مضامین کی فہرست


اکتوبر ۲۰۱۶

سوال: کتاب جائزہ میں یہ عبارت آپ کی جانب منسوب ہے: ’’میرے نزدیک صاحب ِ علم آدمی کے لیے تقلید ناجائز اور گناہ بلکہ اس سے بھی کوئی شدید تر چیز ہے‘‘۔ اب غور کیجیے کہ، مثلاً حضرت سیّد عبدالقادر جیلانی ؒ، حضرت امام غزالیؒ ، حضرت مجدد الف ثانیؒ، حضرت شاہ ولی اللہؒ اور حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ سب مقلدین ہیں، تو کیا آپ کے نزدیک یہ حضرات صاحب ِ علم نہ تھے؟

جواب: جو فقرہ نقل کیا گیا ہے، وہ میرا ہی ہے، لیکن ایک فقرہ جو میری کسی عبارت سے کسی بحث کے سلسلے میں نقل کر دیا گیا ہو، وہ مسئلۂ تقلید کے بارے میں میرے مسلک کی پوری ترجمانی کے لیے کافی نہیں ہے۔ آ پ جیسے ذی علم بزرگ سے یہ بات پوشیدہ نہ ہونی چاہیے کہ کسی شخص کا مسلک اس طرح کے فقروں سے اخذ کرنا درست نہیں ہے، خصوصاً، جب کہ وہ شخص اپنے مسلک کو تفصیل کے ساتھ اپنی کتابوں میں دوسرے مقامات پر بیان کرچکا ہو۔ اگر اس طرح سے دوسروں کی عبارتوں میں میرا   ایک ایک فقرہ دیکھ کر مجھ سے سوالات کیے جانے لگیں تو میری ساری عمر جواب دہی میں صرف ہوجائے۔

آپ نے چونکہ زحمت اُٹھا کر سوال فرمایا ہے، اس لیے مختصر جواب حاضر ہے:

میں ’تقلید‘ اور ’اِتباع‘ میں فرق کرتا ہوں۔ اگرچہ آج کل علما’ تقلید‘ کو مجرد پیروی کے معنی میں بولنے لگے ہیں، مگر قدیم زمانے کے علما ’تقلید‘ اور ’اتباع‘ میں فرق کیا کرتے تھے۔ ’تقلید‘ کے معنی ہیں دلائل سے قطع نظر کرتے ہوئے کسی شخص کے قول و فعل کی پیروی کرنا، اور ’اتباع‘ سے مراد ہے کسی شخص کے طریقے کو بربناے دلیل پسند کر کے اس کی پیروی کرنا۔

پہلی چیز ’عامی‘ کے لیے ہے اور دوسری ’عالم‘ کے لیے۔ ’عالم‘ کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ کسی امام کی پیروی کی قسم کھالے اور اگر کسی مسئلے میں اس امام کے مسلک کو اپنے علم کی حد تک کتاب و سنت سے اوفق اور اقرب نہ پائے، تب بھی اس کی پیروی کرتا رہے.....

آ پ نے جن بزرگوں کا ذکر فرمایا ہے ان میں سے اکثر کی کتابوں میں مَیں نے یہی بات پائی ہے کہ وہ جس امام کی پیروی بھی کرتے ہیں، دلائلِ شرعیہ کی بناپر مطمئن ہوکر کرتے ہیں اور اپنے     اس اتباع کے حق میں دلائل پیش فرماتے ہیں۔ باقی بزرگ جو کسی خاص مسلک کی پیروی کرتے ہیں، مَیں ان کے متعلق بھی یہی حُسنِ ظن رکھتا ہوں کہ وہ بھی اِسی طرز کا اتباع کرتے ہوں گے۔ (سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۴۷، عدد۱، محرم ۱۳۷۶ھ،اکتوبر ۱۹۵۶ء، ص ۱۳۷-۱۳۸)

ہر دور کے کچھ مخصوص نعرے ہوتے ہیں، جن کا چلن آہستہ آہستہ بڑھتا چلا جاتا ہے، حتیٰ کہ وہ ہرشخص کی زبان پر رواں ہوجاتے ہیں اور ہرکس و ناکس بلاادنیٰ غوروفکر، انھی کے انداز میں سوچنے اور انھی کی زبان میں بولنے لگتا ہے۔

ان نعروں کا رواجِ عام ہونا، عقل و فہم کی موت کے مترادف ہے۔ جب یہ ذہنوں پر چھا جاتے ہیں تو آزادیِ فکر باقی نہیں رہتی۔ عامی اور عالم، اَن پڑھ اور پڑھے لکھے، سب انھی کا سہارا لینے لگتے ہیں اور سمجھ بوجھ کی صلاحیتیں اِس آکاس بیل کے تحت مرجھا جاتی ہیں۔

’زمانے کے ساتھ چلو‘

ہمارے دور میں بھی کچھ خاص نعرے ہیں، جو رواجِ عام اختیار کرتے جارہے ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں نعرہ ہے: ’با زمانہ بساز‘۔ آئے دن یہ بات زورشور سے دُہرائی جارہی ہے کہ:

زمانہ بدل چکا ہے۔ مذہب کو زمانے کی تبدیلیوں کا ساتھ دیتے ہوئے نئے حالات کے مطابق بدلنا چاہیے۔ اگر مذہب دورِ حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ کیا گیا ، تو اس کے خلاف بغاوت ہوجائے گی اور وہ زندگی سے بے دخل ہوجائے گا۔ جمود کا نتیجہ موت ہے۔ ہم کو زمانے کی تبدیلی کے ساتھ بدلنا ہوگا، ورنہ موت کے لیے تیار ہو جانا چاہیے۔

آج جسے دیکھو وہ کسی نہ کسی عنوان سے یہی درس دیتا نظر آتا ہے۔ ضرورت ہے کہ اس نعرے پر ’ایمان بالغیب‘ لانے کے بجاے اس کے تمام پہلوئوں پر عقل و تجربے کی روشنی میں غور کیا جائے اور محض اس لیے کسی بات کو قبول کرنے کی غلطی نہ کی جائے کہ اس کا اظہار بہ تکرار ہو رہا ہے۔

کیا ہر تبدیلی خیر ہے؟

اس امر میں شبہے کی کوئی گنجایش نہیں کہ زمانہ ہمیشہ بدلتا رہا ہے، بہت کچھ بدل چکا ہے اورمزید رنگ بدلے گا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جمود ایک مصیبت ہے ، جو قوم کی تخلیقی قوتوں کو  یخ بستہ کردیتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہر تبدیلی صحت مند ہے؟ کیا ہرخیر باعث ِ تغیر ہے؟ کیاتاریخ کا ہر قدم عروج ہی کی طرف اُٹھتا ہے؟ اور کیا ہر حرکت بلندی ہی کی سمت جاتی ہے؟

ان سوالات پر جب آپ تاریخ کی روشنی میں غور کریں گے، تو لازماً اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ان کا جواب نفی میں ہے۔ ہرحرکت لازماً ترقی کے مترادف نہیں۔ ایک نوع کی حرکت اگر آپ کو ثریا کی بلندیوں تک لے جاسکتی ہے، تو ایک دوسری قسم کی حرکت تحت الثریٰ کی پستیوں تک گرا دیتی ہے ۔ مطلوبِ نفس،محض حرکت نہیں بلکہ صحیح سمت میں حرکت ہے۔

ترقی ایک نسبتی یا اضافی (relative) اصطلاح ہے۔ ترقی اور تنزل کا فیصلہ منزل کے لحاظ ہی سے ہوسکتا ہے۔ ہم صرف اسی حرکت کو ’ترقی‘ کہہ سکتے ہیں، جو صحیح راستے سے ہمیں اپنی منزل کی طرف لے جارہی ہو۔ جو حرکت منزل کے برعکس سمت میں لے جائے، وہ ترقی نہیں بلکہ تنزل ہے۔

اس سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ حرکت سے پہلے سمت ِ حرکت اور منزلِ مقصود کا تعین ہونا چاہیے، ورنہ محض جمود کو توڑنے کے شوق میں کوئی حرکت کرکے آپ اپنی منزل سے اور دُور بھی ہٹ سکتے ہیں۔ تمدنی اور تہذیبی زندگی میں اصل معیار وہ مقصد ہوتا ہے، جو آپ حاصل کرنا چاہیں۔ اگر آپ کا مقصد اور آپ کی منزل اسلام ہے، تو پھر ہر وہ حرکت جو اس کی مخالف سمت میں لے جائے، خواہ وہ کتنی ہی سبک خرام کیوں نہ ہو، ترقیِ معکوس ہوگی، بلکہ یہ حرکت جتنی تیز ہوگی، تنزل اتنا ہی تیز رفتار ہوگا۔

اندھی تقلید مذموم ہے

اسی طرح اندھی تقلید اور کورانہ نقالی صرف ماضی ہی کی نہیں ہوتی۔ یہ حال کے مروّجہ طریقوں اور ضابطوں کی بھی ہوسکتی ہے۔ اور کسی فرد یا قوم کی خودی اور اس کے صحت مندانہ ارتقا کے لیے جتنی مہلک ماضی کے بتوں کی اندھی پرستش ہے، اتنی ہی مہلک حال کے نئے بتوں کی پوجا بھی ہے، بلکہ اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو نقالی دراصل ’جمود‘ ہی کی ایک شکل ہے۔ اگرچہ ہے بڑی پُرفریب! عقل و فکر کو دونوں ہی صورتوں میں معطل کر دیا جاتا ہے۔ ’جمود‘ میں آپ ماضی کی پرستش کرتے ہیں اور لکیر کے فقیر بنے رہتے ہیں، تو نقالی میں آپ ماضی کے بجاے کسی نئے سورج کی پرستش شروع کر دیتے ہیں۔ آپ کی خودی کے لیے دونوں تباہ کُن ہیں۔

جو لوگ زمانے کے چلن کی پیروی کا بلاوا دیتے ہیں، وہ بھول جاتے ہیں کہ شعوری یا غیرشعوری طور پر وہ دراصل دوسروں کی تقلید ہی کی دعوت دے رہے ہیں، اور ’جدید‘ کی تقلید اگر کی جائے تو وہ کوئی فخر کے قابل چیز نہیں بن جاتی۔ اُس کے نقصانات علیٰ حالہٖ قائم رہتے ہیں، جن کی بناپر قوم کی اپنی تخلیقی صلاحیتیں کبھی اُبھرنے نہیں پاتیں۔ اس کی وجہ سے انسان کی روح میں جمود اور احساسِ کمتری پیوست ہوجاتا ہے۔ انجام کار، پوری قوم زمانے کو بدلنے کے بجاے بس خود اپنے ہی آپ کو بدلنے میں لگی رہتی ہے اور دوسروں کی ’شاگردی‘ کے مقام سے آگے بڑھنا کبھی اسے نصیب نہیں ہوتا۔

پھر زمانے کی تبدیلی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے اس امر کو بھی ملحوظ نہیں رکھتے کہ زمانہ تو بدلنے ہی کے لیے بنا ہے۔ آج وہ ایک خاص سمت میں تبدیل ہورہا ہے تو کل کسی دوسری سمت میں تبدیل ہوجائے گا۔ چڑھتے سورج کی پوجا کرنے والے ہمیشہ اپنے ہی دور کی غالب تہذیب کو ترقی کا کمال سمجھتے رہتے ہیں۔

ہر ’عظیم‘ اور قدیم تبدیل ہوا

چشمِ تاریخ نے اس امر کا بارہا مشاہدہ کیا ہے کہ بڑی سے بڑی طاقت ور تہذیب بھی ایک دن زوال کی نذر ہوجاتی ہے:

  •       یونانی تہذیب کے غلبے کے زمانے میں یونانیت زدہ لوگ اسی کو تہذیب انسانی کا    حرفِ آخر سمجھتے تھے اور اس سے انحراف و اختلاف کو دیوانگی، پریشان خیالی اور کفرخیالی کرتے تھے۔ لیکن پھر ایک دن اس تہذیب کی اینٹ سے اینٹ بج گئی، اور اب اس کی حیثیت محض آثارِ قدیمہ کی سی ہے۔
  •       روم کے دورِ عروج میں یہی مقام رومی تہذیب کو حاصل ہوا۔ لیکن، بالآخر اس تہذیب کے بھی پرخچے اُڑ گئے، اور آج اس کے آثار بالاے زمین نہیں بلکہ زیرزمین ڈھونڈے جارہے ہیں۔
  •   ایرانی تہذیب کی قسمت بھی اس سے مختلف نہ ہوئی۔ بابلی، مصری، آشوری، چینی، گندھارا اور ہڑپا کے ساتھ ساتھ اُن ۲۹تہذیبوں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوگزرا، جو اپنے اپنے زمانے میں غالب اور ناقابلِ تسخیر یا ’ترقی یافتہ‘ سمجھی جاتی تھیں۔

اگر ماضی کی تمام غالب تہذیبیں قابلِ تسخیر ثابت ہوئیں، اور ایک دن کامیاب وہی لوگ ہوئے جو ان کی نقالی نہیں کرتے تھے، بلکہ ان کی جگہ ایک دوسرا نظام پیش کرتے تھے تو مستقبل کے متعلق یہ کیوں تصور کرلیا جائے کہ جدید مغربی تہذیب کوباوجود اس کے موجودہ غلبے کے،مسخر نہیں کیا جاسکتا؟

محض یہ چیز کہ آج ایک خاص تہذیب کو غلبہ حاصل ہے، اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ: ’’یہی تہذیب مبنی برحق بھی ہے۔ نہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ اسی کو ہمیشہ قائم رہنا ہے اور نوعِ انسانی کے لیے اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اپنے آپ کو اسی کے مطابق ڈھال لے‘‘۔

طاقت اور غلبہ، حق کے معیارات کو تبدیل نہیں کردیتے اور اقتدار کسی چیز کو محاسن کا پیکر نہیں بنا دیتا۔ نہ ہر رائج شدہ چیز ناقابلِ تغیر اور ناقابلِ تسخیر ہوتی ہے۔ یہ کمزوروں کی روش دکھائی دیتی ہے کہ وہ طاقت کی پوجا کرتے ہیں اور ہرچڑھتے سورج کے آگے جھک جاتے ہیں۔ یہ کم نظروں کا طریقہ ہے کہ وہ محض اس بناپر کسی مسلک کو اختیار کرلیتے ہیں کہ اسے اقتدار اور غلبہ حاصل ہے اوریہ نہیں دیکھتے کہ وہ کہاں تک صحیح ہے اور کہاں تک غلط؟

اصل قدر غلبہ نہیں، سچائی ہے

حالاںکہ دیکھنے کی اصل چیز غلبہ اور طاقت نہیں بلکہ کسی چیز کا حق یا باطل ہونا ہے۔ اگر زمانہ بدل رہا ہے تو اس کو مزید بھی بدلا جاسکتا ہے۔ لیکن محض زمین و آسمان کی گردش اور ماہ و سال کی آمدورفت کی وجہ سے زندگی کے اصول، خیروشر کی تمیز اور حق و باطل کے معیار نہیں بدلے جاسکتے۔

جدید ذہن کی تعمیر جن عوامل نے کی ہے، ان میں وہ فکروفلسفہ بھی شامل ہے، جو ہرنئی چیز کو خوب تر اور قابلِ احترام اور لائقِ اختیار سمجھتا ہے۔ مغرب کے ذہن کو ہیومنزم (Humanism) کے فلسفے نے بہت متاثر کیا ہے۔ اس فلسفے کی اساس، تاریخ میں ناگزیر ترقی کا اصول (Inevitability of progress)ہے۔ اس کی رُو سے:’’ہر آنے والا دن، گزرے ہوئے دن سے بہتر ہے۔ انسان کا ورثہ روز بروز بڑھ رہا ہے۔ حال، ماضی سے اچھا ہے اور مستقبل، حال سے بہتر ہوگا۔ ہمارے قدم لازماً ترقی کی طرف اُٹھ رہے ہیں اور اب پیچھے ہٹنے کا کوئی امکان نہیں‘‘۔

اس اصول کو فریڈرک ہیگل کے’ فلسفۂ جدلیاتی تاریخ‘ اور کارل مارکس کی ’معاشی تعبیرتاریخ‘ نے بڑی تقویت پہنچائی۔ یہ اسی اندازِ فکر کا نتیجہ ہے کہ ماضی کی ہرچیز کو کم مایہ اور حقیر، اور حال کی ہرشے کو قابلِ قدر سمجھا جا رہا ہے۔ ترقی کا لازمی تقاضا یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ تغیر زمانہ کے نام پر ہرقدیم چیز کو بدل ڈالا جائے۔

یہ نظریہ بدیہی، منطقی اور عقلی طور پر غلط ہے۔ ہمیں انسانی تاریخ میں ارتقا کی کوئی سیدھی لکیر نظر نہیں آتی۔ یہ ’تاریخ‘ بڑی کج رو واقع ہوئی ہے: اس میں ترقی بھی ہے اور تنزل بھی، عروج بھی ہے اور زوال بھی، ارتقا بھی ہے اور انحطاط بھی، فراز بھی ہے اور نشیب بھی۔ ہربعد کے دور کو پچھلے دُور سے بہتر سمجھنا تاریخی لحاظ سے ایک بالکل غلط مفروضہ ہے، جسے ہرگز صحیح ثابت نہیں کیا جاسکتا۔

جدید تاریخ کے فلسفیوں میں سے کوئی ایک بھی ہیگل اور مارکس کی اس توجیہ کو صحیح نہیں سمجھتا اور خود تاریخی حقائق اس کی توثیق کرنے سے انکاری ہیں۔ ’مسلسل ارتقا‘ کا نظریہ آج علمی حیثیت سے ایک متروک نظریہ ہے۔ لیکن اس کے بطن سے جس فاسد تصور نے جنم لیا ہے، وہ عام پڑھے لکھے لوگوں کے دماغ پر مسلط ہے۔ وہ اپنی ترقی پسندی کا ڈھول پیٹنے کے لیے محض فیشن کے طور پر ہرقدیم چیز پر ناک بھوں چڑھاتے اور ہرنئی چیز کی طرف بے سوچے سمجھے لپک پڑتے ہیں۔ حالانکہ قدیم کو لازماً بُرا اور جدید کو لازماً اچھا سمجھنا اور تمام قدیم چیزوں کو تبدیلی کے خراد پر چڑھا دینا،   ایک غلط روش ہے، جس کے لیے کوئی معقول دلیل موجود نہیں۔

تغیر  اور تبدیلی کی بنیاد؟

اسی طرح سوال یہ بھی ہے کہ: ’’زمانے کے تغیر کی نوعیت کیا ہے؟ اور یہ تغیر زندگی کے کس دائرے میں واقع ہو رہا ہے؟‘‘

کائنات کا وہ دور جو زمین پر انسان کی آمد سے شروع ہوا ہے، اب تک جاری ہے۔ ارتقاے کائنات کے نقطۂ نظر سے اگر غور کیا جائے، تو یہ امر صاف ظاہر ہے کہ موجودہ دَور اپنی چند متعین خصوصیات رکھتا ہے، جو انسانی تہذیب کے سارے ہی مرحلوں میں نمایاں نظر آتی ہیں۔ ان خصوصیات میں کوئی اساسی تبدیلی اسی وقت واقع ہوگی، جب یہ دَور ختم ہوجائے گا اور کوئی دوسرا دَور شروع ہوگا، یعنی دورِ آخرت۔

اس پورے زمانے میں انسان کی فطرت، کائنات کے فطری قوانین، انسانی زندگی کے اساسی اصول، حیات و موت کے ضابطے، انفرادی اور اجتماعی زندگی کی بنیادیں، ہدایت و ضلالت کے قواعد، یہ تمام ایک ہی رہے ہیں اور ایک ہی رہیں گے۔ افراد پیدا ہوتے ہیں اور مرتے ہیں۔ تہذیبیں اُبھرتی ہیں اور معدوم ہوجاتی ہیں۔ سلطنتیں بنتی ہیں اور بگڑکر ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی ہیں: کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ(الرحمٰن۵۵:۲۶)، لیکن قدرتِ حق کے تحت فطرت کے قوانین غیرمتبدل ہیں۔ زندگی کی اصل غیرمتغیر ہے، اور اجتماع و تمدن کے اساسی ضابطے ثابت و مستحکم ہیں۔ ایک ہی اصول ہے جو کارفرما ہے، ایک ہی حقیقت ہے جو جلوہ گر ہے۔

تغیر و تبدل صرف ظاہری اور سطحی چیزوں میں ہے، بنیادی اور اساسی چیزوں میں نہیں۔ اس لیے یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ زندگی کے موجودہ دور میں جو تغیرات بھی واقع ہو رہے ہیں، وہ ایک محدود دائرے میں ہیں۔ بنیادوں میں نہیں۔ صرف فروع میں ہیں، اور ان کی بناپر قدیم و جدید کا جھگڑا بجز کوتاہ نظری کے اور کچھ نہیں۔ بقولِ علامہ محمد اقبال    ؎

زمانہ ایک، حیات ایک، کائنات بھی ایک

دلیلِ کم نظری، قصۂ جدید و قدیم

محض تبدیلی مذموم نہیں

ہم تغیر کے وجود کے منکر نہیں ہیں۔ یہ تو ایک ایسی حقیقت ہے، جس سے انکار ممکن ہی نہیں۔ لیکن جس چیز کا سمجھنا ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ اس تغیر کی نوعیت کیا ہے؟ اس لیے کہ اس کی نوعیت کو سمجھے بغیر کوئی صحت مند اجتماعی پالیسی اختیار نہیں کی جاسکتی۔

انسان کی اجتماعی زندگی میں جو تبدیلی بھی آرہی ہے، وہ ذرائع اور رسل کی دنیا میں ہے، مقاصد اور اصول و اَخلاق کی دنیا میں نہیں۔ فنی ایجادات اور تکنیکی انکشافات، انسان کے وسائل اور فطری قوتوں پر اس کے اختیار کو برابر بڑھا رہے ہیں۔ زمان و مکان کی رکاوٹیں دُور ہورہی ہیں اور انسان کا اقتدار بڑھ رہا ہے۔ لیکن یہ ساری تبدیلی ذرائع اوروسائل ہی کی حد تک ہورہی ہے۔ اس تبدیلی کا یہ تقاضا ہرگز نہیں ہے کہ مقاصد ِ زندگی، اُصولِ اخلاق اور اقدارِ حیات کو بھی تبدیل کر دیا جائے۔

اگر ہوائی جہاز، جیٹ اور راکٹ کے استعمال سے زمین کی طنابیں کھنچ گئی ہیں، تو اس کے یہ معنی کب ہیں کہ زنا جو کل تک حرام تھا، آج حلال ہوجائے؟ اگر برقی قوت کے ذریعے انسان کے پاس وہ طاقتیں آگئی ہیں، جو پہلے صرف جنوں اور فرشتوں سے منسوب تھیں، تو اس کا آخر کیا اثر خیروشر کے اصولوں کی صداقت پر پڑتا ہے؟ میزائل اور خلائی راکٹوں کے استعمال کا آخر یہ تقاضا کب ہے کہ جھوٹ، سُود، سٹہ، دھوکا دہی، شراب اور دوسرے منکرات کو جائز قرار دے دیا جائے؟ صنعتی ترقی کا آخر یہ تقاضا کب ہے کہ اصولِ انصاف کو بھی بدل دیا جائے؟

ایجادات کی غلامی نہیں

جو حضرات سطحی نظر رکھتے ہیں، وہی اس قسم کی باتیں کرتے ہیں کہ یہ تغیرات اصولوں میں ردّوبدل کے مقتضی ہیں۔ درحقیقت تمام ایجادات و اکتشافات انسان کے لیے ہیں، انسان ان کے لیے نہیں۔ تمام مادی ترقیات اسی وقت مفید ہوسکتی ہیں، جب وہ انسان کی بھلائی کے لیے استعمال ہوں۔ خود بھلائی اور بُرائی کے اصول، ان کی خاطر نہ بدل جائیں۔ یہ قوتیں جو انسان کو حاصل ہوئی ہیں، اُسی وقت نافع ہیں جب وہ اعلیٰ مقاصد ِ حیات کے تابع ہوں، اپنے ریلے میں وہ ان      اعلیٰ مقاصد ِ زندگی کو بہا کر نہ لے جائیں۔ مقاصد اور اصول کو ان کے مطابق نہیں، بلکہ ان کو مقاصد و اصول کے مطابق بدلنا چاہیے۔ مقاصد اور اصولوں کی حیثیت تو اُن معیارات کی ہے،  جن سے تکنیکی ترقیات کے حُسن و قبح کو ناپا جائے گا۔ اگر ان ترقیات کے باوجود انسان ہی  پریشان و مضطرب رہتا ہے، تو پھر ساری مادی ترقی بے کار ہے    ؎

نہ کلی ہے وجہ نظر کشی، نہ کنول کے پھول میں تازگی

فقط ایک دل کی شگفتگی، سببِ نشاطِ بہار ہے

انسانی زندگی میں تغیر کا منہاج (methodology)کچھ ایسا ہے کہ تبدیلی کے ساتھ ساتھ ثبات اور دوام کا بھی ایک پہلو موجود ہے۔ تبدیلی ہرلحظہ آتی ہے، لیکن بنیادی حقیقت کو متاثر کیے بغیر۔

مثال کے طور پر انسان کے جسم اور اس کی ذات ہی کو لیجیے:میڈیکل سائنس کے مشاہدات ہمیں بتاتے ہیں کہ انسان کے جسمانی نظام میں ہرلمحہ تغیرات ہورہے ہیں۔ ایک بچے کے جسم کا ایک ایک ریشہ جوان ہونے تک بدل جاتا ہے۔ اس کے بعد بھی یہ سلسلہ برابر جاری رہتا ہے، حتیٰ کہ ایک خاص مدت میں ہر انسان کا جسم اپنے کو بالکل تبدیل کر کے ایک نیا جسم بن جاتا ہے، لیکن اس تبدیلی میں بنیادی نظام وہی رہتا ہے اور ہرشخص کی اساسی شخصیت اور اس کی اَنا (ego) جوہری طور پر غیرمتبدل رہتی ہے۔

اسی کیفیت کو نکولائی بردائیف (Nicoli Berdyve) نے ان الفاظ سے تعبیر کیا ہے: Personality is Changelessness in Change(انسانی ذات، تغیرات کے جلو میں عدم تغیر کا نام ہے)۔

اور برگسان نے اس بات کو یوں بیان کیا ہے:’’ہم میں تغیر تو آتا ہے، لیکن ہماری بنیادی حقیقت معدوم نہیں ہوتی‘‘۔

اسی طرح درختوں کو دیکھیے: ایک درخت، ایک خاص مدت میں اپنے پھول پتّے بالکل تبدیل کر لیتا ہے۔ اس کی نباتاتی زندگی میں تبدیلیاں واقع ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن یہ تبدیلی اس کی اصل کو نہیں بدلتی بلکہ اس سے ہم آہنگ رہتی ہے۔ اس درخت کا ایک بنیادی رنگ اور ایک بنیادی تاثیر ہوتی ہے ،جو بہرصورت غالب رہتے ہیں اور یہی اس درخت کی انفرادیت ہے   ؎

صبحِ بہار آئی ہے لے کر، رُت بھی نئی، شاخیں بھی نئی

غنچۂ و گل کے رُخ پر لیکن، رنگ قدامت آج بھی ہے

زندگی محض تغیر نہیں

یہ فطرت کا قانون ہے جو ہر شعبۂ زندگی میں جاری و ساری ہے۔ انسان کی اجتماعی اورتہذیبی زندگی میں بھی ہمیں یہی جلوہ گر نظر آتا ہے۔ اسی بنیاد پر علامہ محمداقبال نے کہا تھا:

ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ زندگی محض تغیر ہی نہیں، اس میں حفظ و ثبات کا ایک عنصر بھی موجود ہے… لہٰذا، اس ہرلحظہ آگے ہی آگے بڑھنے والی حرکت میں، انسان اپنے ماضی کو نظرانداز نہیں کرسکتا… اسی بات کو ہم دوسرے لفظوں میں یوں ادا کریں گے کہ زندگی چونکہ ماضی کا بوجھ اُٹھائے آگے بڑھتی ہے، اس لیے ہمیں چاہیے کہ جماعت میں تغیر و تبدل کا جو نقشہ بھی ہم نے قائم کیا ہو، اس میں قدامت پسند قوتوں کی قدروقیمت اور وظائف کو فراموش نہ کریں۔(ڈاکٹر محمد اقبال، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ ، ترجمہ:سید نذیر نیازی، ص۲۵۷)

مندرجہ بالا بحث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ:

  •  ہر تبدیلی موجب ِ خیر ہی نہیں ہوتی ہے۔ اس لیے جوچیز مطلوب ہے، وہ محض تبدیلی نہیں بلکہ صحیح سمت میں تبدیلی ہے۔
  • محض زمانے کے چلن کا اتباع کسی فرد یا قوم کے لیے فلاح کا باعث نہیں ہوسکتا۔
  •  کسی چیز کے غالب ہونے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ لازماً اچھی اور صحیح بھی ہے، یا یہ کہ وہ ناقابلِ تسخیر ہے۔
  •  ناگزیر ترقی کا اصول ایک فاسد اصول ہے، جس کی تائید تاریخ سے نہیں ہوتی۔
  •  زمانے کے تغیر کی نوعیت بڑی غورطلب ہے۔ تبدیلی کا دائرہ بڑا محدود ہے۔ تبدیلی بنیادوں میں نہیں، صرف فروع اور ظواہر میں ہوتی ہے۔ انسانی فطرت، کائنات کے بنیادی قوانین اور ہدایت و ضلالت کے ضابطے میں کسی تغیر کا سوال نہیں۔
  • زندگی صرف ’تغیر‘ کا نام نہیں ہے، بلکہ وہ تغیر اور ثبات دونوں کے توازن سے قائم ہے اور صحت مند نظام وہی ہوسکتا ہے، جو دونوں پہلوئوں میں کامل توازن قائم کرے۔

ان اُمور کے واضح ہو جانے کے بعد اب مسئلے کا سمجھنابہت آسان ہوجاتا ہے۔

ہدایتِ الٰہی میں تبدیلی، ناممکن

اسلام، اللہ تعالیٰ کی اس ہدایت کا نام ہے، جو اس نے اپنے برگزیدہ نبیوں کے ذریعے انسان کی رہنمائی کے لیے وقتاً فوقتاً بھیجی ہے اور جو اپنی آخری اور مکمل شکل میں ہم کو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے پہنچی ہے۔ یہ وہ ضابطۂ حیات ہے، جو عین فطرت کے اصولوں پر قائم ہے اورانسان اسی کے ذریعے سے دنیاوی اور اُخروی دونوں کامیابیاں حاصل کرسکتا ہے۔ یہ زندگی کا مکمل قانون ہے۔ اس قانون کو انسان نے نہیںاللہ تعالیٰ نے بنایا ہے۔ یہ ابدالآباد تک کے لیے ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔

  •  لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ ط (یونس۱۰:۶۴)اللہ کی باتیں (یعنی اس کے احکام و فرامین) بدل نہیں سکتیں۔
  • وَ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ ج (الانعام ۶:۳۴)اور اللہ کی باتوں کو بدلنے کی طاقت کسی میں نہیں ہے۔
  •  لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ط ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ لا وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ o (الروم ۳۰:۳۰) اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جاسکتی، یہی بالکل راست اور درست دین ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں۔
  •  فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا ج (فاطر۳۵:۴۳)اور تم اللہ کے طریقے میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پائو گے۔

قرآن پاک کی یہ آیات بالکل صاف اور واضح ہیں، اور اس امر کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ اللہ کا دین، اس کے احکام اور قوانین ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہیں اور محض زمانے کی تبدیلی کی وجہ سے ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ تبدیلی زمانے میں کرنی ہوگی، اللہ کے قانون میں نہیں۔ اس پس منظر میں مردود وہ ہیں جو  ع

خود بدلتے نہیں ، قرآں کو بدل دیتے ہیں

نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ: فَمَنْ أَحْدَثَ حَدَثًا أو آوَی مُحْدِثًا فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلَائِکَۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ (بخاری:۳۱۷۹) ’’جو بدعت نکالے یابدعتی کو پناہ دے اس پر اللہ اور فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت ہے‘‘۔

اگر اس مسئلے پر عقلِ سلیم کی روشنی میں غور کیا جائے،تو فکرونظر کا ہر گوشہ اس بات پر گواہی دیتا ہے کہ اللہ  کے قانون میں کسی تبدیلی کی نہ ضرورت ہے اور نہ گنجایش۔ اور اس کی وجہ بھی بہت واضح ہے۔ زمانے کی تبدیلی کا اثر اُس قانون اور اصول پر پڑتا ہے، جسے انسان نے بنایا ہو۔

انسانی فکر کی تنگی

انسانی فکر زمان و مکان [time and space]کی حدود میں مقید ہے۔ وہ ماضی، حال اور مستقبل کے تمام حقائق سے واقف نہیں۔ وہ ایک محدود بصیرت کے ساتھ آج ایک چیز کو صحیح سمجھ کر پیش کرتی ہے، مگر کل جب وہ حالات سامنے آتے ہیں، جن کا کوئی تصور پہلے موجود نہ تھا، تو وہ    غلط ثابت ہوجاتی ہے۔ لیکن اللہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اس کا علم ہرشے پر محیط ہے۔ زمان و مکان کی قیود اس کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ جو قانون ایسے اللہ کی طرف سے ہو،  اس کا کسی ایک مخصوص زمانے کے ساتھ محدود ہوجانا کیسے ممکن ہے۔ اللہ کے علم اور دیے ہوئے قانون کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ کبھی ازکار رفتہ ہوجائے۔ وہ تو ہمیشہ اتنا ہی تازہ رہے گا،  جتنی صبحِ نو!

