مضامین کی فہرست


اگست ۲۰۱۶

۸جولائی۲۰۱۶ء کشمیر کی تحریکِ آزادی کی تاریخ میں ایک روشن سنگ ِ میل کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ ۲۱سالہ مجاہد بُرہان وانی اور اس کے ساتھیوں کی شہادت نے اس تحریک کوایک نئے اور فیصلہ کن دور میں داخل کردیا ہے۔ ہماری نگاہ میں یہ ایک تاریخی موڑ ہے جسے اچھی طرح سمجھنا اور حالات کے گہرے ادراک اور مستقبل کے حقیقت پسند انہ امکانات کی روشنی میں صحیح، جامع اور مؤثر پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے۔ بُرہان وانی شہید کو جتنا بھی خراجِ تحسین پیش کیا جائے کم ہے لیکن وقت کی اصل ضرورت حالات کے دھارے کو سمجھنے اور اس عظیم تحریک کی حفاظت ، اس کی ترقی اور اسے حقیقی کامیابی کی منزل تک پہنچانے کے لیے جن اقدامات کی ضرورت ہے ان پر توجہ مرکوز کرنے کی ہے۔ شہدا کی قربانیوں کو صحیح خراج تحسین اس تحریک کوآگے بڑھانے اور کامیابی سے ہم کنار کرنے کی سعی و جہد میں ہے اور اس کی فکر پاکستانی قوم، اس کی سیاسی اور عسکری قیادت اور پوری اُمت مسلمہ اور حق پرست انسانوں اور آزادی کے پرستاروں کو کرنی چاہیے۔

کشمیر کے سلسلے میں جولائی کا مہینہ ہر دواعتبار سے تو گذشتہ ۸۵برس سے اہم تھا، یعنی ۱۳جولائی ۱۹۳۱ء کو ڈوگرہ راج کے خلاف جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی تاریخی جدوجہد کا آغاز ہوا، جسے برعظیم کے مسلمانوں کی مکمل تائید حاصل تھی۔ ۱۹جولائی ۱۹۴۷ء کو جموں و کشمیر مسلم کانفرنس (جسے ۱۹۴۷ء کے کشمیر کے انتخابات میں مسلمانوں کی ۱۶ نشستیں حاصل کر کے جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی ترجمانی کا مقام حاصل ہوگیا تھا) کی الحاقِ پاکستان کی قرارداد کے ذریعے جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی سیاسی منزل کا تعین ہوگیا۔

جولائی ۱۹۳۱ء سے جولائی ۲۰۱۶ء تک تحریکِ آزادی مختلف اَدوار میں بڑے بڑے نشیب و فراز سے اسے گزرتی رہی ہے لیکن ۸جولائی کو مجاہد بُرہان وانی اور اس کے ساتھیوں کی شہادت ، بھارتی حکومت کی اندھی قوت کے ذریعے تحریکِ آزادی کو کچلنے کی کوشش اور اس پر کشمیری  مسلمانوں کے شدید ردعمل نے عوامی تحریک اور جذبات کو قوت کے ذریعے ختم کرنے کی پالیسی کے دیوالیہ پن کو ایک بار پھر دو اور دو چار کی طرح واضح کر دیا ہے۔

ان سطور کے ضبط ِ تحریر میں لانے تک ۶۰سے زیادہ افراد شہید ہوچکے ہیں۔ ساڑھے تین ہزار زخمی ہیں، کرفیو کا سلسلہ صرف ایک دن کے خونی استثنا کے ساتھ جاری ہے۔ کاروبارِ زندگی مفلوج ہے، اخبارات اور معلومات کے تمام معروف ذرائع کا بشمول ٹیلی فون اور انٹرنیٹ گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔ اس کے باوجود عوامی جذبات کا ریلا پوری طرح رواں دواں ہے اور سرکاری دہشت گردی کے باوجود آزادی کا نعرہ اس طرح بام و دَر میں گونج رہا ہے جس طرح نوجوان مجاہدین کی شہادت کے بعد رُونما ہواتھا۔ بھارت کے ذرائع ابلاغ، دانش ور، پالیسی پر اثرانداز ہونے والے ادارے اور عالمی قوتیں جس بے حسی اور بے دردی سے کشمیر کی تحریکِ آزادی کو نظرانداز کررہے تھے، ان میں بھی ایک ارتعاش پیدا ہوا ہے اور جو منقار زیر پر تھے، وہ بھی اب یہ سوچنے اور آہستہ آہستہ بڑبڑانے پر مجبور ہورہے ہیں کہ یہ سب کیا ہے اور اس صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کے لیے اب تک جن پالیسیوں پر عمل کیا گیا ہے، کیا ان پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔

بُرہان وانی کی شھادت اور زمینی حقائق

مجاہد بُرہان وانی کی شہادت کی جگہ خاص و عام کے لیے زیارت کا مقام بن گئی ہے اور الجزیرہ ٹیلی وژن کا نمایندہ شہادت کے پانچ دن کے بعد جاے شہادت یعنی کاوپور کے علاقے میں واقع چھوٹے سے گائوں ’بمدور‘ اور بُرہان کی جاے پیدایش اور مقامِ تدفین ترال پہنچا۔ اس نے اپنے اور کشمیر کے عوام کے جو تاثرات الجزیرہ کے ۱۵جولائی کے پروگرام میں نشر کیے ہیں، وہ زمینی حقائق کو سمجھنے میں مددگار ہیں۔ رپورٹ الجزیرہ کی ویب سائٹ پر موجود ہے اور خاصی طویل ہے۔ ہم صرف چند اقتباسات دے رہے ہیں:

بمدور( اننت ناگ) بھارتی مقبوضہ کشمیر___ کالے کوّوں کی آواز کے سوا جو ٹین کی ہر چھت سے آرہی ہے،یہاں مکمل خاموشی ہے۔ یہ بدھ کی صبح ہے، اور تھوڑی دیر کے لیے تو ایسا لگتا ہے کہ یہاں کوئی نہیں رہتا۔ دروازے اور کھڑکیاں بند ہیں، درجنوں کوّے ہیں اور خاموشی ہے۔ یہ کاوپور کے علاقے میں ہے جس کے لفظی معنی کوّوں کے مسکن کے ہیں جو ’بمدور‘ گائوں کے نزدیک واقع ہے۔ جہاں چھوٹے چھوٹے بہت سے مکانات ہیں۔ جھاڑیاں، چشمے اور وسیع و عریض دھان کے کھیت ہیں۔ اس بغاوت کا گذشتہ جمعے کو یہاں سے آغاز ہوا جس نے پورے کشمیر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

ایک تنگ راستے پر جو مرکزی سڑک سے مکانات کی طرف جاتا ہے پتھروں، لاٹھیوں اور رسیوں کے چوکور رقبے میں کوّے اور کالے اور ہرے جھنڈوں کے درمیان اس جگہ کا نشان ہے جہاں ۲۲سالہ لڑکے بُرہان وانی کو قتل کیا گیا۔ یہ زیارت کی ایک جگہ بن گئی ہے۔ پچھلے ہفتے تک کوئی کبھی یہاں نہیں آیا تھا۔ اس گائوں میں کبھی کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ ۲۴سالہ انجینیرنگ کے طالب علم شوکت احمد نے کہا: ’’گذشتہ پانچ دنوں سے روزانہ یہاں ایک ہزار سے بھی زیادہ لوگ آتے ہیں کہ بُرہان کو یہاں قتل کیا گیا تھا‘‘۔

اس رپورٹ میں بُرہان کے خنجربکف مجاہد بننے، دوسروں کو بیدار کرنے اور پھر شہادت کے بعد آخری سفر کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے:

۲۰۱۰ء میں وانی نے جب وہ ۱۵سال کا لڑکا تھا، بندوق اُٹھائی۔ لیکن دوسرے لڑنے والوں کی طرح اس نے اپنا دوسرا نام یا لقب نہ رکھا اور اپنی شناخت کو نہ چھپایا۔ اس کے بجاے اس نے اپنی تصاویر اور وِڈیو فیس بک جیسے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیں اور یہ کرتے ہوئے اس نے کشمیریوں کی نئی نسل کو اپیل کی۔ اس طرح عوام کے تصور میں مسلح مزاحمت عود کرآئی۔ وانی ہرگھر کا جانا پہچانا نام بن گیا۔ ہفتے کی صبح تقریباً ۲لاکھ افراد نے ترال میں اس کی نمازِ جنازہ ادا کی۔ جب اسے دفن کیا گیا تو بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ایک بغاوت برپا ہوچکی تھی۔

دوسری رپورٹوں میں مزید تفصیل ہے کہ ترال میں مسلسل ۴۰بار نمازِ جنازہ ہوئی اور نمازیوں کا اندازہ ۶لاکھ بتایا گیا ہے۔ اس طرح سری نگر کی جامع مسجد میں غائبانہ نمازِ جنازہ میں  تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی۔ کشمیر کی وادی کا کوئی قابلِ ذکر مقام ایسا نہیں جہاں نمازِ جنازہ نہ ہوئی ہو۔ بیرونی ممالک میں بھی یہی کیفیت تھی۔

الجزیرہ کا نامہ نگار پورے علاقے میں گھوم پھر کر، ان ہسپتالوں کے چکّر لگاکر جہاں زخمی زیرعلاج ہیں، ان حالات کا خلاصہ بیان کرتا ہے جن سے کشمیر کے مسلمان مرد وزن، بوڑھے اور بچے دوچار ہیں اور ان کے ساتھ ان جذبات، احساسات اور عزائم کا بھی کھل کر ذکر کرتا ہے جو اس وقت ان کے سینوں میں موجزن ہیں اور جو تحریک کے موجودہ اور آنے والے مرحلوں کو سمجھنے اور ان کو صحیح رُخ پر آگے بڑھانے کے لیے سامنے رکھنا ضروری ہیں۔

ایک ۷۹سالہ بزرگ خاتون نے ہسپتال میں اپنی آپ بیتی یوں بیان کی:

وہ کہتی ہے کہ مقامی پولیس افسروں نے اسے گوریوان کے قریب اس کے مکان پر اسے زد و کوب کیا جب وہ اس کے سب سے چھوٹے بیٹے کی تلاش میں جو کہ ایک جاناپہچانا احتجاج کرنے والا ہے، آئے تھے۔ اس کی سیدھی ٹانگ سوجی ہوئی ہے اور ٹخنے سے گھٹنے تک زخمی ہے۔ اس کی دوسری ٹانگ پر ۱۳ٹانکے لگے ہوئے ہیں۔ انھوں نے مجھے مارا اور یہ بھی نہ دیکھا کہ میں ایک بیمار اور بوڑھی عورت ہوں۔ وہ گھٹی گھٹی آواز میں کہتی ہے کہ ان میں سے ایک نے مجھے فرش پر لٹا دیا اور میرے سینے پر چڑھ بیٹھا۔ اس کا پوتا محمدآصف بتاتا ہے کہ پولیس والوں نے قیمہ بنانے والے لکڑی کے ڈنڈے سے جو قریب ہی پڑا تھا، اسے مارا۔ انھوں نے گھر میں موجود تمام عورتوں کو مارا۔ ایک دوسرا ۱۵سالہ پوتا بتاتا ہے کہ انھوں نے میری ۱۲سالہ بہن کو برہنہ کر دیا۔ میں خواہش ہی کرسکتا ہوں کہ کاش! میں گھر میں نہ ہوتا۔ تین راتوں سے میں سو نہیں پایا۔ میری عریاں بہن کا تصور مجھے پریشان کرتا رہتا ہے، یہ مجھ کو سونے نہیں دیتا۔ پچھلے تین دن سے میں نے صرف یہ سوچا ہے کہ ان پولیس والوں کو جنھوں نے میری بہن کو عریاں کیا، قتل کردوں۔

اس طرح کے جانے پہچانے احتجاج کرنے والوں کو پولیس جب گرفتار کرتی ہے تو بغاوت اُٹھتی نظر آتی ہے۔ عمر جیسے سیکڑوں نوجوان احتجاج میں شریک ہوجاتے ہیں۔

ہم یہ حقائق دل سخت کر کے اور بڑی شرمساری کے جذبات کے ساتھ شائع کر رہے ہیں لیکن یہ دنیا کو پہلی مرتبہ معلوم ہو رہا ہے کہ کشمیری مسلمان ۸۵سال سے کس عذاب سے گزر رہے ہیں۔ اُفق پر روشنی کی لکیر وہ بے خوفی اور حالات کے مقابلے کا نیا عزم ہے جو اَب نوجوانوں کے سینے میں موجزن اور آنکھوں سے عیاں ہے۔ نامہ نگار لکھتا ہے:

ہسپتال سے باہر میں زبیر سے ملا جو کہ فری میڈیکل کیمپ کا ایک رضاکار تھا۔ اس دفعہ کے احتجاج میں پہلے سے فرق کے بارے میں گفتگو کے دوران وہ بے خیالی میں چھروں والی گن سے بنے ہوئے سوراخوں کو کھجانے کے لیے اپنی نیلی ٹی شرٹ اُٹھاتا ہے جو بھارتی فورسز احتجاج کرنے والوں کو روکنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ اس دفعہ لوگوں کے کوئی بھی مطالبات نہیں ہیں، کوئی بھی نہیں۔ وہ قانون میں کوئی بہتری نہیں چاہتے، نہ کسی مقدمے کی تفتیش چاہتے ہیں، کچھ بھی نہیں۔ یہ بُرہان کی موت کے غم کا اظہار تھا یا اس کی زندگی کی تقریب تھی،یا اس سے بھی زیادہ تھا۔    وہ کہتا ہے کہ ’’یہ وقت ہے کہ ہم نے لفظ آزادی کو ایک بار پھر دُہرایا‘‘۔  ۱؎

بھارتی اور مغربی میڈیا نے کشمیر کے حالات کے باب میں مجرمانہ بلیک آئوٹ کی روش اختیار کر رکھی تھی۔ غالباً یہ پہلی مرتبہ ہے کہ چند بھارتی اخبارات اور تھوڑے بہت مغربی میڈیا پر کچھ چیزیں آنا شروع ہوئی ہیں۔ کشمیر کے اندر ظلم و استبداد پر خاموشی اور سپردگی (surrender) کے مقابلے میں مزاحمت اور بے خوفی کے ساتھ جوابی جدوجہد کا عزم نمایاں ہے اور اس میں نوجوانوں کا کردار سب سے اہم اور نمایاں ہے جو اس وقت آبادی کا ۶۰ فی صد ہیں۔ ایک طرف بھارتی حکمرانی اور بھارت نواز مقامی حکومتوں اور عناصر سے بے زاری اور نفرت اور دوسری طرف قوت کے خوف کی جگہ بے خوفی اور حالات سے ٹکر لینے کا عزم جسے جدید سیاسی اصطلاح میں انتفاضہ (popular uprising) اور بندوق کے مقابلے میں پتھر (Stone vs Gun) سے جواب کے عنوان سے بیان کیا جا رہا ہے۔ یہ وہ مرحلہ ہے جس میں تحریکِ آزادی اب داخل ہوچکی ہے اور اس جوہری تبدیلی کی روشنی میں حالات کے ازسرِنو جائزہ لینے اور نئے حالات کے مطابق کشمیر میں، پاکستان میں، بھارت میں، عالمِ اسلام میں، اور عالمی محاذوں پر نئی پالیسی اور اقدامات کی فکر، وقت کی سب سے بڑی ضرورت بن گئی ہے۔

بہارتی کشمیر پالیسی میں تبدیلی کا مطالبہ

آگے بڑھنے سے پہلے ہم ضروری سمجھتے ہیں زمینی صورتِ حال میں جو تبدیلی آئی ہے اور اس کا جو تھوڑا بہت ادراک اب تمام ہی حلقوں میں ماسواے بھارت کی مودی سرکار اور پاکستان کے کچھ لبرل دانش وروں، اینکر پرسنز اور سیمفا جیسے اداروں سے وابستہ صحافیوں کے ہو رہا ہے، اس پر ایک نظر ڈال لی جائے۔ ہم نمونے کے طور پر چند مثالیں کر رہے ہیں جو دیگ کے چند چاولوں کے مانند حالات کو سمجھنے میں مددگار ہوسکتے ہیں۔

کلدیپ نائر بھارت کا ایک نام وَر صحافی ہے، سفارت کی ذمہ داریاں بھی ادا کرچکا ہے۔ بھارت کے مفادات کی حفاظت میں کسی سے پیچھے نہیں لیکن بھارتی حکومت کی کشمیر پالیسی پر    دل گرفتہ ہے اور بھارت کے مفاد میں اسے غلط سمجھتا ہے اور فوری تبدیلی کا خواہش مند ہے۔ اس کے چند حالیہ مضامین میں اس فکرمندی کو صاف دیکھا جاسکتاہے۔ ۹؍اگست ۲۰۱۵ء کے Syndicated Article میں جو پاکستان ٹوڈے میں بھی شائع ہوا ہے، وہ بڑے دُکھ کے ساتھ اعتراف کرتا ہے کہ:

پانچ سال سے کم عرصے میں کشمیر اتنا زیادہ بدل چکا ہے کہ پہچانا نہیں جاتا۔ گذشتہ مرتبہ جب میں سری نگر آیا تھا تو وادی کا بھارت دشمن ہونا نظر آتا ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ پاکستان کے حمایتی ہوگئے ہیں، اگرچہ اندرونِ سری نگر کچھ سبز پرچم نظر آتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ علیحدگی جو پہلے بھی نظر آتی تھی، وہ اب غصے میں بدل گئی ہے۔

کشمیریوں کا احتجاج  جو کم یا زیادہ پُرامن ہے، اپنے انداز اور آہنگ میں اسلامی ہے۔ ایسا نظر آتا ہے کہ یہ اظہار کا ایک ذریعہ ہے، نہ کہ اصل بات۔ اصل بات یہ ہے کہ کشمیری اپنا ملک چاہتے ہیں۔ بھارت میں بہت سے لوگ یہ شبہہ کرتے ہیں کہ ایک خودمختار کشمیر صرف ایک واہمہ ہے۔ کشمیریوں کا اصل ارادہ پاکستان میں شامل ہونے کا ہے مگر میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ آزادی کا تصور ایک خواب کی طرح ہے اور اس نے کشمیریوں کو اپنے ساتھ بہا لیا ہے، اس لیے کشمیریوں کی اصل خواہش کے بارے میں کچھ شبہہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس لیے جب میں نے اپنی تقریر میں کہا کہ خودمختار کشمیر کا مطالبہ اگر ماناگیا تو بھارت میں بھی مسلمانوں پر بڑا کڑا وقت آئے گا تو میں ان کے غصے سے بھرے چہرے دیکھ سکتا تھا۔ ہندو یہ دلیل دیتے ہیں کہ اگر کشمیری مسلمان ۷۰سال تک بھارت کے ساتھ رہنے کے باوجود آزادی چاہتے ہیں تو ۱۶کروڑ مسلمانوں کی وفاداری کی کیا ضمانت ہے؟

اس کے بعد کلدیپ نائر نے ذاتی اور انسانی سطح پر مسلمانوں اور ہندوئوں میں بُعد کا بھی ذکر بڑے چشم کشا انداز میں کیا ہے:

جس بات نے مجھے سب سے زیادہ مایوس کیا، وہ کشمیر میں درمیانی صورتِ حال (grey area) کا غائب ہوجانا ہے جو کچھ برس پہلے نظر آتی تھی۔ موقف اتنے سخت ہوگئے ہیں کہ مسلمانوں اور ہندوئوں میں معاشرتی روابط ختم ہوگئے ہیں۔ میں ذاتی مثال افسوس کے ساتھ دے رہا ہوں۔

پھر وہ لکھتا ہے: سیف ملک اور سیّدشاہ جیسے قائدین جن سے اس کے برسوں سے ذاتی اور گہرے تعلقات تھے، ان تک نے اس سے ملنے کی ضرورت محسوس نہ کی جس کا اسے بے پناہ افسوس ہے اور جو دونوں کمیونٹیز کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کی علامت ہے جو بالآخرعلیحدگی پر منتج ہوئی ہے۔ کلدیپ نائر اس سماجی تبدیلی پر بھی اپنی شدید پریشانی کا اظہار کرتا ہے۔

سیاسی حل کی ضرورت پر زور

کلدیپ نائر مئی ۲۰۱۶ء میں کشمیر پھر جاتا ہے۔ مجاہد بُرہانی کی شہادت سے صرف ایک دو مہینے پہلے، اپنے ۱۳مئی ۲۰۱۶ء کے مضمون میں جو بھارتی اخبار The Daily........ میں شائع ہوا ہے وہ ایک طرف عسکریت میں کمی کا اعتراف کرتا ہے تو دوسری طرف پوری آبادی کے اضطراب،   بے چینی اور بے زاری کے احساس کو شدت سے محسوس کرتا ہے۔ بھارت سے آزادی کو تو وہ  ناقابلِ تصور سمجھتا ہے۔ البتہ بھارت کے اندر خودمختاری اور مسئلے کے عسکری کے مقابلے میں سیاسی حل کے لیے حکومت کو پوری قوت سے متوجہ کرتا ہے۔ ریاست میں جو لاوا پک رہا ہے، اس کا اسے پورا احساس ہے اور ۸جولائی کے بعد جو دیکھنا نہیں چاہتے تھے، وہ بھی دیکھنے پر مجبور ہوگئے ہیں:

کشمیر اس مفہوم میں معمول کے مطابق ہے کہ وہاں پتھر پھینکنے کے واقعات نہیں ہورہے۔ عسکریت بھی آخری دموں پر ہے لیکن وادی میں اشتعال پایا جاتا ہے۔ اگر ایک دفعہ بھی آپ وہاں جائیں تو آپ اس کا ذائقہ چکھ لیں گے۔ اس کی کوئی ایک وجہ بتانا مشکل ہے۔ اس کے بہت سے اسباب ہیں۔ سب سے زیادہ پورے بھارت پر چھایا ہوا یہ احساس ہے کہ یہ بھارت کی طرف سے سب کچھ ہے ۔اگر کشمیر کو صرف  تین اُمور میں اختیار دے دیا جائے، یعنی: دفاع، اُمورخارجہ اور مواصلات۔ شکایت صحیح لگتی ہے اس لیے کہ ایک ریاست خودمختاری کرسکتی ہے جتنی وہ چاہے، لیکن وفاق دیگر اختیارات غصب نہیں کرسکتا۔ نئی دہلی نے ٹھیک یہی بات کی ہے۔ یہی بات وزیراعظم جواہر لال نہرو اور شیخ عبداللہ کے راستے میں آئی جو بڑے گہرے دوست تھے۔ شیخ عبداللہ نے ۱۲سال قید میں گزارے۔ نہرو کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔ ایسا ہی شدید مسئلے میں آج بھی نئی دہلی اور کشمیرگرفتار ہیں۔ ایک وزیراعلیٰ مرکز سے اچھے تعلقات کس طرح رکھے اور وادی کو ایک آزاد تشخص بھی دے؟ ریاست کی سیاسی جماعتوں کے لیے یہ ایک مستقل مسئلہ ہے۔

وہ جو کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ سمجھتے ہیں دستور کی دفعہ ۳۷۰ کو جو کشمیر کو خصوصی حیثیت دیتی ہے، ختم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ایک طرف دستور سے انحراف کر رہے ہیں اور دوسری طرف کشمیریوں کے اعتماد کو مجروح کر رہے ہیں۔ یہ سب سے بڑی وجہ ہے کہ بھارت سے الحاق پر سنجیدہ سوالات اُٹھ رہے ہیں ۔ ماضی میں خودمختار کشمیر کا نعرہ جو بہت کم لوگوں کی توجہ حاصل کرتا تھا، اب بہت زیادہ لوگوں کی توجہ حاصل کرتا ہے اور یہ تعجب کی بات نہیں کہ ہر روز ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اس کے بعد کلدیپ نائر اُردو کے بارے میں مرکزی حکومت کے رویے اور کشمیری عوام کے اضطراب اور بے زاری کا ذکر کرتا ہے جو کلچرل سطح پر کشمیر اور بھارت کو دُور لے جانے کا ذریعہ بن رہا ہے۔ اس لیے کہ اس کے الفاظ میں:

کشمیری شدت سے محسوس کرتے ہیں اور مرکزی حکومت اُردو کے ساتھ سوتیلا سلوک کررہی ہے، وہ مطالبہ کرتا ہے کہ اس صورتِ حال کی فوراً تلافی کی جائے۔

اس کے بعد وہ اس دل چسپ سوال سے تعرض کرتا ہے کہ عوام خود عسکریت کے خلاف کیوں نہیں اُٹھتے؟ اس کا جواب سننے کے لائق ہے:

مگر وہ جو خود عسکریت پسندوں کو باہر نکالنے کے لیے بندوقیں اور دوسرا اسلحہ نہیں     اُٹھا رہے، اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ وہ ان سے خوف زدہ ہیں اور دوسری وجہ ایک عام احساس ہے کہ عسکریت پسند ان کو ایک شناخت دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس لیے وادی کے اندر اگر عسکریت کو مزاحمت نہیں مل رہی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ علیحدگی کا ایک حصہ ہے۔

کلدیپ نائر متنبہ کرتا ہے کہ مسئلے کا سیاسی حل نکالنا ازبس ضروری ہے اور اس کی نگاہ میں ۱۹۵۳ء کے معاہدے کی بنیاد پر آج بھی کشمیریوں کو ساتھ رکھا جاسکتاہے بشرطیکہ مرکزی حکومت دیانت داری کے ساتھ، کشمیر میں عوام کو اعتماد میں لے کر، سیاسی حقوق کی بحالی، معاشی امداد اور مواقع کی فراہمی ، بھارت کی منڈیوں کو کشمیر کے لیے کھولنے، کشمیر کی شناخت کے احترام، فوری طور پر تین اُمور___ یعنی اُمورِ خارجہ، مالیات اور کمیونی کیشنز کے سوا تمام اختیارات ریاست کو دے۔ ان تمام قوانین کو منسوخ کردے جو ان اُمور کے علاوہ مرکز نے بنا کر ریاست میں نافذ کیے ہیں اور فوج اور فوجی کارروائیوں کو جو تحفظ اور اختیارات The Armed Forces میں حاصل ہے اور  جس کے سہارے ۲۵سال سے مرکزی حکومت قوت کا استعمال کر رہی ہے ، جو اسے ختم کیا جائے۔ اگر یہ نہ کیا گیا تو حالات مزید بگڑنے کا خطرہ ہے۔

اصل مسئلے کا ادراک

کلدیپ نائر نے اصل زمینی حالات کو ٹھیک سے بھانپ لیا ہے مگر جو حل وہ تجویز کر رہا ہے وہ نہ ۱۹۵۳ء میں کسی کام آیا، بلکہ شیخ عبداللہ کو ۱۲سال جیل کی ہوا کھانا پڑی اور نہ آج یہ کوئی حقیقی حل ہے بلکہ نہ ۱۹۵۳ء میں اس سے کشمیری عوام کو مطمئن کیا گیا اور نہ آج کیا جاسکتا ہے۔ اصل مسئلہ  حق خودارادیت (right of self-determination) کا ہے جس کی اصل یہ ہے کہ ڈوگرہ راج اور بھارتی راج دونوں سامراجی اقتدار (occupation) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بھارت نے دھوکے، چالاکی، عسکری یلغار اور قوت کے بے محابا استعمال سے استبداد اور غلبے کا ہرحربہ استعمال کرتے ہوئے ۱۹۴۷ء سے ریاست جموں و کشمیر کے ۶۰ فی صد رقبے پر قبضہ کیا ہوا ہے اور اس قبضے سے آزادی اور نجات اصل مسئلہ ہے۔

دوسرا پہلو بھی کچھ کم اہم نہیں اور اس کا تعلق ریاست اور اس کی عظیم اکثریت کی نظریاتی، دینی، اخلاقی، تہذیبی اور سماجی شناخت کا ہے اور اس کا بھی تقاضا ہے کہ ریاست کے لوگوں کو مکمل آزادی ہو، تاکہ وہ اپنی مرضی سے اپنا نظامِ زندگی وضع کریں اور سیاسی غلامی کی وجہ سے جو دینی، نظریاتی، اخلاقی، تہذیبی اور لسانی بگاڑ پیدا ہو رہا ہے، اس سے بھی نجات پائیں اور اپنی اصل شناخت کے مطابق اپنی زندگی اور اپنا مستقبل تعمیر کرسکیں۔ صوبائی خودمختاری، ۱۹۵۳ء کا معاہدہ اور دستورہند کی دفعہ ۳۷۰ کو بھی ان دونوں بنیادی ایشوز کا جواب نہیں اور ۶۹برسوں پر پھیلی ہوئی ناکام اور خون آشام تاریخ کو جزوی اور نمایشی معمولی تبدیلیوں  کے ذریعے کشمیری عوام کے لیے قابلِ قبول نہیں بنایا جاسکتا ۔۸جولائی۲۰۱۶ء اس سیاسی حکمت عملی کے خلاف اعلانِ جہاد ہے اور آزادی اور اسلامی شناخت کی مکمل بحالی کے راستے کو روکنے کی جو کوشش بھی ہوگی خواہ وہ دولت اور قوت کے کیسے ہی بے محابا استعمال سے عبارت ہو ، تحریکِ آزادی کا راستہ نہیں روک سکتی۔ اور اگر سیاسی، جمہوری اور عوامی راستوں کو بند کیا جائے گا تو پھر فطرت کا تقاضا اور تاریخ کا تجربہ ہے کہ لوہے کو کاٹنے کے لیے لوہا میدان میں آکر رہتا ہے۔

یہی وہ چیز ہے جس کی طرف شیخ عبداللہ کے صاحب زادے فاروق عبداللہ نے جنوری ۲۰۱۶ء میں ایک مضمون لکھ کر توجہ دلائی ہے وہ ایک مدت تک جموں و کشمیر کے وزیراعظم رہ چکے ہیں اور انھیں ۱۹۹۰ء میں اس وقت کان پکڑ کر نکال دیا گیا تھا جب ۱۹۸۷ء کے دھاندلی کے انتخابات کے نتیجے میں ریاست گیر عوامی تحریک نے سیلابی کیفیت اختیار کرلی تھی اور جمہوری راستوں کو بند کرنے کے نتیجے میں عسکری تحریک اُبھری اور ایوانِ اقتدار کو متزلزل کرنے کا ذریعہ بنی۔ انھی فاروق عبداللہ صاحب نے کشمیر کے اخبارات میں اُردو میں ایک مضمون لکھا ہے جسے پڑھ کر کلدیپ نائر صاحب نے سرپکڑ لیا ہے اور خون کے آنسو بہا رہے ہیں۔ کلدیپ نائر اپنے ایک مضمون ’پاکستان، ہندستان اور کشمیر‘ میں جو پاکستان ٹوڈے میں ۷فروری ۲۰۱۶ء کی اشاعت میں شائع ہوا ہے، لکھتے ہیں:

سری نگر کے ایک معروف اُردو رسالے میں ایک مضمون میں فاروق عبداللہ نے کہا ہے کہ اس کے مرحوم باپ شیخ عبداللہ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ کشمیر کے نوجوان اپنے حقوق کے لیے بندوق اُٹھا رہے ہیں۔

کلدیپ نائر صاحب نے سارا مضمون فاروق عبداللہ کو جھاڑ پلانے کے لیے وقف کر دیا ہے، اسے شیخ عبداللہ سے بے وفائی قرار دیا ہے۔ کشمیر کے ’صوفی اسلام‘ کے تصور سے بغاوت کہا ہے۔ شیخ عبداللہ کے سیکولرزم اور عالم گیریت کی شان میں قصیدے پڑھے ہیں اور اسے مشورہ دیا ہے کہ اسے عسکریت کے حق میں ایسی بات نہیں کہنی چاہیے تھی بلکہ دستورِہند کی دفعہ۳۷۰ کے اندر خودمختاری پر سارا زور صرف کرنا چاہیے تھا۔ اس کا کہنا ہے:

وہ لوگ جو ہروقت یہ کہہ رہے ہیں کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے، اس غلط فہمی سے دوچار ہیں کہ ریاست کشمیر کو دستور کی دفعہ ۳۷۰ کے تحت خودمختاری حاصل ہے جس کے تحت صرف تین اُمور: دفاع، خارجہ اور مواصلات، جب کہ دستور کی دوسری دفعات جو حکومت کو اختیار دیتی ہیں کہ ریاست جموں و کشمیر پر ان کا اطلاق ریاست کی دستور ساز اسمبلی کی مرضی سے ہوگا۔

فاروق عبداللہ  نے قدوقامت کم کرنے کے لیے اسے کشمیر تک محدود کرنے کی کوشش کی۔ وہ نئی دہلی کو ریاست میں ایسے حالات پیدا کرنے پر ڈانٹ ڈپٹ کرتا رہا کہ کشمیری اپنے حق کے لیے بندوق اُٹھانے پر مجبور ہوگئے اس لیے کہ نئی دہلی اپنا وعدہ پورا  کرنے میں ناکام رہی کہ مرکز کے پاس صرف تین اُمور ہوں گے: دفاع، اُمورِخارجہ اور مواصلات، جب کہ باقی ریاست کے اختیار میں ہوں گے۔

کلدیپ نائر اور دوسرے بھارتی دانش وروں کا سیاسی حل کا تصور کشمیری عوام کے لیے ناقابلِ قبول ہے اور آج بے وقت کی راگنی ہے۔ لیکن ہمارے لیے اصل اہم پہلو اس بحث کا یہ ہے کہ کلدیپ نائر جیسے لوگ بھی کھل کر یہ بات کہہ رہے ہیں کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں ہے۔ بھارتی دستور کے مطابق، جس پر کوئی عمل نہیں کر رہا اور جسے ۱۹۵۳ء ہی سے عملاً معطل کیا ہوا ہے، کشمیر پر بھارت کی حاکمیت (sovereignty)مکمل اور غیرمنقسم (absolute) نہیںبلکہ مشروط (conditional) ہے اور باقی تمام صوبوں سے مختلف ہے۔ جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ اگر بھارت نے ان شرائط کو توڑ دیا ہے تو وہ معاہدہ بھی پارہ پارہ ہوچکا ہے جس کے سہارے بھارت نے کشمیر پر قبضہ کیا ہوا ہے اور اس کے ساتھ یہ بات بھی نوٹ کیے جانے کے لائق ہے کہ فاروق عبداللہ صاحب بھی آج دبے لفظوں میں وہی بات کہنے کی کوشش کررہے ہیں جو حُریت کانفرنس اور حزب المجاہدین کہہ رہی ہیں یعنی___ بھارت کا قبضہ غیرقانونی ہے اور اس کے خلاف عوامی جدوجہد نہ صرف عوام کا حق بلکہ غلامی سے نجات کا واحد ذریعہ ہے اور مزاحمت کی اس تحریک کو اگر کچلنے کے لیے ریاستی قوت کا استعمال کیا جائے تو اس قوت کا مقابلہ کرنے کے لیے عوامی عسکریت بھی تحریکِ آزادی (Liberation War) کا حق ہے۔

فاروق عبداللہ کے صاحبزادے عمر عبداللہ نے جو خود بھی وزیراعظم رہ چکے ہیں، مجاہد  بُرہان مظفر وانی کی شہادت پر جو الفاظ کہے ہیں وہ بھی نہ صرف تحریکِ مزاحمت اور تحریکِ آزادی کی صداقت اور افادیت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے بلکہ بھارت کی حکومتی دہشت گردی کی پالیسی کی ناکامی کا اعتراف بھی ہے۔

میرے الفاظ سن لو، بُرہان مظفر وانی کی قبر کے اندر سے جہادی بھرتی کرنے کی صلاحیت، اس کی سوشل میڈیا کے ذریعے بھرتی کرنے کی صلاحیت سے کہیں زیادہ ہوگی۔

کسے توقع تھی کہ شیخ عبداللہ کے صاحب زادے اور ان کے پوتے ایک دن یہ بات کہیں گے  ع

ہاے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا!

