مضامین کی فہرست


جون ۲۰۲۳

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کی قوم اور خصوصیت سے موجودہ قیادت کو قطعاً احساس نہیں کہ پاکستان کتنی قربانیوں اور جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے۔ اس کے قیام کی جدوجہد میں لاکھوں انسانوں نے جان کا نذرانہ پیش کیا ہے اور بڑے نامساعد حالات میں قائداعظم محمدعلی جناح ؒکی بصیرت اور عوام کی جدوجہد کے نتیجے میں یہ ملک قائم ہوا جوہمارے ہاتھوں میں امانت ہے۔ یہ ہمارا پاکستان ہے، یہ میرا پاکستان ہے۔

مَیں نے ۴دسمبر ۱۹۴۷ء کو اپنی آنکھوں سے قرول باغ، دہلی میں اپنے گھر کو بلوائیوں کے ہاتھوں لُٹتے دیکھا ہے۔ مجھ پر اور میرے خاندان پر ایک رات ایسی بھی گزری ہے کہ جان بچانے کے لیے پانچ جگہیں تبدیل کرنا پڑیں۔ انسانوں کی جلتی ہوئی لاشوں کی بُو سونگھی ہے۔ایک مہینہ مہاجرین کے کیمپ قلعہ شیرشاہ میںزمین پر، دریوں پر زندگی گزاری ہے۔ میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے کہ ہرسطح پر کارفرما موجودہ قیادت   کس غفلت ، فکری انحطاط، بے فکرے پن، اور ذاتی مفادات کی خاطر ملک کے مسائل کو یکسرنظرانداز کر رہی ہے اور ملک مسائل اور بحرانوں کی دلدل میں دھنس رہا ہے۔ ان حالات میں اجتماعی زندگی کے پانچ اہم پہلوئوں کے بارے میں اس مضمون میں ڈاکٹر انیس احمد نے بنیادی نقشۂ کار کی طرف متوجہ کیا ہے، جس پر عمل کرکے بحران سے نکلنے کا سامان فراہم ہوسکتا ہے۔مدیر]

ملک عزیز کے ۷۰سالہ اُتار چڑھاؤ کی تاریخ پر اگر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو ایک غیرجانب دار مبصر یہ کہنے پر مجبور ہوتا ہے کہ کہ ملک کی بار بار آزمائی ہوئی سیاسی جماعتیں    ملّی مفاد کی جگہ انتخابی سیاست کی شطرنجی بساط کو زیادہ اہمیت دیتی رہی ہیں۔ آج ملک جس سیاسی ، معاشی، دفاعی اور سب سے زیادہ اخلاقی بحران کا شکار ہے، وہ ان کی ا نتخابی سیاست کا ایک منطقی نتیجہ ہے۔ہر وہ جماعت جو کسی اتحاد کی بنا پر یا کسی حوالے سے اپنی اکثریت کی بنا پر برسرِ اقتدار آئی، اس نے یہی سمجھا کہ اب نہ صرف سیاست بلکہ پوری ریاست بھی صرف اس کی میراث ہونی چاہیے۔ اس کی مثال ان دوسگے لیکن خود غرض بھائیوں کی طرح ہے، جو زمین کی تقسیم پر ایک دوسرے کی کردار کشی ، الزام تراشی اور اتہام بازی سے دریغ نہیں کرتے۔ یہ وہ گھنائونی حرکت ہے جسے قرآن کریم نے انفرادی اور اجتماعی طور پر ملت کے وجود کے کے لیےزہر قاتل قرار دیا ہے۔   افسوس ہے کہ بڑی سیاسی جماعتیں پوری تندہی کے ساتھ یہ کام کرنے میں مصروف ہیں اورقوم کے مستقبل سے بے نیاز ہوکر ملک کو تباہی کی طرف لے جانے کی دوڑ میں لگی ہوئی ہیں۔ آج جو ہنگامی سیاست کی فضا ملک میں قائم ہے اور ہر فریق دوسرے کی ذات، عزّت، شخصیت اور وقار کو نشانہ بنارہا ہے، اس کے نتیجے میں انتشار اور توڑ پھوڑ کے لیے کسی بیرونی دشمن کے حملے کی ضرورت باقی نہیں رہی ۔

اس نازک صورتِ حال میں بلاتاخیر ذاتی اور اجتماعی احتساب کی فکر کرنی چاہیے اور اس کے ساتھ ، رب کریم کے حضور استغفار اور اجتماعی توبہ اور رجوع الی اللہ کی ضرورت ہے ۔ حالات میں بہتری کے لیے ضروری ہے کہ ہر طبقۂ خیال کے افراد یکسو اور یکجا ہو کر پانچ اہم اُمور کے لیے صف بستہ ہوجائیں، جس میں ابلاغ عامہ اپنی سنسنی خیزیت کو ملتوی کرتے ہوئے ملک و ملت کو ایک تعمیری راستے کی طرف لانے کی کوشش میں تعاون کرے :

  • پہلا اہم امر ملک کے دستور کی روشنی میں ملک و ملت کی نظریاتی اساس کا تحفظ ہے ۔ قائداعظم ؒنے پاکستان کا مقصدِ وجود ’اسلام اور مسلمانوں کے تحفظ‘ کو قرار دیا تھا اور فرمایا تھا کہ اگر یہ ملک نہ بنا تو یہ سانحہ اسلام اور مسلمانوں دونوں کے لیے تباہ کن ہو گا۔ موجودہ صورتِ حال میں جس طرح مسائل کو گڈ مڈ کر کے افواہوں کا بازار گرم کیا جارہا ہے، یوں دوسرے لفظوں میں یہ منفی پیغام دیا جارہا ہے کہ سیاسی آزادی نے نہ ہمیں معاشی استحکام دیا، نہ سیاسی قوت ۔ اس لیے گویا قائد اعظمؒ کا ملک کو الگ سے وجود میں لانا ہی درست نہ تھا، اورمسلمان ہندو اکثریت کے غلام رہ کر شاید زیادہ بہتر زندگی بسر کرتے! اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی دُہرائی جا رہی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کو بدلنے کی ضرورت ہے ۔ گویا سارا قصور یا تو قائد اعظمؒ کا ہے یا پھر دستور کا، اور ۷۰ سال سے اقتدار پر قابض رہنے والی جماعتیں اور ان کے معروف ذاتی مفاد پرست سربراہ تو بے چارے معصوم اور بے گناہ ہیں اور کسی برائی کے مرتکب نہیں ہیں ۔

اس تناظر میں ملک و ملت کو دستور پاکستان کی حرمت و تحفظ کو اوّلیت دینے کی ضرورت ہے ۔ یہ دستور ملکی اتحاد، نظریاتی تحفظ اور جمہوری روایات کا امین ہے ۔ امرواقعہ یہ ہے کہ ہماری کمزوری دستور نہیں ہے بلکہ دستور سے مذاق و انحراف کرنے والے افراد اور ادارے ہیں ۔اس خرابی کی ذمہ داری کسی دوسرے پر منتقل کرنے سے یہ صداقت تبدیل نہیں ہو سکتی ۔

  • دوسری اہم ضرورت عقل و شعور کے راستے کو اختیار کرنا اور اپنی اَنا یا اپنی بات پر اصرار اور ضد، ہٹ دھرمی اور ملکی اداروں کے ناجائز استحصال کے ذریعے سے اپنی بات منوانے کی جگہ مشاورت ، گفتگو ، مکالمہ ، تبادلۂ خیالات یا شورائی فکر کو اختیار کرنا ہے ۔ شوریٰ کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی مسئلے کے مثبت ، منفی ، اچھے بُرے پہلوؤں پر ہرزاویے سے غور کیا جائے اور پھر پارٹی یا ذاتی مفاد سے بالا تر ہو کر اجتماعی ملّی مفاد کو ملحو ظ رکھتے ہوئے آئین کی روشنی میں اتفاق رائے حاصل کیا جائے کہ اسی اتفاق رائے میں برکت ہے۔ اس کے برعکس ہر ایک کا اپنی اپنی ڈفلی بجانا نقارخانے میں شور و غل اور ہنگامہ تو پیدا کرسکتا ہے لیکن اس سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکتے۔
  • تیسرا اہم قومی کام عدلیہ کی مکمل آزادی اور اسے دستور کا محافظ اور شارح تسلیم کیا جانا اور عدلیہ کا عملاً اس کردار کوپوری ذمہ داری اور دستور کی متعین کردہ حدود میں ادا کرنا ہے۔ عین ممکن ہے کہ کسی خاص موقعے پر بعض ایسےا فراد عدلیہ میں ہوں جو انسانی کمزوری کی بنا پر کوئی غلط فیصلہ کر دیں،اور ایسا ہونا بعید از امکان نہیں ہے، مگر اس کے باوجود عدلیہ کا وقار، معروضیت اور سیاسی دباؤ سے آزاد ہونا اور آزاد رہنا، نہ صرف دستور کی روح ہے بلکہ ملکی سالمیت کے لیے شرطِ اوّل ہے۔ ہر اس رویے سے بچنے کی ضرورت ہے، جس سے عدلیہ کی آزادی ، احترام اور کردار کو نقصان پہنچتا ہو۔
  • چوتھا اہم کام اس پورے عمل میں دفاعی اداروں کا ملک کے دفاع کو اوّلیت دینا اور ملکی سیاست میں کسی جانب داری کا اختیار نہ کرنا ہے۔ جس طرح عدل کے بغیر ملک میں امن نہیں ہو سکتا، ایسے ہی جب تک دفاعی ادارے غیر جانب دارنہ ہوں، ملک میں امن و سکون نہیں ہو سکتا اور ان پرعوام کا اعتماد بحال نہیں ہو سکتا ۔

موجودہ صورت حال میں ایک پھل فروش سے لے کر کالج کے ایک طالب علم اور کسان تک یہ یقین رکھتا ہے کہ اداروں کے دائرہ کار اور حدود پر عمل کرنے میں توازن کافقدان ہے۔ خاص طور پر الیکشن کمیشن بظاہر اپنی دستوری ذمہ داری ادا کرنے پر آمادہ نظر نہیں آرہا۔ کراچی کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں مشکوک انتخابی عمل اور حکمران سیاسی جماعت کو کامیاب بنانے کے لیے کی جانے والی انتخابی بے ضابطگیوں نے الیکشن کمیشن کی ساکھ پر سنجیدہ سوالات کو جنم دیا ہےاوراس ادارے کی غیر جانب داری کو مشتبہ نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے ۔ الیکشن کمیشن اور پارلیمان کے نمایندوں نے قوم کےا عتماد کو نقصان پہنچایا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام دستوری اداروں پر قوم کے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں ۔

  • پانچواں اہم معاملہ انتخابات کا وقت پر ہونا ہے۔قوم اس وقت جس جذباتی تقسیم اور تضاد بلکہ ٹکراؤ کے راستے کی طرف جا رہی ہے،اس سے بچاؤ کے لیے انتخابات کا وقت پر اور غیرجانب داری کے ساتھ کیا جانا ایک لازمی ضرورت ہے ۔ اپنی تما م تر کمزوریوں کے باوجود، اس قوم میں بھلائی اور برائی میں امتیاز کرنے کی صلاحیت موجود ہے ۔ اگر انتخابات کے ذریعے کوئی ملک مخالف عناصر اقتدار میں آنا چاہیں، تو یہ قوم ابھی اتنی اندھی نہیں ہے کہ انھیں اپنے اُوپر مسلط کر لے۔ اصل چیز جمہوری انتخابی عمل کا بلا انقطاع جاری رہنا ہے ۔ یہ ایک فطری عمل ہے اور یہ حق و باطل میں تمیز کو جلد یا بدیر واضح کر دیتا ہے ۔

ملک کے ایک حصے میں لسانیت اور علاقائیت کو مسلسل فروغ دیا جا تا رہا ہے، لیکن ملک کی آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے شہر میں جب تحریک اسلامی نے صحیح حکمت عملی اور زمینی حقائق کی روشنی میں دعوت کو اختیار کیا، تو اس شہرکے عوام نے عصبیتوں کو رَد کر کے تحریک پر اعتماد کا اظہار اپنے ووٹ سے کیا ۔ یہ اس بات کی واضح علامت ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں اگر قوم کو صیحح حکمت عملی سے متوجہ کیا جائے، تو وہ حق و باطل کے درمیان فرق کرنا جانتی ہے اور انتخابات میں اپنا حق اعتماد سے استعمال کرسکتی ہے۔

کرنے کا کام

ایک ایسے سیاسی بیانیے کی ضرورت ہے جو ملک کے معاشی، سیاسی اور اخلاقی انتشار کو دُور کرنے کے لیے ان اقدامات پر مبنی ہو جو قابل عمل ہوں ، متعین ہوں، عمومی نوعیت کے نہ ہو ں بلکہ مقرر اہداف کی شکل میں ہوں۔ مروجہ سیاسی زبان میں دوسری جماعتوں پر الزام تراشی اورا نھیں بدعنوانی کا ذمہ دار ٹھیرا کر مخالفت برائے مخالفت کی جاتی ہے ، اس کی جگہ دعوتی اور اصلاحی زبان میں شائستگی سے اختلاف کی روایت کو فروغ دیا جائے ۔ اہل اور ایمان دار افراد کو تلاش کیا جائے اور ایک قابلِ عمل معاشی ترقی کے پروگرام کو عزم و ہمت اور نوجوان نسل سے تعلق رکھنے والے افراد کے ذریعے بنیاد بنایا جائے۔ ملک کے سیاسی منظرنامے میں متحرک نوجوان قیادت میں باصلاحیت افراد کی کمی نہیں ہے اور وہ زیادہ فعال اور سرگرم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ ایسے نوجوانوں کی ہمت افزائی کی جائے جو ۳۰ تا ۳۵ سالہ عمر کے ہوں اور قیادت کی صلاحیت رکھتے ہوں ۔ معاشرتی فلاحی کاموں میں شریک ہوں، جیسے الخدمت فائونڈیشن کام کر رہی ہے۔

گذشتہ دو عشروں میں قوم بہت تیزی کے ساتھ اخلاقی زوال کا شکار ہوئی ہے۔ سیاسی، معاشرتی، حتیٰ کہ مسلکی زبان میں بھی شائستگی کی جگہ بد تہذیبی کو عام کیا گیا ہے ۔ اس کے ساتھ ملک کے تعلیم یافتہ افراد مایوسی اور لاتعلقی کا شکار ہوئے ہیں اور انھیں مسائل کو حل کرنے کے لیے کسی مسیحا کی شدت سے تلاش ہے ۔ مسائل کے گھنے بادلوں میں وہ امید کی کوئی کرن دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس معاشرتی نااُمیدی کو دُور کرنے کے لیے تحریک اسلامی ایک مثبت اور تعمیری سمت فراہم کر سکتی ہے، اور اپنے عام فہم اور قابل عمل معاشی ، سیاسی اور اخلاقی حل کے ذریعے تعلیم یافتہ طبقے کو اپنے ساتھ شامل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی کا منشور جو حال ہی میں جاری کیا گیا ہے، ایک قیمتی رہنما دستاویز ہے۔

 اس صورتِ حال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ دین کے فلاحی کردار کو اجاگر کیا جائے اور حقوق العباد کے کاموں میں الخدمت کی طرح زیادہ سے زیادہ سرگرمی کی طرف توجہ دی جائے، لیکن اس نیت کے ساتھ کہ ہم اس کا اجر صرف اللہ سے چاہتے ہیں ۔ اگر نیت درست ہوگی تو وہ جو دلوں کے حال سے آگاہ ہے، اپنے بندوں سے (جو نماز اور زکوٰۃ اور جہاد فی سبیل اللہ پر عامل ہوں)  وعدہ فرماتاہے کہ انھیں میراث میں جنت دی جائے گی ۔ گویا اصل کامیابی پارلیمنٹ کی کرسی نہیں بلکہ جنت کا حصول ہے ۔اس دنیا کی ساری کوششوں کا محور و مرکز دنیا کی شان وشوکت نہیں ہو نا چاہیے بلکہ آخرت ہونا چاہیے، ہاں اگر وہ جو ہر شے کا مالک ہے، اپنے بندوں کے خلوص سے خوش ہو کر انھیں یہاں بھی میراث میں سے کچھ دے دے تو یہ اس کا خاص فضل و کرم ہے۔

اقامت دین کی جدوجہد کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے اس سرزمین کے عطیے کو جو اس نے اپنے دین کے قیام و فروغ کے لیے دیا ہے، اس کی سالمیت ا ور یہاں پر دستور کی بالادستی، عدلیہ کی آزادی، عوام کو درپیش معاشی اور اخلاقی مسائل کا ایک قابل عمل حل پیش کرنا اور اس کے لیے عوام کو منظم اور متحرک کرنا تحریک اسلامی کی خصوصی ذمہ داری ہے۔تحریک اسلامی اس حیثیت سے اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہے کہ اس نے ملک کی سالمیت اور مظلوم عوام کے مسائل کو حل کرنے میں کیا کردار ادا کیا؟ا صل جواب دہی اس دنیا کی پارلیمنٹ میں نہیں بلکہ مالک کائنات کے حضور پیشی کے وقت ہے۔ اللہ تعالیٰ تحریک اسلامی اور اس کے ہر کارکن کو اس بڑی پیشی میں سرفراز فرمائے،آمین!

اس سلسلے میں علما، والدین، میڈیا اور سوشل میڈیا کو بھی خصوصی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے کے ہر طبقے اور ہرحصے میں وقت کی ضرورت کے مطابق دعوت اور اصلاح کے کام کو منظم اور متحرک کیا جاسکے۔

پہلا وہ گھر خدا کا....

مسجد حرام میں قدم رکھا تو ایک عجیب سی طمانیت کا احساس ہوا۔ راستہ ڈھلواں ہے، دونوں طرف فرشِ مسجد پر قیمتی قالین بچھے ہیں۔ سامنے کعبہ کی مختصر سی عمارت ہے۔ اتنی وسیع کائنات کے مالک کا اتنا چھوٹا سا گھر اگر تصویروں اور فلموں میں پہلے نہ دیکھتا ہوتا تو یقینا حیرت ہوتی۔ اس گھر کے اردگرد کا صحن بہت وسیع ہے۔ صحن میں سفید سنگ ِ مرمر کا فرش ہے اور اس پتھر کی خاصیت یہ ہے کہ یہ سخت دھوپ میں بھی گرم نہیں ہوتا۔ گرم ہونا تو درکنار اس کی خنکی میں ذرہ بھر فرق نہیں آتا۔ صحن حرم میں قدم رکھا تو تلوئوں کو اتنی خنکی کا احساس ہوا جیسے کسی نے ان پر ملائی کے پھاہے رکھ دیے ہوں۔

حرم شریف نشیب میں واقع ہے۔ ایک پیالہ ساکہ جس کے کناروں پر مسجدالحرام کی دومنزلہ عمارت ہے۔ حرم کے مینار اتنے اُونچے نہیں کہ پگڑی سنبھالنی پڑے۔ اس لمحے میں نے صرف اتنا کچھ دیکھا یا دیکھ سکا۔ میں حرمِ کعبہ کے پہلے نظارے میں یوں کھوگیا تھا کہ ماحول کی ہرتفصیل نگاہوں سے اوجھل ہوگئی تھی۔ یہ لمحہ بہت عظیم تھا اور اب بھی ہے۔ (ارضِ تمنا)


میں باب السلام کے سامنے کھڑا تھا۔ حرم میں داخل ہوا اور کعبہ کی کشش کو دل میں محسوس کرتے ہوئے بیرونی ہال سے گزرتے ہوئے ان سیڑھیوں کے پاس جاپہنچا جو کھلے آسمان تلے موجود اس وسیع احاطے تک جاتی ہیں جس کے بیچوں بیچ، سیاہ غلاف میں ملفوف، وہ مکعب عمارت ہے جسے کوئی چار ہزار سال قبل حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کی مدد سے تعمیر کیا تھا اور جو سیکڑوں سال سے اربوں انسانوں کی روحانی زندگی کا مرکز رہی ہے۔

سنگ ِ مرمر سے بنے احاطے کے وسط میں، اَن گنت ستاروں سے مزین آسمان تلے، اپنے سیاہ لبادے میں ملفوف، خاموش، اَزلی برکتوں سے معمور ایک سادہ سی عمارت میں جواَب دل میں یوں دھمک پیدا کررہی تھی جیسے ابھی اسے اس کے پنجر سے رہا کردے گی۔ پھر زبان نے اقرار کیا: اللہُ اَکْبَرُ، اللہُ اَکْبَرُ، اللہَ اَکْبَرُ، لَا اِلٰہ اِلَّا اللہَ   وَاللہُ اَکْبَرُ ،اور دل نے گواہی دی کہ یقینا اللہ کی ذات عظیم ترین ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔

آنکھیں سیاہ پوش عمارت پر مرتکز اور دل ایک عجیب سُرور سے سرشار، پائوں سرد، سنگ ِ مرمر پر یوںجیسے اس سحرانگیز لمحے میں جسم کے وزن سے آزاد ہوچکے ہوں۔ نہ جانے کتنا وقت گزرگیا۔ بالآخر دل میں کوئی چیز پگھلی، آنکھوں سے آنسو بہنے لگے جیسے کوئی چشمہ خاموشی سے جاری ہوگیا ہو۔

ہزاروں مرد، عورتیں اور بچّے صحن میں موجود تھے۔ ان میں طواف کرنے والے بھی تھے اور وہ بھی جورات کے اس اوّل پہر میں کعبہ کے گرد عبادت میں مصروف تھے۔ طواف کرنے والوں میں احرام میں ملبوس زائر بھی تھے اور عام کپڑوں میں ملفوف مکین بھی، سب کعبہ سے نکلنے والی پُراسرار جذبی شعاعوں کی غیرمرئی کشش میں محصور، متحرک بچّے، عورتیں، مرد اور فرشتے جو اس رات بیت اللہ کی زیارت کے لیے بلائے گئے تھے۔ نظردرِ کعبہ پر مرتکز کیے، صحن کی طرف اُترنے والی سیڑھیوں پر کھڑا ایک حاجت مند فقیر جس کا دل اب کعبہ کی بڑھتی ہوئی کشش سے یوں دھڑک رہا تھا جیسے ابھی پھٹ جائے گا اور اپنے قفس کو توڑ کر کسی پرندے کی طرح پھڑک کر ڈھیر ہوجائے گا۔(سحرِمدینہ)


یہ سیاہ پتھروں سے بنا ہوا چوکور کمرہ حرم شریف کی عالی شان دومنزلہ عمارت کے درمیان اس طرح مسند نشیں ہے جیسے کسی قیمتی انگوٹھی میں کوئی بیش قیمت سیاہ پتھر آویزاں ہو، جس سے بے شمار کرنیں پھوٹ رہی ہیں۔ میں اور میری اہلیہ عجب عالمِ استغراق میں تھے۔ دُعا کے لیے ہاتھ بلند تھے۔ سارے اعزا، اقربا، احباب جو دُنیا میں تھے یا دُنیا سے جاچکے تھے، ایک ایک کرکے یاد آرہے تھے۔ بیت اللہ کے سنہرے دروازے پر نگاہ ٹکی ہوئی تھی کہ کاش! یہ کھل جاتا اور کاش! ہم اندر کا منظر بھی دیکھ لیتے۔ میں سوچ رہا تھا کہ اللہ کا گھر تو بالکل ایک عام انسان کے گھرسے بھی معمولی ہے مگر اس کے اردگرد بقعہ نُور بنی ہوئی بلندوبالا عمارتیں حقیر محسوس ہورہی تھی۔ اللہ کے گھر میں کوئی چمک دمک نہ تھی مگر مسجد حرام کی پُرشکوہ محرابیں، سلیٹی دھاریوں والے سنگ مرمر کی بلندوبالا دیواریں، پُروقار و چمک دار ستون جن کو بڑے بڑے روشن فانوس اپنی شعاعوں سے جگمگا رہے تھے، لیکن کسی زائر کی نگاہ اللہ کے گھر کے سامنے ان عمارات پر نہیں ٹکتی تھیں۔ سب کی نگاہوں کا محور وہ سیاہ غلاف سے ڈھکا ہوا چوکور کمرہ تھا جو ہر طرح کی زیبائش سے بے نیاز تھا۔ اس گھر کے جاںنثار اگر اجازت ہوتی تو اسے سونے کی چادروں سے ڈھک دیتے مگر اس گھر کے مالک کی یہی مرضی تھی کہ اس کا گھر بھی عام انسانوں کے گھر جیسا نظر آئے اور اسی صورت میں برقرار رہے جس شکل میں اسے معمارِاوّل حضرت ابراہیم ؑ نے تعمیر کیا تھا۔ (جلوے ہیں بے شمار)


حرم کا صحن بقعۂ نُور بنا ہوا ہے۔ برآمدوں میں فروزاں ہزاروں یا شاید لاکھوں برقی قمقموں اور فانوسوں کی روشنی خانۂ خدا کی طرف لپک رہی ہے۔ قطار اندر قطار بیٹھے ان ہزاروں لاکھوں زائرین میں سے کچھ اللہ کے ایسے پُراسرار بندے بھی ہیں جن کے زمانے عجیب اور جن کے فسانے غریب ہیں۔

مغرب کی نماز سے ذرا پہلے ایک ایرانی نوجوان میرے پہلو میں بیٹھا تھا۔ اذان کی آواز بلند ہوتے ہی اُس نے جھٹ سے کوئی نمبر ملایا، لمحہ بھر کو بات کی اور پھر فون بند کیے بغیر ہاتھ میں پکڑے رکھا۔ اذان ختم ہوئی تو اُس نے فون بند کردیا اور میری طرف دیکھ کر بولا: ’’میری ماں نے کہا تھا کہ مجھے حرم شریف کی اذان ضرور سنانا‘‘۔ واقعی ساری دُنیا کی مائیں ایک جیسی ہوتی ہیں۔

میں مسلسل کعبے کے غلاف کو دیکھ رہا ہوں۔ حجراَسود کے عین اُوپر ، چھت کے قریب سنہری ریشے سے بنے الفاظ یَاحَیُّیْ یَاقُیُّوْمُ،میری نگاہوں کے سامنے ہیں۔ شام، رات میں تحلیل ہورہی ہے، لیکن ہزاروں لاکھوں برقی قمقموں کی روشنی نے حرم کے دالان کو نُور میں نہلا دیا ہے۔ ایک دودن بعد جب مَیں یہاں سے چلا جائوں گا تو بھی یہ دالان، یہ روشنیاں، یہ بیت اللہ اِسی طرح موجود ہوں گے۔

یَاحَیُّیْ یَاقُیُّوْمُ،میں تو شاید پھر سے دُنیا کے جھمیلوں میں تجھے بھول جائوں، لیکن تو مجھے یاد رکھنا، تو نے بھلا دیا تو میں کہاں جائوں گا؟

اللہ کے گھر کے سامنے ہم نہ جانے کتنی دیر دست بہ دُعا رہے، یاد نہیں۔ سفر کی تکان غائب ہوچکی تھی اور ہم مطاف میں داخل ہوکر عشاق کے اس سیل رواں کا ایک حصہ بن گئے تھے جو مصروفِ طواف تھا۔ کبھی نگاہ ملتزم پر جاکر رُک جاتی، کبھی حجراَسود کو دُور سے بوسہ دیتی، کبھی رکن یمانی پر دل اٹک جاتا اور کبھی حطیم کے اندر داخل ہوکر نماز ادا کرنے کی اُمنگ دل پر چھا جاتی۔طواف تھا کہ جاری تھا۔ میری اہلیہ اپنے گھٹنوں کے درد کو بھول کر اس طرح چل رہی تھی گویا جنّت کی کسی کیاری میں گلگشت کر رہی ہوں۔ ہمارے آگے پیچھے، دائیں بائیں،کبھی ایرانی، کبھی ترکی، کبھی مصری، کبھی شامی، کبھی امریکی و یوروپین، کبھی وسط ایشیا و چین کے مخصوص رنگ و بناوٹ کے مرد وعورت اس طرح چل رہے تھے جیسے سمندر میں بے شمار موجیں اُٹھ رہی ہوں مگر ہرشخص اسی فکر میں غلطاں کہ اس کی وجہ سے دوسرے کو تکلیف نہ پہنچے، سب کی زباں پر دُعائیں ، کوئی بآواز بلند اور کوئی دھیرے دھیرے اللہ کے کلام اور مسنون دُعائوں کے ورد میں مصروف ہے۔(جلوے ہیں بے شمار )


رکن یمانی کے پاس سے گزرتے ہوئے مَیں کعبہ کی دیوار سے متصل اس قطار میں جاکھڑا ہوا جو حجراَسود کی طرف بڑھ رہی تھی۔ لبوں پر یہ دُعا تھی:

اے ہمارے ربّ! ہمیں عنایت فرما، دُنیا اور آخرت کی بھلائی، اور بچا ہمیں آیندہ کے عذاب سے، اور داخل فرما ہمیں جنّت میں، نیک لوگوں کے ساتھ، اے بڑے غالب، بڑی بخشش والے، اے تمام جہانوں کے پالنے والے۔

قطار زیادہ طویل نہ تھی اور اس وقت قطار کے باہر سے حجراَسود کی طرف آنے والوں پر سخت پہرہ تھا۔ اس لیے لوگ تیزی سے سیاہ پتھر تک پہنچ رہے تھے۔ وہ آگے بڑھتے، ہونٹوں کو حجراَسود پر رکھتے اور دوتین ثانیوں میں پہرے دار ان کے سر کو پیچھے دھکیل دیتا۔ ایک شخص پیچھے ہٹایا جاتا تو فوراً دوسرا اس کی جگہ لے لیتا۔ میری باری آئی، میں نے سرجھکا کر چاندنی کے طاقچے میں رکھے ہوئے پتھر پر ہونٹ رکھے، پتھر چمکا، اس کے اندر ہزارہا سفید اور سبز لکیریں پل بھر کو جگمگائیں، پھر ایک سخت اور کھردرے ہاتھ نے میرے سر کو پیچھے دھکیل دیا، اور ایک ہجوم مجھے اپنے ساتھ لیتا ہوا ملتزم کی طرف بڑھا۔

درِ کعبہ اور حجراَسود کے درمیان واقع دیوار کے قریب کھڑے پندرہ بیس آدمی،کچھ گریہ کناں، کچھ خاموش، کچھ ذرا بلندآواز میں رحمت ِ خداوندی کے خواستگار اور ان میں شامل ایک فقیر جو طواف کے بعد کعبہ کے ربّ کی خوشنودی اور اعانت کا طالب تھا۔ کچھ دیر کے بعد وہ ادھیڑعمر آدمی جس کے پیچھے کھڑا میں دیوارِ کعبہ کو چھونے کا منتظر تھا، آہستگی سے پیچھے ہٹا ، ایک نظر مجھ پر ڈالی اور اپنی آنسوئوں سے تر داڑھی اور چہرے کے نقوش کی اَنمٹ یاد چھوڑتے ہوئے ہجوم میں اوجھل ہوگیا۔

میں آگے بڑھا، کعبہ کے غلاف کو چھوا اور پھر غلاف کے نیچے موجود پتھروں کو۔ جیسے ہی ہاتھ پتھروں سے مَس ہوئے، سارے وجود میں ایک غیرمرئی طاقت ور لہر دوڑ گئی، جسم کپکپایا اور دل نے التجا کی:

یااللہ! اے اس قدیم گھر کے ربّ! آزاد فرما ہماری اور ہمارے آبا کی گردنوں کو، اور ہماری مائوں اور بھائیوں کی اولاد کی گردنوں کو، اے صاحب جُود و کرم و فضل و عطا! اے احسان کرنے والے! اے اللہ! ہمارے تمام کاموں کا انجام اچھا فرما اور ہمیں بچالے دُنیا کی رُسوائی سے اور آخرت کے عذاب سے۔ اے اللہ! میں تیرا بندہ، تیرے بندے کا بیٹا، تیرے گھرکے نیچے، تیرے دَر سے لپٹا، گریۂ کناں ہوں، تیری رحمت کا اُمیدوار اور تیرے عذابِ نار سے خائف، اے قدیم الاحسان! اے اللہ! تجھ سے التجا ہے کہ میرے ذکر کو قبول فرما، اورمیرے بوجھ کو ہلکا کردے، میرے کاموں کی اصلاح فرما اور میرے قلب کو پاک و صاف کردے، اور روشن کردے میرے لیے میری قبر کو اور بخش دے میرے گناہوں کو، سوال کرتا ہوں میں تجھ سے جنت میں اعلیٰ درجات کا۔

نہ جانے کتنا وقت گزر گیا۔ ہاتھ دیوارِ کعبہ پر، ذہن ماضی و حال و مستقبل کی قید سے آزاد، اور دل ایک عجب سُرور میں مگن، ایک سُرور جس میں حُزن بھی تھا اور طمانیت بھی ، اور ایک غالب احساس جو سارے وجود میں دوڑ رہا تھا۔میرے اردگرد ہزاروں انسان دائرہ در دائرہ کعبہ کے گرد  محوِ طواف تھے۔ ان سے پرے، صحنِ کعبہ میں بیٹھے ہوئے کئی ہزارمردو زن اور بچّے تھے۔ پھر حرم کی وسیع عمارات میں موجود لوگ اور اس سے پرے اربوں انسان زمین کے طول و عرض میں پھیلے، اپنے اپنے روزمرہ کے دھندوں میں مصروف تھے۔ کتنی بڑی دُنیا ہے، کتنا وسیع کاروبارِ حیات ہے، اور اس سے الگ، اس مقام پر کھڑا، ایک تنہا انسان، ہزاروں انسانوں کے درمیان، دو سادہ چادروں میں ملبوس، ایک زائر، اپنے رب سے گریہ کرتا ہوا، اس کا بندہ!

