اپریل ۲۰۰۹

فہرست مضامین

آئو اکٹھے جنت چلیں!

اظہار احمد | اپریل ۲۰۰۹ | تزکیہ و تربیت

Responsive image Responsive image

اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں اس دنیا میں ایک خاندان کا حصہ بنایا ۔ ایک وقت آتا ہے جب بزرگ ساتھی دنیا سے چلے جاتے ہیں اور کچھ ننھے ننھے بچے اسی خاندان کا حصہ بن جاتے ہیں۔ زندگی اسی طرح رواں دواں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ انعام مانگے بغیر ہی عنایت کردیا کہ خاندان کے افراد میں آپس میں محبت پیدا کردی۔ ماں باپ کی محبت، بیوی کی محبت، خاوند کی محبت، بچوں کی محبت اور پھر اگلی پود، یعنی بچوں کے بچوں سے محبت۔ یہ محبت نہ صرف بڑوں کو بچوں سے ہوتی ہے بلکہ بچے بھی اپنے سے بڑوں کی محبت کا معصومانہ انداز میں اظہار کرتے ہیں۔ چند بدنصیب اس دنیا میں ایسے بھی ہوسکتے ہیں، اور ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے اس سے محروم رکھا، یا وہ خود محروم رہ گئے۔ محبت کا یہی باہمی جذبہ ہے جو ہمیں ایک دوسرے کا خیال رکھنے اور ایک دوسرے کی بہتری کے لیے کوشش اور مدد کرنے پر اُبھارتا ہے۔ کوئی عزیز تکلیف میں ہو تو آنکھیں پُرنم ہوجاتی ہیں۔ کسی کو خوشی ملتی ہے تو خوشیاں بانٹنے کو دل چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں دعا کا ہتھیار دیا ہے۔ ہم ہروقت دعائوں کا سہارا لیتے ہیں۔ ایک دوسرے کی خوشی،عافیت اور سلامتی کے لیے دعائیں مانگتے ہیں، ایک دوسرے کی بہتری چاہتے ہیں، اور اپنی تمنائیں اللہ تعالیٰ کے سامنے رکھتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرا انعام بھی ہم پر کیا ہے۔ وہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کو اچھائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں___ کیوں؟ اس لیے کہ لوگ بُری عادات اور بُرے انجام سے بچ سکیں۔ یہ امربالمعروف نہی عن المنکرمسلم معاشرے کی خوب صورتی ہے۔ یہاں انسان نہ صرف ایک دوسرے کی بھلائی چاہتے ہیں، بلکہ ایک دوسرے کی مدد کے لیے بھی تیار رہتے ہیں۔ آج کل کے لوگ اس عمل کو شخصی آزادی میں رکاوٹ سمجھتے ہیں مگر  یہ بھول جاتے ہیں کہ معاشرہ ظالم کو ظلم سے نہ روک کر دراصل ظالم کی مدد کر رہا ہوتا ہے۔

بات محبت کے جذبے کی ہو رہی تھی۔ جب کوئی اپنا اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو قدرتی طور پر دل بے تاب ہوجاتا ہے۔ پھر دعا کا سہارا لیا جاتا ہے___ اے اللہ! اسے جنت الفردوس میں جگہ عطا فرما، اس کے مراحل آسان کردے، اس کے درجات بلند فرما دے___ کون چاہتا ہے کہ اس کا عزیز، والدین، بچے، بیوی، خاوند اور دیگر عزیز و اقارب جنت میں نہ جائیں۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بشارت دی ہے کہ اہلِ خاندان کا جنت میں ساتھ ناممکن نہیں تو پھر کیوں نہ ہم کوشش کریں کہ اکٹھے جنت چلیں۔

محبت کے جذبے کا سرچشمہ اللہ کی ذات پاک ہے مگر اس محبت کا حصول مشروط ہے۔  اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اے نبیؐ! لوگوں سے کہہ دو کہ ’’اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو، تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھاری خطائوں سے درگزر فرمائے گا۔ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے‘‘۔ اُن سے کہو کہ ’’اللہ اور رسولؐ کی اطاعت قبول کرو‘‘۔ پھر اگر وہ تمھاری یہ دعوت قبول نہ کریں، تو یقینا یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ ایسے لوگوں سے محبت کرے، جو اس کی اور اس کے رسولؐ کی اطاعت سے انکار کرتے ہوں‘‘۔ (اٰل عمرٰن۳:۳۱-۳۲)