بھارت کی معروف دانش ور ارون دھتی راے تو ایک مدت سے یہ بات کہہ رہی ہے کہ کشمیر میں بھارت کی حیثیت ایک قابض حکمران (occupying forces) کی ہے اور جو جدوجہد ریاست میں ہورہی ہے وہ ایک قانونی اور جائز (legitimate) تحریکِ آزادی ہے اور جو اس کی تائید نہ کرے، وہ اخلاقی طور پر اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر رہا ہے۔ ۲۰۱۱ء میں ارون دھتی راے کی ایک کتاب Kashmir: A Case for Freedom شائع ہوچکی ہے جس میں اس نے ریاست جموں و کشمیر پر بھارت کے قبضے کو غیرقانونی اور غیراخلاقی قرار دیا ہے ۔ بُرہان وانی کی شہادت کے بعد اس کا مضمون بھارت کے رسالے Outlook کی ۲۳جولائی ۲۰۱۶ء کی اشاعت  میں شائع ہوا ہے۔ ہم اس کے چند اقتباسات نذرِ قارئین کرنا چاہتے ہیں:

کشمیر کے عوام نے ایک دفعہ پھر واضح کر دیا ہے سال بہ سال، عشرہ بہ عشرہ، قبربہ قبر واضح کر دیا ہے کہ جو وہ چاہتے ہیں وہ آزادی ہے (عوام کا مطلب ان لوگوں سے نہیں ہے جو فوجی سنگینوں کے سایے میں کیے گئے انتخابات جیت گئے ہیں، اس کے معنی وہ لیڈر نہیں ہیں جنھیں اپنے گھروں میں چھپنا ہوتا ہے اور اس طرح کے حالات میں باہر آنے کی جرأت نہیں کرتے)۔

جب ہم مذمت کرتے ہیں، جیساکہ ہمیں کرنا چاہیے، سیکورٹی فورسز کی غیرمسلح احتجاج کرنے والوں پر گولی چلانے کی، ایمبولینسوں اور ہسپتالوں پر پولیس کے حملوں کی، اور چھرے والی بندوق سے نوعمروں کو نابینا بنانے کی، تو ہمیں دماغ میں یہ بات رکھنی چاہیے کہ حقیقی بحث کشمیر کی وادی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہی کی ہے۔

یہ خلاف ورزی جو بہت قبیح ہے، یہ ناگزیر اور لازمی نتیجہ ہے: عوام کی جدوجہدِ آزادی کو فوج کے ذریعے دبانے کا۔ کشمیری، قانون کی بالادستی قائم کرنے کے لیے نہیں لڑ رہے ہیں، اور نہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ختم کرنے کے لیے لڑرہے ہیں، وہ آزادی کے لیے لڑرہے ہیں۔ اس کے لیے وہ گولیوں کا مقابلہ پتھروں سے کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس کے لیے وہ بڑی تعداد میں مرنے کے لیے تیار ہیں اور کرفیو وغیرہ کی کھلی خلاف ورزی کرنے کے لیے بھی تیار ہیں جو خواہ انھیں موت کی طرف لے جائے، یا دنیا کے سب سے زیادہ فوجی علاقے میں ہرطرح کی قیدوبند کے لیے بھی تیار ہیں۔ اس کے لیے وہ ہتھیار اُٹھانے کے لیے تیار ہیں۔ موت تک سے لڑنے کے لیے بھی تیار ہیں یہ اچھی طرح جانتے ہوئے کہ نوجوان ہی مریں گے۔ انھوں نے یہ بات نہایت باقاعدگی سے ثابت کی ہے۔ اس کا وہ مستقل مزاجی سے مظاہرہ کررہے ہیں۔

یہ پیش گوئی کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے کہ بھارتی حکومت کو مستقل امن عامہ کے مسئلے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو ایک چھوٹا سا گروہ پیدا کر رہا ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک خطرناک بڑھتا ہوا بحران ہے جس پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔ ایک ایسے علاقے میں جو دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان ہے۔ صرف اس وجہ سے ہی اسے پوری دنیا کا مسئلہ ہونا چاہیے۔

اگر ہم بحران کو واقعی حل کرنا چاہتے ہیں، اگر ہم قتل کرنے اور مارنے کے نہ ختم ہونے والے چکر کو واقعی ختم کرنا چاہتے ہیں، اگر ہم خون بہنے کو روکنا چاہتے ہیں، تو پہلا قدم یہ ہوگا کہ ہم دیانت داری کی طرف قدم بڑھائیں۔ہمیں ایک دیانت دارانہ گفت و شنید کرنا ہوگی۔ ہمارا نقطۂ نظر کتنا ہی مختلف کیوں نہ ہو، ایک دوسرے کے مخالف ہی کیوں نہ ہوں،اس گفتگو کا موضوع آزادی کو ہونا ہے۔ کشمیریوں کے لیے آزادی کے لیے ٹھیک ٹھیک مسئلہ کیا ہے؟ اس پر بحث کیوں نہیں ہوسکتی؟ نقشے کب سے اتنے مقدس ہوگئے ہیں؟ کیا کچھ لوگوں کے حق خودارادیت کا کسی بھی قیمت پر انکار کیا جاسکتا ہے؟ کیا بھارت کے عوام اس کے لیے تیار ہیں کہ ہزاروں آدمیوں کے خون کا بوجھ اپنے ضمیر پرلیں؟کس اخلاقی حیثیت سے ہم بات کرتے ہیں جو ہمارے ساتھ ہورہی ہیں؟ کیا بھارت میں کشمیر پر اتفاق راے حقیقی ہے یا خودساختہ ہے؟ کیا یہ وزن رکھتا ہے ؟ اصل تو یہ ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اصل بات یہ ہے کہ کشمیری کیا چاہتے ہیں اور کس طرح ایک پُرامن، جمہوری اور معلوم نظریے تک پہنچا جائے۔

موجودہ مزاحمت کا سبق

یہ آوازیں بدلتے ہوئے حالات کی طرف اشارہ کر رہی ہیں اور اس اُمید کو قوی تر کر رہی ہیں کہ استبداد کے نظام کے خلاف جدوجہد میں اعوان و انصار ایسے مقامات سے بھی مل سکتے ہیں جہاں سے گمان بھی نہیں تھا۔ حالات کو بدلنا اور بدلتے ہوئے حالات سے فائدہ اُٹھانا ہی صحیح سیاسی حکمت عملی ہوسکتے ہیں۔

اس سلسلے میں ہم بھارت کے مؤقر جریدے اکانومک اینڈ پولیٹیکل ویکلی کے ادارتی نوٹ (۱۶ جون ۲۰۱۶ئ) کو بھی بڑی اہمیت دیتے ہیں جس کے بغور تجزیے کی ضرورت ہے۔ دو باتیں ایسی ہیں جن پر مذکورہ جریدے نے غور کرنے کی خصوصی دعوت دی ہے: ایک یہ کہ تحریکِ آزادیِ کشمیر کے مقامی (indigenous) ہونے کا اعتراف اور پورے معاملے کو پاکستان کی ’ریشہ دوانی‘ قرار دینے کی بھارتی پالیسی پر تحفظات کا اظہار۔ یہ چیز دوسرے ادارتی نوٹس اور مضامین میں بھی اب آرہی ہے۔ دوسری چیز یہ کہ ’آزادی‘ کے مطالبے کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ سیاسی حل اس ایشو کا سامنا کیے بغیر ممکن نہیں اور لازماً فیصلہ وہی غالب آسکے گا جسے کشمیری عوام کی تائید حاصل ہوگی۔ جمہوری حل (Democratic Solution) کے معنی محض سیاسی اصلاحات نہیں بلکہ پورے مستقبل کے نظام کے بارے میں کشمیری عوام کی راے کو معلوم کرنا اس کے لیے ضروری ہوگی۔ یہ غالباً پہلی مرتبہ ہے کہ مؤقر قومی جریدے میں اس حوالے سے ریفرنڈم کا لفظ بھی استعمال کیا گیا ہے۔ یہ بہت ہی اہم  آغاز ہوسکتا ہے۔

 مسئلۂ کشمیر کا کوئی فوجی حل نھیں ھوسکتا

جموں و کشمیر میں مسلح مزاحمت ۹۰-۱۹۸۹ء میں شروع ہوئی جب پُرامن سیاسی حل کی ۴۰سالہ کوششیں ناکام ہوگئیں۔ ۸-۲۰۰۷ء تک عسکریت ذیلی سطح پر آئی تھی اور عوامی سطح پر چھا گئی تھی۔ مسلح عسکریت کا انکار کا مطلب یہ لیا گیا کہ یہ تحریک کی شکست ہے نہ کہ عوامی احتجاج کی ایک شکل جسے احتجاجی دہشت گردی کا نام دیا گیا۔ اس کے بعد آنے والے انتخابات میں ووٹوں سے آنے کے مطلب کی یہ تعبیر کی گئی ہے کہ لوگوں نے بھارت کی تائید کردی ہے اور آزادی یا تحریک ِ آزادی کو marginalise کردیا گیا ہے۔معاشی بہتری کا مطلب یہ لیا گیا کہ جو کچھ بھی ظلم کیا گیا ہے یہ اسی کی تلافی کردے گا۔ ماضی قریب میں غیرریاستی عوام کو زمین کی منتقلی کا مسئلہ ظاہر کرتا ہے کہ حقیقی مسائل کو کتنا پیش نظر رکھا گیا ہے۔

ہم نے ۹۲-۱۹۸۹ء ، ۱۰-۲۰۰۸ء اور ۲۰۱۳ء میں خونی کریک ڈائون کا مشاہدہ کیا ہے جب بڑی تعداد میں لوگ غیرمسلح باہر آئے اور ان کی ننگی طاقت سے مقابلہ کیا گیا جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر اموات واقع ہوئیں، مگر اس دفعہ واضح طور پر کچھ مختلف ہے۔ ۲۰۰۸ء میں ایک قابلِ لحاظ غیرمسلح احتجاج کی طرف بندوقوں سے منتقلی تھی۔ آج یہ چیزیں واضح طور پر مسلح عسکریت کی طرف پیچھے پلٹ آئی ہے۔ بغاوت کا مقابلہ کرنے کے لیے خوف اہمیت رکھتا ہے۔ اگر عسکریت پسندوں کے جنازے لوگوں کے بڑے ہجوم کے لیے کشش رکھیں اور وہ وہاں بڑی تعداد میں جمع ہوں جہاں مقابلہ ہو رہا ہو، تو یہ عوام کی طرف سے اس بات کی علامت ہے کہ وہ بے خوف ہوگئے ہیں۔ یونائیٹڈ پراگرس الائنس کی حکومت ۱۰-۲۰۰۸ء میں تحریک کو روکنے میں ناکام ہوگئی،  اس لیے کہ اس کے پاس پیش کرنے کے لیے کچھ بھی نہ تھا۔ خودمختاری کی پیش کش اب زیادہ متعلق نہ تھی کیونکہ نئی دہلی نے اس کی بنیاد ختم کرنے کے لیے ۶۹سال تک کام کیا تھا۔ جموں و کشمیر میں ریاست کی شہریت کا مسئلہ، شمال مشرق اور وسطی ہند کے نزدیک کے پہاڑی علاقوں کی طرح تھا، اسے زمین اور حکومتی ملازمتوں سے ……… جموں و کشمیر کے حالیہ وزیرخزانہ نے کہا کہ جموں و کشمیر کے لیے مرکز کی پالیسی طاقت کے اظہار پر مبنی ہے۔ اس لیے جب ہم کو بتایا جاتا ہے کہ تاریخ کو ۱۹۵۳ء سے پہلے کی طرف لوٹایا نہیں جاسکتا تو یہ اس بات کا اظہار ہے کہ حکومت ہند کے پاس دینے کے لیے کچھ نہیں۔

یہ وہ سیاق و سباق ہے جس میں آج کی مسلح مزاحمت ہوئی ہے۔ بُرہان وانی اور اس کے کمانڈر عسکریت کے نئے مرحلے کی نمایندگی کرتے ہیں۔ وجوہات، تحریکات اور ہتھیار اُٹھانے کی تحریک ان حالات کے نتیجے میں ہے جس کا سامنا بھارتی قبضے میں علاقوں میں ہے یہ وہ نسل ہے جو فوجی جارحیت میں پَل کر جوان ہوئی ہے۔ جس نے ۲۰۱۳ء کی غیرمسلح بغاوت کو کچلتے ہوئے دیکھا ہے اور پھر یہ عسکریت کی طرف بتدریج گئی ہے۔ بُرہان وانی جب قتل کیا گیا تو۲۲سال کا تھا۔ وہ حزب المجاہدین میں ۱۶سال کی عمر میں شامل ہوا تھا۔ا س نے سوشل میڈیا میں جس طرح سے تصاویر اور پیغام کو پھیلایا، اس نے اس کو مقبول بنا دیا۔ اس کا ایک آخری بیان امرناتھ کے زائرین سے خطاب پر مبنی تھا۔ جب بارڈر سیکورٹی فورس نے زائرین پر ایک یقینی حملے کے خدشے کا اظہار کیا تھا۔ بُرہان وانی نے ان کو خوش آمدید کہا اور انھیں یقین دہانی کروائی کہ وہ بغیر کسی اندیشے اور خوف کے آئیں۔ اس کی ہلاکت کے بعد جو کریک ڈائون ہوا، اس نے غم زدہ عوام کو مزید مشتعل کر دیا۔ اب تک ۳۶؍افراد ہلاک ہوچکے ہیں، ۱۵۳۸ زخمی ہوچکے ہیں۔ جن میں سے ایک ہزار سے زیادہ چھروں سے زخمی ہوئے ہیں۔ قابلِ اعتبار ثبوت موجود ہیں کہ قانون نافذ کرنے والوں نے ہسپتال اور ایمبولینس پر حملے کیے۔ اس سے پہلے بھی یہ واقعہ ہوچکا تھا اور مہلک ہتھیار استعمال نہ کرنے کی یقین دہانیاں اب سنگین مذاق بن گیا ہے۔ ۱۱ہزار نئے فوجی بھیجنا اور ۶لاکھ جو پہلے سے موجود ہیں، اس کا مطلب ہے کہ کوئی سبق نہیں سیکھا گیا۔

وہ اسکالر جو حکمت عملی کے مسائل پر لکھتے ہیں وہ زور دے کر کہتے ہیں کہ کشمیر کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ مقامی لوگ فوجیوں کے سوشل ورک کی تحسین تو کرسکتے ہیں لیکن وہ فوجیوں کو ایک قابض فوج کا حصہ سمجھتے ہیں، اور آزادی کی حمایت کرتے ہیں۔ امن و امان کی صورت قابو میں آسکتی ہے لیکن اگر ہم بھارت سے آزادی کے عوامی مطالبے سے انکار کریں تو یہ صورتِ حال زیادہ دیر تک برقرار نہیں رکھی جاسکتی۔ بندوق کی نوک پر اختیارات کے نفاذ کو لوگوں کو ان کی غلامی پر مرضی سے اُلجھاکر (کنفیوز کرکے) یا لوگوں کا ووٹ دینے کے لیے آنے کو تائید سمجھنے کا مطلب بھارت سے علیحدگی کے جذبے کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہے۔ بھارت کمزور وکٹ پر ہے، ہندوئوں کے پھیلائو سے مسلمانوں کے ساتھ ادارتی امتیازی سلوک کی انڈین سیکولرزم کی رفتار تیز کردی ہے۔ پاکستان اور اسلامسٹوں کے پروپیگنڈے کو بُرا بھلا کہنے، اور عسکریوں کو دہشت گرد قرار دینا درست نہیں لگتا کیوں کہ سب کچھ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ہورہا ہے۔………………

……………

اتنے طویل عرصے تک تو یہ دہلی کی بہت بڑی نااہلی کا ثبوت ہے۔

ایک آدمی یہ یقین کرنا پسند کرے گا کہ اسٹیبلشمنٹ کے سمجھ دار عناصر حالات کی سنگینی سے آگہی حاصل کریں گے۔ ایک حل جس سے ہم بچتے رہے ہیں ایک جمہوری حل ہے کہ ہم جموں و کشمیر کے عوام کی خواہشات کا ایک ریفرنڈم کے ذریعے متعین کریں، جس کا وعدہ فوجی تنازعے کو بڑھنے سے روک سکتا ہے…

ہم نے بھارتی دانش وروں اور اخبارات کے خیالات اپنے قارئین اور ملک کے پالیسی ساز اداروں اور افراد کے غوروفکر کے لیے پیش کیے ہیں کہ ان میں مسئلے کے حل کی تلاش کی ایک کوشش دیکھی جاسکتی ہے۔ خود انھیں بنیاد بنا کر افہام و تفہیم کی نئی کوششیں بروے کار لائی جاسکتی ہیں۔ جگہ کی قلت کے باعث ہم دوسری ایسی کوششوں کو پیش کرنے سے قاصر ہیں لیکن ۸جولائی کے واقعہ کے بعد ہمارے علم و مطالعہ میں دو درجن سے زیادہ جریدوں، اخبارات اور معروف اہلِ قلم کی طرف سے کھلے طور پر یا کچھ ملفوف انداز میں جو باتیں اب کہی جارہی ہیں وہ یہ ہیں:

۱- جموں وکشمیر کا مسئلہ حل طلب ہے۔ اسے ایک طے شدہ یا حل شدہ معاملہ قرار دینا صحیح نہیں ہے۔

۲- مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں۔ فوجی حل کی دو ہی صورتیں ہیں یا ریاستی قوت سے تحریکِ آزادی کو کچل دیا جائے جس کے بہت ہی خون آشام نتائج کم از کم ۱۹۹۰ء سے دیکھے جارہے ہیں۔    اس زمانے میں تحریک کو نشیب و فراز سے سابقہ پیش آیا ہے لیکن ایک لاکھ سے زیادہ افراد کی ہلاکت، اس سے زیادہ افراد کے زخمی یا معذور کردیے جانے، ہزاروں کی تعداد میں اغوا، گرفتاریاں، گم شدگیاں، جمہوری آزادیوں پر قدغنیں، عصمت دری کو جنگی حربے کے طور پر استعمال کرنے کے علی الرغم تحریک کو ختم نہیں کیا جاسکا۔ صرف وادیِ کشمیر میں ۶لاکھ سے زیادہ بھارتی فوجی اور معاون operational forces کے استعمال اوران افواج کی کارروائیوں کو ہرقسم کی بازپُرس اور جواب دہی سے روکنے کے باوجود ۲۶سال میں تحریکِ مزاحمت کو نہ صرف ختم نہیں کیا جاسکا بلکہ کیفیت یہ ہے  ع

اتنا ہی پھر اُبھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے

فوجی حل کی دوسری صورت بھارت اور پاکستان کے درمیان فوجی قوت کے استعمال کے ذریعے کشمیر کے مسئلے کا حل ہے جس کی کوششیں بھی تین سے چار بار ہوچکی ہیں۔ اس کے کچھ نہ کچھ نتائج ضرور نکلے ہیں لیکن مسئلہ حل نہیں ہوسکا اور اب دونوں کے ایٹمی طاقت ہونے کے ناتے     یہ راستہ اور بھی خطرناک اور ناقابلِ تصور ہوگیا ہے۔ لہٰذا اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ مسئلے کا سیاسی حل نکالا جائے جو جمہوری اور معتبر ہو۔ یہ راستہ آزادانہ استصواب راے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ یہ ایک تاریخی موقع ہوگا، جس کی طرف پیش رفت ہونی چاہیے۔

۳- کشمیر کی تحریکِ آزادی کے کشمیری کیرکٹر (indigenous character مقامی ہونے) کا بھی اب برملا اعتراف کیا جارہا ہے۔ حزب المجاہدین پہلے دن سے خالص کشمیری تنظیم تھی۔ آل پارٹیز حُریت کانفرنس کی بھی یہی حیثیت ہے جو سیاسی محاذ پر سب سے آگے ہے۔ واجپائی، من موہن سنگھ اور پرویز مشرف جو بیچ کا راستہ نکالنے کی کوشش کر رہے تھے، وہ بُری طرح ناکام ہوئی اور ۲۰۰۸ء کے امرناتھ ٹرسٹ کو زمین دینے کے معاملے کے خلاف تحریک سے لے کر ۸جولائی تک کے سانحے تک تحریکِ آزادیِ کشمیر کے عسکری پہلوئوں میں کمی اور عوامی جمہوری حمایت اور شرکت کی وسعت نے زمینی صورتِ حال کو تبدیل کر دیا ہے اور ۸جولائی کے واقعے کے بعد کی صورتِ حال نے تحریک کی اصل قوت اور سیاسی اعتبار سے اس کے ناقابلِ تسخیر ہونے کا لوہا منوا لیا ہے۔ یہ وہ جوہری فرق ہے جو تحریک کے موجودہ مرحلے کو ماضی کے تمام مراحل سے ممیز کررہا ہے۔ اس کا اعتراف بھی پہلی بار اس طرح بھارت میں اور ایک حد تک عالمی میڈیا اور تحقیقی اداروں اور   تھنک ٹینکس کی نگارشات میں ہو رہا ہے۔ امریکا کے مؤقر جریدے فارن پالیسی کے ایک مقالہ نگارنے مئی ۲۰۱۶ء میں ایک مقالہ INDIA IS LOSING KASHMIR اس کی ویب سائٹ پر شائع کیا ہے جو جولائی کے واقعے سے دو ماہ پہلے کی بات ہے۔

نیویارک ٹائمز نے بھی ۲۱جولائی ۲۰۱۶ء کی اشاعت میں ادارتی طور پر کشمیر کی بدلتی ہوئی صورتِ حال اور تحریک کے مقامی ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ پچھلے دو ہفتوں میں دسیوں مضامین بھارت کے اخبارات میں شائع ہوئے ہیں جن میں کسی نہ کسی شکل میں اس زمینی حقیقت کا اعتراف کیا گیا ہے۔ مسئلے کے حل کی تلاش میں اس تبدیلی کا ایک اہم کردار ہوسکتا ہے۔

۴- چوتھی چیز جو اَب بالعموم صرف دبے الفاظ میں لیکن کہیں کہیں نسبتاً کھل کر تسلیم کی جارہی ہے، یہ ہے جو کچھ مقبوضہ کشمیر میں ہو رہا ہے، اسے صرف پاکستان کی کارستانی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پرویز مشرف کے دور سے تحریکِ آزادی میں پاکستان کا کردار نمایاں طور پر کم ہوا ہے۔ خصوصیت سے جہادی سرگرمیوں کی مدد تو تقریباً ختم ہوچکی ہے۔ ۲۰۰۳ء کے بعد جس طرح بارڈر پر اسرائیلی حکمت عملی کے تحت باڑیں اور الیکٹرانک وائرز لگائے گئے ہیں، ان کے نتیجے میں افرادی قوت کا آرپار جانا یا اسلحے کے باب میں مدد تقریباً ناممکن ہوگئے ہیں۔ اور اس سے بھی زیادہ اہم پاکستان کی حکومتی پالیسی کے باب میں کنفیوژن، کمزوری اور تنکوں کا سہارا___ اس نے تو پاکستان کے اصولی اور عملی ہردو کرداروں کو بُری طرح مجروح کیا ہے۔ پاکستان سے جو اُمیدیں مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو بجاطور پر تھیں، ان پر اوس پڑگئی ہے۔ گو پاکستان سے ان کی محبت آج بھی قائم ہے، ان کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں، پاکستانی جھنڈا آج بھی ان کو مرغوب و محبوب ہے۔ بُرہان مظفر وانی کا جسد ِ خاکی پاکستان ہی کے پرچم میں قبر میں اُتارا گیا ہے، مقبوضہ کشمیر میں گھڑیاں پاکستان کے وقت کے مطابق ہی نظامِ اوقات کی صورت گری کرتی ہیں۔ عید اہلِ کشمیر بھارت کے ساتھ نہیں پاکستان کے ساتھ مناتے ہیں۔ یہ سب اپنی جگہ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے، اور ہم بحیثیت قوم اس پر نادم ہیں اور پاکستانی عوام کے جذبات کا خون کر کے پاکستانی حکمرانوں نے اور خصوصیت سے پرویز مشرف کے دور میں ۲۰۰۲ء کے بعد سے جو پالیسیاں اختیار کی گئیں، وہ اصولی اور اسلامی اعتبار سے غلط اور سیاسی اور علاقائی سلامتی و استحکام کے اعتبار سے تباہ کن رہیں جن کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ۱۴سال کے اس کنفیوژن، کمزوری اور بے وفائی کے دو ضمنی نتائج ایسے ضرور نکلے جن میں اللہ تعالیٰ نے شر میں سے خیر کے نکلنے کا معجزہ سب کو دکھاد یا۔ ایک یہ کہ بھارت کا یہ ہتھیار کند ہوگیا کہ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ پاکستان کا کیا دھرا ہے اور آئی ایس آئی اور پاکستان کی جہادی تنظیمیں تحریکِ مزاحمت کی ریڑھ کی ہڈی اور اصل سہارا ہیں۔ دوسرے یہ کہ جو دُکھ بھی اہلِ کشمیر کو پاکستان کی قیادت کی اس کمزوری اور بے وفائی سے پہنچا، انھوں نے اپنا سارا بھروسا اللہ پر اور خود اپنے زورِبازو پر کیا اور اس طرح یہ تحریک تقریباً صد فی صد مقامی تحریک بن گئی اور سب سے زیادہ وہاں کے نوجوانوں نے اس کی باگ ڈور سنبھال کر اسے نئی زندگی، نئی ٹکنالوجی اور نئی سیاسی حکمت عملی سے شادکام کیا۔

اللہ پر بھروسا ان کا سب سے بڑا سہارا بن گیا۔ پاکستان یاترا، ٹریننگ کے لیے باہر جانے کا تصور، باہر سے اسلحہ حاصل کرنے پر بھروسا، عسکری پہلو پر ساری توجہ اور سیاسی، عوامی اور خدمتی میدانوں پر توجہ کی کمی، ان سب اُمور پر ازسرِنو غور کیا جانے لگا۔ نئی حکمت عملی بنائی گئی۔ خودانحصاری کو طریق واردات قرار دیا گیا۔ اسلامی اخلاقی تعلیمات پر بھی زیادہ سختی سے عمل کی فکر کی گئی اور اسلام کے نام پر جو غلط طریقے دنیا کے مختلف مقامات پر اختیار کیے جارہے ہیں جن کی وجہ سے اسلامی جہاد اور دہشت گردی میں جو جوہری اور ہمہ جہتی فرق ہے وہ متاثر اور مجروح ہوا ہے، اس کی تلافی کی فکر کی گئی۔ یہ بڑی بنیادی اور انقلابی تبدیلیاں ہیں جو اس دور میں نمایاں طور پر کی گئیں اور کی جاتی ہوئی نظر آنے لگیں۔ بُرہان وانی اس عسکریت کی علامت بن گیا جو اَخلاق کی پابند، فساد سے پاک اور صلاح کا ذریعہ ہے۔ بلاشبہہ حزب المجاہدین کا ۱۹۷۱ء کی مشرقی پاکستان کی البدر کی طرح پہلے دن سے یہی مقصد اور ہدف رہا ہے اور ان کی سرگرمیاں اس عہد پر مبنی تھیں کہ وہ   آلۂ ظلم نہیں بنیں گے اور جہاد کے اسلامی آداب و احکام کی مکمل پاس داری کریں گے۔ الحمدللہ تحریکِ آزادیِ کشمیر کے اس موجودہ دور میں یہ پہلو بہت نمایاں ہے اور اس کا گہرا تعلق اس تصور سے بھی ہے کہ جموں و کشمیر کی تحریکِ آزادی صرف بھارت کی استعماری قوت کی غلامی سے آزادی کی جدوجہد ہونے کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر کی اصل شناخت___ اسلام اور اسلامی تہذیب و تمدن کی حفاظت، ترویج اور ترقی کے لیے ہے۔ یہ صرف سیاسی مقصد کے لیے ایک تحریک نہیں بلکہ سیاسی تحریک کے اصل مقاصد نظریاتی، دینی ، تاریخی، تہذیبی، ثقافتی اور اخلاقی ہیں۔ تحریک کے اس رنگ اور مزاج کا آئینہ وہ انٹرویو ہے جو بُرہان اور خالد کے والد مظفراحمد وانی نے خالد کی شہادت کے بعد اور بُرہان کی شہادت سے پہلے ہندستان ٹائمز کے نامہ نگار ہریندر بویجا کو اکتوبر ۲۰۱۵ء میں دیا:

سوال: ایک پڑھا لکھا کشمیری نوجوان شدت پسندی کی آواز کیسے بن گیا؟

جواب: ہندستان سے آزادی، یہ نوجوانوں کا ہی نہیں بلکہ ہم سب کا مقصد ہے۔ آپ کو معلوم ہے کشمیر کے حالات کیسے ہیں، ٹرک ڈرائیور یہاں سے جاتا ہے، مار دیا جاتا ہے، کیوں کہ مسلمان ہے۔ ہم حلال جانور ذبح کرتے ہیں فساد ہوجاتے ہیں۔ پھر سوال کیا: آپ کو پتا ہے ہندستان کی فوج کو ہرانا بہت مشکل ہے لیکن اس نے کیا جذبۂ ایمانی سے بھرپور جواب دیا: بہت مشکل ہے، بہت مشکل ہے، لیکن ہمارا اللہ پر یقین ہے، ہمیں یقین ہے کہ جو اس تحریک میں ہندستان کے ظلم و ستم سے مرتا ہے وہ مرتا نہیں بلکہ اپنے اللہ کے پاس جاتا ہے۔ دوسری دنیا میں ٹرانسفر ہوجاتا ہے۔ سوال کیا گیا کہ آپ کو تکلیف ہوگی کہ آپ کا بیٹا گولی سے مرے گا۔ جواب دینے والے باپ کی ہمت اور ایمان دیکھیے، کہا: ہاں تھوڑی تکلیف تو ہوتی ہے لیکن پھر یاد آتا ہے۔ پہلے خدا پھر بیٹا، پہلے محمدصلی اللہ علیہ وسلم، پھر بیٹا، پہلے قرآن ، پھر بیٹا، پہلے بیٹا نہیں ہے۔ اس کے بعد پوچھا: بُرہان آج ایک رول ماڈل بن چکا ہے۔ اس کی ویڈیو سامنے آئی ہیں۔ وہ جو کہتا ہے لوگ اس کے پیچھے چلتے ہیں۔ جواب دیا: آج ۹۰ فی صد لوگ اُسے دعائیں دیتے ہیں کہ بُرہان زندہ رہے تاکہ ہماری جدوجہد آگے بڑھے۔ آج اسے مجاہد بنے ہوئے پانچ سال ہوگئے، یہ دوہزار دن بنتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم وہ کھاتا کہاں سے ہے، پہنتا کہاں سے ہے، آخر لوگ اس کی مدد کرتے ہیں نا۔ آخری سوال کیا: آپ اس کے لیے دعا کرتے ہیں؟ کہا: میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ اسے کامل ایمان عطا کرے۔

سوال: یہ کشمیری پاکستان سے کیوں ملنا چاہتے ہیں؟ اپنی آزاد ریاست کے لیے جدوجہد کیوں نہیں کرتے؟

جواب: اللہ کے لیے جان دینے والوں کو بخوبی علم ہے کہ دنیا میں ۲۰۰ سے زیادہ ملکوں میں سے صرف ایک ملک ایسا ہے جو رنگ، نسل، زبان اور علاقے کی بنیاد پر نہیں بلکہ کلمہ طیبہ لا الٰہ الا اللہ کی بنیاد پر بنا ہے۔ کشمیر کے لیے مرو یا دنیا کے کسی اور ملک کے لیے اس کا مقصد دنیاوی، علاقائی اور قومی جدوجہد میں مر کر امر ہونا ہوگا۔ لیکن پاکستان کے لیے مرنا اللہ کے لیے مرنا ہے، شہادت کی موت ہے۔

مجاہد بُرہان وانی کی شہادت سے صرف ایک ماہ پہلے جون ۲۰۱۶ء میں آنے والی ویڈیو اسلامی جہاد کے تصور اور اس سے وفاداری کی منہ بولتی تصویر ہے، اخلاقیات کی علَم بردار تھی۔ اس نے کہا: مجاہدین امرناتھ یاترا پر حملہ نہیں کریں گے۔ ہندو پنڈت جموں میں آکر رہ سکتے ہیں لیکن ان کے لیے اسرائیل کی طرح علیحدہ بستیاں مت بنائو۔ اس نے کہا: ہم صرف اور صرف یونیفارم والوں پر حملے کریں گے کہ ان سے ہی ہماری لڑائی ہے۔۱؎

۱-  یہ انٹرویو روزنامہ دنیا میں برادرم اوریا مقبول جان کے کالم مورخہ ۱۱جولائی ۲۰۱۶ء سے لیا گیا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ یہ انٹرویو آج بھی یوٹیوب پر موجود ہے۔

لندن کے روزنامہ دی گارڈین میں اس کے نمایندے جان بون کا کالم ۱۱جولائی کو شائع ہوا ہے۔ اس میں بُرہان وانی کی شہادت اور ان کے والد کے تصورات کو اس طرح بیان کیا گیا ہے:

کشمیر میں تشدد کا حالیہ رائونڈ جس کے بارے میں بھارت اور پاکستان دونوں ہی دعویٰ کرتے ہیں جمعہ کو اس وقت شروع ہوا جب ایک بُرہان وانی مقبول کمانڈر جو کشمیر کی سب سے مقبول عسکری تنظیم حزب المجاہدین سے وابستہ تھا، جنگلات میں، دیہات میں، سری نگر میں ہلاک ہوگیا تھا۔

وانی ایک نئی نسل کا حصہ ہے جو ویب کی شوقین سائٹس پر مبنی ہے جو اپنے مطالبات اور کشمیر کی آزادی کو قبول کرنے کے لیے سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ سے زیادہ افراد نے ہفتے کے روز اس کے جنازے میں شرکت کی۔

آزادی کے حامیوں نے سڑکوں پر آکر ردعمل کا اظہار کیا۔ بند دکانوں پر نعرے پینٹ کیے ہیں۔وانی نے اپنی تازہ ترین وڈیو میں پولیس افسروں سے اپیل کی ہے کہ وہ بھارتی قبضے کی حمایت ترک کردیں اور آزادی کی جنگ میں شریک ہوجائیں۔ ایک سینیر پولیس افسر نے حالیہ برسوں میں وانی کی ہلاکت کو militants کے خلاف سب سے بڑی کامیابی قرار دیا ہے جب کہ دوسروں نے تصدیق کی کہ اس کی موت تشددپسند علیحدگی پسندوں کے لیے اپیل میں اضافہ کرے گی۔

جموں و کشمیر کے ساتھ وزیراعلیٰ عمرعبداللہ نے ٹویٹ کیا کہ وانی کی قبر میں صلاحیت اس سے زیادہ عسکریت پیدا کرنے کی صلاحیت ہے جتنی اس نے سوشل میڈیا سے پیدا کی۔ اس کے والد مظفروانی کے بقول: وانی ۱۵سال کی عمر میں حزب المجاہدین میں شریک ہوا۔ جب سیکورٹی فورسز نے اس پر حملہ کیا اور اس کی توہین کی۔ اس کے والد نے ANP کو ۲۰۱۴ء میں بتایا کہ اگر وہ اپنی عزت اور عوام کے لیے مرتا ہے تو وہ شہید ہوگا۔ (دی گارڈین،………)

جہاد اور مجاہد کے بارے میں ایسی رپورٹ ایک مؤقر انگریزی روزنامے میں دہشت گردی کے خلاف نائن الیون کے بعد کی جنگ اور اسلامی دہشت گردی اور اسلاموفوبیا کے اس ماحول میں ایک بڑی نادر شے ہے___ اور یہ بھی ۸جولائی کے ثمرات میں سے ایک ہے۔

روزنامہ دی ایکسپریس ٹربیون (۲۵ جولائی ۲۰۱۶ئ) میں مرکزی حکومت کے ایک سابق سیکرٹری جناب طارق محمود نے بُرہان وانی پر The Robin Hood of Kashmir کے عنوان سے دل چسپ مضمون لکھا ہے۔اس سے ایک اقتباس اس لیے پیش خدمت ہے کہ انگریزی اخبارات کے اس انبوہ میں جس میں ہر دہشت گرد گردن زدنی قرار دیا جاتا ہے اور اچھے عسکری (Good Militant)اور بُرے عسکری (Bad Militant) کے تصور کو ٹکسال سے باہر کر دیا گیا ہے بلکہ سیاسی اور نظریاتی جرم بنادیاگیا ہے۔ ایک مجاہد کی جو تصویرآئی ہے وہ ہوا کا ایک تازہ جھونکا ہی تصور کی جاسکتی ہے:

بُرہان مظفروانی ایک ملیشیا کمانڈر تھا جو کچھ مختلف تھا۔وہ ایک کمانڈر تھا جس نے اپنے ساتھیوں کو خودکش جیکٹ پہن کر عوامی مقامات پر دھماکا کرکے بے گناہ انسانوں کو ہلاک کرنے کی ہدایت نہیں کی تھی۔ وہ ایک ایسا کمانڈر تھا جو کمین گاہوں میں چھپتا پھرتا نہ تھا بلکہ لوگوں کے دلوں میں رہتا تھا۔ وہ ان لوگوں کو ہدف بنانے کا کہتا تھا جنھوں نے کشمیریوں کی واضح توہین کی ہو، ذہنی و نفسیاتی ٹارچر کیا ہو۔ وہ ایسا کمانڈر تھا جو نوجوانوں سے اپیل کرتا کہ امرناتھ یاترا میں ہندو یاتریوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ اس کے پاس کوئی وقت نہیں تھا کہ وہ لائن آف کنٹرول کے پار عناصر سے مدد لیتا۔ بلاشبہہ وہ کشمیریوں میں ظالم ڈوگرہ راج کے خلاف جدوجہد کا تسلسل ہے جو ۱۹۳۱ء میں شروع ہوئی تھی۔

تحریکِ آزادی کے نئے دور کا یہ ایک بڑا خوش گوار پہلو ہے کہ تحریکِ آزادی اور  دہشت گردی کے جس فرق کو نائن الیون کے بعد ختم کر دیا گیا تھا اس کا احساس ایک بار پھر بیدار ہونے لگا ہے۔ ہرہتھیار اُٹھانے والا لازماً دہشت گرد نہیں۔ گولی معصوم انسانوں کا خون بہانے کے لیے بھی استعمال ہوسکتی ہے اور مجبور اور کمزور انسانوں کی جان، مال اور عزت کے تحفظ کے لیے بھی۔ تلوار دوسروں کو غلام بنانے کے لیے بھی استعمال ہوسکتی ہے اور انسانوں کی غلامی سے نجات دلانے کے لیے بھی۔ قوت کا استعمال خیر اور صلاح کے قیام اور انصاف اور عدل کے فروغ کے لیے بھی ہوسکتا ہے اور ظلم اور کفر کے فروغ کے لیے بھی۔ دونوں کا فرق مقصد، آداب و ضوابط ، کردار اور کارکردگی بالآخر عملی نتائج کی روشنی میں دیکھا جاسکتا ہے     ؎

پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں

کرگس کا جہاں اور ہے، شاہیں کا جہاں اور

۵- ۸ جولائی کے بعد جو تحریریں سامنے آرہی ہیں ان میں ایک اور بڑے بنیادی اصولی مسئلے کی بازیافت کے بھی اشارے مل رہے ہیں۔ تاریخ میں ’مبنی برحق جنگ ‘ (just war) اور  ’مبنی برظلم جنگ‘ (unjust war) میں ہمیشہ فرق کیا گیا ہے اور ایک یعنی ’جسٹ وَار‘ کو خارجہ سیاست کا ایک ہتھیار اور خیر اور فلاح کے حصول کا ایک ذریعہ تصور کیا گیا ہے اور صرف زر، زمین اور قوت حاصل کرنے اور دوسروں کو ان کے حقوق کے محروم کرنے کے لیے تلوار کے استعمال کو قابلِ مذمت قرار دیا گیا ہے۔ اس بنیاد پر جدید بین الاقوامی قانون میں سامراجی اقتدار اور غلبہ ظلم کی ایک شکل قرار دیا گیا اور سامراج کے خلاف جنگ ِ آزادی اور حق خود ارادیت کے حصول کے لیے جدوجہد خواہ وہ سیاسی ہو یا وہ عسکری جنگ کی شکل اختیار کرے، میں فرق کیا گیا ہے۔ اس وجہ سے جنگ ِ آزادی (war of liberation) کو دہشت گردی تسلیم نہیں کیا گیا۔ امریکا کی برطانوی سامراج کے خلاف جنگ کو ’جنگ ِ آزادی‘ کا نام دیا گیا اور جارج واشنگٹن کو خواہ تاجِ برطانیہ کے نمایندے غدار اور دہشت گرد قرار دیتے رہے ہوں لیکن دنیا نے اور بین الاقوامی قانون نے اسے آزادی کا ہیرو قرار دیا۔ موجودہ اقوامِ متحدہ کے ۱۹۲؍ارکان ممالک میں تقریباً ۱۵۰ ایسے ہیں جو سیاسی اور عسکری جنگ کے نتیجے میں آزادی حاصل کرسکے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی دہشت گردی کی تعریف پر آج تک متفق نہیں ہوسکی کہ عظیم اکثریت کی نگاہ میں جنگ ِ آزادی دہشت گردی نہیں۔ اور اس امر پر اقوامِ متحدہ کے تمام ہی ادارے متفق ہیں۔(دیکھیے: کرسٹوفر کوئے، Liberation Struggle in International Law، ٹمپل یونی ورسٹی پریس، فلاڈلفیا، ۱۹۹۱ئ)

اس پس منظر میں ۸جولائی کے بعد کم از کم میری نظر سے پہلی بار ایک مشہور بھارتی صحافی آکار پٹیل کی یہ تحریر آئی ہے کہ بھارت میں ریاست جموں و کشمیر میں مزاحمت کی تحریک اور ملک کے دوسرے حصوں خصوصیت سے وسط ہند کی آرمی واسی بیلٹ جس کی سرحدیں جھارکھنڈ ، اڑیسہ اور چاٹس گڑھ تک پہنچتی ہیں اور تیسری شمال مشرق قبائلی بیلٹ میں برپا بغاوت کی تحریکوں میں فرق کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنے موقف کے ثبوت میں جو نقشہ وہ کشمیر اور اس میں برپا تحریک ِ آزادی کا کھینچتا ہے  اس میں یہ پیغام بہ صراحت موجود ہے کہ کشمیر کی جدوجہد کو محض دہشت گردی کہنا قرین انصاف نہیں۔("Misapplying the term terrorism in India"،دی ایکسپریس ٹربیون، ۱۶ جولائی ۲۰۱۶ئ)

۶- ایک اور پہلو جو تحریک ِ آزادی کے موجودہ مرحلے کے سلسلے میں سامنے آرہا ہے اس کا تعلق نوجوانوں کے کردار سے ہے۔ ویسے تو تاریخ کی ہربڑی تحریک کے روحِ رواں جوان ہی رہے ہیں لیکن دورِ جدید کی آزادی کی تحریکات میں قیادت بالعموم پختہ عمر کے لوگوں کی رہی ہے۔ کشمیر کی تحریکِ آزادی کے موجودہ مرحلے میں جوانوں کے کلیدی کردار نے اس تحریک میں نئی جان ڈال دی ہے۔ پرانی قیادت آج بھی محترم ہے اور عزت اور رہنمائی کے اعلیٰ مقام پر متمکن ہے۔ لیکن اب ایک فطری انداز میں نئی قیادتیں اُبھر رہی ہیں اور یہ ایک نعمت ہے۔

تحریک ِ آزادیِ کشمیر کے یہ چھے پہلو ہیں جو ہماری نگاہ میں ۸جولائی کے بعد نئی اہمیت کے ساتھ سامنے آئے ہیں اور آیندہ کی پالیسی سازی کے باب میں ان سب کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔

آیندہ گزارشات سے پہلے میں تحریکِ آزادیِ کشمیر کے پورے تاریخی ، نظریاتی، سیاسی اور عسکری پس منظر کی روشنی میں جو سب سے اہم بات کہنا چاہتا ہوں اور جو میرے اپنے۷۰سالہ مطالعہ اور غوروفکر کا حاصل ہے وہ یہ ہے کہ ۸جولائی جہاں تحریک کے تسلسل کی علامت ہے وہیں وہ تحریک کو ایک ایسے فیصلہ کن تاریخی موڑ تک لے آیا ہے جہاں صحیح حکمت عملی اور اس پر عمل کرنے کے لیے ایک مؤثر ، قرارواقعی ، حقیقت پسندانہ اور جامع پالیسی تحریک کو اپنی منزل سے بہت قریب کرسکتی ہے۔ ہماری نگاہ میں اس حکمت عملی اور پالیسی کو ان حقائق کی روشنی میں مرتب کرنا وقت کی اصل ضرورت ہے:

(الف) مقبوضہ کشمیر پر بھارت کا ۶۹سالہ قبضہ اپنے اصل مقاصد کے حصول میں ناکام رہا ہے۔ فوجی قوت اور سرکاری استبداد کے ہرممکن حربے کے باوجود جموں و کشمیر کے عوام کو محکومی کو قبول کرنے یا اس پر خاموش ہوجانے میں حکمران قوت کو کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے جسے تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں لیکن بھارت کے حکمران اور بااثر طبقے اس صورتِ حال کو سمجھنے کے باوجود ابھی اسے تسلیم نہیں کر رہے لیکن اسے تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارئہ کار نہیں۔

(ب) حالات کو اس مقام تک لانے میں سب سے اہم کردار جموں و کشمیر کے عوام اور تحریکِ آزادی کی قیادت کا ہے۔ یہ تحریک بنیادی طور پر سیاسی ہے اور بالآخر اس کا حل بھی سیاسی ہی ہوگا لیکن اقتدار کی ظالمانہ اور استبداد پر مبنی پالیسی کے نتیجے میں عسکریت نے بھی ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ تاہم اصل چیز ان کے درمیان صحیح توازن اور سیاسی پہلو کا غلبہ ہے۔ جہاں عسکریت کا ایک اہم مثبت کچھ حالات میں فیصلہ کن حد تک اہم کردار ہے، وہیں عسکریت پسندی اصل فیصلہ کن عامل نہیں۔ اس کا کردار یا معاونت کا ہے یا سدجارحیت کا۔ اور اس سے بھی بڑھ کر عسکریت کا چہرہ اور کردار مثبت اور اخلاقی برتری کا ہوگا (جس کا سمبل آج بُرہان وانی ہے) تو وہ مفید اور فیصلہ کن ہوگا اور اگر فساد، عدم تواز ن اور نتائج اور اثرات سے بے نیاز ہوکر انتقام اور غصہ کا ہوگا تو عسکریت اپنا اخلاقی وزن کھو دیتی ہے۔ جدید اور قدیم تاریخ اس کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ خود کشمیر کی تحریک کی تاریخ میں خصوصیت سے ۱۹۹۰ کے عشرے کے وسط میں اسے دیکھا جاسکتا ہے۔ ۸جولائی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے عسکریت کے معتبر چہرے کو ایک بار پھر اس جدوجہد میں نمایاں کر دیا ہے اور تحریک ِ آزادی کی اخلاقی اور سیاسی برتری کو اس حد تک واضح کردیا ہے کہ جو اپنوں کے لیے قوت اور نئے جذبے کا ذریعہ اور مخالفین کے لیے نہ صرف سوالیہ نشان بلکہ کڑوی گولی بنتا جارہا ہے۔ یہ وہ نازک لمحہ ہے جب اس توازن کی حفاظت اور سیاسی جدوجہد کی اوّلیت اور مرکزیت کا سختی سے اہتمام تحریک کی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔

ان بنیادی حقائق کی روشنی میں اور تحریک کو ان میں نظر آنے والے مقاصد اور حقائق کے ذریعے منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے جس وژن، جس حکمت عملی اور جس پالیسی اور جس نوعیت کے اقدام کی ضرورت ہے___ آیندہ سطور میں ان کی نشان دہی کی جارہی ہے۔

