مضامین کی فہرست


مئی ۲۰۱۲

بسم اللہ الرحمن الرحیم

گفتگو کا موضوع عالمِ اسلام ہو یا اُمت ِمسلمہ، ایک بنیادی سوال یہ اُٹھایا جاتا ہے کہ    ہم بات کس اُمت مسلمہ کی کر رہے ہیں اور کیا اس کا کوئی حقیقی وجود بھی پایا جاتا ہے یا یہ محض ایک نظری مسئلہ ہے؟ گو، گذشتہ چند ماہ میں پیش آنے والے واقعات نے نہ صرف اُمت مسلمہ کے وجود کے عینی شواہد فراہم کر دیے ہیں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اس بات کو بھی پایۂ ثبوت تک پہنچا دیا ہے کہ اُمت مسلمہ میں جان ہے، حرکت ہے، فعّالیت ہے اور وقت کے جباروں اور بیرونی قوتوں کے پروردہ حکمرانوں اور ان کے ظالمانہ نظام کو اُکھاڑ پھینکنے کی صلاحیت بھی پائی جاتی ہے۔ یہ اُمید کا  دمکتا سورج بھی اگر بعض مایوس ذہنوں میں جو زندگی کا صرف تاریک پہلو دیکھنے کے عادی ہوں اُمید کی کرن روشن نہ کرسکے اور عوامی صحافت کے مایوس کن تبصروں کے زیراثر قنوطیت کے طلسم سے  نہ نکال سکے، تو قصور روشنی کا نہیں ان کی اپنی فکرونگاہ ہی کا ہوسکتا ہے۔

اُمت مسلمہ وہ اُمت ہے جسے روزِ اول سے اس کے خالق و مالک نے توحید کے اصول کے پیش نظر دو حوالوں سے اپنے کلام عزیز میں بیان فرمایا ہے۔ اوّلاً: کل بنی نوع آدم کو حضرت آدم علیہ السلام کی ذُریت ہونے کی بنیاد پر اُمت واحدہ فرما کر اس عالم گیر اصول کی تشریح کر دی کہ تمام انسان اصلاً ایک خاندان سے ہیں۔ ان کے رنگوں کا اختلاف، زبانوں میں فرق کا پایا جانا، ان کے قد، غذا، لباس وغیرہ میں بظاہر تنوع پایا جانا ایک ظاہری معاملہ ہے۔ قرآنی عمرانیات اور علم الانسان میں نہ کسی گورے کو کسی کالے پر، نہ کسی امیر کو کسی غریب پر، نہ کسی نام نہاد اعلیٰ منصب والے کو   کسی بظاہر کم حیثیت والے فرد پر کوئی فوقیت حاصل ہے۔ تمام انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہیں ، اس لیے تمام انسانیت ایک اُمت واحدہ ہے:

وَ مَا کَانَ النَّاسُ اِلَّآ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَاخْتَلَفُوْا ط (یونس ۱۰:۱۹) ابتدائً سارے انسان ایک ہی اُمت تھے، بعد میں انھوں نے مختلف عقیدے اور مسلک بنا لیے۔

اسی بات کو انسان کے اخلاقی عمل کے حوالے سے ایک اور مقام پر یوں فرمایا گیا:

یٰٓـاََیُّھَا النَّاسُ اِِنَّا خَلَقْنٰـکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْاط اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ ط اِِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ o (الحجرات ۴۹:۱۳) لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمھاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ یقینا    اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔

اُمت کا تصور اور نصب العین

گویا اُمت ِمسلمہ نہ کسی زبان سے وابستہ لسانی گروہ ہے، جس کا غلط اعادہ اکثر مغربی تجزیوں میں بجاے اُمت مسلمہ کے ’عرب دنیا‘ کہہ کر کیا جاتا ہے۔ نہ یہ کوئی نسلی اُمت ہے کہ اسے عرب یا عجم کے کسی قبیلے سے منسوب کیا جائے، اور نہ یہ کوئی جغرافیائی اُمت ہے کہ اسے ایشیائی، افریقی یا وسط ایشیائی لوگ کہا جائے۔

قرآن کریم اس اُمت کو صرف اس کے اللہ کی بندگی اور حق و صداقت پر قائم ہوجانے کی بنا پر اس کے اخلاقی عمل کی بنیاد پر اُمت مسلمہ قرار دیتا ہے۔ اسی بنا پر یہ بات فرمائی گئی ہے کہ اس میں بڑائی کا معیار تقویٰ، پرہیزگاری، عملِ صالح اور عملِ خیر ہے۔ جو ان صفات میں دوسروں سے بڑھ کر ہوگا وہ اللہ کی نگاہ میں عزت کا مستحق ہوگا اور وہی اس دنیا میں اللہ کا زیادہ محبوب بندہ ہوگا۔

قرآن کریم نے اُمت مسلمہ کے اس صفاتی پہلو کے پیش نظر اُمت مسلمہ کی تعریف ہی یہ بیان کی ہے کہ یہ وہ اُمت ہے جو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے مقصد سے وجود میں لائی گئی ہے: کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ (اٰل عمران ۳:۱۱۰) ’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔ اس سے قبل اسی سورۂ مبارکہ میں فرمایاگیا تھا: وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَo (اٰل عمران ۳:۱۰۴) ’’تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں، اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے‘‘۔

ان دونوں آیات پر اس تناظر میں غور کیا جائے کہ آغاز میں اُمت ِانسانی ایک تھی۔ ایک ماں باپ کی اولاد کا نظریۂ حیات، عقیدہ اور عمل مختلف نہیں ہوسکتا لیکن وقت کے گزرنے اور تعداد میں اضافہ ہونے اور فطری طور پر سیروسفر اور ضروریاتِ زندگی کی تلاش و حصول کے نتیجے میں دُوردراز علاقوں میں جاکر بس جانے کی بنا پر عقیدہ و عمل کے اختلاف صدیوں کے عمل کی بناپر وجود میں آگئے۔ انسانیت کو دوبارہ قریب لانے کے لیے یہ امر منطقی ہے کہ اسے پھر اپنے خالقِ حقیقی کی طرف بلایا جائے اور اس کی بندگی کی دعوت دے کر دلوں کو جوڑا جائے۔ اس غرض کے لیے     اللہ تعالیٰ نے اُمت مسلمہ کا مقصدِ وجود ہی یہ بیان فرمایا کہ یہ وہ اُمت ہے جو بھلائی، خیر،   معروف اور حق کی طرف بلاتی ہے اور برائی، ظلم، ناانصافی اور جہالت کو دُور کرنے اور مٹانے کے لیے اپنے تمام وسائل کا استعمال کرتی ہے۔ گویا قرآن کریم نے اُمت مسلمہ کی تعریف بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے مقصد کو بھی واضح طور پر بیان فرما دیا کہ اس کا مقصد محض اقتدار، محض دولت، محض  تسلط نہیں ہے بلکہ معروف اور حق کا پھیلانا اور برائی کا مٹانا ہے۔ یہ ایک مشن رکھنے والی اُمت ہے، اور اگر اسے وسائلِ حیات پر قدرت اور حکومت و اقتدار کے حصول کی دعوت دی گئی ہے تو وہ بھی اس مقصد کے حصول کے لیے طریقہ اور تدبیر کی حیثیت سے ہے۔

اس اصولی وضاحت کے بعد قرآن کریم اُمت مسلمہ کے نصب العین کے حوالے سے واضح رہنمائی کرتا ہے اور اسے ایک متحرک، بااصول اور بامقصد افراد کی جماعت قرار دیتے ہوئے نیکی کے قیام، حق و صداقت، عدل و اخوت کے نظام، اللہ رب العزت کی حاکمیت کے قیام یا دوسرے الفاظ میں اقامت دین کو اُمت مسلمہ کا نصب العین قرار دیتا ہے۔

قرآن کریم کا یہ امتیاز ہے کہ وہ ایک اصطلاح یا ایک مختصر جملے میں علم و عرفان کے ایک ذخیرے کو بیان کردیتا ہے۔ چنانچہ جب وہ یہ کہتا ہے کہ اقامت دین کی جائے تو ان دو الفاظ میں ایک انقلابی منشور فراہم کردیتا ہے جس کا شعور حاصل کرنا اور جسے عملاً اللہ کی زمین پر عملاً نافذ کرنا اُمت مسلمہ کا نصب العین اور ہدف قرار پاتا ہے۔

نصب العین کے تقاضے

قرآن کریم اس نصب العین کو مسلمان کے بنیادی عقیدے سے وابستہ کرتا ہے اور اللہ پر ایمان کا پہلا تقاضا قرار دیتا ہے۔ ایک فرد جب شعوری طور پر اِس بات کا اعلان کرتا ہے کہ اس نے اردگرد کے بے شمار خدائوں کو چھوڑ کر، ان سے اپنے آپ کو کاٹ کر صرف اور صرف خالق کائنات کی بندگی میں دے دیا ہے، تو پھر یہ اقرارِ عظمت و حاکمیت اُس کے دل و دماغ کی دنیا تک محدود نہیں رہتا۔ پھر اس کا کھانا پینا اوڑھنا بچھونا، آرام کرنا اور سعی و عمل، دوستیاں اور دشمنیاں، پسند و ناپسند، غرض ذاتی معاملات ہوں یا معاشی اور معاشرتی، یا سیاسی اور بین الاقوامی، ہرہرمعاملے کا فیصلہ کرتے وقت یہ دیکھنا ہوگا کہ ایسا کرنے سے رب کریم، حاکم ارض و سما ناراض ہوگا یا خوش۔ وہ شعوری طور پر پکار اُٹھے: قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo لَا شَرِیْکَ لَـہٗ وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَo (الانعام ۶: ۱۶۲-۱۶۳) ’’کہو، میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے، جس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا اور سب سے پہلے سرِاطاعت جھکانے والا مَیں ہوں۔

اقامتِ دین کا اُمت مسلمہ کے نصب العین کے طور پر تعین کیے جانے کا واضح مطلب   یہ ہے کہ اس کا ہر فرد دین کی اقامت کے لیے پانچ سطح پر کام کرنے کے لیے مامور کیا گیا ہے:

  • انفرادی زندگی میں نفاذ: دین کو اپنی ذاتی زندگی میں نافذ کرنے کے لیے قرآن و سنتِ رسولؐ کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد ان ہدایات و تعلیمات کی بنیاد پر اپنی تعمیر سیرت و شخصیت کرنا۔ اسی لیے فرمایا گیا: یٰٓـاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لاَ تَفْعَلُوْنَ o کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لاَ تَفْعَلُوْنَ o (الصف ۶۱:۲-۳)’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو!تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں‘‘۔

حدیث شریف میں ایک شخص کے ایمان لانے کو اُس کے عمل سے وابستہ کرتے ہوئے یوں فرمایا گیا ہے کہ: ’’جس نے اللہ کے لیے دوستی کی اور اللہ کے لیے دشمنی کی اور اللہ کے لیے دیا اور اللہ کے لیے روک رکھا، اس نے اپنے ایمان کی تکمیل کرلی‘‘(عن ابوامامہ، بخاری)۔ گویا ایک شخص کا قول و عمل ہی نہیں بلکہ اس کی پسند و ناپسند کا اللہ تعالیٰ کی خوشی کاتابع ہو جانا ہی اس کے عبد اور بندے ہونے کا ثبوت ہے، ورنہ وہ مسلمانوں جیسے نام کے باوجود اپنے رب کا باغی ہی رہتا ہے۔

  • اھلِ خانہ میں نفاذ:دوسری سطح پر نصب العین کا تقاضا ہے کہ وہ خیر، بھلائی،   معروف اور حق کو اپنے خاندان میں نافذ کرے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو قرآن کریم اسے ہوشیار کرتا ہے: ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ (التحریم ۶۶:۶) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے‘‘۔

خاندان پر اس جواب دہی اور مسئولیت کو ایک حدیث صحیح میں یوں بیان فرمایا گیا ہے: ’’تم میں سے ہرشخص محافظ و نگران ہے، اور اس سے ان لوگوں کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی جو اس کی نگرانی (مسئولیت) میں دیے گئے ہیں۔ پس امیر جو لوگوں کا نگران ہے، اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی اور مرد اپنے گھر والوں کی نگران ہے، پس اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی اور بیوی شوہر کے گھر اور اولاد کی نگران ہے، اور اس سے اولاد کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی (عن ابن عمر، بخاری، مسلم)۔ گویا انفرادی سطح پر اقامت دین کے ساتھ ساتھ اپنے گھر اور اہلِ خانہ کے حوالے سے دین کی ہدایات کا نفوذ اُمت مسلمہ کے ہر فرد کا نصب العین ہے۔

  • اصلاحِ معاشرہ :اس ذمہ داری اور مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے قرآن و سنت نے اُمت مسلمہ کے نصب العین، یعنی اقامت دین کو معاشرے کی سطح پر واضح الفاظ میں ایک فریضہ  قرار دیا ہے۔ چنانچہ اصلاحِ معاشرہ، معروف کا قیام اور فحش، منکر اور برائی کو دُور کرنا، اسے بے اثر بنانا اور اس کی جگہ حق کے نظام کے قیام کا ایک اہم مرحلہ معاشرے میں معروف کا قیام ہے۔

حدیث شریف نے اس اصلاحِ معاشرہ کے فریضے کو واضح الفاظ میں یوں سمجھایا ہے کہ  ’’وہ شخص جو اللہ کے احکام کو توڑتا ہے اور وہ جو اللہ کے احکام کو توڑتے ہوئے دیکھتا ہے مگر اسے ٹوکتا نہیں، اس کے ساتھ رواداری برتتا ہے، ان دونوں کی مثال ایسی ہے جیسے کہ کچھ لوگوں نے ایک کشتی لی اور قرعہ ڈالا۔ اس کشتی میں اُوپر نیچے مختلف درجے ہیں۔ چند آدمی اُوپر کے حصہ میں بیٹھے اور چندنچلے حصے میں۔ جو لوگ نچلے حصہ میں بیٹھے تھے وہ پانی کے لیے اُوپر والوں کے پاس سے گزرتے تاکہ دریا سے پانی بھریں تو اُوپر والوں کو اس سے تکلیف ہوتی۔ آخرکار نچلے حصے کے لوگوں نے کلھاڑی لی اور کشتی کے پیندے کو پھاڑنے لگے۔ اُوپر والے حصے کے لوگ ان کے پاس آئے اور کہا: تم یہ کیا کرتے ہو؟ انھوں نے کہا: ہمیں پانی کی ضرورت ہے اور دریا سے پانی اُوپر جاکر ہی بھرا جاسکتا ہے اور تم ہمارے آنے جانے سے تکلیف محسوس کرتے ہو، تو اب کشتی کے تختوں کو توڑ کر دریا سے پانی حاصل کرلیتے ہیں۔ حضوؐر نے یہ مثال بیان کر کے فرمایا: اگر اُوپر والے نیچے والوں کا ہاتھ پکڑ لیتے اور سوراخ کرنے سے روک دیتے تو انھیں بھی ڈوبنے سے بچا لیتے اور اپنے آپ کو بھی بچا لیتے۔ اور اگر انھیں ان کی حرکت سے نہیں روکتے اور چشم پوشی کرتے ہیں تو انھیں بھی ڈبوئیں گے اور خود بھی ڈوبیں گے۔ (عن نعمان بن بشیر، بخاری)

اس خوب صورت مثال سے واضح ہے کہ اگر معاشرے میں برائی پھیلے گی ، وہ فحاشی ہو، بدامنی ہو، چوری ہو، بداخلاقی ہو، یا جھوٹ اور بے ایمانی ہو، تو معاشرے کا ہر فرداس سے متاثر ہوگا۔ اگر معاشرے میں بھلائی، معروف اور حق پھیلے گا تو معاشرے کے ہر فرد کو اس سے فائدہ پہنچے گا۔ اسی طرح اگر نفسانفسی کی بنا پر معاشرے کی اصلاح نہ کی گئی تو جو لوگ چشم پوشی کر رہے ہیں وہ بھی اپنے آپ کو عذاب کا مستحق بنا لیں گے۔

  • ریاستی سطح پر نفاذ:اُمت مسلمہ کے نصب العین کے حوالے سے چوتھی سطح ریاست میں اقامت دین اور حق کا قیام ہے۔ قرآن کریم نے سورئہ حج میں اس پہلو کو وضاحت سے بیان فرما دیا ہے: اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ ط وَ لِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ o (الحج ۲۲:۴۱)’’یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے‘‘۔

قرآن کریم بار بار اپنے ماننے والوں کو متوجہ کرتا ہے کہ وہ کدھر جارہے ہیں، این تذھبون۔ اصل حاکم و مالک کو بھول کر عارضی اور بذاتِ خود مجبور ’خدائوں‘ کی طرف کیوں مدد کے لیے دیکھتے ہیں، جب کہ اصل حامی و ناصر، قوت والا اور تمام انسانوں کی ضروریات پورا کرنے والا صرف اور صرف اللہ رب کریم ہے، جس کے ہاں تمام انسانوں کی حاجات پوری کرنے کے بعد بھی کمی واقع نہیں ہوتی۔ اللہ کی طرف رجوع اور زمین پر اس کی حاکمیت و اقتدار کو قائم کرنا، گویا اُمت مسلمہ کے نصب العین کا چوتھا تقاضا ہے اور اس کی تکمیل کے بغیر وہ اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتی۔

  • عالمی نظامِ عدل کا قیام: پانچویں سطح پر اُمت مسلمہ کا مقصد وجود نہ صرف ملک میں اصلاح کے نظام کو قائم کرنا ہے، بلکہ عالمی طور پر نظامِ عدل و انصاف کا قیام کرنا ہے۔        وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًاo (البقرہ ۲:۱۴۳) ’’اور اسی طرح ہم نے (اے مسلمانو) تمھیں ایک معتدل اُمت بنایا تاکہ تم (تمام) انسانوں پر گواہ بنو اور رسولؐ تم پر گواہ ہو‘‘۔ گویا جس طرح خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت مسلمہ کو دین کی دعوت پہنچاکر اور مدینہ منورہ میں مثالی اسلامی ریاست قائم کرکے عملاً دکھا دیا کہ دین کی اقامت کس طرح ہوتی ہے، اسی طرح اب اُمت مسلمہ کا فریضہ ہے کہ وہ عالمی سطح پر دعوتِ حق کو پیش کرے۔ نہ صرف ان مقامات پر جہاں اسے سیاسی اقتدار حاصل ہو، مثالی اسلامی ریاست قائم کرے بلکہ اسلام کے مثالی نظام عدل و حکومت کو دیگر اقوامِ عالم کے سامنے پیش کرے تاکہ جہاں کہیں بھی ظلم و استحصال ہے، وہاں عدل و انصاف کا قیام ہو اور اللہ کے بندوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر احکم الحاکمین کی بندگی میں لایا جاسکے۔ مختصراً اسلام ایک ایسے عالمی نظام کا داعی ہے جو اللہ کی بندگی اور انسانوں کے درمیان انصاف کے قیام پر مبنی ہو۔

اھلِ حق اور نصرتِ خداوندی

اسلام جس تبدیلیِ نظام کی دعوت دیتا ہے، وہی انبیاے کرام ؑکی دعوت کا نقطۂ آغاز رہا ہے۔ چنانچہ تمام انبیاے کرام نے ایک ہی بات کی دعوت دی: یعنی وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ (النحل ۱۶:۳۶) ’’ہم نے ہر اُمت میں ایک رسول بھیج دیا، اور اس کے ذریعے سے سب کو خبردار کردیا کہ اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو‘‘۔ اگر اُمت مسلمہ اپنے نصب العین کے حصول کے لیے یکسو ہوکر جدوجہد کرے گی تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اس کو کم تعداد میں ہونے کے باوجود باطل قوتوں کی کثرت پر بھی غلبہ دے گا۔ قَالَ الَّذیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰقُوا اللّٰہِ کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً م بِاِذْنِ اللّٰہِ ط وَاللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ o (البقرہ ۲:۲۴۹)’’لیکن جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ انھیں ایک دن اللہ سے ملنا ہے، انھوں نے کہا: بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے۔ اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے‘‘۔

اقامت دین کے لیے جدوجہد میں بالعموم کفر اور ظلم کی کثرت کو دیکھ کر یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ حق اتنے بڑے ہجوم پر کیسے غالب آئے گا؟ شیطان وساوس کے ذریعے اس احساس کو بعض اوقات نفسیاتی یقین تک پہنچا دیتا ہے۔ قرآن کریم اس کارد کرتے ہوئے ہمیں متوجہ کرتا ہے کہ  اہلِ ایمان کو اس مقابلۂ حق و باطل میں دل مضبوط کر کے اپنے رب پر اعتماد کر کے اپنی قوت کو بازی پر لگانے میں کوئی تردّد نہیں کرنا چاہیے۔ یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَی الْقِتَالِ ط اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ وَ اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّائَۃٌ یَّغْلِبُوْٓا اَلْفًا مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَھُوْنَ o (انفال ۸:۶۵) ’’اے نبیؐ! مومنوں کو جنگ پر اُبھارو۔ اگر تم میںسے ۲۰ آدمی صابر ہوں تو وہ ۲۰۰ پر غالب آئیں گے اور اگر ۱۰۰آدمی ایسے ہوں تو منکرینِ حق میں سے ہزار آدمیوں پر بھاری رہیں گے کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے‘‘۔

اس آیت میںتین اہم پیغام اقامت دین کی جدوجہد کرنے والوں کے لیے پوشیدہ ہیں:

پہلا یہ کہ کفر کی کثرت انھیں حق کے قیام اور دین کی سربلندی کی جدوجہد سے غافل نہ کردے۔ اس لیے فرمایاگیا کہ اے نبیؐ! انھیں مسلسل جدوجہد اور جہاد پر اُبھاریے۔

دوسری بات یہ سامنے آتی ہے کہ اُمت مسلمہ کا اپنے نصب العین کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا ایک بابرکت عمل ہے کہ اس میں اللہ کی مدد سے ۲۰ صابر و باشعور ۲۰۰ بے شعور افراد پر غالب آئیں گے۔ گویا اصل بنیاد تعداد (quantity)نہیں ہے بلکہ کیفیت (quailty) ہے۔ اسی لیے جو اصطلاح مجاہدین کے لیے یہاں استعمال کی گئی وہ صابروں کی ہے، یعنی وہ اسلامی کارکن جو مقصدِحیات کے شعور کے ساتھ مسلسل مشکلات میں اپنے کام میں لگے رہتے ہیں، جو مخالف قوتوں کی تعداد سے خائف نہیں ہوتے بلکہ اللہ پر بھروسا کرتے ہوئے مستقلاً استقامت کے ساتھ اپنے کام میں لگے رہتے ہیں۔ یہی وہ صابرین، مجاہدین اور متقین ہیں جن کی کامیابی کا وعدہ اللہ رب العالمین فرماتے ہیں۔

آخری بات یہاں یہ سمجھائی جارہی ہے کہ مخالف افراد وہ ہیں جو شعور نہیں رکھتے، جب کہ اقامت دین کی جدوجہد میں شامل افراد کو زندگی کے مقصد کا شعور ہے، اور وہ نصب العین سے آگاہ ہیں۔ وہ حدِ نگاہ تک نہ صرف اپنے مقصد و ہدف سے آگاہ ہیں بلکہ مستقل طور پر منزل پر نگاہ جمائے ہوئے ہیں۔ اس میں کوئی شبہہ اور تذبذب نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت پر پورے اعتماد کے ساتھ اپنے وسائل کی کمی کے باوجود انھیں اس دنیا اور آخرت میں کامیابی پر پورا یقین ہے۔

نصب العین کا یہ ادراک اور وژن کا نہ صرف واضح ہونا بلکہ اس پر عین الیقین ہی وہ بنیاد ہے جو عمل میں تبدیل ہوتی ہے تو مشکلات کے پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجاتے ہیں، اور ظلم و طغیان کی آندھیاں زمین بوس ہوجاتی ہیں، اور اللہ کی نصرت دائیں سے اور بائیں سے، اُوپر سے اور نیچے سے آکر اپنے صابر بندوں کو کامیابی سے ہم کنار کرتی ہے۔

اہلِ کتاب کے سیاق و سباق میں قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی نصرت و رحمت کے حوالے سے غور کرنے والوں کے لیے اہم مواد فراہم کرتا ہے:

وَلَوْ اَنَّ اَھْلَ الْکِتٰبِ اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَکَفَّرْنَا عَنْھُمْ سَیِّاٰتِھِمْ وَ لَاَدْخَلْنٰھُمْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ o وَلَوْ اَنَّھُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰۃَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ مِّنْ رَّبِّھِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْقِھِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِھِمْ طمِنْھُمْ اُمَّۃٌ مُّقْتَصِدَۃٌ ط وَ کَثِیْرٌ مِّنْھُمْ سَآئَ مَا یَعْمَلُوْنَo (المائدہ ۵: ۶۵-۶۶) اگر (اس سرکشی کے بجاے)یہ اہلِ کتاب ایمان لے آتے اور خداترسی کی رَوِش اختیار کرتے تو ہم ان کی بُرائیاں اِن سے دُور کردیتے اور اِن کو نعمت بھری جنتوں میں پہنچاتے۔ کاش انھوں نے تورات اور انجیل اور اُن دوسری کتابوں کو قائم کیا ہوتا جو اِن کے رب کی طرف سے اِن کے پاس بھیجی گئی تھیں۔ ایسا کرتے تو ان کے لیے اُوپر سے رزق برستا اور نیچے سے اُبلتا۔ اگرچہ ان میں کچھ لوگ راست رَو بھی ہیں، لیکن ان کی اکثریت سخت بدعمل ہے۔

گویا اعتصام بالقرآن والسنہ وہ نسخہ ہے جس کے نتیجے میں اُمت مسلمہ اپنے کھوئے ہوئے مقام کو حاصل کرسکتی ہے۔ اللہ کا جو وعدہ اہلِ کتاب سے ہے وہی اُمت کے ان افراد سے ہے جو نصب العین کا شعور رکھتے ہوں اور صبرواستقامت کے ساتھ اقامت دین کی جدوجہد میں مصروف ہوں۔

قرآن و سنت کے مثبت اور تعمیری نقطۂ نظر پر غور کیا جائے تو بعض اوقات شیطان انسان کو جن حیلوں، بہانوں سے اقامت دین کی جدوجہد کے حوالے سے مایوسی، نااُمیدی اور نصب العین کے بارے میں شکوک میں مبتلا کرنا چاہتا ہے، ان کی قلعی کھل جاتی ہے۔ کبھی وہ یہ کہتا ہے کہ کفروطاغوت اور فحاشی کی بڑھتی ہوئی تعداد کا مقابلہ اتنی مختصر جماعت کے ساتھ کب تک کرو گے؟ بہتر ہے وقت کے دھارے کے ساتھ بہنا سیکھو۔ جو جھوٹ، مکر اور فریب کی سیاست عام سیاسی بازی گر کرتے ہیں، تم بھی وہی کرو کہ کامیابی کا راستہ یہی ہے۔ کبھی وہ کہتا ہے کہ اس فتنے کے دور میں اضطراری طور پر ایسے بہت سے کام کیے جاسکتے ہیں جو عام حالات میں شریعت کے منافی ہیں۔ کبھی وہ اس طرف لے جانا چاہتا ہے کہ مکمل دین کی اقامت کی جگہ دین کی بعض وہ تعلیمات جن پر کسی کو اعتراض نہ ہو، انھیں اختیار کرلیا جائے۔ چنانچہ اُمت مسلمہ کے ادوارزوال میں عموماً روحانیت اور قلبی کیفیات پر زیادہ توجہ ہوجاتی ہے، اور طاغوتی نظام کو ایک مجبوری کے طور پر پہلے گوارا اور بعد میں بلااِکراہ قبول کرلیا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا دائرہ نماز کے فرائض و واجبات اور مکروہات کی تفصیل تک محدود ہوجاتا ہے اور معاشی، معاشرتی، ثقافتی معاملات میں شیطان اور اس کی ذُریت کو چھا جانے کا پورا موقع فراہم کردیا جاتا ہے۔

اقامتِ دین کا مفہوم مکمل دین کی اقامت ہے، یعنی چاہے کوئی معاملہ ذاتی زندگی سے متعلق ہو یا معاشرت سے یا معاش و سیاست سے، ہرہرشعبۂ حیات میں قرآن و سنت کی ہدایات و تعلیمات کو بغیر کسی معذرت کے نافذ کرنا ہی اقامت ِ دین ہے۔ اقامت دین کے جن پانچ مراحل کا ذکر اُوپر کیا گیا ہے، یہ الگ الگ کرنے کا کام نہیں ہے بلکہ ان سب کو متوازی طور پر کرنے کا نام اقامت دین ہے۔ نصب العین کا شعور، ترجیحات کا تعین، حکمت عملی کی تشکیل اور قریب المیعاد اور طویل المیعاد منصوبہ بندی وہ ذرائع ہیں جو اقامت دین کی جدوجہد کو کامیابی سے ہم کنار کر سکتے ہیں۔ تحریکِ اسلامی کے لیے اس پُرآشوب دور میں اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ اپنے نصب العین کے پیش نظر ایسی حکمت عملی وضع کرے جو بغیر کسی مفاہمت، معذرت یا مقصدِحیات سے انحراف کے، قوم کو اعتماد، یک جہتی اور صبرواستقامت کے ساتھ ترقی کی طرف لے جاسکے۔

یہ خبر ملاحظہ کیجیے: ’’اسلام آباد میں آج کل واشنگٹن کی اس تجویز پر غور ہو رہا ہے کہ افغانستان میں مقیم امریکا اور ناٹو افواج کا مالی بوجھ اُٹھانے میں مسلم ممالک بھی شرکت کریں‘‘۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ایک اہل کار نے ۱۹؍اپریل ۲۰۱۲ء کو یہ بات دی ایکسپریس ٹربیون کو بتائی۔امریکی منصوبے میں یہ تجویز پیش کی گئی ہے: پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک ہرسال ایک خاصی رقم افغان سیکورٹی فنڈ میں دیں تاکہ ۲۰۱۴ء تک اور ممکنہ طور پر اس کے بعد بھی افغانستان کی قومی سلامتی کی افواج (ANSF) پر صرف کی جاسکے۔

’’وزارتِ خارجہ کے اہل کار نے نام نہ بتانے کی شرط پر تجویز کے مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ امریکا اور ناٹو نے یہ خواہش ظاہر کی ہے کہ بین الاقوامی برادری افغانستان میں ’دہشت گردی‘ جڑ سے اکھاڑنے میں مالیات فراہم کرکے حصہ لے۔ اس اہل کار کے مطابق پاکستان افغانستان میں امن و استحکام کی کوشش میں حصہ لینے کے لیے رضامند ہے۔ لیکن وہ تنبیہہ کرتا ہے  کہ ملک کو اس تجویز پر غور کرنے میں خصوصی احتیاط (extra care) کرنا پڑے گی، کیوں کہ    ہم دہشت گردی کے خلاف امریکا کی عالمی لڑائی کی حمایت کرنے کی وجہ سے پہلے ہی تحریکِ طالبان پاکستان اور دوسرے جنگجوئوں کے غیض و غضب کا سامنا کر رہے ہیں۔

’’مئی ۲۰۱۲ء میں شکاگو میں جو سربراہ کانفرنس ہورہی ہے اس میں طے کیا جائے گا کہ   اے این ایس ایف کو اپنے فرائض ادا کرنے کے لیے کس قسم کی مدد دی جائے۔ افغان افواج کی حیثیت، ان کی تربیت کے انتظامات اور دیگر متعلقہ مسائل پر اس کانفرنس میں غور کیا جائے گا۔ افغانستان میں متعین ناٹو کی زمینی افواج کا بل ادا کرنے کے لیے یورپی ریاستوں کی نارضامندی آہستہ آہستہ بڑھ رہی ہے۔ یہ کام وہ تقریباً ایک عشرے سے کر رہے ہیں۔ ناٹو کے سیکرٹری جنرل نے اپنی ۲۰۱۱ء رپورٹ میں تسلیم کیا ہے کہ ممبر ممالک بجٹ میں اپنا مالی حصہ کم کررہے ہیں ۔ اپنی قسم کی اس پہلی رپورٹ میں انھوں نے کہا ہے کہ حالیہ معاشی بحران کی وجہ سے دفاعی اخراجات غیرمعمولی طور پر کم ہوئے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ۲۸ میں سے ۱۸ حلیف ممالک کے دفاعی سالانہ بجٹ ۲۰۱۱ء میں ۲۰۰۸ء سے بھی کم ہیں۔ مزید کمی کا اعلان کیا جاسکتا ہے، یا ان کے بارے میں  پیش گوئی کی جاسکتی ہے، جب کہ ناٹو سے باہر بہت سے ممالک کی دفاعی صلاحیت اور بجٹ میں اضافہ ہو رہا ہے۔

’’آسٹریلیا کے نیشنل ٹائمز نے لکھا ہے کہ’’امریکا نے بتایا ہے کہ افغان افواج اور پولیس کے لیے ۱ئ۴ ارب ڈالر سالانہ درکار ہوں گے، لیکن افغانستان میں کئی سال سے کافی کچھ خرچ کرنے کے بعد ناٹو ممالک اپنا ہاتھ کھینچنا چاہتے ہیں‘‘۔ (دی ایکسپریس ٹربیون، لاہور، ۲۰؍اپریل)

یہ خبر کسی تبصرے کی محتاج نہیں ہے۔ ہمارے حکمرانوں کے لیے مسئلہ امریکا کی چاکری نہیں، اس چاکری کو پاکستان کے غیور عوام کا قبول نہ کرنا ہے۔ اگر عوام کا غیظ و غضب قابو کیا جاسکے تو وہ ہر طرح حاضر ہیں۔ ہمارے نادان دوست سمجھاتے ہیں کہ ہم امریکا سے اپنے اخراجات وصول کرلیں گے، کنٹینروں پر ٹیکس سے کمائی کرلیں گے، سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ کی مد میں کچھ مانگ لیں گے، لیکن شاطر امریکا تو آیندہ کئی برس تک اپنا خرچ بھی ہمارے کندھوں پر ڈالنا چاہتاہے، اور   ہم اس کے لیے تیار ہیں!

امریکا ہمارا کیسا دوست اور حلیف ہے، اس کا اندازہ اس سے کیجیے کہ وزیر خارجہ امریکا  نے فرمایا ہے کہ اگر پاکستان نے ایران سے پائپ لائن تعمیر کرنے کی ’کوشش‘ کی تو ہم اس پر پابندیاں لگادیں گے جس سے اس کی ڈگمگاتی معیشت مزید بے حال ہوجائے گی۔

ہم ایران پر پابندیاں لگائیں اور پاکستان اس سے معاہدہ کرے، یہ مجال!

اب بولیں ہماری وزیر خارجہ حنا ربانی کھر صاحبہ!!