یہ آفاقی اصول ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ قانون بتا دیا ہے اور زندگی کا اصول بھی یہی ہے کہ یہ ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے محبت کرے جو اس کی اور اس کے رسولؐ کی اطاعت سے انکار کرتے ہوں۔ یہ بات ہمیشہ پیش نظر رہے کہ اگر ہم اللہ سے محبت کریں گے، تو وہ ہم سے محبت کرے گا___ کوئی خاندان، کوئی رشتے داری، کوئی حسب و نسب ہمیں اللہ کی محبت کا دعوے دار نہیں بناسکتا۔ یہ محبت کیا ہے؟ اور پھر اللہ سے محبت!___ اللہ سے محبت یہی ہے کہ ہماری مرضی اور پسند، اللہ اور اس کے رسولؐ کی پسند کے تابع ہوجائے۔ اس کا کہا مانا جائے، اس پر عمل کیا جائے، اور اس کا حکم بلاچوں و چرا بجا لایاجائے۔ یہ نہیں کہ حی علی الصلٰوۃ ، حی علی الفلاح کی صدا بلند ہو اور ہم ٹس سے مس نہ ہوں۔

یہ بڑی سادہ اور سیدھی بات اور واضح اصول ہے جو ہمیشہ ہمارے پیش نظر رہنا چاہیے، اور جو یہ اصول نہیں مانتے ان کے لیے کسی لگی لپٹی کے بغیر تنبیہہ ہے: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق نہ بنائو اگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں۔ تم میں سے جو ان کو رفیق بنائیں گے وہی ظالم ہوں گے‘‘ (التوبہ ۹:۲۳)۔ گویا جن سے محبت کے دعوے ہوتے ہیں، جن کے لیے آدمی راتوں کو جاگتا اور تکلیف اٹھاتا ہے، اگر وہ بھی ایمان پر کفر کو ترجیح دیں تو ان کو ساتھی بنانے سے بھی منع کردیا گیا ہے۔ اس کے باوجود جو ایسا کرے اسے ظالم قرار دیا گیا ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ظالم کے لیے قرآن مجید میں کیا کیا احکام ہیں اور ان کا کیا انجام بتایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ظلم کرنے سے باز رکھے، اور اللہ نہ کرے کہ کسی وجہ سے ہمارا شمار ظالموں میں ہو۔ اللہ تعالیٰ بڑی صاف بات فرما رہے ہیں کہ یہ دوغلی پالیسی نہیں چلے گی، اور پھر دعاے قنوت میں بھی ہم روزانہ وعدہ کرتے ہیں کہ: ’’ہم نافرمانی نہیں کرتے اور چھوڑ دیتے ہیں اس شخص کو جو تیری نافرمانی کرے‘‘۔

دنیا میں ہمارے ساتھی___ والدین، زوجین، یعنی خاوند اور بیوی اور پھر اولاد___ یہی لوگ مل کر عموماً خاندان بناتے ہیں، اور اکٹھے ماہ و سال بسر کرتے ہیں۔ مغرب کے خاندان کا تصور ہمارے پیشِ نظر نہیں جہاں والدین کو خاندان سے باہر بلکہ بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ یہ تو ہمارے خاندان کا حصہ ہیں، آپس میں محبت کی لڑی میں پروئے ہوئے موتی ہیں جن کی ہمیں فکر رہتی ہے، ان کی بہتری کی خواہش بھی رہتی ہے، اور اگر انھیں تکلیف پہنچے تو طبیعت غمگین ہوجاتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بشارت دی ہے کہ یہی والدین، زوج اور اولاد جنت میں بھی ساتھی بن سکتے ہیں۔ یہ کیوں کر ممکن ہے اور اس کے لیے نسخۂ کیمیا کیا ہے؟ فرمایا:

اے ہمارے رب، اور داخل کر اُن کو ہمیشہ رہنے والی اُن جنتوں میں جن کا تو نے  اُن سے وعدہ کیا ہے اور اُن کے والدین اور بیویوں اور اولاد میں سے جو صالح ہوں(اُن کو بھی وہاں اُن کے ساتھ ہی پہنچا دے)،   ُتو بلاشبہہ قادرِ مطلق اور حکیم ہے۔ (المومن: ۴۰:۸)