ثانیاً: اللہ کا یہ قانون بنیادی طور پر ہدایت و ضلالت کی حقیقت کو واضح کرتا ہے اور اُن اصولوں اور اُن اقدار کو بیان کرتا ہے جن پر وقت کے تغیرات، تہذیبوں کے عروج و زوال اور ماہ و سال کی آمدورفت کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یہ فطرت کے اصولوں کو بیان کرتا ہے اور فطرت کا قانون قائم و مستحکم ہے۔

ثالثاً: قرآن و سنت اصولی رہنمائی دیتے ہیں، انفرادی اور اجتماعی زندگی کی بنیادیں فراہم کرتے ہیں اور ان اساسی اداروں کو قائم کرتے ہیں، جنھیں ہر زمانے میں قائم رہنا چاہیے۔ ان چیزوں پر زمان و مکان کے تغیر کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یہ اصول غیرمتبدل ہیں اور ان میں تبدیلی فطرت کے قانون کے خلاف ہوگی۔

اسلام میں تبدیلی کی بنیاد  زمانہ نہیں

ان وجوہ کی بنا پر زمانے کی تبدیلی کے مطابق اسلام میں تبدیلی کا قطعاً کوئی امکان نہیں۔

یہی چیز ہے،جو انبیاؑ کی سنت اور صلحا کی کی قابل قدر زندگیوں کے مطالعے سے معلوم ہوتی ہے۔ ہر نبی ایسے حالات میں مبعوث ہوا، جب زمانے کا بگاڑ اپنی انتہا کو پہنچ گیا تھا اور زندگی کا دریا بالکل غلط رُخ پر رواں دواں تھا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ کسی بھی نبی نے زمانے کے چلن کے مطابق اسلام کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ زمانے کے رنگ سے متاثر نہ ہوئے، بلکہ زمانے کو اپنے رنگ میں رنگنے کی سعی میں مصروف ہوگئے، اور بالآخر اس پر صبغۃ اللہ کو غالب کردیا۔ قرآن میں اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ یوں بیان فرماتا ہے:

ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ o(الصف ۶۱:۹)وہی تو ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کردے، خواہ مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔

ہدایت اور دینِ حق ہیں ہی اس لیے، کہ انبیاؑ ان کو دنیا کے باقی تمام نظاموں اورطریقوں پر غالب کریں۔ اللہ کا دین اس لیے نہیں ہے کہ اسے زمانے کے چلن کے مطابق بدلا جائے بلکہ اس لیے ہے کہ زمانے کو اس کے مطابق بدلا جائے اور اس کو غلبہ و اختیار کا مقام حاصل ہو۔ مشرکوں، کافروں اور منافقوں کی تو دلی تمنا ہی یہ ہوتی ہے کہ دین کو ان کے منشا کے مطابق بدلا جائے، لیکن اللہ اس بات کو صاف کردیتا ہے کہ ان کی ناخوشی کا ہرگز کوئی خیال نہیں کیا جاسکتا۔ سربلندی دین کو حاصل ہونی چاہیے اور زمانے پر اس کی حکمرانی قائم ہونی چاہیے۔

زمانہ نہیں، حق ہے بنیاد

انبیاؑ کی سیرت اسی حقیقت پر شاہد ہے ۔ حضرت نوحؑ ^کی قوم بغاوت پر تلی رہی۔ آپ نے ساڑھے نو سو سال تک دینِ حق کی دعوت دی، لیکن ایک دن کے لیے بھی وہ ’وقت کے تقاضوں‘ کے مطابق دین کو تبدیل کرنے پر راضی نہ ہوئے۔ ان کی دعوت یہی رہی کہ:

یٰـقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ  ط(الاعراف۷:۶۵)اے برادرانِ قوم! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمھارا کوئی خدا نہیں ہے۔

  • ابوالانبیا حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے زمانے کی تہذیب کے کئی بڑے مراکز پر دعوتِ حق دی، لیکن کہیں بھی زمانے کے تقاضوں کے مطابق دین کو نہیں ڈھالا۔ انھوں نے آگ اور جلاوطنی کے مصائب کو انگیز کیا، لیکن دین پر حرف نہ آنے دیا۔
  •  حضرت لوط ؑکی قوم شدید قسم کی اخلاقی برائیوں میں مبتلا تھی، مگر آپ نے زمانے کے چلن کو دیکھ کر دین میں ترمیم نہیں کی بلکہ زمانے کے خلاف بغاوت کی۔
  •      حضرت ہودؑ نے اپنی قوم کے طور طریقوں کو اختیار کرنے کے بجاے، اسے اللہ کے غیرمتبدل قانون کی پیروی کے لیے پکارا۔
  • حضرت صالح ؑ نے اپنی قوم کی سرکشی کے لیے کوئی الائونس نہ دیا اور انھیں خوش کرنے کے لیے دین میں کسی کمی بیشی کو گوارا نہ کیا۔
  •     حضرت شعیبؑ نے اپنی قوم کی معاشی ’ترقی‘ کی خاطر ان کے ظالمانہ معاشی نظام کو قبول کر کے دین میں ترمیمات نہ کیں، بلکہ ان کو کامل اطاعت کی دعوت دی۔

تمام انبیاؑ کی سنت یہی رہی ہے۔ نبی اکرمؐ کے زمانے میں مشرق سے مغرب تک جو نظام چل رہا تھا، اسے قبول کرنے اور اس کے مطابق اپنے آپ کو اور اپنے دین کو ڈھالنے کے بجاے آپ نے اسے ایک فاسد نظام قرار دیا: ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم۳۰  :۴۱) ’’خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا ہے‘‘ لیکن اللہ کے نبیؐ نے زمانے کے تقاضوں سے compromise اور اس کے ساتھ مصالحت کرنے کے بجاے اس کی ہرہر خرابی کے خلاف جنگ لڑی۔

زمانے کے آگے جھکنے کا مشورہ دینے والوں کو آپؐ کا صاف جواب یہ تھا کہ:

وَاللّٰہِ لَوْ وَضَعُوا الشَّمْسَ فِی یَمِیْـنِی وَالْقَمَر فِی یَسَارِیْ عَلٰی اَنْ اَتَرُکَ ہٰذَا الْاَمْرَ مَا تَرَکْتُہٗ حَتٰی یظہر اللّٰہ اَوْ اہلک فیہ (سیرۃ ابن ہشام، جلد اول، استمرار رسول اللہ فی دعوتک، ص۲۶۶) خدا کی قسم! اگر یہ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ کر کہیں کہ آفتاب و مہتاب کے عوض میں اس دعوت کو ترک کردوں، تو میں ہرگز اسے ترک نہ کروں گا، یہاں تک کہ یا تو اللہ اس دعوت کو غالب کردے یا مَیں اس راہ میں جان دے دوں۔

پیغمبرانہ سنت، جھکنا نہیں ہے

انبیاؑ کا طریقہ یہ نہیں رہا کہ وہ زمانے کے آگے جھکیں اور لوگوں کو راضی کرنے کے لیے اللہ کے دین کو بدلیں۔ وہ حق کے پیغامبر ہوتے ہیں اور زمانے کی رُو کے خلاف اپنی دعوت پیش کرکے اسے تبدیل کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ اگر وہی زمانے سے مطابقت اختیار کرلیں تو پھر انسانیت کی فلاح و اصلاح کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔

اِس اسوئہ انبیاؑ کے اتباع کی بہترین مثال ہمیں حضرت ابوبکرؓ کی زندگی میں نظر آتی ہے۔ حضور اکرمؐ کے وصال کے بعد یکایک عرب کا نقشہ پلٹ گیا۔ ہر طرف سے بغاوتوں نے سراُٹھالیا۔ جھوٹے نبی اُٹھ کھڑے ہوئے۔ بہت سے قبائل نے زکوٰۃ ادا کرنے سے انکار کردیا۔ صحابۂ کبار تک اس صورتِ حال پر پریشان ہوگئے اور لوگ یہ راے پیش کرنے لگے کہ: ’’وقتی مصلحت کا تقاضا ہے کہ قبائل کے ساتھ نرمی برتی جائے اور وقت کی نزاکت کا لحاظ کیا جائے‘‘ مگر حضرت صدیق اکبرؓ کا جواب یہ تھا کہ:

واللہ، مجھ پر یہ فرض ہے کہ جو کام میں رسولؐ اللہ کو کرتے دیکھ چکا ہوں، خود بھی وہی کروں اور اس سے سرِمو انحراف نہ کروں۔ اگر جنگل کے بھیڑیے مدینہ میں داخل ہوکر مجھے اُٹھا لے جائیں تو بھی مَیں وہ کام کرنے سے باز نہ آئوں گا، جسے رسولؐ اللہ نے کرنے کا حکم دیا ہے۔ واللہ، اگر مانعینِ زکوٰۃ اُونٹ باندھنے کی ایک رسّی دینے سے بھی انکار کریں گے، جسے وہ رسولؐ اللہ کے زمانے میں ادا کرتے تھے، تو بھی مَیں ان سے جنگ کروں گا۔ اللہ کی قسم! میں زکوٰۃ اور نمازمیں فرق کرنے والے لوگوں سے ضرور لڑوں گا۔

اسلام عبارت ہی نبیؐ کی سنت کی پیروی سے ہے۔ اگر زمانے کی سنت نبیؐ کی سنت سے متصادم ہے تو وہ شخص اپنے دعواے ایمان میں جھوٹا ہے، جو نبیؐ کی سنت کو چھوڑ کر زمانے کی سنت اپناتا ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ کا دین ثابت و محکم ہے اور محض زمانے کے انداز دیکھ کر اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔ لیکن یہ خیال کرنا بھی غلط ہوگا کہ زمانے کے تغیرات کو دین اسلام   کلّی طور پر نظرانداز کرتا ہے۔ اسلام کا طریق کار یہ ہے کہ وہ ہدایت و ضلالت کے بنیادی اصول بتادیتا ہے۔ انفرادی و اجتماعی زندگی کے لیے وہ حدود واضح کردیتا ہے، جو انسان کو صراطِ مستقیم پر قائم رکھنے کے لیے درکار ہیں۔ رہے جزوی اور وقتی اُمور، تو ان کو شریعت کے دیے ہوئے بنیادی اصولوں کی روشنی میں اور اس کے مقرر کیے ہوئے حدود کے اندر ہروقت اور ہر زمانے میں طے کرنے کی اجازت ہے۔ یہ کام اجتہاد کے ذریعے انجام پاتا ہے اور اسی کے ذریعے نظامِ دین میں حرکت و ارتقا کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا ہے۔

تجدّد نہیں، تجدید

زمانے کے تغیرات پر دو قسم کے جواب (response) اسلامی تاریخ میں نظر آتے ہیں۔ ایک کا نام ’تجدید‘ ہے اور دوسرے کا ’تجدّد‘۔

’تجدید‘ یہ ہے کہ زمانے کے تغیرات کو ملحوظ رکھتے ہوئے اصل دین کو بلاکم و کاست پیش کیا جائے اور اپنے دور، اپنے زمانے کی زبان میں محکم استدلال کے ساتھ پیش کیا جائے۔ نیز تدبر و اجتہاد کے ذریعے دین کو اپنے دور کے حالات پر نافذ کرنے کی عملی جدوجہد کی جائے۔ اُن تمام ذرائع سے پورا پورا فائدہ اٹھایا جائے، جو قدرت نے انسان کو فراہم کیے ہیں، اور اسلامی بصیرت کے ساتھ نئے پیش آمدہ مسائل کو قرآن و سنت کی روشنی میں طے کیا جائے۔

’تجدید‘ کے ذریعے ہر زمانے میں دین کی تعلیمات اور زندگی کے بہائو کے درمیان تعلق اوررابطہ گہرا ہوتا جاتا ہے اور زندگی کا دریا اسلام کی شاہراہ سے ہٹ کر چلنے نہیں پاتا۔ یہاںمخلصانہ اجتہاد کے ذریعے نئے مسائل اور نئی مشکلات کو حل کیا جاتا ہے اور دین اپنے رنگ پر قائم رہتا ہے۔

’تجدّد‘ اس کے مقابلے میں وہ کوشش ہے، جو زمانے کے تقاضوں کے نام پر خود دین کو بدل ڈالنے کے لیے کی جاتی ہے۔ زندگی اور زمانے کے درمیان ربط اس طریقے سے بھی قائم ہوجاتا ہے، لیکن یہ ربط اسلام کی سرزمین پر نہیں غیراسلام کی سرزمین پر قائم ہوتا ہے۔ اس میں اسلام کو اصل قرار دے کر،حالات کو اس کے مطابق ڈھالنے کے بجاے زمانے کی چلتی ہوئی تہذیب کو اصل مان کر اُس کے پیدا کیے ہوئے حالات پر اسلام کو ڈھال دیا جاتا ہے۔ اس طریق کار کو اگر مسلمان ہر زمانے میں اختیار کرتے چلے جائیں، تو اسلام کی کوئی چیز بھی اپنی جگہ پر باقی نہیں رہ سکتی، بلکہ اسلام سرے سے کسی متعین مذہب و مسلک اور نظریہ و نظام کا نام ہی نہیں رہتا۔

اسلام میں ’تجدید‘ کے دروازے ہمیشہ کھلے رہے ہیں اور پوری تاریخ میں اسلام کے سچے خادم یہ کارنامہ انجام دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ لیکن ’تجدّد‘ کی اس میں کوئی گنجایش نہیں۔ ماضی میں جب بھی ’تجدّد‘ نے سر اُٹھایا ہے، مسلمانوں نے سختی کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا ہے اور ہر ایسی تخریبی کوشش ملّت کی راے عام سے ٹکرا کر آخرکار ختم ہوگئی ہے۔

تجدّد اور تجدید میں کش مکش

آج بھی بنیادی کش مکش ’تجدید‘ اور ’تجدّد‘ ہی کے درمیان ہے اور ہماری پوری تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ دین کو متجدّدین کی خاطر نہ کبھی ماضی میں بدلا گیا ہے اور نہ آج بدلا جاسکتا ہے۔ کسی مصطفیٰ کمال، کسی جمال ناصر، یاکسی اور حکمران یا صاحب ِ اثر شخصیت کی یہ طاقت نہیں ہے کہ زمانے کے تقاضوں کا نام لے کر اسلام کو بدل سکے۔ اس معاملے میں جو انجام مغل بادشاہ اکبر کی کوششوں کا ہوچکا ہے، وہی انجام اِن نئے متجدّدین کے لیے بھی مقدر ہے۔

دین میں مسخ و تحریف کی کوئی تدبیر اگر طاقت کے بل پر زبردستی نافذ کر بھی دی جائے، تواسے مسلمانوں کے اجتماعی ضمیر نے نہ ماضی میں کبھی قبول کیا ہے اور نہ آج قبول کرسکتا ہے۔ اس دین کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے لی ہے اور اُس نے ایسے ذرائع بھی پیدا کر دیے ہیں کہ اس کی حفاظت ہوتی رہے:

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَo(الحجر۱۵:۹) ہم نے ہی اس ذکرکو نازل کیا ہے، اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔

زمانے کو پیچھے چلاؤ

آخر میں ہم ایک اور بات کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں۔ پوری انسانی تاریخ اس امر پر گواہ ہے کہ ہمیشہ عظیم کارنامے انھی لوگوں نے انجام دیے ہیں، جو حالات کی رُو پر بہنے کے بجاے ان کا مقابلہ کرنے اُٹھے ہیں۔ زندگی پر اَنمٹ نقوش انھوں نے نہیں چھوڑے جو مرغ بادِ نما کی طرح ہوا کے رُخ پر مڑتے اور دوسروں کی نقالی کرتے رہے، بلکہ ان لوگوں نے چھوڑے ہیں جو ہوا کے رُخ سے لڑے ہیں اور زندگی کے دھارے کو موڑ کر رکھ دیا ہے۔ بڑے کام مکھی پر مکھی مارنے والوں نے نہیں کیے، اپنی راہ آپ نکالنے والوں نے کیے ہیں۔ بہادر وہ نہیں ہے جو دوسرے کے مارے ہوئے شکار کو کھاتا ہے۔ بہادر وہ ہے جو اپنا شکار خود کرتا ہے۔ قابلِ تقلید وہ نہیں ہے جو گرگٹ کی طرح صبح و شام رنگ بدلتا ہے، بلکہ وہ ہے جو خود اپنا کوئی رنگ رکھتا ہے اوردنیا کو اپنے رنگ میں رنگ دیتا ہے۔

مسلمان دنیا میں زمانے کے پیچھے چلنے کے لیے پیدا نہیں کیے گئے ہیں، وہ تو پوری انسانیت کی طرف اس لیے بھیجے گئے ہیں کہ جسے اللہ تعالیٰ نیکی کہتا ہے: اس کا حکم دیں، جسے     اللہ تعالیٰ بدی کہتا ہے اسے مٹائیں اور دنیا میں اللہ کی اطاعت کی روش کو عام کردیں۔ وہ دوسروں کے رنگ میں رنگے جانے کے لیے نہیں ہیں، دوسروں کو اپنے رنگ میں رنگنے کے لیے ہیں:

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰) اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔

یہ ہے مسلمانوں کا اصل مقام …مگر انھیں ڈالا کس راہ پر جا رہا ہے؟ بقولِ اقبال   ؎

کرسکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت

وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو

درحقیقت، مسلمان کے لیے اس سے بڑی ذلّت کوئی نہیں ہوسکتی کہ وہ اللہ کے پیغام کا امین ہونے کے باوجود، زمانے کو اپنے دین کے مطابق بدلنے کے بجاے خود زمانے کی رُو پر بہنے لگے اور اس کے ساتھ اپنے دین کو بھی مسخ کرنے کی کوشش کرے۔ یہ بزدلوں اور کم نظر لوگوں کا طریقہ ہے۔ یہ ان لوگوں کا طریقہ ہے جنھیں ہوائیں خس و خاشاک کی طرح اُڑائے لیے پھرتی ہیں، جن کی اپنی کوئی جڑ نہیں ہے کہ وہ اس پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہوسکیں۔ یہ مسلمان کا شیوہ نہیں ہے، مسلمان کا شیوہ تو یہ ہے کہ  ع

زمانہ با تو نہ سازد ، تو بازمانہ ستیز

                ۱-           

                ۲-           

                ۳-           

                ۴-           

                ۵-           

بنگلہ دیش میں ظلم کا دریا بہے جا رہا ہے۔ ظالم بے حیا ہوتا ہے اور ہٹ دھرم بھی۔ یہی رویہ بنگلہ دیش کے اقتدار پر قابض ایک غیر نمایندہ ٹولہ اپنائے ہوئے ہے۔ وہاں کے مسلمان اپنے لہو کے گھونٹ پیتے ہوئے، بے بسی کے عالم میں دنیاے اسلام اور عالمی ضمیر کی جانب دیکھ رہے ہیں۔

سرزمینِ بنگال پر تحریکِ اسلامی نے ۱۵؍اگست ۱۹۶۹ء کو ڈھاکا یونی ورسٹی سے اپنے پہلے شہید محمد عبدالمالک کی میت اُٹھائی تھی، تو داعیِ تحریک مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے فرمایا تھا: ’’اس راہ میں یہ پہلی شہادت تو ہوسکتی ہے آخری نہیں‘‘۔

درحقیقت وہ مستقبل بین نظروں سے دیکھ رہے تھے کہ مشرقی پاکستان کی سرزمین پر بے دینی، بنگلہ قوم پرستی، اشتراکیت اور ہندو انتہا پسندی نے جس زہر کا بیج بویا ہے، اس کے زہریلے پودے معلوم نہیں اور کتنے حق پرستوں کا لہو پئیں گے۔

اکانومسٹ (لندن) نے  Poisoning the well: Bangladesh کے زیرعنوان  بجاطور پر لکھا تھا:

اس ہفتے کے اختتام پر بنگلہ دیشی سپریم کورٹ، جماعت اسلامی کے سب سے بڑے مالی معاون کی زندگی کے خاتمے کا راستہ صاف کردے گی، وہ جماعت جو بنگلہ دیش میں سب سے بڑی اسلامی پارٹی ہے۔ ایک عدالت [؟] نے میرقاسم علی کو ۱۹۷۱ء میں پاکستان سے علیحدگی کی مزاحمت کرنے پر سزاے موت دے رکھی ہے۔ ان کو پھانسی دینے کا عمل، بے بنیاد (flawed) مقدموں کے سلسلے کی ایک کڑی کو مکمل کرے گا، جسے حسینہ واجد نے ۲۰۰۹ء سے شروع کر رکھا ہے۔ جماعت اسلامی کی تقریباً تمام قیادت کو چور دروازے سے پکڑ کر ڈھاکا سنٹرل جیل میں قید کررکھا ہے۔ …اصول کی بات ہے کہ ظالمانہ آمریت، انتہاپسندی کو جنم دیتی ہے۔ اس طرح کانٹوں سے لتھڑا ’انصاف‘ بنگلہ دیش کو زہریلے کنویں پر کھڑا کرنے جا رہا ہے کہ جہاں سے اسے زہر کے گھونٹ ہی پینا پڑیں گے۔(۲۶؍اگست ۲۰۱۶ء)

اور پھر بنگلہ دیش کی ’سپریم کورٹ‘ نے ۳۰؍اگست کو نام نہاد عدالتی ٹریبونل کے اُس فیصلے (۲نومبر ۲۰۱۴ء) کی توثیق کرتے ہوئے نظرثانی کی اپیل مسترد کر دی، جس کے تحت میرقاسم علی کو سزاے موت سنائی گئی تھی۔ میرقاسم علی کے وکیل خوندکر محبوب حسین نے عدالت کے صدردروازے پر کھڑے ہوکر واشگاف الفاظ میں کہا:

یہ جھوٹے الزامات اور جھوٹی گواہیوں پر مبنی ایک فیصلہ ہے۔ مستقبل میں اور مستقبل کی نسلوں میں جو افراد شعبہ عدل و انصاف میں خدمات انجام دیں گے، ان کے سامنے یہ سوال ،جواب طلب رہے گا کہ کیا واقعی یہ فیصلہ جائز تھا؟ (ڈیلی اسٹار، یکم ستمبر۲۰۱۶ء)

بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر شفیق الرحمٰن نے اسی لمحے اخباری نمایندے سے کہا: ’’یہ حکومت ایک سازش کے تحت جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت کو ایک ایک کرکے پھانسی کے گھاٹ اُتار رہی ہے، اور میرقاسم علی کو بھی اسی سفاکی کی بھینٹ چڑھانا چاہتی ہے۔ حالاں کہ یہ تمام مقدمات جھوٹے، الزامات جعلی اور گواہان کِذب و افترا کی بدترین تصویر پیش کرتے ہیں۔ مگر دوسری طرف سپریم کورٹ حکومت کے خانہ ساز گواہوں اور جعلی ریکارڈ پر مبنی الزامات اورغیرعدالتی عمل پر مبنی فیصلوں کی توثیق کیے جارہی ہے۔ میرقاسم علی ۱۹۷۱ء کے پورے زمانے میں ڈھاکا میں تھے، لیکن ان پر قائم شدہ اور اب سزا کی بنیاد بنائے جانے والے مقدمے چٹاگانگ میں، اور چٹاگانگ ہی کے حوالے سے قائم کیے گئے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس جھوٹے ڈرامے کے لیے، جھوٹے ڈرامائی گواہوں کو تیار کیا اور ان جعلی گواہوں کو وکلاے صفائی کی جرح سے بچاکر میرقاسم کی موت کے لیے مرضی کا فیصلہ لیا گیا ہے، جسے کوئی بھی باضمیر فرد قبول نہیں کرسکتا‘‘۔ (جماعت ویب: ۳۰؍اگست)

یورپی پارلیمنٹ کے ۳۵ ممبران نے حسینہ واجد کو ایک مشترکہ خط میں لکھا: ’’ہم اپنی اس فکرمندی کو بیان کرنا چاہتے ہیں کہ جس کے تحت بنگلہ دیش میں ایک مقامی اور غیرقانونی عدالت میں عدل و انصاف کی دھجیاں اُڑاتے عمل کے ذریعے موت کی سزائیں سنائی جارہی ہیں۔ ہم   بنگلہ دیش حکومت کو انسانی حقوق کی پامالی پر باربار متوجہ کر رہے ہیں، اور یہ بھی بتا چکے ہیں کہ آپ کا خصوصی ٹریبونل عدل، قانون اور بین الاقوامی قانون کے کسی بھی معیار پر پورا نہیں اُترتا، لیکن آپ کے ہاں سے اس عدالت کے نام پر اب تک ۱۷؍افراد کو موت کی سزائیں سنائی جاچکی ہیں، (جن میں سے کچھ پھانسی پاچکے ہیں، کچھ جیلوں میں پھانسی کے منتظر ہیں اور کچھ بیرونِ ملک ہیں)۔ ہم خبردار کرتے ہیں کہ جب تک بنگلہ دیشی انتظامیہ، شفاف عدالتی اور قانونی عمل کے ذریعے میرقاسم علی کے مقدمے کو نہیں سن لیتی، اس وقت تک انھیں انتہائی سزا دینے سے اجتناب برتے۔ اسی طرح ہم میرقاسم علی کے بیٹے بیرسٹر میراحمد بن قاسم کے غیرقانونی اغوا و گرفتاری کی مذمت کرتے ہیں، جو اپنے والد کے مقدمے کی پیروی کر رہے تھے۔ یہ ایک خوف ناک بات ہے کہ اس نوجوان وکیل کو ۹؍اگست [۲۰۱۶ء] سے غائب کرکے، اپنے والد کی وکالت کے حق سے محروم کیا گیا ہے۔ ہم احمد بن قاسم کی بحفاظت واپسی کو یقینی بنانے پر زور دیتے ہیں‘‘۔ (۳۵؍ارکانِ پارلیمنٹ کے دستخط)

یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ان ۳۵؍افراد میں کسی ایک فرد کو پاکستانی نہیں کہہ سکتے، کوئی ایک فرد بھی بنگلہ دیشی نہیں، اور کوئی ایک ممبر مسلمان بھی نہیں۔ یہ معزز ارکان پارلیمنٹ،    (جو یورپ کے مختلف ملکوں سے تعلق رکھتے ہیں) صرف عدل اور انصاف اور انسانیت کے نام پر، بھارت نواز حسینہ واجد کو توجہ دلا رہے ہیں کہ وہ گھنائونے اقدامات سے گریز کرے۔

۳ستمبر کی صبح عالمی ادارے ’ہیومن رائٹس واچ‘ (HRW) نے ایک طویل بیان میں، میرقاسم علی کے مقدمے میں بدنیتی اور عدالتی معاملات میں قانون شکنی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ: ’’سیاسی انتقام بازی کے بجاے قانونی طریق کار کو اختیار کیا اور دنیا بھر کے تسلیم شدہ قانونی اصولوں کو اپنایا جائے‘‘۔ مگر کہاں؟ ڈھاکا کے ایوانِ اقتدار میں ایک ہی زبان بولی جارہی ہے: ’موت!‘

قاسم پور سنٹرل جیل نمبر۲ ڈھاکا کے سپرنٹنڈنٹ پرشانتا کمار نے ۲ستمبر کو۱۱بجے اپنی جیل میں قید میرقاسم علی کو پیغام دیا کہ: ’’صدر سے رحم کی اپیل کے لیے آپ کے پاس وقت ہے۔ اگر اپیل نہیں کریں گے تو کسی بھی وقت پھانسی دی جاسکتی ہے‘‘۔ میرقاسم علی نے بڑے پُرسکون انداز میں موصوف کو جواب دیا: ’’کس جرم پر رحم کی اپیل؟ اور کس سے رحم کی اپیل؟ میں کسی صدر سے اپنی زندگی کی بھیک نہیں مانگوں گا، جب کہ مَیں نے ایسا کوئی جرم کیا ہی نہیں ہے‘‘۔ پرشانتاکمار نے  سہ پہر کے وقت یہ بات ڈھاکا     ٹربیون کے نمایندے کو بتائی۔

پھر سپرنٹنڈنٹ نے ساڑھے تین بجے سہ پہر میرقاسم علی کے اہلِ خانہ کو اس امر کی اطلاع دے دی کہ: ’’صدر سے رحم کی اپیل کی رعایت نہ لینے کے سبب وہ آخری ملاقات کے لیے تیار ہوں‘‘۔ اور اس کے ساتھ ہی ڈھاکا سے شمال کی جانب ۴۰کلومیٹر دُور قاسم پور جیل میں پھانسی دینے کی تیاریاں شروع کر دی گئیں۔

میرقاسم کی اہلیہ نے آخری ملاقات کے بعد کہا: ’’مَیں اپنے اللہ کو گواہ بنا کر کہتی ہوں کہ میرقاسم کو پھانسی دینے والے کبھی کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ میرقاسم بے گناہ ہیں اور اسلام کے لیے جان دے رہے ہیں‘‘۔

آخرکار اس دنیا میں کالے قانون کے علَم برداروں اور کالی حکمرانی کے سوداگروں نے ۳ستمبر ۲۰۱۶ء کو پاکستانی وقت کے مطابق ساڑھے نوبجے رات میرقاسم علی کو پھانسی دے دی___      اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔ ان کی میت پونے تین بجے گائوں مانگ گنج پالا پہنچائی گئی، جہاں ساڑھے تین بجے تدفین عمل میں آئی۔ بنگلہ دیش بھر میں ایک ہزار سے زیادہ مقامات پر ان کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔

میرقاسم علی ۳۱دسمبر ۱۹۵۲ء کو مانک گنج میں پیدا ہوئے اور ہائی اسکول میں ۱۹۶۷ء میں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان سے وابستگی اختیار کی۔ چند برسوں بعد اس کے رکن بن گئے۔ ۱۹۷۱ء میں ڈھاکا یونی ورسٹی میں تھے۔ سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد اپنے گائوں چلے گئے اور پھر ڈھاکا آکر تعلیم کی مکمل کی۔ ۶فروری ۱۹۷۷ء کو ’اسلامی چھاترو شبر‘ کی تاسیس کی۔

میرقاسم علی رفاہِ عام کے کاموں میں ایک بڑی سرگرم شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔ اسلامی بنک بنگلہ دیش کے ڈائرکٹر تھے۔ دگنتا میڈیا کارپوریشن کے چیئرمین تھے، جس کے زیرانتظام بنگلہ دیش کا مشہور نجی چینل ’دگنتا ٹی وی‘ کام کر رہا تھا۔ انھوں نے ’ابن سینا ٹرسٹ‘ کے نام سے ایک بڑا نیک نام ادارہ قائم کیا۔ ’اسلامی انشورنس‘ کے نظام کی داغ بیل ڈالی۔ نظامت ِ دینی مدارس قائم کر کے دینی تعلیم کے نظام کو جدید تعلیم سے ہم آہنگ کیا۔ تعمیرِ مساجد کے لیے تنظیم قائم کی۔  بنگلہ دیش میں رابطہ عالمِ اسلامی کے مرکزی رہنما تھے۔ وہ بنگلہ دیش کی ایسی اوّلین شخصیت تھے، جس نے بڑے پیمانے پر غریبوں کے لیے معیاری ادویات کی مفت اور نہایت سستے داموں ترسیل کا خودکار نظام تشکیل دیا۔

دیانت، محنت، لگن اور حُسنِ سلوک پر مبنی انتظامی صلاحیت کے بل پر، وہ بلاشبہہ بنگلہ دیش جماعت اسلامی سے وابستہ ایک امیرترین شخص تھے، لیکن انھوں نےاپنی دولت کو اپنی آسایش و آرام پر خرچ کرنے کے بجاے جماعت اسلامی کے رفاہی کاموں، یتیموں اور مسکینوں کی امداد کے علاوہ دعوتی کاموں پر خرچ کرنے کو ترجیح دی۔ کروڑپتی انسان ہونے کے باوجود معمولی مکان میں نہایت قلیل سہولیات کے ساتھ قناعت کی زندگی بسر کی۔

۲۰۰۹ء کے بعد جماعت اور جمعیت کے کارکنوں کو، عوامی لیگی حکومت نے جسمانی، تعلیمی اور کاروباری سطح پر بدترین ظلم کا نشانہ بنایا۔ کارکنوں کو بے روزگار کیا۔ بہت سوں کو دانستہ طور پر   دائمی معذوری کے غار میں دھکیل کر زندگی اجیرن بنادی۔ لیکن ایسے ہرکارکن کے لیے میرقاسم علی، ان کی اہلیہ، ان کے بیٹے اور ان کی بیٹیاں ایک دست گیر، ہمدرد اور دردآشنا رفیق کے طور پر،    ایک مالی سرپرست اور شفیق معاون کی شکل میں حتی الوسع اپنی موجودگی کا ثبوت دیتے رہے۔    ان کے بارے میں برطانیہ کے اخبار نے درست لکھا: ’’میرقاسم نے جماعت اسلامی کو اس بحرانی صورتِ حال میں کھڑا رہنے کے لیے گراں قدر رقوم دیں‘‘۔(ڈیلی میل، ۳ستمبر ۲۰۱۶ء)

ایسی بے لوثی اور اتنی بے مثال قربانی کا نُور، ظلم کے سوداگروں کو مجبور کرتا رہا کہ وہ اپنا منہ  نوچ کر رہ جائیں۔ مادہ پرستی میں ڈوبی معاشرت میں ایسا سخی، نہ ان کے تصور میں آسکتا تھا اور نہ وہ اسے برداشت کرسکتے تھے۔ آخر شیطان نے یہی فیصلہ کیا کہ: ’’اس کی جان ہی لی جائے کہ یہ جیل میں قید رہنے کے باوجود، وسائل کو دوسروں پر لُٹا رہا ہے۔ اس کے اداروں کو تباہ اور اس کی جان کو ختم کرنا ہی ’روشن خیالی‘ ہوگی‘‘۔

غربت و ناداری سے برسرِجنگ اس سپہ سالار نے رسولِؐ رحمت کے اسوہ پر عمل کرتے ہوئے، رحمت کی چھائوں سے سبھی کو سیراب کیا، جن میں: مسلمان، ہندو، عیسائی اور بدھ مت کے ماننے والے سبھی شامل تھے۔ ان کا یہ جگمگاتا کردار، بنگلہ دیش میں تحریکِ اسلامی کے لیے مشعلِ راہ تھا۔ اندھیروں کے پجاریوں کے لیے شاید یہی راستہ رہ گیا تھا کہ وہ اس مشعل کو گُل کردیں۔

حالات کا دھارا بتاتا ہے کہ ظلم کی اس داستان کو ابھی: lشہید عبدالقادر مُلّا [۱۲دسمبر ۲۰۱۳ء]l شہید قمرالزماں [۱۱؍اپریل ۲۰۱۵ء]l شہید علی احسن محمد مجاہد [۲۲نومبر ۲۰۱۵ء] lشہید صلاح الدین قادر چودھری [۲۲نومبر ۲۰۱۵ء]l شہید مطیع الرحمٰن نظامی [۱۱مئی ۲۰۱۶ء] اور lشہید میرقاسم علی [۳ستمبر ۲۰۱۶ء] تک نہیں رُکنا تھا، اس لیے یہ بادِ سموم اپنی زہر ناکیوں کے ساتھ اپنے رُوپ بدل بدل کر موجود ہے۔

ایک طرف غم کا یہ پہاڑ اور دوسری جانب میرقاسم بھائی کی شہادت کے اگلے روز بنگلہ دیشی وزیرداخلہ اسدالزماں کا یہ بیان کہ: ’’حکومت وہ تمام اقدامات اُٹھا رہی ہے، جن کے تحت اسلامی چھاترو شبر پر پابندی عائد کر دی جائے گی‘‘(روزنامہ پروتھم آلو، ۵ستمبر ۲۰۱۶ء)۔ ایسے اقدامات جنگل کے قانون اور پاگل پن کے مترادف ہوں گے، جنھیں سادہ الفاظ میں بیان کیا جائے تو کہا جاسکتا ہے: ’’یہ سیکولر فاشسٹوں کی جاہلیت پر مبنی وحشت کے سوا کچھ نہیں، گویا کہ آج کا ’روشن خیال‘ ذہن، اپنے آپ کو تاریکی کے کنویں سے نکالنے کے لیے تیار نہیں‘‘۔

میرقاسم کی شہادت کے چوتھے روز یعنی ۷ستمبر کو بنگلہ دیشی وزیرقانون و پارلیمانی اُمور انیس الحق نے پریس کانفرنس میں اعلان کیا:’’حکومت بڑی عرق ریزی سے ’جنگی مجرموں‘ کی جایدادوں کو ضبط کرنے کا قانون بنارہی ہے‘‘۔ اور ان کے ساتھیوں نے اعلان کیا: ’’ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ان ’جنگی مجرموں‘ کی جایدادوں اور دولت کو ضبط کرکے ۱۹۷۱ء کے متاثرین میں تقسیم کیا جائے‘‘۔(ڈیلی اسٹار، ۸ستمبر ۲۰۱۶ء)

یاد رہے، دو نام نہاد جنگی ٹربیونلوں نے اب تک ۲۶فیصلوں کا اعلان کیا ہے۔ ۵۰ کے مقدمات چل رہے ہیں، جب کہ ۱۷؍افراد کو سزاے موت سنائی جاچکی ہے۔ مذکورہ بالا وزیرقانون نے کہا: اسلامی قانونِ وراثت کے تحت ’مجرموں‘ کے وارثوں میں جایدادیں تقسیم ہوچکی ہیں، جنھیں موجودہ قانون کے تحت واپس نہیں لیا جاسکتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ جنگی جرائم کے تحت ایک نیا قانون وضع کر کے یہ وسائل ان کے وارثوں سے واپس ضبط کرلیے جائیں‘‘ (ڈیلی اسٹار، ۸ستمبر ۲۰۱۶ء)۔اگلے روز یہی وزیرقانون کہتے ہیں: ’’جنگی جرائم کے مجرموں کے بچے معصوم نہیں ہیں۔ وہ سازشوں میں مصروف رہتے ہیں، مگر ہم ان کو بھی نہیں چھوڑیںگے‘‘۔ (ڈیلی اسٹار، ۹ستمبر ۲۰۱۶ء)۔ اس سنگ دلی پر کیا تبصرہ کیا جائے!