مستقبل کا مؤرخ جب آج کے پاکستان کی اور خصوصاً عدلیہ کی تاریخ لکھے گا ، تو موجودہ سپریم کورٹ کے ازخود، یعنی سوموٹو (suo moto) نوٹس کو خصوصی مقام دے گا۔ اس لیے کہ  سپریم کورٹ نے اپنے اس اختیار کو استعمال کرتے ہوئے معاشرے کے معلوم نہیں کن کن دائروں میں انصاف دینے اور اصلاح کرنے کی ’حتی المقدور‘ کوشش کی ہے۔ اسی سلسلے میں ان تین نومسلم خواتین فریال بی بی، حفصہ بی بی اور حلیمہ بی بی کا مسئلہ حل کرنا بھی ہے جس پر سندھ کی ہندو آبادی اور ہماری سیکولر غیرحکومتی تنظیموں (این جی اوز) کی طرف سے بڑی گرد اُڑائی جارہی تھی اور پاکستان کو دنیا بھر میں بدنام کیا جا رہا تھا۔ سپریم کورٹ نے ان تین خواتین کو تین ہفتے دارالامان میں رکھا تاکہ      وہ آزادانہ سوچ بچار کریں۔ پھر جب وہ سپریم کورٹ میں پیش ہوئیں تو انھیں موقع دیا کہ رجسٹرار  کے کمرے میں بغیر کسی دبائو کے اپنے موقف کا حلفیہ بیان دیں۔ انھوں نے بتایا کہ انھوں نے اسلام برضا و رغبت قبول کیا ہے۔

ان خواتین کے اسلام قبول کرنے کی وجہ ہندو معاشرے کے خصوصی حالات ہوں یا کچھ اور، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ آج کل پوری دنیا میں اسلام قبول کرنے کی ایک لہر ہے۔ جتنا جتنا اسلام کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے، اتنا ہی لوگوں میں اسلام کی حقیقت جاننے کا شوق پیدا ہوتا ہے، اور جب وہ اس فطری دین کے قریب آتے ہیں تو اپنے ماضی کے مذہب کو ترک کرکے شعوری فیصلے کے تحت اسے قبول کرتے ہیں۔ اس پر دشمنانِ اسلام جو بھی واویلا کریں، وہ اسلام کے روشن چہرے کو  گہنا نہیں سکتے۔ وہ حساب لگاتے ہیں کہ ۲۰۵۰ء تک یورپ یوریبیا (Euarabia) ہوجائے گا ۔ امریکا میں برطانیہ اور فرانس میں اتنے اتنے لوگ ہرسال اسلام قبول کر رہے ہیں، مسجدوں اور اسلامی مراکز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ماسکو میں بھی نئی مسجدیں تعمیر ہورہی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ خود بھارت کے بارے میں مسلسل خبریں آتی ہیں کہ وہاں ہندو بڑی تعداد میں مسلمان ہورہے ہیں لیکن ان چیزوں کی عام اشاعت نہیں کی جاتی کہ بھارت کی ’سیکولر‘ ہندو ریاست کا ردعمل اُبھر کر سامنے نہ آئے۔

پاکستان کے موجودہ حالات کچھ بھی ہوگئے ہوں، اس کے قیام کی جدوجہد، قیام کا مقصد، اس کا دستور، اس کی قراردادمقاصد، سب اسے ۲۰ویں صدی میں قائم ہونے والی اسلامی ریاست بتاتے ہیں جسے اس کے پہلے وزیراعظم کے بقول ’انسانیت کے لیے روشنی کا مینار‘ بننا تھا۔ ہمارے سفارت خانوں کو پاکستان کے مفادات کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ متعلقہ ملک میں دعوتِ اسلامی کے فروغ کی کوششیں بھی کرنا چاہییں اور انھیں اس کے لیے بجٹ ملنا چاہیے۔ خود پاکستان کے اندر ریاست کا یہ فریضہ ہونا چاہیے کہ وہ مسلمانوں کو بحیثیت مسلمان زندگی گزارنے کے لیے آسانیاں بہم پہنچانے کے ساتھ ساتھ غیرمسلموں کو اسلام کی طرف دعوت دے۔ کسی جبرو اِکراہ کے بغیر اگر  وہ اپنا مذہب تبدیل کرنا چاہیں تو اس کی سہولت بہم پہنچائے ،اور انھیں سابقہ مذہب کے علَم برداروں اور رشتہ داروں کے ظلم سے بچائے۔

حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ ایسا نہ ہو کہ غیرمسلم اقلیتیں اپنے بالغ افراد کو ظلم و جبر اور پابندیاں لگا کر اپنے مذہب سے وابستہ رکھیں اور انھیں ہدایت کے راستے پر جانے نہ دیں۔ سندھ میں تین بالغ ہندو لڑکیوں کے اسلام قبول کرنے پر ان کی برادری کے مزاحمت کرنے کی کوئی توجیہہ بیان کی جاسکتی ہے، خواہ وہ معقول ہو یا نہ ہو، لیکن ہمارے مسلمان بھائیوں کو کیا تکلیف ہوئی کہ انھوں نے آسمان سر پر اُٹھا لیا۔ پیپلزپارٹی کے ایم این اے ان کے وکیل بن کر آگئے۔ این جی اوز کو تو جیسے ’بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا‘ کے مصداق مزے آگئے اور بیرونی آقائوں کا نمک حلال کرنے کا موقع ملا۔ اپنے اسلام پر تو غالباً شرمندہ ہی ہوتے ہوں گے، لیکن ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ اپنے اثرورسوخ سے پاکستان میں ایسا قانون بنوا دیں کہ اقلیتی فرقے کا کوئی فرد اسلام قبول نہ کرسکے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے کو سیکولر کہتے ہیں، آزادیِ راے کے علَم بردار ہیں لیکن اُسی حد تک جو      وہ بتائیں۔ کوئی بالغ فرد اپنی آزادانہ راے سے اسلام قبول کرے تو یہ انھیں قبول نہیں۔ اس واقعے نے پاکستانی عوام کے سامنے ان کا حقیقی چہرہ کھول کر رکھ دیا ہے کہ یہ کہنے کو مسلمان اور پاکستانی ہیں،  لیکن پاکستان کی اسلامی بنیادوں کا انکار کرتے ہیں اور تاریخ مسخ کر کے قائداعظم علیہ الرحمہ پر  بہتان لگاتے ہیں کہ وہ سیکولر پاکستان کے علَم بردار تھے (العیاذ باللّٰہ)۔

۱۹۷۲ء کا سال تفہیم القرآن کی تاریخ میں ایک سنگِ میل کا درجہ رکھتا ہے۔ اس لیے کہ اس سے ٹھیک تقریباً ۳۰سال پہلے، فروری ۱۹۴۲ء (محرم ۱۳۷۱ھ) سے مولانا مودودیؒ نے تفہیم القرآن کی اشاعت کا آغاز کیا تھا۔

تفہیم القرآن تحریر کرنے کے لیے مولانا مودودیؒ جو سخت محنت کیا کرتے تھے، اس کا ذکر خواجہ اقبال ندوی صاحب نے ان الفاظ میں کیا ہے:’’کلام اللہ کے منشا و مفہوم کو سمجھنے کا    سب سے پہلا ذریعہ مولانا کے نزدیک خود کلام اللہ تھا۔ چنانچہ وہ اپنے کمرے میں آتے تو وضو کرکے آتے اور بیٹھنے کے ساتھ ہی متعلقہ حصے کی تلاوت شروع کردیتے اور بار بار اسی کو پڑھتے اور اس پر غوروفکر کرتے رہتے۔ مَیں نے مولانا کو چند رکوع کئی کئی گھنٹے تک بار بار تلاوت کرتے دیکھا ہے۔ یہ کام جب ہوجاتا تو یہی مضامین قرآن مجید میں جہاں جہاں آئے ہیں، ان سب کو مولانا اکٹھا کرلیتے اور ان پر غوروفکر کرتے۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی و عملی تشریح کے لیے حدیث، سیرت، رجال اور تاریخ کی کتابوں کا مطالعہ کرتے۔ پھر متقدمین سے لے کر معاصرین تک تمام تفاسیر کے مطالعے میں لگ جاتے۔ درمیان میں کہیں ضرورت ہوتی تو لُغت اور کلامِ عرب کی طرف مراجعت فرماتے۔ پھر صحفِ سماوی کے تمام نسخوں سے قرآن کے تقابلی مطالعے کے بعد آثارِ قدیمہ کی دریافتوں اور تاریخ کے پورے ذخیرے سے متعلقہ عہد کا مطالعہ فرماتے رہتے۔ غرض کوئی چیز چھوٹنے نہ پاتی، جو متعلقہ عہد کے حصہ پر کسی طور سے بھی روشنی ڈالتی ہو۔    یہ مولانا کے مطالعۂ قرآن کا پہلا دَور ہوتا۔ پھر وہ سکون کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت شروع کردیتے اور ایسے تمام سوالات لکھتے جاتے جو متعلقہ حصے کے مطالعے کے سلسلے میں ایک طالب علم کے ذہن میں پیدا ہوسکتے تھے۔ اب تمام سوالات کو سامنے رکھ کر تفسیر، سیرت، حدیث اور      اَئمہ مجتہدین کی کتابوں کا مطالعہ شروع کردیتے اور ہفتوں یہ سلسلہ چلتا رہتا یہاں تک کہ مطالعۂ تفسیر، حدیث و سیرت کے کئی دَور مکمل ہوجاتے۔ قرآن فہمی کے سلسلے میں ان کا سب سے مضبوط سہارا  اللہ کی توفیق اور اس کا فضل رہا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے نواز دے، اور اپنی کتاب کے  فہم کے مزید باب وا کردے۔ مطالعے کے بعد ترجمانی شروع ہوتی تو تمام ترجموں سے تقابل کرتے رہتے۔ کہیں اشتباہ ہوجاتا تو پھر مطالعہ شروع ہوجاتا۔ گویا عبارت میں حَک و جلا [تراش خراش] کا سلسلہ آخر تک جاری رہتا‘‘۔ (تذکرۂ سید مودودی، ج۲،ص ۳۰۴)

مولانا مودودی نے تفہیم القرآن کے اُس دیباچے میں جو انھوں نے نیوسنٹرجیل، ملتان میں ۱۱ستمبر ۱۹۴۹ء کو حوالۂ قرطاس کیا تھا، تحریرِ تفہیم کی غرض و غایت یہ بیان کی ہے:   ’’میں ایک مدت سے محسوس کر رہا تھا کہ ہمارے عام تعلیم یافتہ لوگوں میں روحِ قرآن تک پہنچنے اور اس کتابِ پاک کے حقیقی مدعا سے روشناس ہونے کی جو طلب پیدا ہوگئی ہے اور روزبروز بڑھ رہی ہے وہ مترجمین اور مفسرین کی قابلِ قدر مساعی کے باوجود ہنوز تشنہ ہے۔ اس کے ساتھ میں      یہ احساس بھی اپنے اندر پا رہا تھا کہ اس تشنگی کو بجھانے کے لیے کچھ نہ کچھ خدمت میں بھی کرسکتا ہوں۔ انھی دونوں احساسات نے مجھے اُس کوشش پر مجبور کیا جس کے ثمرات ہدیۂ ناظرین کیے جارہے ہیں‘‘۔(تفہیم القرآن، ج۱،ص ۵)

’عام تعلیم یافتہ لوگوں‘ تک اپنی تفسیر کو محدود کرنے کے بعد انھوں نے مزید وضاحت اس طرح کی: ’’اس کام میں میرے پیشِ نظر علما اور محققین کی ضروریات نہیں ہیں، نہ ان لوگوں کی ضروریات ہیں جو عربی زبان اور علومِ دینیہ کی تحصیل سے فارغ ہونے کے بعد قرآنِ مجید کا گہرا تحقیقی مطالعہ کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے حضرات کی پیاس بجھانے کے لیے بہت کچھ سامان پہلے سے موجود ہے‘‘۔ (ایضاً، ص ۵-۶)

دوبارہ وہ اپنے ’عام تعلیم یافتہ لوگوں‘ کے عموم کی تخصیص اس طرح کرتے ہیں: ’’میں جن لوگوں کی خدمت کرنا چاہتا ہوں وہ اوسط درجے کے تعلیم یافتہ لوگ ہیں جو عربی زبان سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں اور علومِ قرآن کے وسیع ذخیرے سے استفادہ کرنا جن کے لیے ممکن نہیں ہے، انھی کی ضروریات کو میں نے پیشِ نظر رکھا ہے۔ اسی وجہ سے اُن تفسیری مباحث کو میں نے سرے سے ہاتھ ہی نہیں لگایا ہے، جو علمِ تفسیر میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں مگر اس طبقے کے لیے غیرضروری ہیں‘‘۔ (ایضاً، ص۶)

ایسا دکھائی دیتا ہے کہ تفہیم کی تحریر کے آغاز پر کوئی ۲۷برس گزرنے کے بعد مولانا مودودیؒ کے ہاں ’عام تعلیم یافتہ لوگوں‘ اور ’اوسط درجے کے تعلیم یافتہ لوگوں‘ کی خدمت کے بجاے آیندہ نسل کے لیے کچھ کرنے کے جذبے نے جگہ لے لی۔ اس کی توضیح انھوں نے تکمیلِ ترتیب  تفہیم القرآن کے موقع پر یوں کی:’’حقیقت یہ ہے کہ پچھلے دو تین سال سے میں لوگوں سے اس بات کو کہتا تھا۔ لوگ چاہتے تھے کہ موجودہ زمانے کے سیاسی مسائل حل کرنے کے لیے میں  دوڑ دھوپ کروں اور میں ان سے یہ کہتا تھا کہ پچھلی نسل کی جو خدمت میرے بس میں تھی، وہ میں کرچکا، اب مجھے   آیندہ نسل کے لیے کچھ کرنے دیجیے۔ چنانچہ اسی خواہش کے تحت میں نے اپنی تمام توجہ اور محنت تفہیم القرآن کی تکمیل پر صرف کردی، یہ سمجھتے ہوئے کہ آیندہ نسلوں کو اسلام کے راستے پر     قائم رکھنے میں یہ ان شاء اللہ مددگار ثابت ہوگی اور جب تک یہ موجود رہے گی ان شاء اللہ     آیندہ نسلوں کے گمراہ ہونے کا خطرہ نہیں رہے گا۔ آیندہ نسلوں کی خاطر ہی میں یہ کام کررہا تھا     اور مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہے کہ نئی نسل کو یہ چیز پسند آئی اور اس کے اندر یہ مقبول ہورہی ہے‘‘۔ (ترجمان القرآن، اگست ۲۰۰۹ئ، ص ۳۷، بحوالہ ایشیا، جولائی ۱۹۷۲ء )

اپنے خطاب کے اس فقرے میں مولاناؒ نے اپنی تفسیر کے بارے میں بڑی خوش آیند باتیں کہی ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ تفسیر دراصل ’آیندہ نسلوں‘ کے لیے لکھی گئی تھی، اس اُمید پر کہ وہ ان نسلوں کو اسلام کے راستے پر قائم رکھنے میں مددگار ثابت ہوگی۔ اس سے بڑھ کر یہ بات کہ جب تک یہ موجود رہے گی ان شاء اللہ آیندہ نسلوں کے گمراہ ہونے کا خطرہ نہیں رہے گا۔ الحمدللہ!  ہوا بھی ایسا ہی۔ اس تفسیر کو پایۂ تکمیل کو پہنچے تقریباً ۳۷برس ہوچکے ہیں۔ وہ ابھی تک اُبھرتی ہوئی نسلوں کو اسلام کے راستے پر قائم رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔

  • پُرامیدی کا سبب: مولانا کو احساس تھا کہ لوگ ضرور اس بزعمِ خود پُرامیدی کا سبب دریافت کریں گے۔ انھوں نے اگلے فقرے میں اس کا جواب یہ کہہ کر دیا: ’’اس موقع پر میں   مختصر طور پر آپ کو یہ بتائوں کہ اس تفہیم القرآن میں اور اپنی دوسری کتابوں میں، مَیں نے جو طرزِ استدلال توحید اور رسالت اور وحی اور آخرت اور اسلام کے اخلاقی اصولوں کو برحق ثابت کرنے کے لیے اختیار کیا ہے، وہ درحقیقت میری اس ریسرچ اور تحقیقات کا نتیجہ ہے جو میں نے اپنی زندگی میں ہوش سنبھالنے کے بعد کی ہے… چنانچہ اس حالت میں، مَیں نے اپنے فیصلے کو معطل رکھا۔ یہ نہیں ہے کہ میں دہریہ ہوگیا تھا یا ملحد ہوگیا تھا۔ دراصل میں تحقیقات کے بعد ایک مستقل فیصلہ کرنا چاہتا تھا… اس طرح میں محض دین آبائی ہونے کی وجہ سے اسلام کا معتقد نہیں ہوں، بلکہ مذاہب عالم کا اچھی طرح مطالعہ کرنے کے بعد میں نے یہ راے قائم کی ہے، اور آپ دیکھ سکتے ہیں کہ میں تفہیم القرآن میں جہاں جہاں بھی قرآن مجید کی آیات کی تفسیر کرتا ہوں وہاں معقول طریقے سے دلائل کے ساتھ اس راے کا بھی اظہار کرتا ہوں۔ یہ وہ استدلال ہے جس سے مَیں نے درحقیقت اسلام حاصل کیا ہے۔ جس سے میں توحید کا قائل ہوا، جس سے میں رسالت کا قائل ہوا، جس سے میں وحی کا قائل ہوا، جس سے میں اس کے مکمل نظامِ زندگی ہونے کا قائل ہوا، جس سے میں اس بات کا قائل ہوا کہ اسلام ہرزمانے کے لیے بہترین رہنمائی ہے۔ اس وجہ سے میں نے    یہ ضروری سمجھا کہ میں قرآن مجید کے ذریعے سے لوگوں کو سمجھائوں کہ اسلام حقیقت میں ہے کیا‘‘۔ (ایضاً، ص ۳۷-۳۹)

یہی وہ قرآن سے ماخوذ توحید، رسالت، آخرت اور وحی وغیرہ پر قوی اور مؤثر استدلال ہے جو مخالف کو سکوت اختیار کرنے پر مجبور کرتا ہے اگرچہ وہ اسے موافق بنانے میں ناکام ہی کیوں نہ رہا ہو۔ یہی وہ طرزِ استدلال ہے جس کی وجہ سے مولانا مودودیؒ کو ’متکلم اسلام‘ کا خطاب دیا گیا تھا اور جس پر تقریباً سارے ہی مذاہب فکر کا اتفاق تھا اور آج تک ہے۔ ’متکلم‘ اسلام ایک عام اور جامع خطاب ہے جو زمان و مکان سے بالاتر ہے۔ لگے ہاتھوں اس خطاب میں، مولانا ؒ نے تفہیم کا سیرتِ نبویہ شریفہ اور احادیث نبویہ شریفہ سے تعلق بھی واضح کردیا تاکہ جو غلط فہمیاں ارادتاً پھیلائی جاتی ہیں ان کا سدباب کیا جائے: ’’تاہم آپ دیکھیں گے کہ میں نے قرآن مجید کا سیرت سے تعلق جگہ جگہ دکھایا ہے۔ پوری ریسرچ کرکے، پوری تحقیقات کر کے میں نے یہ معلوم کیا ہے کہ قرآن کی کون سی آیت اور کون سی سورت کس زمانے میں نازل ہوئی اور اس زمانے کے حالات کیا تھے۔ اس طرح سیرت کے ساتھ قرآن مجید کا تعلق میں برابر تفہیم القرآن میں ہر جگہ ابتدا سے لے کر آخر تک دکھاتا رہا ہوں‘‘۔ (ایضاً، ص ۳۹)

مولانا مودودیؒ نے اگرچہ اپنی تفسیر کو ذخیرۂ تفاسیر میں پہلی حرکی تفسیر قرار نہیں دیا ہے لیکن میرے نزدیک ابتدا سے لے کر آخر تک قرآن مجید اور سیرتِ نبویہ شریفہ کے درمیان قائم کردہ   ربط و ضبط نے تفہیم کو ذخیرۂ تفاسیر میں پہلی حرکی تفسیر کی صفت عطا کی ہے۔ یہی وہ وصف و صفت اور خاصیت ہے جو اس کو دوام بخشے گی ان شاء اللہ، کیونکہ ساری دنیا میں چلنے والی اسلامی تحریکوں کو وہ راستہ دکھاتی رہے گی جس پر چل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐکے جاں نثار ساتھیوں نے قرآنِ مجید کو ایک زندہ اور چلتی پھرتی حقیقت بنایا تھا۔

اسی حرکی تفہیم کا عربی پرتو، اور ذخیرۂ تفاسیر میں دوسری حرکی تفسیر سیدقطب شہیدؒ کے سرخ لہو کی سیاہی سے لکھی ہوئی نہایت ہی بلیغ و فصیح اور آبشار کی طرح دندناتی ہوئی تفسیر فی ظلال القرآن ہے۔ اس میں مولاناؒ کی نادرِ روزگار کتاب: قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں (الٰہ، رب، عبادت اور دین) کو جوں کا توں قبول کر کے اور مولاناؒ کی دوسری اہم کتابوں اسلام و جاہلیت، دین حق، جہاد فی سبیل اللّٰہ، تفسیر سورۃ النور اور سود، سے بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوئے سید قطب شہیدؒ نے فکرِ مودودی کو آسمانِ خلود کا چمکتا دمکتا ستارہ بنا دیا ہے۔  فی ظلال   جب تک پڑھی جائے گی اس وقت تک فکرِ مودودی زندہ اور متحرک رہے گی اور اسلامی تحریکوں کی ظلال اور تفہیم کے ذریعے رہنمائی کرتی رہے گی۔ رحمہما اللہ تعالیٰ الابرار۔

رہا اس خطبے میں مولانا کا احادیث سے تفہیم میں استفادے کا ذکر، تو یہ ایک ایسے شخص سے بالکل ہی متوقع امر ہے جو بے دھڑک ختمِ نبوت کے دفاع میں پھانسی کے تختے پر لٹک جانے کے لیے بالکل تیار تھا کیونکہ احادیث ہی اس دین کی عملی تطبیق کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ اس لیے قرآن و حدیث کے چولی دامن جیسے تعلق کا انکار صرف کوئی احمق اور بدبخت ہی کرسکتا ہے۔

اپنے خطاب کے آخر میں مولاناؒ نے نہ صرف نوجوانوں بلکہ ہرمسلمان سے ایک نہایت پتے کی بات یہ کہی ہے کہ شعوری طور پر پڑھ لکھ کر اور سوچ سمجھ کر ایمان لانے کا ثمرہ کیا ہوتا ہے: ’’اگر کوئی شخص شعوری طور پر ایمان نہ لائے اور محض تقلیدی ایمان کے ذریعے سے نماز روزے بھی کرتا رہے تو آپ اس کی زندگی میں وہ تمام منافقتیں اور وہ تمام تضادات دیکھیں گے جو اس وقت کے عام مسلمانوں کے اندر، مسلمانوں کے لیڈروں کے اندر اور مسلمانوں کی بڑی بڑی جماعتوں کے اندر پائے جاتے ہیں… یہ صورتِ حال شعوری طور پر ایمان لانے سے باقی نہیں رہتی۔ پھر آدمی جو کچھ کرتا ہے سوچ سمجھ کر سچے دل سے کرتا ہے۔ وہ یکسو اور حنیف بن کر رہتا ہے، جیساکہ قرآن مجید میں حضرت ابراہیم ؑکی سب سے بڑی تعریف یہ کی گئی ہے، کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا، ایسا مسلمان جو یکسو تھا، ہر طرف سے مڑ کر ایک طرف کا ہوگیا تھا اور وہ شخص مسلم حنیف تھا‘‘۔ (ایضاً، ص۴۰)

  • اھم تقاضا: قانونِ فطرت کے تحت وہ تفہیم القرآن جس کی شمع راہ بننے کی تمنّا مولانا مودودیؒ نے کی تھی، پرانی ہوتی جائے گی، اگر اس کی بروقت اور مناسب تعمیر و ترمیم اور   دیکھ بھال نہ ہو۔ مراد یہ ہے کہ اگر اس کی اس زبان میں بروقت مناسب تبدیلی نہ کی جائے جو ٹھیٹ دلّی کی ٹکسالی زبان تھی اور جو اب، امتدادِ زمانے کے ساتھ ساتھ، اُردو ثقافت میں کمی کی وجہ سے ناقابلِ فہم ہوتی جائے گی، اس کے محاورے اور تشبیہیں نئی نسل کے لیے غیرمانوس ہوں گی، اور سائنسی ترقی اور علمی ترقیوں کے دبائو کے تحت طرزِاستدلال، مقدمات اور نتائج میں تبدیلیاں ہوتی رہیں گی۔ بعض اوقات بعض فقروں کو صرف کلمات، محاوروںاور تشبیہوں ہی کو نہیں___ ازسرِنو لکھنا اور تفہیم ہی کے سیاق اور اسلوب میں لکھنا پڑے گا۔ یہ ایک فرد کا کام نہیں ہے۔ اس  کے لیے ایک مستقل دائمی کمیٹی کی ضرورت ہے جو اگر ہر اڈیشن کی اشاعت کے وقت نہ سہی، مگر ہردوسری تیسری طباعت کے بعد مناسب تبدیلیاں کر کے احدث اڈیشن (updated version) شائع کرے۔ اس کمیٹی کا کام ہوگا کہ تفہیم کے جتنی زبانوں میں ترجمے ہوئے ہیں ان میں ان تبدیلیوں پر بھی نگاہ رکھے جو وقتاً فوقتاً کی گئی ہوں تاکہ سب زبانوں میں تمام اڈیشن updated ہوں۔ اس طرح تفہیم بدلتے ہوئے حالات اور اسالیب ِ بیان کا ساتھ دینے والی تفسیر بن جائے گی۔ اگر یہ عمل مولانا مودودیؒ کی دوسری کتابوں تک بھی وسیع کردیا جائے تو ان کو بھی ایک حد تک دوام حاصل ہوسکتا ہے اور ان کے استدلال سے آنے والی نسلیں پورا پورا فائدہ اُٹھا سکتی ہیں۔

 

مقالہ نگار صنعائ، یمن میں مقیم ہیں

ترجمہ : سید احمد عروج قادریؒ

اے فرزند! دنیا آزمایش و ابتلا کی جگہ ہے۔ اس کے ظاہر کو طرح طرح کی ملمع کاریوں سے مزین کیا گیا ہے۔ خیالی و وہمی خال و خط اور زلف و خد سے آراستہ ہے۔ دیکھنے میں شیریں اور تروتازہ لیکن حقیقت میں یہ دنیا ایک مُردار ہے۔ عطر لگایا ہوا، گندگیوں کا ایک ڈھیر ہے۔ مکھیوں اور کیڑوں سے بھرا ہوا ایک سراب ہے۔ آب نما اور ایک مٹھاس ہے زہریلی۔ اس کا باطن، ظاہر کے برعکس خراب و ابتر ہے، اور مزا یہ ہے کہ ان گندگیوں کے باوجود اس کا معاملہ اپنے چاہنے والوں کے ساتھ نہایت بُرا ہے۔ اس کا فریفتہ، دیوانہ و مسحور ہے اور اس کا گرفتار، فریب خوردہ و مجنون۔ جو بھی اس کے ظاہر پر ریجھا نقصانِ ابدی اس کے پلّے پڑا، اور جو بھی اس کی حلاوت و طراوت پر مائل ہوا ندامت سرمدی [دائمی ندامت]اس کے حصے میں آئی۔ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: دنیا اور آخرت سوکنیں ہیں۔ اگر ایک راضی ہوئی تو دوسری ناخوش۔ لہٰذا جس نے دنیا کو راضی کیا آخرت اس سے ناراض ہوئی۔ آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔ اللہ ہمیں اور تمھیں دُنیا اور دُنیاداروں سے پناہ میں رکھے۔ آمین!

اے فرزند! اللہ تعالیٰ نے کمالِ مہربانی سے تجھے ابتداے جوانی میں توبہ کی توفیق عنایت کی تھی۔ مجھے معلوم نہیں کہ نفس و شیطان کے قبضے سے چھٹکارا پاکر تجھے توبہ پر ثبات و قرار میسر ہوا   یا نہیں۔ بظاہر تو استقامت مشکل نظر آتی ہے کیونکہ موسم عنفوان جوانی کا ہے، دنیا کے اسباب میسر ہیں، اور نامناسب دوستوں، ہم نشینوں کی کثرت ہے۔ کام یہ ہے کہ فضول مباحات سے بچا جائے اور بقدر ضرورت پر اکتفا کی جائے، اور مباحات کا بقدرِ ضرورت استعمال بھی جمعیت خاطر کی نیت سے ہونا چاہیے تاکہ وظائف بندگی ادا کرنے میں تشویش پیدا نہ ہو۔ مثلاً کھانے کی غرض یہ ہے کہ اداے طاعات پر قوت و قدرت نصیب ہو، اور لباس کا مقصد یہ ہے کہ ا س سے جسم ڈھانپنے اور سردی گرمی دفع کرنے کا کام لیا جائے۔ اسی قیاس پر تمام ضروری مباحات کو سمجھنا چاہیے۔ اکابر نقشبندیہ قدس سرہم نے عزیمت کا عمل اختیار کیا ہے اور حتی الامکان رخصت سے اجتناب کرتے رہے ہیں۔ عزیمتوں میں ایک عزیمت یہ بھی ہے کہ بقدرِ ضرورت پر اکتفا کیا جائے اور اگر یہ دولت میسر نہ ہو تو مباحات کے دائرے سے نکل کر مشتبہ اور حرام چیزوں کی طرف ہرگز نہ جانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے کمالِ کرم سے مباحات اور نعمتوں کا دائرہ خود ہی بہت وسیع کردیا ہے۔ ان نعمتوں سے قطع نظر  کون سا عیش اس بات کے برابر ہے کہ بندے کا مولیٰ اس کے کردار سے راضی ہو، اور کون سی جفا اس بات کے برابر ہوگی کہ اس کا آقا اس کے اعمال سے ناراض ہو۔ جنت میں اللہ کی رضا جنت سے بہتر ہے، اور دوزخ میں اللہ کی ناراضی دوزخ سے بدتر ہے۔ اللہ نے انسان کو اپنا بیٹا نہیں بنایا اور نہ اس کو پوری چھوٹ دے دی ہے کہ جو چاہے کرے۔ سوچنا چاہیے اور اپنی عقلِ دُور اندیش کو کام میں لانا چاہیے۔ کل قیامت میں ندامت و نقصان کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ کام کا وقت  موسمِ جوانی ہے۔ جواں مرد وہ ہے جو اس وقت کو ہاتھ سے نہ جانے دے اور فرصت کو غنیمت سمجھے۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ بڑھاپے تک اسے زندگی ہی نہ ملے اور اگر بالفرض بڑھاپے تک پہنچ گیا تو اطمینان میسر نہ ہو، اور اگر یہ بھی ہو تو ضعف اور سُستی کی وجہ سے کام نہ کرسکے۔

اس وقت اسباب اطمینان میسر ہیں۔ والدین کا وجود بھی اللہ کے انعامات میں سے ہے کہ اس نوجوان کی معیشت کی فکر بھی انھی کے سر ہے۔ موسمِ فرصت ہے اور زمانۂ قوت و استطاعت، پھر کس عذر کی بنا پر آج کو کل پر ٹالا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اداے طاعات میں تاخیر کرنے والے اور ’’عنقریب کروں گا، عنقریب کروں گا‘‘ کہنے والے ہلاک ہوئے۔ ہاں، اگر مہمات و معاملات دنیا کو کل پر چھوڑ دیں اور آج کو اعمالِ آخرت میں مشغول رکھیں تو کیا کہنا۔

عنفوان جوانی کے اس زمانے میں کہ دشمنانِ دین___ نفس و شیطان ___ کا غلبہ ہے، تھوڑے عمل کا بھی اتنا اعتبار ہے کہ ان کا غلبہ نہ ہونے کی صورت میں اس سے ۱۰ گنا عمل کا بھی نہیں۔ فوجی قواعد میں بھی دشمنوں کے حملے و غلبے کے وقت کارگزار سپاہیوں کی بڑی قدر ہے اور اس وقت ان کی تھوڑی دوڑ دھوپ اور کارگزاری بھی لائق اعتبار و نمایاں ہوتی ہے۔

اے فرزند! انسان جو موجودات کا خلاصہ ہے، اس کی تخلیق کا مقصد نہ لہوولعب ہے اور نہ کھانا اور سونا، بلکہ اس کی تخلیق کا مقصد اللہ کی بندگی، تواضع و انکسار، عجز و فقر اور بارگاہِ قدس میں ہمیشہ التجا و تضرع ہے۔ اللہ کی بندگی و عبادت سے مراد وہ عبادتیں ہیں جن کی تعلیم شریعتِ محمدیؐ نے دی ہے۔ ان عبادتوں کی منفعتیں اور مصلحتیں خود بندوں کو حاصل ہوتی ہیں۔ ان سے خدا کو کوئی  فائدہ نہیں پہنچتا۔ اس لیے اوامر کی تعمیل اور نواہی سے پرہیز دل و جان کے جذبۂ احسان مندی اور کامل اطاعت و انقیاد کے ساتھ ہونا چاہیے اور اپنی پوری سعی صرف کردینی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکمل استغنا کے باوجود صرف ہمارے فائدے کے لیے ہمیں اوامر و نواہی سے سرفراز فرمایا۔  ہم محتاجوں کو تو اس نعمت کا شکریہ پورے طورپر ادا کرنا چاہیے۔

اے فرزند! تم جانتے ہو، اگر دنیا کا کوئی زیردست اپنے کسی زیردست کو کسی خدمت پر سرفراز کرتا ہے تو اس حقیقت کے باوجود کہ اس خدمت کا نفع اس حاکم کو بھی ملنے والا ہے، وہ زیردست اس کے حکم کو کس قدر عزیز رکھتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ ایک عظیم القدر شخص نے یہ خدمت اس کے سپرد کی ہے، اس لیے کامل احسان مندی کے ساتھ اس کو بجا لانا چاہیے۔ کیا مصیبت ہے کہ انسان کو رب ذوالجلال کی عظمت اس شخص کی عظمت سے بھی کم نظر آتی ہے کہ اس کے احکام کی بجاآوری میں کوشش نہیں کرتا۔ شرم کرنی چاہیے اور اپنے کو خوابِ خرگوش سے بیدار کرنا چاہیے۔ احکامِ الٰہی کی نافرمانی دو چیز سے خالی نہیں، یا شریعت کی خبروں کو جھوٹ سمجھتا ہے اور باور نہیں کرتا، یا دنیا والوں کی عظمت کے مقابلے میں اللہ کی عظمت حقیر نظر آتی ہے۔ اس بات کی شناعت اور خرابی پر اچھی طرح غور کرنا چاہیے۔

اے فرزند! ایک ایسا شخص جس کی کذب بیانی کا بارہا تجربہ ہوچکا ہے، کہتا ہے کہ دشمنوں کی مسلح فوج فلاں قوم پر شب خون مارنے والی ہے۔ یہ سنتے ہی اس قوم کے عقل مند اپنی محافظت میں لگ جاتے ہیں اور اس بلا کو دفع کرنے کی فکر کرتے ہیں، حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ خبردینے والا جھوٹ بولنے کا عادی ہے، مگر ان کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ جہاں خطرے کا وہم بھی ہو وہاں عقل مندوں پر احتراز لازم ہے۔ لیکن مخبرصادق علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پوری تاکید کے ساتھ عذاب اُخروی سے خبردار کیا ہے، اس کے باوجود وہ کچھ بھی متاثر نہیں ہوتے اور ہوتے بھی ہیں تو اس کو دفع کرنے کی فکر نہیںکرتے، حالانکہ اس کو دفع کرنے کی تدبیر بھی مخبرصادق سے معلوم ہوچکی ہے۔ پس یہ کیسا ایمان ہے کہ سچے کی خبر، جھوٹے کی خبر کے برابر بھی اعتبار نہیں رکھتی!

یقین حاصل کرنا چاہیے، کی صرف صورت اسلام نجات بخش نہیں۔ یقین کہاں ہے، ظن بھی نہیں بلکہ وہم بھی نہیں ہے کیونکہ عقل مند خطرے کے موقع پر وہم کا بھی اعتبار کرتے ہیں۔ اسی طرح اللہ نے کلامِ مجید میں فرمایا ہے: وَ اللّٰہُ بَصِیْرٌم بِمَا یَعْمَلُوْنَ (البقرہ ۲:۹۶)’’اللہ تمھارے اعمال کو دیکھ رہا ہے‘‘۔ اس کے باوجود لوگ بُرے اعمال میں مشغول ہیں۔ اگر ان کو معلوم ہو کہ کوئی حقیر شخص بھی ان کے اعمال کو دیکھ رہا ہے تو یہ ہرگز عمل شنیع اس کی نظر کے سامنے نہیں کرتے۔ اس کا سبب دوامر سے خالی نہیں۔ اللہ کی خبر کو باور نہیں کرتے، یا اللہ کی اطلاع کا اعتبار نہیں کرتے۔ اس قسم کا کردار، ایمان کی علامت ہے یا کفر کی نشانی؟  ۱؎

اے فرزند! تم پر لازم ہے کہ ازسرِنو تجدید ایمان کرو۔ نبی علیہ السلام نے فرمایا ہے:  ’’کلمہ لا الٰہ الااللہ کے ذریعے اپنے ایمان کی تجدید کرتے رہو‘‘۔ نامرضیات حق سے توبۂ نصوح کا ازسرِنو اعادہ کرو۔ جن امور کو حرام قرار دیا گیا ہے اور ان سے نہی فرمائی گئی ہے، ان سے محترز و مجتنب رہو۔ پنج وقتہ نماز باجماعت ادا کرو، اگر قیامِ لیل___ تہجد___ میسر ہو تو زہے سعادت! مال کی زکوٰۃ دینا بھی ارکانِ اسلام میں سے ہے، اسے ضرور ادا کرو۔ زکوٰۃ ادا کرنے کا سب سے زیادہ آسان طریقہ یہ ہے کہ اپنے مال میں سے جو کچھ فقرا کا حق ہے ہر سال زکوٰۃ کی نیت سے الگ محفوظ کر دے اور پورے سال اس کو مصارفِ زکوٰۃ میں صرف کرتا رہے۔ اس طرح ہر مرتبہ  اداے زکوٰۃ کی نیت ضروری و لازم نہ رہے گی، یعنی ایک ہی دفعہ زکوٰۃ کی نیت کرکے اس کو علیحدہ کرنا کافی ہوگا۔ (تمام فرائض کی طرح زکوٰۃ کی ادایگی کا بھی اصل طریقہ یہی ہے کہ اس کو اجتماعی طور پر ادا کیا جائے، لیکن جہاں کہیں اجتماعی نظم موجود نہ ہو، وہاں انفرادی طور پر ادا کرنے سے بھی زکوٰۃ ادا ہوجاتی ہے۔ مترجم)

اسی طرح تمام عبادتوں میں خیال رکھو، کسی عبادت کی ادایگی میں اپنے نفس کو ڈھیل نہ دو۔ بندوں کے حقوق ادا کرنے میں بھی سعیِ بلیغ کرو تاکہ کسی کا حق تمھارے ذمے باقی نہ رہ جائے۔ یہاں دنیا میں ان کا ادا کرنا آسان ہے، کل قیامت میں یہ آسانی باقی نہ رہے گی۔ وہاں کی جواب دہی مشکل اور ناقابلِ علاج ہے۔ احکامِ شرعیہ علماے آخرت سے پوچھنے چاہییں۔ ان کی باتوں میں تاثیر ہی دوسری ہے۔ ممکن ہے کہ ان کے کلام کی برکت توفیقِ عمل دے دے۔ علماے دنیا سے___ جنھوں نے علم کو مال اور جاہ و مرتبے کے حصول کا ذریعہ و وسیلہ بنا لیا ہے___ دُور رہنا چاہیے۔ ہاں، جہاں متقی علما موجود نہ ہوں وہاں بقدرِ ضرورت ان سے مسئلہ دریافت کرسکتے ہو۔

اے فرزند! یہ مسئلے اور نصیحتیں تمھیں پہلے سے معلوم ہوں گی لیکن مقصود عمل ہے نہ کہ صرف علم۔ جو بیمار اپنے مرض کی دوا جانتا ہے وہ جب تک اسے استعمال نہ کرے، صحت یاب نہیں ہوسکتا۔ یہ مبالغہ و تاکید بھی عمل ہی کے لیے ہے ورنہ علمِ بے عمل کے بارے میں تو یہ حدیث آئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت میں سخت ترین عذاب اس عالم پر ہوگا جس نے علم کے مطابق عمل نہیں کیا۔ (مکتوبات امام ربانی، جلد۱، نمبر۷۳، زندگی، جولائی ۱۹۵۵ئ)

اسلام کی مختلف خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ دین مصلحتوں اور حکمتوں پر مبنی ہے۔ اس کے لیے ’دین میں مصالح‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو احکام دیے ہیں ان میں انسانوں کے لیے بے پناہ فوائد پوشیدہ ہیں۔ اگر ان احکام پر عمل نہ کیا جائے اور دین کو ترک کردیا جائے تو ان فوائد سے محرومی کے ساتھ طرح طرح کے نقصانات لاحق ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَمَا جَعَلَ عَلَیْْکُمْ فِیْ الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ (الحج ۲۲:۷۸) ’’اور اللہ نے تمھارے لیے دین میں کوئی حرج نہیں بنایا ہے‘‘۔

اسلام میں مصالح اور علما کی آرا

قرآن و حدیث میں ایسی بے شمار نصوص ہیں جن میں احکام میں مصالح اور حکمتوں کی وضاحت کی گئی ہے اور علما نے اس پر مستقل کتابیں تصنیف کی ہیں، جن میں اسرار شریعت اور احکام کی علتوں کو بیان کیا گیا ہے۔ ۱؎  علماے اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ حکیم ہے اور اس کے احکام میں حکمت و مصلحت پائی جاتی ہے ۔ امام ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں:  تمام اَئمہ و فقہا احکام شرع میں حکمت و مصالح کے اثبات کے مسئلے پر متفق ہیں۔ اس سلسلے میں قیاس کو نہ ماننے والوں اور کچھ دوسرے لوگوں نے اختلاف کیا ہے۔ ۲؎