کشمیر پالیسی کی اصل بنیادیں

اب ہم بہت ہی اختصار کے ساتھ سب سے پہلے ان اُمور کو واضح کرنا چاہتے ہیں جو پاکستان کی کشمیر پالیسی کی اصل بنیاد ہیں اور موجودہ حالات کی روشنی میں حکومت، قوم اور اس کی سیاسی، دینی اور عسکری قیادت اور ان تمام عناصر کو کرنے چاہییں جو سیاسی پالیسیوں کو متاثر کرسکتے ہیں۔

کشمیر پر قومی اجماع جن اُمور پر ہے اور قائم رہ سکتا ہے ، وہ یہ ہیں:

                ۱-            جموں و کشمیر کی ریاست ایک وحدت ہے، اور اس کے مستقبل کا فیصلہ ایک وحدت کے طور پر کیا جانا ہے۔

                ۲-            ریاست کے مستقبل کا فیصلہ ہونا باقی ہے، اس کے ۶۰ فی صد علاقے پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ ہے، نام نہاد الحاق ایک ڈھونگ اور دھوکا ہے، جسے کوئی دستوری، قانونی، سیاسی اور اخلاقی جواز حاصل نہیں۔

                ۳-            ریاست کے مستقبل کا فیصلہ اس کے عوام کو اپنی آزاد مرضی سے کرنا ہے جسے معلوم کرنے کے لیے بین الاقوامی انتظام میں استصواب راے کرایا جائے گا۔

                ۴-            کشمیر کا مسئلہ نہ زمین کا تنازعہ ہے، نہ سرحد کی صف بندی کا معاملہ ہے، اور نہ محض پاکستان اور بھارت میں ایک تنازعہ ہے بلکہ اس کے تین فریق ہیں: پاکستان، بھارت اور جموں و کشمیر کے عوام___ جنھیں آخری فیصلہ کرنا ہے۔

                ۵-            کشمیر بھارت کے لیے غاصبانہ ہوسِ ملک گیری کا معاملہ ہے اور پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے کیوں کہ اس کا تعلق ان بنیادوں سے ہے جن پر پاکستان قائم ہوا اور تقسیم ہند عمل میں آئی۔ اس کے ساتھ اس کا تعلق ریاست کے مسلمانوں (جن کو عظیم اکثریت حاصل ہے) کے مستقبل اور پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات، نیز معاشی اور تہذیبی وجود سے بھی ہے۔

ان پانچ اُمور پر قومی اجماع تھا اور ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان کا اصولی موقف یہ ہے کہ اس مسئلے کا حل اقوامِ متحدہ کی ۱۳؍اکتوبر ۱۹۴۸ئ، ۵ جنوری ۱۹۴۹ء اور سلامتی کونسل کی دوسری قرارداوں کی روشنی میں کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق ہونا چاہیے۔

بدقسمتی سے جنرل پرویز مشرف نے ۲۰۰۳ء میں اس پالیسی سے انحراف کا راستہ اختیار کیا۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو بائی پاس کرنے کی بات کی اور پھر ایک چار نکاتی فارمولے کا ڈھونگ رچایا جواللہ کی اعلیٰ تر تدبیر کے طفیل بھارت اور پاکستان دونوں کی اندرونی سیاسی صورتحال کے باعث زمین بوس ہوگیا۔ البتہ فکری انتشار، پالیسی کے باب میں کنفیوژن، اور سب سے بڑھ کر عملاً جموں و کشمیر کی تحریک ِ آزادی کے لیے شدید نقصان کا باعث ہوا۔ جیساکہ ہم نے پہلے عرض کیا: اللہ تعالیٰ نے تلافی کے دوسرے سامان پیداکیے لیکن ایک مدت تک تحریک ٹھٹھری ٹھٹھری رہی اور اس کی ترقی کی رفتار بُری طرح متاثر ہوئی۔ نیز پاکستان سے جو توقعات کشمیری عوام کو ہیں، انھیں بھی بڑا دھچکا لگا۔ افسوس کا مقام ہے، پرویز مشرف کے اقتدار کے خاتمے کے بعد جو حکومتیں بنیں انھوں نے بھی پالیسی کو اصل اجماعی پوزیشن کے مطابق ازسرِنو تشکیل دینے اور پوری قوت سے متحرک کرنے کے باب میں کوئی اہم قدم نہیں اُٹھایا۔ کشمیر کمیٹی بھی کوئی مفید اور مؤثر کردار ادا کرنے سے قاصر رہی۔ نوازشریف صاحب نے عوامی اور خود اپنی جماعت کے کچھ اہم لوگوں کے دبائو میں چندبیانات کی حد تک اصولی موقف کا اعادہ کیا لیکن عملاً کوئی اقدام نہیں اُٹھایا بلکہ اپنی ذاتی ترجیحات کے زیراثر بھارت سے خوش گوار تعلقات، اعتماد سازی کے لیے اقدامات کے سلسلے میں نئی دل چسپی اور بھارت سے تجارت کے ناکام تجربات کو ایک بار پھر دُہرانے کا راستہ اختیار کرنے کی کوشش کی اور ہرقدم پر ٹھوکر کھائی۔ اس پس منظر میں۸جولائی پاکستان اور اس کی موجودہ قیادت کو ایک تاریخی موقع فراہم کر رہا ہے اور ہم ملک کی پوری قیادت سے پوری درمندی اور دل سوزی سے استدعا کرتے ہیں کہ اس تاریخی موقعے سے پورا پورا فائدہ اُٹھائیں۔ اس سلسلے میں پارلیمنٹ کی قرارداد ایک اچھا ابتدائی اقدام ہے لیکن اصل امتحان یہ ہے کہ ہم ایک طرف اس قومی موقف پر سختی سے ڈٹ جائیں جس کا آغاز علامہ اقبال کی رہنمائی میں ۱۳جولائی ۱۹۳۱ء کو شروع ہونے والی تحریکِ آزادیِ کشمیر کے موقعے پر ہوا، جسے تحریکِ پاکستان کے دوران نکھار اور تقویت ملی اور جس پر قیامِ پاکستان کے بعد پاکستانی قوم قائم ہے۔

علامہ اقبالؒ نے تقسیم ہند سے ۱۵سال قبل کشمیر اور پاکستان کے رشتے کو یوں واضح کیا تھا:

کشمیر کا مسئلہ تمام مسلمانانِ ہندستان کی سیاسی حیات اور موت کا مسئلہ ہے۔ اہلِ کشمیر سے ناروا سلوک، ان کی جائز اور دیرینہ شکایات سے بے اعتنائی اور ان کے سیاسی حقوق کا تسلیم نہ کرنا، مسلمانانِ ہند کے حقوق کو تسلیم کرنے سے انکار ہے۔ حق بات بھی یہی ہے کہ اہلِ خطہ کشمیر ملّت ِ اسلامیہ کا جزولاینفک ہے۔ ان کی تقدیر کو اپنی تقدیر نہ سمجھنا تمام ملّت کو تباہی و بربادی کے حوالے کر دینا ہے۔ اگر مسلمانوں کو ہندستان میں ایک مضبوط و مستحکم قوم بننا ہے تو دو نکات کو ہر وقت ذہن میں رکھنا ہوگا۔ اوّل یہ کہ شمال مغربی سرحدی صوبے کو مستثنیٰ کرتے ہوئے حدود ہند کے اندر جغرافیائی اعتبار سے کشمیر ہی وہ خطہ ہے جو مذہب اور کلچر کی حیثیت سے خالصتاً اسلامی ہے۔ دوسری بات جسے مسلمانانِ ہند کبھی نظرانداز نہیں کرسکتے، یہ ہے کہ ان کی پوری قوم میں سب سے بڑھ کر اگر صناعی و ہنرمندی اور تجارت کو بخوبی پھیلانا……… نمایاں طور پر کسی طبقے میں موجود ہیں تو وہ اس خطے کا گروہ ہے۔ بہرحال وہ قوم اسلامی ہند کے جسم کا بہترین حصہ ہیں۔ اگر وہ حصہ درد و مصیبت میں مبتلا ہے تو یہ ہو نہیں سکتا کہ باقی افراد ملّت فراغت کی نیند سو جائیں۔ (بحوالہ کشمیری مسلمانوں کی جدوجہد آزادی، ص ۴۷۱)

قائداعظمؒ نے ۱۹۴۴ء میں مسلم اسٹوڈنٹس یونین کے سپاس نامے کے جواب میں کشمیر کے بارے میں فرمایا تھا:

مسلمان جغرافیائی حدود کے قائل نہیں ہیں۔ اس لیے اسلامی برادری کے نام پر ہندستان کے مسلمان آپ کی مدد کے لیے کمربستہ ہیں۔ اگر آپ پر ظلم ہوا یا آپ سے بدسلوکی کی گئی تو ہم بیکار تماشائی کی صورت میں نہیں رہ سکتے۔ ایسی صورت میں برطانوی ہند کے مسلمان آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہوجائیں گے کیونکہ بحیثیت مسلمان ہم آپ کی مدد کے پابند ہیں۔

آج ہمارے حکمران’جہاد‘ کے لفظ سے خائف اور اس پر شرمندہ ہی نہیں ہیں بلکہ اپنی آزادی کی جنگ لڑنے والوں اور ان کی مدد کرنے والوں کو ’دہشت گرد‘ تک قرار دے رہے ہیں۔ لیکن دیکھیے جب اپنے کشمیری بھائیوں کی مدد کے لیے قبائلی مسلمان، وہی قبائلی مسلمان جن پر آج امریکا کی خوش نودی کے حصول یااس کے حکم کے تحت پاکستانی فوج کو بم باری اور آگ اور خون کی ہولی کھیلنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، ان قبائلی مسلمانوں نے کشمیر کے جہاد میں شرکت کی اور اس پر جب بھارتی گورنر جنرل نے ان کے خلاف اقدام کا مطالبہ کیا تو قائداعظم نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کیا فرمایا:

ہم اس کی ذمہ داری لینے پر تیار نہیں اور نہ ہم قبائلیوں پر دبائو ڈال سکتے ہیں کہ وہ کشمیر کو خالی کردیں۔ مسلمانانِ کشمیر نے ڈوگرہ آمریت سے تنگ آکر ہری سنگھ کی گورنمنٹ کو فتح کرنے کے لیے جہاد شروع کر رکھا ہے اور قبائلیوں نے مجاہدین کا ہم مذہب ہونے کی مناسبت سے ان کی امداد کی ہے۔ لہٰذا ہم اس معاملے میں کسی قسم کا دخل دینے کو تیار نہیں ہیں۔ کیونکہ مجاہدین کی یہ جنگ ِ آزادی ہے اور کوئی آزادی پسند ملک آزادی کی خاطر لڑنے والوں کے مخالفین کے ہاتھ مضبوط نہیں کرسکتا۔ اس لیے جن قبائلیوں کو برطانوی حکومت نہ دبا سکی، ہم انھیں کیسے روک سکتے ہیں۔ وہ ایک نصب العین کے لیے نبردآزما ہیں۔ (۳ نوبر ۱۹۴۷ء کو قائداعظم اور مائونٹ بیٹن کے مابین ایک کانفرنس کی رُوداد ملاحظہ ہو، رشحاتِ قائد ، مرتبہ: نجمہ منصور، العبد پبلی کیشنز، سرگودھا، ۱۹۹۲ئ، ص ۱۶۷-۱۶۸)

اس موقع پر قائداعظم نے مائونٹ بیٹن سے بڑی صفائی سے یہ بھی کہا تھا:

عوام نے متعدد بار راجا سے اپیل کی کہ وہ پاکستان میں شامل ہوجائیں لیکن راجا پر اس مسئلے کا اُلٹا اثر ہوا، اور اس نے عوام کی آواز کو طاقت کے بل پر دبانے کی کوششیں کیں۔ اس پر عوام نے بھی طاقت کا جواب طاقت سے دینا شروع کر دیا۔ جب راجا ان کی چوٹ برداشت نہ کرسکا تو اپنا اقتدار ختم ہوتے دیکھ کر اسے ہندستان میں شامل ہونے کی سوجھی۔ دراصل کشمیر ہندستان میں شامل نہیں ہوا، بلکہ ہری سنگھ شامل ہوا ہے۔ جب ہندستان میں ہری سنگھ کی شمولیت کے خلاف کشمیری عوام ہتھیار اُٹھانے پر مجبور ہوگئے تو ان سے یہ راے طلب کرنے کی تجویز کہ وہ ہندستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا پاکستان میں، نہ صرف فریب بلکہ مضحکہ خیز بھی ہے۔

کسی قسم کی لگی لپٹی رکھے بغیر قائداعظم نے مائونٹ بیٹن سے یہ بھی کہا: کشمیر جہاں اقتصادی اور معاشی لحاظ سے پاکستان کا ایک جز ہے، وہاں سیاسی اعتبار سے بھی اس کا پاکستان میں شامل ہونا ضروری ہے۔ (رشحاتِ قائد، مذکورہ بالا)

کشمیر کے بارے میں قائداعظم کی پالیسی کیا تھی؟ اس کا اظہار انھی کے الفاظ میں ان کے معالج ڈاکٹر الٰہی بخش نے کیا ہے:

کشمیر سیاسی اور فوجی حیثیت سے پاکستان کی شہ رگ ہے۔ کوئی خوددار ملک اور قوم اسے برداشت نہیں کرسکتی کہ وہ اپنی شہ رگ دشمن کی تلوار کے آگے کردے۔ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے۔ ایک ایسا حصہ ہے جسے پاکستان سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ کشمیر کا مسئلہ نہایت نازک مسئلہ ہے لیکن اس حقیقت کو کوئی انصاف پسند قوم اور ملک نظرانداز نہیں کرسکتا کہ کشمیر تمدنی، ثقافتی، مذہبی، جغرافیائی، معاشرتی اور سیاسی طور پر پاکستان کا ایک حصہ ہے اور جب بھی اور جس زاویے سے بھی نقشے پر نظر ڈالی جائے یہ حقیقت بھی اتنی ہی واضح ہوتی چلی جائے گی۔(قائداعظم کے آخری ایام)

آج اس امر کی ضرورت ہے کہ اقبال اور قائداعظم کے ارشادات کی روشنی میں اور ان تمام زمینی اور تاریخی حقائق اور پاکستان او ریاست جموں و کشمیر کے مسلمانوں کے حقیقی جذبات، عزائم اور تمنائوں کے مطابق پاکستان اپنی کشمیر پالیسی مرتب کرے اور اس پر مؤثر عمل درآمد کے لیے ضروری اقدام کرے جن پر پوری تندہی اور شفافیت کے ساتھ ہرسطح پر عمل کیا جائے۔ پارلیمنٹ اور قوم کو اعتماد میں رکھا جائے، احتساب کا نظام متحرک اور مؤثر ہو اور پاکستانی قوم اور مسلمانانِ جموں و کشمیر ایک دوسرے کے لیے تقویت کا ذریعہ بن کر مشترکہ مفادات اور مقاصد کے لیے اس تحریک کو اپنے منطقی انجام تک لے جائیں جس کی آبیاری ہمارے نوجوان اپنے خون سے کر رہے ہیں۔

مجوزہ کشمیر پالیسی

پاکستان کی کشمیر پالیسی کیا ہو؟

اصولی بات تو ایک جملے میں ادا کی جاسکتی ہے: پاکستان کی کشمیر پالیسی کا مقصد پاکستان اور ریاست جموں و کشمیر کے مسلمانوں کے عزائم، حقیقی مفادات اور پورے علاقے کے لیے ترقی، استحکام، سلامتی اور خوش حالی کا حصول ہونا چاہیے۔

اس سلسلے میں جو بنیادی حقائق سامنے رکھنا ضروری ہیں وہ یہ ہیں:

۱- مسئلہ کشمیر ، ریاست جموں و کشمیر کے سوا کروڑ سے زائدمسلمانوں کے ایمان، عزت، آزادی اور سیاسی اور تہذیبی مستقبل کا مسئلہ ہے۔ یہ تقسیم ملک کے نامکمل ایجنڈے کا حصہ ہے۔ پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا سوال ہے۔ یہ محض دو ملکوں کے درمیان سرحدی تنازعہ نہیں۔ اس لیے ہماری سیاسی ترجیحات میں اسے اولیت دینا چاہیے۔

۲- مسلمانانِ جموں و کشمیر نے اپنی بیش بہا قربانیوںکے ذریعے اس مسئلے کو زندہ رکھا ہے اور اس وقت اسے اس مقام تک پہنچا دیا ہے جہاں ہندستان اور دنیا کے دوسرے ممالک یہ محسوس کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اس مسئلے کو حل کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ لیکن جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ ساتھ، اس مسئلے کے فریق پاکستان، ہندستان اور اقوامِ متحدہ بھی ہیں۔ پاکستان کا فرض ہے کہ ایک فریق کی حیثیت سے مسئلے کو لے کر اُٹھے اور ہرمیدان میں اس کے حل کے لیے سرگرم ہو… تحریکِ آزادی کی مدد کے ذریعے بھی اور عالمی راے کو منظم اور مسخر کر کے بھی۔

۳- پاکستان اس موقف کے بارے میں ذرہ برابر بھی کمزوری نہ دکھائے کہ مسئلۂ کشمیر کے حل کا صرف ایک طریقہ ہے وہ ہے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب راے۔ اس استصواب راے میں بھی صرف دو ہی راستے ہیں: یعنی ہندستان یا پاکستان سے الحاق۔ کسی تیسرے آپشن کا دروازہ کھولنا خودکشی کے مترادف ہے، پاکستان کے لیے بھی اور مسلمانانِ جموں و کشمیر کے لیے بھی۔

پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے موقف کو پوری جرأت اور دانش مندی سے پیش کرے۔ پاکستان یہ بات بھی واضح کردے کہ الحاق کے فیصلے کے بعد، پاکستان اور ریاست جموں و کشمیر میں تعلقات کی نوعیت، نظم و نسق اور انتظام و انصرام کا نقشہ، اور خود اختیاری کی شکل و نوعیت کیا ہو۔ یہ تمام اُمور ریاست جموں و کشمیر کے عوام کی مرضی کے مطابق طے ہوں۔ پاکستان کے دستور کی دفعہ ۲۵۷ بہت واضح ہے جو ریاست کے عوام کی راے کو حرفِ آخر تسلیم کرتا ہے۔

۴- پاکستان کا فرض ہے کہ مجاہدین کشمیر کی بھرپور مدد کرے اور اس کے اعلان میں شرمندگی نہ محسوس کرے۔ پاکستان نے کشمیر کی خاطر گذشتہ ۶۹سال میں بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ آج جب کشمیر کے نوجوان کشمیر اور پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں ہم ان کو تنہا نہیں چھوڑ سکتے۔     وہ ہماری جنگ لڑ رہے ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ اپنا پیٹ کاٹ کر بھی ان کی مدد کریں۔ ان کی ہرضرورت کو پورا کریں، اور ہندستان نے ان پر مظالم کے جو پہاڑ توڑے ہیں، ہم صحیح معنی میں ان کے پشتی بان بن جائیں۔

۵- پاکستان کی حکومت اور عوام کے ساتھ ساتھ، اس جدوجہد میں آزاد کشمیر کی حکومت اور عوام کی بھی بڑی ذمہ داری ہے۔ پاکستان کی حکومتوں کی طرح، آزاد کشمیر کی حکومت بھی اپنے اصلی مشن کو بھول چکی ہے۔ وہ محض آزاد علاقے کی حکومت نہیں، بلکہ پوری ریاست جموں و کشمیر کی آزاد حکومت ہے، اور مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی جدوجہد اس کا اوّلین مقصد ہے۔ اسی لیے اسے بیس کیمپ کا لقب دیا گیا تھا۔ اب ضرورت یہ ہے کہ گروہی سیاست سے بالا ہوکر، آزاد کشمیر کی حکومت اور عوام تحریک میں بھرپور حصہ لیں اور اپنی ترجیحات کو یکسر بدل کر تحریکِ آزادی کو اس کے منطقی اور فطری نتیجے تک پہنچانے کے لیے سرگرم ہوجائیں۔

۶- حکومت ِ پاکستان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگرچہ یہ مقصد محض سیاسی اور سفارتی جدوجہد سے حاصل نہیں ہوسکتا، مگر سیاسی اور سفارتی مہم بہت اہم ہے اور اب تک اس کے تقاضے بھی پورے نہیں کیے جاسکے ہیں۔ محض چند وفود باہر بھیجنے سے کام نہیں ہوگا۔ اس کے لیے بڑے ہمہ گیر، منظم اور مؤثر کام کی ضرورت ہے، جس کے تحت پوری دنیا میں ہر علاقے کے حالات کے مطابق تحریکِ کشمیر کے تعارف اور اس کے لیے تائید کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی۔ ہماری وزارتِ خارجہ بالعموم اس مقصد میں ناکام رہی ہے۔

اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ کشمیر کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے وزارت کی تنظیم نو ہو، اور کشمیر ڈیسک سب سے اہم ڈیسک ہو۔ ہر اس ملک میں جہاں ہمارا سفارت خانہ ہے کشمیرسیل قائم کیا جائے، علم اور صلاحیت رکھنے والے افراد کو جو کشمیر کے لیے صحیح جذبہ رکھتے ہوں، اس کام پر لگایا جائے، اور اس طرح عالمی سطح پر ایک مؤثر تحریک چلائی جائے۔

۷- پوری پاکستانی قوم کو حالات سے آگاہ رکھنا اور جذبۂ جہاد سے سرشار کرنا بھی اس پالیسی کا اہم جزو ہونا چاہیے۔ جب تک پوری قوم کو اس تحریک کے لیے متحرک نہیں کیا جائے گا، کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔ ہراسکول، کالج اور یونی ورسٹی میں، ہرشہر، قصبہ اور دیہات میں، ہرمسجد اور مدرسے میں، ہرکارخانہ اور بازار میں، جہادِ کشمیر سے لوگوں کو متعارف کرایا جائے اور اس میں شرکت کے لیے مال سے، جان سے، ہر صورت میں آمادہ کیا جائے۔ قوم میں بڑا جذبہ ہے لیکن اسے آج تک صحیح انداز میں متحرک و منظم نہیں کیا گیا۔

۸- حکومت پاکستان کو اپنے بجٹ کو بھی ان ترجیحات کی روشنی میں ازسرِنو مرتب کرنا ہوگا۔ جہادِکشمیر کی ضروریات کو اوّلیت دینا ہوگی، اس کے ساتھ ساتھ ایٹمی طاقت کی مناسب ترقی، فوج کو چوکس رکھنا اور قوم کے نوجوانوں کو تیار کرنا ضروری ہے۔ اس بات کا خطرہ ہے کہ جب کشمیر میں حالات ہندستان کی گرفت سے بالکل نکلنے لگیں گے تو وہ پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کرے گا۔ کشمیر پالیسی کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ ہم جنگ کے لیے تیار رہیں۔ تاریخ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جو قوم جنگ سے خائف رہی ہے وہ اپنی آزادی سے بھی محروم ہوگئی ہے اور جو قوم جنگ کے لیے تیار رہی ہے، وہی اپنے ایمان، عزت و آزادی کو محفوظ رکھ سکی ہے ۔

 سابق امریکی صدر نکسن نے بہت صحیح کہا تھا کہ ’’ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ قوت کے استعمال سے دستبرداری، دراصل دشمن کو اپنے خلاف قوت کے استعمال کی دعوت دینے کے مترادف ہے‘‘۔ نکسن نے تو یہاں تک کہا ہے کہ ’’صرف تیار ہی نہ رہو، مخالف کو یہ پیغام بھی دے دو کہ تم ہرقوت کے استعمال کے لیے تیار ہو۔ یہ وہ چیز ہے جو دشمن کو تم پر دست درازی سے روکے گی‘‘۔ اسی بات کو ہنری کسنجر نے ایک دوسرے انداز میں کہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ’’اگر امن کے معنی محض جنگ سے بچنا لے لیے جائیں، اور یہ چیز ایک قوم یا بہت سی اقوام کے مجموعے کا بنیادی مقصد بن جائے، تو سمجھ لو عالمی سیاسی نظام کا سب سے زیادہ بے رحم اور سنگ دل ملک کے رحم و کرم پر ہوگا‘‘۔ اس لیے جنگ سے بچنے کا بھی سب سے مؤثر راستہ جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہنا ہے۔

۹- ہندستان پر مؤثر دبائو ڈالنے کے لیے چار ہی اہم طریقے ہیں اور ان چاروں کو مؤثر انداز میں اور مربوط منصوبہ بندی کے ذریعے استعمال ہونا چاہیے:

o تحریکِ آزادی کشمیر کی  بھرپور اور مؤثر مدد، تاکہ مقبوضہ کشمیر میں قابض قوت پر اتنا دبائو پڑے اور اسے قبضے کی اتنی گراں قیمت ادا کرنی پڑے کہ وہ پُرامن حل کے لیے تیار ہوجائے۔

o عالمی راے عامہ کو منظم کرنا، اور اس کا دبائو اتنا بڑھانا کہ ہندستان اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب راے کے لیے مجبور ہو۔ اگر فرانس کو الجزائر چھوڑنا پڑا، اگر اقوامِ متحدہ کو نمیبیا میں استصواب راے کروانا پڑا، اور اگر جنوبی افریقہ ۳۰۰سالہ نسلی امتیاز کے نظام کو ختم کرنے پر مجبور ہوا، تو ہندستان کو بھی کشمیر میں استصواب راے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ گذشتہ ۲۰برسوں میں جنوبی سوڈان، مشرقی تیمور اور شمالی آئرلینڈ میں ریفرنڈم ہوئے ہیں۔ اوّل الذکر دونوں آزاد مملکت کے طور پر وجود میں آچکی ہیں۔ شمالی آئرلینڈ نے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا اور ’گڈفرائیڈے‘ معاہدے کے تحت مل کر تمام عناصر حکومت چلا رہے ہیں جسے ۱۵سال ہوچکے ہیں۔ کینیڈا میں کیوبک کے علاقے میں اور برطانیہ میں اسکاٹ لینڈ میں ریفرنڈم ہوا۔ گو دونوں جگہ اس کے نتیجے میں نئی ریاستیں قائم نہ کرنے کا فیصلہ ہوا۔ انگلستان نے ابھی دو ماہ پہلے یورپی یونین سے نکلنے کے بارے میں ریفرنڈم کرایا اور یورپ سے نکلنے کا فیصلہ کرلیا جس پر اگلے دو سال میں عمل ہونا ہے۔ اگر دنیا میں ان تمام ممالک میں بین الاقوامی قانون کے تحت ریفرنڈم ہوسکتے ہیں تو کشمیر کے باب میں اقوامِ متحدہ میں ۲۰ سے زیادہ قراردادوں کی موجودگی میں اور بھارت کے حکمرانوں کے اپنے عہدوپیمان کے مطابق اور سب سے بڑھ کر وہاں کی عوام کی راے کو احترام میںریفرنڈم کیوں نہیں ہوسکتا؟

o ہندستان اور اس کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی عالمی مہم: پاکستان خود اس کا آغاز تمام تجارتی تعلقات منقطع کر کے کرے۔ تمام مسلمان ممالک کو اس کی ترغیب دی جائے کہ اوآئی سی کی اپریل۱۹۹۳ء کی قرارداد کے مطابق ہندستان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔ اس وقت صرف مشرقِ وسطیٰ میں ہندستان کی کُل برآمدات کا تقریباً ۵۰ فی صد جا رہا ہے۔ اگر ایک مؤثر عوامی اور سرکاری تحریک چلائی جائے تو یہ معاشی دبائو بھی ہندستان کو مجبور کرے گا کہ کشمیر میں استصواب راے کرائے۔ پھر عالمی پلیٹ فارم پر بھی معاشی پابندیوں کا مطالبہ کیا جائے۔ سیکورٹی کونسل میں،  جنرل اسمبلی میں، دنیا کی مختلف پارلیمانوں میں یہ قراردادیں منظور کرائی جائیں۔ عوامی بائیکاٹ کی مہم کے ساتھ ساتھ سرکاری پابندیوں کی تحریک بھی چلائی جائے۔فلسطین کے مسئلے کے باب میں دنیا میں اس وقت اسرائیل کے خلاف بائیکاٹ کی مہم چل رہی ہے۔ آغاز میں یہ کام ناممکن محسوس ہوتا تھا مگر چندبرسوں کی کوشش سے تحریک نے اب تقویت حاصل کرلی ہے اور اسرائیل اس پر آتش زیرپا ہے۔ ہندستان کے سلسلے میں بھی ایسی ہی تحریک کی ضرورت ہے۔اگر اس واضح ہدف کے لیے کام کیا جائے تو جلد فضا تبدیل ہوسکتی ہے۔

o قوم کو جہاد کے لیے تیار کرنا، فوج کا چوکس رہنا اور ایٹمی صلاحیت کا صحیح درجے میں موجود ہونا بہت ضروری ہے۔ایک طرف یہ چیز بیرونی جارحیت کے لیے مؤثر مانع ثابت ہوگی، اور دوسری طرف ہم کو وہ استطاعت حاصل رہے گی کہ اگر دشمن کوئی دست درازی کرتا ہے تو اس کا مؤثر جواب دیا جاسکے۔ ایٹمی طاقت کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے محدود جنگ کے امکانات کی نوعیت بدل گئی ہے اور مکمل جنگ سے اجتناب ممکن ہوسکتا ہے۔ اس لیے اس دفاعی اسٹرے ٹیجی میں ایٹمی طاقت کا مؤثر کردار ہے۔

۱۰- مندرجہ بالا خطوط پر مرتب کردہ کشمیر پالیسی کی کامیابی کے لیے ضروری ہوگا کہ اس کے نفاذ کے لیے بھی ایک مؤثر مشینری وجود میں لائی جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ پالیسی اور اس کی تنفیذی مشینری قومی بنیادوں پر استوار کی جائے۔ تمام سیاسی اور دینی جماعتوں کا فرض ہے کہ اس سلسلے میں مثبت کردار ادا کریں۔ پارلیمنٹ کو اس بارے میں مناسب ابتدائی اقدامات کرنے چاہییں۔ میڈیا کا کردار بھی غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کام کے لیے ایک قومی تحریک کی ضرورت ہے۔

جس طرح کشمیر کے نوجوانوں نے چند برسوں میں وہاں کی فضا تبدیل کردی ہے ،اسی طرح اگر پاکستان کی حکومت، سیاسی جماعتیں اور عوام اپنے فرض کی ادایگی کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں تو حالات بہت کم وقت میں بدل سکتے ہیں۔ اس کا فائدہ صرف تحریکِ آزادیِ کشمیر اور بالآخر کشمیر کے پاکستان سے الحاق کی شکل میں ہی نہیں ہوگا، بلکہ قوم کو نئی زندگی اور نیا جذبہ ملے گا، اور اس نئی زندگی اور نئے جذبے کو پاکستان کو ایک حقیقی اور مضبوط اسلامی، فلاحی مملکت بنانے کے لیے استعمال کیا جاسکے گا۔ یہی تحریکِ پاکستان کا اصل مقصد تھا اور یہی تحریکِ کشمیر کی بھی قوتِ محرکہ ہے۔

 

حضرت جابرؓ سے روایت ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حاجی کبھی بھی محتاج نہیں ہوتا۔ (بزار، طبرانی)

حج پر اخراجات بہت زیادہ آتے ہیں۔ آج کی طرح پہلے اَدوار اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی دوسرے کاموں سے بڑھ کر دو کاموں میں مال خرچ ہوتا تھا: قتال فی سبیل اللہ اور حج۔ دونوں میں سفر بھی ہوتا، سواری کی بھی ضرورت ہوتی اور مال بھی خرچ ہوتا تھا۔ ایک عام مسلمان یہ سوچ سکتا تھا کہ جو رقم میرے پاس ہے اسے حج پر خرچ کردوں یا عمرے پر تو پھر دوسرے کام کیسے ہوسکیں گے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خدشے کو دُور فرمایا کہ حج و عمرہ پر خرچ ہونے والی رقم کے سبب آدمی محتاج اور فقیر نہیں ہوجاتا۔ اللہ تعالیٰ اس کے عوض مال عطا فرما دیتے ہیں۔ گویا خرچ مزید آمدنی کا باعث ہوجاتا ہے۔ تب مال دار لوگوں کے لیے حج پر جانے سے کوئی چیز مانع نہیں ہونی چاہیے۔

o

حضرت خلّاد بن سائب اپنے والد حضرت سائب بن یزید سے روایت کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس جبریل ؑ تشریف لائے اور مجھے حکم دیا کہ میں اپنے اصحاب کو حکم دوں کہ وہ بلند آواز سے تلبیہ کہیں۔ ابن ماجہ میں ہے کہ یہ حج کا شعار ہے۔ (سنن ترمذی)

لبیک دراصل حضرت ابراہیم ؑ کی حج کے لیے پکار کا جواب ہے۔جنھوں نے اس وقت جواب دیا تھا جب حضرت ابراہیم ؑ نے حج کے لیے اللہ تعالیٰ کے حکم سے پکاراتھا۔ وہ آج بھی جواب دیتے ہیں اور حج پر جاتے ہیں۔ ان حجاج کرام کے لیے یہ ہدایت ہے کہ تلبیہ بلندآواز سے پڑھا کریں کیوںکہ یہ تلبیہ حج کی خصوصی نشانی ہے۔ اس نشانی کو رضاے الٰہی کے حصول کے لیے بلندآواز سے پڑھنا چاہیے تاکہ اردگرد کے اہلِ علاقہ بھی لبیک کے گواہ بن جائے، اور وہ بھی حاضری کے اعلان کا لطف اُٹھائیں۔

o

حضرت انسؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حج میں مال خرچ کرنے کا ثواب جہاد فی سبیل اللہ میں مال خرچ کرنے کے مثل ہے۔ ایک درہم کا ثواب ۷۰۰ درہم کے برابر۔(بزار، طبرانی اوسط)

اللہ تعالیٰ کی ذات کس قدر مہربان ہے۔ اپنے بندوں کو جب کوئی مشکل حکم دیتے ہیں تو اس کا اجر بھی زیادہ عنایت فرماتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا: عائشہؓ! تجھے جو اجر ملے گا  وہ تمھاری مشقت اور خرچ کے اندازے کے مطابق ملے گا (مستدرک حاکم)۔ حج اور قتال فی سبیل اللہ جہاں مشکل کام ہیں اس کے ساتھ ہی ان میں خرچ بھی زیادہ آتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان میں اجر بھی عام نیکیوں میں خرچ کے مقابلے میں زیادہ رکھا ہے۔ عام نیکیوں میں خرچ کا اجر ایک اور ۱۰ کا ہے لیکن حج اور قتال فی سبیل اللہ میں ایک اور ۷۰۰ کا ہے۔

o      

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب آدمی حج کے لیے حلال اور پاکیزہ مال کے ساتھ نکلتا ہے اور رکاب میں پائوں رکھا اور لبیک اللّٰھم لبیک کی صدا لگاتا ہے، تو آسمان سے اس کی پکار کا جواب دینے والا جواب دیتا ہے: لبیک وسعدیک،  ہم بھی حاضر ہیں، بار بار مدد کریں گے، تیرا زادِ راہ حلال ہے۔، تیری اُونٹنی اور حج، پاکیزہ ہے اور مقبول ہے۔ اس پر تجھے کوئی گناہ نہ ہوگا۔ لیکن جب ناپاک خرچ کے ساتھ نکلتا ہے ، اُونٹنی کی رکاب میں پائوں رکھتا اور ندا دیتا ہے: لبیک اللّٰھم لبیک تو آسمان سے ندا دینے والا ندا دیتا ہے: کوئی لبیک نہیں ہے اور کوئی مدد نہیں ہے۔ تیرا زادِ راہ حرام اور تیرا خرچ حرام ہے اور تیرا حج گناہ ہے۔ کوئی نیکی نہیں اور مقبول نہیں ہے۔(طبرانی اوسط، اصفہانی عن سلمہ مولی عمر بن الخطاب)

رکاب میں پائوں رکھنے سے مراد سواری پر سوار ہونا ہے۔ پہلے زمانے میں سواریاں اُونٹ ، گھوڑے، خچر اور گدھے وغیرہ ہوتے تھے۔ آج کل ہوائی جہاز اور بحری جہاز ہیں، یا گاڑیاں ، بسیں اور کاریں ہیں۔ جو بھی سواری میسر ہو جب آدمی اس پر چڑھے تو اسے تلبیہ پڑھنا چاہیے۔ جب زادِ راہ اور خرچ حلال ہو تو آسمان سے قبولیت کی ندا آتی ہے اور جب حرام ہو تو اس کے مردود ہونے کی اطلاع دے دی جاتی ہے۔ اس لیے حرام مال سے حج و عمرہ سے سختی سے اجتناب کرنا چاہیے ورنہ ایک دفعہ مردودیت کا ٹھپہ لگ گیا تو پھر اسے دھونا بہت زیادہ مشکل ہوگا۔ حج اور عمرے اور جہاد میں حرام اور ناپاک مال کی نحوست کا دائرہ بہت زیادہ وسیع ہے جس طرح ان دونوں میں حلال مال کا دائرہ اور اس کی برکات کا دائرہ بہت زیادہ وسیع ہے۔ اللہ تعالیٰ رزقِ حلال عطا فرمائے اور رزقِ حرام سے محفوظ فرمائے۔آمین!

o

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا ارادہ فرمایا تو ایک عورت نے اپنے شوہر سے کہا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کرائو۔ اس نے کہا کہ میرے پاس کوئی سواری نہیں ہے جس پر میں تمھیں رسولؐ اللہ کے ساتھ حج کرائوں۔ اس نے کہا کہ مجھے اپنے فلاں اُونٹ کے ذریعے حج کرائو۔ اس نے کہا کہ وہ تو قتال فی سبیل اللہ کے لیے وقف ہے۔ اس پر سوار ہوکر لڑائی میں جایا جاسکتا ہے، حج میں نہیں۔اس کے بعد وہ رسول ؐاللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپؐ سے اپنی بیوی کے ساتھ ہونے والی بات چیت کا تذکرہ کیا۔ آپؐ نے فرمایا: خبردار ہوجائو! اگر تم نے اپنی بیوی کو اسی اُونٹ پر حج کرایا تو وہ فی سبیل اللہ ہوگا، یعنی جہاد فی سبیل اللہ میں شمار ہوگا۔ اس نے کہا کہ بیوی نے مجھ سے کہا ہے کہ میں آپ ؐ سے سوال کروں کہ آپؐ کے ساتھ حج کے برابر حج کس طرح ہوجائے گا؟ اس پر آپؐ نے جواب دیا: اسے میری طرف سے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہو ، پھر کہو کہ رمضان المبارک میں عمرہ میرے ساتھ حج کے برابر ہے۔ (ابوداؤد، ابن خزیمہ)۔ بخاری کی روایت میں ہے رمضان میں عمرہ حج کے برابر ہے۔

o

ابن حبان میں ہے کہ حضرت اُمِ سلیمؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئیںاور عرض کیا: ابوطلحہ اور اس کے بیٹے نے حج کرلیا اور مجھے اپنے ساتھ نہیں لے گئے تو آپؐ نے فرمایا: اے اُمِ سلیمؓ! رمضان میں عمرہ میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے۔ (مختصر الترغیب والترھیب)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت پر شفقت فرمانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اگر کوئی خاتون آپؐ کے ساتھ حج پر نہیں جاسکی تو اسے ایسے عمرہ کی طرف رہنمائی فرما دی جس کے ذریعے وہ آپؐ کے ساتھ حج کی فضیلت حاصل کرلے۔حضرت اُم سلیمؓ کے ساتھ اور ان کے ذریعے دوسری تمام صحابیات اور قیامت تک کے لیے مومنات و مسلمات کو رمضان المبارک میں عمرہ کی طرف متوجہ فرما کر حج کی فضیلت حاصل کرلینے کی راہ بتلا دی۔ فجزاہ اللّٰہ تعالٰی عنا وعن جمیع المسلمین۔ آپؐ کی اس شفقت سے فائدہ اُٹھانے والے بے شمار اہلِ ایمان دنیا بھر میں موجود ہیں جو رمضان المبارک میں عمرہ کر کے حج کی فضیلت حاصل کرلیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان میں شامل فرما دے۔ آمین!

o

حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی دن بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک ذوالحجہ کے دس دنوں سے افضل نہیں ہے اور کوئی دن بھی عرفہ کے دن سے افضل نہیں ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس دن آسمانِ دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور زمین والوں کے ذریعے آسمان والوں پر فخر فرماتے ہیں۔ فرماتے ہیں: دیکھو! میرے بندوں کی طرف ،وہ میری طرف آتے ہیں اس حال میں کہ بال پراگندا ہیں، چہرے اور جسم غبارآلود ہیں۔ ننگے سر دھوپ میں چل کر آئے ہیں اور دھوپ ہی میں کھڑے ہیں۔ دُوردراز علاقوں سے پہنچے ہیں۔ میری رحمت کے اُمیدوار ہیں اور انھوں نے میرے عذاب کو دیکھا نہیں پھر کوئی دن عرفہ کے دن کے مقابلے میں نہیں دیکھا گیا جس میں آگ سے زیادہ لوگوں کو آزادی ملے۔ (ابویعلٰی، بزار، ابن حبان)