ان آیات کے ذریعے دراصل ہمیں اِس دعا کی تعلیم دی گئی ہے۔ یاد رکھیے، یہ دعائیں  اللہ تعالیٰ نے یونہی تو نہیں بتائیں___ یہ اس لیے بتائی ہیں کہ قبول بھی ہوتی ہیں۔ ہمیں قرآن پاک کے الفاظ پر جتنا یقین ہے، اسی طرح اس بات پر بھی یقین ہونا چاہیے کہ یہ دعائیں نری لفاظی نہیں ہیں بلکہ اللہ کا وعدہ ہیں۔ سوچیں تو سہی، وعدہ کون کر رہا ہے، پھر پورا کیوں نہ ہوگا! بہرحال شرائط تو ہمیں پوری کرنی ہیں۔ یہاں دیکھیے والدین، بیویوں اور اولاد کے لیے جنت کی نوید ہے اور پھر شرط بھی ہے___ کہ وہ جو صالح ہوں، وہی مستحق ہوں گے۔

قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر بیویوں اور اولاد کے لیے جنت کا وعدہ ہے مگر یہ وعدہ دوشرائط کے ساتھ مشروط ہے___ صالح ہونا اور صابر ہونا۔ سورئہ رعد میں اہلِ ایمان کی صفات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا گیا:

آخرت کا گھر اِنھی لوگوں کے لیے ہے، یعنی ایسے باغ جو اُن کی ابدی قیام گاہ ہوں گے۔ وہ خود بھی ان میں داخل ہوں گے اور ان کے آباواجداد اور اُن کی بیویوں اور  اُن کی اولاد میں سے جو جو صالح ہیں وہ بھی امن کے ساتھ وہاں جائیں گے۔ ملائکہ ہرطرف سے اُن کے استقبال کے لیے آئیں گے اور اُن سے کہیں گے کہ ’’تم پر سلامتی ہے، تم نے دنیا میں جس طرح صبر سے کام لیا، اُس کی بدولت آج تم اِس کے مستحق ہوئے ہو‘‘۔ پس کیا ہی خوب ہے یہ آخرت کا گھر! (الرعد۱۳:۲۳-۲۴)

یہ کتنی بڑی خبر اور خوش خبری ہے کہ ہمارے گھر والے بھی جنت میں اکٹھے ہوں گے!     اللہ تعالیٰ ہمیں اور اہلِ خاندان کو اس مرتبے کے قابل بنادے___ آمین!


کام کا آغاز کیسے ہو؟ کیا محنت کرنی ہے، کیا ہے جو سمجھنا ضروری ہے اور کون سا راستہ ہے جو پورے خاندان کو اکٹھے جنت کی طرف لے جاسکتا ہے؟

  •  آغاز، شریکِ حیات کے انتخاب سے: بات وہاں سے شروع کرتے ہیں جہاں سے خاندان کی بنیاد رکھی جاتی ہے، یعنی جب شریکِ زندگی کی تلاش کی جاتی ہے۔ سفر کا آغاز نیک اور صالح ہم سفر کی تلاش اور انتخاب سے کیا جائے۔ حدیث میں تعلیم دی گئی ہے کہ اس انتخاب کا فیصلہ دین اور اخلاق کی بنیاد پر کریں ورنہ دنیا میں فساد پھیل جائے گا___ جبھی اس فیصلے میں برکت ہوگی۔

یہ کام بڑی ذمہ داری اور سنجیدگی کا حامل ہے۔ جب ہماری اگلی نسل کا دارومدار اسی پر ہے تو پھر سُستی کیوں؟ پھر یہ کام انتخاب پر رُک تو نہیںجاتا۔ آپ کی شادی ہوگئی تو آگے چھوٹے بہن بھائی ہیں، بچے ہیں___ یہ تو ہمیشہ چلنے والا کام ہے اور بڑی سنجیدگی اور دانش مندی سے کرنے کا کام ہے۔