جو لوگ احکام میں مصالح اور حکمتوں کا انکار کرتے ہیں ان کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے امام موصوف لکھتے ہیں:’’اہل سنت اللہ تعالیٰ کے احکام میں تعلیل (علت) کے قائل ہیں۔  وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی چیز کو پسند کرتا ہے اور وہ راضی ہوتا ہے، جیسا کہ قرآن و سنت سے ثابت ہے۔ ان کے نزدیک پسند کرنا اور راضی ہونا مطلق طور پر کسی چیز کا ارادہ کرنے کے مقابلے میں زیادہ خاص ہے (یعنی کسی حکم کی بجاآوری رضاے الٰہی کے لیے ہونا اس کی علت قرار دی جاسکتی ہے)۔ بے شک اللہ تعالیٰ کفر ، فسق اور عصیان کو پسند نہیں کرتا، اگرچہ اللہ کی مشیّت و ارادے کے بغیر   کوئی شخص ان افعال کو انجام نہیں دے سکتا‘‘۔(منھاج السنۃ النبویۃ، ابن تیمیہ،ج۱، ص۱۴۱)

ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ احکام میں علّت تسلیم کرنے کی صورت میں تسلسل اور دور لازم آئے گا اور اللہ تعالیٰ حکمت کا تابع قرار پائے گا ، جس سے وہ برتر و بالا ہے۔ اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے امام موصوف لکھتے ہیں:’’یہ تسلسل مستقبل میں واقع ہونے والے واقعات کے بارے میں لازم آتاہے نہ کہ گذشتہ واقعات کے بارے میں ۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے کسی کام کو کسی حکمت کے لیے انجام دیا تو حکمت اس فعل کے بعد حاصل ہوگئی۔ اب اگر اس حکمت سے دوسری حکمت چاہی جائے تو یہ تسلسل مستقبل میں پیش آئے گا۔ اور وہ حاصل شدہ حکمت اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ اور ایک دوسری حکمت کا سبب ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ایسی حکمتیں پیدا کرتا رہتا ہے جن کو وہ پسند کرتا ہے اور ان کو دوسری حکمتوں کا سبب بھی بناتا رہتا ہے۔ جمہور مسلمان اور دوسرے فرقوں کے لوگ مستقبل میں تسلسل کے قائل ہیں، ان کے نزدیک جنت اور جہنم میں ثواب و عذاب ایک کے بعد ایک تسلسل کے ساتھ حاصل رہے گا‘‘۔(ایضاً)

امام موصوف دین میں مصالح اور حکمتوں کی موجودگی کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’جب فرد کو معلوم ہوگیا کہ فی الجملہ اللہ تعالیٰ کے دین (اوامر و نواہی) میں عظیم حکمتیں ہیں تو اتنی ہی بات اس کے لیے کافی ہے، پھر جوں جوں اس کے ایمان و علم میں اضافہ ہوگا اس پر حکمت اور رحمت الٰہی کے اسرار کھلتے جائیں گے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا ہے:  سَنُرِیْھِمْ آیٰـتِنَا فِیْ اْلآفَاقِ وَفِیْ أَنفُسِھِمْ حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَھُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ (حٰم السجدہ۴۱:۵۳) ’’عن قریب ہم ان کو ا پنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی، یہاں تک کہ ان پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ یہ قرآن برحق ہے‘‘۔ یا جیساکہ ایک حدیث میں اس مفہوم کو مزید واضح کیاگیاہے: ’’اللہ بندوں کے حق میں اس سے زیادہ رحیم ہے، جتنا ماں اپنے بچے کے لیے رحم دل ہوتی ہے‘‘۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ، ج۸، ص۹۷)

شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے اپنی کتاب حجۃ اللّٰہ البالغۃ میں ان لوگوں کی پُرزور تردید کی ہے جنھوں نے احکام میں مصلحتوں کا انکار کیا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ احکام شرعیہ قطعاً حکمتوں اور مصلحتوں پر مشتمل نہیں ہیں … یہ خیال سراسر فاسد ہے اور سنت اور اجماعِ امت سے اس کی تردید ہوتی ہے‘‘۔ (حجۃ اللّٰہ البالغۃ، ص ۴-۵)

مصالح کے فوائد

شاہ ولی اللہ ؒنے ان مصالح اور حکمتوں کو جاننے کے فوائد بھی تفصیل سے بیان کیے ہیں ۔ ان میں سے بعض اہم فوائد درج ذیل ہیں:

۱- اس سے معجزۂ قرآن کی طرح (جس کے معارضے سے انسان عاجز ہوگئے) شریعت کے معجزے کا اظہار ہوتا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت تمام شریعتوں سے کامل تر ہے، اور اس میں ایسی مصلحتیں پیش نظر رکھی گئی ہیں جن کی رعایت کسی اور طریقے پر ممکن نہیں۔ یہ کامل شریعت ایک نبی اُمی کی طرف سے پیش کی گئی ہے۔

۲- شریعت ِاسلامیہ پر کامل ایمان ویقین کے ساتھ اگر اس کی مصلحتیں بھی معلوم ہوجائیں تو اطمینانِ قلبی حاصل ہوتا ہے اور یہ طمانیت شرعاً مطلوب ہے، جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایمان کامل کے باوجود اللہ تعالیٰ سے اس کا مطالبہ کیا تھا ۔ چنانچہ اس کے لیے ان کے سامنے ایک معجزہ دکھا دیا گیا۔ ( البقرہ ۲: ۲۶۰)

۳- فروعی مسائل میں فقہا کے درمیان اختلافات رونما ہوئے ہیں۔ مصالح کے علم سے ان اختلافات میں کسی ایک مسئلے کو ترجیح دینے میں مدد ملتی ہے۔

۴-  شریعت کے بعض مسائل میں بعض فرقوں کو شک ہے۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ    ان میں شریعت کا حکم خلافِ عقل ہے اور جو چیز عقل کے خلاف ہو، اسے رد کردینا چاہیے، جیسے عذابِ قبر کے بارے میں معتزلہ کو شک ہے۔ اسی طرح قیامت میں حساب کتاب اور اعمال کے تولے جانے کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ علیم و خبیر ہے، اسے حساب لینے اور اعمال کو تولنے کی کیا ضرورت؟ غرض کہ اس طرح کے اور دیگرمسائل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خلافِ عقل ہیں۔ اس کا سدّباب اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ ان کے بارے میں مصلحتوں اور حکمتوں کو بیان کیا جائے، تاکہ شک کا ازالہ ہو۔(حجۃ اللّٰہ البالغۃ، ص ۸)

امام ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں کہ: شرعی احکام میں تین طریقوں سے مصالح ثابت ہوتے ہیں:

۱-متعلق فعل میں مصلحت شامل ہو، اگرچہ شریعت میں اس کی وضاحت نہ کی گئی ہو، جیسے عدل و انصاف کی مصلحت دنیامیں امن و امان کا قیام ہے اور ظلم اور ناانصافی فسادِ عالم کا سبب ہے۔ یہ مصلحت عقل اور شرع دونوں سے ثابت ہے۔

۲- شریعت نے جب کوئی حکم دیا تو اس کی بجا آوری ہی میں مصلحت ہے اور کسی چیز سے منع کیا تو اس سے احتراز کرنا ہی تقاضاے مصلحت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شارع کے حکم سے حسن و قبح کا تعین ہوتا ہے۔

۳- اللہ تعالیٰ کسی حکم کے ذریعے بندے کا محض امتحان لینا چاہتا ہو کہ وہ اس کی اطاعت کرتا ہے یا نہیں؟ حقیقت میں حکم کی تعمیل مقصود نہ ہو، جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے کی قربانی کا حکم دینا، یا بنی اسرائیل کے تین افراد (گنجا، برص زدہ اور اندھے) کی آزمایش کہ وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی خصوصی نعمتوں کا اعتراف کریں اور راہ حق میں خرچ کریں۔ اس صورت میں حکمت نفسِ حکم میں ہے نہ کہ اس کی تعمیل کرنے میں‘‘۔ (مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ، ج ۸، ص ۴۳۵- ۴۳۶)

علامہ ابواسحاق الشاطبیؒ فرماتے ہیں:’’احکام شریعت کا اصل مقصد دنیا و آخرت میں بندوں کے مصالح کی حفاظت ہے‘‘۔(الموافقات فی اصول الشریعۃ، ج۲، ص۶)

علامہ ابن قیم الجوزیۃؒ لکھتے ہیں:’’شریعت کی بنا اور اساس بندوں کے دنیوی و اُخروی مصالح اور حکمتیں ہیں اور وہ پوری کی پوری عدل، رحمت، حکمت اور مصلحت ہے‘‘۔(اعلام الموقعین عن رب العالمین، ج۳، ص ۳)

مصلحت کا مفھوم

صَلُح ، یصلح ، صلاحاً وصلوحاً و صلاحیۃ کے معنٰی درست او رٹھیک ہونے کے ہیں۔ اسی سے مصلحت ہے اور اس کی جمع مصالح ہے۔ اس کی ضد فساد اور مفسدۃ ہے، جس کے معنی بگاڑ اور خرابی کے آتے ہیں۔ اس کے اصطلاحی معنٰی ہیں احکامِ شرع کا مصالح کے مطابق ہونا۔ اس میں جلبِ منفعت اور دفعِ مضرت دونوں پہلو شامل ہوتے ہیں ۔ علما نے مصالح کی تشریح مختلف زاویوںسے کی ہے۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں:

’’منفعت کا حصول اور مضرت کا دفع کرنا مخلوق کی بنیادی ضروریات میںسے ہے اور خلق کی اصلاح اس امر پر ہے کہ ان کے مقاصد پورے کیے جائیں۔ یہاں اصلاح سے مراد وہ اصلاح ہے، جوشریعت کا مقصود ہے اور خلق کے حق میں شریعت کا مقصود پانچ امور ہیں: دین کی حفاظت، نفس کی حفاظت، عقل کی حفاظت، نسل کی حفاظت اور مال کی حفاظت۔ لہٰذا ہر وہ حکم یا طریقہ جو ان پانچ اصولوں کا ضامن ہوگا، مصلحت اور اصلاح کہلائے گا اور جس سے یہ اصول فوت ہوتے ہیں وہ طریقۂ مفسدہ کہلائے گا اور مفسدہ کو دفع کرنا واجب و لازم ہے‘‘۔(المستصفٰی فی علم الاصول، ج۱، ص ۲۸۶)

علامہ آمدیؒ مصلحت کی تشریح ان الفاظ میں کرتے ہیں:’’حکم کی مشروعیت کا مقصود یا تو کسی مصلحت و فائدہ کو حاصل کرنا ہے، یا کسی مضرّت کو دور کرنا، یا دونوں ہی مقصود ہیں‘‘۔(امام شاطبی کے ذکر کردہ مقاصدی قواعد- ایک تجزیاتی مطالعہ، ڈاکٹر عبدالرحمن ابراہیم کیلانی، ص۴۳، بحوالہ الإحکام للآمدی، ج۳، ص ۲۷۹)

مصالح دین کو مقاصدِ شریعت بھی کہا جاتا ہے۔ شیخ طاہر بن عاشورؒ مقاصدِ شریعت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’مقاصد شریعت ان معانی اور حکمتوں کو کہتے ہیں جنھیں شارع نے قانون سازی کے تمام یا اکثر حالات میں ملحوظ رکھا ہے، اس طور پر کہ اسے شریعت کے کسی خاص قسم کے حکم کے ساتھ مخصوص نہیں رکھا گیا ہے۔ لہٰذا اس میں شریعت کے وہ عمومی اوصاف اور اہداف بھی آتے ہیں جنھیں ملحوظ رکھنے سے شریعت پہلوتہی نہیں کرتی‘‘۔ (ایضاً، بحوالہ مقاصد الشریعۃ الاسلامیۃ، طاہر بن عاشور، ص۵۱)

استاذ علال الفاسیؒ فرماتے ہیں:’’مقاصد شریعت ، شریعت کے اہداف اور ان اسرار و رموز کو کہتے ہیں جنھیں شارع نے تمام احکام میں ملحوظ رکھا ہے‘‘۔(ایضاً، بحوالہ مقاصد الشریعۃ ومکارمھا، علال الفاسی، ص۳)

ڈاکٹر یوسف حامد العالم نے مصالح کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے:’’مقاصد شریعت ان مصالح و فوائد کو کہتے ہیں جو بندوں کو دنیا و آخرت میں حاصل ہوتے ہیں، خواہ یہ فوائد      جلبِ منفعت کے ذریعے حاصل ہوں، یا دفعِ مضرّت کے ذریعے‘‘۔(ایضاً، بحوالہ المقاصد العامۃ للشریعۃ الاسلامیۃ، ڈاکٹر یوسف العالم، ص۷۹)

مصلحت کی قسمیں

مصلحت کی بنیادی طورپر دو قسمیں ہیں: اُخروی اور دنیاوی۔ اخروی مصلحت سے مراد موت کے بعد آخرت میں اللہ کی رضا کا حصول، جنت میں داخلہ اور جہنم سے نجات ہے۔ دنیاوی مصلحت کا تعلق دنیاکی زندگی میں منفعت کے حصول یا دفعِ مضرّت سے ہے۔ جمہور فقہا نے دنیاوی مصالح کی تین قسمیں بیان کی ہیں: ۱- ضروریہ، ۲-حاجیہ، ۳- تحسینیہ۔ (الموافقات فی اصول الشریعۃ، ج ۲، ص ۸)

۱- مصلحتِ ضروریہ

مصلحت ضروریہ کا معنیٰ ہے: وہ مصلحت جس کی رعایت کے بغیر انسان کی صحت مندانہ زندگی کا تصور ممکن نہ ہو۔ عصری اصطلاح میں اسے انسان کے بنیادی حقوق بھی کہہ سکتے ہیں۔ مصلحت ضروریہ کا دائرہ پانچ چیزوں پر محیط ہے: ۱- دین، ۲- جان، ۳- نسل، ۴- مال، ۵- عقل۔ ذیل میں ان کی اہمیت سے متعلق اسلام کا نقطۂ نظر پیش کیا جاتا ہے:

  • دین و عقیدہ کی حفاظت: اسلام کے نزدیک انسان کی زندگی دین و عقیدہ کے بغیر بے معنیٰ ہے۔ وہ اس بات کو ہرگز پسند نہیں کرتا کہ آدمی ایمان و عقیدہ سے عاری زندگی گزارے۔ ایسی صورت میں وہ اس بات کو کیسے پسند کرسکتا ہے کہ وہ دوسرے کے دین و عقیدہ میں خلل ڈالنے کا باعث ہو، یا خود ا پنے ایمان سے پھر جائے۔ شریعت کی نگاہ میں یہ قابل سزا جرم ہے۔ دوسرے معنیٰ میں اسلام معاشرے کو مذہبی خلفشار سے بچانا چاہتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ آدمی خود گم راہ ہو اور دوسروں کی گم راہی کا بھی سبب بنے۔ اس کے سدِّ باب کے آخری ذریعے کے طور پر سزاے مرتد متعین کی گئی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جو اپنے دین کو تبدیل کرلے (یعنی اسلام سے پھر جائے) اسے قتل کردو‘‘۔(بخاری، کتاب الجہاد، باب لایعذب بعذاب اللّٰہ) 

دین کی حفاظت کا تعلق صرف مرتد اور بدعتی کے حوالے سے ہی نہیں، بلکہ کفار و مشرکین کے حوالے سے بھی مطلوب ہے۔ چنانچہ ان میں سے جو لوگ مسلمانوں کے خلاف جنگ پر آمادہ ہوں ان سے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ دین کی حفاظت ہے، تاکہ کفر و شرک اور باطل ادیان غالب ہوکر مسلمانوں کے لیے فتنے کا باعث نہ ہوں۔وَاقْتُلُوھُمْ حَیْْثُ ثَقِفْتُمُوھُمْ وَأَخْرِجُوھُمْ مِّنْ حَیْْثُ أَخْرَجُوکُمْ وَالْفِتْنَۃُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ (البقرہ ۲: ۱۹۱)، ’’ان سے لڑو جہاں بھی تمھارا ان سے مقابلہ پیش آئے اور انھیں نکالو جہاں سے انھوں نے تم کو نکالا ہے، اس لیے کہ قتل اگرچہ بُرا ہے، مگر فتنہ اس سے بھی زیادہ بُرا ہے‘‘۔ حفاظت دین کے مفہوم میں شعائر دین ، مساجد، جماعت، سنت کی حفاظت اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر بھی شامل ہے۔

  • جان کی حفاظت:کرۂ ارضی کی ساری آبادی ، یہاں کی بہاریں اور سرگرمیاں انسانوں کے دم سے ہیں اور ان کی زندگی کی بقا کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ ایک دوسرے کی جان کے درپے نہ ہوں، ورنہ یہ دنیا ویران ہوجائے گی اور یہاں کی ساری رونق جاتی رہے گی۔ اسی لیے اسلام میں ایک آدمی کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ جو شخص ناحق کسی کی جان لیتا ہے وہ صرف ایک ہی فرد پر ظلم نہیں کرتا، بلکہ اس کا عمل یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ اس کا دل حیاتِ انسانی کے احترام سے خالی ہے۔ لہٰذا وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا ہو۔ انسانی جان کی قدر و قیمت کا تقاضا ہے کہ آدمی خود بھی اپنی جان کو ختم کردینے کے درپے نہ ہو ۔ اس لیے اسلام میں خود کشی حرام ہے۔ ارشاد ربانی ہے: وَلاَ تَقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْمًا (النساء ۴:۲۹)’’اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔ یقین مانو کہ اللہ تمھارے اوپر مہربان ہے‘‘۔

حفاظتِ جان کے مدِّنظر ہی شریعت میں قصاص کے احکام دیے گئے ہیں، جس میں نہ صرف جان کے بدلے جان کی دفعہ بیان کی گئی ہے، بلکہ معمولی چوٹ اور زخم ، حتیٰ کہ تھپڑ پر بھی قصاص کو مشروع کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَکَتَبْنَا عَلَیْْھِمْ فِیْھَا اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَیْْنَ بِالْعَیْْنِ وَالأَنفَ بِالأَنفِ وَالأُذُنَ بِالأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ (المائدہ ۵:۴۵)، ’’اور ہم نے یہودیوں کے ذمہ تورات میں یہ بات مقرر کردی تھی کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت، اور زخموں کا بھی برابر کا بدلہ ہے‘‘۔

ساتھ ہی قصاص کو انسانوں کے لیے حیات بخش قرار دیا گیا ہے: وَلَکُمْ فِیْ الْقِصَاصِ حَیوٰۃٌ یٰـآولِیْْ الأَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَo (البقرہ ۲: ۱۷۹)،’’عقل و خرد رکھنے والو، تمھارے لیے قصاص میں زندگی ہے۔ امید ہے کہ تم اس قانون کی خلاف ورزی سے پرہیز کروگے‘‘۔

  • نسل کی حفاظت: نسل کی حفاظت در حقیقت نوع انسانی کی حفاظت ہے، کیوں کہ دوسری صورت میں انسانی معاشرہ خلفشار کا شکار ہوجائے گا ۔ شریعت کی نگاہ میں ضروری ہے کہ ہربچہ اپنے والدین کی نگرانی میں تربیت پائے اور وہی ان کا وارث بنے۔ یہ مقاصد چونکہ صرف ازدواجی زندگی سے حاصل ہوتے ہیں۔ اس لیے اسلام میں نکاح کو مشروع قرار دیا گیا ہے اور دیگر ہر طرح کے جنسی تعلقات کو حرام کیا گیا ہے اور ان پر حد مقرر کی گئی ہے۔ (النور ۲۴:۲)

حفاظتِ نسل کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ کسی کے نسب کو متہم کیا جائے نہ بغیر پختہ ثبوت کے اس پر زنا کا الزام لگایا جائے، کیوں کہ اس صورت میں نسب کے تعین میں شبہہ پیدا ہوگا اور پیدا شدہ بچے کے مصالح فوت ہوں گے، نیز متہم شخص کی سماجی زندگی متاثر ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:وَالَّذِیْنَ یَرْمُونَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَأْتُوا بِأَرْبَعَۃِ شُھَدَاء فَاجْلِدُوھُمْ ثَمَانِیْنَ جَلْدَۃً وَلَا تَقْبَلُوا لَہُمْ شَھَادَۃً أَبَداً  (النور ۲۴:۴)، ’’اور وہ لوگ جو پاک دامن عورتوں پر زنا کا الزام لگاتے ہیں اگر وہ چار گواہ نہ لاسکیں تو انھیں ۸۰ کوڑے مارے جائیں اور ان کی گواہی ہمیشہ کے لیے ناقابل اعتبار سمجھی جائے‘‘۔

  • مال کی حفاظت : مال زندگی کی بنیادی ضروریات میں سے ہے۔ اس کے بغیر انسان کو خوراک ، لباس اور مکان کے سلسلے میں کوئی چارہ نہیں۔ مال نہ ہو تو آدمی غربت و افلاس کا شکار ہوجائے۔ اس لیے شریعت نے مال کمانے، رکھنے اور خرچ کرنے کے ساتھ اس کو چوری ، غصب اور ڈاکا زنی سے محفوظ رکھنے کے احکام دیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَأْکُلُواْ اَمْوَالَکُمْ بَیْْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ أَن تَکُونَ تِجَارَۃً عَن تَرَاضٍ مِّنکُمْ (النساء ۴:۲۹)، ’’اے ایمان والو، ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے نہ کھاؤ، مگر یہ کہ کوئی مال باہمی رضامندی سے تجارت کے ذریعے حاصل ہوجائے ‘‘۔

ناجائز طریقے سے دوسرے کا مال کھانے کے مفہو م میں ہر وہ طریقہ شامل ہے جو شریعت اور عرف عام میں ناجائز ہو، چاہے وہ عیاں ہو یا خفیہ ۔ ایک حدیث میں ہے کہ: ’’جس نے چوری کا مال خریدا، یہ جانتے ہوئے کہ یہ چوری کا ما ل ہے، وہ اس کے گناہ اور برائی میں شریک ہوا‘‘   (فیض القدیر شرح الجامع الصغیر للمناوی، ج۶، ص ۶۴)۔ حفاظتِ مال کی غرض سے شریعت اسلامیہ میں چوری اور ڈاکا زنی کی سزا متعین کی گئی ہے۔ (المائدہ: ۳۳، ۳۸)، اور سود، جوا،  ناپ تول میں کمی بیشی، بیع، غرر ، ذخیرہ اندوزی اور وہ تمام طریقے حرام قرار دیے گئے ہیں جن سے کسی فرد کو مالی نقصان لاحق ہوسکتا ہے۔

  •  عقل کی حفاظت:عقل کی حفاظت سے مراد یہ ہے کہ اس کو ایسی چیزوں سے بچایا جائے جو انسان کے فتور کا باعث ہوں، اسے آفتوں میں مبتلا کردینے والی ہوں اور ان کی وجہ سے وہ اذیت میں مبتلا ہو۔ چنانچہ شریعت میں شراب اور دوسری تمام نشہ آور اشیا حرام ہیںاور ان کے استعمال پر سزا نافذ کی جاتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من شرب الخمر فاجلدوہ ، ’’جو شخص شراب نوشی کرے اسے کوڑے لگاؤ‘‘۔(مسند احمد ، ج۲، ص ۱۶۶، ابوداؤد، کتاب الحدود، ترمذی، کتاب الحدود)

شریعت کے یہی وہ پانچ مصالح ہیں جنھیں ’مصالحِ ضروریہ‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ان کی حفاظت کو شریعت نے لازم قرار دیا ہے اور ان کو پامال کرنے والے کے خلاف سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں:’’ان پانچ اصولوں کی حفاظت ضروریاتِ انسانی میں شمار ہوتی ہیںاورمصالح خلق کا یہ اعلیٰ ترین درجہ ہے… ان مصالح کی حفاظت کی تاکید دنیاکے ہرمذہب اور مہذّب سوسائٹی نے کی ہے‘‘۔(المستصفٰی فی علم الاصول، الغزالی، ج۱، ص ۲۸۷- ۲۸۸)

علامہ ابواسحاق الشاطبیؒ ان مصالح کی اہمیت سے متعلق لکھتے ہیں:’’دین و دنیا کے مصالح کے قیام کے لیے یہ ضروری ہیں۔ اگر یہ مفقود ہوں تو سلامتی کے ساتھ مصالح دنیا قائم نہیں رہ سکیں گے، بلکہ انسانی زندگی میں فساد اور خلفشار رونما ہوگا اوراُخروی زندگی میں نجات و کامیابی سے محرومی ہاتھ آئے گی، جو سراسر نقصان اور خسران ہے‘‘۔(الموافقات فی اصول الشریعۃ، ج۲، ص۸)

۲- مصلحتِ حاجیہ

مصلحت کی دوسری قسم، جس کی شریعت نے رعایت کی ہے، مصلحتِ حاجیہ ہے۔ اس سے مراد وہ مصلحت ہے جس کی رعایت سے انسانی زندگی میں سہولت پیدا ہو اور عدمِ رعایت سے تنگی اور مشقت لاحق ہو، مگر اس درجے میں نہ ہو، جیسا کہ مصالح ضروریہ کے فوت ہونے سے لاحق ہوتی ہے۔ امام شاطبیؒ لکھتے ہیں:’’حاجیات کے معنیٰ یہ ہیں کہ ان کی ضرورت توسّع کے حصول اور تنگی کے ازالے کے مقصد سے ہوتی ہے کہ اگر وہ پوری نہ ہوں تو حرج اور مشقت لاحق ہو اور اگر ان کی رعایت ملحوظ نہ رکھی جائے تو مکلّف افراد فی الجملہ حرج اور مشقت میں مبتلا ہوجائیں، مگر وہ      اس درجے میں نہ پہنچے کہ ان سے فساد روٗنما ہو، جیسا کہ مصالحِ ضروریہ کے نہ پائے جانے سے  فساد رُونما ہوتا ہے‘‘۔(ایضاً، ۲/۱۰-۱۱، المستصفٰی،ج ۱، ص۲۸۹-۲۹۰)

اس تعریف کی روشنی میں علما نے مصلحت ِحاجیہ کی دو قسمیں بیان کی ہیں: حاجیہ اصلیہ، حاجیہ مکمّلہ۔ یہ دونوں قسمیں تمام احکام، عبادات، معاملات، عادات اور جنایات میں موجود ہیں۔ عبادات میں مصلحت حاجیہ کی رعایت کی مثال احکام کی تعمیل میں رخصتوں کی موجودگی ہے، جیسے مجبور کے لیے کلمۂ کفر کہنے، اضطراری حالت میں مردار کھانے، پانی کی عدم موجودگی یا مرض کی صورت میں تیمم کرنے اور حیض و نفاس کی حالت میں نماز ترک کرنے کی رخصت دی گئی ہے۔ اسی طرح مریض ، مسافر، حاملہ اور مُرضعہ (بچے کو دودھ پلانے والی عورت)کو روزے دوسرے ایام میں رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔

معاملات میں مصلحت ِحاجیہ کی مثالوں میں کم سن بچی کے نکاح کے انعقاد کے لیے ولی کی شرط، خریدو فروخت ، اجارہ، مساقاۃ اور قرض کے لین دین کے معاملات کو پیش کیا جاسکتا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی چیز مصلحتِ ضروریہ میں سے نہیں ہے کہ اس پر عمل نہ کرنے سے انسان کے بنیادی حقوق پامال ہوتے ہوں، مگر زندگی کی بقا کے لیے یہ چیزیں ضروری ہیں۔ عادات میں مصلحتِ حاجیہ کی مثال شکار کا جائز ہونا اور کھانے پینے میں پاکیزہ چیزوں سے لطف اندوزی کا درست ہونا ہے۔

یہ مثالیں مصلحتِ حاجیہ اصلیہ کی ہیں۔ مصلحتِ حاجیہ مکمّلہ کی مثالوں میں مسافر اور مریض کے لیے دو نمازوں کو ایک وقت میں ادا کرنے اور حالتِ سفر میں قصر کی اجازت ، صغیرہ کے نکاح میں کفو کی رعایت، مہر مثل، قرض و رہن میں گواہی وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔

۳- مصلحتِ تحسینیہ

مصلحت کی تیسری قسم تحسینیہ ہے۔ اس سے مراد وہ مصلحت ہے جس کی رعایت سے احکام و اعمال میں حسن او رخوبی پیدا ہو اور عقلِ سلیم اس کا تقاضا کرے، لیکن عدمِ رعایت سے حرج اور  تنگی پیدا نہ ہو۔ یہ مصلحت بھی عبادات، معاملات ، عادات اور جنایات میں پائی جاتی ہے۔ اس کی مثالیں یہ ہیں: نجاست کو زائل کرنا، پردہ کرنا، زیب وزینت اختیار کرنا، صدقہ و خیرات کرنا،  کھانے پینے میں آداب ملحوظ رکھنا، غیر پاکیزہ چیزیں کھانے سے پرہیز کرنا، اسراف اور فضول خرچی سے بچنا، گندگی کی خرید و فروخت سے منع کرنا یا زائد پانی یا گھاس سے روکنا، غلام کو گواہی اور  امامت و خلافت کے لیے نااہل قرار دینا۔ اسی طرح عورت کو امامت کے لیے نااہل قرار دینا، یا  اس کے ازخود نکاح کرنے کی ممانعت، یا غلام کے بدلے آزاد کو قتل کرنے کی ممانعت، یا جہاد میں بچوں ، بوڑھوں اور عورتوں کو مارنے کی حرمت وغیرہ۔ (الموافقات، ج ۱، ص ۱۱-۱۲)

اُخروی مصلحت کے حوالے سے ایک بات یہ بھی جاننی چاہیے کہ اس میں رضاے الٰہی کا حصول، جنت میں داخلہ اور جہنم کی آگ سے نجات کے ساتھ تزکیہ و تربیت ِنفس، تہذیبِ اخلاق ، عبادات پر مشقتوں کی برداشت کی تربیت اور قواے شہوانیہ و غضبیہ پر کنٹرول وغیرہ مطلوب و مراد ہیں۔

مصالح کی تینوں قسموں میں مصلحت ِضروریہ بنیادی اہمیت کی حامل ہے اور باقی دونوں قسمیں اس کی تابع ہیں۔ اگر مصلحت ِضروریہ مفقود ہوگی تو بہ درجہ اولیٰ مصلحت ِحاجیہ و مصلحت ِتحسینیہ بھی مفقود ہوں گی، لیکن اس کے برعکس کا وقوع لازم نہیں۔ مصالح کے حوالے سے دوسری اہم اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ خواہشاتِ نفسانی کی تابع نہیں ہیں، یعنی خواہشِ نفس کو مصلحت قرار  نہیں دیا جاسکتا، کیوں کہ شریعت اسی لیے آتی ہے کہ لوگوں کو ہواے نفس کی جکڑبندیوں سے نکال کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف لائے۔ (الموافقات، ج ۲، ص ۳۷-۳۸)

مصالحِ دین انھی اقسام میں محدود نہیں ہیں: دین میں مصالح اور حکمتوں کی تشریح میں علما نے عام طور پر انھی پنج گانہ مصالح کا تذکرہ کیا ہے اور ان میں تین درجات (ضروریہ، حاجیہ اور تحسینیہ) قائم کیے ہیں۔ مگر بعض علما نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ مصالحِ دین انھی اقسام میں محدود و محصور نہیں ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی مصالح کی اقسام میں توسیع کے قائل ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے امام ابن تیمیہؒ اورابنِ قیمؒ کے اقوال نقل کیے ہیں۔

علامہ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:’’بعض لوگ مصالح مرسلہ کو جان، مال، عزت و آبرو، عقل اور دین کے تحفظ میں محصور کردیتے ہیں، مگر ایسا کرنا صحیح نہیں ہے، بلکہ مصالح مرسلہ یہ ہیں کہ منافعے حاصل کیے جائیں اور مضرتیں دور کی جائیں … دنیا میں (جلب منفعت کی مثال) وہ معاملات اور سرگرمیاں ہیں جن میں عامۃالناس کی بھلائی مضمر ہو، خواہ ان سے متعلق کوئی حد شرعی مقرر کی گئی ہو یا نہ کی گئی ہو، اور دین میں (جلب منفعت کی مثال) وہ احوال و معارف، عادات اور زہد کی باتیں ہیں جن میں انسانوں کی بھلائی مضمر ہے جس سے شریعت نے منع نہ کیا ہو۔ جن لوگوں نے مصالح کو  ان سزاؤں سے وابستہ کردیا جو فساد کو دور رکھنے کے لیے مقرر کی گئی ہیں یا جو اموال یا جسم انسانی کو محفوظ رکھنے کے لیے مقرر کی گئی ہیں، ان میں انھوں نے کوتاہی برتی ہے‘‘۔(مقاصد شریعت، ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی، ص۳۰)

ڈاکٹر موصوف نے روایتی فہرست میں اضافے کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے: ’’ایک خیال یہ بھی ہے کہ مقاصد کی روایتی فہرست پنج گانہ دین، جان، عقل، نسل اور مال میں خود اتنی وسعت ہے کہ بہت سے نئے مقاصد اسی فہرست میں داخل سمجھے جاسکتے ہیں۔ مثلاً عدل و انصاف دین میں اور ازالۂ غربت اور کفالت ِعامہ حفظ جان میں شامل سمجھے جاسکتے ہیں۔ ہمیں دو وجہوں سے اس فکر و سوچ سے اتفاق نہیں ہے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ، جیسا کہ ابنِ تیمیہ نے کہا ہے کہ مقاصد شریعت کے بیان میں تحفظ سے آگے بڑھ کر ترقی دینے اور بڑھوتری کو بھی شامل کرنا ضروری ہے۔ روایتی فہرست میں سارا زور دفع مضرت پر ہے، جلب منفعت کا پہلو دب گیا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ موجودہ عالمی اور قومی سطح کے مسائل میں ماحولیاتی آلودگی پر کنٹرول، کائنات کے قدرتی وسائل کا بچاؤ، عمومی اور کُلّی تباہی مچانے والے اسلحوں کے استعمال اور ان کی پیداوار پر پابندی اور موجودہ نیوکلیائی ہتھیاروں، نیز کیمیاوی اور حیاتیاتی اسلحوں کا تلف کیا جانا، اور اقوام عالم کے باہم امن و چین سے رہ سکنے کے دوسرے تقاضے پورے کرنے کے لیے یہ بہتر ہے کہ ان امور سے مناسبت رکھنے والی اسلامی تعلیمات کو اہمیت کے ساتھ پیش کیا جائے‘‘۔(ایضاً، ص۳۸-۳۹)

موصوف نے روایتی فہرست میں درج ذیل مصالح کے اضافے کی تجویز رکھی ہے اور ان پر قرآن و حدیث سے دلائل دیے ہیں: ۱- انسانی عز وشرف، ۲- بنیادی آزادیاں، ۳- عدل وانصاف، ۴- ازالۂ غربت اور کفالت ِعامّہ، ۵- سماجی مساوات اور دولت وآمدنی کی تقسیم میں  پائی جانے والی ناہمواری کو بڑھنے سے روکنا، ۶- امن و امان اور نظم و نسق، ۷- بین الاقوامی سطح پر باہم تعامل و تعاون۔(ایضاً، ص۳۹)

مصالحِ دین اور عقل

احکامِ دین میں مصالح اور حکمتوں کی دریافت عقل کرتی ہے، لیکن بعض اوقات عقل کی بنیاد پر شریعت کا حکم بھی مستنبط کیا جاتا ہے۔ جیساکہ معلوم ہے کہ شریعت کا چوتھاماخذ قیاس ہے،اس میں مسئلہ زیر بحث سے متعلق نص نہ ہونے کی وجہ سے عقل کی بنیاد پر شریعت کا حکم معلوم کیا جاتا ہے۔ جمہور فقہا نے قیاس کو شریعت کی ایک اصل قرار دیا ہے (الموسوعۃ الفقھیۃ، ج۳۴، ص۹۱)۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد مواقع پر عقل کی بنیاد پر دیے گئے مشوروں کو قبول فرمایا ہے۔۳؎  اسی طرح صحابہ کرامؓ اور تابعین عظام نے قیاس و عقل سے شریعت کے احکام وضع کیے ہیں ۔ امام ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں: شرعی احکام میں متعلق و مطلوب حکم کی تحقیق کے بارے میں مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ شریعت میں حکم بمعنی عام کی تعلیق کی جائے گی (یعنی اس کے مصداق کی تحقیق کی جائے گی) اور افراد پر حکم کے اطلاق یا کسی خاص نوع میں اثبات کے لیے غورو فکر کیا جائے گا‘‘۔(منہاج السنۃ النبویۃ،ج ۶،ص ۴۷۴)

امام موصوف آگے اس کی مزید تشریح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: ’’مختلف امور، جیسے انصاف کرنا، یا استقبال کعبہ یا جیسے شراب، جوا، مردہ، خون اور خنزیر کے حرام ہونے سے متعلق قرآن و حدیث میں عام حکم ہے، مگر شخص خاص سے متعلق طے کرنا کہ اس نے احکام کی خلاف ورزی کی یا نہیں، یا فلاں چیز حرام کردہ اشیا کی تعریف میں آتی ہے یا نہیں؟ یہ سب باتیں قیاس کے ذریعے ہی طے کی جاتی ہیں‘‘۔ (ایضاً)

احکام پر عمل حکمتوں کے جاننے پر موقوف نھیں

بلاشبہہ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ دین مصالح اور حکمتوں پر مبنی ہے، مگر احکام دین پر عمل حکمتوں کے جاننے پر موقوف نہیں ہے، کیوں کہ عقل انسانی محدود ہے اور ضروری نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تمام حکمتوں کو جان لے ۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ لکھتے ہیں: احکام شرعیہ پر عمل کرنے میں، جب کہ وہ صحیح روایت سے ثابت ہوجائیں، ان کی مصلحتوں کے جاننے تک توقف کرنا جائز نہیں۔ کیوںکہ بہت سے انسانوں کی عقلیں بہت سی حکمتوں کو بطور خود نہیں سمجھ سکتیں اور نبی کریم ؐ کی ذات ہمارے نزدیک ہماری عقلوں سے کہیں زیادہ قابل اعتمادہے۔(حجۃ اللّٰہ البالغۃ، ص۶)

