرنے کا امریکی منصوبہ آگے بڑھایا جاسکے۔

نائن الیون کمیشن کی سفاشات پر مبنی قانون صرف ہماری آزادی اور حاکمیت پر ہی ضرب نہیں لگاتا بلکہ ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کے لیے ایک قانونی بنیادی ڈھانچا (infra-structure) وضع کردیتا ہے۔ یہ پاکستان اور اس کی قیادت پر کھلی بے اعتمادی کا اظہار ہے اور پاکستان کو دائمی غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کا انتظام بھی۔ اس میں یہ لازم کیا گیا ہے کہ ہرسال صدرِ امریکا کو یہ سرٹی فکیٹ جاری کرنا ہوگا کہ پاکستان امریکی احکام پر قرارواقعی عمل کر رہا ہے اور ان احکام میں صرف نام نہاد دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے لیے فوج کشی‘ گرفتاریاں اور دوسری تمام کارروائیاں ہی شامل نہیں‘ بلکہ پاکستان اور قبائلی علاقوں میں طالبان کے اثرورسوخ کو ختم کرنا‘ اور پاکستان میں ’سیکولر تعلیم‘ کا فروغ اور ’اسلامی شدت پسندی‘ کے خلاف مستقل کارروائی بھی سرفہرست ہے۔

غلامی کی اس دستاویز کو امریکی کانگریس نے بھاری اکثریت سے منظورکیا ہے اور اس پر عمل کے لیے نہ صرف جنرل پرویز مشرف پر دبائو ہے بلکہ دوسری لبرل قوتوں کو بھی ان کا حلیف اور شریک کار بنانے کے لیے سارے ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں۔ جمہوریت کے نام پر ملک کے اندرونی نظام میں ہرطرح کی مداخلت کا راستہ استوار کیا جا رہا ہے جس کا کھلا ثبوت برطانیہ میں جیک اسٹراکے ذریعے پیپلزپارٹی کی قیادت کو مشرف سے تعاون پر تیار کرنا‘ امریکی انتظامیہ اور میڈیا کی مشرف بے نظیر اتحاد بنانے کی کوششیں‘ اور ۹ اگست کو امریکی وزیرخارجہ کونڈولیزارائس کی جنرل پرویز مشرف سے ۱۷منٹ کی ٹیلی فون کال ہے جس کے نتیجے میں ایمرجنسی کے اعلان کوروکا گیا اور انکار کے بعد سجدۂ سہو کرتے ہوئے کابل یاترا اختیار کرلی گئی۔

۲۰۰۷ء کا یومِ آزادی قوم نے آزادی‘ حاکمیت‘ عزت و وقار اور نظریاتی تشخص پر حملوں کی اس فضا میں منایا ہے___ لیکن غم و اندوہ اور اضطراب اور بے چینی کے ساتھ ساتھ اس نئے احساس  اور اس عزم کے ساتھ منایا ہے کہ قوم کو اپنی آزادی اور اپنی شناخت کے تحفظ کے لیے ایک نئی جدوجہد کرنا ہوگی۔ ۲۰جولائی کے بعد عدلیہ کی آزادی سے جس دور کا آغاز ہواہے‘ اس کی تکمیل جرنیلی آمریت سے مکمل اور مستقل آزادی کے حصول اور بیرونی استعمار کی نئی زنجیروں سے گلوخلاصی کے ذریعے اپنے انجام تک پہنچانا ہوگا ___ عزت اور آزادی کی زندگی کا صرف اور صرف یہی ایک راستہ ہے۔ اس موقع پر ذرا سی کمزوری بھی بہت مہنگی پڑسکتی ہے۔

جنرل پرویز مشرف کا اقتدار فوج اور امریکا کی بیساکھیوں پر قائم ہے‘ لیکن وقت آگیا ہے کہ ان دونوں بیساکھیوں سے نجات حاصل کی جائے۔ سیاست میں فوج کی مداخلت کے باب کو یک سربند کردیا جائے‘ اور امریکا سے تعلقات کو ازسرنو اپنی حاکمیت اور نظریاتی شناخت کی بنیاد پر استوار کیاجائے۔ خصوصیت سے نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف نے جس طرح خارجہ پالیسی اورداخلی سیاست دونوں کو امریکی ایجنڈے کے تابع کردیاہے‘ اس کو یک سر تبدیل کیا جائے تاکہ ملک ایک بار پھر ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے عزت سے سر اُٹھاکر اپنا سفر جاری رکھ سکے۔

پاک امریکا تعلقات: ایک جائزہ

امریکا سے پاکستان کے تعلقات کے ابتدائی خطوطِ کار قائداعظم اور قائدملّت لیاقت علی خان کے دور میں مرتب ہوئے لیکن جلد ہی اس آزاد اور باوقاردوستانہ تعلق کو سردجنگ کے پس منظر میں امریکا کی چھتری تلے آنے کے نام پر ایک نئی محکومی اور محتاجی کی شکل دے دی گئی‘ اور خارجہ سیاست کی گاڑی کو پٹڑی سے اتارنے اور اس نئی سمت میں ڈالنے میں کلیدی کردار غلام محمد‘ سرظفراللہ خاں اور جنرل محمد ایوب خان کا تھا۔ قائداعظم نے برملا کہا تھا کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست اور دنیا کی پانچویں بڑی مملکت ہے اور ہم برابری کی بنیاد پر اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی روشنی میں امریکا سے دوستانہ تعلقات رکھنا چاہتے ہیں۔ لیاقت علی خان نے بہت کھل کر پاکستان کی آزاد پالیسی اور نظریاتی کردارکا اعلان و اظہار کیا تھا اوریہاں تک کہہ دیا تھا کہ پاکستان کی آزادی اور ہماری روحانی شناخت کوئی قابلِ فروخت شے نہیںہے۔ لیکن بعد کی قیادتوں نے ان دونوں ہی کا لحاظ نہ رکھا اور امریکی سیاست کے جال میں پھنس گئے۔ امریکا نے خاص طور پر اپنے تعلقات اور اثرات کو محکم کرنے کے لیے فوج سے بلاواسطہ تعلقات کو ذریعہ بنایا اور پاکستانی قوم اور پارلیمنٹ کو کبھی بھی سارے حقائق سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ اس سے انکار نہیں کہ معاشی اور عسکری اعتبار سے کچھ مثبت فوائد بھی حاصل ہوئے لیکن جن بنیادوں کو محفوظ نہ رکھا جاسکا‘ وہ آزادی‘ حاکمیت اور نظریاتی تشخص ہیں جس کی بڑی بھاری قیمت ہر دور میں اور سب سے زیادہ جنرل پرویز مشرف کے دورِاقتدار میں قوم کو ادا کرنا پڑی۔

اس سب کے باوجود پاکستان اور امریکا کے تعلقات پراگر نظر ڈالی جائے تو ان میں بڑے نشیب و فراز صاف دیکھے جاسکتے ہیں۔ کبھی دوستی کی پینگیں بڑھائی جاتی ہیں اور کبھی صاف پیٹھ دکھا دی جاتی ہے۔ یہ تجربہ بار بار ہوا اور یہ صرف پاکستان ہی کے ساتھ نہیں‘ امریکا کی خارجہ سیاست کا طریق واردات یہی ہے۔ ایک اسرائیل کو چھوڑ کر کوئی ملک ایسا نہیںہے جس کے ساتھ امریکا نے مستقل دوستی نبھائی ہو۔ ضرورت پڑنے پر ساتھ ملانے کے لیے ہرحربہ استعمال کیا ہے جسے carrot and stick ،یعنی چارہ اور چابک کی پالیسی کہا گیا ہے۔ اگرچارے (political bribe) سے کام چل گیا تو فہوالمراد‘ورنہ چابک اور ڈنڈا بے دریغ استعمال کیا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ امریکا  گاہک(client) اور غلام (serf)تو حاصل کرسکا ہے مگر کبھی دوسروں کو وہ دوست اور ساتھی نہیں بناسکا۔ پاکستان کو اس کا تجربہ ۱۹۶۵ء میں‘ پھر ۱۹۷۱ء میں‘ پھر ۱۹۷۶ء میں‘ پھر ۹۰-۱۹۸۸ء میں‘ پھر ۱۹۹۸ء میںہوا‘ مگر مجال ہے جو ہماری قیادتوں نے اس سے کوئی سبق سیکھا ہو۔ کہنے والے تو کہتے ہیں کہ  ع

ٹھوکریں کھا کر تو کہتے ہیں سنبھل جاتے ہیں لوگ

لیکن افسوس صد افسوس کہ اس ملک کی قیادتوں نے تو ٹھوکریں ہی نہیں‘ جوتے کھانے کے بعد بھی سبق نہیں سیکھا۔

پاک امریکا تعلقات کا سب سے ذلت آمیز دور پرویز مشرف کا دورِاقتدار ہے۔ اس کا آغاز بل کلنٹن کے دورۂ جنوبی ایشیا سے ہوتا ہے جس میں بھارت کو اسٹرے ٹیجک پارٹنر بنایا گیا‘ پانچ دن وہاں شادیانے بجائے گئے اور پانچ گھنٹے کے لیے پاکستان میں اس انداز میں آئے کہ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ کوئی تصویر نہیں کھنچوائی‘ کوئی مشترک پریس کانفرنس نہیں کی‘ اور بلاواسطہ ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے پاکستانی قوم سے خطاب فرمایا۔ وردی پوش جنرل صاحب نے یہ سب ذلت بخوشی قبول کی اور شکریہ ادا کیا کہ انھیں اس لائق توسمجھا گیا! لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوا‘ وہ اس سے بھی زیادہ ہے۔

۹ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد امریکی رعونت اپنے عروج پر تھی اور پاکستان کی گوشمالی کا بدترین دور ۱۲ستمبر کی اس ٹیلی فون کال سے شروع ہوتا ہے جو جنرل کولن پاول نے جنرل پرویز مشرف کو کی۔  یہ گفتگو اس دھمکی کے زیرسایہ ہوئی تھی جو پہلے ہی امریکی نائب وزیرخارجہ رچرڈ آرمی ٹیج نے پاکستانی آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل محمود کو واشنگٹن میں دے دی تھی‘ اور بش صاحب کا فرمان شاہی پہنچا دیا تھا کہ یا ہمارا ساتھ دو ورنہ تمھیں پتھر کے دور میں پھینک دیاجائے گا۔ اس کی پوری تفصیل امریکی صحافی باب ووڈورڈ نے اپنی کتاب Bush at Warمیں دی ہے اور دسیوں کتابوں میں وہ پوری صورت حال آچکی ہے جس میں دھونس‘ دھمکی اور ننگی جارحیت کی تلوار دکھا کر پاکستان کی فوجی قیادت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبورکیا گیا‘ اور جس کا اعتراف ’محکوم کی دانش مندی‘ کی مغالطہ آمیز منظرکشی کے روپ میں خود جنرل پرویز مشرف نے اپنی خودنوشت In the Line of Fire میں کیا ہے۔

آج جو ہتک آمیز سلوک امریکا‘ جنرل صاحب اور پاکستان سے کر رہا ہے‘ وہ نتیجہ ہے اس ہمالیہ کے برابر غلطی کا جو ستمبر۲۰۰۱ء میں جنرل صاحب نے کی۔ اس کے بعد سے مسلسل امریکا کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں‘ غلامی کی زنجیروں کو زیور بنا کر پیش کر رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب اس شیطانی گرفت سے نکلنے کی ان کوکوئی سبیل نظر نہیں آرہی ہے۔

نائن الیون کے بعد

بحیثیت سوپر پاور روس کے خاتمے کے بعد سے امریکا کی خارجہ پالیسی کا ایک ہی ہدف ہے اور وہ پوری دنیا پر اپنی سیاسی‘ عسکری‘ معاشی اور تہذیبی بالادستی کا قیام‘ دنیا کے دوسرے ممالک کے وسائل اور خصوصیت سے توانائی کے ذخائر پر قبضہ‘ اور نیوکلیر اثاثوں پر کنٹرول اور اس امر کو  واقعی بنانا ہے کہ امریکا کی اس بالادستی کو چیلنج کرنے والی کوئی قوت کسی شکل میں بھی اُبھر نہ سکے۔ نائن الیون دراصل اس سامراجی عمل (hubris)کا ایک حصہ ہے اور اس کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر انھی مقاصد کو زیادہ بھونڈے اور زیادہ خون آشام انداز میں حاصل کرنے کی عالم گیر جدوجہد کاآغاز ہوا ہے۔ البتہ اس فرق کے ساتھ کہ اب ایک فوری ہدف چند مسلمان ممالک (خصوصیت سے افغانستان‘ عراق‘ ایران‘ شام اور پاکستان)‘ اور اسلام کا وہ تصور قرار پایا جسے سیاسی اسلام‘ اسلامی بنیادپرستی‘ جہاد اور زیادہ اکھڑاور صاف الفاظ میں اسلامی دہشت گردی اور اسلامی فاشزم کہا جا رہا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک کو ترغیب اور ترہیب کا ہرحربہ استعمال کرکے اپنا شریک کار بنایا گیا ہے اور یہی وہ جال ہے جس میں جنرل پرویز مشرف بخوشی قدم افروز ہوئے ہیں اور چھے سال تک ذلت آمیز خدمات انجام دینے کے بعد بھی ھل من مزید (more, more and more)کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔

صدربش نے اپنے عالمی دہشت گردی کے مقاصد کوکسی پردے میں نہیں رکھا۔ بقول  باب ووڈ ورڈ امریکا نے اپنا ہدف بہت صاف لفظوں میں دنیا کو بتا دیا ہے کہ:

ہم اپنی عظیم قوم کے دفاع میں دنیا کے کونے کونے میں موت اور تشدد پھیلائیں گے۔ (Bush At War،باب وڈ ورڈ‘ سائمن اینڈ شوسٹر‘ نیویارک‘ ۲۰۰۲ء‘ ص ۳۵۲)

دیکھیے پاکستان کے جنرل پرویز مشرف کو قابو میں کر کے کس طرح اس شکنجے میں کساگیا ہے۔ بش صاحب نے نائن الیون کے فوراً بعد اپنی پالیسی کو ان الفاظ میں بیان کیا: ’’ہمیں طاقت کا استعمال کر کے ملکوں سے فیصلے کروانا ہوں گے‘‘۔(ص ۳۳)

آرمی ٹیج نے جنرل محمود سے کہا:

پاکستان کو ایک اہم فیصلہ کرنا ہے ___ یا وہ ہمارے ساتھ ہے یا نہیں ہے۔ یہ سفیداور سیاہ میں سے کسی ایک کا انتخاب ہے۔ درمیان میں کوئی راستہ نہیں ہے۔ یہ الفاظ کہ ’’مستقبل آج شروع ہورہا ہے‘‘ پاکستانی صدر جنرل مشرف کو بتا دو: ’’ہمارے ساتھ یا ہمارے مخالف‘‘۔ (ص ۴۷)

جنرل کولن پاول نے صدربش سے کہہ دیا تھا کہ افغانستان پر حملہ اور بن لادن اور القاعدہ پر گرفت پاکستان کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں‘ اس لیے :

پاکستانیوں کو نوٹس دینے کی ضرورت ہے… مشرف پر بہت زیادہ دبائو ڈالنے میں اندیشہ ہے‘ لیکن بالکل دبائو نہ ڈالنے میںزیادہ اندیشہ ہے۔(ص ۵۸)

۱۲ ستمبر کورات کو ۳۰:۱۲ بجے کولن پاول نے جنرل پرویز مشرف سے "As one general to another"بات کی اور ’’یا ہمارے ساتھ ہو، یا ہمارے مقابلے میں ہو‘‘ کی دھمکی دی‘ نیز سات مطالبات کیے جن کے نتیجے میں پاکستان امریکا کے جنگی پشتے (war base)میں تبدیل ہوگیا۔ کولن پاول نے باب ووڈ ورڈ سے کہا اور پھر اپنی خودنوشت میں اعتراف کیا ہے کہ وہ سمجھتا تھا کہ مشرف سات میں سے ایک دو مطالبات مان لے گا لیکن اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ہمارے جنرل صاحب نے ساتوں مطالبات بے چون وچرا ں مان لیے۔ ووڈ ورڈ لکھتا ہے:

پاول کو حیرت ہوئی جب مشرف نے کہا کہ پاکستان امریکا کے ساتوں میں سے ہر ایک اقدام میں حمایت کرے گا۔ (ص ۵۹)

بعد میں صدر بش سے جنرل پرویز مشرف نے دو درخواستیںکیں۔ ایک یہ کہ: ’’افغانستان کے بارے میںانھیں خدشہ ہے کہ شمالی اتحاد جسے امریکا بھی مانتا ہے کہ وہ قبائلی ٹھگوں کے گروہ سے زیادہ نہیں‘ افغانستان پر قابض ہوجائے گا‘‘۔ جس کے جواب میں صدربش نے خسروان شاہی سے فرمایا کہ: ’’شمالی اتحاد کے بارے میں آپ کی تشویش کا مجھے بخوبی احساس ہے‘‘۔

ملاقات کے بعد پریس کے سامنے بش نے وعدہ کیا کہ:

ہم اپنے دوستوں کی جنوب میں شامالی میدان کی طرف پیش قدمی کی حوصلہ افزائی کریں گے نہ کہ شہر کابل پر قبضہ کے لیے‘ بش نے کہا۔ (ص ۳۰۴)

اور پھر ہوا کیا؟ پورا افغانستان طشتری میں سجا کر شمالی اتحاد کی خدمت میں پیش کردیا گیا اور جنرل صاحب دیکھتے رہ گئے۔ دوسری گزارش جنرل صاحب نے صدربش سے یہ کی کہ پاکستان کے نیوکلیر اثاثہ جات کو اسرائیل سے خطرہ ہے‘ آپ ان کے تحفظ کا یقین دلائیں۔ بش نے بات کو مذاق میں اڑا دیا اور جنرل صاحب خوش ہوگئے کہ امریکا پاکستان کی ایٹمی صلاحیت پر دست درازی نہیں کرے گا۔

جنرل صاحب نے بڑی ہمت کر کے افغانستان میں روس کے خلاف جہادکے خاتمے پر امریکا کے آنکھیں پھیر لینے کے پاکستانی احساس کا ذکر کیا تو بش نے پوری ڈھٹائی سے کہا: ایسا نہیں ہوگا۔ ملاحظہ فرمایئے:

مشرف نے کہاکہ اس کو یہ خطرہ ہے کہ امریکا آخر میں پاکستان کو چھوڑ دے گا اور دوسرے مفادات دہشت گردی کے خلاف جنگ کی اہمیت کم کردیں گے۔ بش نے اپنی نگاہ مرکوز کرکے کہا: پاکستانی عوام کو بتا دیں کہ امریکی صدر نے آپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بتایا ہے کہ ہم ایسا نہیں کریں گے۔ (ص ۳۰۳)

حسب عادت امریکا نے وہی کیا اور کر رہا ہے‘ یعنی آنکھیں پھیر لینا۔ بدعہدی اور طوطا چشمی کے علاوہ اس سے کوئی توقع رکھنا خوش فہمی ہی نہیں حماقت ہے۔ اس موقع پر صدر نکسن کی دل چسپ مگر عبرت آموز گواہی بھی ریکارڈ پر لانا مفید ہوگی جس میں امریکا کا ساتھ دینے والے چار کرداروں کا ذکر ہے جن میں سے دو کا تعلق پاکستان سے ہے۔ رچرڈ نکسن نے اپنی کتاب In the Arena: A Memoir of Victory, Defeat and Renewalمیں جو ۱۹۹۲ء میں شائع ہوئی تھی‘ لکھا ہے:

بیرونی سفر میں میرا سب سے زیادہ افسوس ناک تجربہ جولائی ۱۹۸۰ء میں‘قاہرہ میں‘  شاہِ ایران کے جنازے میں شرکت تھی۔ واشنگٹن سے کوئی بھی امریکا کی نمایندگی کے لیے ایک ایسے لیڈر کے جنازے میں نہیں بھیجا گیا جو ہمارے نہایت وفادار اور گہرے دوستوں میں سے تھا۔ مجھے پاکستان کے صدر ایوب خان کا ایک جملہ یاد آیا جو انھوں نے ۱۹۶۴ء میں‘ جنوبی ویت نام کے صدر ڈیم کے قتل میں امریکا کی شرکت پر تبصرہ کرتے ہوئے مجھ سے کہا تھا کہ اس واقعے نے ثابت کردیا ہے کہ امریکا کا دوست ہونا خطرناک ہوتا ہے۔ غیرجانب دار ہونے کا فائدہ ہوتا ہے‘ اور بعض وقت دشمن ہونے سے کام نکلتا ہے۔ یہ بات میرے ذہن میں اس وقت پھر آئی جب امریکا کے ایک اور گہرے دوست پاکستان کے صدر ضیاء الحق کی پُراسرار موت کی اطلاع ملی جو ہوائی جہاز کے حادثے میں ہوئی جو بظاہر سبوتاژ کا نتیجہ تھی۔

قومی عزائم سے بدترین بے وفائی

یہ ہے امریکا کا ٹریک ریکارڈ۔ اس کے باوجود جنرل پرویز مشرف نے امریکا کا دامن تھاما اور اس کی چاکری کی خدمات انجام دیں‘ جن میں افغانستان کے اپنے دوست حکمران طالبان سے نائن الیون کے واقعے میں ان کے ملوث ہونے کے کسی واضح ثبوت کے باوجود بے وفائی‘ افغانستان پرفوجی یلغار اور اس کو تباہ و برباد کرنے کی امریکی اور بعد میں ناٹو کی جنگ میں شرکت‘ خود اپنے ملک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر افغانستان میں امریکا اور ناٹو کی مشترک ۴۰ہزار کی فوج کے مقابلے میں ۸۰ ہزار سے ایک لاکھ فوج کو قبائلی علاقوں میں جھونک دینا‘ ۸۰۰ پاکستانی افسران اور جوانوں اور ایک ہزار سے زیادہ قبائلی مسلمانوں کی جانوں کا اتلاف اور سیکڑوں افراد کو کسی ثبوت اور کسی عدالتی کارروائی کے بغیر گرفتار کر کے امریکا کی تعذیب کا نشانہ بنانے کے لیے ان کی تحویل میں دے دینا شامل ہیں۔ پھر اس کے نتیجے میں پاکستان کے اندرونی معاملات حتیٰ کہ سیکولر تعلیمی نظام کو فروغ دینے اور ملک میں امریکا کی مرضی کی سیاسی قیادت کو برسرِاقتدار لانے کے معاملات میں امریکی ایجنڈے کی تعمیل کی راہیںاستوار کیں۔ یاد رکھیے جو پالیسی مالی منفعت یا    بہ الفاظ صحیح تر سیاسی رشوت یا بیرونی دبائو‘ بلیک میل‘ ہاتھ مروڑنے اور تازیانہ بازی کا نشانہ بننے کے نتیجے میں بنے گی‘ یا ان دونوں کے امتزاج کا نتیجہ ہوگی وہ کبھی قومی مفاد میں نہیں ہوسکتی۔ نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف نے امریکا کے حکم اور مطالبے کے تحت قومی مفاد کو جس طرح قربان کیا ہے اور ملک کی خارجی اور داخلی پالیسیوں میں جو بنیادی تبدیلیاں کی ہیں وہ قوم‘ اور اس کے عزائم سے بدترین بے وفائی اور قیامِ پاکستان کے مقاصد اور دستورِ پاکستان کے تقاضوں سے متصادم ہیں۔ اور یہ سب کچھ چند بلین ڈالر حاصل کرنے اورامریکا کے دبائو اور ڈنڈوں کے سائے تلے   کیا گیا ہے۔ اس کی چند مثالیں ریکارڈ کی خاطر پیش کی جاتی ہیں۔

امریکا کی ناردرن کمانڈ کا سربراہ (۲۰۰۳ء-۲۰۰۰ء) جنرل ٹامی فرینک اپنی خودنوشت میں جو ۲۰۰۴ء میں American Soldier کے نام سے شائع ہوئی ہے‘ لکھتا ہے:

میں نے ارادہ کیا کہ سفر جاری رکھتے ہوئے پاکستان میں صدر مشرف سے مل لوں۔  اس لیے کہ اگر بازو مروڑنے کا کوئی موقع تھا تو یہی تھا۔ انھیں فیصلہ کرنا ہوگا‘ اور بہت جلدی فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کس طرف ہیں۔

اسی کتاب میں جنرل ٹامی فرینک انکشاف کرتا ہے کہ افغانستان پر امریکا کی یورش میں بھارت کی سیاسی‘ سفارتی اور فوجی شرکت بھی تھی جس پر جنرل پرویز مشرف کو اصولی اختلاف نہیں تھا البتہ صرف اس لیے پریشان تھے کہ اس سے ان کی سیاسی پوزیشن خراب ہوتی ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ معاملہ اس پر طے ہواکہ بھارت کی شرکت کو نمایاں نہیں کیا جائے گا۔ یہ دل خراش داستان  انھی کی زبان میں سن لیجیے:

مشرف نے درخواست کی کہ مہم کے منصوبے میں بھارتی حکومت یا بھارتی فوج کی شرکت نہ ہو۔ خاص طور پر کسی بھی صورت میں اس طرح کہ بھارتی فوجیں پاکستان کے بحری اور فضائی حدود میں داخل ہوں۔ انھوں نے یہ بھی چاہا کہ اتحادی بھارت کی  سیاسی شرکت کوبھی بہت نمایاں نہ کریں جس سے پاکستان میں جذبات بھڑک سکتے ہیں۔ میں نے امریکی سفیر وینڈی سے کہا کہ وہ صدر مشرف کو میرا ذاتی شکریہ پہنچا دیں اور انھیں بتائیں کہ میں بھارتی شرکت کا مظاہرہ کم سے کم کرنے کی کوشش کروں گا۔ (ص ۲۷۳)

جنرل ٹامی فرینک اپنی افغان جنگ کے پورے تجربے کا تجزیہ کرتے ہوئے فخریہ انداز میں بیان کرتا ہے کہ:

علاقے میں اپنے ساتھی تلاش کرنے کے لیے اپنے ۳۰ سے زیادہ دوروں میں‘ مَیں نے بہت زیادہ چارہ اور چند ہی چابک استعمال کیے۔

اور پھر جنرل پرویز مشرف کی تابع داری کا بیان یوں رقم کرتا ہے:

اور گو کہ دنیا کو اس جنگ میں پاکستان کے فوجی کردار کا کم پتا ہے لیکن پرویز مشرف نے اپنا کہا پورا کیا‘ اور آج بھی وہ اسی طرح ہے۔ پاکستان کے گیارھویں کور کے تجربہ کار فوجیوں نے بھاگنے والے سیکڑوں القاعدہ کے دہشت گردوں کو قتل کیا اور پکڑااور وہ آج بھی وزیرستان کے پہاڑوں میں ان دہشت گردوں کو تلاش کرتے ہیں‘ جب کہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز شہروں میں ان کا پتا چلاتی ہیں۔ حال ہی میں القاعدہ دہشت گردوں کی گرفتاریاں جاری مہم کی تازہ کامیابیاں ہیں۔ جب صدر بش نے کہا تھا کہ دنیا کی قومیں یا ہمارے ساتھ ہیں یاہمارے مخالف تو پاکستان نے ٹھیک ٹھیک سمجھ لیا (کہ اب اسے کیا کرنا ہے)۔

ٹامی فرینک کی گواہی کافی نہیں۔ تصویر مکمل کرنے کے لیے سی آئی اے کے ڈائرکٹر  جارج ٹی نٹ (Tenet)کی شہادت بھی ملاحظہ فرمالیجیے۔ یہ نومبر ۲۰۰۱ء کا واقعہ ہے اور پس منظر میں پاکستان کی نیوکلیر ٹکنالوجی کے افغانستان جانے کا خطرہ ہے۔صدربش نے خصوصی طیارے سے سی آئی اے کے سربراہ کو پاکستان بھیجا۔باب ووڈ ورڈ نے اپنی دوسری کتاب Plan to Attack میں اس کی اس طرح منظرکشی کی ہے۔ پہلے صدربش کی ہدایت دیکھیے:

بش نے ٹی نٹ سے کہا: میں چاہتا ہوں کہ تم ابھی وہاں جائو اور جو چاہیے وہ حاصل کرلو۔ اپنا جہاز پکڑو اور ابھی پاکستان چلے جائو۔

جارج ٹی نٹ پہلے آئی ایس آئی کے سربراہ سے ملتے ہیں۔ ذرا زبان اور عزائم ملاحظہ فرمائیں:

وہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ سے خوب خبر لینے (raising holy hell) کے ارادے سے ملنے گیا۔ اگر امریکا میں کوئی ایٹمی ہتھیار ہوا اور یہ چل گیا تو ذمہ داری تمھاری ہوگی‘ مشرف کے بارے میں اس نے کہا۔ ہم نے اس پر خوب دبائو ڈالا۔ ایک اہل کار نے کہا: ہم گوشمالی کرتے رہے (we were turning the screws) یہاں تک کہ اس کے ساتھ ہم اس مقام پر پہنچ گئے کہ پاکستانی ہمارے ساتھ کام کرنے لگے۔ (ص ۴۷)

جنرل پرویز مشرف اور ان کے وزیرخارجہ بار بار اعلان کرتے ہیں کہ ہم نے کسی کے اشارے پر یا دبائو کے تحت کچھ نہیں کیا۔ اس سے بڑا جھوٹ آسمان تلے نہیں ہوسکتا۔ قوم نے جس فوج کو ملک کی آزادی اور قوم کی عزت کی حفاظت کے لیے اپنا پیٹ کاٹ کر تیار کیا تھا‘ اس کی قیادت نے چند ڈالروں کے لیے اور دوسروں کی دھمکیوں کے تحت خود مسلمانوں کا خون بہایا اور امریکا کی بالادستی کے قیام کے لیے خود اپنی جانیں اور عزت قربان کی۔ اقبال نے تو کشمیر کا نوحہ کیا تھا‘ کیا خبر تھی کہ پاکستان کے بارے میں بھی کہنا پڑے گا کہ اس کے جرنیلوں نے  ع

قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند!

امریکا کی کہلی مداخلت

امریکا کس طرح ہمارے معاملات میںمداخلت کر رہا ہے‘ وہ صرف افغانستان کے لیے کندھا فراہم کرنے اور وزیرستان میں فوج کشی کرنے تک محدود نہیں۔ چند اور مثالیں مشتے نمونہ ازخروارے پیش خدمت ہیں۔

امریکا اور برطانیہ کے اشاروں پر کشمیر کی جدوجہد آزادی سے دست برداری اختیار کی گئی اور نہ صرف عملاً تحریک آزادیِ کشمیر کی ہر مدد بند کردی‘ بلکہ اسے آزادی کی جنگ بھی کہنے سے توبہ کرڈالی۔ افسوس کہ بالآخر جنوری ۲۰۰۴ء میں یہاں تک اعلان کردیا کہ کشمیر کی کنٹرول لائن جسے پاکستان نے کبھی بین الاقوامی سرحد تسلیم نہیں کیا تھا‘ اسے کشمیری مجاہدین کے لیے بند کردیا جائے گا اور ان کے سرحدپار کرنے کو دہشت گردی کی ایک صورت تسلیم کرلیا۔

اس سلسلے میں ٹونی بلیئر نے صدربش کے کارندے کی خدمات انجام دیں اور جنرل پرویز مشرف کوقائل کرلیا کہ کشمیر کی تحریکِ آزادی کو تحریکِ آزادی بھی نہ کہیں۔ ابھی چند ہفتے قبل     ہی سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کے ایڈوائزر اور پالیسی کے شعبے کے مدیر الیسٹیرکیمپبل کی کتاب  The Blair Years شائع ہوئی ہے۔اس میں ٹونی بلیئر کے کارنامے اور پاکستانی جرنیل کا   ’تیرا مجبور کردینا، مرا مجبور ہوجانا‘ کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے‘ عبرت کے لیے اس کا جاننا ضروری ہے۔ جنرل صاحب سے یہ ملاقات ۷جنوری ۲۰۰۲ء میں‘ اسلام آباد میں ہوتی ہے اور اس کے بعد ۱۲فروری ۲۰۰۲ء کو وہ کشمیر کی جنگ آزادی سے دست برداری کا اعلان فرما دیتے ہیں۔الیسٹیر کیمپبل لکھتا ہے کہ:

بلیئر کا پہلا قدم یہ ہونا تھا کہ مشرف دہشت گرد گروہوں کے ساتھ سخت ہوجائے۔ بلیئر نے مشرف سے کہا کہ مذاکرات شروع ہونے کے لیے دہشت گردی کی حمایت ختم  ہونی چاہیے۔ مشرف نے حیران ہوکر دیکھا۔ بلیئر نے کہا: یہ اس لیے ٹھیک نہیں ہے کہ  اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پاکستان کی حکومت دہشت گردی کی حمایت کر رہی ہے۔ ہم نے اسے سمجھایا کہ اس کے لیے بہترین راستہ یہ ہے کہ وہ بڑھ چڑھ کر یہ کہے کہ وہ دہشت گردی کی ہرشکل کا مخالف ہے۔ ہم نے اسے اس پر قائل کرلیا کہ کشمیر کے بارے میں وہاں ہونے والی جدوجہد کو جنگِ آزادی نہ کہاجائے۔ اس لیے کہ یہ ہم اور امریکی راے عامہ نہیں سمجھیں گے۔ زیادہ بہتر یہ ہے کہ اسے ایک مقامی جدوجہد کہا جائے۔ ہمیں اس پر بہت وقت خرچ کرنا پڑا لیکن بالآخر وہ مان گیا۔ (The Blair Years‘ ص ۵۹۹)

امریکا کی نام نہاد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ ہو یا پاکستان کی کشمیرپالیسی‘ نیز بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اور دوستی کی پینگیں___ سب کچھ امریکا کے اشارۂ چشم و ابرو پرہوا لیکن الفاظ و معانی اپنا مفہوم کھو چکے ہیں۔ بقول جنرل صاحب یہ سب ’قومی مفاد میں ہوا‘، اور     یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔

لال مسجداور جامعہ حفصہ کے خلاف جو فوجی آپریشن ہوا وہ بھی امریکا اوراس کے حواریوں کے مطالبات اور مغربی میڈیا اور خود پاکستان میں لبرل قیادت کے شوروغوغا اور اس کی سرخیل  محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہہ پر ہوا۔ صدربش‘ گورڈن برائون (برطانوی وزیراعظم) آسٹریلیا کے وزیراعظم اور خود بے نظیر صاحبہ نے باقاعدہ اس اقدام کی تحسین فرمائی اور معصوم بچوں اور بچیوں کے کشت و خون اور مدرسے کی مسماری پر مبارک باد کے پیغامات بھیجے۔ اب اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ امریکا نے ایکشن سے ایک دن پہلے باقاعدہ ہدایات جاری کیں‘ اس فرق کے ساتھ ان کا مطالبہ تھا کہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے مکینوں کو گرفتار کیا جائے‘ جب کہ جنرل پرویز مشرف کی حکمت عملی یہ تھی ان کو نیست و نابود کیا جائے‘ بلکہ جامعہ حفصہ کو بھی اس طرح مسمار کیا جائے کہ بقول چیف جسٹس آف پاکستان اس آپریشن کے بارے میں ساری معلومات اور شہادتیں بھی ختم ہوجائیں۔ امریکی ہدایات ریکارڈ کے لیے پیش کی جاتی ہیں۔ ۹جولائی ۲۰۰۷ء کے The Nation کے مطابق فوجی ایکشن سے ایک دن قبل(واضح رہے کہ یہی وہ دن ہے جب مصالحت کی کوششیں اپنے عروج پر تھیں‘ معاملات طے ہورہے تھے کہ ان کو سبوتاژ کردیا گیا) یہ ہدایات نازل ہوئیں:

امریکا نہیں چاہتاکہ ان درجنوں خطرناک جنگجوؤں کو جو لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں ہیں‘ محفوظ راستہ دیا جائے بلکہ سخت اقدام چاہتا ہے تاکہ وہ گرفتار ہوں۔ بش انتظامیہ کا پیغام یہ تھا کہ مولانا عبدالرشید غازی کے مطالبے کے مطابق مسجد خالی کرنے اور  لڑکیوں کے متصل مدرسے کو خالی کرنے کی شرط پر جنگجوؤں کو محفوظ راستہ نہ دیا جائے… واشنگٹن کو ان جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کے مقابلے میں گرفتار کرنے میں زیادہ دل چسپی تھی‘ اس لیے کہ اسے یقین تھا کہ ان سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم سراغ ملیں گے… انھوں نے کہا کہ امریکا کے اعلیٰ سیکورٹی اہل کار پاکستانی دارالحکومت کے واقعات کو مانٹیر کر رہے تھے اور اپنی حکومت کو باقاعدگی سے تازہ اطلاعات پہنچا رہے تھے۔

اسی طرح جنوبی اور شمالی وزیرستان میں جو امن معاہدہ ہوا اس سے امریکاسخت ناخوش تھا۔  اس نے اپنا سارا اثرورسوخ اور بازو مروڑنے (arm-twisting) کے حربے استعمال کرکے  شمالی وزیرستان اور اس سے بڑھ کر صوبہ سرحد کے چند اہم مقامات خصوصیت سے سوات‘ بنوں اور دوسرے علاقوں میں فوج بھیجنے کے لیے پاکستان پر دبائو ڈالا اور بالآخر اس علاقے میں ایک بار پھر خون ریزی اور تصادم کا سماں پیدا کردیا۔ واشنگٹن سے ڈان کے نمایندے کی ۱۶جولائی کی رپورٹ قابلِ غورہے:

امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر نے بتایا کہ امریکا پاکستان کو وہ تمام آلات فراہم کرے گا جن کی انھیں صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں میں جنگجوؤں کے لیے ایک مجوزہ کریک ڈائون کے لیے ضرورت ہوگی۔ اسٹیفن رِڈلے نے اے بی سی نیوز کو بتایا کہ جنرل مشرف نے قبائلی علاقوں میں مزید افواج بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے اور امریکا اس اقدام کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ ہمیں اس ملک کو اس حالت میںلاناہے جہاںاس کے پاس دہشت گردی کے اس خطرے سے نمٹنے کے لیے تمام ضروری آلات ہوں‘ جو بدقسمتی سے ہمارے ساتھ طویل مدت تک رہے گا۔

بھارت کے جریدے فرنٹ لائن نے اپنی ۱۰ اگست ۲۰۰۷ء کی اشاعت میں پاکستان پر تفصیلی کور اسٹوری شائع کی ہے جس میں جان شیریں (John Cherian) نے اپنے دو مضامین میں حالات کی یوں عکاسی کی ہے:

جب انھیں یاد دلایا گیا کہ قبائلی سرداروں نے گذشتہ سال ستمبر کا معاہدہ ختم کردیا ہے تو انھوں نے کہا کہ معاہدے نے اس طرح کام نہیں کیا جس طرح صدرمشرف چاہتے تھے‘ بلکہ اس طرح بھی نہیں کیا جس طرح ہم چاہتے تھے۔ اس ہفتے کے آغاز میں امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری رچرڈ بائوچر نے کانگریس کو بتایا کہ امریکا قبائلی پٹی اور سرحد کی نگرانی کے لیے پاکستانی فوج کو ہرمہینے ۱۰۰ ملین ڈالر ادا کرتا ہے۔

اگر امریکی احکام پر عمل کیا جائے تو پاکستانی فوج افغانستان سے متصل اپنے سرحدی علاقے میں پشتون قبائل کے ساتھ عملاً حالت ِ جنگ میں ہوگی…

امریکی میڈیا کی حالیہ رپورٹوں کے مطابق ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد بش انتظامیہ نے پاکستان پر دبائو ڈال کر اسے اپنے ساتھ ملا لیا۔ مشرف کو بتایا گیا کہ اگر اس نے طالبان کی حمایت ترک نہ کی تو واشنگٹن بم باری کرکے پاکستان کو پتھر کے دور میں پہنچا سکتا ہے‘ اور نئی دہلی کو اشارہ کرے گا کہ پاکستانی کشمیر کے متنازع علاقے پر قبضہ کرلے۔

پاکستانی صدر پرویز مشرف کی حالیہ پریشانیوں کی بڑی وجہ پڑوسی ملک افغانستان میں طالبان کا احیا ہے۔ امریکا اور ناٹو کی افواج کی طالبان کو شکست دینے میں ناکامی نے پاکستان میں اس کے حامیوں کا حوصلہ بڑھا دیا ہے۔ بش انتظامیہ کو سیاسی طور پر یہ مناسب لگتا ہے کہ طالبان اور اس کے عسکری حلیفوں کو افغان سرحدی علاقوں میں قابو کرنے کے لیے کافی کچھ نہ کرنے کے الزام پاکستان پر رکھ دے‘ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ طالبان کے احیا کی حقیقی ذمہ داری واشنگٹن اور اس کے حلیفوں پر ہے۔

بش انتظامیہ حکومتِ پاکستان پر دبائو ڈال رہی ہے کہ قبائلی علاقوں میں پھر بھرپور حملہ کرے۔ اپنے علانیہ بیانات میں سینئر امریکی اہل کار کہہ چکے ہیں کہ اگر پاکستانی فوج آگے بڑھ کر اقدام نہیں کرتی تو امریکا خود اقدام کرسکتا ہے۔ ماضی میں کئی موقعوں پر امریکی فضائیہ نے القاعدہ کے اہداف کو پاکستانی حدود میں نشانہ بنایا ہے۔ امریکی اسپیشل فورسز بھی محدود پیمانے پر آپریشن کر رہی ہیں۔

امریکی مداخلت کی تازہ ترین مثال مشرف بے نظیر مفاہمت کی کوششیں اور اس کے لیے  کی جانے والی طرح طرح کی سازشیں ہیں۔ ایمرجنسی کی بات اور پھر امریکی وزیرخارجہ کی مداخلت اس کی تازہ ترین نظیر ہیں۔ نیویارک ٹائمز ۱۱اگست ۲۰۰۷ء کے اداریے میں امریکا کے کردار کویوں بیان کرتا ہے:

وزیرخارجہ کونڈولیزارائس نے جمعرات کی رات کو ۲ بجے صدرمشرف کو فون کر کے ایک سیاسی طوفان کو دُور کرنے میں مدد دی‘ اور پارلیمنٹ کو معطل کرنے‘ عدالتوں کو بے اختیار کرنے‘ مظاہروں پر پابندی لگانے اور اس کے لیے ایک نئی صدارتی مدت کے سلسلے میں بات کی۔

لیکن یہ بحران شاید صرف ملتوی ہوا ہے۔ آٹھ سال کی مطلق العنان حکومت اور عہدشکنیوں کے بعد مشرف نے وہ حمایت کھو دی ہے جو اسے عام پاکستانیوں میں‘ تعلیم یافتہ پروفیشنل طبقے میں‘ حتیٰ کہ ساتھی فوجی افسروں میں کبھی حاصل تھی۔ مشرف کو صرف یہ بتانا کہ وہ مزید اختیارات حاصل نہ کرے کافی نہیں۔ واشنگٹن کو اسے یہ بتانا چاہیے کہ تاخیر ہونے سے قبل مذاکرات کے ذریعے جمہوریت کی طرف جلدواپس ہونا چاہیے۔

واضح رہے کہ یہاں جمہوریت کے معنی امریکا کی پسندیدہ قیادت کو برسرِاقتدار لانا ہے‘ ورنہ سب کو معلوم ہے کہ امریکا کوجمہوریت کا کتنا پاس ہے۔

اثرات و نتائج

اس دل خراش داستان کی کوئی انتہا نہیں۔ ہم نے صرف چنددستاویزاتی شہادتیں پیش کی ہیں تاکہ ’قومی مفاد‘ کی بات کرنے والوں کااصل چہرہ سامنے آسکے۔ امریکا کے ایجنڈے کے مطابق جنرل پرویز مشرف نے قوم‘ پارلیمنٹ‘ حتیٰ کہ کابینہ اور دفترخارجہ تک کو نظرانداز کرکے وحدت اقتدار (unity of command) کے نام پر خارجہ پالیسی کا جو تیاپانچہ کیا ہے‘ اس سے ملک اور اُمت مسلمہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اس کے چند اہم پہلوئوں کی نشان دہی کی جاتی ہے:

۱- صدر بش کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ نہ بین الاقوامی قانون کے اعتبار سے جنگ ہے اور نہ اس کا ہدف حقیقی دہشت گردی ہے۔ اس لیے کہ دہشت گردی کا تو سب سے زیادہ ارتکاب خود امریکا نے کیا ہے یا اس کے حلیفِ خاص اسرائیل اور پھر بھارت نے۔ اس وقت خود امریکی اور یورپی اہلِ علم ’وار آن ٹیررزم‘ کے پورے paradigmکو چیلنج کررہے ہیں‘ اور   صاف کہہ رہے ہیں کہ جنگ کا لفظ صرف اس لیے استعمال کیا جا رہا ہے کہ سویلین افراد کو    محارب (combatant) قرار دے کر قانون سے بالابالا ختم کیا جاسکے۔ ان کے بقول جن پر دہشت گردی کا شبہہ ہو جب تک الزام عدالت کے نظام کے تحت ثابت نہ ہو‘ انھیں دہشت گرد قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اور جو فی الحقیقت دہشت گرد ہیں وہ بھی محارب نہیں صرف ’مجرم‘ (criminal) ہیں اور ایک مجرم کو جرم کی حد تک قانون کے عام پروسس کے ذریعے ہی سزا دی جاسکتی ہے۔   ’وار آن ٹیررزم‘ ایک قانونی فراڈ ہے اور جنرل پرویز مشرف صدر بش کے ساتھ اس فراڈ میں‘ جو  اب انسانیت کے خلاف ایک سنگین جرم (crime against humanity) بن چکا ہے‘ شریک ہیں اور پاکستانی فوج کو اس نے اس میں ملوث کر کے پاکستانی فوج اور پاکستانی قوم دونوں کوسخت عذاب میں مبتلا کردیا ہے۔ یہاں تو یہ ہو رہا ہے‘ جب کہ دنیا کی سوچ اب اس طرح بدل رہی ہے کہ برطانیہ کے نئے وزیراعظم گارڈن برائون نے دو ہفتے قبل یہ ہدایت جاری کی ہے کہ آیندہ کوئی برطانوی وزیر اسے ’وار آن ٹیرر‘ نہ کہے۔

۲- پاکستان کی کشمیر پالیسی کو یک سر بدل کر اور تحریک حریت کشمیر سے غداری کرکے پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات پر ضرب کاری لگائی ہے اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کشمیر کے عوام کو پاکستان سے مایوس اور بددل کرکے نہ صرف ۵لاکھ شہیدوں کے خون سے بے وفائی کی ہے بلکہ جموںو کشمیر کے ڈیڑھ کروڑ انسانوں کو بھارت کے استبداد کا نشانہ بننے اور ان کی زندگی کو جہنم بنانے کا سامان کیا ہے۔ اس کے جو دُور رس اثرات خود پاکستان کی سلامتی‘ معاشی خودانحصاری اور نظریاتی تشخص پر پڑیں گے دل ہلا دینے والے ہیں۔

۳-  بھارت سے دوستی کے سراب کے تعاقب میں بھارت کی طرف سے تمام خطرات کو نظرانداز کردیا ہے جو وہ پاکستان اور اس پورے علاقے کے لیے پیدا کر رہا ہے۔ یہاں بھارت اور امریکا کی اسٹرے ٹیجک پارٹنر اور ایٹمی سمجھوتے کی وجہ سے جو مسائل اور خطرات پاکستان‘ چین‘ ایران کو پیش آنے والے ہیں‘ ان سے آنکھیں بند کرلینا اپنے اندر بڑے مہلک امکانات رکھتا ہے۔ ان سارے پہلوؤں کا جنرل پرویز مشرف کی خارجہ پالیسی میں کوئی شعور نظر نہیں آتا۔

۴- افغانستان میں جو آگ لگی ہوئی ہے‘ بلاشبہہ اس کی اوّلین ذمہ داری امریکا اور ناٹو کی فوجوں پر ہے لیکن پاکستان بھی اس ذمہ داری میں شریک ہے‘ اور یہی وجہ ہے افغان عوام پاکستان سے دُور سے دُور تر ہوتے جارہے ہیں۔ شمالی اتحاد تو اوّل روزسے پاکستان کے خلاف اور بھارت کا حلیف اور آلۂ کار تھا لیکن وہ تمام قوتیں جو پاکستان کے لیے محبت‘ ہمدردی اور احسان مندی کے جذبات رکھتی تھیں‘ وہ بھی نائن الیون کے بعد ہم سے نالاںاور دُور ہوگئی ہیں۔ یہ دُوری اب بداعتمادی اور نفرت کی سرحدوں کو چھو رہی ہے۔ ہم نے اپنے دوستوں کو دشمن بنالیا اور دشمن اور زیادہ شیر ہوگیا۔ نیز افغانستان میں بھارت نے بڑی مضبوطی اور عیاری سے اپنے قدم جما لیے ہیں جن کا ہدف بالآخر پاکستان ہے۔ بلوچستان میں اس کے اثرات نظر آنا بھی شروع ہوگئے ہیں۔

۵- ہم اسے تسلیم کریں یا نہ کریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ چین اور ایران میں بھی اب پاکستان کے لیے وہ گرم جوشی نہیں جو ایک تاریخی حقیقت اور ہمارا بڑا قیمتی اثاثہ تھی۔ آج ہمارے تمام ہمسایہ ملک پہلے کے مقابلے میں ہم سے دُور اور شاکی ہیں۔یہ سب نتیجہ ہے ایک تباہ کن  خارجہ پالیسی کا جو امریکا کے مفاد میں ہے یا اس کا فائدہ ذاتی طور پر گنے چنے افراد کو پہنچ رہا ہے۔

۶- دینی اورتہذیبی اعتبار سے بھی یہ سودا بڑے خسارے کا سوداہے۔ مسلم معاشرے کو محض امریکا کو خوش کرنے کے لیے لبرل اور انتہاپسند طبقوں میں تقسیم کیاگیا ہے اور ان کو باہم تصادم کے راستے پر ڈالا جا رہا ہے۔ سیاسی مسائل کو ننگی قوت کے ذریعے حل کرنے کی احمقانہ پالیسی پر بگ ٹٹ دوڑ لگی ہوئی ہے۔ دینی مدارس اور دینی تعلیم کو ہدف بنایا جا رہا ہے جس سے معاشرے میں تصادم اور تشدد پرستی کا رجحان فروغ پا رہا ہے۔ قوم اور اس کے حکمرانوں کے درمیان جنگ کی کیفیت ہے جو سیاسی اور تہذیبی عدمِ استحکام کی طرف لے جا رہی ہے۔

۷- اس پالیسی کا ایک اور بڑا ہی نقصان دہ پہلو یہ ہے کہ قوم اور فوج میں نہ صرف مغائرت پیدا ہوئی ہے بلکہ یہ بے اعتمادی اب نفرت کو جنم دے رہی ہے۔ وہ فوج جسے قوم اپنی آنکھ کا تارا قرار دیتی ہے اور جس پر عقیدت اور محبت کے پھول نچھاور کرتی تھی آج وہ عوام کے غصے کا نشانہ بنتی جارہی ہے۔ اس سے بڑا سانحہ کیا ہوگا کہ ۲۹ جولائی کے اخبارات میں وزارتِ داخلہ کی یہ ہدایت شائع ہوئی ہے اور ہماری اطلاع ہے کہ فوجی ذرائع نے بھی اپنے اپنے گیریژن کو ایسی ہی ہدایات دی ہیں‘ حتیٰ کہ جنرل پرویز مشرف سے بھی یہ بات منسوب کی جارہی ہے کہ انھوں نے ہدایت کی ہے کہ فوجی افسر اور جوان بسوں میں‘ بستیوں میں اپنی وردی میں نہ گھومیں کہ ان پر حملوں کا خطرہ ہے۔

ڈیلی ٹائمز میں ۲۹ جولائی کو اس سرخی کے ساتھ یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ: ’’فوجی اور قانون نافذ کرنے والے اہل کاروں کو عوام میں وردی پہن کر جانے سے متنبہ کیا گیا ہے‘‘۔ خبر کا صرف یہ جملہ سرپیٹ لینے کے لیے کافی ہے کہ: ’’وزارتِ داخلہ نے پاکستانی فوج‘ فرنٹیئرکانسٹیبلری‘ الائیٹ فورس‘ اینٹی رائٹ فورس‘ پنجاب کانسٹیبلری اور پنجاب رینجرز کے افسران اور سپاہیوں کو متنبہ کیا ہے کہ پبلک مقامات پر وردی میں نہ آئیں اور نہ نجی گاڑی وردی میں چلائیں‘‘۔ انا للّٰہ وانا الیہ رٰجعون

سپریم کورٹ کے محترم جج جناب جسٹس خلیل الرحمن رمدے جو ۲۰ جولائی کے فیصلے سے عالمی شہرت حاصل کرچکے ہیں اورجن کی راے کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں‘ انھوں نے ناروے میں وہاں کے وزیرخارجہ کی موجودگی میں پاکستانی قوم کے جذبات اور احساسات کی کتنی سچی ترجمانی کی ہے:

پاکستان مغرب کے مفادات کے لیے لڑ رہا ہے مگر اس سب کے باوجود شرمندگی کا سامنا ہے۔ وہ دوست جن کے لیے ہم یہ سب کر رہے ہیں‘ ہمیں دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ ایک سفارت کار نہیں بلکہ ایک جج ہیں لیکن پھر بھی وہ یہ کہیں گے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت کچھ قربانی دی ہے اور اب بھی دے رہا ہے مگر اس کی قدر نہیں کی جارہی۔

جنرل صاحب کے وردی سے چمٹے رہنے کا حاصل یہ ہے کہ اب یہ وردی محبت کے بجاے نفرت کا اور حفاظت اور آشتی کی جگہ عدم تحفظ کا نشان اور تصادم اور انتقام کی دعوت کی علامت بن گئی ہے۔

جنرل پرویز مشرف کو حقیقی قانونی جواز تو کبھی بھی میسر نہ تھا اور اس کے حصول کا ایک موقع جو ان کو ۱۷ویں ترمیم نے دیا تھا‘ اسے انھوں نے وردی نہ اتار کر ختم کردیا۔ ان کی آٹھ سالہ کارکردگی نے ان کی ساکھ (credibility)کو تار تار کردیا ہے اور رہی ان کی اور فوجی حکمرانی کے نظام کی کارکردگی (competence) تواس کا بھانڈا بھی اب پھوٹ چکا ہے۔ جولائی کے آخری ہفتے اور اگست کے پہلے ہفتے میں ڈان‘ ڈان نیوز اور سی این این نے جو سروے کیاہے‘ اس کی رو سے پاکستان کے عوام کی عظیم اکثریت (۲ء۶۵ فی صد) ان سے نجات پانے کا اعلان کر رہی ہے اور چاہتی ہے کہ وہ صدارت سے فوراً دست کش ہوجائیںاور ۵ء۵۴فی صد کہتی ہے کہ فوج کا سیاست میں عمل دخل ختم کیا جائے۔ بی بی سی کے سروے میں چھے ناموں میں میاںنواز شریف سب سے اوّل مقام پر آئے ہیں اور مشرف صاحب سب سے آخر میں۔ یہ پاکستان کے عوام کی دل کی آواز ہے اور ہم بڑے دکھ اور کرب کے ساتھ ٹائم میگزین کے تازہ شمارے سے یہ جملہ نقل کررہے ہیں جو افغانستان کے حالیہ جرگے کے بعد وہاں کے حالات پر مبنی رپورٹ میں درج کیا گیا ہے کہ افغانستان میں ’مشرف‘ کا نام اب کتوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے(ٹائم‘ ۲۷ اگست ۲۰۰۷ء)۔ جنرل ایوب تو صرف بچوں کی زبان سے یہ لفظ سن کر اقتدار چھوڑنے پر آمادہ ہوگیا تھا لیکن روے سخن کسی کی طرف ہو تو روسیاہ؟

آخر میں ہم صرف ایک بات اور کہنا چاہتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ خارجہ پالیسی کے اس تمام  ناکامی کی بڑی وجہ ملک میں جمہوریت کا فقدان‘ فوج کی سیاست میں مداخلت‘ فردِواحد کی حکمرانی‘ پارلیمنٹ کے کردارکا فقدان‘ قومی احتساب کی کمزوری اور عوام کی حکمرانی سے دُوری ہے۔ اداروں کے ذریعے فیصلہ سازی میں بڑاخیرہے اور جہاں یہ نہ ہو وہاں پالیسی سازی کا وہی حشر ہوتا ہے جو جنرل صاحب کے دورِاقتدار میں پاکستان میں ہواہے۔ حالات کی اصلاح کی راہ بھی ایک ہی ہے: یعنی جمہوریت کی بحالی‘ پارلیمنٹ کی بالادستی‘ اداروں کے ذریعے پالیسی سازی‘ حکمرانوں اور ان کی پالیسیوں کا قومی احتساب‘ اور کسی کے لیے بھی من مانی کرنے کے راستوں کو مسدود کر دینا۔

آیندہ چند مہینے پاکستان کے لیے بڑے اہم ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ قوم اپنا حق حکمرانی غاصبوں سے چھین لے‘ اور دستور اور قانون کی حقیقی بالادستی کا نظام قائم کرے جس میں ایک طرف لوگوں کو عزت اور انصاف مل سکے تو دوسری طرف ملک کی خارجی اور داخلی پالیسیاں عوام کی مرضی کے مطابق اور ان مقاصد کی روشنی میں تشکیل پاسکیں جن کے لیے پاکستان قائم ہواتھا۔

 

جولائی ۲۰۰۷ء نے پاکستان کی تاریخ میں ایک منفرد حیثیت اختیار کرلی ہے۔ اس مہینے میں تین اہم واقعات رونما ہوئے۔ یہ تینوں واقعات اپنے موضوع اور نوعیت کے اعتبار سے خواہ کتنے ہی مختلف ہوں‘ لیکن ان کا پیغام ایک ہی ہے۔ ہمارا اشارہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے خونیں المیے‘ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے بارے میں تاریخی فیصلے‘ اور کُل جماعتی کانفرنس لندن کے نتیجے میں قائم ہونے والی ’آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ‘ (APDM)کی طرف ہے۔

اسے ایک قومی المیے کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ حصولِ آزادی کے ۶۰ویں سال میں ایک بار پھر پاکستانی قوم کو اپنی آزادی اور اپنے نظریاتی و تہذیبی تشخص کی حفاظت کی جنگ لڑنا پڑرہی ہے۔ ستم بالاے ستم کہ اب یہ جنگ بیرونی حکمرانوں کے خلاف نہیں‘ بلکہ اپنی ہی مملکت کے سپوتوں (زیادہ صحیح الفاظ میں:کپوتوں) اور اپنی ہی فوج کی اس قیادت سے لڑی جارہی ہے‘ جو نہ صرف قیامِ پاکستان کے مقاصد کو بالاے طاق رکھ کر بلکہ دستور‘ قانون‘ اجتماعی اخلاقیات اور ہراصول اور ضابطے کو پارہ پارہ کرتے ہوئے تمام حدود کو پھلانگ چکی ہے۔ اسی لیے اہلِ نظر کی راے ہے کہ یہ قیادت عملاً آج کی سب سے بڑی سامراجی اور فرعونی قوت کے اشارۂ چشم و آبرو اور دھمکی آمیز مطالبات کے آگے سپرڈالتے ہوئے خود ملک اور قوم کی آزادی اور شناخت کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔

ملکی صورت حال

اس خطرناک کھیل کا آغاز تو ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء ہی کو ہوگیا تھا‘ لیکن اس کا اصل چہرہ ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کو رونما ہونے والے الم ناک واقعے کے بعد ہی سامنے آیا‘ جب اسلام اور مسلم دنیا کے خلاف امریکی صدر جارج بش نے نئی صلیبی جنگ (crusade) کا آغاز کیا‘اور جنرل پرویز مشرف نے ان کی ایک ہی دھمکی پر اپنا قبلہ تبدیل کرکے پاکستان کی مقدس سرزمین کو ایک مسلمان ملک کے خلاف فوج کشی کے لیے استعمال کرنے کے مواقع فراہم کردیے۔ پھر جنرل موصوف: امریکی حکمرانوں کے عزائم کی برآوری کے لیے خود اپنی قوم اور اس کے دوستوں کے خلاف صف آرا ہوکر معصوم انسانوں کے خون بہانے اور چند کوڑیوں کے لیے ان کو پکڑپکڑ کر وقت کے جلادوں کے حوالے کرنے میں مصروف ہوگئے (جنرل مشرف نے اپنے اس اقدام کا اعتراف اپنی خودنوشت میں بھی کیا ہے)۔اس طرح اپنے حلیفوں کو دشمن بناڈالا‘ اور جو علاقے ہمارے محفوظ قلعے کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان وفاشعاروں کو امریکی افواج کی مسلط کردہ جنگ کی آگ میں جھونک کر خود اپنے قومی مفادات تک سے عملاً دست برداری اختیار کرلی۔ اس ضمن میں تحریک آزادی کشمیر سے عملاً  دست برداری‘ ملک کی ایٹمی صلاحیت کی تحدید اور اپنے محسن سائنس دانوں کو مجرم بناکر نشانۂ ظلم و ستم بنانا بھی شامل ہے۔

اس پسپائی اور پالیسی کے باب میں اُلٹی زقند (u-turn) ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ ’روشن خیالی‘ اور ’انتہاپسندی‘ کی مخالفت کے نام پر اسلام کے مسلمہ اصولوں اور تعلیمات تک پر سمجھوتا‘ دینی تعلیمی نظام کی ناکہ بندی کرنے‘ اسلامی شعائر کا مذاق اڑانے‘ ناچ گانے کے کلچر کی آبیاری کرنے اور سیکولر نظامِ زندگی اور معاشرت کے جبری فروغ کی باغیانہ راہ اختیار کی جارہی ہے۔ ملک کے اقتدار پر قابض گروہ کے اس شیطانی کھیل نے قوم کو نظریاتی طور پر شدید دبائو کا شکار کردیا ہے۔ ریاست کے وہ سارے وسائل جو ایک مقدس امانت کے طور پر ان کے سپرد تھے‘ حکمران طبقے کے ہاتھوں اپنے ذاتی مفادات کے حصول اور امریکی ایجنڈے کو قوم پر مسلط کرنے کے لیے استعمال کیے جارہے ہیں۔ اس ناپاک کھیل میں پاکستان کے غیرمتنازع ادارے مسلح افواج کو ملوث کرکے قومی دفاع‘ عالمی تشخص اور ملکی وحدت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا گیا ہے۔ اس دفاعی ادارے کو گروہی سیاسی مہم جوئی کے لیے استعمال کرتے ہوئے‘ گذشتہ تین سال سے اپنی ہی قوم کو دبانے اور سیاسی مسائل کو قوت کے ذریعے حل کرنے کے خونیں کھیل میں اسے بے دریغ جھونک دیا گیا ہے۔ صوبہ بلوچستان اور پاکستان کے قبائلی و شمالی علاقہ جات میں پاکستانی فوج کے بے دردانہ استعمال کے بعد جولائی میں‘ اسلام آباد میں مسجد‘ مدرسہ اور ماں‘ بہن اور بیٹی تک کے تقدس و احترام کو نہ صرف پامال کیا گیا ہے‘ بلکہ انھیں گولیوں سے بھون کر قوم اور قوم کی اپنی ہی دفاعی قوت کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ عدالت اور صحافت دونوں کو راستے کی رکاوٹ تصور کرتے ہوئے انھیں مکمل طور پر اپنے قابو میں لانے کے لیے اوچھے ہتھکنڈوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ جس نے پوری اجتماعی زندگی کو خطرات کی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ آج عالم یہ ہے ہرطرف خون ہی خون بہتا نظر آرہا ہے: اپنے ہی جگرگوشوں اور اپنی ہی بیٹیوں کی شہ رگوں کا خون۔ اسلام آباد کے نالوں میں معصوم بچوں اور بچیوں کی نعشوں کے ٹکڑے اور غلیظ پانی پر قرآن پاک کے بکھرے اور تیرتے ہوئے اوراق‘ استغفراللّٰہ۔

اگر صدربش نے افغانستان اور عراق کی سرزمین کو خون کی ندیوں سے سیراب کر دیا ہے تو انھی امریکی حکمرانوں کے ممدوح جنرل مشرف نے یہاں پاکستان میں خون کی ندیاں بہا دی ہیں۔ ایک سیاسی تجزیہ نگار اور مؤرخ ڈاکٹر صفدرمحمود نے بجاطور پر مشرف کے دور کی شناخت کو ’خون کی ارزانی‘ سے تعبیر کیا ہے۔ مہنگائی‘ غربت‘ انتخابات میں دھاندلی‘ پارلیمنٹ کی بے توقیری‘ آمرانہ اندازِ حکومت‘ سب کا ذکر کرنے کے بعد وہ بڑے درد و کرب کے ساتھ لکھتے ہیں کہ: ’’ان [جنرل مشرف] کے عہد کی صرف ایک ہی پہچان نمایاں طور پر اُبھرتی نظر آتی ہے‘ جو ان کے باقی کارناموں کو  دھندلا دے گی اور نہ صرف عوامی حافظے بلکہ تاریخ کے صفحات پر بھی باقی رہ جائے گی اور وہ    پہچان ہے ’خون‘۔ وزیرستان سے لے کر پشاور‘ اسلام آباد‘ لاہور‘ ملتان‘ کوئٹہ اور کراچی تک بہتا ہوا خون ...معصوم پاکستانیوں کا خون جو کبھی بھی اتنا ارزاں نہ تھا اور جو گذشتہ کئی برسوں سے بہہ رہا ہے: وانا‘ باجوڑ‘ کھپران‘ گلگت‘ فاٹا‘سرحدی علاقوں‘ پشاور‘ اسلام آباد خودکش حملوںسے لے کر لال مسجد تک اور پھر کوئٹہ اور کراچی میں بہنے والا خون۔ معصوم شہریوں اور طلبہ پر بم باری اور حملوں نے ملک میں نہ صرف انتقامی فضا پیدا کردی ہے اور پولیس اور فوج کو انتقام کا نشانہ بنا دیا ہے‘ بلکہ پاکستانی معاشرے میں لاقانونیت‘ عدم تحفظ اور خوف و ہراس بھی پیدا کردیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر پاکستان پر ’ناکام ریاست‘ کا لیبل لگ رہا ہے۔ اس لیے میں محسوس کرتا ہوں کہ مستقبل میں موجودہ دور کی پہچان ’خون‘ ہوگی، اپنے ہی شہریوں کا خون!‘‘ (روزنامہ جنگ ‘۱۵جولائی ۲۰۰۷ء)

اس خون آشامی کا ایک اور بھی کرب ناک پہلو یہ ہے کہ معصوموں کا یہ خون وقت کی سب سے بڑی سامراجی قوت امریکا کی قیادت کو خوش کرنے کے لیے بہایا جا رہا ہے۔ جس کا اصل ہدف (target) مسلم دنیا کی قوت کو پارہ پارہ کرنا‘ اُمت مسلمہ کو آپس میں دست و گریباں کرکے پورے علاقے کو جغرافیائی طور پر محکوم بنانا‘ ان کے معدنی و قدرتی وسائل پر قبضہ جمانا اورپوری دنیا پر اپنی بالادستی قائم کرنا ہے۔

بلوچستان میں فوج کشی‘ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں خون کی ہولی‘ اسلام آباد میں مسجدوں کا انہدام اور آرمی کیمپ میں بلاکر چیف جسٹس سے بدسلوکی‘ ان کا حبس بے جا میں رکھنا‘ بدنیتی پر مبنی ریفرنس اور معطلی وغیرہ‘ ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ اس ضمن میں ایک طرف جنرل مشرف اور ان کے چند ساتھی ہیں‘ جو اپنا کھیل کھیل رہے تھے۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی تدبیر اپنا کام کر رہی تھی۔ 

لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر جس طرح فوج کشی کی گئی‘ جس بے دردی اورسفاکی سے اساتذہ‘ طلبہ اور طالبات کا قتلِ عام کیا گیا۔ پھر جس رعونت سے مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کیا گیا‘ جس انداز سے مسجد اور مدرسے کو ’دہشت گردی کے قلعے‘ کی شکل دے کر ملک کے اندر اور ملک کے باہر پوری دنیا کے سامنے پیش کیا گیا‘ اور جس فریب کاری کے ساتھ دروغ گوئی اور دھوکادہی کا مظاہرہ کیا گیا‘ اور جس ڈھٹائی سے حقائق کو چھپایا گیا___ اس رویے نے مدرسے کی انتظامیہ یا طلبہ کی ابتدائی غلطیوں اور طفلانہ حرکتوں کو فی الحقیقت غیرمتعلق بناکر رکھ دیا ہے۔ یوں اپنے نتائج اور اثرات کی شکل میں اس خونیں واقعے کے اصل مقاصد‘ کردار اور اہداف کو بے نقاب کرکے ثابت کردیا ہے کہ اصل مقصد تو فردِواحد کی آمریت کے اصول کو منوانا‘ فوجی قوت کے سیاسی استعمال  اور عسکری دبدبے اور اس کے فیصلہ کن رول کی بالادستی قائم کرنا اور امریکا کی خوشنودی کے حصول کے لیے اپنے ہم وطن معصوم انسانوں کا خون بہاکر تمام اہلِ وطن کو دہشت زدہ کرنا تھا۔

اصل مسئلہ کیا ھے؟

مسئلہ ریاست کی رٹ (writ)کا نہیں تھا‘ بلکہ فوجی آمریت اور بش کی سامراجیت کا   بول بالا کرنا تھا___ یہی ایشو اب قوم کے سامنے ہے کہ اس ملک کے نظامِ حکومت کو کسی دستور‘ قانون‘ ضابطے‘ نظامِ اخلاق اور عوامی حکمرانی کی بنیاد پر چلنا ہے یا فردِواحد کے آمرانہ استبداد اور فوج کے سیاسی استعمال کے ذریعے قوم کو غلامی میں جکڑنا ہے؟___ مطلب یہ کہ اس ملک کی قسمت کا فیصلہ اس قوم کے منتخب اور اس کے سامنے جواب دہ نمایندوں کو دستور اور قانون کے مطابق کرنا ہے یا امریکی قیادت کی خوشنودی کے حصول اور ان کی دھمکیوں کے زیرسایہ قائم رہنے والی فوجی حکومت کو یہ حق حاصل رہنا ہے؟

اگر بصیرت کی نظر سے دیکھا جائے تو چیف جسٹس کی معطلی‘ نام نہاد ریفرنس اور ملازمینِ ریاست کے ناقابلِ اعتبار بیاناتِ حلفی کی بھرمار میں بھی اصل ایشو یہی ہے___ یعنی دستور اور قانون کی حکمرانی یا قابض حکمران کا یہ زعم باطل کہ وہ جس فرد یا ادارے کو اپنے عزائم کی تکمیل کی راہ میں رکاوٹ سمجھے‘ اسے دستور اور قانون کو بالاے طاق رکھ کر حقارت کے ساتھ اپنے راستے سے اٹھاکر پرے پھینک دے۔ ایشو یہی ایک ہے: آمریت یا جمہوریت‘ من مانے حکم یا دستور اور قانون کی حکمرانی‘ عوام اور پارلیمنٹ کی عمل داری اور اداروں کا استحکام یا فوجی قیادت کی حکومت اور خفیہ ایجنسیوںکی دھونس کے ذریعے حکمرانی کی روایت؟ سپریم کورٹ کے فیصلے کی اصل اہمیت یہی ہے کہ بات صرف چیف جسٹس کی بحالی کی نہیں‘ وہ تو بلاشبہہ ایک ضروری امر تھا‘ لیکن اصل مسئلہ دستور کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کا ہے اور جس میں اصل الاصول یہ ہے کہ کسی کو بھی ایسے  شاہانہ اختیارات حاصل نہیں ہیں کہ وہ وردی یا اقتدار کے رعب میں جس کے خلاف جو چاہے  اقدام کرڈالے اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔

ہم سمجھتے ہیں کہ لال مسجد کے خونیں المیے اور معصوم انسانوں کے قتلِ عام اور عدالت عظمیٰ پر یورش اور اس کے سربراہ کے اداراتی قتل  میں ایک گہرا ربط ہے۔ ان دونوں اقدام کی پشت پر وہ بنیادی مسئلہ ہے جس کی جڑیں قوم کی آزادی اور شناخت کے تحفظ‘ دستور اور قانونی بالادستی اور جمہوری نظامِ حکمرانی میں پیوست ہیں۔ اسی لیے ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ لال مسجد اور سپریم کورٹ دونوں کے بارے میں ہونے والی کارروائی اور اس پر عوامی ردعمل اور بالآخر عدالتی فیصلے (verdict) نے آزادی‘ شناخت‘ دستور کی حکمرانی‘ جمہوریت اور فوج کے سیاسی کردار کے مسئلے کو قومی زندگی کا سب سے مرکزی مسئلہ بنا دیا ہے۔