شادی کے بعد اولاد کی فکر ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس پر مکمل قدرت رکھتے ہیں کہ وہ جسے چاہیں اولاد عنایت فرما دیں: ’’اللہ زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے، جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں ملاجلا کر دیتا ہے، اور جسے چاہتا ہے بانجھ کردیتا ہے۔ وہ سب کچھ جانتا اور ہرچیز پر قادر ہے‘‘ (الشوریٰ۴۲:۴۹)۔ اُس کی جناب سے عنایت ہوگئی تو شکر ادا کریں، نہیں تو صبر اور پھر  صبر کا اجر بھی بہت ہے۔ ہاں، دعا کا ہتھیار تو ہمارے پاس ہے ہی۔

ہم تو بہت کمزور لوگ ہیں۔ نبیوں نے بھی یہ دعائیں مانگی ہیں۔ دیکھیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا: ’’اے پروردگار! ایک بیٹا عطا کر جو صالحوں میں سے ہو‘‘۔ مشروط دعا___ بیٹا ہو تو صالح ہو۔ اور پھر حضرت زکریاؑ کی دعا بھی___ نیک اولاد کی درخواست کی جارہی ہے۔ دعا کرنا نہ بھولیں۔ دعا مانگنا، ہمارا حق ہے اور بار بار دعا مانگنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ ہر ہرقدم پر اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے، اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن۔

صالح اولاد بڑی نعمت ہے اور جیساکہ ہم نے پہلے دیکھا، صالح ہونا ایسی شرط ہے جس کے پورا کرنے پر براہِ راست جنت کی بشارت ہے۔

صالح اولاد کا کیا مطلب ہے؟کیا نماز ادا کرلینا اور تلاوتِ قرآن کرنا ہی صالح ہونے کے لیے کافی ہے___ یا پھر اخلاق، معاملات اور عبادات کا درست ہونا بھی صالح ہونے کے لیے ضروری ہے، یا کچھ اور بھی خصوصیات درکار ہیں؟ صالح ہونا دراصل ایسی صلاحیت ہے جس پر بڑے انعام کا وعدہ ہے۔ جنت جیسا انعام، اور پھر بار بار بتایا گیا ہے کہ جنت ابدی قیام گاہ ہے۔

  •  دعا اور عمل ساتھ ساتھ: جب بھی کوئی بڑا منصوبہ یا پراجیکٹ شروع ہوتا ہے تو ایک عزم ہوتا ہے کہ یہ کام کرنا ہے۔ مگر اس کے ساتھ دعا بھی ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ اس عزم میں برکت عطا فرمائیں اور تکمیل آسانی سے ہو۔ دعا اور عزم دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ عزم کے بغیر دعا مناسب نہیں اور دعا کے بغیر عزم بے برکت رہ جاتا ہے: یوں دعا کیجیے: ’’اے ہمارے رب! ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا‘‘۔ (الفرقان۲۵:۷۴)

اس خوب صورت دعا میں ایسے ہی خاندان کی محبت جھلک رہی ہے___ بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کو ٹھنڈک ملے، اور دیکھیں اللہ تعالیٰ ہمیں کون سا درجہ دینا چاہتے ہیں___ پرہیزگاروں کا امام۔ یہ دعا محض کسی مقرر کی لفاظی نہیں، اللہ تعالیٰ کے اپنے الفاظ ہیں ___ ان کا پورا ہونا بالکل ممکن ہے۔ ہم اپنی کمزوریوں پر توجہ دیں تو سب کچھ ممکن ہے۔ ذرا مومن بن کر دیکھیں اور دکھائیں تو سہی۔

اب یہ عزم پھر دعا اور پھر عمل کا معاملہ آگیا۔ سوچیں آپ کا بیٹا آپ سے دعا کے لیے کہے کہ دعا کریں، امتحان میں کامیابی ہو، مگروہ خود کھیل میں مصروف رہے تو یقینا آپ کہیں گے    کہ بیٹا تم خود تو امتحان کی تیاری نہیں کر رہے، مجھے دعا کے لیے کہہ رہے ہو۔ گویا عمل کی بڑی اہمیت ہے۔ بقول اقبال ؎

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

  •  والدین کی ذمہ داری: ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے، جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔ (التحریم۶۶:۶)