خلاصۂ بحث یہ ہے کہ اللہ رب العالمین کا عطا کردہ دین بندوں کے دینی و دنیاوی مصالح اور حکمتوں پر مبنی ہے، اس لیے اس سے بڑھ کر او رکوئی طریقہ انسانوں کے لیے مفید اور انجام کے اعتبار سے قابل اطمینان و موجب فلاح و نجات نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا اس دین کو ترک کرنا اور اس کو ازکار رفتہ قرار دینا انسان کی نادانی پر مبنی ہے، جس کے سنگین نتائج ہوسکتے ہیں۔

حواشی

۱-            مثال کے طور پر دیکھیے: محاسن الشریعۃ، امام محمد بن اسماعیل (م:۳۶۵ھ)، محاسن الاسلام، ابوعبداللہ بن عبدالرحمن البخاری (م:۳۴۶ھ)، الاعلام بمناقب الاسلام، ابوالحسن العامری (م:۳۸۱ھ)، حجۃ اللّٰہ البالغہ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (م:۱۱۷۶ھ)۔

۲-            منھاج السنۃ النبویۃ، ابن تیمیہ، تحقیق الدکتور محمد رشاد سالم ، ادارۃ الثقافۃ والنشر، جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیۃ، سعودی عرب ، ج۱، ص ۱۴۱۔ امام ابن تیمیہؒ نے لکھا ہے کہ بعض منکرین قیاس اور ایک دودیگر لوگ احکام میں علّت و حکمت کاانکار کرتے ہیں، ورنہ جمہور امت اس کے قائل ہیں۔

۳-            آپؐ نے بعض جنگوں میں میدان جنگ کے انتخاب میں بعض صحابہؓ کے مشورے کو قبول فرمایا۔ ایک صحابیؓ کے مشورے سے آپؐ نے انگوٹھی میں محمدؐ رسول اللہ کا نام کندہ کرایا اور اس کو مہر کے طورپر استعمال کیا۔ اذان کا طریقہ بھی مشورے کی بنیاد پر طے کیا گیا۔ پیاز اور لہسن کھاکر مسجد میں آنے کی ممانعت ایک ضرر کی وجہ سے کی گئی ۔ جمعہ کے دن غسل پسینے سے پیدا ہونے والی بدبو سے بچنے کے لیے مشروع کیا گیا، وغیرہ۔

 

حضرت عبداللہ بن مبارکؒ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ غالباً وہ پہلے انسان ہیں جو امیرالمومنین فی الحدیث کے لقب سے مشہور ہوئے۔ اپنے ایک مشہور شعر میں وہ کہتے ہیں کہ ’’دینی معاملات کو کس نے خراب اور فاسد کیا ہے، سواے حکمرانوں اور علما کے‘‘۔ گویا وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ مسلم معاشرے میں بالخصوص اور انسانی معاشرے میں بالعموم جب کوئی خرابی پیدا ہوتی ہے تو دو طبقوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ایک اس طبقے کی وجہ سے جو کسی ملک میں کسی نہ کسی حیثیت میں حکمرانی یا ذمہ داری کے منصب پر فائز ہوتا ہے، اور دوسرا علماے کرام جس سے مراد صرف  علماے دین نہیں بلکہ معاشرے کے وہ تمام لوگ ہیں جو کسی بھی اعتبار سے علمی و فکری رہنمائی کا فریضہ سرانجام دے رہے ہوں۔ گویا اُمت یا قوم کے سیاسی، فکری اور دینی قائدین اگر اچھے ہوں اور درست راستے پر گامزن ہوں تو پھر اُمت درست راستے پر گامزن رہتی ہے، اور اگر یہ طبقے راہِ راست سے ہٹ جائیں تو بالآخر اُمت بھی راستے سے ہٹ جاتی ہے۔

یہ وہی چیز ہے جس کو ایک حدیث میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان فرمایا:’’تمھارے بہترین ائمہ وہ لوگ ہیں کہ جن سے تم محبت کرتے ہو اور وہ تم سے محبت کرتے ہیں، تم ان کے لیے دعاے خیر کرتے ہو وہ تمھارے لیے دعاے خیر کرتے ہیں، اور تمھارے بدترین ائمہ وہ ہیں کہ تم ان پر لعنتیں بھیجو وہ تم پر لعنتیں بھیجیں،   وہ تم سے نفرت کریں، تم ان سے نفرت کرو‘‘۔ یہاں بھی ائمہ کا لفظ کسی خاص شعبے کے لیے استعمال نہیں ہوا بلکہ ہراس فرد کے لیے استعمال ہوا ہے جو اُمت میں قیادت اور امامت کا مقام رکھتا ہے۔ وہ تعلیم میں قیادت ہو، امامت ہو، مسجد کی امامت ہو، فکر کی امامت ہو، سیاست کی امامت ہو یا کسی بھی طرح کی امامت۔ اگر تعلق کی نوعیت یہ ہے کہ وہ بہترین لوگ ہیں جو اُمت سے اخلاص رکھتے ہیں، اُمت ان کے اخلاص کی قدر کرتی ہے، اس کی وجہ سے ان کے لیے دعاگو ہے، ان سے محبت کرتی ہے اور وہ اُمت سے محبت کرتے ہیں، تو پھر وہ بہترین قیادت ہے۔

عصرِحاضر اور علما کی ذمہ داری

ان دونوں اقوال کی روشنی میں جن میں سے ایک حدیث پاک ہے اور ایک عظیم محدث اور امام اسلام کا قول ہے، دیکھا جائے تو ائمہ کرام، خصوصاً دینی ائمہ کرام کی ذمہ داری نہایت ہی نازک اور بھاری ہوجاتی ہے۔ خاص طور پر دورِ جدید میں یہ ذمہ داری بہت زیادہ نازک ہوگئی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو مغرب کی طرف سے بڑھتا ہوا سیکولرزم ہے جو ایک طوفان کی طرح دنیاے اسلام کو اپنے گھیرے میں لے رہا ہے۔ مغرب نے اپنے تاریک ادوار کے ایک ہزار سال کے ناگفتہ بہ تجربات کے بعد سیکولرزم کو اپنے لیے پناہ گاہ سمجھا، اور یہ محسوس کیا کہ ان کے مصائب اور مشکلات کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ مذہب اور سیاست یک جا تھے۔ ان کا مذہب اور ان کی سیاست یک جا نہیں ہوسکتے تھے، اس لیے انھوں نے ان دونوں کو الگ الگ کردیا۔ اس علیحدگی کے بعد وہ بڑی حد تک ان مصائب سے آزاد ہوگئے جن کا وہ ایک ہزار سال شکار رہے، لیکن کچھ نئے مصائب کا بھی شکار ہوگئے۔

مشکل یہ ہوئی کہ اگر یہ چیز مغرب تک محدود رہتی تو ہمارے لیے زیادہ قابلِ اعتراض بات نہیں تھی۔ ایک علمی سوال تھا کہ ان کی تاریخ میں ایسا کیوں ہوا؟ اصل خرابی اس لیے پیدا ہورہی ہے کہ وہ نتائج جو مغرب میں ان کی خاص تاریخ اور خاص ماحول کے پیداوار تھے، مغرب کے   موجودہ سیاسی اثرورسوخ، اس کی عسکری طاقت، اس کی اقتصادی خوش حالی ، اور دنیوی معاملات میں ان کے کنٹرول کی وجہ سے دنیاے اسلام میں درآمد بلکہ مسلط کیے جارہے ہیں۔ حالانکہ نہ دنیاے اسلام کی تاریخ ریاست اور مذہب میں وہ کش مکش رہی ہے جو یورپ میں ایک ہزار سال موجود رہی، نہ وہ قباحتیں دنیاے اسلام میں پیدا ہوئیں، نہ یہاں وہ احتسابی عدالتی نظام تھا جس نے سیکڑوں ہزاروں نہیں، لاکھوں انسانوں کو مذہب کے نام پر موت کے گھاٹ اُتارا، نہ یہاں عقل و شعور کی ہرکاوش کا یہ کہہ کر انکار کیا گیا کہ فلاں مذہبی پیشوا اور فلاں مذہبی ادارہ اس سے اتفاق نہیں کرتا، نہ لوگوں کو  اس لیے سزاے موت دی گئی ہے کہ انھوں نے تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر کوئی سائنسی نتیجہ بیان کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ سارے معاملات دنیاے اسلام میں نہیں تھے۔

دنیاے اسلام میں تو پہلے دن سے عقل اور وحی کے درمیان اتنی ہم آہنگی، یکسانیت اور قرب تھا کہ اسلام کی تاریخ میں کوئی لمحہ ایسا نہیں آیا کہ عقل اور وحی یا دین اور دنیا یا مذہب اور غیرمذہب دو متعارض کیمپوں میں تقسیم ہوئے ہوں۔ ہمارے ہاں تو وہ لوگ بھی جو مذہبی فکر کے ترجمان نہیں سمجھے جاتے، ایک طرح سے اسلامی فکر کے دائرے کی حدود میں رہے، کبھی حدود سے باہر سمجھے گئے، اور کبھی حدود کے اندر خیال کیے گئے۔ خالص فلسفی، ابن سینا اور فارابی جیسے لوگوں کی مثال دیکھیے کہ کسی نے انھیں اسلامی فکر کا مسلم نمایندہ قرار نہیں دیا اور وہ فلاسفہ کے نمایندہ رہے۔  اگر یہ کہا جائے کہ مغرب کی تاریخ میں جو بہترین مذہب کے علَم بردار تھے، یہ لوگ ان سے زیادہ مذہبی تھے تو غلط نہ ہوگا۔ یورپ کی تاریخ میں مذہب کے جو بہترین نمایندے رہے ہیں، مثلاً سینٹ نامس کناس کہ جن کو مسیحیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور سینٹ پال کے بعد تیسرا بڑا مجدد جانا جاتا ہے، اس سے بھی زیادہ یہ لوگ مذہبی اور دینی خیالات سے قریب تر تھے۔ انھوں نے جس طرح عقل اور دین کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی، جس طرح سے دینی عقائد اور دینی تصورات کو عقلیات کی زبان میں کامیابی سے بیان کیا، ان کی مثالیں یورپ کی مذہبی تاریخ میں نہیں ملتیں۔

اُمت مسلمہ کو درپیش چیلنج

ہمارا بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے دانش وروں نے نہ اپنی تاریخ کا مطالعہ کیا، نہ مغربی تاریخ کا، نہ دیکھا کہ ہمارے ہاں کیا خرابیاں تھیں اور کیا نہ تھیں۔ یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ ہمارے ہاں خرابیاں نہ تھیں، لیکن جو خرابیاں تھیں ان کو کسی نے دیکھا نہیں، اور جو خرابیاں نہیں تھیں ان کو زبردستی اپنے اندر مان لیا اور ان خرابیوں کو ماننے کے بعد وہ نتائج بھی خود بخو د تسلیم کرلیے جو یورپ میں ان خرابیوں کی وجہ سے پیدا ہوئے۔ اس سے دنیاے اسلام میں سیکولرزم کو فروغ ملنا شروع ہوگیا۔ سیکولرزم کے فروغ کے نتیجے میں ایک ایسی صورت حال انڈونیشیا سے مراکش تک موجود ہے، جو  بین الاقوامی قوتوں کے مفاد کی وجہ سے شدید تر ہوتی چلی جارہی ہے کہ کس طرح سے مذہب کے دائرے کو زیادہ سے زیادہ محدود کردیا جائے، اور ریاستی اور سرکاری،اجتماعی ، قانونی، اقتصادی اور تہذیبی معاملات سے دین و مذہب کو نکال کر مذہب اور اخلاق کا دائرہ محدود کردیا جائے۔

یہ ہے وہ چیلنج جو دنیاے اسلام کو آج درپیش ہے۔ بظاہر یہ فکری اور علمی مسئلہ ہے جس کا روزمرہ کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن آج دنیاے اسلام کو جو مسائل درپیش ہیں ان کا گہرائی سے جائزہ لیں اور فکری سطح پر دیکھیں کہ اس کے اسباب کیا ہیں، تو یہی بنیادی سبب نظر آئے گا کہ دنیاے اسلام کے خاصے قابلِ ذکر حصے میں غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ جس طرح سے مغرب ایک خاص رُخ پر مذہب اور سیاست کو الگ الگ کرنے پر مجبور ہوا، دنیاے اسلام کو بھی اسی نتیجے پر پہنچنا ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ فلاں قوانین بنیادی حقوق سے متعارض ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ  فلاں قسم کے نظام سے معاشرے میں امتیاز اور فرق پیدا ہو رہا ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ فلاں قسم کا نظام اگر آیا تو ریاست کے فلاں مفاد کو زد پہنچے گی۔ ریاست کے مفاد کو زک پہنچنے، امتیازی قوانین اور بنیادی حقوق کی یہ باتیں بظاہر خوب صورت عنوانات ہیں لیکن ان عنوانات کے پردے میں جو گفتگو کی جارہی ہے اس پر غور کریں تو بالآخر جو بنیاد نکلے گی، وہ یہی ہے کہ ریاست یا مذہب کو اور مذہب یا زندگی کے معاملات کو الگ الگ ہونا چاہیے۔ میرا مذہب کیا ہے اس سے آپ کو سروکار نہیں، اور آپ کا مذہب کیا ہے مجھے اس سے سروکار نہیں۔ یہی چیز اسلام کے بنیادی تصور سے متعارض ہے۔

سیکولرزم اور اسلام کا بنیادی فرق

حقیقت یہ ہے کہ ہماری ساری شناخت ہی مذہب ہے۔ مسلمان کے ہاں ہر اچھائی اور برائی کا تعین مذہبی حوالے سے ہوتا ہے۔ اخلاق اور قانون کا تعلق مذہب سے ہے، تہذیب کا  تعلق مذہب سے ہے، اور کوئی چیز مذہب کے اس دائرے سے خالی نہیں جو قرآن مجید اور  صاحب ِ قرآن مجید کے اقوال میں موجود ہے۔ یہاں تو قانون کا بھی بنیادی حوالہ بالآخر مذہبی کتاب ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ بھی مذہبی کتاب ہے، جب کہ وہاں یہ چیز ناقابلِ تصور ہے کہ ایک مذہبی کتاب کا دورِ جدید کے اقتصادی معاملات سے کیا تعلق؟ ہمارے دینی قائدین جزئیات پر تو بہت زور دیتے ہیں لیکن اس مسئلے کی اصل جڑ پر کسی نے توجہ نہیں دی۔ علماے کرام، دینی قائدین اور دینی فکر کے لوگوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سب سے پہلے یہ اسلوب ذہن نشین کروائیں کہ حق ایک ہے اور اس میں کوئی تفریق دین و دنیا کی بنیاد پر نہیں ہوسکتی۔ جب یہ تفریق ہوگی تو ہوس پر ہوگی   ؎

ہوئی دین و دولت میں جس دم جدائی

ہوس کی امیری ، ہوس کی وزیری

پھر انسانی خواہشات اور انسانی شہوات کی بالادستی ہوگی۔ جب بالادست طاقت کے احکامات چلیں گے، جیساکہ دنیا میں چل رہے ہیں، تو پھر جو کمزور ہے وہ بتدریج مجبور ہوتا جائے گا۔ روزانہ کمزور سے مطالبہ کیا جائے گا اور بالادست روزانہ آگے بڑھتا جائے گا تاآنکہ وہ یہ تسلیم کروا لے کہ دین و مذہب الگ الگ چیزیں ہیں اور مذہب کا اجتماعی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جب تک یہ اصول مسلمان تسلیم نہیں کرے گا اس وقت تک ان کے مطالبات جاری رہیں گے۔ ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ، جس نے اکثر و بیش تر مغربی ماحول میں تعلیم پائی ہے اور جو مغربی یونی ورسٹیوں کا پڑھا ہوا ہے، اس میں بڑے ماہر، بڑے اچھے، بڑے مخلص اور محب وطن لوگ ہیں، لیکن مخلص اور محب وطن ہونا کافی نہیں ہوتا جب تک ذہن کی بنیاد درست نہ ہو۔ جب تعمیر میں بنیادی کج ہوجائے تو    ؎

خشت اوّل چوں نہج معمار کج

تا ثریا می رود دیوار کج

اس بنیاد کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات کہ قرآن مجید ہر سچائی اور ہرصداقت کا سرچشمہ ہے، اگر تسلیم ہے تو اس کے بعد پھر سب حوالے ختم ہوجانے چاہییں۔ کسی بڑے سے بڑے انسان کی عقل، تجربہ، حتیٰ کہ کسی بڑی سے بڑی تہذیب کی کوئی تہذیبی سچائی یا کلیہ ، اگر  قرآن مجید سے متعارض ہے تو وہ ناقابلِ قبول ہے۔ جب تک یہ معیار لوگوں کے ذہن نشین نہیں ہوگا، اس وقت تک یہ جزوی مسائل اُٹھتے رہیں گے اور لامتناہی سوالات کا سلسلہ جاری رہے گا۔ علماے کرام کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اس بنیادی سوال کے جواب کو جو ایک رویے کاسوال ہے، پہلے واضح کردیں اور لوگوں کا ذہن اس معاملے میں صاف کریں۔

دین کی بنیاد کلیات، نہ کہ جزئیات

دوسری بڑی ذمہ داری جو دورِ جدید میں علماے کرام پر خاص طور پر آگئی ہے، وہ یہ ہے کہ پچھلے چودہ سو سال سے ان کا ایک خاص کردار مسلم معاشرے میں رہا ہے۔ وہ کردار اُس معاشرے میں واضح ہوا جہاں اسلامی قوانین، اسلامی احکام، اسلامی اخلاق، اسلامی کردار قائم اور جاری و ساری تھا۔ اگر ایک چیز اسلامی خطوط پر قائم ہے، معاشرہ اسلامی اساس پر کارفرما ہے، اسلامی قوانین عدالتوں میں نافذ ہیں، لوگوں کی زندگیاں اسلامی ہیں، لوگوں کے علوم و فنون اسلامی ہیں، درس گاہ کا ماحول اسلام کے مطابق ہے، بازار میں کاروبار اسلام کے مطابق ہو رہا ہے، وہاں علماے کرام کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ جزئیات کا جواب دیں۔ جزوی مسائل اگر کوئی پوچھے تو آپ بتا دیں کہ یہ خریدنا حلال ہے یا حرام ، یہ کاروبار جائز ہے یا ناجائز، فلاں قسم کا لباس مکروہ ہے یا غیرمکروہ۔ یہ جزئیات کے سوال اُٹھتے رہتے تھے اور علماے کرام جزئیات کا جواب دیتے رہے۔ آپ فتاویٰ کی ساری کتابیں دیکھیں، سب جزئیات پر مبنی ہیں۔ آج ہم جس دور میں ہیں، اس میں اسلامی معاشرہ بڑی حد تک موجود نہیں ہے۔ اس نظام میں قوانین اسلام کے مطابق نہیں ہیں۔ اس میں معاشرتی اقدار اسلام سے بڑی حد تک ہٹ گئی ہیں۔ معیشت کا نظام اسلام کے مطابق نہیں ہے۔ حلال و حرام کی تمیز بھی کمزور پڑگئی ہے۔ یہاں محض جزئیات کا جواب دینا کافی نہیں ہے۔

جزئیات کا جواب تو وہاں دیا جائے جہاں کلیات اسلام کے مطابق ہوں۔ اگر جزوی خلاف ورزی ہورہی ہو تو آپ اس کی رہنمائی کردیں، مگر جہاں سارے کلیات ہی بدل دیے گئے ہوں وہاں جزئیات کا جواب دینا کافی نہیں ہے۔ جس طرح ایک عمارت آپ کے استعمال میں ہے، اور فرض کریں کہ آپ ڈیکوریشن کے ماہر ہیں، آپ سے پوچھا جائے کہ کرسی اِس ڈیزائن کی بنوائوں یا اُس ڈیزائن کی، اسٹیج اِس طرف ہو کہ اُس طرف تو آپ جواب دے سکتے ہیں۔ خدانخواستہ عمارت ہی گری ہوئی ہو اور پھر کوئی یہ سوال پوچھے کہ کرسی کس ڈیزائن کی ہو اور اسٹیج کس طرف ہو، یہ غیرمتعلق سوال ہے۔ یہ جزوی سوال بعد میں آئے گا، پہلے آپ کلیات کو درست کریں۔

علماے کرام اس تبدیلی کا احساس فرمائیں، اور وہ رویہ کہ آپ کے سامنے اپنے شیخ کے جاری کیے ہوئے فتاویٰ معتمد علیہ اور مستند فتاویٰ کا مجموعہ رکھا ہے، اور کوئی سوال آیاتو آپ نے جزو کا جواب دیا اور سمجھا کہ رہنمائی کا کام پورا ہوگیا، یہ کافی نہیں۔جزئیات کا جواب دینے کی بھی ضرورت ہے۔ یہ جواب ان افراد، خاندان اور ادارے کو دیا جائے گا جو اسلام پر کاربند ہیں۔ ان کو جزئیات کے سوال پوچھنے کی ضرورت ہوگی اور انھیں اسی حوالے سے رہنمائی دینے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ کلیات کے معاملات بھی ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔

کلیات اور جزئیات میں بنیادی فرق

لوگ سوال پوچھتے ہیں کہ اسلامی معاشرے کے بنیادی اوصاف کیا ہیں؟ اسلام میں خاندان کیسا ہوتا ہے؟ خاندان کے تعلقات کیا ہیں؟ خاندان کس بنیاد پر قائم ہے؟ یورپ میں جو خاندان ٹوٹا ہے تو کیوں ٹوٹا ہے؟ دنیاے اسلام میں جو ٹوٹ رہا ہے تو کیوں ٹوٹ رہا ہے؟ وہ کیا چیز بگڑ گئی ہے جس سے ٹوٹ رہا ہے؟ ان کلیات کا سوال جب کیا جاتا ہے تو اس کے جواب دینے میں بالعموم دو غلطیاں ہوتی ہیں جن کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایک یہ کہ ہم میں سے بہت سارے انسان اسلام کی کلیات کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ تعلیم ایسی ہے جو جزئیات پر مشتمل ہے۔ پھر کلیات کے حوالے سے وہ تین چیزوں میں فرق نہیں کرتے۔ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو قرآن کے نصوص ہیں، جن کے بارے میں دو راے نہیں ہوسکتیں۔ اسی طرح کچھ وہ ہیں جو احادیث اور سنت ِ متواترہ سے ثابت ہیں، وہ نصوص کا درجہ رکھتی ہیں۔ وہ اصول جو فقہ کی اصطلاح میں قطعی الثبوت اور قطعی الدلالہ ہیں، یہ دین کی اساسات ہیں۔ یہ ہیں وہ کلیات جن پر معاشرے کو زندہ رہنے کی ضرورت ہے۔ ان کلیات کی کسی تعبیر پر اُمت کا اتفاق ہے تو یہ بھی انھی کا حصہ ہیں۔ لیکن اس کے بعد کسی ایک یا دو تین فقہا کی ذاتی آرا ہیں تو وہ کلیات نہیں ہیں۔ ان کلیات کے بارے میں اگر اس دور کے اہلِ علم یہ فیصلہ کریں کہ ہمارے لیے یہ راے، یا فلاں تعبیر، یا فلاں اجتہاد زیادہ موزوں ہے تو اس کو بھی آپ کلیات میں شامل کرلیں، لیکن جو جزوی اور انفرادی آرا ہیں، مثلاً حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی ایک راے ہے، امام شافعیؒ کی ایک راے ہے، امام غزالیؒ کی ایک راے ہے، ضروری نہیں کہ   وہ راے ہمارے لیے اسی طرح متعلق ہو جیسے قرآن پاک متعلق ہے۔ دونوں کو ایک جگہ پر رکھیں گے تو قباحتیں پیدا ہوں گی۔ قرآن پاک کا جو دوام ہے وہ امام غزالیؒ کی راے کو حاصل نہیں ہے۔  سارے احترام کے باوجود وہ امام ابوحنیفہؒ یا کسی اور کی راے کو بھی حاصل نہیں ہے۔

اس بات کا خیال نہ رکھا جائے تو بڑی قباحتیں پیدا ہوتی ہیں۔ خاص طور پر اس وقت جب آپ یورپ یا امریکا تشریف لے جائیں۔ وہاں ایک عالم ہندستان سے آئے بیٹھے ہیں، ایک سعودی عرب سے، ایک مصر سے۔ امریکا کا ایک سیدھا سادہ آدمی جس نے کل اسلام قبول کیا ہے، ایک اس کو ایران کی بتا رہا ہے ، ایک طوران کی، ایک کہیں اور کی بتا رہا ہے، اور کوئی یہ نہیں سوچ رہا کہ یہ بیچارہ نہ شافعی ہے، نہ حنبلی، نہ مالکی، نہ حنفی۔ یہ کچھ نہیں، یہ تو مسلمان ہے۔ گویا یہ سنہ ۲۵ ہجری میں مسلمان ہوا ہے۔ اس کو آپ ان چیزوں میں کیوں پھنساتے ہیں، اس پر کیوں آپ فقہ حنفی مسلط کر رہے ہیں، کیوں فقہ شافعی یا فقہ اہلِ حدیث یا جو بھی ہے، وہ آپ اس پر مسلط کر رہے ہیں۔ پھر اس سے آگے بڑھ کر یہ ہوتا ہے کہ تم ہاتھ یہاں باندھو ، اذان ہو تو انگوٹھا چومو یا مت چومو۔ ابھی آپ کچھ نہ کیجیے، اس کو نماز پڑھنا سکھایئے جو کہ اساسِ دین ہے۔ جب وہ نماز پڑھنا سیکھ لے گا تو جس مسلم معاشرے میں اس کی تربیت ہوگی اور جس مسلم ماحول کا وہ حصہ بنے گا، بتدریج وہ خود ہی اختیار کرلے گا۔ پھر جب وہ آپ سے مسائل پوچھے تو آپ اسے بتائیں۔

اس حد تک بھی یہ گوارا ہے کہ یہ بھی فقہا کے اقوال ہیں، وہ بھی دین کے معتبر شارحین کے ارشادات ہیں۔ اس حد تک بھی چلیے مان لیں، لیکن کچھ چیزیں ہیں جو مقامی رواج ہیں۔ کسی رواج کا اسلام کے مطابق ہونا اور چیز ہے اور اسلام ہونا اور چیز۔ ایک رواج ہے جو اسلام سے متعارض نہیں، قابلِ قبول ہے، لیکن اس رواج کو آپ مسلمانوں پر زبردستی مسلط کریں، یہ اسلام کا تقاضا نہیں۔ آپ کسی شیخ کے مرید ہیں، ان کا اللہ کی بارگاہ میں بہت اُونچا مقام ہے، ان کا کچھ ذاتی ذوق تھا، آپ کا جی چاہتا ہے تو آپ اس ذوق کی پیروی کریں، نہیں جی چاہتا مت کریں، لیکن پیغمبرؐ کے علاوہ کسی کے ذوق کو زبردستی دوسروں سے منوانا یہ شریعت کا نہ تقاضا ہے اور نہ حکم ہے۔ مثلاً آپ کے بزرگ ایک خاص انداز سے عمامہ باندھتے ہیں، آپ کو ان سے محبت ہے تو اُس طرح کا عمامہ باندھیے، لیکن جب آپ لوگوں سے یہ کہیں کہ اس طرح کا عمامہ باندھنا دین کا تقاضا ہے تو یہ چیز قابلِ اعتراض ہوجاتی ہے اور اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ یہ دین کا تقاضا نہیں ہے۔ دین یہ نہیں کہتا کہ فلاں بزرگ کی طرح عمامہ باندھو یا فلاں بزرگ کی طرح کا لباس پہنو۔ ہاں، اگر کوئی مرد سونے کی انگوٹھی استعمال کرتا ہے تو اس کی نصوص میں ممانعت ہے، اس لیے اس کو روکیں۔ کوئی عورتوں جیسا لباس پہنتا ہے تو اس کو بھی روکیں، کیونکہ اس کی بھی شریعت میں ممانعت ہے۔

یہ تین چیزیں ہیں جن میں عام طور پر لوگ تفریق نہیں کرتے۔ نصوص کیا ہیں؟ جو دائمی ہیں۔ جو امریکا، برطانیہ ، فرانس، مصر، ہر جگہ رہیں گی۔ ائمہ کرام کے اجتہادات اس ماحول کے مطابق ہیں جس میں اس ماحول کے مانوس لوگ رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں امام ابوحنیفہؒ کے اجتہادات سے مانوس لوگ چلے آرہے ہیں۔ سالہا سال سے یہاں وہ چیز اس حد تک قابلِ قبول ہے جہاں تک ہمارے ہاں رہی ہے۔ لیکن اس ماحول سے نکل کر آپ امریکا جائیں اور امریکا کے نومسلم کو زبردستی کہیں کہ تم ہاتھ یہاں باندھو۔ و ہ کہے کہ میں تو یہاں باندھتا چلا آرہا ہوں، آپ کہیں کہ آپ کی نماز نہیں ہوئی۔ اب وہ بیچارہ جو دس سال سے یہاں ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتا چلا آرہا ہے، آپ نے اس کی نماز کو شک میں ڈال دیا۔ کسی مالکی امام سے اسلام قبول کرنے کے باعث وہ ہاتھ چھوڑ کر پڑھتا تھا، آپ نے کہا کہ اس طرح تو نماز نہیں ہوتی۔ اب وہ پریشان ہوا کہ میں کیا کروں؟ میری نماز ہوئی کہ نہیں؟ یہ ایسی چیزیں ہیں جن کو ان کے حدود میں رکھنے کی ضرورت ہے۔

ایک دفعہ مجھے بقرہ عید پر انگلستان کے ایک شہر میں وقت گزارنے کا موقع ملا۔ طے ہوا کہ سارے مسلمان ایک جگہ پر عید کریں گے۔ اب ایک خاص علاقے کے لوگوں کا اصرار تھا کہ عیدمنانے کا طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ بچپن سے ہم اسی طرح مناتے چلے آرہے ہیں اور ہمارے    آبا و اجداد اسی طرح کرتے آرہے ہیں۔ ایک دوسرے علاقے کے مسلمانوں کا اصرار تھا کہ     ہم ایسے کریں گے۔ پندرہ بیس وہاں کے مقامی مسلمان حیران تھے کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ ترک کہتے تھے ایسے کرو، حالانکہ عید کا حکم شریعت میں نہ وہ ہے نہ یہ ہے۔ شریعت کچھ نہیں کہتی۔ ہمارا ایک رواج ہے جو شریعت کے مطابق ہے تو قابلِ قبول ہے، اور شریعت سے متعارض نہیں ہے تو بھی  قابلِ قبول ہے، لیکن وہ دین اور شریعت نہیں ہے۔ وہ بس ہمارے یہاں کا رواج ہے۔

اس لیے دین کے جو کلیات قرآن اور سنت ہیں وہ دین کی دعوت کا موضوع ہیں۔ باقی چیزیں دعوتِ دین کا موضوع نہیں ہیں۔ وہ تحقیق، راے، فتویٰ اور اجماع کا اور ذاتی ذوق کا موضوع ہے، ان کو دعوت کا موضوع نہیں بنانا چاہیے۔ دعوت کا موضوع وہ چیزیں ہیں جو قرآن پاک، سنت اور دین میں متفق علیہ ہیں۔ جو چیزیں صحابہ کرامؓ سے چلی آرہی ہیں، جو چیزیں صحابہ کرامؓ میں متفق علیہ نہیں تھیں ، وہ دین نہیں ہوسکتیں۔ اگر آپ کہیں کہ وہ دین ہے تو جو صحابہ اس سے ہٹے ہوئے تھے  تو گویا نعوذ باللہ وہ مسلمان نہیں تھے۔ جو چیز تابعین میں متفق علیہ نہیں تھی، وہ دین نہیں ہے۔ وہ اجتہاد ہے، راے ہے اور فتویٰ ہے۔ اگر آپ ایک راے کو دین کہیں تو دوسری راے کو کیا کہیں گے؟

اختلافی مسائل میں اعتدال کی روش

تیسری اور آخری چیز جو میں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ اور خاص طور پر جو بنیادی طور پر دین کا حوالہ رکھتے ہیں، وہ دوسروں کے بارے میں راے دینے میں بعض اوقات جلدبازی کرتے ہیں۔ لوگوں میں طرح طرح کے عقائد موجود ہیں۔ مسلمانوں کا جو تصورِعلم ہے وہ ان کے لیے مانوس نہیں ہے، وہاں اصل بنیاد کو نظرانداز کرکے جب آپ کسی جزوی مسئلے پر راے یا رویہ اختیار کریں گے تو وہ دین سے مزید دُور ہوگا۔ ایسے بے شمار لوگ آپ کو ملیں گے جو مسلمانوں سے ہمدردی رکھتے ہیں، اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور بحیثیت مجموعی جب ان کو کہا جائے کہ آپ اسلام کو مانتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہاں مانتے ہیں۔ اسلام کے خلاف کوئی بات ہو تو وہ دکھ بھی محسوس کرتے ہیں، لیکن کسی جزوی معاملے میں وہ آپ کی بات نہیں مانتے۔ دین کے نام پر ہم جو بات انھیں بتا رہے ہیں، اس میں یہ تمام چیزیں، یعنی نصوص، اجتہادات، انفرادی بزرگوں کا ذاتی ذوق اور کسی مقامی علاقے کا اسلامی رواج بھی شامل ہیں۔

 اب اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ میں اس رواج کو نہیں مانتا، یہ غلط ہے تو آپ اس کو کچھ نہیں کہہ سکتے۔ وہ اتنا ہی اچھا مسلمان ہوسکتا ہے جتنا کوئی اور۔ کوئی کہتا ہے کہ فلاں بزرگ کی پگڑی کا اسٹائل بڑا فضول ہے، میں نہیں مانتا تو کسی بزرگ کی پگڑی کے اسٹائل کو فضول کہنے سے آدمی نہ فاجر ہوجاتا ہے نہ فاسق اور نہ کچھ اور۔ اس حد تک بھی درست ہے کہ وہ کہے مَیں امام ابوحنیفہؒ کے فلاں اجتہاد کو نہیں مانتا تو آپ تھوڑی بات کریں، مگر گستاخی اور جہالت کا کوئی عنصر نہ آنے پائے کہ یہ قابلِ اعتراض بات ہے۔ لیکن اگر وہ نصوص کا انکار کرے تو وہاں مسئلہ خطرناک ہوجاتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ جو چیزیں اسے بتائی جارہی ہیں بظاہر وہ غلط محسوس ہوتی ہیں، وہ اس لیے غلط معلوم ہوتی ہیں کہ وہ شریعت کا حکم ہی نہیں ہے، وہ شریعت کے حکم کے طور پر اس کو سمجھتا ہے۔ اس لیے اس میں کسی جلدبازی کا مظاہرہ نہ کریں بلکہ یہ محسوس کریں کہ چونکہ اس کی بنیاد کمزور ہے، اس بنیاد پر جو عمارت کھڑی ہے اس کی کبھی ایک اینٹ گرتی ہے اور کبھی دوسری، کسی ایک اینٹ گرنے کی وجہ سے اس آدمی کو کچھ نہ کہیں۔ عمارت کو دیکھیں کہ اس کی بنیاد درست ہے یا نہیں، ورنہ بنیاد کو درست کرنے کی کوشش کریں۔

مغرب میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں بالعموم منفی تاثر پایا جاتا ہے جو مبنی برحقیقت نہیں۔ مسلمانوں کو مسلسل ’بنیاد پرست، ’دقیانوس‘، ’دہشت گرد‘، انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا جاتا ہے۔ مزید یہ الزام بھی دیا جاتا ہے کہ مسلمان جمہوریت کو ناپسند کرتے ہیں اور دنیا پر شریعت مسلط کرنا چاہتے ہیں، نیز مغرب کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اسی طرح ایک طویل عرصہ سے جہاد کے بارے میں بھی مغرب میں غلط فہمی پائی جاتی ہے۔ ان غلط مفروضوں اور مبہم اور غیرحقیقی تصورات کی بنیاد پر مغرب کی عالمِ اسلام کے بارے میں بنائی جانے والی حکمت عملی مزید غلط فہمیوں کو پھیلانے اور نتیجتاً مسلمانوں کے ساتھ محاذآرائی کی شکل اختیار کرچکی ہے جس سے دنیا کا امن بھی متاثر ہو رہا ہے۔ ان حالات میں یہ سمجھنا بہت ضروری ہوگیا ہے کہ مسلمانوں کا حقیقی موقف کیا ہے، اور ان کا پُرتشدد ردعمل کن وجوہات کی بنا پر سامنے آرہا ہے؟ بالکل اسی طرح  مغرب کی حکمت عملی کا حقیقت پسند اور غیرجانب دار جائزہ، نیز مسائل کے حل کے لیے مبنی برانصاف لائحہ عمل کی ضرورت شدت سے محسوس ہورہی ہے۔ اس پس منظر میں اگر مغربی مفکرین کی طرف سے کوئی معروضی مطالعہ سامنے آئے تو ایسے جائزے کو عالمی امن کے قیام کی کوششوں کی طرف  ایک صحت مند اقدام سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔

راجر ہارڈی نے اپنی کتاب The Muslim Revolt [مسلم بغاوت ] میں سیاسی اسلام کے تناظر میں مذکورہ بالا مسائل کے پیش نظر جامع تجزیہ پیش کیا ہے اور سوڈان، سعودی عرب، ترکی، انڈونیشیا، ملایشیا، پاکستان اور ایران میں درپیش مسائل کا غیر جانب داری سے جائزہ لیا ہے۔ مصنف بی بی سی سے وابستہ ہونے کی وجہ سے مسلم مفکرین، سرگرم لوگوں (activists) اور عوام سے براہِ راست رابطے میں رہا ہے۔ ہارڈی نے بہت سے عصری سیاسی و سماجی مسائل پر مسلم اسکالروں، عوام اور حکمران طبقے کے ردعمل پر مبنی قیمتی معلومات تنقیدی نقطۂ نظر سے پیش کی ہیں۔

’سیاسی اسلام‘ کا سفر اسلام کو بطور معاشرہ اور تہذیب کے طور پر متعارف کرانے کی کوشش سے ہوتا ہے۔ عمومی تاثر کے برعکس ہارڈی یہ محسوس کرتا ہے کہ عربوں نے اصولی طور پر اسلام کو تلوار کے زور پر مسلط نہیں کیا۔ ان کی زبان عربی منصفانہ انداز میں بتدریج پھیلی اور مذہب مزید آہستگی سے اب بھی پھیل رہا ہے۔ یہ صرف ۱۰ویں اور ۱۳ویں صدی عیسوی کا زمانہ ہی نہ تھا جب مشرق وسطیٰ کے باشندوں نے اسلام قبول کیا....عملی مقاصد کے حصول کے لیے ریاست نے ایک خالص عرب مہم جوئی کے بجاے بطور مسلم ریاست کردار ادا کیا۔ (ص ۱۱-۱۲)