ابن خزیمہ اور بیہقی میں ہے کہ میں تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے انھیں بخش دیا ہے۔ فرشتے کہتے ہیں: ان میں ایک ایسا آدمی بھی ہے جو حرام کاموں کا مرتکب رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: میں نے ان سب کو اس مجرم سمیت بخش دیا ہے۔(مختصر الترغیب والترھیب)

o

اللہ کی مغفرت بڑی وسیع ہے۔ اس میں تعجب کی بات نہیں ہے۔ عبادت بھی بہت بڑی ہے اور ربِ کریم کی رحمت و کرم بھی بڑے وسیع ہیں۔ حدیث قدسی ہے: ان رحمتی سبقت غضبی ’’یقینا میری رحمت میری غضب پر غالب ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ اگر مغفرت فرمانا چاہے تو پھر کون ہے جو اس کی مغفرت کی راہ میں مانع ہوسکے۔ نہ کوئی آدمی اور نہ کوئی گناہ مانع ہوسکتا ہے۔ مانع اس کی مشیت اور ارادہ ہی ہوسکتا ہے۔ وہ چاہے تو معاف کرے اور چاہے تو معاف نہ کرے۔ اس کے بندے دنیا کے کونے کونے سے اس کی پکار پر جمع ہیں تو پھر بخشش کا اس سے بہتر اور مناسب اور اہم موقع کون سا ہوسکتا ہے۔ اس لیے اس موقعے پر اللہ تعالیٰ کی مغفرت عام ہوتی ہے اور تمام گناہ گار جو میدانِ عرفات اور میدانِ مزدلفہ میں جمع ہوتے ہیں سب کی مغفرت ہوجاتی ہے۔ کتنی بڑی شان ہے اس غفور و رحیم ذات کی۔ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَنَا وَلِوَالِدِیْنَا وَلِجَمِیْعِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ الْاَحْیَائِ مِنْہُمْ وَالْاَمْوَاتِ۔

(آخری قسط)

اُمت کے اختلاف کی حقیقت اور اس کے اسباب کی تشخیص کرنے والوں نے اختلاف کے متعدد اسباب ذکر کیے ہیں۔جن میں سے ایک سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ بسااوقات کسی مجتہد تک یا کسی علاقے کے لوگوں تک صحیح روایت نہیں پہنچ پائی، اور انھوں نے اصل دلیل سے لاعلمی کی وجہ سے ایک کمزور موقف اختیار کرلیا۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں ان کے اوپر اور ان کے بعد والوں پر لازم ہے کہ صحیح روایت سے واقف ہوجانے کے بعد اس کمزور موقف سے رجوع کریں اور دلیل کے مطابق صحیح موقف اختیار کریں۔

اُمت کے درمیان فقہی اختلافات کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کسی صحابی کو معلوم ہوسکی اور کسی کو نہ معلوم ہوسکی ہو، لیکن فرض نمازوں کا معاملہ اس سے یکسر مختلف ہے۔ یہ تو صحابہ کی پوری اُمت نے برسہابرس تک روزانہ پانچ مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھی، اور اس جذبے سے سیکھی کہ اسے من وعن آپ کے طریقے کے مطابق پڑھنا ہے۔ اس ضمن میں یہ ماننے کی گنجایش نہیں ہے کہ ایک بھی صحابی اللہ کے رسولؐ کے سکھائے ہوئے طریقے سے ناواقف رہ گیا ہوگا۔ اس میں اگر کوئی عمل افضل ہوگا تو سب اس سے واقف ہوں گے، اور اگر کوئی عمل منسوخ ہوگیا ہوگا تو بھی سب اس سے واقف ہوں گے۔ اس میں کوئی عمل کئی طرح سے انجام دیا گیا ہوگا تو بھی سب اس سے واقف ہوں گے۔ غرض فرض نمازوں کے اعمال کے بارے میں یہ بات کہنی کہ ہوسکتا ہے اللہ کے رسولؐ کا ثابت عمل یا آخری وقت کا عمل اُمت کے کسی گروہ تک نہ پہنچا ہو، درست نقطۂ نظر نہیں ہے۔اُمت تک فرض نمازوں کے جو اعمال پہنچے ، وہ سب اللہ کے رسول سے ثابت شدہ ہیں اور وہ سب غیر منسوخ سنتیں ہیں۔

نمازوں کے اختلاف کی نوعیت

شاہ ولی اللہ دہلوی نے فقہا کے درمیان اختلافات کے بارے میں ایک معتدل موقف پیش کیاہے۔ وہ فرماتے ہیں: ’’فقہا کے درمیان جو اختلافی صورتیں ہیں، ان میں زیادہ تر صورتیں، خاص طور سے وہ مسائل جن میں صحابہ کے اقوال دونوں جانب نظر آتے ہیں، جیسے تشریق کی تکبیریں، عیدین کی تکبیریں، حالت احرام میں نکاح، ابن عباس اور ابن مسعود کا تشہد اور بسم اللہ بلاآواز پڑھنا، آمین بلا آواز کہنا، اقامت کے الفاظ کو دو دو باراور ایک ایک بار کہنا، وغیرہ تو یہ اختلاف دراصل دو قول میں سے ایک کو راجح قرار دینے کا ہے۔ سلف میں اختلاف اس میں نہیں تھا کہ دونوں میں سے کون سا عمل مشروع ہے اور کون سا عمل مشروع نہیں، بلکہ اس میں تھا کہ دونوں میں اولیٰ کون سا ہے۔ اکثر (فقہا کے ان اختلافات )کی نظیر مختلف قراء توں میں قراء کا اختلاف ہے۔ چنانچہ اکثر ایسا ہوتا ہے، کہ فقہا اس باب میں یہ توجیہ کرتے ہیں کہ صحابہ میں اختلاف ہے، اور وہ سب صحیح راہ پر ہیں‘‘۔

شاہ ولی اللہ نے اس بیان میں ایک بہت اہم نکتہ یہ بیان کیا ہے، کہ صحابہ کے درمیان جو اختلافات ہوئے وہ قرأت کے اختلاف جیسے تھے۔ یہ بات صحابہ کے تمام اختلافات پر صادق آئے یا نہ آئے، تاہم فرض نمازوں کے بارے میں یہ بات پورے اطمینان کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ صحابہ اور تابعین اگر مختلف طرح سے نماز پڑھتے تھے، تو وہ دراصل نماز کی مختلف قراء تیں تھیں جو انھوں نے اللہ کے رسولؐ سے دو دہائیوں کے طویل عرصے میں روزانہ پانچ دفعہ سیکھی تھیں۔

شاہ ولی اللہ نے ذکر کیا ہے کہ فقہا میں اس طرح کے مسائل میں اختلاف دراصل ترجیح کا اختلاف تھا، جائز اور ناجائز کا اختلاف نہیں تھا۔ یہ بات کچھ غور طلب ہے۔ کبھی کبھی پیش آنے والے بہت سارے مسائل کے بارے میں تو ترجیح کا اختلاف معقول اور فطری ہے، تاہم فرض نمازوں کے جو مختلف طریقے اُمت میں دورِ اوّل سے رائج ہیں، ان میں ترجیح کے اختلاف کی ضرورت نہیں تھی، بلکہ مناسب اور معقول طریقہ یہی تھا کہ ان سارے اعمال کو بلا ترجیح کے قبول کرلیا جاتا۔ کیوںکہ ان میں سے ہر ایک کی پشت پر اُمت کے تواتر عملی کی دلیل موجود ہے۔

فقہ کے نصاب پر نظرثانی کی ضرورت

فقہ کی کتابوں میں عام طور سے یہ مشترک غلطی پائی جاتی ہے کہ وہ نماز کی مختلف صورتوں کو اماموں اور ان کے مسلکوں سے منسوب کرکے ان کی وکالت کرتی ہیں۔ ان کے دلائل سے یہ احساس قائم ہوتا ہے کہ نماز کی صورت گری میں اماموں کے اجتہاد کو بڑا دخل رہا ہے۔ نماز کے ثبوت کی سب سے بڑی دلیل، یعنی اُمت کے بے نظیر عملی تواتر کو نظر انداز کردیا جاتا ہے، اور روایتوں کو اصل دلیل مان کر روایتوں کی توجیہ وتاویل پر محنت صرف کی جاتی ہے، جس سے روایتوں کی دلالت بھی مجروح ہوتی ہے، اور صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دلیل سے زیادہ راے سے محبت ہے۔

بلاشبہہ آج ضرورت ہے فقہ کی ایسی کتابوں کی تیاری کی، جن میں تمام شرعی دلیلوں کا احترام ہو، متواتر عملی سنت کا بھی لحاظ ہو، احادیث اور آثار کا بھی خیال ہو، اور پھر ساتھ ہی ساتھ   ائمہ کرام کے اجتہاد واستنباط کا بھی احترام ہو۔مدارس میں جب اس طرح کی کتابیں پڑھائی جائیں گی تو مثبت سوچ رکھنے والا اور پوری اُمت اور ساری شریعت سے محبت کرنے والا ذہن تیار ہوگا۔

ہمارے مدارس کا فقہی نصاب ایسی کتابوں پر مشتمل ہونا چاہیے جو اجتہادی احکام اور توقیفی احکام میں فرق کریں۔ عبادات کے وہ ابواب جن میں اجتہاد کی گنجایش نہیں ہے، اور جیسا اللہ کے رسول نے کیا ویسا ہی کرنے کی ہدایت اور تعلیم ہے، وہاں عملی تواتر سے ثابت احکام کو ذکر کرنا،ان کے حق میں جو روایتیں ہیں خواہ وہ کسی بھی درجے کی ہوں ان کا تذکرہ کردینا، اور ان کے اندر جو حکمت کے پہلو ہیں انھیں بیان کردینا بہت مناسب اور مفید ہوگا۔ فقہ کے جن ابواب میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اُمت کو ایک سے زیادہ طریقے ملے ہیں، ان ابواب میں وہ سارے طریقے اس   طور سے بیان کرنا کہ یہ سب سنت کے مطابق طریقے ہیں، طلبہ کی مثبت ذہنی تربیت میںبہت معاون ہوگا، اور ان سے توقع کی جاسکے گی کہ وہ آیندہ اتحاد اُمت کے لیے بڑا رول ادا کرسکیں گے۔

نماز کے باب میں جہاں بہت سارے اعمال کے ایک سے زائد طریقے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اُمت کو ملے ہیں، وہاں کسی ایک ہی مسلک کو صحیح ثابت کرنے کے لیے دلائل کا انبار لگانا، اور باقی مسالک کو کمزور ثابت کرنے کے لیے وجوہات واسباب جمع کردینا ایک لاحاصل عمل ہے۔ اس سے ’’ہم ہی درست ہیں، اور دوسرے سب غلط ہیں‘‘ کامنفی اور بیمارذہن تیار ہوتا ہے۔

فقہ کے نصاب میں ایک بڑی تبدیلی کی ضرورت یہ بھی ہے کہ توقیفی مسائل کے بجاے زیادہ توجہ اجتہادی مسائل پر مرکوزکی جائے۔ کیوںکہ اجتہادی مسائل میں ائمہ فقہ کے اجتہاد پر جس قدر زیادہ غور وفکر کیا جائے گا، اسی قدر اجتہادی ذوق اور فقہی ملکہ پروان چڑھے گا۔

بعض مدارس میں دیکھا جاتا ہے کہ فقہ کی تعلیم کا بیش تر وقت نماز سے متعلق اختلافی بحثوں میں گزر جاتا ہے، اور ان ابواب کی تعلیم کے لیے مناسب وقت نہیں مل پاتا جن کا تعلق ہماری عملی زندگی کے دوسرے گوشوں سے ہے۔ بعض مدارس میں حدیث کی تعلیم بھی اس طرح دی جاتی ہے، کہ زیادہ وقت نماز سے متعلق اختلافات اور ان کے محاکمہ میں صرف ہوجاتا ہے۔ ان طریقوں کے بجاے مفید تر طریقۂ تدریس اختیار کرنا چاہیے۔

فقھی فیصلوں کا اختلاف

 اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا جو طریقہ بتایا تھا ،اس میں یہ نہیں بتایا تھا کہ  اس میں کیا واجب ہے اور کیا سنت ہے۔ آپ نے نماز کا جو طریقہ سکھایا اس کے ہر جزئیے کا فقہی حکم متعین کرنے کا کام فقہاے کرام نے انجام دیا، اور فقہی حکم متعین کرنے میں ان کے درمیان کبھی اختلاف بھی ہوجاتا ہے۔فقہی فیصلوں کے درمیان اختلافات کا جائزہ لیتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ بسا اوقات نماز کے اصل طریقے میں اختلاف نہیں ہوتا ہے، اصل طریقے پر تو سب کا اتفاق ہوتا ہے، البتہ اس طریقے کی حیثیت متعین کرنے میں اختلاف ہوجاتا ہے۔

مغرب کی نماز یا دیگر چار رکعت والی نمازوں میں دوسری رکعت کے بعد تشہد کے لیے بیٹھنا اور بیٹھ کر تشہد پڑھناسب کے نزدیک مطلوب ہے۔ اس کے مطلوب ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے، البتہ امام احمد کا ایک قول ہے، اور امام لیث اور امام اسحاق کا بھی یہ قول ہے کہ ایسا کرنا واجب ہے، جب کہ جمہور فقہا کی راے ہے کہ یہ واجب نہیں ہے۔

آخری رکعت میں تشہد کے بعد درود پڑھنا سب کے نزدیک مطلوب ہے، البتہ اس کی حیثیت متعین کرنے میں اختلاف ہوگیا۔ امام ابن المنذر کہتے ہیں: ’’ہماری راے یہ ہے کہ جو بھی نماز پڑھے، وہ درود بھی پڑھے، لیکن ہم اس کو واجب نہیں قرار دیتے، اور اگر کوئی چھوڑ دے تو اس پر نماز کو دُہرانا لازم نہیں۔ یہی امام مالک اور اہل مدینہ کا مسلک ہے۔ سفیان ثوری اور عراق کے اہل راے اور دیگر لوگوں ، اور تمام اہل علم کا یہی مسلک ہے سواے شافعی کے۔ ان کے نزدیک اگر نماز پڑھنے والا درود نہ پڑھے تو وہ نماز کو دوہرانا ضروری قرار دیتے ہیں۔ اسحاق کہتے تھے: امام ہو یا مقتدی، اگر تشہد سے فارغ ہوجائے تو درود پڑھے، ایسا نہ کرنے سے اس کی نمازنہیں ہوگی۔ بعد میںیہ بھی کہا: اگر بھولے سے چھوڑ دیا تو امید کرتے ہیں کہ نماز ہوجائے گی۔ (الأوسط، ج۳،ص۲۱۳)

اس اختلاف کا اثر اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب کوئی بھولے سے یا جان بوجھ کر وہ عمل چھوڑ دے۔ جب تک سب لوگ اس عمل پر کار بند رہتے ہیں، ظاہر ہے کہ اس کا کوئی اثر نظر نہیں آتا کہ کون اس عمل کو سنت سمجھ کر کر رہا ہے اور کون واجب مان کر کررہا ہے۔

شدت پسندانہ فقھی فیصلے

فقہی احکام متعین کرنے کا کام بھی اہم تھا، اور فقہا نے یہ عظیم ذمہ داری انجام دی۔ تاہم، ان کی جانب سے بسا اوقات غیر محتاط اور شدت پسندانہ رویے بھی سامنے آئے، اور اس طرح کے رویوں نے اختلافات کی جڑوں کو گہرا کرنے میں بڑا کردارادا کیا۔ اس شدت پسندی کی ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ نماز کا ایک عمل کسی ایک فقیہ کے یہاں واجب کی حد تک مطلوب ہوجائے، اور وہی عمل دوسرے فقیہ کے نزدیک مکروہ تحریمی کی حد تک غیرمطلوب ہوجائے۔ حالاںکہ معاملے کی حقیقت صرف یہ ہو تی ہے کہ اس عمل کو نہ کرنا اور کرنا دونوں درست ہوتے ہیں۔

احادیث کی تنسیخ کا دعویٰ

بہت سے فقہا فریق مقابل کی ثابت شدہ حدیثوں کے بارے میں کہہ دیتے ہیں کہ وہ ہیں تو ثابت مگر منسوخ ہیں۔ اس رویے کے بڑے نقصانات ہیں۔ ایک تو صحیح حدیثوں سے ثابت احکام کو محض اپنے اجتہاد سے منسوخ قرار دے دینا ایک بڑی جسارت ہے۔ دوسرے جس عمل کو منسوخ مان لیا اسے نماز میں کرنے کو مکروہ اور مکروہ تحریمی قرار دینا پڑتا ہے، جب کہ اسی حدیث کی بنا پر وہی عمل ان دوسرے لوگوں کے یہاں سنت قرار پاتا ہے، جو اس حدیث کو منسوخ نہیں مانتے ہیں۔ اگر ہم تواتر عملی کی دلیل کو رہنما مان لیتے ہیں، تو اس دلدل سے باہر نکل آتے ہیں، اور کسی حدیث کو منسوخ ماننے کی ضرورت نہیں رہتی ، اور نہ کسی ایسے عمل کو مکروہ کہنا پڑتا ہے جسے دوسرے فقہا سنت کہتے ہوں ، بلکہ تواتر عملی کی بنیاد پر دونوں کے موقف عین سنت قرار پاتے ہیں۔

خلاصہ بحث

اس وقت اُمت میں نمازوں کے جو طریقے رائج ہیں، وہ وہی ہیں جو دوسری صدی ہجری میں فقہ کی تدوین کے وقت ریکارڈ کیے گئے۔ ان طریقوں میں کہیں آپس میں مکمل اتفاق ہے تو کہیں اختلاف بھی ہے، لیکن یہ اختلاف تضاد کا اختلاف نہیں بلکہ تنوع کا اختلاف ہے۔ اگر کہیں تضاد نظر آتا ہے تو وہ فقہا کے نقطۂ نظر کی بات ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف طریقے یا تو خود اختیار فرمائے، یا مختلف طریقوں سے نماز پڑھنے کی گنجایش رکھی اور اس کی اجازت دی۔   وہ مختلف طریقے مختلف علاقوں میں الگ الگ رائج ہوکر فقہا اور ائمہ اربعہ تک ایک زبردست عملی تواتر کے ساتھ پہنچے، اور اس طرح فقہا کے ذریعے ان کی تدوین عمل میں آئی۔

نماز کے طریقے تو اصلاً عملی تواتر کے ذریعے پہنچے، اور اس لیے ان کی حیثیت مسنون طریقوں کی ہے۔ ساتھ ہی ان کے سلسلے میں روایتیں بھی آئیں۔ ان روایتوں کے مختلف درجے ہوسکتے ہیں، لیکن یہ نماز کے طریقوں کی اصل دلیل نہیں ہیں۔ اصل دلیل تو عملی تواتر ہے۔ان روایتوں میں جو صحیح ہیں، وہ سر آنکھوں پر، لیکن نماز کے تمام ریکارڈ شدہ طریقے خواہ ان کے حق میں روایتیں دستیاب ہوں یا نہ ہوں، یا روایتیں تو ہوں لیکن ضعیف ہوں، وہ سب طریقے بہرصورت یکساں طور سے مسنون اور افضل کے حکم میں ہوں گے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کے ہر فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جب چاہے ان مسنون طریقوں میں سے جس طریقے پر چاہے عمل کرے، خواہ وہ کسی مسلک سے تعلق رکھتا ہو۔ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ کسی طریقۂ نماز کو تنقید کا نشانہ بنائے۔کیوںکہ یہ سب طریقے عملی تواتر کی قطعی دلیل سے ثابت ہیں۔

اختلاف کے بجاے خشوع و خضوع پر توجہ

گذشتہ صدیوں میں نماز کے طریقوں کو لے کر اُمت میں بہت زیادہ جھگڑے ہوئے، مسجدوں میں مارپیٹ اور خون خرابہ ہوا، مسجدیں تقسیم ہوئیں، اُمت میں فرقہ بندی بڑھی اور فرقہ بندی کے کڑوے پھل پوری اُمت نے چکھے، اور آج تک چکھ رہی ہے! اس وقت بھی دنیا میں مختلف لوگ تصحیح نماز کی تحریک چلارہے ہیں۔ ان کا یہ دعوی ہے کہ اُمت نماز کے جس طریقے پر قائم ہے وہ رسولؐ اللہ کے طریقے کے مطابق نہیں ہے۔ اس طرح کی تحریکوں سے اختلافات میں شدت آرہی ہے اور بے چینی بڑھ رہی ہے۔ کہیں لوگوں کاخود اپنی نمازوں سے اعتماد اٹھ رہا ہے، تو کہیں یہ خیال پنپ رہا ہے کہ ہمارے باپ دادا غلط طریقے پر نماز پڑھتے تھے، یا ہمارے آس پاس کے لوگوں کی نمازیں درست نہیں ہیں۔ کہیں اپنی نمازوں پر بے اطمینانی بڑھ رہی ہے، تو کہیں احساس برتری پیدا ہورہا ہے کہ صرف ہم اللہ کے رسول کی نماز پر عمل پیرا ہیں۔ یہ صورت حال تشویش ناک ہے، اور اس کی واحد وجہ اس طریقے سے ناواقفیت ہے جس طریقے سے اُمت کو نماز ملی ہے۔ یاد رہے کہ اُمت کو نمازاماموں اور راویوں کے ذریعے نہیں ملی ہے، اس لیے راویوں کی روایتوں کا حوالہ دے کر یا اماموں کے مسلک کا حوالہ دے کر کسی بھی طریقۂ نماز کو غلط قرار دینا صحیح نہیں کہا جاسکتا۔

جس طرح قرآن مجید کی کسی آیت کو قرآن کی آیت ثابت کرنے کے لیے کسی روایت یا کسی خاص امام کی تائید کی ضرورت نہیں ہے، اسی طرح نماز کے کسی بھی عمل کو صحیح ثابت کرنے کے لیے کسی روایت کی یا کسی خاص امام کی تائید کی ضرورت نہیں ہے۔اُمت کو قرآن مجید جس عظیم  تواتر سے ملا ہے، نماز بھی اسی عظیم تواتر سے ملی ہے۔اس لیے یہ ماننا چاہیے کہ اُمت کے تمام گروہ نماز کے جس جس طریقے پر عمل پیرا ہیں، وہ سب طریقے درست ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے اسلام کو ایک دین کے طور پر ہمارے لیے پسند کیا، اس کو مکمل کیا، اور اس کو قیامت تک کے تمام انسانوں کے لیے محفوظ بھی کیا، کہ ہر دور کے انسانوں کے لیے دین حق کا یہ راستہ موجود رہے۔ دین حق محفوظ ہے، یہ ہمارا عقیدہ ہے۔اسی عقیدے کی ایک شق یہ بھی ہے کہ نماز جسے دین کا ستون بتایا گیا ہے، جو اسلام کا اہم رکن ہے، جو عبادت کا بہترین طریقہ ہے، وہ بھی بلاشبہہ محفوظ ہے۔ ہمارے ذہن کے کسی گوشے میں یہ خیال آنا چاہیے، نہ ہماری کسی گفتگو سے یہ تاثر ملنا چاہیے کہ صحابہ کرامؓ یا تابعین یا ان کے بعد والی نسل میں جو کہ فقہا ومحدثین کا زمانہ تھا اُمت کے کسی قابل لحاظ حصے کو نماز کے ظاہری احکام سے صحیح واقفیت نہیں تھی، یا یہ کہ ان تک نماز صحیح صورت میں نہیں پہنچ سکی تھی۔

واقعہ یہ ہے کہ جس زمانے میں فقہ کی تدوین ہوئی، اور ہر چیز باقاعدہ تحریری ریکارڈ میں لائی گئی، اس زمانے میں پوری اُمت نماز سے اچھی طرح واقف تھی، اور ان کے درمیان نماز اپنی تمام جزئیات کے ساتھ پوری طرح محفوظ تھی۔

قرآن مجید کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے لی ہے، اور اس پر تدبر اور عمل کی ذمہ داری انسانوں پر عائد کی ہے، جو جس قدر تدبراور عمل کرے گا، اسی قدر قرآن مجید سے فیض یاب اور   دنیا و آخرت میں کامیاب ہوگا۔ اسی طرح نماز کے طریقے کو اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا ہے۔اس میں باہم جنگ وجدال لاحاصل ہے۔ انسانوں کی ذمہ داری تو اس طریقے میں کیفیت کا رنگ بھرنا ہے۔ یہی اصل مقابلے کا میدان ہے۔ نماز پڑھتے ہوئے جو خشوع اور انابت میں آگے بڑھے گا    وہ اللہ سے زیادہ قریب ہوگا، کہ نماز اللہ سے قریب ہونے کا ذریعہ ہے، واسجد واقترب۔

عقل ومنطق کا بھی تقاضا ہے، اور سنت کے فہم اور اس سے غیر مشروط محبت کا بھی تقاضا ہے کہ نماز کی ظاہری شکل کو اختلاف کا موضوع نہ بنایا جائے۔ دورِ اوّل سے منقول نماز کے تمام طریقوں کو درست اور مسنون مانا جائے، اور ایک دوسرے کی نماز کو قدر اور احترام کی نظر سے دیکھا جائے۔

اُمت کی موجودہ صورت حال فوری توجہ کی طالب ہے۔ ضرورت ہے کہ اُمت کے تمام اہل علم ودانش اورسارے ارباب تعلیم و تربیت مل کر ایک زوردار تحریک چلائیں کہ لوگوں کی نمازوں کے اندر خشوع اور انابت کی کیفیت پیدا ہو۔ نماز کی روح تک ان کی رسائی ہو۔ نماز کے زیر سایہ فرد اور معاشرے کی بہترین تعمیر ہو۔ نماز کے ذریعے اُمت میں اتحاد واتفاق کی فضا ہموار ہو۔نماز کی بدولت اللہ سے قرب حاصل ہو اور نماز کی مدد سے اُمت کی عظمت رفتہ اور متاع گم شدہ کی بازیافت ہو۔

درحقیقت اسی راہ پر چل کر ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ اللہ ہم سب کو اس کی توفیق دے، آمین!

مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ ، مولانا امین احسن اصلاحی اور جناب میاں طفیل محمد نے مطالبہ نظامِ اسلامی کی پاداش میں ۱۹۴۸ء تا ۱۹۵۱ء تک ۲۰ ماہ زندان میں گزارے۔ ان کے اس دور کے مکاتیب حکیم محمد شریف امرتسری نے مکاتیب ِ زنداں کے نام سے شائع کیے تھے۔ یہ جہاں تحریکی جدوجہد کے ایک مرحلے کا تذکرہ ہے وہاں تزکیہ و تربیت، اطمینانِ قلب و سکینت، صبرواستقامت، خدا پر ایمان و یقین اور کامل بھروسے اور عزیمت کی راہ کی بھی نشان دہی کرتے ہیں۔ میاں طفیل محمد صاحب کے خطوط سے چند اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں۔(ادارہ)

توکّل کی حقیقت

یہ میں آپ کو پہلے بھی لکھ چکا ہوں اور اب پھر لکھ رہا ہوں کہ اپنی صحت کی طرف سے غفلت نہ برتیں۔ میں آ پ کی مشکلات سے ناواقف نہیں، اور نہ آپ کی راہ میں حائل رکاوٹوں سے بے خبر ہوں، مگر ان کے باوجود آپ کو اپنی حد تک غافل نہیں ہونا چاہیے۔ دوا کے ساتھ ساتھ دعا بھی کیجیے۔ اپنی مشکلات کو اپنے رب کے حضور پیش کیجیے، اپنی لاچاریوں کو اسی کے دربار میں گزاریئے۔ ان شاء اللہ وہ آپ کی ضرور مدد فرمائے گا اور اگر اس کی مشیت میں یہی ہوگا کہ آپ   ان مشکلات اور خرابیِ صحت میں ہی مبتلا رہیں تو بھی وہ آپ کو اس کے بدلے میں اجرعظیم عطا فرمائے گا جس سے بڑھ کر کسی شے کی کوئی مومن آرزو نہیں کرسکتا۔

یہ میں آپ کو یونہی نہیں لکھ رہا ہوں بلکہ بہن انواراختر کی بیماری کا معاملہ آپ کے سامنے ہے۔ گذشتہ مرتبہ وہ اسی لیے مولانا [مودودی] سے ملنے آئیں کہ اب انھیں سفرِآخرت درپیش ہے اور ہر علاج سے مایوسی ہوچکی ہیں۔ ڈاکٹر بے بس ہیں۔ آخر اللہ تعالیٰ نے خود ہی انھیں سمجھایا کہ ڈاکٹروں سے نہیں صحت مجھ سے مانگو۔ انھوں نے جب سارے آسرے چھوڑ کر فریاد کی تو اگلے ہی روز صورت بدلنے لگی۔ ڈاکٹر نے دوائی بدلی۔ جسم نے خون بنانا شروع کر دیا۔ یاد رکھیے کہ خدا   اب بھی وہی ایک خدا ہے جو ابراہیم ؑ کا خدا تھا، موسٰیؑ اور مسیحؑ کا خدا تھا اور جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا  خدا تھا۔ وہ نہیں بدلا اور نہیں بدلتا ہے۔ بندے خود بدل جاتے ہیں۔ اس لیے اسے بدلا ہوا پاتے ہیں۔ یک سُو ہوکر اس کی طرف رجوع کیجیے۔ اگر اس کی مشیت اور اس کی اسکیم میں گنجایش ہوگی تو وہ آپ کی صحت درست فرما دے گا ورنہ ان شاء اللہ یہ تکلیف ہی لذت میں بدل جائے گی۔ مگر  دوا سے غافل نہ ہوں کیوںکہ اسباب کو ختم کرکے اگر بندہ خدا سے کچھ مانگے تو یہ حدِ بندگی  سے تجاوز ہوگا۔ یہ خدا کی آزمایش ہوگی (کہ وہ اسباب کے بغیر آپ کی مدد کرے، یعنی  معجزہ دکھائے) اور یہ کام بندگی کی حد سے آگے ہے۔ بندگی کی راہ سے بال برابر اِدھر اُدھر نہ ہوں۔(اہلیہ محترمہ کے نام، ۲۰فروری ۱۹۵۰ئ)

آزمایش اور امتحان

آپ نے ہمارے یہاں سے باہر نکلنے کے بارے میں جس خواہش اور جن جذبات کا اظہار فرمایا ہے ایک محب کی خواہش اور قدرتی جذبات وہی ہوسکتے ہیںمگر اس بات کو نہ بھولیے کہ اللہ تعالیٰ اپنی اسکیم اور پروگرام کو کسی کی خاطر نہیں بدلتا ہے۔ جو وقت ہمارے یہاں پہنچنے کے لیے مقدر تھا ٹھیک اُس وقت ہمیں یہاں لے آیا اور جب وہ مقصد جس کے لیے ہمیں یہاں لایا گیا پورا ہوجائے گا تو کوئی چاہے یا نہ چاہے ہم باہر آجائیں گے۔ بہرحال ہم جن دعوئوں کو لے کر اُٹھے تھے ان کی آزمایش بھی اللہ تعالیٰ کو لازماً کرنی تھی اور جن لوگوں نے اسلام اور قرآن اور شریعت کے نعرے لگاکر ملک کے سیاہ و سپید کو اپنے ہاتھ میں لیا تھا ان کو بھی اسے آزمانا تھا اور ان کے اعلانات کی صداقت و عدم صداقت کا امتحان کرنا تھا۔ یہ آزمایش و امتحان کب تک ہوگا اس کا ٹھیک اندازہ ممتحن ہی کو ہے۔ ہماری کوشش اور دُعا یہ ہے کہ ہم بھی اس آزمایش میں ثابت قدم رہیں اور    اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو بھی کسی بدانجامی میں مبتلا نہ ہونے دے۔ مگر اس کا دستور یہ ہے کہ وہ بدانجامی سے بچاتا اسی کو ہے جسے اپنے بچائو کی فکرہے اور وہ بدانجامی سے بچنے کی اُس طریق پر کوشش کرے جو خدا کی طرف سے مقرر ہے۔

برادرِ محترم! اس بات کو ہمیشہ پیش نظر رکھیے کہ اللہ تعالیٰ کو قطعاً کسی کی ضرورت نہیں، وہ غنی ہے، حمید ہے، قادرِ مطلق، عزیز اور حکیم ہے۔اس نے یہ کارخانۂ کائنات بنایا ہی اس غرض سے ہے کہ بندوں کی آزمایش کرے۔ اس زندگی میں جو صورت بھی کسی کو پیش آتی ہے وہ آزمایش ہی کی صورت ہوتی ہے۔ آپ بھی اپنی جگہ آزمایش میں ہیں، ہم بھی آزمایش میں ہیں اور جن لوگوں نے ہمیں اس حال میں مبتلا کیا ہے، وہ بھی آزمایش میں ہیں۔ اللہ کسی پر نہ کوئی زیادتی کرتا ہے،   نہ ظلم و بے انصافی۔ البتہ وہ اس دنیا میں بندوں کو ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی کا پورا موقع دیتا ہے تاکہ جو ظالم ہیں وہ ظالم ثابت ہوں، جو صابر ہیں    ان کے صبر کا امتحان ہو، جو حق پرست ہیں ان کے جوہر کھلیں، جو بدنفس ہیں ان کی بگلا بھگتی کی قلعی کھلے۔ اگر اللہ تعالیٰ ان باتوں کا موقع نہ دیتا تو پھر اس کارخانے کو بنانا بے کار تھا۔ پھر تو وہ جنت اور دوزخ ابتدا ہی میں بنا دیتا، مگر ان میں کسی کو رکھنے کا فیصلہ کرنے کی کیا صورت ہوتی؟ لہٰذا جو اسکیم اللہ تعالیٰ کے پیش نظرتھی اس کی تکمیل کی واحد صورت وہی تھی جو اس نے اختیار فرمائی کہ انسان کو ایک محدود عرصۂ حیات میں اختیار و ارادے سے مسلح کر کے اس کارگاہ میں چھوڑ دے۔ عقل و ضمیر اور نیکی و بُرائی کا شعور بھی دے دے۔ سمجھانے کا بھی معقول حد تک انتظام فرما دے اور اس کے بعد انسان جو کرنا چاہے اس کا اسے مہلت ِ زندگی تک بلا روک موقع دے۔ اس کے بعد جو ابراہیم ؑ، موسٰی ؑ، عیسٰی ؑ ، محمدؐ اور حسین ؓ کی زندگی کا مظاہرہ کریں، نیکی پھیلانے اور برائی کو مٹانے میں اپنی جان کھپا دیں، ان کو جنت دے، اور جو اُس راہ کو نظرانداز کر کے اسی چند روزہ عیش کو مقصد زندگی قرار دے لیں، انھیں موت کے بعد کے انعامات سے محروم کردے۔ کیوںکہ انھوں نے نہ اس کی ضرورت محسوس کی اور نہ اس کے لیے کوئی کوشش کی۔ ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اس مقصد میں ناکام  نہ ہوں۔ جس حال میں مبتلا کیے جائیں اس پر صابر و شاکر رہیں۔ تغیر اس کائنات کی فطرت میں ہے۔ عُسر اور یسر رات اور دن کی طرح آتے اور جاتے ہیں مگر خوش قسمت وہ ہیں جو اس حقیقت کا احساس کرلیں۔(بنام حکیم محمد شریف، حافظ آباد، ۳نومبر ۱۹۴۹ئ)

تربیت کی اساس

مولانا [مودودی] کے نام آپ کے خط سے یہ معلوم کرکے تشویش ہوئی کہ آپ کی صحت خراب رہتی ہے اور حافظ آباد کی آب و ہوا آپ کو اب تک راس نہیں آئی۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا کیجیے اور ہم بھی دُعا کرتے ہیں کہ آب و ہوا اور صحتوں کا خالق اور مالک حافظ آباد کی آب و ہوا اور آپ کی صحت میں موافقت پیدا فرما دے۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ جب مسلمان مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ گئے ہیں تو وہاں کی آب و ہوا ان کے سخت ناموافق تھی مگر یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور        ان مہاجرین کی دُعائوں کا نتیجہ تھا کہ مدینہ کی آب و ہوا میں زمین و آسمان کا تغیر ہوگیا۔ وہ اللہ کے لیے نکلے اور نکالے گئے تھے اور ان کا جینا اور مرنا سب اسی کے لیے تھا۔ ہمیں بھی دُعا کے ساتھ ساتھ اس حیثیت سے اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہیے....

آپ کہتے ہیں کہ آپ کی انتہائی خواہش یہ ہے کہ مولانا کی صحبت میں رہ کر تربیت حاصل کریں۔ بھائی جان! مولانا نے تو یہاں ایسی عمدہ تربیت گاہ قائم کر دی تھی کہ رہایش، خوراک، علاج، روشنی، پانی، نوکر، پہرے دار، ہر شے سرکاری، نہ کوئی فیس، نہ چندہ، نہ کسی طرف سے کوئی خلل اندازی کرنے والا اور نہ معاملاتِ دنیا کی کوئی فکر۔ رات دن سویئے، پڑھیے، کھایئے، کھیلئے، کوئی ٹوکنے والا نہیں۔ مگر آپ میں سے کوئی آیا ہی نہیں۔ اس میں مولانا کا یا کسی دوسرے کا کیا قصور؟ ہم تو اس انتظار ہی میں رہے کہ آپ لوگ آئیں گے، کچھ پڑھیں لکھیں گے اور آیندہ کاموں کے لیے اپنے آپ کو تیار کریں گے، مگر نہ معلوم کسی نے اس طرف توجہ ہی نہیں کی یا اس تربیت گاہ میں داخلے کے لیے جو بورڈ مقرر ہے وہی یہ انتظام کرچکنے کے بعد کسی شش و پنج میں پڑ گیا ہو۔ بہرحال  یہ اطمینان رکھیے کہ یہ کام کرنے والوں کی تو پانچوں گھی میں ہیں۔ یہاں آئیں تو یہاں کام بہت ہے اور تربیت کا موقع بھی، اور اگر باہر ہوں تو وہاں کام اس سے زیادہ اور تربیت کے مواقع اور بھی وسیع تر ہیں۔ اگر آپ روزانہ اپنا اس نقطۂ نظر سے محاسبہ کرتے رہیں کہ آیا آپ کا اپنے خدا سے حساب صاف ہے یا نہیں، تو یہی ایک بات تربیت کے لیے بہت کافی ہے۔ میری طرف سے سب احباب کو سلام کہیں۔(بنام حکیم محمد شریف، ۳ مارچ ۱۹۴۹ئ، ۲۱ دسمبر ۱۹۴۹ئ)

دعوت و تربیت

آپ کے اس خط سے مجھے جس قدر خوشی ہوئی ہے اس سے زیادہ خوشی کسی کے کسی خط سے نہیں ہوئی تھی اور وہ خوشی آپ کے اس کام کی وجہ سے ہوئی جو آپ نے لاہور سے واپس آکر شروع کیا۔ جس طریق پر آپ اسے کر رہی ہیں یہی طریقہ ٹھیک ہے۔ ایک ایک خطبہ اور اگر یہ زیادہ ہو تو آدھا یا اس سے بھی کم تیار کرکے اپنے لفظوں میں بیان کر دیا کریں۔ اس کے بعد گفتگو ہونی چاہیے جس میں اس مضمون پر سوال و جواب ہوں ۔ جو بات صاف نہ ہوئی ہو یا کسی کی سمجھ میں نہ آئی ہو اسے صاف کر دیا اور سمجھا دیا جائے۔ پھر اصل شے ان باتوں کو بیان کرنا اور سننا نہیں ہے بلکہ اصل کام یہ ہے کہ ان کی روشنی میں اپنے آپ کو دیکھا اور جانچا پرکھا جائے، جو کمیاں ہوں ان کو پورا کیا جائے اور جہاں خدا کی لگائی ہوئی حدوں سے آگے بڑھ گئے ہوں وہاں سے پیچھے ہٹا جائے۔ خطباتکے بعد دینیات کو لیجیے اور پھر دعوتِ اسلامی میں خواتین کا حصہ والی کتاب کو لیں۔ کم سے کم کام کیجیے، اور تھوڑے سے تھوڑا وقت دیجیے مگر جتنا کام ہو اور جتنا وقت دیا جائے پابندی سے ہو اور مستقل ہو۔ روز کوڑی بھر گھی کھا لینا اس سے کہیں زیادہ مفید اور صحت بخش ہے    بہ نسبت اس کے کہ مہینے کے بعد آدھ سیر ایک ہی وقت اندر انڈیل لیا جائے، بلکہ ہوسکتا ہے کہ یہ اُلٹا نقصان پہنچائے۔ ہر ایک کے ذہن میں اس بات کو بٹھایئے کہ جب ہم خدا کے، زمین خدا کی، آسمان خدا کا، کھائیں اُس کا، پئیں اُس کا، گھٹائے وہ، بڑھائے وہ، اور مرنے کے بعد حساب اس کو دینا ہے، تو پھر اس کی مرضی سے بے پروا ہوکر چلنے کا نتیجہ کیسے اچھا نکل سکتا ہے اور اس کی مرضی کے خلاف چلنے کا کسی کو حق کہاں سے حاصل ہوسکتا ہے؟ مسلمان کے معنی خدا کے فرماں بردار کے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ خدا کی فرماں برداری سے نکل کر انسان مسلمان نہیں رہ سکتا۔

اس کام کے ساتھ اخبار کوثر، ترجمان القرآن، چراغِ راہ وغیرہ میں جو آسان مضمون شائع ہوں ان کو بھی دوسری عورتوں کو سناتی اور سمجھاتی رہیں۔ اس سے ایک تو دل چسپی باقی رہے گی اور دوسرے عام معلومات بڑھیں گی۔ اس بات کو خوب سمجھ لیں کہ کوئی شخص علم کے ساتھ پیدا نہیں ہوتا اور نہ کوئی کام سیکھ کر پیدا ہوتا ہے۔ ہر کام کرنے سے انسان سیکھتا ہے۔ بڑے سے بڑا آدمی غلطیاں کرتا ہے لیکن انھی کے اندر اس کو سمجھ آتی ہے۔ اس لیے جو اور جیسا کام ہوسکے  کرتے رہنا چاہیے۔ کیوںکہ اگر ہم بس بھر کام کرتے رہے تو خدا کے سامنے بری ہوجائیں گے   لیکن اگر کچھ بھی نہ کیا تو اس سوال کا کیا جواب دیں گے کہ جیسا کچھ کرسکتے تھے ویسا تم نے کیوں      نہ کیا؟(ہمشیرہ اُمِ مختوم کے نام، جولائی ۱۹۴۹ئ)