اسی تسلسل میں ’کُل جماعتی جمہوری تحریک‘ (آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ) کے قیام نے یہ پیغام بھی دے دیا ہے کہ آیندہ چند مہینے اس جدوجہد کے لیے کتنے اہم اور فیصلہ کن ہیں۔ پاکستانی قوم آج ایک بار پھر اسی نوعیت کی جدوجہد کے ذریعے اپنی قسمت اور اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں مصروف ہے‘ جیسا اس نے تحریکِ پاکستان کے دوران کیا تھا۔ فرق   یہ ہے کہ اس وقت جدوجہد کا ہدف پاکستان کا قیام تھا‘ اور اب پاکستان کی بقا‘ اس کے استحکام  اوراس کی اصل منزل کی طرف پیش قدمی کا چیلنج درپیش ہے۔ تب مقابلہ بیرونی غاصب اور    استعماری حکمرانوں سے تھا اور اب ان اندرونی اور غاصب و جابر قوتوں سے ہے‘ جنھوں نے ملک کے اقتدار پر قبضہ کرکے عوام کو ایک تاریخی جدوجہد کے ذریعے حاصل کی جانے والی آزادی‘ خودمختاری اور حق حکمرانی سے محروم کردیا ہے۔ اسی المیے کے ادراک پر ہی مستقبل کی تعمیر کا انحصار ہے۔

گویا کہ آج ملّی اور قومی سطح پر جدوجہد کا اصل ہدف حقیقی اسلامی‘ جمہوری‘ فلاحی اور وفاقی نظام کا قیام ہے۔ یہی وجہ ہے فوج کا سیاسی کردار‘ اس تحریک کے ایجنڈے میں ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مقصد اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا جب تک فوج کو دستور کے تحت سول نظام کے ماتحت اپنے دفاعی کردار تک محدود نہ کردیا جائے۔

اس مسئلے ہی کی تفہیم کے لیے ہم لال مسجد کے خونیں المیے اور عدالت عالیہ کے تازہ فیصلے کے کچھ اہم پہلوؤں پر اہلِ وطن کو غوروفکر کی دعوت دینا چاہتے ہیں۔

سانحہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ

لال مسجد‘ اسلام آباد اور جامعہ حفصہ کا مسئلہ اب ایک مسجد اور ایک مدرسے کا مسئلہ نہیں رہا ہے اور نہ دوبھائیوں کے صحیح یا غلط اقدام ہی اس کا محور اور مرکز ہیں۔ یہ بات کہاں سے شروع ہوئی اور کہاں پہنچی؟ اس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور لکھا جائے گا۔ ہم اس کی اہمیت سے انکار نہیں کرتے‘ بلکہ اس مطالبے کی بھرپور تائید کرتے ہیں کہ اس پورے مسئلے اور سانحے کی آزاد‘ بااختیار اور  اعلیٰ ترین عدالتی سطح پر تحقیق ہونی چاہیے‘ اور یہ تحقیق کھلی عدالت کے اصول پر ہونی چاہیے۔ جہاں ہرشخص کو گواہی دینے کا موقع ملے تاکہ پورے حقائق قوم کے سامنے آجائیں اور دودھ کا دودھ   پانی کا پانی ہوجائے۔ یہی وقت کی ضرورت اور انصاف کا تقاضا ہے۔

جیساکہ ہم اندیشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ یہ ایک بڑے اور گمبھیر مسئلے کا سر عنوان معلوم ہوتا ہے۔ لال مسجد آج نہیں بنی اور جامعہ حفصہ ۲۰۰۷ء میں منصہ شہود پر نہیں آئی۔ البتہ جنوری ۲۰۰۷ء سے جو قضیہ شروع ہوا اور ۱۰‘ ۱۱ اور ۱۲جولائی ۲۰۰۷ء کو جس خونیں تباہی پر منتج ہوا‘ وہ جرنیل شاہی اور امریکی سامراج کے نام نہاد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے وسیع کینوس کا ایک اہم حصہ اور اس جنگ کا ایک نہایت اہم پلاٹ اور ایک گہری سازش ہے۔ ایسی سازش کہ جس کا اصل ہدف اسلام‘  اُمت مسلمہ‘ مسلمانوں کا دینی تعلیمی نظام اور پاکستان کا اسلامی کردار ہے‘ جب کہ عالمی سطح پر امریکا اور مغربی تہذیب کی بالادستی کے خلاف مسلمانوں کی تحریک مزاحمت کو ختم کرنا ہے۔ نیتوں کا حال    اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے اور فیصلہ کرنے والی اصل قوت بھی صرف وہی ہے اور یہ بھی وہی پروردگار جانتا ہے کہ کون سادہ لوحی میں الجھ کر دشمن کے کھیل کا حصہ بنا ہے یا واقعی ایسا نہیں ہوا ہے۔ بہرحال‘ یہاں ہم ذاتیات اور ضمنی واقعات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے جن اصولی اور مرکزی امور کی وضاحت اور تفہیم ضروری سمجھتے ہیں‘ ان میں سے چند ایک کی طرف‘ قوم اور اس کے سوچنے سمجھنے والے عناصر کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں:

  •  اسلام کے بارے میں مغرب کا مخصوص تصور: سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کا ایک خاص پیکر (امیج) پوری قوت‘ مہارت اور چابک دستی سے دنیا بھر میں اُبھارا اور پھیلایا جا رہا ہے۔ سردجنگ کے خاتمے اور اشتراکی سلطنت کے انہدام (دسمبر ۱۹۹۲ء) کے بعد‘ اسلام کے اس تصورِ جہاد اور مسلمانوں کی سرفروشانہ سرگرمیوں سے خائف ہوکر امریکا کی سیاسی اور فکری قیادت نے بڑی عیاری سے ایک نیا محاذ کھولا ہے۔ جس کے تحت خاص طور پر مغربی اقوام نے بڑی حد تک اسلام اور مسلمانوں کو‘ ان کی ساری بے سروسامانی اور معاشی اور عسکری کمزوریوں کے باوجود اپنا مدّمقابل اور بالفاظ صحیح تر مستقبل کا اصل حریف اور دشمن باور کرانا شروع کیا۔ یہ کام ۸۰ کے عشرے میں ہی شروع ہوگیا تھا‘ اور افغانستان سے اشتراکی روس کی پسپائی کے بعد پورے زوروشور سے اسے انجام دیا جا رہا ہے: علمی‘ سیاسی‘ معاشی‘ تہذیبی‘ عسکری غرض یہ کہ ہرمحاذ پر___ چونکہ مغربی تہذیب کی بنیاد مذہب اور سیاست کی تفریق پر ہے‘ اس لیے جس چیز کو مغرب کے غلبے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اور مغربی سامراج کے لیے سب سے بڑا خطرہ تصور کیا جا رہا ہے‘ وہ اسلام کا یہی تصور ہے کہ: ’’دین اور سیاست میں ایک ناقابلِ انقطاع ربط اور گہرا تعلق ہے۔ ریاست اور قانون‘ دین‘ الہامی ہدایت اور اس کے ذریعے حاصل ہونے والی اقدار‘ اصول اور اہداف سے غیرمتعلق نہیں ہوسکتے۔ اخلاق اور اقتدار دوالگ دنیائوں سے متعلق نہیں بلکہ اقتدار اور سیاست کو بھی اخلاق کا اسی طرح پابند ہونا چاہیے‘ جس طرح دین اسلام‘ افراد کی ذاتی زندگی اور محرکات کی صورت گری کرتا ہے‘‘۔

مغربی اقوام اور مفکرین کے بقول: ’’دین اسلام کا یہی جامع تصور مغربی تہذیب کے لیے اصل خطرہ ہے کہ یہ فکرونظر اور تہذیب و تمدن کا ایک بالکل دوسرا مثالیہ (paradigm) پیش کرتا ہے‘‘۔ جو مذہب‘ مغرب کے تصورِ حیات و اقدار کی بالادستی قبول کرنے‘ اس کے زیرسایہ ویسی ہی زندگی گزارنے کے لیے تیار ہو کہ جس سے مغرب کے مفادات پر ضرب نہ پڑے، وہی فرد، معاشرہ اور نظام فکر ’روشن خیالی اور اعتدال پسندی‘ کا علَم بردار ہے۔ اس کے بالمقابل جس دین کا اپنا تصورِ حیات اور تہذیب و تمدن اور معاشرت‘ معیشت اور سیاست کا نظام ہو‘ وہ اس مغربی تہذیب کے لیے خطرہ ہے۔ مغربی جنگجو حکمرانوں اور متعصب پالیسی سازوں کے نزدیک اس خطرے سے نمٹنے کا طریقہ بس یہی رہ گیا ہے کہ اس تصورِ حیات کو ہوّا اور بھوت (demon) بناکر پیش کیا جائے۔ پھر اس کو نیست و نابود کرنے کے لیے ہرممکن حربہ استعمال کیا جائے۔ اسلام کے لیے ’ریڈیکل اسلام‘ (انقلابی اسلام)، ’اسلامک فنڈامنٹلزم‘ (بنیادپرست اسلام)، ’پولیٹیکل اسلام‘(سیاسی اسلام) اور پھر ’اسلامک ٹیررازم‘ (اسلامی دہشت گردی) اور بالآخر ’اسلامک فاشزم‘ (فسطائی اسلام) کی مضحکہ خیز‘خودساختہ اور توہین آمیز اصطلاحات کا استعمال اسی سلسلے کی سوچی سمجھی کارروائی ہے۔ مسلمانوں کی دینی تعلیم کو اسی لیے ہدف بنایا جا رہا ہے اور دینی مدارس اور مساجد کو بھی اسی حوالے سے نام نہاد دہشت گردی کے مراکز قرار دیا جا رہا ہے۔

یہ ساری منظرکشی (image building) اس لیے ہے کہ نظریاتی‘ سیاسی اور جہاں ممکن ہو مسلمانوں کے خلاف عسکری کارروائیوں کے لیے جواز فراہم کیا جاسکے۔ اسے بدقسمتی ہی کہا جاسکتا ہے کہ نادانستگی میں‘ یا مفادات کی اسیری میں کچھ مسلمان بھی دشمنوں کے اس کھیل میں آلۂ کار بن جاتے ہیں‘ اور پھر ایسے جعلی دانش وروں کی بھی کمی نہیں ہے کہ جن کی تحریروں اور فدویانہ گفتگوؤں میں مغرب کے نکتہ سازوں (spin doctors) ہی کی صداے بازگشت سنائی دیتی ہے۔

  •  ناجائز تجاوزات کا واویلا: اس پس منظر میں لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے واقعات ایک غیرمعمولی اہمیت اور معنویت اختیار کرلیتے ہیں۔ لال مسجد‘ اسلام آباد کی پہلی جامع مسجد ہے جو اوقاف کے نظام کے تحت ۴۰‘۴۵سال سے دینی خدمات انجام دے رہی ہے۔ جامعہ حفصہ کی کارکردگی تقریباً دو عشروں پر محیط ہے۔ اس پورے عرصے میں لال مسجد کی زمین کے بارے میں کبھی کوئی تنازع پیدا نہ ہوا تھا۔ جامعہ حفصہ کے بھی صرف ایک حصے کو تجاوزات میں شمار کیا گیا۔ اس بارے میں گفت و شنید اور مذاکرات کے ذریعے معاملات کو حل کرنے کی کوششیں ہورہی تھیں۔ یہ کوئی نیا یا منفرد مسئلہ بھی نہیں ہے۔ اسلام آباد میں کسی گلی اورمحلے میں‘ کسی نہ کسی صورت میں کیا  اسی نوعیت کا بڑا یا چھوٹا تنازع موجود نہیں ہے؟ پھر بات صرف اسلام آباد تک محدود نہیں ہے۔   وطنِ عزیز کا کون سا گوشہ ایسا ہے جہاں ناجائز تعمیرات‘ کچی آبادیاں‘ غیرقانونی فوجی تنصیبات‘ سرکاری اور غیرسرکاری زمینوں پر تصرفات کے مسائل موجود نہیں ہیں!

روزنامہ ڈان کراچی (۲۲ جولائی ۲۰۰۷ء) میں اردشیر کاؤس جی کا مضمون‘ کراچی کے مرکزی تجارتی علاقے آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع ڈھائی ایکڑ کے قطعہ زمین کے بارے میں بڑی چشم کشا معلومات پر مشتمل ہے۔ یہ پلاٹ سندھ حکومت نے ریلوے کے استعمال کے لیے دیا تھا‘ مگر فوج کے کوارٹر ماسٹر جنرل‘ لیفٹیننٹ جنرل افضل مظفر کے ایما پر‘ وزیراعلیٰ سندھ ارباب عبدالرحیم نے اپنے قانونی اختیارات سے تجاوز کرکے اور سرکاری طور پر قائم ۱۴ رکنی کمیٹی کی سفارشات کو نظرانداز کرتے ہوئے ‘۴۳ منزلہ دوہرے مینار کے ’کراچی فنانشل ٹاور‘ کو تعمیر کرنے کی اجازت  عطا فرمائی ہے۔ جس کا انتظام و انصرام ایک فوجی ادارے نیشنل لاجسٹک سیل (NLC) کے سپرد ہوگا اور سرمایہ کاری احسان ہولڈنگ دوبئی کے تعاون سے ہوگی۔ اس تعمیراتی منصوبے پر کراچی کے عوام اور انتظامیہ سراپا احتجاج ہیں‘ مگر فوجی قیادت اور اس کی شریک کار نام نہاد سیاسی انتظامیہ نے اس احتجاج کو پرکاہ کی حیثیت نہیں دی۔

دوسری خبر ۲۵ جولائی کے ڈیلی ٹائمز لاہور کی ہے ‘جس میں بتایا گیا ہے کہ صرف لاہور میں ۳۵اسکول کئی سال سے چیخ رہے ہیں کہ ان کی زمینوں پر لینڈمافیا قابض ہے ‘جن کے سامنے حکومت اور قانون بے بس ہیں___ صاف ظاہر ہے کہ جامعہ حفصہ کا مسئلہ محض چند گز زمین کا مسئلہ نہیں تھا‘ کہ جس کے لیے یہ چنگیزی ڈراما رچایا جاتا۔

دوسرا ایشو جامعہ حفصہ کے طلبہ و طالبات کی ان سرگرمیوں کو قرار دیا جاتا ہے‘ جو پچھلے چند ماہ میں رونما ہوئیں (واضح رہے کہ جامعہ کے قیام سے سے اس سال کے آغاز تک ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا تھا اور نہ اسلام آباد کے ۸۰ دوسرے مدارس میں اور پاکستان کے سرکاری اعلان کے مطابق ۱۷ ہزار سے زائد مدارس کے طلبہ نے کبھی کوئی ایسا اقدام کیا تھا)۔ اس جامعہ کے طلبہ اور طالبات کے چند ایسے اقدام جن کے بارے میں ملک کے تمام ہی دینی قائدین اور تعلیمی اداروں کے ذمہ داران اپنے ذہنی تحفظات کا اظہار کرتے رہے‘ انھیں جس طرح پاکستان ہی میں نہیں پوری دنیا میں اُبھارا (project) گیا‘ وہ بڑا معنی خیزہے۔

جس ملک میں جرائم روز افزوں ہوں‘ اغوا براے تاوان کے واقعات عام ہوں‘ پولیس اور انتظامیہ قانون نافذ کرنے میں ناکام ہو‘ افراد اور ادارے پرائیویٹ سیکورٹی کے حصول کے لیے اپنے آپ کو مجبور پاتے ہوں‘ جہاں ایم کیو ایم جیسی تنظیمیں بھتہ خوری اور قتل و غارت گری کا    بازار گرم کیے رکھیں اور کوئی ان سے پوچھنے والا نہ ہو‘ بلکہ مسلح افواج کا سربراہ ببانگ دہل ان کی  پشت پناہی کر رہا ہو___ وہاں چند طالبات کا دینی جوش و جذبے ہی میں سہی ایسے چند اقدام کرنا اتنا بڑا جرم کیسے بن گیا؟ وہ اقدام کہ جن کے نتیجے میں کسی جان کا ضیاع تو دُور کی بات ہے کسی کی نکسیر بھی نہ پھوٹی ہو اور نہ کوئی دست و گریباں ہی ہوا ہو‘ وہاں ایسی فوج کشی کی جائے کہ مسجد کا تقدس پامال ہو‘ مدرسے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے اور اسے بالآخر منہدم کر دیا جائے‘ سیکڑوں افراد شہید کردیے جائیں اور فوج کے کمانڈوز (ایس ایس جی) کا اس طرح استعمال کیا جائے کہ جیسے دشمن کے بہت بڑے قلعے کو فتح کیا جا رہا ہو۔ حکمران طبقے نے ساری دنیا کو باور کرانے کی کوشش کی کہ جامعہ حفصہ میں بارودی سرنگیں ہیں‘ توپیں‘ میزائل اور خطرناک اسلحے کے انبار ہیں اور نہ معلوم کون سی تربیت یافتہ فوج ہے جو وہاں قلعہ بند ہے۔

چاروں طرف سے گھر جانے اور پانی‘ بجلی‘ سوئی گیس کی ناکہ بندی ہوجانے کے بعد  چند طلبہ آخری مرحلے میں بہرحال غیرقانونی ہتھیاروں سے اپنا دفاع کررہے تھے۔ اگر فی الحقیقت ان کے پاس وہی اسلحہ موجود تھا کہ جس کا شور ہر طرف بپا کیا گیا تھا‘ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان محصور‘ مجبور اور موت کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنے والوں نے اسے استعمال کیوں نہیں کیا؟پھر جس اسلحے کی بعد میں نمایش کی گئی‘ اس کے بارے میں ملکی اور غیرملکی صحافیوں سب نے لکھا کہ ان کا کوئی تعلق جامعہ کے طلبہ یا محافظوں سے ثابت نہیں کیا جاسکا۔ رہا چند دن کی مزاحمت کا مسئلہ تو روزانہ کشمیر میں دو دو اور تین تین مجاہد کئی کئی گھنٹے نہیں‘ کئی کئی دن صرف ایک دو کلاشنکوفوں کے ذریعے بھارت کی باقاعدہ فوج کے بڑے بڑے دستوں کو مصروف رکھتے ہیں۔

مسجد اور مدرسے کی انتظامیہ سے انتظامی اور اصولی سطح پر جو غلطیاں ہوئیں اور طلبہ و طالبات نے اچھے مقاصد کے لیے جو غیرمتوازن طریقے استعمال کیے‘ ان پر ناپسندیدگی اور گرفت کا اظہار دینی اور تعلیمی حلقوں نے بروقت کیا اور اصلاح احوال کی کوشش بھی کی (دیکھیے: جامعہ حفصہ کا سانحہ، مولانا زاہد الراشدی)۔ لیکن حکومت‘ اور مدرسے کی انتظامیہ دونوں ہی معاملات کو طول دیتے رہے۔

  •  خفیہ ایجنسیوں کا کردار: ان چھے مہینوں میں رونما ہونے والے واقعات پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت اور اس کی ایجنسیاں ایک خاص کھیل کھیل رہی تھیں۔ مسجد اور مدرسے کی انتظامیہ اس جال میں پھنسی ہوئی تھی لیکن اصل کھیل صرف اسلام آباد کے علاقے جی-۶ میں نہیں‘ کسی اور ہی محاذ پر کھیلا جا رہا تھا‘ اور وہ تھا دنیا کے سامنے پاکستان میں ’طالبانایزیشن‘ (Talibanization) کے نام پر اسلامی دہشت گردی اور اس کے لیے مسجد اور مدرسے کی مرکزیت کو ہدف بنانا۔ جنرل پرویز مشرف اور ان کے حواریوں نے اور ان کے پہلو بہ پہلو سیکولرمیڈیا نے‘ حتیٰ کہ پیپلز پارٹی کی سربراہ نے دسیوں تقاریر اور بیانات میں اسے ’اسلامی دہشت گردی‘ کی مثال کے طور پر پیش کیا۔ افہام و تفہیم کے ذریعے معاملات کو حل کرنے کی تمام کوششوں کو پہلے طول دے کر اور پھر جب وہ کامیاب ہوتی نظر آئیں تو انھیں سبوتاژ کرکے مسجد‘ مدرسہ اور چاردیواری کے تقدس کو پامال کر کے اپنی ’آزاد خیالی‘ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کارکردگی کا تمغہ لینے کے لیے سیکڑوں اساتذہ‘ طلبہ اور طالبات کو شہید کردیا گیا۔ اپنی ہی فوج کے کمانڈروں کو اس خونیں کھیل میں استعمال کیا گیا‘ جس کے نتیجے میں فوج کے جوانوں کی قیمتی جانیں بھی اس المیے کی نذر ہوئیں۔ اس سازش میں جرنیلی ٹولے کے ساتھ نام نہاد آزاد خیال اور لبرل طبقے بھی برابر کے شریک تھے اور جس طرح صدربش‘ برطانوی وزیراعظم گورڈن برائون‘ یورپی یونین کے نمایندے‘ آسٹریلیا کے وزیراعظم‘ بے نظیر بھٹو‘ ایم کیو ایم کے الطاف حسین یا ترکی کے فوجی صدر اور مغربی میڈیا نے جنرل پرویز مشرف کو شاباش دی ہے‘ وہ پورے کھیل سے پردہ اٹھانے کے لیے کافی ہے۔

اس آپریشن کی تمام تر بنیاد جھوٹ‘ مبالغے اور اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے مسجد‘ مدرسے اور اس کے طلبہ کے بارے میں ایسی تصویرکشی پر مبنی ہے جو بش کے عراق پر حملے سے    پہلے عراق کے ایٹمی ہتھیاروں کے واویلے کی یاد دلاتی ہے۔ جس طرح وہ فضا بنائی گئی تھی‘ بالکل     وہی طریقہ اسلام آباد اور پاکستان کے دینی اداروں کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ جو  اصل حقائق تھے‘ ان کو جاننے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی اور اگر کسی نے ان کی طرف توجہ بھی دلائی تو اسے نظرانداز کردیا گیا۔ ہم مسجد اور مدرسے کی انتظامیہ کے اقدامات کی تائید نہ کرنے کے باوجود  یہ سمجھتے ہیں کہ جرنیلی آمریت‘ لبرل فسطائی قوتوں اور عالمی میڈیا نے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کو  اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔

  •  عدل پسند لبرل نقطۂ نظر: ہم تصویر کے اس رخ کو سامنے لانے کے لیے جسے حکومت‘ لبرل اہلِ قلم اور مغربی میڈیا نے کُلی طور پر نظرانداز کیا ہے‘ ایک لبرل دانش ور ڈاکٹر مسعودہ بانو کے مضمون سے اقتباس دیتے ہیں جو پاکستان کے ایک لبرل اخبار دی نیوز (مئی ۲۰۰۷ء) میں شائع ہوا تھا۔ڈاکٹر مسعودہ بانو اوکسفرڈ یونی ورسٹی میں پوسٹ ڈاکٹریٹ تحقیق کر رہی ہیں اور دینی تعلیمی ادارے ان کے مطالعے کا خصوصی موضوع ہیں:

اپنے تحقیقی تجربے کے پورے دورانیے میں‘ مجھے کبھی ایسا معاملہ درپیش نہیں آیا کہ انسان نے جو کچھ میدان میں دیکھا ہو وہ عام عوامی تاثر میں یک سر مختلف ہو۔ جامعہ حفصہ کی  طالبات اور لال مسجد کے قائدین و طلبہ کے اقدامات‘ ذرائع ابلاغ میں شدید تنقید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں کہ وہ ملک میں اپنی تعبیر اسلام نافذ کرنے کی کوشش کرکے دوسرے لوگوں کی آزادیوں پر دست اندازی کے مُرتکب ہورہے ہیں۔ تاہم‘ انھی لبرل حلقوں سے نسبت رکھنے کے باوجود‘ میرا تجربہ اور مشاہدہ مختلف ہے۔ عبدالرشید غازی کے مجھے دیے گئے متعدد انٹرویو اور جامعہ حفصہ کے کئی بار دورے کا تجربہ اس خوف ناک تصور کو سہارا دینے میں مددگار ثابت نہیں ہوا۔ دوسروں کے ردعمل دیکھ کر‘ میں باربار حیران ہوتی ہوں کہ ایسا ردعمل کیوں ہے؟ میں جب اس مدرسے کی حدود میں داخل ہوئی تو مجھے یہ احساس ہوا کہ یہ کسی لڑکیوں کے کالج کا ہوسٹل ہے۔ لڑکیاں اسلام کی انتہائی کٹر اور سخت گیر تعبیر کرتی ہیں‘ لیکن جو کچھ وہ کہتی ہیں اُس میں شعور موجود ہوتا ہے۔ گفتگو اور بحث و مباحثے کے دوران وہ: قبائلی علاقوں میں حکومت کے غیرقانونی اقدامات یا فوجی آپریشنوں‘ لاپتا لوگوں کے معاملات‘ الیکٹرانک میڈیا کو بہت زیادہ چھوٹ دینے اور ریاستی نظام کے عمومی انتشار کے احوال (جہاں حکومتی اداروں سے کوئی بھی عام شہری کام نہیں کراسکتا‘ جب تک اُس کے [بڑے لوگوں سے] تعلقات نہ ہوں) جیسے موضوعات پر بڑے اعتماد کے ساتھ اور جم کر بات کرتی ہیں۔ وہ سیاہ برقعوں میں نہیں‘ بلکہ اپنے گرد لپیٹے ہوئے دوپٹوں میں ہنستی اور ایک دوسرے سے خوش گوار گفتگو کرتی ہیں۔ وہ آپ میں دل چسپی لیتی ہیں اور یوں لگتا ہے کہ وہ عام کالج کی لڑکیوں جیسی ہی لڑکیاں ہیں‘ تاہم قدامت پرست ذہنی رجحان کے ساتھ۔

بہرحال اپنے ٹی وی انٹرویو کے دوران وہ جس معاملے کو پیش پیش رکھتی ہیں‘ کیا یہی اُن کا اصل رُوپ ہے؟میرے خیال میں‘ اس تاثر کا بہت زیادہ تعلق اُن کے لباس سے ہے۔ مدرسے میں کئی بار جانے کے دوران میں‘ مَیں نے ایک تقریب میں بھی شرکت کی۔ یہ نعت گوئی یا مذہبی موضوع پر تقریری مقابلہ تھا۔ مدرسے کے کھچاکھچ بھرے صحن میں ۳ ہزار لڑکیاں تو ضرور موجود ہوں گی اور کچھ لڑکیوں کی مائیں بھی وہاں موجود تھیں۔ اس پروگرام میں حکومت کے خلاف انتہائی ظریفانہ خاکے (skits) پیش کیے گئے۔ مدرسے کی طالبات پرویز مشرف یا اعجازالحق یا دیگر وزرا اور ذرائع ابلاغ کے نمایندوں کا روپ دھارے ہوئی تھیں۔ ان خاکوں میں حکومت کی کارکردگی پر بڑے لطیف پیرایے میں تنقید کی گئی تھی۔ اس تقریب کا منظرنامہ‘ ان پروگراموں کی یاد دلا رہا تھا جو پاکستان کے عمومی کالجوں میں ہوتا ہے۔

اسی طرح ڈھائی مہینے پاکستان کے چپے چپے پر پھیلے مدرسوں میں انٹرویو کرنے کے بعد جب مجھے عبدالرشید غازی سے انٹرویو کا موقع ملا تو وہ یقینی طور پر نفرت پھیلانے والے بنیاد پرست نظر نہیں آئے۔ اُن تک پہنچنا آسان ہے۔ وہ آپ کو وقت دیتے ہیں اور جدید دنیا کی حقیقتوں سے بھی خوب آگاہ ہیں۔ ہاں‘ یہ بات درست ہے کہ مدرسے میں ایک بندوق بردار [گن مین] بھی موجود ہے‘ لیکن ایک ایسے ملک میں کہ جہاں علما کا قتل ایک معمول ہو‘ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اُنھوں نے اپنے اردگرد سیکورٹی کے مزید انتظامات کیوں نہیںکیے ہیں‘ خصوصاً ایک ایسے وقت میں کہ جب وہ سرفہرست نشانے پر ہیں۔ مجھے ان ملاقاتوں اور رابطوں کے بعد جس چیز نے پریشان کیا‘     وہ یہ تھی کہ ذاتی طور پر دورہ کرنے کے بعد جامعہ حفصہ سے جو تصور بنتا ہے وہ کسی    تشدد پسند (militant) ادارے سے یک سر مختلف ہے۔ مجھے کئی لوگوں نے بتایا کہ  اس مدرسے میں داخل ہونے کے لیے تمھیں دل گُردے کی ضرورت ہوگی۔ لیکن       اس مدرسے کا پُرامن ماحول دیکھ کر مجھے لوگوں کے اس تبصرے پر حیرت ہوئی۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ غازی برادران نے اپنے بارے میں انتہائی پُرتشدد ہونے کا تاثر کیوں پیدا کیا؟کیونکہ جب آپ اُن سے ملنے کے لیے جاتے ہیں‘ تو اُس سے بالکل مختلف تصور پیدا ہوتا ہے۔ اس بات کو دو طریقوں سے سمجھا جاسکتاہے: اوّل‘ اگر یہ حقیقتاً خفیہ ایجنسی کا آپریشن تھا تب تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے‘ کیونکہ خفیہ ایجنسیاں یہی چاہتی ہیں کہ وہ انتہاپسند اور تشددپسند کا تصور اُبھاریں اور اُنھوں نے ان بھائیوں سے کہا ہوگا کہ وہ انتہاپسندانہ رویہ اختیار کیے رکھیں۔ دوم: اگر یہ ایجنسی کا آپریشن نہیں تھا اور مدرسے کے ساتھ کئی بار رابطہ رکھنے کے بعد میرے خیال میں یہی معاملہ تھا (اگرچہ کوئی بھی فرد یقینی طور پر نہیں کہہ سکتا)‘ تب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بھائیوں نے اس قدر انتہاپسند موقف کیوں اختیار کیا؟ کیا وہ حقیقت پسندانہ طور پر سمجھتے تھے کہ واقعی وہ حکومت پر کنٹرول حاصل کرکے شریعت نافذ کرسکتے ہیں؟ میرا خیال ہے کہ اُنھوں نے اس قدر انتہائی اقدامات اس لیے اٹھائے تاکہ اپنا وجود برقرار رکھ سکیں‘ نہ کہ حقیقی طور پر شریعت نافذ کرنے کے لیے۔ اس معاشرے میں میرے ساتھی جو لبرل طبقات سے تعلق رکھتے ہیں‘ وہ کسی تحقیق کے بارے میںاسے معقول دلیل قرار دیں گے کہ آپ اپنے مطالعے کے ہدف کے بارے میں حتمی فیصلہ کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ اُسے سمجھنے کی کوشش کریں۔

میں جامعہ حفصہ کی طرف ایک اور انداز سے دیکھتی ہوں۔ میں نے ملک بھر کے ۷۰سے زائد مدارس کے دوروں اور مصاحبوں (انٹرویوز) کے بعد جامعہ حفصہ کا دورہ کیا۔ میرے خیال میں ان تمام ہی مدرسوں میں حکومت کی امریکا نواز پالیسیوں‘ قبائلی پٹی میں حملوں‘ لاپتا لوگوں کے مسئلے‘ مدرسوں اور اسلام کو تحقیری لہجے میں پیش کرنے اور ذرائع ابلاغ کو بے حدوحساب چھوٹ دینے کے بارے میں تشویش کااظہار کیا گیا۔ اُن کی راے میں یہ ملک اسلام کے نام پر قائم کیا گیا تھا۔

جب آپ دیکھتے ہیں کہ معاشرے کی اتنی بڑی تعداد چند اُمور پر تشویش کا اظہار کرتی ہے‘ تب سمجھ لینا چاہیے کہ یہ چند افراد کا خلجان نہیں ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان پیپلز پارٹی‘ ایم کیو ایم اور معاشرے کے چند دیگر طبقات کی طرف سے جامعہ حفصہ کو دبانے کے لیے قوت کے استعمال کے مطالبے غیرحقیقت پسندانہ ہیں۔ قدامت پرست اقدار رکھنے والے یہ لوگ بھی تو بہرحال آپ کے معاشرے کا حصہ ہیں اور اُن کی تعداد بہت بڑی ہے۔ پُرتشدد اسلام پسندی کے ایسے مظاہر کو روکنے کے لیے واحد راستہ یہ ہے کہ حکومت ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی پالیسیوں کی اندھی پشتی بان نہ بنے‘ کیونکہ ان کی وجہ سے علما کو یہ قوت مل جاتی ہے کہ وہ بڑی تعداد میں اپنے پیروکاروں کو حرکت میں لے آئیں۔(The Puzzle of Jamia Hafsa ،دی نیوز انٹرنیشنل، ۴مئی ۲۰۰۷ء)

ہم نے ڈاکٹر مسعودہ بانو کے مضمون سے طویل اقتباس اس لیے دیا ہے کہ ایک غیر جانب دار  لبرل دانش ور خاتون بھی ان حقائق کی طرف متوجہ کر رہی ہے جنھیں یک سر نظرانداز کر کے سیاسی طالع آزما اور لبرل دانش ور آنکھیں بند کرکے استعماری قوتوں اور فوجی آمروں کی ہاں میں ہاںملانا اپنی معراج سمجھ رہے ہیں۔

جامعہ حفصہ اور لال مسجد کے خونیں انجام کے دو روز بعد ڈاکٹر مسعودہ بانو کا تبصرہ بھی اس لائق ہے کہ اس پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔ وہ دی نیوز میں لکھتی ہیں:

واہ! نام نہاد لبرل جیت گئے۔ لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر بے رحمی سے حملہ کیا گیا‘ [عبدالرشید] غازی‘ ان کی والدہ اور ان کے سیکڑوں شاگرد [طلبہ و طالبات] مارے گئے۔ حکومت نے دارالحکومت کے عین قلب میں انتہائی سفاکانہ قتلِ عام کیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہی لبرل جو امن کی بات کرتے ہیں اور عراق پر جارحیت اور جنگ پر احتجاج کا علَم بلند کرتے ہیں‘ نہ صرف یہ کہ انھوں نے اس [فوجی آپریشن] کی حمایت کی حتیٰ کہ حکومت کو اس پر مبارک باد بھی دے رہے ہیں۔ لیکن کم از کم وہ لوگ جو اس حوالے سے خامہ فرسائی کرتے رہتے ہیں‘ ان کو اس قسم کے مطلق دعوؤں سے اجتناب کرنا چاہیے کہ اکثریت اس سے خوش ہے (یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جو ایک اخبار نے کیا)۔مجھے بطور محقق اس دوران غازی اور مدرسے کے اندر موجود لوگوں کے متعلق [بہت کچھ] جاننے کا موقع ملا‘ اور میں ایک ایسی عورت کی حیثیت سے کہ جو برداشت پر یقین رکھتی ہے اور جو انسانی جان کا احترام کرتی ہے‘ یہ کہنا چاہتی ہوں کہ میں اس تمام آرمی ایکشن کو ایک جرم کی طرح دیکھتی ہوں‘اور میں ایسے بہت سے لوگوں کو جانتی ہوں جو اسی طرح دیکھتے ہیں۔ اس وقت پاکستان ایک بٹے ہوئے گھر کی طرح ہے۔محض اغوا اور حکومت کی رٹ کو چیلنج کرنے جیسے جرائم کی بنا پر کس نے حکومت کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اپنے ہی عوام کا یوں قتلِ عام کرے؟ انھوں نے‘ غازی برادران اور ان کے شاگردوں نے‘ نہ کسی کو قتل کیا اور نہ جسمانی طور پر نقصان پہنچایا‘ تو پھر کس طرح ان کی سزا اس قدر شدید ہوسکتی ہے۔  یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس تمام خوں ریزی سے بآسانی بچا جاسکتا تھا‘ اگر جنرل مشرف کا ایک ایسے وقت میں مغرب کو اپنی وفاداری کا ثبوت فراہم کرنے جیسا مخصوص مقصد  نہ ہوتا‘ جب کہ وہ انتہائی کمزور ہوچکے ہیں اور انھیں مغرب کی حمایت کی شدید ضرورت ہے۔ دوسری صورت میں‘ قتلِ عام کے بغیر مسئلے کو حل کرنے کے لیے بہت سے ایسے اقدامات ممکن تھے جو اٹھائے جاسکتے تھے۔ بجلی‘ پانی اور گیس کاٹ دینے سے کم از کم لڑکیوں کو جلد یا بدیر باہر آنے پر مجبور کیا جاسکتا تھا۔ اسی طرح اگر مذاکرات کے لیے مزید کچھ دن دے دیے جاتے تو یقینا پاکستان کے وجود کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہوسکتا تھا۔ (What a Victory!‘دی نیوز‘ ۱۳جولائی ۲۰۰۷ء)

وہ اپنے فکرانگیز تبصرے کے اختتام پر لکھتی ہیں:

لال مسجد کے باب کو ختم کرنے سے پہلے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کس چیز نے [عبدالرشید] غازی کو (جس نے پوسٹ گریجویٹ ڈگری لے رکھی تھی) اور اُن کے طالب علموں کو (جن کی اکثریت متوسط طبقے سے تعلق رکھتی تھی اور جو میٹرک یا ایف اے کے بعد وہاں آئے تھے) اس مزاحمت پر مجبور کیا۔ ذرائع ابلاغ میں اُن کے حوالے سے ہونے والی بحث کا ارتکاز اُن کی جانب سے عوامی اخلاقیات سنوارنے کی مہم پر تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ انتہائی بنیادی انسانی حقوق کے مطالبات کی بنا پر حرکت پذیر ہوئے تھے۔ وہ قبائلی علاقوں میں ان ملٹری آپریشنوں کے خاتمے کے لیے دلائل دے رہے تھے‘ جو عام شہریوں کی ہلاکت کا باعث بن رہے تھے۔ وہ ملک میں مقدمہ چلائے بغیر لوگوں کو امریکا کے حوالے کرنے کی مخالفت کر رہے تھے۔ ہم میں سے جن لوگوں نے مدرسے میں جانے اور اُن سے اور اُن کے طلبہ سے بات چیت کرنے کی زحمت کی‘ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ بہ تکرار قانون کی بالادستی کی بات کرتے تھے۔ اپنے اہداف کو کامیاب بنانے کے لیے اُنھوں نے جو راستہ اختیار کیا‘ بلاشبہہ وہ درست راستہ نہ تھا‘ لیکن یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ کس چیز نے اُنھیں اور اُن کے پیروکاروں کو اس جدوجہد پر آمادہ کیا‘ کیونکہ حتمی طور پر اخلاقی خیالات و نظریات کی مُدلل قوت ہی لوگوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنی زندگی نچھاور کردیں۔ کوئی بھی شخص‘ حتیٰ کہ انتہائی غریب شخص بھی کسی معمولی بات کے لیے اپنی جان نہیں دے سکتا۔ (دی نیوز‘ ۱۳ جولائی ۲۰۰۷ء)

سانحے کے بعد کے تقاضے

ہم سمجھتے ہیں کہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا مسئلہ کوئی منفرد واقعہ نہیں‘ بلکہ امریکا اور   جنرل مشرف کی اس حکمت عملی کا حصہ ہے جس کے تحت دہشت گردی کے نام پر جرنیلی آمریت کو مستحکم کرنے اور عالمی سامراج کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا مذموم کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ اسی لیے جہاں ہم ایک طرف اس پورے کھیل کا پردہ چاک کرنے کو اوّلیت دیتے ہیں اور اسے وسیع تر تناظر میں دیکھتے ہیں‘ وہیں ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس سانحے کی تحقیق کے لیے اعلیٰ ترین سطح پر عدالتی کمیشن قائم کیا جائے‘ جو سارے پہلوؤں کاجائزہ لے اورخصوصیت سے ان سوالوں کا جواب دے کہ:

                ۱-  لال مسجد اور جامعہ حفصہ کی انتظامیہ اور طلبہ و طالبات پر جو الزامات لگائے جارہے ہیں ان کی حقیقت کیا ہے‘ اور حالات کو اس مقام تک لانے میں کون کون سی قوتیں کس درجے میں شریک تھیں___ ہر ایک کا کردار اور رول بالکل کھل کر سامنے آئے۔

                ۲-  جنوری ۲۰۰۷ء سے پہلے کوئی مسئلہ کیوں پیدا نہیں ہوا ‘اور وہ کیا خاص حالات اور اسباب ہیں جن کی وجہ سے جنوری سے جولائی تک مختلف واقعات رونما ہوئے؟

                ۳-   انتظامیہ اور طلبہ و طالبات کی اصل شکایات کیا تھیں اور ان کو رفع کرنے کے لیے کیا کیا گیا؟

                ۴- انتظامیہ اور طلبہ و طالبات سے کیا غلطیاں سرزد ہوئیں اور حالات کی اصلاح اور افہام و تفہیم کے ذریعے معاملات کو طے کرنے کی کیا کوششیں ہوئیں‘ کیا معاہدے ہوئے‘ کس نے ان معاہدوں کو سبوتاژ کیا اور مصالحت کا عمل کیوں کامیاب نہ ہوا؟

                ۵-  اس پورے معاملے میں حقیقی تشدد کا کتنا حصہ ہے اور کون اس کا ذمہ دار ہے؟

                ۶- کیا حکومت کے پاس کوئی مذاکراتی حکمت عملی اور اختیار تھا؟ اور کیا عالمی تجربات کی روشنی میں قوت کے استعمال کے بغیر مسئلے کا حل ممکن نہیں تھا؟ اگر ایسا تھا تو کیا ضروری حد تک قوت کا استعمال ہوا یا قوت کا بے رحمانہ‘ بے محابا اور سفاکانہ استعمال کیا گیا؟

                ۷- یہ سوال بھی اہم ہے کہ قوت کے استعمال کے لیے جس دستوری اور قانونی جواز کی ضرورت ہے‘ وہ پورا کیا گیا؟ اسلام آباد میں سول اتھارٹی کون ہے؟ پولیس کے ذریعے مسئلے کو کیوں حل نہیں کیا گیا؟ پولیس اور رینجرز کو کئی مہینے اسلام آباد کس اتھارٹی کے تحت لایا گیا‘ اور  ان کو کیوں واپس کیا گیا؟ آخری فوجی آپریشن کا فیصلہ کس نے کیا اور کس دستوری اختیار کے تحت کیا گیا؟ اس میں سول انتظامیہ‘ کابینہ‘ چیف آف آرمی اسٹاف ہرایک کا کیا کردار ہے؟

                ۸- سپریم کورٹ کے بنچ نے مفاہمت کے ذریعے مسئلے کے حل کے لیے ہدایات جاری کی تھیں‘ ان کا کیا بنا؟ عدالت کا کیا رول رہا اور انتظامیہ نے عدالت کے احکام کے الفاظ اور اسپرٹ کی کہاں تک پیروی کی؟

                ۹- مسجد اور مدرسے میں موجود افراد اور اسلحے وغیرہ کے بارے میں حکومت کے دعوے کیا تھے اور حقیقت کیا نکلی؟ فوجی آپریشن کے لیے جو طریقہ اختیار کیا گیا وہ کہاں تک ضروری تھا؟ جانی اور مالی نقصان کی صحیح پوزیشن کیا ہے؟ فی الحقیقت کتنے اساتذہ‘  طلبہ و طالبات اور دوسرا عملہ مسجد و مدرسے میں تھا؟ کُل اموات کتنی ہوئیں؟ قرائن و شواہد بتاتے ہیں کہ طالبات‘ طلبہ اور اساتذہ کو اس سے کہیں زیادہ تعداد میں قتل کیا گیا کہ جتنی تعداد حکومتی ترجمان بتاتے ہیں۔ اس قتلِ عام کی باقاعدہ اعلیٰ سطحی تحقیقات ہونی چاہییں۔

                ۱۰- فوج نے جو ہتھیار استعمال کیے‘ وہ کون کون سے تھے؟ مدرسے کے طلبہ کی طرف سے  کون سے ہتھیار استعمال ہوئے؟ انٹرنیٹ پر موجود مضامین اور روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والی تصاویر میں ’سفید فاسفورس‘ کے سفاکانہ استعمال کے شواہد کی کیا حقیقت ہے؟۱؎ کیمیکل اسلحے کے استعمال کا کس نے حکم دیا تھا؟ عمارت کے اندر آگ لگنے‘ لاشوں کے جھلسنے اور اس کے اسباب کا تعین ضروری ہے‘ نیز کس قسم کی گیسوں کا استعمال اس آپریشن میں کیا گیا اور ان کے کیا اثرات رونما ہوئے؟

                ۱۱-         جس اسلحے کی نمایش کی گئی ہے‘ اس کی حقیقت کیا ہے؟

                ۱۲-         مسجد میں طلبہ اور طالبات کو یرغمال بنائے جانے کے دعوے کی کیا حقیقت ہے؟ محاصرے کے دوران علما‘ صلح کاروں اور میڈیا کے نمایندوں کو مسجد اور مدرسے میں جانے سے


۱-  یاد رہے کہ حکومت کے فوجی اور سول ترجمان اس امر سے مسلسل انکار کرتے رہے‘ تاہم ۲۶ جولائی کو وفاقی وزیر مذہبی امور اعجازالحق نے اعتراف کیا: ’’لال مسجد آپریشن میں فاسفورس بم استعمال کیے گئے تھے‘‘۔ (روزنامہ نوائے وقت‘ لاہور‘ ۲۷ جولائی ۲۰۰۷ء)

                                                کس نے روکا؟ آپریشن کے بعد بھی دو دن مسجد اور مدرسے میں میڈیا کو داخل ہونے سے کیوں روکا گیا؟ اس زمانے میں اندر کیا کچھ ہوا؟ چار سو کفن منگوانے کے بعد صرف ۹۲لاشوں کی تدفین کا معما کیا ہے؟ بی بی سی کے نمایندے کو گورکن نے بتایا کہ ایک ایک قبر میں دو دو لاشیں ہیں۔ اس کی کیا حقیقت ہے؟

                ۱۳-  مسجد کی بے حُرمتی‘ قرآن پاک اور دینی کتب کی بربادی اور مسجد میں جوتوں سمیت جانا اور فوجی ترجمان کا یہ فتویٰ نشر کرنا کہ آپریشن کے دوران اس جگہ کی حیثیت مسجد کی نہیں رہی ہے‘ کہاں تک صحیح ہے؟ قرآن پاک کے جلائے جانے اور قرآن کے اوراق کی بے حُرمتی کے بارے میں سپریم کورٹ کے بنچ نے بھی سوال اٹھائے ہیں۔ یہ بڑا اہم مسئلہ ہے اور اس سلسلے میں سارے حقائق قوم کے سامنے آنے چاہییں۔

یہ اور متعدد دوسرے سوالات ایسے ہیں جن کے مبنی برحق جواب قوم کے سامنے آنا ضروری ہیں‘ اور پھر ان جوابات کی روشنی میں جس نے جس حد تک دستور‘ قانون اور اصولِ انصاف سے انحراف کیا ہے‘ اس کی ذمہ داری کا تعین اور قرارواقعی سزا کا اہتمام۔

ہم پوری ذمہ داری سے یہ بات کہنا چاہتے ہیں کہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا مسئلہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے۔ جو کچھ ہوا ہے وہ ہماری تاریخ کے الم ناک ترین واقعات میں سے ایک ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح برطانوی استعمار کے ایک کارندے جنرل ڈائرنے ۱۹۱۹ء میں امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں کئی سو ہندستانیوں کو گولیوں سے بھون کر رکھ دیا تھا‘ پاکستان کی تاریخ میں ایک سیکولر اور نام نہاد روشن خیال جرنیل نے صدربش اور مغرب کے سامراجی حکمرانوں کی  خوش نودی اور انھیں اپنی وفاداری کا یقین دلانے کے لیے لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر یورش اور  خون کی ہولی کھیل کر ویسا ہی بدترین اقدام کیا ہے۔ تاریخ تو اس ظلم برپا کرنے والوں کو معاف نہیں کرے گی، لیکن ملّت اسلامیہ پاکستان کا بھی فرض ہے کہ وہ اس کشت و خون کے ذمہ داروں کا احتساب کرے‘ اور ہم چاہتے ہیں کہ یہ احتساب بھی دستور اور قانون کے مطابق ہو___ ایک سفاکیت کا جواب دوسری لاقانونیت سے نہ دیا جائے___ لاقانونیت اور دہشت گردی کو روکنے  کا اصل ذریعہ سب کے لیے قانون کی حکمرانی اور کھلے انداز میں احتساب اور انصاف کا قیام ہے۔ یہی راستہ معقول بھی ہے اور خیر اور صلاح بھی صرف اسی کے ذریعے رونما ہوسکتی ہے۔

عدلیہ کی بالادستی کے لیے سنگ میل

سپریم کورٹ کے ۱۳ رکنی بنچ کے ۲۰جولائی ۲۰۰۷ء کے فیصلے نے قوم کو یہ اُمید دلائی ہے کہ اعلیٰ عدالت نظریۂ ضرورت کے شیطانی چکر سے نکلنے کی طرف بڑھ رہی ہے اور عوام کو یہ اعتماد حاصل ہو رہا ہے کہ اس ملک کے کمزور اور مظلوم انسانوں کے لیے بھی انصاف کا حصول ممکن ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے ملک اپنی حقیقی منزل کی طرف گامزن ہوسکے گا۔

۲۰ جولائی ۲۰۰۷ء کا فیصلہ گہرے غوروخوض کا متقاضی ہے مگر اس کا حق اسی وقت ادا ہوسکے گا جب عدالت اپنا تفصیلی فیصلہ دے گی۔ البتہ مختصر فیصلے نے جو تاریخی خدمت انجام دی ہے‘ اس کا ادراک ضروری ہے۔ ہماری نگاہ میں درج ذیل پہلو غیرمعمولی اہمیت کے حامل ہیں:

                ۱-  عدالت نے کوئی مبہم یا نیمے دروں نیمے بروں راستہ اختیار نہیں کیا‘ بلکہ دوٹوک الفاظ میں ایک واضح فیصلہ دیا ہے‘ جس نے قوم کو اُمید کی نئی کرن دکھائی ہے۔ اس پر عدالت پوری قوم کی طرف سے ہدیۂ تبریک کی مستحق ہے۔ ظلمتوں کی ماری اس قوم کے لیے یہ فیصلہ روشنی کا پیغام اور مستقبل پر بھروسے کی نوید کی حیثیت رکھتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔

                ۲-  پاکستان کی تاریخ میں‘ عدالت نے پہلی مرتبہ فوجی حکمرانی ہی کے دور میں ایک فوجی حکمران کے فیصلے کے خلاف دستور اور قانون کے مطابق فیصلہ دیا ہے‘ اور اس طرح طاقت پر قانون کی بالادستی کے اصول کو قائم کیا ہے۔ سیکولرزم اور نام نہاد جدیدیت کے علَم بردار جسٹس محمدمنیر نے تمیزالدین خان کیس سے ’نظریۂ ضرورت‘ کے بل پر دستور اور انصاف کی خلاف ورزی کا جو دروازہ کھولا تھا اور جس کے نتیجے میں آمریت کا عفریت دندناتا ہوا قومی زندگی میں داخل ہوا‘ اس نے جمہوریت کو پنپنے ہی نہ دیا۔ بلاشبہہ جسٹس حمودالرحمن نے جنرل آغا یحییٰ خان کو غاصب (usurper) قرار دیا تھا لیکن یہ فیصلہ جنرل یحییٰ کے اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد آیا تھا‘ اور یہی وجہ ہے کہ یہ بعد کے طالع آزمائوں کا راستہ نہ روک سکا۔ حالیہ فیصلہ اپنی نوعیت کا پہلا فیصلہ ہے اور ہمیں یقین ہے کہ اگر قوم اس کی پشت پر مضبوطی سے قائم رہتی ہے توآیندہ یہ جمہوریت کے لیے فتح و کامرانی کے دروازے کھول دے گا‘ اور ان شاء اللہ فوجی آمریت قصۂ پارینہ بن جائے گی۔

                ۳-  اس فیصلے کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ اس میں دستور اور قانون کی بالادستی کے اصول کو بنیاد بنایا گیا ہے اور صدر (چیف آف اسٹاف) کا وہ اقدام صریحاً غیرقانونی تھا‘ جس کے تحت اس نے وردی کا سہارا لے کر چیف جسٹس کو بلاجواز‘ دستور کے واضح تقاضوں کو نظرانداز کرتے ہوئے غیرفعال کیا تھا یا جبری رخصت پر بھیجا تھا۔ اس فیصلے کو کالعدم قرار دینے سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ چیف جسٹس اس پورے زمانے میں دستوری اور قانونی طور پر چیف جسٹس تھے‘ قائم مقام چیف جسٹس کا تقرر غیرقانونی تھا ۔

                ۴- اس فیصلے میں تین کے مقابلے میں ۱۰ کی اکثریت نے یہ بھی فیصلہ دیا ہے کہ چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس دستور کے مطابق نہیں اور اس طرح اسے بھی حرفِ غلط کی طرح منسوخ کردیا گیا اور چیف جسٹس کسی داغ کے بغیر اپنے مقام پر بحال ہوگئے۔

                ۵- ضمناً اس فیصلے نے اس بات کو بھی واضح کردیا کہ قانون کی نگاہ میں سب برابر ہیں اور کوئی بھی احتساب سے بالا نہیں‘ بشمول چیف جسٹس لیکن احتساب‘ قانون اور دستور کے مطابق ہی ہوسکتا ہے۔ من مانے اور اندھادھند (arbitrary) انداز میں نہیں۔

                ۶- اس فیصلے میں خود عدلیہ کا بھی احتساب موجود ہے‘ خصوصیت سے جس طرح سپریم جوڈیشل کونسل نے کچھ ایسے اختیارات اپنے لیے حاصل کرنے کی کوشش کی‘ یا ایسے انداز میں اپنے کام کا آغاز کیا جو دستور اور اصول انصاف کے مطابق نہیں۔ ان تمام چیزوں پر بھی فیصلے میں گرفت کی گئی ہے اور غلط اقدام کو غیرمؤثر کردیا گیا ہے۔

ان تمام اعتبارات سے یہ فیصلہ سنہری حروف میں لکھے جانے کے لائق ہے اور عدلیہ کی آزادی اور اس کے اعتبار (credibility)کی بحالی کی راہ پر ایک عظیم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگرچہ یہ صرف پہلا قدم ہے‘ ہراعتبار سے اہم اور تاریخی قدم___  لیکن پھر بھی صرف پہلا قدم۔ ابھی ماضی کے ملبے کو صاف کرنے اور دستوریت اور قانون کی حکمرانی کی منزل کو پانے کے لیے عدالت‘ انتظامیہ اور خود قوم کو بہت کچھ کرنا ہوگا۔ جہاں یہ فیصلہ خالص دستور اور قانون کے مطابق ہے اور کسی سیاسی مصلحت کا سایہ اس پر نہیں‘ وہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایسا صاف ستھرا اور   مبنی برعدل فیصلہ ممکن ہی اس لیے ہوا کہ قوم نے‘ اور خصوصیت سے وکلا برادری نے بے لاگ انداز اور بالکل دوٹوک طریقے سے عدالت کو یہ یقین دلا دیا تھا کہ قوم انصاف اور اصول کی بالادستی چاہتی ہے نہ کہ مصلحت پر مبنی کوئی فیصلہ۔ جس عدالت کو یہ یقین ہو کہ قوم انصاف چاہتی ہے اور انصاف کے لیے قربانی دینے کا عزم رکھتی ہے‘ وہ پھر پوری مضبوطی سے دستور اور انصاف کی علَم بردار بن سکتی ہے اور لاقانونیت اور قوت کے پجاریوں کو چیلنج کرسکتی ہے۔ اس بار الحمدللہ یہی  ہوا اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اس انداز میں ہوا۔ اب عدالت اور قوم دونوں پر ذمہ داری ہے کہ اس راستے پر استقامت اور حکمت کے ساتھ آگے بڑھے۔ اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ عدالت کو کسی ایسی آزمایش میں نہ ڈالا جائے جس میں اس کے قدم ڈگمگانے کا خطرہ ہو۔ سیاسی فیصلے سیاست کے میدان میں ہوں اور قانون اور دستور کی تعمیر اور تنفیذ کے معاملات عدالت میں طے ہوں۔      یہ توازن ضروری ہے اور اس نزاکت کو سامنے رکھ کر ہی ہم ملک میں جمہوریت کی آگے کی منزلیں سر کرسکتے ہیں۔

تاریخ ساز فیصلے کے دو اھم تقاضے

البتہ دو باتوں کی طرف توجہ دلانا ہم ضروری سمجھتے ہیں: پہلی یہ کہ اس فیصلے کے کچھ اخلاقی اور ایک حد تک خود قانونی تقاضے ہیں جن کو پورا کیا جانا چاہیے اور ان کا تعلق صدر‘ وزیراعظم‘ وزیرقانون اور ان اداروں کے سربراہوں سے ہے جن کا چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس سے بلاواسطہ تعلق تھا۔ انھیں اپنی ذمہ داری کا اعتراف کرنا چاہیے۔ چیف جسٹس اور قوم سے معافی مانگنی چاہیے اور اپنے عہدے سے استعفا دے دینا چاہیے تاکہ اس فیصلے کے منطقی تقاضے پورے ہوں۔ واضح رہے کہ وزیراعظم شوکت عزیز نے فیصلے سے پہلے یہ بات کہی تھی کہ اگر فیصلہ حکومت کے خلاف ہوتا ہے تو وزیراعظم کو مستعفی ہوجانا چاہیے۔ معاملہ صرف وزیراعظم کا نہیں‘ ان کے ساتھ جنرل مشرف کا استعفا بھی ضروری ہے۔

ریفرنس کے اصل ذمہ دار جنرل مشرف ہیں‘ جنھوں نے فوجی وردی میں چیف جسٹس کو ریفرنس کا نشانہ بنایا‘ استعفے کا مطالبہ کیا‘ کئی گھنٹوں تک حبسِ بے جا میں رکھا‘ تین مہینے تک پریس اور میڈیا میں ریفرنس کے حق میں دلائل دیتے رہے‘ مزید حقائق بیان کرنے کی دھمکیاں دیں‘ اور  طرح طرح کے الزامات لگانے سے بھی گریز نہ کیا۔ ۱۲مئی کے کراچی کے قتلِ عام اور اسلام آباد کے بھنگڑے کے جشن کو عوامی تائید‘ اپنی فتح اور چیف جسٹس کی شکست کا عنوان دیا‘ اور یہاں تک ارشاد فرمایا کہ اگر جھوٹ سچ پر غالب رہا تو وہ روئیں گے___  رونا تو بلاشبہہ ان کے مقدر میں   اللہ تعالیٰ نے لکھ دیا تھا مگر بات رونے پر ختم نہیں ہوسکتی۔ سب سے زیادہ اس ریفرنس کے اور اس ریفرنس کے سلسلے میں جو کچھ کیا گیا‘ اس کے ذمہ دار جنرل مشرف ہیں اور ان کا استعفا پہلا تقاضا ہے۔ ان کے ساتھ وزیراعظم‘ وزیرقانون‘ سیکرٹری قانون اور ان تمام افراد کا استعفا اور احتساب ضروری ہے جنھوں نے جنرل مشرف اور وزیراعظم کے موقف کی تائید میں بیان حلفی دائر کیے۔

دوسرا بنیادی مسئلہ جو اس ریفرنس اور مختلف حلفی بیانات سے سامنے آیا ہے وہ کاروبار حکومت میں ایجنسیوں کے کردار سے متعلق ہے‘ جو اپنے اصل فرائض منصبی سے ہٹ کر جاسوسی اور     خلافِ قانون سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ جن کا منہ بولتا ثبوت ان کے اپنے بیانات اور وہ معلومات اور ان معلومات کے ذرائع ہیں جن سے یہ بیانات بھرے ہوئے ہیں۔ حکومت پاکستان اور اس کے اداروں کی بڑی ہی کریہہ تصویر ہے جو ان بیانات میں قوم کے سامنے آئی ہے۔ اگر ان اداروں کا احتساب نہیں ہوتا اور ان سرگرمیوں کو لگام نہیں دی جاتی تو ہم کبھی بھی قانون اور ضابطے پر مبنی ایک ملک اور مہذب معاشرہ نہیں بن سکتے۔ جن حضرات نے قانون کی خلاف ورزی یا محض اثرورسوخ کی بناپر قانون اور ضابطے کے خلاف کام کا اعتراف کیا ہے‘ انھیں اس کی قرارواقعی سزا ملنی چاہیے‘ اور جنھوں نے برسرِاقتدار افراد کی تائید میں غلط بیانی اور فسانہ سازی سے کام لیا ہے‘ انھیں ان کی قیمت ادا کرنا چاہیے۔ ان بااثر مجرموں کو ایسے ہی چھوڑ دینے کے معنی یہ ہیں کہ ملک میں قانون کی حکمرانی محض ایک سراب ہوگی۔ یہ اقبالی مجرم ہیں اور ان کو اس کی ایسی سزا ملنی چاہیے جس میں دوسروں   کے لیے عبرت کا سامان ہو اور ملک کے نظامِ حکمرانی سے ان خرابیوں کاہمیشہ کے لیے ازالہ ہوسکے۔

۲۰جولائی کے فیصلے کے یہ دو کم سے کم تقاضے ہیں جو فوری طور پر پورے ہونے چاہییں۔

اُمید کا پیغام

آخر میں ہم اس پورے معاملے میں کُل جماعتی تحریک جمہوریت کے رول کا ذکر ضروری سمجھتے ہیں۔ یہ امر باعث افسوس ہے کہ اپوزیشن کی تمام جماعتیں اس میںشریک نہیں ہوئیں اور ایک بڑی جماعت جس نے میثاقِ جمہوریت پر دستخط کیے تھے وہ اس میثاق کے عہدوپیمان کے   علی الرغم فوجی حکومت سے معاملات طے کرنے میں مصروف رہی اور اس فیصلہ کن مرحلے پر بھی پیچھے رہ گئی۔ اس امر پر تاَسف کے اظہار کے ساتھ ہم اس اقدام کا خیرمقدم کرتے ہیں جو باقی تمام جماعتوں نے اس نئے محاذ کے قیام کی شکل میں اختیار کیا ہے‘ اور اسے ۲۰جولائی ۲۰۰۷ء کے فیصلے کی طرح جمہوریت کے قیام اور دستور اور قانون کی حکمرانی کی جدوجہد کا ایک سنگ میل قرار دیتے ہیں۔

قرارداد مقاصد سے لے کر ۱۹۷۳ء کے دستور تک جن چار باتوں پر قوم کاکامل اتفاق (consensus ) ہے‘ وہ یہ ہیں:

                ۱-   پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور اس کے وجود اور بقا کا انحصار اسلام کے احکام‘ اقدار اور اصولوں کے مطابق مبنی برعدل نظام کا قیام ہے۔ اقتدار ایک امانت ہے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے وفاداری کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔

                ۲-  پاکستان کا نظامِ حکومت جمہوری ہوگا جس میں عوام کے حقوق کی حفاظت‘ پارلیمنٹ کی بالادستی‘ عدلیہ کی آزادی‘ صاف شفاف انتخابات‘ اور عوام کی مرضی کے مطابق اور ان کے سامنے جواب دہی کے اصول پر حکومت کا قیام اور تبدیلی واقع ہوگی۔

                ۳-  پاکستان ایک فلاحی ریاست ہے جس میں تمام شہریوں کو بلاتفریق نسل‘ زبان اور مذہب زندگی کی ضروری سہولتیں حاصل ہونی چاہییں اور ترقی کے مساوی مواقع میسر ہوں تاکہ مہذب زندگی گزار سکیں۔

                ۴-  پاکستان کا سیاسی نظام وفاق کی بنیاد پر قائم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ تمام صوبوں کو اپنے وسائل پر تصرف کا اختیار ہو اور دستور کے دائرے میں تمام صوبوں کو مکمل خوداختیاری حاصل ہو۔ پاکستان کی مضبوطی اور خوش حالی کا انحصار تمام صوبوں کی مضبوطی اور خوش حالی پر ہے۔

ان اصولوں کا واضح تقاضا یہ ہے کہ ہر ادارہ اپنے اپنے دائرے میں دیانت داری سے کام کرے اور دوسرے اداروں میں دخل اندازی سے احتراز کرے۔ فوج کی اصل ذمہ داری دفاعِ وطن اور سول حکومت کے تحت خدمات انجام دینا ہے۔ سیاست میں فوج کی مداخلت دستور کی خلاف ورزی‘ سیاسی نظام کی بربادی کا ذریعہ اور خود فوج کی دفاعی صلاحیت اور قوم کی نگاہ میں غیرمتنازع حیثیت کو مجروح کرنے کا باعث ہوتی ہے۔ اس لیے فوج کو سیاست میں ملوث کرنا فوج اور ملک دونوں کے مفاد کے خلاف ہے۔

عوام کی مرضی کی حکومت اسی وقت قائم ہوسکتی ہے جب سب کو انتخاب میں شرکت کے مساوی مواقع حاصل ہوں اور انتخاب کا نظام ہرقسم کی دراندازی اور جانب داری سے پاک ہو۔ اس کے لیے راے دہندگان کی فہرستوں کا درست ہونا‘ الیکشن کمیشن کی مکمل آزادی اور غیر جانب داری اور پورے انتخابی عمل کا صاف اور شفاف ہونا ضروری ہے۔ صحافت کی آزادی بھی اس کے لیے ایک ضروری عمل ہے تاکہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا صحیح حقائق سے قوم کو آگاہ کرسکے۔ انتخابی عمل کو ہربدعنوانی سے پاک ہونا چاہیے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب انتخابات ایک غیر جانب دار حکومت کی نگرانی میں منعقد ہوں۔

کُل پاکستان جمہوری تحریک کا قیام انھی مقاصد کے حصول کے لیے ہے۔ ہرجماعت کا  اپنا منشور اور پروگرام ہے‘ لیکن ان مشترکہ نکات پر سب کا اتفاق ہے اور سب مل کر ان کے حصول کے لیے سیاسی جدوجہد کا عہد کرتے ہیں۔ چیف جسٹس کی معطلی کے خلاف وکلا اور عوام کی تحریک نے جمہوریت کی بحالی کے لیے عوامی تائید اور تحرک کی اہمیت کو ایک بار پھر واضح کردیا ہے۔ کُل جماعتی جمہوری تحریک‘ اپوزیشن کی جماعتوں کے اس عزم کا مظہر ہے کہ مشترک مقاصد کے حصول کے لیے وہ فیصلہ کن عوامی تحریک کا راستہ اختیار کر رہے ہیں اور یہ جدوجہد دستور کی مکمل بحالی اور جمہوریت کے قیام اور اسلامی نظام کے نفاذ پر منتج ہوگی‘ ان شاء اللہ!