نئی دہلی حکومت کے تابع بنگلہ دیشی آلۂ کار انتظامیہ اس کے سوا اور کر ہی کیا سکتی ہے کہ جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈے کو بڑھاوا دینے کے لیے قوم کو تقسیم، پریشان اور متحارب رکھے۔ اسی ذریعے سے بھارت کے لیے سہولت پیدا ہوسکتی ہے کہ وہ ۱۶کروڑ کے بنگلہ دیش کو معاشی و صنعتی ترقی سے محروم اور اپنی تجارتی منڈی بنائے رکھے۔ باہمی فساد کو بنیاد بنا کر اپنی فوجی و سیاسی موجودگی کا جواز قائم کیے رکھے۔

ہماری یہ فکرمندی بے وزن بھی نہیں ہے۔ بھارت جو اپنے تئیں دنیا کی سب سے ’بڑی سیکولرجمہوریہ‘ کہلاتا ہے،وہ عدل کے قتل اور جمہوریت کی بربادی کی ’دہکتی چتا‘ بنگلہ دیش کے بارے میںیہ کہتا ہے:’’بھارتی حکومت بنگلہ دیش میں، ۱۹۷۱ء کے جنگی جرائم کے مقدمات کی بھرپور تائید کرتی ہے‘‘ (وایکاس سروپ، ترجمان وزارتِ خارجہ، دی ہندستان ٹائمز، ۱۰ستمبر ۲۰۱۶ء)۔ اس بیان میں پوشیدہ ڈھٹائی سے کون صاحب ِ نظر انکار کرسکتا ہے۔

اس پر بنگلہ دیش جماعت اسلامی مرکزی شوریٰ کے رکن حمید الرحمان آزاد نے جواب میں کہا: ’’بھارت کی جانب سے بنگلہ دیش میں متنازع مقدمات کی حمایت کا مطلب اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ بھارت جنگی جرائم کے نام پر جماعت اسلامی کی قیادت کو چُن چُن کر مارنے کے اس شیطانی منصوبے کی تائید کر کے: جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کے عالمی اصولوں کو قتل کرنے کا طرف دار ہے‘‘۔ (جماعت ویب: ۱۱ستمبر ۲۰۱۶ء)

مزید ظلم و زیادتی کا یہ پہلو کہ حسینہ واجد حکومت کی ہدایت پر بنگلہ دیش یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن نے ۲۳ستمبر ۲۰۱۶ء کو تمام یونی ورسٹیوں کے نام یہ حکم نامہ جاری کیا:’’ یونی ورسٹی کیمپس میں اسلامی جمعیت طالبات [اسلامی چھاتری شنگھستا] کی جملہ سرگرمیوں کو سختی سے روک دیا جائے‘‘۔

ان تکلیف دہ حالات میں جماعت اسلامی سے وابستہ افراد اور ادارے نبردآزما ہیں۔

               

مُردار، خون، لحم خنزیراور جو کچھ اللہ کے سواکسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، اس کے حرام ہونے کے  احکام دینے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اَلْیَوْمَ یَـئِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِیْـنِکُمْ فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَ اخْشَوْنِ ط (المائدہ۵:۳) آج کفار تمھارے دین کی طرف سے مایوس ہوگئے ہیں، لہٰذا اب تم اُن سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو۔

پہلے لفظ الیوم کا مفہوم سمجھ لیجیے۔

    کبھی الیوم کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ آج کے دن یہ بات ہوئی اور کبھی اس کے معنی ’اب‘ کے ہوتے ہیں، یعنی جس زمانے میں، یا یہ وہ وقت ہے جب یہ واقعہ پیش آیا۔ آپ کہتے ہیں کہ آج حالات یہ ہیں۔ آج دنیا کا رنگ بگڑا ہوا ہے۔ آج لوگوں کی اخلاقی حالت خراب ہو رہی ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ آج کے روز یہ واقعات پیش آئے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ زمانۂ ماضی کا ذکر نہیں بلکہ زمانۂ حال کا ذکر ہے۔ اب وہ حالات ہیں کہ جن میں یہ واقعات پیش آئے ہیں۔

کفار و مشرکین کی مایوسی

اس کے بعد یہ فرمایا گیا کہ آج کفار تمھارے دین کی طرف سے مایوس ہوگئے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ اس سے مراد کوئی خاص دن نہیں ہے کہ جب کفار مسلمانوں کے دین سے مایوس ہوگئے۔ دراصل یہ تاریخ کا ایک خاص دور ،مرحلہ اور stage تھا جس میں کفّار مسلمانوں سے مایوس ہوئے۔

کفّار کے مایوس ہونے کا مطلب کیا ہے؟

ایک وہ وقت تھا کہ کفّار یہ اُمید لگائے بیٹھے تھے کہ ہم لالچ سے، یا دھوکا دے کر، یا دبائو ڈال کر، یا دھمکیاں دے کر کسی نہ کسی طرح سے مسلمانوں کو ان کے دین سے پھیر لیں گے۔     اس اُمید پر وہ لڑ رہے تھے۔اپنی چالیں چل رہے تھے اور اپنی ساری تدبیریں کر رہے تھے اور اسی اُمید پر وہ ظلم و ستم بھی ڈھا رہے تھے۔ وہ مسلمانوں کو طرح طرح کے لالچ بھی دے رہے تھے، فریب بھی دے رہے تھے۔ یہ سارے کام وہ کر رہے تھے۔

ایک مرحلہ وہ آیا جب کفار کو معلوم ہوگیا کہ یہ اب ہلائے ہلنے والے نہیں۔ یہ دین جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں، یہ اب ٹلنے والا نہیں ہے۔ یہ اب قائم ہوگیا ہے اور یہ ہمارے مٹائے مٹ نہیں سکتا۔ مسلمان بھی اسلام پر ثابت قدم ہیں۔ اب ان کو ہٹایا نہیں جاسکتا، اور    دینِ اسلام کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ہماری طاقت سے اب باہر ہوگیا ہے۔

 یہ بات کس وقت پیش آئی؟

روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سورئہ مائدہ کا بڑا حصہ صلح حدیبیہ کے بعد نازل ہوا ہے۔  صلح حدیبیہ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے سورئہ فتح میں صاف الفاظ میں فتح مبین کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ یہ فتح مبین تھی جس سے یہ فیصلہ ہوگیا، پورے عرب کو یہ معلوم ہوگیا، کفار کو بھی معلوم ہوگیا اور مسلمانوں کو بھی معلوم ہوگیا کہ اب کفار کا زور ٹوٹ گیا ہے۔ اب مسلمانوں کی چڑھ بن آئی ہے۔ اب مسلمانوں کے چڑھائو کا وقت ہے اور کفار کے اُتار کا وقت۔ اس موقعے پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دیکھو اب وہ وقت آگیا ہے کہ کفّار تمھارے دین سے متعلق اس بات سے مایوس ہوچکے ہیں کہ وہ اس کو مٹا سکیں۔ تمھارے دین کو اب یہ طاقت حاصل ہوچکی ہے کہ اب یہ کفار کے مٹائے نہیں مٹے گا۔ اب کوئی وجہ نہیں ہے کہ تم ان سے خوف کھائو۔ پہلے توایک آدمی کے لیے اس بات کا خطرہ تھا کہ اگر وہ صاف صاف اور کھلم کھلا احکامِ الٰہی کی پابندی کرے گا تو اس کی پٹائی ہوگی۔ اس کو گھر سے نکال باہر کیا جائے گا۔اس کا مال چھین لیا جائے گا۔ اس کے اُوپر ظلم وستم ڈھائے جائیں گے۔ اس وجہ سے آدمی کے لیے یہ بھی مشکل تھا کہ وہ اسلام قبول کرلے اور کھلم کھلانماز پڑھ سکے۔ ایک وقت ہمارے ملک میں ایسا بھی آچکا ہے کہ ایک مسلمان کو پارکوں میں نماز پڑھتے ہوئے شرم آتی تھی کہ مذاق اُڑایا جائے گا کہ لیجیے مُلّاجی نماز پڑھ رہے ہیں۔ وہاں حالات اس سے زیادہ خراب تھے۔

جب اسلام کی طاقت اتنی زبردست ہوگئی کہ کفار کو معلوم ہوگیا کہ اب یہ ہلائے نہیں ہلتے، اب ان کی ایک مضبوط ریاست قائم ہوگئی ہے۔ اب ان کے پاس وہ طاقت ہے کہ اگر ہم لڑیں گے تو ہمیں یہ شکست دے ڈالیں گے۔ جنگ ِ اَحزاب میں جس وقت کفار اپنا پورا زور لگاکر ناکام ہوکر چلے گئے تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ: اب وہ وقت گیا کہ یہ تم پر    چڑھ چڑھ کر آرہے تھے۔ اب وہ وقت آگیا ہے کہ اب ہم ان پر چڑھائی کریں گے، اور ان کو دفاع کرنا پڑے گا۔

تکمیلِ دین کا تقاضا

جب مسلمانوں کو یہ مقام حاصل ہوگیا تو اللہ نے کہا کہ اب تمھارے لیے میرے احکام کی پوری پوری اور کھلم کھلا تعمیل کرنے کا کوئی عذر باقی نہیں ہے۔ پہلے وقت تھا خطرے کا اور خوف کا، لیکن اب یہ حالت نہیں ہے۔ اب اگر تم پیچھے ہٹے، اب اگر تم نے میرے احکام کی پوری پوری تعمیل کرنے میں تامّل کیا، تو اس کے بعد تم پکڑے جائو گے۔ اب ان سے ڈرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔

اس سے یہ بات آپ کی سمجھ میں آسکتی ہے کہ اگر مسلمان کسی مقام پر ، کسی علاقے میں، دنیاکے کسی ملک میں محکوم ہوں، غلام ہوں، ان کے پاس طاقت نہ ہو، دوسرے کے احکام ان پر جاری ہو رہے ہوں اور ان کے احکام دوسروں پر جاری نہ ہو رہے ہوں، ان کے پاس خود اپنے احکام جاری کرنے کی طاقت نہ ہو، اس وقت مسلمانوں کے لیے اس بات کا عذر ہے اگر وہ کسی حکم کی تعمیل نہ کرسکیں کہ ہم بے بس ہیں، ہمیں کفّار کا خطرہ تھا۔ چنانچہ جن حالات میں مسلمان دبے ہوئے ہوں، مغلوب ہوں، کفار چیرہ دست ہوں اور اسلام کی دشمنی پر تلے ہوئے ہوں، ان حالات میں اگر کچھ احکام پر مسلمان عمل نہ کرسکیں، اپنی پوری کوشش کے باوجود کچھ احکام پر عمل کرنے میں ناکام رہ جائیں، تو ان کے لیے عذر ہے۔

ایک وہ حالت ہوتی ہے کہ کوئی خطرہ نہیں ہے۔ کوئی بیرونی یا اندرونی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ آپ کے پاس وہ طاقتیں موجود ہیں جن سے آپ اپنے معاشرے میں پورے پورے اسلامی احکام نافذ کرسکیں۔ کفّارِ ہند یا کفّار انگریز جن سے آپ کل مغلوب تھے، وہ اب اس بات سے مایوس ہوچکے ہیں کہ پاکستان ختم ہوجائے گا۔ بیرونی دنیا بھی یہ سمجھتی ہے کہ یہ ریاست قائم رہنے کے لیے بنی ہے، اب یہ ختم نہیں ہوسکتی۔ اب مسلمانوں کے پاس اپنی طاقت ہے۔ یہ وہ حالت ہے جس کے بارے میں یہاں یہ بات فرمائی گئی ہے:

فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَ اخْشَوْنِ ط (۵:۳) اب تمھارے لیے کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ تم کسی سے ڈرو، اب مجھ سے ڈرو۔

’مجھ سے ڈرو‘ کا مطلب یہ ہے کہ میرے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تمھیں    مجھ سے ڈرنا چاہیے۔ اب تمھارے لیے عذر کا کوئی موقع باقی نہیں رہا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمانوں کے پاس وہ طاقت آجائے کہ خدا کے سوا کسی سے ڈرنے کی کوئی وجہ باقی نہ رہے، اس صورت میں اگر وہ دنیا کو دیکھ دیکھ کر یا ان سے متاثر ہوکر احکامِ الٰہی میں ترمیمات کرنے لگیں اور احکامِ الٰہی کی پابندی نہ کریں، تو اس کے بعد دنیا میں بھی خدا کے عذاب کا خوف ہے اور آخرت میں بھی۔ اب کون سی معقول وجہ ہے کہ آپ یہ روش اپنائیں۔

یہودی تمام دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ دنیا میں جہاں بھی وہ رہتے ہیں، اپنی بستیاں الگ بساتے ہیں، اپنے محلے الگ بساتے ہیں، ان کی آبادیاں الگ ہوتی ہیں۔ وہ جہاں رہتے ہیں، اپنے لیے ذبیحہ کا پورا انتظام کرتے ہیں جس طرح کہ آپ اس ملک میں کرتے ہیں۔ یورپ کا کوئی ملک ایسا نہیں ہے، امریکا کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہے کہ جس جگہ انھوں نے اپنے ذبیحہ کے خود انتظامات نہ کیے ہوں۔butcher meat مشہور ہے، جسے چاہیے وہ حاصل کرسکتا ہے۔ گویا جس ذبیحہ کو وہ حلال نہیں سمجھتے اسے وہ استعمال نہیں کرتے۔ جس ذبیحہ کو وہ حلال سمجھتے ہیں، ذبیحہ کے جو احکام ہیں اس کے مطابق دنیا کے ہر حصے میں انھوں نے اس کا انتظام کیا ہوا ہے۔

دوسری طرف مسلمانوں کا کیا حال ہے؟ اس وقت انگلستان میں ۳ لاکھ مسلمان ہیں۔ بحیثیت مجموعی اس وقت فرانس میں مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔صرف پیرس شہر میں ۵ لاکھ مسلمان ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ یورپین ممالک میں تو ہمارے حلال کھانے کا حصول بڑا مشکل ہے۔ ہم کیسے کھانا کھائیں؟ ہمارے لیے اس کے سوا کیا چارہ ہے کہ ہم مشینوں کے کٹے ہوئے ذبیحہ کو کھائیں۔ حلال ذبیحہ ہمیں کہاں میسر ہے؟ نتیجہ کیا ہوا کہ علماے کرام بالخصوص مصر اور شام کے علماے کرام نے بے تکلف فتویٰ دے دیا کہ خدا کا نام لیا جائے یا نہ لیا جائے، مشینوں سے ذبح ہو یا ہاتھ سے ذبح ہو، مسلمان ذبح کرے یا غیرمسلم ذبح کرے، کھائو۔

یہ وہ صورتِ حال ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے وارننگ دی تھی کہ اب تمھارے لیے خوف کا کوئی مقام نہیں ہے۔ اب اگر تم نے میرے احکام کی تعمیل میں تامّل کیا تو پھر ڈرو مجھ سے۔ دوسرے الفاظ میں دنیا میں بھی میرے عذاب سے ڈرو اور آخر ت میں بھی میرے عذاب سے ڈرو۔

اس کے بعد فرمایا:

اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط (۵:۳) آج میں نے تمھارے لیے تمھارے دین کو مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی اور تمھارے لیے دین اسلام کو پسند کرلیا۔

یہاں ’آج‘ بھی اسی معنی میں ہے جو میں نے پہلے بیان کیا تھا۔ اس سے مراد کوئی خاص دن نہیں ہے بلکہ تاریخ کا خاص مرحلہ اور ایک خاص دور ہے۔

یہ بھی سمجھ لیجیے کہ یہ آیت دو مرتبہ نازل ہوئی ہے۔ ایک مرتبہ اس سورہ کے نزول کے وقت نازل ہوئی اور دوسرا اس موقعے پر جب ۱۰ہجری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کام مکمل ہوگیا تو یہ نازل ہوئی تھی۔ یہ وقت تھا جب آپؐ آخری حج کر کے مکہ معظمہ سے واپس جارہے تھے۔ صلح حدیبیہ کے بعد لوگوں کی سمجھ میں بات پوری طرح سے نہیں آئی تھی کہ کیا کہا جار ہا ہے۔ جب نبی اکرمؐ کا مشن پوری طرح سے اپنی تکمیل کو پہنچ گیا اور اندھوں کو بھی نظر آنے لگا کہ اب آپؐ کا مشن تکمیل کو پہنچ گیا ہے، اس وقت اس آیت کو پھر دہرایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے تمھارے دین کو مکمل کر دیا۔

دین کو مکمل کرنے کے معنی یہ ہیں کہ تم کو دنیا میں جس جس چیز کی ہدایت کی ضرورت تھی وہ پوری کی پوری ہدایت دے دی گئی ہے۔ جہاں مفصل قوانین بتانے کی ضرورت تھی وہاں مفصل قوانین بتادیے گئے ہیں، جہاں اصول دینے کی ضرورت تھی وہاں اصول دے دیے گئے۔ بہرحال اب تمھارا دین مکمل ہوگیا ہے۔

وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ(۵:۳) اور میں نے اپنی نعمت تم پر تمام کردی۔

اتمامِ نعمت کے دونوں معنی ہیں، یعنی ہدایت کی نعمت بھی تمام کردی، اور تم کو وہ اقتدار بھی بخش دیا جس سے تم میرے احکام کی تعمیل خود کرسکو اور دنیا میں میرے احکام کو نافذ کرسکو۔ اس میں دونوں نعمتیں ہیں، یعنی نعمت ِ ہدایت کی تکمیل بھی، اور اس نعمت کی تکمیل بھی کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو مغلوب نہیں رہنے دیا۔ مسلمانوں کو وہ طاقت عطا فرما دی جس سے ان کو اس حالت سے نکال دیا جس سے وہ اس کے احکام کی تعمیل کرنا چاہتے بھی تو نہیں کرسکتے تھے، اور اس حالت کو پہنچا دیا جس میں وہ اس کے احکام کی تعمیل پوری طرح سے کرسکتے تھے اور دنیا میں اس کے احکام کو نافذ کرنے اور اس کے احکام کو غالب کرنے کے لیے جہاد کرسکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو وہ طاقت عطا کردی۔ تب فرمایا کہ میں نے تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور تمھارے لیے دین اسلام کو پسند کرلیا۔

اضطرار کی کیفیت

فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَۃٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِاِّثْمٍ لا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ  o  (۵ :۳) پھر اگر کوئی شخص مضطر ہو، مخمصے کی حالت میں ہو، بغیر اس کے کہ وہ گناہ کی طرف مائل ہو، تو اللہ غفور و رحیم ہے۔

معلوم ہوا کہ جو چار چیزیں اُوپر بیان کی گئی ہیں، یعنی مُردار، خون، لحم خنزیر اور جو اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، یا جو اللہ کے نام کے بغیر کسی استھان پر ذبح کیا گیا ہو، ان چاروں چیزوں کو حلال کرنے والی وہ حالت ہے جس میں اضطرار لاحق ہو، مخمصے کی حالت ہو، اور آدمی گناہ کی طرف مائل نہ ہو۔ اس صورت میں ان میں سے کوئی ایک چیز اگر آدمی استعمال کرے  تو پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔

یہاں یہ بات بھی سمجھ لیجیے کہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو قطعی طور پر حرام ہیں، کسی حالت میں ان میں اباحت کی گنجایش نہیں نکلتی، جیسے زنا۔ کسی حالت میں اس کے جواز کی کوئی گنجایش نہیں نکلتی۔ کسی حالت میں وہ مباح نہیں ہے۔

بعض چیزیں ایسی ہیں کہ اضطرار کی حالت لاحق ہوجائے تو اس صورت میں ان کی حُرمت میں اباحت ہے۔ حُرمت کا حکم باقی رہے گا لیکن اضطرار کی وجہ سے عارضی طور پر وہ حُرمت ختم ہوجائے گی اور وہ مباح ہوجائے گی جب تک کہ وہ حالت باقی ہے۔ اضطرار اگر لاحق نہ ہو تو حرام چیز کی طرف جانے والا سخت گناہ گار ہے کیوں کہ اس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہوا ہے۔

اضطرار کی حالت میں اگر وہ کوئی حرام چیز کھائے تو اس کے ساتھ شرط کیا ہے؟ فِیْ مَخْمَصَۃٍ ،یعنی ایسا سخت اضطرار ہے کہ جس میں آدمی کے لیے صبر کرنا اور برداشت کرنا ممکن نہ ہو۔ اس کی جان کو خطرہ ہو۔ کوئی ایسی شدید تکلیف ہو کہ وہ برداشت سے باہر ہو، اور اس تکلیف کو رفع کرنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہ ہو کہ حرام شے کو استعمال کیا جائے۔ اس صورت میں آدمی جس قدر ضرورت ہو اس کو استعمال کرسکتا ہے۔

یہاں غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِاِّثْمٍ کی شرط لگائی گئی ہے، یعنی یہ کہ اس وقت بھی آدمی کا دل گناہ کی طرف مائل نہ ہو۔ آدمی یہ خیال نہ کرے کہ چلو اچھا ہوا پانی نہیں مل رہا ہے، سخت پیاس کی حالت ہے، اب اس وقت موقع تو ملا ہے ذرا شراب چکھنے کا۔ اگریہ جذبہ پیدا ہوگیا تو وہ چیز حرام ہوگئی کیوں کہ آدمی گناہ کی طرف مائل ہوگیا۔ اس سے نفرت باقی رہے، آدمی اس کو گناہ سمجھتا رہے کہ یہ حرام ہے، اور یہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ نے جو اجازت دی ہے مجبوراً اس اجازت سے فائدہ اُٹھا رہا ہوں ورنہ ہے تو حرام۔ اگر گناہ کی طرف مائل ہے تو پھر اجازت نہیں۔ مثلاً ایک آدمی کو شدید بھوک لاحق ہوگئی اور اس کو کوئی چیز کھانے کے لیے نہیں مل رہی سواے سور کے گوشت کے۔ اب اس صورت میں وہ اتنا کھائے گا جتنا اس کی جان بچانے کے لیے ناگزیر ہے۔ یہ نہیں کرے گا کہ سیر دو سیر سور کا گوشت حاصل کیا۔ اس کے کچھ کباب بنائے، کچھ شامی کباب بنائے، اس کے ساتھ کچھ پراٹھے تیار کرنے کی فکر کرے اور یہ سوچے کہ ان کے ساتھ کھائوں۔ یہ جائز نہیں ہے۔ گناہ کی طرف اس کی ذرہ برابر رغبت نہیں ہونی چاہیے۔ وہ یہ سمجھے کہ یہ حرام چیز ہے اور مجبوراً اسے کھا رہا ہوں۔

اب اگر ان میں سے کوئی چیز آدمی بغیر کسی اضطرار کے استعمال کرتا ہے، خود انتخاب کرتا ہے کہ میں اب ایسے طریقے سے ذبیحہ کروں گا جس میں تزکیہ نہ ہو، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی اضطرار لاحق نہیں ہے، کوئی مخمصہ لاحق نہیں ہے، صرف گناہ کی طرف جانے کا جذبہ باقی رہ گیا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور جذبہ نہیں ہے۔ ورنہ ایک آدمی ہزار مرتبہ سوچے گا کہ میں اگر کوئی ایسا کام کررہا ہوں جس کے اندر حرام ہونے کا امکان ہو کجا کہ حرام ہونے کا یقین ہو، تو وہ کبھی نہ کرے گا۔

اگر کوئی شخص یا حکمران حلال و حرام کے اتنے واضح احکامات کے بعد بھی حرام کے ارتکاب کی کوشش کرتا ہے، تو یہ اس شخص کا کام ہے جو اللہ تعالیٰ کی بندشوں سے نکل بھاگنے کی سوچ رہا ہو۔ اب تو ہم انگریز یا ہندو سے مغلوب نہیں ہیں۔ اب تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں غلبہ عطا کردیا ہے۔ اب  تو ہمیں وہ طاقت اور وسائل دے دیے ہیں کہ ہم اللہ کے احکامات پر عمل کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔ اب تو ہمیں دنیا میں اللہ کے احکامات کے نفاذ اور اللہ کے دین کے غلبے کے لیے جہاد کرنا چاہیے   نہ کہ ہم حرام کو حلال کرنے کے لیے بہانے تلاش کرتے پھریں۔اب تمھیں کیا اضطرار لاحق ہے یا کون سی مجبوری اور پریشانی لاحق ہے کہ تم حرام کی طرف جارہے ہو۔ ایسی صورت میں کسی آدمی کا  یہ تلاش کرتے پھرنا کہ فلاں چیز کو کسی نہ کسی طرح حلال کرلیا جائے، یہ اس آدمی کا کام ہے جو   اللہ تعالیٰ کی بندشوں سے نکل بھاگنے کی سوچ رہا ہو۔ اس شخص کا کام نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والا ہو۔

اب اگر وہ دنیا کو دیکھ دیکھ کر اور ان سے متاثر ہوکر احکام الٰہی میں ترمیم کرنے لگیں اور احکامِ الٰہی کی پابندی نہ کریں تو پھر اللہ تعالیٰ نے متنبہ کیا ہے کہ اس کے بعد وہ دنیا میں بھی خدا کے عذاب سے دوچار ہوں گے اور آخرت میں بھی خدا کے عذاب کا سامنا کریں گے۔ لہٰذا اب تمھارے پاس کوئی عذر باقی نہیں ہے۔ دانش مندی اور ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ دنیاوالوں سے ڈرنے کے بجاے اللہ سے ڈرو۔ مسلمانوں کی عظمت و سربلندی اور غلبۂ دین کی راہ بھی یہی ہے۔(ریکارڈنگ: حفیظ الرحمٰن احسن ،مرتبین:  ارشاد الرحمٰن ؍  امجد عباسی)

                ماہِ محرم اپنے ساتھ کئی پیغام اور بہت سی یادیں لیے طلوع ہوتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مدینہ ہجرت کے سارے مراحل ذہنوں میں تازہ ہوجاتے ہیں۔ یکم محرم کو اس عظیم ہستی کی یادیں دلوں کو تڑپاتی ہیں کہ جن کے قبول اسلام کے لیے خودآپؐ دُعاگو رہتے تھے۔ جن کی کئی آرا کو رب کائنات نے اپنی وحی اور قرآن کریم کی آیات میں بدل دیا۔ ۱۰ محرم نواسۂ رسولؐ کی عظیم قربانی کی یاد دلاتا ہے کہ انھوں نے اور ان کے جاں نثار ساتھیوں نے سر تو کٹوا لیے لیکن اُس اقتدار کی حمایت و تائید نہیں کی جو آپؐ اور خلفاے راشدین کی راہ سے انحراف کرگیا تھا۔ یومِ عاشورا ءحضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات ملنے کی یاد بھی تازہ کرتا ہے کہ جس پر اللہ کا شکر ادا کرنے کے لیے آپؐ نے ۱۰ محرم کو خود بھی    روزہ رکھا اور اُمت کو بھی ترغیب دیتے ہوئے اسے ایک سال کے گناہوں کا کفارہ قرار دیا۔

  •  ہجرتِ رسولؐ: تاریخ اسلامی کا یہ اہم ترین واقعہ شہر یثرب کے شہرِ روشن (مدینہ منورہ) میں بدلنے کا آغازہے۔ آپؐ اور آپؐ کے صحابہ کرامؓ نے اپنا گھر بار، عزیز و اقارب، حتیٰ کہ خود  بیت اللہ سے دُوری بھی صرف اس ایک عظیم مقصد کی خاطر قبول کرلی کہ اللہ کے حکم کی پیروی کرنا ہے۔

سفر ہجرت کا آغاز ایک ایسے عالم میں ہوا تھا کہ سب قبائل، مکہ کے چنیدہ جنگجو قتل کے ارادے سے آپؐ کے گھر کا گھیراؤ کیے ہوئے تھے۔ خطرہ تھا کہ مکہ سے نکل جانے کے بعد بھی اطمینان سے سفر نہیں کرنے دیا جائے گا، اور ایسا ہی ہوا۔ بھاری انعام کی خبر سفر کی ہر منزل پر پیچھا کررہی تھی۔ لیکن اس عالم میں بھی آپؐ نے اور رفیق سفر نے سفر کی وہ بے مثال تیاری کی تھی کہ  اُس دور میں جس کی مثال نہیں ملتی۔تین روز تک مکہ کے جنوب مغرب میں واقع غار ثور میں قیام کیا تاکہ دشمن تھک ہار کرنامراد ہوجائے۔ اس دوران مکہ کی ایک ایک خبر سے آگاہ رہنے کا انتظام بھی کیا اور خوراک پہنچتے رہنے کا بھی۔ نہ صرف یہ بلکہ ان دو کاموں کے لیے آنے والے عبدالرحمن بن ابی بکر اور اسماء بنت ابی بکر الصدیق کے قدموں کے نشان تک مٹا دینے کا انتظام کیا گیا۔ صدیق اکبر کا غلام ان کے پیچھے پیچھے بکریوں کا ریوڑ لے آتا کہ معزز ہستیوں کو تازہ دودھ بھی میسر آجائے اور آنے والوں کے قدموں کے نشان بھی مٹ جائیں۔ سرِراہ مل جانے والے بدوؤں سے گفتگو کرتے ہوئے خصوصی احتیاط برتی کہ بلاضرورت تعارف کسی دشمن تک نہ پہنچ جائے۔ اس دور میں کہ جب کوئی لفظ لکھنے کے لیے کئی جتن کرنا پڑتے تھے، سفر تو کجا حضر میں بھی لکھنے پڑھنے کے لوازمات فراہم کرنا،   جوے شیر لانے سے کم نہ تھا۔ آپ نے سامان کتابت زاد راہ میں شامل رکھا۔ سراقہ بن مالک نے جب سنا کہ چند کوس سے دو مسافر گزرے ہیں تو فوراً اندازہ لگالیا کہ وہی قریشی سردار ہوسکتے ہیں، جن کی گرفتاری پر سردارانِ مکہ نے بھاری انعام رکھا ہے۔ پیچھا کرنے، زمین میں دھنس جانے، اور قیصر و کسریٰ کے کنگن ملنے کی خوش خبری ملنے پر تقاضا کردیا کہ یہ بشارت مجھے لکھ کر عنایت فرما دیجیے۔ یارِ غارؓ نے اس عالم میں بھی عبارت لکھ کرنبی أمّیؐ کی مہر ثبت کردی۔

سوچنے کی اہم ترین بات یہ ہے کہ رب کائنات اشارہ کرتا تو یہاں بھی کوئی بُراق پلک جھپکنے میں ساری منزلیں طے کروادیتا۔ مگر ارادۂ الٰہی یہ تھا کہ دنیا کو ہر ممکن انسانی اسباب فراہم کرنے کا درس و سلیقہ عطا کیا جائے۔

مکہ میں اہل ایمان کے لیے جینا محال ہوگیا تو آپؐ نے طائف کا رخ کیا، وہاں لہولہان کردیے گئے تو مکہ آنے والے ایک ایک قافلے کے پاس جاکر دعوت پیش کی۔ بالآخر بیعت عقبہ ہوئی، اور پھر چھے خوش نصیب افراد نے یثرب کی قسمت بدل دی۔ دعوت دین اور بندوں کو رب کی طرف بلانے کا یہ فریضہ آپؐ نے اس طور ادا کیا کہ سفر ہجرت کے دوران بھی اس کا اہتمام کیا۔ حضرت بُریدۃ الاسلمیؓ نے اسلام قبول کیا اور اپنے پورے قبیلے کی ہدایت کا ذریعہ بن گئے۔    سفر ہجرت سے اللہ تعالیٰ نے قائد اور کارکنان کے لیے بھی اسوۂ حسنہ کا انتظام کرنا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور قائد بھی سفر کی مشقت اور خطرات کی انھی منزلوں سے گزرے کہ جن سے کارکنان اور اُمتی گزررہے تھے۔ سفر ہجرت نے اپنے رب کی نصرت پر  کامل یقین و اعتماد کی اعلیٰ ترین مثال بھی پیش کرنا تھی۔ غار ثور میں دشمن سر پر پہنچ گئے۔ یارِ غارؓ نے سرگوشی کی: ’’یارسولؐ اللہ! ان میں سے کسی کی نگاہ اپنے پاؤں کی طرف پڑگئی تو ہم گرفتار ہوجائیں گے۔ رسولِؐ حق نے کامل وثوق سے فرمایا: مَا ظَنُّکَ بِاثْنَیْنٍ اللہُ ثَالِثُہُمَا لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللہَ مَعَنَا’’ابوبکر! ان دو کے بارے میں کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ تعالیٰ ہے۔ غم نہ کریں اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘۔ رب کائنات نے اس پورے مکالمے کو بھی نہ صرف قرآن کی وحی بنا دیا، بلکہ تاقیامت یہ اعلان بھی فرمادیا کہ رسولؐ کا ساتھ دے کر اور ان کے راستے پر نہ چل کر خود ہی محروم رہو گے۔ انھیں کوئی گزند نہیں پہنچا سکو گے۔ان کے لیے اللہ کافی ہے۔

ہجرت کی یاد سے شروع ہونے والا نیا سال ہر سال یہ منادی بھی کرتا ہے کہ اے بندگانِ خدا تمھیں ملنے والی مہلتِ زندگی کا ایک سال مزید کم ہو گیا۔ سال گذشتہ میں روپذیر ہر کوتاہی پر استغفار کرتے ہوئے، نئے سال کو بندگی کے نئے عزم سے شروع کیجیے۔ نئے سال کا پورا دفتر خالی ہے، اسے گناہوں سے بچانا ہی اصل کامیابی ہوگی۔ گذشتہ ساری زندگی جو اجر و منزلت اور کامیابیاں حاصل نہیں کرسکے، اب پھر موقع مل رہا ہے اسے غنیمت جانو۔

ارشادِ نبویؐ ہے: پانچ چیزیں، پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو: lبڑھاپے سے پہلے جوانی lبیماری سے پہلے صحت lفقر سے پہلے مال داریl مصروفیت سے پہلے فراغت اور lموت سے پہلے زندگی۔  نہ جانے کب ان نعمتوں میں سے کون سی واپس لے لی جائے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دُعاگو رہتے: اَللّٰہُمَّ اِنِّی اَعُوْذُ بِکَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِکَ،’’ اے اللہ آپ کی عطا کردہ نعمتوں کے زوال سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں‘‘۔

  •  شہادتِ عمر فاروقؓ: حضرت عمر بن الخطابؓ جنھیں اللہ نے حق و باطل کا فرق واضح کرنے کا ذریعہ اس طرح بنایا کہ لقب ہی ’الفاروق‘ ہوگیا۔

سیرتِ فاروقؓ بھی سیرتِ رسولؐ کا جزو لازم ہے۔ آپ کے قبول اسلام سے اہل ایمان کو وہ ہیبت و عزت عطا ہوئی کہ اس سے پہلے نہیں ہوئی تھی۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’ہم نہ تو بیت اللہ کا طواف کرسکتے تھے نہ وہاں جاکر نماز ہی پڑھ سکتے تھے، یہاں تک کہ عمر بن الخطابؓ نے اسلام قبول کرلیا‘‘۔ وہی اہل مکہ جو کسی کے قبول اسلام کی بھنک پڑجانے پر اس پر ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑ دیتے تھے، اُن میں سے ایک ایک کے دروازے پر خود جاکر بتایا: سنو! مَیں مسلمان ہوگیا ہوں۔ یہ صدمہ خیز خبر سن کر بس اتنا کہ کر دروازہ بند کرلیتے ’’نہیں … ایسا نہ کرو‘‘۔ مکہ کے اس تاریخی دن سے لے کر مدینہ میں شہادت کے آخری لمحے تک اس عظیم شخصیت نے اہل اسلام اور اسلامی ریاست کی تعمیر و ترقی کی خاطر ایک سے بڑھ کر ایک سنہری باب رقم کیا۔  ہجری تاریخ کا آغاز بھی آپ ہی کے دورِ امارت میں ہوا۔ ایک بار ایک تحریر آئی جس پر ’شعبان‘ لکھا تھا۔ آپ نے صحابہ کرام کو جمع کرکے مشورہ کیا کہ یہاں ’شعبان‘ سے مراد گذشتہ شعبان ہے یا آیندہ؟ پھر فرمایا کہ ہمیں سالانہ تاریخ، یعنی کیلنڈر کا تعین کرنا چاہیے۔ مختلف تجاویز آئیں۔ حضرت علی بن طالبؓ نے ہجرتِ نبویؐ کا مشورہ دیا۔ آپؐ نے اس کی تحسین کی اور اسی پر سب کا اجماع ہوگیا۔

۱۴۳۸ہجری شروع ہونے پر جائزہ لیں تو جدید سے جدید فلاحی ریاستوں کے بہت سارے اقدام وہ ہیں جو اس عبقری شخصیت نے شروع کیے تھے۔ ان تمام اقدامات کے پیچھے اصل قوت محرکہ بھی اللہ کے عذاب کا خوف اور اس کی جنت کی طلب کے سوا کچھ نہ تھا۔

شام ڈھلے ایک قافلہ مدینہ اُترا تو سربراہ ریاست نے عبدالرحمٰن بن عوف سے کہا کہ اجنبی قافلہ ہے، ان کی دیکھ بھال اور پہرے کی خاطر آج رات ہم ڈیوٹی دیں گے۔ کچھ رات ڈھلے  ایک بچہ شدت سے رونے لگا۔ فاروق اعظمؓ نے قریب جا کر ماں سے مخاطب ہوتے ہوئے پکارا: ’’اللہ سے ڈرو، بچے کا دھیان رکھو، اسے کچھ کھلاؤ پلاؤ‘‘۔ اگلے پہر اسی بچے کی آواز دوبارہ آئی تو پھر جاکر ماں کو متوجہ کیا: ’’کیسی ماں ہو؟ بچے کو چپ نہیں کرواتی؟‘‘ ماں نے افسردہ آواز میں کہا: ’’اس کا دودھ چھڑوایا ہے لیکن یہ کچھ اور کھا پی نہیں رہا‘‘ کتنی عمر ہے بچے کی؟ ابن الخطاب نے دریافت کیا۔ اتنے ماہ، ماں نے بتایا۔ اتنی چھوٹی عمر میں دودھ کیوں چھڑوارہی ہو؟ ماں نے تڑپ کرکہا: کیوں کہ عمر بن الخطاب نے بچوں کا دودھ چھڑوانے پر ہی ان کے لیے وظیفہ جاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔ رات گزر گئی۔ فجر کی جماعت کرواتے ہوئے امیر المؤمنین کی تلاوت بار بار ہچکیوں میں ڈوب جاتی تھی۔ نماز پڑھائی اور پھر پکار کر کہا: عمر تو تباہ ہوگیا۔ نہ جانے اس نے کتنے بچے مار ڈالے ہوں گے۔ آیندہ ہر بچے کی پیدایش ہی سے اس کا وظیفہ بیت المال سے جاری ہو جائے گا۔ مائیں اپنے بچوں کو پورا عرصۂ رضاعت دودھ پلایا کریں۔

ایک ایک قافلے اور ایک ایک بچے کی خبرگیری سے لے کر قیصر ، روم اور کسری فارس کے تاج و تخت فتح کرنے تک وہ اپنی مثال آپ تھے۔ ساڑھے دس سالہ دور خلافت میں اسلامی ریاست سب سے مضبوط عالمی قوت بن گئی۔

آخری حج کیا تو بے اختیار یہ دُعا بھی کی کہ پروردگار موت آئے تو شہادت کی موت آئے اور اپنے نبی کے شہر میں مرنا نصیب فرما۔ سننے والوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ شہادت کے لیے تو میدان جہاد کی طرف جانا ہوگا۔ آپ اپنے حبیب کے شہر میں شہید ہونا چاہتے ہیں..؟ ذی الحج کے چند ہی روز باقی تھے کہ محراب نبیؐ میں امامت کرواتے ہوئے امیر المومنین پر ایک مجوسی ابولولوہ فیروز نے دو دھاری خنجر سے حملہ کرتے ہوئے شدید زخمی کردیا۔ ۱۳ مزید نمازی بھی زخمی کردیے جن میں سے سات شہید ہوگئے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے بعد میں قاتل کے بارے میں پوچھا کہ کون تھا؟ جواب سننے پر بے اختیار فرمایا: الحمدللہ کسی مسلمان نے اس جرم کا ارتکاب نہیں کیا۔ شہادت کی دہلیز پر بیٹھے امیر المؤمنین کے یہ چند الفاظ مسلمانوں کے مابین قتل و غارت کی سنگینی واضح کرنے کے لیے کافی ہیں۔ یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت صدیق اکبر اور حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہما دنیا سے رخصت ہوئے تو تینوں کی عمر۶۳ برس تھی۔

  •  عاشوراء: آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے تو ایک روز یہودیوں کو روزہ رکھتے ہوئے دیکھا، دریافت کرنے پر بتایا گیا کہ آج ۱۰محرم الحرام ہے اور آج کے دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی اور بنی اسرائیل کو فرعون پر غلبہ اور اس کے ظلم سے نجات دی تھی۔ ہم اس دن شکرانے کے طور پر روزہ رکھتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: اپنے بھائی موسٰی سے اظہار وفا و محبت کے لیے مَیں تم سے زیادہ حق دار ہوں۔ آپؐ نے بھی روزہ رکھا اور فرمایا کہ زندگی رہی تو یہودیوں کی مشابہت سے بچنے کے لیے آیندہ سال اس کے ساتھ ایک اور دن ملا کر روزہ رکھوں گا (آئیے ہم بھی اپنے حبیب کی اس سنت کو زندہ کرتے ہوئے عاشوراء کے دو روزے ضرور رکھیں)۔ سبحان اللہ آپؐ عبادات میں بھی قوم یہود کی مشابہت سے اتنے محتاط و خبردار تھے، لیکن آج ہم اُمتی گناہوں اور اللہ کی نافرمانی میں یہودیوں، ہندوؤں اور تمام باغیانِ رب العالمین کی پیروی کرنے میں شرم محسوس نہیں کرتے۔
  •  شہادت جگر گوشۂ رسولؐ:یہ المیہ اور سانحہ بھی ہماری تاریخ کا بدنما داغ بننا تھا کہ شخصی اقتدار کی خاطر نواسۂ رسولؐ اور ان کے پورے خانوادے سمیت صحابہ کرامؓ کو شہید کردیا گیا۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھیوں کی شہادت جب بھی یاد آئے تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ہر صاحب ِایمان اس پر غمگین ہوتے ہوئے سوچتا ہے کہ نواسۂ رسولؐ کو شہید کرنے والے اپنے نبیؐ کا سامنا کس منہ سے کر پائیں گے! ۱۰ محرم کو نانا اور نواسوں کے مابین شفقت ومحبت کے وہ تمام مناظر بھی نگاہوں میں تازہ ہوجاتے ہیں،جو تمام صحابہ کرامؓ کے لیے راحت ومسرت کا سبب بنا کرتے تھے۔ لیکن یہ بھی ایک دردناک حقیقت ہے کہ ہم تاریخ کے اس تلخ باب سے سبق حاصل کرنے اور مزید ہلاکت وتباہی سے بچنے کے بجاے انھی اختلافات کو مزید ہوا دیتے ہیں کہ جن کا نتیجہ اُمت نبیؐ کی مزید تقسیم اور مزید خوں ریزی ہی میں نکل سکتا ہے۔انتہائی بدقسمتی ہے کہ شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کا پورا باب بھی لایعنی خرافات اور خود ساختہ قصہ گوئی کی نذر کر دیا گیا ہے۔