گویا عمل کے لیے والدین کو ذمہ دار ٹھیرایا گیا ہے۔ یہاںجمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے اور اہلِ ایمان کو اجتماعی طور پر حکم دیا جا رہا ہے: اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچائو۔ اس طرح سے والدین پر یہ ذمہ داری ڈال دی گئی ہے۔ اب نہ کوئی بہانہ ہے، نہ فرار کا موقع۔ لازماً اسے کرنا ہی ہوگا۔ مطلب یہ ہوا کہ اگر اہل و عیال خدانخواستہ آگ سے نہ بچ سکے، توہم خود ذمہ دار ہوں گے۔ ذرا سوچیے، اہل و عیال کو آگ سے بچانے کے لیے نیک زوج کی کتنی اہمیت ہے، جو خود اس بات کی ضمانت ہو کہ بچوں کی تعلیم و تربیت صحیح طریقے پر ہوگی۔

فرمایا جا رہا ہے:’’اپنے اہل و عیال کو نماز کی تلقین کرو اور خود بھی اس کے پابند رہو‘‘ (طٰہٰ ۲۰:۱۳۲)۔ یہاں محنت کرنے کو کہا گیا ہے کہ بار بار کہو کہ نماز پڑھو اور پھر یہ دوغلی پالیسی نہیں___ خود بھی پابند رہنے کا حکم ہے۔ یہی نہیں بلکہ ایک مشہور حدیث میں حضوؐر ایک بچے کو سمجھاتے ہیں: اے بیٹے! بسم اللہ پڑھ کر، یعنی اللہ کے نام سے، دائیں ہاتھ سے اور اپنے سامنے سے کھانا کھائو۔ ایک ہی حدیث میں یہ تین تعلیمات ہیں۔ بڑی بدقسمتی کی بات ہے جب والدین فرار چاہتے ہیں    اور اپنی ذمہ داری نبھانا چھوڑ دیتے ہیں کہ بچے کو ٹوکنا نہیں، اس سے وہ نفسیاتی مریض بن جائے گا۔ یہ اہلِ مغرب کی سوچ ہے جو خود نفسیاتی مریض بن گئے ہیں، وہ اپنے بچوں کو بھلا کیا سکھائیں گے۔ ہم امربالمعروف اور نہی عن المنکر والے لوگ ہیں، نہ خود برائی کریں گے نہ کرنے دیں گے۔

یقینا عمل کے ساتھ ٹھوس منصوبہ بندی کی بھی ضرورت ہے کیونکہ عمربھر کا منصوبہ جو مل گیا ہے۔ حکم آگیا ہے کہ اپنے آپ کو اور اہل و عیال کو آگ سے بچائو!

  •  بچے کی تربیت کے مختلف مراحل: مسلمان کی زندگی ہر طرف سے اللہ کے احکامات میں گھری ہوئی ہے۔ جب کہہ دیا: ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّۃً (البقرہ ۲:۲۰۸)، تو اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوگئے۔ زندگی کے ہرمرحلے پر جواب دہی بھی ہے۔ اولاد کی پیدایش سے تربیت کا عمل شروع ہوتا ہے۔ ہم نے اس ضمن میں دعائیں بھی پڑھیں، اسی پیدایش کے لیے نیک زوج کی تلاش اور انتخاب کا مرحلہ بھی گزارا۔ پھر رضاعت، یعنی بچے کو دودھ پلانے کا دور بھی گزارا___  یہ بچے کا حق ہے۔ بچے کی شخصیت ماں کی گود سے ہی بننے لگتی ہے۔ یہی آغوش بچے کی پہلی درس گاہ بھی ہے۔ اس کے بعد، سنِ تمیز ہے، یعنی وہ دور جب بچہ ہوش سنبھالتا ہے اور تین ساڑھے تین سال کی عمر سے پتھر اور کھجور میں تمیز کرنے لگتا ہے۔ پھر بلوغت آتی ہے۔ ہر موقع پر والدین کی جواب دہی ہے۔ خاندان میں بڑا ہونے کی وجہ سے یہ ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے کہ دیکھیں کہ ہرمرحلے پر ہم بچے کو کیا تعلیم دے رہے ہیں؟ کیا بچے کو سنِ بلوغت کے لیے تیار  کیا ہے؟ کیا والدین اور بچے میں اتنی باہمی افہام و تفہیم (understanding) ہے کہ والدین بچے کو تمام احکام خود بتا سکیں اور کسی خلجان میں پڑے بغیر وہ تمام امور سمجھ سکے ،یا پھر کہیں ایسا تو نہیں کہ بلوغت کے احکام وہ حجام کی دکان سے سیکھ کر آرہا ہو۔ پھر شادی تو ہے ہی سمجھ بوجھ کا کام۔