(کتابچہ دستیاب ہے، منشورات، منصورہ، لاہور)

پاکستان کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ بار بار کی فوجی مداخلت سے ملک میں سیاسی عمل کو پنپنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ یہاں براہِ راست سول اور ملٹری انتظامیہ حکمران رہی یا ان کی پسند کے لوگوں کو محدود وقت کے لیے محدود دائرے میں حکومت کرنے کا موقع دیا گیا۔ حقیقی جمہوریت، دستور اور قانون کی بالادستی‘ عدلیہ کی آزادی کے فقدان اور سیاست میں فوجی مداخلت کی وجہ سے ملک دولخت ہوگیا اور باقی ماندہ ملک بھی مسلسل بحرانوں کا شکار ہے۔

امریکا میں ۱۱ ستمبر۲۰۰۱ء کے واقعے کے بعد مسلمانوں کو بالعموم اور افغانستان و پاکستان کو بالخصوص ہدف بنا لیا گیا۔ امریکی سرکردگی میں نام نہاد دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا آغاز ہوا تو پرویز مشرف نے اس جنگ میں صف اول کا اتحادی بننے کا اعلان کردیا۔ اس طرح امریکی جنگ کو پرویز مشرف کی حکومت پاکستان کے اندر لے آئی‘ جس کے نتیجے میں ہمارا ملک ایک بڑے بحران سے دوچار ہوگیا۔ یہ بحران آئے دن پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا جا رہا ہے۔سیکڑوں لوگوں کو پاکستان کے اندر اور پاکستان سے باہر امریکی دباؤ پر عقوبت خانوں میں رکھا گیاہے۔ اپنے جگر گوشوں اور بزرگوں اور سرپرستوں سے محروم ورثا مسلسل احتجاج کے باوجود ان کی خیریت سے لاعلم ہیں اور اعلیٰ عدالتوںکی مداخلت اور حکم کے باوجود حکمران مفقود الخبرسیکڑوں شہریوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنے سے انکاری ہیں۔ جو لوگ پاکستان کے اندر ان عقوبت خانوں سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے ہیں، وہ اپنے گزرے ایام کی رونگٹے کھڑے کردینے والی داستانیں سناتے ہیں۔

باجوڑ اور وزیرستان میں براہ راست امریکی میزائل حملوں اور بمباری کے نتیجے میں سیکڑوں معصوم لوگ جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، شہید ہوچکے ہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ امریکا کی کاسہ لیسی میں اس جرنیلی قیادت نے امریکی جرائم کو بھی اپنے کھاتے میں ڈال لیا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستانی فوج نے اپنے بازوے شمشیر زن قبائلی علاقے کو اپنا مدمقابل بنا لیا ہے۔ جن مجاہدین نے افغانستان میں روسی اورکشمیر میں بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف تحریک مزاحمت کی مدد کی ہے، ان پر عرصۂ حیات تنگ کیا جا رہا ہے اور ان سربکف مجاہدین کو دہشت گردی کا ملزم گردانا جا رہا ہے۔ پرویز مشرف کی امریکا نوازپالیسی کی وجہ سے پاکستان نہ صرف داخلی انتشار سے دوچار ہے بلکہ اس کی سرحدیں بھی غیر محفوظ ہو گئی ہیں ، خاص طور پر مغربی سرحد جس سے پاکستان بننے کے بعد قائد اعظم نے افواج پاکستان کو واپس بلا لیا تھااور جہاں سے پرویز مشرف کی حکومت سے قبل ہمیں کوئی خطرہ نہیں تھا، آج انتہائی غیر محفوظ ہو گئی ہے۔

ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت متحدہ مجلس عمل سمیت تمام دینی اور مذہبی گروہوں کو پرویز مشرف انتہاپسندی کا طعنہ دے رہے ہیں اورعوامی جلسوں میںکھلم کھلا ان کے مقابلے میں نام نہاد اعتدال پسندوں کے لیے ووٹ مانگ رہے ہیں، حالانکہ اس طرح کی سیاسی مداخلت کی اجازت دستور پاکستان نہ آرمی چیف کو دیتا ہے اور نہ صدرِ پاکستان ہی اس کا مجاز ہے۔دستورِ پاکستان اور قانون کو بالاے طاق رکھ کر پرویز مشرف مسلسل اپنی من مانی کر رہے ہیں۔ اہم فیصلے پارلیمنٹ اور اسمبلیوں سے باہر کور کمانڈروں کی میٹنگوں اور نیشنل سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں فردِ واحد اپنی مرضی سے کر لیتا ہے۔ پارلیمنٹ اور اسمبلیاں محض نمایشی کاموں کے لیے رکھی گئی ہیں۔ اس سب کے باوجود پرویزمشرف اس خوف میں مبتلا ہیں کہ ان کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ انھوں نے کئی عوامی جلسوں میں اس کااظہار کیا ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ سازش کرنے والے کون ہیں۔

چیف جسٹس کی معطلی کیوں؟

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کراچی اسٹیل مل کے کیس میں حکومت کی مرضی کے خلاف آزادانہ فیصلہ صادر کیاتھا۔ اسی طرح انھوں نے مفقود الخبرافراد (missing persons) کے بعض لواحقین کی درخواستوں پر ہمدردانہ رویہ اختیار کیا، کئی اور معاملات میں بھی انھوں نے آزاد انہ فیصلے کیے جس کی وجہ سے پرویز مشرف نے طے کیا کہ ان کی جگہ کسی ایسے شخص کو لایا جائے جس کے بارے میں انھیں اس حوالے سے مکمل اطمینان ہوکہ وہ ان کے لیے کوئی مسئلہ کھڑا نہیں کرے گا۔ ان کے لیے یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ نومبر میں ان کی صدارت کی میعاد ختم ہورہی ہے۔ وردی میں صدر رہنے کا نام نہاد قانون بھی اس کے ساتھ ختم ہو جائے گا۔ چیف آف آرمی سٹاف کے صدر بننے کے لیے دستور کی جن دفعات کومعطل کیا گیا تھا‘وہ بھی نومبر میں بحال ہوجائیں گی۔ موجودہ الیکٹورل کالج سے صدر منتخب ہونے کی خواہش کو پورا کرنے میں بعض آئینی دفعات حائل ہیں جن کی تعبیر کا مسئلہ بھی سپریم کورٹ میں اٹھایا جا سکتا ہے۔

 سپریم کورٹ اور اعلیٰ عدالتوں کو زیر کرنے کے لیے اپنی مرضی کا چیف جسٹس ضروری ہے، اس لیے انھوں نے چیف آف آرمی سٹاف کی وردی پہن کر چیف جسٹس آف پاکستان کو آرمی ہاؤس میں رام کرنے کی کوشش کی اور خفیہ ایجنسیوں کے سربراہوں کی موجودگی میںان سے استعفے کا مطالبہ کیا۔ افتخار محمد چودھری کے مستعفی ہونے سے انکار نے پرویز مشرف کے لیے ایک نیا عدالتی بحران پیدا کیا اور ملک و قوم کے لیے عدالتوں کی آزادی کی تحریک کا ایک راستہ کھل گیا۔ وکلا برادری نے آگے بڑھ کرچیف جسٹس کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ ہم نے فوری طور پر چند بڑے سیاسی اور دینی رہنماؤں سے مشورے کے بعداسلام آباد میں ۱۲ مارچ کو ایک قومی مجلس مشاورت منعقد کی۔ اس میں ایم ایم اے، اے آرڈی اور پونم کے علاوہ تحریک انصاف اور اے این پی کے رہنماؤںنے بھی شرکت کی۔ اس اجلاس میں وکلا ، سول سوسائٹی اور مفقود الخبر افراد کے ورثا کی نمایندگی بھی تھی۔ ۹مارچ کے بعدچیف جسٹس کو اپنے گھر میں محبوس کردیا گیا تھا اور ان سے ملاقات پر پابندی تھی لیکن حکومت پابندی کا انکار کر رہی تھی۔حکومت کے اس جھوٹ کی قلعی کھولنے کے لیے ہم لوگوں نے اپنے اجلاس کے فوراً بعد چیف جسٹس کے گھر جانے کا فیصلہ کیا۔ ہمیں زبردستی وہاں جانے سے روکا گیا اور اس طرح عدلیہ کی آزادی کی تحریک عملی طور پر شروع ہو گئی۔ عدلیہ کی آزادی کی اس تحریک میں خود وکلا کی خواہش پر سیاسی جماعتوں نے بھرپور حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔

عدلیہ کی آزادی

عدل و انصاف انسانی معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے۔ جہاں عدل و انصاف ہوگا وہاں سارے مسائل خود بخود حل ہوتے رہیں گے اور تمام ادارے اپنی اپنی جگہ پر درست کام کرتے رہیں گے۔جہاں عدل و انصاف کا ادارہ ٹوٹے گا وہاں ہر ادارہ انتشار اور افراتفری کا شکار ہو جائے گا۔ اللہ رب العالمین نے تمام رسولوں اور کتابوں کے بھیجنے کا مقصد یہی بیان کیا ہے کہ تمام لوگوں کو انصاف پر کھڑا کیا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ج (الحدید۵۷:۲۵)ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔

اللہ تعالیٰ نے اللہ کے لیے کھڑے ہونے اور انصاف کی علَم برداری‘ اللہ کے لیے گواہ بننے اور انصاف کے لیے گواہ بننے کو برابر قرار دیا ہے۔فرمایا:

یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ وَ لَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَج (النساء۴:۱۳۵) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علَم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔

اسی لیے عدلیہ کی آزادی کی تحریک میںمتحدہ مجلس عمل اور جماعت اسلامی نے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا فیصلہ کیا کہ عدلیہ کی آزادی کے ساتھ تمام اداروں کی آزادی اور عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے مسائل وابستہ ہیں، اور پھر عدل و انصاف کے قیام کے لیے کھڑے ہونا ایک دینی فریضہ بھی ہے۔

عدلیہ کی بالادستی کی تحریک

فوج جب سیاسی معاملات میں مداخلت کرتی ہے تو وہ دستور اور دستور میں شامل اپنے  اس حلف کی خلاف ورزی کرتی ہے جس کے تحت وہ دستور کی پابندی اور سیاست میں مداخلت نہ کرنے کی مکلف ہے۔نام نہاد اور بدنام زمانہ نظریۂ ضرورت کے تحت سپریم کورٹ نے ہمیشہ فوج کی اس مداخلت کے لیے جواز فراہم کیا ہے حالانکہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے جج صاحبان نہ صرف دستور کی پابندی بلکہ اس کی ’حفاظت‘ کا حلف لے کر جج بنتے ہیں‘ اور عدلیہ کا فرض منصبی ہی یہ ہے کہ وہ دستور کی حفاظت اور دستور کے مطابق سب کو انصاف فراہم کرے۔ جب اعلیٰ عدالتوں کے جج اپنے حلف سے منحرف ہو کرپی سی او کا حلف اٹھا کر دستور کے بجاے فوجی سربراہ کے وفادار بن جاتے ہیں تو ملک کے ادارے تباہ اور ملک کا پورا نظام تلپٹ ہو جاتا ہے۔ اس وقت پاکستان اسی حالت سے دوچار ہے اور سپریم کورٹ جن مسائل پر غور کررہی ہے اس سے ملک کا مستقبل وابستہ ہے۔اسے بجا طور پر ’فیصلہ کن مرحلہ‘ قرار دیا گیا ہے۔ اگر سپریم کورٹ مصلحتوں کا شکار ہونے کے بجاے آزادانہ فیصلہ کرتی ہے تو ہماری قومی زندگی سے تذلیل کے وہ سارے داغ دھل جائیں گے جو جسٹس منیر کے وقت سے بار بار کی فوجی مداخلت کو نظریۂ ضرورت کے تحت جواز عطاکرنے کی وجہ سے لگے ہوئے ہیں۔ ایک اچھے فیصلے سے ہمیں نئی زندگی مل جائے گی۔

عدلیہ کی آزادی کے ساتھ دستور کی بالا دستی، قومی حاکمیت، بنیادی انسانی حقوق، پارلیمنٹ کی بالادستی، صوبائی خود مختاری اور عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے سے سارے اعلیٰ مقاصد حاصل اور سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اگر اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان دستور کے مطابق قرآن و سنت کی پابندی کرنے کے عہد کو پورا کریں گے تو اسلامی نظام زندگی اور اسلامی قوانین کے احیا کی قومی آرزو بھی آزاد عدلیہ اور صاحب ضمیر جج صاحبان کے ذریعے سے پوری ہو سکتی ہے۔ تاہم عدلیہ کی آزادی کا مقصد اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان  اعلیٰ و ارفع کردار کا مظاہرہ کریں گے اور اس ضابطۂ اخلاق کی مکمل پاس داری کریں گے جسے ان  اعلیٰ مناصب کے حامل افراد کے لیے شریعت، قانون، اخلاق اور صحت مند روایات نے معتبر قرار دیا ہے۔ ملک بھر کے عوام جس طرح وکلا کے شانہ بشانہ چیف جسٹس کی حمایت میں کھڑے ہوگئے ہیں، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام فوجی ڈکٹیٹر شپ کے مقابلے میں آزاد عدلیہ اور دستور کی پابندی کے حامی ہیں اور امریکی دباؤ اور ذاتی خواہشات کے تحت بنیادی انسانی حقوق کو پاکستان میں جس طرح پامال کیا جا رہا ہے، اس سے نفرت کرتے ہیں۔

حکومت کی بدحواسی ، ایم کیو ایم کی غنڈا گردی

آزاد عدلیہ کے حق میں عوامی حمایت کے مظاہرے سے گھبرا کرحکومت بدحواسی میں غلطی پر غلطی کر رہی ہے۔ چیف جسٹس کے راولپنڈی سے لاہور تک پرجوش عوامی استقبال کے بعد کراچی میں حکومت نے چیف جسٹس کے استقبال کو ناکام بنانے کا فیصلہ کیا۔ پرویز مشرف نے اس سلسلے میں ایم کیو ایم کا سہارا لیا اور اسے (free hand)‘ یعنی کھلی آزادی دے دی گئی کہ وہ کراچی میں اپنی تنظیمی قوت اور گروہی تائید و حمایت کے ذریعے طاقت کا متوازی مظاہرہ کرکے چیف جسٹس کی کراچی آمدکو روک دے۔ لیکن پرویز مشرف کو شاید یہ اندازہ نہیں تھا کہ کراچی میں ایم کیو ایم کی طاقت کا اصل منبع عوامی پذیرائی نہیںبلکہ گولی اور دہشت گردی کی قوت ہے۔

ایم کیو ایم کراچی میں اپنی قوت کا لوہا منوانے کے شوق میںاپنی پوری قوت سے میدان میں اتری۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں اور خفیہ اداروں کی مکمل سرپرستی اسے حاصل تھی۔ رینجرز اور پولیس نے ’اُوپر والوں‘ کی ہدایت پر خاموش تماشائی کا کردار اختیار کرکے اسے کھل کھیلنے کا ہرموقع فراہم کیا۔ الیکٹرانک میڈیا کو دہشت زدہ کرکے اسے اپنے حق میں کرنے کی پوری منصوبہ بندی  کی گئی۔ائیرپورٹ تک جانے والے سارے راستے مکمل طور پر سیل کردیے گئے اور ان راستوں پر ایم کیوایم کے مسلح تربیت یافتہ دہشت گرد کارکنوں نے مورچے سنبھال لیے۔اس کے ساتھ وہ راستے کھلے رکھے گئے جہاں سے ایم کیوایم کے جلوسوں نے گذر کر اپنی جلسہ گاہ میں پہنچنا تھا۔ دہشت کی فضا اتنی خوف ناک تھی کہ عوام کی بڑی تعداد اپنے گھروں میں دبک کر بیٹھ گئی اور ایم کیو ایم کی  عوامی قوت کا مظاہرہ بھی فلاپ ہو گیا۔ سیاسی جماعتوں کے پرجوش کارکن قربانی کے جذبے کے ساتھ مختلف مقامات پر جمع ہوئے تو ایم کیو ایم کے مسلح دہشت گردوں نے انھیں روکنے کے لیے خون کی ہولی کھیلی۔ الیکٹرانک میڈیا کو دباؤ میںرکھا گیا لیکن اس کے باوجود کراچی کے ساتھ جو خونی کھیل کھیلا جا رہا تھا وہ چھپائے نہیں چھپ سکتا تھا۔’’آج‘‘ چینل کے دفتر کے اوپر جو کیمرے لگے ہوئے تھے، ان کے ذریعے پوری دنیا مسلح غنڈا گردی اور فوج، رینجرز اور پولیس کی بے حسی کا تماشااپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ غنڈا گردی اور تشدد کی سیاست تو پہلے دن سے ایم کیو ایم کا شعار رہی ہے لیکن ۱۲ مئی ۲۰۰۷ء کو پہلی دفعہ ایم کیو ایم کی غنڈا گردی برہنہ ہو کر قوم اور پوری دنیا کے سامنے آگئی۔

ادھر اسلام آباد میںجنرل پرویز مشرف کی قیادت میں ’ق‘ لیگ عوامی طاقت کے مظاہرے کا جشن منا رہی تھی۔ میلے کا سماں تھا، سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے بے دریغ خرچ کر کے لائے ہوئے کرائے کے لوگوں کو پورے ملک سے جمع کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن وہ ایک جگہ بیٹھ کرتقریر سننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ کچھ لوگ تو کراچی کے قتل عام سے باخبر تھے اور حاضری لگوا کر واپس جا رہے تھے اور کچھ لوگ اسلام آباد کی سیر کے لیے مختلف مقامات میں بکھرے ہوئے تھے۔ جلسہ گاہ سے بڑھ کر حاضری فیصل مسجد کے اطراف میں نظر آرہی تھی۔پرویز مشرف نے اسلام آباد میں اپنی تقریر میں بڑھک ماری کہ کراچی میں’عوامی طاقت‘ سے ہم نے چیف جسٹس کے دورے کو ناکام بنا دیا۔ انھیں شاید اندازہ نہیں تھا کہ کراچی میں ایم کیوایم کی عوامی طاقت کا جنازہ نکل چکا تھا۔ پوری قوم کے سامنے وہ ایک فاشسٹ اور دہشت گرد تنظیم کے طور پر برہنہ ہو چکی تھی اور ایم کیوایم کی کھلی سرپرستی کے مظاہرے سے خود پرویزمشرف بھی دہشت گرد تنظیم کے سرپرست کے طور پر عریاں ہو چکے تھے۔تقریباً ۵۰شہدا اور سیکڑوں زخمیوں اور ایم کیوایم کے ظالمانہ رویے سے پوری قوم سوگوار تھی۔چنانچہ ۱۳ مئی کو یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا گیالیکن ہم نے عوام کے صدمے اور غم و جذبات کے اظہار کے لیے قومی رہنماؤں کے مشورے سے ۱۴ مئی کو پورے ملک میں عام ہڑتال کی اپیل کی،جس کا قوم نے مثبت جواب دیا اور ۱۴ مئی کو پورے ملک کے بازار اور سڑکیں سنسان ہو گئیں۔

ایم کیو ایم ۱۲ مئی کے واقعات کے بعد منہ چھپاتی پھر رہی ہے اور اپنی روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہر ہ کرنے میں بھی ناکام ثابت ہوچکی ہے ۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے مغربی دنیا میں اپنے تعارف کا فائدہ اٹھاتے ہوئے برطانیہ کے ایوانوں میں الطاف حسین کا اصل چہرہ دکھانے کی کوشش کی ہے اور اگر وہ الطاف حسین کو برطانیہ کی عدالتوں میں لانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ان کی دہشت گردی کا شکار ہونے والے مظلوموں کی فریاد سننے کا دروازہ کھل جائے گا ۔ ان کی دہشت گردی کا شکار ہونے والے ہزاروں افراد میں ان کے سیاسی مخالفین کے علاوہ ایک بڑی تعداد خود ان کی اپنی پارٹی کے کارکنوں کی بھی ہے جو اپنی فریاد کے لیے کسی موقع کے منتظر ہیں ۔

 عوام نے وکلا کے ساتھ تحریک میں پوری طرح اپنی شمولیت کا برملا اظہار کیاتو میڈیا نے اس حقیقت کو چھپانے کے بجاے اس کی بھرپور کوریج کا اہتمام کیا۔ اس پر ’آج‘، ’جیو‘ اور     ’اے آروائی‘ پر خصوصی دباؤ پڑنے لگا اور اس کے ساتھ کیبل کے مالکان کو دھونس اور دھمکی کے ذریعے آزاد چینلوں کو بلیک آئوٹ کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اس سب کے باوجود جب ان اداروں کے خلاف غنڈا گردی کا ہر حربہ ناکام ہوچکا تو پھر ایک نیاوار پیمرا کے قوانین میں ترمیمی آرڈی ننس کی مکروہ شکل میں کیا گیا۔ یہ حکومت کی بدحواسی کا ایک اور مظاہرہ تھا۔، اس کے بعدوکلا کے ساتھ صحافی برادری بھی کھل کر میدان میں نکل آئی۔

مجلسِ عمل کی تحریک

اس فضا میں متحدہ مجلس عمل کی پوری مرکزی قیادت نے راولپنڈی سے گوجرانوالہ، گوجرانوالہ سے فیصل آباد اور فیصل آباد سے لاہور تک کا تین روزہ تاریخی ’روڈکارواں‘ چلایا، جس کی عوامی پذیرائی کا مظاہرہ پوری قوم کے سامنے آگیا۔موجودہ عوامی تحریک کے دو بڑے مراحل ہیں۔ پہلے مرحلے میں اپوزیشن کی تمام جماعتیں متفقہ طور پر مطالبہ کررہی ہیں کہ:

۱۔   پرویز مشرف اور حکمران ٹولہ استعفا دے۔

۲۔   قومی اتفاق راے سے ایک عبوری حکومت قائم ہو۔

۳۔  دستور کو اکتوبر۱۹۹۹ء کے پہلے والی صورت میں بحال کردیا جائے۔

۴۔  آزاد الیکشن کمیشن کی تشکیل کر کے منصفانہ انتخابات کی راہ ہموار کی جائے۔

دوسرے مرحلے میں انتخابات میں ہر جماعت اپنے اپنے منشور کے ساتھ انتخاب لڑے اور انتخابات جیتنے والی اکثریت کو حکومت کرنے کا موقع دیا جائے جو آئین و قانون کی حدود میں رہ کر حکومت کرنے کا حق استعمال کرے۔

ان مطالبات کو روبۂ عمل لانے کے لیے متفقہ جدوجہد کی ضرورت ہے لیکن بوجوہ اب تک پیپلزپارٹی اس طرح کے اتحاد کا حصہ بننے سے کترا رہی ہے ۔ لیکن اس کا یہ رویہ نہ عوام میں مقبول ہے اور نہ پیپلز پارٹی کے کارکن ہی کھل کر اس رویے کی حمایت کرسکتے ہیں ۔ اگر پیپلز پارٹی کی قیادت اپنے اس رویے پر قائم رہتی ہے تو عوا م اس کو پرویز مشرف کے ساتھ خفیہ ڈیل کا حصہ سمجھیں گے۔ متحدہ مجلس عمل اور پیپلزپارٹی کے پروگرام اور داخلہ و خارجہ پالیسیوں میں بنیادی اختلاف ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کھل کر امریکا کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہے اور پرویز مشرف کے ساتھی جرنیلوں پر ’اسلامی دہشت گردوں‘ کاساتھ دینے کا الزام عائد کررہی ہے ۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ امریکا اور بھارت کے ساتھ تعلقات کے آئینے میں اپنے مستقبل کا اقتدار دیکھ رہی ہیں اور ان دونوں طاقتوں کو ابھی سے یقین دلانے کی کوشش کررہی ہیں کہ وہ پرویز مشرف سے بھی بہتر اتحادی ثابت ہوسکتی ہیں لیکن اس طرح وہ عوامی تائید سے محروم ہو رہی ہیں۔ اگر بے نظیر صاحبہ نے اپوزیشن کی دوسری جماعتوں کی بار بار کی دعوت کو نظر اندار کرتے ہوئے اپنا الگ راستہ بنانے کی کوشش جاری رکھی تو خود ان کی پارٹی کے لیے یہ رویہ نقصان دہ ثابت ہوگا۔

عدلیہ، وکلا، صحافی برادری اور سیاسی اور دینی جماعتوں کے تحرک کے نتیجے میں پرویز مشرف اور ان کی حکومت بد حواسی کا شکار ہے ۔ پرویز مشرف نے برسرعام حکمران جماعت سے شکایت کی ہے کہ انھیں میدان میں اکیلاچھوڑ دیا گیا ہے اور حکمران جماعت خود اپنی بقا کے لیے بھی میدان میں اترنے سے کترا رہی ہے ‘ جب کہ وزیراعظم شوکت عزیز نے کہاہے کہ حکمران جماعت کے بعض ارکان اپوزیشن کے ساتھ ملے ہوئے ہیں‘ نیز سپریم کورٹ میں حکومتی وکیل ملک قیوم نے کہاہے کہ ریفرنس کا فیصلہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے حق میں ہوجائے تو وزیر اعظم شوکت عزیز کو استعفا دے دینا چاہیے ۔ یہ رویہ ظاہر کرتاہے کہ پرویز مشرف حکومت کا چل چلائو ہے اور انھیں اپنے چاروں طرف سازشیں اور سازشی عناصر نظر آرہے ہیں۔ ایسے وقت میں کور کمانڈروں کا اجلاس طلب کرکے آئی ایس پی آر کی طرف سے سیاسی بیا ن جار ی کروانا کمزوری کی علامت ہے ۔ فوجی کمانڈروں کا اس نوعیت کا ایک بیان ذوالفقار علی بھٹو کے آخری ایام میں بھی جاری ہواتھا لیکن کسی ڈکٹیٹر کے آخری ایام میں اس طرح کے بیانات سے کوئی بھی مرعوب نہیں ہوتا۔

ملک میں ایمرجنسی یا نیا مارشل لا نافذ ہونے کے خطرے کااظہار کیا جارہا ہے لیکن ملک کی موجودہ بحرانی کیفیت کا علاج مارشل لا یا ایمرجنسی نہیں ہے کیونکہ ملک میں پہلے ہی فوجی آمریت ہے اور بحران کا بڑا سبب بھی یہی ہے۔ اگر کوئی فوجی جرنیل نئے مارشل لا کے نفاذ کی حماقت کرے گا تویہ خود فوج کے حق میں سمِ قاتل ثابت ہوگا اور فوج اور عوام میں جو خلیج حائل ہوچکی ہے اس میں اضافے کا سبب بنے گا۔

مجلسِ عمل سرحد کی کارکردگی

عام انتخابات کے حوالے سے صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت کی کارکردگی ہر مجلس میں موضوع سخن رہتی ہے۔ اگرچہ فوجی حکومت کی وجہ سے آئین عملاً معطل ہے اور صوبوں کو آئین کے عطاکردہ اختیارات حاصل نہیں ہیں۔ چیف سیکرٹری اور آئی جی پی کے دو بڑے اور اہم مناصب پر مرکز اپنی صواب دید سے اشخاص کی تعیناتی کرتا ہے اور انھیں مرکز سے براہ راست ہدایات بھی ملتی رہتی ہیں۔ واپڈا کے ذمے صوبائی حکومت کے رائلٹی کے واجبات کی ادایگی سے کھلم کھلا پہلوتہی کی جارہی ہے لیکن اس کے باوجود صوبہ سرحد نے ہرمیدان میں ترقی کی ہے۔

 صحت اور تعلیم کے دو اہم شعبوں کا سابقہ ادوار کی کارکردگی سے موازنہ کیا جائے تو مجلس عمل کی حکومت کی اچھی کارکردگی بالکل واضح ہوجاتی ہے۔ بچیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ خواتین کے لیے الگ میڈیکل کالج قائم کیا گیا ہے اور الگ اسکولوں کی سہولت کے پیش نظر اسکول جانے والی بچیوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ہرضلعی ہیڈکوارٹر میں اعلیٰ درجے کی سہولتوں کے ساتھ ایک بڑا ہسپتال تعمیر کرنے کا کام جاری ہے۔ ایک آسان اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ صحت پر سالانہ ترقیاتی اخراجات سابقہ ادوار میں ۳۰ کروڑ روپے سے آگے نہیں بڑھ سکے تھے‘ جب کہ مجلس عمل کی حکومت میں صحت کے شعبے کا ترقیاتی بجٹ ۳ ارب ۱۳ کروڑ تک پہنچ گیا ہے۔ صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت سے قبل کالجوں کی کل تعداد ۱۳۴ تھی‘ جب کہ گذشتہ چارسالوں میں ۸۰ نئے کالج تعمیر کیے گئے۔

سب سے اہم اور نمایاں تبدیلی حکومتی ایوانوں میں کلچر اور ثقافت کی تبدیلی ہے۔ گورنمنٹ ریسٹ ہائوس سابقہ ادوار میں عیاشی کے اڈے ہواکرتے تھے۔ اب یہ سادگی اور پاکیزگی کا نمونہ ہیں۔ وزرا باقاعدہ مساجد میںحاضری دیتے ہیں۔ لوگوں کے ساتھ گھلے ملے ہوئے ہیں۔ دفاتر میں عوام کا آزادانہ آنا جانا ہے اور حکومتی ایوانوں میں صوم و صلوٰۃ کی پابندی کی وجہ سے عوام اور خواص میں حائل پردے ہٹ گئے ہیں۔ دینی جماعتوں کی باہمی آویزش ختم ہونے کی وجہ سے عوام نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کے مقابلے میں کسی علاقائی یا سیکولر سیاسی تنظیم کی کوئی حیثیت نہیںہے۔ ایم ایم اے اگر داخلی طور پر مضبوط اور مستحکم ہو تو کوئی دوسری جماعت انتخابات میں اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔

ایم ایم اے کی اس کارکردگی سے گھبرا کر عالمی قوتوں نے صوبہ سرحد میں بدامنی اور انتشار پھیلانے کی مذموم سازشیں شروع کردی ہیں۔ پہلے مرحلے میں قبائلی علاقوں میں میزائل حملوں اور بم باریوں کے ذریعے معصوم اور بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔ خاص طور پر باجوڑ اوروزیرستان میں بم باری کی گئی۔ خیبر ایجنسی میں عوام کو تقسیم کرنے کے لیے پیر اور مفتی کا جھگڑا کھڑا کیا گیا۔ ہنگو‘ پاراچنار اور ڈیرہ اسماعیل خان میں شیعہ سنی کی تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی گئی‘ اور بعض علاقوں میں کچھ دینی عناصر کے ذریعے متشدد طالبان کا رنگ اُبھارنے کی کوشش کی گئی جو بم دھماکوں‘ دھمکی آمیز خطوط اور تشدد کی کارروائیوں کے ذریعے صوبے میں بدامنی اور افراتفری کی فضا پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ جو افراد ان کارروائیوں میں ملوث ہیں ان کا بعض حکومتی ایجنسیوں کے ساتھ تعلق صوبائی حکومت پر واضح ہے‘ اور اس کے شواہد موجود ہیں کہ ان کی سرپرستی مرکزی حکومت کی ایجنسیوں کی طرف سے ہو رہی ہے۔

ایم ایم اے کے گرد تمام مسلمانوں کے متحد ہونے کے خدشے کے پیش نظر عالمی طاقتوں اور پرویز مشرف کی حکمت عملی ہوگی کہ خود مذہب کی بنیاد پرایم ایم اے کے لیے دوسرے حریف پیدا کیے جائیں اور انھیں منظم کیا جائے۔ ان گروہوں میں ایک گروہ وہ ہے جو لوگوں کو ووٹ دینے اور انتخابی عمل میں شریک ہونے سے منع کرتا ہے۔ ایک گروہ کو فرقہ وارانہ بنیاد پر منظم کرکے مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی کوشش ہورہی ہے۔ اسی طرح کے اوچھے ہتھکنڈوں کے باوجود متحدہ مجلس عمل کے گرد لوگ اکٹھے ہورہے ہیں اور صوبہ سرحد کے بعد اب پنجاب کے عوام میں ایم ایم اے کو پذیرائی مل رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں پنجاب میں کامیاب علما و مشائخ کانفرنسوں کا انعقاد اور مجلس عمل کے مرکزی رہنمائوں کا تین روزہ کارواں ایک روشن مستقبل کا اشارہ دے رہے ہیں۔

مجلسِ عمل پر اعتراضات

گرینڈ اپوزیشن الائنس کے لیے جب اپوزیشن جماعتوں کو دعوت دی جاتی ہے تو مجلس عمل پر مخالفین کی طرف سے دو اہم اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں۔ پہلا اعتراض ۱۷ویں آئینی ترمیم میں حکومت کا ساتھ دینے کا ہے‘ اور دوسرا اعتراض بلوچستان کی حکومت میں ’ق ‘ لیگ کا حلیف ہونے کا ہے ۔

سترھویں ترمیمی بل پر حکومتی پارٹی سے مفاہمت اور بلوچستان میں ق لیگ سے اتحاد بنیادی طور پر اس کمزوری کی علامت ہیں جو ملٹری سویلین اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے باہمی گٹھ جوڑ کی وجہ سے سیاسی اور دینی جماعتوں کو لاحق ہے۔ جب تک عوامی بیداری کے نتیجے میں عدل وانصاف پر مبنی بنیادی تبدیلی رونما نہیں ہوتی ہمارا ملک اس نوعیت کی مشکلات اور الجھنوں سے دوچار رہے گا ۔ ہم نے سترھویں ترمیمی بل کے موقع پر جو مفاہمت کی تھی‘ اس وقت ہمارا خیال تھا کہ اس طرح ہم نے پرویز مشرف کو آئینی طور پر چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے سے دستبردار کرکے جمہوریت کی طرف قدم آگے بڑھایا ہے‘ لیکن جو لوگ طاقت کے بل بوتے پر حکمران بن جاتے ہیں وہ اپنی مرضی سے نہیں جاتے۔ انھیں قانون اور عہدوپیمان کا کوئی پاس نہیں ہوتا‘ اور اپنے مفادات کے حصول کے لیے وہ بڑی سے بڑی بدعہدی سے بھی باز نہیں رہتے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے اور سترھویں ترمیم کے باب میں بھی ہمیں اور پوری قوم کو یہی تجربہ ہوا۔

 ہم نے نیک نیتی سے ایک کام کیا تھا مگر فی الحقیقت ہمیں اور پوری قوم کو بلکہ پوری دنیا کو دھوکا دیا گیا۔جب ہم نے دھوکا کھانے پر معذرت کی تو ہمارے کچھ ساتھیوں نے دلیل پیش کی کہ دھوکا کھانا گناہ نہیں ہے بلکہ دھوکا دینا گناہ ہے۔ اس لیے ہم کس بات کی معذرت پیش کریں لیکن دھوکا دینے والوں کے ساتھ بلوچستان حکومت میں شریک رہنے کی ہمارے پاس کوئی قوی دلیل نہیں ہے۔ اگرچہ اس بارے میں بھی کہا جاتاہے کہ اگر ہم حکومت سے نکل آئیں تو گویا گورنر راج ہوگا یا نیشنلسٹ قوتیں شریک اقتدار ہو کر مزید مشکلات پیدا کریں گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر سیاسی مسئلے کے کئی رخ ہوتے ہیں اور جس رخ کو بھی اختیار کیا جائے اس کے لیے دلائل فراہم کیے جاسکتے ہیں۔ اگر ہم عدلیہ اور فوجی ٹولے کے درمیان موجودہ آویزش میں عوام کو منظم کرکے عدلیہ کی آزادی کا راستہ کھول سکیں تو ہمیں اس طرح کے جوڑ توڑ (compromises)کرنے کی ضرورت    باقی نہیں رہے گی۔ اللہ پر بھروسے اور صراط مستقیم پر چل کر ہر طرح کی مشکلات کا مقابلہ کرنا اور   حق و باطل کے درمیان ہر طرح کی شراکت سے گریز کرنا ہی سیدھا راستہ ہے جس کی نشان دہی علامہ اقبال ؒنے اپنی اس دل نشیں نظم میں کی ہے :

تازہ پھر دانش حاضر نے کیا سحر قدیم
گزر اس دور میں ممکن نہیںبے چو ب کلیم

عقل عیار ہے‘ سو بھیس بنا لیتی ہے
عشق بے چارہ نہ زاہد ہے نہ ملا نہ حکیم

عیش منزل ہے غریبان محبت پہ حرام
سب مسافر ہیں بظاہر نظر آتے ہیںمقیم

ہے گراں سیر غم راحلہ و زادسے تو
کوہ و دریا سے گزر سکتے ہیں مانند نسیم

مرد درویش کا سرمایہ ہے آزادی ومرگ
ہے کسی اور کی خاطر یہ نصاب زر و سیم

عزیمت کے اس راستے پر چلنے کے لیے ایم ایم اے کے سب ساتھیوں کو آمادہ کرنا ضروری ہے ۔ وقتی اختلاف راے پر علیحدگی اختیار کرنے یا کسی کو علیحدہ کرنے کے بجاے صبراور حکمت سے معاملات کو سلجھانا بہتر ہے اور یہی جماعت اسلامی اور ایم ایم اے کی دوسری جماعتوں کی پالیسی ہے۔ اس راستے میں مشکلات ہیں لیکن ہر مشکل کو حل کرنے کے لیے راستہ موجود ہے   ؎

مشکلے نیست کہ آساں نہ شو د
مردباید کہ ہراساں نہ شود

(ایسی کوئی مشکل نہیں ہے جو آسان نہ ہوسکے۔ مرد کو چاہیے کہ ہروقت حوصلہ مند رہے۔)

پشتو میں مثل ہے کہ ’’پہاڑ کی چوٹی اگرچہ بلند ہے لیکن اس کے اوپر راستہ ہے‘‘۔ ان شاء اللہ وقت آرہاہے کہ مومنانہ بصیرت ،باہمی اتحاداور اللہ پر توکل کے ذریعے دشمنوں کے مکر و فریب کا پردہ چاک ہوجائے گا اور اسلامی قوتیں کامیاب و کامران ہوں گی‘ کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے :

جَآئَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُط  اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا o

(بنی اسرائیل۱۷:۸۱)  اور اعلان کردو کہ ’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے‘‘۔

بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُہٗ فَاِذَا ھُوَ زَاھِقٌ ط (الانبیاء۲۱:۱۸) مگر ہم تو باطل پر حق کی چوٹ لگاتے ہیں جو اس کا سر توڑ دیتی ہے اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے مِٹ جاتا ہے۔

یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاھِہِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَo (الصف ۶۱:۸) یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں‘ اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو   یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔

اس آیت کا حوالہ دے کر علامہ اقبال ایمان کامل کے ساتھ فرماتے ہیں :    ؎

تاخدا اَنْ یُّطْفِئُوْا فرمودہ است
از فسردن ایں چراغ آسودہ است

(جب اللہ تعالیٰ نے کہہ دیا ہے کہ یہ اللہ کا روشن کردہ چراغ ہے تو اس چراغ کو بجھنے کا کوئی خطرہ درپیش نہیں ہے)

کچھ لوگ درحقیقت ایم ایم اے کے اتحاد کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ اس معذرت کو  بنیاد بناکر ایم ایم اے کی یک جہتی پر ضرب لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ  ایم ایم اے کی دو بڑی جماعتوں کی سیاسی حکمت عملی میں کچھ امور پر اختلاف موجود ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی ان وقتی اختلافات کی بنیاد پر ایم ایم اے کے اتحاد کو توڑنا نہیں چاہتی ہے ۔ اگر ایم ایم اے کے فوائد اور اس کی مشکلات کا موازنہ کیا جائے تو اس کے فوائد کہیں زیادہ اور دور رس مثبت نتائج کے حامل ہیں اور دینی جماعتوں کی یہ یکجہتی پورے مسلم معاشرے کو اغیار کی سازشوں سے بچانے اور اسے اصل چیلنج کی طرف متوجہ کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہے ۔ ایم ایم اے کی دعوت پر کامیاب قومی مجلس مشاورت کے بعددرج ذیل چھے افراد پر مشتمل ایک قومی رابطہ کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیاگیا جو آگے کی سیاسی تحریک کا نقشہ بنائے گی اور ان شاء اللہ عوامی تحریک کی رہنمائی کرے گی: قاضی حسین احمد‘ راجا ظفر الحق‘ مولانا فضل الرحمن‘ عمران خان‘ اسفند یار ولی خان‘ محمود خان اچکزئی۔

تبدیلی کی حکمت عملی

۷ اور۸جولائی کو اے آرڈی کی طرف سے میاں نوازشریف نے لندن میں اپوزیشن جماعتوں کی ایک کانفرنس بلائی ہے ۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی طرف سے ابھی سے شرکت سے معذرت آئی ہے ۔ پیپلز پارٹی کا وفد شرکت کرے گا لیکن اب تک کے تجربے سے یہ ثابت ہے کہ بے نظیر صاحبہ کی عدم موجودگی میں پیپلز پارٹی کا کوئی بھی وفد فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس لیے ہوسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کو نظرانداز کرکے فیصلے کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہے۔مسلم لیگ (ن) عرصے سے پیپلز پارٹی کے ساتھ چلنے میں مشکلات سے دوچار ہے لیکن اسے چھوڑ کر الگ راستہ اختیار کرنا بھی اس کے لیے بوجوہ مشکل ہے ۔ اپوزیشن اور ملک کے سیاسی مستقبل کے لیے بھی مفید راستہ یہ ہے کہ دستور کی بالادستی ،عدلیہ کی آزادی اور فوجی آمریت سے نجات کی جدوجہد میں زیادہ سے زیادہ قومی اتفاق راے پیدا کرنے کی کوشش کی جائے ۔ اس کی ایک بار پھر پوری کوشش ہونی چاہیے لیکن وقت اس بات کا تقاضا کر رہا ہے کہ اب فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے اور انتظار اور مزید کوشش کے لیے کوئی گنجایش باقی نہیں رہی ہے۔ اس لیے اب یکسوئی اختیار کرنا اور عملی جدوجہد کو مہمیز دینا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔

ایک مستحکم اسلامی سیاسی جمہوری پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ دستور اور قانون کی بالادستی قائم کی جائے۔ عدلیہ کی آزادی یقینی بنا دی جائے اور عوام کو دینی تشخص رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے ساتھ وابستہ کیا جائے۔ عوام کی تنظیم کے بغیر دستور کی بالادستی اور عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانا ممکن نہیں ہے۔ متحدہ مجلس عمل میں شامل جماعتوں کی جڑیں عوام میں گہری ہیںلیکن مشترکات پر متحدہونے کے باوجودجماعت اسلامی کے سوا باقی جماعتیں اب تک اپنے اپنے مسلک کے دائرے سے اوپر نہیں اٹھ سکیں۔جماعت اسلامی اگرچہ اپنی تنظیمی قوت اور کارکنان کی اعلیٰ مقاصد کے ساتھ وابستگی کے سبب ایک مضبوط سیاسی جماعت ہے اور الحمدللہ عوام میں اچھی شہرت اور پذیرائی رکھتی ہے لیکن بڑے پیمانے پر عوام کو اپنے ساتھ وابستہ کرنے اور عام آدمی کو یہ یقین دلانے میں کہ ’جماعت اسلامی اس کی ہے اور وہ جماعت اسلامی کا ہے‘ابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام کچھ مدت پیش تر ممبر سازی مہم اور محلہ وار رابطہ کمیٹیوں کے قیام کے ذریعے شروع کیا گیا تھا لیکن نامکمل رہ گیا تھا۔ اب جماعت نے نئے سرے سے اس کا آغاز کردیا ہے۔

اگر ہم ۱۵ کروڑ کی آبادی میں ۱۰ فی صد یعنی ڈیڑھ کروڑ مرد اور خواتین کو ممبر بنا کر رابطہ کمیٹیوں کے ذریعے منظم کر سکیںاور مجلس عمل کی دوسری جماعتیں بھی اپنے اپنے دائرے میںمنظم اور عوامی پذیرائی حاصل کرلیں‘ اور ساتھ ہی ہم اس میں کامیاب ہوجائیں کہ مجلس عمل میں شامل جماعتوںکے افراد کو قدر مشترک اور درد مشترک پر جمع کرکے ایک جماعت ہونے کا احساس ابھار سکیں‘ اور دین کے ساتھ وابستگی رکھنے والے تمام افراد میں’ترجیحات‘ کے بارے میں صحیح فہم اور یکسوئی پیدا کرسکیں کہ وہ فروعی اختلافات سے اٹھ کر اعلاے کلمۃاللہ کے مقصد پر متحد ہوجائیں اور قرآن و سنت کی مشترک بنیاد کو مرکز و محور بنا کر آپس میں ایک دوسرے کی تعبیر کو تسلیم کر لیں‘ اور ایک دوسرے کے لیے دل میں جگہ پیدا کر لیں تو متحدہ مجلس عمل ایک مستحکم اسلامی‘ جمہوری‘ فلاحی اور وفاقی پاکستان کی تعمیر میں اہم کردار اداکرسکتی ہے۔ اس کے لیے قیادت اور کارکنوں کا اخلاص اور للہیت سب سے بڑا وسیلہ ہے۔ اخلاص اور للہیت سے ہی قربانی کا جذبہ اور محنت شاقہ کی عادت پنپ  سکتی ہے۔

پوری اسلامی دنیا میں ہر جگہ عوام دینی طور پر بیدار ہو رہے ہیں اور اغیار کی سازشوں سے باخبر بھی ہورہے ہیں کیونکہ میڈیا کے اس دور میںکوئی بھی بات چھپی ہوئی نہیں رہ سکتی۔ امریکی دانش ور جس طرح مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کے منصوبے پیش کررہے ہیں اور مسلمانوں ہی میں سے اپنے ڈھب کے لوگوں کو منظم کرنے اور انھیں مسلمانوں کے خلاف میدان میں لانے کی تیاری کررہے ہیں‘ وہ انفارمیشن ٹکنالوجی کے عام ہونے کی وجہ سے مسلمان نوجوانوںسے مخفی نہیں ہیں۔ اگرچہ فحش اور بے حیائی عام کرنے اور مسلمانوں کی نئی نسل کو اس کے ذریعے بے ہمت اور بودہ بنانے کی کوششیں بھی بڑے منظم انداز میں اور بڑے پیمانے پر ہورہی ہیں لیکن مسلمانوں کی بڑی اکثریت حالات حاضرہ اور سیاسی تجزیوں پر مشتمل پروگراموں میں دل چسپی لینے لگی ہے۔

اس رجحان کی وجہ سے آمرانہ فوجی حکومت کو پیمرا آرڈیننس میں ایسی ترامیم کرنی پڑی ہیں جو اظہار راے اور پریس کی آزادی کے منافی ہیں۔ اس ترمیمی آرڈی ننس کے خلاف جو   شدید ردعمل صحافی برادری میں نمودار ہوا‘ حکومت اس سے گھبرا گئی اور پرویز مشرف کو پسپائی اختیار کرکے اس ترمیم کو واپس لینا پڑا۔ تاہم حالیہ عوامی بیداری اور خاص کر ۱۲ مئی کو ایم کیو ایم اور   پرویز مشرف کا دہشت گرد چہرہ لوگوں کو دکھانے میں میڈیا نے جو کردارادا کیا ہے اور اب تک بڑی حد تک میڈیا اپنے اس آزادانہ کردار پر قائم ہے‘ وہ عوامی بیداری کے ایک نئے دور کی نوید سنا رہا ہے۔ علامہ اقبالؒ نے ۱۹۰۷ء میں اسلام کے روشن مستقبل کی جو خوش خبری سنائی تھی‘ اس میں بھی ’بے حجابی‘ اور تمام حقائق کے آشکارا ہونے کا ذکر ہے:

زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدارِ یار ہوگا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہوگا

سنا دیا گوشِ منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر
جو عہد صحرائیوں سے باندھاگیا تھا پھر استوار ہوگا

نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا

ان حالات میں ہمارا پیغام صرف ایک ہے۔ اس نازک اور فیصلہ کن لمحے میں کوئی باشعور مسلمان خاموش تماشائی نہیں بن سکتا۔ یہ وقت اپنی آزادی‘ اپنے ایمان‘ اپنی شناخت‘ اپنی  تہذیب و ثقافت اور اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کی حفاظت کی جدوجہد میں سردھڑ کی بازی لگادینے کا وقت ہے۔ یہ وقت فیصلہ‘ یکسوئی‘ جدوجہد اور قربانی کا وقت ہے‘ اور اللہ سے اپنے کیے ہوئے عہدوفا کو پورا کرنے کا وقت ہے۔ جماعت اسلامی اور متحدہ مجلس عمل پوری قوم کو اس ملک عزیز کی بقا‘ استحکام اور اس کے نظریاتی کردار کی ادایگی کی اس تاریخی جدوجہد میں بھرپور شرکت کی دعوت دیتی ہے    ؎

یہ گھڑی محشر کی ہے‘ توعرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل اگر کوئی عمل دفتر میں ہے

 

۹ مارچ ۲۰۰۷ء پاکستان کی تاریخ میں ایک سیاہ دن کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس دن ایک جرنیل نے اقتدار کے نشے میں ملک کے چیف جسٹس کو کئی گھنٹے اپنے کیمپ آفس میں قید رکھنے کے بعد بڑی رعونت سے معطل کردیا اور دستور کے واضح احکام کے برعکس ایک قائم مقام چیف جسٹس مقرر کردیا۔ کراچی اور لاہور سے ججوں کو ہوا کے دوش پر اسلام آباد لاکر اپنی مرضی سے ایک سپریم جوڈیشل کونسل قائم کردی جسے ناشایستہ عجلت (indecent haste) کے ساتھ دستوری چیف جسٹس کے خلاف ایک ریفرنس سے بھی نواز دیا گیا اور اس کونسل نے چشم زدن میں چیف جسٹس کے غیرفعال (non functional) کیے جانے پر مہرتصدیق ثبت کردی۔ اس طرح عملاً فوجی قیادت کے ہاتھوں عدلیہ کے خلاف ایک کودِتا (coup d'e'tat) واقع ہوگیا۔

پاکستان ہی نہیں‘ مہذب دنیا کی تاریخ میں نظامِ عدل کے خلاف ایسے کمانڈو ایکشن کی مثال نہیں ملتی۔ پھر چیف جسٹس کو اس طرح من مانے طور پر معطل ہی نہیں کیا گیا بلکہ اس کے ساتھ سخت ہتک آمیز رویہ اختیار کیا گیا۔ اسے زبردستی سپریم کورٹ جانے سے روک دیا گیا۔ اس کی کار اور گھر پر سے قومی اور چیف جسٹس کا جھنڈا اُتار دیا گیا۔ گھر پر پولیس اور رینجرز کی ایک بڑی نفری لگادی گئی۔ سارے راستے بند کردیے گئے‘ گھر سے لفٹر کے ذریعے گاڑیاں اٹھا لی گئیں۔ ٹیلی فون‘ ٹی وی اور انٹرنیٹ سے رشتے منقطع کردیے گئے اور ایک دہشت کی فضا قائم کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس لام بندی کے نتیجے میں فطری طور پر کچھ لمحات کے لیے پورے ملک پر سکتے کی سی کیفیت طاری ہوگئی لیکن پھر جلد ہی دکھ‘ حیرت اور افسوس اور غم و غصے کے بادل چھٹنے لگے۔

 جیسے ہی عوام و خواص کو معلوم ہوا کہ چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری نے عدلیہ پر حملہ آور ہونے والوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کردیا ہے اور اپنی اور عدلیہ کی عزت کی حفاظت کے عزم اور جرأت کا اظہار کیا ہے تو پوری قوم ایک نئے جذبے سے چیف جسٹس کے ساتھ یک جہتی کے اظہار اور عدلیہ کی آزادی‘ عزت اور وقار کی تائید‘ دستور اور قانون کی بالادستی اور فسطائی قوتوں کی دراندازیوں کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوئی اور یک زبان ہوکر انصاف اور جمہوریت کے تحفظ کے لیے سرگرم ہوگئی___ اور ۹ مارچ کے بعد کا ہر دن گواہ ہے کہ ملک کے گوشے گوشے میں وکلا‘ سیاسی اور دینی جماعتیں‘ صحافی‘ تاجر‘ طلبہ‘ غرض سوسائٹی کے تمام ہی طبقے جرنیلی آمریت کے اس وار کا بھرپور توڑ کرنے کی ملک گیر جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور ریاستی دہشت گردی اور پولیس اور رینجرز کی گولیوں اور لاٹھیوں کا پُرامن اور پُرعزم انداز میں مقابلہ کر رہے ہیں۔ حکمرانوں کو توقع تھی کہ وہ چیف جسٹس کو یوں دبوچ کر عدلیہ کو اپنی گرفت میں لے آئیں گے اور الیکشن کے اس فیصلہ کن سال میں اپنی من مانی کرنے کے لیے بگ ٹٹ کارفرمائیاں کرسکیں گے لیکن وہ اپنی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ تعالیٰ کی تدبیر کچھ دوسری ہی تھی___ جو کام انھوں نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے اور عدالت کے مقدس ادارے کو اپنی خواہشات کے تابع کرنے کے لیے اٹھایا تھا‘ وہی ان کے زوال اور ان شاء اللہ بالآخر مکمل ناکامی کا وسیلہ بن گیا۔ وَ یَمْکُرُوْنَ وَ یَمْکُرُ اللّٰہُ ط وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَo  (الانفال ۸:۳۰) ’’وہ اپنی چالیںچل رہے تھے‘ اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا‘ اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے‘‘۔

ایک اھم تاریخی واقعہ

جس طرح عدلیہ پر جرنیلی آمریت کے اس حملے کے جواب میں وکلا برادری اور ملک کی تمام ہی دینی‘ سیاسی‘ سماجی اور تجارتی قوتیں اُٹھ کھڑی ہوئی ہیں‘ اس سے ایک اہم تاریخی واقعے کی یاد تازہ ہوگئی جس میں آج کے پاکستان اور اس میں ہونے والی اس کش مکش کے لیے جو حکمرانوں اور عوام میں برپا ہے‘ بڑا سبق ہے۔

یہ واقعہ ساتویں صدی ہجری کے وسط (۶۳۹ھ) کا ہے جب مصر پر مملوک (خاندانِ غلاماں) حکمران تھے اور محض قوت کی بنیاد پر قانونی ضابطوں اور فقہی احکام کو پامال کر رہے تھے۔ اس زمانے میں ایک صاحبِ عزیمت قاضی شمس العلماء شیخ عزالدین عبدالسلامؒ نے ایک سنہری مثال قائم کرکے اسلام کے اصولِ حکمرانی اور نظامِ عدل کو نئی زندگی عطا کی۔ شیخ کا تعلق اصلاً بلادِشام سے تھا اور اپنے علم اور تقویٰ کی وجہ سے اسلامی دنیا میں شہرت رکھتے تھے۔ جب وہ مصر آئے تو الملک الصالح نجم الدین نے ان کو قضا (عدالت) کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز کیا۔ شیخ عزالدین نے قانونی معاملات میں مملوک اربابِ اقتدار کے خلاف بڑی جرأت سے حق و انصاف کے مطابق فتوے دیے اور احکام صادر کیے جس سے اقتدار کے ایوانوں میں ہلچل مچ گئی۔ بادشاہ نے خود شیخ کے پاس آکر فتویٰ اور عدالتی فیصلہ تبدیل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا مگر شیخ نے صاف انکار کردیا اور کہہ دیا کہ وہ عدالتی معاملات میں دخل اندازی نہ کریں ورنہ شیخ قضا کے منصب سے دست بردار ہوجائیں گے۔ نائب سلطنت نہ مانا اور ننگی تلوار لے کر اپنے سپاہیوں کے ساتھ شیخ کو قتل کرنے کے لیے ان کے گھر پہنچا اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ شیخ کے نوعمر بچے نے دروازہ کھولا تھا‘ شمشیر بدست سپاہیوں کو دیکھ کر سخت پریشان ہوا لیکن شیخ ایمان‘ عزم اور ہمت کا پیکر تھے۔ بلاخوف نائب سلطنت کے سامنے آئے اور وہ ایسا ہیبت زدہ ہوا کہ تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ شیخ نے فتویٰ تبدیل کرنے سے انکار کیا اور پوری متانت سے اپنا تمام سامان گھر سے نکال کے گدھے پر لادا اور قاہرہ چھوڑنے کا عزم کرلیا۔ سوال کیا گیا کہ کہاں جا رہے ہیں؟ تو جواب دیا گیا کہ ’’کیا اللہ کی زمین فراخ نہیں ہے کہ کسی ایسی سرزمین پر رہا جائے جہاں قانون کی پاس داری نہ ہو‘ جہاں اہلِ شریعت بے قیمت ہوجائیں اور عدالتی نظام میں اربابِ اقتدار مداخلت کریں‘‘۔

قاضی القضاۃ کے اس اقدام کی خبر قاہرہ کے طول و عرض میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور پھر کیا تھا___ مؤرخ لکھتے ہیں کہ کیا عالم اور کیا عامی‘ پورا قاہرہ گویا قاضی کی ہم نوائی کے لیے اُمنڈ آیا اور شیخ کے ساتھ ہوگیا۔ عوام الناس مصر کے قاضی کی حمایت میں گھروں سے اس طرح نکل آئے کہ بچے‘ بوڑھے‘ جوان‘ مرد‘ خواتین سب ان کے ساتھ تھیں۔ اس عوامی یک جہتی نے حکمرانوں کو ششدر کر دیا اور سلطان نے قاضی کے آگے سپر ڈال دی۔ مملوک اربابِ اقتدار شیخ کے فیصلے کو ماننے پر مجبور ہوئے اور اس طرح قانون نے اپنی بالادستی منوا لی اور عدالت کی عصمت اور وقار کا بول بالا ہوا۔ (ملاحظہ ہو‘ عبدالرحمن الشرقاوی کی کتاب  ائمہ الفقہ التسعہ‘  ص ۳۶۰-۳۶۱)

اس واقعے سے اسلامی قانون‘ نظامِ عدل اور اصولِ حکمرانی کے باب میں چند بنیادی اصول بالکل کھل کر سامنے آتے ہیں:

پہلا اصول قانون کی حکمرانی اور شریعت کی بالادستی کا ہے۔ اللہ کے دین اور انبیاے کرام علیہم السلام کی دعوت کا مرکزی نکتہ اللہ کی عبادت اور بندگی کے ساتھ انسانوں کے درمیان عدل وانصاف کا قیام ہے (الحدید۵۷:۲۵)۔ مقاصدشریعت میں سرفہرست عدل اورقسط کی فراہمی ہے اور اس بارے میں کوئی سمجھوتا یا مداہنت ممکن نہیں۔

دوسرا اصول قانون کی نگاہ میں سب کی برابری ہے۔ اس سلسلے میں امیراور غریب اور طاقت ور اور کمزور میں کوئی تمیز نہیں۔ سب کے لیے ایک ہی قانون ہے جیساکہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ماضی میں قومیں اس لیے تباہ ہوگئیں کہ وہ کمزوروں پر تو قانون لاگو کرتے تھے مگر ذی اثر قانون سے بالا رہتے تھے‘ جب کہ آپؐ کے مشن کا ہدف ہی یہ ہے کہ تمام انسانوں کو ایک ہی قانون کا پابند کیا جائے۔ آپؐ نے فرمایا کہ اگر (العیاذ باللّٰہ) فاطمہ بنت محمدؐ بھی چوری کی مرتکب ہوگی تو اس کا بھی ہاتھ کاٹا جائے گا۔

تیسرا اصول عدلیہ کی آزادی اور قضا کے نظام کا انتظامیہ کی دراندازی سے مکمل طور پر پاک ہونا ہے۔ حاکمِ وقت پر بھی قاضی کا حکم اسی طرح نافذ ہے جس طرح کسی عام شہری پر۔ اور حکمرانوں کو قضا کے معاملات میںمداخلت یا اس پر اثرانداز ہونے کا کوئی حق نہیں۔

چوتھی چیز قوم کا عدلیہ پر اعتماد ہے ‘جو قاضی کے علم اور تقویٰ اور انصاف کے باب میں اس کے بے لاگ ہی نہیں‘ ہر اثر سے بالا ہونے پر مبنی ہے۔ عدل کی میزان کے آگے قوت کی تلوار بے اثر ہے اور تلوار کو عدل کی میزان کے خادم کاکردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ مگر یہ اسی وقت ممکن ہے جب عدالت اور عدل قائم کرنے کے ذمہ دار دیانت اور اپنے منصب کے تقاضوں کو پورا کرکے عوام کا اعتماد حاصل کریں۔

پانچواں اصول اور سبق اس واقعے سے یہ بھی نکلتا ہے کہ اگر تلوار میزانِ عدل کی چاکری کرنے سے باغی ہو‘ تو پھر عوام کی قوت وہ قوت ہے جو تلوار کو قابو کرسکتی ہے اور تلوار کو حدود کا پابند اور عدل کا آلہ کار بنا سکتی ہے۔ اس کے لیے عوام کا چوکس ہونا اور نظامِ عدل کی حفاظت کے لیے کمربستہ ہونے کا عزم اور آمادگی ہی نہیں‘ اس کا عملی اظہار بھی ضروری ہے۔ یہی جذبہ اور جرأت اس بات کا ضامن بن جاتا ہے کہ تلوار کمزور کے لیے خطرہ نہ بنے اور معاشرے میں انصاف اور خیر کی حفاظت اور افزایش کا ذریعہ بنے۔ نیز خود نظامِ عدل تلوار کی زد سے محفوظ رہے۔

یہ وہ اصول ہیں جن کی روشنی میں آج بھی ہمیں اپنے مقصد کا تعین اور اس کے حصول کی صحیح اور مؤثر حکمت عملی اور مناسب نقشۂ کار تیار کرنا چاہیے۔

عدلیہ اور دستوری حکمرانی کو چیلنج

جنرل پرویز مشرف نے ملک کے چیف جسٹس جناب افتخار محمد چودھری کو بظاہر جبری رخصت پر بھیج کر (مگربیک بینی و دوگوش عملاً برطرف کرکے) دراصل پورے نظامِ عدل اور دستوری حکمرانی کے عمل کو چیلنج کیا ہے۔ اگر اسے برداشت کرلیا جاتا ہے تو پھر ملک پر شخصی اور فوجی آمریت کواپنی قبیح ترین صورت میں مسلط ہونے سے روکا نہیں جاسکتا۔ اور یہ سارا کھیل کھیلا بھی اسی لیے گیا کہ عدالت کو اپنی گرفت میں لے کر سیاسی دروبست اور حکمرانی (governance) کے پورے عمل کو اپنے تابع کرلیا جائے۔ جس طرح یہ کام کیا گیا‘ اس میں دستور اور قانون کی تو دھجیاں بکھیری ہی گئیں‘ لیکن افسوس ہے شرافت اور انسانیت کی ہر قدر کو بھی پامال کیا گیا اور مقصد یہ دکھانا تھا کہ فوجی حکمران جس طرح چاہیں اور جدھر چاہیں نظامِ حکومت کو ہنکا سکتے ہیں۔ صاف نظر آرہا ہے کہ یہ کام پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا اور مستقبل کے سیاسی نقشے کی ایک خاص سمت میں صورت گری کے مقصد سے کیا گیا۔ چیف جسٹس کی ذات کو اس لیے نشانہ بنایا گیا کہ ان کو قابو کرکے عدلیہ کے پورے ادارے (institution) کو اپنا تابع مہمل بنایا جاسکے اور یہ اس لیے ضروری تھا کہ دستور کی جو خلاف ورزیاں ہورہی ہیں اور جو مزید پیش نظر ہیں ان کو صرف اس صورت میں روا رکھا جا سکتا ہے کہ عدلیہ اس پر صاد کرے۔ فوجی حکمرانوں اور آمرانہ عزائم رکھنے والوں نے۱۹۵۴ء سے یہی راستہ اختیار کیا ہے اور بدقسمتی سے عدالتوں نے بھی نظریۂ ضرورت کا سہارا لے کر فسطائی قوتوں کی کارفرمائیوں کے لیے سندجواز فراہم کرنے کی خدمت بالعموم انجام دی ہے۔ مجبوریاں اور توجیہات جو بھی ہوں‘ نیز جب بھی کسی صاحب ِ عزم جج نے دستور سے انحراف کے اس راستے کو روکنے‘ اور قانون کی بالادستی اور عدلیہ کی آزادی کی حفاظت کی کوشش کی ہے‘ اسے راستے سے ہٹانے کا کھیل کھیلا گیا ہے۔ کبھی یہ کام اچھے ججوں کی ترقی کا راستہ روک کر کیا گیا ہے تو کبھی ان کو راستے سے ہٹاکر‘ جس کے لیے نت نئے انداز میں عبوری دستوروں کا ڈھونگ رچا کر تازہ حلف کا مطالبہ کرکے یہ مقصد حاصل کیا گیا ہے۔

بات کسی کی ذات کی نہیں‘ اصول کی ہے اس لیے یہ حقیقت نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ جون ۲۰۰۵ء میں جسٹس افتخارمحمد چودھری کے چیف جسٹس بننے کے بعد حکمرانوں کو توقع تھی کہ چونکہ وہ ۲۰۱۳ء تک چیف جسٹس رہیں گے‘ اس لیے ان سے ایک طویل رفاقت (long partnership)  کا سلسلہ استوار کیا جائے۔ لیکن ان کو اس ڈیڑھ پونے دو سال بعد یہ احساس ہوگیا کہ راوی کے لیے سب چین لکھنا ممکن نہیں۔ جسے ’عدالتی فعالیت‘(judicial activism) کہا جا رہا ہے‘ وہ حکمرانوں کے عزائم کی تکمیل میں رکاوٹ بنتی جارہی ہے۔ خاص طور پر انسانی حقوق کی حفاظت‘ دستور کے مکمل احترام‘پارلیمانی جمہوریت اور فیوڈلزم کے اصولوں کی پاس داری اور سب سے بڑھ کر سیاست میں فوج کے مستقل رول کے سلسلے میں عدالت سے جس قسم کا تعاون فوجی حکمرانوں کو مطلوب تھا‘ وہ ملنا مشکل ہو رہا تھا‘ اس لیے چیف جسٹس کے خلاف دائرہ تنگ کرنے کا اور فائلیں بنانے کا کھیل شروع کردیا گیا اور نئے انتخابی عمل کے شروع ہونے سے پہلے ہی ان سے نجات حاصل کرلینے کی منصوبہ سازی کی گئی۔

اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ اکتوبر ۱۹۹۹ء کے فوجی اقدام اور ۲۰۰۲ء کے نام نہاد ریفرنڈم کے جواز (validation) میں جسٹس افتخار محمد چودھری کی تائیدی آواز نے ان عناصر کو غالباً ہمت دلائی ہوگی‘ لیکن ان کی توقعات پوری ہوتی نظر نہیں آرہی تھیں۔ چیف جسٹس بننے کے بعد بھی جس حد تک حکومت کا لحاظ رکھا جاسکتا تھا‘ رکھا گیا۱؎ ،گو اس بارے میں دوسری راے بھی موجود ہے لیکن جس طرح سپریم کورٹ بنیادی حقوق‘ دستور کی بالادستی اور مظلوم افراد اور طبقات کی حق رسائی کے سلسلے میں محتاط لیکن آزاد روش اختیار کر رہی تھی اس سے اقتدار کے ایوانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں اور ایجنسیوں کی سکہ بند کارروائیوں کے سہارے جنرل صاحب نے بالآخر ۹مارچ کو عدالت عظمیٰ پر بڑی عجلت اور بھونڈے انداز میں بھرپور وار کردیا۔ پھر اس کے دفاع میں انھوں نے اور ان کے چند وزرا نے جو انداز اختیار کیا اس نے حق‘ انصاف‘ سچائی سب کو پرزے پرزے کردیا اور ملک اور ملک کے باہر پاکستان کے امیج کو جتنا نقصان اس جارحانہ حملے اور اس کے بعد کیے جانے والے غیردستوری‘ غیراخلاقی اور غیرمہذب اقدامات نے پہنچایا ہے‘ اتنا کبھی کسی اور نے نہیں پہنچایا۔

چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری صاحب کے خلاف جو اقدام کیا گیا ہے وہ دستور‘ قانون‘ اخلاق و آداب اور عقلِ عام ہر ایک کے خلاف ہے اور بدیہی طور پر بدنیتی (malafide) پر مبنی نظرآتا ہے۔ ہمیں توقع ہے سپریم جوڈیشل کونسل اس ریفرنس کا فیصلہ حق وانصاف اور دستور کے مطابق کرے گی۔ آج جسٹس افتخارمحمد چودھری ہی زیرسماعت (on trial) نہیں خود اس ملک کا عدالتی نظام بھی زیرسماعت (on trial) ہے اور اللہ کی عدالت کے ساتھ اب عوام کی عدالت بھی   ساتھ ہی ساتھ برسرِعمل ہے۔ دنیاوی حد تک آخری فیصلہ عوام ہی کا قبول کیا جائے گا‘ اس لیے بھی کہ   ؎

زبانِ خلق کو نقارۂ خدا سمجھو
بُرا کہے جسے دنیا ، اسے بُرا سمجھو

جنرل پرویز مشرف اور ان کے حواری بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ معاملہ عدالت کے زیرسماعت ہے اور اس پر صحافتی اور عوامی سطح پر کوئی بحث نہیں ہونی چاہیے اور یہ بھی کہ ایک دستوری مسئلے پر حزبِ اختلاف اور وکلا حضرات سیاست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو قابلِ مذمت اور ناقابلِ قبول ہے۔ یہ اعلانات سنتے سنتے کان پک گئے ہیں‘ اس لیے سب سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان دعووں کے بارے میں کچھ عرض کردیا جائے۔

بلاشبہہ عدالت میں زیرسماعت معاملات کا فیصلہ عدالت پر چھوڑنا چاہیے اور کسی طرح بھی عدالت کو متاثر کرنا غلط ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ جو دستوری‘ قانونی‘ سیاسی اور اخلاقی معاملات کسی بھی تنازع سے متعلق ہوں ان پر کلام نہ کیا جائے۔ عدالت کی کارروائی یا اس کو متاثر کرنے والی چیزوں پر تبصرہ معیوب نہیں‘ اصل مسائل پر بات چیت نہ صرف عدالت کے وقار کے منافی نہیں بلکہ عدالت کو حالات کو سمجھنے اور صحیح راے پر پہنچنے میں مددگار ہوتی ہے۔

قانون کی اصطلاح sub judice کے دو مفہوم ہیں: ایک under or before a 

court or judge/ under judicial consideration اور دوسرے undetermined۔ یعنی ابھی اس متنازع امر کو طے کرنا باقی ہے جو کام عدالت کر رہی ہے۔ کوئی اقدام جو عدالت کے اس کام میں مخل ہو یا اسے انصاف کرنے سے منع کرنے والا ہو‘ وہ غلط ہے۔ لیکن ہر وہ کام‘ بحث‘ مدد جو انصاف کے قیام کو آسان بنانے اور مسئلے کی تنقیح میں مددگار ہو‘ وہ ممنوع نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ توہین عدالت (contempt of court) کی تعریف یہ کی گئی ہے:

ایسا عمل جو عدالت کو انصاف فراہم کرنے سے روکے‘ رکاوٹ بنے یا پریشانی کا باعث ہو‘ یا جو اس کے وقار کو نقصان پہنچائے۔ (Black's Law Dictionary‘ص ۲۸۸)

عدالت کے زیرسماعت کے نام پر دستوری اور سیاسی موضوعات پر بحث و گفتگو کا دروازہ بند کرنا یا ان تمام امور کا زیربحث لانا جن سے خود عدالت کو مسئلے کو سمجھنے اور تنازع کے منصفانہ حل میں مدد ملے‘ نہ توہینِ عدالت(contempt) کی تعریف میں آتا ہے اور نہ زیرسماعت کی قدغن ان پر لاگو ہوتی ہے۔ اگر ایسا ہو تو زندگی کے ہزاروں لاکھوں امور پر اظہار راے اور بحث و مباحثے کا دروازہ بند ہوجائے۔

یہ تو تھی اصولی بات‘ لیکن جب یہ بات ان کی طرف سے کی جاتی ہے جنھوں نے    چیف جسٹس کا میڈیا ٹرائل آج نہیں‘ اسٹیل مل کے فیصلے کے فوراً بعد ۲۰۰۶ء کے وسط سے شروع کردیا تھا اور جو تسلسل کے ساتھ پریس کو ایک خاص نوعیت کی معلومات خفیہ طور پر فراہم کرکے پریشر بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں تو  ع

ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہیے

جرنیل صاحب خود ٹی وی پر دو گھنٹے لن ترانی فرماتے ہیں اور ہرجلسے میں گوہرافشانیاں کررہے ہیں۔ ان کے وزیر اور دو صوبائی وزراے اعلیٰ دن رات اسی مشق میں مبتلا ہیں اور جو وزیر خاموش ہیں جرنیل صاحب ان کو للکار رہے ہیں کہ میدان میں اترو‘ میرا دفاع کرو اور چیف جسٹس کے خلاف مہم چلائو۔ یہ سب سیاست نہیں تو کیا ہے؟ اس کے مقابلے میں ہماری سیاست شرافت‘ متانت اور دلیل کی سیاست ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ فوج کا سربراہ فوجی وردی میںسیاسی تقاریر کر رہا ہے‘ ووٹ مانگ رہا ہے۔ مخالفین کو تہس نہس کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے‘ قومی خزانے کو ہرجلسے میں بے دریغ لٹا رہا ہے۔ اگر یہ سیاست گندی سیاست نہیں تو کیا اسے فوجی پریڈ اور جنگی مشق (military exercise) کہا جائے گا؟ حکومت کا پورا اقدام اور اس پس منظر اور پیش منظر کی ہرہرحرکت سیاسی ہی نہیں‘ اوچھی سیاست بازی کی غماز ہے۔ اگر اہلِ سیاست اور قانون دان اس پر بھی ردعمل ظاہر نہ کریں تووہ اپنے فرائض منصبی کی ادایگی میں مجرمانہ کوتاہی کے مرتکب ہوں گے۔ سیاست خود کوئی برائی نہیں‘ جمہوری عمل تو عبارت ہی سیاست سے ہے۔ البتہ اوچھی سیاست نہیں ہونی چاہیے لیکن اس کا ارتکاب وکلا اور سیاست دانوں نے نہیں‘ جنرل صاحب اور ان کی حکومت نے کیا ہے۔ اس کے لیے ہماری بات نہیں‘ ان کے ان مداحوں کی سند بھی حاضر ہے  جن کے بل بوتے پر فوج کے سربراہ سیاست فرما رہے ہیں۔

مغرب کی تنقید

 لندن کا روزنامہ دی ٹائمز اپنی ۱۴مارچ ۲۰۰۷ء کی اشاعت میں Judicial Errorکے عنوان سے ادارتی کالم میں پاکستان کے حالات پر یوں تبصرہ کرتا ہے:

۱۹۹۹ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے صدرمشرف کا اصرار رہا ہے کہ ان کا مقصد پاکستان کے لیے حقیقی جمہوریت ہے… لیکن انھوں نے حسب وعدہ ملک میں ایک منتخب جمہوری حکومت کی واپسی کے لیے کوئی خاص سرگرمی نہیں دکھائی ہے۔

 چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری کی برطرفی اور اس کے خلاف عوامی ردعمل کا ذکرکرنے کے بعد دی ٹائمز فیصلہ دیتا ہے کہ:

Pakistan is literally without rule of law.