ہارڈی مسلمانوں میں عالمی سطح پر پائی جانے والی اسلامی ریاست یا شریعہ بطور قانون کے نفاذ کی خواہش کو جاننے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ اس نے قائداعظم محمد علی جناح کے تصورِ پاکستان کو جس سادگی سے پیش کیا ہے اس پر اسے موردِ الزام نہیں ٹھیرایا جاسکتا۔ اس کے تجزیے میں بھی قائداعظم کے بارے میں عمومی غلط فہمی پائی جاتی ہے، یعنی یہ کہ وہ سیکولر اور لبرل تھے (ص ۵۹)۔ اگرچہ حقیقت یہ ہے کہ قائداعظم نے قیامِ پاکستان سے قبل اور اس کے وجود میں آجانے کے بعد پاکستان کے ایک اسلامی ریاست ہونے کے تصور کو بارہا پیش کیا (دیکھیے: امریکی عوام سے خطاب، ۲۳ فروری ۱۹۴۸ئ)۔ اپنے ایک دوسرے بیان میں انھوں نے ان لوگوں کو متنبہ کیا ہے جنھوں نے مسئلے کو اُلجھانے کی کوشش کی ہے: ’’بلاشبہہ جب ہم اسلام کے بارے میں بات کرتے ہیں تو بہت سے لوگ اس کی تحسین نہیں کرتے۔ اسلام محض اصولوں، روایات اور روحانی طریقوں کا نام نہیں ہے۔ اسلام ہرمسلمان کا ضابطۂ حیات بھی ہے جو اس کی زندگی اور رویے کو ترتیب دیتا ہے، حتیٰ کہ سیاست اور اقتصادیات کو بھی۔ یہ عزت و احترام، اعلیٰ اخلاقی اقدار، صحیح رویے اور سب کے لیے انصاف جیسے اعلیٰ اصولوں پر مبنی ہے‘‘۔

ہارڈی کا یہ نقطۂ نظر کہ مذہبی جماعتیں پارلیمنٹ میں زیادہ نشستیں نہیں جیت سکتیں اور    ان کے ووٹ بنک کا موازنہ جب دیگر سیاسی جماعتوں سے کیا جاتا ہے تو محدود ہے، تنقیدی تجزیہ چاہتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ایک عام ووٹر کو کبھی بھی سیکولر اور ’مذہبی‘ گروہوں کے درمیان انتخاب کا مرحلہ درپیش نہیں آیا۔ حتیٰ کہ وہ جو ’سیکولر‘ کہلاتے ہیں ہمیشہ عوام کی اسلام سے وابستگی کو استعمال کر کے ان کا استحصال کرتے رہے اور ان کی حمایت حاصل کرتے رہے۔ اس کی نمایاں مثال پاکستان پیپلزپارٹی ہے جس کے راہنما ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی جذبات کو سیاسی  طور پر اس وقت استعمال کیا جب انھوں نے جمعہ کی چھٹی کا اعلان کیا، قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دیا اور پاکستان میں شراب کی کھلے عام فروخت اور استعمال پر پابندی عائد کی تھی۔ ۱۹۷۳ء کے دستور میں بھی جو متفقہ طور پر ان کے دورِ امارت میںمنظور کیا گیا، پاکستان کو اسلامی جمہوریہ قرار دیا گیا اور دستوری طور پر ریاست کو اس بات کا قانوناً پابند کیا گیا کہ ۱۰ سال کے اندر اندر پاکستان کا قانونی نظام مکمل طور پر اسلامی کردیا جائے گا۔ان تاریخی حقائق کے تناظر میں جب ضیاء الحق کو پاکستان میں اسلامائزیشن کا علَم بردار (چیمپئن) قرار دیا جاتا ہے تو یہ ان کے ساتھ غیرضروری فیاضی اور  بے جا تحسین کے مترادف ہے۔ (ص۳۱-۶۳)

ہارڈی مسلمانوں کے ساتھ مغرب کے دہرے اخلاقی معیار پر بھی کڑی تنقید کرتا ہے۔   اس کے خیال میں یہ کہنے میں کہ قانون کا احترام کرنے والے اور محنتی مسلمانوں کے ساتھ عام شہریوں کی طرح پیش آیا جاتا ہے، ناگزیر حد تک تضاد پایا جاتا ہے۔ ان کی مساجد کی نگرانی کی جاتی ہے، ان پر دبائو ڈالا جاتا ہے کہ وہ انفرادی اور خاندانی رویوں میں تبدیلی لائیں، اور ریاستی سطح پر   دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر قانون سازی میں سختی کے نتیجے میں شہری آزادیاں متاثر ہورہی ہیں۔ مغرب کے اس دہرے اخلاقی معیار کے نتیجے میں وہ اسلام کا نیا حریف بن گیا ہے۔ ہارڈی کی یہ تصنیف کثیرثقافتی باہمی بقا کا بھی ایک اہم مطالعہ ہے۔ (ص۱۸۵)

مصنف دہشت گردوں اور اسلام پسندوں کو ہدف بنانے کے نام پر بے گناہ شہریوں پر قوت کے استعمال اور ڈرون حملوں کو بھی تنقیدی نظر سے دیکھتا ہے۔ وہ مراد ہوف مین کے نقطۂ نظر کی تائید کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’سرد جنگ کی طرح یہ نئی جنگ بھی ایک نظریاتی جہت رکھتی ہے جوکہ ’سوفٹ پاور‘ (سفارت کاری، انٹیلی جنس، پروپیگنڈا، اقتصادی امداد وغیرہ) جیسے ہتھیاروں کے حساس استعمال کی متقاضی ہے لیکن سرد جنگ اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے درمیان ایک اہم فرق ہے۔ ناٹو اور وارسا پیکٹ کا جب موازنہ کیا جاتا ہے تو امریکا کی لازمی طور پر حکومتوں سے محاذآرائی تھی نہ کہ عوام سے جو اتحادی یا امکانی اتحادی تھے۔ اب امریکا ریڈیکل اسلام کے خلاف جسے ہمیشہ عوام کی تائید حاصل ہوتی ہے، غیرمقبول مسلم حکومتوں کا اتحادی ہے۔ یہ پوری دلجمعی کے ساتھ کسی جدوجہد کو جاری رکھنے کے لیے زیادہ کمزور موقف ہے‘‘۔ (ص ۱۸۷-۱۸۸)

ہارڈی عالمی جہاد کا بھی جائزہ لیتا ہے۔ اس کے نزدیک اس کا سبب انسانیت کی تذلیل پر مبنی روایات ہیں۔ ان روایتوں کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ مغرب___  روایتی فوجی اور اقتصادی طاقت اور عالم گیریت کے نئے ہتھیار سے مسلح___ اسلام کے ساتھ حالت ِ جنگ میں ہے۔ (ص۱۹۱)

مغرب کی جارحیت فلسطین، عراق، افغانستان، کشمیر اور وسطی ایشیا کی جمہوریائوں سے محاذآرائی پر مبنی خطے میں پوری طرح عیاں ہے۔ جہاد کے حمایتی تشدد کو مغربی جارحیت سے نجات کا ذریعہ قرار دیتے ہیں اور اس کا جواز مذہب سے مہیا کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تذلیل سے نجات دلاتا ہے اور ندامت کو  فخر سے اور بے بسی کو قوت میں بدل دیتا ہے (ص ۱۹۲)۔ اس موقف کا اظہار بھرپور تاثر کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ ہارڈی کی راے میں جڑواں ٹاور پر حملہ جہادیوں کے  اس مضبوط موقف کی تسکین کا باعث تھا۔القاعدہ کا نقطۂ نظر مسلم نوجوانوں کو تشخص، نظریہ اور ایک ایسا ذریعہ فراہم کرنا ہے جو انھیں یہ بتاتا ہے کہ وہ کون ہیں، انھیں کیوں اس پر عمل کرنا چاہیے،اور  کیا کرنا چاہیے۔ (ص ۱۹۳)

امریکا کی ۲۰۰۱ء میں افغانستان اور ۲۰۰۳ء میں عراق پر جارحیت نے مغرب کی اسلام کے خلاف عالمی جنگ کے القاعدہ کے موقف کی تصدیق کردی۔ اس کی مزید تائید ابوغرائب جیل میں قیدیوں کی تذلیل کے قصے اور گوانتاناموبے جیل میں قیدیوں کے ساتھ توہین آمیز رویے نے کردی۔ اس سب نے نام نہاد القاعدہ کے حربوں اور حکمت عملی کے لیے جلتی پر تیل کا کام کیا اور امریکی پالیسیوں کی مسلم دنیا میں ناپسندیدگی اور حمایت سے محرومی میں اضافہ کیا۔

ہارڈی کے تجزیے کی روشنی میں ۲۰۰۹ء میں وائٹ ہائوس کی مسلم دنیا سے متعلق حکمت عملی میں ایک واضح تبدیلی نظر آتی ہے، اوّلاً: سی آئی اے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کو تیزی سے اس کے صحیح مقام پر واپس لانے میں زیادہ سرگرمِ عمل دکھائی دیتی ہے۔یہ افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں متعین اہداف پر حملوں پر توجہ مرکوز کر رہی ہے۔ یہ حکمت عملی القاعدہ کو   اپنے دفاع پر مجبور کردیتی ہے۔ دوم: سرکاری بیانات میں ’جہادی‘ یا ’مسلم‘ دنیا کی اصطلاحات سے اجتناب کرتے ہوئے ’دنیا میں پائے جانے والے مسلمان‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔  گو، اس سے حتمی تجزیے کے طور پر امریکا کے مسلمانوں کے بارے میں رویے میں امریکا اور بیرونِ امریکا میں کوئی بڑا تغیر واقع نہیں ہوا، اور نہ مسلمانوں کے امریکا کے مسلمانوں کے مفادات کے خلاف محاذ آرائی اور تصادم کے تصور میں ہی کوئی تبدیلی آئی ہے۔ سوم: ان حالات پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے جو تشدد اور انتہاپسندی میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ چنانچہ غربت کے خاتمے اور شرحِ خواندگی میں اضافے کے پروگراموں نے توجہ حاصل کرلی ہے۔ چہارم: امریکی حکام اور ماہرین پر یہ بات بھی عیاں ہوتی جارہی ہے کہ مسائل کو فوجی قوت کے استعمال سے حل نہیں کیا جاسکتا۔ مسلم دنیا کے پسے ہوئے مسلمانوں کی سماجی، اقتصادی اور سیاسی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی حل بھی تلاش کیا جانا چاہیے۔ پنجم: امریکا کو مسلم دنیا میں اپنی حکمت عملی کے نفاذ کے لیے عالمی دبائو بڑھانے کے لیے دنیا کی دیگر اقوام کو بھی اس میں شریک کرنا چاہیے۔ناٹو افواج کی افغانستان ، عراق اور لیبیا وغیرہ میں براہِ راست مداخلت نام نہاد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کو ایک کثیرقومی جدوجہد بنادیتی ہے۔ ششم: عراق، افغانستان اور پاکستان میں جمہوریت کے فروغ کے لیے غیرمعمولی کاوشیں لازماً کی جانی چاہییں۔ یہ نئی حکمت عملی ایک عام آدمی میں اس یقین کو پختہ کرتی ہے کہ مسلم دنیا میں آمر حکمران، اسلام پسندوں، بنیاد پرستوں اور جہادیوں کو پیدا کرنے کا سبب ہیں، جب کہ امریکا اور اس کے اتحادی آزادی، حریت ، انسانی حقوق اور جمہوریت کے علَم بردار ہیں۔ تاہم کوئی بھی اس زمینی حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ مصر، تیونس، مراکش، یمن وغیرہ کے جابروں اور آمروں کو امریکا کی مسلسل حمایت حاصل رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا اور اس کے مغربی اتحادی جنگ ِ عظیم کے بعد مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں آمر حکمرانوں کی تخلیق کے پیچھے تھے۔

نائن الیون کے بعد نام نہاد لبرل جمہوری معاشرے کے ودیعت کردہ تضادات مزید نمایاں ہوکر سامنے آئے۔ نہ صرف مسلم دنیا میں بلکہ امریکا اور یورپ میں پیدا ہونے اور پلنے بڑھنے والے مسلمانوں کو بھی پہلے سے قائم تصورات کی بنا پر ’ماڈریٹ‘، ’ریڈیکل‘، ’لبرل‘،’دقیانوسی‘یا ’بنیاد پرست‘ قرار دیا گیا۔ اس طرح سے مسلمانوں کے بارے میں قائم کیا گیا تاثر ان کی شخصیت کا حقیقی عکس نہیں ہے۔ یہ عمومی تاثر کہ ’مسلمان جمہوریت سے نفرت‘ کرتے ہیں یا ’مسلمان ہماری آزادی سے نفرت‘ کرتے ہیں، جیساکہ بش نے دعویٰ کیا تھا، اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں حقیقی تصور کو جاننے میں ایک رکاوٹ ثابت ہو رہا ہے۔

لاعلمی یا حقیقی مسائل کو پوری طرح قصداً جانے بغیر کیے جانے والے فیصلے صحیح پالیسی فیصلوں کے نہ ہونے کا باعث بنتے ہیں۔ ہارڈی کا یہ تاثر مبنی برحقیقت ہے: ’’مسلم دنیا کے مرکز سے لے کر موریتانیہ سے مینڈانائو تک بیش تر علاقوں میں مسلمانوں کو بُری حکمرانی کا سامنا ہے،  ان کے انسانی حقوق کا استحصال کیا جا رہا ہے، اور ان کی معاشی ترقی روک دی گئی ہے۔ یہ مسائل حقیقی ہیں اور مغرب کو ان کا براہِ راست ذمہ دار بھی نہیں ٹھیرایا جاسکتا۔ لیکن بیرونی قوتوں کے کردار کو نظرانداز کرنا___ ان کی غوروفکر سے عاری مداخلت، ان کی آمر حکمرانوں پر عنایات، ان کا انسانی حقوق اور جمہوریت کے بارے میں دہرا معیار___  مسئلے کے ایک اہم پہلو سے آنکھیں بند کرلینے کے مترادف ہے‘‘۔ (ص ۲۰۱)

غلط تصورات پر مبنی خارجہ پالیسی کسی بھی ابلاغی خلا کو پُر نہیں کرسکتی، اور نہ باہمی اعتماد ہی کو قائم کرسکتی ہے۔ امریکا اور یورپی حکومتی پالیسیوں کی عالمی سطح پر مسلمانوں کی طرف سے مخالفت کی ایک بڑی وجہ ان کی ناقص ڈھل مل خارجہ پالیسی، اور یہ تصور ہے کہ فوج، طاقت اور دولت ہی مسئلے کا حل ہیں۔ سابق برطانوی خارجہ سیکرٹری ڈگلس ہرڈ یہ کہنے میں پوری طرح حق بجانب تھے: ’’ہم نے غزا، فلوجا اور چیچنیا میں بہت سے لوگوں کو ہلاک کر کے دہشت گردی کو فروغ دیا ہے۔ ان علاقوں میں اپنے رویے سے اسرائیلی، امریکی اور روسی ہر وقت دہشت گردوں کو تیار کر رہے ہیں‘‘۔ (بی بی سی ریڈیو- ۴، ۲۲؍اپریل ۲۰۰۴ئ)

مسلمان ممالک پر طولانی قبضہ اور ڈرون حملے صورت حال کو مزید خراب کرنے کا باعث بنیں گے، جب تک کہ دہشت گردی کو فروغ دینے کا یہ سلسلہ بند نہ کیا جائے، اور تعلیم کے ذریعے مسلمانوں کا ذہن تبدیل کرنے کی نرم پالیسی نہیں اپنائی جاتی۔ ایسے میں محض متاثرہ علاقوں میں سماجی ترقی کے لیے دی جانے والی خیراتی امداد کوئی بہتری نہیں پیدا کرسکتی۔

مغرب اور عالمی مسلم کمیونٹی کے باہمی تعلقات کے مستقبل کا انحصار نام نہاد امن افواج کے انخلا میں ہے جو کہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر عوام پرکھلم کھلا حملوںمیں ملوث ہے۔ یورپ اور امریکا کی اسرائیل، افغانستان، عراق، لیبیا، یمن اور پاکستان کے بارے میں خارجہ پالیسی ایک حقیقی تبدیلی مسلمانوں اور مغرب کے درمیان اعتماد پیدا کرنے کے لیے راہ ہموار کرسکتی ہے۔  یہ مغرب اور بنی نوع انسان کے مفاد میں ہے کہ عالمی امن کے حصول کے لیے اور مسلم دنیا میں مجروح عوام کے احترام اور حقوق کی بحالی کے لیے مزاحمت اور تصادم کو کم کرے۔

زیرتبصرہ کتاب امریکا اور اس کے اتحادیوں کی عالم اسلام کے بارے میں خارجہ پالیسی میں مثالی تبدیلی تجویز کرتی ہے۔ مغرب کی جمہوریت، آزادی (لبرلا ئزیشن) اور عالم گیریت کے نام پر مسلم دنیا کے معاملات میں بلاجواز مداخلت مسلمانوں کو مزید برگشتہ کرے گی اور پُرامن بقاے باہمی کے امکانات کو مزید کم کرے گی۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی مسلم دنیا میں غیرمقبول،    کرپٹ آمر حکومتوں کی خفیہ یا کھلی حمایت اور سرپرستی بھی بند ہونی چاہیے۔ اگر ہم دنیا میں ایک پُرامن عالمی نظام چاہتے ہیں تو مسلمانوں کے ذہن اور نفسیات، اسلامی اقدار اور تمدن کو سمجھنے کے لیے ایک مخلصانہ سوچ کو سب سے پہلے سامنے آنا چاہیے۔ اس لیے کہ ’’ایک نئی سوچ کے بغیر جو کہ اسلام کے تصورِ حیات اور عالمِ اسلام کے عدم اطمینان کی وجوہات پر یقینی گرفت رکھتی ہو یہ ممکن نہیں۔ دوسری صورت میں مسلمانوں کی بغاوت صدیوں تک جاری رہے گی‘‘ (ص ۲۰۲)۔ (تبصرہ: مسلم ورلڈ بک ریویو، برطانیہ، جلد ۳۲، شمارہ ۲، ۲۰۱۲ئ۔ ترجمہ: امجد عباسی)

The Muslim Revolt: A Journey Through Political Islam )

راجر ہارڈی، ناشر: C.Hurst & Co ، لندن، ۲۰۱۰ئ، ISBN: 9781849040327، صفحات: ۲۳۹)

اقبال کے مردِ مومن کو اگر مجسم دیکھنا ہو تو ٹیپو سلطان شہید کو دیکھا جاسکتا ہے۔ برعظیم پاک وہند کی تاریخ میں ٹیپو سلطان(۱۷۵۱-۱۷۹۹ئ) کو ایک لازوال اہمیت حاصل ہے۔ دنیا کی تاریخ بمشکل اس اولوالعزم سلطان کی نظیر پیش کر سکے گی۔ٹیپو سلطان نہ صرف ایک مردِ مجاہد تھا،بلکہ حقیقی معنوں میں اقبال کا ایک مردِ مومن تھا۔ عالم فاضل، عابد و زاہد، بہترین سپہ سالار، بہترین منتظم ، تجربہ کار سیاست دان ، غیر معمولی بصیرت رکھنے والا عوامی رہنما اور قائد۔  

جس وقت عنانِ حکومت ٹیپو سلطان کے ہاتھ آئی تو اس نے دو اہم کام کیے۔ ایک   جانب اپنی پوری توجہ اتحاد بین المسلمین اور اتحاد بین الاقوام ہند پر مرکوز کی ۔دوسری جانب ملک کی صنعت و حرفت پر پوری توجہ دی۔ سلطان کے یہی عزائم و ارادے تھے جس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو سلطان کا مخالف بنادیا، اور اسی مخالفت نے اس کو تمام عمر جنگوں میں مصروف رکھا۔ اس کے باوجود سلطنتِ خداداد میسور نے صنعت و حرفت اور دیگر فنون میں جو ترقی کی وہ میسور کو کبھی حاصل نہ ہوسکی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی جان چکی تھی کہ اگر ٹیپو سلطان اپنے ارادوں میں کامیاب ہوگیا تو پھر ہندستان پر ہرگز قبضہ نہیں ہوسکتا۔(محمود بنگلوری، تاریخ سلطنت خداد (میسور)ص ۱۴-۱۵)

ٹیپوسلطان کے خطرے کو ختم کرنے کے لیے انگریز، نظام اور مرہٹے سب متحد ہوگئے۔ انگریز اسے ہندستان پر اپنے اقتدارِ کامل میں سب سے بڑی، بلکہ واحد رکاوٹ سمجھتے تھے     (اُردو دائرہ معارف اسلامیہ، دانش گاہِ پنجاب، لاہور، ج۶، ص ۹۸۳)۔ اس اتحاد ثلاثہ کے مقصد کو مزید کامیاب بنانے اور راے عامہ کی اخلاقی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے انگریزوں نے ٹیپو سلطان کی مفروضہ چیرہ دستیوں کو اس انداز میں دور تک پہنچادیا کہ خود اپنے بھی اس سے نفرت کرنے لگے ۔ فورٹ ولیم کی دیواروں پر کھڑے ہوکر اعلان کردیا گیا کہ ٹیپوسلطان سفاکی میں چنگیز خان اور ہلاکو سے کہیں زیادہ ہے۔(باری علیگ، کمپنی کی حکومت، طیب پبلشرز، لاہور، ص ۱۲۹ )

  ٹیپو سلطان کی شہادت اور سلطنت خداداد کے زوال کے بعد انگریزوں کے مقابلے کے لیے کوئی بڑی طاقت نہیں رہ گئی تھی۔ ان کے توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں ٹیپو سلطان ہی سب سے بڑی رکاوٹ تھا۔ اس کی شہاد ت کے بعد ہی ان کی زبان سے پہلی دفعہ یہ معنی خیز جملہ  نکلا کہ  ’’آج سے ہندستان ہمارا ہے۔‘‘ (محمد الیاس ندوی، سیرت ٹیپو سلطان شہید، ص ۴۲۶-۴۲۷)

  • انتظامِ ریاست: ضروری ہے کہ ٹیپو سلطان کے عہدِ حکومت اور انتظامِ ریاست کا بغور مطالعہ کیا جائے۔ ٹیپو سلطان نے اپنے ۱۷ سالہ عہد حکومت (۱۷۸۲-۱۷۹۹ئ) میں زندگی کا کوئی لمحہ اطمینا ن اور چین سے نہیں گزارا۔ یہ سارا عرصہ جنگی معرکوں میں گزرا، جو مہلت ملی اس میں وہ اپنے زیر اقتدار علاقوں میں زراعت کی ترقی، آب رسانی کی سہولتوں میں اضافے ، نہروں اور تالابوں اور سڑکوں اور پلوں، بندرگاہوں اور نئے شہروں کی تعمیر ، چھوٹی بڑی صنعتوں کی ترقی، فوجی و انتظامی اصلاحات اور بیرون ملک و پڑوسی حکمرانوں سے سفارتی روابط اور داخلی معاملات پر گفت و شنید جیسے اہم انتظامی و تعمیراتی امور میں الجھا رہا۔ ساتھ ہی ساتھ میدان جنگ کے نقشوں کو مرتب کرتا، لڑائی کی منصوبہ بندی کرتا اور اپنے عمال حکومت ، فوجی سالاروں اور قلعہ داروںکو ہدایات جاری کرتا۔ اس کی شہادت کے بعد اس کے ذخیرے سے ملنے والے چار ہزار سے زائد خطوط کے موضوعات و مندرجات اس کی ایسی کارگزاریوں کا واضح ثبوت ہیں۔(معین الدین عقیل، ٹیپو سلطان کی علمی زندگی، مشمولہ: ٹیپو سلطا ن، مرتبہ: محمود خاور، ٹیپوسلطان میموریل سوسائٹی، کراچی، ص ۷)

 حیرت ہوتی ہے کہ جس فرماں رو ا کی زندگی کا ایک ایک لمحہ شہزادگی سے شہادت تک مسلسل خوف ناک لڑائیوں میں گزرا، اسے ان معاملات پر توجہ دینے کا وقت کیوں کر ملتا تھا۔ حق یہ ہے کہ سلطان حکومت کو خدا کی طرف سے امانت سمجھتا تھا اور اس امانت کا حق ادا کرنے کی جیسی عملی مثال اس نے پیش کی، اس کی نظیریں بہت کم ملیں گی۔(اُردو دائرہ معارف اسلامیہ، ج۶ ، ص ۹۹۴)

ٹیپو سلطان نے تخت نشینی کے بعداپنی رعایا کے نام جو پہلا سرکاری فرمان جاری کیا     اس میں بلاتفریقِ مذہب و ملت اپنی رعایا کی اخلاقی اصلاح، ان کی خوشحالی ، معاشی و سیاسی ترقی، عدل و انصاف ، جاگیرداروں اور زمین داروں کے ظلم وستم سے نجات ، مذہبی و لسانی و طبقاتی عصبیت کا خاتمہ ، اور دفاع وطن کے لیے جان کی بازی لگادینے کا عزم کیا (محمد الیاس ندوی، سیرت ٹیپو سلطان شہید،ص ۱۸۰)۔ ملک کے قدیم طرز حکمرانی کو یکسر بدل دیا۔سلطنت کے امور میں عوام کو زیادہ سے زیادہ حصہ دینے کے لیے کوشاں رہا۔ اس نے جمہوری تقاضوں کے پیش نظر ایک مجلس شوریٰ قائم کی جس کا نام ’مجلس غم نباشد‘تھا۔ 

ٹیپوسلطان نے تخت نشین ہونے کے بعد دو نئے آئین بنائے۔ ایک فوج کے لیے جس کا نام ’فتح المجاہدین‘ تھا، اور دوسرا عوام کے لیے جس کا نام ’ملکی آئین ‘ تھا (محمود بنگلوری،ٹیپو سلطان، لاہور، ص۷۶)۔ سرنگا پٹم میں جامع الامور کے نام سے ایک یونی ورسٹی قائم کی جہاں بیک وقت دینی و دنیاوی دونوں طرح کی تعلیم دی جاتی تھی ۔ حکومت کی طرف سے مختلف علوم و فنون کے ماہرین کو بھاری مشاہرے پر یہاں مقرر کیا گیا تھا ۔( سیرت ٹیپو سلطان شہید،ص ۲۲۸ )

ٹیپو سلطان کو جدت و اختراعات کا خاص شوق تھا۔کئی شہروں کے نام بدل ڈالے، مثلاً بنگلور کا نام دارالسرور، کالی کٹ کا اسلام آباد، میسور کا نظر آباد ، اور مینگلور کا جمال آباد رکھا۔ وزن اور پیمانوں کے نام بھی تبدیل کیے۔نیا روپیہ جاری کیااور مختلف نسبتوں سے ان کے نام رکھے،  مثلاً احمدی، صدیقی، فاروقی، حیدری وغیرہ(اُردو دائرہ معارف اسلامیہ، ج۶، ص ۹۸۶)۔ نئی وضع کی بندوقیں اور توپیں بنوائیںاور ایسی ڈھالیں تیار کرائیں جن پر تیر یا گولی کا اثر نہیں ہوتا تھا(ایضاً، ص ۹۹۳)۔ جرائم کی بیخ کنی کے لیے ایک نئے طرز کی سزاسوچی۔ ہر مجرم کو اس کے جرم کی مناسبت سے ایک درخت اگانے کا حکم دیا۔ معمولی جرم کے لیے ایسا درخت تجویز پاتا جس کے لیے کم محنت و مہلت درکار ہوتی اور سنگین جرم کے لیے ایسا درخت اگانے کی ذمہ داری، جس کے لیے کافی محنت و مہلت درکار ہوتی۔ سلطان معمولی سے معمولی مسئلے میں بھی پور ی توجہ ظاہر کرتا تھا۔ علوم و فنون ، طب ، تجارت، معاملات مذہبی ، تعمیر، فوجی محکمات اور بے شمار دوسرے امور پر سلطان یکساں مہارت سے قطعی راے دیتا تھا۔(سید امجد علی اشہری ، ٹیپو سلطان، دہلی، ص ۱۵۲)

 ہندستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ٹیپو سلطان نے مردم شماری کرائی۔پنچایت راج کی بنیاد رکھی۔ اسی کے حکم سے فرانسیسی ماہرین نے پانی سے چلنے والا ایک ایسا انجن تیار کیا جس سے توپوں میں بآسانی سوراخ کیا جاسکتا تھا۔ دنیا میں میزائیل ایجاد کرنے کا سہرا بھی اسی کے سر تھا، حتیٰ کہ امریکیوں نے بھی اس کو راکٹ کے بانیوںمیں شمار کیا ہے۔ وہ جب بھی اپنی سلطنت کے کسی کارخانے میں جاتا تو نئے طرز یا جدید انداز کی کوئی چیز بنانے کا حکم ضرور دیتا۔(الیاس ندوی، سیرت ٹیپو سلطان شہید،ص ۵۲۵ )

  • فوجی اصلاحات: سلطان کی بّری اور بحری فوجوں کا انتظام بھی قابل داد تھا۔ فوج کے محکمے میں ۱۱بڑے شعبے تھے۔ سلطنت کے کُل رقبے کو ۲۲ فوجی اضلاع میں تقسیم کیا گیا تھا (باری، کمپنی کی حکومت،ص ۱۸۶)۔ اس نے ۱۷۹۶ء میں امراء البحر کی ایک جماعت قائم کی جس میں ۱۱؍ اراکین تھے۔ ان اراکین کا لقب میریم رکھا گیا تھا۔ ان اراکین کے ماتحت ۳۰؍ امیر البحر ہوتے تھے۔ بحری فوج کے متعلق ۲۰جنگی جہاز کلاں اور ۲۰چھوٹے جنگی جہاز تھے۔ سلطان کو فن جہاز سازی سے بھی شغف تھا۔ وہ جہازوں کے نقشے خود تیار کرتا تھا (اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ج ۶، ص ۹۹۴)۔ جہازوں کے پیندوں کے واسطے ہدایت کی گئی تھی کہ تانبے کے پیندے لگائے جائیں،تاکہ چٹانوں سے ٹکرانے کی صورت میں نقصان نہ پہنچے۔ جہاز سازی کے لیے لکڑی کا جنگل بھی نامزد کردیا گیا۔ اور سب مدارج کے افسروں کی تنخواہوں کی بھی صراحت کردی گئی (سید امجد علی اشہری ،ٹیپو سلطان،ص۱۵۴۔۱۵۵)۔ فوجیوںکی باقاعدہ تربیت کے لیے خصوصی مراکز قائم کیے گئے اور پوری فوج کو از سر نو منظم کیا گیا۔(سیرت ٹیپو سلطان شہید،ص ۲۹۰)

ٹیپو سلطان نے ہر ہر شہر، قصبے اور قلعے کے چار دروازے مقرر کیے، جہاں پہرے دار مقرر کیے کہ ملک میںبغیر اطلاع و اجازت کوئی آنے نہ پائے اور ہر مقام کی رُودادپر فوری اطلاع کا انتظام کیا گیا(سید امجد علی اشہری ، ٹیپو سلطان،ص۷۶)۔ جس مقام پر چوری ہوجاتی، وہاں کے پولیس افسر کو اس کا ذمہ دار قرار دیا جاتا۔ اگر مجرم گرفتار نہ ہوسکتا تو پولیس افسران کی تنخواہ سے اس کی تلافی کی جاتی۔ ان مقامات پر جہاں ڈاکوئوں کے حملے کا خطرہ رہتا تھا ، وہاں کے رہنے والوں کو آتشیں اسلحہ رکھنے کی عام اجازت دی جاتی۔عدل و انصاف کا یہ عالم تھا کہ ہر شہر میں قاضی اور ہر گائوں میں پنچائت مقدموں کا فیصلہ کرتی۔ اگر فریقین میں سے کسی ایک کو ابتدائی عدالتوں کے فیصلہ پر شک ہوتا تو مقدمہ صدر عدالت (ہائی کورٹ) میں دائر کیا جاتا۔ سلطان نے افسرانِ ضلع کے نام حکم جاری کررکھا تھا کہ وہ ہر سال سرنگا پٹم (دارالحکومت) میں جمع ہوکر انتظامی امور کے متعلق مشورہ کیا کریں۔(باری علیگ، کمپنی کی حکومت،ص ۱۸۵- ۱۸۶)

ٹیپو سلطان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ اردو اخبار کا بانی تھا۔ ۱۷۹۴ء میں اس نے اپنی ذاتی نگرانی و سرپرستی میں ایک ہفت روزہ جاری کیا ۔ اس میں سلطنت کے مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے سپاہیوں کے نام سلطان کی ہدایات شائع ہوتی تھیں۔ یہ ہفت روزہ سلطان کی شہادت تک مسلسل پانچ سال پابندی سے شائع ہوتا رہا۔(سیرت ٹیپو سلطان شہید، ص۲۹۵)

  • معاشرتی و معاشی اصلاحات: ٹیپو سلطان کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ اس نے غلاموں اور لڑکیوں کی خریدو فروخت بالکل بند کردی۔ ان کے لیے یتیم خانے بنائے۔بعض اخلاقی جرائم کی بیخ کنی کے لیے مندروں میں لڑکیوں کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا(ٹیپو سلطان، ص ۷۶)۔  زمین داریوں کا خاتمہ کرکے مزدوروں او ر کسانوں کو زمین کا مالک قرار دیا۔زمین کو رعایا کی ملکیت قرار دیا گیا، زمین پر کسانوں کا دوامی قبضہ تسلیم کرلیا گیا۔ زمین صرف اس کی تھی جو ہل چلائے۔  ٹیپو سلطان نے احکام جاری کردیے تھے کہ جو شخص زمین کے لیے درخواست کرے، اسے اس کی ضرورت کے مطابق زمین مفت دی جائے(کمپنی کی حکومت، ص۱۸۴)۔ تجارت کی توسیع کے لیے بیرونی ملکوں سے روابط پیدا کیے۔ دُور دُور سے کاریگر بلا کر اپنے ہاں ہر قسم کی صنعتیں جاری کیں۔ دوسرے ممالک سے ریشم کے کیڑے منگوا کر ان کی پرورش و پرداخت کا طریقہ اپنی رعایا کو سکھایا۔ اس کے علاوہ جواہر تراشی اور اسلحہ سازی کے کارخانے بھی قائم کیے (اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ج۶، ص ۹۹۴)۔ ان کارخانوں میں گھڑی سازی اور قینچیوں کا کام بھی ہوتا تھا ۔ ان کارخانوں کے قیام سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ضرورت کی ہر چیز اب سلطنت میں تیار ہونے لگی۔ درآمدات پر انحصار کم ہوگیا اور سلطنت میں تیار کردہ چیزیں برآمد ہونے لگیں۔ دوسری طرف ہزاروں بے روزگاروں کے مسائل بھی اس سے حل ہوئے۔(سیرت ٹیپو سلطان شہید،ص ۲۳۰)

اقتصادی مسائل پر قابو پانے کے بعدٹیپو سلطان نے ایک نئی تجارتی پالیسی وضع کی جس کے تحت بیرونی ممالک ایران، ترکی اور حجاز وغیرہ سے مسلم تاجروں کو سلطنت خداداد میںآکر تجارت کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے خصوصی رعایتوں سے نوازا گیا۔ خود حکومت کی زیرسرپرستی ایک بڑی تجارتی کمپنی بھی قائم کی گئی جس میں اس کی رعایا میں سے ہر کوئی بلاتفریق مذہب اپنا سرمایہ لگا کر نفع و نقصان کے اسلامی اصولوں کی بنیاد پر شریک ہوسکتا تھا(ایضاً، ص ۲۸۷)۔ وسط ایشیائی ریاست آرمینیہ سے غیر ملکی تاجروں کو میسور کی حدود میں لاکر بسایا گیا۔میسور سامان تجارت لانے والے چینی سوداگروں کو ملیبار کے ڈاکو تنگ کرتے تھے۔ سلطان نے ان کی حفاظت کے لیے کئی جہاز مقرر کردیے(ایضاً، ص ۵۶۴)۔ سلطان کی ان کوششوں کے نتیجے میں سلطنت خداداد میں تجارت اور صنعت و حرفت نے بہت زیادہ ترقی کی۔

 سلطان نے جہاں جاگیرداری کو ختم کیا ، وہاں سرمایہ داری کے خاتمے کے لیے بھی اقدامات کیے۔ تمام سلطنت میں، رعایا، تاجروں اور کاشت کاروں کے لیے بنک جاری کیے۔ ان میں خاص بات یہ تھی کہ غریب طبقے اور چھوٹے سرمایہ داروں کو زیادہ منافع دیا جاتا تھا(کمپنی کی حکومت، ص۱۸۶)۔ ان تمام اصلاحات اور سلطان کی جدوجہد کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندستان کے تمام علاقوں میں میسور سب سے زیادہ خوش حال اور سرسبزو شاداب علاقہ ہوگیا۔ میسور کی تیسری جنگ میں انگریز جب اس علاقے میںداخل ہوئے تو ان کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ (ٹیپو سلطان، ص ۷۷)

  • عظمت کا اعتراف:عربی کا ایک مقولہ ہے کہ خوبی وہ ہے جس کا اعتراف دشمن کرے۔ ٹیپو سلطان سے انگریزوں کے بے انتہا تعصب کے باوجود کیپٹن لٹل جس نے میسور کی تیسری جنگ میں نمایاں حصہ لیا تھا، اپنی یادداشتوں میں لکھتا ہے: ’’ٹیپو کے متعلق بہت سی افواہیں سنی جاتی تھیں کہ وہ ایک جابر و ظالم حکمران ہے جس کی وجہ سے اس کی تمام رعایا اس سے بے زار ہے۔ لیکن جب ہم اس کے ملک میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ صنعت و حرفت کی روز افزوں ترقی کی وجہ سے نئے نئے شہر آباد ہوئے اور ہوتے جارہے ہیں۔ رعایا اپنے کاموں میں مصروف و منہمک ہے۔ زمین کا کوئی حصہ بھی بنجر نظر نہیں آتا۔ قابل کاشت زمین جس قدر بھی مل سکتی ہے ا س پر کھیتیاں لہرارہی ہیں۔ ایک انچ زمین بھی بے کار نہیں پائی گئی۔ رعایا اورفوج کے دل میں بادشاہ کا احترام اور محبت بدرجہ اتم موجود ہے۔ فوج کی تنظیم اور اس کے ہتھیاروں کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ یورپ کے کسی مہذب ملک کی فوج سے کسی حالت میں پیچھے نہیں ہے۔‘‘ (ایضاً، ص ۷۷-۷۸)