حضرت امام حسینؓ اور ان سے پہلے حضرت امام حسنؓ نے آخری لمحے تک مسلمانوں کے مابین فتنہ واختلاف ختم کرنے کی کوشش کی تھی۔ خط بھیج بھیج کر بلانے والے اہل کوفہ بھی جب    بے وفائی کا عنوان بن گئے تو آپ نے مدینہ واپس لوٹ جانے سمیت ان کے سامنے وہ تمام ممکنہ صورتیں تجویز کردیں کہ جن کے نتیجے میں قتل وغارت سے بچا جاسکتا تھا۔ لیکن فتنہ جُو عناصر نے   ان میں سے کوئی کوشش کامیاب نہ ہونے دی۔ ان کی اکلوتی شرط یہ تھی کہ نواسۂ رسولؐ اور دیگر  صحابہ کرامؓ آمرانہ اقتدار کی بیعت کرلیں، امام ذی شان نے جسے یکسر مسترد کردیا۔ جامِ شہادت نوش کرلیا لیکن صفحۂ تاریخ پر یہ بھی ثبت کردیا کہ   ؎

قتلِ حسینؓ اصل میں مرگِ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتاہے ہر کربلا کے بعد

  •  ماہِ     محرم    اور   آج کی دنیا: ملتے جلتے فتنہ جُو سازشی عناصر کی دسیسہ کاریاں آج بھی اُمت مسلمہ کا جسد چھلنی کر رہی ہیں۔ سوے اتفاق سے امت مسلمہ ایک بار پھر ایسے تلخ ترین صدمے جھیل رہی ہے کہ جن کا نتیجہ ابھی سے واضح طور پردکھائی دے رہا ہے۔ سابق صہیونی وزیر دفاع موشے دایان نے ۶۷ء کی جنگ میں عربوں پر حملہ کرنے کی اپنی ساری حکمت عملی ایک صحافی کے سامنے کھول کر رکھ دی۔صحافی نے حیرت سے پوچھا یہ تو کوئی خفیہ راز ہونا چاہیے تھی، آپ شائع کروا رہے ہیں؟ اس نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا:’’اول تو عرب پڑھتے ہی نہیں ، پڑھ لیں تو سمجھتے نہیں، اور سمجھ ہی لیں تو عمل نہیںکرتے ‘‘۔ قطع نظر اس سے کہ دشمن کا یہ استہزائیہ جملہ اپنے اندر کتنی حقیقت رکھتا ہے ہمیں اس سے سبق لینا چاہیے۔ یہ بات اب کوئی راز نہیں کہ عالم اسلام کو مزید تقسیم کرنے کا منصوبہ تقریباً ربع صدی سے معلوم ومعروف ہوچکا ہے۔ ۱۹۱۶ء کے معروف عالمی گٹھ جوڑ کے پورے ۱۰۰سال بعد ۲۰۱۶ء میں ایک تازہ نقشہ خطے پر عملاً مسلط کیا جا رہا ہے۔ عالمی قوتیں    اس منصوبے کے مطابق وسیع تر مشرق وسطیٰ، یعنی پاکستان سے ترکی تک اور وسطی ایشیا سے    شمال مغربی افریقہ تک کے ممالک کو مزید ٹکڑیوں میں تقسیم کرنا چاہتی ہیں۔ تقسیم در تقسیم کا یہ ناپاک منصوبہ اسی صورت حقیقت بنایا جا سکتا ہے کہ ایک رب، ایک نبیؐ، ایک قرآن، ایک قبلہ رکھنے والی اُمت کو مذہب ، فرقہ ، نسل ، زبان اور علاقائی بنیادوں پر ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنادیا جائے۔

ذرا صہیونی روزنامے یدیعوت احرونوت میں شائع شدہ سابق صہیونی وزیر داخلہ جدعون ساعد اور جنرل(ر) جابی سیبونی کے مشترکہ مقالے کا شائع شدہ خلاصہ ملاحظہ فرمائیے جو انھوں صہیونی قومی سلامتی کے ریسرچ سنٹر کے لیے تیار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ’’ شمالی عراق اور شام میں ایک نئی کرد ریاست، اس کے مغرب میں علوی، جنوب اور مشرق میں دُرزی اور وسطی علاقے میں سُنّی ریاست کا قیام صہیونی ریاست کی اسٹرے ٹیجک ضرورت ہے‘‘۔ ادھر امریکا کے سابق نائب وزیر خارجہ کا ارشاد ہے کہ ’’ یمن کو متعدد چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کردینا ہی تنازعے کا سب سے بہتر حل ہے‘‘۔ متعدد اسرائیلی تحقیقی مراکز کی یہ تجاویز اب ایک کھلا راز ہیں کہ گذشتہ صدی کے اوائل میں صہیونی ریاست کے گرد قائم کیے جانے والے ممالک اب تشکیل نو کے محتاج ہیں۔ ان ممالک کو مذہبی اور نسلی بنیادوں پر قائم باہم متصادم مختصر ریاستوں میں بدلنا ہماری ترجیح اول رہنا چاہیے‘‘۔

معروف عبرانی ویب سائٹ ہیڈبروٹ نے حال ہی میں ’خدشہ‘ یا ’اُمید‘ ظاہر کی ہے کہ عنقریب سعودی عرب اور ایران میں خوف ناک جنگ بھڑکنے والی ہے جس میں ایٹمی ہی نہیں کیمائی اور حیاتیاتی اسلحہ بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ ساتھ ہی ان امریکی تجزیوں ، مقالوں اور کتابوں                                                                                               کی اشاعت میں تیزی آگئی ہے جن میں بالخصوص سعودی عرب کو تنقید وتشنیع کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ امریکا میں قانون سازی ہو رہی ہے کہ نائن الیون میں مرنے والوں کے ورثا اب سعودی عرب سے بحیثیت ریاست تاوان اور خون بہا کا مطالبہ کر سکیں گے۔ امریکی دانش وَر سارہ چیکس (Sarah Chaycs) اور ایلیکس دوول کی مشترکہ ریسرچ کا عنوان ہی ساری حقیقت بیان کررہا ہے: Start Prepairing for the collapse of the Saudi Kingdom' (سعودی مملکت کے خاتمے کی تیاری کر لیجیے)۔ معروف امریکی تھنک ٹینک ’رینڈ کارپوریشن‘ نے US Strategy in the Muslim World After 9/11  (نائن الیون کے بعد عالم اسلام میں امریکی حکمت عملی) کے عنوان سے اپنی سفارشات میں لکھا ہے: ’’امریکا مسلمانوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کو استعمال کرے‘‘۔ رپورٹ کے مطابق شیعہ سُنّی، جدید و قدیم، اور علاقائی طاقتوں کے نفوذ پر مشتمل جھگڑوں کو بڑھانا اور اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا ہوگا۔ سفارشات میں ’مدارس کی اصلاح‘ کے نام پر تجویز کیا گیا ہے کہ مغرب اور امریکا کے خلاف پائے جانے والے جذبات پر قابو پانے کے لیے نصاب میں تبدیلی اور مساجد کے سرکاری ائمہ میں اضافہ کرنا ہوگا۔ ۲۰۰۳ء میں بھی یہی امریکی ادارہ اسلامی تحریکات اور روایتی علماے کرام کے مقابلے میں ’روشن خیال‘ اور ’صوفی‘ اسلام عام کرنے کی تجویز دے چکا ہے۔ بعد میں جناب پرویز مشرف سمیت کئی حکمران انھی الفاظ کی جگالی کرتے رہے۔ قرآن کریم بتا تا ہے کہـ:  قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآئُ مِنْ اَفْوَاھِھِمْ ج وَمَا تُخْفِیْ صُدُوْرُھُمْ اَکْبَرُ ط ( اٰل  عمرٰن۳:۱۱۸) ’’ان کے دل کا بُغض ان کے منہ سے   نکلا پڑتا ہے اور جو کچھ وہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں وہ اس سے شدید تر ہے‘‘۔

دشمنوں سے کیا شکوہ … ان سے عداوت کے علاوہ اور کس چیز کی توقع کی جا سکتی ہے۔ حالیہ حج کے موقعے پر اعلیٰ ترین شیعہ پیشوا آیت اللہ خامنہ ای اور ان کے بعد درجنوں شیعہ رہنماؤں کے بیانات دیکھ لیجیے۔ سعودی حکمران خاندان سے لے کر نعوذ باللہ خود حرمِ مکہ کے بارے میں کیا کیا الفاظ اور کارٹون نہیں شائع ہوگئے۔ سعودی عرب کے خلاف انتہائی جذباتی جنگی ترانوں کی بھرمار ہے۔سعودی مفتی اعظم عبد العزیز آل شیخ نے بھی ترت جواب دیتے ہوئے ان سب کو خارج از اسلام قرار دے دیا۔ حج کوٹے کے لیے ایران و سعودی عرب کے درمیان ہونے والے مذاکرات بوجوہ ناکام ہوگئے۔ اگرچہ ایرانی حجاج کی ایک بڑی تعداد عراقی اور شامی دستاویزات پر حج کے لیے آئی، لیکن براہ راست اور غالب اکثریت کی حج میں عدم شرکت کو بھی طرفین نے ایک دوسرے کے خوب لتے لینے کا ذریعہ بنائے رکھا۔ اس تناؤ اور جھگڑے کا ایک مظہر یہ بھی سامنے آیا کہ عین حج کے دن(۹ ذی الحج) کو کربلا میں شیعہ زائرین کا لاکھوں کا اجتماع منعقد ہوا۔ اپنے معتقدات کے مطابق اس اجتماع پر کوئی اعتراض نہیں کیاجاسکتا لیکن گذشتہ تقریباً تین سال سے ایک پوری تبلیغاتی مہم یہ چلائی جا رہی ہے کہ آخر ہم حج وعمرے کے لیے جاتے ہی کیوں ہیں؟ اس سے سعودی عرب کو معاشی فائدہ ہوتا ہے۔ اور دوسرے یہ کہ ’’زیارِت کربلا کا اجر ۱۰لاکھ حجوں کے اجر سے بھی زیادہ ہے‘‘۔ اس آخری بات پر مشتمل لا تعداد تقاریر کی ویڈیو عام کی جارہی ہیں۔

ادھر شام میں بشار الاسد اور روس مسلسل بم باری کررہے ہیں ۔ انھیں امریکا کی بالواسطہ حمایت حاصل ہے (بدقسمتی سے ایران بھی ان کا بھرپور اور علانیہ ساتھ دے رہا ہے)۔ شام کا شہر ’حلب‘ ماہِ ستمبر میں اس تباہی کا خصوصی نشانہ بنا۔ ۹۰سے زائد شہدا تو صرف ۲۴ستمبر کو ہوگئے    جن میں اکثریت بچوں کی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں روزافزوں بھارتی درندگی، پاکستان کو ملنے والی مسلسل اور سنگین دھمکیاں، مصر اور بنگلہ دیش میں ہزاروں بے گناہوں کی قید اور پھانسیاں اور مختلف ممالک کی جانب سے ان کی حوصلہ افزائی، پاکستان اور ترکی میں دہشت گردی کی مسلسل کارروائیاں …کیا ہم دشمن کی کسی مزید سازش کے محتاج ہیں؟

نیا ہجری سال، ہجرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد، سیرت فاروق و حسین (رضی اللہ عنہما) اور یومِ عاشور کی اہمیت ہمیں جھنجھوڑتے ہوئے اس تباہی سے بچ جانے کی دہائیاں دے رہی ہے۔ اگر ہم شہادتِ امام حسینؓ سے یہ روح و جذبہ حاصل کرلیں کہ اقتدار کو سنت ِ نبویؐ اور خلفاے راشدینؓ کی منہج پر واپس لانے کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے، اگر ہم ریاست مدینہ کے   قیام و دفاع کی سنت نبویؐ و فاروقی کی راہ اپنالیں، تو پھر تمام تر آزمایشوں اور تباہی کے باوجود آج کے فرعونوں پر غلبہ یقینی ہوگا۔

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ  (النور۲۴: ۵۵) تم میں سے ایمان لانے اور عملِ صالح کرنے والوں سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ انھیں زمین میں اقتدار عطا کرے گا۔

۱۹۹۷ء میں جون، جولائی کے گرم ترین دن تھے۔ جھلساتی دھوپ اور گرم ہواؤں کے تھپیڑے انسان کو حواس باختہ کررہے تھے۔ اس پر ستم یہ کہ صبح سات بجے ہی کالج کے لیے نکلنا پڑتا تھا۔دن کا کھانا تو دور کی بات ،چائے ناشتہ بھی ہمیں کم ہی نصیب ہوتا تھا۔گرم ہوا کے تھپیڑے تو پھر بھی قابل برداشت تھے، لیکن گرم حالات کے تذلیل آمیز تھپیڑے دن میں ہزار مرتبہ زندہ درگور کردیتے تھے۔ میں بی ایس سی فسٹ ائیرکا طالب علم تھا۔ ہمارے قریب ہندواڑہ اور کپواڑہ میں کالج تھے، لیکن اُن میں سائنس نہیں پڑھائی جاتی تھی۔ اس لیے سائنس کے شوقین ضلع بھر کے تمام طلبہ و طالبات کو سوپور، بارہمولہ یا پھر سرینگر کا رُخ کرنا پڑتا تھا۔

اکثر طلبہ و طالبات سوپور جانا ہی پسند کرتے تھے، کیونکہ سرِشام واپس گھر پہنچ جاتے تھے اور کرایے کے کمروں کا خرچ بچ جانے کے علاوہ نامساعد حالات میں والدین بھی اپنے نوجوان بیٹوں اور بیٹیوں کو ہر روز اپنے سامنے ہی دیکھنے کے خواہاں ہوتے تھے۔حالات ایسے تھے کہ روزانہ ہی کالج کے راستے میں کہیں نہ کہیں فائرنگ ہوجاتی،گولیاں برستیں اور بے گناہوں کی لاشیں گرتی تھیں۔ کریک ڈائون تو روز کا معمول ہوتے تھے۔

ہم طالب علم اپنے فاتح ہونے کا جھنڈا اُس وقت گاڑ دیتے تھے، جب ہم کریک ڈائون کے دوران بھارتی فوج کے وردی پوشوں کے بڑے صاحب کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہوجاتے تھے کہ’’ آج ہمارا پریکٹیکل کا امتحان ہے، اس لیے کالج جانا لازمی ہے‘‘ اور وہ ہماری ہتھیلیوں پر  سیاہ رنگ کے ’مار کر‘ سے دستخط کرکے ہمیں جانے کی اجازت دیتا تھا۔ سیاہی کی اُن ٹیڑھی میڑی لکیروں میں ہماری ’رہائی‘ کا پروانہ ہوتا تھا، کہ بڑے صاحب کے یہ دستخط راستے میں کھڑے وردی پوشوں کو دکھا کرہم نکل جانے میں کامیاب ہوجاتے تھے۔ پھر دن بھر اپنی اس ہوشیاری کا چرچا رہتا تھا لیکن کبھی کبھی چال اُلٹی بھی پڑجاتی تھی۔ جس دن اُن کا موڈ آف ہوتا تھا توایسی کوئی چالاکی نہیں چلتی تھی اور نہ ہم ایسی کوئی چالاکی دکھانے کی جرأت کرتے تھے بلکہ جتنی بھی تسبیح اور کلمات یاد ہوتے، اُن کا ورد کرتے اور اللہ سے اپنی حفاظت کی دعائیں کرتے ۔پھر بھی ہفتے میں دو ایک بار تھپڑوں، گھونسوں ، لاٹھیوں اور لاتوں سے ہماری خاطر داری ہوہی جاتی تھی۔

نوجوانی اور کالج جانے والے لڑکوں کا منچلا پن ہمارے اُس احساس اور سوچ کو سراُبھارنے ہی نہیں دیتاتھا، جو کبھی کبھی خودآگہی کے ذریعے سے ہمیں یاد دلاتا تھا کہ تمھاری اپنی ہی سرزمین پر دن میں ہزار بار دیارِ غیر سے آنے والے یہ وردی پوش تمھاری تذلیل کرتے ہیں، تمھارا مذاق اُڑاتے ہیں، تمھاری عزت ِ نفس کا جامہ تارتار کرتے ہیں اور تم ایسے ہو کہ اپنی بے بسی پر سوچنا بھی چھوڑ دیا ہے‘‘۔ہم اکثر اپنی اس بے بسی اور بے کسی کے ان تلخ واقعات سے دل بہلانے کے عادی بن چکے تھے۔حالانکہ حالات میں کچھ اور انداز کی تبدیلی آگئی ہے۔ ڈیڑھ عشرہ گزرجانے کے بعد آج کے نوجوان سینہ ٹھونک کر ظلم و زیادتیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہیں، بندوق کا مقابلہ سنگ باری سے کرتے ہیں اور ہزارہا مسلح فوجیوں کے سامنے، اُن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اعلان کرتے ہیں کہ: ’’ہندستان کی طاقت کے سامنے یہ قوم کبھی جھکنے والی نہیں ہے‘‘۔

ہم گھر سے سوپور تک دو گاڑیاں تبدیل کرتے تھے۔ ہندواڑہ تک پہنچ جانے کے لیے ایک بس میں سوار ہونا پڑتا تھا اور پھر ہندواڑہ سے سوپور تک دوسری بس میں سوار ہوجاتے تھے۔   صبح سات بجے گھر سے نکلتے تھے۔ پہلے والی گاڑی میں سوار ہوکر ہماراساڑھے دس بجے کی کلاس پکڑنے کا ہدف ہوتا تھا، لیکن مجھے سال بھرکا وہ دن یاد ہی نہیں کہ جب ہم نے انگریزی کی وہ   پہلی کلاس پڑھی ہو۔تلواری، ماگام، ودی پورہ، براری پورہ، وٹائین، زالورہ، سیلو کے مقامات پر گاڑیوں کی تلاشیاں اور ہمارے شناختی کارڈ کی چیکنگ ، سوال و جواب اور شناخت پریڈمیں گھنٹوں ضائع ہوجاتے تھے۔ کبھی کبھار تو ان مقامات کے علاوہ بھی راستے میں کوئی ناکہ یا کوئی چیک پوسٹ ہوتی یا پھر راستے میں ڈیوٹی پر مامور وردی پوش (سپاہی) محض وقت ضائع کرنے کے لیے بس کو روک کر اپنی طاقت اور فرعونیت کا مظاہرہ کرتے تھے۔صبح سات بجے سے آٹھ بجے کے درمیان اور شام کو چار بجے سے ساڑھے چار بجے کے درمیان چلنے والی بسوں میں اکثر طالب علم ہی سوار ہوتے تھے ۔ ہمارے مابین کالج اور کلاس کی جان پہچان کے بجاے اصل تعارف بس میں سوار ہونے کے گروپ سے ہوتا۔ کون کس اسٹاپ سے بس میں چڑھا،اور کس اسٹاپ پر اُترا ، یا آگے کے اسٹاپ سے کس کو چڑھنا ہے یا آنے والے اسٹاپ پر کس کو اُترنا ہے، یہ معاملہ قریب قریب ہرایک کو معلوم ہوتا تھا۔

ہمارے ساتھ لڑکیاں بھی پڑھتی تھیں۔ اس طرح ہمارے ساتھ مختلف علاقوں کی درجنوں لڑکیاں سوار ہوتی تھیں۔ہندواڑہ سے نکلتے ہی پانچ منٹ کی مسافت طے کرنے پر روزانہ ایک لڑکی بس میں سوار ہوتی تھی۔درجنوں طالبات میں اُس کی شخصیت اُسے منفرد او رممتاز بناتی تھی۔ اُس میں حیا تھی ، شرم تھی۔ ہماری کلاس میں پڑھتی تھی اور جب بھی وہ اپنے اسٹاپ سے بس میں سوار ہوتی تھی سواریوں سے بھری بس میں لڑکے اُس کے لیے سیٹ خالی کرنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوشش کرتے تھے۔ حالانکہ وہ کسی سے بات نہیں کرتی تھی،اُسے شاید کسی لڑکے کا نام تک بھی معلوم نہیں تھا۔ وہ بارھویں جماعت میں ۷۵ فی صد نمبر حاصل کرنے کے باوجود اپنی ذہانت اور قابلیت کا رُعب جمانے کی کوشش نہیں کرتی تھی۔گم سم، خاموش ، الگ تھلگ اور اپنے ہی کام سے کام رکھنے والی اُس لڑکی کو بس میں نشست دینے والا ہر لڑکا اسے اپنی بہن کہنے میں فخر محسوس کرتا تھا۔

جون اور جولائی کی جھلسا دینے والی گرمی میں بھی اُس کا چہرہ کیا، ہاتھ تک دستانوں میں چھپے رہتے تھے۔ اُس کی آنکھیں بھی بس اُتنی ہی کھلی ہوتی تھیں، جس میں سے وہ اپنا راستہ دیکھ سکتی تھی۔ کالج کی وہ واحد لڑکی تھی جس کے بارے میںسب کو معلوم تھا کہ وہ دن کے اوقات میں انگریزی پڑھانے والی میڈم کے کمرے میں جاکر نماز ادا کرتی تھی۔اُس کی دین داری، پاک دامنی اور شرم و حیا کا پیکر ہونے کی وجہ سے ہر کوئی اُس کی عزت کرتا تھا۔ اسلام اور دین کے سانچے میں ڈھلی اُس عزت مآب بہن کی مثال کالج کے پروفیسر صاحبان بھی دیا کرتے تھے۔اُسے دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ اُسے بچپن ہی سے تربیت دینے والے ماں باپ نے بتا دیا تھا کہ شرم و حیا لڑکیوں کا زیور ہوتا ہے۔ مخلوط تعلیمی کلچر میں ہوکر بھی وہ مخالف جنس کو احساس تک نہیں ہونے دیتی تھی کہ  اُس کے ساتھ یا اس کے سامنے کوئی لڑکی ہے۔ وہ پاک باز اور پاک جان معصوم کلی تھی۔ اُس کی معصومیت اور حیاداری کی سب سے بڑی مثال یہ تھی کہ کالج کا کوئی لڑکا اس کے بارے میں اس سے زیادہ نہیں جانتا تھا کہ کالے برقعے میں لپٹی حوا کی یہ بیٹی ہمارے کالج میں پڑھتی ہے۔

ایک دن حسب معمول اپنے اسٹاپ سے بس میں سوار ہوئی۔ اُس کا وہی پاکیزہ انداز کہ ہرلڑکے کی آنکھیں خود بخود جھک گئیں۔ گاڑی میں سوار کئی لڑکوں نے اس کے لیے سیٹ خالی کردی۔ وہ راستہ بناتی ہوئی دوسری لڑکی کے برابر میں بیٹھ گئی۔ گاڑی اپنی منزل کی جانب چل پڑی۔ ایک پاکستانی گلوکار کا گانا ’تم تو ٹھیرے پردیسی ‘ بج رہا تھا۔گاڑی میں سوار کچھ لڑکے گانے کے بول کے ساتھ سُر ملارہے تھے تو کچھ گپ شپ میں محو تھے۔ عام سواریاں اپنے اپنے خیالات میں گم تھیں۔ گانا ابھی شروع ہی ہوا تھا کہ یکایک ڈرائیور نے بریک لگائی اور تمام مرد سواریوں کو گاڑی سے اُترنے کے احکامات سنائے۔

ہم وٹائین پہنچ چکے تھے۔ یہاں تمام مردوں کو گاڑی سے اُتار کر تقریباً آدھا کلومیٹر پیدل چلنے کے لیے کہاجاتا تھا ۔ گاڑی میں صرف عورتوں کو بیٹھنے کی اجازت ہوتی تھی۔ اُس کے بعد گاڑی آگے چل کر مردوں کو اُٹھاتی ہے۔ اسی جگہ ہماری گاڑی سے ہماری یہ بہن بھی اُترتی تھی۔ وہی ہماری کلاس فیلو پردہ پوش بہن گاڑی میں بیٹھنے کے بجاے مردوں کے ساتھ اُترنے کو ترجیح دیتی تھی اور ہم سب مردوں کے پیچھے آہستہ آہستہ چلتی، گاڑی میں دوبارہ سوار ہونے کی جگہ تک پہنچتی۔ وردی پوش گاڑی میں سوار ہوکر تلاشی لیتے تھے۔ شاید اسے وردی پوشوں کی گھورتی نظریں برداشت نہیں ہوتی تھی۔ شاید اُس کی غیرت اُسے اجازت نہیں دیتی کہ وہ وردی پوشوں کے سوال وجواب میں      اُلجھ جائے جیسا کہ گاڑی میں اکثر خواتین اور طالبات کے ساتھ یہ وردی پوش مختلف بہانوں کی آڑمیں باتیں کرنے اور پریشان کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ یہ ایک معمول بن چکا تھااور ہم سب اس بے غیرتی اور بے عزتی کے عادی ہوچکے تھے۔روز کی ذلت و رسوائی اب ہمیں اپنامقدر لگتا تھا۔لیکن حوا کی یہ بیٹی اپنے حصے کا حق ادا کرتی تھی۔ روز گاڑی سے اُتر کرہندستانی فوجیوں کے فقروں کو سننے کے بجاے مردوں کے شانہ بشانہ پیدل اگلے اسٹاپ تک چل پڑتی تھی۔

اس روز بھی حسب معمول ہماری یہ بہن گاڑی سے اُتر گئی، لیکن آج وردی پوشوں کا غصہ آسمان سے باتیں کررہا تھا۔ ہم اُتر نے والوں میں سے وہ کسی کو شناختی کارڈ کے بہانے تھپڑ مارتے تھے تو کسی کو مرغا بننے کاکہتے تھے۔ ایسا اکثر تب ہوتا تھا جب کسی جگہ فائرنگ ہوجاتی تھی، لیکن آج تو ہمیں کوئی ایسی اطلاع نہیں ملی کہ رات کے دوران اس علاقے میں کہیں کوئی فائرنگ ہوئی ہو۔ پھر وردی پوشوں کی یہ غضب ناکی کس وجہ سے ہے؟ مجھے سوپور میں کسی پرائیویٹ اسکول میںزیر تعلیم وہ ننھا لڑکا یاد ہے جس کے نازک اور کمزورکندھے پر ڈنڈے سے اس قدرشدیدضرب ماری گئی کہ اُس کابازو ہی ٹوٹ گیا۔ میری آنکھوں کے سامنے اُس بزرگ سرکاری ملازم کا چہرہ آج بھی گھومتا ہے، جس کی ٹوپی اُتار کر اِس قدر تذلیل کی گئی کہ وہ زار و قطار رونے لگا۔

مجھے اپنی ٹانگوں اور پیٹ پر ڈنڈوں کی وہ کاری ضربیں آج بھی یاد ہیں کہ جن کے نشان ایک ہفتے تک موجود رہے اور میں کئی روز تک ٹھیک طرح سے چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہا تھا۔کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا تھا کہ آخر آج ان ’بھارتی سورمائوں‘ کو کیا ہوگیاہے کہ یہ اپنی ’وحشت‘ کا مظاہرہ کرنے پر تلے بلکہ بپھرے دکھائی دے رہے ہیں۔ تمام مردوں کی ’خاطر مدارت‘ کرنے کے بعد سبھوں کو ایک جگہ جمع ہونے کے لیے کہا گیا۔ حکم کی تعمیل کی گئی اور کالج کے طلبہ کو الگ کر لیا گیا۔ ہم طالب علموں کو فحش گالیاں دے کر کہا جارہا تھا:’’آپ سب لوگوں کا انکاونٹر کیا جائے گا‘‘۔ لیکن ہم میں سے کسی میں جرأت ہی نہیں ہوئی کہ وہ پوچھ لیتا کہ:’’ آخر کس جرم میں ہماری یہ دُرگت بنائی جارہی ہے ؟‘‘

جس دوران ہماری پٹائی ہورہی تھی، ہماری وہ باپردہ بہن سڑک کے درمیان کھڑی یہ سب دیکھ رہی تھی بے حس و حرکت۔ وہ معصوم لڑکی دہشت زدہ تھی۔ بے چاری کی سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ آگے بڑھے یا پیچھے ہٹے۔ آگے بڑھتی تو وہاں ہر جانب دُور دُور تک وردی پوش ہی وردی پوش تھے ، گاڑی میں واپس چڑھ جاتی جہاں خواتین اور طالبات تو موجود تھیں، لیکن وہاںخونخوار آنکھوں والے بندوق بردار فوجی جوان گاڑی کے دونوں دروازوں پر کھڑے تھے۔   شرم و حیا کی پیکر، ملّت کی یہ بیٹی وہیں کھڑی رہی اور وردی پوش ہماری مارپیٹ کے دوران میں اس کی جانب دیکھ دیکھ کر اُسے اپنی طاقت کا احساس دلاتے رہے۔

قریباً آدھے گھنٹے کے بعد جب لاتوں، گھونسوں اور ڈنڈوں سے ہماری خوب مرمت کرلی گئی، تب پہاڑی کے ساتھ بینکر (پختہ مورچے)سے میجر صاحب بڑے ہی کروفر کے ساتھ نکلے اور ہمارے سامنے نمودار ہو کر تقریر کرنے لگے:’’ تم لاتوں کے بھوت، باتوں سے کہاں ماننے والے ہو‘‘۔ پھر وہ ہم سے مخاطب ہوئے: ’’کیا ہم نے تمھیں کبھی بلاوجہ مارا پیٹا ہے؟‘‘ سامنے ایک بزرگ جن کی تھوڑی دیر پہلے مار پیٹ ہوئی تھی، انھوں نے جان کے خوف سے تھرتھر کانپتے ہوئے کہا: ’’نہیں سر‘‘۔ میجر صاحب غرائے:’’ کیا ہم تمھاری’ ناریوں‘ [عورتوں]کی عزت نہیں کرتے ہیں؟ کیا ہم نے اُنھیں کبھی گاڑیوں سے نیچے اُتارا ہے؟‘‘ اِسی بزرگ نے پھر جواب دیا:’’بالکل نہیں سر‘‘۔

اب ایک دم سے میجر آگ بگولا ہوگیا اور غضب ناک ہوکر ملّت کی اس بیٹی کی جانب مخاطب ہوکر چلّایا… ’’تو پھر یہ لڑکی روز کیوں گاڑی سے اُتر جاتی ہے۔ یہ ہمارا ’اپمان‘ [توہین]کررہی ہے، یہ ہماری’شرافت‘ کا مذاق اُڑا رہی ہے‘‘… میجر کے ان جملوں سے ہم سب کی سمجھ میں آگیا کہ ماجرا کیا ہے۔ اتنا کہنا تھا کہ اس میجر نے گرج کر اُس بہن سے کہا: ’اِدھر آجاؤ‘۔ وہ بے چاری اپنی جگہ سے ہل ہی نہیں پائی۔تب میجر نے اِسی بزرگ سے کہا:’’ اس لڑکی سے کہو کہ یہ چہرے سے نقاب ہٹائے۔ ہمیں شک ہے کہ اس نقاب کے پیچھے کہیں کوئی’آتنک وادی‘ [دہشت گرد] چھپا ہوا ہے‘‘۔ آس پاس کھڑے درجنوں بندوق بردار وردی پوش جھپٹنے والی پوزیشن میں اشارے کے منتظر تھے کہ کب حکم ملے اور وہ مسلمانوں کی عزت کے چہرے سے نقاب اُتار دیں؟  کب وہ محمد بن قاسم کی قوم کی بیٹی کی سر راہ تذلیل کریں؟ کب وہ طارق بن زیاد کی بہن کو احساس دلائیں کہ اُس کا بھائی مرچکا ہے؟ کب وہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی روح کو پیغام دیں کہ اب تو تیری ملت میں جرأت اور ہمت کہاں کہ وہ تم جیسا کردار دکھا سکیں؟

وہ بزرگ ہانپتا کانپتا اُٹھا اور اس انداز سے ہماری اُس بہن سے مخاطب ہوا کہ جیسا سارے فساد کی جڑ اور ہمارے گناہوں کی قصوروار بھی وہی ہے۔بزرگ نے اسے نقاب ہٹانے کے لیے کہا۔ وہ باپ جیسا بزرگ اپنی جان کے خوف سے اپنی بیٹی کو عریاں ہونے کے لیے کہہ رہا تھا، حالاںکہ اُس کے ماتھے پر نمازوں سے سیاہ گٹّا بھی دکھائی دے رہا تھا۔ وہ باریش بھی تھا، شکل و صورت سے باعمل مسلمان بھی لگ رہا تھا۔مگر وہ صرف مار پیٹ کے خوف سے، امّاں عائشہ صدیقہؓ کی اُس لاڈلی کو مجبور کررہا تھا۔اپنے اردگرد فوجیوں کا گھیرا تنگ ہوتا دیکھ کر،  میجر کا چیخنا چلّانا،بزرگ کی دُہائیاں اور جو لڑکے اُسے بہن کہتے تھے، اب اس کو موت کے چنگل میں   خاموش اور بے بسی میں گھرا ِدیکھ رہے تھے۔ اس خاموشی اور خوف ناک سناٹے میں، اس معصوم لڑکی نے ہمیں تشدد سے بچانے اور بزرگ کی بے رُخی پر مبنی التجا سے مجبور ہوکر ہتھیار ڈال دیے۔ پوری طاقت سے اپنے چہرے سے نقاب کھینچ دیا۔

وہ نورانی چہرہ جسے اُس بے چاری نے کبھی آئینے کے سامنے بھی پوری طرح سے نہ کھولا ہوگا ، کھلے آسمان تلے بے نقاب ہوگیا۔اُس کی بے بس اور باحیاآنکھوں سے موتیوں جیسے موٹے موٹے آنسوؤں کا دریا ہماری بزدلی کا مذاق اُڑا رہا تھا: وردی پوشوں کے چہرو ں پر وہ زہریلی مسکراہٹ ، ہمارا بھیگی بلی کی طرح سر نیچے کرنا اور سامنے ہماری بہن کی بے بسی نے اُس وقت ضرور ہمارے اسلاف کی روح کو تڑپایا ہوگا۔قوم اور ملّت کی بیٹی کا دوپٹہ اور نقاب اُتروانے کے بعد  وردی پوشوں نے ہماری گاڑی کو جانے کی اجازت دے دی۔

اگلے دن اُس اسٹاپ پر ہماری بس رُکی، جہاں سے وہ بہن سوا ر ہوا کرتی تھی۔ لڑکے سیٹ خالی کرنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لینے کو تیار تھے، مگر آج وہاں سے کوئی برقعہ پوش طالبہ سوار نہیں ہوئی اور پھر وہ کبھی سوار نہیں ہوئی۔ اُس نے اپنی تعلیم ہی کو خیر باد کہہ دیا۔اُس نے اپنی عزت، عصمت اور دین کی خاطر اپنی دنیا کو قربان کردیا۔ اُس نے اپنی تذلیل کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کیا بلکہ ایمانی غیرت و حمیت کا مظاہرہ کرکے گھر کی چار دیواری کو ہی اپنے لیے محفوظ تصور کیا ۔

میں اُس بہن کا نام تک نہیں جانتا او رنہ مجھے معلوم ہے کہ اُس کے بعد اس کے ساتھ کیا ہوا؟لیکن ۱۷سال گزرجانے، اور کوشش کے باوجود میں اُس کو اپنے ذہن سے نہیں نکال پایا۔میں جب بھی اپنے آبائی گاؤں روانہ ہوتا ہوں ، وٹائین پہنچ کر میرے زخم ہرے ہوجاتے ہیں۔مجھے اپنی بے غیرتی پر شرم محسوس ہوتی ہے۔ میرا ضمیر مجھ سے پوچھتا ہے کہ جس بہن کی دین داری پر تمھیں فخر ہوا کرتا تھا، اُس کی تذلیل دیکھ کر تمھاری غیرت کہاں تھی؟مجھے گاڑی میں دوبارہ سوار ہونے والی عام سواریوں کی وہ کاٹ کھانے والی باتیں زخمی کر رہی تھیں، جن میں وہ الزام ہماری اُس بہن ہی پر عائد کررہے تھے کہ: ’’اتنی سواریوں کی مارپیٹ کروانے کی قصور وار یہی لڑکی ہے‘‘۔ سواریوں کی اُن کڑوی کسیلی باتوں کو سن کر آج بھی مجھے احساس ہوتا ہے کہ اُس گاڑی میں کوئی ایمان کے تیسرے درجے والا بھی نہ تھا۔ ظلم و زیادتی کو ہاتھ سے روکنا تو ہمارے بس میں نہیں تھا ، مگر زبان تک سے بھی ہم نے احتجاج نہیںکیا اور دل میں وردی پوشوں کی اس گھناؤنی اور اسلام دشمن حرکت کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنے کے بجاے ہم نے اپنی اُس بہن ہی کو موردِ الزام ٹھیرایا۔

میں آج بھی اُس بہن کے چہرے کو یاد کرکے اپنی نظریں جھکا لیتا ہوںاور میرے ضمیر کی آوازمیرے قلب و روح سے چین و سکون ہی چھین لیتی ہے۔میں الطاف راجا کے’تم تو ٹھیرے پردیسی…‘ کے اُس گانے کو یاد کرکے سوچنے لگتا ہوں کہ واقعی ہم اپنی اُس بہن کے لیے ’پردیسی ہی ٹھیرے‘ تھے۔ اُس کی دنیا: دین داری، شرافت اور غیرتِ مسلم تھی اور ہماری دنیا: بزدلی، جان کی امان اور دین سے دور مادہ پرستانہ زندگی تھی۔ دونوں کے درمیان موت اور حیات جیسا فیصلہ قائم تھا۔ ہم بھلے ہی اُسے بہن کہنے میں فخرمحسوس کرتے تھے، لیکن حقیقی معنوں میں وہ ہماری دنیا کی باسی نہیں تھی بلکہ ہمارے دیس میں بھی پردیسی اور اجنبی تھی۔وہ چند منٹ آج بھی مجھے کسی قیامت سے کم نہیں لگتے، جن میں اُس دین دار باحیا قوم کی بیٹی نے اپنے چہرے سے نقاب نوچ کر ہماری گونگی غیرت اور بزدل حمیت اور ایمان و مسلمان ہونے کے دعوے پر تازیانے برسائے تھے۔  میرا جی چاہتا ہے کہ میں دنیا کی ان گہما گہمیوں میں حوا کی اُس بیٹی کو تلاش کروں اور اُس کے سامنے اپنا دامن پھیلاکر معافی مانگوں۔ اللہ کے سامنے گڑگڑا کر اور زار وقطار رو کر اپنی بزدلی کے لیے معافی مانگوں۔ میرا جی چاہتا ہے کہ اُس سانحے کی یادیں اپنی دل و دماغ سے کرید کر نکال باہر کروں مگر میرا ضمیر مجھ سے بار بار مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ: کیا تمھارے معافی مانگنے سے اور اُس بہن اور    اللہ کے معاف کرنے سے اُس بے چاری کے دل و دماغ سے دینی غیرت و حمیت کے چھن جانے کی تلخ یادیں ختم ہوجائیں گی؟کیا تمھاری یہ ندامت اُس کی اُس تذلیل اور ذلت کا نعم البدل ہوسکتی ہے؟

ضمیر کا یہ بوجھ جو لحد تک میرا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔ اب یہ اذیت ناک پچھتاوا میرے قلب و جگر میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پچھتاوا ہی رہے گا!