وہ ایک نرم ہاتھ تھا لیکن اس کے اندر نہ جانے کیا پکار تھی کہ جیسے ہی مَیں نےاسے اپنے شانے پر محسوس کیا، میں دیوار سے پیچھے ہٹ آیا اور احرام میں ملبوس ادھیڑ عمر آدمی، جس نے مجھ سے کامل خاموشی کے ساتھ دیوارِ کعبہ کے قرب میں کھڑے ہونے کی فہمائش کی تھی، میری جگہ پر جاکھڑا ہوا۔ اس خاموش تبادلے میں ایک خوبی تھی، ایک بہائو تھا، ایک باہمی رشتے کی خوشبو تھی، ایک نسبت تھی جو دین حنیف سے منسلک انسانوں کو ایک دوسرے کا مونس بناتی ہے۔

چند قدم پیچھے مقامِ ابراہیم تھا اور شیشے کے فریم میں بند وہ پتھر جس پر دو پائوں یوں ثبت تھے جیسے ابھی ان میں زندگی کی لہر دوڑ جائے گی۔مقامِ ابراہیم ؑ کے پاس دو رکعت نماز ادا کرنے کے بعد میں نے کعبہ کی طرف نگاہ اُٹھائی۔ وہاں وہی قدیم دستور تھا، اسی قدیم رسم کی رونق تھی جو ہزاروں برس سے جاری ہے، دائرہ دَر دائرہ ، دیوارِ کعبہ سے متصل مردو زن کا ہجوم، درِ کعبہ کے قریب کھڑے گریہ کناں ملتجی!(سحرِمدینہ)


اللہ کا گھر ہرلمحہ، ہرثانیہ، ہرپل یونہی آباد رہتا ہے۔ کعبۃ اللہ کے گرد، دن رات اور دُھوپ چھائوں کی تمیز کے بغیر خلق خدا کا دائرہ پیہم حرکت میں رہتا ہے۔ رُکن یمانی کی طرف لپکتے ہاتھ کبھی ساکت نہیں ہوتے۔ حجراَسود کے رخساروں پر عشق کی تمازت سے دہکتے بوسوں کی برسات کبھی نہیں تھمتی۔ ملتزم سے لپٹے سینہ چاکان حرم کی وارفتگی میں کبھی فرق نہیں آتا۔ مقامِ ابراہیم ؑ سے قریب تر ہوکر سجدہ ریز ہونے کے آرزو مند آج بھی ٹوٹے پڑتے ہیں۔ تشنگانِ عشق آبِ زمزم سے سیراب ہونے کے لیے مچلتے رہتے ہیں۔ میزابِ رحمت کے عین نیچے، حطیم کے نیم دائرے میں نوافل ادا کرنے والوں کی بے کلی کا چودہ سو سال سے یہی عالم ہے۔ صفاومروہ کی عفت مآب پہاڑیوں کے درمیان قافلہ شوق صدیوں سے رواں دواں ہے۔

لبیک اللھم لبیک کی صدائیں گونج رہی ہیں۔ چہرے عقیدت کی آنچ سے تمتما رہے ہیں۔ آنکھوں سے آنسوئوں کے سیلاب جاری ہیں۔ آہیں اور سسکیاں تھمنے میں نہیں آرہیں۔ مرد بھی، عورتیں بھی، بچّے بھی، بڑے بھی، جوان بھی اور لب گور پہنچ جانے والے بھی۔ کچھ طواف کررہے ہیں، کچھ نوافل ادا کررہے ہیں اور کچھ سعی میں مصروف ہیں۔ کچھ تسبیح پر اَوراد و وظائف پڑھ رہے ہیں۔ کچھ قرآن کریم کی تلاوت کر رہے ہیں اور کچھ گردوپیش سے بے نیاز خانہ کعبہ پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ ان سب کے دل عبودیت اور بندگی کے احساس سے لبالب بھرے ہیں۔ سب اپنی خطائوں پر نادم ہیں۔ سب خدائے رحیم و کریم سے عفو و درگزر کے خواستگار ہیں۔ سب کی گردنیں عجز و انکسار سے جھکی جارہی ہیں۔ سب آلائشوں بھری دُنیا سے کٹ کر ایک ایسے جزیرئہ عافیت میں آبیٹھے ہیں جہاں زندگی کا انداز و اُسلوب بدل گیا ہے۔ جہاں فکر ایک فرحت بخش آسودگی اور روح ایک طمانیت بھری بالیدگی محسوس کررہی ہے۔ جہاں نئے انسان تخلیق ہورہے ہیں جہاں آلودگیوں سے پاک اور منزہ مخلوق سانچے میں ڈھل رہی ہے۔ اللہ کی کبریائی کا دم بھرنے والی ہرسانس اُس کی خوشنودی اور رضاجوئی کی ڈُور سے باندھے رکھنے والی ماضی پہ شرمسار، حال پر نادم اور مستقبل کے لیے نیکوکاری کا عہد کرنے والی مخلوق، انڈونیشیا سے مراکش تک پھیلی مسلم ریاستوں میں بسنے والے، غیرمسلم ممالک میں اقلیتوں کی زندگی گزارنے والے سب کھنچے چلے آرہے ہیں۔ چودہ سو سال سے صحن حرم یونہی آباد ہے۔ فجر کی اذان کے ساتھ ہی ابابیلوں کے جھنڈ اسی طرح اُمنڈ اُمنڈ کر آرہے ہیں اور حرم کا معطر دالان سرمئی کبوتروں سے لبالب بھرا ہے۔ (سحرمدینہ)


اس گھر کے گرد جتنے طواف کرو، کم ہیں ۔ بلکہ میں تو یہی کہوں گا کہ جتنا وقت بھی تمھیں اس کے جوار میں گزارنے کے لیے ملے، اور جتنی محبت و استطاعت اللہ تمھیں دے، سب طواف کرنے میں لگادینا۔ نماز، رکوع، سجدہ، تلاوت، سب عبادات ہرجگہ ہوسکتی ہیں، اگرچہ مسجدالحرام میں ان عبادات کا ثواب لاکھوں گنا زیادہ ہے، لیکن طواف کی نعمت تو اور کہیں بھی میسر نہیں آسکتی۔ طواف میں جو والہیت ہے، وارفتگی ہے، عشق و محبت ہے، وہ اور کسی عبادت میں نہیں۔ طواف کی ہمت نہ ہو، تو اس محبوب اور حُسن و جمال میں یکتا گھر کو جی بھر کے دیکھنا، اس کے گرد نثار ہوتے ہوئے پروانوں کو دیکھنا۔ دل کے کیف و لذت کا یہ سرمایہ بھی اور کہیں میسر نہ آئے گا۔ (حاجی کے نام)


لیکن ایسا کیوں ہے کہ ہم لوگ جو حرم میں داخل ہوتے ہی اپنے اندر ایک جہانِ نو کروٹیں لیتا محسوس کرتے ہیں اور ہمارے احساس و خیال کی دُنیا میں زلزلہ سا بپا ہوجاتا ہے۔ حرم سے نکلتے اور اپنے آشیانوں کو لوٹتے ہی، سارے لطیف احساسات اور ساری منور سوچوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔ ایک اُجاڑ اور سوکھا سڑا پیڑ یکایک ہرے بھرے پتوں، خوش رنگ پھولوں اور رسیلے پھلوں سے بھرجاتا ہے اور پھر ایکاایکی اس کے برگ و ثمر جھڑنے لگتے ہیں اور وہ پہلے جیسا ٹنڈ منڈ خزاں رسیدہ درخت بن جاتا ہے۔

مسلم ممالک مسلسل گرداب بلا کے تھپیڑے کھارہے ہیں۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے افغانستان آگ اور خون میں نہا گیا۔ ہماری آنکھوں کے سامنے بصرہ و بغداد پر قیامت ٹوٹ گئی۔ فلسطین، کشمیر اور چیچنیا میں درندہ صفت سامراجوں کی بھوک مٹنے میں نہیں آرہی۔ ہم کہ سوا ارب سے زائد سر اور اس سے دُگنے ہاتھ رکھتے ہیں، بے چارگی اور بے بسی کی تصویر بنے تماشا دیکھ رہے ہیں۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عشق کی آگ بجھ چکی ہے اور مسلمان راکھ کا ڈھیر بن کر رہ گیا ہے۔ ہماری صفیں کج، دل پریشاں اور سجدے بے ذوق ہیں۔ ہمارے دلوں میں ایمان کی حرارت سرد پڑتی جارہی ہے اور ہمارا کردار و عمل ان تعلیمات سے دُورہوتا جارہا ہے جو اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم تک پہنچائیں۔ اسلام نے فوز و فلاح اور فتح و نصرت کے لیے بعض کڑی شرائط رکھی ہیں۔ حلقہ بگوشِ اسلام ہونے والے ہرفرد پر ان شرائط کی پابندی لازم ہے اور اگر وہ اپنے آپ کو ان شرائط کے سانچے میں نہیں ڈھالتا، تو وہ اللہ کی تائید و حمایت کے استحقاق سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔ پھر وہ بندۂ مومن کے معیار پر پورا نہیں اُترتا۔ اُس کا ہاتھ، اللہ کا ہاتھ نہیں رہتا۔ نہ غالب و کارآفریں نہ کا رکشائو کارساز۔

میں حجراَسود کے عین سامنے بیٹھا، غلافِ کعبہ پر نظریں جمائے سوچتا رہا کہ ایسی ہریالی، ایسی زرخیزی اورایسی شادابی کے بعد بھی ہمارے دل و نگاہ کا شجر یکایک ٹنڈ منڈ کیوں ہوجاتا ہے؟ حج اور عمرے، طواف اور سعی، اَوراد و وظائف، عبادتیں اور زیارتیں، سب کچھ پُربہار موسم کی خوشبو بھری پھوار کی طرح آتے اور گزر جاتے ہیں اور ہم ایک بار پھر دُنیاداری کے لق و دق صحرا میں غرق ہوجاتے ہیں۔ جہاز کی سیڑھیاں چڑھتے وقت ہمارے ایک ہاتھ میں آب زم زم اور دوسرے ہاتھ میں کھجوروں کی پوٹلی ہوتی ہے اور [افسوس کہ]صحن حرم میں عطا ہونے والے جذب و کیف اور رُوح و فکر میں بپا ہونے والے انقلاب کی گٹھڑی ہم اُسی میقات پر چھوڑ آتے ہیں ، جہاں سے احرام باندھ کر حدودِ حرم میں داخل ہوتے ہیں۔(مکّہ مدینہ)


آں خنک شہر سے…

مدینہ کی فضا کافی خوشگوار تھی۔ بادل آسمان پر آتے تھے اور گاہے گاہے بارش ہوتی تھی۔ مکہ کی فضا میں عجب جاہ و جلال تھا۔ چٹانوں اور پہاڑوں، وادیوں اور گھاٹیوں کے بیچ میں کھردرے سیاہ پتھروں کے نہایت سادہ سودہ گھر کے سامنے سارے انسان حقیر نظر آتے ہیں جووالہانہ اس گھر کا طواف کرتے ہیں۔ بڑے بڑے کج کلاہوں اور ارباب جُبہ و دستار کی پگڑیاں یہاں اُتر جاتی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس گھر کے مالک کو تزک و احتشام اور شان و شوکت اپنے کسی بندے کی پسند نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اسے فقر سے بے حد اُنس ہے اور اسی فقر کے جلوے اس کے گھر کی دَر و دیوار سے چھلکتے ہیں۔ لیکن مدینہ میں انسان خود کو ہر طرح کے بوجھ سے آزاد اور ایک عجیب دوستانہ ماحول میں خود کو محسوس کرتا ہے۔ ہرشے سے اُنس و محبت کی خوشبو آتی ہے۔ ہر طرف لطافت اور خوش گواری کے منظر نظر آتے ہیں۔ حرمِ نبویؐ کے ساتھ ہی مدینہ شہر اور اس کے مضافات کا گوشہ گوشہ اپنی حیات افروز تاریخ چھپائے ہوئے ہے۔(جلوے ہیں بے شمار)


مسجد نبویؐ کے اس حصے میں جو روضۂ اطہر سے ملحق ہے اور جہاں حجرئہ عائشہ صدیقہؓ اور حضور اکرمؐ کا مصلیٰ و منبر تھا، قدم رکھتے ہوئے احساس ہوتا کہ کہیں ہمارے ناپاک وجود، ناپاک قدم اس مقام کے تقدس کو مجروح تو نہیں کر رہے ہیں۔ مسجد نبویؐ اور روضۂ اطہر ایک دوسرے سے جدا نہیں۔ مسجد کی عمارت بے حد وسیع و شان دار ہے۔ بے حد کشادگی ہے۔ سب کو نماز ادا کرنے کی جگہ آسانی سے حاصل ہوجاتی ہے۔ بقول مولانا ماجد حُسن و جمال کے لحاظ سے، خوبی و محبوبی کے لحاظ سے، زیبائی و دل کشی کے لحاظ سے ،پردئہ زمین پر اس مسجد کا جواب نہیں۔ بس یہ جی چاہتا ہے کہ ہروقت صحن میں بیٹھے ہوں اور عمارت مسجد کی طرف ٹکٹکی لگی رہے۔ تصور میں ۱۴سو سال کی تاریخ پھرجاتی ہے۔ دورِ صحابہؓ، تابعین و تبع تابعین اور اہل اللہ اور اہلِ حق کی ایک طویل قطار سامنے آتی ہے جنھوں نے تاریخ میں اس مسجد کے صحن و محراب میں آکر خدا کے حضور رکوع وسجود کیا ہوگا۔ روضۂ اطہر پر درود و سلام کا نذرانہ پیش کیا ہوگا۔ ہرمسلمان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ایسی متبرک جگہ بیٹھ کر اپنی لغزشوں اور خطائوں کے لیے استغفار کرے اور اپنی باقی زندگی میں اسلام کی اُولوالعزم ہستیوں کے نقش قدم پر چلنے کا عہد تازہ کرے۔ اللہ اللہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم خود دورِ نبویؐ میں آگئے ہیں۔(جلوے ہیں بے شمار)


روضۂ رسولؐ کے سامنے کھڑا فرد عجیب کیفیتوں سے دوچار ہوتا ہے۔ وہ ہیبت، خوف اور تلاطم جو کعبہ کے قرب سے دل میں پیدا ہوتا ہے، نبیؐ کی قبر کے پاس محبت، نرمی اور سکون سے بدل جاتا ہے۔ کوئی دومیٹر چوڑاراستہ، جو زائرین کو سبز جالیوں کے پیچھے موجود ان تین قبروں کے قریب لاتا ہے جن میں حضوؐر اور ان کے دو اصحابؓ مدفون ہیں ، نسبتاً خالی ہوا تو میں اس قطار میں جاکھڑا ہوا جو آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی اور جس میں شامل لوگ اس عظیم تجربے کے منتظر تھے جو روضۂ رسولؐ کے قرب سے دلوں میں تغیر پیدا کرتا ہے۔

روضہ کے قریب پہنچ کر میں قطار سے نکل کر اس چھوٹے سے ہجوم میں شامل ہوگیا جو رواں قطار کے پیچھے کھڑا تھا۔ اس ساکت گروہ میں موجود لوگ نبیؐ پر درود و سلام بھیج رہے تھے، دعاگو تھے اور اپنی اپنی کیفیت و حالت و مقام کے مطابق اس مبارک مقام سے فیض حاصل کررہے تھے۔ ان میں سے اکثر کے لبوں سے سلام و درود کی صدائیں اُبھر رہی تھیں۔(سحرِمدینہ)


اس حجرے سے متصل چبوترے پر بیٹھ کر میں نے قرآن شریف کا ربع پڑھا۔ یہ جگہ وہ ہے جو مسجد نبویؐ کے صحن میں اصحابِ صفہ کے لیے مخصوص تھی۔ قرآن شریف میں نے ریک میں رکھ دیا اور سرجھکا کر بیٹھ گیا۔ میں یہ دعویٰ نہیں کروں گا کہ مجھ پر استغراق کی حالت طاری ہوئی اور میں چودہ سوسال پیچھے چلا گیا.....میں نے ایک انقلاب کو مدینے میں مکمل ہوتے ہوئے دیکھا، جس کا آغاز مکہ میں ہوا تھا۔ آغاز اور انجام کے درمیان صرف ۲۳سال کا زمانہ حائل تھا۔ یہ ایک مکمل و اکمل انقلاب تھا جس میں انسانیت کے ہرپہلو کی تنقیح و تہذیب ہوگئی تھی۔ معاشرت انسانی کی ایک نئی تعبیر وجود میں آئی تھی۔ دین و دُنیا میں ہم آہنگی کی ایک نئی تصویر اُبھری تھی اور ایک نہایت خوبصورت متوازن، مہذب اور متمدن معاشرہ قیام پذیر ہوگیا تھا۔ (ارضِ تمنا)


مدینہ منورہ، چمنستان کا ایک سدابہار پھول ہے جس کی لطافت سب سے جدا، جس کے رنگ سب سے منفرد اور جس کی خوشبو سب سے مسحورکن ہے۔ اس کی ہوائوں میں کچھ ایسا جادو اور فضائوں میں کچھ ایسا حُسن ہے کہ کسی بھی خطۂ ارضی سے آنے والا انسان اپنے جذبات و احساسات پر قابو نہیں رکھتا۔ مکہ مکرمہ کے پُرشکوہ جلال کے دائرے سے نکل کر مسجدنبویؐ کے احاطۂ جمال میں داخل ہوتے ہی قلب و نظر ایک سراسر مختلف کیفیت سے ہم کنار ہوجاتے ہیں۔ اس کیفیت کی سرشاری اور سرمستی کا اندازہ وہی کرسکتا ہے جو برسوں کوچۂ جاناں تک پہنچنے کی آرزو میں سلگتا رہا، جس کی زندگی کا ہرلمحہ حضوری و حاضری کی تمنائے بے تاب سے مہکتا رہا ہو، جس نے انتظار کی لمبی راتیں اور آتشیں دن گزارے ہوں، جو صرف اس لیے جیتا رہا کہ مرنے سے قبل اپنی آنکھوں کو گنبد خضریٰ کے عکس جمیل سے منور کرلے۔(مکہ مدینہ)


ذیقعدہ کی پہلی تھی، جب اس پھاٹک سے اس نُور و برکت والے شہر میں داخل ہوئے تھے۔ ذی الحجہ کی چوتھی کو اسی پھاٹک سے اس رحمت و مغفرت والے شہر سے باہر نکلے۔ جہاں ایک دن کا بھی قیام اگر میسر آجائے تو تقدیر کی یاوری اور اَبرار و متقین کی نصیبہ وری ہے، وہاں ایک دن نہیں، دو دن نہیں، اکٹھے ۳۳دن کی حاضری نصیب ہوگئی۔ (سفرحجاز)


حج کے اس سفر سے بڑا سکون ، بڑی طمانیت حاصل ہوئی ۔ دل میں یہ خواہش باربار کروٹ بدلتی رہی کہ کاش! اسی طرح بار بار جوارِ حرم اور دیارِ حبیب کی حاضری کا شرف حاصل ہوتا رہے، مگر پھر یہ خیال آیا کہ اس حرم کے مالک اور اسی دیار کے حبیب نے یہ بھی ہدایت کی ہے کہ ہرمومن کو اپنے گردوپیش سے باخبر رہنے والے اور اسے صالحیت کی طرف موڑنے کی ہرآن فکر کرنی چاہیے۔ حج اگر فرض کی ادائیگی کے بجائے سیاحی و تفریح بن جائے تو یہ پسندیدہ بات نہیں۔ افسوس کہ کتنے اہل ثروت اپنی ملّت کے غریب و پس ماندہ لوگوں کی ضرورتوں کی طرف توجہ نہیں کرتے اور کرتے بھی ہیں تو اس طرح کہ اپنے وسائل کے سمندر سے چند قطرے ملّت کے پریشاں لوگوں کی طرف بھی ٹپکا دیتے ہیں۔ چنانچہ اسلامی معاشرے میں عدم توازن اور اسلام کی قوت و شوکت کے فقدان کے مظاہر ہروقت سامنے آتے رہتے ہیں۔ کاش! حج ہرانسان کو ایک انقلابی انسان، ایک مردِمجاہد اور دین کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردینے والا حوصلہ مند انسان بنائے۔ کاش! یہ ملّت کے مقدر کو تبدیل کرنے کا ایک ذریعہ بن سکے۔ کاش! یہ بھی ہماری دیگر عبادتوں کی طرح ایک بے روح عبادت بن کر نہ رہ جائے۔ (جلوے ہیں بے شمار )


ہم حج بھی کریں، عمروں کے لیے بھی جائیں، منہ کعبہ شریف کی طرف کرکے نمازیں بھی پڑھیں ، مگر ہم پر وہ رنگ نہ چڑھے جو حضرت ابراہیم ؑ کا رنگ تھا، تو اس سے بڑھ کر ہماری حرماں نصیبی اور کیا ہوسکتی ہے، اور جو حرماں نصیبی ہمارا مقدر بن گئی ہے اس کا سبب اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔ ہم سے دُنیا میں جو وعدے ہیں___ استخلاف فی الارض کا وعدہ ہے، غلبۂ دین کا وعدہ ہے، خوف سے نجات اور امن سے ہم کنار کرنے کا وعدہ ہے___وہ سب وعدے اس شرط کے ساتھ مشروط ہیں کہ ہم اللہ کے ایسے بندے بن جائیں کہ بندگی اور کسی کے لیے نہ ہو: يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْـرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا۝۰ۭ (النور۲۴:۵۵)۔ (حاجی کے نام)

قرآنِ عظیم کس انداز سے انسانوں کو خاندان کے ادارے میں جوڑتا اور اس ادارے کو انسانیت کے لیے کس انداز سے پروان چڑھاتا ہے؟ اس سوال کا جواب ہم یہاںقرآن کریم کے متن کی ترتیب سے یکجا پیش کریں گے۔

قرآن کے آغاز میں ہم نے اللہ تعالیٰ سے رہنمائی چاہی: اے اللہ! تو ہمیں سیدھا راستہ دکھا، ربّ جلیل نے قرآن کے تیس پارے نازل فرما دیئے۔ زندگی کے انفرادی، اجتماعی معاملات کے لیے ہدایات کھول کھول کر بار بار مختلف پیرایۂ بیان میں واضح کر دیں۔ عائلی نظام یا خاندان اور معاشرے کی اکائی کے لیے تفصیلات بھی سمجھا دیں۔

سورۂ بقرہ: پہلا جوڑا

زمین پر پہلا جوڑا اُتارنے سے پہلے اُن کو علم عطا کیا، فرشتوں سے سجدہ کروایا، شیطان کے بارے میں متنبہ فرمایا اور جنّت میں کھانے پینے، رہنے سہنے کا سامان دیا۔ مگر ساتھ ہی چند اُمور سے خاص طور پر منع کرکے، باقی سب سے فائدہ اُٹھانے کا اذنِ عام دے دیا۔ شیطان نے انسان کو بہکانے کے لیے مہلت لی اور بہکاکر جنّت سے نکلوا دیا اور یوں حضرت آدمؑ، اماں حواؑ اور شیطان زمین پر آن آباد ہوئے۔ حضرت آدم ؑ نے اپنی غلطی پر معافی مانگ لی،مگر شیطان غلطی پر ڈٹا رہا۔ یوں انسان اور شیطان کے طرزِعمل کا فرق ظاہر ہوا:

پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمھارے ربّ نے فرشتوں سے کہا تھا کہ ’’میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں‘‘۔ انھوں نے عرض کیا: ’’کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں، جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خوں ریزیاں کرے گا؟ آپ کی حمدوثنا کے ساتھ تسبیح اور آپ کی تقدیس تو ہم کرہی رہے ہیں‘‘۔ فرمایا: ’’میں جانتا ہوں، جو کچھ تم نہیں جانتے‘‘۔اس کے بعد اللہ نے آدم ؑ کو ساری چیزوں کے نام سکھائے۔ پھر انھیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا: ’’اگر تمھارا خیال صحیح ہے (کہ کسی خلیفہ کے تقرر سے انتظام بگڑ جائے گا) تو ذرا ان چیزوں کے نام بتائو‘‘۔ انھوں نے عرض کیا: ’’نقص سے پاک تو آپ ہی کی ذات ہے، ہم تو بس اتنا ہی علم رکھتے ہیں، جتنا آپ نے ہم کو دے دیا ہے۔ حقیقت میں سب کچھ جاننے اور سمجھنے والا، آپ کے سوا کوئی نہیں‘‘.....

پھر جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم ؑ کے آگے جھک جائو، تو سب جھک گئے مگر ابلیس نے انکار کیا۔ وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑ گیا اور نافرمانوں میں شامل ہوگیا۔

پھر ہم نے آدمؑ سے کہا کہ ’’تم اور تمھاری بیوی دونوں جنّت میں رہو اور یہاں بفراغت جو چاہو کھائو، مگر اِس درخت کا رُخ نہ کرنا ورنہ ظالموں میں شمار ہوگے‘‘۔آخرکار شیطان نے اِن دونوں کو اس درخت کی ترغیب دے کر ہمارے حکم کی پیروی سے ہٹا دیا اور انھیں اس حالت سے نکلوا کر چھوڑا جس میں وہ تھے۔ ہم نے حکم دیا کہ ’’اب تم سب یہاں سے اُتر جائو، تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمھیں ایک خاص وقت تک زمین میں ٹھیرنا اور وہیں گزر بسر کرنا ہے‘‘۔ اس وقت آدمؑ نے اپنے ربّ سے چندکلمات سیکھ کر توبہ کی،جس کو اس کے ربّ نے قبول کرلیا، کیونکہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔(البقرہ ۲:۳۰ تا ۳۷)

اللہ تعالیٰ نے بنی آدم ؑ ،یعنی انسان کو اپنا خلیفہ بنا کر زمین پر بھیجا کہ وہ اِس دُنیا میں جس کا مالک وہ خود ہے، اس کے عطا کردہ اختیارات کو اس کے نائب کی حیثیت سے استعمال کرے۔ کائنات کا اصل حاکم اور مالک تو اللہ تعالیٰ ہے، جو غیب میں ہے۔ انسان کا خلیفہ ہونے کے ناتے کام یہ ہے کہ جو ہدایت اللہ کی طرف سے مل رہی ہے اس پر بے چون و چرا عمل کرے۔ اگر کسی معاملے میں کوئی واضح ہدایت نہیں ہے تو غوروفکر کرے، اور جو بات دین کے اصولوں سے مطابقت رکھتی ہو، وہ اختیار کرے۔ جن کاموں سے اللہ نے منع فرما دیا ہے اِن سے رُک جائے۔ یہی خلافت ہے۔

خاندان کے ادارے کے استحکام کے لیے بھی اپنی اِس ذمہ داری کو، انسان ہونے کے ناتے، ہم سب کو پورا کرنا ہے۔ سو اِس سے کماحقہٗ آگاہی حاصل کرنا، ناگزیر ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو چیزوں کے نام یعنی اِن کی حقیقت کا علم دے دیا۔ایک الہامی علم جو اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے بھیجتا ہے اور دوسرا اکتسابی علم جوا نسان خود حاصل کرتا ہے اور انسانی زندگی کے مختلف دائروں کہ جن میں ایک عائلی نظام یا خاندان اور معاشرہ ہے، ان پر عمل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اختیار کی آزادی سے نوازا کہ کائنات کے اَن گنت وسائل اور جسمانی صلاحیتوں سے کام لیتے ہوئے،اللہ کی فرماں برداری کرے یا نافرمانی کرے اور پھر اس پر جزا یا سزا کا مستحق ٹھیرے، یہی اس کا امتحان ہے۔ اس امتحان کا لازمی اور اہم پرچہ خاندان میں ہمارا کردار ہے۔

والدین اور رشتہ دار

یاد کرو ، اسرائیل کی اولاد سے ہم نے پختہ عہد لیا تھا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا، ماں باپ کے ساتھ، رشتہ داروں کے ساتھ، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ نیک سلوک کرنا، لوگوں سے بھلی بات کہنا، نماز قائم کرنا اور زکوٰۃدینا، مگر تھوڑے آدمیوں کے سوا تم سب اس عہد سے پھر گئے، اور اب تک پھرے ہوئے ہو۔(البقرہ ۲: ۸۳)

پہلا جوڑا رشتۂ زوجیت میں منسلک ہوکر ماں اور باپ بن گیا۔ اس بنیادی اکائی میں بچوں کا اضافہ ہوا، پھر یہ سلسلہ آگے چلا اور نسب اور مہر کے حوالے سے نئی رشتہ داریاں وجود میں آئیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حقوق کے فوراً بعد، والدین کے حقوق کا ذکر کیا ہے۔ ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا۔ نیک سلوک کیوں کریں، کون سا سلوک نیک سلوک ہے، اور کون سا سلوک درست نہیں ہے؟ اس کی تفصیل بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بتادی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ نے مزید تفصیلات اور عملی رہنمائی دی۔ اس کے ساتھ ہی رشتہ داریوں کے دائرے بنے، خاندان میں وسعت ہوئی، اللہ نے سب کے ساتھ اچھے سلوک کی ہدایت فرمائی۔

آزمایش

اور ہم ضرور تمھیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمھاری آزمایش کریں گے۔ اِن حالات میں جو لوگ صبر کریں  اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں کہ ’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے‘‘۔ انھیں خوش خبری دے دو۔ (البقرہ۲: ۱۵۵-۱۵۶)

اللہ تعالیٰ نے یہ دُنیا آزمائش گاہ بنائی ہے۔انسان اپنے بال بچوں کے ساتھ، والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ، دُنیا کے مال و اسباب کے ساتھ، خوشی خوشی زندگی بسر کر رہا ہوتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے آزمائش کا موقع و حالات پیدا کرتا ہے۔ وہ مختلف قسم کے خوف، وبا، بیماری، بدامنی،موت، بے روزگاری، مہنگائی، کم آمدنی اور حادثاتی پریشانیوں، نقصانات سے پرکھتا ہے کہ میرے بندے کا کیا رویہ ہے؟ خود اپنی آزمائش اور خاندان کے دیگر افراد کی آزمائش پر کیا طرزِعمل ہوتا ہے؟ جو اس آزمائش کو اپنے ہاتھوں لائی ہوئی مصیبت سمجھے اور اس آزمایش کے ذریعے اللہ سے معافی چاہے، یا اللہ کی طرف سے اجر میں بڑھوتری کے لیے موقع جانے اور رویہ یہ رکھے کہ ہم اللہ کے ہیں، اس کی رضا پر راضی ہیں اور اس کی طرف ہمیں واپس جانا ہے۔ وہ انصاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ اللہ اس سے بہتر معاملہ کرے گا، اجر سے نوازے گا۔یہ وہ لوگ ہیں جو سکینتِ قلب کے ساتھ، کامل رضامندی کے ساتھ، ربّ کی بتائی ہوئی حدود میں زندگی گزارتے اور اجر کے مستحق قرار پاتے ہیں، جب کہ ناشکری اور جزع و فزع اللہ کی ناراضی کا سبب بنے گی۔

خاندان کے لیـے قوانین اور نکاح کے لیے انتخاب

تم مشرک عورتوں سے ہرگز نکاح نہ کرنا، جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔ ایک مومن لونڈی مشرک شریف زادی سے بہتر ہے، اگرچہ وہ تمھیں بہت پسندہو۔ اور اپنی عورتوں کے نکاح مشرک مردوں سے کبھی نہ کرنا، جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں۔ ایک مومن غلام، مشرک شریف سے بہتر ہے اگرچہ وہ تمھیں بہت پسند ہو۔ یہ لوگ تمھیں آگ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ اپنے اذن سے تم کو جنّت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے، اور وہ اپنے احکام واضح طور پر لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ وہ سبق لیں گے اور نصیحت قبول کریں گے۔(البقرہ ۲: ۲۲۱)

عورت اور مرد کے درمیان نکاح کا تعلق محض ایک شہوانی تعلق نہیں ہے، بلکہ وہ ایک گہرا تمدنی، اخلاقی اور قلبی تعلق ہے۔ مومن اور مشرک کے درمیان، اگر یہ قلبی تعلق ہو، تو جہاں اس امر کا امکان ہے کہ مومن شوہر یا بیوی کے اثر سے مشرک شوہر یا بیوی پر اور اس کے خاندان اور آیندہ نسل پر اسلام کے عقائد اور طرزِ زندگی کا نقش ثبت ہوگا، وہیں اس امر کا بھی امکان ہے کہ مشرک شوہر یا بیوی کے خیالات اور طور طریقوں سے نہ صرف مومن شوہر یا بیوی بلکہ اس کا خاندان اور دونوں کی نسل تک متاثر ہوجائے گی اور غالب امکان اس امر کا ہے کہ ایسے اَزواج سے اسلام اور کفرو شرک کی ایک ایسی معجون مرکب اُس گھر اور اُس خاندان میں پرورش پائے گی، جس کو غیرمسلم خواہ کتنا ہی پسند کریں، مگر اسلام پسند کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔(تفہیم القرآن، اوّل، سورئہ بقرہ، حاشیہ۲۳۷)

آج ملک میں، اور بیرونِ ملک، اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ اوربہترین معاشی و سائل کے لیے سرگرداں، ہماری نوجوان نسل کو براہِ راست قرآن پاک سے استفادے کا موقع ملتا ہے، الاماشاء اللہ۔ تاہم، مل جل کر رہنا، دین کو ذاتی معاملہ بنا کر، اس کی بنیادی تعلیمات کو بھی غور کے قابل نہیں سمجھنا، اس دور کا المیہ ہے۔ جہالت اور احساسِ کمتری کے ساتھ، مغرب کے اُٹھائے گئے سوالات، بین المذاہب ہم آہنگی کے عنوان سے کی جانے والی بحثیں اور ان موضوعات کو ’مولوی کی سختی و تنگ نظری‘ کہہ کر آگے بڑھ جانا، موجودہ جدیدیت کا تقاضا بن گیا ہے۔ ہمارے اکثر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں، اس جدیدیت پر عمل پیرا ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ان کی توجہ ، اصل ماخذ، قرآن حکیم کی طرف مبذول کروائی جائے اور دین کے احکامات کا علم اور اس پر عمل کرنے کا داعیہ پیدا کیا جائے۔

حیض کا حکم

پوچھتے ہیں: حیض کا کیا حکم ہے؟ کہو: وہ ایک گندگی کی حالت ہے، اس میں عورتوں سے الگ رہو، اور ان کے قریب نہ جائوجب تک کہ وہ پاک صاف نہ ہوجائیں۔ پھر جب وہ پاک ہوجائیں، تو اُن کے پاس جائواُس طرح جیساکہ اللہ نے تم کو حکم دیا ہے۔ اللہ اُن لوگوں کو پسند کرتا ہے، جو بدی سے باز رہیں اور پاکیزگی اختیار کریں۔(البقرہ ۲:۲۲۲)

حیض گندگی بھی ہے اور بیماری بھی۔ طبّی حیثیت سے وہ ایک ایسی حالت ہے جس میں عورت تندرستی کی بہ نسبت بیماری سے قریب تر ہوتی ہے۔(ایضاً، اوّل، سورئہ بقرہ، حاشیہ ۲۳۸)

مختلف ہارمونز جو کہ ایک عورت کے جسم میں گردش کرتے ہیں، ان کے اُتارچڑھائو سے یہ تبدیلی آتی ہے اور ظاہر ہوتی ہے۔ یہ نہ صرف جسمانی بلکہ نفسیاتی بھی ہوتی ہے، بالعموم عورت چڑچڑی اور مایوسی کی طرف مائل ہوتی ہے۔ تھکاوٹ اور اکثر اوقات درد کی شدت کا شکار بھی ہوتی ہے۔

قرآن، ان کے قریب نہ جائو، الگ رہو، استعاروں اور کنایوں میں بیان کرتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت فرما دی کہ صرف مباشرت سے پرہیز کرنا چاہیے مگر باقی تمام تعلقات برقرار رکھے جائیں۔ عورت کواچھوت نہ بنا دیا جائے جیساکہ یہود و ہنود اور بعض دوسری قوموں کا دستور ہے۔(ایضاً، سورئہ بقرہ، حاشیہ ۲۳۹)

قرآن کے اِن واضح اور صاف صاف بیان کیے گئے احکامِ دین میں تنگی نہیں ہے:

تمھاری عورتیں تمھاری کھیتیاں ہیں۔ تمھیں اختیار ہے، جس طرح چاہو اپنی کھیتی میں جائو، مگر اپنے مستقبل کی فکر کرو اور اللہ کی ناراضی سے بچو۔ خوب جان لو کہ تمھیں ایک دن اس سے ملنا ہے۔ اور اے نبیؐ! جو تمھاری ہدایات کو مان لیں انھیں (فلاح و سعادت کی) خوش خبری دے دو۔(البقرہ ۲:۲۲۳)

فطرۃ اللہ نے عورتوں کو مردوں کے لیے سیرگاہ نہیں بنایا ہے، بلکہ دونوں کے درمیان کھیت اور کسان کا سا تعلق ہے۔ کھیت میں کسان تفریح کے لیے نہیں جاتا، بلکہ اس لیے جاتا ہے کہ اس سے پیداوار حاصل کرے… خدا کی شریعت کا مطالبہ تم سے یہ ہے کہ جائو کھیت ہی میں،اور اس غرض کے لیے جائو کہ اس سے پیداوار حاصل کرنی ہے۔

’اپنے مستقبل کی فکر کرو‘کے دو مطلب نکلتے ہیں: ’’ایک یہ کہ اپنی نسل برقرار رکھنے کی کوشش کرو، اور دوسرے یہ کہ جس آنے والی نسل کو تم اپنی جگہ چھوڑنے والے ہو، اس کو دین، اخلاق اور آدمیت کے جوہروں سے آراستہ کرنے کی کوشش کرو۔ پھر یہ تنبیہہ بھی فرما دی کہ اگر ان دونوں فرائض کے ادا کرنے میں تم نے قصداً کوتاہی کی، تو اللہ تم سے بازپُرس کرے گا‘‘(ایضاً، سورئہ بقرہ، حاشیہ ۲۴۱-۲۴۲)۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے شوہر اور بیوی کے فطری تعلق کو ، دُنیاداری نہیں دین داری بنایا، اس کے لیے مقصد اور حدود مقرر کردیں اور اِن سے لاپروائی برتنے کو اللہ کی ناراضی کا سبب بنادیا۔ اس رشتے اور تعلق کو نبھانے کی بنیاد تقویٰ پر رکھ دی۔

ایلا - میاں بیوی کی قطع تعلقی

جو لوگ اپنی عورتوں سے تعلق نہ رکھنے کی قسم کھابیٹھتے ہیں، ان کے لیے چار مہینے کی مہلت ہے۔ اگر انھوں نے رجوع کرلیا، تو اللہ معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔ اور اگر انھوں نے طلاق ہی کی ٹھان لی ہو، تو جانے رہیں کہ اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔(البقرہ ۲: ۲۲۶-۲۲۷)

میاں بیوی کے درمیان قطع تعلقی کو شریعت کی اصطلاح میں ’ایلا ‘کہتے ہیں۔ میاں اور بیوی کے درمیان تعلقات میں اُتارچڑھائو آتا رہتا ہے۔ بگاڑ کے اسباب پیدا ہوتے ہی رہتے ہیں۔ لیکن ایسے فطری اُتارچڑھائو کے نتیجے میں بڑے بگاڑ کو خدا کی شریعت پسند نہیں کرتی کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ قانونی طور پر تو رشتۂ ازدواج میں بندھے رہیں، مگر عملاً ایک دوسرے سے الگ رہیں۔ ایسے بگاڑ کے لیے اللہ تعالیٰ نے چارماہ کی مدت مقرر کر دی کہ یا تو اس دوران میں اپنے تعلقات درست کرلو، ورنہ اَزدواج کا رشتہ منقطع کردو۔(ایضاً، سورئہ بقرہ، حاشیہ ۲۴۵)

یہ حقیقت ہے کہ بیش تر میاں بیوی میں اَن بن ہوجاتی ہے، رنجشیں پیدا ہوتی ہیں مگر چند ہی روز میں صلح صفائی ہوجاتی ہے اور زندگی خوش گوار اسلوب میں گزرتی رہتی ہے۔ اور کبھی ایسا بھی ہوجاتا ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کے بعد جھگڑا بڑھ جاتا ہے اور شوہر کچھ اس مفہوم کے کلمات کہہ دیتا ہے، یا بیوی ہی ایسی ناراض ہوجاتی ہے کہ وہ میکے آکر بیٹھ جاتی ہے۔ میکے آنا اور رہنا والدین کے علم اور رضا کے ساتھ ہی ہوتا ہے مگرعموماً واپس جانے ، صلح کرنے یا حتمی فیصلہ کرنے کے لیے کسی مدت کا لحاظ نہیں کیا جاتا۔ مہینے تو کیا سال بھی گزر جاتے ہیں۔ تعلقات اس مدت میں سدھرتے کم اور بگڑتے زیادہ ہیں۔ عموماً ایک دوسرے کو بدنام، بلیک میل کرنے، تنگ کرنے کی کوششیں ہوتی رہتی ہیں۔ اسلام کا اصول ہے کہ جلدبازی میں فیصلے نہ کرو۔ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرو۔ تعلق نبھانا ہے تو بھی اور ختم کرنا ہے تو بھی، دونوں صورتوں کے تمام پہلوئوں پر غور کرنے کے بعد، اس چارماہ کی مدت میں حتمی فیصلہ نہ کرنا سب خرابیوں، افراد اور خاندانوں کے تعلقات میں بگاڑ کا باعث بنتا ہے۔ ایسی صورتِ حال میںچار ماہ میں فیصلہ کرکے ، معاملہ نبٹا دینا ہی شریعت کے منشا کے قریب تر ہے۔(جاری)

اسلام ایک کامل اور اکمل دین ہے، جواپنے ماننے والوں کوصرف مخصوص عقائد ونظریات کو اپنانے ہی کی دعوت نہیں دیتا بلکہ زندگی کے ہر موڑ پر یہ دین مسلمانوں کی رہنمائی کرتا ہے۔ اسلام کی یہ روشن اور واضح تعلیمات، اللہ تعالیٰ کی عظیم کتاب قرآن مجید او رنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی شکل میں مسلمانوں کے پاس محفوظ ہیں۔ انھی دو سرچشموں سے قیامت تک مسلمان سیراب ہوتے رہیں گے اور اپنے علم کی پیاس بجھاتے رہیں گے۔ اسلام جہاں ہمیں نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور دیگر عبادات کے حوالے سے رہنمائی فراہم کرتا ہے وہیں سیاست، معاشرت، معاشیات، اخلاقیات اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بھی بھرپور تعلیمات عطا کرتا ہے۔

اسلام نے انسانی زندگی کو حُسنِ اعتدال فراہم کرنے کے لیے ایسے ایسے قو انین اور ضابطے متعارف کرائے ہیں، جن میں چھوٹی سے چھوٹی چیز سے لے کر بڑے سے بڑے معاملے کی وضاحت فرمادی ہے۔ ہر معاملے میں چاہے کوئی کمزور ہو یا طاقت ور، چھوٹا ہو یا بڑا، مرد ہو یا عورت اسے عدل و انصاف مہیا کیا ہے اور ہر حق دار کو اس کا حق دیا ہے۔ عدل وانصاف کے متلاشیوں کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے جان نثار صحابہؓ کے لاکھوں اقوالِ زریں مختلف کتب میں پھیلے ہوئے ہیں۔ چنانچہ اسی طرح وراثت کی تقسیم کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عدل وانصاف مہیا کیا اور ہر وارث کو اس کا حق عطا فر مایا، خواہ وہ مرد ہے یا عورت، بچہ ہے یا بوڑھا، طاقت ور ہے یا کمزور، حتیٰ کہ ماں کے پیٹ میں موجود حمل کی وراثت تک کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔ جب کوئی شخص اپنی حاملہ بیوی یا حاملہ بہو کو زندہ چھوڑ کر فوت ہو گیا ہو، اسلام نے اس حمل تک کو بھی میت کا وارث مقرر فرمایا ہے۔