اس کے بعد بچے کی پیدایش کا مرحلہ آجاتا ہے اور والدین اگلی نسل کی ذمہ داری سنبھالتے ہیں۔ تربیت اولاد سے متعلق لٹریچر میں ہم پڑھتے ہیں کہ بچوں کو ۷ برس کی عمر میں نماز کا حکم دو۔ ۱۰برس کی عمر میں سزا دینے کی بات کی گئی ہے اور بستر علیحدہ کرنے کا کہا گیا ہے، یعنی جنسی تعلیم شروع ہوگئی۔ عموماً ۱۰ برس میں سزا دینے کی بات ہوتی ہے۔ جان لیجیے کہ والدین پر فرض ہے کہ   وہ سنِ تمیز، یعنی ساڑھے تین سال سے بچے کو نماز میں ساتھ رکھیں۔ والدہ اسے تیار کرے۔ والد صاحب چھے ساڑھے چھے برس تک لگاتار محنت کریں___ خود بھی مسجد جائیں، بچے کو بھی لے کر جائیں۔ والدہ بہانہ نہ بنائے کہ ابھی تو تھکا ہوا ہے، ابھی کھانا کھا رہا ہے۔ والدین کی سالہا سال کی لگاتار محنت کے بعد سزا دینے کی بات ہورہی ہے، یعنی والدین سزا دینے سے قبل اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے بارے میں خوب غور کرلیں۔

  •  بچے کی شخصیت کی تعمیر:اسلام کا جامع فہم، ایمان اور یقین کی کیفیت، قول و فعل میں یگانگت، فیصلوں میں دین بطور بنیاد، یہ وہ صفات ہیں جو والدین کو چاہیے کہ بچوں میں پیدا کریں۔ جائزہ لیجیے کہ آیا اُسے اسلام کا جامع فہم حاصل ہوا یا نہیں۔ اللہ کے بارے میں ایمان اور یقین کی کیفیت کیسی ہے۔ نماز اللہ کے لیے پڑھتا ہے یا اس وجہ سے کہ آج والد صاحب غصے میں ہیں، کہیں جھوٹ اور دھوکے بازی تو نہیں کرتا___ آیا فیصلے دین کی بنیاد پر کر رہا ہے یا سماجی دبائو میں۔ آیا اس کا دل ان باتوں سے مطمئن ہے یا نہیں۔
  •  والدین کے لیے بھی ضروری ہے کہ اپنے ساتھ ساتھ بچوں میں بھی یہ صفات پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ سے تعلق کیسا ہے؟ فرائض کی حد تک یا سنت اور نوافل کی حد تک۔ کاموں میں خلوص کتنا ہے اور دکھاوا کتنا۔ کڑوی بات سن کر صبر کرتے ہیں یا بھڑک کر اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہیں۔ حکمت عملی میں استقامت کس حد تک ہے۔ وقتی فیصلے ہو رہے ہیں یا مستقل مزاجی ہے۔ بات کھٹاک سے منہ پر دے مارتے ہیں یا حکمت سے کام لیتے ہیں۔ فیصلہ کرنے میں آخرت اثرانداز ہوتی ہے یا دنیاداری کے معاملات۔ کیا لین دین میں دھوکا دیتے ہیں اور ساتھ ساتھ قرآن کے درس بھی چل رہے ہیں___ سیرت و کردار کے یہ سب پہلو دراصل ہماری شخصیت کے ساتھ ساتھ نیت کی بھی غمازی کرتے ہیں۔ اِنھی سے سیرت نکھر کر سامنے آتی ہے۔