رفت سلطاں زیں سراے ہفت روز

نوبتِ او در دکن باقی ہنوز

(جاوید نامہ)

(سلطان شہیدؒ اس ہفت روزہ دنیا سے جاچکا ہے، مگر دکن میں اس کے مرقد پر اب تک نوبت بجتی ہے)

ایک زمانہ تھا کہ تقسیم ہند سے قبل کسی نوجوان کے لیے سب سے اعلیٰ اور قابل رشک مقام آئی سی ایس (انڈین سول سروس) میں داخل ہونا تھا۔ یہی وہ طبقہ تھا جو دراصل ہندستان پر حکومت کررہا تھا۔علامہ عبداللہ یوسف علی اور مولانا محمد علی جوہر تقریباً ایک دوسرے کے ہمعصر تھے۔ مولانا محمد علی جوہر کی بھی خواہش تھی کہ وہ آئی سی ایس آفیسر بنیں لیکن وہ امتحان میں کامیاب نہیں ہوئے۔ حال ہی میں شائع ہونے والی عبداللہ یوسف علی کی سوانح حیات (Searching for Solace) کے مصنف ایم اے شریف نے اس بارے میں لکھاہے : ’’وجہ یہ تھی کہ انڈین ہسٹری جیسے مضامین کے پرچے میں ایسے سوال شامل کیے جاتے تھے جن سے امیدواروں کے ذہنی رویوں اور جذباتی تعلق کا اندازہ لگایا جاسکے۔ اس طرح امیدواروں کے بارے میں یہ جانچنے کا موقع مل جاتا تھا کہ آیا وہ برطانوی راج کے وفادار بن سکتے ہیں یا نہیں، مثلاً ’’بتائیے آپ ٹیپو سلطان کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟‘‘ جیسا سوال، جو برٹش انڈیا کی ہسٹری کے پرچہ میں۱۸۹۵ء میں پوچھا گیا تھا ، بڑی آسانی سے یہ بات سامنے لے آتا تھا کہ امتحان میں شریک امیدوار کس حد تک اس مسلم حکمران کی ان کارروائیوں کی تائید کرتا ہے جو اس نے برطانیہ کے خلاف کی تھیں‘‘۔(سکون کی تلاش مترجم: زبیر بن عمر ، ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد، ص۵۰ )

درج بالا اقتباس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت برطانیہ ٹیپو سلطان سے کس حد تک خوف زدہ تھی۔ ساتھ ہی حکومت برطانیہ کے تعصب اور تنگ نظری کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے۔ یہ دل چسپ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ ٹیپو سلطان کی شخصیت وہ پیمانہ ہے جس پر انگریز اپنے وفاداروں کا انتخاب کیا کرتے تھے۔دوستوں اور دشمنوں کو جانچا کرتے تھے۔کسی نے خوب کہا ہے کہ کچھ برگزیدہ شہید ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی آزمایش  ، عقوبتِ مطّہرہ اور شہادتِ عظمیٰ ان کی موت کے ساتھ ختم نہیں ہوتی ۔ربِّ جلیل انھیں شہادتِ جاریہ کی سعادت سے سرفراز فرماتا ہے۔  

 

مقالہ نگار شعبہ اسلامی تاریخ، جامعہ کراچی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ ای-میل: sascom7@yahoo.com

ریاست کی اولین ذمہ داریوں میںسے ایک اہم ذمہ داری افراد کا تحفظ ا ور ا ن کی آزادی کو  یقینی بنانا ہے، جس کے لیے افراد کے بنیادی حقوق کا لحاظ رکھتے ہوئے قوانین بنائے جاتے ہیں۔   یہ قوانین معاشرے میں افرادکے اعمال کو منضبط کرتے ہیں۔

 خاندان معاشرے کی بنیادی اکائی ہے۔اس کے کسی بھی فرد کے حقوق و فرائض میں کمی بیشی معاشرے کے توازن کو بگاڑ دیتی ہے۔ کسی ایک کے بے جا مضبوط ہونے سے دوسرے دو ستون کمزور ہو جاتے ہیں، یا یوں کہیں کہ کسی ایک کے حقوق کی زیادتی دوسری دو اکائیوں کے حقوق کی پامالی کی صورت میں نظر آتی ہے ۔اگر مرد کے حقوق میں بے جا اضافہ کیا جائے یا اسے بے حد مضبوط بنا دیا جائے تو وہ عورت کے حقوق اور اولاد کے حقوق کی پامالی کا موجب بنتا ہے ۔ اسی طرح اگر عورت کے حقوق میں بے جا اضافہ کیا جائے تو اس کے نتیجے میں پورا گھرانہ متاثر ہوتا ہے۔ جیساکہ مغرب میں اس قسم کی قانون سازی کے نتیجے میں خاندان ہی انتشار سے دوچار ہوگیا ہے، اور  عائلی زندگی عذاب بن گئی ہے۔

کسی بھی معاشرے میں گھر ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے ،جس میں افراد کے درمیان تعلقات کا خوش گوار ہونا معاشرے کے عمومی رویوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اسی لیے ہمارے دین میں گھر کے اندر اس کے انتظام و انصرام کو چلانے کے لیے حقوق و فرائض کا ایک حسین امتزاج   پایا جاتا ہے۔ نکاح کے ذریعے مرد اور عورت کے درمیان حقوق و فرائض کے اس بنیادی یونٹ کو مستحکم بنانے کے لیے ان کی ذمہ داریوں کو بڑی خوب صورتی کے ساتھ طے کر دیا گیا ہے۔   اگراس میں کوئی ایک فریق اپنے دائرہ کار سے بڑھ کر دوسرے فریق کے دائرے میں مداخلت کرتا ہے یا دوسرے فریق کو فرائض کی ادایگی کے لیے جبراً دبائو ڈالتا ہے، تو اس صورت میں تشدد کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ پاکستانی نمایندگان پارلیمنٹ نے اس بات کو محسوس کیا کہ وہ خواتین جو گھروں کے اندر تشددکا شکار ہیں،ان کے تحفظ کے لیے بھی قوانین مرتب کیے جائیں۔ ۲۰۰۸ء اور ۲۰۰۹ء میں مسلسل گھریلو تشددکے خاتمے کے لیے بل پیش کیے گئے ہیں،جن کو مارچ ۲۰۱۲میں قومی اسمبلی نے بالآخر پاس کیا ،جس کی بہت سی شقیں توجہ طلب ہیں۔

  • دائرہ کار: اس قانون کے تحت ایک چھت کے نیچے رہنے والوں کے درمیان خاندانی تعلقات یا کسی بھی قسم کے ایسے تعلقات جو گھر یلو ملازمت یا خاندان کے درمیان رہتے ہوئے وجود میں آتے ہیں،زیرِ بحث لائے گئے ہیں ۔

ان میں پیش آنے والے اختلافات اور زیادتیوں کو نہایت باریکی کے ساتھ قانونی گرفت میں لایا گیا ہے ۔یہ ایک طویل اور مفصل قانون ہے جس کی ابتدا ہی میں اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ اس کو اردو اور دیگر مقامی زبانو ں میں وسیع پیمانے پر مشتہر کیا جائے گا ۔اس قانون کو جو چیز دوسرے عام قوانین سے برتر بنا رہی ہے، وہ اس کا دائرہ کار اور وسعت ہے ۔ہمارے ملک میں بنے ہوئے بہت سے اہم قوانین کو بھی یہ اہمیت نہیں دی گئی کہ انھیں عوامی سطح پر آگاہی دینے کے لائق سمجھا گیا ہو۔

اس قانون کی بہت اہم بات یہ ہے کہ اس کو National Commission On Status Of Women  (NCSW) کے تحت کر دیا گیا ہے جو وقتاً فوقتاً قوانین پر نظرثانی، ترامیم، جائزہ اور تحقیق کرتا رہے گا ۔اس وجہ سے اس قانون میں وقتاً فوقتاً وسعت پذیری کی  گنجایش ہمیشہ موجود رہے گی۔نیزNCSW تشدد کے واقعات کی شکایات وصول کر سکتا ہے اور خصوصی اختیار (suo-moto)کی بنا پر اقدام اُٹھا سکتا ہے۔ اس بل کی شق نمبر ۴ گھریلو تشدد کی وضاحت کرتی ہے۔ جس میں مجموعہ تعزیرات پاکستان ۱۸۰۷ (PPC) کی بہت سی شقوں کا اطلاق  گھریلو تعلقات پر کر دیا گیا ہے۔ اگر یہ بل قانون نہیں بھی بنتا، تب بھی گھر میں ہونے والے تشدد یا جرائم کو تعزیراتِ پاکستان کے زمرے میں لا کر شکایت درج کرائی جا سکتی ہے،جب کہ  اس کے ذریعے گھریلو نا چاقیاں جرائم کے زمرے میں آئیں گی۔

شق ۴ میں ق k (۱) اور (۱۱) ہر اس عمل کو باعثِ تکلیف قرار دے رہا ہے جو کسی شخص کی خواہشات کے حصول میں رکاوٹ ہو ۔کوئی ایسا فرد جو اس کی نگرانی اس کی مرضی کے بغیر کر رہا ہے اس کو بھی تکلیف دہ امر کے زمرے میں لایا جا سکتا ہے۔ اس طرح معاشرہ بالکل مغربی طرز پر استوار ہو جائے گا جہاں باپ ، بھائی ، بیٹا ،شوہر یا کوئی اور خاندان کا ذمہ دار نگرانی یا نگہبانی کے فرائض انجام دے تو اس کے اس عمل کو بے جا مداخلت اور باعثِ تکلیف امر قرار دیا جائے گا ۔ مثلاً: اگر کسی کی بہن بے راہ روی کا شکار ہے اور کسی غلط راہ پر چل رہی ہے اور گھر سے باہر کسی نا محرم سے مل رہی ہے اور باپ یا بھائی اس کو روکنا چاہ رہے ہیں، تو یہ بھی جرم بن جا ئے گا ۔

کوئی خاتون غیر اخلاقی، غیر مذہبی ،غیر شرعی فعل کی مرتکب ہو رہی ہو، یا ایسے افراد کے ساتھ میل جول یا روابط قائم کر رہی ہے جو اس کے لیے گمراہ کن ہو، ایسی صورت میں بھی گھر کے سرپرست افراد کی طرف سے کیے گئے افعال کو قانونی گرفت میں لایا جا سکے گا۔

شق ۴ مزید یہ وضاحت کرتی ہے کہ ہر وہ عمل تشدد کے زمرے میں آئے گا جو ارادی طور پر کیا جائے ۔اس میں دل چسپ پہلو یہ ہے کہ سب سے زیادہ گھریلو تشدد کا شکار وہ خواتین ہیں،  جن کے گھر کے مرد یا سرپرست کسی بھی طرح کے نشے کے عادی ہیں ۔لیکن یہ بل ایسے تمام افراد کو جو نشے کا شکار ہیں اس سے مستثنیٰ قرار دیتا ہے۔ اس شق کی وجہ سے گھریلو ملازمین جن میں خواتین کی اکثریت پائی جاتی ہے، یا جن کے شوہر نشے کے عادی ہیں، یا وہ ملازم جو زمین داروں، وڈیروں، جاگیر داروں کے زیر دست ہیں ان پر کیے گئے تشدد کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے جس سے ایک بڑا طبقہ انصاف کی فراہمی سے محروم رہ جائے گا ۔ زیادتی کا شکار فرد کہیں سے معاشی فائدہ حاصل کر سکتا ہو ، تو اس کی راہ میں رکاوٹ بننا معاشی استحصال کے زمرے میں آئے گا۔ اگر کوئی خاتون ایسی جگہ پر نوکری یا کوئی ایسا پیشہ اختیار کرنا چاہ رہی ہو جو ہماری مذہبی یا معاشرتی اقدار کے منافی ہو، تو اس کے گھر کے افراد اس کو اس عمل سے روکنے کے مجاز نہیں رہیںگے کیونکہ یہ قانون ان کے آڑے  آئے گا۔ تضحیک ،جسمانی تکلیف کی دھمکی کو بھی قانونی گرفت میں لایا گیا ہے ۔ اصلاح کے لیے تین اقدامات عموماً اپنائے جاتے ہیں: نصیحت ، سرزنش اور سزا ،لیکن یہاں ان تمام اقدامات کو  انجام دینے سے روکا گیا ہے ۔

شق ۵ کہتی ہے کہ ’’گھریلو تشدد کی شکایات سیدھی کورٹ میں جمع کرائی جائیںگی، جو متاثرہ شخص خودیا تحریراً کسی کو یہ اختیار دے کر عدالت میں جمع کرا سکتا ہے‘‘ ۔ یہاںیہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خانگی تشدد کا شکار ایک کثیر طبقہ جو کہ دیہی علاقوں میں پایا جاتا ہے اور نا خواندہ ہے، کیا وہ کسی کو تحریراً یہ اختیار دے سکتا ہے؟ خود کورٹ تک رسائی اس کے لیے ایک طویل اور وقت طلب عمل نہیں؟ اس صورت حال سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس سے استفادہ محض بڑے شہروں میں رہنے والی ملازمت پیشہ خواتین ہی کر سکتی ہیں ۔ ناخواندہ عورت اس سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتی۔ دوسرا یہ کہ  گھریلو تشدد کی شکایت سیدھی کورٹ میں درج ہو تو آیا یہ عمل معاملے کو سلجھانے کا باعث بنے گا یا اس کے نتیجے میں رشتوں کا خاتمہ ہوگا؟

  • قانون کے نفاذ کا طریق کار: اس میں جو سب سے زیادہ مضحکہ خیز پہلو ہے وہ  عمل داری کا طریقۂ کار ہے۔ کورٹ کو تین دن میں شکایت پر کیس کی سماعت کرنی ہے اور ایک مہینے میں نمٹا دینا ہے۔یہ ہمارے عدالتی نظام کے ساتھ مذاق ہے جو کہ پہلے ہی مقدمات کی وجہ سے شدید دبائو کا شکار ہے۔ ان مقدمات کے اضافے کے باعث دیگر مقدمات التوا کا شکار ہو جائیں گے، جب کہ ایک جج کے پاس ایک دن میں اوسطاً ڈیڑھ سو مقدمے موجود ہوتے ہیں ۔

اس کے ذریعے سے گھریلو تنازعات کو بالکل فوجداری مقدمات کی طرز پر پولیس اور  تھانے دار کو شامل کرکے نبٹایا جائے گا ۔جج اس درخواست کی تصدیق کے لیے تھانے دار کو طلب کرے گا اور تھانے دار اپنے ضابطۂ پولیس کے طریقۂ کار کے مطابق رپورٹ تیار کرے گا۔ہم سب پولیس کے طریقۂ کار سے بخوبی واقف ہیں، اور ہم اپنے معاشرتی رویوں سے بھی آگاہ ہیں کہ  کسی گھر میں پولیس کا آنا کس قدر باعثِ ندامت ہے۔ اس پر ستم یہ ہے کہ یہ تصدیق یا رپورٹ ایک چالان پیش کرنے کے ہم معنی ہے، اور چالان اکثر طے شدہ وقت میں پیش نہیں کیا جاتا،   جس سے وقت کا ضیاع ہو گااور عملاً معاملہ ۳۰ دن میں نہیں نمٹایا جاسکتا ۔

اس قانون میں زیادہ تر داد رسی شوہر کی مخالفت میں بیوی کو دی جا رہی ہے، جب کہ گھریلو ملازمین کی دادرسی بہت محدود ہے ۔ سول عدالتوں کے متوازی فوجداری عدالتوں کے ذریعے گھریلو تنازعات کو طے کیا جا رہا ہے۔ سول عدالتوں میں تنازعے کو لے جانے کے بعد صلح کے امکانات رہتے ہیں، جب کہ فوجداری عدالتوں میں دشمنی اور عناد کے پیدا ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔

شق ۹ میںجرم کے مداوے کے لیے اگر عدالت جرمانے کا حکم دے اور مدعی علیہ اس کو اداکرنے سے قاصر رہے تو عدالت اس کو یہ جرمانہ عدالت میں جمع کروا نے کا حکم دے سکتی ہے۔ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ سول عدالتوں کے تحت فیملی عدالتوں میں چلنے والے مقدمات میں جب مرد معاشی داد رسی سے فرار اختیار کرتے ہیں تو اس کے لیے ایک اور درخواست دینا پڑتی ہے۔ یہ چیز سالہاسال سے اصلاح طلب ہے۔ اس پر قانون سازی کے لیے توجہ نہیں دی جاتی لیکن   اس قانون میں پہلے ہی مرحلے پر بغیر درخواست دیے مدعی کی داد رسی ہوتی نظر آرہی ہے۔

شق ۱۱ میں صرف حلف نامے کی بنیاد پر کوئی بھی شکایت کنندہ درمیانی مدت کا حکم نامہ، عدالت سے جاری کروا سکتا ہے۔

شق ۱۲ کے ضمنی جزو ’الف‘ میں بتایا گیا ہے کہ متاثرہ شخص جب تک چاہے گا تب تک کورٹ کے آرڈر کا اطلاق رہے گا، یعنی جب تک کہ متاثرہ شخص اپنی درخواست واپس نہ لے لے یا مطمئن نہ ہوجائے کورٹ کیس کو ختم نہیںکر سکتی۔ ایسا دوسرے کسی قانون میں نہیں ہے ۔اس سے دشمنیاں تواتر سے جاری رہنے کا خدشہ ہے ۔گویا اب عدالت متاثرہ شخص کی صوابدید پر چلے گی۔

شق ۱۲ کے ضمنی جز ’۴‘ کے مطابق اس ضمن میں Res-judicata (یعنی کوئی ایسا مقدمہ جس میں فیصلہ دیا جا چکا ہو،وجہ مقدمہ میں مدعی اور مدعا علیہ ایک جیسے ہوں اور فیصلہ بھی ہو چکا ہو، اس پر دوبارہ اسی وجہ مقدمہ پر مدعی یا مدعا علیہ مقد مہ دائر نہیں کر سکتے ) کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ اس کا مطلب ہے کہ ایک شکایت کے لیے بار بار عدالت میں دعو یٰ دائر کیا جا سکے گا۔

شق ۱۶ میں تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ ۲۱ کے تحت کمیٹی ممبران کو وسیع ترین اختیارات تفویض کیے گئے جو کسی طور خانگی زندگی میں مداخلت کے لیے مناسب نہیں ۔

اس قانون کے تحت سب سے پہلے معاشرے کی نچلی سطح پر ’خدمات بہم پہنچانے والوں‘ (service provider)بالفاظ دیگر این جی اوز کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، جس کے اوپر  حفاظتی کمیٹی، اور جس سے بالا عدالتیں اپنے امور انجام دیں گی۔’خدمات بہم پہنچانے‘ والے تمام تر شکایات کو مذکورہ ’حفاظتی کمیٹیوں‘ کو رپورٹ کریں گے ، اور یہ ’حفاظتی کمیٹیاں‘ متاثرین میں جانے کا ذریعہ بنیں گی۔

شق ۲۳ میں ’خدمات بہم پہنچانے والے‘ اور ’حفاظت فراہم کرنے والے افسر‘ (Protection Officer) اور ’حفاظتی کمیٹی‘ (پروٹیکشن کمیٹی) سب کو عدالتی نظر ثانی سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، جس کے تحت ان کے فیصلوں کو کسی کورٹ میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا ۔

  •  مجوزہ ترامیم: یہ بل جو کہ گھریلو تشدد کے نام سے وضع گیا ہے، اس میں خاص طور پر میاں بیوی کے تعلقات کو ہی محور بنایا گیا ہے، جس سے خاندانی نظام میں انتشار پیدا ہوگا اور گھریلو جھگڑے عدالتو ں کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس سے معاملات میں مصالحت کے بجاے رشتوں کے ٹوٹنے کا اند یشہ ہے اور خاندانوں کے درمیان دشمنیاں اور عداوتیںپیدا ہونے کا امکان ہے۔ مجوزہ ترامیم حسب ذیل ہیں:

۱- اس میں بیش تر مذکور جرائم جوکہ تعزیرات پاکستان میں موجود ہیں، اس بل کے ذریعے ان کا اطلاق خانگی تعلقات پر کر دیا گیا ہے ،جن میں نرمی اور خاندانی تعلقا ت کا لحاظ لازماً رکھنا چاہیے تھا۔

۲- شق ۴ میں مذکور گھریلو تشدد کا تعین کر تے ہوئے تشدد کا شکا ر خاتون کی اخلاقی صورت حال کو ضرور دیکھا جائے، اور اگر خاتون کا فعل معاشرتی ،اخلاقی اور مذہبی اقدار کے منافی ہو، تو اس میں مداخلت اور روک تھام کو تشدد کی صورت حال سے خارج کر نا چاہیے ۔

۳-گھریلو تنازعات میں پولیس کے کردار کو شامل کر نے سے چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال ہوتانظرآرہاہے ۔

۴- ہمارے معاشرے کے وہ خاندان جن کے سربراہ منشیات یا شراب نوشی کے عادی ہیں، وہ بھی اس زمرے میں شامل کیے جائیں۔ یہ حضرات چونکہ سب سے زیادہ تشدد برتتے ہیں، لہٰذا ان کو اس بل کی گرفت  میں لایا جائے جو کہ نہیں کیا گیا ۔

۵- ایجنسیوں کی اصلاح اور قوانین کی عمل دار ی کو یقینی بنایا جائے۔

۶- مصالحتی کمیٹی کا کردار عدالت میں آنے کے بعد ہے۔ اس کو اگر ’حفاظتی کمیٹی‘ کے  ساتھ منسلک کر دیا جائے تو گھریلو تنازعات عدالت میں جانے سے پہلے حل کیے جاسکیں گے۔

۷- ’حفاظتی کمیٹی‘ میں ’حفاظتی افسر‘ کی تعلیمی استعداد اور صلاحیت اس میں مذکور نہیں ہے،  جب کہ اس کے اختیارات بے حد وسیع ہیں، اور اس کو سرکاری افسر کے اختیارات بھی تفویض کیے گئے ہیں۔

۸- ’حفاظتی کمیٹی‘ بنانے سے پہلے ملکی سطح پر بے شمار ’تھانے دار خواتین‘ کی تعیناتی کرنی پڑے گی۔ ہر تحصیل میں خواتین تھانے کا قیام لازمی ہوگا ،جس سے پہلے پولیس کے نظام کی اصلاح از حد ضروری ہے ۔

۹- ’حفاظتی کمیٹی‘ میںوہ علاقہ کہ جہاں ایسا کوئی افسوس ناک وقوعہ ہو ا ہوگا، اس کے معزز افراد اور خاندان کے بزرگو ں کی شمولیت ضروری ہونی چاہیے۔

۱۰- ’حفاظت فراہم کرنے والوں‘ کے اختیارات بے حد وسیع ہیں،ان کو محدود ہونا چاہیے۔

۱۱-اس قانون کے تحت مدعی (عورت) کے کردار کو یا اس کی شکایت کی تصدیق کرنے کا کوئی طریقۂ کار واضح نہیں بلکہ اس کو یکسر نظرانداز کیاگیا ہے ۔

۱۲- شق ۲۳ ’حفاظت فراہم کرنے والوں‘ اور ’حفاظتی کمیٹیوں‘ اور ’حفاظتی افسر‘ کو ان کے فیصلوں پر نظرثانی کا دیا گیا تحفظ غیر ضروری ہے۔ یہ تحفظ وزارتوں اور انتظامی اداروں کے لیے مخصوص ہے۔

۱۳- جھوٹی درخواست ثابت ہونے پر جرمانہ آدھا ہے، جب کہ اسے دوگنا ہونا چاہیے۔

یہ قانون چونکہ ہماری معاشرتی اور مذہبی روایات کو مد نظر رکھ کر نہیں بنایا گیا، اس لیے یہ  ہمارے جذبات کی عکاسی کرتا ہوا نظر نہیں آتا۔ اس پر عمل درآمد کے نتیجے میں خانگی زندگی میں انتشار، خاندانی نظام میں کمزوری اور عدم برداشت میں اضافہ ہوگا۔ اسلام نے خواتین کے تحفظ اور پُرسکون عائلی زندگی کے لیے حقوق و فرائض کا تعین کرکے متوازن طرزِ زندگی کی بنیاد فراہم کی ہے۔ یہ بل ہمارے معاشرے کو بتدریج مغربی طرز پر استوار کرنے کی کوشش ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مغرب سے متاثر ہوکر قانون سازی گھریلو تشدد کے خاتمے کے بجاے خاندانی انتشار کا باعث ہوگی!

اہلِ کشمیر ایک طویل مدت سے بھارتی فوج کے ظلم و جبر، انسانیت سوز مظالم اور انسانی حقوق کی بے دردی سے پامالی کا سامنا کر رہے ہیں۔ جسمانی اذیتوں، معاشی مصائب کے ساتھ ساتھ نفسیاتی ٹارچر بھی سہ رہے ہیں۔ خاص طور پر بھارتی فوج کے ہاتھوں مسلمان خواتین کی تذلیل اور بے حُرمتی کا سامنا کرنا انتہائی اذیت ناک عمل ہے۔ ان حالات میں کشمیری خواتین کا جدوجہد آزادی کو جاری رکھنا اور مردوں کی ہمت بندھائے رکھنا عزیمت کا بے مثال نمونہ ہے۔

کشمیری خواتین آج کن مصائب سے دوچار ہیں، خاوندوں کے شہید ہوجانے یا لاپتا ہوجانے کے نتیجے میں بیوگی اور نیم بیوگی کی جس کیفیت سے وہ دوچار ہیں، کن معاشی مسائل کا سامنا کر رہی ہیں، لاپتا افراد کی تلاش میں بھارتی انتظامیہ کے ظالمانہ رویوں اور انسانیت سے    گری ہوئی حرکات کا کیسے سامنا کر رہی ہیں، نیز کمانے والے افراد کے شہید یا لاپتا ہوجانے کے نتیجے میں گھروں کو چلانے اور بچوں کی پرورش اور تربیت کے لیے کن مشکلات اور کیسے کیسے ذہنی و نفسیاتی مسائل سے دوچار ہیں___ ان گرفتاریوں، ہلاکتوں اور کشمیر کی مظلوم عورت کو درپیش مسائل کی یہ  دکھ بھری داستان افشاں راشد نے Widows & Half Widows (بیوائیں اور نیم بیوائیں)  کے عنوان سے تحریر کی ہے (ناشر: Pharos Media، نئی دہلی، بھارت۔ صفحات: ۱۹۲۔ قیمت: ۱۵ڈالر)۔ افشاں راشد معروف صحافی ہیں اور سری نگر سے تعلق رکھتی ہیں۔

بھارت کے اس سفاکانہ ظلم و ستم کے نتیجے میں ایک اندازے کے مطابق ۱۹۸۹ء سے  اب تک ایک لاکھ سے زائد مرد، جب کہ ۲ ہزار سے زائد خواتین شہید ہوچکی ہیں۔ ایک لاکھ سے زائد افراد گرفتار ہیں، ۳۲ہزار سے زیادہ خواتین بیوہ اور تقریباً ۲لاکھ بچے یتیم ہوچکے ہیں۔ ان حالات میں خواتین کی ایک بڑی تعداد ذہنی دبائو اور ذہنی امراض سے دوچار ہے۔ خاص طور پر   اُن خواتین کو شدید ذہنی اضطراب کا سامنا ہے جن کے خاوند خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں طویل عرصے سے لاپتا ہیں اور نہیں معلوم کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں؟گویا ان کی حالت ’نیم بیوہ‘ کی سی ہے! وہ   اپنے خاوندوں کی پنشن بھی نہیں لے سکتیں کہ خاوند کا تصدیق نامۂ وفات (death certificate) نہیں پیش کرسکتی ہیں۔ وہ اس اُمید پر جی رہی ہیں کہ ان کے خاوند زندہ ہیں۔ وہ دوسری شادی  بھی نہیں کرسکتی ہیں کہ اس طرح مصیبت زدہ خاندان کی معاشی کفالت سے محروم ہوجاتی ہیں۔بچے   کس خوف و ہراس سے دوچار ہیں اور جوان بچیوں کے تحفظ کے لیے مائیں کس طرح پریشان ہیں، ان سارے مسائل کی وضاحت بھی مختلف کشمیری خواتین کے مصاحبوں ( انٹرویو) کے ذریعے   اس کتاب میں کی گئی ہے۔

کشمیر میں بیوگی اور نیم بیوگی کی حالت سے دوچار مظلوم خواتین اور یتیم بچے کسمپرسی سے دوچار ہیں۔ کمانے والے افراد کی شہادت یا لاپتا ہوجانے کے نتیجے میں معاشی بوجھ خاندان کے بزرگوں کے کاندھوں پر آن پڑا ہے اور پیرانہ سالی کے باوجود محنت مشقت کر کے وہ کنبے کو پالنے پر مجبور ہیں۔ ان حالات میں خواتین پر کیا بیت رہی ہے؟ اس کتاب میں طاہرہ نامی خاتون کا تذکرہ ہے جس کا خاوند گذشتہ سات برس سے لاپتا ہے۔ ہاجرہ کا ذکر ہے جس کے چار میں سے تین بیٹے شہید ہوچکے ہیں، جب کہ چوتھا بیٹا لاپتا ہے۔ پروین جس کا بیٹا ۱۹سال سے لاپتا ہے لیکن وہ اُمید کا دامن تھامے ہوئے اس کی بازیابی کے لیے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔ اعداد وشمار اور حقائق پر مبنی یہ کتاب بہت سی تصاویر سے بھی مزین ہے۔ پوری کتاب ایسی بہت سی مظلوم خواتین کی داستانِ الم پر مبنی ہے جسے پڑھ کر دل دہل جاتا ہے اور آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہہ نکلتے ہیں۔ سیکڑوں کی تعداد میں ایسی کشمیری خواتین ہیں جو انصاف کی منتظر ہیں! (Kashmir's Suffering Women ، ڈاکٹر اے جی خان، ملّی گزٹ، دہلی، ۱۵ جولائی ۲۰۱۱ئ)

بھارتی دانش ور خاتون ارون دتی راے اور کئی دوسرے صحافیوں نے بھی اہلِ کشمیر پر مظالم کے خلاف آواز اُٹھائی ہے اور اجتماعی قبروں کی نشان دہی کی ہے۔ اب کشمیری خود بھی سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعے براہِ راست اپنے اُوپر روا رکھے جانے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کررہے ہیں اور دنیا کی توجہ مبذول کروا رہے ہیں۔ اس طرح دنیا کو براہِ راست حقائق جاننے اور بھارتی پروپیگنڈے کی حقیقت کا علم ہونے لگا ہے۔

کشمیری خواتین ایسوسی ایشن آف پیرنٹس آف ڈس اپیرڈ پرسنز (APDP) کے تحت منظم ہورہی ہیں جو خواتین کے حقوق اور لاپتا افراد کی بازیابی اور معاشی مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہے۔ یہ تنظیم احتجاجی مظاہروں کے ساتھ ساتھ ان خواتین کے مسائل کو بھی عدالت میں اُٹھا رہی ہے جن کے خاوند لاپتا ہیں اور وہ تصدیق نامہ وفات نہیں پیش کرسکتی ہیں۔

’اے پی ڈی پی‘ نے ایک رپورٹ Half Widow, Half Wife (آدھی بیوہ، آدھی بیوی) کے نام سے شائع کی ہے جس میں ایسی خواتین کے حالات و واقعات پیش کیے گئے ہیں جن کے خاوند لاپتا ہیں۔ اندازہ ہوتا ہے کہ پولیس ایسی خواتین کے ساتھ کس ہتک آمیز رویے سے پیش آتی ہے۔ نوجوان بچیوں کے تحفظ کے لیے کشمیری مائوں کو کیسی کیسی پریشانیوں کا سامنا ہے، مارے خوف کے کہ نہ جانے کون رات کو آن دھمکے، مائیں سو نہیں پاتی ہیں۔ تعلیم یافتہ بچیوں کو ملازمت کے حصول میں ہزارہا دقّتوں کا سامنا ہے۔ بعض عورتیں گھروں میں کام کر کے بھی گزارا نہیں کرپاتیں، اور برقع پہن کر بھیک مانگنے پر مجبور ہیں کہ کہیں پہچانی نہ جائیں۔ اگر خواتین حکومتی ریلیف فنڈ لینے کے لیے مجبوراً جاتی ہیں تو اپنی عزت کو خطرے میں ڈالتی ہیں۔ نوجوان بیوائوں کے ناموس کے تحفظ کے لیے ساس اپنے ۱۲سالہ بیٹے سے جوان بیوہ بہو کی شادی کے لیے مجبور ہے۔  (کشمیری خواتین کی دردناک اپیل، مطبوعہ: ویمن اینڈ فیملی کمیشن جماعت اسلامی پاکستان، منصورہ، لاہور)

افشاں راشد نے Widows & Half Widows کے ذریعے انسانی ضمیر کو جھنجھوڑا ہے کہ وہ کشمیر کے مظلوم عوام خصوصاً خواتین کی داد رسی کے لیے آواز اُٹھائے،نیز بھارت پر عالمی دبائو ڈالا جائے کہ وہ انسانی حقوق کی پامالی کو روکے اور اہلِ کشمیر کو جینے کا حق دے۔ حکومت پاکستان کا فرض ہے کہ وہ اہلِ کشمیر کی اخلاقی تائید اور مالی تعاون کے ساتھ ساتھ حق خود ارادیت کے حصول کے لیے عالمی راے عامہ کو ہموار کرے، نہ کہ بھارت کو ’پسندیدہ ملک‘ قرار دے کر اہلِ کشمیر کے ساتھ غداری کی مرتکب ہو!

عینی شاہد بیان نہ کرتے، تصاویر او رویڈیو نہ دکھا دیتے تو یقین نہ آتا۔ آپ خود ہی دیکھ کر بتادیجیے کہ کیا اشرف المخلوقات ایسا کرسکتا ہے؟ یہ کپڑے پر بنی بشار الاسد کی جہازی سائز کی ایک تصویر ہے ، جسے بیچ میدان کے زمین پر بچھا دیا گیا ہے، اس کے چاروں کناروں پر اس کے درجنوں حامی اور فوجی اس تصویر کے سامنے سجدے میں پڑے ہیں اور درو دیوار پر لکھا ہے:لا الٰہ الا بشار۔ ایک اور منظر میں گھنی داڑھی والے ایک باریش نوجوان پر تشدد کیا جارہا ہے۔ لاٹھیوں، ٹھوکروں اور تھپڑوں کی بارش ہورہی ہے اور ایک سورما، زمین پر گرے اس نوجوان کی گردن پر اس طرح پاؤںجمائے کھڑا ہے کہ سنت نبوی مکمل طور پر جوتے کے نیچے روندی جارہی ہے، اس عالم میں نوجوان کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ کہے: بالروح بالدم نفدیک یا بشار،’’میرا جسم و جان تم پر فدا یا بشار‘‘۔ اس طرف دیکھیں یہ ایک طویل قطار ہے۔ یہ صرف بچوں کی لاشوں کی قطارہے اور ان سب کو گولیاں مار کر نہیں، باقاعدہ گردنیں کاٹ کر ذبح کیا گیا ہے۔ اور یہ دیکھیں یہ ایک لمبی کھائی ہے، لیکن یہ کھائی نہیں ایک اجتماعی قبر ہے، جس میں درجنوں لاشیں دفن کی جارہی ہیں___ آخر کون کون سا منظر دیکھیں گے، نہ دیکھنے کا یارا ہے اور نہ بیان کرنے کا حوصلہ!