  • فرائض و وراثت:’علم فرائض‘ و ہ علم ہے جس سے میت کا ترکہ اس کے شرعی ورثا کے درمیان تقسیم کرنے کا طریقہ معلوم ہو۔ یاد رہے فرائض، فریضہ کی جمع ہے۔ فریضہ اللہ تعالیٰ کی بندوں پر عائد کردہ پابندیاں ہیں، جس کے لغوی معنی ہیں متعین چیز ۔ چوں کہ میراث میں مستحقین کے حصے متعین ہوتے ہیں، اس لیے ان حصوں کو فرائض کہا جاتا ہے، پھر رفتہ رفتہ علم میراث کو فرائض اور اس فن کے واقف کا رکو فرضی، فراض اور فریض کہا جانے لگا۔ اس فن کا دوسرا نام علم المواریث بھی ہے: وَرِث، يَرِث إرثا و میراثا کے معنی ہیں: وارث و خلیفہ ہونا، کسی چیز کا ایک سے دوسرے کے پاس منتقل ہونا ۔ علم المواریث: اصطلاح میں اس علم کو کہتے ہیں، جس سے میت کی ملکیت اس کے زند ہ ورثا کی طرف منتقل کی جاتی ہے۔ (مفتی سعید احمد پالنپوری ،طرازی شرح سراجی ، مکتبہ رحمانیہ لاہور ۱۴۲۳ھ، ص ۳۳-۳۴)
  • علمِ فرائض کی فضیلت:وراثت جس کا قدیم اصطلاحی نام ’علم الفرائض‘ ہےمسلم معاشرے میں اس کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کے دستور حیات قرآن مجید میں جزئیات کے احاطے کے ساتھ اس کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے اور حدیث و فقہ کی کتابوں میں اس کے لیے مستقل ابواب قائم کیے گئے ہیں، اور اس کی اہمیت راسخ کرنے کے لیے ہر دور کے علما اور مفکرین نے اس جانب توجہ کی ہے۔

اسلامی فقہ میں ’فنِ میراث‘ کو امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں احکام بیان کرنے کے اپنے عمومی اسلوب سے ہٹ کر میراث کے مسائل کو زیادہ تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی میراث کی خصوصی اہمیت کے پیش نظر متعدد مواقع پر اس کے سیکھنے سکھانے کی ترغیب دی، بلکہ جہاں قرآن سیکھنے کا حکم دیا، وہیں میراث کے احکام سیکھنے پر زور دیا ہے۔ سلف صالحین کے ہاں یہ معمول رہا ہےکہ کسی طالب علم کو اس وقت تک حدیث کے درس میں نہیں بیٹھنے دیا جاتا تھا، جب تک وہ قرآن کریم حفظ اور میراث کے مسائل کو اَزبر نہ کر لیتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ علم میراث اور ترکہ ایسی چیز ہے، جس سے ہر مسلمان کو واسطہ پڑتا ہے اور پھر اس کا تعلق لوگوں کے مالی حقوق کے ساتھ بھی ہے ۔

نظامِ معاشرت اور خاص کر نظامِ معیشت میں اکثر خاندانی جھگڑے اور لڑائیاں زر اور زمین کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اور یہی دو چیزیں وراثت کا موضوع ہیں۔ مسلمان معاشروں میں بھی فتنہ و فساد کی ایک بڑی وجہ وراثت کے معاملات میں مقررہ قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی اور ان حدود کا پاس نہ رکھنا ہے، جو اسلامی شریعت نے متعین کر دیے ہیں۔ اس کے اسباب و وجوہ میں جہاں اور بہت سی باتیں قابلِ توجہ ہیں وہاں لالچ کے علاوہ متعلقہ قانون سے ناواقفیت بھی ہے۔

جیساکہ ذکر ہوا ہے کہ احادیث مبارکہ میں اس علم کو سیکھنے کی بڑی تاکید آئی ہے اور اسے نصف علم سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ ارشاد نبویؐ ہے: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ تَعَلَّمُوا الْفَرَائِضَ وَعَلِّمُوهَا؛ فَإِنَّهُ نِصْفُ الْعِلْمِ وَهُوَ يُنْسَى، وَهُوَ أَوَّلُ شَيْءٍ يُنْزَعُ مِنْ أُمَّتِي،’’اے ابو ہریرہ فرائض (یعنی میراث کے مسائل) سیکھو اور سکھاؤ! یقینا یہ نصف علم ہے ، اور وہ (یعنی میراث کا علم) سب سے پہلے بھلایا جائے گا، اور سب سے پہلے میری اُمت سے جو چیز اٹھالی جائے گی وہ علم میراث ہے‘‘۔ (ابوعبداللہ محمد بن یزید ابن ماجہ ،سنن ابن ماجہ ، باب الحث علی تعلیم الفرائض،حدیث: ۲۷۱۹)

دوسری روایت میں ہے: تَعَلَّمُوْا  الْقُرْآنَ الفَرَائِضَ  وَعَلِّمُوا النَّاسَ فَإِنِّي مَقْبُوْضٌ ’’ميراث اور قرآنِ مجید کا علم حاصل کرو اور لوگوں کو اس کی تعلیم دو کیونکہ میں وصال پانے والا ہوں‘‘ ۔(ابو عیسیٰ محمد ترمذی ، سنن ترمذی ، باب ما جاء فی تعلیم الفرائض،حدیث: ۲۲۳۴)

علمِ میراث کی اہمیت وافادیت بیان کرتے ہوئے، حضرت عمر ؓ نے فرمایا: تَعَلَّمُوا الْفَرَائِضَ،  وَاللَّحْنَ وَالسُّنَنَ، كَمَا تَعَلَّمُونَ الْقُرْآنَ  ’’وراثت ، لغت اور اور سُنن (یعنی مسائل شرعیہ ) کا علم اسی طرح حاصل کرو جس طرح تم قرآن مجید سیکھتے ہو‘‘۔ ( عبد اللہ بن عبد الرحمٰن دارمی، سنن الدارمی، باب فی تعلیم الفرائض، حدیث: ۲۸۵۰)

دین کے وہ احکام جو قرآن و سنت سے ماخوذ ہیں، ان میں سے بعض کا تعلق عبادات سے، کچھ کا اخلاق و عادات سے، اور کچھ وہ ہیں جن کا تعلق مرنے کے بعد سے ہے۔ علم الفرائض بھی اسی قبیل سے ہے اور ہر انسان سے اس کا تعلق ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس باب کی سنگینی اور نزاکت کا لحاظ کرتے ہوئے اس کی جزئیات تک کو بھی واضح انداز میں بیان کیا ہے ۔

  • دیگر مذاہب میں وراثت:مذہب یہود میں وراثت کے حق دار صرف اور صرف بیٹے، باپ ، بھائی ، چچا ہی ہو سکتے تھے۔ عورت کو وراثت میں کوئی حصہ داری نہیں ملتی تھی، خواہ وہ مرنے والے کی ماں، بہن ،بیٹی یا بیوی ہی کیوں نہ ہو ۔ اسی طرح عیسائی مذہب میں بھی صرف پلوٹھی کا بیٹا ہی وراثت کا حق دار سمجھا جاتا تھا۔ یہاں بھی عورت کو اس کے اس حق سے محروم رکھا جاتا تھا ۔ ہندومذہب کی روایات کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ خواتین کا ترکہ میں کوئی حصہ نہیں ہے، یہاں سب چیزیں بڑے لڑکے کی ملکیت میں رہیں گی ۔ ( ڈاکٹر عبد الحئ ابڑو ،میراث و وصیت   کے شرعی ضوابط  ، شریعہ اکیڈمی ، اسلام آباد ، ۲۰۱۵ء،ص ۱۵ تا ۱۸)

نیز زمانۂ جاہلیت میں بھی یہی رواج عام تھا کہ عورتوں اور نا بالغ بچوں کو وراثت سے  محروم رکھا جاتا تھا اور ترکہ پورے کا پورا بڑے بیٹوں کے حوالے کیا جاتاتھا۔ عربوں کا اصول تھا کہ مالِ وراثت کے اہل صرف وہ ہیں جو میدان جنگ میں تلوار چلانے اور دشمن کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوں ۔ جن میں لڑنے اور قبیلے کے دفاع کی صلاحیت نہیں وہ میراث کے بھی حق دار نہیں ہیں۔ چونکہ عورتیں اور بچے اس اصول پر پورا نہیں اترتے تھے، اس لیے وراثت سے یکسر محروم رہتے تھے۔ (حافظ ذو الفقار علی،تقسیم وراثت کے شرعی احکام  ، مکتبہ بیت الا سلام ، لاہور ،۲۰۱۸ء، ص ۱۷)

  • ترکہ اور چار حقوق:میت جو مال چھوڑ کر جاتی ہے اس پر ترتیب وار چار حقوق مرتب ہوتے ہیں۔ شریعت کا اصول یہ ہے کہ مرنے والے کے مال سے پہلے شریعت کے مطابق اس کے کفن دفن کے اخراجات پورے کیے جائیں، جن میں نہ فضول خرچی ہو نہ کنجوسی۔ اس کے بعد اس کے قرضے ادا کیے جائیں۔ اگر قرضے اتنے ہی ہوں جتنا اس کا مال ہے، یا اس سے بھی زیادہ، تو   نہ کسی کو میراث ملے گی نہ کوئی وصیت نافذ ہوگی۔ اگر قرضوں کے بعد مال بچ جائے یا قرضے بالکل ہی نہ ہوں، تو اگر اس نے کوئی وصیت کی ہو اور وہ کسی گناہ کی وصیت نہ ہو، تو اب جو مال موجود ہے اس کے ایک تہائی میں سے اس کی وصیت نافذ ہو جائے گی۔ اگر کوئی شخص پورے مال کی وصیت کردے تب بھی تہائی مال ہی میں وصیت معتبر ہوگی۔تہائی مال سے زیادہ کی وصیت کرنا مناسب بھی نہیں ہے اور وارثوں کو محروم کرنے کی نیت سے وصیت کرنا گناہ بھی ہے۔ اداء دین (قرض) کے بعد ایک تہائی میں وصیت نافذ کر کے وراثت شرعی وارثوں میں تقسیم کردی جائے جس کی تفصیلات فرائض کی کتابوں میں موجود ہیں ۔ اگر وصیت نہ کی ہو تو اداء دین کے بعد پورا مال میراث میں تقسیم ہو گا۔(مفتی محمد شفیع عثمانی ؒ ، معارف القرآن ، مکتبہ معارف القرآن ، کراچی ، ص ۳۲۰-۳۲۱)
  • وراثت کی بنیاد:اسلام کے نزدیک وراثت کی بنیاد تین چیزیں ہیں: ایک، نسب یعنی خون کا رشتہ ۔ دوسرے، ازدواجی تعلقات یعنی میاں بیوی کا رشتہ جن سے نسبی رشتے وجود میں آتے ہیں ۔ تیسرے، ولاء یعنی غلام کو آزاد کر نے کی نسبت ۔

مستحقین ترکہ کی تفصیل ملاحظہ کیجیے:

۱-         پہلے ’اصحابِ فرائض‘ کو ملے گا۔ اصحابِ فرائض میت کے وہ رشتہ دار ہیں، جن کے حصے شریعت میں متعین ہوں ، ان کو ’ذوی الفروض‘ بھی کہتے ہیں۔

۲-         ’اصحابِ فرائض‘ کو دینے کے بعد ترکہ ’عصبہ نسبی‘ کو ملے گا۔ ’عصبہ نسبی‘ میت کے وہ رشتہ دار ہیں جو ’اصحابِ فرائض‘ سے بچا ہوا اور ’اصحابِ فرائض‘ نہ ہونے کی صورت میں سارا ترکہ لے لیتے ہیں۔

۳-         ’اصحابِ فرائض‘ اور ’عصبہ نسبی‘ نہ ہو تو ترکہ ’عصبہ سببی‘ کو ملے گا۔ ’عصبہ سببی‘(مولی العتاقہ یعنی غلام کی وراثت) کا آج کل وجود نہیں ہے۔

۴-         اگر ’عصبہ نسبی‘ اور ’سببی‘ میں سے کوئی نہ ہو اور تر کہ کچھ باقی رہ گیا ہو تو باقی ماندہ تر کہ زوجین کے علاوہ ’اصحاب ِفرائض‘ کو حصوں کے بقدر دیا جائے گا ، اسے ’رد‘ کہتے ہیں ۔

۵-         اگر ’اصحابِ فرائض‘ اور ’عصبات‘ میں سے کوئی نہ ہوں، تو ’ذوی الارحام‘ کو دیا جائے گا، اور ’ذوی الارحام‘ میت کے وہ رشتہ دار ہیں، جن کا حصہ نہ قرآن وحدیث سے اور نہ اجماع سے مقرر ہو، اور نہ وہ عصبات میں سے ہوں، جیسے پھوپھی ، خالہ ، ماموں بھانجی،اور نواسہ وغیرہ۔

۶-         ’ذوی الارحام‘ بھی نہ ہوں تو ترکہ ’مولی الموالات‘ کو دیا جائے گا۔

۷-         اگر مولی الموالات بھی نہ ہو تو ترکے کا وارث وہ اجنبی شخص ہوگا، جس کے بارے میں میت نے یہ کہا ہو کہ وہ میر انسبی رشتہ دار ہے، اسے ’مقر لہ بالنسب‘ کہتے ہیں۔

۸-         اگر ’مقر لہ بالنسب‘ بھی نہ ہو تو تر کہ اس شخص کو دیا جائے گا، جس کے لیے میت نے سارے ترکہ کی وصیت کی ہو، اس کو موصی    له بجميع المال کہتے ہیں۔

۹-         اگر اوپر ذکر کردہ افراد میں سے کوئی نہ ہو تو میت کا ترکہ بیت المال میں جمع کرا دیا جائے گا۔

  •  وراثت سے محرومی:مذکورہ اشخاص وراثت سے محروم رہیں گے: ایک غلام۔ دوسرا قاتل۔ تیسرا مختلف دین کا پیروکار اور چوتھا اختلاف ملک۔ اس کا اعتبار کافروں پر ہوگا مسلمانوں پر نہیں۔
  •  تقسیمِ وراثت:لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِّـمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ ۝۰۠ وَلِلنِّسَاۗءِ نَصِيْبٌ مِّـمَّاتَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ مِـمَّا قَلَّ مِنْہُ اَوْ كَثُرَ۝۰ۭ نَصِيْبًا مَّفْرُوْضًا۝۷ (النساء۴:۷) مَردوں کے لیے اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، اور عورتوں کے لیے بھی اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، خواہ تھوڑا ہو یا بہت،اور یہ حصہ (اللہ کی طرف سے) مقرر ہے۔

اس آیت میں مرد و عورت کے حصے بیان کرنے کے ساتھ ساتھ یہ قاعدہ بھی بتلا دیا گیا ہے کہ میراث کی تقسیم ’الاقرب فالاقرب‘ کے اصول پر ہو گی۔

مرنے والے کے مال متروکہ کو کس اعتبار سے اور کس وارث کو کتنا حصہ ملے گا؟ اس کی بیش تر تشریح و تفصیل قرآن مجید کی سورئہ نساء میں بیان کی گئی ہے ملاحظہ ہو ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 اللہ تمھاری اولاد کے بارے میں تم کو حکم دیتا ہے کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔ اور اگر (صرف) عورتیں ہی ہوں، دو یا دو سے زیادہ، تو مرنے والے نے جو کچھ چھوڑا ہو، انھیں اس کا دو تہائی حصہ ملے گا۔ اور اگر صرف ایک عورت ہو تو اسے (ترکے کا) آدھا حصہ ملے گا۔ اور مرنے والے کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملے گا، بشرطیکہ مرنے والے کی کوئی اولاد ہو، اور اگر اس کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کے والدین ہی اس کے وارث ہوں، تو اس کی ماں تہائی حصے کی حق دار ہے۔ ہاں، اگر اس کے کئی بھائی ہوں تو اس کی ماں کو چھٹا حصہ دیا جائے گا (اور یہ ساری تقسیم) اس وصیت پر عمل کرنے کے بعد ہوگی جو مرنے والے نے کی ہو، یا اگر اس کے ذمے کوئی قرض ہے تو اس کی ادائیگی کے بعد۔ تمھیں اس بات کا ٹھیک ٹھیک علم نہیں ہے کہ تمھارے باپ بیٹوں میں سے کون فائدہ پہنچانے کے لحاظ سے تم سے زیادہ قریب ہے ؟ یہ تو اللہ کے مقرر کیے ہوئے حصے ہیں، یقین رکھو کہ اللہ علم کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک۔(النساء ۴:۱۱)

قرآن نے واضح کردیا کہ میراث کے جو حصے اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں، وہ اس کا طے شدہ حکم ہے، اس میں کسی کو رائے زنی یا کمی بیشی کا کوئی حق نہیں اور تمھیں پورے اطمینانِ قلب کے ساتھ اسے قبول کرنا چاہیے۔ تمھارے خالق و مالک کا یہ حکم بہترین حکمت و مصلحت پر مبنی ہے:

 اور تمھاری بیویاں جو کچھ چھوڑ کر جائیں، اس کا آدھا حصہ تمھارا ہے، بشرطیکہ ان کی کوئی اولاد (زندہ) نہ ہو۔ اور اگر ان کی کوئی اولاد ہو تو اس وصیت پر عمل کرنے کے بعد جو انھوں نے کی ہو، اور ان کے قرض کی ادائیگی کے بعد تمھیں ان کے ترکے کا چوتھائی حصہ ملے گا۔ اور تم جو کچھ چھوڑ کر جاؤ اس کا ایک چوتھائی ان (بیویوں) کا ہے، بشرطیکہ تمھاری کوئی اولاد (زندہ) نہ ہو۔ اور اگر تمھاری کوئی اولاد ہو تو اس وصیت پر عمل کرنے کے بعد جو تم نے کی ہو، اور تمھارے قرض کی ادائیگی کے بعد ان کو تمھارے ترکے کا آٹھواں حصہ ملے گا۔ اور اگر وہ مرد یا عورت جس کی میراث تقسیم ہونی ہے، ایسا ہو کہ نہ اس کے والدین زندہ ہوں، نہ اولاد، اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن زندہ ہو تو ان میں سے ہر ایک چھٹے حصے کا حق دار ہے۔ اور اگر وہ اس سے زیادہ ہوں تو وہ سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے، (مگر) جو وصیت کی گئی ہو اس پر عمل کرنے کے بعد اور مرنے والے کے ذمے جو قرض ہو اس کی ادائیگی کے بعد، بشرطیکہ (وصیت یا قرض کے اقرار کرنے سے) اس نے کسی کو نقصان نہ پہنچایا ہو۔ یہ سب کچھ اللہ کا حکم ہے، اور اللہ ہربات کا علم رکھنے والا، بُردبار ہے۔(النساء۴:۱۲ )

مفتی محمد شفیع صاحبؒ ان مذکورہ آیات کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ میراث کے حصے بیان کرنے کے بعد اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَصِيَّۃً مِّنَ اللہِ۝۰ۭ ، یعنی جو کچھ حصے مقرر کیے گئے اور دین اور وصیت کے بارے میں جو تاکید کی گئی، اس سب پر عمل کرنا نہایت ضروری ہے۔ اللہ پاک کی طرف سے یہ ایک عظیم وصیت اور مہتم بالشان حکم ہے۔ اس کی خلاف ورزی نہ کرنا، پھر مزید تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: وَاللہُ عَلِيْمٌ حَلِيْمٌ۝۱۲ۭ یعنی اللہ تعالیٰ سب جانتا ہے اور اس نے اپنے علم سے ہر ایک کا حال جانتے ہوئے حصے مقرر فرمائے۔ جو احکام مذکورہ پر عمل کرے گا اللہ کے علم سے اس کی یہ نیکی باہر نہ ہوگی اور جو خلاف ورزی کرے گا اس کی یہ بدکرداری بھی اللہ کے علم میں آئے گی، جس کی پاداش میں اس سے مواخذہ کیا جائے گا۔ نیزجو کوئی مرنے والا دین یا وصیت کے ذریعے سے ضرر پہنچائے گا اللہ کو اس کا بھی علم ہے، اس کے مواخذہ سے بےخوف نہ رہو، ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خلاف ورزی کرنے پر اس دنیا میں سزا نہ دے، اس لیے کہ وہ حلیم ہے، خلاف ورزی کرنے والے کو یہ دھوکا نہ لگنا چاہیے کہ میں بچ گیا۔(ایضاً، ص ۳۳۱)

اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جہاں ہر شعبہ سے متعلق مکمل رہنمائی ملتی ہے۔ چنانچہ فرائض و میراث کے تعلق سے بھی اسلام نے گذشتہ تمام رسوم و رواج کو عدل و انصاف اور فطرت کے خلاف بتا کر جہاں ایک منصفانہ اور عادلانہ نظام میراث متعارف کرایا ہے اور صالح اور تندرست معاشرے کے قیام کے لیے اصول وضع کیے ہیں، وہیں گردش دولت کی جانب بھی توجہ دلائی ہے کہ دولت کی فطرت میں گردش ہے نہ کہ ارتکاز ، حالانکہ کچھ مغرب زدہ اور اسلام دشمن لوگ اسلام کے نظامِ میراث پر اعتراضات کر تے ہیں کہ اسلام میں یہاں عورت اور مرد کے لیے مساوات نہیں ہے اور عورت کو کم تر باور کرایا گیا ہے تو اس سے کیسے صالح معاشرہ کا وجود ہو سکتا ہے ؟ ان کے لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام نے عورت اور مرد کے درمیان اس میراث کے اصول میں عدل و انصاف سے کام لیا ہے جس میں عقل و تدبر کی ضرورت ہے۔

اس تعلق سے مفتی سعید احمد پالنپوریؒ لکھتے ہیں :’’ایک، مرد جنگ کرتے ہیں اور اہل وعیال اور اموال و اعراض کی حفاظت کرتے ہیں۔ دوم، مردوں پر مصارف کا بار زیادہ ہے، اس لیے مالِ غنیمت کی طرح بے مشقت اور بے محنت ملنے والی چیز کے مردہی زیادہ حق دار ہیں، اور عورتیں نہ جنگ کرتی ہیں نہ ان پر مصارف کا بار ہے۔ نکاح سے پہلے ان کا نفقہ باپ کے ذمہ ہے، نکاح کے بعد شوہر کے ذمے، بیوہ ہو جائے تو اولاد کے ذمے، اولاد نہ ہو تو حکومت کے ذمے، حکومت کفالت نہ کرے تو مسلمانوں کے صالح معاشرہ کے ذمہ، اس لیے ان کو میراث سے حصہ کم دیا گیا ہے‘‘۔ (مفتی محمد سعید احمد ، تفسیر ہدایت القرآن ، مکتبہ حجاز ، دیوبند ، ۱۴۳۸ھ ،ج۱، ص۵۷۲-۵۷۳)

  • عصرِ حاضر اور وراثت:اسلام نے ’علم فرائض‘ کی جتنی اہمیت اور فضیلت بیان کی ہے، آج حالات میراث کے تعلق سے اتنے ہی بد تر ہیں اور آپ کی پیش گوئی اِس وقت کے حالات کی پوری پوری ترجمانی کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس کے پس پشت چند اسباب ہیں جن کے باعث آج عوام کی ایک بڑی تعداد وراثت کی تقسیم کے حوالے سے کوتاہیوں میں ملوث ہے،جیسے ہمارے یہاں مالِ وراثت حکمِ شریعت کے مطابق تقسیم نہیں کیا جاتا۔اسی طرح شرعی اعتبار سے میت کا چھوڑا ہوا تمام مال، مالِ وراثت ہے ، چاہے وہ نقدی، سونا، چاندی، زمین و جائیداد اور مکان و دوکان وغیرہ کسی بھی شکل میں ہو ، لیکن عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ لوگ اس سلسلے میں بھی بہت کو تاہی اور لاپروائی سے کام لیتے ہیں، اور چھوٹی موٹی چیزیں مثلاً سونے یا چاندی کی کوئی انگوٹھی، یا بوقتِ غسل میت کی جیب سے نکلنے والی تھوڑی بہت نقدی کو ، مال وراثت میں شامل نہیں کرتے،اور وہ چیز جس کے ہاتھ لگتی ہے، وہی اس کو استعمال کر لیتا ہے۔ شرعاً ایسا کرنا حرام ہے کیونکہ وہ بھی مال وراثت ہے اور اس میں بھی تمام ورثا کا حق ہے۔بعض لوگ میت کے ذمہ واجب الادا قرض کی ادائیگی سے انکار کردیتے ہیں اور میت کا چھوڑا ہوا تمام مال وراثت باہم تقسیم کر لیتے ہیں۔

کچھ لوگ جہیز کی شکل میں دی جانے والی اشیا کو وراثت کا بدل سمجھ کراپنی بیٹیوں یا بہنوں کو وراثت سے ان کا حصہ نہیں دیتے، جس کا آج کافی رواج ہو گیا ہے۔ یہ خیال سراسر باطل ہے، لہٰذا اپنی بہن یا بیٹی کی شادی کے انتظامات میں جو اخراجات کیے جائیں یا اُسے تحفے تحائف دیے جائیں، انھیں وراثت کا بدل ہرگز تصور نہ کیا جائے۔ عورتوں کو مختلف بہانوں یا ڈرا کر وراثت سے ان کو حصہ نہیں دیا جا تا ۔ اور لوگ اس خیال سے مالِ وراثت تقسیم کرنے میں رکاوٹ بنتے ہیں کہ موروثی جائیداد کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے اور بیٹیوں کو دی جانے والی جائیداد یا مال وراثت کے پرائے لوگ (یعنی شوہر اور اس کی اولاد ) وارث بن جائیں گے۔

 الغرض اسلام ہی وہ دین ہے، جس نے ہماری زندگی کے لیے عائلی اصول وضوابط بھی اسی طرح متعین کیے ہیں، جس طرح انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے کیے ہیں۔ دیگر معاشروں اور مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان معاملات خدائی ہدایات کی بنیاد پر نہیں بلکہ روایات اور کلچر کی بنیاد پر طے ہوتے ہیں ۔ چنانچہ دنیا کے مختلف خطوں اور علاقوں میں ایک ہی مذہب کے ماننے والوں کے یہاں یہ معاملات مختلف انداز سے انجام پاتے ہیں،جب کہ اسلام کا عائلی نظام پوری دنیا میں یکساں طورپر نافذوجاری ہے اور اگر کہیں جاری نہیں ہے( جیسے آج کل وراثت کے موضوع کو ہی لوگ بھول چکے )، تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہاں کے لیے اسلام کی ہدایات اور تعلیمات تبدیل ہوگئی ہیں۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اللہ کے اس مقدس سبق کو پھر سے یاد کریں اور نصف علم پر مبنی وراثتِ اسلامی کو اختیار کرکے حقوق العباد کو ادا کریں۔

اسلامی تحریک نہ کمزوریوں سے مبرا ہے اور نہ تنقید ونصیحت سے بے نیاز، جیسا کہ اسلامی تحریکوں کے بعض مخلص وابستگان بے جا طور پر تصور کر لیتے ہیں۔ اس تصور کے حامل افراد تحریک اسلامی اور اسلام کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک تحریک کے کاموں اور حکمت عملیوں پر تنقیدی و تجزیاتی نگاہ ڈالنے کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اسلام پر تنقید ہو رہی ہے۔ ایسا کچھ بعض لادین عناصر دوسرے انداز میں کرتے ہیں۔ وہ تحریک اسلامی کی تدبیری غلطی یا کمزوری گنواتے ہیں تو اسے براہِ راست اسلام سے منسوب کر دیتے ہیں اور اسلام اور اس کے احکام میں کیڑے ڈالنے لگتے ہیں۔

یہ تحریک بہرحال اُن انسانوں کی تحریک ہے، جو اسلام کے غلبے اور اس کا پیغام پھیلانے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ تحریک سے وابستہ افراد اپنے ہدف تک پہنچنے کے لیے تمام ممکنہ جائز اسباب وتدابیر اختیار کرتے ہیں۔ ان کا یہ دعویٰ نہیں ہے اور نہ ہونا چاہیے کہ ان کا ’اجتہاد‘ کسی وحی و الہام کے درجے میں آتا ہے یا ان کی بات کسی بحث وتنقید سے بلند ہے۔ بلاشبہہ ان میں سے کوئی بھی یہ زعم نہیں رکھتا کہ وہ مواخذہ ومحاسبہ سے بری ہے اور اس پر کیے جانے والے اعتراضات ایسے ہیں جنھیں جواب وصفائی کے درخور نہیں سمجھا جانا چاہیے۔

اسی بنا پر ہمارا خیال ہے کہ تحریک کے وجود، ڈھانچے اور داخلی اسباب پر اس مناسبت سے بحث کی جانی چاہیے کہ یہ اب تک مطلوبہ معاشرے کی تعمیر میں کیوں کام یاب نہیں ہو رہی ہے اور اس کی کمزوری کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ یہاں ہم اختصار سے چند اہم اسباب کا جائزہ لیتے ہیں:

خود احتسابی کا فقدان

سب سے پہلی چیز جس کی لوگ شکایت کرتے ہیں، وہ یہ ہے کہ تحریک کے اندر نقد واحتساب کا عمل اگر یکسر ختم نہیں تو کمزور ضرور ہے۔ ’خود احتسابی‘ سے ہماری مراد یہ ہے کہ اپنی ذات کا محاسبہ کیا جائے۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آیا ہے: ’’سمجھ دار وہ ہے، جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا‘‘ یعنی اس کا محاسبہ کرتا رہا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے: ’’اپنا محاسبہ خود کرو قبل اس کے کہ کوئی تمھارا محاسبہ کرے۔ گویا اپنے اعمال کا وزن اپنے طور پر کر لیا کرو قبل اس کے کہ کوئی تمھارے اعمال کا وزن کرے۔ بعض بزرگ کہا کرتے تھے: ’’مومن اپنے نفس کا محاسبہ کرنے میں جابر سلطان سے بھی زیادہ شدید ہوتا ہے‘‘۔یہ تو ہوا انفرادی محاسبۂ نفس۔

جس طرح ایک فرد پر لازم ہے کہ وہ دیکھتا رہے کہ وہ اللہ کے معاملے میں کسی تفریط کا شکار نہ ہو، اور بندوں کے حقوق میں کوئی کمی نہ چھوڑتا ہو، تاکہ اس کا آج، کل سے بہتر بنے اور  آنے والا کل اس کے آج سے بہتر ثابت ہو۔ اسی طرح جماعت پر بھی لازم ہے کہ وہ اپنے اندر اجتماعی محاسبے کے عمل کو جاری کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو گمراہی پر اکٹھے ہونے سے تو محفوظ رکھا ہے، لیکن جہاں تک جماعت کا تعلق ہے، وہ عملی دُنیا میں کام کرتے ہوئے خطا اور غلطی سے محفوظ نہیں سمجھی جاسکتی۔ خاص طور پر اجتہادی امور میں، جہاں ایک معاملے کے متعدد پہلو ہو سکتے ہیں۔ جتنا کسی پہلو میں صحت کا امکان ہوتا ہے، اس باب میں اتنا ہی غلطی اور لغزش کا بھی۔ خطا کا امکان بشری کمزوریوں کے ما تحت ہو سکتا ہے۔ تاہم، یہ ایمان وتقویٰ کے منافی نہیں بلکہ بشریت کے فطری لوازم میں سے ہے۔ خطا کے رُخ پر ان کے قدم بھی پھسل سکتے ہیں جو ہم میں سب سے کامل ایمان والے ہیں اور میزانِ عدل میں جن کے عمل قابل ترجیح ہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین ہی کے زمانۂ سعادت کو دیکھ لیجیے۔ غزوۂ احد کے بعد اللہ تعالیٰ کا ان کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟:

اَوَلَمَّآ اَصَابَتْكُمْ مُّصِيْبَۃٌ قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَيْھَا۝۰ۙ قُلْتُمْ اَنّٰى ہٰذَا۝۰ۭ قُلْ ھُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِكُمْ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝۱۶۵ (اٰل عمرٰن۳: ۱۶۵) یہ تمھارا کیا حال ہے کہ جب تم پر مصیبت آ پڑی تو تم کہنے لگے کہ یہ کہاں سے آئی؟ حالانکہ (جنگ بدر میں) اس سے دوگنی مصیبت تمھارے ہاتھوں (فریق مخالف پر) پڑ چکی ہے۔ اے نبیؐ، ان سے کہو، یہ مصیبت تمھاری اپنی لائی ہوئی ہے، اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

قرآن نے صحابہؓ کے بعض اقوال واعمال کا تعلق کمزوری اور غلطی کے حوالے ہی سے دکھایا ہے:

وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللہُ وَعْدَہٗٓ اِذْ تَحُسُّوْنَھُمْ بِـاِذْنِہٖ۝۰ۚ حَتّٰٓي اِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِي الْاَمْرِ وَعَصَيْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَآ اَرٰىكُمْ مَّا تُحِبُّوْنَ۝۰ۭ مِنْكُمْ مَّنْ يُّرِيْدُ الدُّنْيَا وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّرِيْدُ الْاٰخِرَۃَ۝۰ۚ (اٰل عمٰرن۳: ۱۵۲)اللہ تعالیٰ نے (تائید ونصرت کا) جو وعدہ تم سے کیا تھا، وہ تو اس نے پورا کر دیا۔ ابتدا میں اس کے حکم سے تم ہی ان کو قتل کر رہے تھے۔ مگر جب تم نے کمزوری دکھائی اور اپنے کام میں باہم اختلاف کیا، اور جونہی وہ چیز اللہ نے تم کو دکھائی جس کی محبت میں تم گرفتار تھے (یعنی مال غنیمت) تم اپنے سردار کے حکم کی خلاف ورزی کر بیٹھے، اس لیے کہ تم میں سے کچھ لوگ دنیا کے طالب تھے اور کچھ آخرت کی خواہش رکھتے تھے۔

تحریک اسلامی اپنی مالک آپ ہی نہیں ہے، یہ تو پوری امت اسلامیہ کی متاع ہے۔ یہی نہیں بلکہ آنے والی مسلمان نسلوں کو منتقل ہونے والا ورثہ ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ اس کے اثر وقوت کے سرچشموں سے آگاہی بھی حاصل کی جائے اور اس کے ضعف واضمحلال سے سبق بھی سیکھا جائے۔

تحریک اسلامی کے بعض مخلص وابستگان تحریک میں تنقید کا دروازہ کھلنے سے اس لیے خوف زدہ رہتے ہیں کہ ’’اس طرح بعض لوگ اس کی اچھائیوں کو بھی برائیاں ظاہر کرنے لگ جائیں گے۔ ایسی تنقید اگر اصلاح کا باعث نہ بن سکے تو فساد ثابت ہوتی ہے‘‘۔ اسی نوعیت کا عذر بعض قدیم علما نے بھی اختیار کیا، جنھوں نے امت کو ’اجتہاد‘ کے دروازے بند کیے رکھنے کی نصیحت وتاکید کی۔ ان کا خیال تھا کہ ’’ایسے لوگ بھی ’اجتہاد‘ کے نام پر اللہ کے دین کو تختۂ مشق بنا ڈالیں گے جو اس کے اہل نہیں ہیں۔ دین میں بے حقیقت باتوں کو داخل کریں گے، علم وبصیرت کے بغیر اجتہادی فیصلے کریں گے، خود بھی گمراہی کا شکار ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے‘‘۔ لیکن ہمارے خیال میں ایسے لوگوں کے لیے یہ دروازے بند نہیں ہونے چاہییں جو علم وتقویٰ کے لحاظ سے معاملے پر قادر ہوں۔

اسی طرح تحریک اسلامی کے بعض عظیم قائدین پر تنقید کو بھی گوارا نہیں کیا جاتا۔ حسن البناؒ ، ابو الاعلیٰ مودودیؒ ، سید قطبؒ اور مصطفےٰ السباعیؒ یا ایسی ہی دیگر فکری اور تحریکی قیادت پر جب تنقیدی رائے زنی کی گئی تو اسے اتہام گردانتے ہوئے یہ سمجھا گیا کہ ان شخصیات کی امامت وعظمت کو طعن کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، حالانکہ کوئی تنقید علمی سطح پر ہو یا عملی اور تحریکی سطح پر، کسی شخص کو علمی، دینی اور اخلاقی مرتبے سے نیچے نہیں لا سکتی۔ ان عظیم رہنماوں کی فکر صرف وابستگان تحریک ہی کی ملکیت نہیں ہے بلکہ یہ تو مسلمان نسلوں کی ملک ہے۔ چنانچہ نہایت ضروری ہے کہ سب ان کی فکر پر تنقیدی جائزے کے ذریعے سے یہ جان سکیں کہ کہاں مکمل اتفاق ہو سکتا ہے اور کن پہلوئوں میں اختلاف کی گنجایش ہے؟ مگر کسی ایک چیز میں اختلاف کا مطلب یہ نہیں کہ اُن کے مجموعی خیر کی قدر نہ کی جائے۔

خود ان مفکرین نے کبھی اپنے آپ کو معصوم نہیں سمجھا، نہ اپنی آراء ،اجتہاد اورفکر پر کبھی ’تقدس‘ کا رنگ چڑھایا۔ حسن البناؒ نے تو اپنے ’دس اصولوں، میں یہ بات بہ تاکید کہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا ہر شخص کی بات کو اختیار واخذ بھی کیا جاسکتا ہے اور چھوڑا بھی جاسکتا ہے۔

ان تمام حضرات نے خوب سے خوب تر کے سفر میں اپنے علمی موقف پہ نظرثانی میں کبھی عار نہیں سمجھا۔ سید قطبؒ التصویر الفنی ومشاہد القیامۃ فی القرآن میں قرآنی بلاغت کے منفرد اور عظیم نقاد کی حیثیت میں سامنے آئے۔ جب انھوں نے عدالۃ الاسلام ونظامۃ الحیاۃ لکھی تو اسلامی نظام معاشرت کی خوبیوں کے پرچارک بنے۔ اس سے آگے فکرِ بلند نے پرواز کی تو المعالم فی الطریق اور فی ظلال القرآن میں ایک زبردست تحریکی داعی کے قالب میں ڈھل کر معاشرے میں اسلامی انقلاب کے علَم بردار بن گئے۔ ان کے ایک شاگرد نے ان نظریات وآراء میں ان زبردست تبدیلیوں کے ضمن میں ان سے ایک مرتبہ کہا، ’’معاف کیجیے گا، آپ کے بھی امام شافعیؒ کی طرح دومذہب ہیں، ایک قدیم اور ایک جدید‘‘۔ سید قطبؒ نے اپنی فکر کے اجتہادی سفر میں ترقی وانقلاب کا اعتراف کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہ کی اور کہا، ’’ہاں، شافعی نے صرف فروع میں رائے بدلی، میں نے تو اصول میں بھی ایسا کیا ہے‘‘۔

سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اپنی بعض تحریروں پر سیّد ابو الحسن علی ندویؒ کی تنقید کو خندہ پیشانی سے دیکھا اور اس کا ذرہ برابر بُرا نہ منایا، جب کہ ان کے رفقا کسی ایسی تنقید سے ناراض ہوتے ہیں۔ انھیں اس بات کا خدشہ ہوتا ہے کہ تحریک کے مخالفین ایسی کسی بھی تنقید کے نام پر تحریک اور اس کے زعما کے خلاف ناشائستہ مہم شروع کر دیں گے، قابل اعتراض نکات جمع کر کے انھیں اپنے نقطۂ نظر سے پرکھیں گے، اور چھوٹی بات کو بڑی بنا کر پیش کریں گے۔ پھر تحریک اور شخصیات سے ایسی باتیں منسوب کریں گے جن کا ان سے قطعاً کوئی تعلق نہ ہوگا۔

خود میرے ساتھ ایسا ہوچکا ہے۔ میں نے اپنی کتاب الحل الاسلامی میں تحریک اسلامی کی بعض داخلی مشکلات وموانع کا جائزہ لیا تھا۔ کچھ لوگوں نے اس میں سے کچھ لیا، کچھ کاٹا، کچھ بڑھایا اور کچھ گھٹایا۔اس طرح کی تحریف وخرافات سے قطع نظر خالص علمی تنقید جو اخلاص سے کی جائے، اسے نہیں روکنا چاہیے۔