عزیمت کی راہ

oگذشتہ ملاقات پر معلوم ہوا کہ جمیلہ نے خاصی ترقی کی ہے اور قرآنِ مجید، سیرت اور دوسرا اسلامی لٹریچر بھی کچھ پڑھ لیا ہے اور شوق سے پڑھ رہی ہے۔ اگر میری وجہ سے میرے گھر والوں، بھائی بہنوں اور اعزہ واقربا کی دینی معلومات حاصل کرنے کے شوق، دین کی طرف ان کے رجحان اور آخرت کی فکر میں ترقی ہوجائے تو میں سمجھوں گا کہ میرے اندر اس تغیر سے (جن سے وہ کبھی اس قدر نالاں تھے) دنیا میں انھیں جو نقصانات پہنچے یا جو فائدے حاصل ہونے سے رہ گئے، اُن کی ایسی تلافی ہوگئی جسے وہ اس دنیا میں محسوس کریں یا نہ کریں لیکن ایک روز جب ہرشخص کا سب کیا کرایا اس کے سامنے آجائے گا وہ جان لیں گے کہ انھوں نے کیا کھویا اور کیا پایا۔ خداگواہ ہے کہ میرے نزدیک اس راہ پر قائم رہتے ہوئے ساری زندگی جیل میں گزار دینا اس سے کہیں زیادہ محبوب ہے کہ اس سے سرِمُوانحراف کرکے باطل کی بادشاہی حاصل ہو۔ (والدمحتر م کے نام، ۱۲مئی ۱۹۵۰ئ)

oکوئی انسان بھی اگر اس کے دل اور دماغ سلامت ہوں، اعزہ و احباب سے ملنے کی خواہش سے خالی نہیں ہوسکتا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہرقیمتی شے کی طرح خدا کی رضا اور اس کی جنت بھی مشقت اور ایثار کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی، بلکہ ان کے لیے اُسی نسبت سے زیادہ مشقت اور ایثار سے کام لینا ہوگا، جو نسبت اس دنیا کی نعمتوں کو خدا کی رضا اور جنت کی نعمتوں سے ہے۔ معلوم نہیں مولوی لوگوں نے یہ افیون کہاں سے نکال کر مسلمانوں کو کھلانی شروع کر دی تھی کہ حلوے اور کھیریں کھاتے اور کھلاتے جنت میں جابراجیں گے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ  نے جو تعلیم اپنے رسولؐ کے ذریعے دی ہے، اس میں تو یہی بات باربار دُہرائی ہے کہ جب تک وہ پوری طرح سے اسے چھاج میں پھٹک پھٹک کر اور آزمایش کی بھٹیوں میں تپاتپا کر نہیں دیکھ لیتا پروانۂ قبولیت عطا نہیں کرتا۔ آدم ؑ سے لے کر محمدؐ تک ہر نبی ؑ کی زندگی آپ کے سامنے ہے۔ کیا ان سے بھی زیادہ مقرب کوئی ہوسکتا ہے؟ جب ان کو بھی تپائے اور سخت پرکھ کے بغیر خالص قرار نہ دیا تو ہماوشما کون ہیں! ہم لوگ تو اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھتے ہیں کہ ہمارے خالق و مالک نے ہمیں اس قابل تو سمجھا کہ ہمیں آزمایش میں ڈال کر دیکھے اور یہ اس کا انتہائی احسان اور فضل ہے کہ ایک لمحے کے لیے بھی اس نے متزلزل نہیں ہونے دیا۔ ورنہ ہم کیا اور ہماری بساط کیا، ہم سے کمزور کون ہوگا؟

میں یہاں جیل میں آپ کو ایسا تحفہ بھیجتا ہوں اگر آپ اپنے آپ کو اس کے مصداق بنانے میں کامیاب ہوسکیں تو دنیا کی کوئی پریشانی آپ کو پریشان نہ کرسکے گی۔ وہ تحفہ یہ دعا ہے:

اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ ، اَنْتَ نُوْرُ السّٰمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَکَ الْحَمْدُ، اَنْتَ قَیُّوْمُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَکَ الْحَمْدُ ، اَنْتَ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَنْ فِیْھِنَّ اَنْتَ الْحَقُّ وَقُوْلُکَ الْحَقُّ وَوَعْدُکَ الْحَقُّ وَلِقَائُ کَ حَقٌّ وَالْجَنَّۃُ حَقٌّ وَالنَّارُ حَقٌّ وَالسَّاعَۃُ حَقٌّ اَللّٰھُمَّ لَکَ اَسْلَمْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ وَعَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَ اِلَیْکَ اَنَبْتُ وَبِکَ خَاصَمْتُ وَ اِلَیْکَ تَحَاکَمْتُ، فَاغْفِرْلِیْ مَا قَدَّمْتُ وَمَا اَخَّرْتُ وَاَسْرَرْتُ وَاَعْلَنْتُ ، اَنْتَ اِلٰھِیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ، خدایا! حمد تجھی کو سزاوار ہے۔ آسمانوں اور زمین کا نور تو ہی ہے اور حمد تجھی کو سزاوار ہے۔ تو ہی زمین و آسمان اور جو بھی ان میں ہے سب کا رب ہے۔ تو خود حق ہے، تیری ہربات حق ہے اور تیرا ہر وعدہ حق ہے۔ تجھ سے ہماری ملاقات برحق، جنت برحق، دوزخ برحق، قیامت برحق۔ خدایا! میں نے تیری اطاعت اختیار کی، تجھ پر مَیں ایمان لایا، میرا بھروسا تجھ پر ہے اور تیری طرف میں نے رجوع کیا اور تیری ہی خاطر جھگڑا اور تیرے ہی حضور میری فریاد ہے۔ تو معاف فرما میرے گناہ بھی اور میری کوتاہیاں بھی۔ میرے وہ قصور بھی جو میں نے چھپا کر کیے اور وہ قصور بھی جو مَیں نے علانیہ کیے۔ توہی میرا معبود ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔(بنام طفیل محمد صاحب ڈجکوٹ، ۱۲ مئی ۱۹۵۰ئ)

بچوں کے نام

یہ بات اپنے دلوں میں خوب اچھی طرح جما لو کہ یہ زمین اللہ کی ہے۔ یہ آسمان، سورج، چاند، ستارے، بادل اور ہوائیں اور جانور اور پرندے سب اسی کے ہیں۔ وہی بارش برساتا ہے، زمین سے پھل پھول اور طرح طرح کے رزق نکالتا ہے۔ مکھیوں سے شہد، کیڑوں سے ریشم اور مٹی سے روئی بنواتا ہے۔ اسی نے ہم کو پیدا کیا، بولنے کو زبان، دیکھنے کو آنکھیں، سننے کے لیے کان، سونگھنے کے لیے ناک، چلنے کے لیے پائوں اور کام کاج کرنے کے لیے ہاتھ دیے۔ ہمیں صحیح اور سیدھی راہ دکھانے کے لیے قرآنِ مجید اُتارا۔ اسے سمجھانے کے لیے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو     رسول بناکر بھیجا۔ نیکی اور بدی کی سمجھ ہمارے اندر رکھ دی اور ہمیں کھول کھول کر بتا دیا کہ اچھے اچھے کام کرو گے تو اس زندگی کے بعد تمھیں نہایت اعلیٰ درجے کی کوٹھیاں اور سونے کے محل اور پھلوںاور پھولوں سے بھرے ہوئے باغ دیںگے جہاں تم ہمیشہ رہو گے، اور اگر بُرے کام کرو گے تو تم کو آگ میں جلائیں گے اور اس سے تم کبھی نہ نکل سکو گے۔

جو اچھے اور عقل مند آدمی ہوتے ہیں وہ اللہ کی باتوں کو مانتے ہیں، زبان سے اچھی اچھی باتیں کرتے ہیں، کانوں سے اچھی باتیں سنتے ہیں، دماغ سے اچھی اور بھلائی کی باتیں سوچتے ہیں اور ہاتھوں سے اچھے اچھے کام کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں یہاں جو کھانے کو دیتے ہیں وہی    خوشی خوشی کھا لیتے ہیں۔ جو پہننے کو دیتے ہیں وہی پہن لیتے ہیں، اور جو لوگ بُرے اور بے وقوف ہوتے ہیں وہ اللہ میاں کی باتیں نہیں مانتے۔ وہ زبان سے جھوٹ اور گالیاں بکتے ہیں۔ کانوں سے فضول اور نکمی باتیں سنتے ہیں۔ دماغ سے شرارت اور بُرائی کی باتیں سوچتے ہیں اور ہاتھوں سے بُرے بُرے اور دوسروں کو ستانے اور نقصان پہنچانے والے کام کرتے ہیں۔ جب یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے پاس جائیں گے تو وہ ان کو آگ میں ڈال دیں گے۔

تم سب خوب محنت سے پڑھنا سیکھو، پھر اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآنِ مجید پڑھنا اور اس کے رسولؐ کی باتیں سیکھنا اور پھر دوسرے نیک اور بھلے لوگوں کی باتیں اور انھی کی راہ پر چلنا۔ اگر تم ایسا کرو گے تو جب یہاں سے اللہ میاں کے پاس جائو گے وہ تم سے بہت خوش ہوں گے اور تم میں سے ہر ایک کو ایسا اعلیٰ درجے کا محل اور ایسا نفیس باغ دیں گے کہ بس تم خوش ہوجائو گے۔ ہم لوگ کوشش کر رہے ہیں کہ تمھارے اور خدا کے دوسرے بندوں کے لیے یہ راہ آسان کردیں۔    آپ سب لوگ ہمارے لیے دُعا کیا کریں۔ اللہ تعالیٰ تم سب کو اپنی امان میں رکھے۔(بچوں کے نام، ۸؍اپریل ۱۹۵۰ئ)

شھادتِ حق

 مسلمان کے معنی ہی اس شخص کے ہیں جو اپنے عقیدہ، اخلاق، معاملات اور اپنے سارے تعلقات میں اپنے آپ کو خدا کے حوالے کر دے۔ ہر بات، ہر کام، ہر معاملے میں اُس کے سامنے صرف خدا کی مرضی کو پورا کرنا ہو اور یہ چیز اس کے بغیر نہیں ہوسکتی کہ وہ خدا کی مرضی کو جانے۔   اس لیے کوئی نہ کوئی ایسا انتظام ضرور ہونا چاہیے جس سے خدا کی مرضی خود کو بھی معلوم ہو اور دوسروں کو بھی معلوم کرائی جاسکے۔ کیوںکہ انسان پر یہی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ خود راست رو ہو بلکہ اس پر یہ بھی اُسی طرح لازم ہے کہ اس کا جس پر جتنا زور چلتا اور اثر ہو اتنا ہی وہ اس کو بھی راہِ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو خدا کے سامنے اس سے سوال ہوگا۔ ظاہر بات ہے کہ وہاں کچھ جواب نہ بن آئے گا۔(بنام بہن اُمۃ الرحمن صاحبہ،۷جنوری ۱۹۵۰ئ)

ملکی بقاکی راہ

آپ کے تازہ رجحانات اور تبدیلی کا حال معلوم کر کے انتہائی خوشی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ اس میں استقامت اور برکت عطا فرمائے۔ بھائی صاحب تقسیم ملک اور قیامِ پاکستان کے بعد ہم مسلمانوں کے سوچنے کی اوّلین بات یہی ہے کہ اگر ہمیں صحیح معنوں میں مسلمان نہیں بننا تھا، مخلص مسلمان بن کر نہیں رہنا تھا، اور ہمیں وہی کافر رعنائیاں اور طور طریقے مرغوب تھے تو ہندوئوں اور سکھوں سے علیحدگی اور آدھی قوم کو جس درندگی اور بدمعاشی کا شکار کرایا گیا، اس کا شکار کروانے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا فقط کوٹ پتلون کو دھوتی کُرتا بننے سے بچانے کی خاطر؟ پھر اگر اسلام کا نام لینے اور اس کے لیے کام کرنے والوں سے اس درجہ چڑ اور عناد ہے تو قوم کے سوچنے سمجھنے والے لوگوں کو سنجیدگی سے سوچنا پڑے گا کہ پھر اس قوم کی اساس و بنیاد کیا شے بنائی جائے گی؟ کیا پنجابیت، سندھیت اور بنگالیت؟ یا لیڈر صاحبان کی شخصیتیں؟ آخر ہوائی قلعوں سے کتنے دن کام چل سکے گا؟ ہم لوگ آیندہ کے مسائل پر اسی انداز سے سوچتے ہیں اور اسی انداز پر سوچنے کی دوسروں کو دعوت دیتے ہیں۔

ہمارے نزدیک اس ملک اور اس قوم کی فلاح ہی نہیں بلکہ ان کی بقا کا انحصار، ان کے معاشرے اور حکومت کو ایمان داری سے اسلام پر تعمیر کرنے پر ہے۔ ’اسلام کے اصولوں‘ پر نہیں، ’سراسر اسلام پر‘۔ اگر ایسا کرلیا جائے تو ان شاء اللہ چند سال میں انڈونیشیا سے ترکی تک ایک قوم اور ایک ملک بن سکتے ہیں۔ لیکن اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو پھر ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف بسنے والی قومیں واہگہ کی سرحد کے دونوں طرف بسنے والی قوموں سے بھی بڑھ کر ایک دوسرے کی دشمن ہوں گی اور یہ کوئی خیالی فلسفہ یا مجذوبانہ بڑ نہیں، بلکہ اب واقعہ اور عینی مشاہدے کی صورت میں قوم کے سامنے ہے۔(بنام چودھری عبدالرسول صاحب ایڈووکیٹ، کراچی، ۱۳نومبر ۱۹۴۹ئ)

دُنیا کی واحد عمارت جو چار ہزار سال سے اپنی اصل بنیادوں پر قائم ہے

محترم خرم مراد ایسوسی ایٹڈ کنسلٹنگ انجیینرز (ACE) کے ساتھ کام کر رہے تھے، جب ان کی کمپنی کو  حرم کی توسیع اور تعمیرکا کام ملا۔ یہ کام انھوں نے نہایت وارفتگی ، محبت اور مہارت کے ساتھ کیا۔     اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے خانہ کعبہ کی تاریخ، توسیع و تعمیر کے بارے میں ایک ضخیم جلد مرتب کی جو انگریزی اور عربی میں محفوظ ہے۔ اس کاابتدائی حصہ پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)

سعودی عرب کا مغربی علاقہ حجاز کہلاتا ہے۔حجاز، جو عربوں کی جاے پیدایش ہے، تقریباً ۱۴۰۰؍ کلومیٹر طویل، ایک تنگناے ارضی پر مشتمل ہے۔یہ خطہ بحر احمر کے مشرقی ساحل پرواقع ہے۔ لفظ ’’حجاز‘‘ کے معنی حد بندی کے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ نام اس کی جغرافیائی ہیئت کی وجہ سے پڑ ا ہو۔اس خطے کے مرکزی ڈھانچے کی تشکیل سرات کے پہاڑی سلسلے سے ہوئی ہے جو بحر احمر کے ساتھ ساتھ چلتا چلا جاتا ہے۔یہ پہاڑی سرحد بحر احمر کے ساحلی میدانی علاقے ’تہامہ‘ کوسطح مرتفع ’نجد‘ سے جدا کرتی ہے۔ خط سرطان حجاز کے دونوں مقدس شہروں مکہ اور مدینہ کے درمیان سے گزرتا ہے۔

مقدس شھر

مکہ، مسلمانوںکا مقدس ترین شہر، حرمِ پاک کعبہ کے ارد گردنموپذیر ہوا ہے۔ یہ شہر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جاے پیدایش ہے اور اسی شہر میں آپؐ پروحیِ الٰہی کانزول ہوا۔

مکہ مکرمہ نے بنی نوع انسان کی تاریخ میں بیت اللہ کے شہر کی حیثیت سے ایک خاص کردار ادا کیا ہے۔ ’بیت اللہ‘ جو قدیم ترین گھر یا ’بیت العتیق‘ہے،اس شہر کو قرآن میں ’اُم القریٰ‘  کہا گیا ہے (الشوریٰ۴۲:۷)، یعنی ’شہروں کی ماں‘۔یہی بات مؤرخین بھی کہتے ہیں، کیوں کہ مکہ کا علاقہ زمین کا مرکزی مقام تسلیم کیاجاتا ہے۔اسی وجہ سے شہر کے مرکزی نشیب کوبسا اوقات ’مکہ کی ناف‘ کہا جاتا ہے۔

ہجرت سے دو سو سال قبل مکہ شہر بن چکا تھا۔اس سے  پہلے کے لوگ کعبہ سے کچھ فاصلے پر واقع جبل احمر اور جبل ابوقبیس کی ترائی پر رہا کرتے تھے جہاں سے کعبہ نظر آتا تھا۔

جب قصی مکہ کے سردار بنے، جو سیدنا اسماعیل ؑ کی نسل سے تھے، تو انھوںنے شہر کی تعمیر کا بیڑا اُٹھایااور اس کانقشہ تیار کیا۔ اُس زمانے کی بے لچک قبائلی اور طبقاتی تقسیم کے مطابق تمام مکانات کعبہ کو مرکز مان کر اس کے ارد گرد ایک دائرے کی شکل میںبنائے گئے تھے۔ خود قصی اور ان کی اولاد کے مکانات کعبہ کے گرد باقی ماندہ خالی مربعے پر تعمیر ہوئے جہاں سے کعبہ کی زیارت کی جاسکتی تھی۔

مکہ کے اوّلین مکانات مکعب کی شکل کے تھے اور ان میں داخل ہونے کے لیے ایک ہی دروازہ ہوتا تھا، جیسا کہ پہلی صدی ہجری سے لے کر تیسری صدی ہجری تک کے مکانات کے متعلق بتایا جاتا ہے۔ یہ مکانات عام طور پر تراشے ہوئے یا اَن گھڑ پتھروں سے،یا پکی اور کچی اینٹوں سے تعمیر کیے جاتے تھے۔بعض اوقات ان گھروںکو سنگِ مرمر، رنگین پتھروںیا ساحلِ عرب پر پائی جانے والی سیپیوں سے بھی مزین کیا جاتا تھا۔یہ تھاوہ سادہ آغاز جس سے نشوونما پاکر مکہ پورے عالم اسلام کے لیے ایک متبرک شہر بن گیا۔

تاریخِ کعبہ

جبل سرات کی آتش فشاں چوٹیوں کے درمیان ریتلے راستے اور قدرتی وادیاںپائی جاتی ہیں۔ان ہی میں سے ایک وادی، ’وادی ابراہیم‘ کعبہ کے مقام پرمسجد الحرام کے اندر واقع ہے۔ اس وادی میں کعبہ ایک نگینے کی طرح جَڑا ہوا ہے۔کعبہ کی سمت لپکتے ہوئے زائرین ، بعض اوقات ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے سے لبیک اللّٰھم لبیک کا ورد شروع کردیتے ہیں، ’’میں حاضر ہوں، اے اللہ میں حاضر ہوں‘‘۔ روایات کے مطابق، اللہ کے اِس قدیم ترین گھر،کعبہ کی بنیاد سیدنا آدم علیہ السلام نے رکھی تھی۔ یہی وہ مقدس گھر تھا جس کے جوار میں اپنی زوجہ محترمہ ہاجرہ ؑ اور اپنے شیرخوار بیٹے اسماعیل ؑ کو چھوڑ جانے کا، سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا گیا تھا۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو  فریضہ سونپا گیا کہ اپنے بیٹے اسمٰعیل علیہ السلام کو ساتھ ملاکر انسانوں کے لیے وضع کیے جانے والے اس اوّلین مبارک گھر کی بنیادیں از سر نو اُٹھائیں۔ ’’ابراہیم ؑ اور اسمٰعیل ؑ جب اس گھر کی بنیادیں    اُٹھا رہے تھے، تو دعا کرتے جاتے تھے: اے ہمارے رب! ہم سے یہ خدمت قبول فرمالے،تُو سب کی سننے اور سب کچھ جاننے والا ہے۔اے رب! ہم دونوں کو اپنا مطیع فرمان (مسلم) بنا لے اورہماری نسل سے ایک ایسی قوم اُٹھا جو تیری مطیع فرمان ہو، ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا اور ہماری کوتاہیوں سے در گزر فرما، تو بڑا معاف فرمانے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘۔ (البقرہ۲: ۱۲۷- ۱۲۹)

یہی وہ گھر تھا جو تمام انسانیت کومجتمع کرنے کے لیے ایک مرکزاور امن کی جگہ بنا۔ ’’بے شک سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لیے تعمیر ہوئی وہ وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے۔ اس کو خیر و برکت دی گئی تھی اور تمام جہان والوں کے لیے مرکزِ ہدایت بنایا گیا تھا۔ اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں، ابراہیم ؑ کا مقامِ عبادت ہے اور اس کا حال یہ ہے کہ جو اس میں داخل ہوا مامون ہو گیا۔لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہووہ اس کا حج کرے، اور جو کوئی اس حکم کی پیروی سے انکار کرے تو اسے معلوم ہو جانا چاہیے کہ اللہ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے‘‘۔(اٰل عمرٰن ۳:۹۶ - ۹۷)

از سرنو بنیادیں اُٹھاتے ہوئے سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام نے چار خطوط مستقیم پر مشتمل ایک ایسی سادہ سی شکل تعمیر کی، جس کے دو اطراف بھی متوازی نہ تھے۔     شمال مغربی جانب ۳۲ ہاتھ طویل تھی،شمال مشرقی جانب ۲۲ ہاتھ طویل تھی، جنوب مغربی جانب ۳۷ہاتھ طویل تھی اور جنوب مشرقی جانب ۲۰ ہاتھ طویل تھی۔دونوں حضرات انبیا (علیہم السلام) نے سخت محنت و مشقت کے ساتھ اور گارا استعمال کیے بغیر پتھر کے اوپر پتھر رکھ کریہ شکل تعمیر فرمائی۔ مشرقی سمت میں انھوں نے سیاہ رنگ کا ایک خاص پتھر (حجر اسود) نصب فرمایا،اِس علامت کے  طور پر کہ طواف کا آغاز یہاں سے کیا جائے۔جب دیواریں اونچی ہونے لگیں تو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا ہاتھ مزید اوپرتک پہنچنے سے قاصرہوا۔سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام ایک پتھر اُٹھا لائے تاکہ وہ اُس پر چڑھ کر کھڑے ہو سکیں۔اس پتھر پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے نقوشِ پا آج تک ثبت ہیں۔یہی وہ پتھر ہے جو آج’مقامِ ابراہیم‘کے نام سے موسوم ہے۔ جب دیواریں نو (۹) ہاتھ اونچی ہوگئیںتو  ان حضرات نے توقف فرمایا۔اپنی اس مکعب شکل ہی کی وجہ سے اس عمارت کانام ’کعبہ‘ پڑا۔

بغیر چھت کی یہ مقدس عمارت تعمیر کرکے سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے حکم الٰہی کی تعمیل کردی اورسمع و طاعت کا مظاہرہ پیش فرمایا۔ ایمان کی اِس سادہ سی علامت کی تعمیر اُن کے پختہ عقیدۂ توحیدکی بنیاد پر ہوئی   ع

دنیا کے بُت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا

جس نے کفر و الحاد کی دنیا میں اور یادگاری مندروں اور اہراموں سے بھری ہوئی دنیا میں، عقیدۂ توحید کے ذریعے سے انسانیت کے چہرے کا رُخ پھیر دیا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’یادکرو وہ وقت، جب کہ ہم نے ابراہیم کے لیے اس گھر کی جگہ تجویز کی تھی، (اس ہدایت کے ساتھ کہ) میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو،اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام و رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھو،اور لوگوں کو حج کے لیے اذنِ عام دے دو کہ وہ تمھارے پاس ہردُور دراز مقام سے پیدل اور اونٹوں پر سوارآئیںتاکہ وہ فائدے دیکھیں جو یہاں اُن کے لیے رکھے گئے ہیں، اور چند مقرر دنوںمیں اُن جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انھیں بخشے ہیں، خود بھی کھائیںاور تنگ دست محتاج کو بھی دیں، پھر اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذر پوری کریں، اور اس قدیم گھر کا طواف کریں‘‘۔ (الحج۲۲: ۲۶- ۲۹)

اس گھر کی تعمیر کے بعد، صحرا کے وسط میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام ایک پتھر پر چڑھے اور چاروں جانب چہرہ پھیر پھیر کر تمام انسانوں کو پکارا کہ وہ آئیں اور اس گھر کا طواف کریں۔اس پکار کے جواب میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے لے کر ابدتک کے زمانے کے پیروانِ اسلام کا ایک انبوہِ کثیر لبیک اللّٰھم لبیک (میں حاضرہوں، اے اللہ میں حاضر ہوں) کی صدائیں بلند کرتا ہوا، والہانہ آتا رہا ہے اور تاقیامت آتا رہے گا۔

جب ابراہیم علیہ السلام کعبہ، مکہ اور حجاز کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ رہے تھے تو آپ ؑ نے دُعا فرمائی: ’’اے پروردگار! اس شہر کو امن کا شہر بنا اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا۔ پروردگار! اِن بتوں نے بہتوں کو گمراہی میں ڈالا ہے، جو میرے طریقے پر چلے وہ میرا ہے اور جو میرے خلاف طریقہ اختیار کرے تو یقینا تو درگزر کرنے والا مہربان ہے۔پروردگار! میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میںاپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے۔ پروردگار! یہ میں نے اِس لیے کیا ہے کہ یہ لوگ یہاں نماز قائم کریں، لہٰذا تو لوگوں کے دلوں کوان کا مشتاق بنااور انھیں کھانے کو پھل دے، شاید کہ یہ شکر گزار بنیں۔پروردگار! تو جانتا ہے جو کچھ ہم چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں‘‘۔اور واقعی اللہ سے کچھ بھی چھپا ہوا نہیں ہے، نہ زمین میں  نہ آسمانوں میں‘‘۔ (ابراہیم ۱۴: ۳۵ - ۳۸)

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے لے کر آج تک خانہ کعبہ گذشتہ چار ہزار برسوں سے اپنے اصل مقام پر، اپنی اصل ہیئت میں اور اپنی اصل بنیادوں پر قائم ہے۔ پوری تاریخ میں   یہ بات ریکارڈ پر رہی ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے اب تک جب بھی خانہ کعبہ کی تعمیرنو ہوئی ہے، ہمیشہ ان ہی بنیادوںپر ہوئی ہے۔

 قدیم روایات کے مطابق خانہ کعبہ بے چھت کی چاردیواری سے گھرا ہوا ایک حجرہ تھاجس کی دیواروں کی بلندی ایک قد آدم تھی۔ ازرقی نے مزید تفصیل سے بیان کیاہے کہ یہ دیواریں ساڑھے چار میٹر بلند تھیںاور کھردرے پتھروںسے بغیر گارے کے بنائی گئی تھیں۔ چاروں کونوں پر چار پتھر نصب تھے، جن کی عرب تعظیم کیا کرتے تھے۔زم زم کا مقدس کنواں کعبہ کے صحن میں واقع تھا۔

ہجرتِ مدینہ سے اٹھارہ برس قبل قریش نے خانہ کعبہ کی تعمیرنو کی، جس کی حالت مرمت طلب ہو چکی تھی۔ اس تعمیر نو کا احوال ازرقی نے یوں بیان کیا ہے:’’اسی زمانے میں یونان کا ایک تجارتی بحری جہاز شُعیبیہ( جدہ سے قبل مکہ کی بندرگاہ) پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا۔قریش بحری جہاز کی لکڑی اور ایک یونانی بڑھئی کو، جس کانام باقوما تھا(اور وہ اسی بحری جہاز پر سوار تھا)،کعبہ کی تعمیر نو میں مدد کے لیے ساتھ لے آئے۔ اب کعبہ اس طرح سے تعمیر کیا گیا کہ ایک تہ پتھروں کی رکھی جاتی اور ایک تہ (ساگوان کی) لکڑی کی۔ یوں کُل ۳۱تہیں جمائی گئیں۔۱۶ تہیں پتھروں کی تھیں اور ۱۵تہیں لکڑی کی۔پہلی اور آخری تہ پتھر کی تھی‘‘۔

جب حجر اسود کو اس کے مقام پر نصب کرنے کا وقت آیاتو سردارانِ قریش میں اسے نصب کرنے کا اعزاز حاصل کرنے پر جھگڑا شروع ہو گیا۔صورتِ حال سنگین ہوگئی اور خوںریزی کی نوبت نظر آنے لگی۔فیصلہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلّم پر چھوڑا گیا۔ آپؐ کا فیصلہ تمام متعلقین کے لیے قابل قبول ہوا۔یوں ایک تشویش ناک صورتِ حال ٹل گئی۔

کعبہ کا دروازہ فرش سے اونچا کرکے اس طرح بنایا گیا کہ اس کی چوکھٹ سطحِ زمین سے چار ہاتھ (تقریباً دو میٹر) بلندتھی۔قریش نے ایک سپاٹ چھت بھی تعمیر کی۔چھت کوچھے ستونوںسے سہارا دیا گیا تھا جوتین تین ستونوں کی دو قطاروں پر مشتمل تھے۔حرم کی دیواریں اب ۱۸ ہاتھ اونچی کردی گئیں، جب کہ اس سے قبل صر ف نو ہاتھ بلند تھیں۔ہر تہ کی اونچائی تقریباً ۳۱سینٹی میٹر تھی۔ شمالی کونے پر جو رُکنِ شامی کہا جاتا ہے، چھت تک پہنچنے والی چوبی سیڑھیاں بنائی گئیں۔حرم کو ایک کپڑے میں ملفوف کر دیا گیا،یہ کپڑا’قباطی‘ کہلاتا تھا، پھر اس کپڑے کو بھی اونی پٹیوں سے ڈھانپ دیا گیا ۔

اب خانہ کعبہ کی اندرونی چھت، دیواروں اور ستونوں کو رسولوں، فرشتوں اور درختوں کی تصاویر سے مزین کیا گیا۔رسولوں کی تصاویر میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ایک تصویر بھی شامل تھی جس میں ایک ضعیف العمر شخص کوتیروں کی مدد سے فال نکالتے دکھایا گیا تھا۔ قدیم روایات کی رُو سے کعبہ کا صحن طلوعِ اسلام سے قبل بھی طواف کے لیے استعمال کیا جاتا تھااور یہ دائرہ نُما تھا۔اس علاقے کو قرآن مجید میں ’مسجد الحرام‘ کہاگیا ہے: ’’پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک‘‘۔ (بنی اسرائیل۱۷: ۱)

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا کہ اللہ اُن کی ذرّیت میں سے ایک رسول مبعوث فرمائے، مستجاب ہوئی اور۲ ہزار ۶ سو برس بعد سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلّم ان میں مبعوث ہوئے۔ آپؐ نے اللہ کی آیات ان کے سامنے تلاوت فرمائیں اورعربوں کی کایا پلٹ دی۔ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلّم نے پہلا اسلامی حج، ایک لاکھ ۱۴ ہزار مسلمانوں کے ساتھ، ۱۰ ہجری میں ادا فرمایا۔اسلام کی دُور دراز تک اشاعت کے بعد حاجیوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔اس کے نتیجے میں مسجد حرام اور کعبہ کے گرد مطاف میں وقتاً فوقتاً توسیع کرتے رہنا ناگزیر ہوگیا۔پہلی توسیع خلیفہ ثانی سیدنا عمر رضی اللہ عنہٗ کے دور میں ہوئی، اور اب تک کی (یعنی یہ مضمون تحریر کیے جانے تک کی: مترجم) آخری توسیع سعودی عرب کی حکومت نے ۱۳۹۵ھ میں کی ہے۔مطاف کی آخری توسیع جمادی الاولیٰ ۱۳۹۸ھ میں ہوئی۔حرم کی توسیع اور تزئین نو کی ایک روداد ذیل میں دی جاتی ہے:

حرم کی توسیع اور تزئینِ نو

اوّلین اسلامی دور: سیدنا عمر رضی اللّٰہ عنہٗ (۱۷ھ)

جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہٗ عمرہ ادا کرنے کے لیے مکہ تشریف لائے اور آپؓنے کعبہ کو مرمت طلب حالت میںدیکھا توٹوٹے پھوٹے حصوں کی مرمت کے احکامات جاری فرمائے۔ بعض مآخذ سے معلوم ہوا ہے کہ مسعیٰ کی جانب سے آنے والا سیلابی پانی مقام ابراہیم ؑ کے سواہرجگہ نقصان کا باعث بنا۔آپؓ نے یہ بھی محسوس کیا کہ اہل ایمان کی بڑھتی ہوئی تعداد کے لیے گنجایش پیدا کرنے کو کعبہ کے گرد مسجد حرام کے رقبے میں توسیع کی ضرورت ہے۔ اس غرض سے کعبہ کے جوار میں بنے ہوئے مکانات کا معاوضہ ادا کرکے انھیں مسمار کروا دیاگیا۔تمام روایتی مآخذ سے یہ بات ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلّم اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ کے ادوار میں کعبہ کااحاطہ کرنے والی کوئی دیوار نہیں تھی۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہٗ نے ایک قد آدم سے کچھ کم اونچائی کی ایک دیوارچاروں طرف کھنچوا دی۔اس دیوار میں دروازے بنوائے گئے اور اندھیرا چھا جانے پر اس احاطے کوروشن کرنے کے لیے دیوار پر چراغ رکھ دیے گئے۔تاریخ میں اس بات کا ذکر ملتا ہے کہ آپؓ نے ایک پشتہ بھی تعمیر کروایاتاکہ آیندہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات سے یہ جگہ محفوظ   رہ سکے۔مسجد حرام کا توسیع شدہ احاطہ کثیر الاضلاعی شکل کا تھااورزم زم کا کنواں اس احاطے کے اندر لے لیا گیا تھا۔

 سیدنا عثمان بن عفان رضی اللّٰہ عنہٗ  (۲۶ھ)

سیدنا عمر رضی اللہ عنہٗ کے ہاتھوں ہونے والی مسجد حرام کی توسیع کے زمانے کو بمشکل ایک عشرہ گزرا ہوگا کہ خلیفہ ثالث سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہٗ کو مزید توسیع کی ضرورت محسوس ہوئی۔ نئے نئے ممالک میں تیزی سے اشاعتِ اسلام کے باعث حاجیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اِس توسیع کی وجہ بنی۔ ۲۶ ہجری میں آپؓ نے ارد گرد کے مزید گھروں کو معاوضہ ادا کرنے کے بعد مسمار کروا دیا اور اُن کی اراضی مسجد حرام میں شامل کردی۔آپؓ نے مسجد کی مکمل تزئینِ نو کروائی اور تاریخ میں پہلی بار نماز کے لیے سائبان تعمیر کروایا۔ نقشہ کم و بیش مربع شکل کا تھااور اس کے تمام کونے نالی دار تھے۔

 سیدنا عبداللّٰہ بن زبیر رضی اللّٰہ عنہٗ (۶۵ھ)

سیدناعبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہٗ خلیفہ اوّل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ کے نواسے تھے اور مدینہ منورہ میں پیدا ہونے والے سب سے پہلے مسلمان تھے۔ آپؓ کی والدہ اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا اُن افراد میں سے ایک تھیں جنھوں نے مکہ سے ہجرت کے موقعے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ کی معاونت کی تھی۔جب سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہٗ یزید کے مقابلے میں سیاسی غلبہ حاصل کرنے کے لیے جدو جہد کررہے تھے تو یزید نے مکہ معظمہ پر حملہ کردیااور محاصرے کے دوران میں خانہ کعبہ کو آگ لگ گئی۔محاصرے کا اختتام یزید کی موت پر ہوا۔اس کے بعد سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہٗ نے کعبہ کی تعمیرِ نوکا آغاز کیا۔ سب سے پہلے آپؓ نے خانہ کعبہ کو اُن پتھروںسے صاف کرنے کا حکم دیاجو یزید سے جنگ کے دوران میں کعبہ کے اندر پھینکے گئے تھے۔پھر آپ نے پوری عمارت کو منہدم کرنے کا حکم دیا، کیوں کہ بہت تھوڑا ہی سا حصہ اپنی اصل صورت میں باقی رہ گیا تھا۔آتش زدگی کے نتیجے میں دیواریں ریزہ ریزہ ہوئی جارہی تھیں۔ اہل مکہ انہدام کی غرض سے خانہ کعبہ کو ہاتھ لگانے سے خائف تھے۔ پہلے پہل انھوںنے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہٗ کی مدد کرنے سے انکار کردیا،تا آں کہ آپؓ نے خود بہ نفسِ نفیس انہدام کے کام کا آغازنہ فرمایا۔

محاصرے کے دوران میں حجر اسود تین ٹکڑے ہوگیا تھا۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہٗ نے ان ٹکڑوں کو جوڑ کر چاندی کے فریم میںیکجا کیااور حفاظت کے نقطۂ نظر سے اُس وقت تک اپنے گھر میں رکھا جب تک کعبہ کی دیواریں حجر اسود کی تنصیب کے مقام تک بلند نہ ہو گئیں۔   سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی قائم کی ہوئی بنیاد میں،جو بہت بڑے بڑے سبز پتھروں پر مشتمل تھی، چھے ہاتھ کا اضافہ کیا گیااور منہدم کی گئی عمارت  کے مقابلے میں اس کی چوڑائی بھی بڑھائی گئی۔

سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہٗ نے کعبہ کوسیدنا ابراہیم علیہ السلام کی قائم کردہ بنیادوں پر ازسرِ نو تعمیر کیا۔ لمبائی میں اضافہ کرکے اسے ۱۸ ہاتھ سے ۲۶ ہاتھ کر دیا۔حجر اسماعیل(علیہ السلام) کو کعبہ کے اندر شامل کیااور کعبہ کی اُونچائی ۱۸ ہاتھ سے ۲۷ ہاتھ تک لے گئے، یہ پیمایش عمارت کی کرسی سے کی گئی تھی، جو خود ۱۶؍ انچ بلند تھی۔نئی عمارت کی تعمیرپتھروں سے کی گئی جن کی موٹائی دوہاتھ تھی۔ ان پتھروںکی ۲۷ تہیں جمائی گئی تھیں۔سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہٗ نے کعبہ میں دو دروازے بنوائے جو ۱۱ ہاتھ بلند تھے۔ ایک دروازہ مشرقی جانب، جو کعبہ میں داخل ہونے کے لیے تھا اور دوسرا دروازہ مغربی جانب جوباہر آنے کے لیے مختص تھا۔بعض مآخذ سے معلوم ہوا ہے کہ ان دروازوںپر سونے کی پتریاں چڑھائی گئی تھیں۔شمالی گوشے میں ایک چوبی سیڑھی نصب کی گئی جو چھت تک جاتی تھی۔ترشے ہوئے پتھروں سے تعمیر کے لیے روایتی یمنی فن تعمیر اختیار کیا گیا اور یمن کی چکنی مٹی کاگارا استعمال کیا گیا۔

کلیساے یمن کی طرز پر (جو اَبرہہ نے تعمیر کروایا تھا) میناکاری کی گئی۔سنگ مرمر کے تین ستون بھی تعمیر کیے گئے جو رنگارنگ نقاشی سے مزیّن تھے۔صنعا سے شفاف سنگ مرمر لا کر اندرونی چھت پر لگائے گئے، جس سے اندرونی حصہ روشن ہوگیا۔ اگرچہ حجر اسودخانہ کعبہ سے اتار لیا گیا تھا، مگر عارضی چوبی ڈھانچے کے گرد بھی طواف جاری رہا۔جب دیواریں حجر اسود کی تنصیب کے مقام تک بلند ہو گئیں تو حجر اسود نصب کرکے اس پر دو پتھر مضبوطی سے جمادیے گئے۔کعبہ کی اندرونی اور بیرونی دیواروں پر مُشک کا لیپ کیا گیا۔ حرم کی نئی عمارت کو مصر کے قبطی ریشم کا غلاف پہنایاگیا،    یہ روایت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہٗ کے دور سے جاری تھی۔باقی ماندہ اضافی پتھروں سے کعبہ کے گرد ۱۰ ہاتھ چوڑی ایک دائرہ نما پیادہ رَو تعمیر کی گئی۔حرم کے گرد بنی ہوئی دیوار اونچی کی گئی۔موجودہ دیواروں کی مرمت کی گئی اور ایک برآمدے کا اضافہ کیا گیا جس کی چھت سادہ لکڑی سے بنائی گئی تھی۔ازرقی بیان کرتا ہے کہ مسجد حرام نو جریب سے کچھ زائد پر تھی۔

حجاج بن یوسف (۷۴ھ)

مکہ شہر کے محاصرے کے دوران میں حجاج نے کعبہ کو شدید نقصان پہنچا یا۔جب وہ شہر میں داخل ہوا تو کعبہ کی تعمیر نو کا ذمہ لیا۔اس نے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہٗ کا تعمیر کردہ پورا ڈھانچا منہدم کرادیا۔ کعبہ کی لمبائی سات ہاتھ کم کرکے صرف ایک دروازے کے ساتھ نئی تعمیر کی گئی۔   اس واحد دروازے کو فرش سے چار ہاتھ بلند کردیاگیا تاکہ کعبہ کے اندر داخلہ محدود کیا جاسکے اور   اس میں باقاعدگی لائی جا سکے۔ حجاج نے عمارت کے سامنے کا رُخ تین اُفقی حصوں میں منقسم کردیا۔ سب سے نچلا حصہ ۱۸ ہاتھ بلندتھا اور اس میں کعبہ کے اندر داخل ہونے کا دروازہ شامل تھا۔ اس کے علاوہ تین نمایشی دروازے بھی بنائے گئے۔ حرم کے ہر رُخ پر ایک چھجے کے نیچے ایک، ایک نمایشی دروازہ بنایاگیاتھا۔سب سے اونچاحصہ دو ہاتھ بلند تھااور اس حصے میں نیم شفاف سنگ مرمرکی چارکھڑکیاں نصب کی گئی تھیں۔ اندرونی حصے میں ایک نمایشی چھت کا بھی اضافہ کیا گیا جو شہتیروں سے بنائی گئی تھی۔یہ شہتیر دیواروں سے باہر نکلے ہوئے تھے اور ان پر ایک پردہ لٹکادیا گیا تھا۔ اندرونی حصے میں سنگ سرخ کے تین ستون تھے جنھوں نے شہتیروں سے بنی ہوئی چھت کو سہارا دے رکھا تھا۔