مشاورت، اخوت و محبت، احتساب، نظم و ضبط، اقامت دین یہ اجتماعی صفات، صالح معاشرے کی ضرورت ہیں اور ایسے معاشرے کی تشکیل صالح افراد ہی کرتے ہیں۔ ایسا معاشرہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تھا جہاں فیصلے مشاورت سے ہوتے تھے، اخوت و محبت کی قدر تھی، اور یہ سب کچھ آج بھی ممکن ہے اگر ہمارا قبلہ درست ہوجائے۔ بھائی چارے سے کام ہورہا ہو تو تھکاوٹ نہیں ہوتی۔ جنگ ِ خندق کے دوران اگر صحابہ کرامؓ نے پیٹ پر پتھر باندھے تو پتا چلا کہ حضوؐر نے دوپتھر باندھے ہوئے تھے۔ غلطی کون نہیں کرتا۔ جنگ اُحد کی مثال ہے۔ صحابہ کرامؓ جیسی جماعت کے بعض افراد سے کمزوری ظاہر ہوئی، مگر احتساب اور نظم و ضبط سے شکست فتح میں تبدیل ہوگئی۔ نظم وضبط ان تمام خوبیوں کا نتیجہ ہے۔ ان تمام باتوں سے اقامت ِ دین کو تقویت ملتی ہے۔ ہرمسجد میں پانچ مرتبہ جماعت کے ذریعے نظم و ضبط کا درس ملتا ہے تو پھر مسلمان معاشرے میں بدنظمی کی کوئی وجہ نہیں، جب کہ یہ تربیت سال ہا سال سے صبح و شام جاری ہے۔ ہمیں اس کی طرف من حیث القوم توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

  •  معاشرتی زندگی کے تقاضے: اس کے بعد اجتماعی زندگی کا مرحلہ آتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقے میں نہ پڑو‘‘ (اٰل عمرٰن۳: ۱۰۳)۔ یہاں اجتماعیت کی اہمیت بیان کی گئی ہے اور مسلمان کی زندگی تو ہے ہی اجتماعیت۔ گھر میں گھر والوں کے ساتھ، باہر محلے داروں اور دفتر والوں کے ساتھ۔

ہماری معاشرتی کمزوریوں میں کبر، نفسانیت، بے اعتدالی اور ضعفِ ارادہ کے علاوہ بھی  کئی پہلو ہیں۔