اور پھر چیف جسٹس چودھری کے ’عدالتی تحرک‘ پہلے سے جمع شدہ مقدمات کو نمٹائے اور خصوصیت سے لاپتہ ہوجانے والے افراد کے حقوق کی حفاظت کے باب میں مساعی کا ذکرکرنے کے بعد جنرل صاحب کے دوسروں پر سیاست چمکانے کے دعوے کے جواب میں بڑی مسکت انداز میں اداریے میں کہا گیا ہے کہ:

حکومت کے لیے کسی سیاسی محرک کا انکار لاحاصل ہے۔ اس کے اقدام کو تقریباً پوری دنیا میں اس سال کے انتخابات کے‘ اُن ضوابط کے تحت انعقاد سے پہلے جن کو قانونی طور پر چیلنج کرنے کی توقع ہے‘ عدلیہ کو سدھانے کی کوشش سمجھا جارہا ہے۔

اگر سیاست کا جواب سیاست سے نہ دیا جائے تو کیا کیا جائے؟ جنرل صاحب کے مقدمے کے بودے پن کا پول بھی ٹائمز نے یہ کہہ کر کھول دیا ہے کہ:

اب تک حکومت نے مسٹر چودھری کے خلاف جو کچھ کہاہے اگر ان کا مقدمہ اس سے بہت زیادہ خراب نہیں ہے تو ان کو بحال کردیا جانا چاہیے۔ اچھے جنرل جانتے ہیں کہ کب قدم پیچھے ہٹانے چاہییں۔ (ٹائمز، اداریہ‘ ۱۴ مارچ ۲۰۰۷ء)

نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، لاس اینجلز ٹائمز اور دوسرے مغربی اخبارات اور رسائل نے اپنے اپنے انداز میں یہی بات لکھی ہے کہ اصل کھیل سیاسی ہے اور جرنیل صاحب عدالت عالیہ کے دستوری اور قانونی امور اور حقوق انسانی کے معاملات میں حکومت پر گرفت سے پریشان ہیں‘ اور اس انتخاب کے سال میں اپنی وردی بچانے اور انتخاب کو من پسند انداز میں منعقد کرانے میں عدالت کی ممکنہ رکاوٹ کو دُور کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سیاست نہیں‘ بلکہ گندی اور پست سطح کی سیاست نہیں تو اور کیا ہے اور اس کا مقابلہ سیاسی تحریک سے نہیں تو پھر کس طریقے سے ہوسکتا ہے؟ ہم صرف اہم ذرائع یعنی لندن کے اخبار دی گاڑدیناور ہفت روزہ اکانومسٹ سے ضروری اقتباس دینے پر کفایت کرتے ہیں تاکہ جنرل صاحب اور ان کے میڈیا منتظمین کو اندازہ ہوجائے کہ   ؎

پتّا پتّا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ توسارا جانے ہے

دی گارڈین لندن اپنے ۱۷ مارچ ۲۰۰۷ء کے اداریے Justice Deniedمیں‘ جنرل مشرف اور چیف جسٹس کی ملاقات کا حال بیان کرنے کے بعد لکھتا ہے:

پاکستان ایک جوش کی کیفیت میں ہے۔ جب جنرل مشرف نے آٹھ سال قبل فوجی انقلاب کے ذریعے قبضہ کیا تھا‘ اس کے بعد مسٹر چودھری پہلے شہری ہیں جو اس کے سامنے کھڑے ہوئے ہیں۔ کم قیمت پر اسٹیل مل کی نج کاری کے فیصلے کو اُلٹ دینے‘ اور ان سیکڑوں لوگوں کے مسئلے کو جنھیں انٹیلی جنس ایجنسیوں نے غائب کررکھا ہے لے کر اُٹھنے کی وجہ سے وہ حکومت کی نظروں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہے تھے۔ لیکن مشرف کا وار حفظ ماتقدم کے طور پر بھی تھا۔

صدر کا انتخاب ایک پارلیمنٹ نے کیا ہے جس کی مدت اگلے سال ختم ہورہی ہے۔ مشرف کی اتنی مخالفت ہے کہ آنے والی پارلیمنٹ کا صاد کرنے کا امکان نہیں‘ خاص طور پر اس لیے کہ اس نے فوج کے سربراہ کا عہدہ چھوڑنے سے انکار کیا ہے۔ موجودہ پارلیمنٹ ہی سے اپنا انتخاب کروانے کی کوشش پر بہت سے قانونی اقدام ہوں گے۔ اس لیے ضرورت ہے ایک تابع دار چیف جسٹس کو مسند پر بٹھانے کی۔

لندن اکانومسٹ پاکستان کی صورت حال کا اپنے کالم میں جائزہ لیتے ہوئے یہ لکھتا ہے:

پاکستان کے شمالی قبائلی علاقوں کو زیر کرنے کی فوج کی کوششیں جنرل کی گرتی ہوئی مقبولیت کی ایک وجہ ہیں۔ اس وجہ سے وہ لوگوں کو  ایک امریکی کٹھ پتلی لگتا ہے۔ اس بات نے حال ہی میں پاکستان کے بڑے شہروں میں چھے خودکش حملوں سمیت دہشت گردی کی ایک لہر کو اٹھادیا۔ صدر کی کوشش یہ ہے کہ اقتدار پر قبضہ برقرار رکھنے کے لیے عدلیہ کا بازو مروڑ دیا جائے۔

اپنے اب تک کے دوسالہ دور میں مسٹر چودھری نے کم و بیش ہر وہ چیز کی ہے جس کی توقع ایک پاکستانی جج سے نہیں کی جاتی۔ انھوں نے بلوچستان میں مشتبہ باغیوں کے غائب کیے جانے پر انکوائری شروع کروا دی۔ انھوں نے حکمران سیاست دانوں اور پولیس کے سربراہوں کو‘ غریبوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینے پر سخت سرزنش کی۔ انھوں نے شادیوں کی شان و شوکت سے بھرپور تقریبات پر پابندی لگائی کہ اس سے طبقاتی امتیاز پیدا ہوتا ہے۔ انھوں نے افراطِ زر کے خلاف مقدمات سنے‘ پبلک پارکوں کو امیروں کے لیے گاف کلب بنانے کی ممانعت کی اور بچوں کی شادیوں کو غیرقانونی قرار دیا۔ گذشتہ برس انھوں نے ایک بڑی اسٹیل مل کی نج کاری کو بولیوں کے عمل میں بے قاعدگی کی وجہ سے روک کر صدر کو خاص طور پر ناراض کیا۔

اگر جنرل مشرف واقعتا مزید پانچ سال کے لیے صدر اور فوجی سربراہ رہنا چاہتے ہیں تو قانونی چیلنجوں کے ایک سیلاب کی توقع کرسکتے ہیں۔ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے واضح بات ہے کہ ایک آزاد ذہن کا اعلیٰ جج ان کی پسند کا نہیں ہو سکتاتھا۔ لیکن مسٹرچودھری کے معطل کرنے سے صورت حال زیادہ خراب ہوگئی ہے۔

اگر مسٹر چودھری کو برطرف کیا جاتا ہے تو جنرل مشرف کے لیے یہ دعویٰ کرنا مشکل ہوگا کہ ان کی حکومت دستوری ہے‘ اور اگر انھیں بحال کیا جاتا ہے تو وہ ان کے لیے بہت سی پریشانیوں اور دردسر کا باعث بن سکتے ہیں۔ ایسے میں لوگ سوچتے ہیں: الیکشن ہوں گے بھی؟

سیاست چمکانے اور عدالت کے زیرسماعت ہونے کے بارے میں اتنی وضاحت کافی ہے۔ نیز مندرجہ بالا معروضات سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اصل مسئلہ اس ریفرنس کا نہیں جو ساری بے قاعدگیوں کے بعد بظاہر اب داخل کردیا گیا ہے بلکہ اپنے سیاسی کھیل کے ’رنگ میں بھنگ پڑنے‘ کے خطرے سے بچنے کے لیے کھیلا جا رہا ہے اور اس کھیل نے ملک کے اندر بھی جرنیل صاحب کی ساکھ کو‘ (جو پہلے ہی کون سی اچھی تھی) بالکل خاک میں ملا دیا ہے اور پوری دنیا میں پاکستان اور خصوصیت سے جرنیل صاحب نے جو سیاسی کھڑاگ کیا تھا اس کا پول بھی کھول دیا ہے۔

حکومت کے غیرآئینی اقدامات

اس حقیقی پس منظر کی تفہیم کے ساتھ ساتھ اس بات کی ضرورت بھی ہے کہ دستوری اور قانونی اعتبار سے بھی ان اقدامات کا جائزہ لیا جائے جو ۹ مارچ اور اس کے بعد کیے گئے ہیں۔

سب سے پہلی بات سمجھنے کی یہ ہے کہ ملک کا دستور‘ تمام کچھ تبدیلیوں اور ترامیم کے باوجود اختیارات کی تقسیم کا ایک واضح نقشہ پیش کرتا ہے اور اقتدار کو تین متعین اداروں میں تقسیم کرتا ہے یعنی انتظامیہ‘ مقننہ اور عدلیہ۔ انتظامیہ کا سربراہ وزیراعظم ہے‘ جب کہ صدرمملکت وفاق کی علامت۔ صدر ان امور کو چھوڑ کر جن میں اسے صواب دیدی اختیارات حاصل ہیں‘ وزیراعظم اور کابینہ کی ہدایات کا پابند ہے۔ مقننہ کاکام قانون سازی‘ پالیسی ہدایات دینا اور انتظامیہ پر نظر رکھنا اور اس کا احتساب ہے‘ جب کہ عدلیہ دستور اور قانون کی محافظ اور دونوں سے آزاد اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ ہم اس وقت اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے کہ موجودہ صدر نے اپنی فوجی وردی کی بنیاد پر پوری انتظامیہ کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے اور کابینہ بشمول وزیراعظم ان کے تابع مہمل بنے ہوئے ہیں جو دستور کی کھلی کھلی خلاف ورزی اور جمہوری عمل کو مسخ کرنے کا سبب بنا ہوا ہے لیکن اس سے بڑھ کر اب وہ عدالت پر بھی مکمل کنٹرول چاہتے ہیں اور اس کے لیے ۹ مارچ کا اقدام کیا گیا ہے۔ اس سے اختیارات کی تقسیم (separation of power)کا پورا نقشہ درہم برہم ہوگیاہے۔ یہی وہ چیز ہے جو آمریت اور فسطائیت کی طرف لے جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ووڈرو ولسن نے جو امریکی صدر ہونے کے ساتھ ایک قانونی ماہر بھی تھا‘ یہ اصول بیان کیا ہے کہ:

اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ طاقت کا غلط استعمال نہیں ہوگا‘ واحد راستہ یہ ہے کہ اس کو محدود کیا جائے‘ یعنی طاقت کو طاقت سے روکا جائے۔ آزادی کی تاریخ حکومت کی طاقت پر تحدیدات کی تاریخ ہے۔

اور امریکی جج جسٹس برانڈل نے ایک مشہورمقدمہ Myees vs. United States کے فیصلے میں اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا تھا‘ جسے دستور کا ایک مسلّمہ اصول شمار کیا جاتا ہے کہ:

۱۷۸۷ء کے کنونشن میں‘ اختیارات کی علیحدگی کا ڈاکٹرائن منظور کیا گیا‘ اس لیے نہیں کہ کارکردگی کو بڑھایا جائے بلکہ من مانی طاقت کے استعمال کو محدود کرنے کے لیے۔ مقصد ٹکرائوسے بچنا نہیں تھا بلکہ تین شعبوں (مقننہ‘ انتظامیہ اور عدلیہ) میں حکومت کے اختیارات کی تقسیم کی بنا پر ناگزیر ٹکرائو عوام کو آمریت سے بچانے کا سبب بن جاتا ہے۔(ملاحظہ کیجیے:Fundamental Law of Pakistan ، اے کے بروہی‘ ص ۷۰-۷۱)

ہمارے دستور کی بھی یہی بنیاد ہے لیکن unity of command کے نام پر جرنیل صاحب نے اس کا حلیہ بگاڑدیا ہے اور ملک پر من مانے اور آمرانہ حکمرانی (arbitarary rule)  کی سیاہ رات طاری کردی ہے۔

دستورکی رو سے عدلیہ‘ انتظامیہ سے مکمل طور پر آزاد ہے۔ صدر کو دستور کے مطابق اور دستوری روایات کا احترام کرتے ہوئے‘ جنھیں Judges Case میں قانون کا درجہ دے دیا گیا ہے‘ اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے تقرر کا اختیار دیا گیا ہے لیکن ایک بار کسی جج کے تقرر کے بعد دستور نے صدر اور انتظامیہ سے یہ اختیار سلب کرلیا ہے کہ وہ جس طرح چاہے اور جب چاہے ایک جج کو فارغ کردے‘ رخصت پر بھیج دے‘ غیرفعال بنا دے‘ معطل کردے یا کسی اور شکل میں اس کے اختیارات میں تخفیف کرسکے۔ دستور کی دفعہ ۲۰۹ میں واضح طور پر لکھ دیا گیا ہے کہ صرف اس دفعہ کے تحت اعلیٰ عدالت کے کسی جج کے سلسلے میں کوئی کارروائی ہوسکتی ہے۔ وزیرقانون کی یہ ہرزہ سرائی کہ جسے ججوں کے تقرر کا اختیار ہے‘ اسے ان کو رخصت کرنے یا معطل کرنے کا اختیار بھی حاصل ہے اس لائق ہی نہیں کہ اس پر سنجیدہ گفتگو کی جائے۔ یہ ایک مسلمہ اصول ہے۔

بلاشبہہ قانون کی نگاہ میں سب برابر ہیںاور کوئی قانون سے بالا نہیں اور اگر کسی جج نے اپنے منصب کے منافی کوئی کام کیا ہے تو اس کا بھی اسی طرح محاسبہ ہونا چاہیے جس طرح کسی اور کا۔ لیکن بنیادی اصول یہ ہیں کہ:

اوّل، ہر اقدام اور احتساب قانون کے تحت اور اس کے دائرے کے اندر ہو۔

دوم، نیز صرف اسے اقدام کرنے کا حق ہے جسے قانون یہ حق دیتا ہے۔

سوم، اس حق کا استعمال بھی قرار واقعی قانونی عمل (due process of law) ہی کے تحت ہوسکتا ہے۔

چہارم، قانون کا استعمال من پسند (selective) نہیں بلکہ سب کے لیے یکساں ہونا چاہیے۔ یہ نہیں کہ جس سے آپ خوش ہیں اس کے لیے قانون کا کوئی وجود نہ ہو اور جس سے آپ ناراض ہوجائیں اس کے لیے ’قانون سب کے لیے‘ کا فرمان جاری ہوجائے۔

اور پنجم، قانون کا استعمال بدنیتی پر مبنی نہ ہو یعنی اسے نیک نیتی (bonafide)  سے استعمال کیا جائے بدنیتی (malafide)سے نہیں۔

چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری کے معاملے میںصاف نظر آرہا ہے کہ قانون کے ان پانچوں مسلمہ اصولوں کی خلاف ورزی کی گئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پوری وکلا برادری اور ملک کے تمام ہی دینی‘ سیاسی اور پروفیشنل اداروں اور دانش وروں نے اسے قانون اور انصاف کا قتل قرار دیا ہے۔

سپریم جوڈیشل کونسل ایک دستوری ادارہ ہے جس کی تشکیل بھی دستور میں کردی گئی ہے جسے کوئی بدل نہیں سکتا۔ صدر کو دستور یہ اختیار دیتا ہے کہ کسی بھی جج کے خلاف ریفرنس اسے بھیج دے۔ الزامات کی تحقیق اور جرم کے تعین کا اختیار صدر‘ وزیراعظم یا کسی اور کو حاصل نہیں اور نہ صدر کا یہ کام ہے کہ چیف جسٹس سے سوال جواب کرے اور کہے کہ چونکہ وہ مجھے مطمئن نہیں کرسکے اس لیے میں ریفرنس بھیج رہا ہوں۔ یہ دستور کی کھلی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ہمیں ان دستوری ماہرین کی راے تسلیم کرنے میں تامل ہے جو یہ کہتے ہیں کہ چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس ہو ہی نہیں سکتا۔ دفعہ ۲۰۹ میں اس کے لیے اگر لفظی گنجایش ہے بھی‘ تو یہ عدل کے اساسی اصول کے خلاف ہے۔ ہماری نگاہ میں ریفرنس تو چیف جسٹس کے خلاف بھی دیا جاسکتا ہے لیکن یہ دستوری طور پر متعین کردہ سپریم جوڈیشل کونسل ہی کو بھیجا جاسکتا ہے۔ قانون کے ایک دوسرے اساسی اصول کہ ایک شخص اپنے معاملے میں خود جج نہیں ہوسکتا اس کی رو سے ایسی صورت میں متعلقہ جج اس ریفرنس کی حد تک کونسل میں شریک نہیں ہوگا اور دستور کے مطابق دوسرا سینیر جج اس کا رکن ہوجائے گا۔ صدر کا  چیف جسٹس کو کیمپ آفس میں طلب کرنا‘ خود استفسار کرنا‘ جواب طلب کرنا اور وہ بھی فوجی وردی میں دستور اور شایستگی ہرایک کے خلاف تھا۔ اس طرح صدر نے دستور کی کھلی کھلی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا ہے اور دستورکے ایک ستون یعنی عدلیہ کی آزادی پر ضرب لگائی ہے۔

دوسری چیز چیف جسٹس سے استعفا طلب کرنے سے متعلق ہے۔ یہ اختیار دستور نے صدر کو نہیں دیا اور انھوں نے یہ مطالبہ کرکے دستور کی خلاف ورزی اور عدلیہ کی آزادی پر ایک اور حملہ کیا ہے۔

تیسرا غیرقانونی عمل چیف جسٹس کے استعفا نہ دینے کے عندیے کے اظہار پر انھیں  معطل (suspend) کرنے کا ہے جس کا کوئی اختیار صدر یا سپریم جوڈیشل کونسل کسی کو بھی حاصل نہیں۔ چیف جسٹس اس وقت تک چیف جسٹس رہتا ہے جب تک اس کے خلاف کونسل فیصلہ نہ دے دے۔ آداب عدالت کا تقاضا ہے کہ وہ خود چھٹی پر چلا جائے یا خود کو ان امور سے غیر متعلق کرلے جو فیصلے پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ لیکن اسے غیرفعال کرنا یا جبری رخصت پر بھیجنا دستور اور قانون کے خلاف ہے۔ اب ۱۹۷۰ء کے جس قانون کی بات کی جارہی ہے وہ۱۹۷۳ء کے دستور کے بعد غیرمؤثر ہوچکا ہے اور ۱۹۷۵ء کے جواز (validation) کا تعلق صرف ان امور سے ہے جو اس قانون کے تحت ۱۹۷۰ء اور ۱۹۷۵ء کے درمیان ہوئے۔ آیندہ کے لیے ۱۹۷۳ء کا دستور اصل حَکَم ہے۔

چوتھی دستوری خلاف ورزی چیف جسٹس کی موجودگی میں قائم مقام چیف جسٹس کا تقرر اور دستور کے واضح احکام میں ’available‘ کا غیرقانونی اضافہ کرکے سینیرترین جج کی جگہ اس کے جونیر جج کا اس عہدے پر تقرر ہے۔ یہ روایت خود بڑی غلط ہے اور عدلیہ کی آزادی کے لیے بڑا خطرہ اور انتظامیہ کے لیے دراندازیوں کا دروازہ کھولنے والی ہے۔

پھر یہ بھی ایک معما ہے کہ چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری ۱۱بجے صبح سے ۴بجے شام تک خاکی صدر کے کیمپ میں محصور تھے۔ جرنیل صاحب کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے جمعہ کی نماز سے قبل یعنی ایک اور دو بجے کے درمیان چیف جسٹس کو ریفرنس کی چارج شیٹ دی۔ قائم مقام چیف جسٹس کی تقریب حلف برداری ۴ بجے ہوجاتی ہے اور اس میں سندھ اور پنجاب کے چیف جسٹس حضرات نے بھی شرکت کی جو جوڈیشل کونسل کے رکن تھے اور جن کو خاص طور پر خصوصی جہاز کے ذریعے لایا گیا جس میںلازماً ۴گھنٹے لگے ہوں گے۔ پھر طرفہ تماشا ہے کہ وزارتِ قانون کا نوٹی فکیشن ۳بجے جاری ہوا ہے جس میں قائم مقام چیف جسٹس کے تقرر کا اعلان ہے اور کونسل نے ۵بجے ایک ہنگامی اجلاس میں چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری کو غیرفعال کرنے کا فیصلہ کیا۔

اوّل تو یہی محل نظر ہے کہ کیا دستور‘ جوڈیشل کونسل کو یہ اختیار دیتا ہے؟ لیکن بفرض محال اگر یہ اختیار تھا بھی‘ تو صدر کے چیف جسٹس کو غیرفعال کرنے کے بعد اسے غیرفعال کرنے کی کیا ضرورت تھی۔کیا اس کے یہ معنی نہیں کہ صدر نے غیرفعال کرنے کا جو اقدام کیا وہ صحیح نہیں تھا اور اسی وجہ سے کونسل نے دوبارہ یہ اقدام کیا۔ لیکن اگر صدر کا وہ اقدام درست نہیں تھا تو قائم مقام چیف جسٹس کا تقرر اور اس کے حلف کا اقدام قانونی اور دستور کے مطابق کیسے ہوسکتے ہیں؟ خاص طور پر‘ جب کہ دستور میں سینیرترین جج کا قائم مقام مقرر کیا جانا دفعہ ۱۸۰ کے تحت ایک لازمی فرض (obligatory imperative) ہے اور availableکا اضافہ دستور میں کرنے کا کسی کو اختیار نہیں۔

یہ سب بڑے سنگین دستوری اور قانونی سوال ہیں اور ان کا سامنا کیے بغیر ملک قانون کی حکمرانی کی طرف پیش قدمی نہیں کرسکتا۔ جرنیل صاحب نے یہ سب کچھ کرکے خود کو دستوری اور قومی مواخذے کا مستحق بنالیا ہے___ دیکھیے ’قانون سب کے لیے‘ کا اصول کب حرکت میں آتا ہے۔

جس طرح یہ سارا اقدام کیا گیا ہے‘ اس کے دستوری پہلوؤں کے ساتھ اہم سیاسی اور اخلاقی پہلو بھی ہیں۔ چیف جسٹس کو کیمپ آفس میں بلانا‘ ان سے سوال جواب کا وہ عمل کرنا جو صرف جوڈیشل کونسل ہی کسی جج سے کرسکتی ہے‘ اور پھر فوج کے چیف آف اسٹاف کی وردی میں یہ عمل کرنا اور ٹی وی اور میڈیا میں اس کی تصاویر جاری اور نشر کرنا‘ پھر جب تک قائم مقام چیف جسٹس کی  حلف برداری مکمل نہ ہوگئی۔ چیف جسٹس کو کیمپ آفس میں محبوس رکھنا‘ جب کہ جرنیل صاحب بقول خود اس عرصے میںیعنی ۳بجے کی فلائٹ سے کراچی روانہ ہوگئے۔ (یہ بات انھوں نے جیو کے انٹرویو میں خود کہی ہے) پھر چیف جسٹس کی کار سے جھنڈا اُتارنا‘ ان کے گھر سے جھنڈا اُتارنا‘ ان کو سپریم کورٹ نہ جانے دینا اور زبردستی ان کو گھر میں محبوس کرنا‘ ان کے گھر کی پولیس اور رینجرز کی ناکہ بندی‘ ٹیلی فون‘ ٹیلی وژن‘ اخبارات‘ ذاتی عملہ ہر چیز سے محروم کردینا‘گھر کے اندر سیکورٹی ایجنسیوں کا ہرچیز پر قبضہ کرلینا اور پورے خاندان کو ایک وقت تک صرف ایک کمرے میں بند کردینا‘ ملنے جلنے پر پابندی___ یہ کس اخلاق کا مظاہرہ ہے؟ چیف جسٹس قومی پروٹوکول میں صدر‘ وزیراعظم اور سینیٹ کے صدر کے بعد چوتھے یا پانچویں نمبر پر آتا ہے۔ آرمی کے چیف آف اسٹاف کا نمبر پھر اس کے دس نمبروں کے بعد آتا ہے۔ پھر ابھی آپ نے ریفرنس بھیجا ہے‘ اس کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں ہوا لیکن جرم کے اثبات سے پہلے ایسی گھنائونی سزا قانون‘ انصاف اور اخلاق ہر ایک کے خلاف ہے اور اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو (خواہ وہ کیسے ہی اُونچے مراتب پر فائز ہوں) سزا نہ دینا قومی جرم ہوگا۔

یہ تو ۹مارچ کی بات ہے۔ پھر چیف جسٹس کے ساتھ ۱۳ مارچ کو جو کچھ ہوا‘ وہ اس سے بھی زیادہ شرم ناک اور مجرمانہ فعل ہے۔ اس پورے عرصے میں وکلا برادری کے احتجاج اور سیاسی جماعتوں اور عوام کی احتجاجی سرگرمیوں کو جس طرح اندھی قوت کے ذریعے دبانے کی کوشش کی گئی ہے اور میڈیا کے ذریعے صریح جھوٹ اور دھوکے کی جو مہم چلائی گئی ہے‘ اس نے قانون اور اخلاق دونوںکی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ جو حکمران اس سطح پر اتر سکتے ہیں وہ ہر قسم کے جواز سے محروم ہوجاتے ہیں اور ان کا شمار مجرموں کی صف میں ہوتا ہے۔ کیا جرنیل صاحب اور ان کے حواریوںکو ان حقائق کا کچھ بھی شعور ہے؟ اور کیا وہ قوم اور پوری دنیا کو بالکل بے عقل سمجھتے ہیں کہ گوئبلز کو مات کرنے والے ان کرتبوں سے وہ انھیں بے وقوف بناسکتے ہیں؟ملک اور بین الاقوامی میڈیا پر جس کی نظر ہے وہ جانتا ہے کہ حکومت کی ان تمام کارستانیوں کا انجام اس سے مختلف نہیں کہ آسمان پر تھوکا منہ پر___

عدلیہ کا امتحان

چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس کی جو جھلکیاں سرکاری’خفیہ خبررسانی‘ (leakege) کے ذریعے سامنے آئی ہیں‘ ان کے بارے میں سب حیران ہیں کہ کیا یہی وہ چارج شیٹ ہے جس کے سہارے جرنیل صاحب نے یہ اقدام کیا ہے؟ جسٹس افتخارمحمد چودھری نے اپنے کھلے دفاع کا اعلان کیا ہے اور یہ ان کا حق ہے اور فرض بھی۔ اگر ان سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو اس کا احتساب ضرور ہونا چاہیے۔ لیکن جو کچھ اخبارات میں آیا ہے یا جو ریفرنس سے پہلے ان کے میڈیا ٹرائل کے ذریعے قوم کے سامنے لایا گیا ہے اس میں بظاہر کوئی ایسی چیز نہیں جسے دستور‘ قانون یا عدالتی آداب کی صریح اور قابلِ گرفت خلاف ورزی کہا جاسکے۔ لیکن اس سلسلے میں اصل فیصلہ انصاف اور حق کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل ہی کرسکتی ہے اور اسے ہی کرنا چاہیے۔ البتہ ’قانون سب کے لیے‘ کے علَم برداروں سے اتنی گزارش کرنے کی جسارت ہم بھی کرسکتے ہیں کہ حضرت عیسٰی ؑکا مشہور واقعہ آپ کے لیے بھی بہت کچھ پیغام رکھتا ہے کہ:

Whoever of you has committed no sin may throw the first stone.

تم میں سے جس نے کوئی گناہ نہیں کیا ہے وہ پہلا پتھر پھینکے۔

اور تاریخ گواہ ہے اس مجمع میں پہلا پتھر پھینکنے والا کوئی سامنے نہ آیا۔

جیساکہ ہم نے پہلے کہا آج صرف جسٹس افتخارمحمد چودھری ہی کا مقدمہ ہی زیرسماعت نہیں‘ ہماری عدلیہ کا بحیثیت ادارہ بھی امتحان ہے اور پوری قوم ہی سخت امتحان کی گھڑی میں ہے۔ عدلیہ کی تاریخ میں روشن اور تاریک دونوں پہلو نظر آتے ہیں۔ جس طرح مختلف ادوار میں نظریۂ ضرورت کے نام پر اصول اور اداروں کے صحیح خطوط پر ارتقا کے عمل کو نقصان پہنچا ہے اب اس کی تلافی کا وقت آگیا ہے۔ نیز اربابِ اختیار کے پروٹوکول‘ مالی فوائد اور مراعات کا مسئلہ بھی اب ڈھکا چھپا نہیں بلکہ اس کا کھل کر سامنا کرنا ہوگا۔

مسئلہ ایک فرد کے کاروں اور جہازوں کے استعمال کا نہیں‘ حکمرانی کے اس پورے کلچر کا ہے جس کو ایک مخصوص طبقے نے ملک پر مسلط کردیا ہے اور ہر کوئی اس دوڑ میں شریک ہوچکا ہے۔ بات عدلیہ اور انتظامیہ کے تعلق ہی کی نہیں بلکہ ملکی اور غیرملکی تجزیہ نگاروں کے اس اضطراب پر بھی ٹھنڈے دل کے ساتھ غوروفکر کرنے کی ہے جسے military judiciary allianceتک کا نام دیا گیا ہے۔ ہرفوجی طالع آزما کے لیے جواز فراہم کرنے والوں اور ہر عبوری دستور پر حلف لینے والوں کی روش پر اب نہ صرف کھلا احتساب ہونا چاہیے بلکہ اس بُری روایت کو ختم ہونا چاہیے تاکہ ملک میں حقیقی جمہوریت‘ دستور اور قانون کے احترام‘ اداروں کے استحکام‘ اداروں کی بنیاد پر پالیسی سازی اور فیصلہ کرنے کا نظام قائم ہوسکے اور یہ قوم اور ملک جن مقاصد کے لیے جمہوری جدوجہد اور اُمت مسلمہ پاک و ہند کی بے شمار قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا تھا۔ آج عدلیہ اور سیاسی قیادت ہی نہیں پوری قوم کے لیے فیصلے کی گھڑی (moment of truth) ہے اور سابق جج اور نام ور وکیل فخرالدین جی ابراہیم نے ایک مجلے میں جس چیلنج کی نشان دہی کردی ہے اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کا وقت ہے:

If people give up protesting now, they might as well forget about independent judiciary.

اگر لوگ اس وقت احتجاج کرنا چھوڑ دیں تو وہ بھلے آزاد عدلیہ کو بھول جائیں۔

ان کی بات سے مکمل اتفاق کے ساتھ ہم اس پر یہ اضافہ ضروری سمجھتے ہیں کہ بلاشبہہ اولین چیلنج عدلیہ کی آزادی اور اس پر فوجی حکمرانی کے شب خون سے پیدا شدہ حالات کے مقابلے کا ہے لیکن بات اس سے زیادہ ہے۔ یہ حملہ جس وجہ سے ہوا ہے وہ سیاست میں فوج کی مداخلت اور انتظامیہ پر چیف آف اسٹاف کا قبضہ ہے۔ اب عدلیہ کی آزادی بھی اسی وقت حاصل ہوسکے گی جب جرنیلی آمریت سے نجات حاصل کی جائے‘دستور کو اس کی اصل شکل میں نافذ کیا جائے‘ پارلیمنٹ کی بالادستی بحال ہو‘ دستور کی تینوں بنیادوں پر خلوص اور دیانت سے عمل ہو یعنی اسلام‘ پارلیمانی جمہوریت اور حقیقی فیڈرل نظام کا قیام۔ یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب قومی جدوجہد عدلیہ کی آزادی کے ہدف کے ساتھ عدلیہ پر حملے کے اسباب اور ان قوتوں کو بھی غیرمؤثر بنانے پر توجہ مرکوز کرے جو دستور‘ جمہوریت اور عدلیہ کی آزادی کی بساط لپیٹ دینے پر تلے ہوئے ہیں۔

یہ اسی وقت ممکن ہے جب اقتدار دستور کے مطابق عوام کو منتقل کیا جائے‘ جرنیلی آمریت سے نجات پائی جائے اور حقیقی طور پر آزاد عبوری حکومت کے تحت آزاد الیکشن کمیشن کے تحت صاف اور شفاف انتخابات منعقد کیے جائیں تاکہ عوام اپنی آزاد مرضی سے اپنے نمایندے منتخب کریں جو دستور کے مطابق اور قومی احتساب کے بے لاگ نظام کے تحت اپنی ذمہ داری ادا کریں۔ فوج اپنے پروفیشنل دفاعی ذمہ داریوں تک محدود ہو اور سیاست کو سرکاری ایجنسیوں کی دست برد سے پاک کیا جائے۔ جزوی اہداف سے اصل مقاصد حاصل نہیں ہوسکتے۔ اب اس جدوجہد کو مکمل جمہوریت اور دستور کے الفاظ اور روح دونوں کے مکمل نفاذ تک جاری رہنا چاہیے۔

 

پاکستان کی موجودہ جرنیلی حکومت کی کشمیر ’پالیسی‘ (جسے پالیسی کہنا لفظ پالیسی کے ساتھ ناانصافی ہے کہ یہ پالیسی نہیں صرف ’پسپائی ہی پسپائی‘ ہے) نے پاکستان اور جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو ایک خطرناک صورت حال سے دوچار کردیا ہے۔ آج تک پاکستان کی کسی حکومت نے اس اصولی پالیسی سے انحراف نہیں کیا کہ کشمیر پر بھارت کا تسلط ناجائز اور غاصبانہ ہے اور مسئلے کا واحد حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ریاست کے عوام کی آزاد راے سے (عالمی نگرانی میں منعقد ہونے والے استصواب کے ذریعے) اپنے مستقبل کو طے کرنے کے سوا کوئی نہیں۔ پاکستانی قوم اپنے اس موقف پر جو ایک قومی عہد (national covenant) کی حیثیت رکھتا ہے‘ قائم ہے جس کا بھرپور اظہار اس سال ۵فروری کے یوم یک جہتی پر ایک بار پھر ہوا ہے۔ اسی طرح جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی عظیم اکثریت بھی بھارت کے تسلط کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اور اپنی آزادی کے لیے اب تک ۵لاکھ سے زیادہ جانوں کا نذرانہ پیش کرچکی ہے اور اب بھی مقبوضہ کشمیر کی عوامی جدوجہد پر تھکاوٹ اور اضمحلال کا کوئی سایہ نظر نہیں آتا‘ بلکہ پاکستان کی طرف سے شدید مایوسیوں کے باوجود کشمیری اپنی جدوجہد اور قربانیاں پورے جوش و خروش سے جاری رکھے ہوئے ہیں اور پاکستانی قوم سے اب بھی مایوس نہیں ہوئے ہیں۔ اس کا تازہ ترین اعتراف بھارت کے موقر مجلے Economic & Political Weekly نے اپنے ۲۷جنوری ۲۰۰۷ء کے اداریے میں ان الفاظ میں کیا ہے کہ:

’’دونوں طرف خودمختار مملکتوں کے بغیر لائن آف کنٹرول کو نرم کرنا کوئی قابلِ عمل تجویز نہیں ہے۔ یہ امر اہمیت رکھتا ہے کہ پاکستان نے تو اپنے مقاصد کے لیے لائن آف کنٹرول کی حوصلہ افزائی کی اور اس سے فائدہ اٹھایا‘لیکن ۱۹۸۹ء سے وادی میں جو جنگجویانہ شدت ظاہر ہوئی‘ وہ دراصل ریاست میں جاری طرزِحکمرانی کے خلاف مضبوط کشمیری مخالفت کا نتیجہ تھی۔ اسی وجہ سے دہشت گردی نے ریاست میں جڑیں پکڑلیں۔ جوں ہی سری نگر جنسی اسیکنڈل یا افضل گوروکی سزاے موت جیسے مسائل سامنے آتے ہیں‘ احتجاج کا سلسلہ وادی کو ہلا ڈالتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی بیگانگی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ‘‘۔

کشمیر کا مسئلہ محض زمین کا مسئلہ نہیں اور نہ اس کا تعلق سرحدوں کو تسلیم کرنے یا نرم کرنے سے ہے۔ اصل مسئلہ جموں و کشمیر کے عوام کے حق خود ارادیت اور تقسیم ہند کے نامکمل ایجنڈے کی تکمیل کا ہے۔ موجودہ حکومت اس سے دست بردار ہونے کی تاریخی غلطی کر رہی ہے جسے نہ پاکستانی قوم تسلیم کرے گی اور نہ جموں و کشمیر کے مسلمان۔ موجودہ حکومت وہی بات کہہ رہی ہے جو بھارت چاہتا ہے اور بھارت ابھی اس سے بھی زیادہ پاکستان کو ذلیل کرنے پر تلا ہوا ہے۔ Economic & Political Weekly اپنے اس اداریے (۲۷ جنوری ۲۰۰۷ء) میں جنرل پرویز مشرف کی کشمیرپسپائی کا پول اس طرح کھولتا ہے کہ گو ابھی تک:

’’کوئی بھی واضح بات طے نہیں ہوئی ہے‘ جیساکہ وزیرخارجہ پرتاپ مکرجی کے گذشتہ ہفتے اسلام آباد کے دورے میں ظاہر ہوا‘‘۔

لیکن پھر بھی امیدوں کے چراغ جلائے جارہے ہیں۔

’’تاہم بھارت پاکستان پر نظر رکھنے والوں میں ایک نئی تقریباً ناقابلِ محسوس اُمید کی کیفیت ہے‘‘۔

لیکن اس کی وجہ اصل مسئلے کے حل کی کوئی راہ نہیں بلکہ پاکستان کی موجودہ قیادت کے دل و دماغ اور عزائم اور اہداف کی تبدیلی ہے۔ اس اداریے میں کہا گیا ہے کہ:

’’یہ بنیادی طور پر لائن آف کنٹرول کو مستقل سرحد تسلیم کرنے پر پاکستان کی رضامندی اور بھارت کی طرف سے اس لائن کو نرم کرنے اور جموں و کشمیر میں خودمختار حکومت کی خواہش کے لیے گنجایش پیدا کرنے پر آمادگی سے پیدا ہوتی ہے۔ اُمت کے لیے خودمختاری اور لائن آف کنٹرول کے حوالے سے مجوزہ تبدیلیاں مستقل لیکن ___سرحد کو تسلیم کرنا‘ دونوں باتیں بھارت کے مفاد میں ہیں‘‘۔

اس خطرناک پس منظر میں قوم کو ایک بار پھر دو ٹوک انداز میں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مسئلے کا اصل حل کیا ہے۔ ہم اس موقع پر ذیل میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی وہ تقریر شائع کر رہے ہیں جو انھوں نے ۲۵ نومبر ۱۹۶۵ء کو مظفرآباد (آزادکشمیر) کے کالج گرائونڈ میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے کی تھی۔ اس جلسے کی صدارت اس وقت کے وزیراعظم آزاد کشمیر سردار عبدالقیوم خان نے کی اور مولانا کا استقبال ان الفاظ میں کیا:’’میں حاضرین جلسہ کی طرف سے امیرجماعت اسلامی پاکستان مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ اور ان کے رفقا کا تہِ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے یہاں آنے کی تکلیف فرمائی۔۱؎  ان کی آمد ہمارے لیے باعثِ سعادت ہے۔ کشمیر کے لیے مولانا مودودی نے ناقابلِ فراموش کام کیا ہے۔ موجودہ حالات میں جماعت اسلامی کی خدمات تاریخی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ مہاجرین کشمیر کے لیے جماعت اسلامی نے جو کام کیا ہے‘ اسے ہم کبھی نہیں بھول سکتے‘‘۔

مولانا مودودی نے ۱۹۶۵ء کی جنگ کے متاثرین سے ہمدردی اور ان کی پامردی پر خراجِ تحسین پیش کرنے کے بعد جو کچھ فرمایا وہ آج ۲۰۰۷ء میں بھی مشعلِ راہ ہے۔(مدیر)

حضرات! یہ سوال آج ہر شخص کی زبان پر ہے کہ کشمیر کے اس مسئلے کا ‘جو ہمیں درپیش ہے آخر حل کیا ہے؟ ہر پاکستانی خواہ وہ مغربی پاکستان میں ہو یا مشرقی پاکستان میں‘ پوچھ رہا ہے کہ اس مسئلے کو کیسے حل کیا جائے؟ اور جلدی سے جلدی کشمیر میں اپنے مسلمان بھائیوں کو مظالم سے کیسے نجات دلائی جائے؟ میں جہاں کہیں بھی جاتاہوں‘ جن لوگوں سے بھی ملتا ہوں وہ بار بار اس سوال کو اُٹھاتے ہیں اور یہاں بھی جب سے آیا ہوں بار بار یہی سوال سامنے آیا ہے۔ میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ اس مسئلے کو حل کرنے کی زیادہ سے زیادہ چار صورتیں ہیں۔ اگر یہ حل ہوسکتا ہے تو ان میں سے کسی ایک صورت سے حل ہوسکتا ہے۔ ہمیں جائزہ لے کر دیکھنا چاہیے کہ ان صورتوں میں سے کون سی صورت اپنے اندر کتنا کچھ امکان رکھتی ہے:

  •  بہارت پاکستان مذاکرات: اس کے حل کی ایک صورت یہ ہوسکتی تھی کہ بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کے درمیان باہمی بات چیت سے یہ مسئلہ حل ہوجاتا۔ دنیا کی مختلف بڑی بڑی قومیں بار بار یہ کہتی رہی ہیں اور  ان میں سے بعض اب بھی یہ کہتی ہیں کہ آپس میں بیٹھو اور بات چیت سے اس مسئلے کو حل کرو۔ ابھی حال ہی میں روس کی حکومت نے بھی یہ دعوت دی ہے کہ آئو اور ہمارے سامنے بیٹھ کر آپس میںبات چیت کرو___ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا بھارتی حکومت سے بات چیت کے ساتھ کشمیر کا مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ پچھلے ۱۸سال کی تاریخ‘ جس میں سے کشمیر کا مسئلہ گزرا ہے‘ بھارت کی بددیانتی کی کھلی ہوئی تاریخ ہے۔ یہ مسئلہ تو پیدا ہی نہ ہوتا اگر ہندستان کی حکومت میں کوئی دیانت موجود ہوتی۔ جو شخص بھی برعظیم ہند کے نقشے پر نگاہ ڈالے گا‘ ایک نظر میں کہہ دے گا کہ کشمیر پاکستان ہی سے تعلق رکھتا ہے‘ بھارت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ محض نقشے پر نگاہ ڈالنے سے ایک آدمی یہ کہہ سکتا ہے کہ برٹش انڈیا کی تقسیم جس اصول پر ہوئی تھی اس کو دیکھا جائے تو اس لحاظ سے بھارت کو کشمیر لینے کا کوئی حق سرے سے پہنچتا ہی نہیں۔ تقسیم اس اصول پر ہوئی تھی کہ مسلم اکثریت کے متصل علاقے پاکستان میں شامل ہوں گے۔ اس اصول کو مان لینے کے بعد جب ہندستان کے ہندو لیڈر اس بات پر راضی ہوگئے کہ ملک تقسیم ہو تو اگر ان کے اندر ذرہ برابر دیانت موجود ہوتی تو وہ ارادہ ہی نہ کرتے‘ اس بات کا کہ کشمیر پر قبضہ کرلیا جائے۔

فی الواقع یہ بددیانتی ہی تھی جس نے اُن کو اس بات پر آمادہ کیا کہ تقسیم کے وقت اپنے ہمسائے کے ایک حصے پر بھی قبضہ کرلیا۔ پھر اُن کے اندر اتنی انسانیت اور اتنا اخلاق بھی موجود نہیں تھا کہ اپنے قول و قرار کا پاس کرتے۔ کیوں کہ اگر تھوڑی دیر کے لیے حق اور انصاف کے سوال کو نظرانداز بھی کردیا جائے تو خود انھوں نے جس چیز کا اقرار کیا تھا وہ ڈوگرہ راج کی دستاویز الحاق کو قبول کرتے وقت ان کا اپنا یہ اعلان تھا کہ ہم اسے عارضی طور پر قبول کر رہے ہیں اور اس کا آخری فیصلہ جموں اور کشمیر کے باشندوں کی راے پر ہوگا۔ یہ خود ان کا اپنا قول و قرار تھا‘ ان کا اپنا اعلان تھا جس سے وہ منحرف ہوگئے۔

سوال یہ ہے کہ جو قوم اتنی بدعہد ہے اور جس کے لیڈر اس قدر انسانی اخلاق سے عاری ہیں کہ اپنے قول و قرار سے پھر جانے اور اپنی بات کو نگل جانے میں بھی انھوں نے کوئی تامّل نہیں کیا‘ ان سے بات چیت کس بات پر کی جائے؟ تمام دنیا کی قوموں کے سامنے بیٹھ کر اُنھوں نے  یہ عہد کیا تھا اور ۱۹۴۸ء اور ۱۹۴۹ء میں مجلس اقوامِ متحدہ میں انھوں نے اس بات کو قبول کیا تھا کہ  کشمیر کے باشندوں کو راے شماری کے ذریعے سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے گا اور اس طرح وہ خود فیصلہ کریں گے کہ وہ بھارت اور پاکستان میں سے کس کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں۔ اس قرارداد کو بھارت نے خود مانا اور ۱۹۵۸ء تک برابر اس کو مانتا رہا لیکن آج اس کے لیڈروں کو یہ کہتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں ہورہی کہ کشمیر بھارت کا غیرمنفک حصہ ہے۔ آج وہ اس کو اپنا ’اٹوٹ انگ‘ کہتے ہیں اور ان کو یہ کہتے ہوئے ذرہ برابر شرم نہیں آتی۔ نہ ان کا فلسفی صدر اس پر شرماتا ہے اور نہ ان کے شاستری صاحب (صدر ڈاکٹر رادھا کرشنن اور شاستری وزیراعظم) اس پر شرماتے ہیں۔

سوال یہ ہے جس قوم کی اخلاقی حالت یہ ہے کہ اس کا ایک ایک فرد جانتا ہے کہ کشمیر پر ان کا کوئی حق نہیں ہے۔ کشمیر مسلم اکثریت کا علاقہ ہے اور خود تقسیمِ ہند کی رُو سے اسے پاکستان ہی میں شامل ہونا چاہیے اور پھر وہ سب یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے اپنے قول و قرار اس معاملے میں کیا ہیں‘ اس کے باوجود وہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتے ہیں___ سوال یہ ہے کہ ان سے بات کرنے کا آخر کیا فائدہ ہے اور ان سے بات کرنے میں وقت آخر کیوں ضائع کیا جائے؟

جو لوگ ہم سے یہ کہتے ہیں کہ آئو اور ان کے ساتھ بات چیت سے مسئلہ طے کرو ان سے ہمیں یہ کہنے کے بجاے کہ صاحب آپ بلاتے ہیں تو ہم بات کرنے کو تیار ہیں‘ یہ کہنا چاہیے کہ پہلے دوسرے فریق سے اس بات کا اقرار تو کرا لو کہ کشمیر کے متعلق واقعی کوئی جھگڑا ہے۔ آخر جب بھارت یہ کہتا ہے کہ کشمیر کوئی متنازع فیہ علاقہ ( disputed  territory) ہے ہی نہیں‘ کشمیر میں نزاع کا کوئی سوال پیدا ہی نہیں ہوتا اور نہ کشمیرکے متعلق بات کرنے کی ضرورت ہے تو بتایا جائے کہ اس طرح کی بات چیت سے مسئلہ کشمیر کیوں کر حل ہوسکتا ہے۔

  •  اقوام متحدہ کے تحت استصواب راے: دوسری صورت اگر کوئی ممکن ہے تو وہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے ذریعے یہ مسئلہ حل ہو۔ آپ دیکھیں کہ اقوام متحدہ میں یہ مسئلہ ۱۹۴۸ء میں گیا اور آج ۱۹۶۵ء ختم ہو رہا ہے۔ اس پوری مدت میں یعنی ۱۷سال سے زیادہ عرصے میں اقوام متحدہ نے کیا کیا ہے؟ اقوام متحدہ کا اپنا یہ فیصلہ تھا کہ کشمیر سے پاکستان اور ہندستان دونوں کی فوجیں ہٹ جائیں گی اور اقوام متحدہ کے زیرنگرانی  کشمیر میں راے شماری کرائی جائے گی اور وہاں کے باشندوں کو بھارت اور پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ اپنا مستقبل وابستہ کرنے کا حق حاصل ہوگا___  یہ فیصلہ اقوام متحدہ نے ۱۹۴۸ء میں کیا۔ ۱۹۴۹ء میں اس فیصلے کو اور زیادہ واضح الفاظ میں دُہرایا۔لیکن ۱۹۶۵ء تک اس پوری مدت میں اس فیصلے پر عمل درآمد کے بجاے محض وقت گزاری ہوتی رہی۔ کبھی فلاں مشن آرہا ہے اور کبھی فلاںمشن آرہا ہے‘ کبھی استصواب راے کے ایڈمنسٹریٹر کا تقرر کیا جا رہا ہے (جس کو اب تک تنخواہ دی جارہی ہے) لیکن عملاً کیا قدم اٹھایا گیا؟ْ

اس معاملے میں مجلسِ اقوام متحدہ کی بے حسی بلکہ اس کی بداخلاقی کا حال یہ ہے کہ پہلے جن چیزوں کا فیصلہ وہ کرچکے ہیں اور جو فیصلے لکھتے ہوئے بھی دستاویزی صورت میں ان کے سامنے موجود ہیں آج ان فیصلوں کا اعادہ کرنے اور ان کا نام لینے میں ان کو تامّل ہے۔ انھوں نے اسی سال ۴ستمبر اور ۲۰ستمبر اور اس کے بعد اب ۵نومبر کو جتنے ریزرولیوشن پاس کیے ہیں ان میں سے کسی میں ان فیصلوں کا حوالہ تک موجود نہیں ہے۔ ان کو بار بار یاد دہانی کرائی گئی ہے کہ پہلے آپ یہ فیصلے کرچکے ہیں چنانچہ اس امر کا ذکر کرنا چاہیے کہ ان فیصلوںکے مطابق اس مسئلے کو حل کیا جائے لیکن سرے سے اس بات کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں دی گئی۔اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ اقوام متحدہ کو خود اپنے فیصلوں کا بھی کوئی احترام نہیں۔ اس سے بھی زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ میں کھڑے ہو کر بھارت کے وزیرخارجہ صاحب علی الاعلان یہ کہتے ہیں کہ کشمیر تو بھارت کا ایک حصہ ہے‘ کشمیر کے متعلق ہم سرے سے کوئی بات کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ نہ اقوام متحدہ کو یا کسی اور کو کشمیر کے معاملات میں دخل دینے کا کوئی حق پہنچتا ہے کیونکہ یہ بھارت کا داخلی معاملہ ہے ___ یعنی ایک قوم اس قدر بے حیائی کے ساتھ خود اقوام متحدہ میں بیٹھ کر تسلیم کیے ہوئے سارے فیصلوں کو ماننے سے انکار کردے اور سلامتی کونسل کے ممبروں میں سے کوئی نہیںجو کھڑے ہوکر اسے ٹوکے اور کہے کہ تم یہ کس طرح اور کس زبان سے کہہ سکتے ہو کہ کشمیر کا معاملہ تمھارا داخلی معاملہ ہے اور اس میں کسی کو دخل دینے کا حق نہیں ہے___  اگر کسی کو دخل دینے کا حق نہیں ہے تو ۱۹۴۸ء میں یہ اقوام متحدہ کے سامنے پیش کیسے ہوا اور آج بھی اس کے ریکارڈ پر کیوں موجود ہے؟ اگر یہ کوئی مابہ النزاع مسئلہ نہیں تھا تو یہ یہاں کیسے آیا؟ اقوام متحدہ میں اس مسئلے کا آنا خود اس بات کی کھلی ہوئی دلیل ہے کہ یہ ایک مابہ النزاع مسئلہ ہے۔

لیکن سب جانتے ہیں کہ ایسی کوئی آواز اُن مہذب اقوام کے پلیٹ فارم سے سنائی نہیں دی۔ اسی سے آپ اندازہ کیجیے کہ اقوام متحدہ کی اخلاقی حالت کیا ہے اور کس حد تک ان کے ہاں دیانت اور امانت اور انصاف موجود ہے اور یہ بھی کہ کس حد تک وہ خود اپنے فیصلوں کا احترام ملحوظ رکھتے ہیں___  میرا خیال یہ ہے کہ جس طرح ہندستان سے بات چیت کرکے اس مسئلے کے طے ہونے کا کوئی امکان نہیں‘ اسی طرح اقوام متحدہ کے ذریعے اس مسئلے کو طے کرانے کی کوئی اُمید نہیں۔ یہ بالکل ہماری نادانی ہوگی‘ اگر ہم آیندہ بھی اس اُمید پر بیٹھے رہیں جس طرح ۱۷ سال سے بیٹھے ہوئے ہیں۔

  •  عالمی طاقتوں کا کردار:اب اس کے بعد تیسری صورت رہ یہ جاتی ہے کہ دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں اس معاملے میں مداخلت کر کے اس مسئلے کو حل کرائیں۔ آیئے! ذرا ان  بڑی طاقتوں پر بھی ایک نظر دوڑالیں۔

ان بڑی طاقتوں میں سے ایک برطانیہ ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ یہ مسئلہ پیدا ہی برطانیہ کی بددیانتی کی وجہ سے ہوا ہے۔ اس نے تقسیم اتنے غلط طریقے سے کرائی اور ریڈکلف اوارڈ میں ایسی تحریف کی کہ اس کے نتیجے میں ایک مستقل تنازع پاکستان اور ہندستان کے درمیان پیدا ہوگیا۔ اگر یہ تقسیم غلط طریقے سے نہ ہوتی اور ہندستان کوکشمیر تک پہنچنے کا وہ راستہ ناجائز طور پر نہ دیا جاتاجو اُسے کسی صورت میں حاصل نہیں ہوسکتا تھا تو یہ مسئلہ پیدا ہی نہ ہوتا۔

سوال یہ ہے کہ جس طاقت نے اپنی بددیانتی سے‘ اور اس بنا پر کہ اس کے اندر کسی اخلاقی ذمہ داری کا احساس موجود نہیں تھا‘ خود اس مسئلے کو پیدا کرنے کے اسباب فراہم کیے اور اس سارے فساد کی بنیاد ڈالی‘ اس سے آپ کیا توقع رکھتے ہیں کہ وہ اب کوئی کوشش اس مسئلے کوحل کرنے کی کرے گی؟ اگر اس قوم کے اندر ذمہ داری کا احساس موجود ہوتا تو یہ مسئلہ پیدا ہی کیسے ہوتا؟

ایک دوسری بڑی طاقت روس ہے۔ میں یہ صاف صاف کہتا ہوں کہ کشمیر کے مسئلے کو اتنا پیچیدہ بنانے میں بہت بڑا دخل روس کاہے۔ جب تک روس نے ہندستان کی حمایت میں اپنا ویٹو استعمال کرنا شروع نہیں کیا تھا اُس وقت تک ہندوستان کو کبھی یہ کہنے کی جرأت نہیں ہوئی تھی کہ کشمیر کا سرے سے کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں ‘ کشمیر تو ہمارا ’اٹوٹ انگ‘ ہے۔ یہ باتیں بھارت نے اس وقت سے شروع کی جب روس نے مستقل اپنا ویٹو استعمال کر کے بھارت کو اس امر کا اطمینان دلا دیا کہ تم اب کشمیر پر آسانی سے قبضہ برقرار رکھ سکتے ہو۔ روس کے وزیراعظم نے خود کشمیر میں آکر کھلم کھلا اس ظلم کا اعلان کیا کہ ہم کشمیر کو ہندستان کا ایک حصہ مانتے ہیں۔ فی الحقیقت اس مسئلے کو اس حد تک الجھا دینے میں اس ظلم کا بہت بڑا حصہ ہے۔ روس کا ویٹو استعمال ہونے سے پہلے یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں اس حیثیت سے آتا رہا کہ استصواب کیسے کرایا جائے اور کیا کیا انتظامات کیے جائیں۔ لیکن جب سے روس نے ویٹو استعمال کرنا شروع کیا ہے اس وقت سے استصواب کا لفظ ہی اقوام متحدہ کی قراردادوں سے غائب ہوگیا ہے۔

اب ایک ایسی بڑی طاقت سے ہم کیا اُمید قائم کرسکتے ہیں‘ یہ الگ بات ہے کہ کوئی ہمیں بلائے تو ہمارے اخلاق کا تقاضا ہے کہ ہم دعوت کو قبول کریں لیکن دعوت اگر کسی زہریلے پلائو کے کھانے کی ہو توایسی دعوت کو قبول کرنا مسنون نہیں ہے۔۱؎

ایک اور بڑی طاقت امریکا ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ دنیا میں امریکا سے زیادہ ناقابلِ اعتماد دوست شاید ہی کوئی ہوگا۔ اس قوم نے جس کمال کا مظاہرہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ ہر ایک سے   یک طرفہ دوستی چاہتی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ ہر ایک اُس کے کام آئے مگر وہ کسی کا ساتھ نہ دے۔ بلکہ جب بھی موقع پیش آئے تو اپنے دوست کے ساتھ بے وفائی کرے۔ واقعہ یہ ہے کہ امریکا ہی کی وجہ سے پاکستان نے روس کی دشمنی مول لی۔ اگر ہم سیٹو اور سنٹو میں امریکا کے ساتھ شامل نہ ہوتے تو شاید روس ہمارا اس قدر دشمن نہ بنتا کہ بار بار ویٹو استعمال کر کے کشمیر کے مسئلے کو اتنا الجھا دیتا ۔ پاکستان نے امریکا کی دوستی میں اس حد تک نقصان اٹھایا لیکن جب ہمارا معاملہ آیا تو     اُس وقت اُس نے کھلم کھلا ہمارے ساتھ بے وفائی کی۔ جب اس کا حال یہ ہے تو ہم سے زیادہ نادان کون ہوگا اگر ہم یہ اُمید باندھیں کہ امریکا دبائو ڈال کر اس مسئلے کو حل کرے گا۔ میرا خیال یہ ہے کہ ہم اگر امریکا پر اعتماد کریں اور اس اُمید پر بیٹھے رہیں کہ وہ اسے حل کرائے تو وہ اسے ایسے طریقے سے حل کرائے گاکہ کشمیر کو حق خود ارادیت تو درکنار خود پاکستان کی آزادی و خودمختاری بھی باقی نہیں رہے گی۔ جو کچھ اُن کے ارادے سننے میں آتے ہیں اور جس طرح کے مضامین کھلم کھلا  ان کے ہاں لکھے جاتے ہیں اور اخباروں میں شائع ہوتے ہیں‘ اُن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کی اسکیم کشمیر کے مسئلے کو ایسے طریقے سے حل کرانے کی ہے کہ خود پاکستان کی آزادی وخودمختاری بھی ضم ہوجائے گی۔ اس کی وجہ سے ہمارے نزدیک اس سے بڑی کوئی حماقت نہیں ہے کہ امریکا پر اعتماد کیا جائے اور اس کے ذریعے سے اس مسئلے کو حل کرانے کی اُمید باندھی جائے۔

  •   واحد حل ___ جھاد: اب صرف ایک آخری صورت رہ جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم اللہ کے بھروسے پر اُٹھیں اور اپنے خدا پر اعتماد کرتے ہوئے اپنے دست و بازو سے اس مسئلے کو حل کریں۔ میرے نزدیک بس یہی ایک صورت ہے۔ اس سے پہلے بھی برسوں سے میں یہ بات کہتا رہا ہوں اور آج پھر کہتا ہوں کہ کشمیر کے مسئلے کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے جہاد___ آج بالکل صریح طور پر یہ بات ہر ایک کے سامنے آچکی ہے کہ اس مسئلے کا اس کے سوا کوئی اور حل نہیں ہے۔

لیکن جہاں تک اس حل کا تعلق ہے‘ بعض لوگوں کے ذہنوں میں’حساب‘ کے مختلف سوال پیدا ہوجاتے ہیں۔ جب اس مسئلے پر بات ہوتی ہے تو بعض لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ پاکستان اور ہندستان کی طاقت میں بہت بڑا فرق ہے۔ وہ کئی گنا بڑی طاقت ہے‘ اس وجہ سے ہم لڑ کر   اس مسئلے کو حل نہیں کرسکتے۔ کچھ لوگ یہ بات کھل کر کہتے ہیں اور بعض لوگ دبے دبے الفاظ میںاس خیال کا اظہار کرتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ آج ہمارے سامنے مسئلہ زندگی اور موت کا ہے‘ غیرت اور بے غیرتی کا ہے‘ عزت اور ذلّت کا ہے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ ہم ایک مرتبہ کشمیر کے معاملے میں دبتے ہیں تو یہ ایک مرتبہ کا دبنا نہیں ہوگا بلکہ اس کے بعد ہم کو مسلسل دبتے چلے جانا پڑے گا۔ یہاں تک کہ ہماری آزادی بھی چھن جائے گی۔ یعنی اب پاکستان کا باقی رہنا بھی اس بات پر منحصر ہے کہ پاکستان دنیا میں اس بات کو ثابت کرے کہ یہ ایک باعزت قوم کا ملک ہے‘ ایک زندہ قوم کی سرزمین ہے اور یہ قوم اپنی عزت کے لیے مرمٹ سکتی ہے‘ لیکن جھک نہیں سکتی۔

میرے بھائیو! جب تک ہم اپنے عمل سے اس بات کو ثابت نہیں کریں گے ‘ یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا اور نہ صرف یہ کہ یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ ہم ایک آزاد اور باعزت قوم کی حیثیت سے زندہ نہیں رہ سکیں گے۔

جہاںتک حساب لگانے کا تعلق ہے تو پہلی بات یہ ہے کہ مسلمان کو بتایا گیا ہے کہ جو لوگ اللہ کی طاقت پر اعتماد کرتے ہیں وہ اپنے سے دس گنا طاقت سے بھی لڑکر کامیاب ہوسکتے ہیں۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ کم من فئۃٍ غلبت فئۃً کثیرۃً باذن اللّٰہِ  [یعنی] ایک قلیل تعداد‘ بارہا ایسا ہوا ہے کہ اللہ کے حکم سے ایک کثیرتعداد کے اُوپر غالب آجاتی ہے۔

اور آج تو یہ محض ایمان بالغیب کی بات بھی نہیں رہی۔ پچھلے ۱۷ روز کی جنگ میں مسلسل اور پے درپے اس بات کا مشاہدہ ہوچکا ہے۔ کوئی شخص اس بات کو کیسے باور کرسکتا ہے کہ تین رجمنٹ فوج تین ڈویژن سے بھڑجائے اور وہ تین ڈویژن اس پر غالب نہ آسکیں۔ ایک بٹالین فوج پوری کی پوری تین ڈویژن کو روکے رکھے اور وہ لاہور کی طرف نہ بڑھنے پائے۔ اگر’حساب‘ کرکے دیکھاجائے تو ہماری فضائی طاقت کتنی تھی اور ہندستان کی طاقت کتنی۔ ہرشخص دیکھ سکتا ہے کہ ہم میں سے کئی گنا زیادہ تھے اور صرف یہی نہیں کہ وہ بہت زیادہ تھے بلکہ ان کے ہوائی جہاز ہمارے ہوائی جہازوں سے زیادہ بہتر نوعیت کے تھے لیکن تجربے نے آپ کو بتا دیا کہ اگر اللہ کی تائید شاملِ حل ہواور مسلمان اللہ کے بھروسے پر اُٹھ کھڑے ہوں تو اللہ کی تائید معجزے دکھا سکتی ہے اور اس زمانے میں بھی اس نے معجزے دکھائے ہیں۔ ہم سب اپنی آنکھوں دیکھ چکے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ ہمیں اللہ کے بھروسے پر اُٹھنا چاہیے اور اس مسئلے کو حل کرنا چاہیے ___لیکن ایک بات اچھی طرح سمجھ لیجیے۔

یاد رکھیے کہ اللہ سے تائید کی اُمید رکھنا اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ کی نافرمانیاں کرنا‘  یہ دونوں چیزیں ساتھ ساتھ نہیں چلا کرتیں۔ اس جنگ سے پہلے سترہ اٹھارہ سال جو کچھ ہمارے ہاں ہوتا رہا ‘ جو فسق و فجور بپارہا‘ جس طرح اسلامی تہذیب کے گلے پر چھری چلائی جاتی رہی اور غیراسلامی ثقافت کو رواج دیا جاتا رہاوہ سب کو معلوم ہے‘ اس کی داستان کسی سے چھپی ہوئی نہیں۔ لیکن صرف اس وجہ سے کہ یہ قوم اللہ کا نام لیتی تھی اور اس قوم کے اندر خدا سے بغاوت کا ارادہ نہیں تھا بلکہ یہ فسق و فجور اس پر زبردستی مسلّط کیا جا رہا تھا‘ اللہ نے ہم پر رحم کیا اور اس آزمایش کے موقع پر اللہ کی ایسی غیرمعمولی تائید آئی کہ دشمن بھی ششدر رہ گیا۔ لیکن جان لیجیے کہ اپنے خدا کے ساتھ  یہ کھیل ہم بار بار نہیں کھیل سکتے۔ اگر ہمیں اس سے تائید چاہنی ہے‘ اگر ہم یہ اُمید لگاتے ہیں کہ وہ ہماری مدد فرمائے گا تو ہمیں اس کے ساتھ بغاوت کا رویّہ چھوڑنا پڑے گا۔ یہ بات بالکل غلط ہے کہ کہ لڑنے کے وقت کلمے پڑھے جائیں‘ جنگ میں اس کی مدد کے بھروسے پر اطمینان ظاہر کیا جائے اور لڑائی ختم ہوتے ہی فوراً پھر وہ سابق فسق و فجور شروع ہوجائیں۔ یہ بات صحیح نہیں ہے کہ آج ہماری فوجوں کو ورائٹی شو دکھانے شروع کر دیے جائیںاورورائٹی شو اس طرح سے کہ عین فرنٹ کے اُوپر لے جاکر آدھے سپاہیوں سے کہا جائے کہ تم مورچوں میں بیٹھو اور آدھے جاکر ورائٹی شو دیکھیں۔ گویا صلوٰۃ خوف کی طرح اب یہ آدھے جاکر وہاں رقص دیکھیں‘ العیاذ باللہ!

یہ چیزیں خدا کی مدد حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں ہیں۔اگر ہمیں خدا کی مدد حاصل کرنی ہے تو پھر خدا کی اطاعت کی طرف آنا پڑے گا۔ اُس سے بغاوت کی راہ چھوڑنا پڑے گی۔ میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ اگر ہم خدا کی اطاعت اور فرماں برداری اختیار کریں تو جتنی تائید پچھلے سترہ روز میں خدا نے کی ہے‘ اس سے بدرجہا زیادہ تائید اس کی طرف سے پھر ہوگی اور بہت جلدی نہ صرف یہ مسئلہ حل ہوگا بلکہ پاکستان کی آزادی اور خودمختاری کے متعلق بھی ہمیں پوری طرح سے اطمینان حاصل ہوجائے گا جیساکہ سردار عبدالقیوم صاحب نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ اب مسئلہ صرف کشمیر کا نہیں ہے‘ مسئلہ پاکستان کا ہے اور اس بات کا کہ پاکستان کو عزت کے ساتھ جینا ہے یا نہیں؟

تو اس مسئلے کو صرف خدا کی تائید ہی حل کرسکتی ہے۔ اور کوئی طاقت ایسی نہیں ہے۔ ہرطرف سے نظریں ہٹاکر ایک خدا سے اُمیدیں باندھی جائیں۔ نہ روس کی طرف سے آپ کو کوئی امداد ملنی ہے نہ امریکا کی طرف سے‘ نہ برطانیہ کی طرف سے اور نہ اقوام متحدہ کی طرف سے۔ ہرطرف سے نظریں ہٹا کر ایک خدا کے بندے بن جایئے اور خدا کے بھروسے پر اپنے دست و بازو سے اس مسئلے کو حل کرانے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں۔ یہی آخری راستہ ہے۔

میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمارے حکمرانوں کو اتنی ہمت اور اتنا عزم عطا کرے کہ وہ اُس کے بھروسے پر اُٹھ کھڑے ہوں اور اس مسئلے کو حل کرلیں۔ میں تمام مسلمانوں کے حق میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنا فرماں بردار بنائے‘ ان کو اپنی اطاعت کی توفیق بخشے اور ان کے اُوپر رحم فرمائے۔ (۵-اے ذیلدار پارک‘ جلد دوم‘ مرتبہ: رفیع الدین ہاشمی‘ ص ۵۳-۶۳)

جنرل پرویز مشرف نے دستور اور صدارتی آداب‘روایات اور وقار کو یکسر بالاے طاق رکھ کر اپنے مخصوص جنگ جویانہ انداز میں ۲۰۰۷ء کی انتخابی مہم کا آغاز کردیا ہے۔ اشاروں میں باتیں تو وہ ایک عرصے سے کر رہے تھے لیکن نام نہاد تحفظ خواتین بل کا دفاع کرتے ہوئے صاف لفظوں میں انھوں نے کہا کہ اب ملک میں اصل کش مکش دو قوتوں کے درمیان ہے۔ ایک ان کی روشن خیال لبرل ٹیم جس کے وہ خود سربراہ ہیں اور دوسری ملک کی اسلامی قوتیں جو ان کی نگاہ میں ترقی کی مخالف اور جدیدیت کی راہ کی اصل رکاوٹ ہیں۔ پھر بنوں اور کرک کے جلسوں میں انھوں نے کھل کر اپنی اور اپنے ساتھیوں کی انتخابی مہم کا آغاز کیا اور صاف صاف ووٹ مانگے۔ جوشِ خطابت میں اپنے مخالفین کو ’جاہل‘، ’منافق‘ اور ’جھوٹے‘ کے القاب سے نوازا اور یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ’’ملک آج ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ ایک طرف ترقی اور روشن خیالی ہے تو دوسری طرف جہالت اور انتہاپسندی‘‘۔ ان کے الفاظ میں:

There are  two roads: one leading towards development, progress and prosperity and the other leading towards backwardness and destruction. The coming elections would be very crucial and the outcome would define our national sense of direction. It is a contest between religious radicalism and enlightened moderation.