اسلامی جماعتوں میں اختلاف اور قربت

معاصر اسلامی تحریک کو ایک دوسرے فتنے کا بھی سامنا ہے کہ تمام جماعتیں اور صفیں انتشار واختلاف اور تقسیم وشکستگی کا شکار ہیں۔ ہر جماعت صرف اپنے آپ ہی کو ’جماعت المسلمین‘ تصور کرتی ہے اور وہ یہ نہیں مانتی کہ وہ مسلمانوں میں سے ایک جماعت ہے۔ ہر ایک کا دعویٰ ہے کہ وہی حق پر ہے، باقی سب گمراہی کے راستے پر گام زن ہیں۔ صرف اسی جماعت میں شامل ہونے والے جنت کے، اور آگ سے نجات کے مستحق ہوں گے۔ وہی واحد ’فرقۂ ناجیہ‘ ہے، باقی سب ہلاکت اور دوزخ میں پڑیں گے۔ یہ بات ان میں سے ہر جماعت اگر زبان قال سے نہیں کہتی تو زبان حال سے اسی کا اظہار کرتی ہے۔ اُمت جس انتشار اور عدم وحدت کا شکار تھی، اسی میں کئی قابلِ قدر تحریکیں ڈوب چکی ہیں۔ تحریک کا اصل ہدف غلبۂ اسلام تک نہ پہنچ پانے اور اس میں استقامت نہ دکھا سکنے میں اسی افتراق اور ٹکڑے ٹکڑے ہونے کا دخل ہے، جس کا احساس بعض مخلص اور غیرت مند افراد کو ہے اور وہ اسی چیز کے شاکی اور فکرمند رہتے ہیں۔ فکر وعمل کا سفر اسی رُخ پر اگر ڈھلوان کی جانب جاری ہے تو اتفاق اور قربت اور یک جہتی کے رستے منقطع ہو جائیں گے، جس کے نتیجے میں جڑنا اور ملنا مشکل ہو جائے گا۔یاد رہے، یہ عمل پہلے پہل ایک ہی چھت کے نیچے نہایت معمولی چیزوں میں اختلاف سے شروع ہوا کرتا ہے۔

میں اسلامی جماعتوں کی تعداد کے خلاف نہیں ہوں، اسی لیے میں نے موجودہ دراڑوں کو بھرنے کے لیے لفظ ’وحدت‘ کے بجائے ’قربت‘ استعمال کیا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ سب اپنے اپنے وجود کو تحلیل کر کے ایک قیادت کے تحت ایک جماعت کی شکل اختیار کرلیں کیونکہ یہ ایک پُرکیف اور خوش گوار خواب کے سوا کچھ نہیں۔ عملی دُنیا میں سب کے لیے اتنا بڑا ایثار اور عجز آسان نہیں ہے، اِلا یہ کہ انسان فرشتہ صفت ہستیوں میں ڈھل جائیں۔ پھر جماعتوں کی تعداد اگر محض تنوع اور تخصص کے لیے ہو تو یہ کوئی ایسی قبیح بات بھی نہیں ہے، مگر شرط یہ ہے کہ یہ تصادم وتضاد کی حدود سے محفوظ رہے۔

ہو سکتا ہے، ایک جماعت جاہلانہ خرافات اور شرکیہ افعال اور افکار سے اپنے آپ کو پاک رکھنے میں خصوصیت رکھتی ہے، اور اس کا مقصود یہ ہو کہ مسلمانوں کے عقیدے درست کر کے قرآن وسنت کے مطابق بنایا جائے۔ lکوئی جماعت عبادات کو بدعات اور دیگر آمیزشوں سے پاک رکھنے کے لیے کوشاں ہو اور چاہتی ہو کہ لوگ دین کی تعلیمات کو سمجھ لیں۔ lممکن ہے کوئی جماعت مسلم خاندان کو درپیش بڑے گمبھیر مسائل کا حل تلاش کرنا چاہتی ہو۔ اس کی دعوت ہو کہ عورتیں شرعی پردے کو اپنائیں اور بن ٹھن کر نمائشِ زینت نہ کرتی پھریں۔ lاسی طرح بعض جماعتوں کے پیش نظر  سیاسی انقلاب کا نصب العین ہو سکتا ہے اور وہ انتخاب کے میدان میں اُتر کر لادینی گروہوں کی سیاسی پیش قدمی کو روکنے کا لائحہ عمل رکھتی ہوں۔ lپانچویں قسم ان جماعتوں کی بھی ہو سکتی ہے جو تزکیہ وتربیت اور اجتماعی عمل کو اپنا ہدف سمجھتی ہیں اور اپنی جملہ کاوشیں اور وقت اسی مقصد کے لیے صرف کرتی ہیں۔ lپھر یہ بھی ممکن ہے کہ بعض جماعتیں عام لوگوں میں اپنا کام کرتی ہوں۔ lاس کے مقابلے میں کچھ دوسری جماعتیں صرف تعلیم یافتہ اور سلجھے ہوئے لوگوں کو اپنا مخاطب بناتی ہوں۔ lبعض کی دعوت جذبات پر مضراب کا کام کرتی ہے اور بعض ایمانی کیفیات کو متاثر کرتی ہیں۔ lکچھ کا پیغام عقل وفکر کو اپیل کرتا ہے، خاص طور پر ایسے لبرل اور آزاد خیال ذہنوں کو اپیل کرتا ہے، جو مغرب زدگی کے باعث عقل ہی کو زندگی کے تمام اُمور کا معیار سمجھے بیٹھے ہیں۔

دیکھا جائے تو جماعتوں میں اسی نوعیت کے فرق ہیں۔ اس فرق کی بنا پر ہرجماعت اسی میدان میں اپنی خدمات انجام دے رہی ہے، جس میدان کی وہ نمایندہ ہے اور جسے وہ کسی دوسرے میدان کے مقابلے میں زیادہ اہم سمجھتی ہے۔

یہ چیز اچھی بھی ہے اور مفید بھی بشرطیکہ سب ایک دوسرے کے بارے میں حُسن ظن کا مظاہرہ کریں اور اختلاف کے دائروں میں ایک دوسرے کی برداشت سے باہر نہ ہو جائیں۔ ’معروف‘ کے معاملے میں ایک دوسرے سے تعاون کریں اور سمجھائیں اور جب کبھی شعائر دین کی حفاظت جیسے بڑے مسائل درپیش ہوں تو سب ایک ہی صف میں کھڑے ہو جائیں اور قدم سے قدم ملا کر منزل مقصود تک پہنچیں۔ یہودیوں، عیسائیوں، اشتراکیوں، ملحدوں اور نسل پرست برہمنوں کے خلاف ایک محاذ بنا کردلیل، دعوت اور تنظیم سے مقابلہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد یاد رکھیں:

اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِہٖ صَفًّا كَاَنَّہُمْ بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ۝۴ (الصف ۶۱:۴) اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اُس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہوکر لڑتے ہیں، گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔

آج اسلامی تحریک کی قیادت کا فرض ہے کہ اسلام کے لیے سرگرم اسلامی جماعتوں کے مابین قربت واتفاق کی ایسی فضا پیدا کرے جس میں سلجھے ہوئے اور تعلیم یافتہ نوجوان ایک تازہ جوش وولولہ کے ساتھ منزل کی جانب رواں دواں ہوں۔ عالم عرب میں خصوصیت سے جن جماعتوں کا ذکر مقصود ہے، وہ یہ ہیں: lاخوان المسلمون lسلفی جماعت lجماعت الجہاد lحزب تحریر l تبلیغی جماعت ___ اور عالم عرب سے باہر پاکستان، ہند اور بنگلہ دیش میں الگ الگ دساتیر اور نظم کے تحت جماعت اسلامی، نوری جماعت ترکی، جماعت شباب مسلم اور حزب اسلامی ملائشیا وغیرہ۔

ان اسلامی جماعتوں کو چاہیے کہ سب کے مفکرین اور قائدین کو ایک دوسرے کے اجتماعات اور دروس کے حلقوں میں بلائیں، تعاون کے مواقع تلاش کرنے اور اختلافات کی دراڑوں کو بھرنے کی کوشش کریں، تاکہ جزئیات میں اختلاف کی آگ ٹھنڈی ہو۔ دوسروں کے بارے میں،  اگر وہ رائے یا عمل میں مکمل اتفاق نہ بھی رکھتے ہوں، تو بھی حُسن ظن کو فروغ دیا جائے۔ کوئی ایسا  لائحہ عمل تیار ہونا چاہیے جس پر سب کا جمع ہونا ممکن ہو، تاکہ اسلام کے دشمنوں کے خلاف مقابلے میں سب ایک صف میں کھڑے ہو سکیں، خواہ دشمن کی تعداد کتنی ہی زیادہ ہو، تیاری کتنے ہی پہلوؤں سے ہو اور مکر کا جال کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو۔

ان جماعتوں میں فرق کا بڑھا چڑھا ہوا ہونا اور اختلافات کے شگاف کا وسیع ہونا ایک عذر ہے۔ آخر کام تو سب جماعتیں اسلام ہی کا کر رہی ہیں، پھر کیوں نہ قطع تعلق کی روش ختم ہو اور کشیدگی ورنجش کا ازالہ ہو؟

میرا خیال ہے کہ امام حسن البنا رحمہ اللہ کے وضع کردہ ’دس اصول‘ مذکورہ جماعتوں میں فکری وعملی اشتراک کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ یہ اصول امام شہیدؒ نے مصر کی دینی جماعتوں کو اتحاد کی کم از کم بنیاد کے طور پر پیش کیے تھے، تاکہ اسلام کے لیے کام کرنے والے جملہ عناصر میں فہم وفکر کی ’قربت‘ پیدا کی جا سکے اور ان میں پائے جانے والے اختلافات اور الزام تراشی کو ختم کیا جاسکے۔ نیتوں میں اخلاص ہو تو یہ ’دس اصول‘ آج بھی روشنی کا مینار بن سکتے ہیں۔ ان میں ایک اہم اصول یہ بھی ہے کہ ’’جس چیز پر ہمارا اتفاق ہو جائے گا، ہم ایک دوسرے سے تعاون کریں گے۔ اگر کسی چیز میں اختلاف باقی رہے گا تو (الزام تراشی اور اتہام بازی کے بجائے) ایک دوسرے سے معذرت کر لیں گے‘‘۔

میں نے حسن البناؒ سے بڑھ کر اسلام کے کاز کے لیے کام کرنے والی جماعتوں کی دل داری اور احترامِ جذبات کی خواہش کسی میں نہیں پائی۔ وہ اتفاق اور رفاقت پر زور دیتے تھے، اور دلوں میں ’قربت‘ پیدا کرنے کے لیے نرم اور میٹھا اسلوب اپناتے تھے۔

اخوان المسلمون کے چھٹے اجتماع کے موقعے پر اپنے پیغام میں انھوں نے یہ کہا تھا:

جو مختلف گروہ اسلام کے لیے کام کر رہے ہیں، ان کے مابین نزاعات کے سلسلے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ محبت، اخوت، تعاون اور دوستی کے جذبات کام میں لائے جائیں، نقطۂ نظر میں قربت اور اتفاق کے مواقع تلاش کیے جائیں۔ فقہی اور مسلکی اختلاف، کسی خلیج اور نفرت کا باعث نہ بنے۔ دین کو پیش کیا جائے یا دین کا کام کیا جائے تو انتہائی نرم لہجے میں تاکہ بات دلوں میں اتر جائے اور عقل کو اپیل کرتی جائے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا جب نام، القاب اور تنظیموں کی ہیئت کے فرق ختم ہو جائیں گے۔ دین اسلام کے ماننے والے ایک ہی صف میں کھڑے ہوں گے۔ مومنانہ اخوت قائم ہوگی اور دین کے لیے کام کرنے والے تمام لوگ اسی جذبے سے سرشار ہو کر اللہ کی راہ میں جہاد کر رہے ہوں گے۔

تحریک اسلامی کے کارکنوں اور قائدین کے لیے یہ ہرگز مناسب بات نہیں ہے کہ وہ ان شخصیات کی دینی خدمات یا ان کا وزن کم کریں، جو دعوتِ دین کے میدان میں سرگرم ہیں۔ یہ شخصیات اگرچہ انفرادی طور پر بھی کام کر رہی ہوں، لیکن پھر بھی ان کا وسیع حلقۂ اثر وتلامذہ ہے، ان کے مدارس اور مرید ہیں۔ بلاشبہہ ان میں سے بعض راست باز اور مخلص تو ایسے ہیں جو رائے عامہ میں ایک زبردست حرکت پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔یہ سب اُمت کا اثاثہ ہیں۔ ان کی قوت، صلاحیت اور دائرۂ اثر کو دین ہی کی تقویت کے لیے بروئے کار آنا اور لانا چاہیے۔

ہماری منظم جماعتی، تنظیمی اور ایک لگے بندھے پروگرام کے مطابق جدوجہد کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ان لوگوں کے اعتبار کو عوام میں ساقط کر دیں جو جماعت کی حدود کے اندر آکر کام نہیں کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے پاس اس کا معقول جواز اور بعض مادی ومعنوی رکاوٹیں ہوں، جو انھیں منظم اور جماعتی اسلوب کار کا حصہ بننے سے روکے ہوئے ہوں۔ اگر وہ فکری، قلبی اور عملی طور پر جماعتی کام سے تعاون بھی کرتے ہوں تو پھر ان کے باضابطہ اور باقاعدہ طور پر رکن جماعت نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسی طرح بعض بڑی صاف ستھری، دعوت دین میں مخلص شخصیات ایسی بھی ہوتی ہیں جو سرکاری محکموں سے وابستہ ہوتی ہیں۔ یہ خواہ کسی درس گاہ میں کام کر رہی ہوں یا وزارت وغیرہ میں ملازم ہوں۔ محض سرکاری ملازم ہونے کے ’جرم‘ میں ان سے گریز اور لاتعلقی برتنا بھی کسی طور پر مناسب نہیں ہے۔ بعض اوقات سرکاری مشینری اور اداروں میں رہ کر یہ افراد بھی بڑے بڑے علمی اور عملی کام کرجانے کے قابل ہوتے ہیں۔

جذبات سے مغلوبیت

تحریک اسلامی جس نوعیت کے ضُعف کا شکار ہو رہی ہے، اس کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ عقلی اور علمی پہلو پر جذبات کی دھندچھا رہی ہے۔ تحریک کی راہوں میں بلاشبہ جذبات کا ایک کردار ضرور ہے، اس حد تک جذبات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ جذبات اور قلبی کیفیات کی لطیف لہروں کو یکسر مسدود کر دینا مقصود نہیں ہے اور نہ یہ منشاہے کہ عقل کو اتنا غلبہ حاصل ہو جائے کہ تحریک اسلامی محض بے رحم عقلیت کے تابع ہو کر رہ جائے۔

یہ چیز نہ صرف تحریک کے مزاج کے خلاف ہے بلکہ اسلام کے مزاج سے بھی اسے کوئی نسبت نہیں ہے۔ اسلام عقل کا احترام سکھاتا ہے اور فکر ونظر کو کام میں لانے کی دعوت دیتا ہے، لیکن یہ کوئی مجرد جامد عقلی ومنطقی فلسفہ نہیں ہے، جس میں انسانی جذبات کا سرے سے کوئی گزر ہی نہ ہوتا ہو۔ اس کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے جذبات اور دلی واردات و احساسات کے عمل دخل سے انکار ممکن نہیں ہے۔ ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں یہ جذبات اپنے مقام پر بڑی قدر وقیمت کے حامل ہیں۔  اللہ کے لیے محبت، اللہ کے لیے نفرت، خدا کی نعمتوں اور فراغت کو پا کر فرحت وطمانیت، نیکی پر مسرت کی کلیوں کاکھلنا، گناہ کے ارتکاب پر غم اور دُکھ کی کیفیت پیدا ہونا، اللہ کا خوف دلوں میں بیٹھنا اور اس سے امید بھرا ایک تعلق قائم کرنا، سب ایسے نفسیاتی و جذباتی احوال ہیں، جن کی اہمیت مسلّم ہے۔ اہل تصوف نے تو ان جذبات وکیفیات پر اپنی کتابوں میں پورے پورے باب باندھے ہیں۔ اس کی واضح مثالیں امام عبداللہ الانصاری الھروی [م: ۱۰۸۸ء] کی منازل السائرین اور علّامہ ابن قیم [م:۱۳۵۰ء]کے قلم سے اس کی شرح مدارج السالکین میں دیکھی جاسکتی ہیں۔  اسی طرح کی اور بھی کئی کتب ہیں۔

اس حد تک جذبات سے نہ تو ناپسندیدگی ہے اور نہ ان کے وجود کے حوالے سے کوئی اختلاف۔ اسلام انسانی عقل اور قلب کو بیک وقت مخاطب کرتا ہے۔ اسی بنا پر اسلام نے ان لوگوں کو لائق مذمت ٹھیرایا ہے، جو عقل وفہم کو استعمال نہیں کرتے۔ ساتھ ہی ان لوگوں کی مذمت بھی آئی ہے، جن کے دل اللہ کے ذکر اور پیغام سے نرم نہیں پڑتے۔ چنانچہ عقل وجذبات کو بیک وقت کام میں لانا ضروری ہے۔ متفق علیہ حدیث ہمیں یہی حقیقت سمجھاتی ہے: ’’جس شخص میں تین چیزیں پائی جائیں، اس نے حقیقت میں ایمان کی حلاوت کا مزا چکھ لیا: یہ کہ اللہ اور رسولؐ سے بڑھ کر اس کے لیے کوئی محبوب نہ ہو۔ اس کی محبت اور نفرت خالص اللہ کے لیے ہو۔ اسلام سے دوبارہ کفر کی طرف پلٹ کر جانا اس کے لیے ایسے ہی ناگوار ہو جیسے اسے اپنا آگ میں جلایا جانا ناگوار ہے‘‘۔

تحریک اسلامی کے مزاج میں ایمانی کیفیات، شعور ووجدان کا جہاں پاس و لحاظ موجود ہے، وہیں پر جذبات کی لپک کے لیے گنجائش بھی ہے۔ تحریک کے لیے ضروری ہے کہ عقل کی روشنی میں جہد وعمل کا اہتمام کرے اور محبت، اخوت اور ایثار جیسے جذبوں کے سوتوں کو بھی خشک نہ ہونے دے۔

تحریک اسلامی، اسلام کے غلبے کے لیے کوشاں ہے۔ اس میں فہم وفکر کی ہم آہنگی بھی ہونی چاہیے، تنظیمی وحدت بھی قائم رہنی چاہیے اور ساتھ ساتھ جذباتی رشتے بھی مستحکم رہنے چاہییں۔ قلوب کی تالیف ہوتی رہے۔ دل، اللہ کی محبت کی رسی سے باہم جڑے رہیں۔ وہ کیفیت پیدا ہو، جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بطور احسان بیان فرمایا ہے:

ہُوَالَّذِيْٓ اَيَّدَكَ بِنَصْرِہٖ وَبِالْمُؤْمِنِيْنَ۝۶۲ۙ وَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِہِمْ۝۰ۭ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا مَّآ اَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوْبِہِمْ وَلٰكِنَّ اللہَ اَلَّفَ بَيْنَہُمْ۝۰ۭ اِنَّہٗ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۝۶۳(انفال۸: ۶۲-۶۳) وہی تو ہے جس نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعے سے تمھاری تائید کی اور مومنوں کے دل ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیے۔ تم روئے زمین کی ساری دولت بھی خرچ کر ڈالتے تو ان لوگوں کے دل نہ جوڑ سکتے تھے مگر وہ اللہ ہے جس نے ان لوگوں کے دل جوڑے، یقیناًوہ بڑا زبردست اور دانا ہے۔

امام حسن البناؒ ہر منگل کو اپنے ہفتہ وار خطبوں اور تقریروں میں اس امر کی شدید خواہش اور کوشش کرتے تھے کہ دلوں کو ایمان ومحبت کے ذریعے سے ہمیشہ کی تازگی اور زندگی بخشی جائے۔ اسی بنا پر انھوں نے ارکان بیعت کے لیے ’اخوت‘ کو تعلق کی علامت بنایا اور جماعت کا نام ’الاخوان المسلمون‘ رکھا۔ امام شہید اپنے پر اثر ارشادات میں بتاتے تھے: ’’ہماری دعوت کی تین بنیادیں ہیں: عمیق ایمان، دقیق فہم، وثیق حُب۔

ان ساری گزارشات کی غرض یہ بتانا تھا کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تحریک اسلامی کے اندر محبت ، خلوص اور جذبات کا یہ مقام اور اہمیت ہے۔ اب یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’’جب ہم کہتے ہیں کہ تحریک کے اندر جذبات کی کارفرمائی بڑھ گئی ہے تو درحقیقت ہماری اس سے مراد کیا ہے؟‘‘ اس سے ہماری مراد یہ ہے کہ تحریک اسلامی میں جملہ حالات وتعلقات، فکر وعمل، افعال واقوال، آراء وموقف، شخصیات اور اجتماعی ہیئت میں انفعالیت اور جذبات سے مغلوبیت کا حصہ عقل کے استعمال سے زیادہ ہے۔ غلبۂ جذبات کے رجحان کے سلسلے میں متعدد دلائل ومظاہر موجود ہیں اور ان کے اثر سے منفی نتائج کی بھی مثالیں سامنے آتی رہتی ہیں۔(جاری)

چند برس پہلے کی بات ہے، سات آٹھ افراد کے ہمراہ مجھے ایک دعوت پر سرکاری وفد کے ساتھ ہندستان جانے کا اتفاق ہوا۔ جب ہم دلی ایئرپورٹ پراُترے تو وہاں بہت زیادہ ہجوم تھا۔ تاہم، پاکستانیوں کے لیے ایک ہال مخصوص تھا، لیکن وہاں پہنچنے کے بعد ہمیں سمجھ نہیں آئی کہ اب آگے کہاں جانا ہے؟ ایک خالی کائونٹر نظر آیا ، تو مَیں وہاں جاکر کھڑا ہوگیا۔ سامنے ایک صاحب ماتھے پر تلک لگائے بیٹھے تھے۔ تلک اُن کی مذہبی پہچان کرا رہا تھا۔ وہ چھوٹتے ہی بولے: ’’یہاں کہاں کھڑے ہو؟‘‘ میں نے کہا کہ ’’میں سمجھا کہ ہمیں یہاں کھڑے ہونا ہے‘‘۔ تو موصوف نے عجیب زہریلے لہجے میں کہا :’’آپ کے سمجھنے سے کیا ہوتا ہے؟‘‘ یہ بات سن کر مجھے غصہ سا آگیا اور پلٹ کر اُس سے کہا: ’’بھائی، آٹھ سو برس تک تو ہمارے سمجھنے سے ہی سب کچھ ہوتاتھا۔ اب کوئی سو ڈیڑھ سو برس ہوئے ہیں کہ آپ کے سمجھنے سے بھی کچھ کچھ ہونے لگا ہے‘‘۔ اس پر وہ صاحب تلملا کر رہ گئے اور جواب نہ بن پڑا تو بلندآواز میں کہنے لگے: ’’ہاں، دیکھ لیں گے‘‘۔ اور اُن کے کہنے کا انداز بھی بازاری سا تھا۔ میں نے سوچ لیا تھا کہ زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ واپس بھیج دیں گے تو کیا؟ مجھے بھی وہاں جانے کا کوئی شوق نہ تھا۔ بالکل بے فکر ہوکر میں یہ سب تماشا دیکھتا رہا۔

اتنے میں وہاں پر ایئرپورٹ مینیجر آگیا، جو ایک سکھ تھا۔ اس نے شورشرابا کرنے والے اس مہاشے کو ڈانٹ کر کائونٹر سے ہٹا دیا اور بڑے احترام سے مجھے کہا کہ ’’آپ اِدھر آجایئے۔ آپ کو کچھ فارم بھرنے ہیں، وہ ذرا پُر کر لیجیے‘‘۔ اس فارم میں کچھ معلومات تھیں کہ آپ کون ہیں؟ آپ کو کس نے بلایا ہے اور کہاں جانا ہے ؟ وغیرہ۔ ہم لوگ فارم پکڑے پڑھ رہے تھے کہ اتنے میں ایک نوجوان لڑکا ہمارے پاس آکر پوچھنے لگا کہ’’ آپ کو کیا پریشانی ہے؟‘‘ ہم نے کہا کہ ’’سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس فارم کو کیسے پُر کریں؟‘‘ اس نے کہا کہ ’’کوئی بات نہیں۔ لایئے میں پُر کردیتا ہوں‘‘۔ وہ ہم سات آٹھ افراد کو ایک کونے میں لے گیا اور بڑی احتیاط اور نرمی سے پوچھ پوچھ کر، ایک ایک کا فارم پُر کردیا۔ ظاہر ہے کہ اس میں اُس کا کچھ وقت بھی لگا۔ میں نے اس کی خدمت میں کچھ پیسے نذر کرنا چاہے۔ اس نے ایک نظر پیسے دیکھے اور پھر میری طرف دیکھا تو اس کے چہرے سے یوں عیاں ہوا کہ جیسے اسے دھچکا لگا ہو کہ اس کے اخلاص کی قدر نہیں کی گئی۔ میں گھبرا گیا اور اسے کہا کہ آپ کی بڑی مہربانی اور پھر وہ چلا گیا۔

میرے دل میں ایک سوال پیدا ہوا کہ ’’کیا یہ کوئی مسلمان تھا؟‘‘ میں نے اس کے پلٹتے ہی وہاں کھڑے سامان اُٹھانے والے سے پوچھا کہ ’’ان صاحب کا نام کیا تھا؟‘‘ اُس نے جو نام بتایا وہ واضح طور پر ہندووانہ نام تھا۔ یہ سنتے ہی میرے ذہن کے اندر کچھ نئے تناظرات پیدا ہونے لگے اور آنِ واحد میں کچھ پرانے تناظر ٹوٹ گئے۔ وہ تناظر یہ تھاکہ ہم انسان کی قدر نہیں کرتے۔ اللہ نے اس کو احترام اور فضیلت کی سند دی ہے۔ سب سے پہلے وہ صرف بنی آدم ہے، اور پھر کوئی دوسرا حوالہ!

احترامِ آدمیت کی بنیاد

ہر انسان،اللہ کی تخلیق کا شاہکار ہے۔ ہم انسان کو اس نظر سے نہیں دیکھتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جو بھی غیرمسلم ہے وہ گویا ہمارے ساتھ حالت ِ جنگ میں ہے۔ ہمارا ذہن اس طرح کا بن گیا ہے، حالانکہ ہماری فقہ میں ہے کہ محارب سے جنگ کرو، لیکن غیرمحاربین کو نقصان پہنچانے سے منع کیا گیا ہے۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اس کے لیے واضح طور پر ہدایات دی تھیں۔ ہمارے ہاں چیزوں کو دیکھنے کا انسانی حوالہ الا ماشاءاللہ ختم ہوچکا ہے۔ اسی وجہ سے ہمارا ایک داعی جو غیرمسلموں میں تبلیغ کے لیے کھڑا ہوتا ہے، اس میں بنیادی خیرخواہی کی کمی ہوتی ہے۔ حالانکہ آپ کی محبت اس تک پہنچے گی تو جبھی وہ آپ کی دلیل تک پہنچے گا۔ اگر وہ بنیادی انسانی قدر، یعنی خیرخواہی سے کٹ کر محض دلیل ہی پر آجائے تو آپ کیسے اس کو قائل(convince) کریں گے؟ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کے ذہن میں منطق اور ابلاغ کی یلغار غالب آچکی ہے، اور یہ جدید ذہن سمجھتا ہے کہ اب لوگ صحیح یا غلط کی جس عالم گیر منطق پر چیزوں کو قبول یا رَد کرتے ہیں اور ہم بھی اسی منطق پر استوار دماغ کے مالک بن گئے ہیں۔ یہ دین کی تبلیغ اور اسلام کی دعوت پیش کرنے کا کوئی مناسب طریقہ نہیں ہے۔

اسوۂ صحابہ کرامؓ

صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے مکالمہ یا مناظرہ کرکے دین نہیں پہنچایا بلکہ وہ خود مجسم اور متحرک، حق کی کنونسنگ دلیل بن گئے تھے۔ انھوں نے اپنے مفتوحین کو یہ تاثر دینے کی کبھی کوشش نہیں کی کہ ہم نے تمھیں شکست دی ہے اور تم پر فتح پالی ہے، اس لیے تم غلام اور ہم آقا ہیں۔ نہیں، انھوں نے اس سے بڑھ کر جو اگلا قدم اُٹھایا وہ یہ تھا کہ ’’ہم تمھارے خیرخواہ ہیں اور تمھارے ساتھ برابری کی سطح پر رہنا چاہتے ہیں اور ہم تمھیں اپنے سے کم تر نہیں سمجھتے، یعنی تم ایک فرد اور ہم ایک فرد۔ تم اسلام نہیں لائے اور ہم مسلمان ہیں۔ اللہ کی طرف سے جو احترامِ آدمیت تفویض کیا گیا ہے، ہم اس کی بنیاد پر تمھیں مساوات کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ مساوات، مواخات میں بدل جائے اور تمھارا سماجی مرتبہ ہم سے بھی بڑھ جائے‘‘۔ بجا طور پر اس جذبے پہ اعتبار دلوا دینے کے نتیجے میں اسلام پھیلا ہے۔ اگر ہم اپنے آپ کو بالاتر سمجھیں اور دوسروں کو حقیر سمجھ کر انھیں تبلیغ کریں تو یہ مؤثر نہ ہوگی۔ لوگوں میں حق پہنچانے کا سارا کام جذبۂ خیر اور حکمت سے ہوتا ہے نہ کہ احساسِ برتری کے تحت۔

فرض کیجیے کہ اگر یہودی طاقت پکڑلیں اور ان کا ایک فرقہ جو تبلیغ کو مانتا ہے، حالانکہ کلاسیکل یہودیت میں تبلیغ کا تصور موجود نہیں ہے، وہ فرقہ ہمیں کہے کہ تم ایمان لے آئو، ورنہ ہم تمھیں بھنگی بنادیں گے تو کیا ہم مانیں گے؟ انھیں ایک نسلی تیقن ہے کہ ہم نبیوں کی اولاد ہیں،اور مسلمانوں نے بھی اور قرآنِ کریم نے اُن کے اس مریضانہ نسلی تفاخر کی تصدیق کی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہم دھونس پر مبنی ان کی اس بات کو نہیں مانیں گے۔

بلاامتیازِ مذہب احترامِ آدمیت

اس پس منظر میں لوگوں کو اس نظر سے دیکھنا چاہیے کہ انسان ایسی مخلوق ہے کہ جس کے وجود میں اللہ تعالیٰ نے اپنی روح پھونکی ہے۔ مطلب یہ کہ بنی آدم کی صورت میں اللہ نے ایک مخلوق بنائی اور اس میں کوئی ایسی چیز پھونک دی جو اپنی کسی اور مخلوق میں نہیں پھونکی۔ لہٰذا ہر آدمی جو روح اللہ کا مظہر ہے، اس کا احترا م کرنا چاہیے۔

غیرمسلموں کے عقائد یقینا غلط ہیں۔ جو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر نہیں ہے، وہ یقینا خسارے اور گھاٹے کے راستے پر ہے،اور اس بات میںہمیں کوئی شبہہ نہیں ہے۔ پھر  یہ دین ہی واحد دینِ الٰہی ہے اور قیامت تک یہی شرطِ نجات ہے۔ اس کے علاوہ جو بھی بخشے جائیں گے وہ مشیت ِ حق کی بنا پر بخشیں جائیں گے، کسی استحقاق کی بنیاد پر نہیں۔استحقاقِ مغفرت یا استحقاقِ جنّت وغیرہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے سے نسبت رکھتا ہے اور یہی حقیقت ہے۔ ہم اسی عقیدے کے ماننے والے ہیں۔ ہرمسلمان اس پر متفق ہے۔

 لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہرمسلمان باقی عالمِ انسانیت سے تعلق کے مسنون ادب اور مخصوص تقاضے پورے نہیں کررہا۔ مسنون ادب یہ ہے کہ اسوئہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق اگر غیرمسلموں نے کوئی خدمت انجام دی ہے، یا اچھا کام کیا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تحسین فرمائی ہے۔ حلف الفضول کے واقعے کی آپؐ نے تحسین فرمائی ہے اور فرمایا: اب بھی مجھے کوئی ایسا موقع ملے تو ایسے معاہدے کے لیے تیار ہوں۔ اس طرح کے بہت سے واقعات ہیں کہ جن میں اچھائی کرنے والا مرتے دم تک مسلمان نہیں ہوا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی اس کا تذکرہ فرماتے تھے تو بھلائی اور ممنونیت سے ذکر فرماتے تھے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک کی بھلائی کو یاد رکھا اور اس کی بھلائی کو اپنے ساتھ اختلاف پر ترجیح دی۔ حاتم طائی کی بیٹی آئی تو اس کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر اپنی چادر بچھائی۔اس وقت جب آپؐ اس کی تعظیم کر رہے تھے تو وہ مسلمان نہیں ہوئی تھی۔

انسان دوستی کا تقاضا

یہ بات کہتے ہوئے دُکھ محسوس کرتا ہوں کہ عمومی طور پر ہم لوگ، انسان دوست نہیں ہیں۔ اگر اس حقیقت کو زبردستی جھٹلائیں تو اور بات ہے۔ خاص طور پر پچھلی دو صدیوں میں ہم کوئی نمایاں کارنامہ انجام نہیں دے سکے۔ یہ کہ مسلمانوں نے سب انسانوں کی سہولت کے لیے کوئی چیز ایجاد کی ہو، یا زندگی میں آسانی پیدا کرنے والا کوئی طریقہ ایجاد کیا ہو۔ بدلتے ہوئے معاشی ڈھانچے میں کوئی معاشی نظریہ ایجاد کرکے واقعی دُنیا کے سامنے پیش کیا ہو، جو سب کے کام آئے۔ اس سے پہلے کی صدیوں میں بلاشبہہ مسلمانوں نے بہت سے کارنامے انجام دیئے ہیں جو انسانیت کی میراث ہیں، لیکن پچھلے دو سو برسوں کی تاریخ میں کوئی نمایاں کارنامہ نہیں نظر آتا۔ ہم مواقع سے فائدہ تو اُٹھاتے ہیں، مگر ساتھ ہی احسان فراموشی کرتے ہیں، اور خطرناک بات یہ ہے کہ اس احسان فراموشی کو دینی حمیت کا نام بھی دیتے ہیں۔ مثلاً یہ کہنا کہ ’’گنگارام [۱۸۵۱ء-۱۹۲۷ء] ایک مشرک اور بُت پرست ہی تو تھا، وغیرہ۔ یہ گویا ایک خاص اسلوب اور تحقیر میں اس کے سارے احسان پر پانی پھیر دینا ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ یہاں کے لوگوں پر گنگارام کا احسان ہے۔ اگر اس ہسپتال کا نام بدل کر بوعلی سینا [۹۸۰ء-۱۰۳۷ء]ہسپتال رکھ دیا جائے تو کیا یہ اسلام کا تقاضا ہوگا؟ ہرگز نہیںاور اگر پنجاب کا مسلمان سرگنگارام کی خدمات کا اعتراف نہیں کرتا، تو یہ عمل اِتباعِ سنت کے منافی ہے۔ اسی طرح اگر کراچی میں پارسیوں کی خدمات کو وہاں کے شہری تسلیم نہیں کرتے تو وہ متبعِ سنت نہیں بلکہ احسان فراموش ہیں۔ احسان فراموشی کی روش، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی مزاجی نسبت نہیں پیدا ہونے دیتی۔

ہندستان کے سفر کے دوران صرف اس ایک واقعہ نے ، بغیر بحث مباحثہ کے مجھے ایک بہت ہی بنیادی کمزوری اور ہلاکت سے نکال دیا۔ وہ ہندو لڑکا اور ایک دوسرا فرد مجھے روز احسان مندی کے ساتھ یاد آتے ہیں۔ محسن کا حق دوست سے زیادہ ہوتاہے۔ اس نے چونکہ احسان کیا ہے، لہٰذا اس کو دوستوں سے بلند درجہ دینا ضروری ہے۔ دوستوں میں بھی اصل خوبی یہی ہوتی ہے کہ وہ ہمارے محسن ہوتے ہیں۔ دوستی میں بھی اصل وجۂ فضیلت احسان ہی ہے۔

ایک ناقابلِ فراموش واقعہ

اس سفرِہند میں ہمیں دہلی سے حیدرآباد دکن بھی جانا تھا۔ جب ہم حیدرآباد پہنچے تو رات ہوگئی تھی۔ ہمیں جس ہوٹل میں ٹھیرایا گیا، وہ ایک مسلمان کی ملکیت تھا اور اس کا سارا عملہ بھی مسلمانوں پر مشتمل تھا۔ استقبالی کائونٹر پر کلمہ لکھا ہوا تھا۔ کائونٹر پر کھڑے لڑکے سے میں نے پوچھا کہ ’’بھئی، یہاں مسجد کہاں ہے؟‘‘ مجھے مسجد دیکھنے کا شوق ہوا اور یہ بھی کہ وہاں جماعت سے نماز پڑھوں، حالانکہ میں ایک مسافر تھا، کمرے میں بھی نماز پڑھ سکتا تھا اور باقی ساتھیوں کے ساتھ وہیں جماعت کے ساتھ بھی نماز پڑھ سکتا تھا۔ جس طرح سیاحوں کا ایک جذبہ ہوتا ہے کہ مسجد دیکھی جائے، یہی شوق میرے اندر پیدا ہوگیا۔ اس نوجوان نے کہا کہ میں بھی آپ کے ساتھ نماز کے لیے چلوں گا۔