یہ کوئی ایک آدھ دن کی بات نہیں، ۱۵ مارچ ۲۰۱۱ئسے لے کر آج تک گزرنے والا ہر لمحہ، مسلمان شامی عوام کے لیے قیامت کا لمحہ ہے۔ گھر، مسجدیں، بازار اور انسان، اور تواور باغات، مویشی، کھیت اور کھلیان کچھ بھی اور کہیں بھی محفوظ نہیں ہے۔ لیکن ۴۹ برس کی ڈکٹیٹر شپ کے بعد یہ پہلا موقع آیا ہے کہ قتل و غارت کے نتیجے میں لوگ خوف زدہ ہوکر نہیں بیٹھ گئے۔ پہلی بار عوام نے خوف کی فصیلوں کو ریزہ ریزہ کردیا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر اب ان تمام قربانیوں کو رائیگاں جانے دیا گیا، تو پھروہ کبھی ایک آزاد شہری کی حیثیت سے سانس نہ لے سکیں گے۔

شام کے موجودہ حالات کا جائزہ لینے سے پہلے آئیے ذرا گذشتہ صدی کا سرسری جائزہ لیں۔ ۹مئی ۱۹۱۶ء کو ہونے والے سایکس پیکو معاہدے کے تحت پورے مشرق وسطیٰ کو ٹکڑیوں میں بانٹ دیا گیا۔ ۳۰ستمبر ۱۹۱۸ء کو آخری عثمانی افواج بھی شام سے نکل گئیں۔ فرانس قابض ہوگیا۔ اپریل ۱۹۴۶ء میں فرانسیسی استعمار سے بھی نجات مل گئی۔ اپریل ۱۹۴۷ء میں وہاں بعث پارٹی کی باقاعدہ تاسیس عمل میں آئی۔ اسی سال ملک میں انتخابات ہوئے تو بعث پارٹی کے بانی میشل عفلق اور صلاح بیطار جیسے اس کے تمام لیڈر ناکام ہوگئے۔

۳۰مارچ ۱۹۴۹ء کو حسنی الزعیم کی سربراہی میں فوجی انقلاب آگیا، پورے عالم عرب میں یہ پہلا انقلاب تھا۔ پھر ایک کے بعد دوسرا سفاک خود کو قوم کا محبوب ترین لیڈر ثابت کرنے پر    تلا رہا۔ حسنی الزعیم کو ہی دیکھ لیجیے۔اگست ۱۹۴۹ء میں ۹۹ئ۹۹ فی صد ووٹ حاصل کرلینے والے بزعم خود ’ہر دل عزیز‘ لیڈر کا اگلے ہی مہینے نہ صرف تختہ اُلٹ گیا، بلکہ اسے پھانسی پر لٹکادیا گیا۔ ۱۵نومبر ۴۹ء کو دوبارہ عام انتخابات ہوئے، حکمران پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کی۔ ان انتخابات کی خاص بات یہ ہے کہ ان میں الاخوان المسلمون کو چار نشستیں حاصل ہوئیں جن میں  شام میں اخوان کے بانی مصطفی السباعی بھی شامل تھے، جب کہ بعث پارٹی کا صرف ایک رکن منتخب ہوا۔ اسی ایک سال کے اندر اندر دسمبر ۴۹ء میں وہاں تیسرا انقلاب آگیا۔

۱۹۵۲ء میں الاخوان المسلمون سمیت اکثر سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دے دیا گیا اور پھر مسلسل کئی انقلابات کے بعد ملک سے بعث پارٹی کے علاوہ باقی تمام جماعتوں اور مذاہب و ادیان کا ناطقہ بند کردیا گیا۔ ۱۹۶۳ء میں بعثی انقلاب نے اقتدار سنبھالا، حافظ الاسد اس کا اہم حصہ تھا۔ ۱۹۶۶ء میں اس نے مزید اختیارات کے لیے پارٹی قیادت کے خلاف بغاوت کردی، خود وزیردفاع بن بیٹھا، اور پھرنومبر ۱۹۷۰ء میں ایک اور انقلاب کے ذریعے مکمل اقتدار سنبھال لیا۔ وہ دن اور  آج کا دن، اسد خاندان کا اصرار ہے کہ شامی عوام سانس بھی اس کی مرضی اور اجازت سے لیں۔

حافظ الاسد کی سفاکیت اور اسلام دشمنی کا اندازہ لگانے کے لیے چند جھلکیاں ملاحظہ کرلیجیے:

  • جون ۱۹۷۹ء میں کسی فوجی افسر نے چند علوی فوجی افسروں پر فائرنگ کر دی۔     حافظ الاسد نے اس اندرونی شورش کا سارا الزام اخوان کے سر تھوپتے ہوئے، ایک ہی واقعے میں جسر الشغور نامی شہر میں ۹۷؍افراد شہید اور کئی گھر زمین بوس کردیے۔
  •  ۲۱ جون ۱۹۸۰ء کو ملک میں ایک انوکھا قانون نافذ کردیا گیا جس کے تحت اخوان سے وابستگی کی سزا پھانسی قرار دی گئی۔ آج تک یہ شق نمبر ۴۹ قانون کا فعال حصہ ہے۔
  •  ۲۵ جون ۱۹۸۰ء کو ایک سفارتی تقریب میں حافظ الاسد پر قاتلانہ حملہ ہوا، اس کی تمام تر ذمہ داری بھی اخوان پر ڈال دی گئی۔ ان کے خلاف ظالمانہ کارروائیوں میں مزید اضافہ ہوگیا۔ ۲۷جون کوتَدْمُْرْ جیل میں قید اخوان کے ایک ہزار سیاسی قیدیوں کو اندھا دھند فائرنگ کرکے شہید کردیا گیا۔ نہ کوئی مقدمہ نہ عدالت، نہ منصف نہ گواہ، بس ایک الزام اور قصہ تمام۔
  •  ۲۵جولائی کو حلب شہرکے اتوار بازار میں پولیس فائرنگ کے ذریعے ۱۹۰ بے گناہ افراد کو شہید کردیا گیا۔ حلب کے بارے میں عمومی تأثر تھا کہ یہاں اخوان کی تائید نمایاں ہے۔
  •  ۱۹ دسمبر ۱۹۸۰ء کو تَدْمُْرجیل میں ایک اور قتل عام ہوا۔ اس بار وہ خواتین نشانہبنیں جنھیں ان کے شوہر، باپ بیٹے یا بھائی کے نہ ملنے پر گھروں سے اٹھا کر جیل میں بند کردیا گیا تھا۔ ۱۲۰ خواتین لقمۂ اجل بن گئیں۔ یقینا ان سے روز حشر پوچھا جائے گا: بِاَیِّ ذَنْبٍم    قُتِلَتْ(التکویر۸۱:۹ ) ْ’’یہ کس گناہ کی پاداش میں قتل کردی گئی؟‘‘
  •  ۲ فروری ۱۹۸۲ء تو پوری مسلم دنیا کی حالیہ تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔ اس دن حافظ الاسد کے حکم پر اس کے بھائی رفعت الاسد نے اپنی سربراہی میں قائم خصوصی سیکورٹی فورس کی مدد سے ’حماہ‘ نامی شہر کا محاصرہ کرلیا۔ اور پھر ۲۷ روز تک اس پر ٹینکوں، توپوں اور جنگی جہازوں سے بمباری کی جاتی رہی۔ ۳۵ سے ۴۰ ہزار بے گناہ افراد موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ پورا شہر مقبرہ بن گیا کہ لاشیں اٹھانے والا بھی کوئی نہ رہاتھا۔ ’حماہ‘ کا جرم بھی صرف یہ تھا کہ یہ اخوان کا گڑھ تھا۔

مکافات عمل ملاحظہ ہو کہ دو سال بعد حافظ الاسد بیمار ہوا تو اسی رفعت الاسد نے اپنی اسی سیکورٹی فورس کے ذریعے بھائی کا تختہ الٹنے کی کوشش کی جو ناکام رہی۔ رفعت کو فرار ہوکر یورپ میں پناہ لینا پڑی، اس کی خصوصی فوج ختم کردی گئی۔

اس خاندان کے دور جرائم کی تفصیل بہت طویل ہے۔ لیکن صرف ڈیڑھ دو سال کے عرصے میں ہونے والے درج بالا چند واقعات ۴۹ برس پر محیط درندگی کی ہلکی سی جھلک دکھا رہے ہیں۔ اس قتل عام کے علاوہ اسد خاندان کا اصل ہدف اور اولین ترجیح ملک میں بعث ازم کی جڑیں گہری کرنا تھی۔ یہ نظریہ عرب قومیت اور اشتراکیت کا ملغوبہ ہے۔ بعث ازم کو (نعوذ باللہ) اللہ اور اس کے رسولؐ سے بھی بالاتر درجہ دے دیا گیا تھا۔ حافظ الاسد کا ایک شاعر ہرزہ سرائی کرتا ہے:

آمَنْتُ بِالْبَعْثِ رَبًا لَا شَرِیْکَ لَہٗ

وَبِالْعُرُوبَۃِ دِیْنًا مَالَہٗ ثَانِی

(میں بعث ازم کے رب لا شریک ہونے، اور عرب ازم کے لاثانی دین ہونے پر ایمان لایا)۔ بعث پارٹی کا شعار ہے: أمۃ عربیۃ واحدۃ ذات رسالۃ خالدہ ،’’ ابدی پیغام رکھنے والی عرب اُمت واحدہ‘‘۔ پورے ملک کا نظام اسی بعثی مرکز و محور کے گرد گھومتا ہے۔ دستور کی دفعہ ۸ کے مطابق’’ بعث پارٹی ریاست اور معاشرے کی اکلوتی رہنما پارٹی ہے‘‘۔ کسی دوسرے کو پارٹی بنانے کی اجازت نہیں ۔ دستور کی دفعہ ۸۳ کے مطابق صدارتی انتخاب کا طریق کار یہ بتایا گیا ہے کہ ’’بعث پارٹی کے علاقائی ذمہ داران کسی ایک شخص کو صدارتی اُمیدوار نامزد کریں گے، پھر وہی صاحب خود عوامی ریفرنڈم منعقد کرواتے ہوئے منتخب صدر کہلائیں گے‘‘۔

جبر پر مبنی تدبیریں دوام دے سکتیں توفرعون کا اقتدار اور قارون کی دولت کبھی ختم نہ ہوتی۔ ظلم کا نظام بظاہربہت محکم لیکن حقیقتاً بہت بودا ہوتا ہے، بالآخر ظالم ہی کی گردن ناپتا ہے: وَ لَا یَحِیْقُ الْمَکْرُالسَّیِّیُٔ اِلَّا بِاَھْلِہٖ(الفاطر ۳۵:۴۳)،’’بُری چال بالآخر چلنے والے ہی کے گلے پڑتی ہے‘‘۔ زین العابدین، حسنی، قذافی اور علی عبداللہ صالح پر بھی یہی حقیقت صادق آئی۔گذشتہ ۱۴ماہ میں بشارحکومت نے بھی عوامی تحریک کچلنے کی بھرپور کوششیں کیں، لیکن تحریک ختم ہونے کے بجاے مضبوط سے مضبوط تر ہوئی۔ یہ ۱۹۸۲ء نہیں ہے کہ پورا شہر تہ تیغ کردیں اور ذرائع ابلاغ کو قریب تک نہ پھٹکنے دیں۔ ۲۰۱۲ء کی عوامی تحریک کا اصل ہتھیار کیمرا، موبائل فون اور انٹرنیٹ ہے۔ پل پل کی خبر سیٹلائٹ فون کے ذریعے دنیا کے سامنے آجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہادتوں کی تعداد ’صرف‘ جی ہاں صرف ۱۵ ہزار افراد سے زائد ہے۔ ذرائع ابلاغ نہ ہوتے تو اقتدار کی خاطر پوری قوم بھی موت کی نذر کرنا پڑتی، تو سفاک بعثی نظام دریغ نہ کرتا۔

شامی عوام کی اصل بدقسمتی یہ نہیں کہ ان پر ایک درندہ نظامِ حکومت مسلط ہے، ان کے بقول ان کی اصل محرومی یہ ہے کہ ان کے بھائیوں نے انھیں تنہا چھوڑ دیا ہے۔ الاخوان المسلمون کے سربراہ محمد ریاض شقفہ کے بقول انھوں نے پہلے دن سے اپنی تحریک کو پُرامن رکھنے پر زور دیا ہے۔ لاکھوں عوام کا ۹۵ فی صد غیر مسلح ہے اور عوامی طاقت کے ذریعے ہی تبدیلی لاناچاہتا ہے۔ سفاک حکمران روز اول سے طاقت استعمال کررہا ہے۔ اب ایک طرف ٹینک اور وحشیانہ بمباری ہے اور دوسری جانب خالی ہاتھ عوام۔ یہ درست ہے کہ بے تیغ عوام کو آتش و آہن شکست نہیں دے سکا، لیکن ا ب معاملات فیصلہ کن موڑ تک آن پہنچے ہیں۔ شامی فوج کی ایک بہت بڑی تعداد بشار کا ساتھ چھوڑ کر ’الجیش الحر‘ آزاد فوج کے نام سے منظم ہوچکی ہے، لیکن ان کی اکثریت بھی ہتھیاروں کے بغیر ہے۔ مسلم دنیا کسی عملی مدد سے عاجز ہے۔ رہا امریکا اور عالمی برادری تو اس کے بیانات اور اجلاس تو بہت ہیں لیکن اس کے اہداف کی فہرست میں کہیں یہ بات نہیں ہے کہ عوام کو بچانا اور ان کی مدد کرنا ہے۔ اسرائیل کا پڑوسی ہونے کی وجہ سے ان کا اصل ہدف یہ ہے کہ بشار کے بعد بھی وہاں اپنی گرفت کیسے مضبوط کی جائے۔ ان کی حکمت عملی یہ ہے کہ قتل عام کو طول ملے یہاں تک کہ بشار کے بجاے بذات خود شیطان بھی آجائے تو شامی عوام اسے قبول کرلیں۔ ایک کے بعد دوسرے اجلاس اور مسلسل وفود ارسال کرنے کا نتیجہ مزید خوں ریزی کی صورت میں ہی نکل رہاہے۔ لاکھوں ڈالر کے خرچ اور ابلاغی طوفان کے بعد سیکورٹی کونسل نے ۲۱؍اپریل کو ۳۰۰ غیر مسلح فوجی مبصرین بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ نگران تین مہینے تک اس امر کا جائزہ لیں گے کہ بشار انتظامیہ نے عوام کو کچلنے کے لیے کہیں بھاری اسلحہ تو استعمال نہیں کیا۔ گویا مزید تین مہینے تک تباہ و برباد کرنے کا لائسنس دے دیا گیا۔ اقوام متحدہ کے اسی طرح کے نگران ۱۹۴۸ء سے کشمیری عوام کے ’تحفظ‘ کا فریضہ بھی سر انجام دے رہے ہیں۔

شامی عوام کی تباہی پر سب سے زیادہ مسرت صہیونی ریاست کو ہے۔ اس کا واضح اندازہ ۲۲؍ اپریل کے صہیونی روزنامہ یدیعوت احرونوت سے ہوتاہے ۔ وہ اپنے ادارتی نوٹ میںلکھتا ہے کہ شام میں کوئی خانہ جنگی نہیں، ایک دینی جنگ ہے۔ اس کے بقول ۱۳۰۰ سال پرانا شیعہ سنی جھگڑا جو عثمانی خلافت کی کئی صدیوںتک دبا رہا ،اب دوبارہ زندہ ہوگیا ہے۔ ایک فریق مشرق وسطیٰ کو شیعہ بنانا چاہتا ہے اور دوسرا ۸۵ فی صداہل سنت کو ان کا فطری مقام دلوانا چاہتا ہے۔ اس تمہید کے بعد اخبار یہ نتیجہ نکالتا ہے: ’’اب ہمارے لیے یہ بات سمجھنا آسان ہے کہ اسرائیل کے ساتھ ۱۰۰سال سے کم عرصے پر محیط جھگڑا، ساتویں صدی عیسوی سے جاری شیعہ سنی جھگڑے کی نسبت کس قدر ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ گویا اب ہمارے سامنے صرف شام کاکوئی اندرونی نزاع نہیں، جیسا کہ بعض اسرائیلی سمجھتے ہیں بلکہ مشرق وسطیٰ کا ایک بڑا دینی انتشار ہے۔ اس تنازعے کا اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں اور یہی سب سے اچھی بات ہے‘‘۔

اسد خاندان غلو کی حد کو پہنچے ہوئے علوی فرقے سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ کسی دینی نہیں بلکہ شخصی بتوں پر قائم بعثی ریاست کا بانی خاندان ہے۔ لیکن حالیہ تحریک میں ایران کی طرف سے بشارانتظامیہ کی ہمہ پہلو امداد نے پورے مسئلے کوفرقہ وارانہ رنگ دینے والوں کا کام آسان کردیا ہے۔ بشار اور اس کا باپ شاہِ ایران سے بد تر ڈکٹیٹر ہیں ۔ ایران کو اس کا ساتھ دینے کے بجاے مظلوم عوام کا ساتھ دینا چاہیے۔ خود ایران کے کئی اعلیٰ سطحی ذمہ داران بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیںلیکن بدقسمتی سے اس وقت عملاً بشار انتظامیہ کا سب سے بڑا مددگار ایران ہے اور اس کے بعد روس اور چین۔ یہ دونوں ملک اپنے اپنے اندرونی حالات کے تناظر میں عوامی تحریکات کا ساتھ نہیں دے رہے۔ تیونس اور مصر میں بھی ان کی پالیسی یہی تھی۔ لیکن کوئی صہیونی اور امریکی تجزیہ نگار  روس اور چین کی مدد کے باعث شام کی تحریک کو، کمیونزم یا سوشلزم کے خلاف تحریک نہیں کہہ رہا، کیونکہ وہ شیعہ سنی آگ بھڑکانا چاہتے ہیں۔ یہ طوفان اب عراق اور خلیج تک محدود نہیں رہا، شام اور پاکستان سمیت کئی ملکوں میں اسی جلتی پر تیل چھڑکا جارہا ہے۔ اس طوفان کو اسی صورت روکا جاسکتا ہے کہ اُمت کی توجہ اصل مسائل پر مرکوز رہے۔ اصل مسئلہ ظلم کا خاتمہ ، ڈکٹیٹر شپ سے نجات اور عوام کو ان کے حقوق دینا ہے۔ یہ قرآنی فیصلہ سب کے سامنے رہنا چاہیے کہ وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَیَّ مُنقَلَبٍ یَّنقَلِبُوْنَ o(الشعراء ۲۶:۲۲۷)’’اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ وہ کس انجام سے دوچار ہوتے ہیں‘‘۔

لڑکی کی پیدایش اور معاشرتی رویہ

سوال:  الحمدللہ میں ایک دین دار گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں۔ میری پانچ بچیاں ہیں۔ جب پہلی بچی ہوئی تو سسرال میں خوب خوشیاں منائی گئیں، دوسری اور تیسری بچی کی ولادت کے موقع پر بھی خوشی کااظہار کیاگیا ،لیکن کم کم، پھر جب چوتھی بچی ہوئی تو سسرال کے لوگوں کا انداز بدلنے لگا۔ کسی نے کھلے الفاظ میں کچھ کہا تو نہیں، لیکن دبی زبان میں اس خواہش کااظہار ہونے لگا کہ اب لڑکا چاہیے لیکن اللہ تعالیٰ نے پھرلڑکی دے دی۔ اب میرے ساتھ اس طرح برتاؤ کیاجانے لگا، گویا لڑکیوں کی پیدایش کی میں ہی قصوروار ہوں۔ اس طرح کے مشورے بھی کانوں میںپڑنے لگے کہ اگر لڑکا چاہیے تو میرے شوہر کو دوسری شادی کرلینی چاہیے۔ بہ راہِ کرم میری راہ نمائی فرمائیں۔

جواب:اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں جن نعمتوں سے نوازا ہے ان میں سے ایک نعمت اولاد ہے۔ اولاد انسان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتی ہے۔ انھیں پاکر وہ خوشی محسوس کرتا ہے، ان کے دم سے اس کی زندگی کی رنگینیاں قائم رہتی ہیں۔ ان کی کفالت کے لیے معاشی جدوجہد کرنا اس پر بار نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ وہ بعض انسانوں کو اولاد عطا کرتا ہے اور بعض کو  کسی مصلحت یا آزمایش کے مقصد سے اس سے محروم رکھتا ہے۔ پھر جن کو اولاد عطا کرتا ہے ان میں سے بعض کو لڑکے اور لڑکیاں دونوں دیتا ہے، بعض کو صرف لڑکے اور بعض کو صرف لڑکیاں۔ کوئی مرد صاحب ِاولاد ہوگا یا نہیں،کوئی عورت بچہ جنے گی یا بانجھ ہوگی، کسی کے یہاں لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہوں گی یا صرف لڑکے یا صرف لڑکیاں ، کسی کے صرف ایک اولاد ہوگی، وہ بھی لڑکا یا لڑکی ، یہ سب اللہ تعالیٰ کی طے کی ہوئی تقدیر پر منحصر ہے۔ اس میں کسی مرد یا عورت کی خواہش یا کوشش کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ سورئہ شوریٰ میں اس بات کو قطعی اور دو ٹوک الفاظ میں بیان کیاگیا ہے:

لِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَخْلُقُ مَا یَشَآئُ یَہَبُ لِمَنْ یَّشَآئُ اِِنَاثًا وَّیَہَبُ لِمَنْ یَّشَآئُ الذُّکُوْرَ o اَوْ یُزَوِّجُھُمْ ذُکْرَانًا وَّاِِنَاثًا وَیَجْعَلُ مَنْ یَّشَآئُ عَقِیْمًا اِِنَّہٗ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ o (الشورٰی۴۲: ۴۹-۵۰) اللہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کا مالک ہے جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے، جسے چاہتاہے لڑکے دیتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں ملا جلا کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کردیتا ہے۔ وہ سب کچھ جانتا اور ہر چیز پر قادر ہے۔

بعض معاشروں میں لڑکیوں کو لڑکوں سے کم تر حیثیت دی جاتی ہے۔ اسی بنا پر ان کی پیدایش پر نہ صرف یہ کہ خوشی کااظہار نہیں کیا جاتا، بلکہ انھیں بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ زمانہ نزول قرآن میں عرب کے بعض قبیلوں کا یہی حال تھا۔ ان کے یہاں لڑکی پیدا ہوتی تو وہ بڑی خفت محسوس کرتے اور ان میں سے بعض اسے زندہ زمین میں گاڑ دیتے تھے۔ قرآن نے اس کانقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے:

وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُھُمْ بِالْاُنْثٰی ظَلَّ وَجْھُہٗ مُسْوَدًّا وَّ ھُوَ کَظِیْمٌ o یَتَوَارٰی مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْٓئِ مَا بُشِّرَ بِہٖ اَیُمْسِکُہٗ عَلٰی ھُوْنٍ اَمْ یَدُسُّہٗ فِی التُّرَابِ o (النحل ۱۶:۵۸-۵۹) جب ان میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خوش خبری دی جاتی ہے تو اس کے چہرے پر کَلَونس چھا جاتی ہے اور وہ بس خون کا سا گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے۔ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے کہ اس بُری خبر کے بعد کیا کسی کو منہ دکھائے۔ سوچتا ہے کہ ذلّت کے ساتھ بیٹی کو لیے رہے یامٹی میں دبادے؟

لڑکیوں کے معاملے میں عہد جاہلیت کے بعض قبیلوں کی جو سوچ تھی، موجودہ دَور کے بہت سے معاشروں کی سوچ اس سے مختلف نہیں ہے۔ ان کے یہاں لڑکی کو بوجھ سمجھا جاتا ہے،  اسی بنا پر اس کی پیدایش کی خبر سن کر پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے۔ نکاح کے مسائل اور اس کے ہوش ربا مصارف، جہیز کی فراہمی کے لیے مطلوبہ خطیر رقم وغیرہ کے بارے میں سوچ کر آدمی کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے یہاں لڑکی پیدا ہی نہ ہو۔لڑکی پیداہونے پر قدیم زمانے میں اسے زندہ درگور کرکے اس سے پیچھا چھڑا لیا جاتا تھا۔ جدید جاہلیت نے اس کام کے لیے نئی نئی تکنیکیں دریافت کرلی ہیں، جن کی مدد سے دورانِ حمل میں ہی جنین کی جنس معلوم کرلی جاتی ہے اور لڑکی ہونے کی صورت میں ولادت کی نوبت ہی نہیں آنے دی جاتی، پہلے ہی اسقاط (abortion)کروادیا جاتا ہے۔ لڑکیوں کو لڑکوں سے کم تر سمجھنے کی سوچ، افسوس ہے کہ مسلمانوں میں بھی سرایت کررہی ہے۔کسی خاندان میں کئی لڑکیاں پیدا ہوجائیں تو عموماً اس کا ذمہ دار عورت کو سمجھا جاتا ہے۔ یہ تصور کرلیا جاتا ہے کہ یہ عورت صرف لڑکیاں جننے والی ہے۔ اسی بنا پر اس طرح کا مشورہ دیا جاتا ہے کہ اگر لڑکا چاہیے تو مرد کو دوسری شادی کرلینی چاہیے، تبھی لڑکا پیدا ہوسکتا ہے۔ حالانکہ لڑکاپیدا ہونے میں نہ مرد کااختیار ہوتا ہے نہ عورت کا اور لڑکی پیداہونے میں عورت کا، کوئی قصور نہیں ہے۔ اسی طرح یہ بھی ایک خام تصور ہے کہ موروثی طور پر کوئی عورت صرف لڑکیاں پیدا کرنے والی ہوتی ہے اور کسی عورت سے لڑکے زیادہ پیدا ہوسکتے ہیں۔ اوپر قرآن کریم کی صراحت گزری کہ کسی کے لڑکا یا لڑکی پیدا ہونا محض اللہ تعالیٰ کی قدرت، توفیق اور تقدیر پر منحصر ہوتاہے۔اس سلسلے میں جدید میڈیکل سائنس سے جو معلومات حاصل ہوئی ہیں وہ بہت سوں کے لیے حیرت واستعجاب کا باعث ہوں گی۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑکا یا لڑکی پیداہونے میں اصل کردار عورت کا نہیں، بلکہ مرد کا ہوتا ہے۔

جسم انسانی کے تولیدی خلیّات (reproductive cells) میں ایک جوہر پایا جاتا ہے، جسے کروموسوم (chromosome) کہتے ہیں۔ ان میں تمام موروثی خصوصیات موجود ہوتی ہیں۔ حتیٰ کہ انھی کے ذریعے بالوں کے رنگ، آنکھوں کے رنگ اور جنس کا تعیین ہوتا ہے۔ تولیدی خلیے میں کرو موسوم کے جوڑے پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک جوڑا جنس (sex)کے تعیین کے لیے مخصوص ہوتاہے۔اسے sex chromosomeکہاجاتا ہے۔ یہ جوڑا دو طرح کے کروموسوم پر مشتمل ہوتا ہے۔ ایک کو X کروموسوم اور دوسرے کو Yکروموسوم کہتے ہیں۔

عورت کے بیضہ (ovum) میں سیکس کروموسوم کاجوجوڑا پایا جاتا ہے اس کے دونوں کروموسوم Xنوعیت کے ہوتے ہیں۔ اسی بنا پر انھیں homogameticکہا جاتا ہے، جب کہ مرد کے نطفے (sperm) میں پایاجانے والا سیکس کروموسوم کا جوڑا دو الگ الگ نوعیت کے      (X اورY) کروموسوم پر مشتمل ہوتا ہے۔ اسی بنا پر انھیں Hetrogameticکہا جاتا ہے۔

استقرار حمل (fertilization) کے وقت عورت کے بیضے سے ایک کروموسوم نکلتا ہے، اسی طرح مرد کے نطفے سے ایک کروموسوم نکلتا ہے اور دونوں کے اتصال سے استقرار کا عمل انجام پاتا ہے۔ عورت کے بیضہ سے نکلنے والا کروموسوم ہر حال میں Xہوتا ہے، جب کہ اس سے ملنے والا نطفہ مرد کا کروموسومXبھی ہوسکتا ہے اور Yبھی۔ اگر عورت کے Xکروموسوم سے مرد کا Xکروموسوم ملتا ہے تو اس صورت میں لڑکی پیداہوتی ہے۔ اور اگر اس سے مرد کا Yکروموسوم ملتا ہے تو لڑکا پیدا ہوتا ہے۔ اب عورت کے Xکروموسوم سے مرد کا (XاورY میں سے)کون سا کروموسوم ملے؟ اس میں انسانی کوشش کا کچھ بھی دخل نہیں ہوتا، یہ محض تقدیر الٰہی پر منحصر ہوتا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ جو کروموسوم جنین(foetus) کی جنس متعین کرتا ہے اور جس سے طے ہوتا ہے کہ آیندہ پیداہونے والا بچہ لڑکا ہوگا یا لڑکی، وہ مرد سے حاصل ہوتا ہے ،نہ کہ عورت سے۔

قرآن کریم نے اس سلسلے میں جو لطیف تعبیر اختیار کی ہے اس سے مذکورہ بالا سائنسی بیان کی تصدیق ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: نِسَآؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ (البقرہ۲:۲۲۳) ’’تمھاری عورتیں تمھاری کھیتی ہیں‘‘۔کھیتی کا کام یہ ہوتاہے کہ اس میں جو بیج ڈالاجائے اسے پروان چڑھائے اور اس کی اچھی پیداوار کرے۔ اگر کسی کھیت میں گیہوں کے بیج ڈالے جائیں گے تو اس سے گیہوں ہی پیدا ہوگا۔ اگر اس میں چنا یا جوار کے بیج ڈالے جائیں گے تو چنایاجوار ہی اُگے گا۔  یہ ناممکن ہے کہ بیج تو چنا یا جوار کا ڈالا جائے اور امید گیہوں اُگنے کی رکھی جائے اور جب گیہوں نہ اُگے تو کھیت کو قصور وار قرار دیا جائے۔مفسرین کرام نے آیت مذکورہ کی تفسیر میں یہی بات کہی ہے۔

علامہ زمخشریؒ (م:۵۳۸ھ) فرماتے ہیں:’’یہ مجاز ہے۔ اس آیت میں عورتوں کو کھیت سے تشبیہ دی گئی ہے اور ان کے رحم میں ڈالے جانے والے نطفے کو، جس سے نسل انسانی کا سلسلہ چلتا ہے، بیج کے مشابے قرار دیاگیا ہے‘‘ (الکشاف، ص ۴۳۴) ۔ امام فخر الدین رازیؒ (م:۶۰۶ھ) نے لکھا ہے:’’اس آیت میں عورتوں کوکھیتی بہ طور تشبیہ کہا گیا ہے ۔ گویا عورت زمین کے مثل ہے جس میں کاشت کی جاتی ہے، نطفہ بیج کے مثل ہے اور پیدا ہونے والا بچہ پیداوار کے مثل ہے‘‘(التفسیر الکبیر، ج۶،ص ۷۵)۔ یہی تشریح بعض دیگر مفسرین ، مثلاً علامہ قرطبی (م:۶۷۱ھ) اور علامہ ابوحیان (م:۷۴۵ھ) نے بھی کی ہے۔ (ملاحظہ کیجئے: الجامع لاحکام القرآن للقرطبی، ج ۴، ص ۷، البحر المحیط لابی حیان الاندلسی، ج۲،ص ۱۸۱)

علامہ راغب اصفہانی (م: ۵۰۲ھ) نے اس موقع پر ایک نکتے کی بات کہی ہے: کھیتی کے لیے عربی زبان میں دو الفاظ مستعمل ہیں: ایک حرث اور دوسرا زرع۔ دونوں الگ الگ معنوں میں مستعمل ہیں۔ حرث کہتے ہیں زمین میں بیچ ڈالنے اور اسے کاشت کے لیے تیار کرنے کو۔ اور زرع کہتے ہیں زمین سے جو کچھ اُگے اس کی دیکھ بھال کرنے کو۔ سورۂ واقعہ کی آیات ۶۳-۶۴ میں یہ دونوں الفاظ الگ الگ معنوں میں آئے ہیں۔ یہاں سورۂ بقرہ کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے زرع کا لفظ نہیں، بلکہ حرث کا لفظ استعمال کیا ہے۔ گویا عورتیں کھیتی کے مثل ہیں، جس میں مرد بیج ڈالتے اور پیداوار چاہتے ہیں۔ (تفسیر الراغب الاصفہانی، ج ۱،ص ۴۵۸)

لڑکیوں کا وجود ان کے والدین کے لیے باعث خیر وبرکت ہوتا ہے۔ اس دُنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ وہ زمانہ گیا جب تعلیم کو صرف لڑکوں کا حق سمجھا جاتا تھا اور لڑکیوں کو اس سے محروم رکھا جاتا تھا۔ یہ خیال کیاجاتا تھا کہ لڑکے بڑے ہوں گے تو کماکر لائیں گے اور لڑکیاں بڑی ہوں گی تو خود ان پر خرچ کرنا پڑے گا۔ اب لڑکیاں تعلیم کے میدان میں آگے بڑھ رہی ہیں تو وہ دُنیاوی اعتبار سے اپنے والدین کے لیے بسااوقات لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ فائدہ مند ثابت ہورہی ہیں۔ جہاں تک آخرت کا معاملہ ہے، لڑکیوں کی پرورش وپرداخت پر ان کے والدین کوجنت کی بشارت دی گئی ہے، جب کہ لڑکوں کی پرورش پر ایسی کوئی بشارت نہیں ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے دو لڑکیوں کی ان کے بالغ ہونے تک کفالت کی وہ روزِ قیامت مجھ سے اتنا قریب ہوگا۔ یہ فرماتے ہوتے آپؐنے اپنی دو انگلیاں ملائیں‘‘(مسلم: ۲۶۳۱) ۔ حضرت ابن عباسؓ  روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: ’’جس شخص کی دو لڑکیاں ہوں اور وہ جب تک اس کے پاس رہیں وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرتا رہے تو وہ اس کے جنت میں داخلے کا ذریعہ بنیں گی‘‘۔(ابن ماجہ:۳۶۷۰)

اللہ نے جن لوگوں کو صرف لڑکیوں سے نوازا ہو اور وہ لڑکوں کے بھی خواہش مند ہوں، انھیں اپنی بیویوں کو قصور وار ٹھیرانے کے بجاے اللہ سے دُعا کرنی چاہیے کہ وہی حقیقی عطا کرنے والا ہے۔اولاد یا لڑکے یا لڑکیاں عطا کرنا اسی کے اختیار میں ہے۔ (ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی)


تحقیق کاروں کے لیے رہنمائی

ڈاکٹر محمد عمر چھاپرا اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ اور اسلامک ڈویلپمنٹ بنک، جدہ کے سینیر ایڈوائزر ہیں۔ ان سے کسی مجلس میں سوال کیا گیا کہ اپنے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں علمی و تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے کچھ ضروری مشورے دیں۔ افادۂ عام کے لیے یہاں پیش ہیں۔ (ادارہ)

پہلی چیز جو ہماری نگاہ میں رہنی چاہیے وہ یہ ہے کہ فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا o اِنَّ مَعَ العُسْرِ یُسْرًا o (الم نشرح ۹۴: ۵-۶)’’پس حقیقت یہ ہے کہ تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔ بے شک تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے‘‘۔ تنگی یا مشکل سے مراد ہے محنت، کیونکہ محنت کرنا ایک مشکل کام ہے۔ اگر آدمی محنت کرتا ہے تو اس کے بعد اس کا پھل ملتا ہے۔ اس کے بغیر زندگی میں کچھ حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے محنت کو اپنی عادت بنائیں، مثلاً اگر عربی نہیں آتی تو اسے سیکھنے کی کوشش کریں۔ اس کے لیے ضروری نہیں ہے کہ کسی ادارے میں جا کر ہی سیکھی جائے، گھر میں بیٹھ کر بھی سیکھی جاسکتی ہے۔ عربی سیکھنا تو ویسے بھی بہت ہی ضروری ہے کیونکہ جب تک آپ عربی نہیں جانیں گے تو قرآن کی مٹھاس سے فائدہ نہیں اُٹھا سکیں گے۔ ترجمہ پڑھنا تو ایسا ہی ہے کہ آپ کے پاس شہد آیا اور کسی نے اُس کی شیرینی نکال دی اور باقی آپ کو دے دیا۔ عربی سیکھنا کچھ زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔کتاب عربی کا معلّم جو کہ چار جلدوں پر مشتمل ہے، اس کام کے لیے انتہائی موزوں ہے۔ آج کل تو عربی سیکھنے کے جدید طریقے سامنے آگئے ہیں جن سے عربی سیکھنا اور بھی آسان ہوگیا ہے۔ قرآن و حدیث کو عربی میں سمجھے بغیر کام نہیں چل سکتا۔ عام آدمی کے لیے تو یہ نہیں کہا جاسکتا لیکن جو لوگ اسلامک اسٹڈیزمیں کام کر رہے ہیں،ان کے لیے عربی کے بغیر کوئی مفر نہیں ہے۔ اگر آپ عربی نہیں سیکھ رہے ہیں تو آپ اسلام کی اچھی طرح خدمت نہیں کرسکتے۔

جہاں تک تحقیق کا تعلق ہے تو اس کام میں محنت کے بغیر کچھ نہیں ہے۔ اگر آپ اس کے لیے تیار نہ ہوں اور گھنٹوں کے حساب سے ٹیلی ویژن پر وقت صرف کریں، تو زندگی میں کچھ حاصل نہیں ہوسکتا اور خصوصیت سے علمی کام تو ہو ہی نہیں سکتا۔ ٹیلی ویژن سے حاصل شدہ معلومات  محض وقتی ہوتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں آپ کوئی کتاب پڑھتے ہیں تو وہ آپ کو یاد رہتی ہے۔ اگر کچھ پڑھا ہوا بھول گئے ہیں تو دوبارہ کتاب میں دیکھ سکتے ہیں۔ جتنا زیادہ مطالعہ کرسکیں، کیجیے۔ مطالعے کا بھی طریقہ یہ ہے کہ پڑھنے کے بعد نوٹس لیں۔ اگر لائبریری کی کتاب ہے تو اپنے کارڈ پر یا کسی اور جگہ نوٹس لے لیں ۔ اگر آپ کوئی مقالہ لکھ رہے ہیں تو اس کے نوٹس بنائیے۔ موضوع کی مناسبت سے پڑھیں اور نوٹس لیں۔ اس کے بعد اپنے خاکے(outline) کی مناسبت سے لکھیں۔ ہمارے ہاں بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ تحریر کے معاملے میں پہلی کوشش ہی کافی ہے اور اس سے زیادہ بہتر تو لکھا ہی نہیں جا سکتا۔ اگر تکبّر کا عنصر آجائے تو وہاں علم کا خاتمہ ہو جاتا ہے، کیونکہ تکبّر اور علم ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ اپنے لکھے ہوئے کوکئی مرتبہ دہرائیں۔ گیل وریتھ جو کہ ایک بہت بڑا مصنف ہے، اُس کا کہنا ہے کہ میںاپنی تحریر کو کئی مرتبہ دہرانے کے بعد مطمئن ہوتا ہوں۔ اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ اس کام میں بہت وقت اور محنت لگتی ہے لیکن اس کے بغیر کام بھی نہیں بنتا۔ لکھے ہوئے کو خود بھی دہرائیں اور دوسروں کو تبصرے کے لیے دیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ تبصرے کے لیے دیتے ہیں تو صرف تعریف کی اُمید رکھتے ہیں۔ اگر آپ نے ان پر کوئی تنقید کردی تو ان کا پارہ چڑھ جاتا ہے۔ یہ رویّہ ہوتو بہت زیادہ سیکھا نہیں جاسکتا۔ اس کے لیے بھی تیار ہونا چاہیے کہ  اگر کوئی غلط قسم کی تنقید بھی کر دے تب بھی ناراض نہ ہوں۔ اچھی طرح غور کرکے دیکھیں کہ اس کی تنقید درست ہے یا نہیں۔ درست ہے تو اپنی تحریر کو بہتر بنائیں اور صحیح نہیں ہے تو اس کو چھوڑ دیں۔

کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ اچھے رسالے کے لیے مقالہ لکھیں اور محنت سے لکھیں۔ اس کے بعد بھی اس چیز کے لیے تیار رہیں کہ مبصرین کے جو تبصرے آئیں گے اس کی مناسبت سے آپ اس میں بہتری لائیں گے۔ گویا سب سے پہلے محنت، بہت سا مطالعہ کرنا، اور خاص طور سے اگر کوئی مضمون لکھناہے تو اس سے متعلق چیزوں کا مطالعہ کرنا، نوٹس لینا، پھر مقالہ لکھنا، اس کو کئی بار دہرانا، لوگوں کو تبصرے کے لیے دینا، اور تبصروں کی مناسبت سے دہرانا ہے۔ پھر فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا کے مصداق آپ کو آپ کی محنت کا صِلہ مل جائے گا۔ آپ کو خوشی ہوگی جب آپ کا مقالہ کسی عمدہ رسالے میں چھپے گا، لوگ اس پر اچھے تبصرے کریں گے اور آپ کی عزت بڑھے گی۔ جو محنت کرنے اور تنقید سننے کے لیے تیار نہیں ہے وہ عالم نہیں بن سکتا۔ ایک تحقیقی ادارے سے وابستہ افراد کے لیے تو اور بھی ضروری ہے کہ وہ اپنا مطالعہ و سیع تر کریں۔ اگر ٹی وی دیکھتے ہیں تو اس کے دورانیے کو کم کریں اور وہ وقت مطالعے میں صرف کریں۔ شام کو گھر پر جا کر ضرور مطالعہ کریں۔ پڑھنے لکھنے والوں کے لیے تو فارغ وقت ہوتا ہی نہیں، انھیں سارا وقت محنت کرنی ہے۔ گھر جا کر بھی پڑھنا ہے، دفتر میں بھی مطالعہ کرنا ہے۔ چھٹی والے دن اور معمول کے دنوں میں بھی، فرق صرف  یہ ہونا چاہیے کہ چھٹی کے دن آدمی گھر میں کام کرے اور اس کا دفتر آنے جانے کا وقت بچے۔  زندگی میں اپنے سامنے اسے نشانِ راہ کے طور پر رکھیں: ’’محنت کے بغیر کچھ حاصل نہیں کیا جاسکتا، اور محنت کے ذریعے سب کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے‘‘۔

باہر کے ممالک میں تحقیق کے لیے لوگ بہت زیادہ محنت کرتے ہیں جو ہمارے ہاں نہیں ہے۔یہاں لوگ محنت کرنے کو تیارنہیں ہیں۔ دوسرے ممالک میںلوگ اپنے مقالہ جات کو خود باربار پڑھتے ہیں، لوگوں کو بتاتے ہیں، تبصرے لیتے ہیں، لوگوں کے ساتھ اس پر تبادلۂ خیال کرتے ہیں اور اس دوران میںنوٹس لیتے رہتے ہیں۔ ان کی روشنی میں مقالے کو مزید بہتر کرتے ہیں۔   یہ ایک اسکالر کی صفات ہیں۔ بعض اوقات آپ کی تحریر پر بہت سخت قسم کی تنقید بھی ہو سکتی ہے لیکن تنقیدکرنے والے سے ناراض ہوکر کام نہیں چل سکتا۔

بعض اوقات دفتروں کے اندر بھی لوگ ٹانگ کھینچتے ہیں، اور سازشیں بھی کرتے ہیں۔  ان چیزوں سے گھبرانا نہیں چاہیے کیونکہ مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ جب تک اللہ نہ چاہے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، اور جب تک اللہ نہ چاہے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ قرآن میں کئی مقامات پر اس کی تعلیم دی گئی ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بظاہر آپ کے خلاف کسی نے سازش ہی کی ہو، لیکن بعد میں آپ کو پتا چلے کہ یہ تو آپ کے حق میں بہت بہتر ہوگیا ۔  وَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْج(البقرہ ۲:۲۱۶)،’’ممکن ہے تم ایک چیزکو ناپسند کرو اور وہ تمھارے حق میں اچھی ہو‘‘۔   خود میرے ساتھ بہت سے مواقع پر ایسا ہوا کہ شروع میں محسوس ہوا کہ جیسے یہ بہت بُرا ہوا لیکن بالآخر اس کا نتیجہ میرے حق میں ہی رہا۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ کو ترقی نہ ملے اور آپ اپنے افسر کو بُرا بھلا کہنے لگیں لیکن ترقی دینے والا آپ کا افسر بالا نہیں بلکہ اللہ کی ذات ہے۔ اگر اللہ نے چاہا تو آپ کی ترقی کو کوئی روک نہیں سکتا، اور اگر اللہ نے نہ چاہا تو کوئی ترقی دے نہیں سکتا۔ ہمارا یہ عقیدہ مضبوط ہو کہ جتنا ہمیں ملے گا، اللہ ہی کی ذات سے ملے گا، اور اسی کے سامنے آدمی دستِ طلب بھی دراز کرے، اوراُسی کی دی ہوئی تعلیمات پر عمل کرے تو زندگی میں ترقی ہی ترقی ہے۔

The Simplified Qur'an ، [قرآن مجید کی عام فہم تفسیر]، (۳۰واں پارہ)   حامدعبدالرحمن الکاف۔ ناشر: گڈ ٹری پبلی کیشنز ، فلیٹ ۴، ۲۷۶/۵۲۳-۱-۸، برندواں کالونی، ٹولی چوکی، حیدرآباد، اترپردیش، بھارت۔ فون: ۹۲۴۶۵۴۵۱۱۷-۹۱۔ صفحات:۲۰۶۔ قیمت:۱۸۰ روپے بھارتی۔ ای-میل: goodtreepublication@gmail.com

قرآن مجید کے ترجمے اور تفسیر پر انگریزی میں بھی بہت سا علمی کام ہوچکا ہے۔ اس کے باوجود انگریزی خواں حلقوں میں قرآنی تعلیمات سے عمومی غفلت اور بطور تذکیر و یاد دہانی عام فہم ترجمانی کی ضرورت ہے۔ زیرتبصرہ ترجمۂ قرآن اور مختصر تفسیر اسی ضرورت کے پیش نظر عام فہم زبان میں لکھی گئی ہے۔ اس کے مخاطب بنیادی طور پر طالب علم ہیں۔ اسی لیے بہت سے علمی مباحث کو زیربحث نہیں  لایا گیا۔ مفسر کی کوشش ہے کہ آیاتِ قرآنی کے الفاظ اور مفہوم تک بات کو محدود رکھا جائے، اور تلاوتِ قرآن سے قاری کے ذہن میں جو تصویر اُبھرتی ہے، دل پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں، ان پر توجہ مرکوز کی جائے۔ سورتوں کے باہم ربط اور نظم کو بھی واضح کیا گیا ہے۔ انگریزی ترجموں اور تفاسیر کے عمومی اسلوب سے ہٹتے ہوئے آیات کا ترجمہ ایک تسلسل سے پیراگراف کی صورت میں دیا گیا ہے تاکہ قاری پر ایک مسلسل تحریر کا تاثر قائم ہوسکے۔ ترجمہ اور تفسیر کے بعد آخر میں خلاصے کے طور پر سورہ کے مرکزی مضمون اور اہم نکات کو اختصار سے بیان کردیا گیا ہے۔ ابتدا میں قرآن سے استفادے کے لیے بنیادی اصول بھی بیان کیے گئے ہیں۔ اس طرح قاری قرآنی تعلیمات سے عام فہم انداز میں بآسانی آگاہ ہوجاتا ہے اور عمل کے لیے رہنمائی حاصل کرتا ہے۔ کہیں کہیں تفسیر میں طویل پیراگراف ہیں جنھیں مختصر کرنے کی ضرورت ہے۔

حامد عبدالرحمن الکاف مدرسۃ الاصلاح اعظم گڑھ، بھارت سے فارغ التحصیل ہیں۔  آیاتِ قرآنی کے نظم پر تحقیقی کام کرچکے ہیں۔ متعدد کتب کے مصنف ہیں۔ یہ عام فہم ترجمہ و تفسیر سکول اور کالج کے طلبہ کے علاوہ عام انگریزی خواں طبقے کو قرآن کے پیغام اوراس کی روح سے آشنا کرنے کے لیے مفید ہے۔ (امجد عباسی)


سیرتِ حبیبؐ، شیخ ابوبکر جابر الجزائری، ترجمہ: آصف جاوید۔ ناشر: النور پبلی کیشنز، H-۱۰۲، گلبرگ III ، لاہور۔ فون: ۳۵۸۸۱۱۶۹-۰۴۲۔صفحات:۶۵۱۔ قیمت:۷۰۰ روپے۔

شیخ ابوبکر جابر الجزائری نے کتب سیرت کے گلستان رنگارنگ و خوشبودار میں ھذا الحبیب محمدؐ یامحب کے نام سے ایک اچھا اضافہ کیا ہے۔ قبل ازیں مصنف کی کتاب منہاج المسلم عالمِ اسلام سے داد پاچکی ہے۔ سیرتِ حبیبؐ کے بارے میں مصنف کا کہنا ہے کہ سیرت کے  فن پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے لہٰذا مَیں نے اس کتاب کی جمع و ترتیب میں تکرار، طول اور اختصار سے اجتناب کیا، اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ایک ایسا طریقۂ کار اختیار کیا ہے جو تقسیم ابواب اور تفصیل کلام کے حُسن و جمال کے ساتھ ساتھ نہایت جامع، بڑا واضح، بہت آسان اور اس فن میں ایک مثال ہے۔ کتاب کا ایک امتیازی وصف یہ بھی ہے کہ اس کے ہر گوشے کو نتائج و عبر کے تذکرے سے مزین کیا گیا ہے اور کوئی گوشہ بھی غالباً اس سے خالی نہیں۔ (ص۱)

 عرب تہذیب و تمدن اور سیاسی و سماجی پس منظر کے ساتھ ہجرت سے وصالِ رسولؐ تک کے واقعات کو سنہ وار بیان کیا گیا ہے۔ رسولؐ اللہ کی ذات والاصفات کے زیرعنوان آپؐ کے شمائل، خصائل، معجزات، آداب اور آپؐ کے خاندان، اصحابِ خاص، آپؐ سے متعلق اشیا کا ذکر ہے۔ آخر میں رسولؐ اللہ کے ۱۰ حقوق بیان کیے گئے ہیں۔

سیرتِ حبیبؐ  ایک ایمان افروز، محبت انگیز اور مستند کتاب ہے۔ترجمہ اچھا ہے، تاہم کچھ چیزیں دورانِ مطالعہ روانی کو متاثر کرتی ہیں۔بعض جگہوں پر اشعارکا ترجمہ چھوڑدیا گیا ہے۔ عربی عبارات پر اعراب نہیں لگائے گئے۔ نقشہ جات کسی دوسری عربی کتاب سے لیے گئے ہیں لیکن اُن کا ترجمہ نہیں کیا گیا۔ پروف کی اغلاط اور ٹائپ کاری کا اسلوب بھی توجہ طلب ہے۔ کتاب کی باب بندی بھی نہیں کی گئی۔ اگر ان امور پر توجہ دی جاتی تو کتاب کی پیش کش مزید بہتر ہوجاتی۔  اعلیٰ کاغذ پر عمدہ طباعت ہے۔(ارشاد الرحمٰن)


الفقہ فی السند (فقہاے سندھ اور ان کی فقہی خدمات)،مولانا اللہ بخش ایاز ملکانوی۔ ناشر: القاسم اکیڈمی جامعہ ابوہریرہ، برانچ پوسٹ آفس خالق آباد، ضلع نوشہرہ، صفحات:۳۱۴۔ قیمت:درج نہیں۔

محمد بن قاسمؒ کے ہاتھوں سندھ کی فتح کے بعد، اسلامی دور میں سندھ میں اسلامی علوم کی ترویج و اشاعت کے کام کا بھرپور آغاز ہوا۔ عرب علما کی آمد کے علاوہ مقامی اہل علم نے بھی اس علمی تحریک میں حصہ لیا اور دینی علوم اور عربی زبان میں مہارت بہم پہنچائی۔ علماے سندھ کے تذکرے ہمارے کلاسیکل عربی ذخیرے میں جا بجا بکھرے ہیں۔ عہد قریب اور بعید کے سیرو سوانح کے تذکرے کی کتابوں میں انھیں یک جا کرنے کی کاوشیں بھی کی گئیں۔ قدیم تذکروں میں میرمعصوم شاہ بکھری کی تاریخ معصومی، میر علی شیر قانع کی تحفۃ الکرام، معیار سالکان:طریقت اور  مقالات الشعراء ،اور زمانہ قریب میں مولانا عبدالحی حسنی کی نزھۃ الخواطر، مولانا دین محمد وفائی کی تذکرہ مشاہیر سندھ (تین جلدیں، سندھی) اور مولانا قاضی اطہر مبارک پوری کی رجال السند والھند الی القرن السابع نمایاں ہیں۔ سندھ میں فقہی ادب کے ارتقا پر  سندھ یونی ورسٹی کے استاد ڈاکٹر قاضی یار محمد (م:۱۹۸۶ئ) نے سندھ یونی ورسٹی میں۱۹۷۹ء میں ڈاکٹریٹ کی سطح کا مقالہ بھی پیش کیا تھا جو سندھی لینگویج اتھارٹی حیدر آباد سے ۱۹۹۲ء میں شائع ہوا۔

زیر نظر تذکرہ الفقہ فی السند بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے ، جس میں مؤلف نے خطۂ سندھ، اس کے شہروں اورحکمر ان خاندانوں کے اجمالی تعارف اور پھر علم فقہ کے تعارف کے بعد منتخب فقہاے سندھ اور ان کی فقہی تالیفات کا تذکرہ کیا ہے۔ عصر حاضر میں تالیف کی گئی متعد دکتب اور ان کے مؤلفین کو بھی شامل کیا گیا ہے ، مگر کئی کتابوں کے متعلق معلومات بہت مختصر اور مبہم ہیں۔ اس موضوع پر تالیف سے قاری کو یہ امید ہوتی ہے کہ سندھ کے قدیم علما نے جو تالیفی خدمات انجام دی ہیں، ان کا تفصیلی تعارف اور جائزہ پیش کیا جائے، مگر یہاں دورِ جدید کے علما کی تالیفات زیادہ نمایاں ہیں۔ نیز علمِ فقہ کے تعارف میں بھی ایک حد تک تفصیل سے کام لیا گیا ہے۔ علامہ جعفر بوبکانی کی المتانۃ فی مرمۃ الخزانۃ کا نو صفحات (ص ۱۲۲ تا ۱۳۰)پر پھیلا ہوا تعارف پورے کا پورا محمداسحاق بھٹی کی برصغیر پاک و ہند میں علم فقہ سے حرف بہ حرف لیا گیا ہے مگر کہیں بھی اس کا حوالہ نہیں دیا گیا۔ مؤلف اس سرقے کا کیا جواز پیش کریں گے؟ مجموعی طور پر کتاب سے اجمالاً ہی سہی، موضوع کا اچھا تعارف ہو جاتاہے ۔ (ڈاکٹر عبدالحی ابڑو)


مباحث، مدیر : ڈاکٹر تحسین فراقی۔ ناشر: اُردو منزل، ۳۲۵- اے، جوہر ٹائون، لاہور۔ ملنے کا پتا: مکتبہ سلیمانی، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۵۵۴۔ قیمت: ۴۰۰ روپے۔

معروف عالم، نقاد، اور دانش ور ڈاکٹر تحسین فراقی نے تدریسی ملازمت سے سبک دوشی کے بعد، مباحث کے نام سے ایک علمی شش ماہی مجلہ (یا کتابی سلسلہ) شروع کیا ہے۔ یہ سالہا سال سے ان کی اس سوچ بچار کا نتیجہ ہے کہ ایک ایسے تنقیدی، تحقیقی اور تجزیاتی مجلے کی ضرورت ہے جو ادب اور تہذیب کے منظرنامے پر اُبھرنے والے کچھ پریشان کن سوالوں سے قاری کو دوچار بھی کرے اور جوابات کی صورت میں اسے کچھ سوچنے پر مجبور بھی کرے۔ (اداریہ)

زیرنظر پہلے شمارے میں تنقید، تحقیق، پاکستانیات اور معاصر ادب کے تجزیوں پر مشتمل دو درجن سے زائد مقالات اور تبصراتی مضامین شامل ہیں۔ امجدطفیل نے ’پاکستان کا تشخص اسلامی یا سیکولر‘ کے عنوان سے نہایت تفصیلی مضمون میں کہا ہے کہ پاکستان کا آئین پاکستان کو ایک اسلامی جمہوری فلاحی ریاست قرار دیتا ہے۔ انھوں نے سیکولر لبرل ’دوستوں‘سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنے موقف کی تائید میں حقائق اور بیانات کو مسخ نہ کریں۔ طیبہ تحسین نے ہولوکاسٹ کے موضوع پر جناب ہارون یحییٰ کی کتاب The Holocaust Violenceکا تفصیلی مطالعہ پیش کیا ہے۔ خودتحسین فراقی نے معروف جرمن مستشرق این میری شمل کی غالب شناسی پر مفصل تنقید پیش کی ہے جس میں ان کی علمی کاوشوں کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ان کی عاجلانہ افتادِ طبع اور اس کے نتیجے میں ان سے سرزد ہونے والے تسامحات کی نشان دہی کی ہے۔ مجلے کے ایک حصے میں بعض نادر اور قدیم ادبی کتابوں کا تعارف شامل ہے۔ ایک حصے میں مولوی عبدالحق، سید سلیمان ندوی، ڈاکٹر محمدحمیداللہ، مشفق خواجہ اور فیض احمد فیض کے غیرمطبوعہ خطوط شامل ہیں۔ (سیّد سلیمان ندوی کے بعض مکاتیب قبل ازیں فاران میں چھپ چکے ہیں)۔ متعدد اہم کتابوں پر تبصرے بھی دیے گئے ہیں۔

بحیثیت مجموعی مباحث اُردو کے علمی اور ادبی مجلّوں میں ایک مختلف نوعیت کا مجلہ ہے جسے بڑی توجہ اور محنت سے مرتب کیا گیا ہے۔ فقط ذاتی ذوق و شوق اور کسی ادارے کی اعانت یا سرپرستی کے بغیر انفرادی کاوش سے ایسا مجلہ شائع کرنا ایک بڑی جسارت مگر بے حد قابلِ قدر اقدام ہے۔ کتابت، طباعت اور پیش کش معیاری اور مدیر کے صاحب ِ ذوق ہونے کی دلیل ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


تعلیم اور اس کے مباحث، مؤلف: ارشد احمد بیگ۔ ناشر: رفاہ سنٹر آف اسلامک بزنس، رفاہ انٹرنیشنل یونی ورسٹی، ۲۷۴-پشاور روڈ، اولڈ سپریم کورٹ بلڈنگ، راولپنڈی کینٹ۔ صفحات: ۸۴۔قیمت: درج نہیں۔

پاکستان کا قیام جن مقاصد کے تحت عمل میں آیا، ان کے حصول کی کوششیں اوّل روز سے جاری ہیں۔ چنانچہ قیامِ پاکستان کے دو ہی مہینے بعد نومبر ۱۹۴۷ء میں وزارتِ تعلیم و تربیت کے زیراہتمام پہلی تعلیمی کانفرنس منعقد ہوئی، جس کی قراردادوں کے یہ الفاظ لائق توجہ ہیں: ’’پاکستان میں تعلیمی نظام کی بنیادیں دینی قدروں، اسلامی عالم گیر اخوت، رواداری اور عدل و انصاف پر استوار ہونی چاہییں‘‘۔ اس کے بعد پاکستان میں بننے والی تقریباً تمام تعلیمی پالیسیوں میں، اسلامی نظریۂ حیات کی حفاظت، اسلامی اصولوں کے مطابق نظامِ تعلیم کی تشکیل، اسلامی اقدار کے نفاذ، اسلام اور پاکستان سے وفاداری، اسلام اور قرآن کے مطابق عملی قواعد کی بنیاد پر نصاب سازی، اور نظامِ تعلیم کی تیاری کو اساسی حیثیت حاصل رہی۔ زیرتبصرہ کتاب میں پاکستان کے نظامِ تعلیم کے اسلامی تشخص کی تفہیم کی کوشش کی گئی ہے۔

مصنف نے ۲۱ عنوانات کے تحت علم، تعلیم، مقاصد تعلیم،ذریعہ تعلیم، اسلامی تصورِتعلیم، مغربی تصورِتعلیم، نظام ہاے تعلیم کے تقابلی مطالعے، تعلیم کے جامع تصور اور مروجہ تعلیمی نظام کے اخلاقی انحطاط اور دیگر عنوانات پر نہایت موثر اور مدلل طریقے سے حقائق بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان میں ہر نئی حکومت نے مقاصد کی حد تک نظامِ تعلیم کی اسلامی شناخت برقرار رکھی ہے لیکن عملاً پاکستان میں تعلیم پہلے سرکاری تحویل میں تھی، پھر نجی ادارے قومیا لیے گئے۔ کچھ عرصے بعد نجی اداروں کی اجازت دے دی گئی، بعدازاں مالی منفعت کی خاطر تجارت بن گئی۔ اس تغیر و تبدل نے نظامِ تعلیم کو اُن مقاصد سے ہم آہنگ نہیں ہونے دیا، جو تعمیرپاکستان کی اسلامی بنیادوں میں کارفرما ہیں۔

اس بات پر تعجب کا اظہار کیاگیا ہے کہ پاکستان کے نظامِ تعلیم کی اسلامی سمت موجود ہونے اور اُسے آج تک باقی رکھنے کے بعد اب پورے نظامِ تعلیم کو سیکولر کیوں بنایا جا رہا ہے؟ آج جو لوگ پاکستان کے نظامِ تعلیم کی سیکولر تشکیل کی کوشش کر رہے ہیں، ان کا یہ عمل غیرآئینی اور غیرمنطقی ہے۔کتاب نہایت سلیقے اور ترتیب سے تحریر کی گئی ہے۔ کتاب کے مضامین کی یاد دہانی کے لیے تعلیمی اصولوں کو مدّنظر رکھا گیا ہے۔ قرآنی آیات، احادیث، ماہرین تعلیم کی آرا اور مغربی مفکرین تعلیم کے اقوال سے مزین ہے۔(ظفرحجازی)


بحرانوں کی معیشت،مصنف: محمد جمیل چودھری۔ملنے کا پتا: کتاب سرائے، فرسٹ فلور ، الحمد مارکیٹ، غزنی سٹریٹ اُردو بازار ، لاہور۔فون: ۳۷۳۲۰۳۱۸-۰۴۲۔ صفحات: ۴۱۶۔ قیمت: درج نہیں۔

مصنف معاشیات کے استاد رہے ہیں۔ اسی دوران پاکستان کی معیشت کے مطالعے میں ان کی خصوصی دل چسپی پیدا ہوئی۔ ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد انھوں نے اردو کے ایک موقر روزنامے میں پاکستانی معیشت کے مسائل پر لکھنے کا آغاز کیا۔ ان کے کالموں میں پاکستانی معیشت کے بڑھتے ہوئے مسائل کی نشان دہی بھی موجود ہے اور ان کے حل کے لیے عملی تجاویز بھی۔ معاشی مسائل کے ساتھ ساتھ پروفیسر صاحب نے ملک کے سماجی مسائل اور تعلیمی شعبے پر بھی خوب لکھا۔اس حوالے سے انھوں نے قوموں کے عروج زوال میں تعلیم کے کردار پر بھی بحث کی اور کھلی منڈی کی معیشت کے تعلیم پر اثرات کا جائزہ بھی لیا۔ معاشرے کی تعمیر میں استاد کے کردار اور ان کی ذمہ داریوں پر بھی لکھا اور حکومت کی طرف سے پیش کی جانے والی تعلیمی پالیسیو ں کاتجزیہ بھی پیش کیا۔نصاب سازی اور نصابات کی بہتری  کے لیے تجاویز اور کوالٹی ایجوکیشن کے لیے   اپنی تجاویز بھی پیش کیں۔ یہ مضامین معلومات اور ملکی معاشی مسائل سے آگاہی کا ذریعہ بنے۔

مصنف نے پاکستانی معیشت کے تقریباً ہر پہلو پر قلم اٹھایا ہے۔ معیشت میں خود انحصاری کی ضرورت و اہمیت ،اس کے طریق کار، پاکستان میں ہونے والی زرعی اصلاحات اور ان کے نتائج، زرعی شعبے کے مسائل ، دیہی سطح پر پائی جانے والی غربت، سرمایہ کاری کے راستے کی رکاوٹیں اور ان کا حل ، ملک میں توانائی کے ذرائع ، خصوصا بجلی و گیس کی قلت، اور ان کی کمی پر قابو پانے کے لیے اقدامات ، بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور ان کے افراطِ زر پر اثرات ، پاکستان کی صنعتی پس ماندگی کی وجوہات، پاکستان پر بڑھتے ہوئے ملکی و غیر ملکی قرضے اور ان سے نجات کے طریق کار ، پاکستان کی کپڑے کی صنعت اور معیشت میں اس کے کردار، پاکستان کی معیشت پر سیاسی اثرات ، بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے سمیت معیشت کے تقریباً ہر شعبے کے بارے میں اعدادو شمارکی روشنی میں اظہار خیال کیا گیا ہے۔یہ کتاب جہاں معاشیات کے طلبہ اور اساتذہ کے لیے مفیدہے وہاں عام قارئین کے لیے بھی معلومات افزا ہے۔(میاں محمد اکرم)


سفر کہانیاں، عبیداللہ کیہر۔ ناشر: دی ٹرو وژن پبلی کیشنز، کراچی۔ صفحات:۳۲۲۔ قیمت: درج نہیں۔ www.safarkahanian.blogspot.com

عبیداللہ کیہر ایک تجربہ کار مسافر اور سیاح ہیں۔ ان کے سفرناموں میں کچھ مطبوعہ ہیں اور کچھ مشین بند یعنی ڈجی ٹل سفرنامے۔ ان میں سے ایک مطبوعہ سفرکہانیاں کے عنوان سے ہمارے سامنے ہے جس میں تقریباً ۳۰،۳۵ سفرنامچے جمع کیے گئے ہیں۔ یہ پاکستان، چین، ایران، آذربائیجان، سعودی عرب اور ترکی کے نئے پرانے اسفار اور مختلف اوقات میں عبیداللہ کیہر کی سیاحتوں کی مختصر رودادیں (یا مضامین) ہیں۔

یہ بے ساختہ تحریریں پانچ پانچ، سات سات صفحوں کی ہیں۔ ان میں باہمی ربط اور تسلسل نہیں کیوں کہ یہ الگ الگ علاقوں کی کہانیاں ہیں اور کہانیاں بھی ایسی جو کبھی کبھی اَدھوری رہ جاتی ہیں اور کیہرصاحب اُنھیں انجام تک نہیں پہنچاتے۔ روداد یا کہانی فقط بیانیے تک محدود رہتی ہے۔

عبیداللہ کیہر ایک خالص اور خوش باش سیاح ہیں۔وسط ایشیا یا چین کی طرف جانے والے سیاح، عام طور سے اِدھر سے جاتے ہوئے اور اُدھر سے آتے ہوئے کچھ نہ کچھ سامانِ تجارت لے چلتے ہیں، اس طرح وہ کچھ اخراجاتِ سفر نکال لیتے ہیں (حج کے مقدس سفر میں بھی ایک حد تک تجارت کی گنجایش ہوتی ہے) مگر شرعی و قانونی اجازت کے باوجود، عبیداللہ کیہر کے ’مذہب ِ سیاحت‘ میں اخراجاتِ سفر نکالنے کے لیے سامانِ سفر لے چلنا جائز نہیں۔ ان مختصر رودادوں کا تنوع قاری کے لیے دل چسپی کا باعث ہے مگر ان کا ادھورا پن لکھنے والے کی بے نیازانہ طبیعت کا مظہر ہے۔ عبیداللہ کیہر کی طبیعت میں نظیراکبرآبادی کے قلندرانہ مزاج کی کچھ کچھ جھلک نظر آتی ہے۔ جب وہ سیاحت کے لیے نکلتے ہیں تو جو سواری مل جائے، لے لیتے ہیں، جہاں سے جیسا کھانا میسر آئے، کھالیتے ہیں، البتہ کاروباری لوگوں اور حساب کتاب رکھنے والے ہم راہیوں سے انھیں پریشانی ہوتی ہے۔ ان کا اسلوب کہیں کہیں انگریزی الفاظ کے غیرضروری استعمال کی وجہ سے کھردرا ہے مگر مجموعی طور پر یہ سفرکہانیاں سادہ اور رواں بیانیے میں لکھی گئی ہیں۔

منظرنگاری کے اچھے نمونے بھی ملتے ہیں مثلاً ص ۵۰، ۷۲، ۷۶ وغیرہ ۔اگر وہ اپنے بقیّہ  ڈجی ٹل (مشینی؟) سفرناموں کو بھی کاغذ پر اُتار کر کتابوں کی صورت میں پیش کریں اور زبان و بیان کی طرف تھوڑی سی توجہ دیں تو ان کا شمار اُردو کے قابلِ لحاظ اور معتبر سفرنامہ لکھنے والوں میں ہوگا، کیوں کہ ان کے ہاں ہمارے بعض نام وَر اور سفرناموں کے ڈھیر لگادینے والوں کی طرح کی بناوٹ اور تصنّع نہیں ہے۔ (ر- ہ)


نواے سحر، سلمیٰ یاسمین نجمی۔ ناشر: مکتبہ عفت، بنگلہ نمبر ۲۶۷، نزد اسٹیٹ لائف بلڈنگ، صدر روڈ، راولپنڈی۔ صفحات: ۳۲۴۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

سلمیٰ یاسمین نجمی معروف ادیب، افسانہ و ناول نگار اور نقاد ہیں۔ ان دنوں خواتین کے ماہانہ عفت کی ادارت بھی ان کے سپرد ہے۔

علامہ اقبال کی شاعری کا مطالعہ اس دور کی ضرورت ہے اور مختلف حلقوں کی طرف سے تفہیم اقبال کا تقاضا بھی کیا جاتا ہے۔ سلمیٰ صاحبہ نے اقبال کی بعض مختصر اور طویل نظموں کی تشریحات کا سلسلہ عفت میں شروع کیا تھا۔ اب اسے کتابی شکل میں مرتب کیا گیا ہے۔ یہ تشریحات، کلیاتِ اُردو کی ۱۲ منتخب نظموں کی ہیں۔ ہرنظم کا مختصر تعارف دینے کے بعد شعر بہ شعر  تشریح کی گئی ہے۔ پاورقی حواشی میں مشکل الفاظ کے معنی دیے گئے ہیں، البتہ بہت سے مشکل الفاظ کے معنی (شاید انھیں آسان سمجھ کر) نہیں دیے گئے۔ نظموں کا پس منظر بھی مختصر ہے۔ قدرے زیادہ وضاحت ہوتی تو تفہیم نسبتاً آسان ہوتی۔

تشریحات سے پہلے سلمیٰ صاحبہ نے تمہیدی مضمون بعنوان ’ہمیں علامہ اقبال کو کیوں پڑھنا چاہیے‘ میں بتایا ہے کہ علامہ اقبال کی شخصیت اور فکر اور شاعری ایک  جنریٹر کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ ہمیں ظلمات اور اندھیروں سے روشنیوں کی طرف لے آتی ہے۔ وہ کہتی ہیں اندھیرے سے روشنی میں آنا چاہتے ہو تو پھر علامہ کا کلام ہمارا بہت بڑا مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ یہی اس کتاب کا جواز ہے اور یہی اس کا محرک ہے۔ ان کے خیال میں علامہ کو پڑھنا اور ان کی شاعری کو سمجھنا اس لیے ضروری ہے کہ اُمت مسلمہ سوز وسازِ رومی اور پیچ و تاب رازی سے تہی دامن ہوچکی ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ ہم میں وہی اضطراب اور قوتِ عمل پیدا ہوجائے جو علامہ کو بے چین اور بے قرار رکھتی تھی۔ تشریحات میں ایک توازن ہے، عام فہم ہیں اور راست فکری پر مبنی ہیں۔ (ر- ہ )

محمد  اصغر ، یونی ورسٹی ٹائون ، پشاور

’پارلیمنٹ اور پاکستان کو درپیش چیلنج‘ (اپریل ۲۰۱۰ئ) جماعت اسلامی، اُس کے سینیٹرز اور خصوصاً پروفیسر خورشیداحمد صاحب کی کارکردگی، امانت و دیانت سے فرائض کی بجاآوری، متعین وقت کے بھرپور استعمال اور عوام اور بالخصوص اسلام کی بہترین ترجمانی کا ایک عکس ہے۔ کیا خوب ہوتا اگر ایم ایم اے دور کے (۲۰۰۲ئ-۲۰۰۸ئ) دوران جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے قومی و صوبائی اسمبلی کے ارکان بھی اپنی کارکردگی کو انھی خطوط پر ضبط ِ تحریر میں لاتے تاکہ دوسری جماعتوں خصوصاً اتحادی جماعتوں کے ساتھ تقابل کیا جاسکتا۔


احمد علی محمودی ، حاصل پور

’فرقہ واریت، زہرقاتل‘ (اپریل ۲۰۱۲ئ) اتحادِ اُمت کے حوالے سے اہم تحریر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اتحاداُمت کے حوالے سے سب سے بڑی ذمہ داری خود وارثانِ منبرومحراب پر عاید ہوتی ہے کہ وہ ہرقسم کے اختلافات کو بالاے طاق رکھتے ہوئے قرآن و سنت کے پیغام کو عام کریں اور اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ اپنائیں۔


ڈاکٹر خان محمد صابری ، جھنگ صدر

’تبدیلی کی سمت اور منزل - مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست‘ (مارچ ۲۰۱۲ئ) میں لکھا گیا ہے کہ ’’خلافتِ راشدہ کے دور میں اگر کوئی شخص بیت المال کی کوئی رقم غلط خر چ کرتا تھا تو اس پر سخت کارروائی کی جاتی تھی، اور حضرت عمرؓ نے تو حضرت خالدؓ بن ولید جیسے جرنیل تک کو ۱۰ہزار درہم غلط طور پر استعمال کرنے کے جرم میں معزول کردیا تھا ‘‘ (ص ۸)۔ میرے نزدیک یہ بات درست نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت خالدؓ نے جس وقت وہ رقم شاعر کو انعام دی تھی اُس وقت حضرت ابوعبیدہؓ امین الامت سپہ سالار تھے اور بیت المال اُن کی نگرانی میں تھا۔ پوری فوج کے سامنے جب حضرت خالدؓ سے اقرار کرایا گیا تھا تو انھوں نے بیت المال کے بجاے ذاتی جیب سے خرچ کرنے کا اعتراف کیا تھا جسے اسراف تو کہا جاسکتا ہے لیکن بیت المال کی رقم کا    غلط خرچ نہیں کہا جاسکتا ۔ (الفاروق، شبلی نعمانی)


ڈاکٹر طاہر سراج ،ساہیوال

صوبہ پنجاب میں اُردو کے بطور ذریعۂ تعلیم پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ اس سال سے پورے صوبے کے پرائمری اور مڈل امتحان صرف انگریزی میڈیم کے تحت لیے گئے ہیں۔قومی اور مادری زبان میں تعلیم کی اہمیت سے ہم بخوبی آگاہ ہیں۔ اُردو ذریعۂ تعلیم پر پابندی کے نتیجے میں انگریزی میں حصولِ تعلیم میں دقّت کی وجہ سے بچے تعلیمی ادارے چھوڑ رہے ہیں۔ تعلیم مہنگی اور مشکل تر ہورہی ہے۔ اس کے نتیجے میں ہماری تہذیبی روایات کو نقصان پہنچنے کا بھی اندیشہ ہے۔ اس اہم مسئلے کی طرف توجہ دلانے اور ’اُردو ذریعۂ تعلیم‘ پر پابندی کے مضمرات سے آگاہی کے لیے ترجمان میں تجزیاتی مضمون کی اشاعت کی ضرورت ہے۔ اس سے قبل تعلیم سے متعلق ہر اہم مسئلے پر مضامین آتے رہے ہیں۔


صداقت فقیہ ملا،بھارت

قارئین کی آرا کسی بھی مجلے کے لیے اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ اسی اہمیت کی بنا پر انھیں رسالے میں جگہ بھی دی جاتی ہے۔ ترجمان میں ’مدیر کے نام‘ سے کالم اگرچہ اس غرض کے لیے مختص ہے لیکن اس کے لیے صفحات کم ہیں۔ ان میں اضافے کی ضرورت ہے۔ اُردو میگزینوں میں ترجمان کی ویب سائٹ بھی ایک اچھی ویب سائٹ کے طور پر جانی جاتی ہے۔

مصنوعی درویشی

مَیں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ [صحابہ کرامؓ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم] نے کبھی اپنی زندگی میں مصنوعی درویشی پیدا کرنے کی کوشش نہیں فرمائی، اور نہ محض اِس غرض سے اپنے لباس، مکان اور خوراک کا معیار کم تر رکھا کہ دیکھنے والے ان کی فقیرانہ شان دیکھ کر داد دیں۔ وہ سب بالکل ایک فطری، سادہ اور معتدل زندگی بسر کرتے تھے، اور جس اصول کے پابند تھے وہ صرف یہ تھا کہ شریعت کے ممنوعات سے پرہیز کریں، مباحات کے دائرے میں زندگی کو محدود رکھیں، رزقِ حلال حاصل کریں اور راہِ خدا کی جدوجہد میں بہرحال ثابت قدم رہیں، خواہ اس میں فقروفاقہ پیش آئے، یا اللہ کسی وقت اپنی نعمتوں سے نواز دے! جان بوجھ کر بُرا پہننا، جب کہ اچھا پہننے کو جائزطریق  سے مل سکے، اور جان بوجھ کر بُرا کھانا، جب کہ اچھی غذا حلال طریقے سے بہم پہنچ سکے، ان کا مسلک نہ تھا۔ ان میں سے جن بزرگوں کو راہِ خدا میں جدوجہد کرنے کے ساتھ حلال روزی فراخی کے ساتھ مل جاتی تھی وہ اچھا کھاتے بھی تھے، اچھا پہنتے بھی تھے اور پختہ مکانوں میں رہتے بھی تھے۔    خوش حال آدمیوں کا قصداً بدحال بن کر رہنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی پسند نہیں فرمایا، بلکہ   آپؐ نے خود ان کو یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ اپنی نعمت کا اثر تمھارے لباس اور کھانے اور سواری میں دیکھنا پسند فرماتا ہے....

شاید لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ خدا کی نعمتیں صرف ان لوگوں کے لیے ہیں جو خدا کا کام کرنے کے بجاے اپنا کام کرتے رہیں۔ رہے خدا کا کام کرنے والے ، تو وہ خدا کی کسی نعمت کے مستحق نہیں ہیں۔ یا پھر شاید ان کے دماغ پر راہبوں اور سنیاسیوں کی زندگی کا سکّہ بیٹھا ہوا ہے اور وہ دین داری کے ساتھ رہبانیت کو لازم و ملزوم سمجھتے ہیں، اس لیے کھاتا پیتا دین دار ان کو ایک عجوبہ نظر آتا ہے۔ (’رسائل و مسائل‘، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۳۸، عدد ۱-۲،رجب، شعبان ۱۳۷۱ھ، اپریل، مئی ۱۹۵۲ئ، ص ۱۰۵)