اور اب تازہ ترین ارشاد یہ ہے کہ وہ خود ۲۰۰۷ء کے انتخابات میں اپنے امیدواروں کا انتخاب کریں گے اور ان کی انتخابی مہم چلائیں گے۔ جس دوراہے کا وہ اب ذکر کررہے ہیں اس کی ایک راہ جنرل پرویز کی فوجی آمریت کی راہ ہے اور دوسری جرنیلی آمریت کے مخالفین اور اسلامی فلاحی اور جمہوری پاکستان کے لیے جدوجہد کرنے والوں کی۔

یادش بخیر‘ جنوری ۲۰۰۷ء میں اس دوراہے کی نشان دہی کرتے وقت وہ بھول گئے کہ اس سے سواسات سال پہلے ۱۷ اکتوبر۱۹۹۹ء کو اپنے فوجی اقدام کے پانچ دن بعد انھوں نے ایسا ہی ایک ارشاد فرمایا تھاکہ:

آج پاکستان اپنی تقدیر کے دوراہے پر کھڑا ہے۔ ایسی تقدیر جو فردِواحد کے ہاتھ میں ہے‘ خواہ سنوار دے یا برباد کر دے۔

سواسات سال تک مکمل اور غیرمشروط اقتدار اور امریکا کی بھرپور امداد کے باوجود اگر آج پھر وہ قوم کو بتا رہے ہیں کہ وہ ابھی تک قوم ایک دوراہے پر کھڑی ہے تو یہ ان کی اپنی اور ان کے بنائے ہوئے نظام کی ناکامی کا اس سے واضح اعتراف اور کیا ہوسکتا ہے۔ ان سات سال میں وہ اس منزل کی طرف کوئی پیش قدمی نہ کرسکے تو اب کس امید پر قوم کو نئی منزل کی راہ دکھا رہے ہیں۔

بالعموم جمہوری ممالک میں پارلیمنٹ کی مدت چار سے پانچ سال ہوتی ہے۔ اور ایک مدت ایک قیادت کی کامیابی و ناکامی کو واضح کرنے کے لیے کافی تصور کی جاتی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کو سواسات سال ایسا اقتدار ملا ہے کہ ان کے لیے کوئی چیلنج نہیں تھا۔ ۲۰۰۲ء کے انتخابات کے بعد اور من مانی دستوری ترامیم اور ان سے بھی زیادہ ہر دستور اور قانون سے عملاً بالا ہوکر اور عالمی قوتوں سے پوری مفاہمت بلکہ سپردگی کا رویہ اختیار کر کے‘ وہ ملک و قوم کو جس مقام پر لے آئے ہیں‘ وہ ہراعتبار سے ۱۹۹۹ء سے بدتر ہے۔ ہمیں ان کی اس بات سے تو اتفاق ہے کہ فی الحقیقت ملک اس وقت ایک دوراہے پر کھڑا ہے لیکن یہ دوراہا وہ ہے جہاں جنرل پرویز مشرف اور ان کے حواریوں نے دھکے دے دے کر ملک کوپہنچایا ہے اور اب وہی سوال جو انھوں نے ۱۷ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو بڑے طمطراق سے اٹھایا تھا‘ اب خود ان کی ناکامیوں اور جرنیلی آمریت کی تباہ کاریوں کے بعد بڑی گمبھیر صورت میں ملک و قوم کے سامنے ہے یعنی:

کیا یہ وہ جمہوریت ہے جس کا تصور قائداعظم نے دیا تھا؟

آج قوم کے سامنے اصل سوال یہ ہے کہ قائداعظم کی رہنمائی میں ملّت اسلامیہ نے جس اسلامی‘ جمہوری اور فلاحی ریاست کے قیام کے لیے پاکستان بنایا تھا‘ جرنیلی حکمران نے اس سے ہمیں کتنا دُور کردیا ہے۔ اب قوم کے سامنے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ جس طرح برعظیم کے مسلمانوں نے پاکستان کے قیام کے لیے عوامی اور جمہوری جدوجہد کے ذریعے سات سال کی قلیل مدت میں یہ آزاد خطہ زمین حاصل کرلیا‘ جو بدقسمتی اور ہماری اپنی غلطیوں سے آہستہ آہستہ سیاسی طالع آزمائوں اور بیوروکریسی‘ جرنیلوں‘ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے گٹھ جوڑ کی دراندازیوں اور کچھ عاقبت نااندیش ججوں کی مصلحت بینی سے تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے‘ اسے بچانے اور اُمت مسلمہ اور اس کے حقیقی قائدین اقبال اور قائداعظم محمدعلی جناح کے تصور کے مطابق تعمیر کرنے کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دیں۔ بلاشبہہ پاکستان ایک دوراہے پر کھڑا ہے اور انتخاب کسی نام نہاد روشن خیالی اور کسی خیالی انتہاپسندی کے درمیان نہیں بلکہ سیدھے سیدھے فوجی آمریت‘ شخصی حکمرانی‘ امریکا کی سیاسی اور معاشی غلامی اور خدانخواستہ بالآخر بھارت کی علاقے پر بالادستی اور ملت اسلامیہ پاکستان کی حقیقی آزادی سے محرومی کے مقابلے میں ملّت اسلامیہ پاکستان کے دینی اور تہذیبی تشخص کی حفاظت‘ اللہ کی حاکمیت کے تحت عوام کی حکمرانی‘ پارلیمنٹ کی بالادستی اور قانون اور انصاف کے قیام کے درمیان ہے۔ ۲۰۰۷ء فیصلے کاسال ہے۔ قائداعظم کی رہنمائی میں سات برس میں ہم نے پاکستان حاصل کرلیا تھا اور جنرل پرویز مشرف کی حکمرانی میں ان سات برسوں میں پاکستان ہراعتبار سے اپنے اصل مقاصد سے دُور اور ایک نئی غلامی اور محکومی کی گرفت میں آگیا ہے جس سے نجات ہی میں اب پاکستان کی بقا اور اس کی ترقی کا امکان ہے۔

غلامی کے سایے

قیامِ پاکستان کا سب سے اہم حاصل ملت اسلامیہ پاکستان کی آزادی تھی یعنی مغربی سامراج سے آزادی کے ساتھ ساتھ بھارتی سامراج کی گرفت سے نکل کر خود اپنے دین وایمان ‘ تہذیب و ثقافت اور مادی اور روحانی اہداف کے حصول کے مواقع کا حصول۔ قرارداد مقاصد جو دستور کا قلب ہے‘ اس منزل کا بہترین اظہار و اعلان ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے سات سالہ دورِاقتدار میں ان تمام مقاصد پر کاری ضرب لگی ہے اور ایک ایک بنیاد کو منہدم کرنے کے لیے منصوبہ بندی کے ساتھ واضح اقدام کیے گئے ہیں جن سے ان کا پورا گیم پلان کھل کر سامنے آگیا ہے:

  • اسلام کی جگہ روشن خیال اعتدال پسندی کے نام پر سیکولرازم اور مغربی لبرلزم کا فروغ جس  کی زد ہردینی اور اخلاقی قدر پر ہو 
  • جمہوریت کی جگہ شخصی آمریت جس پر فوجی وردی مستزاد 
  • جن سرحدوں کو قائم کرنے کے لیے قیامِ پاکستان کی تاریخی جدوجہد ہوئی تھی اب بھارت دوستی کے نام پر انھیں غیرمتعلق بنا دینے کے منصوبے‘ جموں و کشمیر جو پاکستان کی شہ رگ ہے اسے مستقل طور پر بھارت کی گرفت میںدینے کی تجاویز 
  • کشمیر کا جو علاقہ مسلمانوں نے اپنے خون سے آزاد کرایا  اس پر بھی بھارت کے مشترکہ کنٹرول کے نقشے
  • جس مقبوضہ کشمیر میں مسلمان پانچ سے چھے لاکھ قیمتی جانوں کی قربانی دے کر آزاد ی کی جدوجہد کر رہے ہیں‘ اسے طشتری میں رکھ کر بھارت کو  پیش کردینے اور اس بھارتی خواب میں رنگ بھرنے کی باتیں کہ ناشتہ امرتسر میں ہو‘ دوپہر کا کھانا لاہور میں کھایا جائے اور رات کا کھانا کابل میں۔

جس مغربی سامراج سے لڑکر قوم نے آزادی حاصل کی تھی‘ آج جرنیلی حکمران خوشی خوشی بلکہ اسی نوعیت کے فخر کے ساتھ جس کا مظاہرہ دورِ غلامی کے نوابوں اور راجاؤں نے کیا تھا‘ امریکا کی بالادستی ہی نہیں عملی غلامی کے طوق پہن کر ملک کو نئے سامراج کے جال میں پھنسا رہے ہیں۔ دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد ملک امریکا اور اس کی دہشت گرد قیادت کے آگے اس طرح صف بستہ ہیں کہ ہر روز ان کی طرف سے نیا مطالبہ آرہا ہے اور ہمارے یہ فوجی جرنیل خود اپنے معصوم شہریوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں تاکہ امریکا سے داد وصول کریں حالاں کہ جو کچھ حاصل ہو رہا ہے وہ صرف جھڑکیاں‘ دھمکیاں اور ھل من مزید کے مطالبات ہیں۔ جنوری ۲۰۰۷ء کے پہلے ۱۴ دنوں میں ایک نہیں چار چار امریکی ذمہ داروں نے بڑے طمطراق کے ساتھ پاکستانی حکمرانوں کو دھمکیوں اور گھر.ُکیوں کے ساتھ دوغلے پن اور دھوکابازی کے تمغوں سے بھی نوازا ہے___ امریکی وزیرخارجہ کونڈالیزارائس‘ محکمہ سراغ رسانی کاسربراہ جان نیگروپونٹے‘ ناٹو کے ایساف کمانڈر ڈیوڈ ری چرڈ اور نائب وزیرخارجہ ری چرڈ بوچر نے اپنے اپنے انداز میں اور ایک دوسرے سے بڑھ کر پاکستان پر طالبان کی پشت پناہی‘ ان کی تنظیم نو اور تائید کا الزام لگایا ہے‘ دھمکیاں دی ہیں اور پاکستان کی سرزمین پر پیشگی حملے کے خالص جارحانہ اقدام کا عندیہ دیا ہے اور اس کا نمونہ پہلے ہی ڈمہ ڈولہ‘ باجوڑاور شوال امریکی طیارے اور میزائل پیش کرچکے ہیں۔ اس کے جواب میں ہماری طرف سے مجرمانہ پسپائی ہی اختیار نہیں کی گئی بلکہ قومی عزت و غیرت اور عسکری وقار کو مجروح کرتے ہوئے وزیرستان میں ایک سال میں دو بلکہ فی الحقیقت تین بار ہمارے علاقے پر امریکی بم باری کو خود اپنے سر لے لیا گیا ہے۔ یہ اگر غلامی کی نئی زنجیریں نہیں تو کیا ہیں؟

نئے امریکی قانون کا شکنجہ

پاکستان کی جو تذلیل اس جرنیلی آمریت میں ہوئی ہے‘ وہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ اگر اس جرنیلی کارنامے کی اصل تصویر دیکھنی ہے تو اس تازہ قانون کا مطالعہ کرلیجیے جو     ابھی امریکی ایوان نمایندگان نے بڑی عجلت میں نائن الیون کمیشن کی سفارشات کو قانونی شکل دینے کے لیے منظور کیا ہے۔ اس قانون کا سیکشن ۱۴۴۲ پاکستان کے بارے میں ہے۔ اس حصے میں دہشت گردی کے مقابلے کے نام پر پاکستان کی جو تصویر دی گئی ہے اور اس کے بارے میں جو پالیسی قانون کا حصہ بنائی گئی ہے اس کا ایک ایک لفظ پڑھنے اور تجزیہ کرنے کے لائق ہے۔    حملہ کرنے والے سعودی اور مصری تھے‘ القاعدہ کا مرکز افغانستان تھا۔ مگر افغانستان پر ایک صفحہ‘ سعودی عرب پر ایک صفحہ لیکن پاکستان پر پورے چھے صفحات پر مشتمل قانون لاگو کیا گیا ہے  جیسے اصل مجرم پاکستان ہے۔ یہ قانون پاکستان کے لیے کلنک کا ٹیکہ اور جنرل پرویز مشرف کی خارجہ پالیسی کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ ہے وہ مقام جس پر اس عظیم ملک کو جس نے اللہ کی مدد اور صرف اپنی کوششوں سے ایک ایٹمی طاقت بننے کی سعادت حاصل کی تھی‘ اب اس جرنیلی آمریت نے پہنچا دیا ہے۔ ہم پاکستان کے متعلقہ حصے کی چند اہم دفعات یہاں دیتے ہیں تاکہ قوم کو معلوم ہوسکے کہ ملک کو کس شکنجے میں کَس دیا گیا ہے اور کس طرح جس مدد کے لیے بغلیں بجائی جارہی ہیں اس کے سر پر پابندیوں کی تلوار کس کس شرط کے ساتھ چھائی ہوئی ہے اور اس کے لیے یہ پابندی بھی رقم کردی گئی ہے کہ وہ ہرسال امریکی صدر کے سرٹیفیکٹ کے بغیر ایک سانس بھی نہیں لے سکے۔ یہ پریسلر پابندیوں کی تازہ اور زیادہ مکروہ شکل ہے۔

                ۲- ایسے بہت سے مسائل ہیں جو امریکا اور پاکستان کے تعلقات کو خطرات سے دوچار کرسکتے ہیں‘ عالمی استحکام کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور پاکستان کو غیرمستحکم کرسکتے ہیں‘ بشمول:

                (اے)   جوہری ہتھیاروں کی ٹکنالوجی کے پھیلائو کو روکنا۔

                (سی)  مؤثر سرکاری اداروں کی تعمیر‘ خصوصاً سیکولر پبلک اسکول ۔

                (ای)   پورے ملک میں طالبان اور دوسری پُرتشدد انتہاپسند طاقتوں کی مسلسل موجودگی کے حوالے سے اقدامات کرنا۔

                (جی) دوسرے ملکوں اور علاقوں کی طرف جنگ جوؤں اور دہشت گردوں کی نقل و حرکت روکنے کے لیے پاکستان کی سرحدات کو محفوظ بنانا۔

                (ایچ) اسلامی انتہاپسندی کے ساتھ مؤثر طور پر نبٹنا۔

                (بی) پالیسی کا بیان: امریکا کی پالیسیاں درج ذیل ہوں گی:

                (۱)  عالمی دہشت گردی‘ خصوصاً پاکستان کے سرحدی صوبوں میں‘ ختم کرنے کے لیے اور طالبان سے وابستہ طاقتوں کے لیے پاکستان کے ایک محفوظ پناہ گاہ کے استعمال کو ختم کرنے کے لیے حکومت پاکستان کے ساتھ کام کرنا۔

                ۳-  حکومت پاکستان اور بھارتی حکومت کے درمیان تنازع کشمیر کے حل کے لیے مدد کرنا۔

                (سی) حکمت عملی متعلقہ پاکستان:

                ۱-  اس ایکٹ کے قانون بن جانے کے ۹۰دن کے اندر اندر صدر متعلقہ کانگریس کمیٹی کو ضروری ہو تو خفیہ رپورٹ پیش کرے گا جو امریکا کی طویل المیعاد حکمت عملی کو بیان کرے۔

                ۲-  متعلقہ کمیٹی سے مراد: کانگریس کی خارجہ امور کی کمیٹی‘ مجلس نمایندگان کی مصارف (appropriations) کمیٹی اور سینیٹ کی بھی خارجہ تعلقات اور مصارف کمیٹی۔

                (ڈی) پاکستان کو امریکا کی سلامتی کی امداد پر تحدید:

                تحدید:  (اے)یہ امداد منظور نہیں ہوگی جب تک کہ اس تاریخ کو ۱۵ دن نہ گزر جائیں‘ جب کہ صدر صورت حال کے بارے میں متعین معلومات حاصل کرے اور متعلقہ کانگریس کمیٹیوں کو تصدیق کرے کہ حکومت پاکستان اپنے زیراختیار علاقوں بشمول کوئٹہ اور چمن ‘ صوبہ سرحد اور قبائلی علاقے میں طالبان کو کام کرنے سے روکنے کے لیے اپنی تمام ممکنہ کوششیں کر رہا ہے۔

                (بی) اس تصدیق کو غیر خفیہ ہونا چاہیے لیکن اس کا ایک ضمیمہ خفیہ بھی ہوسکتا ہے۔

                ۲-   استثنا: صدر اس تحدید کو ایک مالیاتی سال کے لیے معطل کرسکتا ہے‘ اگر وہ کانگریس کی مصارف کمیٹیوں کو یہ تصدیق کرے کہ ایسا کرنا امریکا کی قومی سلامتی کے مفاد کے لیے اہم ہے۔

                (ای)  جوہری پھیلائو: (۱) کانگریس اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ پاکستان کا ایٹمی اور میزائل ٹکنالوجی کے پھیلائو کے نیٹ ورک کو باقی رکھنا پاکستان کو امریکا کے حلیف قرار دینے سے متغائر ہے۔

                ۲-  کانگریس کی راے: کانگریس کی راے یہ ہے کہ امریکا کی قومی سلامتی کے مفادات بہتر طور پر حاصل ہوں گے اگر امریکا پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کے لیے ایک طویل المیعاد حکمت عملی طے کرے اور اس کو نافذ بھی کرے‘ اور جوہری پھیلائو کو روکنے کے لیے حکومت پاکستان کے ساتھ کام کرے۔

واضح رہے کہ اس قانون میں حقیقی طور پر صرف تین ملکوں کا ذکر ہے یعنی افغانستان‘ پاکستان اور سعودی عرب اور جیساکہ ہم نے عرض کیا‘ سب سے زیادہ پابندیاں اور شکنجے پاکستان  کے لیے ہیں۔ یہ ہے ہماری آزادی کی حقیقت۔

جرنیلی نظام کے لیے پاکستان کا دستور تو کب کا قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ اب تو امریکا کا یہ قانون موجودہ حکمرانوں کے لیے اصل ’دستور‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور انتہاپسندی‘ لبرلزم‘ طالبان دشمنی کے بارے میں جو کچھ کہا اور کیا جا رہا ہے اس کا پاکستان کے دستور‘ قانون یا مفادات سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ سب کچھ وہ امریکا کے فرمان کی تعمیل کے سوا کچھ نہیں۔

آج پاکستان جس دوراہے پر ہے وہ یہی امریکی غلامی یا حقیقی آزادی کا دوراہا ہے اور وقت آگیا ہے کہ پاکستانی قوم اس نئی غلامی کی زنجیروں کو پارہ پارہ کردے اور صرف اللہ کی غلامی میں حقیقی آزادی کا راستہ اختیار کرے۔

وفاق کا شیرازہ معرضِ خطر میں

جنرل پرویز مشرف کی سات سالہ حکمرانی کا ایک اور ثمرہ یہ ہے کہ ملک میں آج فیڈریشن جتنی کمزور ہے اور مرکز اور صوبوں کے تعلقات جتنے خراب آج ہیں ۱۹۷۱ء کے سانحے کے بعد کبھی نہ تھے۔ جنرل صاحب نے اپنا جو سات نکاتی پروگرام ۱۷ اکتوبر ۱۹۹۹ء میں اعلان فرمایا تھا اس میں ایک فیڈریشن کی مضبوطی اور تمام صوبوں اور مرکز میں زیادہ ہم آہنگی کا حصول بھی تھا مگر حاصل اس کے برعکس ہے۔ خود جرنیل صاحب نے اپنے حالیہ دورۂ سرحد میں اعتراف کیا ہے کہ فیڈریشن میں تعلقات کی بہتری حاصل نہیں کی جاسکی ہے۔ بلوچستان میں تین سال سے فوج کشی جاری ہے اور اس عرصے میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوچکے ہیں‘ سیکڑوںہلاک ہوئے ہیں اور پورا صوبہ ایک آتش فشاں کی شکل اختیار کرچکا ہے۔

صوبہ سرحد میں مرکز صوبائی حکومت پر ہر طرح کا دبائو استعمال کر رہا ہے۔ چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کو کسی مشورے کے بغیر مسلط کیا جاتا ہے۔ صوبائی اسمبلی کی قراردادوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ صوبے کے مالی حقوق ادا نہیں کیے جارہے۔ ایک تحریری معاہدے کے تحت پاکستان کے سابق چیف جسٹس کی سربراہی میں جو ثالثی کمیشن بنایا گیا تھا کہ پن بجلی کے منافعے کا اس کاحصہ ادا کیا جائے ۔ اس کے متفقہ فیصلے کو بھی نافذ نہیں کیا جا رہا اور صوبے کو صف آرائی پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ حِسبہ بل جوصوبائی اسمبلی نے دو بار منظور کیا ہے اسے مرکز ویٹو کرنے پر تلا. ُ  ہوا ہے۔ صوبائی وزیراعلیٰ کے مکان پر آئی بی کے اہل کار دھماکا خیز مواد رکھتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں ۷۰ ہزار فوج لگائی ہوئی ہے جو محض شبہے کی بنیاد پر    کشت و خون کر رہی ہے۔ ۷۰۰ سے زیادہ فوجی ہلاک ہوچکے ہیں اور اس سے زیادہ عام شہری   جاں بحق ہوئے ہیں۔ فوج اور ان قبائل کو جو پاکستان کے محافظ تھے ایک دوسرے کے خلاف   صف آرا کردیا گیا ہے اور امن کے معاہدات کے ذریعے اس آ گ کو بجھانے کی جو کوشش کی گئی ہے اس کو سبوتاژ کرنے کے لیے امریکا‘ افغانستان کی حکومت‘ افغانستان میں ناٹو کی ایساف کی کمانڈ اور خود ملک کے فوجی حکمران طرح طرح کی کارروائیاں کررہے ہیں جن سے خطرہ ہے کہ امن کی فضا ختم ہوجائے اور خدانخواستہ کوئی بڑا خونی تصادم پھر سر اُٹھالے۔

پنجاب چونکہ حکمران ہے‘ اس لیے اس سے بظاہر مرکز کے تعلقات اچھے ہیں لیکن دراصل خود صوبے کے مختلف حصوں کے درمیان کھچائو اور رسہ کشی ہے اور خصوصیت سے جنوبی پنجاب میں بے زاری کی لہریں اُٹھ رہی ہیں۔ سندھ کا معاملہ کچھ اور بھی پیچیدہ ہے۔ وہاں جس پارٹی نے  سب سے زیادہ ووٹ لیے تھے‘ اسے حکومت بنانے سے محروم رکھا گیا اور مصنوعی اکثریت پیدا کرکے سیاسی دروبست کا اہتمام کیا گیا۔ ایک لسانی تنظیم کو جو دراصل ایک مافیا کی حیثیت رکھتی ہے صوبے پر مسلط کردیا گیا ہے جس نے صرف کراچی ہی نہیں پورے صوبے میں تباہی مچائی ہوئی ہے۔ ایک ایسے شخص کو جو خودسزا یافتہ تھا‘ جھوٹی معافی دے کر اور سیاسی سودا بازی کے نتیجے میں  گورنر مقرر کیا گیا اور وہ گورنر باقی تمام صوبوں کے گورنروں کے مقابلے میں ایک متوازی حکومت کے ذریعے اپنی من مانی کر رہا ہے۔

صوبائی خودمختاری کا مسئلہ ایسی گمبھیر شکل اختیار کرتا جا رہا ہے کہ فیڈریشن کا شیرازہ   معرضِ خطر میں ہے لیکن جرنیل صاحب یونٹی آف کمانڈ کے نام پر فیڈریشن پر ایک وحدانی نظام مسلط کررہے ہیں اور یہ وحدانی نظام خاکی وردی میں ملبوس ہے۔ بگاڑ کی اصل وجہ یہ جرنیلی نظام ہے جس نے ملک کے سارے اداروں کا خانہ خراب کر دیا ہے۔

ایک دوراہا یہ بھی ہے کہ آیا اس ملک کو ایک حقیقی فیڈرل نظام کے مطابق چلنا ہے۔ آمریت اور وحدانی نظام جس کے بوجھ تلے خدانخواستہ پورا نظام درہم برہم ہو جائے۔

امن و امان کی بگڑتی صورت حال

جنرل پرویز مشرف نے ایک وعدہ قوم سے یہ بھی کیا تھا کہ وہ ملک میں امن و امان قائم کریں گے‘قانون کی حکمرانی ہوگی اور ہر فرد کو انصاف فراہم کیا جائے گا۔ لیکن ان کے سات سالہ دورِاقتدار میں جو چیز سب سے ارزاں ہوگئی ہے ایک عام فرد کی آزادی‘ زندگی اور عزت کی پامالی ہے۔ پولیس کی اصلاحات اس دعوے کے ساتھ کی گئی تھیں اب پولیس سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہوگی اور وہ عام شہریوں کو جان‘ مال اور عزت کا تحفظ دے سکے گی۔ پولیس کے لیے مالی وسائل اور ٹکنالوجی دونوں فراہم کرنے کا دعویٰ بھی کیا گیا لیکن پنجاب جیسے صوبے میں جس کا پولیس کا بجٹ ۶ ارب روپے سے بڑھ کر ۲۱ ارب روپے کردیا گیا ہے۔ صوبے کا دارالحکومت تک جرائم کا مرکز بن گیا ہے اور صوبے کے کسی گوشے میں عوام کو امن اور چین میسر نہیں۔ لاہور کے مصروف ترین علاقے میں دن دہاڑے صوبے کا اعلیٰ ترین قانونی افسر اڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل اور اس کے ساتھی قتل کر دیے جاتے ہیں اور ملزموں کی نشان دہی کیے جانے کے باوجود وہ پولیس کی دسترس میں نہیں آتے۔ سپریم کورٹ کا چیف جسٹس پولیس کی کارکردگی پر بے اعتمادی کا اظہار کرتا ہے اور   اعلیٰ عدالت کے جج یہاں تک کہتے ہیں کہ پولیس کا بجٹ روک دیا جائے اور یہ اربوں روپے   عوام کو ریلیف دینے کے لیے استعمال کیے جائیں۔ سپریم کورٹ بار بار پولیس کو ملزموں پر    ہاتھ ڈالنے کا حکم دیتی ہے اور پولیس افسر عدالت میں آنے تک کی زحمت گوارا نہیں فرماتے۔ صوبے میں نام لے کر ڈاکوؤں کے ۴۵ گروہوں کا ذکر کیا جاتا ہے جو سیکڑوں وارداتوں میں  ملوث ہیں مگر کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ صوبے کا وزیراعلیٰ بھی چیخ اُٹھتا ہے مگر ان بااثر ڈاکوؤں اور اغوا کاروں کے آگے بے بس ہے۔ پنجاب میں صرف ۲۰۰۶ء میں تمام جرائم میں ۲۵ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ کراچی اور سندھ کا حال اس سے بھی خراب ہے۔ سرحد میں پہلے تین سال صورت حال  بہتر تھی لیکن وہاں بھی ۲۰۰۶ء میں جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔ وزیرداخلہ خود جنرل پرویز مشرف کی تشویش کا یوں اظہار کرتے ہیں:

صدر کو ملک میں جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح پر خاصی تشویش ہے‘ خصوصاً دہشت گردی‘ انتہاپسندی‘ فرقہ واریت‘ اسٹریٹ کرائم کے واقعات پر۔

یہ بیان وزیرداخلہ نے آرمی ہائوس میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد دیا جو جنرل پرویز مشرف کے سات سالہ دورِاقتدار کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

لیکن بات صرف روایتی جرائم ہی کی نہیں کہ چوری‘ ڈاکے‘ آبروریزی‘ اغوا براے تاوان‘   کارچوری اور موبائل چوری ہر جرم میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس سے زیادہ خطرناک رجحان یہ ہے کہ سیکڑوں شہریوں کو سرکاری ادارے اُٹھا کر لے جاتے ہیں اور مہینوں نہیں‘ برسوں ان کا پتا نہیں چلتا۔ سیکڑوں کو کسی عدالتی کارروائی کے بغیر اور کسی جرم کو ثابت کیے بغیر امریکا کے حوالے کر دیا گیا اور  بے غیرتی کی انتہا ہے کہ اسے اپنا کارنامہ بیان کیا جاتا ہے‘ حتیٰ کہ اپنی خودنوشت میں اس کا نمایاں طور پر ذکر کیا جاتا ہے اور یہاں تک دعویٰ کیا جاتا ہے کہ حکومت کو اس کے عوض کروڑوں ڈالر ملے۔   یہ اور بات ہے کہ ڈالروں والی بات کو ہر طرف سے تھوتھو ہونے کے بعد واپس لینے کی جسارت بھی کی گئی ہے۔ معصوم انسانوں کو یوں اُٹھا لینا دستور‘ قانون‘ دین‘ اخلاق ہر ایک کے خلاف ہے لیکن اس جرنیلی دور میں یہ بھی کھلے بندوں کیا جا رہا ہے اور سپریم کورٹ کے بار بار انتباہ اور پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود ان لاپتا افراد کا کوئی پتا نہیں مل رہا ہے۔

اگر بصیرت کی نگاہ سے حالات کو دیکھا جائے تو اس لاقانونیت کے فروغ کا ایک بنیادی سبب فوج کے جرنیلوں کا اقتدار پر غاصبانہ قبضہ‘ دستورشکنی اور اس دستورشکنی کے لیے عدالتی جواز کی فراہمی کی مکروہ روایت ہے۔ جب اعلیٰ ترین سطح پر دستور اور حلف توڑنے پر کوئی گرفت نہیں ہوگی تو پھر ہرسطح پر قانون شکنی کا دروازہ کھلے گا۔ جب طاقت ورقانون سے بالا ہوں گے تو پھر کون قانون کا احترام کرے گا۔ جب تک دستور توڑنے والوں کو دستور کی دفعہ ۶ کے تحت قرارواقعی سزا کا نظام مؤثر نہیں ہوگا‘ تو پھر کسی سطح پر بھی قانون کا احترام قائم نہیں ہوسکے گا۔

ایک دوراہا آج قوم کے سامنے یہ بھی ہے کہ اس ملک میں دستور اور قانون کی حکمرانی ہوگی۔ یا وردی اور قوت والے جو چاہے کرلیں وہ قانون کی گرفت سے باہر ہی رہیں گے۔ اگر انصاف اور امن ہمارا مقصد ہے تو پھر ہرسطح پر قانون توڑنے والے ہاتھ روکنے ہوں گے یا ایسے ہاتھوں کو کاٹنا پڑے گا تب ہی سب کی جان‘ مال‘ عزت اور آبرو محفوظ ہوسکیں گے۔

دستور کی بے وقعتی

بگاڑ کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ملک کا ایک دستور ہے لیکن وہ صرف کاغذ کا ایک پرزہ بنادیا گیا۔ یہ درست ہے کہ اصل دستور میں من مانی تبدیلیاں بھی کی گئی ہیں اور آٹھویں اور ۱۷ویں ترامیم کے ذریعے اس کا حلیہ خاصا بگاڑ دیا گیا ہے مگر اس سب کے باوجود جس دستور پر قیادت نے حلف لیا ہے اس کا بھی ان حکمرانوں کو کوئی پاس نہیں۔

دستور میں سب سے پہلے اللہ سے وفاداری اور اسلامی نظریے کی پاس داری کا حلف ہے مگر روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے نام پر اللہ کے احکام اور اسلام کی واضح تعلیمات سے انحراف کیا جارہا ہے۔ شراب جس کا استعمال دستور اور قانون کے تحت جرم ہے‘ اب کھلے بندوں منگوائی جارہی ہے اور ہوٹلوں اور دعوتوں میں جام لنڈھائے جارہے ہیں۔ زنا اب جرم نہیں رہی اور اللہ کی حدوں کو پامال کیا جارہا ہے۔ سود جسے شرعی عدالتوں نے ختم کرنے کا فیصلہ دیا تھااس کی بنیاد پر سارا نظام چلایا جارہا ہے۔ بے حیائی اور فحاشی کو عام کیا جا رہا ہے اور اس کا نام روشن خیالی رکھا گیا ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ جو فوج کا آج بھی رسمی موٹو ہے‘ اس کا ذکر بھی زبان پر لانے سے لرزہ طاری ہے اور قسمیں کھاکھا کر کہا جا رہا ہے کہ جہاد سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ہر جہادی تنظیم گردن زدنی ہے۔ نصابِ تعلیم سے بھی جہاد کا ہر ذکر خارج کیا جا رہا ہے۔ اگر بس چلے تو نعوذباللہ قرآن پاک میں بھی ترمیم کر کے ان تمام آیات کو نکال دیا جائے جو جہاد کے بارے میں ہیں۔ اسلامیات کے نصاب کو بھی بدلا جا رہا ہے اور دوسرے تمام مضامین سے اسلام اور اسلامی تاریخ و ثقافت کے ذکر کو خارج کیا جا رہا ہے اور وزیرتعلیم‘ جو ماشا اللہ سابق جرنیل بھی ہیں اور امریکا سے تعلیمی اصلاحات کے لیے سندجواز بھی لے آئے ہیں‘ فرماتے ہیں کہ ’’نصابِ تعلیم پر تنقید کرنے والے مکار اور منافق ہیں‘‘ اور’’یہ لوگ ملک کو چھٹی صدی میں دھکیلنا چاہتے ہیں‘‘۔ قرآن میں ۴۰ پاروں کی بات کرنے والے وزیرتعلیم کو کیا پتا کہ چھٹی صدی تو دورِ جاہلیت کی صدی ہے۔ سیدنا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا انقلاب تو ساتویں صدی میں آیا۔ دورِ رسالت مآب ؐ اور خلافتِ راشدہ ہی کا زمانہ مسلمانوں کے لیے   ہمیشہ معیار اور ماڈل رہا ہے‘ رہے گا۔ اُمت کا قبلہ آج کے حکمرانوں اور ان کے امریکی آقائوں کی تمام خواہشات کے باوجود ان شاء اللہ یہی رہے گا۔ حال ہی میں وزارتِ تعلیم نے جو وائٹ پیپر شائع کیا ہے وہ اس فکر سے ذرا بھی مختلف نہیں جو اس سے پہلے سکندرمرزا اور ایوب خاں جیسے لوگ پیش کرتے رہے ہیں اور جس طرح ان کے مذموم منصوبے عوام کے دبائو میں پادر ہوا ہوئے‘ اسی طرح ان شاء اللہ آج کے جرنیلی حکمرانوں کے عزائم بھی خاک میں ملیں گے۔

ایک دوراہا یہ بھی ہے کہ اس قوم کی منزل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا دین اسلام ہے یا اسلام کا وہ نمونہ جو بش اور اس کے حواریوں کے لیے قابلِ قبول ہو اور جو تصوف کی کوئی ایسی شکل اختیار کرلے جس سے باطل کی قوتوں اور سامراجی طاقتوں کو کوئی خطرہ نہ ہو۔

معیشت کی زبوں حالی

جنرل پرویز مشرف اور ان کے ظلِّی وزیراعظم شوکت عزیز اپنی معاشی فتوحات کا بڑا دعویٰ کرتے ہیں اور اس کا رکردگی کے سہارے عوام کے دل جیت لینے کی باتیں کرتے ہیں۔ کاش‘ یہ حضرات اپنے محلات سے نکل کر زمینی حقائق کو بھی دیکھیں اور بچشم سر نظارہ کریں کہ عوام کن مشکلات سے دوچار ہیں۔ اعدادوشمار کی بازی گری نہ غربت کو مٹا سکتی ہے اور نہ بھوک کا مداوا کرسکتی ہے۔ بے روزگاری جو انھی کے اعدادوشمار کے مطابق ۱۹۹۱ء میں ۳ فی صد سے کم تھی وہ ۲۰۰۳ء میں ۳ء۸ فی صد سے تجاوز کرگئی اور ۲۰۰۶ء میں ۸ء۶ بتائی جاتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں بھوک‘ افلاس اور بے روزگاری کی وجہ سے خودکشی کسی دور میں نہیں ہوئی لیکن اس جرنیلی دور میں ہرسال سیکڑوں افراد خودکشی تک پر مجبور ہو رہے ہیں۔ ایک حالیہ سروے کی روشنی میں صرف راول پنڈی میں اور صرف ۲۵ تھانوں سے حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر ۲۰۰۶ء میں ۵۲ افراد نے خودکشی کی ہے (جنگ،  ۲۰ جنوری ۲۰۰۷ء’اسلام آباد کا جڑواں شہر اور خودکشیاں‘ منوبھائی)

یہ حال ایک شہر کا نہیں پورے ملک کا ہے۔ ان سات سالوں میں اشیاے ضرورت کی قیمتوں میں ایک سو سے لے کر چار سو فی صد تک اضافہ ہوا ہے۔ دولت کی عدم مساوات میں محیرالعقول اضافہ ہواہے۔امیر امیر تر ہو رہا ہے اور غریب غریب تر ۔موجودہ حکومت کی ساری پالیسیوں کا ہدف امیروں کو امیر تر کرنا ہے جس کا ایک اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ ملک کی کُل آبادی میں بمشکل ۱۵ فی صد ایسے ہیں جو بنکوں میں حساب رکھتے ہیں۔ ان کی تعداد ۱۹۹۹ء میں ۸ء۲۹ ملین تھی جو ۲۰۰۶ء میں کم ہو کر ۲ء۲۶ ملین رہ گئی۔ ان میں سے جو اپنے بنک کھاتے میں اوسطاً ۱۰ ہزار روپے یا اس سے کم رقم رکھتے تھے وہ ۱۹۹۹ء میں کل کھاتہ داروں کا ۵ء۵۱ فی صد تھے‘ جب کہ ان کی کُل رقم بنک کے تمام کھاتہ داروں کی رقم کا ۳ء۱۱ فی صد تھی۔ لیکن جون ۲۰۰۶ء میں  ان کی تعداد ۵ء۵۱ سے کم ہوکر ۱ء۲۶ فی صد ہوگئی ‘ یعنی ۵۰ فی صد کی کمی اور ان کے کھاتوں کی رقم ۳ء۱۱ سے کم ہو کر ۸ء۰ فی صد رہ گئی یعنی اس میں کمی ۱۲۰۰ فی صد سے زیادہ ہوئی۔ اس کے برعکس اگر ان کھاتہ داروںکے کھاتوں اور ان میں رکھی ہوئی رقم کا مطالعہ کیا جائے جن کے ڈیپازٹ ایک کروڑ روپے یا اس سے زیادہ ہے تو ان کی تعداد ۱۹۹۱ء میں کل کھاتہ داروں کا صرف ۱ء۰ فی صد تھی‘ جب کہ ان کے کھاتوں میں جمع رقم کل رقم کا ۳ء۱۳ فی صد تھی لیکن ۲۰۰۶ء میں کھاتوں کی تعداد کے اعتبار سے ان کی تعداد کل کھاتوں کا صرف ۰۷ء۰ تھی‘ جب کہ ان کھاتوں میں رقم کل رقم کا ۵ء۳۴ فی صد (بحوالہ ڈان ۱۸-۲۴ دسمبر ۲۰۰۶ء‘ مضمونFailure of Monetary Policy از جاوید اکبر انصاری)

یہ تو صورت ہے عام افراد کی معاشی زبوں حالی کی‘ لیکن مجموعی معاشی صورت حال بھی کچھ کم تشویش ناک نہیں۔ افراطِ زر میں برابر اضافہ ہو رہا ہے اور اسٹیٹ بنک کے تازہ ترین اندازوں کے مطابق افراطِ زر کے بارے میں جو تخمینہ تھا کہ وہ ۲۰۰۶ء-۲۰۰۷ء میں ۵ء۶ فی صد ہوگا‘ اندیشہ ہے کہ وہ ۸ فی صد کے لگ بھگ ہوگا۔ اور جہاں تک اشیاے خوردونوش کا تعلق ہے تو دسمبر۲۰۰۵ء کے مقابلے میں دسمبر ۲۰۰۶ء میں یہ اضافہ ۷ء۱۲ فی صد ہوا ہے (بحوالہ دی نیشن ‘ ۲۱جنوری ۲۰۰۷ء)

تجارتی خسارہ ۵ بلین ڈالر سے بڑھ کر ۱۲ بلین ڈالر کی حدوں کو چھو رہا ہے اور بین الاقوامی ادایگی کا خسارہ ڈیڑھ بلین ڈالر سے بڑھ کر ۵ بلین سے تجاوز کر رہا ہے۔ گو زرمبادلہ کے ذخائر ۱۳بلین ڈالر کے لگ بھگ ہیں لیکن ۲۰۰۲ء کے مقابلے میں جب یہ ۱۱ مہینے کی درآمدات کے برابر تھے اس کے مقابلے میں اب یہ بمشکل چار مہینے کی درآمدات کے لیے کفایت کرتے ہیں۔

آزادی گروی رکھ کر جس معاشی ترقی کا شوروغوغا ہے اس کی حقیقت تلخ اور سراب کے مانند ہے۔ اور ایک دوراہا یہ بھی ہے کہ کون سی معاشی ترقی اس قوم کو مطلوب ہے۔

پاکستان دوراھے پر

دوراہے اور بھی ہیں لیکن سب کا مرکزی نکتہ ایک ہی ہے___ یعنی جنرل پرویز مشرف کے سات سالہ دورِحکمرانی میں قوم کو جس جگہ پہنچا دیا گیا ہے‘ اس سے نجات کا اب ایک ہی راستہ ہے اوروہ شخصی آمریت اور فوج کے سیاسی کردار سے نجات اور حقیقی جمہوری نظام کی طرف     پیش قدمی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ قوم ہمیشہ کے لیے اس امر کو طے کردے اور تمام جمہوری اور اسلامی سیاسی قوتیں یک جان ہوکر اس کے لیے سرگرم عمل ہوجائیں کہ ملک کی بقا اور ترقی کا انحصار ۱۹۷۳ء کے دستور کو اس کی اس شکل میں نافذ کرنے پر ہے جو اکتوبر ۱۹۹۹ء سے قبل موجود تھا۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ملک میں جرنیلی آمریت کے خلاف بھرپور تحریک ہو اور نئے انتخابات ایک حقیقی غیر جانب دار حکومت کے تحت کھلے اورشفاف انداز میں ہوں۔ اصل حکمران جنرل پرویز مشرف ہیں اور خود انھوں نے انتخابی مہم کا آغاز کرکے‘ کھلے عام یہ دعوت دے کر کہ ان لوگوں کو منتخب کرو جو میرے ساتھ ہیں اور ان کی آزاد خیالی کے علم بردار ہیں اور پھر یہ اعلان کر کے کہ وہ خود حکمران لیگ اور اس کے حواریوں کی لگام تھامے ہوئے ہیں‘امیدواروں کا انتخاب وہ خود کریں گے اور انتخابی مہم بھی وہ خود چلائیں گے۔ اب یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ جنرل پرویز مشرف کی موجودگی میں کوئی غیرجانب دار انتظام وجود میں نہیں آسکتا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس پورے دور میں کوئی فیصلہ پارلیمنٹ یا کابینہ نے نہیں کیا‘ سارے فیصلے جنرل صاحب خود کرتے ہیں‘ یا کورکمانڈر وں کی میٹنگ میں کیے جاتے ہیں۔ مرکزی کابینہ کو تو ان کی خبربھی اخبارات ہی کے ذریعے ہوتی ہے۔ ان حالات میں واضح ہے کہ اصل حکمران جنرل پرویز مشرف ہیں اور ان کی موجودگی میں کسی آزادی اور غیرجانب دار انتخاب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا۔ اس لیے تین بنیادی نکات ہیں جن پر    تمام سیاسی اور دینی جماعتوں کو متفق ہوکر جدوجہد کرنی چاہیے:

                ۱-  دستور کی اس کی اصل شکل میں بحالی‘ شخصی حکمرانی کا خاتمہ اور فوج کو دستور کے تحت مکمل طور پر منتخب سول نظام کے تحت کام کرنے کا پابند کرنا۔

                ۲-  چونکہ جنرل پرویز مشرف جو اصل حکمران اور سرکاری پارٹی کے حاکم مطلق ہیں ان کی حکومت کے تحت آزاد اور غیر جانب دار انتخابات ناممکن ہیں‘ اس لیے ان کا استعفا اور صحیح معنوں میں ایک غیرجانب دار انتظام کے تحت ایک مکمل طور پر بااختیار پارلیمنٹ کی تمام سیاسی جماعتوں کے مشورے کے مقرر کردہ آزاد الیکشن کمیشن کے تحت نئے انتخابات۔

                ۳-  انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کی غیرمشروط شرکت اور طے شدہ آداب کے مطابق انتخابی مہم کے پورے مواقع۔

اس سیاسی جدوجہد اور انتخاب میں جنرل پرویز مشرف کو بھی اسی طرح شرکت کا موقع ملنا چاہیے جس طرح باقی تمام سیاسی عناصر کو‘ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اقتدار سے فارغ ہوں‘ وردی اُتاریں تاکہ صدر کا عہدہ اور چیف آف آرمی اسٹاف کا عہدہ دونوں دستور کے تحت  بحال ہوسکیں اور وہ صدارت یا اسمبلی کی رکنیت جس کے لیے بھی حصہ لینا چاہیں برابری کی بنیاد پر حصہ لیں۔

انھیں دعویٰ ہے کہ وہ بزدل انسان نہیں۔ اگر ایسا ہے تو انھیں ہرگز زیب نہیں دیتا کہ   فوج کی وردی پہن کر فوجی بیرک کے محفوظ مقام پر بیٹھ کر اس سیاسی معرکے میں شرکت کریں۔    یہ دعوے کہ وردی کا کوئی تعلق جمہوریت سے نہیں اور پانچ سال والی اسمبلی سے دس سال کے لیے صدارتی انتخابات کرانے کے منصوبے دراصل سیاسی دیوالیہ پن ہی کا مظاہرہ نہیں بلکہ خود       اپنی کمزوری کا بھی اعتراف ہیں۔ اگر آپ کو اعتماد ہے کہ عوام آپ کے ساتھ ہیں تو پھر فوج کی چھتری تلے بیٹھ کر شب خون مارنے کے کیا معنی؟

فوج کو جس طرح سیاست میں ملوث کیا گیا ہے اور اس کے نتیجے میں جس طرح فوج متنازع بن گئی ہے اور عوام اور فوج میں فاصلے بڑھ گئے ہیں‘ یہ کھیل اب ختم ہونا چاہیے اور ہمیشہ  کے لیے ختم ہونا چاہیے تاکہ جمہوریت کی گاڑی پٹڑی پرچڑھ سکے اور فوج دستور کے تحت سول نظام کی قیادت میں اپنا کردار ادا کرسکے۔۲۰۰۷ء فیصلے کا سال ہے اور اب توقع ہے کہ یہ قوم وہ فیصلہ کرے گی جس کے نتیجے میں پاکستان اپنی اصل منزل کی طرف پوری قوت اور یک سوئی سے    پیش قدمی کرسکے گا۔

 

پاکستان اور اس کے اسٹرے ٹیجک اثاثوں پر جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار میں  روشن خیالی‘ لبرلزم‘ لچک‘ ضرورت حتیٰ کہ ’جرأت‘ کے نام پر بجلیاں گر رہی ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا قیمتی اثاثہ‘ مفاد اور اصول اس فائرنگ کی زد (’in the line of fire‘) میں آکر مجروح ہو رہا ہے  یا جان ہی سے ہاتھ دھو رہا ہے۔ لیکن اب جیسے جیسے ۲۰۰۷ء کا انتخابی معرکہ قریب آرہا ہے اور   ملک ایک فیصلہ کن لمحے کی طرف بڑھ رہا ہے‘ جنرل صاحب کی جراحت کاریاں بھی تیز تر ہوتی جارہی ہیں۔ گذشتہ چند ہفتوں میں تین اہم ترین محاذوں پر انھوں نے جو حملے کیے ہیں‘ ان سے سیاسی نقشۂ جنگ بالکل کھل کر سامنے آگیا ہے۔ اب قوم اس تاریخی موڑ پر پہنچ گئی ہے جہاں پاکستان کے نظریاتی‘ سیاسی اور جغرافیائی وجود کے تحفظ اور اصل منزل کی طرف پیش رفت یا خدانخواستہ تحریکِ پاکستان اور اس کے ذریعے حاصل کردہ سرمایۂ حیات سے محرومی اور محکومی کے نئے دور کے آغاز میں سے ایک ہمارا مقدر ہوگا:

                ۱-  نظریاتی اعتبار سے دو قومی نظریہ‘ پاکستان کی اسلامی شناخت‘ شریعت کی بالادستی اور حدود اللہ کی پاس داری‘ اسلامی تہذیب و ثقافت کی حفاظت و فروغ اور تعلیم میں اسلامی اقدار اور اہداف کا واضح کردار سب سے اہم اور مرکزی ایشو بن گیا ہے۔ ان پر روشن خیالی اور لبرلزم کے نام پر کھل کر حملہ کیا جا رہا ہے۔

                ۲-  اب جملہ داخلی و خارجی امور کا فیصلہ دستورکے تحت ادارے اور عوام کے منتخب نمایندے نہیں کر رہے‘ بلکہ یونٹی آف کمانڈ کے نام پر ایک فردِواحد تمام اصولی‘ تاریخی اور قومی موقف سے انحراف کرتے ہوئے اورجواب دہی سے بالا ہوکر اپنے ذوق‘ خواہشات اور مخصوص مفادات کی روشنی میں کر رہا ہے اور کرنے کے استحقاق کا دعویٰ بھی کر رہا ہے۔ یہ پورے سیاسی نظام اور ملت اسلامیہ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر خط تنسیخ پھیرنے کے مترادف اور قوم کی آزادی اور عزت دونوں پر شدید ترین حملہ ہے۔

                ۳-  نظریاتی اور سیاسی انقلابِ معکوس (counter-revolution) کے ساتھ تیسرا خطرہ اب پاکستان کے جغرافیائی وجود کو لاحق ہے۔ اس کے بڑے بڑے مظاہر یہ ہیں: (۱)مرکز اور صوبوں میں بُعد‘ جو اب تصادم کی حدوں کو چھو رہا ہے (۲) بلوچستان میں  فوج کشی (۳)سندھ میں ایک لسانی مافیا کی سرپرستی (اسے کھلی چھوٹ جو لاقانونیت اور   بھتہ خوری سے بڑھ کر اب پھر مہاجر‘ پختون‘ پنجابی ٹکرائو اور خون خرابے کی طرف بڑھ   رہا ہے) (۴) شمالی اور جنوبی وزیرستان اور باجوڑ میں قوت کا بے محابا استعمال (۵) ایجنسیوں کے ذریعے ملک کے مختلف حصوں میں مذہبی‘ لسانی اور علاقائی عصبیتوں کا فروغ اور اسے تصادم اور خون ریزی تک لے جانے کی مساعی‘ اور اب (۶) ریاست جموں و کشمیر کے سلسلے میں جنرل صاحب‘ ان کے وزیرخارجہ اور وزارتِ خارجہ کی سرکاری ترجمانی کے ذریعے دست برداری کے اعلان کی شکل میں وہ ضرب کاری جس کے نتیجے میں خدانخواستہ برعظیم کا نقشہ ہی بدل سکتا ہے۔

بھارتی ٹی وی نیٹ ورک کو جنرل صاحب کا ۵ دسمبر۲۰۰۶ء کا انٹرویو دراصل اس پورے عمل کا ایک اہم حصہ ہے۔ اگر قوم اب بھی اس خطرناک اور تباہ کن کھیل کا راستہ نہیں روکتی تو ہمیں خطرہ ہے کہ معاملات اس کے ہاتھ سے نکل بھی سکتے ہیں۔

اس انٹرویو میں بہت کچھ کہا گیا ہے مگر دو چیزیں زیادہ اہم ہیں:

اوّل: جنرل صاحب کے سارے کھیل کا انحصار ’یونٹی آف کمانڈ‘ پر ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کی خاطر وہ فوج کی سربراہی چھوڑنے کو تیار نہیں۔ انھوں نے صاف کہا ہے کہ جو کچھ میں کر رہا ہوں اس کے لیے تین قوتوں کی تائید حاصل ہے اور اس لیے حاصل ہے کہ وہ خود ان کی سربراہی کررہے ہیں‘ یعنی فوج‘ اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی۔

بات بہت صاف ہے۔ عوام‘ عوامی نمایندوں اور منتخب اداروں‘ پارلیمنٹ حتیٰ کہ کابینہ تک کا اس میں کوئی ذکر نہیں اور ذکر کی ضرورت بھی نہیں کہ وہ کسی شمار قطار میں نہیں۔ یہ سیدھے سیدھے قوت کا کھیل ہے اور اس طرح ایک نوعیت کا نوآبادیاتی (colonial) نظام ہے اور اس کی بقا اور استحکام جنرل صاحب کا مقصد اور ہدف ہے۔

دوم: کشمیر کے معاملے میں پاکستان کے اصولی‘ تاریخی اور خود پاکستان کی بقا و ترقی کے لیے ناگزیر موقف سے مکمل طور پر انحراف‘ جسے یو ٹرن اور سمت کی تبدیلی (paradigm shift) کے علاوہ کسی دوسرے لفظ سے تعبیر نہیں کیاجاسکتا۔ یہ بھارت کے موقف کو کھل کر قبول کرنے کے مترادف ہے۔ اب صاف لفظوں میں یہ تک کہہ دیا گیا ہے کہ بھارت سے کشمیر کی آزادی ہمارا مقصد نہیں۔ کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ اصل ایشو نہیں۔ کشمیر بنے گا پاکستان‘ کشمیریوں کا نعرہ تھا‘ پاکستان کا ہدف نہیں۔ جموں وکشمیر پر پاکستان کا کوئی حق نہیں۔ گویا ۵۹سال تک جو کچھ پاکستان کرتا رہا وہ جھک مارنے سے زیادہ نہیں تھا۔ جو قربانیاں جموں و کشمیر اورپاکستان کے مسلمانوں نے آج تک دیں اور جن میں ۶لاکھ افراد کی شہادت‘ ہزاروں خواتین کی عصمت دری‘ اربوں کی املاک کا اتلاف‘ ہزاروں نوجوانوں کی گرفتاریاں‘ تعذیب اور مستقل معذوری‘ اور بھارت سے پاکستان کی چار جنگیں اور اس پس منظر میں فوج پر کھربوں روپے کا صرف___ سب ایک ڈھونگ‘ ایک سیاسی کھیل‘ ایک خسارے کا سودا تھا۔

اب فردِواحد کو یہ اختیار حاصل ہے کہ ریاست جموں و کشمیر پر بھارت کے قبضے کو سندِجواز عطا کردے‘ استصوابِ راے اور حقِخود ارادیت سے دست بردار ہوجائے‘اقوام متحدہ کی قراردادوں کو دفن کردے اور وہاں سے مسئلے کو واپس لینے تک کا اعلان کردے‘ آزادی اور تحریکِ آزادی سے برأت کا اظہار کر دے اور جو نظام جواہرلعل نہرو نے ۱۹۵۱ء میں دے کر ۱۹۵۳ء میں درہم برہم کردیا تھا اور جس خودمختاری کی خیرات دینے کا اعلان نرسمہارائو نے ۱۹۹۵ء اور ۱۹۹۶ء میں بار بار کیا تھا‘ اس سے بھی کم پر کشمیریوں کا سودا کرنے کے لیے آمادگی کا اظہار کیا جائے۔   اس سے بھی بڑھ کر خود آزاد کشمیر پر بھی مشترک کنٹرول (joint control )اور مشترک انتظام (joint management) کی باتیں کی جائیں۔ سید علی شاہ گیلانی اور تحریکِ آزادیِ کشمیر کے تمام ہی مخلص اور بھارت شناس قائدین نے اسے تحریک پاکستان‘ جموں و کشمیر کے مسلمانوں اور    پاکستانی قوم سے غداری قرار دیا ہے‘ اور اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ بھارت کی قیادت اور     جنرل پرویز مشرف کے اس کھیل کو ہرگز کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔

بات بہت صاف ہے۔ جموں و کشمیر کی ریاست کی قسمت کا فیصلہ وہاں کے عوام کو تقسیم ہند کی اسکیم کے ایک عمل کے طور پر کرنا ہے۔ کشمیر کا قضیہ (dispute) زمین کی تقسیم یا سرحدات کی حدود میں تبدیلی کا مسئلہ نہیں۔ یہ ڈیڑھ کروڑ انسانوں کے حق خودارادیت کا مسئلہ ہے جس پر ماہ و سال کے گزرنے سے فرق نہیں پڑتا۔ آزادی اور حقوق کی جنگ امروز و فردا کی حدود کی پابند نہیں ہوتی اور یہی وجہ ہے کہ کشمیر کے عوام دو صدیوں سے زیادہ عرصے سے یہ جنگ لڑ رہے ہیں۔ برطانیہ‘ سکھ‘ ڈوگرہ‘ بھارتی حکمران‘ ان سب کے خلاف یہ جنگ لڑرہے ہیں اور ہم اس جنگ میں ان کے حلیف اور شریک ہیں۔ اس لیے کہ وہ دینی‘ تہذیبی‘ معاشی‘ سیاسی‘ جغرافیائی ہر اعتبار سے ہمارا حصہ ہیں۔ پاکستان کی جدوجہد میں جموں و کشمیر کے مسلمان برابر کے شریک تھے اور ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کے اجتماع میں انھوں نے قائم ہونے والے پاکستان کے حصے کے طور پر شرکت کی تھی‘ اور ۱۹جولائی ۱۹۴۷ء کو پاکستان کے قیام سے قبل انھوں نے اور ان کے منتخب نمایندوں نے پاکستان سے الحاق کا اعلان کردیا تھا‘ اور اس اعلان کے تحت انھوں نے لڑکر جموں و کشمیر کا ایک حصہ عملاً آزاد کروایا جو آج آزادکشمیر اور شمالی علاقہ جات کی شکل میں پاکستان سے متعلق ہے جسے ہم آزاد کشمیر کی حکومت کہتے ہیں۔ یہ محض ان علاقوں کی حکومت نہیں جو بھارت کے چنگل سے ۴۹-۱۹۴۷ء میں آزاد کرا لیے گئے تھے‘ بلکہ دراصل پورے جموں و کشمیر کی آزاد حکومت ہے جس کے تصور سے اب جنرل صاحب اور ان کے حواری توبہ کر رہے ہیں اور بڑی ڈھٹائی سے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان نے ’کشمیر بنے گا پاکستان‘ اور کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کبھی نہیں کہا۔ یہ کہ اٹوٹ انگ ایک بھارتی واہمہ ہے اور ہم نے بھارت کے قبضے کو ہرسطح پر چیلنج کیا ہے۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس بنیاد پر؟ کیا یہ بنیاد اس کے سوا کوئی اور تھی کہ ہندستان کی تقسیم کے فارمولے کے مطابق مسلم اکثریتی خطہ ہونے کی بنا پر جموں و کشمیر پاکستان کا حق ہے۔ پاکستان کے الفاظ تک میں ’ک‘ کا تعلق کشمیر سے ہے‘ قرارداد پاکستان میں کشمیر پاکستان کا حصہ ہے۔ الحاق پاکستان کی قرارداد سے پاکستان اور کشمیر ایک جسم بن چکے ہیںاور قائداعظمؒ نے اسی بنیاد پر اسے پاکستان کی شہ رگ کہا۔ اسی بنیاد پر جہادِ آزادی کا آغاز ڈوگرہ راج کے خلاف ہوا جو آج تک جاری ہے۔ جموں و کشمیر کے مسلمانوں نے کبھی اپنے کو پاکستان سے  جدا تصور نہیں کیا۔

ان کی گھڑیاں پاکستان کی گھڑیوں کے مطابق وقت بتاتی ہیں‘ پاکستان کی ہرخوشی پر وہ خوش‘ ہر کامیابی پر وہ نازاں اور ہرمشکل پر وہ دل گرفتہ ہیں۔ انھوں نے بھارت کے تسلط کو کبھی قبول نہیں کیا اور بڑی سے بڑی قربانی دے کر اس کے استبداد کا مقابلہ کیا۔ ۱۴ اگست کو وہ یومِ آزادی مناتے ہیں اور ۱۵ اگست کو یومِ سیاہ۔ بلاشبہہ تکمیل پاکستان کی اس جدوجہد کے لیے ہم نے بین الاقوامی قانون کی پاس داری کرتے ہوئے استصواب راے کے قانونی عمل کی بات کی‘ اور جو بھی حق پسند ہوگا وہ اس کا اعتراف کرے گا جیساکہ امریکا کی قیادت کی وقتی مفادات پر مبنی قلابازیوں کے باوجود امریکا کی سابق سیکرٹری آف اسٹیٹ میڈیلین آل برائٹ نے ۱۳ دسمبر ۲۰۰۳ء کو خود دہلی کی سرزمین پر برملا کہا تھا کہ: ’’کشمیری عوام کی خواہشات معلوم کرنے کا واحد راستہ استصواب راے عامہ ہے‘‘۔

ستم یہ ہے کہ آج وہ جرنیل جن کا فرض منصبی ہی یہ ہے کہ ایک ایک انچ زمین کی حفاظت کے لیے جان دے دیں‘ جموں و کشمیر کی جنت نشان زمین ہی نہیں‘ ایک کروڑ انسانوں کی مقبوضہ ریاست کو تحفتاً بھارت کی غاصب قیادت کو پیش کرنے اور اُمت مسلمہ کے ایک حصے کا سودا کرنے کو تیار ہیں۔

بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کیوں نہ خوش ہو۔ سابق وزیراعظم گجرال کس مسرت سے کشمیر پر جنرل صاحب اور وزارتِ خارجہ کی ترجمان کے بیان کو سنگِ میل قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ: ’’کشمیر پر پاکستان کا دعویٰ ختم ہونے کے بعد مسئلے کا حل جلد نکل آئے گا‘‘۔

یہ مسئلے کا حل نہیں‘ یہ پاکستان کی شہ رگ کو ہمیشہ کے لیے دشمنوں کے پنجے میں دینے اور ایک کروڑ انسانوں کو غلامی کی جہنم میں دھکیل دینے کی جسارت ہے۔ یہ آزادکشمیر اور شمالی علاقہ جات کو بھارت کی افواج اور سیاسی دراندازیوں کے لیے کھولنے کی غداری ہے۔ یہ پاکستان کے تصور‘ اور قائداعظم اور تحریکِ پاکستان کے نقشۂ پاکستان کو درہم برہم کرنے کی سازش ہے۔ اگر خدانخواستہ یہ کامیاب ہوتی ہے تو ہمیں ڈر ہے کہ اس کے نتیجے میں پاکستان کا نظریاتی ہی نہیں‘ جغرافیائی وجود بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔

یہ خطرات اب صرف نظری امکان کی حد سے بڑھ کر حقیقی تبدیلی کے دروازے تک پہنچ چکے ہیں اور جس طرح برعظیم کے مسلمانوں نے قائداعظم کی قیادت میں وقت کے حقیقی خطرات کا صحیح ادراک کرکے ۱۹۴۰ء میں برطانیہ اور کانگرس کے گٹھ جوڑ کا مقابلہ کرنے کے لیے قیامِ پاکستان کی جدوجہد کا آغاز کیا اسی طرح آج امریکا اور بھارت کے عزائم اور ان کا آلہ کار بننے والے طبقات اور قیادتوں کے مقابلے کا عزم اور پروگرام وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔

آج ملت پاکستان کی جدوجہد کا ہدف تحفظِ پاکستان اور تحفظِ کشمیر ہے۔ کشمیر اور پاکستان کو جدا نہیں کیا جاسکتا۔ جن کی نظر تاریخ کے حقائق پر ہے‘ وہ جانتے ہیں کہ کشمیر سے پسپائی دراصل پاکستان کے انتشار اور بربادی کا راستہ اور برعظیم کے نقشے کوایک بار پھر تبدیل کرنے اور اکھنڈ بھارت کے خواب میں رنگ بھرنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔ ملتِ اسلامیۂ پاکستان نے پہلے بھی اپنے نظریاتی‘ تہذیبی اور جغرافیائی تحفظ کی جنگ ساری بے سروسامانی کے باوجود لڑی ہے اور    ان شاء اللہ اب بھی لڑے گی۔ وسائل کے اعتبار سے آج ہم ۱۹۴۰ء کے مقابلے میں کہیں زیادہ مضبوط ہیں۔ ضرورت بیرونی سہاروں پر بھروسا کرنے کے بجاے اللہ کے بھروسے پر حق و انصاف کے موقف پر ڈٹ جانے اور ہر قربانی کے لیے آمادہ ہونے کی ہے۔

وہ قیادت جو قومی مقاصد کو ترک کرچکی ہے‘ اب قوم پر ایک بوجھ (liability) ہے اور  اس سے بھی بڑھ کر ملک کی سلامتی کے لیے ایک خطرہ (security risk)۔ ایسی قیادت سے نجات اور ایک ایسی متبادل قیادت کو زمامِ کار سونپنا وقت کی اہم ضرورت ہے جو ذاتی‘ گروہی اور عالمی طاقتوں کے مفادات کی اسیر نہ ہو‘ بلکہ ان پر ضرب لگانے کا داعیہ اور صلاحیت رکھتی ہو‘ جس سے دین اور قوم کے مفاد پر کسی سمجھوتے اور پسپائی کا خطرہ نہ ہو‘ جو خدا کی رضا اور ملتِ اسلامیۂ پاکستان کے حقوق اور مفادات کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگانے کا عزم رکھتی ہو‘ جو اپنی تاریخ اور  دنیا کی سامراجی قوتوں‘ خصوصیت سے امریکا٭ اور بھارت کے عزائم کاشعور رکھتی ہو اور جو قوم کو قربانیوں اور جدوجہد کے راستے پر متحرک کرنے اور اس راہ میں اپنے پیٹ پر دو پتھر باندھ کر ان کی قیادت کرنے کی مثال قائم کرسکتی ہو۔

آج پاکستانی قوم کے سامنے اصل سوال صرف ایک ہے___ کیا اب یہ قوم بیرونی ایجنڈے اور مفاد کی خاطر اصولوں کی قربانی دینے والی قیادت سے نجات کے لیے فیصلہ کن جدوجہد کے لیے تیار ہے؟ اگر ہمیں اپنا دین‘ اپنی آزادی‘ ملتِ اسلامیۂ پاکستان کی قربانیاں‘ اور پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کا تحفظ عزیز ہے تو جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو بھارت کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی سازش کا بھرپور مقابلہ کریں۔ پاکستان اور نظریۂ پاکستان کی جنگ آج کشمیر کے   محاذ پر لڑی جارہی ہے اور وہاں پسپائی کے معنی دراصل مظفرآباد‘ اسلام آباد‘ پشاور‘ کوئٹہ اور کراچی کو نشانے پر (’in the line of fire‘) لانے کے سواکچھ نہیں   ع

تیرے نشتر کی زد شریانِ قیسِ ناتواں تک ہے

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۱۵ نومبر ۲۰۰۶ء پاکستان کی تاریخ میں ایک سیاہ دن شمار کیا جائے گا۔ اس روزِ سیاہ ملک کی قومی اسمبلی نے اسلام اور شریعت اسلامی کے خلاف امریکی اور یورپی استعمار کی کھلی جنگ میں جنرل پرویز مشرف کے حکم اور دبائو کے تحت‘ ان کے ایک آلۂ کار کا کردار ادا کرتے ہوئے ’تحفظ نسواں‘ کے نام پر’انہدام حدود اللہ‘ کے ایک قانون کو پاکستانی عوام کے شدید احتجاج کے باوجود منظورکرلیا‘ اور اس طرح اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر قائم ہونے والے اس ملک میں کتابِ قانون سے ایک شرعی حد اور چند دوسرے اسلامی احکام کو خارج کرنے کا ’کارنامہ‘ انجام دے کر قرآن و سنت اور اُس دستورِ پاکستان کی کھلی کھلی خلاف ورزی کی جس کا حلف اُٹھا کر یہ وجود میں آئی تھی۔ پھر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کھلے احکام کے خلاف اس بغاوت پر جنرل صاحب نے سارے دستوری‘ سیاسی اور اخلاقی آداب کو بالاے طاق رکھ کر اپنے ہم رکاب‘ آزادخیال‘ ترقی پسند اور اِباحیت پرست عناصر کو نہ صرف مبارک باد دی بلکہ ایک نئی صف بندی اور سیاسی جنگ کا اعلان بھی کردیا جس سے اس قانون کے اصل مقاصد اور اہداف کے بارے میں کوئی شک و شبہہ باقی نہیں رہا۔ یہ بل گویا نظریاتی اور تہذیبی جنگ کا عنوان ہے اور یہی وہ خاص پہلو ہے جسے ملک اور ملک کے باہر تمام آزاد خیال اور بش کے ہم نوا عناصر پیش کر رہے ہیں۔

دوسروں کو ’سیاست چمکانے‘ کا طعنہ دینے والے‘ خود اپنی اصل سیاست کا چہرہ حدود اللہ پر ضرب لگانے والے جرنیل کے ان الفاظ میں دیکھ سکتے ہیں:

معاشرے کے ترقی پسند اور اعتدال پسند عناصر کو‘ جو اکثریت میں ہیں‘ اُٹھ کھڑے ہونا چاہیے اور اپنی حقیقی قوت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اعتدال پسند اور ترقی پسند قوتیں غالب آئیں گی۔ بہت نازک وقت ہے۔ آپ کو بنیادپرست اور انتہاپسند طاقتوں کو مسترد کر دینا چاہیے۔ مجھے امید ہے کہ آپ ترقی پسند لوگوں کو منتخب کریں گے۔ (دی نیشن‘ ۱۶ نومبر ۲۰۰۶ئ)

واشنگٹن ٹائمز جنرل صاحب کو اس امریکی ایجنڈے کو آگے بڑھانے پر کھل کر داد دیتا ہے اور کہتا ہے کہ:

بدھ کو پاکستان کے ایوان زیریں نے جو قانون منظور کیا ہے وہ حقوق نسواں اور سیکولر قانون کے غلبے‘ دونوں کے لیے پیش رفت ہے۔ پوری مسلم دنیا میں اس کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے۔ پاکستان کی ترقی میں مسلم دنیا کے دوسرے ممالک کے لیے بشمول ایران اور سعودی عرب جہاں حدود آرڈی ننس جیسے قوانین ہیں‘ غیرمعمولی اہمیت کا سبق ہے۔ (اداریہ، ’پاکستان میں خواتین کے حقوق‘، ۱۷ نومبر ۲۰۰۶ئ)

ٹونی بلیر اور امریکا کے وائٹ ہائوس کے ترجمان‘ دونوں نے اس بل کا خیرمقدم کیا ہے اور اپنی ھل من مزید روایت پرقائم رہتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ یہ ناکافی ہے‘ اور آگے بڑھو اور  تمام مبنی بردین قوانین سے نجات حاصل کرو!