’زندگی کی سب سے بڑی حقیقت موت ہے ‘___ یہ ایک ایسا جملہ ہے جسے باربار سنا اور سوچا، مگر اس امر کے اعتراف سے بھی چارہ نہیں کہ ہر صدمے کے موقعے پر ایک عالمِ استعجاب (shock) میں اسے ایک نئی بات ہی محسوس کیا جاتا ہے۔ افسوس ہماری غفلت کا یہ عالم ہے کہ موت جو ہرلمحے ہمارے تعاقب میں ہے، ہم اسے بھولے رہتے ہیں۔ خود اپنی غفلت کا یہ حال ہے کہ کبھی وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ مسلم کو بھی ’مسلم مرحوم‘ کہنا اور لکھنا پڑے گا۔ جنوری ۱۹۵۰ء میں   خرم بھائی کے پیرالٰہی بخش کالونی والے گھر میں مسلم کے ہاتھوں پانی پینے سے تعلقات کا جو باب شروع ہوا تھا، وہ محسوسات کی دنیا کی حد تک ۲۸؍اگست ۲۰۱۶ء کو عزیزی سلیم منصور خالد کے    دل و دماغ کو شل کر دینے والے پیغام کے ذریعے کہ ’’مسلم بھائی بھی ہم سے رخصت ہوگئے ہیں‘‘ بند ہوگیا___ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔

اللہ کا حکم ہر چیز پر غالب ہے اور اپنی حکمتوں کو وہ ہی خوب سمجھتا ہے، لیکن میرے لیے یہ صدمہ بہت بڑی آزمایش ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ گویا میرا ہاتھ ہی ٹوٹ گیا ہو    ؎

مصائب اور تھے، پر دل کا جانا

عجب ایک سانحہ سا ہوگیا ہے

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اس غم کو برداشت کرنے کی توفیق دے، اور مسلم بھائی کو مغفرت، ابدی راحت اور جنّت کے اعلیٰ درجات سے نوازے، آمین۔

مسلم، تحریکِ اسلامی کا ایک بڑا قیمتی سرمایہ تھے اور خصوصیت سے گذشتہ ۲۲برسوں میں ترجمان القرآن کے نائب مدیر اور خرم بھائی اور میرے دست ِ راست کی حیثیت سے جو گراں قدر خدمات انھوں نے انجام دی ہیں، وہ علمی، دعوتی اور تحریکی ہر اعتبار سے بڑی قابلِ تحسین اور ناقابلِ فراموش ہیں۔ لیکن میرے ساتھ ان کا تعلق اس سے بہت پرانا اور گہرا ہے۔ میرے لیے وہ سگے چھوٹے بھائی کے مانند تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انیس [ڈاکٹر انیس احمد]کے بعد وہ مجھ سے سب سے زیادہ قریب رہے۔ مقامِ شکرہے کہ پوری زندگی ہم ایک ہی خاندان کے افراد کی طرح ایک دوسرے سے رشتہ نبھاتے رہے اور کبھی ہمارے درمیان کوئی دراڑ نہیں پڑی، بلکہ خفگی اور بدمزگی کی کیفیت بھی کبھی رُونما نہیں ہوئی۔ الحمدللّٰہ علٰی ذٰلک۔

یہ تو تعلق کا صرف ایک پہلو ہے۔ وہ چھوٹے بھائی کے ساتھ ایک نہایت ہونہار، ذہین اور شوخ و شریر شاگرد، بڑے مخلص، روشن دماغ اور صاحب الراے تحریکی ساتھی اور رفیق کار اور ادب و احترام کے رشتے کا پاس کرتے ہوئے بے باک ناقد اور نہ بخشنے والے محتسب بھی تھے۔

مسلم کی شخصیت اور خود میرے ساتھ ۶۶برسوں پر پھیلے ہوئے تعلقات کی نوعیت ان چار رنگوں کی ایک قوسِ قزح کے مانند ہے، اور مَیں ہی نہیں شاید اپنے اپنے انداز میں بہت سے افراد نے ان کی شخصیت سے ان متنوع پہلوئوں کا تجربہ اور مشاہدہ کیا ہوگا۔

مسلم سے تعلقِ خاطر کا آغاز خرم بھائی سے تعلق کا پرتو تھا۔ میں اسلامی جمعیت طلبہ سے اپنے بڑے بھائی احمد ضمیر مرحوم، جو خرم بھائی کے کلاس فیلو اور دوست تھے اور خود خرم اور ظفراسحاق انصاری کے ذریعے روشناس ہوا، اور ان دونوں کی محبت اور رفاقت اور مولانا مودودیؒ کے لٹریچر کی دل و دماغ کو مسخر کرنے کی لازوال قوت کے سیلاب میں بہتا ہوا چند ہی مہینے میں جمعیت کا رکن   بن گیا۔

رکن بننے کے چند مہینے کے بعد ہی مجھے کراچی جمعیت کا ناظم منتخب کرلیا گیا اور اس طرح جنوری ۱۹۵۰ء سے جون ۱۹۵۶ء تک جمعیت کا رکن اور مختلف ذمہ داریوں کا امین رہا۔ پہلے دو ڈھائی برس ہم گھروں ہی میں کام کرتے رہے۔ کوئی باقاعدہ دفتر نہیں تھا۔ پہلا اور شاید سب سے متحرک اور مصروف دفتر ۲۳-اسٹریچن روڈ ۱۹۵۲ء میں حاصل کیا گیا۔ یہ جگہ حاصل تو کی گئی تھی  مجلّہ Student's Voice اور اسٹوڈنٹس سوشل سروس کے دفتر کے طور پر، لیکن پھر وہ جمعیت ہی کا دفتر بن گیا۔ اس سے پہلے ہمارے تین گھر بطور دفتر، اجتماع گاہ اور تحریکی دسترخوان کے طور پر استعمال ہوتے تھے، یعنی ہمارا فریر روڈ کا فلیٹ، خرم بھائی کا پیرالٰہی بخش کالونی کا کمرہ، اور ظفراسحاق انصاری کا بندر روڈ پر سعیدمنزل کے سامنے والا فلیٹ۔

خرم بھائی کا کمرہ ان کی کراچی کی نظامت اور مرکزی نظامتِ اعلیٰ کے زمانے میں بہت زیادہ استعمال ہوتا تھا۔ جہاں چائے اور پانی کی فراہمی کی خدمت ان کے چھوٹے بھائی حسن قاسم اور مسلم سجاد انجام دیتے تھے۔ ہمارے تعلقات کا آغاز اس مہمان داری کے دل نواز ربط سے ہوا۔ پھر پہلے حسن قاسم اور پھر مسلم سجاد فکری، تحریکی اور تنظیمی اعتبار سے قریب آتے گئے۔ قاسم میری نظامتِ اعلیٰ کے دوران میرے ہمراہ بطور معاون خصوصی رہے اور برادرم ڈاکٹر اسرار احمد کے ساتھ جو قلمی معرکے ہوئے، ان میں میری معاونت کرتے رہے۔

خرم کے تینوں چھوٹے بھائی جمعیت میں سرگرم رہے اور مجھے ذاتی طور پر قاسم اور مسلم سے زیادہ قربت رہی۔ پھر قاسم، راجا بھائی (ظفراسحاق انصاری) سے زیادہ قریب رہے۔ اس طرح قاسم کے تمام تر نظریاتی نشیب و فراز کے باوجود رفاقت اور دوستی کی گرم جوشی آخری وقت تک برقرار رہی۔ مسلم کا زیادہ تعلق خرم سے اور مجھ سے رہا اور الحمدللہ مکمل طور پر نظریاتی استقلال اور وفاداری کے ساتھ یہ رشتہ قائم رہا۔ جیسا میں نے عرض کیا، شروع میں تو مسلم سے صرف مہمان داری والا تعارف تھا۔ پھر اسکولوں کے طلبہ کے لیے جمعیت کا ’حلقہ مدارس‘ منظم ہوا اور اس کی قیادت اور مرکزی شخصیت ہمارے بڑےعزیز ساتھی عبداللہ جعفر صدیقی تھے، جن کی حکمت اور محبت سے بھرپور قیادت میں کراچی جمعیت کے حلقہ مدارس نے غیرمعمولی ترقی کی، اور واقعہ یہ ہے کہ جمعیت کے دامن میں بہت سے ہیرے جمع کرنے کا وسیلہ بنا۔

۵۲-۱۹۵۱ء میں اس حلقے کے ذہین ترین طلبہ کے اسٹڈی سرکل کی ذمہ داری مجھ پر عائد ہوئی۔ مسلم سجاد، ظفرآفاق انصاری، انیس احمد، محبوب علی، محمود علی، تنظیم واسطی، سیّد محمود، یہ سب اسی سرکل کے گل ہاے سرسبد تھے۔ میں نے تین مراحل پر مبنی اسٹڈی سرکل کئی سال چلایا، اور یہی وہ دور تھا جس میں مسلم مجھ سے بے حد قریب ہوگئے۔ ان کا سب سے پہلا ادبی کارنامہ میرے ساتھ جمعیت کے دفتر پر ایک وال پیپر کی شکل میں ایک رسالے کا اجرا تھا، جسے ہم ہرہفتے تبدیل کرتے تھے اور جس میں دعوتی نکات کے علاوہ کچھ ہلکی پھلکی چیزیں بھی ہوتی تھیں۔ تاہم، اسٹوڈنٹس وائس میں مسلم کوئی کردار ادا نہیںکرسکے۔ اس رسالے میں راجا بھائی اور مَیں مرکزی کردار ادا کرتے تھے اور زبیرفاروقی، جمیل احمد خان، منظور احمد، انصار اعظمی اور جمیل احمد ہمارے قابلِ قدر معاونین تھے۔ حسین خاں اور محبوب الٰہی نے بھی کچھ عرصے کردار ادا کیا۔

مسلم کی فکری، اخلاقی اور تحریکی تربیت میں سب سے زیادہ حصہ ان کی والدہ ماجدہ کا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ خرم بھائی کی والدہ ایک مثالی والدہ تھیں۔ جماعت کی اوّلین ارکان میں سے تھیں اور انھوں نے اپنے سبھی بیٹے، بیٹیوں کی تربیت گہرے دینی شعور، بڑے شوق اور سلیقے سے کی۔ اس کے ساتھ گھر کی زندگی اور تحریکی زندگی میں بڑا حسین توازن قائم کیا۔ مجھے بھی یہ سعادت حاصل ہے کہ وہ مجھے اپنی اولاد ہی طرح سمجھتی تھیں۔ مشورے اور نصیحت میں کوئی فرق نہ کرتی تھیں اور زبانی ہی نہیں خطوں کے ذریعے بھی میری رہنمائی فرماتیں۔ اس زمانے میں میرا کردار صرف ان اسٹڈی سرکلز ہی تک محدود نہیں تھا بلکہ ان تمام نوجوان ساتھیوں کے ساتھ علمی اورتحریکی دونوں ہی دائروں میں بڑا گہرا inter-action رہا۔ ہمارے درمیان ’استاد‘ اور ’شاگرد‘ کے رشتے کے ساتھ ساتھ رفاقت اور دوستی کا تعلق بھی پیدا ہوا، جس کے نتیجے میں باہم افہام و تفہیم زیادہ کھلے طور پر ہوتی تھی۔ اس ضمن میں سوال، اعتراض، تنقید اور احتساب سبھی کا کچھ نہ کچھ کردار تھا، مگر تعلقات کا حُسن یہ تھا کہ ان میں برادرانہ محبت، پدرانہ شفقت، احترامِ استاد کے ساتھ دوستانہ رفاقت اور تحریکی نقدواحتساب کا ایک صحت مند امتزاج نہ صرف موجود تھا، بلکہ محسوس کیا جاسکتا تھا___ اور یہ الحمدللہ، تحریک اسلامی کی نعمتوں میں سے ایک بیش قیمت نعمت ہے۔

مسلم کے ساتھ جو رشتہ اور تعلق اسٹڈی سرکل سے شروع ہوا تھا، وہ ماہ نامہ چراغِ راہ میں ان کے ادارتی تعاون سے ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگیا۔ ۱۹۵۸ء میں یہ سلسلہ شروع ہوا۔ ۱۰سال چراغِ راہ  کے دور میں اور پھر ۲۰سال ترجمان القرآن کے زیرسایہ یہ تعلق مستحکم تر ہوتا گیا۔ مَیں بے حد خوش نصیب ہوں کہ زندگی کے ہر دور میں مجھے بڑے لائق، مخلص اور تعاون کرنے والے ساتھی ملے۔ Student's Voice، New Era اور Voice of Islam کے دور میں ظفراسحاق انصاری کا بھرپور تعاون ملا، اور یہ تعلق باقی زندگی میں بھی دسیوں شکلوں میں جاری و ساری رہا۔ چراغِ راہ  میں محمود فاروقی، مسلم سجاد، ممتاز احمد، نثاراحمد کا تعاون، ماہ نامہ The Criterion میں سیّدمنور حسن اور کوکب صدیق کا تعاون، اور ترجمان القرآن میں مسلم سجاد، سلیم منصور خالد،    رفیع الدین ہاشمی اور عبدالغفار عزیز کی رفاقت۔ ان تمام ساتھیوں کی مخلصانہ اور اَن تھک کوششوں کے بغیر وہ خدمت انجام نہیں دی جاسکتی تھی، جو اللہ تعالیٰ نے ان اداروں سے لی۔ اس پر ہرلمحے اللہ تعالیٰ کا شکر واجب ہے۔

مجھے یہ بات کہنے میں کوئی باک نہیں کہ ترجمان القرآن      کی ادارتی ذمہ داریوں کا بڑا بوجھ مسلم ہی پر تھا۔ خرم بھائی کی طبیعت جب زیادہ خراب ہوئی اور دسمبر ۱۹۹۵ء کے بعد انھیں خاصا وقت انگلستان میں گزارنا پڑا، تو ہم دونوں کی نگاہ مسلم ہی پر پڑی کہ ان کو وقت سے پہلے ریٹائرمنٹ لے کر لاہور منتقل ہونے اور پرچے کی روزمرہ کی ذمہ داری سنبھالنے کی ترغیب دیں اور مسلم نے کسی تامل کے بغیر یہ ذمہ داری قبول کرلی۔خرم بھائی نے پانچ سال ترجمان کی ادارت کی ذمہ داری ادا کی ہے، یعنی ۱۹۹۲ء سے ۱۹۹۶ء تک۔ ان کے آخری سال ادارتی امور کی عملاً ذمہ داری مسلم ہی پر تھی اور اس زمانے میں ہمیں یہ اندازہ ہوگیا کہ وہ کس خوش اسلوبی سے یہ ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔

خرم بھائی دسمبر۱۹۹۶ء میں ہم سے رخصت ہوئے اور جنوری ۱۹۹۷ء میں یہ ذمہ داری مجھے سونپی گئی۔ اس پورے عرصے میں مضامین کا حصول، ان کی ترتیب و تدوین، اہلِ قلم سے ربط و تعلق، انتظامی عملے سے رابطہ، یہ سب کام مسلم ہی بحسن و خوبی انجام دیتے رہے۔ بلاشبہہ اہم اُمور پر وہ مجھ سے مشورہ کرتے تھے، کہیں شک یا اضطراب ہوتا تو معاملہ میری طرف بڑھا دیتے، لیکن عملاً سارا کام وہی انجام دیتے رہے۔ بلاشبہہ اس میں عزیزی سلیم منصور خالد، برادرم ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، مولانا عبدالمالک، عزیزی عبدالغفار عزیز ، حافظ محمد ادریس، برادرم ظفرحجازی، امجدعباسی اور دیگر مجلس ادارت کے ارکان کا تعاون بھی شامل ہے، لیکن شدید بیماری کے چند مہینوں کو چھوڑ کر بنیادی ذمہ داری مسلم ہی نے انجام دی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی گراں قدر خدمات کو شرفِ قبولیت سے نوازے اور اپنی بیش بہا نعمتیں اور انعامات ان پر نچھاور فرمائے۔

اداراتی اُمور میں اتنے انہماک اور کارکردگی کے ساتھ وہ پرچے کی اشاعت میں اضافے کے لیے بھی ہرلمحہ سرگرم رہتے تھے۔ جس وقت خرم بھائی نے یہ ذمہ داری قبول کی تھی ترجمان القرآن کی اشاعت چھے ہزار تھی۔ خرم بھائی اور مسلم کی ہمہ جہتی کوششوں سے یہ ۱۹۹۶ء تک ۲۲ہزار پر پہنچ گئی، جو الحمدللہ اِس وقت ۳۴ہزار سے زیادہ ہے۔ لیکن ۲۰۰۵ء اور ۲۰۰۹ءکے درمیان یہ اشاعت ۳۸ سے ۵۰ہزار تک بھی رہ چکی ہے۔ اشاعت کے فروغ میں تحریکی ساتھیوں اور حلقوں کا تعاون تو اصل چیز ہے اور اس کی منصوبہ بندی اور اس کے لیے مسلسل کوششوں میں مسلم بھائی کا بڑا حصہ ہے۔

مسلم کے علمی ذوق اور ادبی صلاحیتوں کا ادراک تومجھے اسٹڈی سرکل کے زمانے سے تھا، لیکن ان کی تنظیمی صلاحیتوں کی دریافت کراچی میں ’سمع و بصر‘ کے ادارے کے قیام کے زمانے میں ہوئی۔ اس میں برادرم شاہد شمسی کا بھی حصہ تھا لیکن ان میدانوں میں کام اور نئے نئے تجربات کے سلسلے میں جس ندرت اور creativity [خلّاقیت]کا مظاہرہ مسلم نے کیا، وہ ان کی شخصیت کے  اس پوشیدہ پہلو کو آشکارا کرنے کا ذریعہ بنا۔ اسی زمانے میں ان کا ایک منفرد کارنامہ تفہیم القرآن          کو صفحۂ قرطاس کے ساتھ ویڈیو اور دوسرے برقی ذرائع ابلاغ کے ذریعے حق کے متلاشیوں تک پہنچانے کے پراجیکٹ کو سوچنے اور عمل میں ڈھالنے کی کاوش ہے۔ جس کے لیے پوری تفہیم  القرآن   برادرم عبدالقدیر سلیم، سیّد سفیرحسن اور عظیم سرور نے دل کش آواز میں ریکارڈ کرائی۔ اسی طرح انھوں نے خود ترجمان القرآن کے تمام شماروں کو ۱۹۳۲ء سے آج تک الیکٹرانک ریکارڈ کی شکل میں فراہم کرنے کی خدمت انجام دی جو ’محفوظات‘ کے نام سے دستیاب ہے۔ اس کے ساتھ ’منشورات‘ کی شکل میں ایک کامیاب طباعتی ادارہ قائم کیا اور بڑے اچھے معیار پر، اچھی کتابوں اور دعوتی کتابچوں کی اشاعت کا اہتمام کیا۔ مسلم نے ادارتی اور تنظیمی دونوں صلاحیتوں کا مظاہرہ کرکے ہم سب کو بے حد متاثر کیا اور ان کی کوشش ہمیشہ رہی کہ خوب سے خوب تر کی تلاش جاری رکھیں۔

اس سلسلے میں وہ دوسروں کی لاپروائی اور بے اعتنائی کا شکوہ بھی کرتے رہتے تھے اور  کبھی کبھی اس تنقید و احتساب میں اپنے کھرے پن کو کھردرے پن تک لے جاتے تھے۔ لیکن  ان کی تنقید کا مقصد دوسروں کی تحقیر نہیں بلکہ اصلاح کا جذبہ اور معیار کے معاملے میں دوسروں کی سہل انگاری پر گرفت ہوتا تھا۔ میں نے اس ۶۶سالہ تعلق کے دوران ان کی تنقید میں دوسروں کی تحقیر کا پہلو نہیں دیکھا، اگرچہ اپنی افتادِ طبع کے مطابق وہ حسبِ توفیق آزادی (Liberty) لینے میں تکلف نہیں برتتے تھے(بعض اصحاب اس ’آزادی‘ کو پسند نہیں کرتے تھے)۔

انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز سے بھی مسلم کا تعلق تعاون اور خیرخواہی کا تھا۔ تعلیم کے میدان میں ان کی کئی علمی کاوشیں آئی پی ایس کے زیراہتمام شائع ہوئیں۔ مجلّہ تعلیم کے بھی کئی شمارے انھوں نے اور برادرم سلیم منصور خالد نے مرتب کیے۔

ان کی علمی اور تحریکی خدمات میں خرم بھائی کی چیزوںکی تلاش، حفاظت اور طباعت سرفہرست ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ خرم بھائی کی اُردو میں جو چیزیں آج موجود ہیں، ان کا نصف سے زیادہ اثاثہ مسلم کی محنت اور خرم بھائی سے وفاداری کا تحفہ ہے، جزاھم   اللہ خیر الجزاء۔

مسلم کا قرآن سے تعلق بچپن ہی سے گہرا رہا ہے۔ نماز اور نمازِ باجماعت کے باب میں بھی انھوں نے غیرمعمولی شوق اور اہتمام کی مثال قائم کی ہے۔ افراد اور خصوصیت سے اپنے قریبی ساتھیوں کے مسائل میں دل چسپی اور خاموشی سے ان کی مدد اور تعاون بھی ان کی شخصیت کا بڑا دل آویز پہلو تھا۔ بارہا مجھ سے بڑے دُکھ اور کرب کے ساتھ اپنے کسی ساتھی کی مشکل کے   علم میں آنے کا ذکر کیا، اور اس مشکل میں ان کا بوجھ کم کرنے کے لیے مَیں نے حسبِ توفیق کردار ادا کیا، اور یہ سب بڑی خاموشی اور حقیقی انسانی ہمدردی کے جذبے کے ساتھ کیا۔

نام و نمود اور ظاہرداری سے مسلم کی زندگی بالکل پاک تھی۔ سادگی، قناعت اور خیرخواہی ان کا شعار تھا۔ بس زبان کے معاملے میں تھوڑے سے بے باک تھے۔ خرابی اور بُرائی جہاں نظر آتی اور جہاں تضاد اور رخصت کی فراوانی نظر آتی، اس پر تنقید اور احتساب سے وہ اپنے کو روکنے پر قادر نہیں پاتے تھے اور اس سلسلے میں زبان اور قلم دونوں ہی کا سہارا لیتے تھے۔ لیکن میں یقین سے کہہ سکتا ہوںکہ یہ تنقید و احتساب: نہ خودپسندی اور خودپرستی کی پیداوار تھے اور نہ دوسروں کی تحقیر یا  ان کو اذیت دینے کے جذبے اور محرک کا نتیجہ تھے۔ یہ ان کے خلوص اور اصول پرستی اور تحریک کے سلسلے میں معیارِ مطلوب کے شوق اور لگن کی پیداوار تھے۔ گو الفاظ کے انتخاب میں کبھی کبھار ان کی شوخی اپنی حدود سے بڑھ جاتی تھی اور دوسروں کے جذبات کو مجروح کرنے کا باعث بھی ہوجاتی تھی، لیکن میں نے ان کی بات میں malice (بدخواہی یا عناد)کا کوئی شائبہ نہیں دیکھا۔ کئی بار دوسروں کے ردعمل پر انھوں نے اپنے اضطراب کا اظہار بھی کیا اور تلافیِ مافات کی بات بھی کی، جس سے  ان کے خلوص اور دیانت کی خوشبو آتی ہے۔

جہاں تک مجھے یاد ہے مسلم کی پہلی کتاب مخلوط  تعلیم پر تھی، جو اسلامی جمعیت طلبہ نے شائع کی تھی۔ مجھے خوشی ہے کہ اس کتاب کی تحریک مَیں نے ہی کی تھی اور اس کی تیاری، تحقیق اور تسوید میں میرا تعاون اور حوصلہ افزائی کا بھی ایک حصہ تھا۔ لیکن اس کتاب نے ان میں اعتماد پیدا کیا اور اس طرح یہ کتاب ان کی علمی، تحقیقی، تجزیاتی اور ادبی زندگی کا ایک نیا باب کھولنے کا ذریعہ بنی۔

مسلم کو دمے کی بیماری لڑکپن ہی سے تھی اور پھر یہ ان کی جیون ساتھی بن گئی۔ گذشتہ چند برسوں سے ذیابیطس اور دل کی بیماری نے بھی ڈیرے ڈال لیے تھے۔ دو تین بار ہسپتال میں کچھ دن گزارنے کی نوبت بھی آئی۔ گذشتہ برس طبیعت کچھ زیادہ خراب ہوگئی تھی، جس کے بعد کراچی چلے گئے اور چار مہینے وہاں گزارے۔ لاہور اور کراچی میں مسلم بھائی کی تیمارداری اور علاج معالجے کے لیے، جس محبت، توجہ اور مثالی انداز سے ان کے بیٹے عزیزم انس حماد نے خدمت کی، اس پر اللہ تعالیٰ اجرعظیم سے نوازے___لاہور واپسی پر مسلم خوش تھے اور باربار مجھے یقین دلایا کہ اب میں بہت بہتر ہوں۔ ۲۷؍اگست کو پائوں پھسل گیا تھا، جس سے کچھ چوٹ آئی۔ میں نے ان کے بڑے بیٹے انس سے اصرار کیا کہ ایکسرے کرائیں، جو ۲۸کو کرایا اور مجھے فون پر اطلاع دی کہ: ’’کوئی فریکچر نہیں ہے اور مَیں بالکل ٹھیک ہوں‘‘۔ یہ پاکستانی وقت کے مطابق چار ساڑھے چار بجے سہ پہر ان سے میری آخری بات تھی۔ مگر اس کے چار گھنٹے کے بعد یہ اَلم ناک اطلاع آئی کہ مسلم بھائی، اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں___ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ مسلم نے اللہ سے وفاداری کا جو عہدکیا تھا، اسے مقدور بھر پورا کرنے میں پوری زندگی کوشش کی اور اسی کوشش کے دوران جان جانِ آفریں کے سپرد کی۔     اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور اپنی رحمت اور جنّت کے اعلیٰ مقامات سے ان کو نوازے!

یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ o ارْجِعِیْٓ اِِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً o فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ o وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ o (الفجر ۸۹:۲۷-۳۰) اے نفسِ مطمئن! چل اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تو (اپنے انجام نیک سے) خوش (اور اپنے رب کے نزدیک) پسندیدہ ہے۔ شامل ہو جا میرے (نیک) بندوں میں اور داخل ہو جا میری جنّت میں۔

ترجمہ: ارشاد الرحمٰن

سختی ، شدت، غصہ و ناراضی اور قانون انسان کے نفس و کردار کو بدلنے کا قطعاً بہترین ذریعہ نہیں ۔ انسان کو اندر اور باہر سےتبدیل کرنے کی انتہائی مضبوط کلید ’محبت‘ ہے۔

ذرا غور فرمائیے کہ وہ کیا چیز ہے جو ایک روزہ دارکو کھانے پینے سے روک دیتی ہے اور وہ پندرہ سولہ گھنٹے کے طویل دورانیے میں نہ کچھ کھاتا ہے اور نہ پیتا ہے۔ وہ مسلسل بھوک پیاس کو برداشت کرتا ہے۔ وہ کیا چیز ہے جو پانچ وقت نماز ادا کرنےوالے ایک فرد کو نمازوں کے خاص اوقات میں اپنا کاروبار اور کام کاج چھوڑ کر رب کے حضور میں پہنچنے پر مجبور کرتی ہے؟ وہ کون سی شے ہے جو ایک باحجاب مسلمان خاتون کو گرم ترین موسم اور گرم ترین خطوں میں بھی حجاب پہننے پر مطمئن رکھتی ہے؟ وہ کیا شے ہے جو انسان کو دوسروں کی غلطیوں اور خطائوں کو معاف کر دینے پر راضی کرتی ہے؟___ یہ ’محبت‘ ہے! اللہ اور رسولؐ کی محبت! یہ اللہ اور رسولؐ کی رضا و خوش نودی کی محبت ہی ہوتی ہے جو انسان کو مذکورہ تمام اعمال انجام دینےپر آمادہ کرتی ہے۔ انسان ان چیزوں کو برداشت کرنے کےلیے تیار ہوتا ہے، بلکہ وہ اللہ اور رسولؐ کی خاطر اپنی جان تک قربان کر دینا اپناایمان سمجھتا ہے۔

محبت تبدیلیِ نفس و کردار کا ایک بہترین، مؤثر اور گہرے اثرات مرتب کرنے والا ذریعہ ہے۔ اس کی تاثیر کی اہمیت کو عہدِ نبوتؐ میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ نبی اکرمؐ نےاپنےتمام انفرادی و اجتماعی اعمال میں ’محبت‘ پر خصوصی ارتکاز رکھا۔ یہاں تک کہ دولت اسلامیہ کی تاسیس کی بنیاد محبت کے ستونوں پر استوار فرمائی۔ آپؐ نےمدینہ میں اسلامی ریاست قائم کرتے وقت جو دواولین کام انجام دیے، وہ مہاجرین و انصار کے درمیان مؤاخات اور مسجد نبویؐ کی تعمیر تھی۔ پہلے کام کا تو مقصد ہی اجتماعی تعلقات کو محبت کی بنا پر قائم کرنا تھا تاکہ معاشرہ مضبوط و مستحکم ہو سکے۔ دوسرے کا مقصد اللہ تعالیٰ سے محبت کو ایک منہج اور طریق فراہم کرنا تھا، اللہ سے تعلق کو تقویت دینا تھا، اور یہ سب کچھ مسجد کے ساتھ وابستہ رہ کر ممکن ہو سکتا تھا۔

اس ضمن میں چند مثالوں پر غور کیجیے:

  •  ایک عورت نےاپنے شوہر کی بدسلوکی کا شکوہ کیا تو میں نے اُس سے کہا: اپنےشوہر کو’محبت‘ سے بدلو۔
  •  ایک آدمی نے اپنے بیٹے کو سگریٹ نوشی سے باز رکھنے کے ہزار جتن کیے مگر وہ اس سے سگریٹ نہ چھڑا سکا۔ میں نے اُس آدمی سے کہا: بیٹے کو تبدیل کرنے کے لیے ’محبت‘ کا نسخہ آزما کر دیکھیے۔ اُس نے بیٹے کے ساتھ پدرانہ تعلق کو انتہائی مشفق بنانے پر توجہ دی۔ جب باپ بیٹے کے درمیان پیار و محبت کا تعلق مضبوط تر ہو گیا تو باپ نے موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا: بیٹا، اگر تمھیں مجھ سے پیار ہے تو پھر سگریٹ نوشی چھوڑ دو۔ باپ کی محبت چونکہ سگریٹ نوشی ترک کردینے سے مشروط ہو گئی تھی، لہٰذا بیٹے نے بہت جلد اسے ترک کر دیا۔
  •  ایک مدرّس نے ایسی نوجوان لڑکیوں کو درس دیا جو حجاب میں نہیں تھیں۔ مدرّس نے ایمان اور اس کی شیرینی، بندے کے ساتھ اللہ کے لطف و کرم اور احسان و رحمت پر گفتگو کی۔ درس ختم ہوا تو ایک لڑکی نےاُٹھ کر سوال کیا: یہ پہلی دفعہ ہوا ہےکہ ہمارے پاس ایسا عالمِ دین آیا ہے جس نے حجاب کے بارے میں بات نہیں کی! مدرّس نے جواب دیا: میں نے آپ کے سامنے حلاوتِ ایمان اور محبت ِالٰہی پر گفتگو کی ہے۔ جب آپ کو ایمان کی حلاوت کا احساس ہونےلگے اور اللہ کی محبت آپ کے دل میں پیدا ہو جائے تو پھر کوئی آپ سے کہے یا نہ کہے آپ حجاب اوڑھنا شروع کر دیں گی۔ کیوں؟ اس لیے کہ آپ اللہ سے محبت کرنےلگیں گی اور انسان جس سے محبت کرتا ہے اس کا مطیع اور فرماںبردار ہو جاتا ہے۔ امام شافعیؒ سے منسوب اشعار میں اس بات کو یوں بیان کیا گیا ہے:

تَعْصِی الْاِلٰہَ وَأنْتَ تَظْھَرُ حُبَّہُ

ھٰذَا مَحَالٌ فِی القِیَاسِ بَدِیْعُ

لَوْ کَانَ حُبُّکَ صَادِقًا لَأَطَعْتَہُ

اِنَّ المُحِبَّ لِمَنْ یُّحِبُّ مُطِیْعُ

(تو اللہ کی معصیت کے باوجود اس سے محبت کا دعوے دار ہے، یہ ناممکن ہے، یہ عقل کے لیے انوکھی بات ہے۔ اگر اللہ سے تیری محبت سچی اور حقیقی ہوتی تو تُو ضرور اس کی اطاعت کرتا، کیونکہ محبت کرنےوالا اپنے محبوب کا اطاعت گزار ہوتا ہے!)