سردیوں کا موسم تھا۔ جب نمازِ فجر سے کچھ پہلے اُٹھا تو رات کے وقت یہ پوچھنا بھول گیا کہ فجرکی نماز کا وقت کیا ہے؟ خیر، جب نماز کے لیے اُٹھا تو دیکھا کہ وہی لڑکا کائونٹر پر سر رکھ کر گہری نیند سو رہا تھا۔ یہ سوچ کر کہ اسے اب کیا اُٹھائوں؟ اکیلا خود ہی نکل پڑا۔ ابھی فجر کا وقت نہیں ہوا تھا، تہجد کا وقت تھا۔ قریب ہی سڑک پر بس اسٹینڈ تھا، وہاں ایک صاحب داڑھی اور لمبے لمبے بالوں والے کھڑے نظر آئے۔ میں نے انھیں السلام علیکم کہا اور انھوں نے بھی وعلیکم السلام کہا۔ میرے لاشعور میں یہی تھا کہ یہ مسلمان ہی ہوگا۔ میں نے پوچھا کہ ’یہاں مسجد کہاں ہے؟‘ اس نے کہا کہ ’مسجد تھوڑی دُور ہے اور اگر میں راستہ بتائوں تو تم وہاں پہنچ نہیں سکو گے۔ کیا تم یہاں نئے ہو؟‘ میں نے کہا: ’جی ہاں‘۔ پھر وہ شخص مجھے لے کر گلیوں میں اِدھر اُدھر گھومتے ہوئے مسجد کی طرف لے چلا۔ اندازہ ہے ایک ڈیڑھ کلومیٹر ضرور فاصلہ طے کیا۔ وہاں پہنچ کر میں نے پوچھا: ’کیا آپ واپسی پر بھی ساتھ ہوں گے؟‘اس نے کہا: ’نہیں، البتہ میں واپسی کا راستہ بتا دیتا ہوں، وہ سیدھا ہے‘۔ جب ہم مسجد کے قریب پہنچے تو فجر کی اذان ہوئی۔ میں نے ان سے کہا: ’آپ کی بڑی مہربانی، آپ اپنا نام تو بتا دیجیے‘۔ اس نے اپنا نام رام داس بتایا۔ جیسے ہی میں نے یہ نام سنا تو مجھے یوں لگا جیسے ڈھیروں پانی پڑگیا ہو۔ میں نے سوچا کہ یہ تو بس کے انتظار میں کھڑا تھا اور یہاں آنے میں کم از کم ۴۰منٹ لگے اور کچھ وقت اسے واپسی میں بھی لگے گا، اس پر میں حیران رہ گیا۔ پھر اس شخص نے مجھ سے صرف یہ کہا کہ’آپ میرے لیے دُعا کرنا‘ اور یہ کہہ کر اور واپسی کا راستہ سمجھا کر وہ چلا گیا۔

اسوۂ رسولؐ کا ایک پہلو

جب کبھی میرے اندر ان دونوں افراد کی یاد اُٹھتی ہے، تو وہ یاد احسان مندی کے جذبے کے ساتھ ہی اُٹھتی ہے، حالانکہ میں ان کے ساتھ آشنا بھی نہیں تھا اور یہ تعلق محض انسانی تعلق کے جذبے کا نتیجہ تھا۔ بالکل یوں محسوس ہوتا ہےکہ مجھے رسولؐ اللہ کی اِتباع کا راستہ مزاجاً مل گیا ہو، وہ بھی بغیر کسی کوشش اور کسی مجاہدے کے۔ لہٰذا، اس پر مجھے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اس طرح اسوئہ رسولؐ اللہ کا ایک اسوہ مل گیا ہے اور اللہ نے اس سے ایک مناسبت پیدا کردی ہے۔

یہ چیزیں ہم کو احساس تو دلاتی ہیں کہ ہم نے اس دین سے نسبت تو پیدا کرلی ہے، لیکن اس دین کی راہ میں رکاوٹ بھی ہم خود ہی ہیں۔ ہمارے دین میں بظاہر جو بھی ضعف پیدا ہوتا دکھائی دے رہا ہے، وہ دین میں نہیں بلکہ وہ ہماری معاشرت میں، علم میں، مذہبیت میں ہے۔ ہم نے ان کو رسولؐ اللہ کے ’مزکی‘ پیدا ہونے کے پہلو سے اپنایا ہی نہیں، نبیؐ سے مزاجی مناسبت کو کوئی اہمیت نہیں دی اور آپؑ کی ان سنتوں سے جو رحمۃ للعالمینی سے اظہار پاتی ہیں، ان کو سیکھا سکھایا، اپنایا ہی نہیں۔

جذبۂ خیرخواہی کا تقاضا

اس لیے یہی درخواست کرتا ہوں کہ انسان کی قدر کرو کہ انسان کی ناقدری کرکے اللہ کی تعظیم نہیں کی جاسکتی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک عجیب طرح کا activism، اور جارحانہ مزاج، ایک عجیب طرح کی لاتعلقی یا غیرمسلموں کےساتھ ایک تحقیری رویہ ہمارے معاشرتی ڈھانچے میں گہری جڑپکڑ چکا ہے۔

اب دیکھیے، کیا کبھی رمضان کے دوران میں یہ خیال آیا کہ جو عیسائی ہمارے ہاں کام کرتے ہیں ان کی کچھ خبرگیری بھی ہو؟ ان کو یہ احساس دلایا جائے کہ رمضان بہت بابرکت ہوتا ہے۔ اپنے حُسنِ سلوک سے ان سے یہ تو کہلوا دیں کہ مسلمانوں کا رمضان، صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ سب انسانوں کے لیے بھی بابرکت ہوتا ہے۔ اگر زکوٰۃ انھیں نہیں دے سکتے، مگر انفاق کا حکم تو زیادہ بڑا ہے۔ انفاق میں تو کوئی قید نہیں ہے۔ نبیؐ غیرمسلموں کی مدد بھی فرماتے تھے اور  ان سے قرض بھی لیتے تھے۔ معاشرت میں مساوات کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ میں آپ سے قرض لوں کیونکہ قرض لینے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ میں نے آپ کو مساوی سمجھا ہے۔ اس طرح صحابۂ کرامؓ نے بھی غیرمسلموں سے قرض لیا اور ان کی مدد بھی کرتے تھے۔

رمضان کی برکت سے ہمارے اندر رقّت قلبی پیدا ہوجائے کہ ہمارا دوسرے سے تعلق خیرخواہی کی بنیاد پر استوار ہو۔گویا دوسرے کی خیرخواہی ایک جوہرِاخلاق ہے، وہ ہمارے اندر پیدا ہوجائے۔ اُس فرد کو باطل پر سمجھتے ہوئے اور اسے گمراہی پر مانتے ہوئے بھی یہ تعلق انسانیت اور ہمدردی کا عنصر رکھتا ہو۔ یہ خیرخواہی اس طرح کی نہیں ہے کہ ’’تم بھی ٹھیک ہو، اور ہم بھی ٹھیک ہیں‘‘۔ یہ کہنے کا ہمیں کوئی حق نہیں ہے۔ لیکن یہ کہنا لازم ہے کہ اگرتمھیں ضرورت ہے تو میں اپنی ضرورت چھوڑ کر تمھاری ضرورت پوری کردوں گا۔ یہ رویہ اگر مسلمانوں کا ہوتا تو آج دُنیا میں اکثریت مسلمانوں کی ہوتی۔

عیسائی مشنریوں کا جذبۂ خدمت اور ہمارا رویہ

عیسائی مشنریوں نے اپنا مذہب پھیلانے کے لیے جیسی قربانی دی ہے، ہم اُس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ ان کی خدمت خلق کی وجہ سے، ان کی شفقت کی وجہ سے اور اُسی سطح کی زندگی  اختیار کرنے کی وجہ سے، جس سطح پر بسنے والوں کو وہ اپنا دین منوانے آئے تھے، ساری ساری زندگی افریقہ کے غیرشہری لوگوں اور افریقہ و ایشیا کے مرطوب علاقوں میں گزار دی۔ایک جرمن نژاد خاتون ڈاکٹر روتھ فائو [۱۹۲۹ء-۲۰۱۷ء] جنھوں نے شادی بھی نہیں کی اور ۴۰سال سے وہ پاکستان میں جذام کا علاج کرتی رہی تھیں اور ۱۹۹۵ء میں جذام کو پاکستان سے ختم کرنا ان کا بڑا احسان ہے۔ جذامیوں کے لیے بنائے گئے ہسپتال کے ایک کمرے میں انھوں نے ۴۰ سال گزارے اور کہا کہ میں جرمنی واپس نہیں جائوں گی۔یہیں فوت اور یہیں دفن ہوئیں۔

مدر ٹریسا [۱۹۱۰ء-۱۹۹۷ء] کی سماجی خدمات دیکھیں تو ہند میں گاندھی [م:۱۹۴۸ء] کے اتنے سماجی اثرات نہیں، جتنے مدر ٹریسا کے ہیں۔ وہ ایک آشرم میں رہتی تھیں۔کبھی کوڑھیوں کو نہلا رہی ہوتیں، اور خدمت خلق کے عجیب عجیب کام کرتیں۔ ظاہر ہے کہ میں ان کے مذہب کو حق نہیںسمجھتا، لیکن اس دُنیا میں رہنے کے لیے جو خوبیاں درکار ہیں اور اس دُنیا میں جس نظامِ مراتب کے تحت لوگ کسی کو بڑا سمجھتے ہیں اور کسی کو چھوٹا، وہ ایک آفاقی اور اخلاقی نظام کے خدوخال پر قائم ہے۔ اس نظام کے تحت مدر ٹریسا جیسی مثالیں اپنی طرف سے فی زمانہ پیش کرنے میں خاصی دِقّت محسوس ہوتی ہے۔

یہ باتیں صرف اس وجہ سے ہیں کہ ہم اپنے دین کی بنیادی انسانی، آفاقی اور اخلاقی قدروں سے وفاداری کا ثبوت نہیں دے رہے۔ ہم رسولؐ اللہ کے متبع بننے کی کوشش نہیں کر رہے۔ ہم اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے دی گئی ایک حتمی، قطعی اور ابدی فضیلت کو اہمیت نہیں دیں گے تو پھر یہی کچھ ہوگا۔ ذرا سی کوئی بات کرو تو سوال اُٹھا دیتے ہیں کہ یہ جنّت میں جائے گا، اور یہ نہیں؟ جنّت کا اصول اور فیصلہ تو خالق حقیقی نے کرنا ہے، میرے فتوے نے نہیں کرنا۔ ہمیں اسلام اور شریعت کے قانونِ جنّت کے ساتھ خود جنّت جانے اور دوسروں کو جنّت میں لے جانے اور دُنیا کو جنّت بنانے کے لیے ذمہ داری ادا کرنی چاہیے کہ یہی چیز اسلام کے قانونِ دعوت کی بنیاد ہے۔

برطانیہ میں قائم ۲۱فلاحی اداروں کی نمایندہ تنظیم ’آکسفیم‘ (Oxfam) نے اپنی تازہ ترین رپورٹ Survival of the Richest(مال داروں کی بقا) کے عنوان سے شائع کی ہے۔ یہ رپورٹ دنیا میں تیزی سے بڑھتی معاشی ناہمواری کی جانب اشارہ کرتی ہے۔

آج کی دنیا دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے: ایک جانب مال دار ہیں اور دوسری جانب محتاج۔ اس وقت دنیا میں ٹیکس وصولی کا رائج نظام اور نیو لبرل معاشی ڈھانچا ایک چھوٹے سے اشرافیائی طبقے کے لیے سود مند ہے، جب کہ باقی اکثریتی آبادی کے لیے یہ نظام محض بھوک، مہنگائی، غربت اور نابرابری جیسے بحران جنم دیتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک اقلیتی مال دار طبقہ دنیا کی سیاسی اقتصادیات کو قبضے میں کر لیتا ہے اور اکثریتی آبادی کے لیے معاشرتی ترقی کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔

دنیا کے تمام ممالک میں اس وقت عوام کی اکثریت بیک وقت کئی بحرانوں سے لڑنے میں مصروف ہے، لیکن اس لڑائی میں فتح صرف ایک چھوٹے سے اقلیتی طبقے کی ہوتی ہے۔ ۲۰۲۰ء کے بعد سے کوویڈ-۱۹ کے اثرات بھی بڑے واضح ہیں۔ حیرت انگیز بلکہ وحشت ناک بات یہ ہے کہ اس وبا کے دوران دنیا کے ایک فی صد امیر ترین طبقے نےنئے جمع شدہ سرمائے کا دو تہائی اپنے قبضے میں کر لیا تھا۔ ارب پتی لوگ روزانہ ۷ء۲؍ ارب ڈالر اپنی جیبوں میں ڈال رہے تھے،جب کہ عوام کی اکثریت اسی دوران بڑھتی ہوئی مہنگائی، غربت، اور طوفان کی طرح مسلط ہورہی بے روزگاری سے نبردآزما تھی۔

ہم جس زمانے میں رہ رہے ہیں، یہ اکثریت کے لیے بحرانوں کا زمانہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شدید غربت کے خاتمے کے لیے کی جانے والی عالمی کوششیں دم توڑ چکی ہیں۔ عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) کا کہنا ہے کہ سال ۲۰۲۳ء کے دوران دنیا کی ایک تہائی معیشت بحران کا شکار رہے گی۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے UNDP کا کہنا ہے کہ دنیا کے ۱۰ میں سے ۹ ممالک کے اندر انسان کا معیار زندگی بہتری کے بجائے مزید گراوٹ کا شکار ہو چکا ہے۔

آکسفیم کے مطابق مہنگائی کی وجہ سے دنیا کے ایک ارب اور ۷۰کروڑ محنت کشوں کی اُجرت مزید کم ہو چکی ہے۔ ترقی پذیر ممالک اپنے قرضوں کی ادائیگیاں کرتے کرتے دیوالیہ ہونے والے ہیں،جب کہ غریب ترین ممالک اپنی بنیادی ضروریات یعنی تعلیم اور صحت وغیرہ کے مقابلے میں اپنے قرضوں کی ادائیگی کے لیے زیادہ وسائل صرف کر رہے ہیں۔ اخراجات کو کم کرنے کے لیے ان ممالک میں جو کوششیں کی جاتی ہیں، وہ غریب عوام کی زندگی مزید اجیرن کر نے کا باعث بنتی ہیں اور یوں امیر اور غریب کے درمیان فرق مزید بڑھ جاتا ہے۔

خصوصاً عالمی وبا کے بعد جب دنیا بھر کے اکثریتی عوام غربت کی چکی میں پس رہے تھے، تو ان کی مصیبتوں کا براہِ راست فائدہ سرمایہ دار وں کو ہو رہا تھا، جو اس دوران دونوں ہاتھوں سے اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف تھے۔ اس کی وجہ دنیا کا وہ معاشی نظام ہے، جو فقط ایک فی صدی مال دار طبقے کے مفاد میں ہے۔ حالیہ مہنگائی سے پیدا ہونے والا ضروریات زندگی کا بحران بھی اس اقلیتی مال دار طبقے کی دولت کے ذخائر میں روزانہ اضافے کا ذریعہ بنا۔ چنانچہ اس بحران کو ’اخراجاتِ زندگی کے بحران‘ کے بجائے ’منافع کا بحران‘ کہنا چاہیے جس کی ہرسطح پر قیمت غریب ادا کر رہے ہیں۔

یہ رپورٹ دعویٰ کرتی ہے کہ ہر ارب پتی سیٹھ ہمارے نظام اور پالیسیوں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ دولت کا حد درجہ ارتکاز نہ صرف معاشرے میں سیاسی بُعد (Polarization) کو جنم دیتا ہے بلکہ یہ معیشت کے لیے بھی خرابی کا باعث ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے حق میں ہمیشہ دہرائی جانے والی یہ دلیل بھی غلط ثابت ہو چکی ہے کہ ’’بالائی طبقات میں مرتکز ہونے والی دولت رفتہ رفتہ غریب طبقات تک بھی پہنچ جاتی ہے‘‘۔ واقعی یہ نظام امیر کی بھلائی کے لیے تشکیل دیا گیا ہے، جسے روزِ اوّل سے محصولات کی ادائیگی میں چھوٹ حاصل ہے۔ پھر ٹیکس کا نظام ایسا ہے کہ امارت بڑھنے کے ساتھ ساتھ ٹیکس اسی تناسب سے کم ہوتا جاتا ہے۔ اس نظام کا فائدہ سرمایہ دار کے سوا کسے ہو سکتا ہے؟

اکثر ممالک بالخصوص غریب یا اوسط آمدن رکھنے والی ریاستوں میں امارت اور وراثت پر ٹیکس کا کوئی تصور موجود نہیں، حالانکہ ان ممالک میں طبقاتی تقسیم سب سے نمایاں ہے۔ اس رپورٹ کا ماحصل یہ ہے کہ غربت، بھوک اور افلاس سے پاک ایک مساوی اور پائے دار معاشرے کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ امیروں کے طبقے پر ٹیکس عائد کیے جائیں اور گذشتہ چار عشروں سے جاری پالیسیوں کو اَز سرِ نو تشکیل دیا جائے۔ محصولات کا دائرہ بڑھنے سے ریاستوں کے پاس سرمایہ زیادہ اکٹھا ہوسکے گا، جو معاشی، سیاسی اور سماجی ناہمواریوں کو کم کرنے اور مساوات کے اصول پر قائم معاشرے کی تعمیر میں استعمال ہو سکے گا۔

پاکستان کو بھی رپورٹ میں مذکورہ بحران درپیش ہے۔

یواین ڈی پی (UNDP) کی ۲۰۲۱ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بھی اسی سمت اشارے کیے گئے تھے کہ پاکستان کا ایک چھوٹا سا اشرافیائی طبقہ کس قدر مراعات یافتہ ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق یہ طبقہ ریاست کی جانب سے سالانہ ۱۷ ارب اور۴۰کروڑ ڈالر کے مساوی مراعات حاصل کرتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ امیروں پر ٹیکس عائد کر کے اس رقم کو اکثریتی عوام کی فلاح پر خرچ کیا جائے کہ جن کا خون نچوڑ کر ٹیکس لیے جاتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں اُلٹی گنگا بہتی ہے۔ غربا کو ٹیکسوں تلے پیس کر حاصل ہونے والے وسائل سے اشرافیہ کو مراعات دی جاتی ہیں۔

پاکستان کے نظامِ محصولات میں بھی دولت کا ٹیکس کے ساتھ معکوس (regressive)رشتہ ہے، یعنی بڑھتی دولت کے ساتھ ٹیکس کی شرح کم ہوتی جاتی ہے، جس کا نقد فائدہ پاکستانی اشرافیہ ہی کو ہوتا ہے۔ جیسا کہ روزیٹا آرمٹیج (Rosita Armytage) نے اپنی کتاب Big Capital in an Unequal World: The Micropolitics of Wealth in Pakistan میں ثابت کیا ہے، پاکستانی معاشرے پر اشرافیہ قابض ہے۔ ہمارے سیاسی، سماجی اور معاشی نظام پر ایک اقلیتی مال دار طبقے کا ہمہ پہلو قبضہ ہے، جس کے ہوتے ہوئے اکثریتی عوام کی بھلائی کا تصور ناممکن ہے۔

پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا، اور اسلام ایک ترقی پسند مذہب ہے، اور یہ کہ انسانیت کو درپیش تمام مسائل کا حل اسلامی تعلیمات میں مضمر ہے۔ چنانچہ موجودہ زمانے میں اسلامی تعلیمات انسانی بھلائی کے لیے کیونکر معاون ہو سکتی ہیں؟ اس پر رہنمائی کرنے کی ذمہ داری اسلامی اسکالروں کی ہے۔

پھر اہم سوال یہ ہے کہ سیاسی، معاشرتی اور معاشی برابری، مساوات، سخاوت، انصاف، ہمدردی، آزادی، بھائی چارے، اور اخوت سے متعلق اسلامی تعلیمات موجودہ عہد میں کس طرح قابل عمل ہیں؟

اسلامی تعلیمات کو نئے سرے سے لکھنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ان تعلیمات کی نئی تشریح کر کے انھیں موجودہ حالات میں لاگو کرنا ضروری ہے۔ ان اقدار کو عملی طور پر معاشرتی ڈھانچے کا حصہ بنائے بغیر فقط ان کی زبانی تبلیغ سے گوہرمقصود حاصل نہ ہو گا۔

اس ضمن میں اسلامی تعلیمات کو بنیاد بنا کر ہمیں سیاست، معیشت اور قانونی ڈھانچہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے، لیکن اس سے قبل کچھ سوالوں کا جواب تلاش کرنا بھی ضروری ہے، تا کہ اس نظام کے حقیقی خدوخال تلاش کیے جا سکیں:کیا اسلامی تعلیمات میں ایک ایسے معاشرے کی گنجائش موجود ہے جو دو طبقوں (مفلس اور مال دار) میں بٹا ہوا ہو؟ یا اسلام ایک غیر طبقاتی سماج کی نمایندگی کرتا ہے؟ اسلام دولت اور وسائل کے ارتکاز کی اجازت دیتا ہے یا ان کی برابر تقسیم کا علَم بردار ہے؟ اسلام کی نظر میں معاشرے کی مجموعی ترقی زیادہ فوقیت رکھتی ہے یا انفرادی بھلائی؟ کیا اسلام غریب سے چھین کر امیر کو دینے کی بات کرتا ہے یا اسلامی تعلیمات اس کے برعکس ہیں؟*

ان سوالوں پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہمارا موجودہ سیاسی، سماجی اور معاشی نظام اسلامی تعلیمات کی صریح خلاف ورزی اور بدترین استحصالی بنیادوں پر قائم ہے، جس میں صرف ایک اقلیتی اشرافیہ کے مفادات کا محافظ ہے۔ چنانچہ اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ اس نظام کو بدل کر بھلائی کا رُخ اکثریت کی طرف موڑ دیا جائے۔

   _______________

*اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے دیکھیے: l سیّدابوالاعلیٰ مودودی ،معاشیاتِ اسلام [مرتبہ: خورشیداحمد] l سیّدقطب شہید، اسلام میں عدل اجتماعی [ترجمہ: نجات اللہ صدیقی] l امام ابویوسف، اسلام کا نظامِ محاصل [کتاب الخراج کا ترجمہ:نجات اللہ صدیقی] lباقرالصدر ہماری معاشیات l ڈاکٹر محمدعمرچھاپرا ، Islam and the Economic Challenge/ Morality and Justice in Islamic Economics and Finance / The Future of Economics: An Islamic Perspective/

ہمیں پہلے ہی سے اندازہ تھا کہ بھارت کی جانب سے ایک خاص لائن لی جا رہی ہے اور اس کا ایک بہت واضح ثبوت بھارتی حکومت کی جانب سے ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو کشمیرکا سٹیٹس تبدیل کرنا تھا۔ اس وقت حکومت پاکستان نے فیصلہ کیا کہ ہم نے بھارت کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کو ڈائون گریڈ کرنا ہے، ہائی کمشنر وہاں نہیں بھجوانا ہے اور تجارت نہیں کرنی ہے۔ حکومت اور وزارتِ خارجہ کی اس پالیسی کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ، انڈین کارندے اجیت دوول کے ساتھ بات چیت کرتی رہی۔ اس کے نتیجے میں ہی ۲۵ فروری ۲۰۲۱ء کو فوجی کمانڈروں کی سطح پر اچانک فائر بندی معاہدہ سامنے آیا ۔ میری نظر میں فائر بندی کا یہ معاہدہ اس وقت جن حالات میں کیا گیا، اس کے لیے وہ ہرگز مناسب وقت نہ تھا۔یہ تجویز ہم نے ۲۰۱۵ء میں پیش کی تھی اور اس تجویز کو پیش کرنے کے بعد اجیت دوول سے میری ملاقات بھی ہوئی تھی اور اُس وقت انھوں نے یہ تجویز رد کردی تھی۔

 ہمیں یہ سوچنا چاہیے تھا کہ ۲۰۱۵ء میں جس تجویز کو انھوں نے رَد کر دیا تھا ۲۰۲۱ء میں اس پر عمل درآمد کر رہے ہیں تو آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی ایک واضح وجہ یہ تھی کہ ۲۰۲۱ء میں بھارت، لداخ میں چین کے ساتھ بُری طرح اُلجھ چکا تھا اور مسلسل ہزیمت اُٹھا رہا تھا، اور سخت دبائو میں تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ کسی طرح پاکستان سے متصل دوسرے محاذ پر بھی کشیدہ صورتِ حال پیدا ہو۔ امرواقعہ ہے کہ ایک لحاظ سے ہماری جانب سے بھی چین کو غلط تاثر بھیجا گیا۔ یوں بھارت، ہمارے تعلقات میں غلط فہمی پیدا کرنے اور اپنے اُوپر سے دبائو کم کرنے میں کامیاب رہا۔ معلوم نہیں، اسٹیبلشمنٹ نے اس سے فائدہ ملک کو کیسے پہنچایا؟

اب جو باتیں ہو رہی ہیں کہ کشمیر کو ۲۰ سال کے لیے فریز کر دینا چاہیے وغیرہ۔ اس سے نہ صرف یہ کہ ہماری کشمیر ڈپلومیسی کمزور ہوئی بلکہ دنیا بھر میں ہماری کریڈ بیلٹی بھی متاثر ہوئی۔ اب جب ہم دنیا میں کشمیر پر بات کرتے ہیں تو ہماری بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا ۔

کہا جاتا ہے کہ یہ عمل نواز شریف کے دور میں شروع ہو چکا تھا، جب انھوں نے نئی دہلی میں حُریت کانفرنس کے لیڈروں سے ملاقات نہیں کی تھی۔ ان کے دور میں ہی ۱۰ جولائی ۲۰۱۵ء کو ’اوفا معاہدہ‘ ہوا تھا، جس میں کشمیر کا ذکر تک نہیں کیا گیا تھا۔ اس کے بعد بھی نواز صاحب کی یہ خواہش تھی کہ دوطرفہ تعلقات کو بڑھایا جائے، لیکن اُس وقت کی ہماری ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا خیال تھا کہ ہمیں یک طرفہ کوئی چیز نہیں کرنی چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں بھارت کے ساتھ تعلقات میں ’برف پگھلانے‘ والی بے معنی باتوں پر وقت ضائع کرنے کے بجائے ٹھوس بنیادوں پر مسئلۂ کشمیر ہی کو عالمی سطح پر طے شدہ اُمور کے مطابق حل کرنے کی بات چیت کرنی چاہیے۔

کشمیر کا تنازع بہت پیچیدہ ہو گیا ہے ۔ اب اس کے لیے ضروری ہے کہ اگر ہمیں بات چیت کا عمل شروع کرنا ہے ، خواہ وہ فرنٹ چینل پر ہو یا بیک ڈور چینل پر، اس میں صرف اور صرف کشمیر کا مسئلہ زیر بحث آنا چاہیے ۔ اگر بھارت واقعی سنجیدہ ہے تو مذاکرات کا آغاز کشمیر سے ہونا چاہیے ۔ مثال کے طور پر ۲۰۰۵ء اور ۲۰۰۷ء کی پالیسی کے تحت کشمیر سے تجارت اور سیاحت کے تعلق کو بحال کیا جائے، حُریت لیڈر شپ کو رہا کریں۔ یہ وہ اقدامات ہیں جو بھارت کو لینے چاہییں یا ہمارے مذاکرات کے نتیجے میں فوری طور پر لینے چاہییں۔

شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں وزیر خارجہ شرکت کے لیے ترجیحاً گئے، جب کہ سمر قند میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت کے لیے نہیں گئے۔ حالانکہ افغانستان ہمارے لیے زیادہ اہم ہے۔ اگر وزیر خارجہ شنگھائی تعاون تنظیم کے ایک اجلاس میں شرکت نہ کرتے تو اس سے کوئی قیامت نہ آ جاتی۔ اگر اس اجلاس میں شرکت بھی کرنا تھی تو ہمارے لیے اس موقعے پر کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کرنے کی ضرورت تھی کہ یہ مسئلہ ہمارے لیے کتنا اہم ہے۔ بہتر تھا کہ ہم اپنی شرکت کو ڈائون گریڈ کر دیتے اور منسٹر آف سٹیٹ کو بھجوادیتے۔ اُمید ہے کہ جولائی میں جو کانفرنس منعقد ہونے والی ہے، اس میں ہمارے وزیر اعظم شرکت نہیںکریں گے اور وزیر خارجہ کو بھجوایا جائے گا۔

یوں محسوس ہوتاہے کہ ہماری کشمیر پالیسی ابہام سے دوچار ہے یا پھر واضح طور پر ہم امریکا کی طرف مائل ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ’شنگھائی تعاون تنظیم‘ کے اس اجلاس میں شرکت بھی امریکی دبائو کی وجہ سے ہی کی گئی ہے۔ حکومت ابھی یہ سوچ رہی تھی کہ بھارت سے مذاکرات کے لیے پیش کش کی جائے یا نہیں ؟ لیکن وزیر خارجہ کی خواہش تھی جس کا انھوں نے گذشتہ برس جون میں اپنی گفتگو میں اظہار بھی کر دیا تھا کہ ’’بھارت سے ہمارے تعلقات استوار ہونے چاہییں اور ہمیں نقصان ہو رہا ہے ‘‘۔ یقینا امریکا کا دبائو ہے کہ ہم بھارت سے اپنے تعلقات ٹھیک کریں اور وہ چاہتا ہے کہ ہم چین سے بھی کچھ فاصلہ پیدا کریں ۔ ایران او ر سعودی عرب کے سفارتی تعلقات بحال ہونے سے امریکا اور اسرائیل کو تشویش لاحق ہے۔ فیفا عالمی فٹ بال کپ میں قطر حکومت نے آٹھ بھارتی جاسوس پکڑے ہیں جو کہ ریٹائرڈ نیوی افسر تھے اور موساد کے لیے کام کر رہے تھے ۔ قطر میں اٹلی کے تعاون سے سب میرین بن رہی ہیں۔ ان چیزوں کو نظر میں رکھتے ہوئے ہمیں اپنا مستقبل بینی پر مبنی وژن واضح رکھنا چاہیے۔

۱۴ جنوری ۲۰۲۲ء کی اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں تیار کردہ پاکستان کی قومی سکیورٹی پالیسی پیش کی گئی تھی، جس میں بہت سے بنیادی تضادات تھے۔ واضح طور پر محسوس ہورہا تھا کہ یہ امریکی اثرات کے تحت بنائی گئی ہے ۔ یہ ان لوگوں نے بنائی تھی جو خاص طور اس ایجنڈے کے لیے لائے گئے تھے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ہم اس کیمپ میں شامل نہیں ہوں گے یا ہم نیوٹرل ہیں، تو یہ باتیں سفارت کاری کی باتیں نہیں ہوتی ہیں۔ آپ کسی کیمپ میں شامل نہ ہوں لیکن اس کا اظہار نہیں کیا جاتا ۔ کیا آپ نے کبھی بھارت سے اس قسم کی لفاظی سنی ہے جس کا ہم اظہار کرتے رہتے ہیں؟

چین سے ہمارے تعلقات خراب کرنے کے لیے ایک عرصے سے کوششیں ہورہی ہیں۔ چین کو ہم سے کچھ شکایات بھی ہیں ، مثلاً ایک طرف سی پیک اور دوسری جانب  ہمارا امریکا کی طرف جھکائو کچھ زیادہ لگ رہا ہے ۔ ہمارے وزیر خارجہ تقریباًپانچ مرتبہ امریکا سے ہو آئے ہیں اور اس دوران صرف ایک مرتبہ ان کی انٹنی بیکر سے ملاقات ہوسکی، جب کہ باقی اسفار میں وہ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے چھوٹے چھوٹے افسروں سے مل کر آگئے۔ اس سے ہماری ریاست کی مزید تحقیر ہوئی ہے۔ یہ بڑی شرمندگی کی صورتِ حال ہے کہ آپ واشنگٹن میں موجود ہیں، مگر آپ کو ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ بھی نہیں ملتی اور آپ ایک کونسلر کی سطح کے افسر سے مل کر آ جاتے ہیں۔

پھر بیرونی دُنیا میں یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ ’ہم کشمیر کو بھلا چکے ہیں اور کشمیر پالیسی میں بنیادی تبدیلی آچکی ہے ، اگرچہ اس کااظہار نہیں کیا جاتا‘۔ تاہم، میرے نزدیک ایسا نہیں ہے کہ ہم کشمیر پالیسی کو بدل چکے ہیں، البتہ کوششیں جاری ہیں کہ کسی طریقے سے کشمیر کو پس پشت ڈال کر بھارت کے ساتھ باقی بہت سے اُمور پر معاملات کا عمل شروع ہو جائے ۔ پچھلے ۷۵سال سے کشمیر پر ہمارے قومی موقف کے حوالے سے کسی بھی حکومت یا کسی ایک فرد کے اختیار میں نہیں ہے کہ قومی کشمیر پالیسی کو تبدیل کردے۔

البتہ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ہم نے عملی سطح پر کشمیر کو کئی حوالوں سے بھلا دیا ہے ۔ کشمیر پالیسی میں پسپائی نظر آتی ہے اور تسلسل نہیں پایا جاتا۔ اس لیے جب ہم کشمیر پر بات کرتے ہیں تو لوگ ہماری بات کو سنجیدگی سے نہیں لیتے ۔

پی ڈی ایم حکومت کے تحت کشمیر پارلیمنٹری کمیٹی کا چیئرمین کون ہے؟ اس کا نام شاید لوگوں کو معلوم نہ ہو۔ ایک ایسے شخص کو کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا گیا ہے جس کا کوئی سٹیٹس ہی نہیں ہے۔ماضی میں کشمیر کمیٹی کے چیئرمین نواب زادہ نصراللہ خاں تھے، جو ایک نامور سیاست دان تھے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے خود اس مسئلے کو ڈائون گریڈ کر کے رکھ دیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جموں وکشمیر پر اپنے قومی موقف اور نقطۂ نظر کو مؤثر انداز میں پیش کیا جائے۔ ہمارے اس نیم دلانہ رویے سے خود اہلِ کشمیر کا اعتماد مجروح ہو رہا ہے۔

کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ مسئلہ کشمیر کو کچھ عرصہ کے لیے منجمد کرکے چین، افغانستان، وسطی ایشیا اور بھارت کے درمیان پاکستان کو ایک کوریڈور بنا دیا جائے۔ اس طرح سے ہم بہت سے معاشی مفادات حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن حقائق کی دُنیا میں یہ ایک ناقابلِ عمل تجویز ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان باہمی بے اعتمادی اس قدر زیادہ ہے کہ اس قسم کی تجاویز پر عمل نہیں کیا جا سکتا۔ ہم تو بذریعہ سڑک بطور راہداری، انسانی بنیادوں پر امداد بھی نہیں بھجواسکتے کہ کوئی حادثہ پیش آ جائے تو پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑا مسئلہ کھڑا ہو سکتا ہے۔ اس قسم کے کام وہاں ہو سکتے ہیں جب دو طرفہ تعلقات مستحکم بنیادوں پر استوار ہوں اور باہمی اعتماد پایا جاتا ہو۔

کسی ملک کی خارجہ پالیسی، اس کے نظریاتی، جغرافیائی، اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی تقاضوں کی مجسم صورت ہوتی ہے، جو اس کے قومی مفادات کی حفاظت کرتی ہے۔ اس تناظر میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی مقصد اپنے تزویراتی (اسٹرے ٹیجک) اہداف کا تحفظ اور دفاع کرنا ہے اور سب سے بڑھ کر، اس بدلتی ہوئی گلوبلائزڈ دنیا میں، پاکستان کی خارجہ پالیسی میں اسٹرے ٹیجک خودمختاری کے تصور کو اپنانے کی پُرجوش خواہش ہے۔ یہ خواہش اور اُمنگ کسی ریاست کی صلاحیت کو اپنے قومی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرنے اور اپنی ترجیحی خارجہ پالیسی کو اپنانے کی دلیل ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے برعکس پاکستان دیگر غیر ملکی ریاستوں پر بہت زیادہ انحصار کرتا دکھائی دیتا ہے۔

نظریاتی طور پر، خارجہ پالیسی کی حکمت عملی کا تعین اس ملک کے اہل حل و عقد کے انتخاب کا جوہر ہوتا ہے۔ اس تناظر میں خارجہ پالیسی کی حکمت عملی کا انتخاب بین الاقوامی نظام کے تناظر میں کیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کی بدلتی ہوئی حرکیات کو سامنے رکھیں تو پاکستان کی خارجہ پالیسی ان اہم بنیادوں (پیرامیٹرز)پر مرکوز ہے: نظریہ، سلامتی، ڈیٹرنس، امن، جغرافیائی سیاست، اقتصادیات، تجارت اور موسمیاتی سفارت کاری۔ تاہم، قومی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کو برقرار رکھنا ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ہے۔

سات عشروں سے، کشمیر پاکستان کی خارجہ پالیسی کا سنگ بنیاد ہے۔ ہمارے سویلین اور فوجی اداروں نے کشمیری عوام کی آزادی اور حق خودارادیت کی حمایت کے غیر متزلزل عزم کو قومی میثاق (چارٹر) کا درجہ دیا ہے۔ جموں و کشمیر کا مسئلہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا کلیدی ستون رہے گا۔ ماضی کی تمام حکومتوں کی طرح، موجودہ حکومت پاکستان کے وزیرخارجہ بلاول زرداری نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ ہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت کے حصول تک کشمیری عوام کی بلاامتیاز اخلاقی، سفارتی اور سیاسی حمایت جاری رکھیں گے۔

بلاشبہہ خارجہ پالیسی اور سلامتی کا ستون دوسرے ستونوں کے ساتھ پوری قوت سے کھڑا ہے تاکہ ہمارے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے ایک جامع اور مربوط نقطۂ نظر کو آگے بڑھایا جاسکے۔ پاکستان کی قومی سلامتی پالیسی (NSP) میں تسلیم کیا گیا ہے کہ ’’روایتی اور غیر روایتی خطرات اور مواقع مل کر مجموعی قومی سلامتی کو متاثر کرتے ہیں‘‘۔ اس ضمن میں باضابطہ طور پر معاشی سلامتی کو قومی سلامتی کا مرکز قرار دینا ایک اہم پیش رفت ہے، کیونکہ اس سے ملک کو معاشی استحکام حاصل کرنے میں مدد ملے گی، جس کے حصول کے لیے وہ طویل عرصے سے کوشاں ہے۔

پاکستان عالمی طاقتوں بالخصوص امریکا، چین اور روس کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن برقرار رکھنے کا پرجوش حامی نظر آتا ہے۔ ہمیں عالمی طاقتوں کی مخالفت کے بجائے ان کو زیادہ سے زیادہ حمایتی بنانا ہوگا۔ اس تناظر میں اسلام آباد کو بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان کسی سرد جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ چین کے ساتھ ہمارے تزویراتی تعلقات کے بڑھتے ہوئے دائرہ کار کے باوجود، پاکستان چین، امریکا اور روس کے ساتھ دوطرفہ دوستی کے قابل عمل اور پائیدار رشتوں کو جوڑنے کی عملی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے۔ ’پاکستان روس تیل معاہدے‘ کے حوالے سے امریکا کی جانب سے کسی قسم کے تحفظات کا نہ ہونا اچھی علامت ہے۔ گلوبلائزڈ دنیا کے اس دور میں، پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کے تصور سے جڑا ہوا ہے جس کی بنیاد اسٹرے ٹیجک خود مختاری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یورپی کلب (EUC) میں GSP+ جوں کی توں صورتِ حال کو بحال کرنا پالیسی کی ترجیحی لائن ہے۔ اسی طرح عرب لیگ کے بیش تر رکن ممالک کے ساتھ بھی پاکستان کے وسیع ثقافتی اور دفاعی تعلقات ہیں، بالخصوص سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ وسیع تجارتی تعلقات ہیں۔

۲۰۲۱ء میں، چین اور پاکستان نے اپنے دوطرفہ تعلقات کے ۷۰سال مکمل کر لیے۔ ایک وژن اور آئیڈیلزم ان تعلقات میں گہرے رشتے کی رہنمائی کرتا ہے۔ دونوں ممالک نہ صرف باہمی مفادات میں ایک دوسرے کے ساتھ عملی یک جہتی کا مظاہرہ کرتے ہیں بلکہ اس شراکت داری کو مزید وسعت دینے کی بھرپور خواہش بھی رکھتے ہیں۔ پاکستان چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو اپنی خارجہ پالیسی کا سنگ بنیاد سمجھتا ہے،جب کہ چین پاکستان کو قابلِ اعتماد بھائی کہتا ہے۔  ’چین پاکستان اقتصادی راہداری‘ درحقیقت علاقائی رابطے کا فریم ورک ہے۔ ’چین پاکستان اقتصادی راہداری‘ سے نہ صرف چین اور پاکستان کو فائدہ پہنچے گا بلکہ ایران، افغانستان، بھارت، وسطی ایشیائی جمہوریہ اور خطے پر بھی اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