جنرل صاحب کا سیکولر ایجنڈا تو پہلے دن سے سر اُٹھا رہا تھا مگر بار بار کی کوشش کے باوجود  وہ اس سمت میں کوئی بڑا قدم اٹھانے کی ہمت نہیں کر پارہے تھے جو مغرب کی ان سیکولر قوتوں کو  خوش کرے جو شرعی قوانین خصوصیت سے حدود‘ تحفظ ناموسِ رسالتؐ، ختم نبوتؐ اور پھر دینی تعلیم‘دینی مدارس اور اسلام کے تصورِ جہاد کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ بش کی دہشت پسندی کے خلاف نام نہاد جنگ نے جنرل صاحب کو اپنے قدم جمانے اور بیرونی سہاروں پر اپنے باوردی اقتدار کو مستحکم کرنے کا موقع دیا اور پھر وہ فیصلہ کن گھڑی آگئی جب بش اور مغربی اقوام نے ان کی وفاداری کے ثبوت کے لیے ان سے مطالبہ کیا کہ خود اپنی قوم کے نوجوانوں کو قتل کریں‘ جہاد کی  ہرشکل سے برأت کا اعلان کریں‘ خصوصیت سے کشمیر کی جدوجہد آزادی سے دست کش ہوں جسے پاکستانی عوام ہی نہیں پوری اُمت اسلامیہ ایک مبنی برحق جہاد سمجھتی ہے۔ اس سلسلے کا سب سے    بڑا مطالبہ یہ تھا کہ حدود قوانین کو کتابِ قانون سے ساقط کر کے اپنی روشن خیالی، مگر بالفاظ صحیح تر  ’بش خیالی‘ اور آزادروی کا ثبوت دیں___اور بالآخر ارکانِ پارلیمنٹ حتیٰ کہ ان کی اپنی پارٹی کی ایک معتدبہ تعداد (آخری راے شماری میں سرکاری پارٹی کے ۴۲ ارکان نے شرکت نہیں کی جن  سے جواب طلبی کی جارہی ہے) کے عدمِ تعاون کے باوجود جنرل صاحب نے پیپلزپارٹی سے       بے نظیرصاحبہ کے خصوصی حکم نامے کے تحت کمک حاصل کرکے صدربش کے ’اسلام کی اصلاح‘ (reforming Islam) کے کروسیڈ میں اپنا کردار ادا کیا۔ اس کے نتیجے میں ملک کا سیاسی منظرنامہ بھی متاثر ہوا۔ حزبِ مخالف نہ صرف بٹ گئی بلکہ جیساکہ بی بی سی کے مبصر نے کہا: حدود بل  مستقبل میں صدرمشرف اور پیپلز پارٹی کی ورکنگ ریلیشن شب کا سنگ بنیاد ثابت ہوگا‘‘، اور سیکولر دانش وروں اور صحافیوں کے گرو‘ امتیازعالم صاحب نے اسے اس طرح بیان کیا کہ:

درحقیقت اس بل نے سیاسی قوتوں کی نئی صف بندی کے امکانات کا راستہ کھول دیا ہے اور انتخابات سے پہلے آزاد رو بمقابلہ قدامت پسند قوتوں کی محاذآرائی کے لیے    فضا تیار کردی ہے۔ اس [مشرف] کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہوگا کہ   بے نظیر بھٹو کے ساتھ لبرل پلیٹ فارم سے ملاؤںکا مقابلہ کریں۔ (دی نیوز، ۲۱ نومبر ۲۰۰۶ئ)

حدود قوانین میں تبدیلی کے اقدام کا جائزہ خالص شرعی اور اعتقادی پہلوؤں کے ساتھ‘ آج کے اس ملکی اور بین الاقوامی سیاسی پس منظر میں لیا جانا ضروری ہے۔

عراق پر حملے اور حدود اللّٰہ پر حملے کے لیے

بش اور مشرف کی یکساں حکمت عملی

عراق پر صدربش کے جارحانہ حملے اور جنرل پرویزمشرف کی شرعی قوانین پر عیارانہ یلغار میں تین اہم مشترک عناصر ہیں اور استعماری اور آمرانہ قوتوں کی ذہنی ساخت (mind-set) اور جنگی حکمت عملی کو سمجھنے کے لیے ان کا ادراک ضروری ہے:

  • جہوٹا جواز اور غلط بیانی: صدربش اور ان کی پوری ٹیم نے صریح جھوٹ‘غلط بیانی اور حقائق کو مسخ کرکے جنگ کا جواز پیدا کیا۔ تباہ کن ہتھیاروں کا واویلا کرکے طبلِ جنگ بجایا اور عراق میں آگ اور خون کی ہولی شروع کردی۔ سیکولر اور لبرل قوتوں نے پاکستان کے دینی اور تہذیبی تشخص کو تہ و بالا کرنے کے لیے بھی حدود قوانین کے بارے میں صریح جھوٹ‘ غلط بیانی اور حقائق کو مسخ کرکے ان پر حملہ آور ہونے کا راستہ استوار کیا۔ بھرپور میڈیا ٹرائل کیا گیا اور صاف نظرآرہا ہے کہ تین صریح غلط بیانیاں (established lies) ہیں جن پر اس جنگ کی بنیاد ہے‘ یعنی:

ا : یہ قوانین ایک فردِواحد کے مسلط کردہ ہیں اور انھیں کوئی سیاسی حمایت حاصل نہیں۔

ب: یہ خواتین کے خلاف امتیازی سلوک پر مبنی ہیں۔

ج: زنا بالجبر (rape) کا نشانہ بننے والی خواتین کے لیے عینی گواہ لانا ضروری ہے ورنہ ان کو زنا بالرضا کے جرم میں دھر لیا جاتا ہے‘ مرد چھوٹ جاتا ہے اور عورت محبوس کر دی جاتی ہے۔

غلط بیانیاں تو اور بھی ہیں مگر ان تین باتوں کو اس تسلسل اور تکرار سے پھیلایا گیا ہے اور اس سلسلے میں حقائق کو اس طرح مسخ کیا گیا ہے کہ بش کے تباہ کن ہتھیاروں والے بڑے جھوٹ  (big lie) کے علاوہ اس کی کوئی دوسری نظیر حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ ہم ان تینوں کے بارے میں اصل حقائق پیش کریں گے تاکہ اس طائفے کی دیانت اور اس کے دعوئوں کے قابلِ اعتبار ہونے کی حقیقت سامنے آسکے۔ جس مقدمے کی بنیاد ہی جھوٹ اور غلط بیانی پر ہو‘ اس کا حشر بش کی عراقی مہم جوئی سے مختلف کیسے ہوسکتا ہے؟

  • ظاھری مقاصد اور حقیقی اھداف میں فرق: دوسری مماثلت کا تعلق اعلان شدہ مقاصد (declared objectives)اور حقیقی اہداف (real targets) میں نمایاں فرق بلکہ بُعدالمشرقین سے ہے۔ عراق کی جنگ کے لیے تباہ کن ہتھیاروں کی تلاش کے ساتھ جمہوریت کے فروغ کو مقصد بتایا گیا‘ جب کہ اصل مقصد عراق کے تیل کے ذخائر پر قبضہ‘ مشرق وسطیٰ کے سیاسی نقشے کی تبدیلی اور عراقی حکومت کو ختم کر کے اسرائیل کے لیے غیرمحدود مدت کے لیے تحفظ کا حصول تھا۔ اسی طرح حدود قوانین پر حملہ بظاہر عورتوں کے حقوق کی حفاظت اور قانون کے غلط استعمال کے دروازے بند کرنا ہے مگر فی الحقیقت یہ ملک کو سیکولر بنانے اور اس کی اسلامی شناخت  ختم کرنے کے امریکی اور لبرل عناصر کے ہمہ گیر منصوبے کا پہلا کلیدی اقدام ہے۔ اصل ایشو دین اور ریاست کے تعلق اور اجتماعی زندگی اور قانون سازی میں الہامی ہدایات اور دینی احکام کے  فیصلہ کن کردار کا ہے۔ حدود قوانین کی بحث میں مرکزی نکتہ ہے ہی یہ کہ اصل حاکم کون ہے؟ مغربی اقوام کو شریعت سے جو کد ہے‘ اس کی بنیاد بھی یہی ہے کہ اقدار اور اساسی قانون کا منبع انسانی تجربہ ہے یاالہامی ہدایت؟ انفرادی دین داری جسے صوفی اسلام کا نام دیا جارہا ہے‘ اس سے مغرب کے استعماری نظام کو کوئی خطرہ نہیں لیکن اسلام کا وہ تصور جو انسانی زندگی کے جملہ معاملات کے لیے بنیادی رہنمائی اللہ اور اس کے رسولؐ کی فراہم کردہ ہدایت سے حاصل کرتا ہے اور جس کے نتیجے میں اُمت مسلمہ ایک تاریخ ساز قوت بنتی ہے وہ ’سیاسی اسلام‘ (political Islam) بن جاتا ہے   اور جو بنیاد پرستی (fundamentalism) اور انتہاپسندی (extremism) قرار پاتی ہے۔ حدود قوانین توصرف پانچ ہیں جو مقاصد شریعت کے محافظ ہیں‘ ان سے خطرہ ہی یہ ہے کہ اس طرح شریعت رہنما قوت بنتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ حدود کا حقیقی نفاذ تو آج تک ہوا ہی نہیں لیکن یہ بھی گوارا نہیں کہ حدود کتابِ قانون کا حصہ ہوں کہ کہیں کل ان کا مکمل نفاذ نہ ہوجائے۔ نیز حدود پر حملہ مسلم اُمت کی اس صلاحیت کو آزمانے ( test) کے لیے ہے کہ یہ قرآن و سنت کے احکام میں تبدیلی کو کس حد تک برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اگر ایک حد کو پامال کیا جائے گا اور اسے برداشت کرلیا جائے گا تو پھر کل ایک ایک کر کے دوسری تمام حدود کو بھی پامال کرنے کی طرف پیش قدمی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ایک معمولی اقدام نہیں بلکہ اس کے دُور رس اثرات ناگزیر ہیں۔ یہ ایک نظریاتی‘ اخلاقی اور تہذیبی کش مکش کا عنوان ہے اور یہی وجہ ہے کہ مغربی اقوام کے چوٹی کے ماہرین حکمت عملی (strategists ) بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ اسلامی دنیا کو قابو میں کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ اسلام میں تبدیلی کی جائے۔ روشن خیال اور اعتدال پسند اسلام اور بنیاد پرست اور جہادی اسلام کی تفریق اس کا مظہر ہے۔ حدود قوانین پر تازہ حملہ عورتوں کے تحفظ کے لیے ایک اقدام  نہیں‘ مسلم معاشرے اور اُمت مسلمہ کو شریعت اور اسلامی اقدار کی بنیاد پر اجتماعی زندگی کا نقشہ  تعمیر کرنے کے عزائم سے روکنے کا پیش خیمہ ہے۔ یہ اسلام کی اصلاح بالفاظ دیگر مرمت کرنے (reforming Islam ) اور دنیا میں اسلام کو نئی شکل دینے (restructuring) کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔

  • حکمت عملی میں یکسانیت: معرکۂ عراق اور حدود پر یورش میں تیسری مماثلت اُس تکنیک میں ہے جس سے ان معرکوں کے لیے صف بندی کی گئی ہے۔ دستور‘ قانون‘ اخلاقی‘ سیاسی روایات سب کو بالاے طاق رکھ کر ایک فردِواحد کا قوت اور  جوڑ توڑ کے ذریعے  اپنے اہداف حاصل کرنے کے لیے دوسروں کو استعمال کرنا ہے۔ اقوامِ متحدہ کا چارٹر کسی ملک کو    یہ اختیار نہیں دیتا کہ دوسرے آزاد ممالک پر فوج کشی کرے لیکن عراق پر اقوام متحدہ کو نظرانداز کرکے بش نے اقدام کیا‘ اور یہاں جنرل پرویز مشرف نے اپنی وردی کے سہارے ارکان پارلیمنٹ کو طاقت کا ہر حربہ استعمال کر کے اپنا آلۂ کار بنایا۔ اپوزیشن کو تقسیم کرنے اور سرکاری پارٹی کو بلیک میل کرکے اپنے مقاصد حاصل کیے۔ پارٹی میں اختلاف کرنے والوں کا منہ بند کیا گیا اور ہر نوعیت کے دبائو کے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے۔ حدود قوانین کے ناقدین کے سرخیل امتیازعالم بھی اس کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں کہ:

حدود قوانین میں ترمیم کرنے کی کوششوں کو حکمراں پارٹی‘ مسلم لیگ (ق) اور ملاؤں کی طرف سے سخت مزاحمت پیش آئی ہے۔ صدرمشرف نے بازو مروڑ کر یہ ممکن بنایا کہ  مسلم لیگ (ق) سیلیکٹ کمیٹی کے بل کو آگے بڑھائے۔ (’حدود کی سیاست‘، دی نیوز، ۲۱ نومبر ۲۰۰۶ئ)

یہ وہی حربے ہیں جن سے بش نے اپنا نام نہاد  حلیفوں کا اتحاد بنایا۔ اسی طرح     جنرل مشرف نے حدود کے خلاف جنگ میں حلیفوں کو ساتھ لیا اور ملک کو ایک نظریاتی جنگ میں جھونک دیا۔

جہوٹ اور غلط بیانیاں

حدود قوانین کے خلاف مقدمہ سراسر جھوٹ اور غلط بیانیوں پر مبنی ہے جو اس پوری جدوجہد کوبدنیتی پر مبنی (malafide) ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔

حدود قوانین میں بھتری کے لیے ترامیم

ایک بات یہ کہی جارہی ہے کہ ہم قرآن وسنت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں کرنا چاہتے اور حدود قوانین اور حدود میں فرق کرنا ضروری ہے۔ پھر بڑے دھڑلے سے کہا جاتا ہے کہ حدود قوانین انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں اور وہ مقدس نہیں‘ انھیں بدلاجاسکتا ہے۔ ان قوانین میں بہتری پیدا کرنے‘ عملی مشکلات کو دُور کرنے اور قانون کو اس کی اسپرٹ کے مطابق نافذ کیے جانے کے عمل کو مؤثر بنانے کے بارے میں ہر سوچ بچار جائز بلکہ ضروری ہے اور اس پر کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ عملاً اس سلسلے میں کئی کوششیں ہوئی ہیں جن کا کوئی ذکر اس بحث میں نہیں کیا جاتا۔ اگر اسلامی نظریاتی کونسل کی کارروائیوں اور رپورٹوں کا مطالعہ کیا جائے تو ایک درجن سے زیادہ مواقع پر کونسل نے ان قوانین کو مؤثر بنانے کے لیے تجاویز پیش کی ہیں اور وزارتِ قانون سے ردوکد کی ہے مگر سیکولر ذہن رکھنے والی انتظامیہ کے ہاں کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔

حدِ زنا آرڈی ننس ۱۰ فروری ۱۹۷۹ء کو ملک میں جاری اور نافذ ہوا۔ اس قانون میں کم ازکم پانچ ترامیم گذشتہ ۲۷ برسوں میں ہوئی ہیں جواس کا ثبوت ہیں کہ حد میں نہیں البتہ حدود آرڈی ننس میں کسی اصلاح یا تبدیلی کی ضرورت ہے تو وہ کی گئی ہے اور کی جاسکتی ہے۔

  •   ۱۹۸۰ء میں آرڈی ننس کی دفعہ ۲۰ میں ترمیم کرتے ہوئے طے کیاگیا کہ اس آرڈی ننس کے تحت کسی بھی مقدمے کی سماعت سیشن کورٹ میں ہوگی اور ضابطہ فوجداری کی دفعہ ۳۰ کے تحت بااختیار مجسٹریٹ کی عدالت میں نہیں ہوگی۔
  •  ۱۹۹۷ء میں آرڈی ننس کی دفعہ ۱۵ کی ذیلی دفعہ (۳) میں ترمیم کرتے ہوئے زنابالجبر کے جرم میں کم از کم چار سال قید کی سزا کی حد مقرر کی گئی۔
  • اسی طرح ۱۹۹۷ء میں ذیلی دفعہ (۴) کا اضافہ ہوا اور گینگ ریپ کی صورت میں ہرملزم کے لیے موت کی سزا مقرر کی گئی۔
  • تعزیر کی صورت میں کوڑوں کی سزا کو ختم کیا گیا۔
  •  ۲۰۰۴ء میں ضابطہ فوجداری میں دفعہ ۱۵۶ کا اضافہ کیا جس کے مطابق زنا بالرضا کے مقدمات میں مقدمے کی تفتیش کے لیے ایس پی سے کم درجے کا کوئی پولیس افسر تفتیش نہ کرسکے گا‘ نیز عدالت کی پیشگی اجازت کے بغیر ملزم گرفتار بھی نہیں کیا جائے گا۔

اس سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ طریق کار کے (procedural) معاملات میں اصلاح کا دروازہ کھلا ہوا ہے اور آیندہ بھی اس سلسلے میں تجربات کی روشنی میں تبدیلیاں کی جاسکتی ہیں البتہ ضابطے کی اصلاحات کے نام پر حدود کی تبدیلی یا ان کو غیرمؤثر بنادینا قابلِ برداشت نہیں۔

یہاں ضمناً حکومت کے منفی رویے کی عکاسی کے لیے ایک اور مثال بھی ریکارڈ پر لانا ضروری ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے ۱۹۸۹ء میں‘ زنا بالجبر کے سلسلے میں اپنے ایک فیصلے میں‘    زنا آرڈی ننس کی دفعات ۸ اور ۹ (۴) میں تین ترامیم کا فیصلہ دیا اور صدرمملکت سے گزارش کی کہ یکم فروری ۱۹۹۰ء تک مذکورہ دفعات میںترمیم کردیں ورنہ دستور کے تحت ’’مذکورہ بالا دفعات قابلِ نفاذ نہ ہوں گی اور شرعی قوانین پر عمل ہوگا‘‘۔ لیکن حکومت نے ترمیم کرنے کے بجاے سپریم کورٹ کی شریعہ بنچ میں اپیل کردی جس کا آج تک فیصلہ نہیں ہوا ہے‘ یعنی ۱۶ سال سے یہ ترامیم معلق ہیں۔

حدود قوانین میں ترمیم‘ بشرطیکہ وہ شریعت کے مطابق اور ان قوانین کے مقاصد کے حصول کے لیے ہو‘کوئی رکاوٹ نہیں۔ مخالفت ان ترامیم کے باب میں ہے جو حدود کو ختم یا غیرمؤثر کرنے کے لیے کی جائیں‘ جیساکہ حالیہ تحفظ نسواں قانون کے ذریعے کی جارہی ہیں۔

حدود قوانین‘ فردِ واحد کا اقدام

دوسری صریح غلط بیانی کا تعلق دن رات کے اس دعوے سے ہے کہ حدود قوانین جنرل ضیاء الحق کا ذاتی اقدام تھا جو سعودی عرب کے دبائو میں کیا گیا۔ جہاں تک ان کے نفاذ کے لیے صدارتی آرڈی ننس کے طریقے کو اختیار کیے جانے کا سوال ہے‘ وہ ایک حقیقت ہے لیکن اسی طرح کی ایک حقیقت ہے جیسی دوسرے سیکڑوں آرڈی ننس قوانین کی شکل میں ملک کی کتابِ قانون میں موجود ہے۔ جنرل ایوب سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک ہر فوجی حکمران نے سیکڑوں قوانین صدارتی فرمان کے ذریعے نافذ کیے ہیں اور پارلیمنٹ کی موجودگی میں بھی ۹۰ فی صد قانون سازی آرڈی ننسوں کے ذریعے ہو رہی ہے۔ اس پر اصولی تحفظات اپنی جگہ‘ لیکن صرف اسی ایک آرڈی ننس کو مطعون کرنا قرین انصاف نہیں۔

جہاں تک حدود قوانین کا تعلق ہے‘ ان کی حیثیت بہت مختلف ہے۔ یہ قوانین کسی انسان کے بنائے ہوئے نہیں بلکہ قرآن وسنت کے طے کردہ ہیں اور ان پر اُمت مسلمہ کی پوری تاریخ میں عمل ہوتا رہا ہے۔ دوررسالت مآبؐ سے لے کر مغربی استعمار کے قبضے تک یہ مسلمان ممالک میں جاری وساری تھے۔ مولانا مناظراحسن گیلانی مسلمان بادشاہوں پر تنقید کے ساتھ اس حقیقت کو بھی نمایاں کرتے ہیں کہ:

حالانکہ اور کچھ ان بادشاہوں کے عہد میں تھا یا نہ تھا لیکن قانون جہاں تک میں جانتا ہوں‘ ہر زمانے میں‘ مسلمانوں کی کسی حکومت کا کسی ملک میں‘ کوئی قانون اسلام کے سوا نافذ نہ رہا… مسلمانوں کے ہاتھ میں دنیا کی سیاست کی باگ ڈور جب تک رہی‘ اسلامی قانون کے ساتھ اس کی وفاداری مسلسل رہی۔ (مناظراحسن گیلانی‘ مقالاتِ احسانی‘ ص ۶۲-۶۳)

سلاطین دہلی کے نظامِ حکومت کی عمومی کیفیت مولانا سعیداحمداکبرآبادی یوں بیان کرتے ہیں:

مسلمان بادشاہوں کی یہ خصوصیت رہی کہ ان میں جو بادشاہ متقی اور پرہیزگار تھے‘ وہ تو خیر اسلامی شعائر و حدود کا احترام کرتے ہی تھے‘ ان کے علاوہ جو سلاطین عشرت پسند اور لذت کوش ہوتے (باستثنا معدودے چند) وہ بھی اسلامی احکام کا احترام ملحوظ رکھنے میں کسی سے کم نہ تھے‘ نیز عدالتوں کے فیصلے قرآن و حدیث کی روشنی میں ہوتے تھے۔ (سعیداحمد اکبرآبادی‘ مسلمانوں کا عروج و زوال‘ ص ۳۶۵)

ہندستان میں اسلام کا قانون فوجداری صدیوں نافذ رہا۔ یہ کوئی آج کا عجوبہ نہیں۔ہندو مؤرخ وی ڈی مہاجن لکھتا ہے:

جرائم کی تین قسمیں تھیں‘ یعنی خدا کے خلاف جرائم‘ ریاست کے خلاف جرائم اور افراد کے خلاف جرائم۔ سزائوں کی چار قسمیں یہ تھیں: حد‘ تعزیر‘ قصاص‘ تشہیر۔ قرآن وہ بنیاد تھی جس پر قوانین مبنی تھے۔ اکبر تک نے فوجداری جرائم کے معاملات میں مداخلت نہیں کی جو اسلامی قانون تھا۔ (دی مسلم رول اِن انڈیا، ص ۲۰۷)

ایک اور ہندو مؤرخ آر سی ماجومدار لکھتا ہے:

اسلامی فوجداری قوانین اور سزائیں پورے مغل دور میں نافذ رہیں‘ حتیٰ کہ اکبر نے بھی فوجداری قانون میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں کی۔ (دی ہسٹری اینڈ کلچر آف دی انڈین پـیپل‘ دی مغل ایمپائر، ممبئی‘ ۱۹۷۴ئ‘ ص ۵۴۴)

حدود کے نفاذ کا قانون کسی خلا میں نہیں بنایا گیا۔٭ ایک طویل تاریخی روایت کا تسلسل ہے اور اس کی جمہوری اساس مسلمانوں کے عقیدے اور ایمان پر ہے‘ کسی ووٹ پر نہیں۔ قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں اسلامی قانون کے نفاذ کا دعویٰ بار بار ہوا اور خود قائداعظمؒ نے نصف درجن سے زیادہ مواقع پر شریعت اور اسلامی قوانین کے نفاذ کا ذکر کیا ہے۔پھر تحریک نظام مصطفیؐ کا مرکزی مطالبہ اسلامی شریعت کا نفاذ تھا جس کا آغاز خود جناب ذوالفقار علی بھٹو نے امتناع شراب کے آرڈی ننس سے کیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے حدود قوانین اسی کا تسلسل تھے۔

یہ بھی کہنا غلط ہے کہ جنرل ضیا الحق نے سعودی قانون کا چربہ یہاں نافذ کیا۔ سعودی عرب میں اس سلسلے میں کوئی باضابطہ قانون (legislation) نہیں ہے۔ وہاں ججوں کے بنائے ہوئے قانون (Judge made law)کا نظام نافذ ہے جو قرآن و سنت سے براہِ راست استفادہ کرکے قانون نافذ کرتے ہیں۔ نیز جو قوانین جنرل ضیاء الحق کے دور میں مرتب ہوئے وہ      اس وقت کی اسلامی نظریاتی کونسل کے تیارکردہ مسودے پر مبنی تھے۔ جس کونسل نے یہ مرتب کیے اس میں جسٹس محمد افضل چیمہ‘ جناب خالداسحاق‘ مولانا محمد یوسف بنوری‘ خواجہ فخرالدین سیالوی‘    مفتی سیاح الدین کاکاخیل‘ مفتی محمد حسین نعیمی‘ مولانا محمد تقی عثمانی‘ مولانا ظفراحمد انصاری‘     جناب جعفرحسین صاحب مجتہد‘ مولانا محمد حنیف ندوی اور ڈاکٹر ضیاء الدین احمد‘ علامہ سید محمد رضی‘ مولانا شمس الحق افغانی اور ڈاکٹرمسز خاور خان چشتی۔ (اسلامی نظریاتی کونسل‘ سید افضل حیدر‘ دوست پبلی کیشنز‘ اسلام آباد‘ ۲۰۰۶ئ‘ ص ۷۶۵)

اس قانون کی تسوید میں کسی سعودی عالم کا کوئی کردار نہیں تھا۔ جن تین عالمی شہرت کے ماہرین قانون نے مدد کی وہ ڈاکٹر معروف دوالیبی سابق وزیراعظم شام‘ ڈاکٹر مصطفی احمد زرقا‘ پروفیسر قانون جامعہ شام‘ اور ڈاکٹر حسن ترابی سابق اٹارنی جنرل سوڈان تھے۔ ڈاکٹر معروف اور ڈاکٹر حسن ترابی فرانس کی سوبورن یونی ورسٹی سے قانون میں پی ایچ ڈی کی سند رکھتے تھے اور   یونی ورسٹی پروفیسر کی خدمات انجام دے چکے تھے۔ جس کابینہ نے اس کی سفارش کی اس میں جناب اے کے بروہی‘ جناب شریف الدین پیرزادہ‘ جناب غلام اسحاق خان‘ جناب محمدعلی خان ہوتی‘ جناب چودھری ظہورالٰہی‘ جناب خواجہ محمد صفدر‘ جناب محمد خاں جونیجو تھے اوراس قانون کو  مسلم لیگ‘ جمعیت علماے پاکستان‘ جمعیت علماے اسلام‘ جماعت اسلامی اور نواب زادہ نصراللہ کی  پی ڈی پی کی حمایت حاصل تھی۔ بلاشبہہ اس وقت پارلیمنٹ نہیں تھی مگر تین سیاسی جماعتوں کے سوا پوری قوم نے اس کی تائید کی تھی۔ انھیں محض ایک شخص کی اختراع کہنا حقائق کی صحیح ترجمانی نہیں۔

خواتین پر مظالم میں اضافہ

تیسری بڑی غلط بیانی یہ ہے کہ قانون کے بننے کے بعد عورتوں پر مظالم میں اضافہ ہوگیا ہے‘ ان کے خلاف امتیازی سلوک کیا جارہا ہے‘ جیلیں عورتوں سے بھردی گئی ہیں‘ زنابالجبر کے مقدمات میں شہادت نہ ہونے پر زنابالرضا میں عورتوں کو دھرلیا جاتا ہے‘ عورتوں کو بے دریغ سزائیں دی جارہی ہیں‘ اور یہ کہ زنا کے سلسلے میں عورت کی گواہی قبول نہیں کی جاتی وغیرہ وغیرہ۔  یہ ایک ناخوش گوار حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں دوسرے مظلوم طبقات کی طرح عورت ہی ناروا سلوک اور ظلم کا شکار ہے اور اس کی بڑی وجہ جاگیردارانہ نظام‘ بااثر طبقات کا قانون سے بالاہونا‘ ہرسطح پر کرپشن‘ پولیس اور عدالت کے نظام کی خرابیاں اور قانون کے احترام کی روایت کا فقدان ہے۔ اس کا تعلق محض حدود قوانین سے نہیں اور ساری خرابیوں کو ان حدود قوانین سے    جوڑ دینا صریح ناانصافی ہے۔

پھر جو دعوے حدود قوانین کے سلسلے میں پورے دھڑلے سے کیے جاتے ہیں‘ وہ ذہنی اختراع سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ ہم صرف چند کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یہ دعویٰ کہ ہزاروں خواتین ان قوانین کی وجہ سے جیلوں میں ہیں‘ حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ وومن ایڈ ٹرسٹ کے ایک جائزے کے مطابق جو ستمبر۲۰۰۳ء میں ملک کے تین جیلوں کے کوائف پر مبنی ہے‘ صورت حال یہ سامنے آتی ہے: اڈیالہ جیل راولپنڈی میں کل ۱۲۵ خواتین تھیں جن میں سے ۸ئ۲۴ فی صد حدود کے تحت تھیں۔ کوٹ لکھپت جیل لاہور میں یہ تناسب ۴۹ فی صد تھا جہاں کل تعداد ۹۷ تھی۔ کراچی سنٹرل جیل میں تعداد سب سے زیادہ تھی‘ یعنی ۲۸۰ اور حدود کے تحت مقدمات میں ماخوذ کا تناسب ۲۸ فی صد تھا۔ ان تین جیلوں میں حدود کے مقدمات میں ماخوذ خواتین کا تناسب اوسطاً ۳۱ فی صد تھا۔

حال ہی میں صدارتی آرڈی ننس کے تحت جن خواتین کو جیلوں سے رہا کیا گیا ہے ان کے جو اعدادوشمار اخبارات میں آئے‘ ان سے بھی یہی اندازہ ہوتا ہے کہ حدود قوانین کے تحت محبوس خواتین کا تناسب ایک تہائی سے کم تھا۔

اسی طرح حدود قوانین کے اجرا سے پہلے اور ان کے نفاذ کے بعد کے کوائف کا موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ زنا بالرضا کے جرم بننے کے باوجود‘ آبادی میں تناسب کے اعتبار سے کوئی نمایاں فرق نہیں پڑا۔ اگر پاکستان اور بھارت میں جنسی جرائم کے اعداد وشمار کا موازنہ کیا جائے تو پانچ سال میں (۱۹۹۱ء تا ۱۹۹۵ئ) بھارت میں جہاں حدود قوانین سے قبل ہی کا برطانوی قانون نافذ ہے‘ پاکستان کے مقابلے میں ۵۰۰ فی صد زیادہ اضافہ ہوا ہے‘ جب کہ بھارت میں صرف زنابالجبر جرم ہے‘ جب کہ پاکستان میں اس زمانے میں زنابالجبر اور زنابالرضا دونوں جرم تھے:

   ۱۹۹۱ئ  ۱۹۹۵ئ  اضافہ

ہندستان میں زنا بالجبر            ۹۷۹۳     ۱۳۷۹۵   ۴ئ۴۰

پاکستان زنابالجبر+ بالرضا     ۱۴۸۲     ۱۶۰۶     ۷ئ۷

(ملاحظہ ہو شہزاد اقبال شام کا مقالہ’ارتکاب زنا (نفاذ آرڈی ننس ۱۹۷۹ئ) نفاذ کے    ۲۵ سال___ ایک مطالعہ‘۔ انھی کی مرتب کردہ کتاب پاکستان میں حدود قوانین‘ مطبوعہ شریعۃ اکیڈمی‘ اسلامی یونی ورسٹی‘ اسلام آباد‘ ص ۸۹)

پاکستان میں زنا اور زنا بالجبر کے واقعات میں جو اضافہ ہوا ہے‘ اگر آبادی میں اضافے کے تناظر میں دیکھا جائے تو کسی اعتبار سے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ حدود قوانین کے بعد جیلیں عورتوں سے بھر دی گئی ہیں۔ زنا بالجبرکے جو واقعات رپورٹ ہوئے‘ وہ ۱۹۴۹ء میں ۵۲۱ تھے‘ ۱۹۸۰ء میں ۷۳۹ ہوچکے تھے۔ ان قوانین کے نفاذ کے بعد ۱۹۸۱ء میں یہ تعداد ۱۱۰۱ تھی جو ۲۰۰۴ء میں ۲۳۶۵ ہوگئی۔ آبادی کے تناسب سے ایک لاکھ میں ۰ئ۱ اور ۶ئ۱ کے درمیان رہی۔ مسلم معاشرے میں یہ بھی بہت شرم ناک اور افسوس ناک ہے۔ سعودی عرب میں جہاں حدود قوانین کو ٹھیک ٹھیک نافذ کیا گیا ہے جرائم میں غیرمعمولی کمی واقع ہوئی اور آج بھی یونیسکو کی رپورٹوں کے مطابق  سعودی عرب میں جرائم کا تناسب دنیا میں سب سے کم ہے‘ جب کہ بھارت اور مغربی ممالک میں جہاں کوئی حدود قوانین موجود نہیں‘ زنا بالجبر نے سوسائٹی کی چولیں ہلا رکھی ہیں۔ بھارت کے   نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی رپورٹ کے مطابق جسے پارلیمنٹ میں جولائی ۲۰۰۶ء میں پیش کیا جانا تھا‘ ہرآدھے گھنٹے میں ایک عورت کی جبری عصمت دری کی جاتی ہے اور ہر ۷۵ منٹ پر ایک کو  قتل کیا جاتا ہے۔ نیز صرف ۲۰۰۴ء میں ۲۰۰۳ء کے مقابلے میں ملک کے ۳۵ بڑے شہروں میں   جبری عصمت دری میں ۳۰ فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔ (رائٹر کی رپورٹ‘ یکم جون ۲۰۰۶ئ)

برطانیہ میں برٹش کرائم سروے کے مطابق ۰۵-۲۰۰۴ء میں ۱۶ سال کی عمر سے بڑی خواتین میں سے ۲۳ فی صد نے اعتراف کیا کہ ان کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ایک سال میں عورتوں کی کُل آبادی کے ۳ فی صد نے اعتراف کیا کہ اس سال ان کی عصمت دری کی گئی ہے۔ پاکستان میں جنسی جرائم کا تناسب ایک لاکھ کی آبادی میں ۶ئ۱ ہے‘ جب کہ انگلستان میں یہ ۳ فی صد‘ یعنی ایک لاکھ میں ۳۰۰۰ بنتا ہے۔ امریکا میں ۱۹۸۶ء سے ۲۰۰۵ء تک اوسطاً ہرسال ایک لاکھ خواتین جبری عصمت دری کا نشانہ بن رہی ہیں‘ جسے وہاں forceable rape کہا گیا ہے۔  (بحوالہ سرکاری رپورٹ Crime in the United States 2005)۔ یہ دعویٰ کہ حدود قوانین کی وجہ سے پاکستان میں جرائم میں اضافہ ہوا ہے اور جیلیں عورتوں سے بھردی گئی ہیں‘ سرتاسر اتہام اور غلط بیانی پر مبنی ہے۔

پھر یہ دعویٰ بھی ایک سفید جھوٹ ہے کہ کسی ایسی خاتون کو جو زنا بالجبر کا نشانہ بنی ہواور الزام ثابت نہ ہونے کی صورت میں اسے زنا بالرضا کے جرم میں سزا دی گئی ہے۔ شریعت کورٹ کے ججوں اور قانونی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ایسا ایک واقعہ بھی وجود پذیر نہیں ہوا۔ امریکی محقق پروفیسر چارلس کینیڈی نے پاکستان میں حدود قوانین کے نفاذ پر جو تحقیق کی ہے اس میں پانچ سال کے تمام واقعات اورمقدمات کا تجزیہ کرکے وہ جس نتیجے پر پہنچا ہے وہ جنرل پرویز مشرف اور ان کے   روشن خیال کذب فروشوں کے لیے ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ان کے جھوٹے دعوے کی حقیقت دیکھی جاسکتی ہے چارلس کینیڈی اپنے مضمون Implementation of the Hudood Ordinance میں‘ جو اولاً امریکی جریدے Asian Survey میں شائع ہوا تھا اور پھر اس کی کتاب Islamization of Laws and  Economy (مطبوعہ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز‘ اسلام آباد‘ ۱۹۹۶ئ) میں‘ لکھتا ہے:

شاید حدود آرڈی ننس کا سب سے زیادہ اہم پہلو اس قانون کا خواتین کے حقوق پر مبینہ اثر ہے۔ کئی حالیہ مطالعوں میں یہ کہا گیا ہے کہ ضیاء کا نظامِ مصطفیؐ اور خاص طور پر حدود آرڈی ننس خواتین سے امتیازی سلوک کرتے ہیں۔ اسلامیانے کے عمل کے خواتین کے مقام پر جو اثرات ہوئے ہیں‘ اس کا جائزہ لینا اس مضمون کے دائرے سے باہر ہے۔ ہماری تحقیق حتمی طور پر ثابت کرتی ہے کہ حدود آرڈی ننس کے نفاذ کے محدود دائرے میں عورتوں کے خلاف کوئی واضح امتیازی رجحان نہیں ہے (دیکھیے: جدول ۳)۔ حقیقت اگر کچھ ہے تو وہ مردوں ہی کے خلاف تھوڑا بہت جنسی امتیاز ہے۔ حدود آرڈی ننس کے تحت ڈسٹرکٹ اور سیشن عدالتوں میں جو مجرم قرار دیے گئے ان کے ۸۴ فی صد مرد ہیں‘ اور جن کی سزائیں وفاقی شرعی عدالت میں برقرار رہیں ان میں ۹۰ فی صد مرد ہیں۔ سب سے زیادہ کھل کر سامنے آنے والی حقیقت تو زنا کی تعزیر کے حوالے سے یہ ہے کہ یہ جرائم کرنے میں کوئی جنسی تفریق نہیں ہے لیکن ڈسٹرکٹ اور سیشن کورٹ سے مجرم قرار پانے والوں کے ۵۶ فی صد اور وفاقی شرعی عدالت سے سزا پانے والوں میں ۹۰ فی صد مرد ہیں۔ ثانی الذکر تحقیق ویز (Weiss)  کے اس دعوے کی تردید کرتی ہے جسے عام طور سے مغربی اور پاکستانی پریس درست سمجھتا ہے کہ پاکستان میں زنا کی سزا مردوں کے مقابلے میں عورتوں کو زیادہ دی جارہی ہے۔ کسی کو حدود آرڈی ننس کی تنفیذ کے خلاف جائز شکایت ہوسکتی ہے۔ لیکن عورتوں کے خلاف جنسی امتیاز ان میں سے ایک نہیں۔(کتاب مذکورہ بالا‘ ص ۶۱-۶۲)

چارلس کینیڈی نے پہلے پانچ سال (۸۴-۱۹۸۰ئ) کے تمام مقدمات کا جائزہ لے کر اعداد و شمار سے اسے ثابت کیا ہے۔ زنا بالرضا کی دفعہ ۱۰ (۲) کے تحت ڈسٹرکٹ کورٹ میں ۱۴۵مردوں اور ۱۱۴ خواتین کو ملزم قرار دیا گیا لیکن وفاقی شرعی عدالت نے ۷۱ مردوں اور صرف ۳۰خواتین کو سزا دی۔ گویا ۲۵۹ میں سے ۱۵۸ کو رہا کر دیا اور ۱۰۱ کی سزا برقرار رکھی‘ جب کہ زنا بالجبر دفعہ ۱۰ (۳) کے ۱۶۵مقدمات میں جن میں سیشن کورٹ نے ۱۶۳ مردوں (یعنی ۹۹ فی صد) اور صرف ۲ خواتین (یعنی صرف ایک فی صد) کو سزا دی تھی لیکن وفاقی شرعی عدالت نے ان ۱۶۵مقدمات میں صرف ۵۹ مردوں کی زنابالجبر کی سزا باقی رکھی۔ دونوں خواتین کو رہا کردیا اور   ان مردوں کو بھی جن کے بارے میں شہادت محکم نہیں تھی۔ پانچ سال میں کل ۱۶۰ افراد کوان  دونوں جرائم میں سزا ہوئی اور وہ بھی تعزیری۔ (ملاحظہ ہو‘ کتاب مذکورہ‘ جدول ایک‘ دو اور تین‘ صفحات ۵۹-۶۳)

بعد کے اعداد و شمار اس تفصیل سے موجود نہیں لیکن بین الاقوامی یونی ورسٹی سے شائع شدہ کتاب پاکستان میں حدود قوانین حدود قوانین کے نفاذ کے ۲۵ سالہ جائزے میں ۲۰۰۳ء تک کے جو اعداد و شمار دیے گئے ہیں‘ وہ اس رجحان کی تائید کرتے ہیں۔ چارلس کینیڈی کے تحقیقی مقالے میں درج شدہ حاصل تحقیق کا خلاصہ اس حقائق کو سمجھنے میں مددگار ہوگا۔ چارلس کینیڈی  جس نتیجے پر پہنچا ہے وہ یہ ہے:

۱- حدود آرڈی ننس کے نفاذ کے نو سال بعد سب سے بڑانتیجہ یہ ظاہر ہوتا ہے: حدود آرڈی ننس کے نفاذ کا پاکستان کے فوجداری قانونی نظام پر نہایت معمولی اثر ہوا ہے۔ پاکستان اور مغرب دونوں جگہ عام خیال تھا کہ حدود کا نفاذ‘ (قطع ید اور رجم) پاکستان میں عام ہوجائیں گے۔ فروری ۱۹۸۸ء تک ملک میں حد کی کوئی سزا نہیں دی گئی ہے۔ حد کی صرف دو سزائوں کو (دونوں چوری کی) وفاقی شرعی عدالت نے برقرار رکھا ہے۔ یہ دونوں سزائیں سپریم کورٹ نے بعد میں ختم کردیں۔

۲- اسی طرح حدود آرڈی ننس کے نفاذ سے پاکستان میں عورت کی حیثیت پر کوئی مضرت رساں اثر نہیں ہوا ہے‘ جیساکہ اکثر الزام لگایا جاتا ہے۔

۳- حدود کے تحت انصاف فراہم کرنے کے عمل نے‘ زیادہ تر اعلیٰ عدالتوں پر بہت زیادہ بوجھ کی وجہ سے سول لا کے تحت طریق کار کے مقابلے میں‘ بہت کم وقت لیا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے قیام نے‘ جس کا فوجداری قانون کا نہایت محدود دائرہ ہے‘ طریق کار کو رواں کیا ہے۔

یہاں یہ اضافہ مفید ہوگا کہ چارلس کینیڈی کی تحقیق کے مطابق وفاقی شرعی عدالت میں ایک مقدمہ اوسطاً چار مہینے میں ہر مرحلہ طے کر کے فیصلے پر منتج ہوتا ہے‘ جب کہ عام عدالتوں میں   یہ مدت ۱۸ ماہ سے کئی کئی سال اور کچھ مقدمات میں ۱۵ اور ۲۰ سال پر پھیلی ہوئی ہے۔

۴- یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جاسکتا ہے (گو کہ اس کے لیے شہادت لانا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے) کہ حدود کی سزائوں کا اندیشہ‘ متعلقہ جرائم کے ارتکاب کرنے میں ایک روک (deterrant) ثابت ہواہے۔

ان چار مثبت اثرات کے ساتھ چارلس کینیڈی کے اس تحقیقی جائزے سے تین منفی نتائج بھی سامنے آتے ہیں جو غورطلب ہیں:

۵- اس قانون کے نفاذ نے عدالتی اور سیاسی اداروں کے تعلقات میں کوئی واضح تبدیلی نہیں کی ہے‘ نہ اس نے پاکستان میں عدالتی طریق کار کو نمایاں طور پر تبدیل کیا ہے۔

اس کی بنیادی وجہ‘ جسے ہم آخر میں بتائیں گے ‘وہ دوغلا نظام ہے جوملک پر مسلط ہے‘   یعنی ایک چھوٹے سے دائرے میں شرعی قوانین اور پورا نظام دورِ استعمار کے تیار کردہ قانونی نظام اور ضابطہ فوجداری اور سول قانون کی گرفت میں!

منفی لحاظ سے دیکھا جائے تو حدود آرڈی ننس کے نفاذ نے خاندانی اور سماجی تنازعات میں ایک اضافی راستہ فراہم کیا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت میں اپیل کیے جانے والے مقدمات کے ۵۰ فی صد کا تبدیل ہونا یہ حقیقت سامنے لاتا ہے کہ عدالتوں میں بہت سے مقدمات اس لیے لائے جاتے ہیں کہ سوشل کنٹرول کو روبہ عمل لایا جاسکے۔ والدین‘ شوہروں اور سرپرستوں کو معمول کے مطابق سوشل کنٹرول کے جو طریقے مہیا ہیں‘ حدود آرڈی ننس کے آنے سے ان کو اضافی طور پر یہ اختیارات حاصل ہوئے ہیں کہ اپنے بچوں یا بیویوں کو حقیقی یا مخفی دھمکیاں دے سکیں۔

آخری نکتہ بھی پاکستان کے سماج اور سیاسی اور معاشرتی نظام اور مجموعی طور پر جو طبقاتی گروہی اور اشرافیہ کے اقتدار کا نظام ہے‘ اس کو سمجھنے اور اس کی اصلاح کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے‘ یعنی:

آخری بات یہ ہے کہ حدود آرڈی ننس کی زد میں غیرمتناسب طور پر پاکستان میں معاشی طور پر کم حیثیت طبقہ رہا ہے۔ متوسط طبقے یا اعلیٰ طبقے کے پاکستانی بہت کم اس کے تحت ملزم قرار دیے گئے ہیں۔ نہ یہ عدالتوں کا قصور ہے‘ نہ قانون کا بلکہ یہ پاکستانی معاشرے کی ساخت میں موجود عدم مساوات کا عکاس ہے۔

ہم نے ایک غیرمسلم مغربی محقق کے مطالعے اور حاصل مطالعہ کو اس لیے پیش کیا ہے کہ حدود قوانین پر جذباتی اور بیرونی پروپیگنڈے کے زیراثر کلام کرنے کے بجاے معروضی انداز میں غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ خرابی ان قوانین میں نہیں بلکہ:

                ۱-            اس سماجی‘ معاشی اور قانونی نظام میں ہے جو دور استعمار کے ورثے میں ہم پر مسلط ہے۔

                ۲-            ان بااثر طبقات کے ظلم وستم اور قانون کے غلط استعمال میں ہے جو عوام پر غلبہ پائے ہوئے ہیں۔

                ۳-            پولیس‘ زیریں عدالتوں اور مقدمے کے طریق کار کی خرابیوں کی وجہ سے ہے جن کی اصلاح کی طرف سے غفلت برتی جارہی ہے۔ واضح رہے کہ مقدمے کے طریق کار کا سارا قانون (procedural law) وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ اختیار سے دستوری قدغن کے ذریعے باہر کردیا گیا ہے اور اس باب میں وہ ’ٹک ٹک دیدم‘ دم نہ کشیدم‘ کی تصویر بن کر رہ گئی ہے۔

عورت کی گواھی

ایک اور غلط بیانی جو بڑے دھڑلے سے کی جارہی ہے‘ عورت کی گواہی کے بارے میں ہے‘ خصوصیت سے زنا بالجبر کے سلسلے میں۔ بلاشبہہ شریعت نے اس زنا کے سلسلے میں حد کے    نفاذ کے لیے قابلِ اعتماد مرد گواہوں کی شرط رکھی ہے اور اس کی بڑی مصلحتیں ہیں۔ لیکن جرمِ زنا‘ اقدامِ زنا‘ تشدد‘ اغوا براے زنا و قحبہ گری ان سب کے سلسلے میں تعزیر کے لیے عورت کی گواہی نہ صرف معتبر ہے بلکہ کچھ حالات میں جیساکہ علامہ ابن قیم نے لکھا ہے ضروری ہے اورمعتبر ترین ہے۔ یہی بات وفاقی شرعی عدالت نے اپنے واضح فیصلوں میں کہی ہے اور اس پر عمل کیا ہے۔ اس پر بھی بڑا واویلا ہے کہ زنا بالجبر کی نشانہ بننے والی عورت سے گواہوں کا مطالبہ ظلم ہے حالانکہ زنابالجبر ہی وہ صورت حال ہے جس میں عورت پر زیادتی کی صورت میں فطری طور پر وہ چیخ و پکار کرے گی اور اس طرح لوگ اس کی مدد کو آسکتے ہیں جو گواہ بن سکتے ہیں۔ لیکن یہ بات صریح جھوٹ ہے کہ مظلوم عورت کی اپنی گواہی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ عورت کی گواہی اس جرم کی صورت میں بڑی اہم اور مرکزی حیثیت کی حامل ہے اور اس کے ساتھ قرائنی شہادت مجرم کے جرم کے ثبوت کا ذریعہ بنتی ہے۔ دورِ رسالت مآبؐ اور دورِ خلافت راشدہ میں اس جرم کا نشانہ بننے والی خواتین کی گواہی پر سزا ہوئی ہے اور خود پاکستان میں وفاقی شرعی عدالت عورت کی گواہی پر زنابالجبر کے مجرموں کو سزا دی ہے۔

آج تک کسی خاتون کو کسی بھی عدالت میں محض اس بنا پر گواہی دینے سے نہیں روکا گیا کہ وہ عورت ہے۔ حدِ زنا کے ہر مقدمے میں لیڈی ڈاکٹر بطور گواہ عدالتوں میں پیش ہوتی ہیں اور ان کی گواہی کی بنا پر سزائیں بھی دی جاتی ہیں۔ ایسے مقدمات کی تعداد بے شمار ہے جن میں محض عورت کی اکیلی گواہی ہی پر سزائیں دی گئیں۔ اس کی صرف چند مثالیں ذیل میں پیش کی جارہی ہیں:

  • ایک مقدمے ’محمد علی بنام سرکار‘ میں ۸/۹ سال کی بچی سے زنا بالجبر کا ارتکاب کرنے والے ملزم کو عمرقید‘ ایک لاکھ روپے جرمانہ اور ۳۰ کوڑوں کی سزا صرف خواتین کی عینی گواہیوں کی بنیاد پر سنائی گئی۔
  • ایک اور مقدمے ’محمد اقبال عرف بالا بنام سرکار‘ میں زنا بالجبر کی شکار ۱۳ سالہ بچی اور اس کی ۱۰ سالہ سہیلی کی گواہی پر ملزم کو عمرقید کی سزا سنائی گئی۔
  • اسی طرح ایک اور مقدمے ’محمد نعیم بنام سرکار‘ میں چھٹی جماعت کی طالبہ کی گواہی پر تین ملزموں کو ۲۵‘۲۵ سال قیدبامشقت اور ۳۰‘۳۰ کوڑوں کی سزا سنائی گئی تھی۔
  • اسی طرح ’عبیدالرحمن بنام سرکار‘ میں ایک شخص نے اپنی ۱۳ سالہ بھانجی کے ساتھ زنا بالجبر کا ارتکاب کیا اور اس کی اکیلی گواہی پر ملزم کو ۲۵ سال قیدبامشقت اور محمود اسٹیڈیم رحیم یارخاں میں سرعام ۳۰ کوڑے مارنے کی سزا دی گئی۔

وفاقی شرعی عدالت نے اسی موضوع کو زیربحث لاتے ہوئے ایک مقدمہ ’رشیدہ پٹیل بنام وفاق پاکستان‘ میں درج ذیل خیالات کا اظہار کیا ہے:

ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اسلام اپنے منفرد معاشرتی نظام میں خواتین کو بار شہادت سے حتی الوسع بری الذمہ رکھنا چاہتا ہے… تاہم خصوصی حالات میں اگر کوئی واقعہ (بشمول حدود و قصاص) صرف ان کی موجودگی ہی میں درپیش ہو اور کوئی مرد موجود نہ ہو‘ یا ان کی تعداد ان کے بغیر مطلوبہ نصاب شہادت کے مطابق نہ ہو‘ یا وہ واقعہ اندرون خانہ ہی وقوع پذیر ہوا ہو‘ تو ایسی صورتوں میں ان کو شہادت سے روکنا‘ ان کی گواہی کو ناجائز سمجھتے رہنے پر اصرار کرنا اور ایسے مقدمات میں سرے سے ان کو ساقط الاعتبار ٹھیرانا قرآن مجید کے عمومی احکام سے مطابقت رکھتا ہے اور نہ اس کے مثالی نظام عدل سے‘ اور نہ اسوۂ حسنہ اور عہد خلافت راشدہ سے اس کی تائید کی جاسکتی ہے۔ خاص طور پر ان اداروں میں جہاں صرف خواتین کام کرتی ہیں یا رہایش پذیر ہوتی ہیں (مثلاً گرلز ہوسٹل‘ نرسنگ ہوم‘ویمن سنٹر وغیرہ)‘ یا ان اوقات میں جب ان کے مرد گھروں میں موجود نہ ہوں‘ اگر اس قسم کے جرائم کا ارتکاب ہو تو ایسی صورت میں اثباتِ جرم کا کیا طریقہ ہوگا؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ ایسے مقامات جہاںصرف خواتین ہی گواہ ہوں یا صرف غیرمسلم موجود ہوں‘ اس جرم کے ارتکاب کی شہادت دینے کون آئے؟ بہرحال ہمارے نزدیک مخصوص حالات میں خواتین کی گواہی حدود و قصاص سمیت سب معاملات میں لی جاسکتی ہے‘ البتہ ایسی شہادتوں پر حد کی سزا نہیں دی جائے گی اور صرف تعزیری سزا کے لیے انھیں قبول کیا جائے گا۔

ہمیں اس سے انکار نہیں کہ دوسرے تمام قوانین کی طرح حدود قوانین کو بھی پولیس اور مفادپرست طبقات نے‘ حتیٰ کہ کچھ حالات میں ظالم رشتہ داروں یا سابق شوہروں نے غلط استعمال کیا ہے‘ اور اس کی سب سے شرم ناک مثال حدود آرڈی ننس کی دفعہ ۱۶ کا غلط استعمال ہے جس میں عورت ملزم ہو ہی نہیں سکتی لیکن اس کے باوجود سیکڑوں خواتین کو اس دفعہ کے تحت گرفتار کیاگیا ہے‘ لیکن ان تمام زیادتیوں کا ازالہ حدود قوانین کو تبدیل کرنے سے نہیں‘ نظام کی اصلاح سے ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے بار بار اس طرف متوجہ کیا ہے مگر حکومت اور پارلیمنٹ کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ ہم وفاقی شرعی عدالت کے ایک فیصلے کا ایک حصہ نقل کرتے ہیں جس سے اندازہ ہوگا کہ خرابی کہاں ہے۔ غلام نبی کاٹھیو بنام سرکار ایک عبرت ناک منظر پیش کرتا ہے۔

ایک مقدمے میں ایک شخص نے حسن جونیجو ولد محرم جونیجو کے خلاف مقدمہ درج کروایا کہ اس نے اس کی بیٹی مسماۃ بے نظیر کے ساتھ زنا بالجبر کا ارتکاب کیا ہے۔ لیکن متعلقہ پولیس افسر نے مقامی زمیندار کے کہنے پر اصل ملزم کو گرفتارکرنے کے بجاے مقامی زمیندار کے ایک مخالف غلام نبی کاٹھیو ولد مہرو کاٹھیو کو نہ صرف گرفتار کیا بلکہ پورا مقدمہ اسی کے خلاف قائم کیا جس کے نتیجے میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے اسے ۱۰سال قید بامشقت اور ۲۵ ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ عدالت عالیہ نے اس مقدمے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:

ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ پولیس کا رویہ حیران کن اور متعلقہ جج کا رویہ اس سے بھی زیادہ حیران کن ہے۔ ایک سینئر جج جو سیشن جج کے مرتبے پر فائز ہے اور پورے حیدرآباد ڈویژن کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کا جج ہے ‘اس سے اس کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی جو اس نے کیا۔ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فاضل جج  جناب عبدالغفور حسین نے چالان کے مندرجات کو پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کی‘ ورنہ اس پر صورت حال واضح ہوجاتی۔ ملزم چونکہ غریب آدمی تھا اور وکیل کرنے کی استطاعت نہ رکھتا تھا‘ لہٰذا اس کے مقدمے کی سماعت بغیر وکیل کے ہوئی۔ وہ چونکہ غیرتعلیم یافتہ اور اَن پڑھ آدمی تھا‘ لہٰذا اپنا دفاع کرنے کے قابل نہ تھا۔ لہٰذا یہ عدالت کی ذمہ داری تھی کہ ایک ایسے شخص کو انصاف فراہم کرتی جو پولیس اور مقامی زمیندار کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہوا تھا۔

پولیس افسر سے جب اس بات کی وضاحت طلب کی گئی کہ اس نے حسن کے بجاے غلام نبی کو کیوں گرفتار کیا۔ اس نے کہا کہ حسن اصل میں غلام نبی کا بھائی تھا اور مدعی مقدمہ نے غلطی سے غلام نبی کے بجاے اس کے بھائی حسن کا نام لکھوا دیا۔ لیکن وہ یہ محسوس نہ کرسکا کہ جس فرد کا نام ایف آئی آر میں ہے وہ غلام نبی کا بھائی نہیں ہوسکتا کیونکہ حسن محرم کا بیٹا ہے اور اس کی ذات جونیجو ہے‘ جب کہ غلام نبی مہرو کا بیٹا ہے اور اس کی ذات کاٹھیو ہے۔ مختلف ذات اور مختلف ولدیت کے افراد آپس میں بھائی کیسے ہوسکتے ہیں۔ فیصلہ مکمل کرنے سے پہلے ہم کچھ سوالات اٹھانا چاہیں گے:

۱- آخر کب تک پولیس اور زمینداروں کے ہاتھوں اس ملک میں غریب اور معصوم ظلم کا شکار ہوتے رہیں گے؟

۲- آخر کب تک اصل مجرموں کو چھوڑا جاتا رہے گا اور بے گناہ لوگوں کو مقدمات کا سامنا کرناپڑے گا؟

۳- آخر کب تک یہ ناانصافیاں جاری رہیں گی اور قانونی طریق کار کو غلط طور پر استعمال کیا جاتا رہے گا؟

۴- آخر کب تک معصوم شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کی واضح پامالی ہوتی رہے گی؟

۵- آخر کب تک اس ملک کے معصوم‘ اَن پڑھ اور غریب شہری جوکہ اسی طرح انسان ہیں جس طرح دولت مند نام نہاد طاقت ور اور بڑے شہری ہیں‘ ان افراد اور حکام کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہوتے رہیں گے جن کی ذمہ داری ہے کہ ان کی زندگی آزادی‘ عزت‘ جایداد اور عقائد کی حفاظت کریں۔

عدلیہ‘ انتظامیہ‘ پولیس اور تمام متعلقہ لوگوں پر ان سوالوں کا جواب قرض ہے۔

نسواں بل میں قرآن و سنت کے خلاف ترامیم

ہمارے اس جائزے سے یہ حقیقت ثابت ہوجاتی ہے کہ اصل حدود قوانین پر تنقید  سرتاسر غلط اور بے محل ہے بلکہ یہ کذب‘ غلط بیانی اور بددیانتی پر مبنی ہے۔ البتہ جہاں اصلاح کی ضرورت ہے وہ حدود قوانین اور تمام قوانین کے نفاذ کے نظام: پولیس‘ انتظامی اور عدالتی مشینری‘ عوام اور سرکاری کارپردازوں کی تعلیم و تربیت اور ان کے نظامِ احتساب (accountablity) میں ہے۔ تحفظ نسواں کے نام پر ان اصل خرابیوں کی طرف توجہ دیے بغیر حدود قوانین میں ایسی تبدیلیاں کرنے کی شرم ناک جسارت کی جارہی ہے جو شریعت کے مسلمہ احکام کے خلاف ہیں اور قرآن و سنت کے نصوص اور ان کی اسپرٹ سے متصادم ہیں۔ ہم برادر عزیز و محترم مولانا محمد تقی عثمانی کا مقالہ اس شمارے میں شائع کر رہے ہیں جو اس کے مختلف پہلوؤں کو مسکت دلائل کے ساتھ واضح کردیتا ہے۔ ہم صرف اختصار کے ساتھ اتمامِ حجت کے لیے اس قانون کے ذریعے قرآن و سنت کے خلاف کی جانے والی ترامیم کا ذکر کر دیتے ہیں:

                ۱-            قرآن و سنت اور اجماع کی رُو سے زنا بالرضا کی طرح زنا بالجبر بھی حد ہے لیکن اس قانون کے ذریعے حدود قوانین کی دفعہ ۶ اور ۷ کو منسوخ کرکے زنا بالجبر کی حد کو ختم کیا جارہا ہے۔ حدود قوانین کی دفعہ ۴ اور ۵ جنھیں باقی رکھا گیا ہے‘ ان کا تعلق صرف زنابالرضا سے ہے اور زنا بالجبر ان کے دائرے سے باہر ہے۔ اور نئی دفعہ جو زنا بالجبر (rape) کے بارے میں ضابطہ فوجداری میں شامل کی جارہی ہے‘ اس میں حد کی   سزا نہیں ہے بلکہ دریدہ دہنی کی انتہا ہے کہ اس قانون کے مقاصد کی تشریح کرتے ہوئے دعویٰ کیا گیا ہے: ’’زنابالجبر کے جرم کے لیے حد نہیں ہے‘ اس کے لیے تعزیر ہے‘‘۔    یہ قرآن و سنت کے خلاف اتہام اور ایک جرمِ عظیم ہے اور اللہ سے بغاوت کے مترادف ہے۔

                ۲-            زنا بالرضا کو ضابطوں کی تبدیلی کے ذریعے ریاست اور معاشرے کے خلاف جرم (crime against state and society) کی جگہ جو اسلام کے تصورِ قانون کا حصہ ہے‘ صرف فرد کے خلاف جرم کی سطح پر لے آیا گیا ہے جو اسلام کے فلسفۂ قانون کی نفی ہے۔

                ۳-            حدود قوانین کی دفعہ ۳ کو منسوخ کر کے شرعی قوانین اور احکام کی دوسرے قوانین پر بالادستی کو ختم کردیا گیا ہے جو اسلام کے پورے نظامِ قانون پر ایک ضرب اور اس کی بے وقعتی کے مترادف ہے۔

                ۴-            اسلامی قانون میں حدوداور تعزیرات ایک جامع نظام کا حصہ ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ حدود قوانین میں متعلقہ تعزیری احکام بھی شامل کیے گئے تھے۔ ان تمام احکام کو حدود قوانین سے نکالنا اسلام کے نظامِ قانون پر ضرب اور اسلام سے انحراف ہے اور قانون کے  دوغلے نظام (dual system)کو جو ویسے بھی غلط ہے‘ ان جرائم پر بھی مسلط کرنا ہے جو حدود کے دائرے میں آتے ہیں۔ اس کے دو بڑے اہم نتائج ہوں گے: ایک یہ کہ یہ تمام جرائم وفاقی شرعی عدالت کے دائرے سے باہر ہوجائیں گے اور ہر کارروائی عام عدالتوں میں ہوگی اور دوسرے یہ کہ عام سیکولر قوانین‘ خصوصیت سے عائلی قوانین‘ جن کا گہرا تعلق ان حالات سے ہے‘ ان کو اپنے اپنے دائرے میں بالادستی حاصل ہوجائے گی اور شرعی قوانین کی ان پر بالادستی ختم ہوجائے گی۔ دستور کی دفعہ ۲۲۷ اس سلسلے میں بے کار ہے اس لیے کہ اس کے نتیجے میں کسی سیکولر قانون پر شرعی قانون کی بالادستی نافذ نہیں کی جاسکتی۔

                ۵-            حد کے معاملے میں کسی حکومت حتیٰ کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تخفیف یا معافی کا اختیار نہیں۔ اس نئے قانون کے نتیجے میں صوبائی اور مرکزی حکومت کو سزا میں تخفیف یا معافی کا اختیار مل جاتاہے جو قرآن و سنت کے احکام کے خلاف ہے۔

                ۶-            قذف کے قانون میں جو تبدیلیاں کی گئی ہیں‘ وہ بھی قرآن و سنت کے احکام کے خلاف ہیں۔

                ۷-            لعان کے بارے میں بھی شریعت کے احکام کو نظرانداز کردیا گیا ہے اور اسے صرف طلاق کا ایک سبب بنا دیا ہے‘ جب کہ شریعت کے مطابق قسم نہ کھانے کی صورت میں سزا اور اعتراف کی صورت میں حد کا اطلاق ہوتا ہے۔

یہ سات چیزیں مجوزہ قانون میں صراحتاً قرآن و سنت کے خلاف ہیں اور اگر ان کو پارلیمنٹ ملکی قانون کا درجہ دیتی ہے تو یہ قرآن وسنت سے بغاوت کے مترادف ہے۔

کہا جارہا ہے کہ کیا یہ اتنا اہم مسئلہ ہے کہ اس پر ملک گیر احتجاج کیاجائے اور اسمبلی سے مستعفی ہوجایا جائے۔ اللہ کی ایک حد کو قائم کرنا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ۴۰سالوں کی بارشوں سے بہتر ہے اور ایک حد کو جانتے بوجھتے پامال کرنا تمام حدود سے بغاوت کے مترادف ہے۔ قرآن پاک کی ایک آیت یا ایک حکم کا انکار پورے قرآن کے انکار کے مترادف ہے اور انسان کو اگر وہ جانتے بوجھتے اس جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو کفر اور ارتداد کی طرف لے جاتا ہے۔ اور اس بارے میں مداہنت پورے دین سے مداہنت قرار پائے گی۔ نیز یہ جرم اور بھی سنگین ہوجاتا ہے کہ اگر کسی ملک میں شرعی حدود کتابِ قانون کا حصہ نہیں ہیں تو یہ ایک کوتاہی اور نافرمانی ہے لیکن ایک مرتبہ کتابِ قانون کا حصہ بنانے کے بعد اسے خارج کرنا صریح انکار‘ بغاوت اوراحکام الٰہی پر ضرب لگانے کے مترادف ہے۔

ایک معمولی مثال سے اسے یوں سمجھیے کہ روزہ نہ رکھنا ایک گناہ اور کوتاہی ہے‘ مگر روزہ رکھ کر توڑ دینا ایک جرم ہے‘ اور اس کا کفارہ ہے (اور کفارہ بھی بہت سخت کہ مسلسل ۶۰ دن تک روزے رکھے جائیں) اور روزہ کو حکم الٰہی ماننے سے انکار کفر کا درجہ رکھتا ہے اور انسان کو ارتداد کی سرحدوں پر لے جاتا ہے۔ جنرل مشرف اور ان کے حواری اس قانون کے ذریعے جو کام کر رہے ہیں وہ   اللہ کے غضب کو دعوت دینے والا عمل ہے اور اُمت مسلمہ کے لیے کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔   اور اگر اس پر بھرپور احتجاج نہ کیا جائے‘ اس اقدام کو روکنے کے لیے مؤثر جدوجہد نہ کی جائے اور اگر یہ مسلط کردیا گیا ہے تو اسے بدلنے کے لیے ہرممکن اقدام نہ کیا جائے تو یہ اللہ اور اس کے  رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بے وفائی ہوگی جو اپنی دنیا اور آخرت خراب کرنے کا راستہ ہے    ؎

یہ گھڑی محشر کی ہے‘ تو عرصۂ محشر میں ہے

پیش کر غافل عمل‘ کوئی اگر دفتر میں ہے

 

(کتابچہ دستیاب ہے۔ قیمت: ۶ روپے‘ سیکڑے پر رعایت۔ منشورات‘ منصورہ‘ ملتان روڈ‘ لاہور)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

آزادی اور محکومی میں بنیادی فرق کسی خاص ہیئت اور نظام سے بھی کہیں زیادہ فیصلہ سازی کے اختیار اور اسلوب کا ہے۔ معاملہ فرد کا ہو یا قوم کا___ اگر بنیادی فیصلے اور پالیسیاں خوف‘ دبائو‘ بیرونی مداخلت یا بلیک میلنگ کے زیراثر مرتب کی جارہی ہوں تو ظاہری ملمع سازی جو بھی کی جائے‘ حقیقت میں یہ سب محکومی کی شکلیں ہیں اور فرد یا قوم کی آزادی پر خط تنسیخ پھیرنے کے مترادف ہیں۔ علامہ اقبال نے اسی حقیقت کو یوں بیان کیا تھا کہ    ؎

پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات

تو جھکا جب غیر کے آگے‘ نہ من تیرا نہ تن

جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے حادثے کے بعد جو قلابازیاں کھائی گئی ہیں‘ ان کے نتیجے میں ہماری خارجہ‘ عسکری اور داخلہ پالیسیاں امریکا کے اشارۂ چشم و ابرو کے مطابق تشکیل پا رہی ہیں اور یہ سلسلہ عالمی حالات میں جوہری تبدیلیوں کے باوجود ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر آج بھی جاری ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ آزادی جو ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو قائداعظم کی قیادت میں لڑی جانے والی سیاسی اور جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان کی آزاد اسلامی ریاست کے قیام کی صورت میں ملت اسلامیہ پاک و ہند نے حاصل کی تھی‘ وہ نئی محکومی کے سیاہ سایوں کی زد میں ہے۔ پاکستان ایک ایسی دلدل میں دھنس گیا ہے جس سے نکلنے کی کوئی راہ موجودہ قیادت کے ہوتے ہوئے‘ نظر نہیں آرہی۔

خود کو دھوکا دینے کے لیے جو بھی خوش بیانیاں کی جائیں‘ حقیقت یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کی گردن اب امریکا اور مغربی اقوام کی گرفت میں اس طرح پھنسی ہوئی ہے کہ ہاتھ پائوں مارنے کے باوجود وہ فیصلہ کرنے کی آزادی سے محروم ہوچکے ہیں___ اور اس وقت ملک کو جو  سب سے بڑا خطرہ درپیش ہے‘ اس کی زد ہماری آزادی‘ قومی عزت و وقار اور اپنے حقیقی ملّی مفادات کے تحفظ کے اختیار اور صلاحیت پر ہے۔ قوم اب اس فیصلہ کن دوراہے پر کھڑی ہے جہاں ایک طرف آزادی کی بازیافت کا ہدف ہے تو دوسری طرف خوف اور بیرونی دبائو کے تحت امریکا کے نئے سامراجی جال میں امان (survival) کے نام پر دائمی محکومی کی ذلت کی زندگی۔ قوم کے سامنے ایک تاریخی لمحہ انتخاب ہے جسے انگریزی محاورے میں moment of truthکہتے ہیں۔ موجودہ قیادت تحریکِ پاکستان کے مقاصد اور اہداف سے بے وفائی کی راہ اختیار کرچکی ہے خواہ   یہ کسی نام نہاد مجبوری کی بناپر ہو یا مفادات اور مخصوص اغراض کے حصول کے لیے___ بات جو بھی ہو‘ قوم کے لیے اب اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں کہ اصل خطرات کا احساس کرے اور اپنی آزادی‘ ایمان اور عزت کے تحفظ کے لیے ایک فیصلہ کن جدوجہد کرے۔ حقائق پر اب کسی طرح ملمع سازی کارگر نہیں ہوسکتی۔

۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو حالات جیسے بھی تھے اور فوجی ڈرامے کے پیچھے جو عوامل اور جو کردار کارفرما تھے اس کی تفصیل سے قطع نظر (گو ایک دن اصلیت سے پردہ اُٹھے گا) ملک و قوم کی آزادی اور عزت و وقار کو سب سے بڑا دھچکا ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے سانحہ نیویارک و واشنگٹن کے بعد جنرل پرویز مشرف اور ان کے حواریوں کے امریکا کے آگے سرتسلیم خم کرنے اور پاکستان کو ان کی چراگاہ      بنا دینے کے اقدام سے لگا۔ اس واقعے کو اب پانچ سال گزر چکے ہیں اور اس زمانے میں وہ ایجنڈا‘ پروگرام اور اہداف کھل کر سامنے آگئے ہیں جن پر یہ قیادت عمل پیرا ہے۔ اس دور کے سب سے  اہم پہلو تین ہیں:

اوّلاً، قوم کی قسمت کا فیصلہ ایک فردِواحد کے ہاتھوں میں ہے جو کسی ادارے‘ کسی نظام اور کسی دستوری قانون کا پابند نہیں۔ محض فوج کے ادارے کی سربراہی کے بل بوتے پر اور فوجی ڈسپلن کا فائدہ اُٹھا کر بنیادی فیصلے اپنی ذاتی مرضی‘ خواہشات اور مجبوریوں کے تحت کر رہا ہے‘ اور عملاً   قیامِ پاکستان کے مقاصد اور ملت پاکستان کی تاریخی‘ نظریاتی‘ سیاسی اور تہذیبی عزائم کے برعکس اپنی خواہشات اور ترجیحات اور امریکا کے حکمرانوں کے احکام اور خواہشات کے مطابق کر رہا ہے۔ جب پارلیمنٹ نہیں تھی اس وقت بھی اور اب بھی جب بظاہر ایک پارلیمنٹ اور کابینہ ہے‘ فیصلہ سازی کا اختیار ایک فرد کو حاصل ہے۔ وہ کوئی لاگ لپیٹ رکھے بغیر برملا اعلان بھی کر رہا ہے کہ میں ہی اصل حکمران (man in command) ہوں اور باقی سب میری مرضی کے تابع ہیں۔ یہ وہ بنیادی مسئلہ ہے جس نے ملک و قوم کی آزادی کو معرضِ خطر میں ڈال دیا ہے۔

دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ گو جنرل پرویز مشرف کی طاقت کا اصل منبع فوج اور اس کا ڈسپلن ہے‘ اور یہ ایک المناک حقیقت ہے کہ اس عرصے میں انھوں نے خود فوج کے اعلیٰ کمانڈ اسٹرکچر کو بھی اپنی ذاتی جاگیر (feifdom) کی شکل میں ڈھال لیا ہے جس کا اعتراف خود فوج کے وہ سابق جرنیل بھی کر رہے ہیں جو جنرل صاحب کے حامی رہے ہیں جس کی سب سے اہم مثال جنرل طلعت مسعود کا وہ بیان ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ فوج کی بالائی سطح پر جنرل صاحب نے اپنے یار دوستوں کو بھر لیا ہے اور وہ خود ایک father figure(باپ)کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔ لیکن اس سے بھی زیادہ خطرے کی بات یہ ہے کہ خود جنرل پرویز مشرف ناین الیون سے لے کر  آج تک جو بھی فیصلے کر رہے ہیں وہ حقائق‘ معروضی دلائل اور پاکستان اور اُمت مسلمہ کے مفادات سے ہٹ کر خوف اور امریکی دبائو کے تحت کر رہے ہیں۔

یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ناین الیون کے بعد جو یوٹرن پاکستان کی پالیسیوں میں آیا اور جس نے وہ خشتِ اوّل ٹیڑھی رکھی جس کے نتیجے میں ’تا ثریا می رود دیوار کج‘ کی کیفیت پیدا ہوتی ہے‘ وہ امریکی دھمکی کہ ’تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے مخالف ہو‘ اور ہمارے ساتھ کے معنی ہمارے حکم کے تابع ہو ورنہ باغی اور دہشت گرد شمار کیے جائو گے اور ’پتھرکے دور کی طرف لوٹائے جائو گے‘ کا نتیجہ تھی۔ کسی خیالی وار گیمز (war games)کا جو بھی فسانہ جنرل صاحب نے اپنی خودنوشت میں کیوں نہ تراشا ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ فیصلہ پاکستانی قوم کا آزاد فیصلہ نہ تھا بلکہ  ایک خوف زدہ حکمران کا واحد سوپرپاور کی دھمکی کے تحت ایک محکومانہ تعمیل ارشاد کا منظر تھا جس نے جارج بش‘ کولن پاول ہی نہیں‘ پاکستان میں امریکی سفیر نینسی پاول تک کو ششدر کر ڈالا تھا‘ اور جو کچھ نہ کچھ مزاحمت کی توقع رکھتے تھے کہ شاید سات میں سے تین چار شرائط کو پاکستان تسلیم کرے مگر باقی پر ردوکد کرے گا۔ وہ حیرت میں پڑ گئے کہ ایک ہی سانس میں ساتوں شرائط تسلیم کر کے   جنرل صاحب نے طوقِ غلامی خوشی خوشی زیب تن کرلیا اور قوم کو خوش خبری سنائی کہ ’پاکستان بچ گیا‘ لیکن اس ’بچنے‘ کی کیا شکل بنی اس کا مختصر نقشہ ہم ابھی پیش کریں گے۔ اس وقت جس بنیادی بات تک گفتگو کو محدود رکھ رہے ہیں وہ آزادانہ فیصلے کا فقدان‘ اور خوف‘ دبائو اور بیرونی مداخلت کے خطرے کے تحت پالیسی کی بنیادی تبدیلی ہے۔

تیسری بنیادی چیز یہ ہے کہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ دراصل امریکا کی نئی سامراجی حکمت عملی کا عنوان ہے اور اس کا مقصد نام نہاد دہشت گردی کا تعاقب نہیں‘ نئی سامراجی ملک گیری‘ عالمی سیکورٹی زونز کا قیام‘ شرق اوسط اور وسطی ایشیا کے معاشی وسائل پر تسلط اور گرفت‘ دنیا بھر کی مزاحم قوتوں اور ممالک کو اپنے قابو میں کرنا‘ خواہ تبدیلی قیادت کے ذریعے‘ یا جمہوریت کے فروغ کے نام پر سیاسی تبدیلیوںکے سہارے اور خواہ پیشگی حملے (pre-emptive strike) پر عمل پیرا ہوتے ہوئے فوج کشی کے ذریعے۔ بہانہ جو بھی ہو یہ جوع الارض‘ سیاسی غلبہ و تسلط کے قیام‘ معاشی وسائل پر گرفت اور اپنی تہذیب کو دوسروں پر مسلط کرنے کی عالم گیر جدوجہد ہے اور عملاًجنرل پرویز مشرف ناین الیون کے بعد امریکا کے اس پورے سامراجی عالمی پروگرام میں آلہ کار بن گئے ہیں‘ اور ان کی تازہ خودنوشت In The Line of Fire اس کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ وہ امریکا کے اس پورے ایجنڈے میں اس کے شریک اور پاکستان اور مسلم دنیا میں اس امریکی نقشے میں رنگ بھرنے والے ایک کلیدی کردار ہیں۔ اس کتاب کے ذریعے انھوں نے امریکا کو یقین دلایاہے کہ میں ہی تمھارے اس پروگرام کو آگے بڑھا سکتا ہوں۔ لیکن اس کے معنی صاف لفظوں میں یہ ہیں کہ اقبال اور قائداعظم کے تصورِ پاکستان کو بھول جائو اور اُمت مسلمہ پاک و ہند نے جن مقاصد اور عزائم کے لیے جدوجہد کی تھی‘ وہ اب قصۂ پارینہ ہے‘ اب اصل منزل بش کے تصور کا محکوم اور تابع دار پاکستان ہے جسے جنرل صاحب اب ’روشن خیال میانہ روی‘ کا لبادہ پہنے قوم کے لیے قابلِ قبول بنانے کا کھیل کھیل رہے ہیں۔

ذلت و پسپائی کا آغاز

فیصلے کی آزادی کی قربانی اور خودی اور بیرونی دبائو کے تحت پالیسی سازی کا آغاز     ناین الیون کے بعد ہوا اور یہ عمل آج تک جاری ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر ہم یہ فیصلہ نہ کرتے تو ملک تباہ ہوجاتا اور اس کے تمام اسٹرے ٹیجک مفادات قربان ہوجاتے۔ یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ ہم نے امریکا سے جنگ کے خطرے کو سامنے رکھ کر war gamesکا پورا نقشہ بنایا اور اس کے بعد امریکا کی فوجی قوت اور عزائم اور اپنے وسائل کا جائزہ لے کر امریکی شرائط تسلیم کیں۔ یقین نہیں آتا کہ ایک جرنیل کو امریکا کی فوجی قوت اور تباہ کاریوں کا اندازہ کرنے کے لیے کسی خیالی وار گیمز کی ضرورت تھی۔ عام سوجھ بوجھ کا ہرشخص اس حقیقت سے واقف ہے کہ دونوں میں کیا فرق ہے۔ مسئلہ وارگیمز کے ذریعے اپنی بے بضاعتی کی دریافت کا نہیں بلکہ اسٹرے ٹیجک حقائق کا جائزہ اور حق اور ناحق اور اپنی آزادی‘ عزت اور ایمان کے مطابق کسی موقف کے تعین اور ایک خونخوار سامراجی قوت کے عالمی عزائم‘ خصوصیت سے اپنے ہمسایہ مسلمان ممالک کے بارے میں اس کے ناجائز اور استعماری مقاصد میں آلہ کار بن جانے یا انھیں لگام دینے کی پالیسی یا کم از کم اس میں خود ذریعہ نہ بننے کا تھا۔