  •   ملائیشیا میں میرا تعارف ایک چینی نژاد نوجوان سے ہوا۔ اس کا مذہب بدھ مت تھا۔ یہ ایک ملائی لڑکی سے متعارف ہوا تو اُس کی محبت میں گرفتار ہو گیا۔ لڑکی سے شادی کے لیے کہا تو اُس نے جواب دیا: میرا دین کسی غیر مسلم سے شادی کی مجھے اجازت نہیں دیتا۔ آپ مسلمان ہو جائیں یا شادی نہ کرنے کی میری معذرت قبول کر لیں۔ لڑکے نے سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ اسلام قبول کر لیتا ہوں تاکہ لڑکی سے شادی ممکن ہو سکے۔

میں ملائیشیا میں اس نوجوان سے ملا ہوں۔ میں نے اس کی داستانِ محبت اور قبولِ اسلام کی مکمل رُوداد سنی۔ اس کی یہ بیوی بھی اس ملاقات میں موجود تھی۔ اس نے اپنےشوہر کی اس گفتگو کی تصدیق کی۔ نوجوان سے میں نے پوچھا: کیا آپ اسلام میں داخل ہوتے وقت دلی طور پر مطمئن تھے؟ اُس نے کہا آغاز میں تو مطمئن نہیں تھا، میرا مقصد تو اپنی محبت سے شادی کرنا تھا۔ آج اپنی شادی کے ۱۰ سال گزرنے کے بعد میں پوری وضاحت سے اعلان کرتاہوں کہ میں اسلام قبول کرنے پر اللہ تعالیٰ کا ہزار بار شکرگزار ہوں۔ جب میرے اوپر واضح ہو گیا کہ اسلام ایک عظیم، خوب صورت، آسان اور بے ضرر دین ہے، تو میں نے سعودی عرب جا کر عربی زبان سیکھنے کا فیصلہ کیا۔ مقصد قرآنِ مجید کا اچھی طرح فہم حاصل کرنا تھا۔ جب میں نے عربی زبان اچھی طرح سیکھ لی اور قرآنِ مجید کو بھی سمجھنے لگا تو قرآن سے بہت زیادہ متاثر ہوا۔ مجھے معلوم ہوا کہ یہ عظیم کتاب ہے۔ اس کتاب نے میرا عقیدہ و کردار اور اخلاق و اطوار بدل کر رکھ دیے، حتیٰ کہ میرا نظریۂ حیات اور تصورِ زندگی ہی بدل ڈالا۔

یہ کہہ کر نوجوان نےاپنی بیوی کی طرف دیکھا اور کہا: یہ بیوی میری دنیاوی زندگی کو پُرمسرت بنانے کی وجہ بنی ہے، اِن شاءاللہ آخرت کی سعادت کا باعث بھی یہی ہو گی، کیونکہ میرے قبولِ اسلام ہونے کا سبب یہی بیوی ہے۔

یہ نوجوان ملائیشیا میں موجود چینیوں کے اندر گہرے اثرات رکھتا ہے۔ سیکڑوں لوگ اس کے ہاتھ پر اسلام قبول کر چکے ہیں۔ یہ تمام نیکیاں اس کی بیوی کے نامۂ اعمال میں بھی درج ہوں گی۔

اس چینی نوجوان کے واقعے سے مجھے عہدِ صحابہؓ کا ایک واقعہ یاد آ گیا۔

  • حضرت طفیل بن عمرو الدوسیؓ کے اسلام لے آنے کے بعد ایک عورت اُن کے پاس خلوت گزاری کے لیے آئی تو انھوں نے اسے اس کام سے منع کرتے ہوئے کہا: اب تم مجھ پر حرام ہو گئی ہو۔ اُس نے پوچھا: کیوں؟ طفیل دوسیؓ نے جواب دیا: میں مسلمان ہو گیا ہوں۔ اس پر عورت کا ردّعمل ان الفاظ سے سامنے آیا: تم میرے ہو اور میں تمھاری،میرا دین بھی وہی ہو گا جو تمھارا ہے۔ پھر عورت مسلمان ہو گئی۔

 عہد صحابہؓ میں کئی لوگوں کے قبولِ اسلام میں ’محبت‘ کا کردار نمایاں طور پر تاریخ اسلام کا حصہ ہے۔

  • حرث بن ہشام کی بیٹی کا واقعہ مشہور ہے کہ فتح مکہ کے دن وہ مسلمان ہو گئیں، مگر اُن کا شوہر عکرمہ بن ابوجہل بھاگ کر یمن چلا گیا۔ بیوی نے اُس کو چھوڑنا گوارا نہ کیا اور اس کے پیچھے  یمن جا پہنچی۔ وہاں جا کر اُسے ملی اور اسلام قبول کر لینے کے لیے اُسے کہا۔ اس کے ہاتھ پر وہ مسلمان ہو گیااور مسلمان کی حیثیت سے رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔
  •  اسی طرح کا واقعہ اُمِ سُلَیم کا ہے کہ ابوطلحہ شادی کے ارادے سے اُن کے پاس آئے تو انھوں نے اس بنا پر انکار کر دیا کہ وہ مشرک ہے۔ البتہ یہ کہا کہ اگر تم مسلمان ہو جائو تو میں تم سے شادی کر لوں گی اور تمھارا اسلام لے آنا ہی میرا مہر ہو گا۔ اس پر ابوطلحہ اسلام لے آئے اور خاتون نے ان سے شادی کر لی۔

دل و دماغ اور نفس و کردار کو بدلنے کے دو ہی طریقے ہیں: ۱۔ محبت، ۲۔خوف اور تنبیہہ۔ یہ دونوں طریقے دل اور کردار کو بدل دیتے ہیں، مگر ان میں ’محبت‘ کا اثر گہرا اور نتائج کے اعتبار سے دیرپا ہوتا ہے،جب کہ خوف اور تنبیہہ کا اثر فوری اور تیزتر ضرور ہو سکتا ہے، لیکن اس کے اثرات دیرپا اور دائمی نہیں ہوتے۔(www.almugtama.com)

 

ترجمہ: ڈاکٹر محی الدین غازی

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا اور اسے خلیفہ بنا کرزمین کے تمدن اور اس کی برکتو ں کی افزایش کا امین اور اس میں حق وانصاف کے قیام کا ذمہ دار بنایا ۔کائنات کے حیوانات اور نباتات،سمندر اور دریا، غرض ہرچیز کو اس کے لیے مسخر کیا ،اس کے ارادے کا پابند بنایا۔

اسے اس کا ئنات میں چیزو ں کی افزایش کرنے، انھیں مسخر کرنے اور ان کے فائدوں کو سمیٹنے کی استعداد بھی عطا کی گئی ہے ، جب کہ کائنات کی تخلیق اور اس کو لپیٹ دینے کا اختیار اللہ کے پاس ہے۔ وہی ہے جس نے ہر چیز کو خلقت دی اور ہدایت بھی کی ۔ یہ اللہ کی شانِ تخلیق ہے جس نے ہرچیز کو بہترین ساخت پر بنایا ۔ امانت اور خلافت کا منصب اسی کو سونپا جاسکتا ہے جو صلاحیت اور اختیار کا حامل ہو ۔ چنانچہ انسان کو مختلف شکلو ں اور نوعیتوں کی صلاحیتوں سے نوازا گیا ،اسے اختیار بھی دیا گیا ، ورنہ جو بے بس، مجبور اور دوسرے کے ارادے کا پابند ہو اسے ایسی ذمہ داری دینا بے معنی ہے۔

آزادیِ   راے اور ایمان

آزادی اسلام کے پیغام کا جوہر (essence)اور اس کے عقیدے اورشریعت کا محور ہے۔ اس دین کی اس خصوصیت کو مجبوروں ،کمزوروں ، دبے کچلے اور ستم رسیدہ لوگوں نے جان لیا تھا۔ چنانچہ وہ کھلے دل ودماغ کے ساتھ اس کی طرف لپکے اور وہی اسلام کے اوّلین علَم بردار تھے ۔ دوسری طرف اہل جبر وغرور نے بھی اس حقیقت کو سمجھ لیاتھا۔ اسی لیے انھو ںنے اس دعوت کو جھٹلایا، اس کا مقابلہ کیا اور ہر طرح کی رکاوٹیں اس کے سامنے کھڑی کیں، مگر اللہ نے اپنے بندوں کی مدد کی، اپنے لشکر کو غالب کیا اور تنہا ساری دشمن طاقتو ں کو شکست دی۔

’ایمان‘ اپنے اسلامی دائرے میں عقل، وجدان اور انسانی ضمیر کی آزادی کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔ ایمان کے ذریعے عقل کو تمام تر توہمات،جبر اور گمراہ کن راستو ں سے آزادی ملی۔     وہ غور وفکر اورتجزیہ واستدلال کے زیور سے آراستہ ایک آزاد عقل بن گئی، جس کا معلومات کو قبول یا انھیں مسترد کرنے میںبااصول اور فیصلہ کن منہاج تھا۔ یہ معلومات خواہ زبانی روایت ہوں یا تحریری عبارت، سماعی ہوں یا اجتہادی، عالم غیب سے منسوب ہوں یا عالم حضور سے ، قابل قبول وہی بات ہوتی تھی جس کے حق میں دلیل وبرہان موجود ہو۔ معرفتو ں کی ساری صورتیں بلا استثنا اس اصول کے تابع تھیں ۔ اللہ تعالیٰ نے بھی بہت سارے امور کو جنھیں خود اس نے مقدر کیا اور جن میں سے رسولو ں کو بھیجنا بھی شامل ہے، دلیل وبرہان سے جوڑ دیا، تاکہ اللہ کے خلاف لوگو ں کے پاس کوئی حجت نہ رہے ۔ انبیا ؑکو معجزات دیے تاکہ ان کے پاس لوگوں کودکھانے کے لیے دلیل رہے، جو ان کی نبوت پر دلالت کرے اور ان کے دعوے کی صداقت کو قوت بخشے۔

اسی طرح ایمان نے مومن کے وجدان اور اس کے ضمیر کو مکمل طور سے جبر کی ان تمام ترشکلوں سے ہمہ گیر آزادی عطا کی، جو انسان کے ضمیر اور بصیرت [intuition] کو مقید یا ان کی فعالیت کو مفلوج کردیتی ہیں، کہ انسان اپنی تمام تر قوتوں کے ساتھ فکری ،تمدنی اور تہذیبی فعالیت کے میدانوں میں قدم رکھے ، اجتہاد کرے اور اس عالمِ وجود میں خالق عظیم کی قدرت کے آثار کی نمایش میں تخلیقیت کا مظاہرہ کرے ۔ اس لیے بھی کہ انسان کی توانا ئیا ں اور اس کی اجتہادی اور تخلیقی قوتیں   اس عالمِ وجود میں ’خلیفہ‘ [vicegerent]کی حیثیت سے ابھر کر آئیں۔ جس کے لیے اللہ نے فرشتو ں پر اچھی طرح واــضح کردیا تھا کہ وہ ان سے زیادہ باصلاحیت اور زمین کی وراثت وخلافت کا زیادہ حق دار ہے:

اس کے بعد اللہ نے آدم کو ساری چیزوں کے نام سکھائے ،پھر انھیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا: اگر تمھارا خیال صحیح ہے (کہ کسی خلیفہ کے تقرر سے انتظام بگڑ جائے گا)، تو ذرا اِن چیزوںکے نام بتاؤ۔ اُنھوںنے عرض کیا: نقص سے پاک تو آپ ہی کی ذات ہے۔ ہم تو بس اتنا ہی علم رکھتے ہیں، جتنا آپ نے ہم کو دے دیا ہے۔ حقیقت میں سب کچھ جاننے اور سمجھنے والا آپ کے سوا کوئی نہیں‘‘ ۔پھر اللہ نے آدم سے کہا : ’’تم انھیں ان چیزوں کے نام بتاؤ‘‘۔ جب اس نے اُن کو اِن سب کے نام بتادیے، تو اللہ نے فرمایا : ’’میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی وہ ساری حقیقتیں جانتا ہوں جو تم سے مخفی ہیں ،جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو ،وہ بھی مجھے معلوم ہے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو، اسے بھی میں جانتا ہوں‘‘۔ (البقرہ۲:۳۱-۳۳)

اس طرح ایمان نے انسان کے ارادے کو آزاد ی سے نوازا اور اسلام نے اس آزادی کو تحفظ کی مطلوبہ ضمانتو ں کا حصار دے دیا ۔اب کسی کے لیے اس کی گنجایش نہیں تھی کہ اس کو اس کے ارادے کے علی الرغم مجبور کردے ۔ تاہم خدابنے بیٹھے اربابِ غرور،اکثر مذہب کو بھی انسان کا ارادہ تباہ کرنے اور اس کی آزادی سلب کرلینے کا ذریعہ اور ہتھیار بناتے ہیں۔ اس دین وحید نے جو    اللہ کے نزدیک ہدایت کا دین اور آخری حق ہے، صاف صاف اعلان کردیا :

لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قف قَدْتَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ ج (البقرہ ۲:۲۵۶) دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ صحیح بات، غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔

انسان پختہ اور بالغ ہوچکا ہے، وہ زندگی کے ابتدائی مرحلے سے آگے بڑھ چکا ہے۔ اب اسے ضرورت نہیں کہ کوئی بھی چیز جبر کی تلوار ،دبائو اور ڈراوے کے طریقو ں سے قبول کرے جیسا کہ پہلے تھا ۔ ارشادِ ربانی ہے:

وہ وقت بھی کچھ یا د ہے، جب کہ ہم نے پہاڑ کو ہلا کر ان پر اس طرح چھا دیا تھا کہ گو یا وہ چھتری ہے اور یہ گمان کررہے تھے کہ وہ ان پر آپڑے گا، اور اس وقت ہم نے ان سے کہا تھا کہ جو کتا ب ہم تمھیں دے رہے ہیں، اسے مضبوطی کے ساتھ تھامو۔ (الاعراف ۷:۱۷۱)

اور ان پر سے وہ بوجھ اتا رتاہے جو ان پر لدے ہوئے تھے، اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے ۔(الاعراف ۷:۱۵۷)

یہ طریقے رحمت کی شریعت کے ذریعے منسوخ کردیے گئے ۔

’راے اور اس کے اظہار کی آزادی ‘ کو اسلامی ایمان محض ایک حق قرار نہیں دیتا کہ انسان چاہے تو اس کا مطالبہ کرے اور چاہے تو اس سے دست بردار ہوجائے، بلکہ یہ اس کا فرض، ذمہ داری اور امانت ہے ۔ یہ اس رکن کا حصہ ہے، جسے بہت سارے علما ارکان اسلام میں چھٹا رکن قرار دیتے ہیں۔ یہ بہت نازک رکن ’امر بالمعروف اور نہی عن المنکر‘کا حصہ ہے ۔ چنانچہ معاشرے میں کوئی برائی اور کوئی غلطی اگر ابھرتی ہے تو سارے لوگو ں سے مطالبہ ہے کہ وہ اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کریں۔ اسی طرح ان پر مشترک اور باہم مل کرادا کرنے والی یہ ذمہ داری بھی عا ئد ہوگی کہ اس برائی کو مٹائیں اور انحراف کو درست کریں۔ ہر ایک اپنی طاقت کے حدود اور اپنے کام اور سرگرمی کے دائرے میںاس کا مکلف ہے۔ اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ یہ غلطی یا انحراف دین کے فہم سے متعلق کسی مسئلے میں ہے یا سماج کے کسی مسئلے میں۔ اس میں بھی فرق نہیں ہے کہ انحراف چوٹی پر ظاہر ہوا ہے یا بنیاد میں، بلکہ حکام، اعلیٰ قیادت اور سماج کے فیصلہ ساز لوگوں کے انحراف کے خلاف آوازبلندکرنے کی زیادہ حوصلہ افزائی اور زیادہ ترغیب ملتی ہے ۔ 

رسولؐ اللہ نے فرمایا :شہیدو ں کے سردار (قیامت کے دن) حمزہ بن عبدالمطلب اور وہ آدمی ہوگا جو ظالم سلطان کے سامنے کھڑا ہوا ،بھلائی کا حکم دیا اور برائی سے روکا اوراس پر اس نے اسے قتل کردیا۔(مسند ابی حنیفہ، ص۱۳۳)۔آپؐ نے فرمایا: ’’افضل جہاد ظالم سلطان کے سامنے حق بات کہنا ہے‘‘(سنن ابی داؤد)۔اس حدیث میں امت کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ راے کی آزادی ، اس کے اظہار کی آزادی اور منکر کی مخالفت کے سلسلے میں اپنا محض حق نہیں بلکہ اپنی ذمہ داری کو بھی ادا کرتی رہے۔ چاہے اس راہ پر چلتے ہوئے کچھ قربانیا ں دینی پڑیں اور ظالمو ں اور جابروں کے ہاتھوں کچھ لوگ شہادت کا جام نوش کریں ۔ دراصل ، ہدایت الٰہی کے یہ باغی اور ظالم عناصر چاہتے ہیں کہ لوگوں کو تہذیب کی تعمیر میں ان کے حقیقی کردار کی ادایگی سے روک دیں، اور انھیں معاشرے کے انحراف [deviation] اور زوال [decadence] کو درست نہ کرنے دیں۔

اسلامی روایت

آزادی کے یہ تصورات اسلام کے دور اوّل میں حکومت اور رعایا سب میں عام اور معروف تھے۔ حضرت عمر بن خطاب ـؓ کے پاس ایک قبطی، فاتح مصر اور گورنر حضرت عمرو بن العاصؓ اور ان کے لڑکے کی شکایت لے کر پہنچا۔ جب خلیفۂ عادل نے دونو ں سے بدلہ لے کر اور اسے انصاف دے کر راضی کردیا تو انھوں نے یہ عظیم اعلان کیا :’’ـــ تم نے کب سے لوگوں کو غلام بنالیا ،انھیں تو  ان کی مائوں نے آزاد جنا تھا‘‘ ۔ حضرت علیؓ سے بھی یہ قول روایت کیا گیا ہے : ’’اے لوگو آدم سے نہ غلام پید ا ہوا تھا نہ لونڈی، بلاشبہہ سب لوگ آزاد ہیں‘‘۔ (نہج السعادۃ، ج۱، ص۱۹۸)

 اہمیت کے کسی بھی درجے کا کوئی اہم معاملہ ہوتا تھا تو پوری امت کو اپنی راے بیان کرنے کی دعوت دی جاتی تھی ۔ چرواہوں سے ان کی چراگاہو ں میں مشورے لیے جاتے تھے اور پردہ نشینوں سے ان کے پردے میں ۔ اور جب ایک مسلمان حضرت عمرؓ کی کسی بات پر اعتراض کرتا ہوا آیا جو اس کے سامنے واضح نہیں ہوسکی تھی ،اور اس نے اعتراض میں شدت کا مظاہرہ کیا۔  مجلس کے کچھ لوگوں نے اسے خاموش کرکے وہاں سے ہٹانا چاہا تو حضرت عمرؓ نے ایسا کرنے سے انھیں روک دیا اور فرمایا : اسے کہنے دو ، تم اگر ایسی باتیں نہیں کہو گے تو مانوتم میں کوئی خیر نہیں ہے اور ہم انھیں نہیں سنیں گے تومانو ہم خیر سے خالی ہیں‘‘۔

حضرت ربعی بن عامرؓ سے جب رستم نے جہاد کے لیے نکلنے کا سبب پوچھا تو انھو ں نے جواب دیا تھا: ’’ہمیں تو اللہ نے بھیجا ہے تاکہ ہم جسے وہ چاہے اس کو بندوں کی غلامی سے نکال کر اللہ وحدہ کی بندگی میں ،مذاہب کے ظلم سے اسلام کے عدل، اور دنیا کی تنگی سے دنیا وآخرت کی وسعت میں داخل کریں‘‘۔گویا ضمیر ،بصیرت، ارادہ ،تعبیر اور تحریک ہر پہلو سے انسان کی آزادی اور ان ساری آزادیوں کی حفاظت اور دفاع، اسلام کے اہداف اور اسلامی جہاد کے مقاصد کا جوہر ہے۔

اللہ تعالیٰ کے حکم سے اگر خلافت راشدہؓ زیادہ عرصے تک چلتی رہتی اور اسے موقع ملا ہوتا کہ وہ ایسے سلسلے [channels]بنائے، جو ان آزادیو ں کو منظم کریں اور ان کی حفاظت کی ضمانت لیں تو ایسی صورت میں امت پر پس ماندگی کے وہ اسباب مسلط نہ ہوتے، جنھو ں نے اسے ایسی امت سے جو لوگوں کے سامنے لا ئی گئی تھی تا کہ نمونہ اور شہادت کے منصب پر رہے، اس اُمت میں تبدیل کردیاجو اپنے تہذیبی کردار سے بھی پیچھے ہٹتی جارہی ہے ۔ وہ امت جو اس کے بعد اللہ کے بندو ں کی آزادی غصب کرنے والے ظالموں اورجابروںکی پیدایش کی عادی ہوگئی ۔ جب سے خلافت راشدہ، ملوکیت میں تبدیل ہوئی ہے، اس وقت سے آج تک وہ ایسے لوگوں کے غول در غول پیدا کیے جا رہی ہے۔

کوئی شک نہیں ہے کہ خلافت راشدہ کی کم عمری اور بادشاہت سازی میں کچھ لوگوں کی جلد بازی نے بہت سارے بنیادی اسلامی تصورات کو غیرمؤثر کر دینے میں کردار ادا کیا ۔جن میں آزادی کا اپنی مختلف شکلو ں میں محدود ہونا بھی شامل ہے،بلکہ مسلمانوں کے درمیان بڑے پیمانے پر ایسا فکری اور ثقافتی ورثہ بھی وجود میں آگیا، جو ان انحرافات کو بنیاد فراہم کرتا ہے اور آزادیو ںکی مختلف شکلوں کو محدود یا ختم کردیتا ہے۔ ایسے غیرصحت مندفکری ورثے کو اختیار کرنا بھی جائز نہیں ہے، چہ جائیکہ کوئی اس پر فخر کرے ،اس کا دفاع کرے یا اس کو عام کرے، اوراسے اسلام کی تعلیمات اور اس کی بنیادی ’قدروں‘ میں شمار کرنے کی جسارت کرے ۔ شاید اسی ورثے میں سے وہ کچھ بھی ہے جو سد الذرائعاور الأخذ بالاحتیاط أو الأحوط کے قاعدوں کے تحت ذکر کیا گیا ہے۔

لوگوں نے بدقسمتی سے ان دونوں قاعدوں یا اصولوں کو سمجھنے میں بہت غلطی کی ہے ۔  خاص طور سے ظالم حکومتوںنے ان کا بہت زیادہ غلط استعمال کیا ہے ۔ جب انھو ں نے ان دونوں قاعدوں کوان کے دائرے اور ان کے بہت محدود اور مخصوص فقہی میدان سے اُٹھاکر انھیں دوفکری بنیادیںبنا ڈالا ،جو امت کے فکری سفر کو گرفت میں لاتے ہیں ،اور اس کی تمام تر تفصیلات پر فیصلہ کن فیصلے صادر کرتے ہیں، اور ان کو امت کے دماغ کی نگرانی کا حق دیتے ہیں کہ اس کی زبان پر تالا لگادیں، جن میں تنہا ایک ظالم کی ضرورت کا تقاضا ہو تو اس کے حاشیہ برداروں کی بھی تعریف و ستایش لازم کر دی جائے۔

ظالموں اور ان کے حاشیہ برداروں نے ہمیشہ امت کو ایک فاترالعقل یا یتیم بچے کی حیثیت سے دیکھا ہے۔ ایسے سفاک حاکم طبقے بزعمِ خود یہ سمجھ بیٹھے اور یہ باور کرانے لگے کہ: ’’یہ اُمت چونکہ نہیں جانتی کہ اس کا فائدہ یا نقصان کس میں ہے ،اس لیے اس کا ایک ’ولی‘ ہونا ضروری ہے جو اس کی ضرورتوں اور مسائل کو سمجھے اور ان کا انتظام کرے‘‘۔اور پھر خودبخود یہی ظالم وجابر ہی اس ذمہ داری کو رضاکارانہ طور پر اٹھانے کے لیے اور ولایت ونگرانی کاکام انجام دیں۔

یہ بات جانتے ہوئے بھی کہ وحی الٰہی میں اعلان موجود ہے کہ: یہ امت گمراہی پر جمع ہونے سے محفوظ ہے اور غلطی پر جمع ہوجانے سے بھی بچالی گئی ہے ۔ اور اگر وہ غلطی کرے گی بھی تو ان  ظالم وجابر آمروں جیسی غلطی ہر گز نہیں کرے گی ۔وحی نے یہ اعلان بھی کیا کہ: امت سے بے نیازی اس کے ارادے اور خواہش سے تجاہل اور اس کی خیر خواہی اور اسے مشورے میں شریک کرنے سے پہلوتہی دراصل استبداد [dictatorship]اور سرکشی کا اہم ترین دروازہ ہے ۔ ارشاد ربانی ہے:

ہر گز نہیں،انسان سرکشی کرتا ہے اس بنا پر کہ وہ اپنے آپ کو بے نیاز دیکھتا ہے۔ (العلق ۹۶ : ۶-۷)

اگر ’راے اور اس کے اظہار کی آزادی ‘ مسلمانو ں کی زندگی میں فکر وعمل کا ایک مضبوط ستون بن کر رہتی، جیسا کہ رسولؐ اللہ اور خلفاے راشدین کے زمانے میں تھا، تو اُمت کو پے در پے ہزیمتو ں کا منہ نہ دیکھنا پڑتا اور آج اُمت پستی کے اس گہرے کھڈ میں نہ گری ہوتی۔

اس امت میں اصلاح کی بہت ساری کوششو ں کو ناکام بنا دیا گیا ۔ ان کوششوں کے اثرات کو مقید کرکے امراض کے ایک مجموعے کے ذریعے تباہ کردیا گیا ۔ ان امراض میں فکری بحران، ثقافتی پسپائی، سیاسی جبر ،خودشناسی کا فقدان بھی ہیں ، تاہم ’’صحت مند پختہ دماغ کی غیر موجودگی اور اگر وہ موجود بھی ہو تو اسے فعال ہونے سے روکنے کی ہر وسیلے سے کوشش‘‘کا مسئلہ پسپائی کے اسباب، غلطی کے محرکات اور خلل کی وجوہات میں سرفہرست ہے ۔

آزادی   راے سے محرومی کے اثرات

راست فکر، دانش مندی اور یکسوئی سے محرومی کا معاملہ بے حد نازک ہے ۔پختہ فکرودماغ کے حاملین ایسی امت میںکیسے جنم لے سکتے ہیں، جس امت کے سارے امکانات کو عقل و خرد [reasoning] کے محاصرے اور اس کی تحقیر پر، ذہن کا دائرہ تنگ کرنے اور فکر کا مذاق اڑانے پر، اور تقلید اور تابع داری کے اسباب پید ا کرنے اور ان کا کوہ ہمالہ تعمیر کرنے پر مامور کردیا گیا ہو ۔

یہ چیز نظام ہاے حکومت تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ یہ ان گروہوں، تنظیموں، اداروں اور جماعتوں تک میں سرایت کرگئی، جنھیںاس امید کے ساتھ قائم کیا گیا تھا کہ و ہ امت کو اس حالت زار سے نکالنے اوراس بحران سے گزارنے میں معاون ہو ں گی، جو امت کے صالح عناصر کی پرورش کی بہترین آغوش بنیں گی ۔ ہو ا یہ کہ وہ بھی اسی ڈگر پر چل نکلیں کہ: ’’نافذ کرو اور پھر بحث کرو ‘‘۔ یہاں تک کہ اسلامی جماعتیں اور تنظیمیں بھی اس سے محفوظ نہ رہیں کہ کسی کی راے کو روکیں یا رد کرکے اس پر پابندی لگادیں، یا پھر حسب ضرورت اس راے رکھنے والے کو تنظیم سے الگ کردیں، اس کی کتابوں کوبر سر حق گروہ یا مدد خداوندی کی مستحق جماعت میں گردش کرنے سے روک دیں ۔

اس کے لیے مختلف دلیلیں بھی دے دی جاتی ہیں، مثلاً اطاعتِ امر واجب ہے، یا یہ کہ صاحب ِ امر پریشانی سے دوچار نہ ہو۔ ان لوگو ں نے وہ سب کچھ جو ہمارے فقہی ورثے میں تھا  اور بادشاہت اور جبر کے زمانوں کی پیداوار تھا، اسے تحریک یا تنظیم کے اولی الامر کی گود میں لاکر ڈال دیا، تاکہ اس کے پاس شرعی وسائل ، ماضی کے ہتھیار اور سرکوبی کرنے کے وہ اختیارات رہیں جو شورائیت کو روک سکیں۔ دوسرے کی راے اور اس کے اظہار کے سامنے دیوار بن جائیں تاکہ تنظیم کا قائد ظالم حاکموں کی جانشینی کا مستحق ٹھیرسکے، مگر ’اللہ کی حاکمیت ‘ کے نعرے کے ساتھ۔

یہی نہیں، بلکہ یہ وبا ہمارے گھروں اور خاندانوں تک پہنچ گئی ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ گھر کا بڑاگھر کا آقا بنا ہوا ہے ۔ اس کی بات گھر میں چلتی ہے ۔ اس کے سامنے کوئی ہونٹوں کو جنبش دینے کا حق نہیں رکھتا (اس کے ساتھ یہ بھی جاننا چاہیے کہ آج مسلم خاندان کے ذمہ دار کی حیثیت رہایشی ہوٹل یا ریسٹورنٹ کے منیجر کے رول سے زیادہ نہیں رہ گئی ہے ۔ اس کے پاس اپنے بچوں کو دینے کے لیے اتنا وقت نہیں ہے، جو انھیں خاندان کے مفہوم سے آشنا کرے )۔ غرض استبدادی یا آمرانہ طرزِفکروعمل اور دوسرے کی راے کو ٹھکرانا بلکہ جڑ سے اکھاڑ نے اور معاشرے کے وجود اور اس کے خلیوں میں اس کی موجودگی کو ختم کرنے کا سلسلہ بڑھتا گیا۔ یہاں تک کہ امت میں ’’عوامی کج فہمی، حیوانوں جیسا مزاج اور غلامو ں کی سی نفسیات‘‘ کی اصطلاحات کا انبار لگ گیا ۔

استبداد نے اس امت کو اس حالت تک کیسے پہنچادیا ؟ جب کہ یہ وہ امت ہے جس کے قدیم افراد، یعنی اصول فقہ کے علما نے ’راے‘ کو شریعت کی ایک دلیل قرار دیا تھا ۔معتبر شرعی ذریعوں سے راے، جس نتیجے تک پہنچا ئے، وہ راے لوگوں کے یہاں شریعت کی طرح لائق عبادت ہوتی تھی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے بعد والوں کے یہاں وہ بدعت ،جرم ، انحراف ،اعتزال ،سنت سے بغاوت، اطاعت سے دُوری، غرض وہ کچھ ہوگیا کہ کچھ لوگ امت کی فضا کو اس سے پاک کرنے اور اس سے محفوظ رکھنے کی دہائی دینے لگے۔اسے ایسی گمراہی قرار دینے لگے جس سے لوگو ں کو ہوشیار کرنا فرض ہو اور ایسا دروازہ جسے بند کرنا واجب ہو، تاکہ امت پر شر کے وہ دروازے نہ کھل جائیں، جو بند ہی  نہ ہوسکیں ، غرض سوچنے کا عمل رُک گیا ۔

 یہ سمجھا گیا کہ غور وفکر،نئی سوچ اور نئے راستوں کو تلاش کرنے سے رک جاناہی بہتر ضمانت ہے، یعنی ٹھیرے ہوئے ساکن افکار کا مجموعہ ہی اُمت پر حکمراں رہے۔ اس کے دماغ پر حاوی رہے اور حسب ضرورت اس کو باربار پیدا کیا جاتا رہے ۔جان لیجیے کہ اس کے بعد امت پر ’شر‘ کا کون سا دروازہ ہے جو نہیں کھلا ؟ ساری برائیاں خدا کی پنا ہ اس امت کی زندگی میں ہر جانب سے داخل ہورہی ہیں۔ کھلے دروازے تنگ پڑتے ہیں تو کھڑکیوں سے ’شر‘ یلغار کرتا گھس آتا ہے ۔ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اس قضیے کو مختصراً یوں کہا جاسکتا ہے: ’’ظالمو ں کا استبداد ،عالمو ں کی بے بسی اور  فرزندانِ اُمت کی جہالت، نہ کہ راے کا اظہار اور اس کے اظہار کی آزادی‘‘۔

ظالموں کے استبداد کے اثرات اور خطرات جانے پہچانے ہیں۔ قرآن اور احادیث نبوی جو اس سے خبردار کرتے ہیں تو وہ بھی معروف ہیں۔ قرآن مجید کی کسی سورت کی تلاوت کریں وہ پوری شدت سے استبداد اور سرکشی سے اور تہذیبوں کی تباہی ،قوموں کی پسپائی اور کائنات کی بربادی میں ان کے اثرات سے متنبہ کرتی ہے ۔ رسولؐ اللہ کی سنت بھی ایسی ہدایات سے بھر پور ہے، جو استبداد، طغیان اور سرکشی سے ڈراتی ہیں ۔ان کے مقابلے اور ان کے سد باب کے لیے سارے وسائل اور ساری توانائیا ں صرف کردینے کو واجب قرار دیتی ہیں۔

اظہارِ   راے اور اسوۂ رسول ؐ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرامؓ کو پختہ راے سازی اور اظہار راے کے  تمام تر وسائل کی تعلیم دینے میں ایک شان دار نمونہ عطا کرتے ہیں ۔ آپؐ نے صحابہؓ کے ساتھ مشاورت ،مراجعت اور گفتگو، نیز اپنی غیر موجودگی میں اجتہاد کی ترغیب دی، جو زیربحث مسئلے پر مضبوط دلیل ہے ۔ اس کے باوجود کہ آپؐ اس روے زمین پر سب سے مضبوط دماغ ،پاکیزہ ترین عقل اور روشن ترین فکر کے حامل اور اکمل انسان تھے، مگر شوریٰ کو نظرانداز نہ کرتے تھے اور نہ اس سے تجاوز کرتے تھے۔ نہ بڑے معاملات میں اور نہ معمولی چیزو ں ہی میں ۔ آپؐ معصوم تھے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپؐ کو درست راے اختیار کرنے کی توفیق، اختیار اور قدرت ملی ہوئی تھی۔ وحی سے آپ ؐ کا رشتۂ اتصال وابستہ تھا۔ اس کے باوجود آپؐ ساتھیوں سے مشورہ کرتے تھے ۔   ان سے اپنی راے ظاہر کرنے کا مطالبہ کرتے تھے۔اس پران سے بڑے اجر اور ثواب کا وعدہ کرتے تھے ۔ آپؐ یہ بھی واضح کرتے تھے کہ: ’’لوگ دنیا اور اپنے ذاتی امور کے بارے میں    وہ خودزیادہ جاننے والے ہیں‘‘۔

بسا اوقات جب موجودہ صورت حال پر وحی نازل نہ ہوتی تو آپؐ اپنے رفقا کا مشورہ مانتے تھے، جب کہ اگر کسی انسان کے لیے جائز ہوتا کہ وہ شوریٰ سے بے نیاز ہو یا اسے یہ حق ہوتا کہ مشورے کو قبول نہ کرے ،اپنی راے سے دست بردار نہ ہو اور شوریٰ کو محض مختلف رایوں سے آگاہی کا درجہ دے، تو یہ اعزاز و اختیار صرف رسولؐ اللہ کے لیے درست ہوتا اور وہی اس کے   حق دار بھی تھے، کیونکہ وہ معصوم تھے اور استبداد جیسی غلطی سے منزہ اور پاک تھے۔

معرکۂ احد کے لیے مدینہ سے نکلنے کے مسئلے میں شورائی فیصلے کے منفی نتائج سامنے آئے اور مسلمان دوسرے مرحلے میں گھاٹے میں رہے اور اندیشہ ہو ا کہ شورائیت کی رسوائی ہوگی یا اس کی پابندی میں ضعف آجائے گا، توقرآن مجید نے اس ماحول میں شورائیت کے قطعی حکم کی تاکید کی:

ان سے معاملے میں مشورہ کرو (اور مشورے اور کسی واضح راے تک پہنچنے کے بعد ) جب عزم کرلو تو اللہ پر بھروسا کرو۔( ٰال         عمرٰن۳:۱۵۹)

جب اللہ کے رسولؐ کو اس کا پابند بنایا گیا تو دوسروںکو پابند بنانا تو بدرجہ اولیٰ ثابت ہوتا ہے۔ راے کی آزادی اور اس کے اظہار کی آزادی وہ بنیاد ہے، جس پر شورائیت قائم ہوتی ہے، یعنی آزادیِ اظہار کے بغیر شوریٰ کا وجود ممکن نہیں ہے۔

اُمت مسلمہ   میں   انحراف

اس تاکید کے باوجود اس امت میں سرکشوں کا استبداد جاری رہا ۔ان کی افزایش نسل کثرت سے ہوتی رہی ،اور وہ امت میں اس طرح پھیل گئے کہ تاریخ کے بہت سارے مراحل میں اس کے دین و دنیا سبھی کو بگاڑدیا ۔ ان کی مدد علما کے ان گروہو ں نے کی، جو ظلم کو خوب صورت لبادے پہنانے میں مگن رہے۔ اس ظلم و زیادتی کا مقصد صرف یہ تھا کہ استبداد اور اہل استبداد کے لیے میدان صاف ہوجائے۔

کسی نے فتویٰ دیا کہ: ’’شورائیت ذریعۂ آگاہی ہے، وجہ پابندی نہیںہے‘‘ ۔ کسی نے اس پر قیاس کرکے کہ: رسولؐ اللہ نے شیخین ابوبکر وعمر کے ساتھ مشورہ کیا تھا۔ فتویٰ دیا کہ: ’’شوریٰ کا تقاضا دو لوگوں سے مشورہ کرکے بھی پورا ہوجاتا ہے‘‘۔ کسی نے کہا کہ: ’’تین کے ساتھ مشاورت کافی ہے کیونکہ یہ اقل جمع ہے‘‘۔

 بعض حضرات نے جو پچھلی شریعت کے حجت ہونے کے قائل تھے کہا کہ: ’’فقط ۱۲؍افراد سے مشورہ کافی ہے،جنھیں سلطان یا [اولی الامر]خود متعین کرے گا ‘‘۔دلیل اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے اخذ کی گئی ہے :اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیْبًا ط(المائدہ۵:۱۲) ’’اور ان میں ۱۲نقیب‘‘۔ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ: ’’بیعت عقبہ اولیٰ میں بیعت کرنے والوں کی تعداد سے شوریٰ کی تعداد نہیں بڑھنا چاہیے‘‘۔ غرض وہ بہت سارے اقوال جن کی پشت پر کوئی معتبر دلیل موجود نہیں ہے، انھی کو دلیل بناکر پیش کیا جانے لگا۔

پھر ’فتنے کے دروازے بند کرنے ‘اور ’انتشار کے راستے مسدودکرنے‘ کو بنیاد بناکر: ’’جسے غلبہ حاصل ہوجائے اس کی امامت کو شرعی سند‘‘سے نوازدیا گیا۔ اس طرح ہماری تاریخ کے بہت ابتدائی زمانے سے ظالموں اور جابروں کی حکومت بھی شرعی ہوگئی اور ان کے احکام بھی شرعی طور پر نافذ ہونے لگے۔ یوں اس کے لیے بھی امت تیار ہوچکی تھی کہ فوجی اور عسکری انقلابات کے احکام قبول کرے، یا ان عناصر کے، جوہر حربے سے انھیں یک راے کرنے کی قوت رکھتے ہوں۔

ان احوال کی مخالفت بہت ہی قلیل تعداد میں علماے صالحین نے کی اور بہت دھیمی آواز میں جس پر اکثر وبیش تر کان ہی نہیںدھرا گیا ۔

غرض یہ کہ سد ذرائع  اور أخذ بالأحوط کی تیغ وتفنگ کے سایے میں مسلم امت نے مستقل مارشل لا اور ایمرجنسی قانون کے سایے میں زندگی گزاری ہے، اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ خلافت راشدہ کے خلاف باغیانہ انقلاب کے بعد سے ہی اس کے سیاسی نظام کی بنیاد یں معطل ہوگئیں۔ظلم وجبر اور بزورغلبے پر یقین رکھنے والے خلفا اور سلاطین نے اسلام کا صرف نظام قضا محفوظ چھوڑا ،تا کہ بہت سے احوال میں، جب کہ ان کے اقتدار کو کوئی نقصان نہ پہنچ رہا ہو، تو اُمت کی بعض ضرورتوں کی حفاظت کے لیے وہ بنیادی ضمانت کا کام دے۔

انحراف کے اسباب

یہ نظام بھی غلط استعمال اور انحراف سے دوچار کردینے کی کوششوں سے محفوظ نہ رہتا، اگر خدا ترس علما اس کی حفاظت ومدافعت کے لیے بیدار نہ رہتے ۔ اس کے باوجود بعض سرکشوں نے جب بھی ان کے لیے ممکن ہوا، اسے مخالفین کی سرکوبی کا ذریعہ بنا ڈالا ۔ ’ارتداد‘ اور ’محاربہ‘ کے نام پر بعض مخالفین کو قتل کیا گیاتو بہت سارے سیاسی مخالفین پر ’شریعت کی مخالفت‘ اور ’دین سے بغاوت‘ کا ٹھپہ لگایا گیا، تاکہ مخالف کو امت کی ہمدردی یا حمایت سے محروم کردینا آسان ہوجائے ۔

اگرچہ بعض علما نے ظالم وجابر سلاطین کے سلسلے میں خاموشی کو ’امت کی وحدت کی حفاظت‘ کی دلیل دے کر جائز بنا دیا، مگر اس استبداد، ظلم اور سرکشی کے بارے میں ایک کلمہ تک زبان سے ادا نہ کیا، جسے ان ڈکٹیٹروں نے قدیم وجدید ہر دور میں اپنایا ۔ حالانکہ اس نے بھی تو اُمت میں تفرقہ ڈالا، اس کی وحدت کو پارہ پارہ کیا اور اسے گروہوں میں بانٹ دیا ۔ان آمروں نے انھیں باہم ٹکرانے کے لیے آپس میں تقسیم کردیا ۔ اس طرح استبداد اور لوگوں کے غوروفکر اور اظہار کے حق سے محرومی کا نتیجہ یہ ہو اکہ اُمت کی دیوار یں زمین بوس ہوگئیں اور وہ بنیادی ضرورتوں سے محروم کردی گئی ۔