اسٹرے ٹیجک استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے، پاکستان نے کم از کم ڈیٹرنس کی پالیسی اپنائے رکھی جسے بعدازاں ۲۰۰۱ء میں انڈیا کے ’کولڈ سٹارٹ نظریے‘ کی وجہ سے مکمل اسپیکٹرم ڈیٹرنس میں تبدیل کر دیا گیا۔ یوں پاکستان کی جوہری حکمت عملی، جنوبی ایشیائی خطے میں تزویراتی عدم استحکام کا مقابلہ کرنے پر مرکوز ہے۔ اگرچہ نسل پرست نریندرا مودی کی خارجہ پالیسی خطے میں اسٹرے ٹیجک امن کے مستقبل کے لیے سنگین خطرہ ہے، لیکن پاکستان اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن کو فروغ دینے پر یقین رکھتا ہے۔ اس وقت پاکستان، عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ معاہدے تک پہنچنے میں مصروف ہے، لیکن یہ ادارے ایک بے رُخی کا رویہ اپناتے نظر آرہے ہیں۔

’سندھ طاس معاہدے‘ (IWT )میں طے شدہ شرائط کو برقرار رکھنا پاکستان کی خارجہ پالیسی کی نمایاں ترین ضرورت ہے۔ لیکن ’سندھ طاس معاہدے‘ کے مقابلے میں تسلط پسندانہ اور غیر قانونی بھارتی پالیسی جس میں بھارت کی بدتہذیبی اور انسانیت دشمنی بھی شامل ہے، بھارت اور پاکستان کے متنازعہ تعلقات کا سبب بنی ہے۔

اس حقیقت کے باوجود کہ اگست ۲۰۲۱ء میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد، پاکستان کو افغانستان میں دہشت گردوں کی جانب سے مسلسل نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ افغانستان کے ساتھ پُرامن تعلقات برقرار رکھنا پاکستان کی حکومت کی ترجیح رہی ہے اور پاکستان، طالبان کے ساتھ اعتماد پیدا کرنے کی توقع رکھتا ہے۔

ماہ مئی میں افغانستان کے حوالے سےدو اہم اقدامات ہوئے، جن کے ہمارے پڑوسی ملک کے مستقبل پر اثرات مرتب ہوں گے ۔یکم اور ۲ مئی ۲۰۲۳ ء کو دوحہ، قطر میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام افغانستان کے بارے میں ایک عالمی کا نفرنس منعقد ہوئی، اور ۵مئی تا ۸ مئی پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں امارت اسلامی افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی کا باقاعدہ دورہ ہوا۔ اسی دوران سہ فریقی مذاکرات بھی منعقد ہوئےجس میں چین، پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی۔ سہ فریقی مذاکرات کا یہ سلسلہ ۲۰۱۷ء سے جاری ہے۔

۱۵؍ اگست ۲۰۲۱ء کو امارت اسلامی افغانستان کا دوبارہ احیاء اس وقت ہوا جب تحریک طالبان افغانستان کے رضا کار کابل میں داخل ہو ئے اورڈاکٹر اشرف غنی کی کٹھ پتلی حکومت کا خاتمہ عمل میں آیا۔ ۲۹ فروری۲۰۲۰ ء کو ایک طویل مذاکراتی عمل کے بعد امریکا اور تحریک طالبان کے نمایندوں کے درمیان دوحہ میں ہی ایک تاریخی معاہدۂ امن طے پایا تھا، جس کو اُس وقت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیر خارجہ مائیکل پومپیو نے بڑی سفارتی کامیابی سے تعبیر کیا تھا۔ لیکن کسی کو یہ اندازہ نہ تھا کہ اس معاہدے کے بعد ایک سال کے عرصے میں افغانستان میں قائم کردہ حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا، تمام غیر ملکی فوجیں ملک سے نکل جائیں گی اور طالبان پھر سے برسرِاقتدار آجائیں گے۔

گذشتہ ۲۰ ماہ کے عرصے میں طالبان نے افغانستان میں ایک مضبوط حکومت قائم کرلی ہے۔ اپنی فوج،پولیس اور تمام صوبوں اور اضلاع میں حکومتی ڈھانچا قائم ہو چکا ہے۔ ملک میں امن و امان ہے، شاہراہیں کھلی ہو ئی ہیں۔دن اور رات کے کسی بھی وقت، آپ کسی بھی سڑک پر بلا خوف و خطر سفر کرسکتے ہیں ۔باہر سڑک پر آپ کو کوئی بھی اسلحہ بردار نظر نہیں آئے گا۔داخلی امن و امان کے ساتھ اقتصادی بحالی پر بھی پوری توجہ دی گئی ہے ۔پاکستان،ایران،ازبکستان وغیرہ سے آنے والے ٹرک کسی بھی شہر کی طرف بلا روک ٹوک سفر کر سکتے ہیں۔ تمام پھاٹکوں، سڑکوں کی بندشوں کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ سرحدی راہداریوں پر محصول چونگی کی ادائیگی کے بعد اسی پرچی پر آپ ہر جگہ پہنچ سکتے ہیں، اور پھر پورے راستے میں کوئی آپ سے زور زبردستی راہداری کے نام پر پیسے یا رشوت وصول نہیں کرسکتا۔حکومتی ادارے اپنی فیس ،ٹیکس وغیرہ کم شرح پر لازماًوصول کرتے ہیں، مثلاً بجلی کا بل، پارکنگ فیس وغیرہ۔ اس کے علاوہ کوئی اضافی ادائیگی نہیں کی جاتی۔اس کی وجہ سے جہاں لوگوں کا حکومت پر اعتماد پیدا ہوا ہے، وہاں حکومتی وسائل اور آمدن میں بھی خاطرخواہ اضافہ ہوا ہے۔ ہرمعاملے میں حکومت بچت اور وسائل کے درست استعمال پر کاربند ہے۔عالمی مالیاتی ادارے بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ’’افغانستان نے خود انحصاری کی ایک بہترین مثال قائم کی ہے‘‘۔

افغان حکومت نے اپنے تمام ائرپورٹوں کو مقامی اوربین الاقوامی پروازوں کے لیے فعال رکھا ہے۔ بنکاری کا نظام پوری طرح کام کر رہا ہے اور افغان کرنسی مستحکم ہے۔ ملک سے باہر زرمبادلہ کی ترسیل پر پابندی ہے۔ ہر ہفتہ اقوام متحدہ کے زیر انتظام ایک مخصوص رقم امریکی ڈالروں کی صورت میں افغانستان کو دی جاتی ہے، جسے افغان کرنسی میں تبدیل کرکے شعبۂ تعلیم و صحت و دیگر مفاد عامہ کے اداروں کی تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں۔ تمام سرکاری ملازمین کو اب ماہانہ تنخواہ باقاعدگی سے مل رہی ہے۔ قیمتوں کو کنٹرول کیا گیا ہے۔ ملک میں اشیائے ضرورت کی فراہمی کو یقینی بنایاگیا ہے ۔میونسپل سروسز عوام کو میسر ہیں۔ اور چھ بڑے ترقیاتی منصوبوں پر بھی کام جاری ہے۔

افغانستان کے اندر دہشت گردی پر کافی حد تک قابو پایاجاچکا ہے۔داعش کے سہولت کاروں کا تعاقب جاری ہے۔سابقہ شمالی اتحاد کے مسلح گروہوں کو بھی کارروائی کا موقع نہیں مل رہا ۔ لیکن اس سب کے باوجود امارت اسلامی افغانستان کو کئی داخلی اور عالمی چیلنجوں کا سامنا ہے، جس کا حل ضروری ہے۔

داخلی طور پر سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ملک میں اب تک عبوری حکومت کام کر رہی ہے، جسے مستقل بنیادوں پر قائم نہیں کیا جاسکا ہے۔ ملک میں کوئی باقاعدہ دستور،آئین و قانون نافذ نہیں ہے۔ مقننہ کا کوئی وجود نہیں ۔تحریک طالبان کی رہبری شوریٰ امیر ہبت اللہ کی قیادت میں معاملات دیکھ رہی ہےاور پالیسی سازی بھی کرتی ہے،لیکن اس کو سرکاری اور رسمی حیثیت نہیں دی گئی ہے۔ حکومت کی جانب سے خواتین کے کام پر پابندی اور طالبات پرپابندی کو سخت گیر فیصلے قرار دیا جا رہا ہے، جس کو ملکی اور عالمی دونوں سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے، لیکن تادمِ تحریر امارت اسلامی ان فیصلوں پر کار بند ہے۔ عالمی سطح پر بھی امارت اسلامی افغانستان کو مزاحمت کا سامنا ہے، اور ابھی تک کسی بھی ملک بشمول پاکستان نے اس کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ اس پر کئی نوعیت کی پابندیاں اور سفارتی دباؤ ہے۔

اقوام متحدہ نے کئی مواقع پر افغانستان کے لیے خیر سگالی کے جذبات کا اظہار کرنے اور انسانی ہمدردی میں امدادی سرگرمیاں جاری رکھنے کے باوجود افغانستان کو اقوام متحدہ جیسے بڑے فورم میں اب تک حق نمایندگی سے محروم رکھا ہے۔یکم مئی ۲۰۲۳ء کو دوحہ میں افغانستان کے بارے میں کانفرنس میں بھی امارت اسلامی کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی، جو ایک امتیازی نوعیت کا اقدام ہے۔ اقوام متحدہ کا یہ فیصلہ بظاہر طالبات کی تعلیم اور خواتین کے کام پر پابندیوں کے تناظر میں ہے، لیکن ان پابندیوں سے پہلے بھی اقوام متحدہ نے افغانستان کو نمایندگی سے محروم رکھا تھا۔

دوحہ کانفرنس میں اگرچہ امریکا، روس، چین ،جرمنی اور پاکستان کےنمایندے موجود تھے۔ لیکن افغانستان کی نمایندگی نہ ہونے کی وجہ سے یہ کانفرنس ایک بے معنی مشق تک محدود رہی، جب کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگوتریس اس کانفرنس کے روح رواں تھے۔

کانفرنس سے واپسی پر چینی وزیر خارجہ کن گینگ اسلام آباد پہنچے اور انھوں نے پاکستان اور افغانستان کےوزرائے خارجہ سے سے مل کر سہ فریقی مذاکرات میں حصہ لیا۔افغان وزیرخارجہ کا یہ پانچ روزہ دورہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس کو اقوام متحدہ کی تائید بھی حاصل تھی اور انھوں نے اس کی رسمی طور پر منظوری دی تھی۔ یہ ایک اہم سفارتی پیش رفت تھی، جس کی تیاری پہلے سے کی گئی تھی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو پاکستانی سفیر نے درخواست دی تھی۔

افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے جب سے یہ منصب سنبھالا ہے، ان کی سفارتی سطح کی کارکردگی بے مثال رہی ہے۔ ان کے تمام بیانات ،انٹرویو اور تقاریرکسی بھی کہنہ مشق سیاستدان اور اُمور خارجہ پر دسترس رکھنے والے سفارت کار سے کم نہیں ۔ان کے بیانات میں جھول اور ابہام شامل نہیں ہوتا۔وہ صاف اور کھلی بات کرتے ہیں۔ پاکستان کے بارے میں بھی ان کے بیانات مثبت اور واضح رہے ہیں اور انھوں نے ہمیشہ اچھے تعلقات کی نوید سنائی ہے۔ اس سے پہلے افغان زعما،پاکستان کا دورہ کرنے کے بعد واپسی پر کابل میں قدم رکھتے ہی پاکستان کے خلاف بیان داغنا ضروری سمجھتے تھے، جس پر پاکستانی قوم کو افسوس اور صدمہ پہنچتا تھا۔

اس پانچ روزہ دورے میں جہاں کئی اہم سفارتی ،تجارتی اور باہمی دلچسپی کے اُمور پر مفید تبادلۂ خیال ہوا، وہاں مجموعی طور پر باہمی خیرسگالی کے جذبات پائے گئے۔پاکستانی وزیر خارجہ بلاول زرداری کا رویہ بھی مثبت رہا۔یاد رہے کہ اب تک پاکستان پیپلز پارٹی کا مجموعی طور پر اور بلاول زرداری کا خاص طور پر افغانستان کے بارے میں موقف مثبت نہیں تھا۔تحریک طالبان کے خلاف ان کے پے دَر پے بیانات ریکارڈ پر ہیں اور پاکستانی وزیر خارجہ کے ایسے بیانات امریکی پالیسی کے زیراثر نظر آتے تھے۔ موجودہ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف بھی افغان امور سے لاتعلق نظر آتے ہیں۔اس لحاظ سے لگتا ہے کہ پاکستان کی وزارت خارجہ نے اپنے وزیر کو اچھی بریفنگ دی تھی اور چینی وزیر خارجہ کی موجودگی نے بھی اس رویے کی تبدیلی میں کردار ادا کیا، جو اس وقت امارت اسلامی افغانستان کے ساتھ مثبت اور تعمیری تعلقات کی بحالی اور تعمیر نو کے کام میں پورا کردار ادا کرنا چاہتا ہے اور دونوں حکومتوں کے درمیان کئی بڑے ترقیاتی منصوبوں پر بات چیت جاری ہے۔ علاوہ ازیں چین کو مشرقی ترکستان کے صوبوں میں جاری مسلم مزاحمتی تحریک (ETIM) سے بھی خطرات لاحق ہیں جس کے ازالے کے لیے وہ کوشاں ہے۔

گذشتہ سال بھی اس طرح کی ایک کانفرنس اسلام آباد میں منعقد ہو ئی تھی، جس میں تینوں ممالک کے باہمی تجارتی امور،امن و سلامتی، دہشت گردی کے اسباب اور منشیات کا قلع قمع جیسے اُمور پر تبادلۂ خیال کیا گیا تھا۔امیر خان متقی کے ہمراہ وزیر تجارت نورالدین عزیزی بھی شریک تھے، جن کاتعلق پنج شیر سے ہے۔ مُلّا امیر خان متقی نے اپنے دورے میں دیگر اہم شخصیات سے بھی ملاقاتیں کیں، جس میں پاکستانی سپہ سالار جنرل عاصم منیر سے بھی ملاقات شامل ہے۔ پاکستان میں ٹی ٹی پی کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں اور تخریبی کارروائیوں کو افغانستان میں قائم مراکز سے جوڑا جاتا ہے۔ ان افسوس ناک واقعات اور حملوں میں مسلسل سیکورٹی فورسز،افواج پاکستان،پولیس کے جوانوں اور عوام کا جا نی و مالی نقصان ہو رہا ہے، جس پر پوری قوم میں سخت تشویش پائی جاتی ہےاور امارت اسلامی افغانستان سے اس کی روک تھام کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ اس بارے میں افغان وزیر خارجہ نے پاکستانی چیف آف آرمی اسٹاف سے جو مذاکرات کیے، اس کی تفصیلات تو معلوم نہیں ہوسکیں،البتہ ان کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ امارت اسلامی نے پہلے بھی ٹی ٹی پی کی قیادت کو مذاکرات کے لیے آمادہ کیا تھا اور آیندہ بھی اس مسئلے کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔

افغان وزیر خارجہ نے پاکستانی قومی و صوبائی سیاست دانوں کو ظہرانے پر مدعو کیا، جن میں امیرجماعت ا سلامی پاکستان سراج الحق ،جمعیت العلماء اسلام اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، پختون ملّی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی اور عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان شامل تھے۔ اس ملاقات میں پاکستان اور افغانستان کے عوام کے درمیان رابطوں کی اہمیت پر زور دیا گیا اور خطے میں امن و سلامتی کے قیام کی ضرورت پر بات ہوئی۔ افغان وزیر خارجہ نے اسلام آباد کے تھنک ٹینک ،انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرے ٹیجک اسٹڈیز کی ایک بڑی مجلس سے بھی خطاب کیا، جس میں سفارت کار اور اہم شخصیات شریک تھیں۔

بدقسمتی سے ان دو اہم اجتماعات میں جو مسئلہ زیر غور نہ آسکا وہ عالمی سطح پر امارت اسلامی افغانستان کو تسلیم کرنا اور ان کو اقوام عالم کی صف میں اپنا مقام دینا ہے، جس سے مسلسل محرومی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے اور ملت افغان کے ساتھ زیادتی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ جب دوحہ کانفرنس کے حوالے سے شروع میں میڈیا میں یہ بات آئی کہ شاید اس موقعے پر افغان حکومت کو تسلیم کرنے کی جانب کوئی مثبت پیش رفت ہو، تو سوشل میڈیا پر اس تجویز کی فوراً مخالفت شروع ہو گئی اور خواتین کے حوالے سے امارت اسلامی کی پالیسی کو بنیاد بناکر مطالبہ کیا جانے لگا کہ ’’موجودہ افغان حکومت کو تسلیم نہ کیا جائے‘‘، حالانکہ افغان امور سےوابستہ اکثر لوگ اس کی اہمیت اور ضرورت کے قائل ہیں۔

ــــــــــــــــــــــ اسی طرح ۱۷مئی کو افغانستان میں اُس وقت ایک اہم تبدیلی رُونما ہو ئی، جب سن رسیدہ افغان وزیر اعظم مولانا محمدحسن اخوند کو خرابیٔ صحت کی وجہ سے فارغ کر کے نسبتاً جواں سال   نائب وزیر اعظم مولوی عبدالکبیر کو وزیر اعظم مقرر کر دیا گیا۔یہ تقرر تحریک طالبان کے امیر مُلّا ہبت اللہ کے حکم سے ہوا۔مولوی عبدالکبیر صاحب، طالبان کے پہلے دور میں بھی وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔

کشمیر کی سب سے قدیم اور تاریخی جامع مسجداب کے برس بھی عید الفطر کے موقعے پر اُداس اور ویران رہی، اپنے نمازیوں کی نمازِ عید اور دید کو ترستی رہ گئی۔ وجہ یہ تھی کہ جبر کی طاقت کے خیال میں ’’کشمیریوں کے اس قدر بڑے اجتماع سے بغاوت پھیلنے اور اندیشۂ نقص امن کا خطرہ ہوتا ہے‘‘۔ اس لیے مجبوراً کشمیریوں نے عید الفطر کے چھوٹے اجتماعات منعقد کیے۔ ایسے ہی کئی اجتماعات کی وڈیو کلپس میڈیا میں گردش کرتی دیکھی جاسکتی ہیں، جن میں جموں کی چناب ویلی کے بھدرواہ علاقے کی ایک سرگرمی نے ساری توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔ وہاں سیکڑوں لوگ سبز پرچم لیے گھوم رہے تھے۔ یہ پُرجوش لوگ کورس کی شکل میں اقبال کا انقلابی اور آفاقی کلام پڑھ رہے تھے:

خودی کا سرِ نہاں لااِلٰہ الااللہ
باطل سے دبنے والے، اے آسماں نہیں ہم

چناب ویلی کی یہ سرگرمی جس انداز سے اس بار زبان زدِعام ہوئی ہے، اس سے اندازہ لگایا جارہا ہے کہ یہ رسمِ وفا پورے جموں وکشمیر کے قصبوں، دیہات اور شہروں تک وسیع ہوجائے گی، اور آیندہ مزاحمت میں یہی رنگ نمایاں دکھائی دے گا۔چار سال کے بے سود انتظار اور گردوپیش سے مایوس ہو کر صوفی منش عوام اور مجاہد صفت قوم نے اپنے محسن اور فکری رہنما اقبال کو دوبارہ پکار ا ہے، اور اقبال نے مظلوموں اور مقہوروں کا یہ بڑھا ہوا ہاتھ تھام لیا ہے۔ اس طرح ان کی قیامت خیز تنہائی میں وہ اپنی قوم کی مدد کو آگئے ہیں۔

یہ وہی دیس ہے جس کے بارے میں اقبال خود کہتے ہیں:

تنم گُلے زخیابانِ جنّتِ کشمیر
دل از حریمِ حجاز و نواز شیرازاست

میرا جسم کشمیر کی مٹی سے آیا ہے، میرا دل سرزمین حجاز کا ہے اور میرے نغمے ایران کے ہیں۔

پھر وہ کشمیریوں کی حالت ِ زار پر اپنی افسردگی کا اظہا ریوں کرتے ہیں:

آج وہ کشمیر ہے محکوم ومجبور وفقیر
کل جسے اہلِ نظر کہتے تھے ایرانِ صغیر

آہ یہ قومِ نجیب وچرب ودست وتر دماغ
ہے کہاں روزِ مکافات اے خدائے دیر گیر؟

کشمیر میں ڈوگرہ کی شخصی حکمرانی کے خلاف وادیٔ کشمیر کے مسلمانوں میں برپا انقلاب میں کشمیر سے باہر اگر کسی فرد کا بھرپور کردار ہے تو یہ نام اقبال ہی کا ہے۔ بدقسمتی سے کچھ بیرونی ہمدردوں کی بے تدبیریوں اور غلطیوں کی وجہ سے کشمیری اس انقلاب کی تکمیل سے محروم رہ گئے اور یہ انقلاب عملی شکل میں نہ ڈھل سکا۔ڈوگرہ درندگی سے نکل کر وہ فاشسٹ ہندستان کی غلامی کا شکار ہوگئے اور اقبال کے ہاتھوں برپا کردہ بیداری کا انقلاب ان کے سینوں میں موجزن اورشعلہ بار ہوا۔

اقبال کشمیریوں کی فکری رہنمائی اور ان کی حالتِ زار دنیا تک پہنچانے کے لیے کام کرتے رہے۔انھی کی تحریک پر ہی کشمیری وکلا نے وائسرائے ہند کے نام خطوط لکھنے کا سلسلہ شروع کیا، جس کے نتیجے میں انگریز سرکار نے ڈوگرہ حکمرانوں کو ایسی اصلاحا ت پر مجبور کیا، جن میں کشمیریوں کے لیے سانس لینے کی آزادی کا حصول ممکن ہوا۔ان خطوط میں اقبال کے استعاروں اور اصطلاحات نے ڈوگرہ حکمرانوں کے ساتھ ساتھ انگریز کو بھی چونکا دیا تھا۔ اقبال، کشمیر کومسلم امت کی تحریک سے جوڑتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔

 پھر ۱۹۳۱ء میں جب اقبال اپنے دوسرے سفر پر کشمیر آئے تو تحقیق کاروں کے مطابق وہ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے کہ کشمیر کی وادیوں میں اب آزادی و انقلاب کے آثار پیدا ہو چکے ہیں۔ دبے اور کچلے ہوئے عوام میں خوئے بغاوت اور جذبۂ حُریت دکھائی دینے لگا ہے۔ان مناسبتوں کے پس منظر میں کشمیریوں اور اقبال کا ساتھ بہت پرانا اور گہرا ہے۔وہ اس حقیقت سے بخوبی  آگاہ ہیں کہ اقبال کے فارسی کلام میں کوہ ودمن میں آگ لگانے کی صلاحیت ہے۔یہ مُردہ ضمیر اور بے حس وحرکت جسموں کو اُٹھا کر معرکہ زن بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ایران کے انقلاب میں اقبال کے کلام سے رہنمائی کا اعتراف آیت اللہ علی خامنہ ای نے۱۹۸۶ء میں کرتے ہوئے کہا تھا: ’’ایران کا انقلاب اقبال کے خواب کی تعبیر ہے۔ہم اقبال کے دکھائے ہوئے راستے پر چل رہے ہیں‘‘۔

اور ۱۹۹۰ء میں جب سوویت یونین ٹوٹ رہا تھا تو تاجکستان کے طول و عرض میں آزادی کی راہ پر چلنے والے ہزاروں افراد اقبال کے اس نغمے پر جھوم رہے تھے:

اے غنچۂ خوابیدہ چو نرگس نگراں خیز
از خوابِ گراں، خوابِ گراں، خوابِ گراں خیز

اے خوابیدہ کلی تو نرگس کے پھول کی طرح آنکھ کھول۔گہری نیند سے، گہری نیند سے، گہری نیند سے جاگ۔

اس روز بی بی سی،لندن نے ’سیر بین‘ پروگرام کا آغاز دوشنبے میں انھی لوگوں کی زبان سے ادا ہونے والے اسی نغمے سے کیا تھا۔آج کشمیریوں پر عتاب کا دور ماضی سے کہیں زیادہ سخت ہے، جب ان کے لیے ایک اور ’گلانسی کمیشن‘ (۱۹۳۲ء)کی ضرورت محسو س کی جارہی ہے، کیونکہ ان کے جمہوری اور انسانی حقوق اور کشمیری اور مسلمان کی حیثیت سے بھی ان کی شناخت خطرات کی زد میں ہے۔ مگر آج کوئی اقبال موجود نہیں ہے،جس کے لکھے اور بولے ہوئے لفظوں سے جبر کی دیوار میں شگاف ڈالا جا سکے۔المیہ یہ نہیں کہ کشمیری حالات کے جبر کا شکار ہو چکے ہیں اور ہرن، بھیڑیوں کے غول میں پھنس چکا ہے۔ بلکہ المیہ یہ ہے کہ ان حالات میں ان کا مونس اور غم خوار اور ہمدرد ہونے کا  دعوے دار بھی حالات کے آگے سپر ڈال چکا ہے۔

 کشمیری جب بھی حالات کے جبر کا شکار ہوکر تنہائی کا شکار ہوجاتے ہیں، تو اسی دھرتی کے خمیر سے جنم لینے والا ایک نابغہ روزگار ان کی فکری اور عملی مدد کو آتا ہے۔یہ کشمیر کی وادیِ لولاب کا فرزند ہوتاہے، جسے دنیا علامہ محمد اقبال کے نام سے جانتی ہے۔انیسویں صدی میں جب کشمیری شخصی حکمرانی کے جبر کا شکار تھے اور ان کی آواز وادی کے قید خانے کی دیواروں سے ٹکرا کر واپس آتی تھی۔ بڑے مراکز میں رہنے والوں کو کچھ اندازہ نہیں تھا کہ بانہال کے پہاڑوں کی اُوٹ میں جنّت گم گُشتہ کے باسی کس حال میں ہیں، تو اس ہلاکت خیز تنہائی میں اس دور کے علّامہ محمد اقبال جو اپنے کلام اور فکر وفن کے لحاظ سے دنیا بھر میں مشہور ہوچکے تھے ،اپنی درماندہ حال قوم کی مدد کو آئے تھے۔

علّامہ اقبال نے نہ صرف اپنے آبائی وطن کشمیر اور علاقے لولاب کا دورہ کیا بلکہ اپنی شاعری کے ذریعے کشمیریوں کو بیدار کرنے کا بیڑا بھی اُٹھایا۔انھوں نے لاہور کے پرانے کشمیریوں کی محفلوں میں کشمیر کے حالات پر بات کا آغاز کیا،لاہور کے اخبارات کو کشمیر کے حالات پر لکھنے اور بولنے کا مسلسل مشورہ دینا شروع کیا۔ایسی ہی ایک محفل میں علامہ نے اپنا دل کھول کر رکھ دیا تھا:

پنجۂ ظلم وجہالت نے برا حال کیا
بن کے مقراض ہمیں بے پر و بے بال کیا

توڑ اس دست جفا کیش کو یارب جس نے
روحِ آزادیٔ کشمیر کو پامال کیا

یوں اقبال کی رہنمائی میں کشمیر کے حالات کی خبر وادی کی تنگنائے سے نکل ہندستان کی وسعتوں تک پہنچنے لگی، جس کا مطلب یہ تھا کہ معاملے کی حقیقت انگریز سرکارتک پہنچنے لگی ہے۔شاید اسی کا نتیجہ تھا کہ انگریز سرکار کے دباؤ پرڈوگرہ حکمران کشمیر میں اصلاحات کے لیے ’گلانسی کمیشن‘ جیسے فورمز کو جگہ دینے پر مجبور ہونے لگے۔ اقبال ایک راہ دکھلا کر دنیا سے چلے گئے، مگر ان کا کلام اور فکر کشمیر میں حُریت اور انقلاب کے شعلوں کومسلسل زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی رہی۔اسی فکری انقلاب کے اثرات اگلے ہی عشرے میں ایک واضح بیداری کی شکل میں اُبھرتے نظر آئے۔

آج کشمیری ایک بار پھر ۱۹۳۰ءکے زما نے میں پہنچ گئے ہیں، بلکہ حالات تو اس سے بھی بدتر ہیں۔وہ ایک بار پھر وادی کے پہاڑوں کے پیچھے قید ہوچکے ہیں۔آزاد دنیا سے ان کے روابط منقطع ہو چکے ہیں۔اگر روابط قائم بھی ہیں تو وہ دل کی بات زبان پر لانے سے قاصر ہیں۔ اس کی پُراثر اور دل دوز منظر کشی بھارت کےThe Wire ٹی وی کی میزبان عارفہ خانم شیروانی صاحبہ نے اس سال جنوری میں اپنے دورۂ سری نگر میں کی تھی۔

جب وہ مائیک اُٹھائے سری نگر کی گلیوں میں لوگوں سے پوچھ رہی تھیں کہ ’’۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے فیصلے کے بعد حالات کیسے ہیں؟‘‘اکثر لوگ تو جواب دینے سے پہلو بچاکر اور نگاہیں جھکا کر خاموشی سے آگے بڑھ جاتے تھے، مگر انھی لوگوں میں ایک واجبی سے حلیے والے ذہین شخص نے کچھ نہ کہتے ہوئے سب کچھ کہہ دیا۔وہ اگر ایک لفظ بھی نہ بولتا تو تب بھی اس کے چہرے کے تاثرات پوری کہانی سنا رہے تھے۔عارفہ خانم نے مائیک آگے بڑھاتے ہوئے پوچھا کہ’’ ۵؍اگست کے بعد حالات کیسے ہیں؟‘‘ تو اس شہری کا جواب تھا: ’’ٹھیک ہیں، سب ٹھیک ہے۔حالات اچھے ہیں‘‘۔شاید عارفہ خانم کو اس جواب میں روکھا پن محسوس ہوا،تو انھوں نے کچھ بتانے پر اصرار کیا۔ اس شخص نے زمانے بھر کا کرب اپنے لہجے میں سمیٹتے ہوئے کہا:’’کیا بتاؤں، اب کہنے کو کیا بچا ہے؟ سب کچھ تو چھن گیا۔ جو شخص دن کو بات کرتا ہے، وہ رات کو اُٹھالیا جاتا ہے‘‘۔

یوں دکھائی دیتا ہے کہ اس ماحول میں کشمیر کے لوگ اپنے جذبات کاا ظہا رکرنے سے قاصر ہیں۔ایسے میں اقبال کی فکر اور انقلابی سوچ کو اپنا کرانھوں نے حالات کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس سے یہ اندازہ بھی ہورہا ہے کہ کشمیری عوام کے جذبات نے اپنے اظہار کے لیے ایک نیاراستہ اور اپنی قیادت کے لیے اپنا فکری رہنما ڈھونڈ لیا ہے۔ ۵؍اگست کے بعد ظلم کے سیاہ بادلوں میں انھوں نے روشنی کا ایک طاقت ور استعارہ تلاش کر لیا ہے:

باطل سے دبنے والے، اے آسماں نہیں ہم

 کلامِ اقبال کورس کی شکل میں عید کے روز گلی کوچوں میں پڑھتے ہوئے گھومنے والے کشمیریوں کے مزاج اور موڈ سے یہی انداز ہ ہورہا ہے۔اب کی بار کشمیر کواقبال کی ضروت بیداری کے لیے نہیں، بلکہ ایک بیدار معاشرے میں احساس کی ایسی چنگاری کو زندہ رکھنے کے لیے ہے۔

قضیۂ کشمیر پر جن دومحققین کی کتابیں آج تک بطورِ حوالہ ایک مقام رکھتی ہیں، وہ سابق امریکی وزیر خارجہ میڈلین البرٹ کے والد اور اقوم متحدہ میں چیکوسلواکیہ کے سفیر جوزف کاربل اور برطانوی مصنف الیسٹر لیمب ہیں۔

جوزف کاربل (Joseph Korbel) نے ۱۹۵۴ء میں اپنی کتاب Danger in Kashmir (پرنسٹن یونی ورسٹی، نیوجرسی)میں دُنیا کو خبردار کیا تھا کہ یہ قضیہ امنِ عالم کے لیے شدید خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔ انھوں نے اس کتاب میں اقوام متحدہ کی کوششوں میں آنے والی رکاوٹوں کا ذکر کیا ہے۔

اسی طرح ڈاکٹر الیسٹر لیمب [۹جنوری ۱۹۳۰ء- ۱۵مارچ ۲۰۲۳ء]کی کتب: The Crisis in Kashmir 1947-1966 (۱۹۶۶ء)، Kashmir: A Disputed Legacy 1846-1990 (۱۹۹۲ء)، Birth of a Tragedy, Kashmir 1947 (۱۹۹۷ء)،  Incomplete Partition 1947-1948 (۱۹۹۷ء) میں مسئلہ کشمیر اور۱۹۴۷ء میں رونما ہونے والے واقعات پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے۔ انھی ۹۳ سالہ برطانوی مصنف کا ۱۵مارچ ۲۰۲۳ءکو لندن میں انتقال ہوا۔

ڈاکٹر الیسٹر لیمب سے کبھی براہِ راست ملاقات کا شرف تو حاصل نہیں ہوا، مگر ۲۰۱۰ء میں جب بھارت کے مشہور محقق اور کالم نویس اور ’بھارت-پاکستان تعلقات‘ پر ایک اتھارٹی اے جی نورانی نے دو جلدوں پر مشتمل اپنی کتاب The Kashmir Disputeپر کام شروع کیا، تو انھوں نے مجھے بطور ریسرچ ایسوسی ایٹ کی ذمہ داری سونپی۔ اس مناسبت سے مجھے فون، ای میل وغیر ہ پر ڈاکٹر الیسٹر لیمب سے وقتاً فوقتاً رابطہ کرنے کا موقع نصیب ہوا۔ان کا کہنا تھا:’’نہ صرف کشمیر بلکہ بھارت- چین سرحدی تنازعے کے سلسلے میں خاص طور پر بھارت میں معروضی تحقیق کا فقدان ہے‘‘۔

پروفیسر لیمب کا کہنا تھا:’’۱۹۶۲ء میں جب چین - بھارت سرحدی تنازع زور پکڑ رہا تھا اور دونوں ممالک جنگ کے دہانے پر کھڑے تھے، تو لندن میں پبلک ریکارڈ آفس اور انڈیا آفس لائبریری کے برطانوی آرکائیوز میں مجھ کو متعدد ایسی دستاویزات ملی تھیں، جو بھارتی وزارت خارجہ کے دعوؤں کی یکسر نفی کرتی تھیں۔ مجھ کو لگا شاید بھارتی حکومت کی نگا ہ میںیہ دستاویزات نہیں آئی ہوں گی۔ اس لیے میں نے لند ن میں بھارتی ہائی کمیشن کے ایک سینئر اہلکار سے ملاقات کرکے ان کو صورت حال سے آگاہی دی اور بھارتی حکومت کو بھی یہ دستاویزات بھیجیں۔ مگر بعدازاں میں اس نتیجے پر پہنچا کہ بھارتی حکومت کو ان اصل دستاویزات کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں ہے اور وہ دانستہ تحریف شدہ (tempered) دستاویزات کی بنیاد پر چین کے خلاف اپنا مقدمہ بنا رہے ہیں‘‘۔

 اے جی نورانی نے بھی اپنی کتاب  India, China Boundary Problem میں تذکرہ کیا ہے کہ کس طرح بھارت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو [م: ۱۹۶۴ء]نے چین کے ساتھ سرحدی تنازع کھڑا کرنے کے لیے تمام پرانی دستاویزات اور نقشوں کو تلف کرکے نئی دستاویزات اور نئے نقشے بنانے کا حکم صادرکیا تھا اور پھر اسی حوالے سے ۱۷صفحات پر مشتمل ایک ’خفیہ یادداشت‘ وزارتوں میں تقسیم کی تھی۔

چینی اُمور کے ماہر اور چین میں متعین برطانوی سفارت کار لاینل لیمب، کے ہاں ۹جنوری ۱۹۳۰ء کو چینی صوبے ہیلونگجیانک کے شہر ہاربن میں الیسٹر لیمب پیدا ہوئے۔ انھوں نے پبلک اسکول ہیرو میں تعلیم حاصل کی، جہاں اُن سے تقریباً ۴۰سال قبل جواہر لعل نہرو بھی تعلیم حاصل کرچکے تھے، اور پھر کیمبرج یونی ورسٹی میں تاریخ کا مطالعہ کیا۔ لیمب کا ڈاکٹریٹ مقالہ برطانوی دورِ حکومت میں ہندستان کی سرحدوں اور خاص طور پر چین کے ساتھ حدبندی لائن کے موضوع پر تھا۔ ۱۹۶۰ء کے عشرے میں لیمب نے ملایا یونی ورسٹی اور بعد میں آسٹریلیا اور گھانا میں پڑھایا۔ اس دوران انھوں نے کشمیر کی تاریخ پر اپنی پہلی کتاب مکمل کی۔ ۱۹۹۰ءکے عشرےمیں، انھوں نے کشمیر کی ۲۰ ویں صدی کی تاریخ اور خاص طور پر الحاق کے بحران کے بارے میں یکے بعد دیگرے تین مزید تفصیلی کتابیں شائع کیں۔

پروفیسر لیمب کو مسئلہ کشمیر کی قانونی اور سفارتی تاریخ کا ماہر تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں: ’’اگست ۱۹۴۷ءکو جب برٹش انڈیا دو آزاد مملکتوں میں تقسیم ہوگیا، تو جموں وکشمیر کے اُس وقت کے مہاراجا ہری سنگھ [م: اپریل ۱۹۶۱ء]نے بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے میں تاخیر کی۔ بعد ازاں اکتوبر کے مہینے میں جب پونچھ اور دوسرے خطوں میں مہاراجا کے خلاف تحریک شروع ہوئی اور پاکستان کے صوبہ سرحد [خیبرپختونخوا]سے مسلح قبائلی جنگجو کشمیر میں داخل ہوئے تو مہاراجا نے نئی دہلی، بھارت سے فوجی امداد طلب کی۔چنانچہ ۲۷؍ اکتوبر کو انڈین فوج کشمیر پہنچی، جس کے بعد مہاراجا نے جموں وکشمیر کا مشروط الحاق بھارت کے ساتھ کیا‘‘__ لیمب ٹھوس حقائق اور دستاویزات کی بنیاد پر ثابت کرتے ہیں کہ ’’بھارتی فوج کی جموں و کشمیر میں دراندازی اور سرینگر پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد ہی الحاق کی دستاویز پر دستخط لیے گئے‘‘۔