ولید بن عبدالملک (۹۱ھ)

متعدد سیلابوں میںسے ایک سیلاب کے بعد ولید بن عبدالملک نے کعبہ کی بحالی کا آغاز کیا۔ اُس نے مسجد کے رقبے کی توسیع کی اور عمارت کی تزئین نو کروائی۔ برآمدوں کی چھت کو ساگوان کی منقش لکڑی کے شہتیروں سے مزین کیااورشیشے کی میناکاری متعارف کروائی۔ سنگ مرمر کی چوکھٹیں بنوائی گئیں،پرنالوں پرسونے کی ملمع کاری ہوئی اورکنگورے بنوائے گئے۔در حقیقت ولید وہ پہلا شخص تھا جس نے مصر اور شام سے منگائے ہوئے سنگ مرمر سے ستون بنوائے۔

اُموی اور عباسی عھد کی تعمیرات

اُموی تعمیرات کا دور جو ۱۳۲ھ تک جاری رہا ، سنگ مرمر کے ستونوں پر ایستادہ محرابی چھتوں اور پتھروں کی تراش خراش سے کی جانے والی پُرکشش تعمیرات کادور تھا۔سنگ مرمرکی چوکھٹوں    اور میناکاری پر مشتمل تعمیرات کی اندرونی تزئین و آرایش انتہائی شان دار طریقے سے کی گئی تھی۔ان میں سے کچھ تکنیکی طریقے مسجد حرام کی تعمیر نو میں بھی استعمال کیے گئے۔ عباسیوں کے دور میں (۱۳۲تا ۶۵۶ھ) شامی طرزِ تعمیر کے اثرات کم ہوئے اور ایرانی و ساسانی طرزِ تعمیر کے اثرات میں اضافہ ہوا۔محوری نقشہ سازی اور پیمانوں کی وسعت اس عہد کی دو خصوصی صفات تھیں۔تعمیرات بالعموم اینٹوں سے کی جاتی تھیں جن کو استرکاری سے چھپا دیا جاتا تھا۔چہار مرکزی محرابیں نئی  صورت گری کے طور پر ظہور پذیر ہوئیں۔چمک دار ٹائلوں سے مزین قوسی محرابوں کے استعمال کا آغاز بھی اسی دور سے ہوا۔

ابوجعفر المنصور (۱۳۷ ھ)

ابوجعفر المنصور نے مسجد کی توسیع میں اہم کردار ادا کیا۔اُس نے مسجد کی شمالی اور مغربی جانب کو توسیع کی۔ان توسیعات کے بعد رقبہ پہلے کے مقابلے میں دوگنا ہوگیا۔

محمد المہدی (۱۶۴ھ)

محمد المہدی نے یکے بعد دیگرے دو توسیعات کیں۔پہلی توسیع ۱۶۱ھ میں ہوئی جب اس نے شمالی سمت وسیع کرنے کا حکم دیا۔اس علاقے سے متصل عمارات کو خرید کر منہدم کر دیا گیااور ان کا رقبہ مسجد میں شامل کر دیا گیا۔اس توسیع کے بعد کعبہ درمیان میں نہ رہا۔ محمد المہدی نے ۱۶۴ھ کے حج میںاس بات کو محسوس کیا۔ لہٰذا اس نے جنوبی سمت میں بھی توسیع کرنے کا حکم دیا۔وہ خود بہ نفس نفیس جبل ابو قبیس پر کھڑا ہوگیا اور اس امر کو یقینی بنایا کہ کعبہ اس احاطے کے بالکل درمیان میں      نظر آئے۔مہدی نے اس احاطے کے گرد برآمدوں کی تین قطاریں مزید تعمیر کروائیں۔ستون یاتو سنگ مرمر کے تھے یا پتھر کے۔ان برآمدوں پر ساگوان کی چھت ڈلوائی گئی۔ اس نے نمازکے لیے چھوٹی چھوٹی چار چوبی عمارتیں بنوائیں ، چار فقہی مذاہب میں سے ہر ایک کے لیے ایک عمارت مختص کر دی گئی۔ مہدی کا شروع کیا ہوا کام اُس کی زندگی میں پایۂ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔اُس کے کام کی تکمیل ۱۶۷ھ میں اُس کے بیٹے موسیٰ الہادی کے عہد میں ہوئی۔اس توسیع کے نتیجے میں حرم کا رقبہ اپنے انتہائی طول و عرض تک پہنچ گیا۔سوائے اس کے کہ بعد میں ’باب الزیادہ‘ اور ’بابِ ابراہیم‘ کا اضافہ کیا گیا، حرم میں اور کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ اس کامطلب یہ ہوا کہ مہدی کی تعمیرات چھے صدیوں تک کسی تغیر کے بغیر برقرار رہیں۔

l۲۲۲ھ تا ۴۸۶ ھ: ۲۲۲ھ میں سامراء سے لائے ہوئے زرد پتھرکے ستون چھت کے لیے استعمال کیے گئے۔کعبہ کے شمال مغرب میں واقع حجر اسماعیل ؑ کی نشان دہی کے لیے سنگ ہاے رنگا رنگ اور سنگ سبز کی تنصیب کی گئی۔مقام ابراہیم ؑ پر سونے کی ملمع کاری کی گئی اور موسمی اثرات سے حفاظت کی غرض سے اِسے ایک چوبی ساخت کے نیچے رکھا گیا۔کعبہ کے گرد چوبی ستونوں پر قندیلیں آویزاں کی گئیں۔تواترسے سیلابوں کی آمد کے سبب مزید مرمت کی شدید ضرورت پڑی تو کعبہ کی چھت کو ڈھاپنے کے لیے سنگ سبزکی تہ جمائی گئی۔چاندی کے دروازے پر سونے کا ملمع چڑھایا گیا۔اندرونی حصے میں دیواروں پر ایک ہاتھ چوڑی سونے کی گل کاری پر مشتمل ایک پٹی کا اضافہ کیا گیا۔ سرخ ریشم کے ایک پردے سے، جس پر سونے سے کڑھائی کی گئی تھی، کعبہ کو ملفوف کردیاگیا۔

معتضد عباسی نے ۲۸۴ھ میں دارالندوہ کا ایک حصہ مسجد حرام میں شامل کر لیا۔بعد میں دارالندوہ کا بقیہ حصہ بھی مسجد میں شامل کر لیا گیا اور اس کا نام ’باب الزیادہ‘ رکھ دیا گیا۔اس کے بعد مقتدر عباسی نے ۳۰۶ھ میں مسجد میں ایک حصے کا اضافہ کیا جو ’بابِ ابراہیم ؑ‘ کہلایا۔ اس توسیع سے مسجد حرام کا رقبہ اتنا بڑا ہوگیا جو ۱۳۷۵ھ تک برقرار رہا۔ ۴۴۲ھ میںاندرونی حصے کے متعلق ایک حاجی یوں بیان کرتا ہے: ’’امویوں کے زمانے سے اس کا نظم تین ستونوں پر استوار تھا۔ستونوں کا بالائی سرا جو سنگِ سفید سے بنایا گیا تھا، شیشے سے بدل دیا گیا۔ چاروں کونوں پر بلند طاق بنائے گئے   جن میں قرآن مجید رکھ دیا گیا۔دیواروں پر سونے کی اینٹیں مرصع کر دی گئیں۔شمال مشرقی دیوار پر چھے نقرئی محرابیں بنائی گئیں۔ لکڑی کے کچھ ٹکڑے، جن کے متعلق کہاجاتا ہے کہ یہ کشتی نوحؑ سے حاصل کیے گئے تھے، چاندی کے فریم میں جڑ کر دیوار پر آویزاں کر دیے گئے۔چھ صدیوں تک کعبہ اور مسجد حرام کم و بیش اسی صورت میں رہے، حتیٰ کہ سلطنت عثمانیہ کا دور آپہنچا۔

l۸۰۲ھ تا ۸۰۷ ھ: ۸۰۲ھ میں آتش زدگی کے سبب مسجد کی مغربی سمت مکمل طور پرجل گئی۔ سنگ مرمر کے سو سے زائد ستون اور چھت نذر آتش ہوگئی۔ یہ حادثہ فرج ابن برقوق (شراک حکمرانوں میں سے ایک حکمران)کے عہد میں پیش آیا۔ اس نقصان کی مرمت امیر بیسق الظاہری نے کروائی۔

l ۹۷۹ ھ تا حال: عثمانی حکمران سلطان سلیم نے ۹۷۹ھ میں مسجد الحرام کی مکمل تزئین نوکروائی۔اُس نے ترکی کے عظیم ماہر تعمیرات سنان کو یہ فریضہ سونپا۔ مسجد کے انہدام کا آغاز ۹۸۰ھ میں باب السلام سے ہوا۔ملبے کا ڈھیر مسفلہ میں لگایا گیا۔نئی تعمیر کا آغاز ۶جمادی الاوّل ۹۸۰ھ سے ہوا۔ کعبہ کے گرد واقع برآمدے کو جس میں ۸۹۲ ستون تھے، پتھر اور سنگ مرمرکے ستونوں سے بدل دیا گیا۔پتھر کے ستون اس ترتیب سے ایستادہ کیے گئے کہ وہ استرکاری کی ہوئی سنگی محرابوں اور گنبدوں کو سہارا دیتے رہیں۔ ہموار چھت کی جگہ طرزِ عثمانی میں مجموعی طور پر ۵۰۰ گنبد تعمیر کیے گئے۔ ان گنبدوں کی اندرونی سطح کوبعد میں عبداللہ مفتی نے سنہری نقاشی اور دل کش خطاطی سے مزین کروا دیا۔  ۹۹۴ھ میں سلطان سلیم نے سنان کے نقشے کے مطابق کعبہ کے احاطے میں توسیع کی۔سنگ ہاے رنگارنگ سے کعبہ کے گرد پیادہ رَو کو مزین کیا گیا۔ کعبہ کے احاطے میں کھجور کے درختوں کی شکل کے قمقموں کا اضافہ کیا گیا اور ساتواں میناربنا یا گیا۔ عہد عثمانی کی مسجد کا تذکرہ اٹھارھویں صدی کے اکثر سیاحوں نے کیا ہے۔ فرش کو بڑے بڑے پتھروں سے مسطح کر دیا گیا تھا۔مسجد سے لے کر کعبہ تک سات عدد پختہ پیادہ رَو تعمیر کی گئی۔مسجد کا فرش گلی کی سطح سے نیچے تھا، داخلے کے لیے ۱۹ راستے بنائے گئے جن سے سیڑھیوں کے ذریعے داخل ہوتے تھے۔ سات مینار تھے جو اِن مقامات پر تعمیر کیے گئے تھے: باب العمرہ، باب السلام، باب علیؓ، باب الوداع، مدرسہ قایتبای،باب الزیادہ اور مدرسہ سلطان سلیمان۔ اندرونی حصے میں ستونوںکا جُھنڈ تھا جن کی تعداد ۴۵۰ سے ۵۰۰ تک تھی۔ مشرقی سمت میں ایک برآمدہ تھا، جس میں ستونوں کی چار قطاریں تھیں، دوسری جانب تین قطاریں تھیں۔ ستونوں کو نوکیلی محرابوں سے جوڑا گیا تھا۔ہر چار ستون سے ایک گنبد کو سہارا دیا گیا تھا۔

۱۰۳۹ھ میں پے در پے سیلابوں کے باعث کعبہ کی تعمیر نو ضروری ہوگئی۔ دو کونوں کے پتھر منہدم ہو گئے اور علما نے متفقہ طور پر مرمت کو لازمی قرار دیا۔کھدائی اُس وقت روک دی گئی جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی رکھی ہوئی بنیادکے پتھروں تک جاپہنچی۔ کعبہ کی تعمیر ان ہی بنیادوں پر ہوئی اورپرانے پتھروں ہی کا زیادہ استعمال کیا گیا۔کعبہ کے اندرونی ستونوں پر سونے کی ملمع کاری کر دی گئی۔ چاندی کا وہ دروازہ جو سلطان سلیمان نے کعبہ کی نذر کیا تھا، اپنے مقام پر بحال کر دیاگیا۔ کعبہ پر دو غلاف چڑھائے گئے، پہلے سُرخ اور اُس کے اوپر سیاہ۔ کعبہ کے گرد پڑی ہوئی ریت آبِ زم زم سے دھو کر صاف کی گئی۔ کعبہ اسی حالت میں کم و بیش ۴۰۰ سال تک رہا، تاآں کہ ۱۳۷۵ھ میں عالی مرتبت شاہ عبدالعزیز نے مسجد الحرام کے توسیعی و تعمیری منصوبے کا آغاز کیا۔  اللہ کے فضل و کرم سے اس منصوبے کی کامیابی سے تکمیل کے بعد ۱۳۹۸ھ میں مطاف کی توسیع اور نکاسی آب کے منصوبے کا آغاز کیاگیا۔

غلافِ کعبہ

اوّلین اسلامی اَدوار ہی سے کعبہ کی چاروں دیواریں سیاہ غلاف سے ملفوف کی جاتی رہی ہیں۔ غلاف کا کپڑا، کعبہ کی تاریخ کے مختلف ادوار میںمصر، یمن اور دیگرعلاقوں سے فراہم کیا جاتا رہاہے۔ ایک مرتبہ سیاہ غلاف کو سفید غلاف سے بدل دیا گیا اور کہا گیا کہ کعبہ نے ’احرام‘پہن لیا ہے۔ غلاف کو بالعموم رسیوں اور کڑوں کی مدد سے زمین پر نصب کیا جاتا ہے۔ زیادہ تریہ غلاف  سیاہ کمخواب کاہوتا ہے۔ غلافِ کعبہ کے نچلے حصے سے تین چوتھائی حصہ اوپر کرکے سونے کی کڑھائی پر مشتمل ایک پٹی تشکیل دی جاتی ہے۔کعبہ پر غلاف چڑھانے کی روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے زمانے سے پہلے بھی تھی، مگر یہ روایت حال ہی میں قائم ہوئی ہے کہ غلافِ کعبہ ہرسال تبدیل کیا جائے۔اب غلافِ کعبہ مکہ میں واقع ایک کارخانے کے اندر تیار کیا جاتا ہے۔

درِ کعبہ

کعبہ کے دروازے کا تصور وقتاً فوقتاً تبدیل ہوتا رہا ہے۔ ابتدا میں دروازہ فرش کی سطح پر تھا۔ بعد میں اس کو بلند کر دیا گیا۔ ایک بار دو دروازے بنادیے گئے تھے۔ ایک داخل ہونے کے لیے اور دوسرا باہر آنے کے لیے، تاہم اکثر زمانوں میں ایک ہی دروازہ کعبہ کے شمال مشرقی رُخ پر رہا ہے۔موجودہ دروازہ فرش کی سطح سے دو میٹر بلند ہے اور سونے چاندی کے ملمع سے بنایا گیا ہے۔ سال میں ایک بار دروازہ کھولا جاتا ہے تاکہ کعبہ کے اندرونی حصے کو غسل دیا جا سکے۔دروازے کی سطح تک پہنچنے کے لیے ایک مخصوص زینہ لایا جاتا ہے۔ کعبہ کے اندرونی حصے کو آبِ زم زم سے غسل شاہِ ذی جاہ اور دیگر عمائدین اپنے ہاتھ سے دیتے ہیں۔اندرونی دیواریں کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی جاروب سے صاف کی جاتی ہیں اور اس کے بعد اندورنی حصے میں خوشبوؤں کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے۔

حجر اسود

حجر اسود کعبہ کے مشرقی گوشے میں ثبت ہے۔ایک بار یہ ٹوٹ کر تین حصوں اور بہت سے ریزوں میں منقسم ہو گیا تھا۔ اب اسے پتھروں کے ایک حصار میں جڑ کر چاندی کے ایک بندھن سے باندھ دیا گیا ہے۔کہاجاتا ہے کہ یہ پتھر آتش فشاں کے لاوے کا پتھر ہے۔ اس کا رنگ سُرخی مائل  سیاہ ہے، جس پر زرد ذرّات پائے جاتے ہیں۔اب یہ مختلف ناپ کے سات حصوں میں منقسم ہے، جو چاندی کے ایک فریم میں مضبوطی سے جما دیے گئے ہیں۔

 نو مبر ۱۹۸۹ء میں دیوارِ برلن کے گرنے کے ساتھ ہی بین الاقوامی سیا ست میں سرد جنگ بھی اختتام کو پہنچی ۔اس کے بعد مغر بی سیا ست دانوں،پالیسی سا زوں اور دانش وروں نے آیندہ اپنی خار جہ پالیسی کے لیے ایک نئی حکمت عملی وضع کی۔اس تعلق سے سب سے پہلے ایک امریکی مفکر فرانسس فو کو یاما نے ۱۹۸۹ء میں  ایک امریکی رسالے The National Interest میں The End of History(انتہاے تاریخ) کے نام سے ایک مضمون لکھا کہ مغر بی تہذیب انتہائی عروج پر ہے اور یہ ساری دنیا پر چھا جائے گی۔ اسی مضمون میں فو کو یا مانے Liberal Democracyکا تصور پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہی انسان کی نظر یاتی تر قی کی آخری فتح ہے اور یہ کہ دنیا میں رائج نظریات کے درمیان کش مکش ختم ہو گئی ہے اور مغر بی آزاد جمہوریت کے سوا اب دنیا میں کو ئی نیا نظر یہ یا نظام آنے والا نہیں ہے ۔ ۱؎

اس کے بعد بر نارڈ لیوس نے اس نظر یے کو نئے قالب میں پیش کرتے ہوئے Return of Islam کے نام سے مقالہ لکھا۔ پھر اس مقالے کو نئی شکل دے کرماہ نامہ Atlantic  میں The Roots of Muslim Rage (مسلم غم و غصہ کی جڑ یں) کے زیرعنوان زہریلی تحریر بناکر  تہذیبی تصادم کا نظر یہ پیش کیا:

 دراصل ہم ایک ایسی تحر یک اور صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں جو حکومتوں ،مسائل اور منصو بوں سے حد درجہ بڑھ کر ہے۔یہ صورت حال ایک تہذ یبی تصادم سے کم نہیں ہے۔ یہ ہمارے یہودی عیسا ئی ورثے ،ہمارے سیکو لر اور ان دونوں کی ساری دنیا میں اشاعت کے قابل رد عمل ہے۔۲؎

پرسٹن یونی ورسٹی کے پروفیسر بر نارڈ لیوس کا شمار اسلام اور مشرق وسطیٰ پر مغرب کے معروف دانش وروں میں ہوتا ہے ۔ وہ اپنی تحریروں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کھلے جذبات کا اظہار کرنے سے احتراز کرتے ہیں، لیکن اس ہاتھ کی صفائی کے باوجود متعصبانہ سوچ اور بغض  چھپا ہو ا ہوتا ہے۔ تہذیبوں کے تصادم کی اصطلاح اور نظریے کے اصل خالق یہی ہیں ۔۳؎

برنارڈ لیوس کے بعد جس مغر بی مفکر اور پالیسی ساز نے تہذ یبی تصادم کے نظر یے کو انتہائی منظم انداز سے آگے بڑھا یا، وہ ہار ورڈ یونی ورسٹی کے پروفیسر سیموئیل پی ہن ٹنگٹن ہیں، جو نیشنل سیکورٹی کونسل میں منصوبہ بندی کے بھی ڈائرکٹر رہ چکے تھے ۔

انھوں نے فرانسس فو کو یا ما کے نظریاتی کش مکش کے خاتمے کے نظریے کو مسترد کرتے ہوئے یہ پیش گوئی کی کہ: ’’آیندہ دنیا میں تصادم نظریات کی بنیادد پر نہیں بلکہ تہذ یبوں کی بنیاد پر ہوگا۔مغر بی تہذیب جو اس وقت غالب تہذ یب کی صورت اختیار کر چکی ہے پوری دنیا کو اپنے رنگ میں رنگنا چاہتی ہے۔اس کا اسلامی تہذ یب سے ہر حال میں تصادم ہو نا ہے بلکہ شروع ہو چکا ہے‘‘۔ ہن ٹنگٹن نے ۱۹۹۳ء کے فارن افیئرز میںThe Clash of Civilizations  کے عنوان سے مضمون لکھا، جسے ۱۹۹۶ء میں پھیلاکر The Clash of Civilizations and Remaking of the New World Order  (تہذیبوں کا تصادم اور نئے عالمی نظام کی تشکیل)کے نام سے کتابی شکل میں شائع کیا، اور پھر اس پر دنیا بھر میں   بڑے پیمانے پر مباحثے کا آغاز ہوا ۔ نائن الیون کے بعد اس مباحثے نے نہ صرف طول پکڑا بلکہ شدت بھی اختیار کر لی۔

مغر بی مفکر ین اور پالیسی سازوں نے اس مفر وضے کو منطقی انداز میں پیش کر کے کہاکہ تہذیبوں (بالخصوص اسلامی اور مغر بی تہذ یب )کے مابین تصادم اور ٹکرائو لازم بلکہ ناگزیر بھی ہے۔ ہن ٹنگٹن کے مطابق آنے والے زمانے میں تصادم ،ٹکرائو اور جنگ، سیاست ،اقتصادیات اور سرحدوں پر ٹکرائو کی بنیاد پر نہیں بلکہ تہذ یبوں کی بنیاد پر ہوگی:

اس دنیا میں تصادم کا بنیادی سبب نہ تو مکمل طور پر نظر یاتی ہوگا،اور نہ مکمل طور پر معاشی، بلکہ نوع انسان کو تقسیم کر نے والے بنیادی اسباب ثقافتی ہو ں گے۔ عالمی معاملات میں قو می ریاستیں اہم کردار ادا کر تی رہیں گی، لیکن عالمی اہمیت کے بڑ ے تصادم ان ریاستوں اور گروہوں کے درمیان ہوں گے،جو مختلف تہذیبوں سے وابستگی کو اہمیت دیتے ہیں۔۴؎

مغر ب اپنی تہذ یب کی عالم گیریت پر یقین رکھتا ہے اور اس کا تصوریہ ہے کہ مغر ب کی تہذ یبی بالاتری اگر چہ رُوبہ زوال ہے، لیکن ہن ٹنگٹن کے بقول: مغرب اپنی برتری (pre-eminent position)کو قائم رکھنے کے لیے کو شش کر رہا ہے اور کرتا رہے گا۔ وہ اپنے مفادات کو عالمی برادری کے مفادات کے طور پر پیش کرکے ان مفادات کی حفاظت کر رہا ہے ۔۵؎

تھذیبوں کی تقسیم

 ماہرین نے تہذ یبوں کا گہرائی سے مطالعہ پیش کیا ہے۔ مشہور مؤرخ ٹائن بی نے پہلے ۲۱ اور بعد میں دنیا کو ۲۳تہذیبوں میں تقسیم کیا۔ اسپنگر نے دنیا کی آٹھ بڑی ثقافتوں کی نشان دہی کی، میک نیل نے تہذ یبوں کی تعداد ۹بتائی،سلکیو نے ۱۲تہذ یبوں کی نشان د ہی کی ہے ۶؎ ، جب کہ خود  ہن ٹنگٹن نے دنیا کی آٹھ بڑی تہذ یبوں کا تذکرہ کیا اور کہا ہے کہ مستقبل میں تصادم انھی تہذیبوں کے درمیان ہوگا :  ۱-چینی ( کنفیوشس) ۲- جاپانی ۳- ہندو۴- اسلامی۵- قدامت پرست عیسائی ۶- لاطینی ۷- افر یقی۸- مغر بی تہذ یب۔

جنگ جو سیاسی مفکر، ہن ٹنگٹن نے تہذ یبی تصادم کے اس دور میں تین تہذ یبوں کو اہم قرار دیا ہے: ۱- مغر بی تہذیب ۲-چینی تہذ یب ۳- اسلامی تہذ یب۔ ہن ٹنگٹن کے مطابق پانچ تہذ یبوں کا ایک دوسرے کے ساتھ یا مغر ب کے ساتھ جزوی طور پر اختلاف ہو سکتا ہے،لیکن یہ اختلاف تصادم کی صورت اختیار نہیں کرے گا۔

تھذ یبی تصاد م کے عوامل

 ہن ٹنگٹن کے مطا بق اسلام اور مغر ب کے درمیان اختلاف اور باہمی تنازعے کو روز بہ روز بڑھا وا مل رہا ہے، جن میں پانچ عوامل کو مرکزیت حاصل ہے :

 (۱) مسلم آبادی میں اضافے نے بے روزگاری اور بد دل اور مایوس نو جوانوں کی ایک بڑی تعداد کو جنم دیا ہے جو اسلامی تحر یکوں میں داخل ہو جاتے اور مغر ب کی طر ف نقل مکانی کر تے ہیں۔

(۲) اسلامی نشاتِ ثانیہ نے مسلمانوں کو اپنی تہذ یب کی امتیازی خصوصیات اور مغر بی اقدار کے خلاف نیا اعتماد عطا کیا ہے۔

(۳) مغر ب کا اپنی قدروں اور اپنے اداروں کو عالم گیر بنا نے اور اپنی خوبی اور اقتصادی برتری قائم کر نے اور عالم اسلام میں مو جود اختلافات میں مدا خلت کی مسلسل کو شش مسلمانوں میں شدید ناراضی پیدا کر تی ہے ۔

(۴) اشتراکیت کے انہدام نے مغر ب اور اسلام کے ایک مشترکہ دشمن کو منظر سے ہٹایا، مگر ان دونوں کو ایک دوسرے کے لیے ایک بڑے متوقع خطرے کی صورت میں لاکھڑا کیا ہے۔

(۵) اسلام اور مغرب کے درمیان بڑھتے ہو ئے تعلقات ان کے اندر یہ احساس ابھارتے ہیںکہ ان کی شنا خت کیا ہے اور وہ ایک دوسرے سے کس قدر مختلف ہیں ۔۷؎

  ہن ٹنگٹن کے مطابق تہذیبوں کا تصادم انفرادی اور اجتماعی سطحوں پر واقع ہوتا ہے۔  انفرادی سطح پر تصادم ، تہذ بیوں کے درمیان فوجی ٹکرائو اور ایک دوسرے کے علاقے پر قبضہ جمانے کے لیے ہو تا ہے،جب کہ اجتماعی سطح پر مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھنے والی حکو متیں علاقوں میں اپنی فوجی و سیاسی بر تری کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کر تی ہیں۔یہ اپنی اپنی سیا سی اور مذ ہبی اقدار کے فروغ کے لیے ایک دوسرے پر برتری لینے کی تگ ودو میں رہتے ہیں۔ ۸؎

اسلام اور مغر ب کے درمیان کش مکش

ہن ٹنگٹن کے نزدیک، اسلام اور مغر بی تہذ یب کے در میان تصادم پچھلے ۱۳۰۰ سال سے جاری ہے۔ اسلام کے آغاز کے بعد عر بوں نے مغر ب پر چڑھائی کی۔ اس کے بعد صلیبیوں نے عیسائی حکومت قائم کر نے کی کوششیں کیں۔ انیسویں اور بیسویں صد ی کے ابتدا ئی دور میں عثما نی حکومت بھی زوال پذیر ہو گئی۔اور دیکھتے ہی دیکھتے برطا نیہ،فرانس اور اٹلی کی حکو متیں قائم ہوگئیں اور شمالی افر یقہ کے علاوہ،مشر ق وسطیٰ پر مغر ب کا اقتدار قائم ہوا۔۹؎ 

اسلام اور عیسائیت،مسیحی اور مغر بی دونوں کے درمیان تعلقات اکثر ہنگا مہ خیز رہے ہیں۔ یہ ہمیشہ ایک دوسرے کے لیے اجنبی رہے ہیں۔آزاد جمہو ریت اور مارکسی لنین ازم کے درمیان انیسویں صدی کا تنازع اسلام اور عیسائیت کے درمیان مسلسل اور گہرے مخاصمانہ تعلقات کے مقابلے میں ایک عارضی اور سطحی مظہر ہے۔۱۰؎   ہن ٹنگٹن کو معلوم تھا کہ مغر ب، اسلام کے خلاف سیاسی پر وپیگنڈ ے اور سیا سی سازشوں سے زیا دہ دیر تک عا لم اسلام میں اپنا و جو د قائم نہیں رکھ سکتا اور نہ فو جی اور اقتصادی بنیادوں پر باقی دنیا کو اپنے پنجۂ استبداد میں رکھ سکتا ہے۔ اسی لیے اس نے اسلام اور اس کی تہذ یب کو مغر ب کے لیے خطرے کے طور پر پیش کیا :

 مغر ب کا بنیادی مسئلہ اسلامی بنیاد پر ستی نہیں ہے، بلکہ یہ اسلام ہے جو ایک مختلف تہذیب ہے جس کے ماننے والے لوگ اپنی ثقافت کی بر تری کے قائل اور اپنی طاقت کی کم تری پر پر یشان ہیں۔ ۱۱؎

ہن ٹنگٹن مذ ہبی عالم گیریت، بالخصوص اسلامی عالم گیر یت کا اطلا قی اندازہ لگا تا ہے۔ مراد ہوف مین کے بقول: ہن ٹنگٹن غلط ہو سکتا ہے، لیکن وہ احمق ہر گز نہیں ہے۔ اسلامی بنیاد پرستی، دہشت گردی، انتہا پسندی اور سیاسی اسلام جیسے الزامات لگانے میں مغر ب کا بنیادی ہدف اسلام ہے۔ اور اس نے اس کے لیے بے شمار ذرائع کو استعمال میں لا کر راے عامہ کو ہموار کیا، تاکہ پو ری دنیا اسلام اور عالم اسلام کے خلاف صف آرا ہو جائے۔مغر ب کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ مغربی فکر اور تہذیب کا اگر کسی تہذ یب میں مقابلہ کر نے کی صلاحیت اور طاقت ہے تو وہ صرف اسلامی تہذیب ہے۔ اسلامی تہذیب میں متبادل پیش کر نے کی صلاحیت بھی پائی جاتی ہے، جو ان کے مطابق اگرچہ فی الوقت ایسا نہیں ہورہا ہے لیکن مستقبل میں ایسا ضرور ہو گا۔اسی لیے ان کے صحافی، مصنفین، ادبا، مفکر ین ، پا لیسی ساز، اداکار اور سیا ست داں اس بات کا بر ملا اظہار کرتے ہیں کہ The Red menace is gone, but here is Islam  ۱۲؎(سرخ خطرے کا خاتمہ ہوگیا، لیکن اب اسلام ہے)۔

اسی لیے مغربی ماہرین ،اسلامی تحر یکات اور احیاے اسلام کو مغر ب کے لیے خطر ے کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اسلام کو اپنا اصل دشمن قرار دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے اسلام کو شکست دینا اپنا ہدف قرار دیا ہے۔ اسی طرح ایک مغر بی انتہاپسند ڈینیل پایپس [امریکی تھنک ٹینک Middle East Forum  کے صدر] نے یروشلم پوسٹ میں The Enemy  has a Name کے عنوان سے مضمون میں لکھا ہے:’’ اصل میں یہ دشمن ایک واضح اور جا مع نام رکھتاہے اور وہ ہے ’اسلام ازم‘ ۔اسلام کے تخیلاتی پہلو کا انقلابی تصور ،اسلام پر ست آمر انہ نظر یہ کہ جو بھر پور مالی مدد سے اسلامی قوانین( شر یعہ) کو عالمی اسلامی ضا بطے کے طور پر نافذ کر نے کا خواب ہے ــ‘‘۔۱۳؎    وہ ایک انٹرویو میں اس بات کا بھی برملا اظہار کرتا ہے:

میں کئی عشروں سے یہ بات کہتا آیا ہوں کہ ’ریڈیکل اسلام‘ مسئلہ بنا ہوا ہے اور ’جدید اسلام‘ ہی اس مسئلے کا حل ہے۔۱۴؎

ا س حوالے سے ایڈ ورڈ سعید کامشاہدہ اس طر ح ہے:

یو ر پ اور امریکا کے عام لو گوں کے لیے آج اسلام انتہائی ناگوار خبر کا عنوان بنا ہوا ہے۔ وہاں کا میڈیا ،حکو مت، پالیسی ساز اور محققین یہ تسلیم کیے بیٹھے ہیں کہ اسلام، مغربی تہذ یب کے لیے خطرہ ہے۔۱۵؎

 یہ سلسلہ بیسویں صدی کے آٹھویں عشرے سے مسلسل آگے بڑھا یا جارہا ہے۔ پہلے اسلام کو خطر ے کے طور پر پیش کر نا اور اس کے بعد تہذ یبی تصادم کے نظریے کو وجود میں لانا مغر ب کی اہم کار ستانیاں ہیں۔۱۶؎ امریکی پالیسی ساز ادارے رینڈکارپوریشن نے ۲۰۰۴ء میں مسلمانانِ عالم پر ایک مفصل رپورٹ تیار کی۔ جس کا عنوان  ـCivil Democratic Islam: partners resources and strategies ہے۔ اس رپورٹ کا خلاصہ یہ ہے کہ امریکا اور مسلمان ایک دوسرے کے حریف ہیں، جس کی بنیادی وجہ مسلمانوں کا دینی رجحان ہے۔۱۷؎مسلمانوں کی بڑ ھتی ہوئی آبادی سے ہن ٹنگٹن اور دیگرمغر بی مفکر ین کو زبردست تشویش لاحق ہے۔ ہن ٹنگٹن کے بقول: مسلمانوں کی بڑ ھتی ہو ئی آبادی مغر بی اور یو رپی ممالک کے لیے خطر ہ بنتی جارہی ہے۔ دنیا کے دوبڑے تبلیغی مذاہب اسلام اور عیسائیت کے ساتھ وابستگی رکھنے والوں کے تناسب میں گذشتہ ۸۰برسوں میں  بے حد اضافہ ہو۔۱۹۰۰ء میں دنیا کی کل آبادی میں مغربی عیسائیوں کی تعداد کا اندازہ ۹ئ۲۶فی صد اور ۱۹۸۰ء میں ۳۰ فی صد لگا یا گیا۔اس کے برعکس ۱۹۰۰ء میں مسلمانوں کی کل آبادی ۴ئ۱۲فی صد اور ۱۹۸۰ء میں ۵ئ۱۶ یا دوسرے اندازے کے مطابق ۱۸فی صد تک بڑھ گئی۔ ہن ٹنگٹن نے مغرب میں مسلمانوں کی مسلسل بڑھتی ہو ئی آبادی سے خبردار کر تے ہوئے لکھا ہے:

عیسائیت تبدیلیِ مذہب سے پھیلتی ہے، جب کہ اسلام تبد یلی مذ ہب اور افزایش نسل سے پھیلتا ہے۔ مسلمانوں کی آبادی کا تناسب ڈرامائی طور پر بڑھ کر بیسویں صدی کی تبد یلی کے وقت دنیا کی کل آبادی کا ۲۰ فی صد ہو گیا اور چند برسوں بعد ۲۰۲۵ء میں یہ تعداد دنیا کی کل آبادی کی تقریباً ۳۰ فی صد ہوگیــ‘‘۔۱۸؎

 مغربی دانش وروں نے اسلام اور مغر بی تہذ یب کے درمیان تصادم، مختلف پہلوئوں سے ظاہر کرنے کے لیے بے شمار حر بے استعمال کیے۔ اسلام پرپہلے شبہا ت کو جنم دیا، اور پھر الزامات عائد کرکے تصادم کے لیے راہیں ہموار کی گئیں۔ وہ کہتے ہیں کہ: اسلام، جد ید یت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ مغر بی فکرو تہذیب، ثقافت اور عورتوں کی آزادی کے خلاف ہے۔ پھر اسلام اور جمہوریت میں کوئی مطابقت نہیں بلکہ واضح تضاد ہے۔

  •  تھذیب کی حقیقت: ’تہذ یب‘ عر بی زبان کا لفظ ہے۔ اس کا معنی تربیت، اصلاح، دوستی اور شائستگی کے ہیں۔ فیروزاللغات میں اس کے یہ معنی بیان کیے گئے ہیں:شائستگی، آراستگی، صفائی ،اصلاح اور خو ش اخلاقی ۔۱۹؎

 مشہور انگریزی لغت یونیورسل انگلش ڈکشنری میں یہ معنی دیے گئے:

Civilization : A state of social, moral, intellectual and industrial   development.۲۰؎ 

یعنی انسان کے سماجی،اخلاقی ،فکر ی اور اس کی ترقیاتی تعمیر کے مختلف پہلو ئوں کا نام تہذیب ہے۔

’تہذیب‘ ایک ایسی اصطلاح ہے، جس میں کافی وسعت پائی جاتی ہے۔اس میں تصورِزندگی، طرزِ زندگی، زبان ، علم وادب ،فنونِ لطیفہ،رسوم ورواج،اخلاق و عادات،رہن سہن، کھانے پینے کا انداز،خاندانی و قومی روایات ،فلسفہ و حکمت،لین دین،اور سماجی معاملات، سب شامل ہیں۔یہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زند گی سنوارنے کا بھی نام ہے۔

اسلام نے تہذ یب کو نہ صرف مزیدوسعت اور جامعیت بخشی بلکہ اسے اخلاق عالیہ کے مرتبے تک پہنچا یا۔ اسلام نے تہذ یب کو دین و دنیا سنوارنے اور اصلاح کر نے کا ذر یعہ بھی بتایا، کیوںکہ اس میں انسان کے اخلاق و کردار،معاملات و معاشرت ،تعلیم و تمدن،سیاست،معیشت، قانون اور اداروں کی اصلاح، ان کو درست رکھنے کے لیے اصل رہنمائی موجود ہے۔اسلام مکمل دین ہے۔ اس نے جہاں انسان کو کارِ جہاں چلانے کے لیے مکمل رہنمائی دی، وہیں اسے ایک مکمل تہذ یب بھی عطا کی۔

اسلام: تھذیبی تصادم یا مکالمہ اور مفاھمت

کیا تہذ یبوں کے درمیان تصادم ہو سکتا ؟ یا کیا تہذ یبیں تصادم کی طر ف جا رہی ہیں ؟ اس حوالے سے اسلام کا مو قف بہت واضح ہے۔

اسلام تہذیبوں کے تصادم کا قائل نہیں۔ اسلام نے تو ماضی میں بھی دوسری تہذیبوں سے تصادم اور جنگ کے بجاے دعوت کے راستے ہی کو اوّلیت دی ہے۔ بقول پروفیسر خورشیداحمد: ’’تہذیبوں میں مکالمہ، تعاون، مسابقت حتیٰ کہ مثبت مقابلہ سب درست لیکن تہذیبوں میں تصادم، جنگ و جدال، خون خرابا اور ایک دوسرے کو مغلوب اور محکوم بنانے کے لیے قوت کا استعمال انسانیت کے شر ف اور تر قی کا راستہ نہیں۔یہی وجہ ہے کہ تہذ یبوں کا تصادم ہمارا لائحہ عمل نہیں۔ یہ مسلمانوں پر زبردستی ٹھونسا جارہا  ہے‘‘۔ ۲۱؎  مراد ہوف مین کے نزدیک: ’’ تہذیبوں کے ارتقا میں کبھی کو ئی زیرو پوائنٹ نہیں ہو تا۔ دنیا میں ہر شخص نے کسی دوسرے شخص سے فیض پایا اور ہر شخص نے کسی دوسرے شخص کی کامیا بیوں پر اپنی عمارت کھڑی کی ہے‘‘۔۲۲؎

اسلامی تہذ یب نے اپنا دامن بہت وسیع رکھا ہے، تنگنائیوں اور محدودیت کے دائرے کی کو ئی گنجایش نہیں رکھی ۔اسی لیے اس نے ہر دور میں اور ہر جگہ ہردل عزیز رہنما اور تاب ناک نقوش چھوڑے ہیں اور ہر تہذ یب کو فائدہ پہنچایا ہے۔ مغر بی دانش ور اس بات کا خو د بھی اعتراف کر تے ہیں۔برطانوی ولی عہد شہزادہ چارلس نے ستمبر ۱۹۹۲ء میں اوکسفرڈ یونی ورسٹی کے اسلامی سنٹر میں تقریر کر تے ہو ئے کہا کہـ: ’’ہماری تہذ یب و تمدن پر اسلام کے جو احسانات ہیں، ہم ان سے بڑی حد تک ناواقف ہیں۔وسطی ایشیا سے بحراوقیانوس کے ساحلوں تک پھیلی ہو ئی اسلامی دنیاعلم و دانش کا گہوارہ تھی، لیکن اسلام کو ایک دشمن مذہب اور اجنبی تہذ یب قرار دینے کی وجہ سے ہمارے اندر اپنی تاریخ پر اس کے اثرات کو نظرانداز کرنے یا مٹانے کا رجحان رہا ۔ مغر ب میں احیا ے تہذ یب کی تحریک میں مسلم اسپین نے گہر ے اثرات ڈالے ۔یہاں علوم کی تر قی سے یو رپ نے صدیوں بعد تک فائدہ اٹھایا‘‘ ۔ ۲۴؎

اسلام نے کبھی عیسائیت کے خلاف جارحانہ محاذآرائی نہیں کی اور نہ عیسا ئیوں کو اپنا دشمن باور کیا، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر مسلمانوں نے عیسائیوں کو دوستانہ تعلقات قائم کر نے کے لیے  نہ صرف اُبھارا بلکہ تاکید بھی کی ۔ اس بنیاد پر نہیں کہ وہ محض اللہ کے وجود کے قائل ہیں بلکہ وہ بہت سے انبیاے کرام ؑپر ایمان رکھتے ہیں، جن میں حضرت ابراہیم ؑ ،حضر ت اسحاقؑ، حضر ت یعقوب ؑ، حضرت یو سفؑ، حضرت مو سٰی ؑ شامل ہیں۔ان کے علاوہ اور بھی انبیاے کرام ؑ ہیں، جن پر وہ ایمان رکھتے ہے، جن کاتذکرہ قرآن مجید اوربائبل میں ہے۔جب دور نبوت میں مسلمان ابتلا وآزمایش کا شکار ہو ئے تو انھوں نے حبشہ کے ایک عیسا ئی بادشاہ کے ہاں ہجرت کی۔اس کے علاوہ اور بھی متعدد مثالیں مو جود ہیں۔ عیسائیت ہی کیا، اسلام نے کبھی بھی مذہب،تہذ یب ،نسل یا کسی بھی علاقے کے رہنے والوں کو اپنا دشمن تصور نہیں کیا ۔لیکن فساد پھیلانے والوں کی مذمت اور مزاحمت ضرور کی۔