ان مسائل کا تیسرا ذمہ دار امت کے افراد کا ان اجتماعی امور سے نا واقف ہونا یا بہت سے لوگوں کا ان سے تجاہل برتنا، لاتعلق رہنا، ’سیاسی کام‘ سمجھنا، یا قصداً اندھیرے میں رکھے جانے کے استبدادی عمل کو قبو ل کرلینا ہے تاکہ ان ڈکٹیٹروں اور ان کے حاشیہ بردار اہل علم وقلم کے پیچھے پیچھے چلنے کا عمل آسان ہوجائے ۔ یہ جہالت تیسرا بت ہے ۔ ان بتوں کی یہ غیر مقدس تکون ہے: ’’سرکشوں کا جبر، علما کی بے بسی اور اُمت کے باشندوں کی جہالت ‘‘۔

سرکش فرعون نے جب اپنی قوم سے اَنَا رَبُّکُمُ الأَعْلٰی [النازعات ۷۹:۲۴۔ میں تمھارا سب سے بڑا رب ہوں] کہا تھا، اس وقت اسے عوام کی غفلت، ان کی غیر مشروط اطاعت اور اندھی غلامی سے دھوکا ہو ا تھا۔ سرکشوں کو عوامی غفلت و اطاعت جیسی کوئی بھی چیز دھوکے میں نہیں رکھتی ہے۔ سرکش حکمرا ن محض ایک فرد ہوتا ہے، جس کے پاس درحقیقت نہ طاقت ہوتی ہے اور نہ اقتدار۔ یہ تو وہ غافل اور پالتو عوام ہیں،جو ظالموں اور غاصبوں کو اپنی پشت اور کندھے پیش کر دیتے ہیں تو وہ سوار ہوجاتا ہے۔ یہ اپنی گردن پھیلا دیتے ہیں تو وہ لگا م ڈال دیتا ہے۔ یہ سرجھکا دیتے ہیں تو وہ مغرور ہوجاتا ہے۔ یہ عزت وسربلندی کے اپنے حق سے دست بردار ہوجاتے ہیں تو وہ سرکش ہوجاتا ہے ۔

عوام ایسااس لیے کرتے ہیںکیونکہ انھیں ایک طرف تو دھوکا ہوتا ہے، دوسری طرف خوف۔ یہ خوف بھی محض وہم کا نتیجہ ہوتا ہے۔ سرکش حاکم، ایک فرد کی حیثیت سے لاکھوں اور کروڑوں عوام کے مقابلے میں طاقت ور نہیں ہوسکتا ہے، مگر اس کے لیے شرط یہ ہے کہ ان عوام کو اپنی انسانیت، عزت وغیرت اور آزادی کا شعور ہوجائے۔ طاقت کے لحاظ سے تو امت کا ہر فرد سرکش حاکم کے برابر ہوتا ہے، مگر یہ سرکش انھیں دھوکا دیتا ہے۔اور ان کے دل میں وہم ڈال دیتا ہے کہ ’’ان کے  نفع ونقصان کا اختیار اس کے پاس ہے‘‘۔ ایک فرد یا افراد کا کوئی ٹولہ کسی باعزت باغیرت اور خوددار امت پر زیادتی کرلے، یہ کبھی ممکن نہیں ہے ۔ اور یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ کوئی فر د یا ٹولہ ایسی امت پر زیادتی کرے، جو اپنے رب کو پہچانتی ہو اور اس پر ایمان رکھتی ہو اور جو غلامی قبول کرنے سے انکار کردے۔ غلامی، کسی بھی مخلوق اور فرد کی، جو نہ اپنے اور نہ اس کے نفع یا نقصان کا اختیار رکھتا ہے۔

سرکش حاکم اپنی قوم کو لالچ اور دھمکی کے مختلف حربوں سے بے وقوف بناتا ہے ۔وہ اپنی بداعمالیوں اور گمراہی کے باعث اس کی بات مان لیتے ہیں ۔ یہ سرکش پہلے تو عوا م کو علم کے راستوں سے دُور کردیتے ہیں اور ان سے حقائق کو چھپائے رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ انھیں بھول جاتے ہیں اور دو بارہ اس کی تلاش بھی نہیں کرتے۔ پھر یہ حاکم ان کے دلو ں پر جس طرح کے نقوش چاہتے ہیں، ثبت کردیتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے دل ان بنائوٹی نقوش سے مانوس ہوجاتے ہیں۔ پھر سرکشوں کے لیے عوام کو بے وقوف بنا نا اور ان کی بھیڑ کو اپنے پیچھے لے کر چلنا آسان ہوجاتا ہے۔ عوام کی لگا م نرم ہوجاتی ہے اور سرکش حاکم پورے اطمینان کے ساتھ انھیں جس رخ پر چاہتے ہیں ہانکے لیے جاتے ہیں۔

یہ سرکش حکمران اپنے عوام کے ساتھ یہ حرکت اسی وقت کرسکتے ہیں، جب عوام فسق وفجور میں مبتلا ہوں ، جادۂ مستقیم سے بھٹک جائیں ،اللہ کی رسی کو چھوڑ دیں ،ایمان کے پیمانوں کو نظر انداز کردیں اور ان کے لیے فیصلے کا مرجع نہ قرآن ہو، نہ دلیل اور نہ برہان ، جب کہ خداترس مومنوں کو دھوکا دینا ،انھیں بے وقوف بنا نا اور ہوا میں اڑتے ہوئے پر کی طرح ان سے کھلواڑ کرنا مشکل ہوتا ہے ۔یہیں سے قرآن مجید نے واضح کیا ہے کہ عوام نے فرعون کی بات مان کیوں لی تھی :

فَاسْتَخَفَّ قَوْمَہٗ فَاَطَاعُوْہُ ط اِنَّھُمْ کَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَo (الزخرف ۴۳:۵۴) اس نے اپنی قوم کو ہلکا سمجھا اور انھوں نے اس کی اطاعت کی،درحقیقت وہ تھے ہی فاسق لوگ۔

ذرا سوچیے، اگر علما و مفکرین ،اہل قلم اور ارباب تربیت نے اپنی ذمہ داری ادا کی ہوتی ،فسق وفجور کا مقابلہ کیا ہوتا اور تقویٰ کو رواج دیا ہو تا، تو کیا یہ سرکش امت کا استخفاف کر پاتے، اس کی عقل کو کند کرکے اسے تباہی کی طرف گھسیٹ کر لے جانے میں کامیاب ہوسکتے ؟ نہیں، ہزار بار نہیں۔

پھر سوچیے، اگر علماے امت نے( میری مراد صرف فقہا نہیںبلکہ ہر میدان کے ماہرین علوم اور ان میں بھی سرفہرست علماے دین ہیں) اپنی ذمہ داریوں کو سمجھا ہو تا ۔فسق وفجور کی ساری شکلوں کا تصور،فکر ، اعتقاد،رویہ ،معاملات اور عمل کی سطح پر مقابلہ کیا ہوتا تو کیا یہ سب کچھ ہوتا ؟ کیا لو گ فسق وفجور میں مبتلا ہوتے اور کیا یہ سرکش ان کی گردنوں پر سوار ہوپاتے ؟ نہیں، ہرگز نہیں۔

کاش، علما نے امت کو سمجھایا ہوتا: ’’یہ سرکش حاکم، خدائی کا دعوے دار ہے۔ لوگوں کو  اپنے حال اور اپنی حرکتوں کی زبان سے یا انجام کے حوالے سے بلا رہا ہے کہ اسے اللہ کے اختیارات میں شریک تصورکرلیں‘‘۔اور انھوں نے یہ بتایا ہوتاکہ: ’’جابر حاکم کے سلسلے میں خاموشی یا جبر پر رضا مندی یا شوریٰ کو معطل کرنا شرک ہے، جو توحید کے منافی ہے‘‘ ۔اور یہ کہ: ’’اللہ نہ جابر کی کوئی نیکی قبول کرتا ہے، نہ جبر پر راضی ہونے والے کی، خواہ وہ اسلام کا دعویٰ کرے اورنمازروزہ کا پابند ہو‘‘ ۔اگر انھوں نے یہ کیا ہوتا تو کیا اُمت اس مبنی بر جاہلیت استبداد کے سامنے خاموش رہتی اور کیا وہ کسی استبدادی کو اپنا استخفاف کرنے اور اپنے معاملات کا مختار کل بننے دیتی ؟ نہیں، قطعاً نہیں۔

کاش، امت کے عالموں ،مفکروں ،مصنفوں ،خطیبوں اور داعیوں نے امت کو اس کے حقوق،  اس کے واجبات اور اس کے ملّی وجود میں خیر وشر کے دروازوں سے واقفیت کی تعلیم کا اتنا ہی اہتمام کیا ہوتا جتنا اہتمام طہارت کی تفصیلات ،نماز کے طریقے ،رسولؐ اللہ کو سیدنا سے ملقب کرنے یا ملقب نہ کرنے کی معرکہ آرائی اور آپؐ کے ذکر کے وقت کھڑا ہونے یا کھڑے نہ ہونے کی بحث جتنی تعلیم کا اہتمام ہی کیا ہوتا۔ تب بھی امت کی حالت بدل جاتی اور اس کے شعور کا درجہ بلند ہوجاتا ۔

کاش، انھوں نے امت کو سکھایا ہوتا کہ ایسے فرد کی تعظیم وتائید کرنا، اس کے حق میں نعرے بازی اور ایسے فرد کی خدمت ومعاونت کرنا، جو اللہ کے شعائر کی تعظیم نہ کرے، سراسر ظلم ہے۔اور یہ ظلم قیامت کے دن کی تاریکی کے مانند ہے ۔یہ تقویٰ سے دُوری ہے، اور جو تقویٰ سے دُور ہوجاتا ہے، وہ فسق میں گر پڑتا ہے،پھر شرک تک جا پہنچتا ہے اور بلاشبہہ شرک بڑا ظلم ہے۔ کاش! انھوں نے سکھایا ہوتا کہ امت کے حکام اور سرکاری عہدے داران دراصل امت کے خادم اور ملازمین ہیں۔ اگر وہ امت کی خدمت میں غلط ر وش اپنا تے ہیں تو امت پر واجب ہے کہ انھیں تبدیل کردے ۔

کاش، انھوں نے امت کو یہ سبق بھی پڑھایا ہوتا کہ: ’’حکومت اعزاز نہیں، ذمہ داری ہے۔ سیاست امت کے اورپوری امت کے مفادات کی نگہداشت اور ان کی خدمت ہے ۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر شرعی فرائض ہیں، جو ہر فرد پر عائد ہوتے ہیں۔ یہ اُمت کی ذمہ داری ہے جس سے یا جس کی انجام دہی کے حق سے کوئی دست بردار نہیں ہوسکتا ۔امت کے مادی خزانوں اور افرادی قوت کی دانش بینش کو برباد کرنا جرم ہے ۔ امت کے سرمایے میں امت کے دشمنوں کو ترجیح دینا جرم ہے ۔ کسی بے گنا ہ کو نظر بند کرنا جرم ہے ۔کسی انسان کو کسی بھی عوامی مسئلے میں اظہارِ راے سے روکنا جرم ہے ۔ اقتدار کے کسی بھی ادارے کا کسی شہری کی آزادی یا عزت پر حملہ کرنا جرم ہے ‘‘۔

سوچیے، اگر امت میں ایسے لوگ ہوتے، جو لوگوں کے ان گناہوں اور جرائم کی درجہ بندی کرتے، جو حاکم اور محکوم کی حیثیت سے ایک دوسرے کے خلاف سرزد ہوتے ہیں ۔ چنانچہ امت کو بتاتے کہ ان میں گناہ کبیرہ کون سے ہیں اور گناہ صغیرہ کون سے ہیں ۔ مثال کے طور پر کہا جاتا : حاکم کا استبداد گناہ کبیرہ ہے ۔امت کے ساتھ اس کا مشاورت نہ کرنا گناہ کبیرہ ہے ۔ جو ایسی حالت کو درست قرار دیتا ہو، اس کا عمل بھی گنا ہ کبیرہ ہے ۔ اس پر خاموشی بھی گنا ہ کبیرہ ہے ۔انسان کو اس کی راے کے اظہار سے محروم کردینا گنا ہ کبیرہ ہے ۔

لوگوں کی بے جا نگرانی ،ان کی جاسوسی اور ان کی غلطیوں کا ریکارڈ بنانا یہ سب کبائر ہیں۔  اللہ ان پر محاسبہ کرے گا۔ان کبیرہ گناہوں میں شرکت ،ان کی حوصلہ افزائی یا ان پر خاموشی بھی کبائر ہیں۔ امت کی دولت کو تنخواہ اور انعام کے طور پر امت کی جاسوسی کرنے والوں میں بانٹنا مال کا ضیاع، فضول خرچی اور اسراف ہے ۔ ظالموں کے معاونین ظلم پر مد د کرنے کے صلے میں جو رقمیں پاتے ہیں، وہ نجس ہیں ،حرام ہیں۔چوری ،بغاوت ،سود اور زنا کی اجرت سے ان کی حیثیت کسی بھی طور پر مختلف نہیں ہے۔ اگر یہ ہوجاتا تو سب ظالموں یا کم از کم کچھ ظالموں یا ان کے معاونوں کو  ظلم کی چکّی چلانے میں تردد ضرور ہوتا۔ اور بہت سارے لوگوں کو ظالموں کا آلہ کار اور مدد گار بننے میںیقیناً تامل ہوتا ۔

عالمِ   اسلام کی موجودہ کیفیت

عالمِ اسلام کی موجودہ صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ آزادیِ راے کا فقدان اس امت کے بیش تر ملکوں کی پس ماندگی کے بہت سارے اسباب کے پیچھے کا ر فرماہے ۔ عبدالرحمان کواکبی نے ۱۹۰۱ء میں اپنی کتاب طبائع الاستبداداور مصارع الاستعباد میں جو لکھا ہے، وہ یہ سمجھنے کے لیے بہت حد تک کا فی ہے کہ ’استبداد‘ سماجی زندگی کے تمام پہلوئوں کو   کس طرح متاثر کرتا ہے اور کس طرح وہ فعالیت کو ضعف اور طاقت کو بے بسی میںبدل ڈالتا ہے ۔

استبداد، تہذیب ساز انسان نہیں بناتا۔ وہ تو بس نرے پُر زے کو ڈھالتا ہے، جو سیاسی نظام کے دائرے میں گھومے اور انسان کے جسمانی (بایولوجیکل ) تحفظ کے لیے سب کچھ کرے ۔ یہیں سے تہذیب کی از سر نو تعمیر کی جدوجہد کے لیے یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ آغاز میں ہی    تہذیبی عمل کے لیے سب سے خطرنا ک علت یا مہلک تر عامل کو تلاش کرکے درست کیا جائے ۔ شاید آزادیِ راے دوسرے تمام مسائل کے حل کے لیے بھی ایک معروضی اور لازمی شرط قرار پائے۔ کیونکہ کسی چیز کے اندر زندگی اور فعالیت رہ نہیں سکتی ہے، اگر ہر بڑے چھوٹے مسئلے پر غور وفکر، اظہار راے اور تبادلہ خیال کی آزادی نہ ہو ۔

یہ اسی وقت ہو گا جب ایک مسلمان کی عقل سے سارے حجابات دُور کردیے جائیں ۔ اس کی عقل [intellect] اور دانائی [wisdom] کو سیاسی نظامِ جماعت، پارٹی لیڈر، مفتی اورفکری رہنما وغیرہ کی ساری بے جا زنجیروں سے آزاد کردیا جائے۔ اس کے سامنے فکر کے وسیع وعریض بے قید آفاق کھول دیے جائیں ۔ عزت و کرامت، آزادی شورائیت اور عدل کے تصورات اس کے دل میں پختہ کردیے جائیں، تاکہ اس کے دل ودماغ میں وہی فکروخیال جگہ پائیں، جن کے لیے واقعی دلیل موجود ہو اور وہ اس پر مطمئن ہو۔ ایسی صورت میں فرد مجرد کسی نظام یا پارٹی یامسلک کا بے فہم اور عقل سے عاری پُرزہ نہیں بنے گا، بلکہ وہ صرف حق کا تابع ہوگا اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا مقصد تخلیق بھی یہی ہے ۔

 ایمان لانے کا ایک قدرتی نتیجہ مسلمانوں کے دلوں میں ایک دوسرے سے محبت کی صورت میں ظاہر ہو تا ہے۔ آج ہم اپنا جائزہ لیں کہ کیا ایسا ہے؟ اور اگر نہیں تو اپنے ایمان کی فکر کریں کہ کہاں کیا نقص رہ گیا ہے۔ آج اُمت اختلاف کا شکارہو گئی ہے اور اس کا ایک بڑا مسئلہ آپس کی مخالفت اور تفرقہ ہے۔ اس کے نتیجے میں اُمت ذہنی اور عملی خلفشار اور معاشرتی انتشار کا شکار ہو گئی ہے۔ اگرچہ اس حالت کی بہت سی وجوہ ہو سکتی ہیں جن میں سے کچھ اپنوں اور کچھ غیروں کی پیدا کردہ ہیں لیکن یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ تفرقے کی یہ بیماری اُمت کے وجود کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہے۔

 تفرقہ بازی شیطان کا راستہ ہے اور ہمیں اس راستے کو چھوڑ کر رحمٰن کے بتائے ہوئے اتفاق و اتحاد کے سیدھے راستے کی طرف آنا ہو گا جس کا ذکر خود اللہ تعالیٰ نے سورۂ انعام میں فرمایا:

وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِـیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ ج وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ ط ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo  (انعام ۶:۱۵۳) اس کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے، لہٰذا تم اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ اُس کے راستے سے ہٹا کر تمھیں پراگندا کر دیں گے ۔ یہ ہے وہ ہدایت جو تمھارے رب نے تمھیں کی ہے ، شاید کہ تم کج روی سے بچو۔

بدقسمتی سے آج عملی طور پر مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ وہ اللہ اور رسولؐ کے احکامات کو پسِ پشت ڈال کر ایک ہونے کے بجاے ٹکڑوں میں بٹ گئے ہیں۔ نتیجتاً مسلمان پستی، کمزوری اور ذہنی غلامی کا شکار ہوگئے ہیں۔ قرآنِ مجید میں انتہائی سخت الفاظ میں تفرقہ بازی کرنے والوں پر وعید کی گئی ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَہُمْ وَکَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْہُمْ فِیْ شَیْ ئٍ ط اِنَّمَآ اَمْرُہُمْ اِلَی اللّٰہِ ثُمَّ یُنَبِّئُہُمْ بِمَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَo (انعام ۶:۱۵۹) جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہ گروہ بن گئے یقیناً ان سے تمھارا کچھ واسطہ نہیں،ان کا معاملہ تو اللہ کے سپرد ہے، وہی ان کو بتائے گا کہ انھوں نے کیا کچھ کیا ہے۔

غور فرما ئیں کہ رسولؐ اللہ کو کہا جا رہا ہے کہ تفرقوں میں پڑنے والے ان لوگوں کی مرضی ہے جدھر چاہیں جائیں، ان کا تم سے کوئی تعلق ہی نہیں (استغفراللہ)۔

امت کے اس اختلاف اور جھگڑوں کے اس منطقی نتیجے کو قرآن نے بیان فرما دیا:

وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَـہٗ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْہَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُوْا ط اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَo (انفال۸:۴۶) اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمھارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی، اور تمھاری ہوا اکھڑ جائے گی ۔ صبر سے کام لو،یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔

یہ تو اس دنیا میں اختلافات کا نتیجہ ہے جو ہم بھگت رہے ہیں اور اختلافات اور تفرقے کا جو انجام آخرت میں ہو گا وہ کڑے عذاب کا سامنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

وَ لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَ اخْتَلَفُوْا مِنْم بَعْدِ مَا جَآئَ ھُمُ الْبَیِّنٰتُ ط وَاُولٰٓئِکَ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ o یَّوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ وَّ تَسْوَدُّ وُجُوْہٌ ج ( ٰالِ  عمرٰن ۳ :۱۰۵-۱۰۶)کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی کھلی واضح ہدایات پانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوئے۔ جنھوں نے یہ روش اختیار کی وہ اس روز سخت سزا پائیں گے، جب کہ کچھ لوگ سرخ رُو ہوں گے اور کچھ لوگوں کا منہ کالا ہوگا۔

تفرقہ بازی کا علاج

مسلمانوں کی اس بیماری کی تشخیص کے لیے کارگر تو بس وہی نسخہ ہے جو اللہ اور اللہ کے رسولؐ کا تجویز کردہ ہے۔

سورئہ آلِ عمران کی آیت وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا ص ( ٰال عمرٰن ۳:۱۰۳) ’’سب مل کر اللہ کی رسّی کو مضبوط پکڑلو اور تفرقے میں نہ پڑو‘‘کی تشریح میں مولانا مودودی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اس رسی کو ’مضبوط پکڑنے‘ کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی نگاہ میں اصل اہمیت دین کی ہو، اسی سے ان کو دل چسپی ہو، اسی کی اقامت میں وہ کوشاں رہیں اور اسی کی خدمت کے لیے آپس میں تعاون کرتے رہیں ۔ جہاں دین کی اساسی تعلیمات اور اس کی اقامت کے نصب العین سے مسلمان ہٹے اور ان کی توجہات اور دل چسپیاں جزئیات و فروع کی طرف منعطف ہوئیں، پھر ان میں لازماً وہی تفرقہ و اختلاف رونما ہو جائے گا جو اس سے پہلے انبیا علیہم السلام کی امتوں کو ان کے اصل مقصد حیات سے منحرف کر کے دنیا اور آخرت کی رسوائیوں میں مبتلا کر چکا ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن، اوّل،ص ۲۷۶-۲۷۷)

مولانا محمود حسن نے فرمایا کہ مسلمانوں کی موجودہ پستی کے دو ہی سبب ہیں:ترکِ قرآن اور باہمی اختلاف۔ اور مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’مسلمانوں کو تو میں یہی کہتا ہوں کہ ان کے لیے تو صرف یہی لائحہ عمل ہے کہ وہ قرآن پر متفق ہو جائیں اور اگر فہم قرآن اور تفسیرِ قرآن میں اختلاف ہو بھی اور یہ اختلاف حدود کے اندر رہے تو نہ وہ مذموم ہے اور نہ انسان کے لیے مضر___ قرآن پہ تمسک کرنا ہی وہ چیز ہے جس سے بکھری ہوئی قوتیں جمع ہوتی ہیں اور ایک مُردہ قوم حیات تازہ حاصل کرتی ہے۔ پھر سورۂ شوریٰ کی آیت اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا (۴۲:۱۳) کی تشریح میں احادیث کے حوالوں کی روشنی میں اس بات کی مزید وضا حت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اجتماعی اور متفق علیہ احکام میں تفرقہ ڈالنے کی شدید ممانعت ان احادیث ِصحیحہ میں آتی ہے۔ـ(معارف القرآن)

دین کی بنیاد

 یہ بات یاد رہے کہ ائمہ اربعہ رحمۃ اللہ علیہم نے فقہ کی تدوین کر کے اس اُمت پر بہت بڑا احسان کیا ہے اور اس طرح رسولؐ اللہ کی سنت کے ہر پہلو پر عمل کرنے کو ممکن بنا دیا ہے۔ ’فقہ‘     فی نفسہٖ دین نہیں بلکہ دین پر عمل کرنے کا طریقہ اور ذریعہ ہے۔ یہ ائمہ کرام کا وہ علمی کام ہے    جس میں قرآن و سنّت کی روشنی میں عرف، انسانی ذوق اور عصری علوم کی روشنی میں زندگی کے  مختلف مسائل کا سنّت کے قریب ترین حل مدوّن کرنے کی کوشش گئی ہے اور انھی اصولوں کے مطابق آج بھی فقہاے کرام زندگی کے مختلف النوع مسائل کا حل تجویز کرتے ہیں۔

اسی طرح ’مسلک‘ بھی بنیادی طور پر وہ عملی نظام ہے جو علما ، فقہا اور ائمہ کرام نے زبردست محنت اور کوشش سے لوگوں کے لیے قرآن، سنت اور فقہ کی روشنی میں اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکام پر عمل کرنے کے لیے مرتب کیا ہے اور مختلف مسائل کے حل کو یک جا کر دیا ہے، تاکہ عام مسلمانوں کے لیے دین کے مطابق زندگی گزارنے میں آسانی پیدا کی جا سکے۔

رسولِ کریمؐ نے اختلاف راے کو نعمت قرار دیا ہے۔ اس اختلاف سے انسان کی علمی اور تخلیقی استعداد کو جِلا ملتی ہے۔ اس کا ایک اور بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ جس صورت پر بھی عمل ہو، انسان شریعت کے دائرے کے اندر ہی ہوتا ہے۔ اور غلطی کے امکان یا شک کا فائدہ اس شخص کو ہی ملتا ہے جو نیک نیتی کی بنیاد پر کوئی بھی راے اختیار کر لیتا ہے۔ فقہی اور مسلکی اختلافات کو مخا لفت میں تبدیل کرنا انصاف کے منافی ہے اور اس صورت میں یہ رحمت نہیں بلکہ زحمت کا باعث بن جاتا ہے۔

کسی بھی فقہی راے کو اختیار کرنے سے کوئی شخص اسلام کے دائرے سے خارج نہیں ہوجاتا، البتہ فقہی اختلافات کی بنا پر یا اس کو بہانہ بنا کر قرآن یا حدیث کا بالواسطہ انکار اور  خواہش نفس کی پیروی کرنا دوسری بات ہے۔ یہی حال فتاویٰ کا بھی ہے۔ اگر ایک مسئلے میں ائمہ اربعہ یا فقہاے کرام کی دو مختلف راے موجود ہوں تو ایک کے اختیار کرنے اور دوسری کو چھوڑ دینے کو کفر اور اسلام کا معاملہ نہیں بنایا جاسکتا۔ البتہ کسی بھی راے کے اختیار کرنے کی بنیاد ہواے نفس نہیںبلکہ احکام شریعت پر بہتر طریقے سے عمل کی کوشش ہونی چاہیے۔

قرآن و حدیث کے واضح احکام کے بعد اپنی راے یا مسلک کے لیے تاویلات نہیں ڈھونڈنی چاہییں، مگر یہ بات یاد رہے کہ کسی مسئلے میں راے قائم کرنے کا اختیار ہر شخص کا کام نہیں۔ یہ صرف علماے کرام کا کام ہے اور عام لوگوں کو انھی کی راے کو اختیار کرنا چاہیے۔ جس طرح ہم زندگی کے مختلف شعبوں میں اس شعبے کے اسپیشلسٹ کے پاس جاتے ہیں اور اس کی راے یا ہدایت ہی پر عمل کرتے ہیں اسی طرح شرعی معاملات میں بھی شریعت کے ماہرین (علما و فقہا) کے پاس جانا چاہیے اور ان کی راے اور ہدایات پر عمل کرنا چاہیے۔

متفقہ اُمور کو بنیاد بنایئے

سورئہ آلِ عمران میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍم  بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَ لَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ ط      فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْھَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ o (الِ عمرٰن ۳:۶۴)کہہ دو کہ  اے اہل کتاب جو بات ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں (تسلیم کی گئی ہے) اس کی طرف آؤ، وہ یہ کہ خدا کے سوا ہم کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں اور ہم میں سے کوئی کسی کو خدا کے سوا کار ساز نہ سمجھے۔ اگر یہ لوگ (اس بات کو) نہ مانیں تو (ان سے) کہہ دو کہ تم گواہ رہو کہ ہم (خدا کے) فرماںبردار ہیں۔

اگرچہ اس آیت میں مسلمانوں کو یہ ہدایت اہلِ کتاب کے بارے میں دی جا رہی ہے  مگر قرآن نے اصولی طور پہ ایک قاعدہ بیان کر دیا ہے کہ بات کی ابتدا کیسے کی جائے؟ جب بات نیک نیّتی سے اس طرح شروع کی جائے تو اس بات کا قوی امکان پیدا ہو گا کہ اختلافات ختم ہوجائیں ورنہ کم تو ضرور ہو جائیں گے۔ جہاں کہیں اختلاف کی بات آئے تو تھوڑی دیر کے لیے اس اختلاف کو پس پشت ڈال کر ان امور پر توجہ دیں، جن پر آپ کا اور دوسرے فریق کا اتفاق ہے۔اس طرح خود ہی یہ بات سامنے آّ جائے گی کہ اہم امور کے اکثریتی معاملوں پرتو پہلے سے ہی اتفاق موجود ہے اور اختلاف تو صرف ذیلی امور (عموماً فروعات) میں ہی ہے۔

اہلِ علم سے استفادہ

 جس بات میں مشکل درپیش ہو اس پر اَڑنے کے بجاے اہلِ علم سے رجوع کریں اور اختلاف سے بچیں۔ سورئہ نحل میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْہِمْ فَسْـــئَـلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَo  (النحل ۱۶:۴۳)اور ہم نے تم سے پہلے نہ بھیجے مگر مرد جن کی طرف ہم وحی کرتے، تو اے لوگو! علم والوں سے پوچھو اگر تمھیں علم نہیں۔

اس آیت میں بھی علم نہ ہونے کی صورت میں حقیقت اور صحیح بات معلوم کرنے کا ایک قاعدہ بیان کر دیا گیا ہے۔مسائل (جو اکثر فروعات میں ہی ہوتے ہیں) کی صورت میں کھلے ذہن کے ساتھ اہلِ علم سے صحیح صورتِ حال معلوم کر لی جائے اور باہم اختلافات کو ہوا دینے کے بجاے مسلمانوں کے اتحاد اور اتفاق کو قائم رکھنے کے لیے دوسروں کی راے کا احترام کیا جائے۔ اختلافات سے بچنے کا یہ ایک کارگر نسخہ ہے۔ ایسے موقعے پر یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رہنی چاہیے کہ مسئلے کی حقیقت جاننے کی بنیاد خلوص ہے نہ کہ خواہش نفس کی تسکین اور کسی دوسرے کو نیچا دکھانے اور کسی بھی طرح اپنی بات کو صحیح ثابت کرنے کی ضد اور کوشش۔

رسولؐ اللہ نے اختلاف کے تدارک کی تلقین کی ہے۔آپؐ نے حضرت معاذؓ اور حضرت ابوموسیٰؓ کو جانبِ یمن روانہ کرتے وقت یہ فرمایا کہ تم دونوں آسانیاں کرنا اور سختی  نہ کرنا، خوش خبری سنانا اور لوگوں کو متنفر نہ کردینا، باہم اتحاد و انصاف رکھنا اور اختلاف نہ ہونے دینا۔(بخاری)

قرآن پر عمل

قرآن کو سمجھ کر عمل کر نے کے نقطۂ نظر سے پڑھیں۔بدقسمتی سے ہم قرآن کو ثواب کی کتاب سمجھ کر پڑھتے ہیں۔ اور یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ کتاب بنیادی طور ہمیں زندگی گزارنے کے اصول اور طریقے بتانے اور دکھانے کے لیے نازل کی گئی ہے۔ اس کے پڑھنے کا ثواب تو یقینا ہے لیکن صرف اس کو پڑھنا اس کتاب کا بنیادی مقصد نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اسی کتاب میں فرماتے ہیں:

کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ  لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِo (صٓ ۳۸:۲۹)۔ یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو (اے محمدؐ) ہم نے تمھاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر والے اس سے سبق لیں۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے مُبٰرَکٌ کہہ کر بات ختم نہیں کر دی بلکہ متصلاً فرمایا کہ یہ کتاب تمھارے غور و فکر کے لیے ہے۔ اصولاً ہمیں قرآن اس نیت سے پڑھنا چاہیے کہ ہمیں قرآن سے اپنی زندگی کے لیے عملی اقدامات، اصول اور ہدایات ڈھونڈنی ہیں۔ کسی بھی مسئلے کی تشریح کے لیے علما سے رجوع کر کے اپنی مشکل یا شک کا حل ڈھونڈیں۔

قرآن عمل کرنے اور زندگی میں نافذ کرنے کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ اس کو عمل کے لیے پڑھنے کی ذیل میں ایک مثال دی جاتی ہے جو اس بات کی بھی وضاحت کرتی ہے کہ اس قرآن نے صحابہ کرامؓ کی زندگی کو تو یکسر بدل دیا لیکن یہی قرآن پڑھ کر ہماری زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔

 جب آیت لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ط (اٰل عمرٰن ۳:۹۲) نازل ہوئی تو حضرت عمرؓ نے خیبر میں اپنی بہترین زمین، حضرت طلحہ ؓنے اپنا سب سے نفع بخش اور بہترین باغ، حضرت زیدؓ نے اپنا بہترین اور محبوب گھوڑا اللہ کی راہ میں دے دیے، اور حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے اپنی سب سے محبوب کنیز کو اللہ کی رضا کے لیے آزاد کر دیا۔

قرآن سمجھ کر پڑھنے اور اس پرعمل کرنے کے بارے میں علامہ اقبال فرماتے ہیں   ؎

یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن

قاری نظر آتا ہے ، حقیقت میں ہے قرآن

شیطان ہمیشہ اسی کوشش میں رہتا ہے کہ مسلمان کہیں قرآن کی طرف پلٹ نہ آئیں۔ وہ یہ جانتا ہے کہ اس کتاب کے بغیر مسلمان کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور اس کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ مسلمانوں کو قرآن سے دور رکھے۔ اقبال اسی بات کو ابلیس کی زبان سے یوں بیان کرتے ہیں:

جانتا ہوں میں یہ اُمت حاملِ قرآں نہیں

ہے وہی سرمایہ داری بندۂ مومن کا دیں

جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں

بے یدِ بیضا ہے پیرانِ حرم کی آستیں

ہے یہی بہتر الٰہّیات میں الجھا  رہے

یہ کتابُ اللہ کی تاویلات میں الجھا رہے

سنّتِ رسولؐ  کا             ا تّباع        

اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اپنے ساتھ ساتھ رسولؐ کے اتباع کا بھی حکم دیا ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ ج فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْ ئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلًا (النساء ۴:۵۹)اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحب ِ امر ہوں ، پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف پھیر دواگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔یہی ایک صحیح طریقِ کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔

سورئہ نساء کی ایک اور آیت میں تو یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ رسولؐ اللہ کی اطاعت کے بغیر اللہ کی اطاعت اور رضامندی کا حصول ممکن ہی نہیں۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:’’ جس نے رسولؐ کی اطاعت کی اس نے دراصل خدا کی اطاعت کی اور جو منہ موڑ گیا، تو بہرحال ہم نے تمھیں اُن لوگوں پر پاسبان بنا کر تو نہیں بھیجا ہے‘‘۔(النساء۴:۸۰)

اللہ کی اطاعت اور رسولؐ اللہ کے اتباع کے بارے میں دو باتوں کی وضاحت ضروری ہے۔ ایک تو وہ نصوص اور احکام ہیں جن پر عمل پوری امت کا فرض ہے۔ دوسرے وہ اُمور ہیں  جن کا تعلّق اوّل الذکر احکامات سے نہیں اور ان میں اجتہاد کی گنجایش موجود ہے اور ائمہ اربعہ نے اپنے اپنے علم کی بنیاد پر قرآن اور حدیث کی روشنی میں اپنی راے بیان کی ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں جن میں اختلاف کی گنجایش موجود ہے اور اسی لیے اس میں اپنی ہی راے پر تشدد کی حد تک اصرار اختلاف سے بڑھ کر مخالفت کا سبب بن جاتا ہے اور نتیجہ امت میں تفرقہ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔

اختلافی اُمور میں سلف کا طرز عمل ہمارے لیے روشنی کا مینار ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ کے زمانے میں ابوجعفرمنصور اسلامی دنیا کے خلیفہ تھے۔ انھوں نے امام صاحب کو تجویز دی کہ ان کی کتاب موطا کو تمام مملکت کا قانون بنا دیا جائے جسے امام مالک رحمہ اللہ نے قبول نہ کیا اور کہاکہ: رسولؐ اللہ کے صحابہ پوری دنیا میں پھیل چکے ہیں اور ہر ملک والوں کے پاس اپنا اپنا علم ہے۔    اگر آپ سب کو ایک راے پر مجبور کریں گے تو فتنہ کھڑا ہو جائے گا۔

اُمت مسلمہ باہمی اختلاف و انتشار سے جس کمزوری سے دوچار ہے اُس سے نجات کی راہ قرآن و سنت کو مضبوطی سے تھامنے اور اس سے رہنمائی لینے، نیز اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ اپنانے میں ہے۔ اسی طرزِعمل کے نتیجے میں اُمت میں اختلاف و انتشار کا سدباب ہوسکے گا۔

بی بی ہاجرہ ؑ جب مکہ کی اس تنگ وادی میں جو چاروں طرف سے پہاڑوں سے گھری ہوئی تھی مشیت ایزدی اور غیبی اشارے سے ٹھیرگئیں، پانی ختم ہونے پر ماں بیٹے نے شدید پیاس محسوس کی۔ لگتا تھا کہ پیاس کی شدت سے دونوں جان گنوا دیں گے۔ اس ریت کے صحرا میں دُور دُور تک پانی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ حضرت ہاجرہ ؑ نے ایک ٹیلے پر کھڑے ہوکر دُور حدِ نگاہ تک نظر دوڑائی مگر کچھ دکھائی نہ دیا۔ پریشانی کے عالم میں کبھی ایک ٹیلے پر جاتیں، کبھی دوسرے پر۔  اس طرح انھوں نے سات چکر کاٹ لیے۔ ساتویں چکر کے بعد ذرا دم لینے بیٹھیں تو کیا دیکھتی ہیں کہ جہاں اسماعیل ؑ لیٹے ایڑیاں رگڑ رہے تھے وہاں اللہ کے حکم سے ایک چشمہ جاری ہوگیا تھا اور پانی تیزی سے اُبل رہا تھا۔ پانی کو روکنے کے لیے بی بی ہاجرہ ؑ نے اپنے دونوں ہاتھ رکھ کر کہا: زم زم، ٹھیرٹھیر۔ اسی دن سے اس چشمے اور پانی کا نام زم زم ہوگیا۔