 چند سال قبل جواہر لال نہرو اور اندارا گاندھی کے ایک معتمد خاص آنجہانی جی پارتھا سارتھی [م: اگست ۱۹۹۵ء]کی یادداشتوں پر مشتمل کتاب نے بھی آزادانہ الحاق کی تھیوری کے غبارے سے ہوا نکال کر رکھ دی۔ جی پارتھاسارتھی کے بیٹے اشوک پارتھا سارتھی ، جو خود بھی بھارت میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ہیں، انھوں نے اپنی کتاب جس کا ٹائٹل GP:1912-1995 تھا، ۲۰۱۸ء  میں شائع کی ہے۔ ان کے مطابق پشتون قبائلی حملے سے ایک ماہ قبل ۲۳ستمبر۱۹۴۷ء ہی کو کشمیر کی بھارت کے ساتھ الحاق کی بساط بچھ چکی تھی۔ راجا ہری سنگھ کے تذبذب کو ختم کرنے کے لیے نہرو نے گوپال سوامی آئینگر [م: فروری ۱۹۵۳ء]، جو جی پارتھا سارتھی کے والد تھے، انھیں ایک خفیہ مشن پر سرینگر روانہ کیا تھا۔ پارتھا سارتھی کا کہنا ہے کہ میرے والد نے سرینگر میں دو دن قیام کیا اور اس دوران وہ مہاراجا کو قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ بطور ایک ہندو راجا ان کا مستقبل بھارت ہی میں محفوظ ہے۔ کتاب کے مطابق دہلی واپس آکر جب آئینگر، نہرو کو رپورٹ دے رہے تھے تو وزیراعظم نہرو نے برجستہ کہا:ـ’’مجھے یقین تھا کہ تم اچھی خبر لے کر ہی آؤ گے اور یہ صرف تم ہی کرسکتے تھے‘‘___ گوپال سوامی آئینگر کشمیر کے وزیراعظم بھی رہ چکے تھے۔ بھارتی حکومت نے ۱۲ سے ۱۷؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کے درمیان انڈین آرمی کی ۵۰ویں پیرا شو ٹ بریگیڈ کے ۴کمانڈو پلاٹون اور پٹیالہ پولیس کے دستے کشمیر بھیج دیئے، جنھوں نے سرینگر ہوائی اڈے کو گھیرے میںلیے رکھا۔

ڈاکٹر لیمب نے بھی اپنی کتاب Birth of a Tragedy, Kashmir 1947 کے چھٹے باب میں ’الحاق کی دستاویز‘ پر سوالات اٹھائے ہیں۔ نا معلوم وجوہ کی بنا پرمبینہ طور پر ’الحاق کی اس دستاویز‘ کو بھارتی وزراتِ داخلہ کی جانب سے ۱۹۴۸ء میں شائع White Paper on States میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ اسی طرح نہ یہ ان دستاویزات میں شامل تھی، جو حکومت نے اسی سال اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بھیجیں تھیں۔ محققین کو بھی اس تک رسائی نہیں دی گئی تھی۔ ۲۰۰۵ء میں جب بھارت میں معلومات کے حق کا قانون پاس ہوا، تو اس حق کو استعمال کرکے میں نے اس ’دستاویزِ الحاق‘ اور سپریم کورٹ رجسٹری سے مقبول بٹ کی کیس فائل کا مطالعہ کرنے کی درخواست دائر کی تھی، اور یہ درخواست قومی سلامتی کا حوالہ دے کر خارج کردی گئی۔

وی پی مینن [م: ۱۹۶۶ء]،جو بھارت سرکار کے ریاستوں سے متعلق امور کے محکمے کے سربرا ہ تھے اور جن کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ انھوں نے دستاویز الحاق پر مہاراجا کے دستخط حاصل کیے،وہ اپنی کتاب The Story of The Integration of Indian States (1956)  میں لکھتے ہیں:’’میں ۲۶؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو دہلی سے بذریعہ ہوائی جہاز جموں آیا اور جموں میں ’دستاویزِ الحاق‘ پر مہاراجا کے دستخط لیے اور واپس دہلی چلا گیا‘‘۔مگر لیمب کا کہنا ہے: ’’یہ دعویٰ کسی بھی طرح صحیح قرار نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ ۲۶؍اکتوبر کی صبح ہی مہاراجا اپنے خاندان کے ساتھ کشمیر چھوڑ کر جموں کی جانب روانہ ہوا، اور جموں سرینگر شاہراہ، جسے ان دنوں بانہال کارٹ روڈ کہاجاتا تھا،کی حالت دیکھتے ہوئے اور ان عینی شاہدین، جنھوں نے مہاراجا کے کاررواں کو راستے میں جاتے ہوئے دیکھا،کے بیانات کو مدنظر رکھتے ہوئے مہاراجا کے لیے شام۷بجے سے قبل جموں پہنچنا ناممکن تھااور چونکہ ان دنوں جموں ہوائی اڈے پر رات کے وقت اُڑان بھرنے اور اُترنے کی سہولت میسر نہ تھی، تو اس زمینی صورتِ حال کے مطابق یہ ناممکنات میں تھا کہ کوئی شخص دہلی سے جموں آئے اور شام کو جموں میں مہاراجا کے دستخط لے کر رات کو ہی واپس دہلی چلاجائے‘‘۔

اس طرح سے انھوں نے مینن کے دعوے کا جھوٹ بے نقاب کردیا۔اتنا ہی نہیں، برطانوی ہائی کمیشن کے ریکارڈLP&S/13/1845b,ff 283-95-India Office Recordsکے مطابق اس وقت کے بر طانوی ڈپٹی ہائی کمشنربرائے بھارت،الیگزنڈر سائمن ۲۶؍اکتوبرکو نئی دہلی میں مینن سے ملے اور انھیں بتایا گیا کہ وہ۲۷؍اکتوبر کو جموں جارہے ہیں، یعنی بھارتی فوج کی لینڈنگ کے بعد ’دستاویز ِالحاق‘ پر دستخط کروانے جا رہے تھے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ گورنر جنرل لارڈماؤنٹ بیٹن [م: اگست ۱۹۷۹ء]نے پہلے ہی مہاراجا ہری سنگھ کو فوجی امداد کی یقین دہانی کرائی تھی۔

بھارتی حکومت کی طرف سے نامعلوم وجوہ کی بنا پر ’دستاویزِ الحاق‘ کی اصل کاپی کو خفیہ رکھنے سے لیمب کی تھیوری کو تقویت ملتی تھی۔ بی بی سی سے تعلق رکھنے والے صحافی اور مصنف اینڈریو وائٹ ہیڈ نے بھی کئی بار اس دستاویز کو دیکھنے اورمطالعہ کرنے کی درخواست کی تھی، جو مسترد کر دی گئی۔

مجھے یاد ہے کہ دہلی میں ’نیشنل آرکائیوز ‘کے تہہ خانہ کے ایک کونے کی الماری میں بقیہ تمام ریاستوں کی دستاویزاتِ الحاق عوام اور محققین کے مطالعے کے لیے رکھی ہوئی تھیں، مگر ان میں صرف کشمیر کی دستاویز غائب تھی۔ ۲۰۱۰ء میں جب معروف ماہر تعلیم اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلر اور مؤرخ ڈاکٹر مشیر الحسن [م: دسمبر۲۰۱۸ء]کو ’نیشنل آرکائیوز‘ کا سربراہ مقرر کیا گیا، تو اے جی نورانی صاحب کے باقاعدہ قانونی مطالبے کی تعمیل کرتے ہوئے انھوں نے اپنے دفتر میں مجھے اس ’دستاویزِ الحاق‘ کا محض مطالعہ کرنے کی اجازت دی، مگر اس کی کاپی یا فوٹو کھنچنے کی سختی کے ساتھ ممانعت کی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’’آخر بھارتی حکومت اس کو کیوں خفیہ رکھنا چاہتی تھی؟ ‘‘

ڈاکٹر مشیرصاحب بھی اس پر حیران و پریشان تھے۔ تاہم ۲۰۱۶ء میں رائٹ ٹو انفارمیشن مہم چلانے والے کارکن وینکٹیش نائک نے اس دستاویز تک باقاعدہ رسائی حاصل کی۔ دستاویز کے آخر میں گورنر جنرل کے دستخط سے قبل ٹائپ کیا ہوا ’اگست‘ کاٹ کر ہاتھ سے سبز روشنائی سے ’اکتوبر‘ کیا گیا ہے۔ ان کے دستخط بھی سبز روشنائی میں ہیں۔ مگر دستاویز کے اندر نیلی روشنائی میں خالی جگہ کو پُر کرکے ’اندر مہندر راجیشور شری ہری سنگھ والی جموں و کشمیر‘ لکھا گیا ہے اور ٹائپ شدہ ۲۶؍اگست کاٹ کر اکتوبر کیا گیا ہے۔ اس ساری جعل سازی کی ایک یہ توضیح کی جاسکتی ہے کہ شاید گوپال سوامی آئینگر نے ستمبر ہی میں مہاراجا ہری سنگھ سے دستاویز پر دستخط حاصل کیے ہوں گے، اور اکتوبر میں گورنر جنرل سے دستخط حاصل کیے گئے۔ یعنی یہ دستاویز پہلے ہی شاید دہلی میں موجود تھی، مگر یہ وضاحت بھی گھماپھرا کر کہانی کاری سے زیادہ وزن نہیں رکھتی۔

پروفیسر الیسٹر لیمب کو ممتاز تاریخ دانوں میں شمار کیا جائے گا۔ اسکالر ایان کوپلینڈ کے مطابق ’’ان کو مکمل تحقیق اور تفصیل حاصل کرنے میں ملکہ حاصل تھا‘‘۔ پرشوتم مہرا نے انھیں امتیازی اور عظیم مؤرخ قرار دیا ہے، ’’جن کا کام،اُن کی بے پناہ محنت اور حددرجہ باریک بینی سے باوزن تھا‘‘۔ معروفمصنف وکٹوریہ شوفیلڈ کے مطابق ’’لیمبنے کامیابی کے ساتھ اہم مسائل اور غلطیوں کی نشاندہی کی ہے۔ ان کا کام حقائق سے اتنا بھرپور ہے کہ ہر باب کے ساتھ اضافی نوٹ فراہم کیے گئے ہیں‘‘۔ لیوراس ایچ منرو کا کہنا ہے کہ ’’لیمب نے کشمیر کی مستند تاریخ لکھی ہے اور کشمیر کو پیچیدگیوں کے گرداب میںڈالنے کے لیے اپنے ہم وطن ماؤنٹ بیٹن کو موردِ الزام ٹھیرایا ہے‘‘۔  وکٹرکیرن کے مطابق: ’’لیمبجنوبی ایشیا  پر ایک اعلیٰ ترین اتھارٹی ہے‘‘۔ مؤرخ ہیو ٹنکر نوٹس کا کہنا ہے: ’’اگرچہ لیمب نے کشمیر کی سیاسی تاریخ کو ماہرانہ انداز میں بیان کیا ہے، مگر بھارتی محققین ان کی تھیوری کو قبول نہیں کریں گے‘‘۔ مؤرخ سری ناتھ راگھون کا کہنا ہے: ’’یہ دریافت لیمب کے ہی سر جاتی ہے کہ کشمیر کے الحاق کے معاہدے پر ۲۷؍ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو بھارتی فوجوں کے اُترنے کے بعد ہی دستخط ہوئے تھے‘‘۔

بلاشبہہ آج ان تھیوریوں کی محض ایک علمی قدر ہی رہ گئی ہے۔ جس طرح جوزف کاربل نے ۱۹۵۴ءمیں کشمیر کو عالمی امن کے لیے ایک خطرہ بتایا تھا، و ہ خطرہ اور عوامل آج بھی برقرار ہیں اور ان میں کچھ زیادہ ہی شدت آگئی ہے ۔کیونکہ اس خطے کے تین ممالک بھارت، پاکستان اور چین، جوہری ہتھیاروں سے لیس ہیں اور کسی کشیدگی کی صورت میں یہ پورا خطہ تباہ و برباد ہوسکتا ہے۔

پروفیسر الیسٹر لیمب اپنی کتاب Incomplete Partition  کے اختتام پر لکھا ہے:’’ہرفردکا ایک نکتے پر دوسروں کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ تاہم، یہ ضروری ہے کہ مسئلے کے تمام پہلوؤں پربحث کرکے ان کا دوبارہ جائزہ لیا جائے۔ میری تحقیق کا مقصد کشمیر پر کوئی پتھر پر لکیر کھنچنا نہیں ہے، بلکہ تاریخی اور دستاویزی شوا ہد کو سامنے لاکر ان پر بحث کروانا ہے‘‘۔ بلاشبہہ ایک معروضی بحث و مباحثہ کروانا ہی مؤرخ کشمیر الیسٹر لیمب کے لیے سب سے بڑا خراج عقیدت ہوگا۔

خطۂ بنگال دعوتِ حق سے وابستہ یادوں، عزیمتوں اور قربانیوں کی سرزمین ہے۔ پہلے یہ مشرقی پاکستان تھا اور اب بنگلہ دیش کہلاتا ہے۔ وہاں تحریک اسلامی کے تابندہ نقوش کی ایک تاریخ ہے، جسے محفوظ کرنا ہم پر قرض ہے۔ آج بنگلہ دیش، تحریک اسلامی سے وابستگان کے لیے قید، تعزیر اور تختۂ دار سے منسوب ایک خطہ ہے، جہاں قدم قدم پر ظلم کی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ اسی سرزمین پر قیامِ پاکستان کے تین سال بعد تحریک اسلامی کے ایک نوعمر طالب علم محبوب الٰہی نے تعلیمی دُنیا میں دعوتِ دین سے منسوب کھجور کا پودا لگایا تھا۔ یہی محبوبِ الٰہی ۹۱برس کی عمر فانی گزار کر، یکم مئی ۲۰۲۳ء کو ربِّ جلیل و کریم کے حضور پیش ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ انھیں اپنے مقربین میں مقام عطا فرمائے، آمین۔

 خواجہ صاحب کے آباواجداد کشمیر اور سہگل برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ تاہم، رہائشی تعلق پنجاب کے ضلع جہلم، پنڈ دادن خاں سے تھا۔ محبوب الٰہی جولائی ۱۹۳۲ء میں پیدا ہوئے ۔ بچپن کا ابتدائی حصہ اپنے والدین کے ساتھ پٹنہ ، گریڈی ( بہار) اور کلکتہ میں گزارا۔ شدید بیماری کے دوران کلکتہ میں والدین نے ان کی تعلیم کے لیے گھرپر ہی انھیں ایک اتالیق محمدرفیق شبلی کی نگرانی میں دے دیا۔ رفیق صاحب مولانا مودودی کی کتب کے شیدا تھے۔ انھوں نے اپنے طالب ِ علم محبوب الٰہی کو مولانا مودودی کی تحریریں پڑھنے کے لیے دیں اور اسلام سے عملی وابستگی کی شاہراہ پر گام زن کردیا۔ قیامِ پاکستان کے زمانے میں محبوب صاحب والدین کے ہمراہ آبائی وطن آگئے۔

آپ اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے بالکل ابتدائی  زمانے کے رفقا میں سے تھے۔ ۱۹۵۰ء میں اپنے نانا محمد امین صاحب کے ہاں مشرقی پاکستان چلے گئے، جنھوں نے پٹ سن کی مصنوعات کے لیے ’امین جیوٹ مل‘ قائم کر رکھی تھی۔ محبوب صاحب نے خطبات، سلامتی کا راستہ اورشہادتِ حق سے دعوتِ حق کی جو روشنی حاصل کی تھی، اسے بانٹنے کے لیے انھوں نے ڈھاکا شہر کے علاوہ مشرقی پاکستان کے دوسرے شہروں چٹاگانگ،راج شاہی، کھلنا، میمن سنگھ سے چیدہ چیدہ طلبہ کو جمع کرکے اسلامی چھاترو شنگھو (اسلامی جمعیت طلبہ) قائم کی۔اسلامی جمعیت طلبہ مشرقی پاکستان کے ناظم کی حیثیت سے لاہور میں منعقدہ چوتھے سالانہ اجتماع ۲،۳،۴ نومبر ۱۹۵۱ء [دہلی مسلم ہوٹل، انارکلی، لاہور]میں شرکت کی ۔ پھر کچھ مدت میں باقاعدہ کوشش کرکے تنظیمی ذمہ داریاں مقامی بنگالی رفقا کے سپرد کیں۔ اپنے بعد سید محمد علی کو مشرقی پاکستان جمعیت کا ناظم مقرر کیا اور کچھ عرصہ بعد ڈھاکا جمعیت کا ناظم قربان علی صاحب کو بنایا ۔یہ خواجہ صاحب کی مردم شناسی کا ثمر تھا کہ اس زمانے میں سید محمد علی، عبدالجبار، شاہ عبدالحنان (بعد میں اسٹیٹ بنک کے ڈپٹی گورنر )،اور فیاض الدین جیسے مثالی کارکن نظم جمعیت میں آئے اور مستقبل میں تحریک اسلامی کو ایک دانش ور اور عملی قیادت فراہم کرنے کا ذریعہ بنے۔ اسی طرح خواجہ صاحب جمعیت کی دعوتی اور تنظیمی کاوشوں کو وسعت دینے اور جملہ مالی وسائل فراہم کرنے کے لیے صف اول میں کھڑے رہے ۔

۱۹۵۶ء میں، ڈھاکا یونی ورسٹی سے ایم اے اکنامکس کیا، اور اعلیٰ تعلیم کی غرض سے لندن اسکول آف اکنامکس سے گریجوایشن کی، اور لندن ہی سے چارٹرڈ اکاؤنٹینسی کا امتحان پاس کیا۔ خواجہ محبوب صاحب نے برطانیہ میں جماعت اسلامی کے پہلے نمایندہ فرد کی حیثیت سے کام کا آغاز کیا ۔ اسلامک کلچرل سنٹر، بیکرسٹریٹ میں درسِ قرآن کا حلقہ قائم کیا، اور مصر سے اخوان المسلمون کے وابستگان سے ربط و تعلق قائم کیا۔ یہ سلسلہ ’یوکے اسلامک مشن‘ سے بھی پہلے تحریک اسلامی کی کونپل ثابت ہوا۔ انھی کوششوں کے نتیجے میں آج لندن کی سب سے بڑی مسجد کا انتظام بنگالی رفقا بڑے مثالی طریق پر چلا رہے ہیں، جسے اِن نوجوانوں نے اپنی توجہ کا مرکز بنایا تھا۔ یہیں آج کل ’ریسرچ اینڈ آرکائیوز سنٹر‘ ممتاز محقق، جناب جمیل شریف کی زیر نگرانی کام کر رہا ہے ۔

اسی قیام کے دوران خواجہ صاحب نے ڈھاکا سے جمعیت کے ہونہار لیڈر قربان علی صاحب کو لندن بلاکر بیرسٹری کا امتحان دلانے میں فراخ دلانہ تعاون کیا۔  بیرسٹر قربان علی مرحوم بڑے جذبے سے اس واقعے پر شکر گزاری کا اظہار کیا کرتے تھے ۔ خواجہ صاحب قیامِ لندن کے دوران ہفت روزہ ایشیا لاہور (مدیر: نصراللہ خاں عزیز) میں باقاعدگی سے ’مکتوب لندن‘ لکھتے رہے، جو معلومات اور راست تجزیے کا مرقع ہوتا تھا۔ لکھنے کی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے لندن کے مختلف اخبارات کو بعض اوقات مراسلے اور مختصر مضامین اپنے قلمی نام Saigal (سیگل) سے بھیجے، جو اشاعت پذیر ہوئے۔ پروفیسر احمد شاہ بخاری کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہوا کہ انھوں نے کیمبرج میں قیام کے دوران لندن کے اخبار کو مضمون بھیجا، جو نہ چھپا، لیکن پھر وہی مضمون چند روز بعد ’پطرس‘ کے نام سے بھیجا تو شائع ہوگیا۔(یہ ہے یورپ کا نام نہاد ’غیرمتعصب‘ پریس!)

خواجہ صاحب تعلیم مکمل کرکے دوبارہ مشرقی پاکستان ہی منتقل ہو گئے اور امین جیوٹ ملز کے شعبۂ حسابات سے منسلک ہوئے اور باقی وقت تحریکی مصروفیات کے لیے وقف کیا۔۱۹۶۵ء میں خواجہ محبوب الٰہی نے ڈھاکا میں جماعت اسلامی کے امیرخرم جاہ مراد اور اسلامک ریسرچ اکیڈمی کے سیکرٹری جنرل پروفیسر خورشید احمد کو تجویز پیش کی کہ اگر مولانا عبدالرحیم صاحب، امیرجماعت اسلامی مشرقی پاکستان کو تنظیمی ذمہ داریوں سے فراغت دلائی جائے اور وہ پورا وقت تفہیم القرآن کو بنگالی زبان میں ترجمہ کرنے کے لیے مختص کردیں، تو اس ضمن میں تمام مالی اخراجات کو وہ ذاتی طور پر ادا کریں گے،اور اس مد کے لیے پانچ سو روپے ماہانہ اعانت دیں گے  (یاد رہے ، تب ایک سو بیس ، پچیس روپے تولہ سونا ہوا کرتا تھا)۔  پھر ۶۷- ۱۹۶۶ میں اس تجویز پر عمل شروع ہوا ،اور مولانا عبدالرحیم صاحب نے یہ کارنامہ بہت تیزی اور کمال درجے محنت سے مکمل کردیا۔

۱۹۷۱ء میں عوامی لیگ کی بغاوت کے دوران شرپسندوں نے امین جیوٹ مل لوٹ لی اور خواجہ صاحب بہت مشکل حالات میں واپس مغربی پاکستان آئے ۔یہاں فیملی کے صنعتی اور کاروباری اداروں میں بطور معاشی مشیر ذمہ داریاں ادا کرنے لگے۔ پھر ’نیلم گلاس‘ اور ’لائنر پاک جیلاٹین‘ (کالا شاہ کاکو) پراجیکٹ کو کامیابی سے چلایا ۔

آزاد جموں و کشمیر میں ۱۹۷۲ء کے دوران اسلامی جمعیت طلبہ کا قیام عمل میں آیا، جب کہ  ۱۳جولائی ۱۹۷۴ء کو جماعت اسلامی نے مولانا عبدالباری کی قیادت میں یہاں کام کا آغاز کیا۔ قبل ازیں جماعت کے افراد زیادہ تر مسلم کانفرنس ہی کی تائید و حمایت کرتے تھے۔ یوں اس پارٹی سے وابستہ افراد کے بیٹے جمعیت کی طرف رجوع کرنے لگے۔ تاہم ۱۹۷۶ء میں ذوالفقارعلی بھٹو صاحب کے دورِ حکومت میں مسلم کانفرنس بے جا پریشانی کا شکار ہوگئی۔ اس کے قائدین اپنے بیٹوں پر ناروا دبائو ڈالتے ہوئے، بھرے جلسوں میں انھیں کھڑا کرکے ’’جمعیت میں شمولیت سے توبہ کرانے‘‘ لگے۔ یہ حالات دیکھ کر خواجہ محبوب الٰہی صاحب نے آزاد کشمیر جمعیت کے ناظم رائومحمداختر کو بلاکر کہا: ’’یہ تو بڑی ناپسندیدہ صورتِ حال ہے‘‘۔ رائو صاحب نے بتایا: ہمارا تو مسلم کانفرنس سے کوئی جھگڑا نہیں ہے، لیکن اس طرح دعوت کا کام اور کشمیرکاز ضرور متاثر ہوگا‘‘۔ خواجہ صاحب نے کہا: ’’ٹھیک ہے کوشش کرتا ہوں کہ معاملات سلجھ جائیں‘‘۔ اس ملاقات کے صرف دوروز بعد خواجہ صاحب نے کشمیر جمعیت کے ناظم کو پیغام بھیجا کہ ’’میں نے سردار عبدالقیوم خاں صاحب اور سردار سکندر حیات صاحب کو گھر کھانے پر دعوت دی ہے، آپ بھی آجائیں‘‘۔ آزاد کشمیر جمعیت کے ناظم اور جمعیت کے ناظم اعلیٰ اس دعوت میں شریک ہوئے۔ اس طرح بڑے خوش گوار ماحول میں خواجہ صاحب نے بے جا گریز اور تلخی کو ختم کرادیا، یوں دس بارہ برس تک فضا اطمینان بخش رہی۔

پاکستان بننے کے فوراً بعد جن پانچ چھے نوجوانوں کو مولانا مودودی نے شفقت سے نوازا، خواجہ صاحب ان خوش نصیبوں میں شامل تھے ، جب کہ دیگر نوجوانوں میں اسرار احمد،ظفر اسحاق انصاری ،خرم مراد، خورشید احمد اورحسین خان نمایاں تھے۔ انھوں نے اپنی والدہ اور مولانا مودودی کے ہمراہ حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی ، اور حج کے دوران ان کی خدمت گزاری کی ۔

خواجہ صاحب، جماعت کے رسائل و جرائد کی مالی اعانت بڑے تسلسل سے کرتے۔ تحریک کی مختلف ذیلی تنظیموں کی سرگرمیوں میں دلچسپی لیتے، مشورے دیتے، نئے منصوبوں کی افادیت پر گفتگو کرتے، حوصلہ بڑھاتے اور دل کھول کر مالی امداد کرتے تھے۔ جہاد افغانستان کے دوران صحت اور تعلیم کے منصوبوں میں خوب معاونت کی۔ درجنوں ذہین نوجوانوں کو میڈیکل، انجینئرنگ اور سائنس کی اعلیٰ تعلیم کے لیے مسلسل وظائف دیے۔ جہادکشمیر کے لیے مالی وسائل مختص کیے۔ حزب المجاہدین جموں و کشمیر کے سربراہ سیّد صلاح الدین نے بجا طور پرکہا: ’’خواجہ صاحب ایک خدا ترس اور جودوسخا کا پیکر تھے۔ خصوصاً بھارتی مظالم کے مارے ورثا، مہاجرین اور محبوسین کشمیر کے حوالے سے انتہائی متفکر رہتے تھے اور مالی اعانت کرنے میں پیش پیش ہوتے تھے‘‘۔ خواجہ صاحب کی اہلیہ سلمیٰ یاسمین نجمی صاحبہ نے پہلے خواتین کے ماہ نامہ بتول  اور پھر عفت  کو بڑی باقاعدگی اور بلند معیارپر شائع کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ خواجہ صاحب کو جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے ، آمین!

پاکستان میںوقتاً فوقتاً بہت سی عجیب چیزیں دیکھنے کو ملتی ہیں اور حیرت کے سمندروں میں ڈبو دیتی ہیں۔عقل، منطق، اخلاق اور شعور ماتم کرتے رہ جاتے ہیں۔ ایسا ہی معاملہ گذشتہ دنوں سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک فیصلے کی صورت میں دیکھنے میں آیا۔

’پیمرا‘ نے اے آروائی چینل کے حوالے سے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کی۔ مسئلہ یہ تھا کہ ۲۰۲۰ء میں مذکورہ چینل پر ایک ڈراما ’جلن‘ کے عنوان سے چل رہا تھا، جس میں ایک بہنوئی اپنی بیوی کی چھوٹی بہن سے عشق میں مبتلا دکھایا گیا تھا۔ پھر کہانی اور ڈرامے کے لوازمات پورا کرنے کے لیے اخلاق باختگی و بے حیائی کا پورا طرزِ بیان اپنے مناظر کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ ’پیمرا‘ کے چیئرمین نے عوامی حلقوں کے رَدعمل کے جواب میں اس ڈرامے پر پابندی لگادی۔ چینل نے سندھ ہائی کورٹ میںاستدعا کی کہ پابندی ہٹائی جائے۔ سندھ ہائی کورٹ نے فنی بنیادوں پر یہ کہہ کر پابندی ہٹادی کہ ’’پابندی عائد کرنے کے لیے سیکشن ۲۶ کے ضابطے پر عمل نہیں کیا گیا‘‘، جس پر ’پیمرا‘ نے چینل کے خلاف، سپریم کورٹ میں اپیل کردی، جہاں سے ڈھائی سال بعد ۱۲؍اپریل ۲۰۲۳ء کو دورکنی بنچ، مشتمل بر جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عائشہ ملک نے متفقہ طور پر ’پیمرا‘ کا موقف مسترد کردیا اور اے آر وائی چینل کے حق میں فیصلہ دے دیا۔

اس فیصلے میں تین نکات پر زور دیا گیا ہے:l’پیمرا‘ عوامی نمایندوں پر مشتمل ایک وفاقی اور صوبائی شکایات کے لیے کونسلیں بنائے۔  lشکایات کی کونسلیں کسی پروگرام پر پابندی کے لیے معیار مقرر کریں lفحاشی اور بیہودگی کی کیا تعریف ہے؟

بلاشبہہ کسی بھی ڈرامے پر پابندی کی مختلف وجوہ میں بنیادی پہلو اخلاقیات کی مناسبت سے سامنے آتا ہے ، جب کہ ایک مسلم معاشرے میں اخلاقیات کا قانون اور ضابطہ: قرآن، سنت، فقہ اور تاریخی نظائر کی بنیاد پر استوار ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ سے ایسی کوئی رہنمائی نہیں دی گئی کہ  ان کی نسلوں میں دینی اُمور کے ماہرین کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ عمومی حکم کی بنیاد پر یہی امکان ہے کہ معروف این جی اوز کے زیراثر اور دین بے زار لوگ ہی ایسی کونسلوں کے کرتا دھرتا بن کر فیصلے کریں گے، جیساکہ عام طور پر ہوتا آرہا ہے۔

اس فیصلے پر کلام کرتے ہوئے شریعت اور قانون کے پروفیسر محمد مشتاق صاحب کہتے ہیں:  ’’اے آر وائی کا بنیادی اعتراض تو یہ تھا کہ ’پیمرا‘ نے پابندی لگانے کےلیے اس قانونی طریقِ کار پر عمل نہیں کیا، جو ’پیمرا‘ کے قانون میں طے کیا گیا ہے اور سپریم کورٹ نے اس اعتراض کو قبول کیا ہے کہ قانون میں وضع کردہ طریقِ کار کی پابندی ضروری ہے۔ تاہم، سپریم کورٹ کے فاضل ججوں نے اس سے آگے بڑھ کر ایسی بحث شروع کی ہے ،جس کی ضرورت نہیں تھی اور پھر اس بحث میں کئی بنیادی اور اہم اُمور کو نظر انداز کردیا ہے، جن پر بات کیے بغیر وہ بحث مکمل ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ مثلاً ان کا کہنا ہے کہ ’برداشت‘ ( Tolerance)سب سے اہم 'آئینی قدر ہے اور اس معیار پر فیصلے کرنے چاہئیں۔ لیکن فاضل ججوں نے یہ نہیں بتایا کہ ’برداشت‘ سے مراد کیا ہے اور برداشت کی وسعت اسلامی اصولوں سے طے کی جائے گی یا مغربی/سیکولر/لبرل مفروضات سے؟ یہ سب سے اہم سوال ہے اور، بدقسمتی سے، اس پر بہت ہی عمومی، ادھوری اور سطحی نوعیت کی گفتگو کی گئی ہے‘‘۔

یاد رہے، آج کی دُنیا میں ’Tolerance ‘(برداشت) کوئی مجرد لغوی لفظ نہیں ہے بلکہ لبرل ازم کی ایک سوچی سمجھی اور پورے پس منظر کو لیے سیاسی و تہذیبی اصطلاح ہے، جس کا مخصوص ہدف، مفہوم اور متعین ایجنڈا ہے۔

فیصلے کے پیراگراف ۲۴ میں فاضل ججوں نے تحریر فرمایا ہے: ’برداشت‘ ایک کثیرالجہتی تصور ہے، اور عام طور پر اس سے مراد افراد یا گروہوں کے درمیان رائے، عقائد، رسم و رواج اور طرزِعمل میں اختلاف کو قبول کرنا، اور ان کا احترام کرنے کی صلاحیت رکھنا اور ان سے راضی ہونا شامل ہے۔ اس میں نسل، مذہب، ثقافت، جنس(gender)، جنسی رجحان (sexual orientation)، سیاسی نظریہ اور انسانی تنوع (diversity)کے دیگر پہلوئوں میں فرق اور اختلاف شامل ہوسکتا ہے‘‘___ صاف نظر آتا ہے کہ فیصلے میں اس اصطلاح کو ’جنس اور جنسی رجحان‘ سے منسوب کرکے، اباحیت پسندی کے پورے فلسفے کو زیرغور لائے بغیر فیصلے میں لکھ دیا گیا ہے، اور جس کے مضمرات کا اندازہ نہیں لگایا گیا۔

پروفیسر محمد مشتاق صاحب کے مطابق: ’’دلچسپ بات یہ ہے کہ فاضل ججز نے یہ تو تسلیم کیا ہے کہ ’اظہارِ رائے کی آزادی‘ کے حق پر کئی حدود و قیود قانون کے تحت لگائی جاسکتی ہیں اور یہ کہ ان حدود میں وہ بھی ہیں جو 'اسلام کی عظمت کے مفاد میں لگائی جاسکتی ہیں( یہ ترکیب آئین کی اسی دفعہ میں مذکور ہے جس میں اظہار رائے کی آزادی کے حق کی ضمانت دی گئی ہے)۔ پھر کیا یہ حیران کن بات نہیں ہے کہ ۲۰صفحات پر مشتمل اس پورے فیصلے میں ایک بھی قرآنی آیت، حدیثِ نبویؐ یا اسلامی اصول کا ذکر تک نہیں کیا گیا!

اسی طرح فاضل ججز نے ’جنسی رجحان‘ کا بھی ذکر کیا ہے، حالانکہ ’جنسی رجحان‘ پر مقدمے کے فریقوں کی جانب سے بحث ہی نہیں کی گئی! کیا فاضل ججز نے یہ ترکیب استعمال کرنے سے قبل جنس اور صنف کے متعلق آئینی دفعات پر غور کرنا ضروری نہیں سمجھا، جہاں بظاہر جنس اور صنف میں کوئی فرق نہیں ہے اور جہاں ’جنس‘ ہو یا ’صنف‘، اس کی بس دو ہی قسمیں ذکر کی گئی ہیں؟ جو لوگ ’جنس ‘اور’ صنف‘ میں فرق کرتے ہیں یا دو سے زائد جنسوں یا صنفوں کے قائل ہیں، ان کے خلاف تشدد کا عدم جواز ایک الگ امر ہے، لیکن ان اُمور کو بحث میں لائے بغیر فاضل جج یہ ترکیب کیسے استعمال کرسکتے تھے؟ یقینا اپنے نظریاتی پس منظر کی وجہ سے فاضل ججز نے ایسا ضروری سمجھا ہوگا، لیکن آئین و قانون کی رُو سے ان کےلیے مناسب طریقہ یہی تھا کہ ایسے اُمور پر کوئی بات کہنے سے قبل پوری بحث تو ہونے دیتے اور پھر اس بحث کا تنقیدی تجزیہ کرکے اپنی رائے دیتے۔ ایسا کیے بغیر اپنی مرضی فیصلے میں شامل کرنا درست نہیں ہے۔

’’فیصلے کا یہ حصہ غیر ضروری اور غیر متعلق سہی، لیکن اب اسی حصے کو معاشرے کے بعض افراد سپریم کورٹ کے فیصلے کے طور پر پیش کرکے اپنے مقاصد کےلیے استعمال کریں گے اور کون اس بحث میں پڑے گا کہ آئینی و قانونی لحاظ سے اس حصے کی کوئی حیثیت نہیں ہے‘‘۔

چونکہ اس فیصلے میں کئی ایسے امور ہیں جو واضح طور پر درست نہیں ہیں، اس لیے اس کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کی جانی چاہیے، جس میں درج ذیل اُمور پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے:

  • اظہارِ رائے کی آزادی اور معلومات تک رسائی کے حقوق کی حدود۔
  • ان حقوق پر عائد ہونے والی ان قیود کی وسعت، جو اسلام کی عظمت کے مفاد میں کسی قانون کے تحت عائد کی جاسکتی ہیں۔
  • اسلامی جمہوریہ پاکستان میں فحاشی اور آرٹ کے مفہوم کا تعین اسلامی اصولوں کی روشنی میں۔ کیونکہ اس اسلامی جمہوریہ میں تمام قوانین کی اسلام کی روشنی میں تدوین اور تعبیر ضروری ہے۔
  • '’جنسی رجحان‘ کی ترکیب کا مفہوم اور اس کی حدود کا تعین اسلامی اصولوں کی روشنی میں۔
  • میڈیا، سوشل میڈیا اور اظہار و بیان کے تمام پلیٹ فارموں پر اس فیصلے کے مضمرات پر بات ہونی چاہیے،اور رائے عامہ بیدار کرنی چاہیے۔

نظر ثانی کی درخواست مقدمے کا فریق ہی دائر کرسکتا ہے، لیکن اگر ’پیمرا‘ کو اس سے دلچسپی نہ ہو، تو پھر اس موضوع پر آئین کی دفعہ ۱۸۳ (۳) کے تحت باقاعدہ درخواست دائر کی جانی چاہیے۔ یہ ہے وہ بنیادی سوال جس پر اسلامی تشخص کے حوالے سے فکر مند تمام لوگوں کو غور و فکر اور بحث کی ضرورت ہے۔

’’خدا جانے میں نے ایسی کون سی خطا کی تھی جو تم جیسی نالائق اولاد سے مجھے نوازا‘‘۔

’’میری ساری اولاد نالائق نکل گئی‘‘۔

’’مجھ سے دوبارہ اس طرح بات مت کرنا، ورنہ تمھاری زبان کھینچ لوں گا‘‘۔

’’جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔ جب تک معاف نہ کر دوں، تم جہنم میں رہوگے‘‘۔

یہ چند ایسے جملے ہیں، جو اکثر ہمارے آس پاس بدسلوکی کے شکار اور نظرانداز کیے جانے والے بچے اپنے والدین یا بزرگوں سے سنتے رہتے ہیں۔ زبانی بدسلوکی یا جسمانی تشدد، اکثر اوقات نادانستہ طور پر سرزد ہو جاتا ہے اور ہمیں اس کے خطرناک اثرات کا علم تک نہیں ہوتا۔

بچوں کے ساتھ بدسلوکی کو نظرانداز کرنے کے دُور رس اثرات ہوتے ہیں۔ ایسی بدسلوکی کا شکار شخص جوانی بلکہ بڑھاپے تک اس کے اثر سے نہیں نکلتا، اور نتیجے کے طور پر زندگی بھر دوسرے انسانوں کو جلاتا، گھلاتا اور تباہ کرتا رہتا ہے۔ ایسا رویہ اگر مذہبی گھرانے یا افراد کے ہاں پایا جائے تو متاثرہ بچہ، خود اسلام سے بے زار ہوسکتا ہے،اور بہت سی صورتوں میں ایسا دیکھا گیا ہے۔

اس کے باوجود ہمارے معاشرے میں والدین یا خاندان کے بزرگوں کی طرف سے بچوں کے ساتھ بدسلوکی، بد تمیزی اور تشدد کو جائزبلکہ ان کی تربیت کے لیے ایک مناسب عمل تصور کیا جاتاہے، حالانکہ یہ ہمارے معاشرے کا ایک ایسا روگ ہے جو مستقل ہمارے گھر اور خاندان کو تباہ کر رہا ہے اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں۔