وسائل اور قوت کا فرق تو واضح تھا اور اس کے لیے کسی وار گیمز کی ضرورت نہ تھی۔ جنگی اور سیاسی حکمت عملی کا تعلق اس فرق کی روشنی میں جائز اور مبنی بر حق موقف کے تعین کا تھا اور یہ کام خوف کے تحت نہیں ہوش و حواس کے ساتھ مقاصد اور وسائل کی روشنی میں کرنے کا تھا۔ بلاشبہہ امریکا ایک زخمی شیر کی مانند تھا مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ بظاہر اپنی کھال بچانے کے لیے ہم اپنی آزادی‘ اپنی عزت‘ اپنے ایمان کی قربانی دے دیں۔ آخر ایران‘ ترکی حتیٰ کہ لبنان تک نے اپنے قومی مقاصد اور وقار و عزت کے مطابق ردعمل کا اظہار کیا۔ آخر ساری دشمنی کے باوجود امریکا نے ایران کو دھمکی دینے کا راستہ کیوں اختیار نہ کیا حالانکہ افغانستان تک رسائی کے لیے ایران‘ پاکستان اور وسطی ایشیا کے ممالک تینوں راستے تھے۔ امریکا پاکستان کے عدمِ تعاون کی شکل میں اس کی مرضی کے برعکس اس کی فضائی حدود (air space) کی خلاف ورزی کرسکتا تھا جیساکہ ۱۹۹۸ء میں افغانستان میں کچھ ٹھکانوں پر حملے کے لیے کرچکا تھا۔ ترکی نے اپنی پارلیمنٹ میں معاملہ رکھا اور پارلیمنٹ کے فیصلے پر قائم ہوگیا۔ امریکا جزبز ہونے کے سوا کچھ نہ کرسکا۔ امریکا نے لبنان سے مطالبہ کیا کہ  حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دو اور لبنان کی حکومت نے صاف انکار کردیا۔

پاکستان کے سامنے کم از کم چار راستے (options)تھے:

اوّل: یہ کہ سربراہ حکومت پوری قوم کو اعتماد میں لیتے‘ فوج کو مکمل طور پر تیاری کا حکم دیتے‘ اور جس طرح ۱۹۶۵ء میں لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے کلمے کی بنیاد پر بھارت کا مقابلہ کرنے کے لیے قوم کو تیار کیا تھا اسی طرح امکانی حملے کے لیے پوری قوم کو متحد کرکے مستعدومتحرک (mobilize) کیا جاتا۔ ہمیں یقین ہے کہ امریکا کے لیے یہ ایک مؤثر رکاوٹ ہوتا اور اگر افغانستان پر وہ فوج کشی کرتا بھی تو پاکستان پر فوج کشی کی جرأت نہ کرتا۔

دوم: اگر اس انقلابی فیصلے کی جرأت اور وژن نہیں تھا تو کم از کم یہ تو کیا جا سکتا تھا کہ ہم آنکھیں بند کرکے تمام شرائط ماننے کے لیے تیار نہیں البتہ بات چیت کے ذریعے کوئی قابلِ قبول صورت پیدا کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے عالمی راے عامہ کو بھی mobilizeکیا جاسکتا تھا۔ اسے No, Butکی حکمت عملی کہی جاسکتی ہے۔

سوم: اس سے بھی کم تر ایک تیسری صورت ہوسکتی تھی‘ یعنی Yes, Butکہ ہم تعاون کے لیے تیار ہیں لیکن کچھ شرائط کے ساتھ۔

چہارم: جنرل صاحب کے وارگیمز کا حاصل یہ تھا:Yes, Yes, Yes۔ انھوں نے چوتھا راستہ اختیار کیایہ کہ ہم یہ کام پاکستان کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے کر رہے ہیں مگر نتیجہ برعکس نکلا۔ پاکستان کے ایک ایک مفاد پر شدید ضرب پڑی‘ یعنی ہماری آزادی‘ ہماری کشمیر پالیسی‘ استعماری جنگ کے خلاف تحریکِ مزاحمت اور دہشت گردی کا فرق‘ پاکستان کی نیوکلیر صلاحیت کی حفاظت اور ترقی اور نیوکلیر میدان میں بھارت سے برابری کا مقام۔ اور جو معاشی نقصانات ملک کو برداشت کرنے پڑے‘ ان کا اندازہ خود امریکی نارتھ کمانڈ کے اعلان کے مطابق جو خود ان کی   ویب پر آیا تھا‘ صرف پہلے دو سال میں یہ نقصان ۱۲ ارب ڈالر تھا۔ جو نام نہاد معاشی امداد امریکا نے دی ہے‘ وہ اس کا ایک چوتھائی بھی نہیں۔

خوف اور بے اعتمادی کے تحت جو بھی فیصلے ہوتے ہیں‘ ان کا یہی حشر ہوتا ہے۔ آج افغانستان اور عراق دونوں جگہ امریکا کی ننگی جارحیت کی ناکامی اور دہشت گردی کی عالمی رو میں چنددرچند اضافے کے باوجود ہماری تابع داری کی پالیسی کا وہی حال ہے جس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ جو دھمکی ناین الیون کے وقت امریکی نائب وزیرخارجہ جارج آرمیٹج نے دی تھی‘ اسی نوعیت کی دھمکیاں مختلف انداز میں آج تک دی جارہی ہیں۔ کوئی دن نہیں جاتا کہ پاکستان کے کان نہیں مروڑے جاتے کہ طالبان کی درپردہ مدد کر رہے ہو۔ صدربش سے لے کر ڈک چینی‘ رمزفیلڈ‘ کونڈولیزارائس‘ جنرل ابی زائد اور نکولس برنر تک ہرموقعے پر مطالبہ کرتے ہیں: do more۔ جو کہتے ہو‘ وہ کرکے دکھائو۔ جنرل صاحب کے سارے اعلانات کہ ہم نے سب سے زیادہ القاعدہ کے ارکان پکڑے ہیں‘ ان کی صفائی کے لیے کافی نہیں سمجھے جاتے‘ حتیٰ کہ اب افغانستان کے  صدر حامد کرزئی صاحب بھی منہ در منہ جنرل صاحب پر دہشت گردی کی پناہ اور سرپرستی کا الزام لگارہے ہیں۔ اور صدربش کو وائٹ ہائوس کے ڈنر کے سلسلے میں کھلے بندوں کہنا پڑا کہ میں دونوں کی  زبانِ حال (body language)  پر نگاہ رکھوں گا۔ اس سے پہلے صدربش اسلام آباد آئے تھے تو اس موقع پر یہ طمانچا رسید کیا تھا کہ میں یہاں اس لیے آیا ہوں کہ دیکھوں جنرل مشرف جو کہتے ہیں وہ کر رہے ہیں یا نہیں؟ دوسری طرف جس دن جنرل صاحب اپنے حالیہ دورۂ امریکا سے واپسی پر لندن نازل ہوتے ہیں‘ اسی دن برطانوی فوج کی ایک نیم سرکاری رپورٹ میں آئی ایس آئی کے خلاف چارج شیٹ پیش کی جاتی ہے اور آئی ایس آئی کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔

اس شرم ناک یلغار کا تازہ ترین مظہر وہ رپورٹ ہے جو لندن کے اخبارات ڈیلی ٹیلی گراف اور سنڈے ٹائمز نے اکتوبر ۲۰۰۶ء کے شروع میں شائع کی ہے اور جس کا حاصل یہ ہے کہ افغانستان میں ناٹو کے کمانڈر نے ان پانچ ممالک کی حکومتوں سے جن کی فوجیں افغانستان کی ناٹو فوج کا بڑا حصہ ہیں‘ کہا ہے کہ ایک بار پھر پاکستان کو اس نوعیت کا پیغام دینے کی ضرورت ہے کہ ’ہمارے ساتھ ہو یا پھر ہمارے دشمن ہو‘۔

ناٹو کے کمانڈر کا یہ بھی کہنا ہے کہ طالبان کو پاکستان میں تربیت دی جارہی ہے۔ سوال   یہ ہے کہ انھیں کسی تربیت کی ضرورت ہے؟ دراصل یہ ایک احمقانہ سوال ہے کہ وہ افغان مجاہد جو روس کے خلاف برسرپیکار رہے‘ جو خوں ریز خانہ جنگی میں ۲۰ سال سے مصروف ہیں اور جن کے رگ و پے میں عسکریت صدیوں سے جاری و ساری ہے‘ ان کو پاکستان میں کسی تربیت کی ضرورت ہے۔ اصل مسئلہ ان کی تربیت کا نہیں پاکستان کی گوشمالی اور بے عزتی کا ہے۔

پاکستان کا مقام

جنرل پرویز مشرف کی اس پالیسی کا حاصل یہ ہے کہ سب کچھ کرنے کے باوجود وہ معتبر نہیں اور امریکا‘ برطانیہ اور ناٹو کمانڈر ہی نہیں‘ بھارت کی قیادت اور افغانستان کے نمایشی حکمران تک پاکستان کے خلاف شب و روز زبان طعن دراز کر رہے ہیں۔ بھارت آج افغانستان میں  معتبر اور بااثر ہی نہیں‘ وہاں سے پاکستان کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہے‘ اور پاکستان جس نے گذشتہ ۲۶‘ ۲۷ سال افغانستان کے لیے ہر قسم کی قربانیاں دی ہیں‘ تائید و معاونت کی ہے اور آج بھی جس کی سرزمین پر ۳۰ لاکھ افغان مہاجر موجود ہیں وہ سب سے زیادہ ناقابلِ اعتماد بلکہ گردن زدنی شمار ہو رہا ہے اور جن کی خاطر جنرل پرویز مشرف دوستوں کو دشمن بنانے کی خدمت انجام دے رہے ہیں وہ ان کو ذاتی دوستی اور ان کی فوجی وردی کے تحفظ کے باب میں جو بھی کہیں لیکن سربراہ مملکت اور پاکستان کے کردار کے بارے میں بداعتمادی‘ طعنہ زنی اور تحقیر اور تذلیل کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ صدر بش نے اسلام آباد میں جنرل پرویز مشرف کے منہ پر کہا کہ نیوکلیر معاملے میں بھارت اور پاکستان برابر نہیں اور دونوں کی تاریخ اور ضرورتیں الگ الگ ہیں۔ بھارت کے لیے نیوکلیر تعاون کے دروازے کھول دیے ہیں اور پاکستان کے لیے نہ صرف ہردروازہ بند ہے بلکہ اس کی نیوکلیر صلاحیت آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے‘ اور عملاً اتنا دبائو ہے کہ نیوکلیر صلاحیت ٹھٹھر کر رہ گئی ہے اور حرکی سدّجارحیت (dynamic deterrance) کے لیے جس سرگرمی کی ضرورت ہے وہ خود جنرل صاحب کی خودپسندی اور کوتاہ اندیشی کے ہاتھوں معرضِ خطر میں ہے۔

پاکستان امریکا کی نگاہ میں کتنا ناقابلِ اعتماد ہے اس کا اندازہ اس سودے سے کیا جاسکتا ہے جو ایف-۱۶ کے سلسلے میں ہوا ہے۔ پہلے تو امریکا نے سودا کر کے رقم وصول کرنے کے باوجود ایف-۱۶ دینے سے انکار کردیا۔ پھر اب ہزار منت سماجت کے بعد جو معاملہ طے کیا ہے وہ اتنا   شرم ناک اور ہماری آزادی اور وقار کے اتنا منافی ہے کہ اسے قبول کرنے کا تصور بھی گراں گزرتا ہے۔ جس حالت میں یہ جہاز ملیںگے‘ اگر ملے بھی تو‘ وہ مقابلے کی حقیقی دفاعی صلاحیت پیدا کرسکیں گے اور نہ پوری طرح ہمارے اپنے قبضہ قدرت میں ہوں گے۔ امریکی کانگریس کمیٹی میں ۲۰ جولائی ۲۰۰۶ء کو نائب وزیرخارجہ جان ہلر نے جو شرائط بیان کی ہیں اور ان کے بعد یہ اطلاع آئی ہے کہ ۳۰ستمبر کو پاکستان نے اس سودے کے بارے قبولیت کی دستاویز پر دستخط کردیے ہیں‘ انھیں پڑھ کر انسان حیرت میں رہ جاتا ہے کہ اس ملک کے فوجی حکمران‘ ملک کے ساتھ کیا کھیل کھیل رہے ہیں۔ ملاحظہ ہوں وہ شرائط۔ اخباری اطلاعات کاخلاصہ یہ ہے:

  •  پاکستان کے تمام اڈوں اور سہولیات کا سیکورٹی سروے کرلیا گیا ہے۔ سیکورٹی کے منصوبے بنا لیے گئے ہیں‘ پاکستان ان سب کی پابندی کرے گا۔
  •  ان سیکورٹی منصوبوں کی تعمیل کو یقینی بنانے کے لیے امریکی موجودگی ضروری ہوگی۔
  •   پاکستان ان جہازوں کو کسی تیسرے ملک کے خلاف امریکا کی اجازت کے بغیر استعمال نہیں کرسکتا۔
  •  ان جہازوں میں وہ ٹکنالوجی نہیں ہے جو کسی ایسے ملک کی فضائی حدود میں داخل ہوسکے جس کا دفاع مضبوط ہو۔ یہ جوہری اسلحے بھی نہیں لے جاسکتے۔
  • ان جہازوں پر رسائی پاکستانی فضائیہ کے صرف ان افسروں کو حاصل ہوگی جن کی پیشگی منظوری امریکا نے دی ہو۔
  • جب تک امریکا کو اطمینان نہ ہو کہ پاکستان سیکورٹی منصوبوں کے تقاضوں کو مکمل طور پر پورا کر رہا ہے‘ کوئی جہاز نہیں دیا جائے گا۔
  • ان جہازوں میں ایسے راڈار لگائے جائیں گے جو صرف غیرناٹو ممالک کے ہوائی جہازوں کو پہچان سکیںگے۔ دوسرے الفاظ میں ناٹو ممالک کے حملہ کرنے والے ہوائی جہازوں کے لیے یہ آسان نشانہ ہوں گے۔

ان شرائط پر بھی جب کمیٹی کے ممبران کی تسلی نہ ہوئی تو نائب وزیرخارجہ نے بتایا کہ اور بھی کچھ امور ہیں جو بند کمرے کے اجلاس میں بتائیں گے۔

یہ ہیں وہ کبوتر جو قوم کے گاڑھے پسینے کی کمائی کے ۵بلین ڈالر امریکا کو دے کر حاصل کیے جارہے ہیں۔ یہ فیصلہ کرنا کچھ بھی مشکل نہیں کہ ان سے ہمارے دفاع‘ خصوصیت سے بھارت کے مقابلے کے لیے دفاعی صلاحیت میں کتنا اضافہ ہوگا اور امریکا کی فوجی سازوسامان کی صنعت کی کتنی سرپرستی ہوگی؟

جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں خود ملک کا دفاع بھی خطرات سے دوچار ہوگیا ہے۔   اس سے صرف انحراف ممکن نہیں۔ ان کی خودنوشت کا تجزیہ اس وقت ہمارا موضوع نہیں لیکن اس میں ان کی شخصیت کی جو تصویر اُبھر کر سامنے آتی ہے وہ ان کے اپنے الفاظ میں ایک ’داداگیر‘ کی ہے۔  صفحہ ۲۶ اور ۲۷ پر جو اپنی تصویر اُنھوں نے پیش کی ہے اور جو ان کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے کلید کی حیثیت رکھتی ہے انھی کے الفاظ میں یہ ہے:

ایک لڑکے کو اپنی بقا کے لیے گلی یا محلے میں نمایاں ہونا پڑتا ہے۔ لازمی طور پر میرے محلے میں بھی ایسے گینگ تھے اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ میں ان میں سے ایک میں شامل ہوگیا۔ اور یہ بھی بتانے کی ضرورت نہیں کہ میں سخت جان (tough) لڑکوںمیں سے ایک تھا… پھر بغیر سوچے میں نے اپنی گرفت میں آئے لڑکے کو مار لگائی۔   لڑائی شروع ہوگئی اور میں نے مار مار کر اس کا بھرکس نکال دیا۔ اس کے بعد لوگوں نے مجھ کو ایک باکسر قسم کا آدمی سمجھ لیا اور میری شہرت داداگیر کی ہوگئی۔ اس لفظ کا ترجمہ  نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا مطلب ہے‘ ایک ایسا ’ٹف‘ لڑکا جس سے آپ نہیں اُلجھتے۔ (اِن دی لائن آف فائر)

بات صرف بچپن کی نہیں‘ خودنوشت کی تحلیل نفس کا حاصل اس کے سوا نہیں کہ یہ ان کی شخصیت کا طرۂ امتیاز ہے۔ البتہ وہ یہ بتانا بھول گئے کہ داداگیر اپنے سے کم تر پر‘ پریشر ہوتا ہے مگر اپنے سے قوی تر کے آگے بھیگی بلی بن جاتا ہے۔ چونکہ بش اور امریکا زیادہ بڑے داداگیر ہیں اس لیے جنرل صاحب اس کے ٹولے (gang) کے ایک چھوٹے ساتھی بن جاتے ہیں اور خود اپنے ماتحتوں اور ملک کے کمزور عوام کے لیے bully کا کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن کیا مہذب معاشرے اور اچھی حکمرانی میں بھی اس کی کوئی گنجایش ہوسکتی ہے؟

جنرل صاحب نے ناین الیون کے ضمن میں جن وار گیمز کا ذکر کیا ہے (ص ۲۰۱-۲۰۲)‘ وہ خودفریبی کا شاہکار ہے۔ اگر آزادی‘ ایمان‘ عزت اور بین الاقوامی عہدوپیمان کے دفاع کا یہی معیاری طریقہ ہے تو پھر انسانی تاریخ ازسرنو لکھنے (re-write) کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ قرونِ اولیٰ کی بات چھوڑ دیجیے‘ صرف اپنے قریبی زمانے پر نگاہ ڈالیے۔ دوسری جنگ شروع ہونے سے قبل جرمنی کی طاقت کا موازنہ اگر خود برطانیہ کے حکمران اپنی قوت سے کرتے تو جرمنی کو چیلنج کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ چیمبرلین جرمنی کی عسکری قوت سے اتنا مرعوب تھا کہ مقابلے کی جگہ  اطمینان دلانے کا راستہ اختیار کرلیتا مگر چرچل نے ہارتی ہوئی بازی کو پلٹ کر رکھ دیا اور بیسویں صدی کی تاریخ نے نئی کروٹ لی۔ اگر دولت عثمانیہ کی زبوں حالی کے پیش نظر اور اس وقت کی یورپ کی تین سوپر پاورز کی ترکیہ پر یورش کے موقع پر جنرل پرویز مشرف کا ہیرو کمال اتاترک کسی ایسی ہی وارگیمز کا اسیر ہوجاتا تو آج ترکی کا کوئی وجود دنیا کے سیاسی نقشے پر نہ ہوتا لیکن قوت کے عدم توازن کے باوجود مقابلے کی حکمت عملی کامیاب رہی اور دولت عثمانیہ نہ رہی مگر ایک آزاد مسلمان ملک کی حیثیت سے ترکی نے اپنا سربلند رکھا۔ اگر فرانس کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہونے والے الجزائری مجاہدین کسی جرنیل کے وارگیمز کے اسیر ہوتے تو ڈی گال کی افواج کا مقابلہ کرنے کا تصور بھی نہ کرتے۔ اگرہوچی من کا مشیر کوئی جرنیل ایسے ہی وارگیمز کا طلسم بکھیرتا تو ویت نام کےتن آسان امریکا جیسی سوپرپاور کا مقابلہ کرنے کی حماقت نہ کرتے اور امریکا ویت نام کی فوجی شکست اور سیاسی ہزیمت سے بچ جاتا۔ اگر ماوزے تنگ کی کسانوں کی فوج چیانگ کائی شیک اور امریکا کی مشترک قوت کا حساب کتاب کسی وارگیمز سے کرتے تو چین کی تاریخ بڑی مختلف ہوتی۔

دُور کیوں جایئے اگر افغانستان اور عراق میں وہاں کے عوام کو کوئی ایسا جرنیل میسر ہوتا جو وارگیمز کی روشنی میں معاملات طے کرتا تو امریکہ چین ہی چین میں بنسری بجا رہا ہوتا اور پانچ سال کے قبضے کے باوجود افغانستان سے فوجی واپس بلانے کے لیے برطانوی فوج کے سربراہ جنرل سررچرڈ ڈرینٹ کو ۱۲ اکتوبر ۲۰۰۶ء کو یہ نہ کہنا پڑتا کہ ہمیں افغانستان سے فوجیں واپس بلانے کی فکر کرنی چاہیے‘ اور ساڑھے تین سال کی جنگ گیری کے بعد امریکا کی ۱۶ انٹیلی جنس ایجنسیز کی      یہ مشترک رپورٹ سامنے نہ آتی کہ مزاحمت روز بروز بڑھ رہی ہے اور ہمارے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔ فوجی قوت کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو‘ عوامی قوت کے سامنے نہیں ٹھیرسکتی۔ اور خدا بھلاکرے حزب اللہ کا کہ ان کے پاس کوئی ایسا جرنیل نہیں تھا جو وارگیمز کی مشق کرکے بتادیتا کہ دس بارہ ہزار مجاہدین کا اسرائیل کی پوری فوجی حکومت سے مقابلہ حماقت ہے اور اس طرح اسرائیل ۳۴ دن کی خوں ریزی کے بعد سیزفائر اور فوجوں کی واپسی کی زحمت سے بچ جاتا۔ باقی سب کو بھول جایئے‘ ۱۹۷۹ء کے اس دن کو یاد کرلیجیے جب روس کی سوپر پاور نے افغانستان پر کھلی فوج کشی کی تھی اور روسی سفیر نے جنرل ضیاء الحق سے‘ اس پاکستانی فوج کے ایک اور سربراہ سے‘ کہا تھا کہ اگر روس کو چیلنج کیا تو تمھاری خیر نہیں اور امریکا جیسی سوپر پاور نے بھی بس اتنا کیا تھا کہ ماسکو میں ہونے والے اولمپک میں اپنے کھلاڑی بھیجے سے انکار کردیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے دفترخارجہ نے بھی شاید کسی وارگیمز کی مشق کرکے کہا تھا کہ اپنی انگلیاں نہ جلائو۔ لیکن ضیاء الحق نے مقابلے کی قوت کی فکر کیے بغیر ایک تاریخی فیصلہ کیا اور پھر خود امریکا کے صدر کے ایک نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر زبگینو برزنسکی نے افغان جہاد کی متوقع کامیابی کو بھانپ کر ۱۹۸۶ء ہی میں لندن ٹائمز میں اپنے ایک مضمون میں اعتراف کیا کہ:

افغانستان میں روس کی سیاسی اور عسکری شکست کے واحد معمار جنرل ضیاء الحق تھے۔ (لندن ٹائمز‘ ۱۸ اپریل ۱۹۸۶ء بحوالہ روزنامہ نواے وقت‘ یکم اکتوبر ۲۰۰۶ئ)

تاریخ ایسی داستانوں سے بھری پڑی ہے مگر اس کے لیے قیادت میں ایمان‘ عزم‘ بصیرت اور شجاعت کے ساتھ اللہ اور اپنے عوام کی تائید ضروری ہے۔ جہاں فیصلے خوف اور دبائو کے تحت ہوتے ہوں وہاں آزادی اور مزاحمت کی جگہ محکومی اور پسپائی لے لیتے ہیں۔

قرآن کا اپنا اسلوبِ ہدایت ہے۔ سورۂ بقرہ میں خوف کو بھی جہاد اور شہادت کے پس منظر میں آزمایش کی ایک صورت قرار دیا ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی اللہ سے تعلق اور اس کی طرف واپسی کی حقیقت کی تلقین کے ساتھ جہاد‘ شہادت اور صبروصلوٰۃ کا راستہ بتایا گیا ہے۔ (البقرہ ۲:۱۵۳-۱۵۶)

امریکا کی تابعداری کب تک؟

اگر بہ فرض محال یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ ۲۰۰۱ء میں کوئی اور چارۂ کار نہیں تھا‘ پھر بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آج ۲۰۰۶ء میں کیا مجبوری ہے کہ ہم صدربش کا اسی طرح دم چھلّا بنے ہوئے ہیں حالانکہ زمینی حقائق یکسر بدل چکے ہیں۔ افغانستان میں امریکا پھنس گیا ہے اور سارے عسکری کرّوفر کے باوجود نہ افغانستان کو اپنے زیرحکم لاسکا ہے اور نہ اسامہ بن لادن اور ملاعمر کو گرفتار کرسکا ہے۔ طالبان ایک ملک گیر قوت کی حیثیت سے اُبھر رہے ہیں اور ناٹو کے کمانڈر اور بین الاقوامی صحافی اور سفارت کار اعتراف کر رہے ہیں کہ کرزئی حکومت کی ناکامی‘ وارلارڈز کی زیادتیوں‘  معاشی زبوں حالی اور قابض فوجیوں کے خلاف نفرت اور بے زاری کے نتیجے میں طالبان کی قوت بڑھ رہی ہے۔ کئی صوبوں میں عملاً ان کی حکومت ہے‘ ایک صوبہ میں برطانوی افواج نے طالبان کے ساتھ معاہدہ امن تک کیا ہے اور ہرطرف سے طالبان سے معاملہ کرنے اور ان کو شریکِ اقتدار کرنے کے مشورے دیے جارہے ہیں۔

اسی طرح عراق میں امریکی فوجیں بری طرح پھنسی ہوئی ہیں۔ تشدد اور مزاحمت روزافزوں ہے۔ عراق کی تقسیم کے خطرات حقیقت کا روپ ڈھالتے نظرآرہے ہیں اور وہ سول وار کے چنگل میں ہے۔ دنیا میں دہشت گردی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ عراق کے بارے میں مشہور رسالے Lancetکے تازہ (اکتوبر ۲۰۰۶ئ) شمارے میں جو اعداد وشمار آئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ساڑھے ۶لاکھ افراد ہلاک ہوچکے ہیں جو آبادی کا ڈھائی فی صد ہے اور جنگ کی آگ  بجھنے کے کوئی آثار نہیں۔ اس وقت امریکا میں اس کی ۵۰ فی صد سے زیادہ آبادی جنگ کی مخالفت کر رہی ہے۔ یورپ میں یہ مخالفت ۷۰ اور ۸۰ فی صد کے درمیان ہے‘ جب کہ مسلم اور عرب دنیا میں ۹۰ فی صد سے زیادہ افراد اس جنگ کے خلاف ہیں‘ حتیٰ کہ عراق میں کیے جانے والے    تازہ ترین سروے کے مطابق عراق کی ۹۳ فی صدسنی آبادی اور ۶۵ فی صد شیعہ آبادی امریکی فوجوں کی فوری واپسی کے حق میں ہے۔

امریکا میں بش مخالف تحریک تقویت پکڑ رہی ہے۔ برطانیہ میں ٹونی بلیر کی پالیسی کے خلاف کھلی کھلی بغاوت ہے۔ برطانوی فوج کے ذمہ دار افراد فوجوں کی واپسی کی بات کر رہے ہیں۔ اسپین اپنی افواج عراق سے واپس بلاچکا ہے اور اس کے بعد سے وہاں امن ہے۔ اٹلی‘ جاپان وغیرہ تخفیف کی بات کر رہے ہیں۔ یہ ہے ہوا کا رخ___ لیکن جنرل پرویز مشرف اب بھی بش کے دست راست اور پاکستان اور اس کی سیکورٹی افواج کو بش کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ہراول دستہ بنائے رکھنے پر تلے ہوئے ہیں۔ خود اپنے وزیرستان کے تجربات سے سبق سیکھنے کو تیار نہیں اور قبائلی علاقے کے طالبان اور دینی قوتوں سے معاہدہ کرنے کے باوجود اس پر طرح طرح کی ملمع سازی میں مصروف ہیں۔

امریکا کے جو بھی مقاصد تھے وہ ہمارے مقاصد اور اہداف ہرگز نہیں ہوسکتے اور اب تو امریکا خود ان مقاصد کے بارے میں شدید انتشار کا شکار ہے اور نکلنے کے راستوں کی تلاش میں ہے‘ جب کہ جنرل صاحب ’مدعی سُست گواہ چست‘ کے مصداق گرم جوشی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور  اپنی قدروقیمت کو بڑھاچڑھا کر پیش کرنے میں مشغول ہیں۔

درپیش چیلنج اور فیصلہ کن مرحلہ

پاکستانی قوم کے لیے فیصلے کی گھڑی آپہنچی ہے۔ اس وقت ہماری آزادی‘ ہمارا ایمان‘ ہماری عزت اور ہمارا مستقبل سب دائو پر ہیں۔ امریکا سے اچھے تعلقات‘ اصولی اور خودمختارانہ مساوات کی بنیاد پر زیربحث نہیں۔ یہ تعلقات ہمیں ہرملک سے رکھنے چاہییں اور امریکا کے ساتھ جہاں جہاں مشترک مفادات کا معاملہ ہے‘ وہاں ہماری خارجہ پالیسی کے لیے اس کا ادراک ضروری ہے‘ البتہ صدربش کی تاریخی غلطی ___یعنی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک ہونا غلط تھا اور اگر کسی بھی مجبوری کے تحت شریک ہوگئے تھے تو اس شرکت کو جاری رکھنا ملک و ملّت کے مفاد سے متصادم ہے۔ جتنی جلد ممکن ہو‘ ہمارے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ موجودہ خارجہ پالیسی کو تبدیل کیا جائے اور تبدیلی کے ایک واضح راستے پر گامزن ہوکر اپنی آزادی اور عزت و وقار کو بحال کیا جائے۔ اور یہ کام اسی وقت ہوسکتا ہے جب قوم موجودہ حکمران ٹولے سے نجات پائے کہ اس کی موجودگی میں آزاد خارجہ پالیسی اختیار کرنے کا کوئی امکان نہیں۔

اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ فیصلہ سازی کو ایک فردِ واحد کی گرفت سے آزاد کیا جائے اور قومی امور کے بارے میں سارے فیصلے جمہوری انداز میں بااختیار پارلیمنٹ کے ذریعے انجام دیے جائیں اور پارلیمنٹ اور حکومت حقیقی معنی میں عوام کے سامنے جواب دہ ہو۔ قومی بحث و مباحثے اور ہرسطح پر مشاورت کے ذریعے پالیسی سازی انجام پائے۔ اس کے لیے بھی جمہوری عمل کی مکمل بحالی اور اداروں کا استحکام اور بالادستی ضروری ہے۔

جہاں فوری مسئلہ آزادی کے تحفظ اور جمہوری عمل کی بحالی کا ہے‘ وہیں یہ بات بھی ضروری ہے کہ امریکا کا ایجنڈا صرف سیاسی اور عسکری بالادستی تک محدود نہیں۔ اس کا ہدف ایک نئے    عالمی سامراج کا غلبہ ہے جس میں سیاسی اور عسکری بالادستی کے ساتھ معاشی وسائل پر امریکا اور مغربی اقوام کا تصرف اور تہذیبی‘ تعلیمی اور ثقافتی میدان میں مغربی تہذیب کا غلبہ اور حکمرانی ہے۔ آخری تجزیے میں یہ جنگ تہذیبوں اور اقدار کی جنگ کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ امریکا اسلام کے اس تصور کو کہ یہ ایک مکمل دین اور نظام تہذیب و حکومت ہے اپنا اصل حریف سمجھتا ہے اور اس کا خیال ہے کہ جب تک مسلمانوں کے دل و دماغ سے آزادی‘ اسلامی تشخص اور اسلام کے ایک مکمل ضابطۂ حیات و تہذیب ہونے کے تصورات کو خارج نہ کردیا جائے‘ امریکا کی بالادستی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر روز نت نئے مسائل کو اٹھایا جا رہا ہے جن کا اصل ہدف اسلام کی تعلیمات اور اقدار پر ضرب اور مسلمانوں کو ان کے جداگانہ تشخص سے محروم کرنا ہے۔ تہذیبوں اور مذاہب کے تکاثر (plurality) کی جگہ مغربی تہذیب کی بالادستی اور دوسری تہذیبوں‘ مذاہب اور اقوام کے اس کے نظامِ اقدار میں تحلیل کیے جانے کا ہدف ہے۔ اس کے لیے ایک حربہ مسلمانوں کو روشن خیال اور قدامت پسند‘ لبرل اور انتہاپسندوں میں تقسیم کر کے اُمت کی وحدت کو پارہ پارہ کرنا اور مسلمانوں کو آپس میں ٹکرانے اور تقسیم کرنے کی پالیسی پر عمل ہے۔ یہ ’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کا تازہ اڈیشن ہے۔ اس میں بش‘ بلیر اور مشرف ایک ہی کردار ادا کر رہے ہیں۔

جنرل پرویز مشرف کی سرپرستی میں اور چودھری شجاعت حسین کی سربراہی میں ایک   مذہبی محاذ تصوف کے فروغ کے لیے قائم کیا گیا ہے اور مقصد یہ ہے کہ اسلام کو اگر امربالمعروف اور نہی عن المنکر سے پاک کردیا جائے‘ جہاد کے تصورات کو مجہول کردیا جائے‘ خیروشر اور کفرواسلام کی کش مکش کی بات ختم کردی جائے‘ تو پھر اسلام کا ایک ایسا اڈیشن تیار کیا جاسکتا ہے جس سے باطل کی قوتوں اور ظلم کے کارندوں کو کوئی خطرہ نہ ہو۔ غضب ہے کہ اس کے لیے اقبال اور قائداعظم کا نام استعمال کیا جارہا ہے حالانکہ اقبال کے پورے پیغام کا حاصل حق و باطل کی کش مکش اور اس میں مسلمان کا جہادی کردار ہے۔ اقبال اور قائداعظم دونوں کو ہندو قیادت ہی نے نہیں انگریزی حکمرانوں اور ان کے قلمی معاونین نے انتہاپسند (extremist) اور فرقہ پرست (communalist) کہا تھا اور دونوں نے فخرسے کہا تھا کہ ہاں‘ ہم اپنے اصولوں پر قائم اور ان پر فخر کرتے ہیں اور اصولوں سے بے وفائی اور غداری کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ قائداعظم نے باربار کہا کہ میں تمام مسلمانوں کو    متحد کرنے میں مصروف ہوں اور ان کو گروہوں میں بانٹنے والوں کو ان کا دشمن سمجھتا ہوں۔ ایک موقعے پر انھوں نے لاہور میں طلبہ کو خطاب کرتے ہوئے صاف لفظوں میں کہا تھا کہ ’’تمھاری تاریخ جہاد کی تاریخ ہے اور مسلمان کے لیے شہادت سے بڑا کوئی رتبہ نہیں‘‘۔ اقبال نے جہاد کو اسلام کے غلبے اور مسلمانوں کی قوت اور سطوت کو اپنی ساری جدوجہد کا ہدف قرار دیا اور ہر اس فتنے پر ضرب لگائی جو جہاد کے راستے سے فرار کی راہیں سمجھاتا ہے۔

آج محکومی کے جو تاریک سائے اُمت پر منڈلا رہے ہیں وہ خوف‘ دبائو اور غیروں کی  کاسہ لیسی اور دراندازی کا ثمرہ ہیں اور ملّت اسلامیہ پاکستان کی آزادی‘ ایمان اور عزت اس کی  زد میں ہیں۔ تحریکِ پاکستان ایسے ہی خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے برپا کی گئی تھی‘ اور      ملّت اسلامیہ پاک و ہند کی بیش بہا قربانیوں کے نتیجے میں پاکستان ایک آزاد اسلامی ملک کی حیثیت سے نقشے پر اُبھرا۔ ان نقوش کو مٹانے کی جو عالم گیر سازشیں ہو رہی ہیں اور جس طرح اسے کچھ آلہ کار اپنی ہی قوم سے میسر آگئے ہیں‘ اس کا مقابلہ تحفظ پاکستان کے لیے ایسی ہی ہمہ گیر تحریک سے کیا جاسکتا ہے جس تحریک کے نتیجے میں پاکستان قائم ہوا۔ آج ہم ایک بار پھر اپنی آزادی‘ اپنے ایمان‘ اپنی شناخت‘ اپنی تہذیب اور اپنی عزت کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں اور ہماری زندگی اور ہماری آنے والی نسلوں کی زندگی کا انحصار اس جدوجہد اور اس کی کامیابی پر ہے ۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کے فوجی انقلاب سے جنرل پرویز مشرف کی حکمرانی کا جو دورشروع ہوا  تھا وہ اکتوبر ۲۰۰۲ء کے جمہوری ڈرامے اور سائن بورڈوں کی تبدیلی کے باوجود جاری ہے۔ ان سات برسوں میں جہاں دستور‘ سول نظام کی حکمرانی اور تمام ہی انتظامی ادارات کا حلیہ بگاڑدیا گیا ہے‘ وہیں اپنے نتائج کے اعتبار سے ملک وقوم کو اس کی تاریخ کے خطرناک ترین حالات سے دوچار کردیا گیا ہے۔ ریاست کا ہر ستون آج لرزہ براندام ہے اور ملک کی سالمیت‘ اس کی شناخت‘ بلکہ آزادی‘ خودمختاری اور وجود تک معرض خطر میں نظر آرہا ہے۔ حکمران آنکھیں بند کیے تباہی اور  ایک نئی غلامی کے جال میں پھنستے چلے جارہے ہیں‘ اور قوم کے سامنے یہ تکلیف دہ سوال اُبھر کر سامنے آگیا ہے کہ کیا قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں ملت اسلامیہ پاک و ہند کی تابناک سیاسی جدوجہد اور بے مثال قربانیوںسے قائم ہونے والا پاکستان ایک بار پھر ۱۹۷۱ء کی طرح کے ایک دوسرے تباہ کن دھماکے کی طرف بڑھ رہا ہے؟ عالمی سامراج نے امریکا کی قیادت میں    عالمِ اسلام کی ٹوٹ پھوٹ اور نئی نقشہ بندی کا جو خطرناک کھیل شروع کردیا ہے اور اس خطرناک نقشے میں رنگ بھرنے اور اسے حقیقت کا روپ دینے کے لیے آج کے میرجعفر اور میرقاسم جو کردار ادا کرنے کے لیے کمربستہ ہیں‘ ان کا راستہ کس طرح روکا جائے تاکہ اس سامراجی سیلاب کے آگے‘ قبل اس کے وہ ملت اسلامیہ کو کوئی بڑا نقصان پہنچائے‘ مؤثر بند باندھے جائیں۔

جنرل پرویز مشرف کا حالیہ دورہ ایک آئینہ ہے جس میں اس کھیل کے نقش و نگار کو دیکھا جاسکتا ہے۔ حالات جس رخ پر جارہے ہیں ان کا مقابلہ کرنے کے لیے ملت اسلامیہ پاکستان کے پاس اب اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں کہ ان خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے اُٹھ کھڑی ہو اور ہرمصلحت کوبالاے طاق رکھ کر ملک کی آزادی‘ سالمیت اور اسلامی تشخص کی حفاظت کے لیے  صف آرا ہوجائے۔ آج ہماری قومی زندگی کا اصل چیلنج یہی ہے کہ وہ اپنی آزادی اور اپنے سیاسی اور نظریاتی وجود اور تشخص کی حفاظت کی فیصلہ کن جدوجہد ایمان‘ عزم راسخ اور حکمت بالغہ کے ہتھیاروں سے لیس ہوکر انجام دے‘ اور ایک ایسی قیادت کو زمامِ کار سونپے جو اللہ کے اس عطیّے اور اقبال اور قائداعظم کی اس امانت کی جواں مردی کے ساتھ حفاظت کرسکے اور نام نہاد دنیاوی    سوپر پاورز کے دوسرے اور تیسرے درجے کے سفارت کاروں کی دھمکیوں پر ملک کی آزادی‘ عزت اور حاکمیت کا سودا کرنے والی نہ ہو‘ بلکہ وقت کے بڑے سے بڑے فرعون کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنا دفاع کرسکے۔

جنرل پرویز مشرف کی حکومت صرف اصولی طور پر ہی غیردستوری اور غیرقانونی نہیں بلکہ اس کا سات سالہ ریکارڈ گواہ ہے کہ ہراعتبار سے یہ پاکستان کی تاریخ کی ناکام ترین حکومت ہے اوراب اس کی وجہ سے پاکستان کی آزادی‘ عزت اور وجود کوشدید خطرہ لاحق ہے۔ اس نے پاکستان کی آزادی اورحاکمیت کا سودا کیا ہے اور محض اپنے اقتدار کی خاطر پاکستان کے نظریاتی‘ تہذیبی‘ معاشی اور سیاسی مفادات کو پامال کیا ہے۔ اسے اللہ کی خوشنودی اور پاکستانی عوام کی عزت‘ ان کے سیاسی اورسماجی عزائم اور فلاح و بہبود کے مقابلے میں صدربش کی خوشنودی اور امریکا کے استعماری پروگرام میں معاونت عزیز ہے‘ اور اس گھنائونے کھیل میں اپنی خدمات کی داد لینے کے لیے ہر کچھ عرصے بعد واشنگٹن کی یاترااس کا محبوب مشغلہ بن گیا ہے جہاں ’من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو‘ کا تماشا بار بار اسٹیج کیا جاتا ہے۔

آج پاکستان ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہواہے ___ ایک طرف روشن خیالی اور لبرلزم کے نام پر امریکا کی غلامی اور نئے سیاسی اور معاشی سامراجی نظام کی چاکری کا کردار ہے‘ اور دوسری طرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دیے ہوئے زندگی کے پروگرام کے مطابق  تحریکِ پاکستان کے اصل مقاصد کے حصول کے لیے فوجی آمریت اور مغرب پرست طبقے سے نجات اور حقیقی اسلامی جمہوری انقلاب کی راہ ہموار کرنے کی ہمہ گیر جدوجہد اور عزت کی زندگی کی دعوت ہے۔

حکیم الامت نے دل اور شکم کے استعارے میں اُمت کو اس باب میں ایک دوٹوک فیصلے کی جو دعوت دی تھی وہ آج پہلے سے بھی زیادہ اہمیت اختیار کرگئی ہے    ؎

دل کی آزادی شہنشاہی ‘شکم سامانِ موت

فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے‘ دل یا شکم؟

جرنیلی آمریت کے جرائم

آگے بڑھنے سے پہلے ہم یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہم نے موجودہ نظام کو فوجی حکومت نہیں جرنیلی آمریت کہا ہے اور یہ اس لیے کہ آج ملک کی فوج بھی ایک مخصوص باوردی اور بے وردی ٹولے کے ہاتھوں اسی طرح یرغمال بنی ہوئی ہے جس طرح ملک کا پورا سیاسی نظام۔ جنرل پرویز مشرف کے نظام کی دو ہی خصوصیات ہیں۔ ایک یہ کہ لیبل کچھ بھی ہو‘ یہ فردِ واحد کی آمریت ہے۔ دستور‘ پارلیمنٹ‘ سول انتظامیہ حتیٰ کہ فوج سب ایک شخص کے اشارہ چشم و ابرو پر گردش کر رہے ہیں اور خود وہ شخص امریکا اور صدربش کے بل بوتے پر ملک و قوم پر مسلط ہے۔ دوسرے‘ اس کی اُچھل کود کا انحصار امریکی پشتی بانی کے بعد اس وردی ہی پر ہے‘ اور یہ وہ حقیقت ہے جس کا وہ خود بار بار اعتراف کر رہا ہے۔ اکتوبر ۲۰۰۵ء کے زلزلے کے موقعے پر جنرل پرویز مشرف نے بڑے طمطراق سے اعلان کیا تھا کہ اگر میں وردی میں نہ ہوتا تو فوج اتنی سرعت سے (یعنی تباہی کے تین سے پانچ دن بعد جب کہ کشمیری مجاہد اور پاکستان کی دینی جماعتوں کے کارکن چند گھنٹوں میں محاذ پر موجود تھے) حرکت میں نہ آتی‘ اور اب امریکا میں دعویٰ فرمایا ہے کہ اگر میں وردی میں نہ ہوتا تو حدودآرڈی ننس میں ترمیمی بل لانے کی جرأت نہیں کی جاسکتی تھی۔ اسے بھول جایئے کہ   یہ وردی جناب محترم نے آج نہیں پہنی ہے اور سات سال سے اس وردی کے باوجود انھیں   حدود قوانین میں ترمیمی بل لانے کی جرأت نہیں ہوئی اور اب لائے ہیں تو جو حشر اس کا ہوا ہے اور جس طرح جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے وہ مضحکہ خیز ہی نہیں‘ عبرت ناک بھی ہے۔ اس سب کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ ان کی طاقت کا منبع نہ دستور ہے‘ نہ عوام ہیں اور نہ ہی سیاسی جماعتیں ہیں___ یہ ان کی فوج کی سربراہی اور فوج کا ڈسپلن ہے جس کا قطعی ناجائز استعمال کرکے وہ قوم کے سر پرمسلط ہیں اور رہنا چاہتے ہیں اور نتیجتاً ملک اور فوج دونوں کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اسے جرنیلی آمریت کہا ہے اور یہی اس نظام کی اصل شناخت ہے۔

آزادی اور خود مختاری پر کاری ضرب

اس جرنیلی آمریت کا پہلا جرم یہ ہے اس نے ملک کی آزدی‘ حاکمیت اور خودمختاری پر کاری ضرب لگائی ہے اور گذشتہ پانچ سال میں ملک امریکا کی ایک ذیلی ریاست (satellite state) بن کر رہ گیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے خود اپنے تازہ ترین انٹرویو میں جو سی این این کو ۲۱ستمبر ۲۰۰۶ء کو دیا گیا ہے‘ اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد امریکی نائب وزیرخارجہ نے پاکستان کو دھمکی دی تھی کہ

be prepared to be bombed: be prepared to go back to the stone age.

اور ہمارے بہادر جرنیل نے جو ایٹمی صلاحیت رکھنے والی فوج کے سربراہ تھے اس مطالبے کو جسے وہ خود ناشائستہ (rude) قرار دے رہے ہیں اور جس کے ساتھ بقول ان کے بہت سے دوسرے مضحکہ خیز (ludicrous) مطالبات تھے یعنی اپنی فضائی حدود کو ہمارے لیے کھول دو‘  فوجی اڈے فی الفور مہیا کرو‘ امریکی فوجوں کو ایک برادر ملک پر حملہ کرنے کے لیے اپنی زمین فراہم کرو‘ اس وقت کی افغان حکومت سے تعلق توڑ لو حتیٰ کہ پاکستان میں امریکا کے خلاف اورافغانستان پر حملے کے خلاف بے چینی کی جو لہراور مزاحمت کی تحریک ہے اسے دبانے (suppress)کی کارروائی کرو___ سب مطالبات پر سرِتسلیم خم کردیا۔ ستم یہ ہے کہ جناب جرنیل صاحب امریکا کی اس ظالمانہ کارروائی میں نہ صرف اس تمام دبائو‘ خوف اور دھمکیوں کے تحت شریک ہوگئے بلکہ اسے اپنی جنگ بنا لیا اور پھر وہ ’کارنامے‘ انجام دیے کہ بش صاحب بھی جھوم جھوم گئے۔ غلامی کی زنجیر پہننا ہی کم ستم نہ تھا کہ اسے زیور سمجھ کر نازاں ہونے کی ایکٹنگ بھی کی جانے لگی۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ ہر ’خدمت‘ کے بعد ’مزید‘ کے مطالبات ہو رہے ہیں اور ذلت کے تمغوں میں ہر روز اضافہ ہورہا ہے۔

ہم نے اپنی آزادی ہی کو دائو پر نہیں لگایا‘اپنی عزت اوراپنی روایات کو بھی خاک میں ملا دیا جس کی بدترین مثال ان ۶۰۰ سے زائد بے گناہ افراد کو امریکا کی تحویل میں دینا ہے جن میں سے کسی کے خلاف کوئی جرم آج تک ثابت نہیں ہوا لیکن ان کی جانوں اور عزتوں سے امریکا کے گھنائونے کھیل میں شریک ہوکر ہم خدا اور خلق کے سامنے مجرم بنے اور اسلام کی تعلیمات اور مسلمانوں کی روایات کو پامال کیا۔ اس سلسلے کی بدترین مثال پاکستان میں اس وقت کے افغانی سفیر عبدالسلام ضعیف کی ہے جن کو سفارتی تحفظ حاصل تھا لیکن اس جرنیلی قیادت نے بین الاقوامی قانون اور اسلامی احکام کی شرم ناک خلاف ورزی کرتے ہوئے جنوری ۲۰۰۲ء میں اس سفارتی تحفظ یافتہ فرشتہ صفت بھائی کو امریکا کی تحویل میں دے دیا جو انھیں بگرام اور گوانتاناموبے لے گیا‘ بدترین تعذیب کا نشانہ بنایا اور چار سال ٹارچر کرنے کے بعد بھی ان کا کوئی جرم ثابت نہ کرسکا اور بالآخر ۲۰۰۵ء میں انھیں رہا کرنے پر مجبور ہوا۔ عبدالسلام ضعیف نے اپنی روداد اسیری رقم کی ہے جس کا ایک ایک لفظ اس جرنیلی آمریت کے خلاف فردِ جرم ہے جسے پڑھ کر پوری پاکستانی قوم کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ دل اللہ کے غضب کے خطرے سے کانپ اٹھتا ہے اور بے تاب روح سے یہ صدا بلندہوتی ہے کہ خدایا! ایسے ظلم میں شریک ہونے اوراس کا آلہ کار رہنے والوں کا احتساب کب ہوگا؟ ہم دل کڑا کر کے ان کی آپ بیتی سے چند اقتباسات پیش کرتے ہیں تاکہ جرنیلی آمریت کا اصل چہرہ قوم کے سامنے آسکے:

یہ ۲ جنوری ۲۰۰۲ء کی صبح تھی۔ پاکستان میں سالِ نو کی تقریبات اختتام پذیر ہوچکی تھیں۔ میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ معمول کی زندگی گزاررہاتھا اور ہر وقت افغانستان میں رہنے والے اپنے گم شدہ بھائیوں اور شہیدوں کی فکر میں مبتلا رہتا تھا۔ میں اُن کی قسمت پر کڑھتا تھا مگر اپنی تقدیرسے لاعلم تھا۔ تقریباً ۸ بجے کا وقت تھا۔ گھر کے محافظوں نے اطلاع دی کہ چند پاکستانی سرکاری اہلکار آپ سے ملنے آئے ہیں۔ مہمانوں کو ایک چھوٹے سے کمرے میں بٹھایا‘ یہ تین افراد تھے۔ ان میں ایک پختون اور باقی دو اُردو بولنے والے تھے۔ میں نے افغان روایات کے تحت مہمانوں کا خیرمقدم کیا۔ چائے بسکٹ سے تواضع کی۔ میں متجسس تھا کہ وہ کیا پیغام لے کر آئے ہیں۔ اُردوبولنے والے ایک سیاہ رنگ کے موٹے کلین شیو شخص نے جس کے چہرے سے نفرت اور تعصب ٹپکتا تھا اوروہ کسی دوزخی کا ایلچی لگتا تھا‘ بظاہر بڑے مؤدبانہ انداز میں بات شروع کی اور پہلا جملہ اداکیا: your excellency, you are no more excellency۔ پھر وہ بولا: آپ جانتے ہیں کہ امریکا بڑی طاقت ہے اور کوئی اس کے مقابلے کی ہمت نہیں رکھتا۔ نہ ہی کوئی اس کا حکم ماننے سے انکار کی جرأت رکھتا ہے۔ امریکا کو آپ کی ضرورت ہے‘ تاکہ آپ سے پوچھ گچھ کرسکے۔ ہم آپ کو امریکا کے حوالے کرنے آئے ہیں تاکہ اس کا مقصد پورا ہو اور پاکستان کو بہت بڑے خطرات سے بچایا جا سکے۔میں نے بحث شروع کر دی اور کہا کہ چلو مان لیا امریکا ایک سپرطاقت ہے لیکن دنیا کے کچھ قوانین اوراصول بھی تو ہیں جن کے تحت لوگ زندگی گزار رہے ہیں۔ میںحیران ہوں کہ آپ لوگ کن مروجہ یا غیر مروجہ یا اسلامی یا غیراسلامی قوانین کے تحت مجبور ہیں؟ آپ کا اخلاقی فرض ہے کہ مجھے میرے سوالوں کا جواب دیں اور مجھے اتنی مہلت دیں کہ میں آپ کا ملک پاکستان چھوڑ دوں۔

لگ بھگ ۱۲ بجے کا وقت تھا جب تین گاڑیاں آئیں اورمسلح اہلکاروں نے گھرکا محاصرہ کرکے راستے اور لوگوں کی آمدورفت بند کردی۔ مجھے باہر نکلنے کو کہا گیا۔ میں ایسے حال میں گھر سے نکلا جب میرے بیوی بچے چیخ و پکار کر رہے تھے۔ میں اپنے بچوں کی طرف مڑ کے نہیں دیکھ سکتا تھا کیونکہ میرے پاس ان کے لیے تسلی کا ایک لفظ تک نہ تھا۔ ’اسلام کے محافظ‘ پاکستانی حکام سے مجھے ہرگز یہ توقع نہ تھی کہ مجھے چند پیسوں کی خاطر ’تحفتاً‘ امریکا کو پیش کردیا جائے گا۔ میں یہی سوچتا ہوا گھر سے نکلا کہ مجھ پر اتنا ظلم کیوں ہو رہا ہے؟ مقدس جہاد کی باتیں کرنے والوں کو کیا ہوگیا؟ مجھے ایک گاڑی میں درمیان میں بٹھا دیا گیا۔ گاڑی کے شیشے کالے تھے جن کے آرپار کچھ نہ دیکھا جا سکتا تھا۔ آگے سیکورٹی کی گاڑی تھی جب کہ تیسری گاڑی ہمارے پیچھے تھی جس میں مسلح اہلکار تھے۔

یہ تو تھا جرنیلی آمریت کے پاکستانی کارندوں کا سلوک۔ اب ذرا دنیا کی مہذب ترین امریکی حکومت کے نمایندوں کے کارنامے بھی ملاحظہ فرمالیں:

تیسری رات ۱۱ بجے کے لگ بھگ میں نے سونے کا ارادہ کیا کہ اچانک دروازہ کھلا اور شلوارقمیص میں ملبوس چھوٹی داڑھی والا ایک شخص اندرداخل ہوا۔ اس نے کہا ہم آپ کو ایک دوسری جگہ منتقل کر رہے ہیں۔ میں نے یہ نہ پوچھا کہ مجھے کہاں لے جایا جا رہا ہے کیونکہ مجھے سچ کی امید نہ تھی۔ مجھے واش روم استعمال کرنے کے لیے صرف پانچ منٹ دیے گئے۔ رفتہ رفتہ گاڑی ہیلی کاپٹر کے قریب ہوتی گئی اور اس کی آواز کانوں کے پردے پھاڑنے لگی۔ اس دوران مجھے ایک ضرب پڑی اور میری کلائی پر بندھی قیمتی گھڑی اس ضرب سے نیچے گرگئی یا مجھ سے لے لی گئی۔ مجھے دوافراد کی مدد سے گاڑی سے اُتارا گیا اور ہیلی کاپٹر سے چند قدم کے فاصلے پر کھڑا کردیا گیا۔ چندلمحوں بعد میں نے خدا حافظ کے الفاظ سنے۔ پھر میں نے کچھ لوگوں کی آوازیں سنیں جو انگریزی میں باتیں کر رہے تھے۔ اچانک وہ ریچھوں کی طرح مجھ پہ پل پڑے اور لاتوں‘ گھونسوں اور مکوں کی بارش کرنے لگے۔ کبھی مجھے اوندھے منہ لٹا دیا جاتا‘ کبھی کھڑا کر کے دھکا دیا جاتا‘ میرے کپڑے چاقوؤں کی مدد سے پھاڑ دیے گئے۔ اسی دوران میری آنکھوں سے پٹی اُتر گئی۔ میں نے دیکھا کہ پاکستانی افسر قطار میں کھڑے تھے۔ ساتھ ہی افسروں کی گاڑیاں تھیں جن میں سے ایک پر جھنڈا لگا تھا۔ امریکیوں نے مجھے مارا پیٹا‘ بے لباس کردیا مگر اسلام کے محافظ میرے سابقہ دوست تماشا دیکھتے رہے۔ یہ بات میں قبر میں بھی نہ بھول سکوں گا۔ میں کوئی قاتل‘ چور‘ ڈاکو یا قانون کا مجرم نہ تھا۔ مجھے بغیر کسی جرم کے امریکا کے حوالے کیا جا رہا تھا۔ وہاں موجود افسر اتنا تو کہہ سکتے تھے کہ یہ ہمارا مہمان ہے۔ ہماری موجودگی میں اس کے ساتھ یہ سلوک نہ کرو۔ وحشی اور بے رحم امریکی فوجیوں نے ایسی حالت میں مجھے زمین پر پٹخ دیا کہ میرا جسم ننگا ہوگیا۔ پھر مجھے ہیلی کاپٹر میں دھکیل دیا گیا۔ میرے ہاتھ پائوں کس کر زنجیروں سے باندھ دیے گئے۔ آنکھوں پر پٹی پھر باندھ دی گئی۔ میرا چہرہ سیاہ تھیلے سے ڈھانپ دیا گیا۔ میرے جسم کے اردگرد سر سے پائوں تک رسی لپیٹ کر ہیلی کاپٹر کے وسط میں زنجیر سے باندھ دیا گیا۔ (روزنامہ نواے وقت‘ ۲۲ستمبر ۲۰۰۶ئ)

پوری داستان دل خراش اور آبدیدہ کردینے والی ہے۔ لیکن یہ سب وہ خدمات ہیں جو  اس جرنیلی آمریت نے‘ امریکا کی خوشنودی کے لیے انجام دی ہیں اوراس طرح اپنی آزادی اور خودمختاری کو اپنے ہی ہاتھوں تارتار کیا ہے۔ امریکا پاکستان کے ہر شعبۂ زندگی میں مداخلت کر رہا ہے۔ فوجی مشقوں کے نام پر فوج کی قیادت کو دام اسیری میں لایا جا رہا ہے۔ تعلیم میں مداخلت ہے اور نصاب تعلیم تک میں تعلیمی اصلاحات کے نام پر یو ایس ایڈ کی دراندازیاں ہورہی ہیں اور قرآن کی وہ آیات تراش و خراش سے محفوظ نہیں جو جہادکے بارے میں ہیں۔ معیشت پر گرفت تو پہلے ہی کم نہ تھی مگر اب نج کاری اور بیرونی سرمایہ کاری کے ذریعے مزید مداخلت کی راہیں استوارہوگئی ہیں۔ دینی مدارس کو لگام دینے کی خدمت بھی امریکی منصوبے کے تحت کی جارہی ہے اور اب حدودقوانین‘ ناموس رسالتؐ کا قانون اور احمدیوں کو غیرمسلم اقلیت قراردیے جانے والی دستوری ترمیم سب نشانے پرہیں۔ جرنیل صاحب چاہتے تھے کہ امریکا کا دورہ کرنے سے پہلے اپنی وردی کے زعم پر حدود قوانین میں ترمیم کرا لیں لیکن اللہ کی شان ہے کہ وردی کے باوجود ترمیم دھری کی دھری رہ گئی___ ان تمام خدمات اور سپردگیوں (surrenders) کے باوجود بلکہ ان کے نتیجے میں امریکا اور بھی شیر ہوتا جارہا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دورے کے موقع پر اقوام متحدہ میں خطاب کے بعد صدر بش نے سی این این کے نمایندے وولف بلٹزر (Wolf Blitzer) کے اس سوال کے جواب میں کہ کیا صدر بش خفیہ ایجنسیوں کی قابلِ اعتماد معلومات پر القاعدہ کے قائدین کو پکڑنے یا ہلاک کرنے کے لیے پاکستان کی سرزمین پر امریکی فوج کے ذریعے بلاواسطہ کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں‘ صاف الفاظ میں کہا: absolutely (بالکل یقینا)۔

یہ ہے اس جرنیلی آمریت کے زیرسایہ اب ہماری آزادی‘ خودمختاری اور اقتدار اعلیٰ (sovereignty )کی اصل حقیقت۔

دفاعی صلاحیت میں کمی

پاکستان کے اقتدار اعلیٰ کی اس خطرناک حد تک تحلیل اور تخفیف (erosion) کے ساتھ دوسرا مسئلہ ہماری دفاعی صلاحیت کے بری طرح متاثر ہونے کا ہے۔ دفاعی صلاحیت میں سب سے اہم چیز قوت اور وسائل میں عدم مساوات کے باوجود مزاحمت‘مقابلے اور دفاع کے عزم اور    قومی مقاصد‘ آزادی اور عزت کے دفاع کے لیے جان کی بازی لگادینے کا جذبہ ہے۔ لیکن جو  فوجی قیادت ذہنی شکست کھاچکی ہو‘ مفادات کے چکر میں پڑجائے اور سمجھوتوں اور سہولتوں کو شعار بنالے وہ لڑنے اور جان دینے کے جذبے سے محروم ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس فوج کو سیاست کا چسکا لگ جائے وہ پھر دفاع کے لائق نہیں رہتی۔ جنرل پرویز مشرف کی پالیسی کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ ان کے دور میں فوج کو سیاست ہی نہیں‘ معیشت‘ حکمرانی‘ انتظامیات غرض ہر اس کام میں لگا دیا گیا ہے جس کا کوئی تعلق دفاع سے نہیں۔ پھر فوج کو اپنے ہی عوام کو  نشانۂ ستم بنانے اور انتظامی معاملات حتیٰ کہ انتخابات کے عمل میں اس بے دردی سے استعمال کیاجارہا ہے کہ اس کے نتیجے میں فوج متنازعہ بن گئی ہے اور عوام کی عزت‘ محبت اور توقیر کی جگہ نفرت اور دشمنی کا ہدف بن رہی ہے۔ اس سلسلے میں وزیرستان اور بلوچستان میں جس طرح فوج کو استعمال کیا گیا ہے اس نے صرف جرنیلی آمریت ہی کو نہیں‘ خود فوج کو ہدف تنقید و ملامت بنائے جانے کا موقع فراہم کیا ہے۔ یہ ملک کی دفاعی صلاحیت کے لیے ایک ناقابلِ برداشت دھچکا ہے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کے ساتھ سلوک

جرنیلی آمریت نے ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اور اس کے ذریعے سائنس دانوں کی پوری برادری کو جو پیغام دیا ہے‘ نیز ایٹمی صلاحیت کو مسلسل ترقی دینے کے لیے جن راہوں کو کھلا رکھنا ضروری تھا انھیں جس طرح بند کردیا گیا ہے اس نے ہماری ایٹمی سدجارحیت (nuclear deterrance)کی صلاحیت کو بری طرح مجروح کیا ہے۔ قابلِ اعتماد ذرائع اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہماری نیوکلیر صلاحیت کو آہستہ آہستہ کمزور اور تحلیل کرنے اور اس پر امریکی اثر کے بڑھنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جو بظاہر غیرمحسوس ہے مگر فی الحقیقت خطرناک حد تک یقینی ہوتا جا رہا ہے۔ نیز امریکا پر دفاعی سازوسامان کے لیے محتاجی کا نیا دور شروع ہو رہا ہے حالانکہ اس باب میں امریکا کا قطعاً ناقابلِ اعتماد ہونا ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ ایف-۱۶ کے بارے میں تاریخی دھوکا کھانے کے بعد ملک اور فوج کو ایک بار پھر اسی چکر میں مبتلا کیا جا رہا ہے اور جہاز بھی وہ دینے کی بات کی جارہی ہے جو نہ صرف جدید ترین سے بہت فروتر ہیں بلکہ ان کے استعمال اور نقل و حرکت پر بھی امریکا کی نگاہ رہے گی۔ ایسے جہاز امریکا کی محتاجی کی زنجیر ہوں گے‘ یہ آزادی کے شاہیں نہیں ہوسکتے۔

جرنیلی آمریت جس طرح ملک کی آزادی اور حاکمیت کو مجروح کرنے کا ذریعہ بنی ہے اسی طرح خود فوج کی دفاعی صلاحیت اور ملک کی نیوکلیر استعداد کو کمزور کرنے کی ذمہ دار ہے۔

چہوٹے صوبوں کی محرومی

جرنیلی آمریت کی تباہ کاری کا تیسرا میدان چھوٹے صوبوں کو ناانصافیوں اور محرومیوں کی دلدل میں دھکیل دینا ہے جس کے نتیجے میں مرکز گریز رجحانات کو فروغ حاصل ہورہا ہے۔ سندھ میں ایک طرف ایک لسانی تنظیم کی اس طرح سرپرستی کی جارہی ہے کہ صوبہ امن و چین سے محروم ہوگیا ہے‘ ہر طرف بھتہ اور لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ دوسری طرف فرقہ واریت کو فروغ دیا جا رہا ہے اور روزافزوں خون خرابے کے باوجود اصل مجرم محفوظ و مامون بیٹھے ہیں۔

کالاباغ ڈیم کے مسئلے کو اس بھونڈے انداز میں اٹھایا گیا کہ تین صوبے مرکز کے خلاف صف آرا ہوگئے۔ قومی مالیاتی ایوارڈ کے باب میں مرکز کا کردار نہایت غیرمنصفانہ اور  غیرحقیقت پسندانہ رہا جس کے نتیجے میں صوبوں کی ترقی بری طرح متاثر ہوئی ہے اور آج تک صوبوں کو ان کا حق نہیں مل سکا۔ یہ سب مسائل اپنی جگہ لیکن سب سے بڑھ کر اس جرنیلی آمریت نے جس طرح بلوچستان کے مسئلے کو بگاڑا ہے وہ ایک قومی جرم سے کم نہیں۔

بلوچستان کے مسائل حقیقی اور گمبھیر ہیں اور اس صوبے میں محرومی کا احساس بے چینی سے بڑھ کر بغاوت کی حدوں کو چھو رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مرکزی حکومت نے ہر دور میں نہ صرف وہاں کے مسائل کو مجرمانہ طور پر نظرانداز کیا بلکہ سیاسی مسائل کو قوت کے ذریعے اور صوبے کی سیاسی قوتوں کو بانٹ کر اور اپنے حواریوں کو اقتدار سونپ کر صوبے کے وسائل کو صوبے اور اس کے عوام کے وسیع تر مفاد کے مقابلے میں مفادپرست عناصر کے کھل کھیلنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ تعلیم‘ روزگار‘ پیداوار‘ صحت‘ انفراسٹرکچر کی ترقی‘ صنعت غرض ہر میدان میں یہ صوبہ سب سے پیچھے ہے۔ قدرتی وسائل سے مالامال مگر ان وسائل کے ثمرات سے محروم۔ جب بھی وہاں کے عوام نے اپنے حقوق کی بات کی‘ اس کا جواب بندوق اور توپ سے دیا گیا۔ اس کی سب سے نمایاں مثال وہ پارلیمانی کمیٹی ہے جو خود چودھری شجاعت حسین صاحب کی سربراہی میں قائم ہوئی تھی اور جس کی ایک سب کمیٹی نے اپنی متفقہ رپورٹ بھی پارلیمنٹ کو پیش کر دی تھی مگر عین اس وقت جب معاملات سیاسی افہام و تفہیم سے طے ہونے کے مراحل میں تھے‘ فوج کشی کا راستہ اختیار کیا گیا اور سارے کیے دھرے پر پانی پھیر دیا گیا۔ اس کا تباہ کن انجام ۲۵ اگست کو فوجی آپریشن کے نتیجے میں ۸۰سالہ نواب بگٹی اور ان کے ساتھیوں کی ہلاکت اور اس کے بعد ان کی تجہیزوتدفین کے لیے وہ سفاکانہ اور ہتک آمیز راستہ ہے جس نے پورے صوبے ہی نہیں‘ پورے ملک میں غم و غصے کی آگ بھڑکا دی ہے۔ یہ سب کچھ محض ایک شخص کی انا کی تسکین کے لیے کیا گیا جس نے کہا تھا کہ یہ ۲۰۰۶ء ہے‘ ۱۹۷۴ء نہیں ہے اور اب ایسی سمت سے حملہ ہوگا جسے دیکھا بھی نہیں جاسکے گا اور جس نے نواب اکبرخاں بگٹی کی ہلاکت کے ظالمانہ اقدام پر فوج کو کامیاب آپریشن پر مبارک باد دی جس پر بعد میں دھول ڈالنے میں عافیت محسوس کی گئی۔

امریکا کا نیا شرق اوسط

اس جرنیلی آمریت نے یہ سب کچھ ایک ایسے پس منظر میں کیا جب اس حسّاس علاقے کے بارے میں بین الاقوامی سازشوں اور شرارتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ بھارت‘ ایران‘ افغانستان اور سب سے بڑھ کر امریکہ اپنا اپنا کردار ادا کررہے ہیں اور مقامی عناصر میں سے کچھ اس میں   آلۂ کار بن رہے ہیں۔ پاکستان کے نقشے کو تبدیل کرنے کے منصوبے نئے نہیں۔ سابقہ امریکی صدر کے ایک یہودی مشیر پروفیسر برنارڈ لیوس (Bernard Lewis)کئی سال پہلے شرق اوسط کے لیے نیا نقشہ پیش کرچکے ہیں اور اس میں بلوچستان کو ایک آزاد ملک کے طور پر دکھایا گیا   ہے۔ عین نواب بگٹی کی ہلاکت سے دو ماہ قبل کولن پاول کے ایک سابق اسسٹنٹ رالف پیٹر      (Col (r) Ralph Peter ) نے امریکا کے نیم سرکاری مجلے Armed Forces Journal میں ایک زہرآلود مضمون لکھا ہے جس کا عنوان Blood Bordersہے اور اس دعوے کے ساتھ لکھا ہے کہ How a Better Middle East Would Look (ایک بہتر شرق اوسط کیسا نظر آئے گا)۔

اس میں پورے شرق اوسط کی تقسیم در تقسیم کا منصوبہ پیش کیا ہے جس سے امریکا اور اسرائیل کے مقاصد حاصل ہوسکتے ہیں۔ اس وقت اس منصوبے کے تمام پہلوئوں پر کلام مقصود نہیں صرف پاکستان اور بلوچستان کے سلسلے میں اس شرانگیز تجویز پر توجہ مبذول کرانا پیش نظر ہے۔ موصوف پاکستان کو ایک غیرفطری ریاست (an unnatural state) قرار دیتے ہیں اور بلوچستان اور پشتونستان کو اس سے الگ کرتے ہیں اور اس دعوے کے ساتھ کہ یہ سب کچھ موصوف کے اپنے عزائم کے مطابق نقشے کی نئی صورت گری نہیں بلکہ وہاں کے لوگوں کی خواہش کا اظہار ہے:

یہ نقشے کو ہماری پسند کے مطابق بنانا نہیں ہے ‘ بلکہ جسے علاقے کے لوگ ترجیح دیتے ہیں‘ وہ ہے۔

اس لیے اس تجویز میں ان کا مرکزی خیال یہ ہے کہ نئی حدبندی علاقائی‘ لسانی اور     فرقہ ورانہ بنیادوں پر ہونی چاہیے:

ہرمعاملے میں‘ یہ نئی مفروضہ حدبندیاں نسلی تعلقات اور فرقہ بندی‘ بعض صورتوں میں دونوں کی عکاسی کرتی ہیں۔

ہم موصوف کا پیش کردہ نقشہ علاقے کے موجودہ نقشے کے ساتھ پیش کرتے ہیں تاکہ اس علاقے کے بارے میں سامراجی سیاست کاری کے کھیل کا کچھ ادراک ہوسکے۔

دونوں نقشوں پر نظر ڈالیے۔ جغرافیائی سرحدوں کی ساری تبدیلی مسلم ممالک کے لیے مخصوص ہے۔ اتنا بڑا بھارت اس نقشے پر موجود ہے‘جس میں درجنوں لسانی‘ مذہبی‘ ثقافتی اور نسلی آبادیاں موجود ہیں۔ ۱۶‘ ۱۷ آزادی کی تحریکیں سرگرم ہیں‘ وہاں کسی تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی ہے    ؎    برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر!