حضرت اسماعیل ؑ نے جوان ہوکر قبیلہ جرہم کی ایک خاتون سے شادی کی۔ ان کے ۱۲بیٹے تھے۔ حضرت اسماعیلؑ کے بعد ان کے بڑے بیٹے نبایوط زم زم کے متولی بن گئے۔ ایک طویل عرصے تک مضاض کی اولاد زم زم کی نگہبانی کے منصب پر فائز رہی۔ یہاں تک کہ عرب کے قبیلہ بنوخزاعہ نے زم زم کو بنی جرہم سے چھین لیا۔ جرہم کے سردار عمر بن حارث نے جب متاع زم زم چھنتی دیکھی تو زم زم کو بند کر کے اس کا نام و نشان مٹا دیا۔

پانچویں صدی عیسوی میں آلِ اسماعیل کو سردار قصی بن کلاب کی ہمت اور بہادری کے باعث بیت اللہ کی نگہبانی کا منصب پھر حاصل ہوا۔ قصی کی چوتھی پشت میں عبدالمطلب آتے ہیں جواپنی دانش مندی اور معاملہ فہمی کی وجہ سے قبیلے میں ایک ممتاز مقام رکھتے تھے۔ احمد بن عبدالجبار نے یونس بن بکیر کی وساطت سے ابن اسحاق کی یہ روایت نقل کی ہے کہ عبدالمطلب بن ہاشم   بن عبدمناف ایک دن کعبہ کے پاس مقامِ حجر میں سو رہے تھے کہ حالت ِ خواب میں کسی آنے والے نے انھیں زم زم کھودنے کا حکم دیا۔ کیوںکہ چاہِ زم زم بنی اسماعیل ، اکبر اور جرہم کے اقتدار کے بعد سے اٹ کر گم ہوگیا تھا اور اس کی جگہ اور مقام کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہ تھا۔ اب عبدالمطلب کو اس کے برآمد کرنے کا حکم دیا گیا۔

خواب میں غیبی اشارہ ملنے کے بعد عبدالمطلب قریش کے پاس آئے اور کہا: اے معشرِقریش!  مجھے زم زم کھودنے کا حکم دیا گیا ہے۔ لوگوں نے آپ سے پوچھا کہ کیا آپ کو بتایا گیا ہے کہ زم زم کہاں ہے؟ تو آپ نے نفی میں جواب دیا۔ اس پر قریش نے آپ کو مشورہ دیا کہ آپ دوبارہ اپنی اسی خواب گاہ میں جائیں۔ اگر آپ کا خواب حقیقتاً اللہ کی طرف سے ہوا اور سچا ہوا تو اس کی مزید وضاحت ہوجائے گی اور اگر یہ شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ ہوا تو شیطان پھر لوٹ کر نہیں آئے گا۔

عبدالمطلب نے ایسا ہی کیا۔ وہ واپس آئے اور اپنی خواب گاہ مقامِ حجر میں آکر سو گئے۔ اُن کے خواب میں پھر کوئی آیا اور آنے والے نے کہا: ’’برہ کو کھودو‘‘۔ عبدالمطلب نے پوچھا: ’برہ‘ کیا چیز ہے؟ یہ سنتے ہی اشارہ کرنے والا غائب ہوگیا۔ اگلے دن عبدالمطلب اپنی اسی خواب گاہ میں سو رہے تھے۔ وہ اشارہ کرنے والا پھر ظاہر ہوا اور کہا:’’مضنونہ کو کھودو‘‘۔ عبدالمطلب نے پوچھا کہ ’مضنونہ ‘کیا چیز ہے؟ اس پر اشارہ کرنے والا چلا گیا۔

تیسرے دن عبدالمطلب اپنی اسی خواب گاہ مقامِ حجر کے قریب سو رہے تھے کہ وہ اشارہ کرنے والا پھر آیا اور عبدالمطلب سے کہا کہ ’’طیبہ کو کھودو‘‘۔ آپ نے پوچھا کہ ’طیبہ‘ کیا ہے؟ اس پر وہ پھر چلا گیا۔ چوتھے روز پھر ایسا ہی ہوا۔ عبدالمطلب اپنی آرام گاہ میں سو رہے تھے کہ اشارہ کرنے والا پھر خواب میں دکھائی دیا اور اس نے کہا کہ ’زم زم‘ کی کھدائی کرو۔ آپ نے پوچھا کہ  ’زم زم‘ کیا ہے تو اس نے کہا: وہ کبھی خشک نہ ہوگا اور نہ اس کے پانی ہی میں کمی ہوگی۔ بتانے والے نے خواب میں ’زم زم‘ کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے اس کے محلِ وقوع کے بارے میں نشان دہی بھی کردی اور کہا کہ اگر تُو نے اسے برآمد کرلیا تو نادم نہ ہوگا۔ یہ تیرے جدِاعلیٰ کی میراث ہے۔ یہ چشمہ کبھی خشک نہ ہوگا اور نہ اس کے پانی ہی میں کبھی کمی واقع ہوگی۔ یہ حجاج کی ایک کثیرتعداد کو بھی سیراب کرتا رہے گا۔ جو گروہوں کی شکل میں آتے رہیں گے اور جوق در جوق جاتے رہیں گے۔ نذر ماننے والے اس کے پاس آکر حاجت مندوں کے لیے اپنی اپنی نذریں گزاریں گے۔ یہ تیری میراث ہے اور یہ تیرے حق میں اللہ کی طرف سے ہے۔ یہ اُن دوسرے چشموں کے مانند نہیں ہے جنھیں تو جانتا ہے، بلکہ یہ گوبر اور خون کے درمیان میں سے نکلنے والے خالص دودھ کی طرح پینے والوں کے لیے نہایت خوش گوار ہوگا۔

یہ سن کر عبدالمطلب نے پوچھا: وہ کہاں ہے؟ جواباً کہا گیا کہ چیونٹیوں کے بِلوں کے پاس جہاں کو ّا کل چونچ مارے گا۔ اگلے دن صبح کے وقت عبدالمطلب اپنے بیٹے حارث کو ساتھ لے کر نکلے۔ اس وقت حارث کے سوا ان کا کوئی بیٹا نہ تھا۔ دونوں نے چیونٹیوں کا بِل دریافت کیا اور دیکھا کہ اس کے پاس ہی کوّا چونچ مار رہا تھا اور یہ جگہ اساف اور نائلہ بتوں کے درمیان تھی جہاں پر قریش جانور ذبح کیا کرتے تھے۔

ابن اسحاق کی روایت کے مطابق: پھر عبدالمطلب کدال لے کر آگئے اور کھدائی کرنے کے لیے اُٹھے۔ جب قریش نے دیکھا کہ وہ ٹلنے والے نہیں تو انھوں نے عبدالمطلب سے کہا: بخدا ہم آپ کو ان دونوں بتوں کے درمیان سے کھودنے کی اجازت نہیں دیں گے جن کے پاس ہم جانور ذبح کرتے ہیں۔ عبدالمطلب نے اپنے بیٹے حارث سے کہا: مجھے کھدائی کرنے دو، خدا کی قسم! مجھے جو حکم دیا گیا ہے مَیں اس کی تعمیل ضرور کروں گا۔ جب قریش نے دیکھا کہ عبدالمطلب کا فیصلہ اٹل ہے تو انھوں نے کھدائی میں مزاحمت ترک کر دی اور چلے گئے۔زیادہ وقت نہ گزرا کہ پختہ کنواں اور ہتھیار اور سامان کا گٹھا برآمد ہوا۔ عبدالمطلب نے نعرئہ تکبیر بلند کیا۔ قریش کے لوگوں کو معلوم ہوگیا اور وہ سمجھ گئے کہ عبدالمطلب نے سچ کہا تھا اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ چنانچہ قریش کے سب لوگ اکٹھے ہوگئے اور عبدالمطلب سے کہنے لگے کہ یہ ہمارے باپ اسماعیل کا کنواں ہے۔ اس لیے اس پر ہمارا بھی حق ہے۔ ہمیں بھی اس میں اپنے ساتھ شریک کرو۔ عبدالمطلب نے جواب دیا: میںا یسا نہیں کروں گا۔ یہ خاص طور پر مجھے دیا گیا ہے اور تم میں سے کسی کو نہیں دیا گیا، مگر سب نے مل کر کہا کہ ہمیں بھی حصہ دار بنائو ورنہ ہم آپ کو نہیں چھوڑیں گے، خواہ اس معاملے میں ہمیں آپ سے جھگڑا کرنا پڑے۔

عبدالمطلب نے کہا: اچھا تو اس کے لیے ایک حَکم مقرر کرلیا جائے جو اس معاملے کو نمٹادے۔ اس پر قریش کے لوگ متفق ہوگئے اور انھوں نے بنی سعد بن ندیم کی ایک عورت کاہنہ کا نام تجویز کیا جو شام کے بالائی علاقے میں رہتی تھی۔

عبدالمطلب اپنی برادری کے ایک گروہ کی معیت میں عازمِ سفر ہوئے اور قریش کے دیگر قبیلوں میں سے ایک جماعت بھی فریق ثانی کی حیثیت سے ساتھ روانہ ہوئی۔ اس زمانے میں  شام اور حجاز کے درمیان بے آب و گیاہ جنگل و صحرا تھے۔ جب یہ قافلہ شام و حجاز کے درمیان بیابانوں میں سے کسی ویران جگہ پہنچا تو عبدالمطلب اور ان کے ساتھیوں میں سے ہر ایک کے پاس پانی ختم ہوگیا اور انھیں یقین ہوگیا کہ وہ پیاس سے ہلاک ہوجائیں گے۔ انھوں نے فریق ثانی سے پانی مانگا تو انھوں نے پانی دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ہمیں بھی تمھاری طرح ہلاکت کا خوف ہے۔

ان حالات میں عبدالمطلب نے اپنے ساتھیوں سے ان کی راے دریافت کی۔ انھوں نے کہا کہ ہماری راے آپ کی راے کے تابع ہے۔ آپ جو بھی حکم دیں گے ہم اس کی تعمیل کریں گے۔ عبدالمطلب نے کہا کہ میری راے تو یہ ہے کہ ہم میں سے ہرکوئی اپنی طاقت کے مطابق   ایک ایک گڑھا کھودے تاکہ ہم میں سے جب کوئی ہلاک ہوجائے تو اس کا ساتھی اسے اس گڑھے میں ڈال دے اور چھپا دے۔ عبدالمطلب کے ساتھیوں نے ایک ایک گڑھا کھودا اور موت کا انتظار کرنے لگے۔ پھر عبدالمطلب نے کہا: خدا کی قسم! ہمارا اس طرح اپنے آپ کو موت کے منہ میں ڈال دینا اور اِدھر اُدھر پانی کی تلاش میں جدوجہد نہ کرنا ہماری کمزوری کی علامت ہے۔ چلو یہاں سے کوچ کریں شاید اللہ تعالیٰ ہمیں سیراب کردے۔ یہ سن کر سب اُٹھ کھڑے ہوئے۔

عبدالمطلب بھی اُونٹنی کی طرف بڑھے اور اس پر سوار ہوگئے۔ جب عبدالمطلب کی اُونٹنی اُٹھی تو اس کے پائوں کے نیچے سے میٹھے پانی کا چشمہ پھوٹ نکلا۔ سب نے اپنی اُونٹنیوں کو بٹھا دیا اور اپنی سواریوں کو روک لیا۔ عبدالمطلب نے بھی اپنی اُونٹنی کو بٹھا دیا۔ پھر سب نے پانی پیا اور سفر کے لیے بھی ذخیرہ کرلیا اور جانوروں کو بھی پلایا۔ پھر اپنے دوسرے قریشی ساتھیوں کو بھی بلایا کہ آئو دیکھو ہمیں اللہ تعالیٰ نے پانی عنایت فرمایا ہے۔ وہ سب آئے، انھوں نے بھی پانی پیا اور بھر بھی لیا۔ اس کے بعد قریشی ساتھیوں نے کہا: اے عبدالمطلب خدا کی قسم! اللہ تعالیٰ نے آپ کے حق میں فیصلہ صادر فرما دیا ہے۔ وہ ذات جس نے بیابان میں آپ کو سیراب کیا ہے اسی نے آپ کو زم زم بھی  عطا کیا ہے۔ چلو واپس چلیں زم زم آ پ ہی کا ہے۔ ہم اس معاملے میں آپ سے جھگڑا نہیں کریں گے۔

ایک روایت کے مطابق قریش واپس چلے گئے۔ واپس آکر عبدالمطلب نے پھر کھدائی شروع کر دی۔ انھوں نے زیادہ کھدائی کی تو سونے کے دو ہرن دستیاب ہوئے۔ یہ وہ ہرن تھے جو جرہم نے مکہ سے نکلتے وقت دفن کیے تھے۔

ابن اسحاق ہی کی روایت ہے کہ زم زم کی کھدائی کے دوران جنابِ عبدالمطلب کو دو ہرنوں کے علاوہ تلواریں بھی ملیں۔ قریش نے کہا کہ ہم بھی آپ کے ساتھ ان برآمد شدہ چیزوں کے حق دار ہیں اس لیے ہمیں بھی ان میں شریک کیا جائے۔

عبدالمطلب نے جواب دیا: ایسا نہیں ہوسکتا۔ ہاں، یہ ہوسکتا ہے کہ تم میرے ساتھ اس معاملے کا فیصلہ منصفانہ طریقے پر کرلو اور قرعہ اندازی پر رضامند ہوجائو۔

قریش نے پوچھا: آپ کیا طریقہ اختیار کریں گے؟

عبدالمطلب نے کہا: کعبہ کے لیے دو تیر، تمھارے لیے دو تیر، اور اپنے لیے دو تیر مقرر کروں گا اور جس کے لیے جو چیز نکلے گی وہ اسی کو ملے گی۔ قریش نے کہا: آپ نے انصاف کی بات کی ہم اس طریقے پر رضامند ہیں۔ چنانچہ دو زرد تیر کعبہ کے لیے، دو سیاہ تیر عبدالمطلب کے لیے، اور دوسفید تیر قریش کے لیے مقرر کر دیے گئے۔ پھر یہ قرعہ انداز کے سپرد کر دیے گئے۔ عبدالمطلب دُعا کے لیے کھڑے ہوگئے اور انھوں نے یہ اشعار پڑھے:

اے اللہ! تو ستودہ صفات بادشاہ ہے اور تُو ہی میرا پروردگار ہے جس کے قبضۂ قدرت میں زندگی اور موت ہے۔ تُو بلند و بالااور مضبوط سلسلہ ہاے کوہ کو تھامے ہوئے ہے اور جدید سازوسامان اور قدیم موروثی مال و متاع کا عطا کرنے والا تُو ہی ہے۔ اگر تُو چاہے تو الہام کردے کہ یہ زیورات اور لوہے کے اوزار کہاں رکھے جائیں؟ اے احکام کے صادر فرمانے والے! مَیں تیرے فیصلے کا پابند ہوں۔ پس تُو آج اپنے ارادے کو بالوضاحت ظاہر فرما دے۔ اے پروردگار! اپنا فیصلہ صادر فرما دے۔ میں اس سے رُوگردانی نہیں کروں گا۔

تیرانداز نے تیر ڈالے تو دونوں زرد تیر دونوں ہرنوں پر کعبۃ اللہ کے لیے نکلے۔ عبدالمطلب نے دونوں ہرن کعبہ کے دروازے پر نصب کر دیے۔ یہ پہلا سونا تھا جس سے کعبۃ اللہ کو آراستہ کیا گیا۔ دونوں سیاہ تیر عبدالمطلب کے حق میں تلواروں اور زرہوں پر نکلے۔

اللہ عزوجل نے زم زم کی کھدائی کے بارے میں عبدالمطلب کی رہنمائی فرمائی اور انھیں خاص طور پر اس اعزاز کے لیے منتخب کیا۔ جب عبدالمطلب نے زم زم برآمد کرلیا تو اللہ عزوجل نے قوم کی نظروں میں ان کی بزرگی اور قدر و منزلت میں اضافہ کر دیا۔ لوگ زم زم کی برکت و فضیلت کی وجہ سے اسی کی طرف رجوع کرنے لگے کیوںکہ یہ مسجد ِ حرام میں تھا اور اسی سے اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیلؑ کو سیراب کیا تھا۔ یہ حضرت اسماعیل ؑ بن ابراہیم ؑ کا چشمہ تھا۔ جب حضرت اسماعیل ؑ کو صغرسنی میں پیاس محسوس ہوئی تھی تو اللہ نے ان کو اس چشمے سے ہی پانی پلایا تھا اور وہ سیراب ہوئے تھے۔

عبداللہ بن ابی نجیح نے مجاہد کے حوالے سے یہ حدیث بیان کی ہے کہ مجاہد نے کہا کہ ہم ہمیشہ سے یہ سنتے آئے ہیں کہ جب حضرت اسماعیل ؑ کو پیاس لگی تو جبریل ؑ نے اپنی ایڑی سے کھدائی کرکے زم زم کا چشمہ جاری کر دیا۔

 حضرت ابوذرغفاریؓ سے روایت ہے کہ جب وہ آغازِ اسلام کے زمانے میں آنحضرتؐ کی خبر سن کر مکہ آئے تو ان کو پورے ایک مہینے تک بارگاہِ نبوت میں حاضری کا موقع نہ مل سکا۔ اُن کے پاس کوئی زادِ راہ بھی موجود نہ تھا صرف زم زم کا پانی پی کر مدت بسر کی اور مَیں بھوک کے ضعف کا کوئی اثر محسوس نہیں کرتا تھا۔(مسلم)

حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ زم زم کا پانی بھوک کے وقت غذا اور بیماری کی حالت میں شافی دوا کا کام کرتا ہے۔

زم زم کا پانی پاک و مطہر اور ہرقسم کی ملاوٹ سے پاک ہے۔ زم زم جنّت کے چشموں میں سے ایک چشمہ ہے۔ یہ روے زمین پر سب سے عمدہ، افضل اور خیروبرکت والا پانی ہے۔ یہ پانی بھوک کے لیے کھانا اور بیمار کے لیے شفا ہے۔ یہ پانی سردرد کے لیے مفید ہے اور بینائی کو تیز کرتا ہے اور جسم و جاں کو توانائی بخشتا ہے اور قوتِ ہاضمہ کو بہتر کرتا ہے۔

تحریک ختمِ نبوتؐ: آغاز سے کامیابی تک، مرتبہ: سیّد سعود ساحر۔ ناشر: توّکل اکیڈمی، ۳۱-نوشین سینٹر، اُردو بازار، کراچی۔ فون: ۳۲۲۱۷۴۷۱-۰۲۱۔ صفحات: ۳۵۸۔ قیمت: ۴۵۰ روپے۔

ختمِ نبوت، ایک مسلمان کا بنیادی عقیدہ ہے، اور اس کا انکار یا اس میں کسی نوعیت کی ملاوٹ یا شک، ایمان کی بنیاد ڈھا دیتی ہے۔ ۱۹ویں صدی کے آخری عشروں میں قادیانیت نے بال و پَر نکالے اور ۲۰ویں صدی کے آغاز میں مرزا غلام احمد نے اپنی جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا۔   یہ ’نبوت‘ بنیادی طور پر برطانوی سامراج کی مرضی کے مطابق دینِ اسلام کی نئی تعبیرو تشریح کے بوئے جانے والے جھاڑ جھنکار پر مشتمل تھی۔ مرزا نے اپنی نبوت کے نہ ماننے والوں کو ’کافر‘ ہی نہیں قرار دیا، بلکہ انھیں نہایت غلیظ ناموں سے بھی نوازا۔

اس ضمن میں اُمت مسلمہ کے ضمیر نے یکسو ہوکر مذکورہ فتنے کی نفی کی۔ علامہ اقبال نے تو ایک جملے میں واضح کر دیا کہ: ’’قادیانی اسلام اور ہندستان دونوں کے غدار ہیں‘‘۔ اور یہ بات انھوں نے قادیانیت کے وکیلِ صفائی پنڈت جواہر لال نہرو کو ایک خط میں لکھی۔

علماے کرام کے ہاں تو اس بارے میں کوئی شک نہ تھا: حنفی [بریلوی، دیوبندی]، سلفی، شیعہ علما، قادیانیت کے کفر پر متفق تھے، مگر پاکستان یا ہندستان کا جدید تعلیم یافتہ طبقہ اپنی کم علمی کی بناپر اسے ’مولویوں کی لڑائی اور کفرسازی کا شاخسانہ‘ تصور کرتا تھا۔ ۲۹مئی ۱۹۷۴ء کو نشتر میڈیکل کالج ملتان میں زیرتعلیم اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنوں اور حامیوں پر، ربوہ ریلوے اسٹیشن پر قادیانی نوجوانوں نے حملہ کیا، جس نے اس مسئلے کو شعلۂ جوالہ بنادیا۔ قریہ قریہ تحریکِ ختم نبوتؐ شروع ہوئی۔ تب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اس مسئلے کو پاکستان کی پارلیمنٹ میں پیش کیا، جس میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ممبران نے بطور ’عدالت‘ مسئلے کے تمام فریقوں کو سنا، ان پر جرح کی اور آخرکار ۷ستمبر۱۹۷۴ء کو فیصلہ سنایا کہ:’’ قادیانیت کے دونوں گروہ دائرۂ اسلام سے خارج ہیں‘‘۔

زیرنظر کتاب پاکستان کے بزرگ اور باخبر صحافی جناب سعود ساحر نے مرتب کی ہے۔  اس کتاب کا سب سے دل چسپ اور آنکھیں کھول دینے والا حصہ اس بحث پر مشتمل ہے، جو پاکستان کی پارلیمانی عدالت میں سوال و جواب کی صورت میں ہوئی۔ دراصل یہی بحث قادیانیت کی حقیقت کو پاکستان کے دستور سازوں کے سامنے بے نقاب کرنے کا ذریعہ بنی ہے۔

یہ نہایت افسوس ناک بات ہے کہ ۱۹۷۴ء سے اب تک اس بحث کو سرکاری طور پر شائع نہیں کیا گیا۔ اس سے قبل اس بحث کے متعلقہ مکالمات کو مولانا اللہ وسایا صاحب نے تحریک ختمِ نبوت ۱۹۷۴ء (جلد دوم،صفحات: ۴۴۲)کے عنوان سے شائع کیا تھا، جس پر ترجمان القرآن (اپریل ۱۹۹۵ء) میں تبصرہ کیا گیا تھا۔ زیرتبصرہ کتاب کے مرتب نے بھی انھی متذکرہ مکالمات کو اپنے ذرائع سے حاصل کرکے زیرنظر کتاب مرتب کی ہے، لیکن انھوں نے محض مکالمات نہیں بلکہ بحث کی کیفیات، اُتار چڑھائو، تلخی تُرشی کو بھی قلم بند کیا ہے۔ اس سے اس مسئلے کی جزئیات واضح ہوکر سامنے آتی ہیں۔ جناب سعود ساحر کی یہ خدمت قابلِ تحسین ہے، تاہم ہمارا بنیادی مطالبہ یہی ہے کہ اس پوری کارروائی کو سرکاری طور پر اسپیکرآفس کی طرف سے شائع کیا جانا چاہیے۔ جو حیثیت و اہمیت اُس دستاویز کو حاصل ہوگی، وہ کسی دوسرے ذریعے سے حاصل کردہ معلومات کو حاصل نہیں ہوسکتی۔ بلاشبہہ سعود صاحب یا اللہ وسایا صاحب کی کتب میں شائع کردہ مکالمات درست ہیں، مگر ان کی حیثیت پرائیویٹ دستاویز کی ہے۔

گذشتہ دورِ حکومت میں قومی اسمبلی کی اسپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے ۱۰؍اپریل ۲۰۱۱ء کو   اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ اس کارروائی کو ’خفیہ دستاویزات‘ کے سردخانے سے نکال کر شائع کریں گی، اور انھوں نے یہ کارروائی چھپوا بھی لی تھی، مگر وہ اسے عوام الناس کے لیے شائع نہ کرسکیں۔  ایسا کیوں ہے؟ یہ صورتِ حال پاکستان کے عوام کی حق تلفی، قادیانیت کی طرف داری اور دستورِ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی روح سے متصادم رویے کی غماز ہے۔ (سلیم    منصور  خالد)


علامہ اقبال: شخصیت اور فکروفن،ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی۔ ناشر: اقبال اکادمی پاکستان، ایوانِ اقبال،لاہور، فون:۳۶۳۱۴۵۱۰-۰۴۲۔ صفحات:۳۲۴ (مع اشاریہ)۔قیمت: ۶۰۰روپے ۔

 علامہ اقبال کا شمار ان اکابر میں ہوتا ہے جنھوں نے مسلمانانِ برعظیم کو غلامی کی گہری نیند سے بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں:شاعر،مفکر،فلسفی ، سیاست دان، قانون دان وغیرہ ۔ اس سلسلے میں سیکڑوں کتابیں لکھی گئی ہیں اوریہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔   اکادمی ادبیاتِ پاکستان نے ۱۹۹۰ء میں ’پاکستانی ادب کے معمار‘ کے عنوان سے ممتاز تخلیق کاروں پر ایک ایک کتاب شائع کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ زیرنظر کتاب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔    اس بارے میں اکادمی ادبیات کے صدرنشین افتخار عارف لکھتے ہیں: ’’یہ کتاب نام وَر اقبال شناس، ممتاز تنقیدنگار اور محقق پروفیسر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے اکادمی ادبیات پاکستان کے لیے تحریر کی ہے۔ ہم ان کے تہ ِ دل سے شکرگزار ہیں۔ انھوں نے علامہ محمد اقبال کے حوالے سے تحقیقی اور تنقیدی نوعیت کا امتیازی اختصاص کے ساتھ بے حد وقیع کام کیا ہے‘‘۔

زیرنظر کتاب بقول مصنف: ’’اقبال کے عام قاری کے لیے ہے___ جو اقبال کے بارے میںکچھ زیادہ نہیں جانتا‘‘۔فی الحقیقت یہ کتاب اقبال کا تعارف ایک منفرد انداز میں کراتی ہے۔ اسے پڑھتے ہوئے اقبال اپنی خوبیوں اور کمزوریوں، یعنی پوری شخصیت کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ یہ کتاب قاری کو سوانح اقبال کے بہت سے گوشوں سے شناسا کراتی ہے۔اس میں اقبال کے آباواجداد،اساتذہ، عملی زندگی، سیاسی سرگرمیوں، ملکی اور غیرملکی دوروں اور آخری زمانے کی طویل علالت کے دنوں کے اہم واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے، نیز اس میں اقبال کی فکریات  سمجھنے کے لیے ان کے ملفوظات اور افکار و تصورات کا تذکرہ بھی آگیا ہے۔

مصنف کا اسلوب سادہ ، رواں اور دل کش ہے۔  (فیاض احمد ساجد)


 سیّد مودودیؒ: مفکر، مجدد، مصلح ، علامہ یوسف القرضاوی۔ ترجمہ: ابوالاعلیٰ سیّد سبحانی۔ ناشر: منشورات، منصورہ، لاہور۔ فون: ۳۵۲۵۲۲۱۱-۰۴۲۔ صفحات: ۱۳۶۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔

علامہ یوسف القرضاوی کا شمار موجودہ زمانے کے چوٹی کے علما میں ہوتا ہے۔ عالمی حالات، اُمتِ مسلمہ کے مسائل اور جدید موضوعات پر ان کی گہری نظر ہے۔ اس طرح وہ فکری اور عملی دونوں میدانوں میں سرگرمِ عمل ہیں۔ علّامہ القرضاوی کو مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی [۱۹۰۳ء-۱۹۷۹ء] سے بہت محبت اور عقیدت ہے (یاد رہے، مولانا مودودی کی نمازِ جنازہ انھی نے پڑھائی تھی)۔

کچھ عرصہ قبل القرضاوی نے ایک مختصر مگر جامع کتاب نظرات فی فکر الامام المودودی شائع فرمائی۔زیرنظر کتاب اسی مجموعے کا اُردو ترجمہ ہے۔ علامہ قرضاوی نے اس کتاب میں  مولانا مودودی کی فکری خصوصیات اور خدمات کا مختصر مگر جامع انداز میں بھرپور جائزہ لیا ہے۔ کتاب کے آخری حصے میں مولانا مودودی پر مولانا سیّدابوالحسن علی ندوی اور مصری دانش ور ڈاکٹر محمد عمارہ کی تنقید کا عمدہ تجزیہ کیا گیا ہے۔

علامہ قرضاوی، مولانا مودودی کے قدردان ہیں۔ انھوں نے مولانا مودودی کی فکرو بصیرت کو خوب صورت پیرایے میں پیش کیا ہے مگر بعض جزئیات میں ان سے اختلاف بھی کیا ہے، اور مختلف فیہ موضوعات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔

کتاب کے آغاز میں مولانا ڈاکٹر محمد عنایت اللہ سبحانی کا مبسوط مقدمہ شامل ہے۔     جس میں انھوں نے، علّامہ قرضاوی کے تنقیدی اشارات کا مختصر جواب دیا ہے۔ کتاب کا ترجمہ ابوالاعلیٰ سیّد سبحانی نے کیا ہے، جو نہایت شُستہ اور رواں ہے۔ اس خدمت پر وہ اُردو خواں حلقے کی جانب سے شکریے کے مستحق ہیں۔ (محمد  رضی  الاسلام     ندوی)


اِذنِ سفر دیا تھا کیوں؟ (سفرنامۂ ایران)، ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر۔ ناشر: قرطاس، فلیٹ نمبر ۱۵؍اے، گلشن امین ٹاور، گلستانِ جوہر، بلاک ۱۵، کراچی۔ صفحات: ۱۳۲۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

زیرنظر سفرنامے میں مصنفہ نے سیاحتی رُوداد کے ساتھ ایران کی تاریخ کے مختلف اَدوار کا عبرت انگیز منظرنامہ بھی پیش کیا ہے۔ جس میں تاریخی اور علمی شخصیتوں کا تذکرہ بھی شامل ہے جس سے مصنفہ کی (جو تاریخِ اسلامی کی پروفیسر ہیں) تاریخ پر نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔ انھوں نے ایران کی سرزمین، وہاں کے باشندوں کے طورطریقوں اور ان کی عمومی بودوباش کا بڑی باریک بینی سے مشاہدہ کرکے اپنا نقطۂ نظر بھی بیان کیا ہے۔ انھوں نے ایران کے تمام مقامات اور شخصیات کو تاریخ کے تناظر میں دیکھا ہے۔

 سفرنامے کا اسلوب ایسا شگفتہ اور سلیس ہے کہ قاری ایک ہی نشست میں پورے سفرنامے کا مطالعہ کرلیتا ہے۔ تسامح کئی ایک ہیں، صرف ایک کا ذکر۔ مصنفہ نے لکھا ہے: ’’سعدی، شیخ عبدالقادر جیلانی کے ہاتھ پر بیعت بھی تھے اور آپ ہی کے ہم رکاب ہوکر حج بیت اللہ بھی کیا تھا‘‘ (ص ۶۶)۔ حالاںکہ شیخ عبدالقادر جیلانی کی وفات (۱۴فروری ۱۱۶۶ء) کے ۴۴برس بعد شیخ سعدی ۱۲۱۰ء میں پیدا ہوئے تھے۔(ظفرحجازی)


تعارف کتب

o  1-Guidance of The Holy Quran, 2-Studies of the Quran،

پروفیسر اشرف الزماں خاں۔ ملنے کا پتا: اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۳۵۲۵۲۵۰۱-۰۴۲۔ صفحات، مجلد(علی الترتیب): ۷۲، ۱۹۲۔ قیمت:۱۲۰ روپے، ۳۰۰ روپے۔[انگریزی زبان میں اسلام اور قرآن سے ابتدائی تعارف کے لیے نہایت مناسب مختصر کتابیں ہیں۔ پہلی کتاب میں زندگی کے تمام اہم پہلوئوں کے بارے میں بنیادی ہدایات منتخب قرآنی آیات کی صورت میں ترجمے اور مختصر تشریح کے ساتھ دی گئی ہیں۔ عقائد اور تزکیے کے ساتھ ساتھ اچھے معاشرتی تعلقات، نیک عمل، گناہ کے کام، حلال و حرام کے بعد پردہ، دعوتِ اسلامی اور جہاد کے بارے میں مختصر ابواب میں، ۶۶ صفحات کی کتاب میں سب ہی کچھ آگیا ہے۔ دوسری کتاب میں قرآن سے تعارف اور سورئہ فاتحہ کے بعد آخری پارہ عم کی سورتوں (۷۸-۱۱۴) کی مختصر تشریح اور پس منظر کے ساتھ انگریزی ترجمہ دیا گیا ہے۔ ]

oاصطلاحاتِ حدیث، مرتب: عتیق الرحمٰن۔ ناشر: پیما پبلی کیشنز، پیما ہائوس۔ بی/۵۱۶، بلاک K، جوہر ٹائون، لاہور۔ فون: ۳۶۱۳۰۶۰۳-۰۴۲۔صفحات: ۶۴۔ قیمت: ۴۰ روپے۔[اس مختصر کتاب میں حدیث سے متعلق اصطلاحات کی واضح تعریف دی گئی ہے۔ اسی طرح قاری اس کتاب کے ذریعے  علمِ حدیث سے متعلق بنیادی معلومات سے روشناس ہوجاتا ہے۔ پیما (پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن) اپنے ممبران کی دینی تربیت کا انتظام بھی کرتی ہے۔یہ معلوماتی کتاب اسی کے پیش نظر شائع کی گئی ہے۔]

o رسائل و مسائل، سیّدابوالاعلیٰ مودودی ،مرتب: ڈاکٹر نصیر خان، ناشر: اسلامک پبلی کیشنز، منصورہ، لاہور۔  فون:۳۵۲۵۲۵۰۱-۰۴۲۔صفحات: ۱۱۳۱۔ قیمت: ۱۵۰۰ روپے۔[مولانا مودودی کی شہرئہ آفاق کتاب رسائل و مسائل جو پانچ حصوں میں دستیاب تھی، اسے ایک جِلد میں موضوعاتی بنیادوں پر اکٹھا کر کے یہ ضخیم مجموعہ مرتب کیا گیا ہے۔ پانچوں جلدوں میں ذیلی عنوانات کے تحت جو سوال و جواب موجود تھے، انھیں اس کتاب میں متعلقہ فصل کا حصہ بنایا گیا ہے۔ اگرچہ یہ بھی کتاب سازی کا ایک انداز ہے، لیکن اگر ترتیب ِ نو کے ساتھ اسے دو حصوں میں تقسیم اور متن کی چوڑائی کو قدرے کم کیا جاتا تو یہ عمل قاری کے لیے زیادہ سہولت بخش ہوتا۔ پھر جہاں جہاں مسئلے کی تاریخ اشاعت دی گئی ہے، اس کے ساتھ بنیادی جِلد (جسے ختم کیا گیا ہے) کا شمار اوّل؍ دوم؍ سوم وغیرہ کی نشان دہی کے ساتھ درج کیا جانا ضروری تھا۔ سواے حصہ پنجم کے، باقی جِلدیں مولاناموددویؒ ہی کی مرتب کردہ تھیں۔ اس لیے ان کی مستقل پہچان کو معدوم کرنا مناسب نہیں۔حصہ دوم کا تعارف مولانا امین احسن اصلاحی صاحب نے لکھا تھا، وہ بھی ریکارڈ پر رہنا چاہیے تھا۔ ]

ڈاکٹر محمد حامد ، نور ورسک (بونیر)

حج کے موضوع پر ’اشارات‘ (ستمبر ۲۰۱۶ء) بروقت، مناسب اور بہت مؤثر ہیں۔ اللہ تعالیٰ پروفیسرخورشید احمد صاحب کو جزاے خیر دے اور کوئی حاجی یا غیرحاجی اس تحریر کے مطالعے سے محروم نہ رہے۔ یہ جملہ تو اس مضمون کی جان ہے: ’’جس نے حج زندگی میں ایک بار بھی جملہ آداب کے ساتھ کیا، تو یہ اس کی ساری زندگی رب کی عبدیت کی راہ پر رواں دواں رکھنے کے لیے کافی ہے‘‘ (ص ۱۶)۔قاضی رحمت اللہ کا مضمون مولانا مودودی کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے مفید ذریعہ ہے۔


حاجی انوراللہ ، مدین، سوات

’حج ایک عبادت، ایک پیغام‘ (اشارات، ستمبر۲۰۱۶ء) موقعے کی مناسبت سے ایک بہترین مضمون ہے جو عبادت کو زندگی سے اور زندگی کو ربّ سے جوڑتا ہے۔ بنگلہ دیش کے حالات، جماعت اسلامی کے رہنمائوں پر گزرنے والے حالات کی تفصیل پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ یااللہ ! کوئی سبیل پیدا فرما۔


ڈاکٹر طارق محمود مہر ، ماتلی (بدین)

عالمی ترجمان القرآن کے معیار کو برقرار رکھنے کی شدید ضرورت ہے، کیونکہ نظریاتی تشکیل و تعمیر کا اُردو میں غالباً یہ واحد مؤثر پرچہ ہے۔ بنگلہ دیش پر بہت بھرپور مضمون ہے، جس کے مطالعے نے وہاں بھائیوں پر گزرنے والی کیفیات کی جھلک دکھا کر لرزہ براندام کردیا۔ البتہ، فقہ و اجتہاد کے تحت مضمون پر زیادہ معیاری چیز لانے کی ضرورت تھی۔


حمید اللہ خٹک ، لاہور

’مسکراتے ہوئے السلام علیکم کہیے‘ (ستمبر ۲۰۱۶ء) سبق آموز ہے۔ یہ اسلامی شعائر میں ہے، جس سے غفلت برتی جارہی ہے۔ عموماً سیاسی اور عالمی اُمور زیادہ زیربحث آتے ہیں، جب کہ معاشرتی مسائل نظرانداز ہوجاتے ہیں۔ ’مقبوضہ‘ بنگلہ دیش میں انسانیت کی تذلیل‘ سے اہم معلومات ملیں جن سے عام طور پر لوگ بے خبر ہیں۔ تاہم مختصر ہوتا تو بہتر تھا۔