والدین کے ساتھ ساتھ دیگر رشتہ داروں کی جانب سے بھی کئی مرتبہ اس قسم کا رویہ روا رکھا جاتا ہے، مگر خاندان کی عزت کے نام پر ہم خاموش رہتے ہیں اور اس کا نوٹس تک نہیں لیتے۔ یقین جانیے اس طرح کے ظلم اور اذیت کے سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، جو بچے کو اس کی بڑھتی عمر کے دوران منفی طور پر متاثر کر سکتے ہیں، جس کے اثرات اس کی ذہنی یا جسمانی صحت پر بھی پڑسکتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں تو خیر اسے کوئی مسئلہ ہی نہیں سمجھا جاتا، لیکن مغرب میں بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے چند طویل مدتی مطالعات کیے گئے ہیں،جن میں سے چند ایک کے نتائج کا ذکر یہاں کیا جا رہا ہے:دماغی نشوونما میں خرابی، زبان میں بگاڑ اور تعلیمی معذوری کا باعث بننا، خراب جسمانی صحت جیسے دل کی بیماری، ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس جیسی سنگین بیماریوں کا شکار ہونا۔ نفسیاتی مرض، کمزور اعصاب اور سماجی مشکلات کا پیدا ہونا۔ ڈیپریشن یا مسلسل مایوسی کا شکار ہونا، بے چین رہنا ، کسی لت میں پڑ جانا وغیرہ۔اسی طرح جنسی بے راہ روی، منشیات، شراب نوشی اور دوسروں کے ساتھ بدسلوکی جیسے مسائل جنم لینے لگتے ہیں۔ اپنے والدین یا خاندان کے دیگر افراد کی طرف سے بدسلوکی کے بعد ان بچوں کا اپنے بزرگوں کے ساتھ جو رشتہ ہوتا ہے وہ بھی کمزور ہوتا ہے، یا ٹوٹ جاتا ہے، اور بعض صورتوں میں تو اعتماد بحال کرنا ایک ناممکن کام بن جاتا ہے۔

ہارورڈ یونی ورسٹی کے مجلّے The Harvard Gazettte (اپریل ۲۰۲۱ء) کے مطابق سماجی علوم کی ماہر ڈاکٹر کیٹی مک لافلن (Katie McLaughln)اور جان لوئب (John Loeb) نے اپنی رپورٹ How Spanking may Affect Brain Development in Children? میں کہا ہے کہ تھپڑ مارنے اور جسمانی تشدد سے بچوں کی دماغی نشوونما کو عین اسی طرح نقصان ہوتا ہے جس طرح شدید تشدد میں ہوتا ہے۔ اس سے بچوں کی دماغی صحت متاثر ہوسکتی ہے۔  علاوہ ازیں دماغ کے وہ حصے بھی متاثر ہوتے ہیں جو فیصلہ سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

اگرچہ یہ مطالعہ مختصر ہے، لیکن اس میں تین سے گیارہ برس کے ۱۴۷ ؍ایسے بچوں کا انتخاب کیا گیا، جو اسکول یا گھر میں مار کے شکار ہورہے تھے۔ ایسے بچوں کے ایک دماغی گوشے پری فرنٹل کارٹیکس (PFC) کی سرگرمی متاثر ہوتی ہے۔ بچوں پر تشدد سے ان کی نشوونما متاثر ہوتی ہے۔ ماہرین نے کہا ہے کہ بچوں کی پٹائی دائمی ڈپریشن، اداسی اور بے چینی کی وجہ بنتی ہے۔

اسلام میں والدین کو بہت اعلیٰ مقام حاصل ہے ۔ والدین کی عزت و تکریم کانہ صرف حکم دیا گیاہے بلکہ انھیں اُف تک نہ کرنے کو کہا گیا ہے ۔ تاہم، اس احترام کے نام پر خود والدین کو بچوں کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔جہاں قرآن میں والدین کے حقوق کا تذکرہ کیا گیا، اسی طرح انصاف اور عدل کو بھی قائم کرنے کے لیے کہا گیا ہے، چاہے کسی کو اپنے والدین یا رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ بولنا پڑے۔ فرمایا:

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَاۗءَ لِلہِ وَلَوْ عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ اَوِالْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ۝۰ۚ اِنْ يَّكُنْ غَنِيًّا اَوْ فَقِيْرًا فَاللہُ اَوْلٰى بِہِمَا۝۰ۣ فَلَا تَتَّبِعُوا الْہَوٰٓى اَنْ تَعْدِلُوْا۝۰ۚ وَاِنْ تَلْوٗٓا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللہَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا۝۱۳۵ (النساء ۴:۱۳۵) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علَم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو، اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زَد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریق معاملہ خواہ مال دار ہو یا غریب ، اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیر خواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اور اگرتم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔

ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اتَّقُوْا اللّهَ  وَاعْدِلُوْا  بَیْنَ أَوْلَادِكُمْ (صحیح بخاری) ’’اللہ سے ڈرو،اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو‘‘۔ ایک اور روایت کے الفاظ یوں ہیں: فَلَا تَشْہدنی اِذَا فَاِنِّی لَا اشھد عَلٰی جور (صحیح بخاری ، صحیح مسلم) ’’تب مجھے گواہ مت بناؤ،میں ظلم پر گواہ نہیں بن سکتا‘‘۔

یہاں پر ہم کچھ اپنے معاشرے سے مثالیں پیش کرتے ہیں، جن میں دیکھیں گے کہ والدین یا سرپرستوں کی جانب سے بچوں کے ساتھ اس قسم کا رویہ اپنایا گیا تو ان کے ساتھ کیا ہوا؟ ان براہِ راست مکالموں کی رپورٹنگ میں احتیاط کی خاطر شناخت ظاہر نہیں کر رہے۔

  • میرے والد نشے کے عادی ہیں۔انھوں نے ماضی میں اپنے والدین کے رویے کی وجہ سے بڑے ہوکر لوگوں کو دھوکا دیا،چوری کی اور ہر وہ غلط کام کیا جو وہ کر سکتے تھے۔ وہ مجھے اور میرے بہن بھائیوں کو مجبور کرتے ہیں کہ ہم انھیں بڑی رقم دیں، خاص طور پر جب ہمیں اپنی یونی ورسٹی سے وظیفہ ملتا ہے کہ وہ رقم انھیں دی جائے۔ ایک بار یوں ہوا کہ میں نے اپنی والدہ کو اس رقم کے بارے میں بتایا جو میں نے انھیں دی تھی۔ اس پر گھر میں قیامت برپا ہوگئی، غصے میں انھوں نے اماں کو طلاق دے دی اور آج بھی میرے والد مجھ پر ان سے طلاق کا الزام لگاتے ہیں۔

جب مجھے ان کے نشے کی لت کے بارے میں پتہ چلا تو میں نے انھیں سنبھالنے اور علاج کی کوشش کی۔ مگر اُن کا واحد مطالبہ پیسے ہیں، تاکہ وہ مرضی سے نشہ خریدیں۔ چونکہ یہ کام مجھ سے اُن کی مرضی کے مطابق نہیں ہوتاتو وہ مجھ سے کہتے ہیں کہ ’’میں تم سے خوش نہیں ہوں۔ اس لیے تم کبھی جنت کی خوشبو نہیں سونگھ سکو گے‘‘۔

کئی مرتبہ مجھ پر شدید نفسیاتی حملہ ہوا۔ ایک مرتبہ تو مجھے یقین ہو گیا کہ میرے والد نے جو کہا تھا وہ سچ تھا۔ میں نے اس وقت یہاں تک سوچا کہ خود کشی کرلوں اور اپنے آس پاس کے لوگوں پر بوجھ نہ بنوں۔ اب بھی صرف ایک ہی بار ان کی آواز سنتا ہوں جب انھیں پیسے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اُن کی اس قابلِ رحم اور دوسروں کے نزدیک شاید قابلِ نفرت حالت کے پیچھے، میرے دادا کے ہاتھوں اُن پر بچپن کا تشدد اور تذلیل ہے، جس نے اُن کی شخصیت مسخ کرکے رکھ دی۔

  • ایک اور نوجوان کا کہنا تھاکہ ’’ماں باپ سے اولاد کے تعلق کے بارے میں کچھ بولنے یا بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارا پورا وجود والدین کے لیے سپاس گزاری کا تقاضا کرتا ہے۔ ہم میں سے کتنے ہی لوگ ہیں جن کے دل اپنے بچپن کی نسبت سے، اپنے باپ کی طرف سے میلے اور دُکھی رہتے ہیں۔ اس کی ایک ہزار وجوہ ہو سکتی ہیں۔ اگر میں اپنی ماں کے ساتھ کسی کو بدتمیزی کرتے ہوئے مسلسل دیکھوں گا، اپنے یا اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ گالم گلوچ کرتے دیکھوں گا تو میرا دل اس شخص کے لیے کیسے نرم اورگداز ہوسکتا ہے؟ بھلے رشتے میں وہ میرا باپ ہی کیوں نہ ہو۔کیا کسی کے لیے ممکن ہے کہ وہ اپنی ماں کی سسکیاں، اس کی تذلیل، چہرے پر طمانچے سے پڑے نیل یا پھر کھانے میں معمولی نمک کی کمی پر پلیٹ اٹھا کر پھینک دینے اور گالم گلوچ کی اذیت کو بھول جائے؟ یا معمولی معمولی بات پر بہن بھائیوں کو تھپڑ جڑتے اور گالیاں اور طعنے سنتے دیکھے!

ہم سب کے حافظے میں ایسے واقعات یا اس سے ملتی جلتی وارداتیں محفوظ ہوتی ہیں۔ جس وقت ہماری ماں کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہوتی ہے، اس وقت ہم اس لائق تو نہیں ہوتے کہ باپ کا ہاتھ پکڑ لیں، لیکن دل میں گانٹھ تو پڑ ہی جاتی ہے۔ اس کے بعد اگر کبھی ہم ابا جان پر جاں نثار ہونے کا مظاہرہ کریں تو اس حرکت کو کیا کہا جائے گا؟ منافقت؟ کیونکہ ہمارے دل میں والد کے لیے فطری احترام کا جذبہ ختم ہوچکا ہوتا ہے،اور تشدد نے اپنا زہر ہمارے وجود میں اُنڈیل دیا ہوتا ہے۔

ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے یہاں ان نصیحتوں کا تو انبار ہے کہ باپ کے سامنے اف تک نہ کرو، باپ کی فلاں فضیلت ہے، وہ اگر ہڈیاں بھی توڑ دے تو یہ اس کا حق ہے، لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ یہی ناصحین اس پہلو سے تقریباً نہ ہونے کے برابر گفتگو کرتے ہیں کہ اولاد کا باپ پر کیا حق ہے؟ اب تک تو یہی بتانے پر زور ہے کہ سارے حقوق و فضائل باپ کے ہیں، ساری تعلیمات کا زور اولاد کو یہ باور کرانے پر ہے کہ انھیں کیا کرنا ہے؟ مگر باپ ہونے کے ناتے اولاد کے لیے اس کی ذمہ داریوں کی یاد دہانی کراتے رہنے کو شاید فضول جانتے ہیں!

اس طرح کی ہزاروں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ کیا اس کے ذمہ دار محض بچے یا اولاد ہیں یا مساوی طور پر وہ والدین ہیں جنھوں نے اپنی اولاد کو مستقل اذیت دے کر ان کی زندگیوں کو تباہ و برباد کیا ہے؟ اس حوالے سے ہمیں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہم غیرشعوری طور پر اپنی اولاد کی نظروں میں ایک وِلن اور ناپسندیدہ انسان تو نہیں بن رہے ہیں؟

اس بابت جمعے کے خطبات اور دیگر ذرائع سے بھی لوگوں کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم والدین کے حقوق کے بارے میں تو ہر جگہ سنتے ہیں، لیکن بچوں کے حقوق اور عزّتِ نفس کے حوالے سے عموماً خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔ ایک صحت مند معاشرے کے قیام کے لیے ہمیں اس رویے کو نہ صرف ختم کرنا ہوگا بلکہ ایسے والدین اور سرپرستوں کو عظیم نقصان سے خبردار کرنا چاہیے۔ نیز نبی اکرمؐ جس شفقت سے بچوں سے پیش آتے تھے اس اسوئہ حسنہ کو بھی پیش کرنے کی ضرورت ہے۔

اسلام نے بہتر معاشرے کے قیام پر زور دیا ہے اور یہ معاشرہ اسی وقت ممکن ہے جب سب کے حقوق کا تحفظ ہو۔یہ بات ہمیں بچپن ہی سے بتائی جاتی ہے کہ بڑوں کا ادب اور چھوٹوں سے پیار اسلامی تعلیمات کا اہم حصہ ہے ۔بدقسمتی سے بڑوں کے ادب کا خیال تو رہتا ہے مگر بچے پیار سے محروم رہ جاتے ہیں !

چین کی ثالثی کے نتیجے میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان حالیہ مفاہمت، مشرق وسطیٰ کے جغرافیائی اور سیاسی منظر نامے میں ایک اہم تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان مخالفت کے ایک طویل دورانیے نے بڑے پیمانے پر عدم استحکام اور عدم تحفظ کو جنم دیا، جس کا اثر پورے خطے پر پڑا تھا۔ الحمدللہ، یہ پیش رفت دو روایتی حریفوں کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام اور خطے سے باہر تعاون اور اشتراک کا ایک نیا باب رقم کر رہی ہے۔

’سعودی، ایران معاہدہ‘ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے مقاصد کے لیے مثبت نقطۂ نظر کو سامنے لاتا ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کی یہ بحالی، توانائی اور تجارتی تعاون کے لیے سازگار ماحول پیدا کرے گی، جو خود پاکستان کی معیشت کے فروغ کا باعث ہوگا۔ پاکستان کے تاریخی اور روایتی طور پر ایران کے ساتھ مضبوط تجارتی تعلقات رہے ہیں، جب کہ سعودی عرب دینی اور اقتصادی طور پر ایک اہم ملک ہے جس میں پاکستانی تارکین وطن کی بڑی تعداد موجود ہے۔ یہ معاہدہ علاقائی امن و استحکام کی جانب ایک قدم کی نشاندہی کرتا ہے۔

مشرق وسطیٰ میں پاکستان کا تعمیری کردار، قیامِ پاکستان کے بعد سے قائم ہے اور اس نے خطے کے ممالک کے درمیان خلیج کو ختم کرنے کی کوششوں کی مسلسل حمایت کی ہے۔ چین کے ’بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو‘ (BRI) کا مقصد ایک بڑی اور ایک دوسرے کے تعاون پر منحصر مارکیٹ تیار کرنا ہے۔ اس طرح بلاشبہہ چین، تجارتی اہداف کے ساتھ ساتھ اپنے عالمی اور سیاسی مفادات کو بھی فروغ دے گا۔ بی آر آئی پاکستان کی اقتصادی ترقی کے لیے اہم ہے۔ سعودی عرب اور ایران نے چین کے تعمیراتی منصوبوں کے لیے مشرق وسطیٰ کے دیگر ۱۹ ممالک کے ساتھ بی آر آئی پر دستخط کیے ہیں۔

’چین پاک اقتصادی راہداری‘ ( CPEC) کے فریم ورک کے ذریعے مشرق وسطیٰ اور چین کو بہت کچھ معاونت دے سکتا ہے۔ چین نے اقتصادی راہداری اور بی آر آئی کا ایک فلیگ شپ کوریڈور ۲۰۱۵ء میں شروع کیا تھا جس کی مالیت تقریباً ۶۲ بلین ڈالر ہے، اور اس منصوبے میں تقریباً ۲۶بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی جاچکی ہے۔ سی پیک کا دوسرا مرحلہ اس وقت جاری ہے اور مکمل ہونے پر یہ چین پاکستان کو مغربی چین سے گوادر پورٹ تک قدرتی گیس اور خام تیل کی نقل و حمل کا راستہ فراہم کرے گا۔ شمالی پاکستان میں شاہراہ قراقرم (KKH)کی تزئین و آرائش ہو چکی ہے،  جس نے دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت کے لیے نئی راہیں کھول دی ہیں اور مستقبل قریب میں اسے مزید جدید بنایا جائے گا اور وسعت دی جائے گی۔

پاکستان میں گوادر بندرگاہ کا تزویراتی (strategic) محل وقوع چین اور پاکستان دونوں کے لیے عظیم اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی امکانات پیش کرتا ہے۔ گوادر کی بندرگاہ، آبنائے ہرمز کی گزرگاہ پر واقع ہے، جو دنیا میں تیل کی ایک تہائی کھیپ کو سنبھالتی ہے، اور مشرق وسطیٰ کے ساتھ پاکستان کے اقتصادی تعلقات میں گیم چینجر ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چین ’پاکستان اقتصادی راہداری،  میں گوادر کا مقصد چین اور وسطی ایشیائی ریاستوں کو بحرہند سے جوڑنا ہے۔ پاکستان کا گوادر فری زون منصوبہ مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کر سکتا ہے، جب کہ حکومت کی طرف سے پیش کردہ ٹیکس مراعات، کاروباری اداروں کو وہاں صنعت کاری کرنے کی ترغیب دے سکتی ہیں۔ صنعت کاری کے مرکز (Hub) کے طور پر گوادر کی صلاحیت چینی اور مشرق وسطیٰ کی کمپنیوں کو بھی اپنی طرف متوجہ کر سکتی ہے، جو اپنے صنعتی اور تجارتی اہداف کو وسعت دینے کے خواہاں ہیں۔

ایران، بھارت اور چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو اسٹرے ٹیجک طور پر متوازن بنا رہا ہے کیونکہ وہ خطے میں اثر و رسوخ کے لیے مقابلہ کرتے ہیں۔ بھارت، چابہار بندرگاہ میں سرمایہ کاری کرکے علاقے میں پاکستان کو نظرانداز کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ لیکن یہ غیر یقینی ہے کہ بھارت ایران کے ساتھ تعلقات برقرار رکھے گا کیونکہ امریکا کے ساتھ بھارت کے تعلقات بڑھ رہے ہیں۔ بی آر آئی میں ایران کی شمولیت کے اس فیصلے سے ایران کا کردار کیا ہوگا؟ یہ توجہ طلب پہلو ہے۔ تاہم، پاکستان کی گوادر پورٹ میں چین کی سرمایہ کاری، چابہار میں بھارت کی سرمایہ کاری کا مقابلہ کرتی ہے۔ یہ دونوں ممالک کے ساتھ ایران کے تعلقات کو متاثر کر سکتی ہے۔ بہر حال، چابہار کو گوادر سے جوڑنے والی ایک شاہراہ اور قدرتی گیس کی پائپ لائن کی تعمیر ایران کو گوادر کے راستے پاکستان اور چین کو قدرتی گیس برآمد کرنے کے قابل بنا سکتی ہے، جس سے پاکستان اور ایران کے درمیان کثیر جہتی تعاون کے مواقع موجود ہیں۔

چین کا ۲۰۲۱ء میں ایران کے ساتھ ۲۵ سالہ اسٹرے ٹیجک تجارت اور سرمایہ کاری کا معاہدہ، جس کی مالیت ۳۰۰ بلین ڈالر ہے، یہ اس کے ’بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو‘ (BRI)کا حصہ ہے۔ اس اقدام کو چابہار گہرے پانی کی سمندری بندرگاہ میں بھارتی سرمایہ کاری کو چیلنج کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ پھر اس معاہدے میں سعودی عرب کی شمولیت سے خطے میں امن قائم ہوسکتا ہے جو پاکستان کے لیے خوش آیند پیش رفت ہے۔ معاہدے کے تحت توانائی کی فراہمی کے لیے پاکستان کے راستے کی ضرورت ہوگی۔ اسلام آباد ممکنہ طور پر ایران سے تیل اور گیس رعایتی شرح پر حاصل کرے گا، جب کہ چین، ایرانی تیل سے کم از کم ۱۲  فی صد کی رعایت پر فائدہ اٹھائے گا۔

سعودی ایران تعلقات کی خوش گواری، پاکستان کے لیے سعودی عرب کے دباؤ کے بغیر ایرانی تیل اور گیس حاصل کرنے کا ایک موقع بھی فراہم کرتی ہے۔ سی پیک میں سعودی عرب کی سرمایہ کاری بشمول گوادر میں ایک بڑی آئل ریفائنری کا قیام خطے کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔ مزید برآں، سی پیک منصوبے کے تحت ڈبل ٹریک ریلوے اور پائپ لائنیں، جو اس وقت زیر تعمیر ہیں، مشرق وسطیٰ اور چین کے درمیان سامان کی آمدورفت کے لیے ایک نیا چینل بنائیں گی، جس سے مخصوص جغرافیائی صورتِ حال میں باہم اقتصادی اور سیاسی انحصار میں اضافہ ہوگا۔ پاکستان  ان ممالک کے درمیان راستوں کو جوڑ کر اور سستے نرخوں پر تجارت کر کے نمایاں آمدنی حاصل کر سکتا ہے، جس سے اس کی معیشت کو نمایاں فروغ حاصل ہو گا۔

گوادر پورٹ شہر کی ترقی پاکستان میں سیاحت کی صنعت کو فروغ دینے اور عرب ممالک سے براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ یہ جدید نقل و حمل کا بنیادی ڈھانچا ہے اور اعلیٰ ترین سہولیات دنیا بھر کے سیاحوں کو خاص کر مشرق وسطیٰ کے سیاحوں کو راغب کر سکتا ہے۔ مزید برآں، گوادر اسپیشل اکنامک زونز اور ری ایکسپورٹ زونز کی جاری ترقی سے پاکستان کی معیشت کو فروغ ملے گا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پہلے ہی گوادر کے  آئل ٹرمینل سٹی میں بڑی سرمایہ کاری کا اعلان کر چکے ہیں۔ سابقہ حکومت نے ۲۰۱۹ء میں پیٹرو کیمیکلز میں ۱۰بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی اور بعد میں آئل ریفائنری کی تعمیر کے لیے ۵ بلین ڈالر کے مشترکہ منصوبے کی تیاری کی جارہی تھی۔

آخر میں، سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کا معمول پر آنا پاکستان کے لیے دونوں ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے اور بڑھتے ہوئے اقتصادی تعاون سے فائدہ اٹھانے کا ایک اہم موقع فراہم کرتا ہے۔ BRI میں ایک اہم کھلاڑی کے طور پر، پاکستان اس نئی پیش رفت سے فائدہ اٹھانے کے لیے اچھی پوزیشن میں ہے اور امید ہے کہ یہ پیش رفت مشرق وسطیٰ میں امن و استحکام کے فروغ کا باعث بنے گی۔ مگر اس سب کچھ کے لیے ملک میں امن اور خارجہ پالیسی میں توازن اور معاملات میں شفافیت ضروری ہے۔

سوال: سورۂ بقرہ کی آیت ۱۹۶ میں میقات سے باہر رہنے والوںکو عمرہ اورحج ایک ہی سفر میںکرنے کی اجازت ہے ۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ مسجد حرام کے قریب رہنے والے حج کے موسم یعنی شوال، ذی قعدہ اور ذی الحجہ کی ۱۲،۱۳ تاریخ تک عمرہ نہیں کرسکتےاورنہیں کرنا چاہیے؟جوکوئی قریب رہنے والا موسم حج میں نیکی سمجھ کر عمرہ کرے گا غلطی کرے گا، اسی لیے آخر میں ہے :وَاتَّقُوا اللہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝۱۹۶ (البقرہ۲:۱۹۶)’’اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ اللہ سخت سز ا دینے والا ہے ‘‘۔

مقامی لوگ حج ختم ہونے کے بعدآخرِ رمضان تک جب چاہیں عمرہ کرسکتے ہیں ، لیکن جیسے ہی شوال شروع ہو وہ عمرہ نہیں کرسکتے، وہ صرف باہر کے افراد ہی کریں گے۔ اگر کوئی مقامی فرد ایامِ حج میں عمرہ کرے تو اس نے غلطی کی ،چاہے وہ حج کرے یا نہ کرے۔ اگروہ حج کرے گا تو دم دینے والی رائے زیادہ قوی لگتی ہے ۔ یہ دم جنایت ہوگا، جب کہ باہر سے آنے والے عمرہ اورحج کرنے پر جوقربانی کرتے ہیں وہ دم شکر گردانا جائےگا؟

جواب : سورۂ بقرہ کی آیت ۱۹۶ میں فرمایا گیا ہے :’’ جوشخص تم میں سے حج کا زمانہ آنے تک عمرے کا فائدہ اُٹھائے وہ حسب مقدور قربانی کرے اور اگرقربانی میسر نہ ہوتو تین روزے حج کے زمانے میں اور سات گھر پہنچ کر ، اس طرح پورے دس روزے رکھ لے‘‘۔ اس کے بعد آیت کا ٹکڑا ہے : ذٰلِكَ لِمَنْ لَّمْ يَكُنْ اَھْلُہٗ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْـحَرَامِ۝۰ۭ  ’’یہ رعایت ان لوگوں کے لیے ہے جن کے گھربار مسجد حرام کے قریب نہ ہوں‘‘۔

اس آیت میںبتایا گیا ہے کہ باہر سے آنے والے ایک ہی سفر میں عمرہ اور حج دونوں کرسکتے ہیں۔ بس انھیںقربانی کرنی ہوگی، یا دس روزے رکھنے ہوں گے۔ اس کے ذریعے دراصل عرب جاہلیت کے اس خیالِ خام کا رَد کیا گیا ہے جوسمجھتے تھے کہ عمرہ اور حج کے لیے الگ الگ سفر کرنا ضروری ہے۔ ایک ہی سفر میں دونوں کی انجام دہی گناہ ہے ۔ اس سہولت سے ان لوگوں کو مستثنیٰ کردیا گیا ہے جومکہ کے آس پاس میقاتوں کی حدود میںرہتے ہوں ، اس لیے کہ ان کے لیے عمرہ اورحج دونوں کے لیے الگ الگ سفر کرنا کچھ مشکل نہیں ۔

اس سے یہ استنباط کرنا صحیح نہیں ہے کہ میقات کے اندر رہنے والوں کے لیے ایامِ حج (شوال، ذی قعدہ اورذی الحجہ کے ابتدائی ۱۲،۱۳ دن ) میں عمرہ کرنا درست نہیں ۔ وہ بھی ان ایام میںعمرہ کرسکتے ہیں: علامہ قرطبیؒ نے لکھا ہے:اخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِیْمَنْ اعْتَمَرَ فِی أَشْہُرِ الْحَجِّ، ثُمَّ رَجَعَ اِلٰی بَلَدِہٖ وَمَنْـزِلِہٖ، ثُمَّ حَـجَّ مِنْ عَامِہٖ  فَقَالَ الْجُمْہُوْرُ مِنَ الْعُلَمَاءِ : لَیْسَ بِمْتَمَتِّعٍ ، وَلَا ہَدْیَ عَلَیْہِ وَلَا صِیَامَ   (الجامع لاحکا م القرآن،ج۳،ص ۳۰۷) ’’جو شخص حج کے مہینوں میں عمرہ کرے ، پھر اپنے علاقے اورگھر کی طرف لوٹ جائے ، پھراسی سال حج کرےتو جمہور علما کہتے ہیں کہ وہ متمتع ( حج تمتع کرنے والا) نہیںہوگا۔ نہ اس پر قربانی واجب ہوگی، نہ اس کے ذمے روزے لازم ہوں گے‘‘۔

البتہ یہ بات صحیح ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک حجِ تمتع اور حجِ قِرَان کی سہولت صرف میقات سے باہر رہنے والوں کے لیے ہے ۔ میقات کے اند ررہنے والے صرف حجِ افراد کریں گے، اگروہ حجِ تمتع یا حجِ قِرَان  کریں تو وہ بھی دم دیں گے (یعنی قربانی کریں گے) ، لیکن وہ دم تمتع کا نہ ہوگا بلکہ جنایت کا ہوگا، چنانچہ خودان کے لیے اس کا گوشت کھانا جائز نہ ہوگا۔جب کہ امام شافعیؒ کے نزدیک وہ بھی حجِ تمتع اور حجِ قِرَان  کرسکتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ آیت میں اشارہ ھَدْی (قربانی) اورصیام (روزہ) کی طرف ہے کہ اس کا حکم صرف میقات کے باہر رہنےوالوں کے لیے ہے۔ (تفسیر قرطبی،ج۳،ص ۳۱۸)

آیت کے آخر میں وَاتَّقُوا اللہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝۱۹۶  عمومی بیان ہے ۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواحکام دیے گئےہیں ان پر عمل کرو، ورنہ اس کی سزا سے نہیں بچ سکتے۔(مولانا محمد رضی الاسلام ندوی)

سیرت عشرہ مبشرہؓ، حافظ محمد ادریس۔ ناشر: ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور۔ فون: 042-35252419۔ صفحات: ۸۰۰۔ قیمت(مجلاتی سائز): ۳ہزار روپے ۔

سیرتِ طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں کے لیے، تمام زمانوں میں سرچشمۂ ہدایت ہے اور اس سے براہِ راست فیض پانے والے صحابۂ کرامؓ دُنیا کے خوش نصیب ترین انسان ہیں۔ اور ان میں سب سے بلند مرتبہ وہ اصحابِ رسولؐ ہیں، جنھیں عشرہ مبشرہؓ یعنی وہ دس لوگ کہ جنھیں اِس دُنیا میں آخرت میں کامیابی کی بشارت دے دی گئی تھی۔

حافظ محمد ادریس صاحب کی زندگی علم کی شاہراہ پر چلتے اور دعوتِ حق کے پھول کھلاتے گزری ہے۔ زمانۂ طالب علمی ہی سے انھیں صحابۂ کرامؓ کی زندگیوں کے مطالعے اور اس سے حاصل کردہ نتائجِ فکر نوجوانوں میں بیان کرنے سے طبعی رغبت تھی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ صحابہؓ کی زندگی کی مناسبت سے ان کی پہلی کتاب روشنی کے مینار شائع ہوئی۔بعدازاں سیرتِ طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مربوط سسٹم کے تحت پڑھا بھی، لکھا بھی اور سیکڑوں اجتماعات میں بیان بھی فرمایا۔

عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں: حضرت ابوبکرصدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علی بن ابی طالبؓ، حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ، حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ، حضرت زبیر بن العوامؓ، حضرت سعید بن زیدؓ__ ان صحابہ کبار رضوان اللہ علیہم اجمعین کی پاکیزہ زندگیوں پر الگ الگ اور یک جا صورت میں کئی فاضلین نے پہلے بھی گراں قدر سوانحی کتب تحریر کی ہیں۔ ان کی موجودگی کے باوجود جناب حافظ محمد ادریس کی زیرنظر کتاب کئی حوالوں سے منفرد ہے۔ جس میں انھوں نے ان حضرات کی زندگیوں کی دعوتی کاوشوں، عملی کارناموں، تربیتی اسلوب اور انسانیت کی تعمیروترقی میں ہمہ پہلو کردار کومرتب انداز میں پیش کیا ہے۔ حافظ صاحب کا اسلوبِ بیان سادہ، رواں اور دل میں اُترنے والا ہے۔ یہ کتاب طالبانِ علم کے لیے واقعی روشنی کے میناروں کی بلندی کا ذریعہ بنے گی۔(س م خ )


علّامہ اقبال اور فتنۂ قادیانیت، محمد متین خالد۔ ناشر:علم و عرفان پبلشرز، اُردو بازار، لاہور۔  فون:042-37352332۔صفحات: ۷۵۱۔ قیمت: ۲۰۰۰روپے۔

علّامہ اقبال کے سوانح سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی زمانے میں وہ قادیانیوں کے بارے میں قدرے نرم گوشہ رکھتے تھے، لیکن محمد الیاس برنی کی کتاب قادیانی مذہب کا مطالعہ ان کے لیے چشم کشا ثابت ہوا۔ پھر علّامہ اقبال نے قادیانیوں اور قادیانیت کی اصلیت کو متعدد مضامین کے ذریعے بے نقاب کیا۔ جناب علّامہ کے بھتیجے شیخ اعجاز احمد ایک غالی قادیانی تھے۔ انھوں نے اپنی کتاب مظلوم اقبال میں علّامہ اقبال کے موقف کو مصلحت پرستانہ قرار دیا، جس کی مدلّل تردید زندہ رُود میں فرزند اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال نے کی ہے۔

علّامہ اقبال اور قادیانیت کے موضوع پر بیسیوں اہل قلم نے مضامین لکھے۔ قادیانیت شناس محمد متین خالد نے اس موضوع پر جملہ تحریروں کو یکجا کرکے زیرنظر کتاب مرتب کی ہے۔ اپنے موضوع پر یہ ایک مفصل اور مبسوط مطالعہ ہے۔ مجلد کتاب اہتمام سے شائع کی گئی ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)


اہلِ قرآن‘ کا تاویلی فلسفۂ ختم نبوت، تحقیقی مطالعہ، ڈاکٹر ظفراقبال خان۔ ناشر:کتاب سرائے، الحمدمارکیٹ، اُردو بازار، لاہور۔ فون: 0332-6771768۔صفحات ۵۴۴۔ قیمت : درج نہیں۔

ڈاکٹر انوار احمد بگوی کے بقول:’’ڈاکٹر ظفراقبال علم کے دھنی اور قلم کے مجاہد ہیں، جو ایک دُورافتادہ مقام پر بیٹھ کر تسلسل کے ساتھ تحقیقی و تصنیفی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ جھنگ کے ایک دُورافتادہ قصبے حویلی بہادر شاہ میں انھوں نے تعمیرانسانیت لائبریری کے نام سے ایک بڑا کتب خانہ فراہم کر رکھا ہے‘‘۔وہ بیرون شہر سے آنے والے تحقیق کاروں کو استفادے کی سہولت دیتے ہیں اور اُن کی مہمان نوازی بھی کرتے ہیں۔

زیرنظر کتاب میں انھوں نے فلسفۂ ختم نبوت کے سلسلے میں بعض گمراہ مصنّفین اور مفکرین (خصوصاً غلام احمد پرویز، ڈاکٹر عبدالودود، اسلم جیراج پوری وغیرہ) کی تاویلات کا تجزیہ کرکے ان کا رَد پیش کیا ہے۔ اپنے موضوع پر یہ ایک مدلل اور مفصل کتاب ہے۔ اسلوبِ بیان فلسفیانہ ہے، اس لیے عام فہم نہیں بلکہ عالمانہ ہے۔ کتاب اہتمام سے شائع کی گئی ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


تاریخ مخزنِ پاکستان (جلداوّل) ، مہر محمد بخش نول۔ ناشر: قلم فائونڈیشن ، بنک سٹاپ ، والٹن روڈ، لاہور کینٹ ۔ رابطہ : 0300-0515101 ۔ صفحات :۹۳۶۔ قیمت: ۳ ہزارروپے۔

نول صاحب نے یہ ایک منفرد نوعیت کی کتاب تصنیف کی ہے جو پاکستان کے شہروں، قصبوں، گوٹھوں اور گائوں اور ان کے اندر واقع قلعوں، بیراجوں، عمارتوں کی تاریخ اور تعارف پر مشتمل ہے۔ بڑے شہروں پر تو معلوماتی کتابیں مل جاتی ہیں اور قصبوں پر بھی کچھ نہ کچھ لکھا گیا ہے مگر چھوٹے چھوٹے گائوں کا تذکرہ پہلی بار سامنے آیا ہے، مثلاً کسی گائوں کا پرانا نام، آباد کیسے اور کب ہوا؟ آبادی؟ کس قریبی شہر یا قصبے سے فاصلہ؟ وہاں اسکول پرائمری یا مڈل یا ہائی؟ پینے کا پانی؟ اسلام کوٹ نام کے دو گائوں ہیں، اسی طرح اسلام گڑھ (چولستان)، اسلام گڑھ (گجرات)، ایک شہر، قصبے یا گائوںکی تاریخ کے ساتھ اس کی معروف شخصیات کا تعارف مع تصاویر، تصاویر بکثرت۔نول صاحب نے بذریعہ سائیکل، موٹرسائیکل، بس، چنگ چی اور اپنی گاڑی سے سفر کیا اور اپنے کیمرے سے تصاویر بنائیں۔ کل ۲۲۰۰ مقامات کا تذکرہ ہے۔

تقریباً اسّی برس کی عمر میں مصنف کی جانب سے ایسی گہری تحقیق کرنا اور ایک طرح کا دائرہ معارف (انسائی کلوپیڈیا) مرتب کرنا، جان جوکھوں اور کمال کا کام ہے۔ نول صاحب، مبارک باد کے مستحق ہیں۔ صدارتی تمغے اور اوارڈ کا مستحق اُن سے زیادہ کون ہوگا؟ (رفیع الدین ہاشمی)

امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم عام ہے، مگر اس پر عمل کرنے میں آدمی کو حکمت ملحوظ رکھنی چاہیے۔موقع و محل کو دیکھے بغیر ہرجگہ ایک ہی لگے بندھے طریقے سے اس کام کو کرنے سے بعض اوقات اُلٹا اثر ہوتا ہے۔ اس کا کوئی ایسا طریقہ بتادینا مشکل ہے، جس پر آپ آنکھیں بند کرکے عمل کرسکیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ خود آہستہ آہستہ اپنے تجربات سے سبق حاصل کریں اور رفتہ رفتہ اپنے اندر اتنی حکمت پیدا کریں کہ ہرموقع اور ہرآدمی اور ہرحالت کو سمجھ کر امربالمعروف یا نہی عن المنکر کی خدمت انجام دینے کا ایک مناسب طریقہ اختیار کرسکیں۔

اس کام میں اوّل اوّل آپ سے بھی غلطیاں ہوں گی، اور بعض مواقع پر غلطی آپ کی نہ ہوگی، مگر دوسرے شخص کی طرف سے جواب نامناسب ہوگا۔ لیکن یہی تجربات آپ کو صحیح طریقہ سکھاتے چلے جائیں گے بشرطیکہ آپ بددل ہوکر اس کام کو چھوڑ نہ دیں، اور ہرتجربے کے بعد غور کریں کہ اس میں اگر آپ سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو وہ کیا ہے اور دوسرے نے اگر ضد یا ہٹ دھرمی سے کام لیا ہے تو اسے راہِ راست پر لانے کا بہتر طریقہ اور کیا ہوسکتا ہے؟

یہ بھی خیال رکھیے کہ یہ کام بڑا صبر چاہتا ہے۔ جہاں آپ بُرائی دیکھیں اور محسوس ہو کہ اس وقت اس پر ٹوکنا مناسب نہیں ہے تو ٹال جایئے اور دوسرا کوئی مناسب موقع اس کے لیے تلاش کرتی رہیے۔ اس کے علاوہ ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جس جگہ ایسی کوئی بُرائی ہو کہ اس کو ٹوکنا آپ کے لیے مشکل ہو تووہاں سے ہٹ جایئے اور اگر کوئی صحبت یا تقریب اس قسم کی ہو تو اس سے الگ رہیے۔ ایسے مواقع پر لوگ بالعموم خود آپ کی علیحدگی کی وجہ پوچھیں گے۔ اس وقت آپ کو یہ موقع مل جائے گا کہ بڑی نرمی کے ساتھ وجہ بیان کریں اور یہ کہہ دیں کہ ’آپ لوگوں کو روکنا تو میرے بس میں نہیں ہے، مگر احکامِ خدا و رسولؐ کی خلاف ورزی میں شریک ہونے کی جرأت بھی میرے اندر نہیں ہے‘۔(’رسائل و مسائل‘ ، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، ج ۶۰، عدد۳، جون ۱۹۶۳ء، ص۵۸)