ایک طرف یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے اور دوسری طرف جرنیلی آمریت بعینہٖ وہ فضا پیدا کررہی ہے جس میں کچھ عناصر حقیقی مسائل اور محرومیوں کے ساتھ نفرت کی آگ کی آمیزش کرکے حالات کو ایسا رخ دے سکیں جن کے جلو میں سامراجی مقاصد حاصل ہوسکیں۔

ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ بلوچستان کے مسائل کو جس طرح بگاڑا جا رہا ہے‘ وہ حددرجہ خطرناک ہے۔ صوبے کے حقیقی مسائل آج بھی آسانی سے حل ہوسکتے ہیں‘ اس کے لیے سیاسی عمل‘ افہام و تفہیم اور عدل و احسان کا راستہ ہی صحیح راستہ ہے۔ فوج کشی اور عزت سے کھیلنے سے مسائل لازماً بگڑیں گے اور حل سے دُور ہوتے جائیں گے۔ جرنیلی آمریت نے جو راستہ اختیا کیا ہے‘ وہ صرف تباہی کا راستہ ہے۔ حالات کی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ حکمت عملی کو یکسر بدلا جائے۔ بلوچ قبائل اور عوام کا غم پاکستان کے ہر شہری کا غم ہے اور وہاں کے مسائل ہمارے مشترکہ مسائل ہیں۔ سب کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے اور جوانصاف سے جتنا محروم رہا ہے‘ اس کا اتنا ہی زیادہ حق ہے۔ سیاسی عمل کے ساتھ ساتھ ان دستوری‘ قانونی اور انتظامی اصلاحات کی بھی ضرورت ہے جو حقیقی صوبائی خودمختاری اور صوبے کے وسائل پر اہلِ صوبہ کے حق کو یقینی بناسکے بلکہ جن صوبوں اور علاقوں کی حالت زیادہ خراب ہے‘ ان کو ملکی اوسط کی سطح تک لانے کے لیے صرف اس صوبے کے نہیں بلکہ متمول صوبوں اور علاقوں کے وسائل کوبھی پس ماندہ علاقوں کی ترقی کے لیے استعمال ہونا چاہییں تاکہ سب کے ساتھ انصاف ہوسکے۔ اس مقصد کا حصول حقیقی جمہوری عمل کے قیام اور انصاف اور حق کے اصولوں کی پاسداری کے بغیر ممکن نہیں۔

مسئلہ طاقت کے استعمال کا نہیں‘ عقل کے استعمال اور انصاف اور دردمندی کے ساتھ حقیقی مسائل اور مشکلات کودُور کرنے کاہے۔ یہ تصور کہ مرکز مضبوط ہوگا تو پاکستان مضبوط ہوگا ایک فاسد نظریہ ہے۔ پاکستان کی مضبوطی کے لیے صوبوں اور علاقوں کی مضبوطی ضروری ہے۔ دیوار اتنی ہی مضبوط ہوگی جتنی وہ اینٹیں مضبوط ہوں گی جس سے یہ دیوار بنی ہے۔ آمریت کا مزاج ہی مرکزیت کا مزاج ہے اور جب وہ آمریت جرنیلی آمریت ہو تو پھر اختیارات کے ارتکاز کا عالم اور بھی  گمبھیر ہوجاتا ہے اور سیاسی عمل نام نہاد کمانڈ اسٹرکچر تلے دم توڑ دیتا ہے۔ آج بلوچستان کے مسائل   شعلہ فشاں ہوگئے ہیں اور قومی سطح پر ان کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ نواب بگٹی کی ہلاکت سے جو بحرانی کیفیت پیدا ہوگئی ہے اسے قومی سطح پر مؤثر سیاسی حکمت عملی بناکر اوراس پر سب کی شرکت سے عمل کر کے حالات کو قابو میں لایا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی سامنے رہنی چاہیے کہ مسائل اور محرومیاں بلوچستان تک محدود نہیں۔ دوسرے صوبوں اور خود پنجاب کے کچھ  پس ماندہ علاقوں میں بھی مسائل سلگ رہے ہیں۔ ان کے شعلہ بننے سے پہلے ان کے حل کی ضرورت ہے جو جرنیلی آمریت کے بس کا روگ نہیں۔

مسئلہ کشمیر کی تحلیل

جرنیلی آمریت کا چوتھا نشانہ کشمیر کامسئلہ ہے جسے جنرل پرویز مشرف نے کمال بے تدبیری کے ساتھ تحلیل کرنے (liquidate) کرنے کی ٹھان لی ہے۔ پہلے دن سے کشمیر کا مسئلہ ایک قومی مسئلہ تھا اور سب جماعتیں اس پر متفق تھیں کہ کشمیر کے بغیر پاکستان نامکمل ہے‘ اس لیے کہ یہ تقسیم ملک کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔ نیز یہ مسئلہ محض پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی تنازع نہیں بلکہ ریاست جموں و کشمیر کے ڈیڑھ کروڑ انسانوں کے حق خود ارادیت کا مسئلہ ہے جس سے بھارت نے انھیں محروم رکھا ہوا ہے جو صرف فوجی قوت اور سامراجی تسلط سے ریاست کے دوتہائی حصے پر قابض ہے اور وہاں شہریوں کو جبر اور ظلم کے ذریعے زیردست رکھے ہوئے ہے اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں کر ریا ہے۔ پونے پانچ لاکھ افراد ان ۶۰برسوں میں اپنی آزادی کی جدوجہد کرتے ہوئے بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں جان کی قربانی دے چکے ہیں۔ پاکستان ان کا وکیل اور ان کے حق کے حصول کی جدوجہد کا پشتی بان ہے اوران کے اس حق کے حصول کے لیے ہر قربانی دینا اپنافرض سمجھتا ہے۔ پاکستان کی فوج اور دفاعی صلاحیت کا بھی گہرا تعلق بھارت سے آنے والے خطرات کے مقابلے کی استطاعت کے ساتھ کشمیر میں حق خود ارادیت کے حصول کو ممکن بنا لینے سے ہے۔ ورنہ اتنی بڑی فوج کی جس پر قومی وسائل کا ایک معتدبہ حصہ صرف ہو رہا ہے ضرورت نہیں تھی۔

اس سارے پس منظر میں لچک کے نام پر‘ لیکن درحقیقت شکست خوردہ ذہنیت کا اسیر ہونے کے باعث‘ جنرل پرویز مشرف عملاً کشمیر سے دست کش ہوگئے ہیں اور اس طرح پاکستان کے ایک قومی ہدف کو منہدم کرنے کا ذریعہ بنے ہیں۔ فروری ۲۰۰۲ء سے ان کی پسپائی کے سلسلے کا آغاز ہوا جو اب ہوانا میں من موہن سنگھ سے ملاقات کے وقت اپنی انتہا کوپہنچ گیا ہے۔ اس قومی ہدف پر پہلی ضرب انھوں نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ایک طرف رکھ دینے کے اعلان کی لگائی۔ پھر جنگ ِ آزادی اور جہادکشمیر کو عملاً دہشت گردی قرار دے کر اپنی ہی نہیں ساری محکوم اقوام کی آزادی کی جدوجہد پر کالک ملنے کا جرم کیا۔ اوّل اوّل پاکستان کی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال کیے جانے سے احتراز کی بات کی گئی۔ پھر بھارت کو باڑ بندی کا موقع دیا‘ سیزفائر کیا۔ عملاً تحریک ِ مزاحمت کی معاونت سے ہاتھ اٹھا لیا اور اب پورے مسئلے ہی سے اس اعلان کے ساتھ دست بردار ہوگئے کہ ایسا حل نکالا جائے جو دونوں فریقوں کے لیے ناقابلِ قبول نہ ہو۔ اس سے زیادہ ناانصافی کیا ہوگی کہ اب کہا جارہا ہے مسئلہ آزادی اور حق خود ارادیت کا نہیں بلکہ کسی ایسی چیز کو قبول کرلینے کا ہے جوغاصب قوت کے لیے قابلِ قبول ہو۔ اس سے مسئلے کی نوعیت ہی بدل گئی۔

اصل مسئلہ بھارت کے غیرقانونی قبضے (illegal occupation)کا تھا اور اس کا حل جو انصاف اور حق پر مبنی ہو صرف حق خود ارادیت ہی کی شکل میں ہوسکتا ہے جس طرح سامراج سے نجات حاصل کرنے کے لیے دنیا کے گوشے گوشے میں ہوا۔ لیکن اب اس مسئلے ہی سے جنرل صاحب دست بردار ہوگئے ہیں اور حق خودارادیت کی جدوجہد دہشت گردی قرار پاگئی ہے جس کا قلع قمع کرنے کے لیے دونوں ملکوں میں مشترک اداراتی نظام قائم کیا جا رہا ہے۔ بھارت کی اس سے بڑی فتح کیا ہوگی کہ اس نے جنرل صاحب سے کہلوا لیا کہ اصل مسئلہ جموں و کشمیر کے لوگوں کی آزادی اور حق خود ارادیت کا نہیں بلکہ سرحدی دراندازی اور نام نہاد دہشت گردی ہے۔ مسئلہ بھارت کا ناجائز قبضہ نہیں بلکہ ناجائز قبضے کے خلاف جائز جنگ ِ آزادی اور تحریکِ مزاحمت ہے۔ یہ موقف تحریک آزادی کشمیر کے سینے میں خنجر گھونپنے اور اپنے ہاتھوں پاکستان کی شہ رگ پر چھری چلانے کے مترادف ہے جسے مسئلہ کشمیر اور کشمیری مسلمانوں کی عظیم تحریک مزاحمت ہی سے نہیں‘ پاکستان سے غداری کے سواکچھ نہیں کہاجاسکتا۔ کس نے جنرل پرویز مشرف کو کشمیر کی تحریک ِ آزادی کو اس طرح تباہ کرنے کا اختیار دیا___کشمیر کے عوام اور پاکستان کے عوام اس بے وفائی کو کبھی تسلیم نہیں کرسکتے۔

اسلام کا مسخ شدہ تصور

جرنیلی آمریت کا ایک اور ہدف اسلام کا وہ انقلابی اور ہمہ گیر تصور ہے جس کے تحت انسان اپنی پوری زندگی کو اللہ کی بندگی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں دیتا ہے اور انفرادی اور اجتماعی زندگی کو شریعت کے تابع کرتا ہے۔ وہ اسلام کی سربلندی کو اپنی زندگی کا مقصد بناتا ہے اور اس کے لیے جہاد کواپنا شعار قرار دیتا ہے۔اس تصورِ حیات کے مقابلے میں جرنیلی آمریت نے ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ (enlightened moderation) کے نام پر اسلام کا ایک ایسا مسخ شدہ تصور وضع کرنے کی کوشش کی ہے جو مغربی تہذیب و تمدن کا چربہ ہو‘ جس میں حجاب‘ داڑھی اور حیا و شرم کی گنجایش نہ ہو۔ جس میں شراب‘ زنا اور مخلوط معاشرت کے دروازے کھلے ہوں‘ جس میں جہاد کا ذکر بھی ممنوع ہو‘ جہاں رقص وسرود اور عریانی زندگی کا معمول ہوں‘ جس میں عیدین تو بس رسمی طور پر منائی جائیں البتہ بسنت‘ نیوایرز ڈے‘ ویلنٹائن ڈے اور اس قسم کی خرافات ترقی کا مظہر قرار پائیں۔ فکری اور سماجی دونوں اعتبار سے اسی تحویل قبلہ کا نتیجہ ہے کہ اخبارات‘ الیکٹرانک میڈیا‘ سرکاری تقریبات حتیٰ کہ سرکاری پارٹیوں اور فائیوسٹار ہی نہیں ان سے بہت چھوٹے چھوٹے ہوٹلوں اور ریستورانوں میں اب شراب کھلے بندوں دی جارہی ہے۔ پاکستانی سفارت خانوں میں بیش تر تقریبات میں شراب دی جاتی ہے اور اسلام آباد کے ایک انگریزی روزنامے نے تو حد ہی کردی کہ اپنے صفحہ اول پر ایک چوتھائی صفحہ کا جلی اشتہار ایک کلینک کی طرف سے اس عنوان کے ساتھ شائع کیا کہ شراب نوشی کوئی قباحت نہیں‘ صرف بلانوشی نامطلوب ہے اور اس کا بھی علاج ہم سے کرالیں …اناللہ وانا الیہ راجعون!

یہ جرنیلی آمریت پہلے دن سے بے تاب رہی ہے کہ کسی طرح حدود قوانین کو منسوخ کردے اور توہینِ رسالتؐ کے قانون کو کتابِ قانون سے خارج کردے مگر ہمت نہ ہوسکی۔ اب پھر وردی کے زعم پر حدود قوانین میں ترمیم کی کوششیں ہورہی ہیں اور طرح طرح کے ڈرامے رچائے جارہے ہیں۔ بلاشبہہ حدود قوانین کا نفاذ خلوص اوردیانت سے ملک میں نہیں ہوا اور ان کی برکات سے معاشرہ محروم ہے۔ مگر عورتوں پر ظلم کی وجہ یہ قوانین نہیں‘ مغربی تہذیب و ثقافت اور وہ سیکولر‘ اخلاق باختہ اور جاگیردارانہ سماج اور رویہ ہے جو اباحت پرست طبقے کا طرۂ امتیاز ہے۔ مختاراں مائی پر ظلم کسی حدود قوانین کی وجہ سے نہیں ہوا۔ روزانہ جو ہولناک واقعات رونما ہو رہے ہیں وہ ان قوانین کی وجہ سے نہیں بلکہ اسلام کے باغی عناصر کی ظالمانہ کارروائیوں اور بااثر افراد کی قانون پر بالادستی کی وجہ سے ہیں۔ اگر یہ قوانین ٹھیک ٹھیک نافذ کیے جائیں تو معاشرہ ان جرائم سے آج بھی پاک ہوسکتا ہے لیکن جرنیلی آمریت اور اس کے آزاد خیال ہم نوائوں کا مقصد معاشرے کو جرم سے پاک کرنا نہیں جرم کو معتبر بنا دینا ہے۔ ابھی امریکا کی جوسرکاری رپورٹ بنیادی حقوق کے نام پر اس ہفتے شائع ہوئی ہے اس میں پوری بے شرمی سے کہا گیا ہے کہ زنا بالرضا کو جرم بنانا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اسے criminalization of sex کا نام دیا گیا ہے۔ اگر حدود قوانین کے خلاف کی جانے والی کی بحث کا آپ بے لاگ تجزیہ کریں تویہی اصل مسئلہ سامنے آتا ہے کہ رضامندی کے ساتھ آزاد شہوت رانی کوئی جرم ہے ہی نہیں کہ اس پر سزا دی جائے۔ برطانوی دور کے ضابطہ فوجداری میں مغربی ممالک کی طرح زنا کا فعل جرم تھا ہی نہیں۔ جسے adultery قراردیا گیا وہ صرف شادی شدہ عورت سے خاوند کی مرضی کے بغیر جنسی تعلق تھا جس کی وجہ خاوند کی حق تلفی سمجھی جاتی تھی یا پھر rape جو عورت پر جبر کی وجہ سے جرم بنتا تھا اور وہ بھی صرف تین سال کی سزا یا جرمانہ کا مستوجب!

حدود قوانین میں اصل ’ظلم‘ کیا ہی یہ گیا ہے کہ ناجائز جنسی تعلق کو‘ خواہ وہ باہمی رضامندی سے ہویا جبر کی صورت میں‘ جرم قرار دیا گیاہے اوردونوں شکلوں میں اسے مستوجب سزا قرار دیا گیا ہے۔ اس سے بڑا جھوٹ کوئی نہیں کہ زنا بالجبر کے سلسلے میں عورت کی گواہی قابلِ قبول نہیں۔ فیڈرل شریعت کورٹ کے کئی فیصلے موجود ہیں جن میں چند یا صرف ایک عورت کی گواہی پر بھی سزا دی گئی ہے۔ البتہ شریعت کا حد کے باب میں ہرہر جرم کے سلسلے میں اپنا شہادت کا معیار ہے اور وہ ایک  کل نظام کا حصہ ہے۔ اصل مسئلہ اسلام اور مغرب کے جداگانہ تصور اخلاق‘ نظامِ معاشرت اور جرم و سزا کے تصورات کا ہے۔ ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کے نام پر جس دین کو فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے‘ وہ خالص مغربی معاشرت اور تمدن ہے۔ اس کا اسلام کے نظامِ اقدار‘ اخلاق اور معاشرت سے کوئی تعلق نہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ جرنیلی آمریت بھی بش اور امریکا کے کروسیڈز کے ہم زبان ہوکر اسلامی شریعت کو اپنا مدمقابل سمجھتی ہے اوراب تو جنرل مشرف صاف کہنے لگے ہیں کہ القاعدہ سے بھی بڑاخطرہ طالبان ہیں اورطالبان صرف افغانستان کے لیے نہیں طالبانائی زیشن (talibanization) پاکستان کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے اور اس کے لیے انتہاپسند‘ ترقی کے مخالف اور نہ معلوم کون کون سی گالیاں وضع کرلی ہیں لیکن یہ سب دراصل اسوۂ محمدیؐ اور شریعت محمدیؐ سے فرار کی راہیں ہیں‘ اس کے سوا کچھ نہیں۔ اقبال نے سچ کہا تھا :

اے تہی از ذوق و شوق و سوز و درد

می شناسی عصر ما با ما چہ کرد

عصر ما مارا ز ما بے گانہ کرد

از جمال مصطفیؐ بے گانہ کرد

اے شوق و محبت اور سوز و گداز سے خالی شخص‘ تجھے خبر ہے کہ زمانے نے ہمارے ساتھ کیا (ظلم) کردیا ہے۔ زمانے نے ہمیں اپنے آپ سے بے گانہ کردیا ہے اور محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے حُسنِ کردار سے بھی بے گانہ کردیا ہے۔

جہاد سے فرار اور خانقاہی نظام کے احیا کے عزائم راہِ محمدؐ سے اُمت کو ہٹانے کے شیطانی منصوبے کا حصہ ہے___ مذہب انفرادی عمل ہے۔ سیاست‘ ریاست اور تہذیب و ثقافت سے اس کا کیا رشتہ؟ ابلیس نے یہی تو کہا تھا:

ہر نفس ڈرتا ہوں اس اُمت کی بیداری سے میں

ہے حقیقت جس کے دیں کی احتساب کائنات

مست رکھو ذکرو فکر صبحگاہی میں اسے

پختہ تر کر دو مزاج خانقاہی میں اسے

اور اس شیطانی حکمت عملی کے مقابلے میں اقبال نے وہی نسخہ تجویز کیا تھا جو روحِ اسلام کا مظہرہے     ؎ 

نکل کر خانقاہوں سے ادا کررسمِ شبیری

کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ دلگیری

جرنیلی آمریت کا ’اسلام‘ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلام ایک دوسرے کی ضد ہیںاور یہی وجہ ہے کہ محمدؐ کا اسلام جرنیلی آمریت‘ کیتھولک پوپ اور امریکی بش سب کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے ___ اور اس میں انھیں اپنے لیے خطرہ ہی خطرہ نظر آتا ہے۔

معاشی ’ترقی‘ کی حقیقت

جرنیلی آمریت نے ہر میدان میں منہ کی کھائی ہے۔ گارڈین کے نمایندے کو انٹرویو دیتے ہوئے جنرل صاحب کو خود اعتراف کرنا پڑا کہ ان کی مقبولیت برابر کم ہورہی ہے۔ جب جنرل مشرف سے پوچھا گیا کہ کس میدان میں وہ اپنے کو سب سے زیادہ کامیاب پاتے ہیں تو ارشاد ہوا___ معاشی ترقی اور اقتصادی کارکردگی کے میدان میں۔ یہ تو خود ایک طرفہ تماشا ہے کہ جرنیل صاحب نہ دفاعی میدان میں کوئی کارنامہ دکھاسکے اور نہ ملک میں امن و امان کا قیام ان کے نامۂ اعمال میں کوئی مقام پاسکا اور خود انھوں نے جس میدان کو اپنے لیے کامیاب میدان قرار دیا وہ  وہ تھا جس کے بارے میں خود انھوں نے اقتدار میں آنے کے بعد کہا تھا کہ میں اس سے بالکل نابلد ہوں۔

ہم صلاحیت اور استعداد کی بحث میں پڑے بغیر ان کے اس دعوے کا جائزہ لیں تو یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ چند نمایشی پہلوئوں کو چھوڑتے ہوئے معیشت کے میدان میں بھی جرنیلی آمریت  اتنی ہی تہی دامن ہے جتنی دوسرے میدانوں میں۔ محبوب الحق ہیومن ڈویلپمنٹ سنٹر کی تازہ ترین رپورٹ ہیومن ڈویلپمنٹ ان ساؤتھ ایشیا ۲۰۰۶ء ابھی اسی مہینے (ستمبر ۲۰۰۶ئ) شائع ہوئی ہے اور اس کے مطابق اگر ایک ڈالر یومیہ کو آمدنی کا معیار قرار دیاجائے تو پاکستان میں غربت کی شرح ۳۰فی صد سے زیادہ اور اگر دو ڈالر یومیہ کو بنیاد بنایا جائے تو۷۰ فی صد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ دولت کی تقسیم میں عدمِ مساوات میں برابر اضافہ ہورہا ہے۔ علاقوں کے درمیان بھی عدمِ مساوات بڑھ رہی ہے یعنی امیر امیر تر ہو رہے ہیں اور غریب غریب تر۔ افراطِ زر اور مہنگائی نے عام انسانوں کی کمر توڑ دی ہے اور اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے افراطِ زر کا جو جائزہ ستمبر ۲۰۰۶ء میں شائع کیا ہے اس کی رُو سے پچھلے سال اشیاے خوردنی کی قیمتوں میں ۱ئ۱۱ فی صد کا اضافہ ہوا ہے اور مزدوروں کی حقیقی قوتِ خرید میں برابر کمی واقع ہورہی ہے۔ (ملاحظہ ہو ڈان اور دی نیوز ۲۲ستمبر ۲۰۰۶ئ)

وزیراعظم صاحب خوش حالی کے اشاریے کے طور پر کاروں کی فروخت کا بار بار ذکر کرتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں ۱۶ کروڑ کی آبادی میں کار استعمال کرنے والے کتنے ہیں۔ لیکن جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے‘ ان کے اپنے دست ِ راست جرنیلی آمریت کی لبرل امپورٹ پالیسی پر پریشان ہیں۔ تازہ ترین سرٹیفکیٹ ان کے اپنے وزیرمملکت نے دیا ہے:

وفاقی وزیر مملکت اور منصوبہ بندی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر اکرم شیخ نے حکومت کی گاڑیوں کی درآمد کی لبرل پالیسی پر سخت تنقید کی ہے اور اسے ملکی صنعت کاروں کے مفاد کے خلاف قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر اکرم شیخ نے کہا کہ غریبوں کو روٹی چاہیے‘ نہ کہ درآمد شدہ گاڑیاں۔ (دی نیوز‘ ۲۲ستمبر ۲۰۰۶ئ)

فوجی آمریت کی معاشی پالیسی کاحاصل ہی یہ ہے کہ ٹوٹی ہوئی سڑکوں پر مہنگے پٹرول سے چلنے والی گاڑیوں کی ریل پیل ہے مگر پبلک ٹرانسپورٹ تباہ ہے اور عوام روٹی سے محروم ہیں۔

معاشی لبرلزم کا بڑا چرچا ہے اور جنرل صاحب اور ان کی معاشی ٹیم معاشی آزاد روی (economic liberalisation) پالیسی پر نازاں ہیں لیکن عالمی جائزے بتا رہے ہیں کہ اس میدان میں بھی ان کی کارکردگی خوش فہمی سے زیادہ نہیں۔ اسی مہینے جو عالمی جائزہ (Economic Freedom of the World - 2006 Annual Report) شائع ہوا ہے اس کے مطابق دنیا کے ۱۲۷ ملکوں کے سروے میں پاکستان کا نمبر ۹۵ ہے‘ جب کہ بھارت کا نمبر ۵۳ اورسری لنکا کا ۸۳ ہے۔ ہانگ کانگ اورسنگاپور نمبر ایک اور نمبر۲ پر آتے ہیں۔

جنرل صاحب اس دعوے سے اقتدار میں آئے تھے کہ کرپشن ختم کردیں گے مگر ان کے اردگرد سب وہی ہیں جوکرپشن میں بڑا نام پیدا کرچکے ہیں۔ جنرل صاحب کے دور میں یہ منظر بھی دیکھا گیا کہ سندھ کے وزیراعلیٰ نے اپنے ہی وزیر کے خلاف جومسلم لیگ(ق) کے صوبائی سیکرٹری بھی تھے بدعنوانی کی چارج شیٹ لگائی تھی اور خود ان وزیرصاحب نے اپنے وزیراعلیٰ صاحب پر جوابی چارج شیٹ لگائی اور ماشاء اللہ دونوں کو جنرل صاحب نے خاموش رہنے کا مشورہ دیا تھا اور وہ برابر ان کی ٹیم کا حصہ ہیں۔ اب انھی وزیراعلیٰ نے باقاعدہ بیان دیا ہے کہ کرپشن ہر حد کو پار کرگئی ہے اور اینٹی کرپشن کا شعبہ کرپشن ختم کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔ پھر اپنے افسروں سے ارشاد فرماتے ہیں کہ اگر کرپشن کو ختم نہیں کرسکتے تو اس میں کچھ کمی توکرا دو۔ لیکن عالم یہ ہے کہ کرپشن برابر بڑھ رہی ہے اور جرنیلی آمریت کی سرپرستی میں اس میں دن دونی اور رات چوگنی ترقی ہورہی ہے۔   نج کاری میں کرپشن اداراتی سطح پر جہاں پہنچ گئی ہے‘ اس کا ایک ثبوت اسٹیل مل کی نج کاری پر  سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے۔ اس طرح کی کوئی مثال اس سے پہلے نہیں ملتی۔

ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی پاکستان پر تازہ ترین رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس دور میں کرپشن تمام پہلے ادوارسے بڑھ گئی ہے۔ اس جائزے کی رو سے کرپشن کی تصویر کچھ یوں بنتی ہے:

بے نظیر کا پہلا دور               ۹۰-۱۹۸۹ء

۸ فی صد

نواز شریف کا پہلا دور           ۹۳-۱۹۹۰ء

۱۰ فی صد

بے نظیر کا دوسرا دور          ۹۶-۱۹۹۳ء

۴۸ فی صد

نواز شریف کادوسرا دورِ        ۹۹-۱۹۹۶ء

۳۴فی صد

جنرل مشرف کا دور               ۰۲-۱۹۹۹ء

۶۹ئ۳۲ فی صد

جنرل مشرف کا تازہ دور       ۰۶-۲۰۰۲ء

۳۱ئ۶۷ فی صد

(قومی کرپشن کا جائزہ ۲۰۰۶ئ‘ ص ۳۰)

یہ ہے جرنیلی آمریت کی حقیقی کارکردگی… پڑھتا جا‘ شرماتاجا!

راہِ عمل

حالات کے معروضی اور بے لاگ جائزے سے یہ اصولی نتیجہ سامنے آتا ہے کہ آمریت کبھی بھی صحیح نظام نہیں ہوسکتی۔ آمر اچھا انسان بھی ہوسکتا ہے اور برا بھی۔ پارسا بھی ہوسکتا ہے اور بدقماش بھی۔فوجی بھی ہوسکتا ہے اورسویلین بھی‘ لیکن آمریت کبھی خیر اور صلاح کا باعث نہیں ہوسکتی۔ یہ بلبلہ جب بھی پھٹتا ہے اس میںسے کثافت اور گندگی ہی نکلتی ہے۔ یہ تاریخ کا فیصلہ اور ہمارا اپنا تجربہ ہے۔ مسائل بے شمار ہیں اور ان میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ بلکہ جیساکہ ہم نے حقائق سے ثابت کیا ہے ملک جس خطرناک صورت حال سے آج دوچار ہے پہلے نہیں تھا___ لیکن ان سب مسائل کا حل صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ جرنیلی آمریت سے عوامی جدوجہد کے ذریعے نجات پائی جائے‘ اور یہ جدوجہد اس ہدف کو سامنے رکھ کر ہو کہ ایک جرنیل کی جگہ کوئی دوسرا جرنیل اور ایک آمر کی جگہ دوسرا آمر برداشت نہیں کیا جائے گا۔

جمہوریت اپنی تمام خرابیوں کے باوجود اپنے اندر اصلاح اور تبدیلی کا ایک راستہ رکھتی ہے اور عوام کے سامنے باربار جواب دہی کے لیے آنے کا نتیجہ بالآخر بہتری کی صورت میں نکلتا ہے۔ صبر اور تسلسل کے ساتھ اس عمل کو جاری رہنا چاہیے۔ اس سلسلے میں مختصر راستے (short cut)  کے دھوکے سے نکلنا ضروری ہے۔ آمریت سے نجات خود اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد کو آگے بڑھانے اور کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آمریت کا خاتمہ اس سلسلے میں     فتح باب کا درجہ رکھتا ہے۔ آج کی جرنیلی آمریت اس راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور جب تک یہ رکاوٹ دُور نہ ہو اسلامی نظام کے قیام کا سلسلہ شروع نہیں ہوسکتا۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستا ن کی بقا و استحکام اور خود اقامت دین کی جدوجہد کی کامیابی کے لیے دستوری عمل کی استواری‘ غیرجانب دارانہ عبوری حکومت کے تحت انتخابات‘ آزاد اور بااختیار الیکشن کمیشن کا قیام اور اس کے ذریعے انتخابات کا انعقاد‘ فوج کی سیاست سے مکمل اور دائمی بے دخلی___ یہ سب اس منزل کی طرف پیش قدمی کے لیے ضروری اقدام ہیں اوران کا حصول اس وقت پاکستان کوانتشار سے بچانے اور اس ملک کی آزادی اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔ اس وقت تمام سیاسی اور دینی قوتوں کو سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ذیلی مسائل اور اختلافات کو اپنی حدود میں رکھتے ہوئے مشترک قومی مقاصد کے لیے متحد ہوکر مسلسل جدوجہد کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت تھوڑی سی غفلت بھی بہت مہنگی پڑسکتی ہے اس لیے کہ   ع

لمحوں نے خطا کی ہے‘ صدیوں نے سزا پائی

آج بھی پاکستان ایک ایسے ہی فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے اور ہم بروقت فیصلے یا صحیح اقدام کے باب میں غفلت کے متحمل نہیں ہوسکتے اس لیے کہ    ؎

یہ گھڑی محشر کی ہے‘ تو عرصۂ محشر میں ہے

پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اسرائیل نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت‘ لبنان پر حملہ کر کے ۳۴ دن رات قوت کے بے محابا استعمال اور ظلم و تشدد کی ایک نئی داستان رقم کرنے کا کارنامہ انجام دیا ہے (جسے خود مغرب کی انسانی حقوق کی تنظیمیں انسانیت کے خلاف جرائم (crimes against humanity) قرار دے رہی ہیں) انھی ۳۴ شب وروز میں جدید ترین اور انتہائی تباہ کن اسلحے اور آلاتِ جنگ سے لیس دنیا کی چوتھی بڑی فوج کی ہمہ گیر جنگ (ہوائی‘ بحری اور بری) کے مقابلے میں حزب اللہ کے چند ہزار مجاہدوں کی سرفروشانہ مزاحمت ایک آئینہ ہے جس میں بہت سے چہرے اپنے تمام حسن و قبح کے ساتھ دیکھے جاسکتے ہیں۔ یوں انسان کی آنکھ دنیا ہی میں یَّوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْہٌ ج (اس روز کچھ لوگ سرخ رو ہوں گے اور کچھ لوگوں کا منہ کالا ہوگا۔ اٰل عمرٰن ۳:۱۰۶) کا چشم کشا اور ایمان افروز منظر دیکھ رہی ہے۔ مسئلہ کے تجزیے اور حالات کے مقابلے پر بات کرنے سے پہلے‘ عبرت اور موعظت کے ان مناظر پر ایک نظر ڈالنا مسائل کی حقیقت کو سمجھنے اور رزم گاہ کے تمام کرداروں کے چہروں کے اصل خدوخال اور نقش و نگار کو پہچاننے میں مددگار ہوگا۔

معرکۂ لبنان کے کردار

اس آئینے میں ویسے تو سارے ہی چہرے موجود ہیں لیکن ہم ان میں سے آٹھ کا ذکر مسائل کی تفہیم کے لیے ضروری سمجھتے ہیں:

سب سے پہلا چہرہ اسرائیل کا ہے اور وہی اس خونی ڈرامے کا اصل کردار بھی ہے۔ اسرائیل کوئی عام ریاست نہیں‘ مغرب کے ملمع سازوں اور تماشا گروں نے تو اسے علاقے کی ’واحد جمہوری ریاست‘ کا امیج (image) دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن اسرائیل نے خود اپنے کردار اور قوت کے نشے میں مست ہوکر انسانی تباہی‘ وسیع پیمانے پر ہلاکت خیزی اور جنگی جرائم کی نہ ختم ہونے والی حرکات کے ذریعے دنیا کو اپنی جو تصویر دکھا دی ہے‘ وہ اب کسی مصنوعی لیپاپوتی یا میڈیا کی جعل سازی سے تبدیل نہیں کی جا سکتی۔ جو باتیں بالکل واضح ہو کر سامنے آگئی ہیں وہ یہ ہیں:

۱- اسرائیل کا وجود اوراس کی بقا کا انحصار کسی اصول‘ حق یا عالمی ضابطے پر نہیں‘ قوت اور صرف قوت کے بے محابا استعمال پر ہے۔ اس کا قیام بھی تشدد اور قوت کی بنیاد پر ہوا اور علاقے میں اس کا وجود بھی صرف قوت کے سہارے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ اس کے لیے کوئی قانون ہے    اورنہ کوئی ریاستی حدود۔ چنانچہ جس فلسفے پر وہ عامل ہے اور اس کے پشتی بان اسی تصور پر اپنی   خارجہ پالیسی اورجنگی سیاست استوار کیے ہوئے ہیں کہ اسرائیل کی عسکری قوت کوناقابلِ مقابلہ (unchallengable) ہونا چاہیے اور صرف ایک یا دو پڑوسی ملکوں یا عالمِ عربی نہیں‘ بلکہ ایران اور پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک کے مقابلے میں اسرائیل کے پاس اتنی قوت ہونی چاہیے کہ وہ اس قوت کو جب چاہے اور جس موقع پر بھی وہ بزعمِ خود اپنے لیے کوئی خطرہ محسوس کرے تو بلا روک ٹوک اور جس طرح چاہے استعمال کرے۔ امریکا اور یورپ کے سامراجی ذہن نے اسے ’دفاعی اقدام‘ کا نام دیا ہے۔ جب امریکا یہ محسوس کرتا ہے کہ اسرائیل کی جارحانہ بلکہ دہشت گردانہ قوت میں کوئی کمی آرہی ہے تو آنکھیں بند کر کے اس کی قوت کو بڑھانے کے لیے جنگی سازوسامان کی ریل پیل کردی جاتی ہے۔ اسی بنیاد پر اسے نیوکلیر پاور بنایا گیا تھا۔ اس وجہ سے اسے ہرقسم کے تباہ کن اسلحے اور آلاتِ جنگ سے لیس کیا گیا‘ اسی دلیل پر ۱۹۷۳ء میں جب جنگ کا پلڑا صرف دو دن تک اس کے خلاف تھا اس کی مدد کی گئی اور اسی شرانگیز فلسفے کی وجہ سے حالیہ لبنان پر فوج کشی کے دوران امریکا نے برطانیہ کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کر کے تباہ کن بم ہی نہیں بلکہ ڈیزی کٹر اور زیرزمین مضبوط پناہ گاہیں تباہ کرنے والے بم (bunker buster) تک جہازوں میں لاد کر اسے پہنچائے۔

اسرائیل نے جو تباہی مچائی ہے اور جس پر ساری دنیا کے غیر جانب دار انسان چیخ اُٹھے ہیں۔ ٭وہ بھی اسرائیل کے اس فلسفۂ جنگ اور فلسفۂ وجود پر ایک معمولی سا دھبّا بھی نہیں لگاسکے اور اسرائیل اسی بنیاد پر قائم ہے۔

۲- اسرائیل بنیادی طور پر اس علاقے کی کوئی ریاست نہیں بلکہ اس کی حیثیت ایک استعماری قوت (colonial power)کی ہے جس نے فلسطین پر صرف قوت سے قبضہ ہی نہیں کیا بلکہ اسے آبادکاروں کی نوآبادی (settler colony) بھی بنا دیا‘ یعنی استعماری قوت کو دوام دینے کے لیے نقل آبادی اور زمینی حقائق کی تبدیلی تاکہ سرزمینِ فلسطین کے اصل باشندے یا دربدر کی ٹھوکریں کھائیں (آج ۴ ملین فلسطینی اپنے وطن سے باہر زندگی گزار رہے ہیں) یا پھر محکوم اور غلام بن کر رہیں اور یورپ اور امریکا سے کاکیش نسل کے یہودیوں کو اس سرزمین پر آباد کردیا جائے اور وہ بزور اس پر قابض رہیں۔ یہ دونوں پہلو یعنی اس کا نوآبادیاتی استعماری کردار اور آبادکاروں کی حیثیت اسرائیل کی اصل شناخت ہیں۔ لیکن اس میں ایک تیسرے پہلو کا اضافہ گذشتہ ۵۰سال میں اسرائیل اور امریکا کے سیاسی گٹھ جوڑ سے نمایاں ہوگیا ہے یعنی یہ کہ اب اسرائیل ان دونوں پہلوئوں کے ساتھ عرب دنیا میں امریکا کا ایک فوجی ٹھکانا بن گیا ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ پورے  علاقے کو امریکا کے سامراجی مقاصد کی خاطر استعمال کرنے کے لیے وہ چوکیدار کا کردار ادا کرے۔ اسے ایک غیرجانب دار مبصر نے یوں بیان کیا ہے:

اسرائیل ایک ملک نہیں ہے بلکہ مغربی ممالک کا فوجی اڈہ ہے تاکہ شرقِ اوسط اور مسلم ممالک کے تیل کے ذخائر پر کنٹرول رکھا جا سکے۔

اسرائیل کے تمام مظالم اور خلافِ انسانیت ہلاکت کاریاں اپنی جگہ‘ اس کے اصل چہرے کا سمجھنا ازبس ضروری ہے۔

اس آئینے میں دوسرا چہرہ امریکا کا صاف دیکھا جاسکتا ہے۔ امریکا اور اسرائیل کے کردار میں کوئی فرق باقی نہیں رہا ہے اور من تو شدم تو من شدی کا منظر صاف نظر آرہا ہے۔ اس لیے کہ اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے وہ امریکا کی پشت پناہی میں‘ اس کی باقاعدہ اعانت اور شمولیت سے اور اس کے علاقائی عالمی عزائم اور اہداف کے حصول کے لیے کر رہا ہے۔ یہ باہمی تعاون ایک مدت سے واضح ہے لیکن ۳۴ دن میں توہرچیز بالکل برہنہ ہوگئی ہے۔ بش اور کونڈولیزارائس نے پہلے دن سے اسرائیل کے اقدامات کی تائید کی اور صاف کہا کہ اسے حزب اللہ کو ختم کرنے اور لبنان کو سبق سکھانے کا حق حاصل ہے۔ G-8 سے لے کر روم کانفرنس تک امریکا نے تمام دنیا کی چیخ پکار اور کوفی عنان کی آہ و بکا کے باوجود فوری جنگ بندی کی پوری ڈھٹائی اور بے شرمی سے مخالفت کی‘ یورپ تک کی کوششوں کو آگے نہ بڑھنے دیا اور صاف کہا کہ اس قصے کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے اسرائیل کو تین ہفتے چاہییں اور وہ اسے ملنے چاہییں لیکن جب بازی اسرائیل کے خلاف پلٹنے لگی اور ایک ایک دن میں اسرائیل کے ۳۵ فوجی ہلاک ہونے لگے تو جنگ بندکرانے کے لیے امریکا بہادر تیار ہوگیا۔ اس زمانے میں ایران کو گالیاں دی جاتی رہیں کہ اس نے حزب اللہ کو اسلحہ دیا ہے اور خود جہاز پر جہاز اسرائیل کو روانہ کیے گئے اور اس جنگ میں ایک کھلا رفیق بن گیا جس کے نتیجے میں لبنان کے ۱۲۰۰ افراد شہید‘ ۵ہزار زخمی اور ۴۰ سے ۵۰ ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ پھر اسے زخموں پر نمک پاشی ہی کہا جاسکتا ہے کہ انسانی جانوں کی اس ہلاکت اور اس ہمہ گیر تباہی پر آنسو بہانے کے لیے امریکا نے ۵۰بلین ڈالر کی خطیرامداد کا اعلان کیا ہے۔ تفو برتو اے چرخ گرداں تفو۔ لبنان کے لیے واحد عزت کا راستہ یہی ہے کہ اس ۵۰بلین کی بھیک کو لینے سے انکار کردے اور ’عطاے تو بہ لقاے تو‘ کے اصول پر امریکا ہی کے منہ پر دے مارے!

یہ پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ امریکا لبنان کا بڑا دوست بنتا تھا۔ رفیق حریری کے قتل کے بعد جو ڈراما ہوا اس کا اصل ہدایت کار امریکا ہی تھا۔ ماشاء اللہ لبنان کے کئی وزیراعظم بھی ہمارے شوکت عزیز کی طرح امریکا کے سٹی بنک ہی کا تحفہ ہیں اور شام کو بے دخل کرنے اور حزب اللہ کو غیرمؤثر بنانے کے منصوبے میں اہم کردارادا کر رہے تھے لیکن اسرائیل کی تائید میں لبنان کی امریکا نواز حکومت کو بھی بے سہارا چھوڑ دیا گیا اور اسرائیل کی جارحیت کو لگام دینے کی کوئی ظاہری کوشش بھی نہ ہوئی۔ جس نے ایک بار پھر اس حقیقت کو لبنان ہی نہیں پوری دنیا کے سامنے واضح کردیا کہ امریکا سے زیادہ ناقابلِ اعتماد کوئی ’دوست‘ نہیں ہوسکتا اور لبنان کے وہ عیسائی اور لبرل امریکا نواز بھی پکار اُٹھے کہ آزمایش کی اس گھڑی میں حزب اللہ اور حسن نصراللہ نے ہماری مدد کی اور جن کے دامن کو ہم نے تھاما تھا وہ گھر کو آگ لگانے والوں کا ساتھ دیتے رہے۔

یہ ہے امریکا کا اصل چہرہ!

ایک تیسرا چہرہ اقوام متحدہ کا بھی ہے۔ اس ادارے کا مقصد جارحیت کا شکار ہونے والوں کی مدد کو پہنچنا اور جارح کا ہاتھ پکڑنا ہے۔ لیکن افغانستان اور عراق پر امریکی حملوں کے وقت اس نے جو شرم ناک کردار ادا کیا‘ اس کا اظہار اس موقع پر بھی ہوا۔ ۳۴ دن تک یہ بے بسی کی تصویر بنا رہا اور امریکا کی مرضی کے خلاف کوئی اقدام نہ کرسکا۔ جب امریکا اوراسرائیل کو اپنے مقاصد میں ناکامی ہوتی نظر آئی تو جنگ بندی کی قرارداد منظور کی گئی۔

ایک چوتھا چہرہ یورپی اقوام کا بھی سامنے آتا ہے جو ایک طرف اپنے معاشی مفادات کی خاطر عرب دنیا سے قربت کا مظاہرہ کرتی ہیں اور کبھی کبھی امریکا سے کچھ اختلاف کا اظہار بھی کرتی ہیں لیکن اس کے باوجود جب آزمایش کی گھڑی آتی ہے تو عملاً ان کا وزن اسرائیل اور امریکا ہی کے ساتھ ہوتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ امریکا کھلے بندوں دل و جان سے یہ ظلم کرتا ہے اور یورپی اقوام ذرا بے دلی اور ہمدردی کے ایک آدھ بول کے ساتھ وہی کام انجام دیتی ہیں۔ ان کی دوستی اور تعاون پر بھی اعتماد دانش مندی کا تقاضا نہیں۔

اس آئینے میں ایک پانچواں چہرہ بھارت کا بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اسرائیل کی جارحیت پر خاموشی‘ لبنان اور فلسطین کی مدد اور تائید کے باب میں بے التفاتی۔ جیسے یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ امریکا اور اسرائیل سے نئی نئی دوستی پر فلسطین اور عربوں سے ساری ہمدردی سے دست برداری‘ لیکن اس سے بڑھ کر اسرائیل کو خوش کرنے اور امریکا سے دفاعی معاہدے کومستحکم کرنے کے لیے بھارت کے تمام چینلوں اور ہوٹلوں تک پر عرب چینلوں خصوصیت سے الجزیرہ کی نمایش پر پابندی تاکہ بھارت کے عوام یا بھارت میں آنے والے عرب‘ اسرائیل کے مظالم کے تصویری عکس بھی نہ دیکھ سکیں۔ یہ ہے بھارت کی ’قابلِ اعتماد دوستی‘ اور بھارت اور پی ایل او اور یاسرعرفات کی پینگوں کا حاصل!

حزب اللّٰہ کا عزم و ایمان

آئینے میں ایک چھٹا چہرہ ان عرب اور مسلمان حکمرانوں کا بھی نظر آتا ہے جنھوںنے اپنے مفادات کو امریکا سے وابستہ کرلیا ہے اور اس دبائو میں اسرائیل کے ساتھ دوستی سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ان حکمرانوں میں سے تین نے تو کھل کر پوری دریدہ دہنی کے ساتھ حزب اللہ اور حماس کو موردالزام ٹھیرایا اور انھیں سرزنش بھی کی۔ اس میں مصر کے صدر بہادر‘ اُردن کے بادشاہ سلامت اور سعودی عرب کے وزیرخارجہ سب سے پیش پیش تھے۔ لیکن بات صرف ان تین کی نہیں‘ عرب لیگ جنگ بندی کے ۳۴ دن تک کوئی متفقہ موقف اختیار نہ کرسکی۔ او آئی سی نے ۲۳ دن بعد اپنے ایک ۱۱ رکنی رابطہ گروپ کا اجلاس بلایا اور پھر خالی خولی زبانی احتجاج سے آگے نہ بڑھ سکی۔ بحیثیت مجموعی تمام ہی حکمران یا خاموش رہے یا بددلی اور بزدلی کے ساتھ چند بیانات سے آگے نہ بڑھے اور اس طرح ایک بار پھر یہ بات الم نشرح ہوگئی کہ یہ حکمران اُمت مسلمہ کے حقیقی ترجمان نہیں۔ یہ اپنے مفادات کے بندے ہیں یا امریکا اور مغربی سامراج کے کاسہ لیس‘ اس سے زیادہ ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ ان کے دل اُمت مسلمہ کے ساتھ نہیں دھڑکتے۔ انھیں اُمت کے مفادات کا کوئی لحاظ نہیں اور یہ عیش و عشرت کی اس زندگی کے عادی ہوچکے ہیں جسے اختیار کرنے کے بعد عزت کی زندگی کے سارے امکانات ختم ہوجاتے ہیں۔

ان چھے چہروں کے علاوہ بھی کچھ چہرے ہیں جو اسی آئینے میں نظر آتے ہیں اور بڑے روشن اور تابندہ نظر آتے ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں اور سب سے درخشاں چہرہ حزب اللہ اور حماس کا ہے۔ جس چڑیا کو مارنے کے لیے اسرائیل نے توپ چلائی تھی وہ اسی طرح چہچہاتی رہی اور اسرائیل اپنی توپ و تفنگ کے ساتھ‘ ۳۴ دن تک آگ اور خون کی بارش برسانے کے باوجود اس کابال بھی بیکا نہ کرسکا۔ چند ہزار مجاہدین نے ایک عظیم مجاہد لیڈر حسن نصراللہ کی قیادت میں اسرائیل کے دانت کھٹے کردیے اور اس کے سارے غرور کا طلسم توڑ کر رکھ دیا۔ انھوں نے اللہ کے بھروسے پر جان کی بازی لگا دی۔ لبنان تباہ ہوگیا مگر ان کے عزم و ہمت پر آنچ بھی نہ آئی۔ اسرائیل نے لبنانی سرحد سے دو میل کے فاصلے پر بنت جبیل کے قصبے پر تین بارقبضہ کیا اور تینوں بار اسے پسپا ہونا پڑا۔ یہ صرف ایک معرکے کی داستان نہیں‘ یہ ۳۴ دن کے خونیں معرکے کے شب و روز کی کہانی ہے     ؎

اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے

اتنا ہی یہ اُبھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے

اللہ کے فضل سے حزب اللہ نے اسرائیل کے ناقابلِ تسخیر (invincible) ہونے کے دعوے کی قلعی کھول دی ہے۔ بے سروسامانی اور وسائل اور تعداد کے نمایاںترین بلکہ محیرالعقول فرق کے باوجود‘ اسرائیل اپنے کسی ایک ہدف میں بھی کامیاب نہیں ہوسکا۔ وہ اپنے دو فوجی چھڑانے آیا تھا‘ مگر اس نے اپنے ۲۰۰ فوجی مروا دیے اور وہ دو فوجی بدستور حزب اللہ کی قید میں ہیں‘ وہ حزب اللہ کی کمر توڑنے اور اسے صفحۂ ہستی سے مٹانے کے زعم کے ساتھ آیا تھا اور اس کی فوج ۳۴ دن کی گولہ باری اور فضائی‘ بحری اور بری جنگ کے باوجود حزب اللہ کے مقابلے کی قوت کو کم نہ کرسکی اور آخری دن میں اس نے اسرائیل پر ۲۴۶راکٹ داغے اور پہلی مرتبہ اسرائیل کو ایسے جنگی نقصانات برداشت کرنے پڑے جن سے پچھلے ۶۰سال میں بھی اس کو سابقہ پیش نہ آیا تھا۔ وہ تو سمجھتا تھا کہ عرب لڑنا نہیں جانتے اور ۶ سے ۱۷ دن میں ان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا سکتاہے۔ اس مرتبہ اسے جنگ سے نکلنے کے لیے راستے تلاش کرنا پڑے اور پہلی مرتبہ اسرائیل کے ۲۰۰ فوجی ہلاک‘ ۵۰۰ زخمی‘ اسرائیل کے اندر ۵ہزار راکٹوں کی بارش‘ ۴ لاکھ اسرائیلیوں کا حفاظتی بنکرز میں ایک مہینہ گزارنا اور ایک ملین کو نقل مکانی کرنا پڑی۔ اسرائیل پر راکٹوں کے حملے کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کا ابھی اندازہ کیا جا رہا ہے لیکن ابتدائی تخمینوں کے مطابق فوجی اور سول تنصیبات کے باب میں ۵ئ۱ ملین ڈالر اور معیشت کے میدان میں ۳ سے ۵ بلین ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ یہ مزہ اسرائیل نے پہلی بار چکھا ہے اور دنیا نے یہ منظر دیکھ لیا کہ ایمان‘ عزت و آبرو اور مناسب تیاری کے ذریعے کس طرح آج بھی وسائل کی کمی کے باوجود مسلمان دشمن کے دانت کھٹے کرسکتے ہیں    ؎

فضاے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو

اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

حزب اللہ اور جہادی عزم و مسلک نے اگر اسرائیل کی قوت پر ضرب کاری لگاکر اس کے ناقابلِ شکست ہونے کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے تو وہیں ایک طرف اس نے اُمت مسلمہ کا سر اللہ کے سامنے شکرکے جذبات سے جھکا دیا ہے اور دوسری طرف مادی وسائل اور عسکری قوت کی پجاری دنیا کے سامنے عزت سے بلند کردیا ہے‘ اوروہ جنھیں کمزور سمجھ کر اہلِ قوت پامال کرنے پر تلے ہوئے تھے‘ ان کو ایک نیا عزم‘ نئی ہمت‘ نیا ولولہ اور مقابلے کی نئی اُمنگ دی ہے۔ کونڈولیزا رائس اور جارج بش دونوں نے کہا تھاکہ لبنان کوسبق سکھانے کے اس جارحانہ اقدام کے بطن سے امریکا کے حسبِ خواہش ایک نیا شرق اوسط جنم لے گا___ لیکن ان شاء اللہ ایک نیا شرق اوسط تو ضرور جنم لے گا مگر وہ امریکا کا لے پالک نہیں ہوگا بلکہ اسلامی نشاتِ ثانیہ کا پیامبر ہوگا۔ حزب اللہ اب ایک تنظیم کا نام نہیں‘ ایک عالمی تحریک کا عنوان اور تبدیلی کے رخ کا مظہر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُردن کے وہی حکمران شاہ عبداللہ جس نے چار ہفتے قبل ان پر حرف زنی کی تھی وہ اب یہ کہنے پر مجبور ہوا ہے کہ:

عرب عوام کی نظروں میں حزب اللہ ہیرو ہیں‘ اس لیے کہ یہ اسرائیل کی جارحیت کا مقابلہ کر رہی ہے۔ (دی نیشن‘ ۱۲ اگست ۲۰۰۶ئ)

اور حزب اللہ کا مخالف ولید جنبلات جو دروز کمیونٹی کا لیڈر ہے اورجسے اسرائیل نے ۱۹۸۰ء کی جنگ میں حلیف بنایا ہوا تھا اب کہہ رہا ہے کہ:

آج لبنان اپنی بقا کے لیے حزب اللہ اور حسن نصراللہ کا مرہونِ منت ہے جنھوں نے اسرائیل کو شکست دی ہے۔ یہ ایک یا دوسرے حصے کو حاصل کرنے یا کھونے کا مسئلہ نہیں‘ انھوں نے اسرائیل کو شکست دی ہے۔ (دی نیشن‘ ۲۱ اگست ۲۰۰۶ئ)

یہ وہ حقیقت ہے جس کا اعتراف ہر سطح پر اور ہر حلقے میں ہو رہا ہے بجز امریکی وائٹ ہائوس کے‘ لیکن تاریخ اسے پیچھے چھوڑ گئی ہے۔ حزب اللہ کے اس تابناک چہرے کے ساتھ ان ہزاروں مصیبت زدہ انسانوں کا چہرہ بھی اسی آئینے میں نظر آرہا ہے جو اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنے ہیں‘ جن کے اعزہ ہمیشہ کی نیند سلا دیے گئے ہیں‘ جن کے گھر اور کاروبار تباہ کر دیے گئے ہیں‘ جن کے ملک کو کھنڈر بنا دیا گیا ہے مگر ان کا ایمان تابندہ ہے‘ ان کا عزم جوان ہے‘ جو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہہ رہے ہیں کہ ہمارے گھر تباہ ہوگئے ہیں لیکن ہمارا سر بلند ہے۔ سیکڑوں انٹرویو دنیا بھر کے میڈیا میں بشمول بی بی سی اس پر گواہ ہیں کہ ایک ماں جس کے جوان بچے شہید ہوگئے ہیں لیکن وہ پورے سکون سے کہتی ہے کہ ان کا غم اپنی جگہ ‘ لیکن مجھے اپنی قربانی پر فخر ہے۔

صرف ایک دو مثالیں:

بی بی سی کا نمایندہ ایک ملبے میں تبدیل ہوجانے والے مکان کے مالک سے پوچھتا ہے: ’’آپ کو تو بڑی قیمت ادا کرنی پڑی‘‘۔ تو اس کا جواب ہے: ’’تمھیں کیا پتا    نہیں‘ ہمارے ہاں ناک کی کیا اہمیت ہے۔ ٹھیک ہے‘ کچھ نہیں رہا مگر ناک تو اُونچی ہے۔ ہم سب ہیرو ہیں۔ گھر کا کیا ہے‘ وہ تو پھر بھی بن جائے گا۔ (بی بی سی‘ سیربین‘ ۱۵اگست ۲۰۰۶ئ)

ایک باپردہ مگر باعزم ماں جس کی اولاد شہید اور گھر تباہ ہوگیا تھا اسی ملبے پر بیٹھی ہے اور کہہ رہی ہے:

یہاں سے اب کہیں اور جانا شکست ماننا ہے۔ اسرائیل اس سے زیادہ اور کر بھی کیا سکتا ہے اور گھر تباہ کردے اور بچے مار دے لیکن کیا فرق پڑتاہے۔ جو زندہ ہیں وہ ایک دن بڑے تو ہوں گے اور پھر بندوق اٹھا لیں گے۔ (ایضاً)

جس قوم میں یہ جذبات اور یہ عزائم ہوں انھیں کوئی شکست نہیںدے سکتا۔ ضرورت صحیح لیڈرشپ‘ صحیح اہداف کے تعین اور صحیح تیاری اور نقشۂ کار کے مطابق کارکردگی کی ہے۔

جن جذبات کا اظہار لبنان کے عام مسلمان ہی نہیں‘ سب مذاہب‘ مسلکوں اور قومیتوں کے لوگ کر رہے ہیں‘ وہی جذبات اور احساسات پوری دنیا کے مسلمانوں اور انصاف پسند انسانوں کے ہیں۔ اس آئینے میں عوام و خواص اور اسٹریٹ و اسٹیٹ کے درمیان جو بعدعظیم آج پایا جاتا ہے‘ اس کے ہر نقش و نگار کودیکھا جاسکتا ہے۔ استنبول کی سڑکیں ہوں یا قاہرہ کی گلیاں‘ لاہور کی   شاہ راہ ہو یا جدہ اور مدینہ کے راہ گزار‘ ہر جگہ عام آدمی کے جذبات و احساسات ایک ہیں۔ اور اس فرق کو کوئی نظرانداز نہیں کرسکتا جو آج حکمرانوں اور عوام کے درمیان پایاجاتا ہے۔

یہ آٹھ چہرے اس دور کی سب سے اہم آٹھ حقیقتوں کے مظہر ہیں اور مستقبل کے نقوش کو ان کی آنکھوں کی چمک اور چہرے کے رنگ میں دیکھا جاسکتا ہے۔

امریکی صھیونی عزائم

معرکۂ لبنان کے اس تناظر میں اب یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جولائی کی فوج کشی کے اصل مقاصد کیا تھے؟ ۱۴ اگست کی لرزتی کانپتی جنگ بندی کے بعد اسرائیل اور امریکا کے اہداف کیا ہیں اور معرکۂ لبنان کے نتیجے میں اور اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ کے مطابق وَیَمْکُرُوْنَ وَیَمْکُرُ اللّٰہُ ط وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ (وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے۔ الانفال ۸: ۳۰)‘  اُمت مسلمہ کے لیے نقشۂ راہ کیا ہے؟ ان تینوں بنیادی امور کے بارے میں ہم مختصراً اپنی معروضات پیش کرتے ہیں:

جہاں تک ۱۲ جولائی سے شروع ہونے والی چھٹی اسرائیلی جنگ کا تعلق ہے‘ اس کی وجہ کا رشتہ فلسطین میں ایک اور لبنان میں دو اسرائیلی قیدیوں سے جوڑنا محض دھوکا اور سیاسی شعبدہ گری کا حربہ ہے۔ سرحدی چھیڑچھاڑ‘ فائرنگ‘ میزائل کا استعمال‘ ہوائی حملے‘ اس علاقے میں زندگی کا معمول ہیں۔ اسرائیل کے قبضے میں فی الوقت ایک ہزار فلسطینی‘ ایک سو سے زائد لبنانی جن میں سے ۳۰ کا تعلق حزب اللہ کے کارکنوںسے ہے اور ۳۰ اُردن کے باشندے ہیں۔ ماضی میں کئی بار قیدیوں کا تبادلہ ہواہے اور یہ ایک معمول کی کارروائی ہے۔ اس کا کوئی تعلق جولائی کے حملے سے نہیں۔ اس حملے کی تیاری اسرائیل دو سال سے کر رہا تھا‘ گذشتہ سال باقاعدہ اس کے لیے مشقوں کا اہتمام بھی کیا جاچکا تھا اور گذشتہ دو مہینے میں صرف جنگی سازوسامان اور رسد کی ترسیل ہی نہیں‘ امریکا کے مکمل تعاون کے ساتھ جنگ کا پورا نقشہ تیار کرلیا گیا تھا اور پوری تیاری سے یہ حملہ فوجیوں کی گرفتاری کو بہانہ بناکر کیا گیا۔ اس سلسلے میں سارے حقائق امریکا میںاور اسرائیل میں سامنے آچکے ہیں۔

امریکی رسالے دی نیویارکر کے ۲۱ اگست کے شمارے میں مشہور امریکی صحافی اور مصنف سائمورہرش (Seymour Hersh)کا مفصل مضمون شائع ہواہے جس میں پورے منصوبے کی اور اس میں امریکا کے کردار کی تفصیلات شائع ہوگئی ہیں۔ یہ اسرائیلی حملہ امریکا کے ایما پر اور اس کی اس خواہش کی تکمیل میں انجام دیا گیا کہ حزب اللہ پر بطور پیش بندی کارروائی کی جائے۔ ہرش کے الفاظ ہیں: a preemptive blow against Hezbollah

اس کا ایک مقصد ایک اہم امریکی شریک راز کے الفاظ میں یہ تھا: ہم چاہتے تھے کہ  حزب اللہ کو ختم کریں‘ اب ہم دوسرے سے یہ کروا رہے ہیں‘ یعنی اسرائیل نے امریکا کے پروگرام کے تحت یہ حملہ کیا۔

اس سلسلے میں ایک بڑا اہم مضمون سان فرانسسکو کرانیکل میں ۲۱ جولائی کو حملے کے ۹ دن کے بعد شائع ہوا تھا جس میں اس چار نکاتی پروگرام کی پوری تفصیل دی گئی تھی جس میں اسرائیل نے امریکی قیادت کوا پنے منصوبے سے آگاہ کیا اور اس کی تائید اور تعاون حاصل کیا۔ امریکا کی بار اِلان (Bar-Ilan) یونی ورسٹی کے شعبۂ سیاسیات کے پروفیسر جیرالڈ سٹین برگ نے اس پوری تیاری اور منصوبے کو اس طرح پیش کیا ہے:

۱۹۴۸ء کے بعد اسرائیل نے جتنی بھی جنگیں لڑی ہیں‘ یہ ان میں سے وہ تھی جس کے لیے اس نے سب سے زیادہ تیاری کی تھی۔ ایک طرح سے ۲۰۰۰ء میں اسرائیلی فوجوں کی واپسی کے بعد سے ہی یہ تیاری شروع ہوگئی تھی۔

اس لیے یہ بات اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ یہ طے شدہ منصوبے کے مطابق اسرائیل کی چھٹی جنگ تھی اور اس کے متعین اہداف تھے جو اللہ تعالیٰ کی حکمت سے خاک میں مل گئے۔ مگر ان کا سمجھنا ضروری ہے‘ نیز یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ اس ناکامی کے باوجود اہداف نہیں بدلے ہیں اورجنگ بندی صرف تیاری اور نئی جنگ کے لیے صف بندی کا ایک وقفہ ہے‘ چین کا سانس لینے کی مہلت نہیں۔

اس وقت اسرائیل اور امریکا کا پہلا ہدف حزب اللہ کا خاتمہ‘ حسن نصراللہ کی شہادت اور لبنان کو ایک ایسی ریاست میں تبدیل کرنا تھا جو اسرائیل کی معاون بنے اور وہاں اسلامی قوتوں کے لیے زمین تنگ کردی جائے۔

حزب اللہ کے خاتمے کے ساتھ ہدف یہ بھی تھا کہ حزب اللہ کے مؤیدین کی حیثیت سے ایران اور شام پر لشکرکشی کی جائے۔ ایران پر اس کی ایٹمی صلاحیت کو تباہ کرنے کے لیے اور شام پر فلسطین کی تحریکات مزاحمت خصوصیت سے حماس اور اسلامی جہاد کی قیادت کو پناہ گاہ فراہم کرنے اور ان تحریکوں کی سیاسی مدد کرنے کے جرم میں۔ مصر اور اُردن کو قابو کرنے‘ عراق کو تباہ کرنے اور سول وار کی آگ میں جھونک دینے اور سعودی عرب اور خلیج کے ممالک کو عملاً ایک تابع مہمل بنالینے کے بعد اب ایران اور شام آنکھوں میں کانٹوں کی طرح کھٹک رہے تھے اور ساتھ ہی پاکستان اس سلسلے کا آخری ہدف ہے کہ یہ افغانستان پر امریکی قبضے کے باوجود ان کے خیال میں دہشت گردوں کی پناہ گاہ بنا ہوا ہے۔

ایک ترتیب سے اور شاید اسی ترتیب سے___ یعنی لبنان‘ایران‘ شام اور پاکستان___ نئی جنگی حکمت کی نقشہ بندی کی گئی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ پہلی ہی منزل پر اسرائیل کو منہ کی  کھانی پڑی ہے اور امریکا کا پورا منصوبہ طشت ازبام ہوگیا ہے لیکن یہ سمجھنا کہ اسے ترک کردیا گیا ہے‘ ہمالہ سے بڑی غلطی ہوگی۔

جنگ بندی ایک عارضی عمل ہے اور اب بھی پوری کوشش کی جائے گی کہ حزب اللہ کو غیرمسلح کرنے اور لبنانی فوج جس کی اس وقت کیفیت یہ ہے کہ اس میں عیسائیوں اور دروزی عناصر کو اکثریت حاصل ہے اور مثبت پہلو صرف یہ ہے کہ اپنے اسلحے اور تربیت کے اعتبار سے وہ کوئی   بڑی قوت نہیں‘ لیکن منصوبہ یہی ہے کہ اسے اور اقوام متحدہ کی نام نہاد امن فوج کو حزب اللہ کے خلاف استعمال کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ فرانس‘ جرمنی اور اٹلی تک شاکی ہیں کہ اصل کھیل کیا ہے۔ پاکستان کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اصل نقشے کو سمجھ کر اپنی پالیسی بنائے اور اس جال میں کسی قیمت پر اور کسی شکل میں نہ پھنسے۔

مستقبل کے لیے اس نقشے میںجو توسیع کی گئی ہیں ان کو دو نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ پہلے یہ خیال تھا کہ جن ممالک میں امریکی اسرائیلی منصوبے کے خلاف مزاحمت پائی جاتی ہے وہاں حکمرانوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے۔ لیکن اب اس پر اضافہ یہ ہے کہ محض حکمرانوں کی تبدیلی سے دیرپا مقاصد حاصل نہیں ہوسکتے اس لیے علاقوں کی حیثیت میں تبدیلی (change of region) کیا جائے یعنی عرب اور مسلم دنیا (بشمول پاکستان) کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم  کیا جائے جن کی نکیل بآسانی اپنے ہاتھ میں رکھی جائے۔ اس طرح اس حکمت عملی کا پہلا ستون حکمرانوں اور علاقوں کی تبدیلی ہے۔

اس کا دوسرا اور اہم ترین ستون اسلام کی تعمیرنو ہے جس کے نتیجے میں جہاد کے تصور کو نکال دیا جائے‘ اور اسلام کے سیاسی کردار کو ختم کردیا جائے۔ روشن خیال اور اعتدال پسندی کے نام پر‘ صوفیانہ اسلام کا ایک ایسا اڈیشن تیار کیا جائے کہ ظلم اور استبداد کی قوتوں کے خلاف مزاحمت کی جو عالمی تحریک اسلام کے زیراثر رونما ہوتی رہی ہے اور ہوتی رہے گی‘ اس کا دروازہ بند کردیا جائے تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔

معرکۂ لبنان  کی اصل اہمیت یہ ہے کہ اس نے امریکی اسرائیلی منصوبے پر اس پہلے مرحلے ہی میں بند باندھ دیا ہے۔ منصوبہ بھی کھل کر سامنے آگیا ہے اور اس کے مقابلے کا راستہ بھی کسی ابہام کے بغیر اُمت کے سامنے ہے‘ اور دشمن کو بھی اس کا پورا ادراک ہے۔

مقابلے کی حکمت عملی

اگر یہ نقشۂ جنگ ہے تو پھر مقابلے کی حکمت عملی کیا ہونا چاہیے؟ جیساکہ ہم نے عرض کیا معرکۂ لبنان میں اس کے تمام خدوخال دیکھے جاسکتے ہیں۔ ہم صرف ان کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

پہلی ضرورت رجوع الی اللہ کی ہے۔ مسلمان کی طاقت کا منبع اللہ کی ذات‘ ایمان کی قوت اور اخلاق و کردار کا ہتھیار‘ جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت ہے۔

دوسری بنیادی چیز اپنے اہداف اور مقاصد کا صحیح شعور اور دشمن کے اہداف اور مقاصد کا پورا ادراک ہے۔ یہ مقابلہ حقائق کے میدان میں ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ رب سے رشتہ کے ساتھ دنیاوی اعتبار سے جو نقشۂ جنگ ہے اس کا پوراشعور اور لوہے کولوہے سے کاٹنے کی حکمت عملی پر عمل ہے۔

تیسری چیز یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مسلمانوں کی قوت کا ایک بڑا سرچشمہ ان کا اتحاد ہے اور دشمن کی چالوں میں سب سے شاطرانہ چال اُمت کو قومیتوں‘ فرقوں اور گروہوں میں تقسیم کرکے فاسد بنیادوں پر انھیں ٹکڑے ٹکڑے کردینا ہے۔ معرکۂ لبنان میں جس طرح شیعہ سنی مسئلے کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی‘ عراق میں جس طرح یہی خونی کھیل کھیلا جارہا ہے‘ پاکستان اور افغانستان میں جس طرح اسی حربے کو استعمال کیا جا رہا ہے‘ وہ ایک کھلی کتاب ہے۔ لیکن معرکۂ لبنان ہی کا یہ درس بھی ہے کہ معرکہ اُمت مسلمہ اور اسرائیل کے درمیان ہے‘ شیعہ سنی مسئلہ نہیں۔ یہ سارا امریکی منصوبہ ہے کہ عرب دنیا کی سنی قیادتوں کو شیعہ ہوّا دکھا کر شیعہ سنی تنازع کو ہوا دی جائے‘ ایک جنگی چال ہے جسے اُمت اور اس کی قیادتوں کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔

چوتھی بنیادی چیز جذباتیت سے بالا ہوکر دشمن کے مقابلے کی مؤثر صلاحیت پیدا کرنے اور صحیح منصوبہ بندی اور مقابلے کی حکمت عملی کے تحت دشمن کو ناکام بنانے کی ضرورت ہے۔ حزب اللہ نے صرف اللہ ہی سے رشتہ نہیں جوڑا‘ اپنے عوام سے بھی قریب ترین تعلق استوار کیا‘ ان کے اعتماد کو حاصل کیا اور انھیں یہ یقین دلایا کہ وہ ان کے خادم اور محافظ ہیں اور صادق اور امین ہیں۔ ساتھ ہی وسائل کی کمی اور شدید ترین عدمِ مساوات کے باوجود‘ اپنے وسائل کے دائرے میںایسی متبادل تیاری کی جو ایف-۱۶ اور جدید ترین ٹینکوں کے نہ ہونے کے باوجود دشمن پر کاری ضرب لگانے اور ان کی فنی ٹکنالوجی کی برتری کو غیرمؤثر کرنے کا ذریعہ بن سکی۔ حزب اللہ نے اسرائیل کے      ہیلی کاپٹروں‘ ٹینکوں‘ بحری جنگی جہازوں کو ناکارہ بنا دیا‘ اور گوریلا جنگ کے ذریعے اسرائیل کی  اعلیٰ جنگی مشینری کو غیرمؤثر بنا دیا۔ ٹکنالوجی ہمارے لیے بھی ضروری ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ مخالف کے پاس جو کچھ ہے‘ وہ ہمارے پاس بھی ہو۔ ہاں ہمارے پاس اس کا توڑ ضرور ہونا چاہیے۔ بس یہی وہ نکتہ ہے جو معرکۂ لبنان میں بہت کھل کر سامنے آگیا ہے اور قوت اور وسائل کے   شدید عدمِ تفاوت کے باوجود دشمن کو زیر کرنے کا راستہ صاف نظر آرہا ہے۔

ان نکات کی روشنی میں سب سے اہم چیز اللہ سے رجوع کے ساتھ مقابلے کی تیاری اور اس کے لیے مسلم ممالک کے اندرونی نظام کی اصلاح کو اوّلیت دینا ضروری ہے تاکہ اُمت کے وسائل اُمت کے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال ہوسکیں اور ان پر وہ قابض نہ رہیں جن کے سامنے صرف اپنی ذات کا نفع اور اپنے وسائل کو دوسروں بلکہ دشمنوں کی خدمت میں دے دینا ہو۔

کتنے افسوس کی بات ہے کہ جس وقت لبنان کی تباہی اور بارہ سو جانوں کی ہلاکت کے ساتھ‘ جس کی کوئی قیمت نہیں ہوسکتی‘ مادی اعتبار سے ۴۰ سے ۵۰ بلین ڈالر کا اندازہ دیا جا رہا ہے سعودی عرب برطانیہ سے دسیوں ارب ڈالر کے عوض وہ جنگی جہاز (ہوائی) کا سودا کر رہا ہے جن کا کوئی تعلق عرب ملکوں یا اسلامی دنیا کے دفاع سے نہیں ہوگا جس طرح ماضی کی ایسی تمام خریداریوں کا رہا ہے۔ خود پاکستان ۵ ارب ڈالر کے عوض ایف-۱۶ حاصل کرنے کے لیے بے چین ہے جن کا کنٹرول امریکا کے ہاتھوں میں ہوگا اور امریکا کی اجازت کے بغیر ان کو پاکستان کی حدود میں بھی حرکت میں نہیں لایا جا سکے گا۔ ان حالات کا ایک ہی تقاضا ہے کہ مسلم دنیا کے سیاسی نظام کو اُمت کی بالادستی میں لایا جائے۔ ان حکمرانوںسے نجات پائی جائے جو استعماری قوتوں کے آلہ کار ہیں اور اُمت کے وسائل میں خیانت ہی نہیں کر رہے‘ انھیں دشمن کے مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ اگر حزب اللہ کو لبنان کی سیاست میں وہ حیثیت حاصل نہ ہوتی جن کی بنا پر وہ اتنا کلیدی کردار ادا کر سکی ہے تو لبنان کا معرکہ بھی تباہی کی ایک اور داستان بن جاتا لیکن اللہ سے تعلق‘ جہاد سے وفاداری‘ عوام سے رشتہ‘ مناسب تیاری اور اس کے ساتھ مؤثر سیاسی حکمت عملی نے معرکۂ لبنان کو تاریکیوں میں روشنی کی ایک تابناک کرن بنا دیا ہے___ اور یہی وہ روشنی ہے جو ہمارے مستقبل کو تابناک کرسکتی ہے۔