مکالمے کی اھمیت

اللہ تعالیٰ نے لو گوں کو راہ حق کی طر ف دعوت دینے اور ان کے خدشات کو دور کر نے کے لیے متعدد ذرائع اختیار کر نے کی تعلیم دی ہے۔جن میں سے ایک ذریعہ مکالمہ (Dialogue)بھی ہے۔ یہ دعوت کا ایک انتہا ئی مؤثر ،پُرکشش اورا ٓسان ذریعہ ہے۔قرآن کر یم میںمتعدد مکالموں کا تذ کرہ آیا ہے، مثلاً: (۱) حضر ت ہودؑ کا اپنی قوم کے ساتھ مکالمہ، (۲) حضرت مو سٰیؑ کا اپنی قوم سے مکالمہ ،(۳) حضرت ابراہیم ؑ کا اپنے باپ آزر اور نمرود کے ساتھ مکالمہ، (۴) حضرت یو سف ؑ کا زنداں کے ساتھیوں کے ساتھ مکالمہ، (۵) ملحد اور موحد شخص کے درمیان مکالمہ ،وغیرہ وغیرہ۔

اسلام میں دوسرے مذ اہب اور تہذ یبوں سے مکالمہ کر نے پر ابھارا گیا ہے، تاکہ اللہ کی زمین پر عدل و انصاف،حقوق انسانی کا لحاظ اور فساد ،جنگ و جد ل قتل وغارت گری کا خاتمہ ہو، اور  اقدار پر مبنی ایک پرامن اور صحت مند سماج  وجود میں آ ئے ۔ اسلام کا مزاج عملاً دعوتی ہے۔ اس لیے مکالمہ اس کی بنیادی ضروریات میں شامل ہے۔ حتیٰ کہ اسلام کے سخت تر ین دشمن سے بھی مکالمے کے ذریعے تعلق پیدا کر نا فرائض دعوت میں شامل ہے۔شرک اور طاغوت سے نفر ت تو کی جائے گی، لیکن مشر ک اور طاغی کو مسلسل مکالمے کے ذریعے حق کی دعوت دی جاتی رہے گی، نفرت شرک سے ہے، مشرک سے نہیں۔ مکالمے میں مخاصمت، نزاع اور جرح کا کو ئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے، بلکہ باہم محبت و اُلفت اور عزت و اکرام کا خاص خیال رکھا جائے، نیز الزامات اور طعن و تشیع سے بالکل گریز کیا جائے۔ اس کے علاوہ خوش گوار انداز ،تعلقات اور ماحول میں مکالمہ کیا جائے اور خوش اسلو بی کوا ختیار کیا جائے۔

مکالمے کے تین بنیادی اصول

  (۱) مشترکہ باتوں کو موضوعِ گفتگو بنانا  (۲) تعارف اور (۳) دعوت وتبلیغ کے اصول

 ۱- قرآن کر یم نے اہل کتاب کے ساتھ مشتر کہ باتوںکو مو ضوعِ گفتگو بنا نے کے لیے ہدایت دی ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍ م بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَ لَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ ط فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْھَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ o( اٰل عمرٰن۳:۶۴) ’’اے اہل کتاب، آئو ایک ایسی بات کی طر ف جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے۔ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بند گی نہ کر یں،اس کے ساتھ کسی کو شر یک نہ ٹھیرائیں۔اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنا لے‘‘۔اس دعوت کو قبول کر نے سے اگر وہ منہ موڑیں تو صاف کہہ دو کہ گواہ رہو، ہم تو مسلم (صرف خدا کی بندگی و اطاعت کرنے والے)ہیں۔

اسی آیت میں یہود و نصاریٰ کو ان کے ظلم و جبر اور ان کے مشر کانہ عقائد کی بنیاد پر اے کافرو یا اے مشر کو! کہہ کر خطاب نہیں کیا گیا، بلکہ انھیں ایسے لقب سے خطاب کیا گیا ہے جس میں ان کا بھر پور عزت و اکرام کا لحاظ رکھا گیا۔

اسلام اور عیسائیت یا مغرب کے درمیان مکالمے کا آغاز دور نبوت سے ہی ہواتھا، جب اللہ کے رسول ؐ نے مشر ق و مغر ب کے حکمرانوں کو کھلے دل سے نیک تمنائوں اور خیر خواہی کے ساتھ اسلام کے عالم گیر پیغام پر غور اور تسلیم کر نے اور انھیں کفرو ظلمات سے نکل کر نو ر اسلام کو اختیار کرنے پر دعوت دی تھی۔قبولِ دعوت کی صورت میں انھیں دین و دنیا کی کامیابی اور سلامتی کی   خوش خبر ی بھی سنائی گئی۔اہل کتاب کے فر ماں روائوں کے نام اللہ کے رسول ؐ نے جو دعوتی خطوط بھیجے ہیں ان میں اسلام قبول کر نے کی دعوت دینے کے بعد یہ جملہ بھی ہے: یُؤْتِکَ اللّٰہُ اَجْرَکَ مَرَّتَیْنِ۲۴؎  اللہ تمھیں دہرے اجر سے نوازے گا۔

 مغر ب سے مذ اکرات اور مکالمہ کی جتنی پہلے ضرورت تھی آج موجود ہ دور میں اس سے کئی درجے زیادہ ضرورت ہے۔اس سلسلے میں ۲۰۰۷ء میں عالم اسلام کے ۱۳۸؍اسلامی دانش وروں نے عیسا ئی رہنمائوں کے نام A common word between us and you  کے عنوان سے ایک کھلا خط لکھا، جس میں بہت سی مشتر کہ باتوں کا تذکر ہ کیا گیا ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طر ح کی پیش رفت کو آگے بڑھایا جائے ۔۲۵؎

 مذاہب اور تہذ یبوں کے درمیان باہم تعارف ہو، تاکہ ایک دوسرے کے موقف کو سمجھ کر معاملات طے کر نے میں آسانی ہو۔تعارف سے ہی نزاع، ٹکرائو، تصادم اور جنگ کے مختلف اسباب کو اچھی طر ح سے ختم کیا جاسکتا ہے ۔ایک دوسرے کو جاننے اور تعارف حاصل کر نے کے بے شمار فوائد ہیں،جیسے آپس میں محبت سے رہنا ،ایک دوسرے کے قریب آنا،ایک دوسرے سے اخذ و استفادہ کر نا وغیرہ وغیرہ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

 ٰٓیاََیُّھَا النَّاسُ اِِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا ط اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ ط اِِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ o (الحجرات ۴۹:۱۳) لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمھاری قومیں اور برادریاں بنا دیںتاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔

اس آیت مبارکہ میں تمام تہذ یبوں کی تعمیر و بقا اور باہم تال میل اور ساتھ رہنے کے رہنما اصول مو جود ہیں۔پہلے تمام انسانوں سے بلالحاظ مذ ہب و ملت خطاب کیا گیا:’’ اس لحا ظ سے تمام انسان اپنے اختلافات،تنوع اور زما ن ومکاںکی دوری کے باوجود ایک انسانی اصل سے باہم مربوط ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ لو گ اس حقیقت کو اچھی طر ح اپنے دل و دماغ میں جاگزیں کرلیں اور اس کو ایک اخلاقی ضابطے کی حیثیت سے اپنے لیے اختیار کر لیں ۔اور اسی نقطۂ نظر سے دیگر قوموں اور تہذیبوں کو بھی دیکھیں ۔گویا کہ وہ روے زمین پر بسنے والے ایک ہی خاندان کے افراد ہیں‘‘۔ ۲۶؎

لِتَعَارَفُوْا کے بارے میں علا مہ ابن کثیر لکھتے ہیں:  ای لیحصل التعارف بینھم کل یر جع الی قبیلتہ  ۲۷؎ یعنی قبیلے کا ہر آدمی باہم تعارف حاصل کر ے۔

دعوت و تبلیغ کے اصول

اسلام کے پیغام رحمت و عدل کو عام کر نا اور اس کو دوسرے مذاہب کے ماننے والوں تک پہنچانا مسلمانوں کا بنیادی اور سب سے اہم فر یضہ ہے۔ اس فر یضے سے غفلت اور کو تاہی بر تنا ایک مسلمان کے ہر گز شایان شان نہیں ہے۔دعوت و تبلیغ کے فر یضے کو انجام دینے کے لیے چند اہم باتوں کو ذہن میں تازہ رکھنابے حد ضروری ہے ۔اس میں حکمت ،خیر خواہی اورقولِ سدید خاص طور سے قابل ذکر ہے۔نیز مد عو قوم سے گفتگوانتہائی عمدہ طر یقے سے کر نے کی تاکید بھی کی گئی ہے:

اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَ جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ط اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہٖ وَ ھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُھْتَدِیْنَ o (النحل ۱۶:۱۲۵)اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو۔ تمھارا رب ہی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اورکون راہِ راست پر ہے۔

اس آیت میں تین بنیادی اصولوں کا تذ کر ہ کیا گیا کہ حق سے آشنا لوگوں تک کیسے پیغام الٰہی پہنچا یا جائے، اور ان کو کس طر ح سے پیغام حق کی طر ف دعوت دی جائے۔ دعوت و تبلیغ کے یہ تینوں اصول وہی ہیں جو منطقی استدلال میں عمو ماً کام میں لائے جاتے ہیں۔ایک تو برہانیات جن میں یقینی مقد مات کے ذر یعے سے دعوے کے ثبوت پر دلیلیں لا ئی جاتی ہیں۔دوسرے خطبات   جن میں مؤ ثر اقوال سے مقصود کو ثابت کیا جاتا ہے، اور تیسرا اصول فریقین کے مسلّمہ مقدمات سے استدلال کیا جانا ہے۔ ۲۸؎لہٰذا، دعوت و تبلیغ کے یہ تین اصول، یعنی حکمت وموعظت حسنہ اور جدال احسن جواہر پاروں کی حیثیت رکھتے ہیں۔

 

مراجع ومصادر

۱-            فوکویاما، The End of History، ۱۹۹۲ئ           ۲- برنارڈ لیوس، ماہ نامہ The Atlantic، ستمبر ۱۹۹۰ء

۳-            لیوس کی چند کتب What Went Wrong? Western Impact and Middle Eastern Response ،۲۰۰۲ئ، Crisis of Islam، ۲۰۰۳ئ، مقالہ Muslims to the War on Europe، یروشلم پوسٹ، ۲۹ جنوری ۲۰۰۷ئ۔            ۴- ہن ٹنگٹن ، مجلہ فارن افیئرز، گرما، ۱۹۹۰ئ۔

۵-            ہن ٹنگٹن، تہذیبوں کا تصادم، ترجمہ: محمد شفیع شریعتی، سری نگر، ۲۰۱۳ئ، ص ۲۵۴۔

۶-            حوالہ سابق، ص ۶۱               ۷- حوالہ سابق، ص ۲۳۹       ۸-ہن ٹنگٹن ،مجلہ فارن افیئرز، گرما، ۱۹۹۰ئ۔

۹-            ایضاً                        ۱۰- ہن ٹنگٹن، تہذیبوں کا تصادم،ص ۲۹۰

۱۱-         مراد ہوف مین، تہذیبوں کا تصادم، اکیسویں صدی میں،سہ ماہی مغرب اور اسلام، اسلام آباد، جولائی تا دسمبر۲۰۰۰ئ۔

۱۲-         عبداللہ احسن، The Clash of Civilizations Thesis and Muslims، مشمولہ Islamic Studies، گرما، ۲۰۰۹ئ،ص ۱۹۸۔

۱۳-         ڈینیل پایپس، The Enemy Has a Name، یروشلم پوسٹ، ۱۹ جون ۲۰۰۹ئ۔

۱۴-         ڈینیل پایپس، Radical Islam Creates Terrorism، دی ٹائمز آف انڈیا، ۲۱مارچ ۲۰۱۶ء

۱۵-         ایڈورڈ سعید: Covering Islam، نیویارک ۱۹۸۱ئ، ص ۱۳۶۔

۱۶-         تفصیل دیکھیے: جان اسپوزٹیو، The Islamic Threat, Myth or Realty، نیویارک ۱۹۹۹ئ۔

۱۷-         احمد سجاد، مغرب سے نفرت کیوں؟ سہ ماہی مطالعات، جلد۶، شمارہ ۱۷، ۱۸،۱۹۔

۱۸-         پروفیسر ہن ٹنگٹن ، تہذیبوں کا تصادم، ص ۹۰۔

۱۹-         فیروز اللغات، دارالکتاب، دیوبند، یوپی، ۱۹۹۹ئ، ص ۳۹۵۔

۲۰-         The Universal English Dictionary

۲۱-         پرو فیسر خورشید احمد،تہذیبوں کا تصادم۔حقیقت یا واہمہ ،تر جمان القرآن لاہور مئی ۲۰۰۶ئ،ص۲۲

۲۲-         مرادہوف مین ،تہذیبوں کا تصادم ـاکیسویں صدی میں،سہ ماہی مغرب اور اسلام،اسلام آباد، جولائی تا دسمبر ۲۰۰۰ء

۲۳-         مولانا عیسیٰ منصوری، مغرب اور عالم اسلام کی فکری و تہذیبی کش مکش ،ورلڈ اسلامک فورم، ۲۰۰۰ئ،ص:۸۸

۲۴-         ڈاکٹر انیس احمد ،تہذیبی روایات کا مکالمہ، سہ ماہی مغرب اور اسلام، اسلام آباد، جنوری تا مارچ،۲۰۰۱ئ۔

۲۵-         تفصیل کے لیے دیکھیے،islamic  studies ,A common word  between us and you, 2008,p:243 to 263.

۲۶-         زکی المیلاد ،تہذیبوں کے باہمی تعلقات: مفاہمت ومذاکرات،(اردوترجمہ،ڈاکٹر نگہت حسین ندوی)، انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹیڈیز، ۲۰۰۴،ص۳۱

۲۷-         عمادالدین ابی الفداء اسماعیل بن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، دارالاشاعت دیو بند، ۲۰۰۲ئ، ص۲۷۵

۲۸-         علامہ سید سلیمان ندوی، سیرۃالنبی، دارالمصنفین، شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ،۲۰۰۳، جلد:۴، ص۲۵۷

۱۵ جولائی ۲۰۱۶ء کا دن ترک تاریخ میں ایک عظیم الشان دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اس دن ترک فوج کے ایک عنصر نے ترکی کی جمہوری اور دستوری حکومت کے خلاف انقلاب کی ناکام کوشش کی۔ طیب اردوان کے خلاف بغاوت کی ناکامی میں، ان ترک عوام کی کوششوں اور دعائوں کا دخل تھا جو اپنے صدر کی اپیل پر سڑکوں پر نکل آئے۔ ترکی میں مقیم ہی نہیں، دنیا کے کئی ممالک میں ستم رسیدہ عوام صدر طیب اردوان کی حفاظت و کامیابی کے لیے دُعاگو تھے۔ لاکھوں شامی مہاجرین، اہل غزہ و فلسطین، اراکان (برما) و صومالیہ کے مصیبت زدگان،   مصر اور بنگلہ دیش میں ظلم کے شکار بے گناہ... غرض جہاں جہاں صدر اردوان کے خلاف بغاوت کی خبریں پہنچیں، لاکھوں نہیں کروڑوں عوام نے ان کی سلامتی اور باغیوں کی شکست کی دُعا کی ۔

بغاوت کی اطلاع ملتے ہی خود صدر اردوان کا پہلا ردعمل بھی دیکھ لیجیے۔ وہ اس وقت ترکی کے جنوبی شہر مرمریس کے ایک ہوٹل میں اہل خانہ کے ہمراہ مقیم تھے۔ انھوں نے اگلے روز وہاں ایک اہم عوامی منصوبے کا افتتاح کرنا تھا۔ ان کے داماد نے انھیں جب بغاوت کی اطلاع دی تو چند بنیادی اور ابتدائی سوالات کرنے کے بعد وہ اُٹھے، وضو تازہ کیا، دور رکعت نماز ادا کی اور بغاوت کا راستہ روکنے کے عمل کا آغازکردیا۔ سرکاری ٹی وی پر قابض باغیوں کی طرف سے ملک میں مارشل لا کے نفاذ کا اعلان پڑھا جاچکا تھا۔ اس اعلان میں کہا گیا تھا کہ ترک مسلح افواج ریاست کا اہم اساسی جزو ہیں۔ یہ ملک قائد عظیم اتاترک کی امانت ہے۔ ہم ملک میں سیکولر نظام ریاست اور جمہوریت لانے کے لیے اور دنیا میں ترکی کی ساکھ بحال کرنے کے لیے ... ایمرجنسی، مارشل لا اور کرفیو نافذ کرنے کا اعلان کررہے ہیں۔ صدر اردوان نے ایک پرائیویٹ ترک چینل کو سکایپ کے ذریعے ۱۲سیکنڈ پر مشتمل پیغام میں فوجی بغاوت مسترد کرتے ہوئے عوام کو مزاحمت کرنے کا کہا اور اپنے صدارتی جہاز کے بجاے ایک چھوٹے پرائیویٹ جہاز میں استنبول کے لیے روانہ ہوگئے۔ خدانخواستہ مزید ۱۵ منٹ کی تاخیر ہوجاتی تو اس ہوٹل پر باغی کمانڈوز کی بم باری کا شکار ہوجاتے۔

استنبول ایئرپورٹ پہنچے تو فضا میں باغیوں کے دو ایف-۱۶ طیارے اُڑ رہے تھے۔ پائلٹ نے کنٹرول ٹاور کو عام پرائیویٹ جہاز کی لینڈنگ کے لیے ہی اجازت چاہی (یہ ساری گفتگو نشر ہوچکی ہے)۔ اسی اثنا میں ایئرپورٹ پر قبضہ کرنے کے لیے آنے والے باغیوں کو عوام اور  اسپیشل پولیس فورس کے دستوں نے بے دست و پا کر دیا تھا۔ وہاں پہنچ کر ترک سی این این کو موبائل فون ہی سے فیس ٹائم کے ذریعے انٹرویو دیا___ چہرے پر کامل اعتماد، مختصر جملوں پر مشتمل پُرعزم پیغام! تمام تر خطرات کے باوجود اپنے لیڈر کو اپنے درمیان دیکھ کر ملک کے طول و عرض میں عوام والہانہ طور پر سڑکوں پر نکل آئے۔ ترک فوج کے سربراہ کے بقول ’’صدر اردوان کو استنبول ایئرپورٹ پر اپنے عوام کے ساتھ دیکھ کر باغیوں کے رہے سہے اوسان بھی خطا ہوگئے‘‘۔ باغیوں نے درجنوں شہری ٹینکوں کے نیچے کچل دیے، ہیلی کاپٹروں اور اونچی عمارتوں پر تعینات باغیوں نے فائرنگ سے مزید کئی درجن شہید کردیے۔ بغاوت کا حکم نہ ماننے والے کئی فوجیوں کو ان کے افسروں نے گولیاں مار کر شہید کردیا لیکن عوام کے عزم و حوصلے میں کوئی کمی نہ آئی۔

سڑکوں پر آنے والے ترک عوام فوجی انقلاب کا مطلب سمجھتے تھے۔ وہ طیب حکومت کی برکتوں کا بھی مشاہدہ کررہے ہیں۔ اس لیے جان پر کھیلتے ہوئے گولوں، گولیوں اور ٹینکوں کے سامنے ڈٹ گئے۔ ایک شہری نے کہا کہ میرے مرحوم دادا ہمیشہ خلافت عثمانی کے خاتمے پر آنسو بہایا کرتے تھے۔ میرے والد عدنان مندریس کی شہادت پر اکثر رویا کرتے تھے۔ میں نہیں چاہتا کہ میں اور آیندہ نسلیں طیب اردوان کو یاد کرکرکے آنسو بہاتے رہیں۔

فوجی بغاوت ناکام بنانے والے ترک عوام کو کمال اتاترک کے پہلے فوجی انقلاب کے بعد عوام سے ان کی شناخت چھین لینے سمیت تمام مظالم یاد تھے۔اس کی طرف سے قرآن و اذان پر لگائی گئی پابندی بھی یاد تھی اور پردے و مشرقی لباس کی ممانعت بھی یاد تھی۔ انھیں اتاترک کا یہ خطاب بھی یاد تھا کہ ’’ہمارے وضع کردہ نظام کا ان اصولوں سے کیا موازنہ جو اُن کتابوں میں پائے جاتے ہیں جن کے بارے میں لوگوں کا خیال ہے کہ وہ آسمان سے نازل ہوئی ہیں۔ ہم نے اپنے اصول براہِ راست زندگی سے اخذ کیے ہیں، کسی آسمانی یا غیب پر مبنی تعلیمات سے نہیں‘‘ ۔پارلیمنٹ کا افتتاح کرتے ہوئے کہا: ’’ہم اب بیسویں صدی میں رہتے ہیں۔ ہم دستور سازی کے لیے کسی ایسی کتاب کے پیچھے نہیں چل سکتے جو تین و زیتون کی باتیں کررہی ہو‘‘۔ اتاترک اور اس کا وضع کردہ دستور اب بھی ترکی میں بہت اہمیت رکھتا ہے لیکن اس کے بارے میں ترک عوام کی ایک بڑی اکثریت جو جذبات رکھتی ہے وہ بھی سب پر عیاں ہیں۔ محترم قاضی حسین احمد صاحب سنایا کرتے تھے کہ انھیں حرم میں ایک ترک باباجی ملے، تعارف کے بعد جیب سے ایک ترک نوٹ نکال کر اور اتاترک کی تصویر دکھا کر پوچھنے لگے کہ معلوم ہے یہ کون ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں، یہ اتاترک (باباے ترک) ہے۔ باباجی نے پوری شدت سے آخ تھو کرکے نوٹ پر تھوکتے ہوئے کہا :اتاترک نہیں اتاکفر ... اتاکفر!

ترکوں کو ۱۹۶۰ء میں عدنان مندریس کے خلاف فوجی انقلاب بھی یاد ہے۔ عدنان اور ان کے ساتھیوں کو قرآن و اذان کی بحالی کی سزا پھانسی کی صورت میں دی گئی۔ ۱۹۷۱ء اور پھر ۱۹۸۰ء میں بھی یہی فوجی باغی منتخب حکومتیں گرانے میں کامیاب ہوئے۔ ۱۹۸۰ء میں کنعان ایورین نے بھی اپنے پیش رو جرنیلوں کی طرح عوام پر ظلم کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ انقلاب سے پہلے دوسال دہشت گردی کی مختلف کارروائیاں کروائی گئیں جن میں ۵ ہزار سے زیادہ شہری جاں بحق ہوگئے۔ انقلاب کے بعد ساڑھے چھے لاکھ شہری گرفتار کرلیے گئے۔ ۲ لاکھ ۳۰ہزار افراد پر مقدمات چلائے گئے۔ ۵۱۷شہریوں کو پھانسی کی سزا دی گئی۔ ۲۹۹ قیدی دوران حراست تشدد کے نتیجے میں شہید ہوگئے۔ ۱۵ لاکھ افراد کے وارنٹ جاری ہوئے، ۳۰ ہزار سے زائد گرفتاری سے بچنے کے لیے بیرون ملک چلے گئے۔ ۴ ہزار سے زائد اساتذہ اور پروفیسر برطرف کردیے گئے... ان اعداد و شمار کی مزید تفصیل باقی ہے لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ فوج نے ہر شہری کو یہ پیغام دیا کہ وہ کمال اتاترک سے ورثے میں ملنے والے سیکولرازم کی حفاظت کے نام پر کسی بھی وقت کچھ بھی کرسکتی ہے۔

صدر مملکت کے منصب پر براجمان رہنے کے بعد کنعان ایورین تو رخصت ہوگئے، لیکن فوج نے بعد میں بھی باقاعدہ انقلاب کے بغیر کئی منتخب حکومتوں کو چلتا کیا۔ منتخب وزیر اعظم پروفیسر ڈاکٹر نجم الدین اربکان کی حکومت ختم کردینے کے علاوہ ان کی جماعت بھی غیر قانونی قرار دے دی۔ ان پر لگائے گئے الزامات میں ایک یہ الزام بھی تھا کہ ’’انھوں نے وزیراعظم ہاؤس میں  دعوتِ افطار کا انعقاد کیا جس میں کئی علما داڑھیوں اور ٹوپیوں سمیت شریک ہوئے اور اتاترک کی روح تڑپ اُٹھی‘‘۔ استنبول کے کامیاب ترین میئر رجب طیب اردوان کو اس جرم کی پاداش میں ۱۰ ماہ کے لیے جیل بھیج کر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر پابندی عائد کردی کہ انھوں نے ایک معروف ترک شاعر کی نظم کے چند اشعار ایک جلسۂ عام میں پڑھے تھے کہ یہ مسجدیں ہمارے معسکر ہیں، اس کے گنبد ہماری ڈھالیں اور اس کے مینار ہمارے نیزے ہیں۔

خدا کی قدرت ملاحظہ ہو کہ ۱۸ سال بعد اللہ نے ان اشعار کو حقیقت بنا دیا۔ حالیہ بغاوت کے دوران میں ترکی کی ۸۵ ہزار مساجد سے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرتے ہوئے آدھی رات کے وقت اذانیں شروع ہوگئیں ... عوام سے میدان میں آنے کی اپیل بھی کی جانے لگی... مسنون دُعائیں بلند ہونے لگیں اور ٹینکوں کے سامنے سینہ تانے شہری ایک ہی سرمدی نغمہ گانے لگے یا اللہ ...  بسم اللہ ...  اللہ اکبر! خلافت عثمانی کی سطوت کے دوران عثمانی لشکر بھی یہی تکبیر بلند کیا کرتے تھے۔ اسرائیلی روزنامے ھآرٹز کے کالم نگار انشیل پیبر نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: ’’اس میں شک نہیں کہ انقلاب کی ناکامی میں مساجد کا کردار بہت نمایاں تھا۔ اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ آخری فوجی انقلاب کے بعد سے اب تک ترکی کتنا بدل چکا ہے‘‘۔ اللہ کے گھروں اور اللہ کے بندوں کے مابین یہ تعلق گہرا ہوجانے پر ان کے بہت سے مخالفین کا دکھ مزید گہرا ہوگیاہے۔ آج عالم یہ ہے کہ بغاوت کی ناکام کوشش کو دو ہفتے سے زائد گزر گئے، لیکن ترک شہری اب بھی ہزاروں کی تعداد میں رات سڑکوں پر گزارتے ہیں۔ اس دوران میں آیات جہاد و شہادت کی تلاوت ہوتی ہے، پُرعزم تقاریر ہوتی ہیں اور سب شہری اپنے عزائم و ارادوں میں مزید یکسو ہوجاتے ہیں۔

بغاوت کے اس شر سے ایک خیر یہ بھی برآمد ہوا کہ ترکی کی تمام سیاسی پارٹیاں بتدریج یک جا اور یک آواز ہوگئیں۔ مارشل لا کے اعلان، ریاست کے مختلف اہم دفاتر پر قبضے میں ناکامی، صدر اردوان کے پیغام اور عوام کے سڑکوں پر نکل آنے کے ساتھ ساتھ یہ تمام پارٹیاں بھی فوجی بغاوت کے خلاف یکسو اور مضبوط تر ہوتی گئیں۔ ان سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کو یہ کریڈٹ بہرحال ملتا ہے کہ انھوں نے عین اس وقت کہ جب ایک طرف باغی فوجی پارلیمنٹ پر راکٹ برسا رہے تھے اور دوسری طرف حکومت نے اسی روز پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے کا اعلان کردیا، تو انھوں نے اس میں شرکت کا اعلان کیا اور پھر متفق علیہ قرارداد پاس کرتے ہوئے بغاوت کو مسترد کردیا۔ ۲۴ جولائی کو انقرہ میں سب سیاسی جماعتوں کا بغاوت مخالف مشترک شان دار مظاہرہ ہوا اور ۲۵ جولائی کو تینوں اپوزیشن پارٹیوں کے سربراہ صدر اردوان سے ملاقات کے لیے قصر صدارت گئے۔ تمام تر نظریاتی، سیاسی اور ذاتی اختلافات کے باوجود ان تمام رہنماؤں کا اکٹھے بیٹھنا یقینا ملک و قوم کے لیے باعث خیر و برکت ہوگا۔

حالیہ فوجی بغاوت کو سیاسی رہنماؤں نے ہی نہیں، عسکری قیادت کی واضح اکثریت نے بھی مسترد کردیا۔ سب سے اہم اور سب سے بنیادی انکار تو خود چیف آف آرمی سٹاف جنرل خلوصی آکار کا تھا۔ باغی فوجی جب ان کے پاس اسلحہ تانے پہنچے اور اعلان انقلاب پر دستخط کرنے کا مطالبہ کیا تو انھوں نے انکار کرتے ہوئے انھیں اس حرکت سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ باغیوں نے پہلے تو لالچ دیے اور کہا کہ آپ ملک کے دوسرے کنعان ایورین بنا دیے جائیں گے۔ وہ پھر بھی نہ مانے تو ان کا گلا گھونٹتے ہوئے دستخط کروانا چاہے، اس پر بھی نہ مانے تو انھیں گرفتار کرلیا گیا۔ غالب فوجی قیادت کے انکار کے باوجود بھی بغاوت کرنے والوں کی تعداد کم نہ تھی۔ سیکڑوں اعلیٰ فوجی افسر اور ان کی کمانڈ میں کام کرنے والے ہزاروں افراد اس میں عملاً شریک ہوگئے تھے۔ اگرچہ عام افراد کو بغاوت کا علم نہیں تھا اور انھیں مختلف غلط بیانیاں کرکے میدان میں لایا گیا تھا۔ صدر اردوان کو گرفتار کرنے کے لیے جانے والے خصوصی کمانڈو دستے کے اکثر افراد کو صرف یہ بتایا گیا تھا کہ ’’ایک خطرناک دہشت گرد کو گرفتار کرنے جارہے ہیں اور اس کارروائی میں جان بھی جاسکتی ہے‘‘۔

کئی فوجی جرنیلوں نے اپنے قصور کا اعتراف کرلیا ہے۔ ان کے واضح اعترافات سے یہ بحث بھی اپنے عروج پر جا پہنچی کہ بغاوت کے پیچھے کارفرما اصل قوت کون سی ہے؟ ان میں سے ایک اہم اعتراف ڈپٹی چیف آف آرمی سٹاف جنرل لفنت تورکان کا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ ۱۹۸۹ء سے فتح اللہ گولن کی تحریک سے وابستہ ہے اور اس بغاوت کا فیصلہ ہماری اعلیٰ قیادت ہی نے کیا تھا۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل خلوصی نے اٹارنی جنرل کے سامنے اپنے بیان حلفی میں بتایا ہے کہ ’’بریگیڈیئر محمد ڈچلی ان کے پاس آئے اور انقلاب کی خبر دیتے ہوئے اس کا ساتھ دینے کا مطالبہ کیا۔ میں نے انھیں اس کے نتائج و عواقب سے خبردار کرتے ہوئے اس سے باز رکھنا چاہا  لیکن وہ نہ مانے۔ چیف نے یہ بھی بتایا کہ انھیں اقنجی ایئربیس پر لے جایا گیا تو ایئربیس کے سربراہ ہاکان (خاقان) افریم نے انھیں ساتھ دینے کی کوشش کرتے ہوئے امریکا میں مقیم فتح اللہ گولن سے فون پر بات کروانے کی بھی پیش کش کی لیکن میں نے انکار کردیا‘‘۔

۱۹۹۸ء سے امریکی ریاست پنسلوینیا میں مقیم جناب فتح اللہ گولن، ان کی جماعت ہزمت (خدمت)، ان کے ادارے رومی فاؤنڈیشن اور دنیا بھر میں پھیلے ان کے عالی شان تعلیمی اداروں کے بارے میں حسن ظن رکھنے والے ایک دور نویس کے لیے یہ ممکن نہیں کہ بغاوت میں ان کے ملوث ہونے یا نہ ہونے پر کوئی حتمی راے دے، لیکن بعض حقائق انتہائی اہم ہیں۔

انتہائی ذمہ دار ترک احباب کے بقول اس امر میں قطعاً کوئی شک نہیں کہ فتح اللہ گولن ایک طویل عرصے سے اہم ملکی اداروں میں اپنا براہِ راست نفوذ بڑھانے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔ ترکی کے ایک سفر کے دوران ہم نے بھی سنا کہ فتح اللہ گولن نے رکوع و سجود کے بغیر نماز پڑھنے کا فتویٰ دے دیا ہے۔ ہم نے ان کے قریبی ساتھیوں سے استفسار کیا تو انھوں نے بتایا کہ چوں کہ سیکولر ترک فوج میںکسی نمازی کو بھرتی ہونے اور ترقی دینے سے پہلے اس کی پیشانی، ٹخنوں اور گھٹنوں پر نماز کے اثرات و نشان چیک کیے جاتے ہیں، اس لیے یہ فتویٰ دیا گیا ہے کہ باقاعدہ رکوع و سجود کے بغیر اشاروں سے نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ یہی نفوذ حاصل کرنے کے لیے انھوں نے بظاہر خود کو سیاست سے بالکل الگ رکھا ہے۔ ان کے پیروکاروں میں بارہا یہ سننے کا موقع ملتا ہے کہ أعوذ باللّٰہ من السیاسۃ  لیکن عملاً نہ صرف ترکی بلکہ بیرون ترکی بھی سیاست دانوں، صحافیوں اور متمول افراد سے ان کا خصوصی رابطہ رہتا ہے۔ نیوز ایجنسی، اخبارات اور ٹی وی چینلوں سمیت پوری ابلاغیاتی دنیا ہے۔ فعال بنک اور یوتھ ہاسٹلوں کا بڑا جال ہے۔ فتح اللہ گولن صاحب اگرچہ معروف ترک مصلح بدیع الزمان سعید نورسی کا تسلسل سمجھے جاتے ہیں لیکن عملاً نورسی تحریک کا ان سے کوئی تعلق باقی نہیں رہا۔ نورسی تحریک کی وارث وہ دیگر چار تنظیمیں ہیں جو اپنے اندرونی اختلافات کے باعث تقسیم ہوگئیں لیکن ان کی تمام تر سرگرمیاں مرحوم نورسی کے لٹریچر اور افکار و نظریات کی ترویج و اشاعت کے گرد گھومتی ہیں۔

امریکی تھنک ٹینک رینڈ( RAND) نے عالم اسلام کے بارے میں اپنی جو معروف سفارشات شائع کیں، اور ان میں اسلامی تحریکات پر ’سیاسی اسلام‘ کا لیبل لگا کر ان کے مقابلے میں ’صوفی اسلام‘ کی پشتیبانی کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔ ان میں بھی فتح اللہ گولن کے بارے میں کہا گیا کہ : ’’یہ ترک دینی رہنما ماڈریٹ صوفی اسلام کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ وہ بحیثیت ریاست نفاذِاسلام کے بجاے، دین کو افراد کی نجی زندگی کا مسئلہ قرار دیتے ہیں جو ریاست و حکومت میں بہت محدود مداخلت کرتا ہے۔ ان کے بقول شریعت اسلامی کا نفاذ ریاست کا کام نہیں، یہ ایک شخصی مسئلہ ہے۔ کسی مخصوص دین کے قوانین تمام شہریوں پر لاگو نہیںکیے جاسکتے‘‘۔ گذشتہ ۱۰ سال سے محصور اہلِ غزہ پر ہونے والے مظالم اُجاگر کرنے اور محصورین کے لیے غذائی سامان اور ادویات لے جانے کے لیے جب ایک ترک امدادی تنظیم عوامی اور صحافتی نمایندوں کو شریکِ سفر کرتے ہوئے فریڈم فلوٹیلا لے کر گئی اور صہیونی فوج نے حملہ کرکے نوترک شہری شہید کردیے تو اس وقت بھی فتح اللہ گولن کا یہ موقف بہت سے لوگوں کے لیے حیرت کا باعث بنا کہ: ’’اسرائیل ہمارا دوست ملک ہے۔ اس کی اجازت کے بغیر اس کی سرحد میں داخلے کی کوشش کرنا ہی نہیں چاہیے تھی۔ ان ترک شہریوں کے قتل کی ذمہ دار ترک حکومت ہے‘‘۔

ان حقائق کے ساتھ ساتھ یہ تلخ حقیقت بھی اہم ہے کہ صدر اردوان گذشتہ کئی سال سے انھیں ترکی میں ایک متوازی ریاست کی حیثیت اختیار کرجانے کا الزام دے رہے ہیں۔ اس حقیقت میں بھی کوئی شک نہیں کہ فتح اللہ گولن تحریک کے زیر اہتمام مختلف امتحانات بالخصوص ملٹری اکیڈیمی کے امتحانات کی تیاری اور پیشہ ورانہ تربیت کے لیے بھی کئی ادارے قائم کیے گئے۔     ذرا ایک بار پھر ڈپٹی چیف آف سٹاف کے اعترافات ملاحظہ فرمائیے۔ جنرل تورکان کہتے ہیں کہ  وہ ’’۱۹۸۹ء میں فوج سے وابستہ ہونے کے لیے امتحان کی تیار کررہے تھے۔ میرے اس ارادے اور خواہش کا فتح اللہ گولن کی تحریک کے ساتھیوں کو بھی علم تھا۔ اگرچہ مجھے امتحان میں کامیابی کا یقین تھا، لیکن امتحان سے ایک رات پہلے فوج سے منسلک سردار اور موسیٰ نام کے دو افراد آئے اور مجھے چند سوالات پر مشتمل پرچہ دیتے ہوئے کہاکہ ان کی تیاری کرلو صبح امتحان میں آئیں گے۔ پھر ایسا ہی ہوا اور میں بآسانی اعلیٰ نمبروں سے پاس ہوگیا۔ اس کے بعد اس تحریک کے ذمہ داران سے مسلسل رابطہ رہا‘‘۔

ملٹری اکیڈیمیوں کے امتحان میں شامل ہونے والے افراد میں روابط بڑھاتے ہوئے انھیں پہلے سے سوالات فراہم کرنے کے پورے نظام کے بارے میں عسکری ذرائع کی یہ رپورٹ چشم کشا ہے کہ تقریباً چھے سال قبل یہ پورا نظام بے نقاب ہوا۔ اس کے بعد فوج اور بیوروکریسی ہی کے نہیں، عمومی تعلیمی نظام اور انٹری ٹیسٹ کے نظام میں بھی جوہری تبدیلیاں کردی گئیں۔ رپورٹ کے مطابق امتحان سے قبل مخصوص لوگوں کو سوالات فراہم کرتے ہوئے انھیں اپنے ساتھ ملانے کاپورا نظام ختم ہوا تو عجیب صورت حال سامنے آئی۔ ۲۰۱۰ء  ملٹری اکیڈمی کے امتحان میں ریاضیات میں اعلیٰ نمبروں سے پاس ہونے والوں کی تعداد ۱۲۱۴ تھی۔ یہ چور راستہ بند کیا گیا تو ۲۰۱۴ء میں ریاضیات میں پاس ہونے والے صرف دو، ۲۰۱۵ء میں صفر، اور ۲۰۱۶ء میں صرف چار تھے۔ ترک اُمور پر نگاہ رکھنے والے احباب کو اس امتحانی نظام میںتبدیلی کے بعد گولن تحریک کا احتجاج یقینا یاد ہوگا۔

حالیہ ترک ناکام بغاوت کے بعد فتح اللہ گولن صاحب کی شخصیت و افکار کے بارے میں جو بہت سی نئی معلومات سامنے آئیں، ان میں ایک حیرت انگیز بات ان کا اپنے مریدوں کے سامنے خطاب بھی ہے۔ ترک زبان میں اس خطاب کی ویڈیو عربی ترجمے کے ساتھ ترکی سے موصول ہوئی ہے۔ نسبتاً عہد جوانی کے اس خطاب میں وہ انکشاف فرماتے ہیں کہ خواب میں نہیں،عالم کشف میں انھیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی اور انھوںنے ترکی کی نگہبانی میرے سپرد کردی ہے۔ اس انکشاف سے پہلے کینیڈا میں مقیم ایک پاکستانی حضرت صاحب کے جاگتی آنکھوں سے دیکھے جانے والے خواب اور آں حضور کے لیے (نعوذ باللہ) ٹکٹ اور پاکستانی ویزا فراہم کرنے جیسے ناقابلِ برداشت دعوے نہ سنے ہوتے، تو شاید ان کے اس دعوے پر زیادہ حیرت نہ ہوتی۔

ناکام بغاوت کے بعد ہزاروں کی تعداد میں گرفتاریوں پر اردوان کے مخالفین ہی میں نہیں ان کے خیرخواہوں میں بھی ایک فطری تشویش پیدا ہوئی ہے۔ اس بارے میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے تاکہ کسی بے گناہ کو سزا نہ ملے، نہ چھوٹی موٹی غلطی ہی پر کڑی سزا۔ اگرچہ بے گناہی ثابت ہونے پر اب تک ۱۲۰۰فوجی رہا کیے جانے سے اس تشویش میں قدرے کمی آئی ہے۔ وزیراعظم یلدریم نے بھی یقین دہانی کروائی ہے کہ کسی شہری کو بھی اس کے قانونی دفاع اور حقوق سے محروم نہیں کیا جائے گا۔ خود صدر اردوان کا یہ بیان بھی بہت اہم ہے کہ متوازی ریاست ختم کرنے کا مطلب گولن تحریک کا خاتمہ نہیں۔ ان کا یہ کہنا بھی انتہائی اہم ہے کہ: ’’بغاوت کے پیچھے اصل ہاتھ فتح اللہ گولن اور ان کی تحریک سے کہیں بڑا ہے‘‘۔ ظاہر ہے کہ انقلاب کی خبر آتے ہی تمام امریکی، یورپی، اسرائیلی،روسی اور کئی عرب حکمرانوں اور ذرائع ابلاغ کا لہلہا اُٹھنا بلا سبب تو نہیں ہوسکتا۔ ترک اخبارات نے ۲۴جولائی کو انتہائی باخبر سیکورٹی ذرائع سے ایک تفصیلی خبر شائع کی ہے، جس کے مطابق اس بغاوت کی اصل کمانڈ افغانستان میں ناٹوافواج کے امریکی سربراہ جنرل جان کیمبل  کے ہاتھ میں تھی۔ اس نے گذشتہ عرصے میں ترکی کے متعدد دورے بھی کیے اور اس کے ماتحت افسروں نے نائیجیریا کے UBA بنک سے ۲؍ارب ڈالر ترکی منتقل کیے۔ رپورٹ میں ان افسران کے فتح اللہ گولن اور ان کی تنظیم سے روابط پر بھی تفصیل موجود ہے۔اس رپورٹ کی اشاعت کے اگلے روز افغانستان میں متعین دو ترک فوجی جرنل بھی براستہ دبئی فرار ہونے کی کوشش میں گرفتار ہوچکے ہیں۔

آغاز بغاوت کے فوراً بعد انقرہ میں امریکی سفارتخانے نے اپنا جو بیان جاری کیا تھا اس پر اس بغاوت کو ترک انتفاضہ (Turkish Uprising)کا نام دیا گیا۔ ناکامی کے بعد یہ بیان  سفارت خانے کی ویب سائٹ سے حذف کردیا گیا، لیکن اس کی تصاویر اور تلخ اثرات کبھی حذف نہیں ہوسکتے۔ وزیر خارجہ جان کیری نے بھی بغاوت کچلے جانے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے  فرمایا کہ Turkey Coup does not apear to be brilliantly planned or executed۔ گویا آں جناب کو فوجی انقلاب کے منصوبے اور اس پر عمل ناقص رہنے کا غم ہے۔

ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن پارلیمنٹ بریڈ شرمین (Brad Sherman)کا ارشاد تھا: ’’اُمید ہے ترکی میں فوجی اقتدار وہاں حقیقی جمہوریت لائے گا‘‘۔ نہتے عوام نے باغیوں کے ارادے خاک میں ملا دیے تو پوری دنیا میں ان خوشی سے بغلیں بجانے والوں پر اوس پڑگئی۔ مشرق وسطیٰ کی مزید تقسیم کے نقشے پھیلانے والے معروف امریکی دانش ور فوکس نیوز پر بلبلا اُٹھے: ’’ترکی میں اسلامسٹس کے بڑھتے اقدام روکنے کی آخری اُمید بھی دم توڑ گئی‘‘۔ لاس اینجلس ٹائمز نے اپنے اداریے کی دھمکی آمیز سرخی جمائی: ’’ترکی میں جمہوریت بچ نکلی لیکن آخر کب تک؟‘‘۔

دوبارہ بغاوت کا خیال بھی دل میں لانے والوں میں اگر ادنیٰ سی عقل بھی ہے، تو انھیں اب کبھی یہ حماقت نہیں کرنی چاہیے۔ صدر اردوان فرشتہ نہیں انسان ہیں۔ انسان غلطیاں کرتا ہے اور کبھی پہاڑ جتنی غلطی بھی کرسکتا ہے۔ لیکن بندوق اور خوں ریزی یقینا مزید خوں ریزی ہی کا سبب بنے گی۔ ملک میں استحکام کے بجاے خوں ریزی اور تباہی کا راستہ اختیار کرنے والوں کی سفاکی کا اندازہ اسی بات سے لگالیں کہ گذشتہ ایک سال کے دوران ترکی میں ۱۵ بڑی خوں ریز کارروائیاں کی گئیں۔ آخری بڑی کارروائی رمضان کے آخری عشرے کی طاق رات میں استنبول ایئرپورٹ پر کی گئی جس میں ۴۲بے گناہ شہری جاں بحق ہوگئے۔ حکومت نے اپنی ترجیحات درست طور پر طے کی ہیں۔ ان کے بجٹ کا سب سے بڑا حصہ تعلیم کے لیے وقف ہے۔ تعلیمی بجٹ دفاعی بجٹ سے دگنا ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ کسی قوم کا اصل دفاع تعلیم ہی سے ممکن ہے۔ حالیہ بغاوت کے دوران گولیوں کی بارش اور ٹینکوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑی ترک قوم نے حقیقی جہاد کو ایک نئی جہت عطا کی ہے۔

ناقابلِ توجیہہ حوادثِ حیات

سوال : انسانی زندگی میں بہت سے واقعات و حوادث ایسے رُونما ہوتے رہتے ہیں کہ  جن میں تخریب و فساد کا پہلو تعمیر واصلاح کے پہلو پر غالب نظر آتا ہے۔ بہت سے واقعات ایسے ہوتے ہیں جن کی کوئی حکمت و مصلحت سمجھ میں نہیں آتی۔ اگر زندگی کا یہ تصور ہو کہ یہ خود بخود کہیں سے وجود میں آگئی ہے اور اس کے پیچھے کوئی حکیم، خبیر اور رحیم طاقت کارفرما نہیں ہے، تب تو زندگی کی ہرپریشانی اور اُلجھن اپنی جگہ صحیح ہے کیوں کہ اس کو پیدا کرنے میں کسی عقلی وجود کو دخل نہیں ہے۔ لیکن مذہب اور خدا کے بنیادی تصورات اور ان واقعات میں کوئی مطابقت نہیں معلوم ہوتی۔

اگر یہ کہا جائے کہ ان مسائل کے حل کرنے کے ذرائع ہمارے پاس نہیں ہیں، تو یہ چیز بھی عجیب ہے کہ ذہنِ انسانی کو ان سوالات کی پیدایش کے قابل تر بنا دیا جائے لیکن ان کا جواب دینے یا سمجھنے کے قابل نہ بنایا جائے، اور سب ضروریات کا خیال رکھا جائے مگر ان ذہنی ضروریات کو نظرانداز کردیا جائے۔ اس طرح تو خالق کی پالیسی میں بظاہر جھول معلوم ہوتا ہے۔(نعوذباللہ)

جواب: آپ جن اُلجھنوں میں پڑے ہوئے ہیں ان کے متعلق میرا اندازہ یہ ہے کہ مَیں ان کو سلجھانے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ زیادہ سے زیادہ جو کچھ کہہ سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ میرے نزدیک آپ کی فکر کا نقطۂ آغاز صحیح نہیں ہے۔ آپ جن سوالات سے غوروفکر کا آغاز کرتے ہیں وہ بہرحال کُلّی سوالات نہیں ہیں بلکہ کُل کے بعض پہلوئوں سے متعلق ہیں اور بعض سے کُل کے متعلق کوئی صحیح راے قائم نہیں کی جاسکتی۔ آپ پہلے کُل کے متعلق سوچیے کہ آیا یہ بغیر کسی خالق اور ناظم اور مدبر کے موجود ہوسکتا ہے یا نہیں۔ اگر خلقِ بے خالق اور نظمِ بے ناظم کے وجود پر آپ کا قلب مطمئن ہوجاتا ہے تو باقی سب سوالات غیرضروری ہیں، کیوں کہ جس طرح سب کچھ الل ٹپ بن گیا اسی طرح سب کچھ الل ٹپ چل بھی رہا ہے۔ اس میں کسی حکمت، مصلحت اور رحمت و ربوبیت کا کیا سوال؟

لیکن اگر اس چیز پر آپ کا دل مطمئن نہیں ہوتا تو پھر کُل کے جتنے پہلو بھی آپ کے سامنے ہیں ان سب پر بحیثیت مجموعی غور کر کے یہ جاننے کی کوشش کیجیے کہ ان اشیا کی پیدایش، ان کا وجود، ان کے حالات اور ان کے اوصاف میں ان کے خالق و مدبر کی کن صفات کے آثار و شواہد نظر آتے ہیں۔ کیا وہ بے مصلحت اور بے مقصد اندھادھند کام کرنے والا ہوسکتا ہے؟ کیا وہ بے رحم اور ظالم اور تخریب پسند ہوسکتا ہے؟ اس کے کام اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ وہ بنانے والا ہے یا اس بات کی کہ وہ بگاڑنے والا ہے؟ اس کی بنائی ہوئی کائنات میں صلاح اور خیر اور تعمیر کا پہلو غالب ہے یا فساد اور شر اور خرابی کا پہلو؟ ان اُمور پر کسی سے پوچھنے کے بجاے آپ خود ہی غور کیجیے اور خود راے قائم کیجیے۔ اگر بحیثیت مجموعی اپنے مشاہدے میں آنے والے آثار واَحوال کو دیکھ کر آپ یہ محسوس کرلیں کہ وہ حکیم و خبیر ہے، مصلحت کے لیے کام کرنے والا ہے، اور اس کے کام میں اصل تعمیر ہے نہ کہ تخریب، تو آپ کو اس بات کا جواب خود ہی مل جائے گا کہ اس نظام میں جن جزوی آثار و اَحوال کو دیکھ کر آپ پریشان ہور ہے ہیں وہ یہاں کیوں پائے جاتے ہیں۔ ساری کائنات کو جو حکمت چلارہی ہے اس کے کام میں اگر کہیں تخریب کے پہلو پائے جاتے ہیں تو لامحالہ وہ ناگزیر ہی ہونے چاہییں۔ ہرتخریب تعمیر ہی کے لیے مطلوب ہونی چاہیے۔ یہ جزوی فساد کُلّی صلاح ہی کے لیے مطلوب ہونا چاہیے۔

رہی یہ بات کہ ہم اس کی ساری مصلحتوں کو کیوں نہیں سمجھتے تو بہرحال یہ واقعہ ہے کہ ہم ان کو نہیں سمجھتے۔ یہ بات نہ میرے بس میں ہے اور نہ آپ کے بس میں کہ اس امرواقعی کو بدل ڈالیں۔ اب کیا محض اس لیے کہ ہم ان کو نہیں سمجھتے، یا نہیں سمجھ سکتے، ہم پر یہ جھنجھلاہٹ طاری ہوجانی چاہیے کہ ہم حکیم و خبیر کے وجود ہی کا انکار کردیں؟ آپ کا یہ استدلال کہ ’’یا تو ہر جزی حادثے کی مصلحت ہماری سمجھ میں آئے، یا پھر اس کے متعلق کوئی سوال ہمارے ذہن میںپیدا ہی نہ ہو، ورنہ ہم ضرور اسے خالق کی پالیسی میں جھول قرار دیں گے کیوں کہ اس نے ہمیں سوال کرنے کے قابل تو بناد یا لیکن جواب معلوم کرنے کے ذرائع عطا نہیں کیے‘‘، میرے نزدیک استدلال کی بہ نسبت جھنجھلاہٹ کی شان زیادہ رکھتا ہے۔ گویا آپ خالق کو اس بات کی سزا دینا چاہتے ہیں کہ اس نے آپ کو اپنے ہرسوال کا جواب پالینے کے قابل کیوں نہ بنایا اور وہ سزا یہ ہے کہ آپ اسے اس بات کا الزام دے دیں گے کہ تیری پالیسی میں جھول ہے۔اچھا، یہ سزا آپ اس کو دے دیں۔ اب مجھے بتایئے کہ اس سے آپ کو کس نوعیت کا اطمینان حاصل ہوا؟ کس مسئلے کو آپ نے حل کرلیا؟ اس جھنجھلاہٹ کو اگر آپ چھوڑ دیں تو بآسانی اپنے استدلال کی کمزوری محسوس کرلیںگے۔

حقیقت یہ ہے کہ سوال کرنے کے لیے جس قابلیت کی ضرورت ہے، جواب دینے یا جواب پانے کے لیے وہ قابلیت کافی نہیں ہوتی۔ خالق نے سوچنے کی صلاحیت تو آپ کو اس لیے دی ہے کہ اس نے آپ کو انسان بنایا ہے اور انسان ہونے کی حیثیت سے جو مقام آپ کو دیا گیا ہے اس کے لیے یہ صلاحیت آپ کو عطا کرنا ضروری تھا، مگر اس صلاحیت کی بناپر جتنے سوالات کرنے کی قدرت آپ کو حاصل ہے ان سب کا جواب پانے کی قدرت عطا کرنا اس خدمت کے لیے ضروری نہیں ہے، جو مقام انسانیت پر رہتے ہوئے آپ کو انجام دینی ہے۔ آپ اس مقام پر بیٹھے بیٹھے ہرسوا ل کرسکتے ہیں لیکن بہت سے سوالات ایسے ہیں جن کا جواب آپ اس وقت تک نہیں پاسکتے  جب تک کہ مقامِ انسانیت سے اُٹھ کر مقامِ اُلوہیت پر نہ پہنچ جائیں ، اور یہ مقام بہرحال آپ کو نہیں مل سکتا۔ سوال کرنے کی صلاحیت آپ سے سلب نہیں ہوگی، کیوں کہ آپ انسان بنائے گئے ہیں، پتھر یا درخت یا حیوان نہیں بنائے گئے ہیں۔ مگر ہرسوال کا جواب پانے کے ذرائع آپ کو نہیں ملیں گے، کیوں کہ آپ انسان ہیں، خدا نہیں ہیں۔ اسے اگر آپ خالق کی پالیسی میں ’جھول‘ قرار دینا چاہیں تو دے لیجیے۔(سیّد مودودیؒ، رسائل و مسائل، چہارم، ص ۲۲-۲۵)


بیوی اور والدین کے حقوق

س : میں نے آپ کی کتابیں پڑھی ہیں، جن سے ذہن کی بہت سی گرہیں کھل گئی ہیں لیکن ایک چیز جو پہلے بھی دل میں کھٹکتی تھی اور اب بھی کھٹکتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام نے جہاں عورتوں کا درجہ کافی بلند کیا ہے، وہاں بحیثیت بیوی کے بعض اُمور میں اس کو حقیر بھی کردیا ہے، مثلاً اس پر تین تین سوکنوں کا جلاپا جائز کردیا ہے، حالاںکہ قدرت نے عورت کی فطرت میں حسد بھی رکھا ہے۔ اسی طرح جہاں بیوی کو شوہر کے قبضہ و اختیار میں رکھا گیا ہے وہاں شوہر کو اپنے والدین کے قبضہ و اختیار میں کر دیا ہے۔ اس طرح شوہر والدین کے کہنے پر بیوی کی ایک جائز خواہش کو بھی پامال کرسکتا ہے ۔ ان اُمور میں بظاہر بیوی کی حیثیت چار پیسے کی گڑیا سے زیادہ نظر نہیں آتی۔ میں ایک عورت ہوں اور قدرتی طور پر عورت کے جذبات کی ترجمانی کر رہی ہیں۔ آپ براہِ کرم اس بارے میں میری تشفی فرمائیں۔

ج:آپ نے دو وجوہ کی بنا پر یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ عورت کی پوزیشن خانگی زندگی میں فروتر رکھی گئی ہے۔ ایک یہ کہ مرد کو چار چار شادیاں کرنے کی اجازت ہے۔ دوسرے یہ کہ شوہر کو والدین کا تابع رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے بسااوقات وہ اپنی بیوی کے جذبات اور اس کی خواہشات کو والدین کی رضا پرقربان کردیتا ہے۔

ان وجوہ میں سے پہلی وجہ پر اگر آپ غور کریں تو یہ بات بہت آسانی کے ساتھ آپ کی سمجھ میں آسکتی ہے کہ عورت کے لیے تین تین سوکنوں کا برداشت کرنا جتنا تکلیف دہ ہے، اس سے بدرجہا زیادہ تکلیف دہ چیز اس کے لیے یہ ہوسکتی ہے کہ اس کے شوہر کی کئی کئی محبوبائیں اور داشتائیں ہوں۔ اسلام نے اس کو روکنے کے لیے مرد کو ایک سے زائد نکاح کی اجازت دی ہے۔ ایک مرد ناجائز تعلقات میں جتنا بے باک ہوسکتا ہے، شادیاں رچانے میں اتنا نہیں ہوسکتا، کیوں کہ شادی کی صورت میں مرد کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوتا ہے اور طرح طرح کی پیچیدگیوں سے اُسے سابقہ پیش آتا ہے۔ یہ دراصل عورتوں ہی کے فائدے کے لیے ایک روک تھام ہے، نہ کہ مردوں کے لیے بے جا رعایت۔

دوسرے طریقے کا تجربہ آج کل کی سوسائٹی کررہی ہے۔ وہاں ایک طرف تو جائز سوکنوں کا سدباب کردیا گیا ہے لیکن دوسری طرف ناجائز سوکنوں سے عورتوں کو بچانے کا کوئی انتظام اس کے سوا نہیں کیا گیا کہ وہ انھیں برداشت نہ کرسکے تو شوہر سے طلاق حاصل کرنے کے لیے عدالت میں نالش کردے۔ کیا آپ سمجھتی ہیں کہ اس سے عورت کی مصیبت کچھ کم ہوگئی ہے؟ چھڑی چھٹانک عورت تو شاید سوکن سے بچنے کے لیے طلاق کو آسان نسخہ سمجھ لے، مگر کیا بچوں والی عورت کے لیے بھی یہ نسخہ آسان ہے؟

دوسری جس شکایت کا اظہار آپ نے کیا ہے اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ غالباً آپ ابھی تک صاحب ِ اولاد نہیں ہیں، یا اگر ہیں تو آپ کے کسی لڑکے کی ابھی شادی نہیں ہوئی ہے۔ آپ اس خاص معاملے کو ابھی تک صرف بہو کے نقطۂ نظر سے دیکھ رہی ہیں۔ جب آپ اپنے گھر میں خود بہو لے آئیں گی اور اس معاملے پر ماں کی حیثیت سے غور کریں گی تو یہ مسئلہ اچھی طرح آپ کی سمجھ میں آجائے گا کہ بیوی کے حقوق کتنے ہونے چاہییں اور ماں باپ کے کتنے، بلکہ اُس وقت شاید آپ خود اُنھی حقوق کی طالب ہوں گی جن پر آپ کو اعتراض ہے۔(سیّد مودودیؒ، رسائل و مسائل، چہارم، ص ۳۵-۳۷)


بغیرغسل کے میت کی تدفین

س : ۱-ہمارے یہاں ایک صاحب شوگر کے مریض تھے، جس کی وجہ سے ان کا ایک پیر پوری طرح سڑگیا تھا اوراس میں کیڑے پڑگئے تھے ۔ ان کاانتقال ہوا تو ڈاکٹروں نے تاکید کی کہ نہلاتے وقت ان کا پیر نہ کھولا جائے اوراس پر پلاسٹک کی تھیلی باندھ کر غسل دیا جائے۔جب میت کوغسل دیا جانے لگا تولوگوں میں اختلاف ہوگیا ۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ پورے بدن پر پانی پہنچانا فرض ہے ۔ میت پر پانی ڈالنے سے کچھ نقصان ہوگا ۔ لیکن گھر والوں نے ڈاکٹروں کی بات مانتے ہوئے پیر میں جہاں زخم تھا اس پر پلاسٹک کی تھیلی باندھ دی اوربدن کے بقیہ حصے پر پانی بہایا گیا جس طرح غسل دیا جاتا ہے ۔ دریافت یہ کرنا ہے کہ کیا میت کے کسی عضومیں زخم ہونے کی وجہ سے اگراس حصے پر پانی نہ بہایا جائے توغسل ہوجائے گا؟

۲- ایک صاحب کا بری طرح ایکسیڈنٹ ہوگیا ۔ ان کا سر بالکل کچل گیا اوربدن کے دوسرے حصوں پر بھی شدید چوٹیں آئیں۔ ان کا پوسٹ مارٹم ہوا ۔ اس کے بعد نعش کو ورثا کے حوالے کیا گیا۔ میت کوغسل دینے میں زحمت محسوس ہورہی تھی ۔ کیا بغیر غسل دیے تجہیز وتدفین کی جاسکتی ہے؟ سنا ہے کہ شہدا کوبغیر غسل دیے دفنایا جاسکتا تھا۔ کیا ایکسیڈنٹ میں مرنے والے کوشہید مان کراسے بغیر غسل دیے نہیں دفن کیا جاسکتا؟

ج: ۱- اصطلاحِ شریعت میں شہیداس شخص کو کہا جاتا ہے جوراہِ خدا میں جنگ کرتے ہوئے مارا جائے۔ اس کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اسے غسل نہیں دیا جائے گا۔ غزو ۂ احد کے موقعے پر جو مسلمان شہید ہوگئے تھے اللہ کے رسولؐ نے ان کے بارے میں ہدایت دی تھی:اُدْفُنُوْہُمْ فِیْ دِمَائِہِمْ ’’انھیں بغیر غسل دیے دفن کردو‘‘۔(بخاری)

احادیث میں کچھ دوسرے افراد کے لیے بھی شہید کا لفظ آیاہے ، مثلاً جوشخص پیٹ کے کسی مرض میں وفات پائے، جسے طاعون ہوجائے، یا جوڈوب کر مرے۔ (بخاری:۶۵۳) ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص اپنے مال کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے (بخاری:۲۴۸۰، مسلم:۱۴۱)۔ ان افراد پر اس حکم کا اطلاق نہیں ہوگا ۔ تمام فقہا کا اتفاق ہے کہ انھیں غسل دیا جائے گا۔

ایکسیڈنٹ میں مرنے والے کسی شخص کا جسم بری طرح ٹوٹ پھوٹ جائے، نعش مسخ ہوجائے اور کچھ اعضا ضائع ہوجائیں تواس صورت میں غسل کا کیا حکم ہے؟ احناف اورمالکیہ کہتے ہیں کہ اگر بدن کے اکثر اعضا موجود ہیں توغسل دیا جائے گا، ورنہ نہیں ۔ شوافع اورحنابلہ کے نزدیک جسم کا کچھ بھی حصہ موجود ہوتو اسے غسل دیا جائے گا ۔ اس کی دلیل وہ یہ پیش کرتے ہیں کہ جنگِ جمل کے موقعے پر ایک پرندہ کسی میت کا ایک ہاتھ اڑا لایا تھا اوراسے مکہ میں گرادیا تھا۔ تب اہلِ مکہ نے اسے غسل دیا تھا اوراس موقعے پر انھوں نے نماز جنازہ بھی ادا کی تھی ۔

بسا اوقات میت کا کوئی عضو سڑجاتا ہے، اسے دھونے سے انفیکشن پھیل جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس صورت میں اگرکسی ڈاکٹر کی تاکید ہے کہ اس عضو کونہ دھویا جائے تواس پر عمل کرنا چاہیے اور اس عضو کو چھوڑ کر بدن کے بقیہ حصوں پر پانی بہادینا چاہیے ۔ اس طرح غسل ہوجائے گا ۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے:الموسوعۃ الفقہیۃ، کویت،۱۳؍۶۲-۶۴۔ (تغسیل المیت) ۲۶؍۲۷۷ (شہید)۔(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)

رسولِؐ رحمت تلواروں کے سایے میں (جلد پنجم)، حافظ محمد ادریس۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۲۵۲۴۱۹-۰۴۲۔صفحات:۴۰۰ ۔ قیمت (مجلد): ۳۶۵ روپے۔

قدیم و جدید کتب ِ سیرتؐ میں بیش تر مواد مغازیِ رسولؐ (رسولِ کریمؐ کی جہادی زندگی) پر موجود ہے۔ اوّلین سیرت نگار محمد بن اسحاق نے بھی سیرت النبیؐ کے اسی پہلو کو دیگر تفصیلات سے الگ کر کے مرتب کیا۔بعدازاں بہت سے تاریخ نگاروں نے سیرت نگاری کا فریضہ ادا کیا۔ بنیادی حیثیت کی حامل یہ تمام کتب عربی زبان میں ہیں۔ اب سیرت نگاری کا دائرہ کچھ مزید پھیل گیا ہے۔ ماخذ و مراجع تک رسائی کی سہولت نے اسے آسان تر بناد یا ہے۔ البتہ: ایں سعادت بزورِ بازو نیست!

اُردو سیرت نگاروں میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عسکری اور جہادی زندگی کی تفصیلات پر متعدد کتب موجود ہیں۔ رسولِؐ رحمت تلواروں کے سایـے میں، سیرتِ رسولؐ کے اس پہلو پرباقاعدہ طور پر مرتب کی گئی ہے۔ رسولِ کریمؐ کی زندگی کا مدنی دور جہادی سرگرمیوں کا  عہد ہے۔ لہٰذا ہجرتِ مدینہ کے تذکرے سے اس کتاب کا آغاز ہوتا ہے اور چار جلدوں میں غزواتِ رسولؐ اور صحابہؓ کے سرایا کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ چاروں جلدیں ۱۹۹۱ئ، ۱۹۹۴ئ، ۲۰۱۱ء اور ۲۰۱۳ء میں یکے بعد دیگرے شائع ہوئیں۔ سریۂ نجران پر چوتھی جلد کا اختتام ہوتا ہے۔ غزوات و سرایا کی تفصیلات کے علاوہ بھی عہدنبوت کے ان تمام واقعات کو ساتھ ساتھ ذکر کیا گیا ہے جن کا تعلق رسولِ کریمؐ کی عسکری جدوجہد اور دعوتی مساعی سے تھا۔

عنوانِ کتاب کی حدود کے لحاظ سے موضوع کا لوازمہ پورا ہوچکا تھا۔ البتہ سیرتِ نبویؐ کے نہایت اہم دور کی تفصیلات ابھی باقی تھیں۔ لہٰذا پانچویں جلد اسی دور کی کچھ تفصیلات کا احاطہ کرتی ہے۔ چھے ابواب میں سے پہلے تین ابواب کی تفصیلات کا راست تعلق سیرتِ رسولؐ سے ہے، یعنی ۱-عام الوفود ۲-حجۃ الوداع ۳-وصال النبیؐ۔ پہلا باب بارگاہِ رسالت میں ۴۸وفود کی آمد اور حاضری کا حال بیان کرتا ہے۔ دوسرا باب رسولؐ اللہ کے حج مبارک کی تفصیلات پر مشتمل ہے۔ تیسرے باب میں وصالِ رسولؐ کے لمحات، خلیفۂ رسولؐ کی بیعت، وراثت ِ رسولؐ اور خاندانِ نبوتؐ  کی تفصیلات موجود ہیں۔ رسولؐ اللہ کے ۳۷ غلاموں، ۱۷ خادموں، ۲۴کاتبینِ وحی اور تین اُمنا [امین کی جمع] کا تعارف ہے۔ اگلے تین ابواب، یعنی: ۴-لشکر اسامہ بن زیدؓ ۵-مرتدین اور مانعین زکوٰۃ ۶- جھوٹے مدعیانِ نبوت کے بارے میں تفصیل فراہم کرتے ہیں۔ ان سرگرمیوں کا دور عہدِنبوت تو نہیں ہے مگر ان کا آغاز اسی عہد سے تعلق رکھتا ہے۔

واقعات نگاری میں تاریخ و سیرت کی بنیادی کتب سے استفادہ کیا گیا ہے۔ قرآنِ مجید اور کتب ِ احادیث سے بھی موقع بہ موقع استشہاد کیا گیا ہے۔ اسلوبِ نگارش والہانہ البتہ محققانہ ہے۔ مصنف دُعا اور مبارک باد کے مستحق ہیں کہ اُن کو سیرتِ رسولؐ کے مدنی دور کی تفصیلات قلم بند کرنے کی توفیق مرحمت ہوئی جو الحمدللہ تکمیل کو پہنچ گئی۔ اُمید ہے کہ یہ کتاب اُردو قارئینِ سیرت کو نئے اور  نادر گوشوں سے آشنا کرے گی۔(ارشاد الرحمٰن)


اَلعِقْدُ الْفَرید، احمد بن محمد بن عبدربہ الاندلسی، مترجم: ظہیرالدین بھٹی، نظرثانی: نگارسجاد ظہیر۔ ناشر:قرطاس پبلشرز، فلیٹ نمبر۱۵/اے، گلشن امین ٹاور، گلستان جوہر، بلاک ۱۵، کراچی۔ صفحات:۶۷۸۔ قیمت: ۸۰۰ روپے۔

صدیوں پر محیط مسلمانوں کے عربی ادب نے دنیا بھر کی زبانوں پر اپنے اثرات مرتب کیے۔ زبان و بیان اور تہذیب وثقافت پر پڑنے والے یہ اثرات آج بھی محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ مختلف علوم و فنون میں تحریر کردہ مسلمانوں کی عربی کتابیں ایک طویل عرصے تک مغربی تعلیمی اداروں میں رائج رہیں۔ اَلعِقْدُ الْفَرید انھی کتابوں میں شامل ہے۔

عربی زبان کے شاعر اور انشاپرداز ابن عبدربہ (۸۶۰ئ-۹۴۰ئ) قرطبہ میں پیدا ہوئے اور مدت العمر اندلس ہی میں رہے اور قرطبہ میں دفن ہوئے۔ وہ خلیفہ عبدالرحمن الثالث الناصر (۹۱۲ئ-۹۶۱ئ) سے وابستہ تھے۔ ان کی ۲۵ کتابوں میں اَلعِقْدُ الْفَرید عربی ادب کی بہترین کتاب شمار کی جاتی ہے۔ زیرتبصرہ کتاب اس کے خلاصے پر مبنی کتاب کا اُردو ترجمہ ہے۔ اس کتاب کے ۲۵؍ ابواب ہیں، اور ہر باب کی دو فصلیں ہیں۔ ابواب کے نام جواہرات کے ناموں پر رکھے گئے ہیں، مثلاً: مرجان، زبرجد، یاقوت، زمرد وغیرہ۔

زیرنظر کتاب پندونصائح اور حکمت و دانائی کے جواہرات کا مجموعہ ہے۔ عقل و خرد اور فکرودانش کے یہ اَنمول موتی، مصنف نے عالمِ عرب کے دانائوں اور دیگر ممالک کے اہلِ قلم کی نگارشات سے اخذواکتساب کرکے جمع کیے ہیں تاکہ اہلِ عرب یہ جان لیں کہ مرکز سے دُور، انتہائی مغرب میں رہنے والے مسلمان بھی ان علوم سے بہرہ ور ہیں۔ (ص۴۲)

یہ کتاب تاریخ یا سیرت کی کتاب نہیں لیکن تاریخی واقعات کے ساتھ اس میں سیرت النبیؐ پر بھی قابلِ قدر لوازمہ پیش کیا گیا ہے۔ بادشاہوں کے حالات اور ان کی نفسیات پر ادبی، تمثیلی اور مکالماتی انداز میں بات کی گئی ہے۔حکایات، کہاوتوں، اشعار اور اقوال کی سند کو مصنف نے قصداً چھوڑ دیا ہے (ص۴۱)۔ مصنف چوں کہ خود شاعر ہے، اس لیے اس نے جگہ جگہ اپنے عربی اشعار درج کیے ہیں۔ جعلی نبیوں، بخیلوں، طفیلیوں، طب اور مزاح کے بارے میں لکھتے ہوئے مصنف نے کتاب کی دل چسپی کو برقرار رکھا ہے۔

کتاب نفیس کاغذ پر عمدگی سے شائع کی گئی ہے مگر پروف کی غلطیاں کھٹکتی ہیں۔ ادارہ قرطاس مبارک باد کا مستحق ہے کہ عربی کی نہایت اہم کتابوں کے تراجم شائع کر رہا ہے۔(ظفرحجازی)


تہذیب و سیاست کی اسلامی قدریں، مولانا سیّد جلال الدین عمری۔ ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی۲۵۔ صفحات:۹۶۔ قیمت: ۶۵ بھارتی روپے۔

مولانا سیّد جلال الدین عمری علمی حلقوں میں کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ آپ کی معرکہ آرا تصنیفات میں معروف و منکر، تجلیاتِ قرآن، اوراقِ سیرت، غیرمسلموں سے تعلقات اور ان کے حقوق ، نیز صحت و مرض اور اسلامی تعلیمات شامل ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب آپ کے نو مقالات کا مجموعہ ہے جن میں تہذیب و سیاست کی تعمیر میں اسلام کا کردار، اسلام: امن و سلامتی کا پیغام، اسلام اور اصولِ سیاست، اسلام کا شورائی نظام، اسلام اور انسانی حقوق اور اسلام میں انسانی حقوق کی ضمانت شامل ہیں۔

’تہذیب و سیاست کی تعمیر میں اسلام کا کردار‘ ،مولانا کے ایک علمی خطاب پر مشتمل ہے جس میں اسلامی تہذیب کے بعض مظاہر، مثلاً طعام اور معاشرت میں اسلام کی بنا پر طرزِعمل میں تبدیلی سے بحث کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ عصرحاضر کے ایک امریکی دانش ور ہن ٹنگٹن کے تصورِتہذیبی تصادم کا مختصر تذکرہ بھی ہے، نیز اسلامی سیاست کے بعض اصول بھی بیان کیے گئے ہیں۔ دوسرا مقالہ مختصر ہے مگر اسلام اور سلامتی کے تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔ تحائف کی دینی اور سماجی اہمیت اور بعض احکام پر مضمون گو مختصر ہے لیکن تحائف دینے اور قبول کرنے کی اخلاقیات کو واضح کرتا ہے۔ ’اسلام اور اصولِ سیاست‘ ساڑھے پانچ صفحات پر مبنی ایک مختصر نوٹ ہے جس کے بعد ’اسلام     اور سیاست‘ کے زیرعنوان مقالے میں اسلام اور سیاست کے منطقی تعلق سے بحث کی گئی ہے۔    اگلے مقالے کا عنوان ’اسلام کا شورائی نظام‘ ہے۔ اس مقالے میں قرآنِ کریم میں شوریٰ کی فضیلت، احادیث میں اس کی اہمیت، اور اسلام کے مجموعی مزاج میں شوریٰ کے کلیدی کردار کا تفصیلی جائزہ   لیا گیا ہے۔ آخری دو مقالات حقوقِ انسانی کے بارے میں اسلامی موقف کی وضاحت کرتے ہیں۔

یہ مختصر مضامین اس لحاظ سے بہت مفید ہیں کہ کم وقت میں بھی ایک سنجیدہ قاری ان سے استفادہ کرسکتا ہے لیکن اگر ان مقالات کے اندرونی ربط کے پیش نظر انھیں مفصل مقالات کی شکل دے دی جاتی تو یہ ایک نہایت وقیع علمی پیش کش ہوتی۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


تعارف کتب

 حیاتِ طیبہؐ پر گیارہ کہانیاں ، سیّدمحمد اسماعیل۔ ناشر: نیشنل بک فائونڈیشن، ۶-ماؤو ایریا، تعلیمی چوک، سیکٹر۸-G، اسلام آباد۔ فون: ۲۲۵۵۵۷۲-۰۵۱۔ صفحات:۷۶۔قیمت:۷۰ روپے

۔[سیرتِ طیبہؐ پر منفرد انداز میں کہانیاں۔ پرندوں، حیوانات اور دیگر اشیا کی زبانی واقعات کو سرگزشت کے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ چند عنوان: غار کی کبوتری، سیاہ پتھر، حلیمہ کا گدھا، انگور کا گچھا، اَبرہہ کا ہاتھی، البراق، بدر کا کنواں، اسلام کا پرچم۔ تاریخی واقعات کو قرآن و حدیث کی روشنی میں دل چسپ انداز میںا س طرح پیش کیا گیا ہے کہ قاری ایک نئے انداز سے متعارف ہوتا ہے۔ بچوں کی ذہنی و اخلاقی تربیت کے لیے مفید کتاب، اور نیشنل بک فائونڈیشن کی عمدہ کاوش! اس اسلوب میں مزید کام کی ضرورت ہے۔]

 

محمد نورالہدیٰ محسن ، لاہور

’ہمارے معاشی مسائل اور بجٹ‘ (جولائی ۲۰۱۶ئ) میں پروفیسر خورشیداحمد صاحب نے ایک مختلف انداز میں درپیش معاشی مسائل کا تجزیہ کیا ہے۔ حکومت کی معاشی کارکردگی کا گذشتہ برس اور انتخابی منشور سے موازنہ کیا ہے، نیز ملکی دستور کے تناظر میں بھی جائزہ لیا ہے اور سود کے خاتمے کے لیے دستوری مطالبے سے انحراف کی طرف توجہ دلائی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حزبِ اختلاف حقیقی کردار ادا کرتے ہوئے قانون سازی اور ملک و قوم کے مفاد میں پالیسی سازی کے لیے اقدامات اُٹھائے۔ عوامی سطح پر راے عامہ کو ہموار کرکے معاشرتی بگاڑ بالخصوص کرپشن اور بددیانت قیادت سے نجات اور محب ِ وطن دیانت دار قیادت کو بروے کارلانے کی کوشش کی جائے تو تبدیلی کی صحیح سمت میں پیش رفت ہوسکتی ہے۔


فرحت طاہر ، کراچی

’عورت، سماجی تبدیلی اور ذمہ داریاں‘ (جولائی ۲۰۱۶ئ) میں بہترین طریقے سے موضوع کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ وقت کی آواز ہے جسے مصنفہ نے کماحقہ حساسیت کے ساتھ ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ عورت کے سماجی کردار کے حوالے سے کسی خاتون کی تحریر معنی خیز، معتبر اور توانا سمجھی جائے گی کیوںکہ مرد کی آواز کو اس معاملے میں بہرحال نسبتاً شکوک و شبہات کے تناظر میں ہی پرکھا جاتا ہے۔ مصنفہ نے خواتین کے ایک ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے اعداد و شمار اور زمینی حقائق کے ساتھ مکمل منظرکشی کی ہے اور آخر میں ’کرنے کے کام‘ کے عنوان سے ہرطبقۂ فکر کو اس کی ذمہ داری یاد دلائی ہے۔ اس ضمن میں فرد کو اپنے حصے کا کام ، جب کہ اداروں، تنظیموں اور تحریکوں کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہوگی۔ جب تک ہم ٹھوس معاشرتی، سماجی، تعلیمی اور تفریحی متبادل نہیں مہیا کریں گے عوام الناس کی توجہ سے محروم رہیں گے۔


خالد خان ، ای میل

ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا مضمون: ’اپنے رب کی مغفرت اور جنت کی طرف دوڑو اور آگے بڑھو!‘ (جون ۲۰۱۶ئ) پڑھا۔ اس کو پڑھنے کے بعد ایک مسلمان کے اندر حصولِ جنت کے لیے ایک تحریک جنم پاتی ہے۔ اللہ رب العزت ڈاکٹر صاحبہ کو جزاے خیر دے۔

 

مجتہد کا معیار

قانون اپنے ارتقا میں جس تدریجی تسلسل اور جس منطقی ربط کو چاہتا ہے اسے برباد کردینے کا نام اجتہاد نہیں ہوسکتا۔ ایسا اجتہاد تو اس کی جڑیں کھود کے رکھ دے گا.... اجتہاد کے لیے بہرحال معتمدعلیہ شخصیتوں کی ضرورت ہے.... اجتہادی فیصلے صرف ایسے لوگوں کے ذریعے ہونے چاہییں جو حسب ذیل پہلوئوں سے ملّت کا اعتماد حاصل کرسکیں:__ ان کی علمی استعداد کے بارے میں یہ اطمینان پایا جانا چاہیے کہ یہ قانونِ شریعت کے پورے سسٹم کو جڑ سے لے کر کونپلوں تک سمجھتے ہیں اور ان کا باہمی ربط جانتے ہیں اور پیش آمدہ مسائل میں ماہرانہ راے دے سکتے ہیں__ ان کے کردار کے بارے میں عوام کو یہ بھروسا ہونا چاہیے کہ ان کے اندر دین اور اس کے قانون سے انحراف کا جذبہ کارفرما نہیں ہے، یہ شریعت کے اندر اپنی اغراض و اہوا کو دخیل کرنے والے نہیں ہیں اور ان کے کچھ اپنے طبقاتی اور گروہی تقاضے ایسے نہیں ہیں کہ جن کو یہ خدا اور رسولؐ کا نام لے لے کر اجتہاد کے عنوان سے ہمارے سر منڈھ دیں__ان کی ذہنی و فکری ساخت کے بارے میں عام مسلمانوں کے اندر یہ اندیشہ موجود نہ ہونا چاہیے کہ وہ کسی غیراسلامی فکروتہذیب سے مرعوب اور کسی کافرانہ نظامِ قانون کے مفتوح ہیں اور وہ اجتہاد کی مسند پر بیٹھ کر شریعت کے ڈھانچے میں اجنبی اور متضاد نظریات، اصول اور جزئیات کو داخل کردیں گے اور اسلامی قانون میں تحریف کرڈالیںگے....

صحیح طریق کار یہ ہے کہ ہم اپنے اندر سے ایک طرف ایسے معتمدعلیہ علما کو لیں جو اسلامی قانون کے ماہرانہ علم کے ساتھ جدید حالات و ضروریات کا شعور رکھتے ہوں اور دوسری طرف جدید تعلیم یافتہ طبقے میں سے ایسے مخلص افراد کو چھانٹ لیں جو دورِحاضر کے مسائلِ حیات کا تحقیقی مطالعہ رکھنے کے ساتھ ساتھ اسلام سے وفاداری رکھتے ہوں اور کم سے کم اسلامی قانون کے عناصر ترکیبی اور ان کے باہمی ربط اور ان میں سے ہر ایک کی قدروقیمت کو جانتے ہوں۔ دونوں صفوں میں سے وہی لوگ اس نازک فریضے کو سرانجام دینے کے لیے مفید ثابت ہوسکتے ہیں جو انتہاپسندانہ ذہن کے ساتھ باہم دگر نفرت اور کش مکش رکھنے کے بجاے ایک دوسرے کو سمجھنے اور ایک دوسرے سے تعاون کرنے کے اہل ہوں۔ (’اشارات، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن، جلد۴۶، عدد۶، ذی الحجہ ۱۳۷۵ھ، اگست ۱۹۵۶ئ، ص ۱۳-۱۶)

_______________