  •  یہ مقام ہے اپنا محاسبہ کرنے کا___ اپنا دل ٹٹولنے کا۔ ہمارے دائیں بائیں کئی داعی حضرات ہیں جن کا بڑا قد ہے، جن کی تحریر و تقریر ہیرے موتی جیسی ہے مگر ان کی اپنی اولاد نے ان کے مشن کو آگے نہیں بڑھایا___  یہ لمحۂ فکریہ ہے۔ کمزوریوں کی ابتدا اپنے گھر سے ہی ہوتی ہے۔ ہمارے گھر ہمارے اور ہمارے گھر والوں کے لیے قلعہ ہیں۔ دروازہ اُونچا اور مضبوط رکھا جاتا ہے۔ مگر ایک کھڑکی ایسی کھول دی جاتی ہے جہاں سے دنیا بھر کی غلاظت گھر میں داخل ہو جاتی ہے۔ گھر کی کمزوریوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ اب جدید جاہلیت کا دور ہے۔ یہ مادی ترقی کی جاہلیت ہے۔ یہ وہ دھوکا اور فریب ہے جس کو انسان کی ہلاکت کے لیے باقاعدہ علمی بنیادوں پر مرتب کیا گیا ہے۔ نتیجہ کرب، اذیت اور بے چینی ہے۔ یاد رکھیے جب بھی اللہ کے احکام سے روگردانی کی جائے گی اسے جاہلیت ہی کہا جائے گا۔
  •  کبر کو لیجیے۔ کئی بزرگ محبت کرنے کے باوجود___ میری بات مانو، کوئی دوسرا راستہ نہیں___ کے مصداق سخت مزاج واقع ہوتے ہیں۔ وہ مذہبی شخصیت تو ہوتے ہیں،دینی نہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے کبر کی وجہ سے بچے سہمے رہتے ہیں، بیوی دبکی رہتی ہے، نہ مشورہ دیا جاتا ہے نہ لیا جاتا ہے، نہ مشاورت کو اہمیت دی جاتی ہے نہ تربیت کو۔ اندازہ کیجیے گھر پر نفسانیت کا دور دورہ تو نہیں۔ کیا گھر کی اکائی قائم ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ گھر کے افراد کئی ٹکڑیوں میں بٹ گئے ہوں جن کے علیحدہ اہداف اور مقاصد ہوں۔
  •  اسراف و تبذیر کی صورت حال بھی بڑی عجیب ہوتی ہے۔ اسے وقت کی ضرورت بناکر قبول کیا جاتا ہے۔ گھر والوں کو معاشی ذمہ داری بھی دے دی جاتی ہے۔ آخر بچوں کو کس جرم کی سزا دی جارہی ہے کہ انھیں آیا اور ڈے کیئر سنٹر میں پرورش کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ مقصد گھر کی اکائی کی حفاظت ہے اور اس کا رخ لازماً اللہ کے حکم اور حضوؐر کی سنت کی سمت ہونا لازمی ہے۔ جبھی تو گھر والے آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سکون بن سکیں گے اور پھر آخرت میں صدقۂ جاریہ بھی۔
  •  بے اعتدالی میں مذہبی انتہا پسندی بھی آتی ہے۔ گھر والی فرائض ادا کرنے کے بجاے باہر تبلیغ اور نوافل پر ہی زور دینے لگے، بچے کتابی کیڑے بن جائیں یا دیوانگی کی حد تک کھیل کے رسیا ہوں، کرکٹ یا فٹ بال سیریز ہو رہی ہے تو صاحب بہادر نے دفتر سے چھٹی لے رکھی ہے اور گھر نے اسٹیڈیم کی شکل اختیار کی ہوئی ہے۔ یہ سب بے اعتدالی ہے۔
  •  گھر والے اور بعض اوقات آپ خود بھی اپنے آپ کو روکنا چاہتے ہیں تو ضعفِ ارادہ کی وجہ سے روک نہیں سکتے، یہ قوت ارادی کی کمزوری ہے۔ دوغلی پالیسی کے کھلاڑی ایسا کرتے ہیں___ کیا وجہ ہے کہ ہماری کئی خواتین عرب ممالک سے واپسی پر جہاز میں بیٹھتے ہی عبایہ اُتار دیتی ہیں۔ کیا پردے کا حکم پاکستان میں نہیںہے؟ اس طرح انسان کہیں کا نہیں رہتا۔ جس معاشرے میں رہ رہا ہوتا ہے اسی کے رنگ میں رنگ جاتا ہے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ مسلمان، مسلمان کے علاوہ سب کچھ بن جاتا ہے لیکن مسلمان نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ مسلمانوں کے لیے جو احکام ہیں اپنے ضعف ِ ارادہ کی وجہ سے وہ اُن پر عمل نہیں کرتا اور اگر کرتا بھی ہے تو مجبوری کی حد تک۔
  •  جسمانی تربیت کے لیے احادیث مبارکہ سے رہنمائی ملتی ہے۔ بچوں کو عیش کوشی کا عادی نہ بنائیں۔ جفاکش (rough & tough) ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح بچیوں کو گھر کے کام کاج بلاتکان کرنا سکھائیں۔ نہ جانے کب کیسا وقت آن پڑے تاکہ وہ چیلنج قبول کرنے کے لیے تیار ہوں۔
  •  خرابی کے داخلی و خارجی اسباب:خرابی کے داخلی اسباب میں انتخابِ زوج، دہرے معیار، نامناسب تقسیم کار، بچوں کو کھلی چھوٹ، دین کی ترجیح نہ ہونا، کم علمی جیسے کئی پہلو ہیں۔ یہ داخلی اسباب سب گھر والوں کی انفرادی توجہ چاہتے ہیں، اور ہم خود اس کے لیے سب سے زیادہ مسئول ہیں۔ مثلاً انتخاب زوج غلط یا نامناسب ہوا یا یہ کہہ لیں کہ پتا ہی نہ تھا۔ ہمارے اپنے معیار، موم کی ناک کی طرح ہوتے ہیں۔ کہیں قول ہے فعل نہیں، اور کہیں فعل ہے تو قول نہیں۔ گھر کی    ذمہ داریاں ٹھیک طرح سے تقسیم نہیں ہوئیں۔ خاوند صرف معاشی ذمہ داری ہی نبھا رہا ہے۔ وہ اس میں ہی مطمئن ہے کہ وقت پر گھر کا خرچ بیوی کے ہاتھ میں دے دیا۔ مزاج کا سخت ہے۔ اسے کون سمجھائے کہ یہ بچے تمھارے اپنے ہیں___ تمھارا اپنا صدقۂ جاریہ۔ کئی گھروں میں ہوم ورک، بازار سے شاپنگ، دال سبزی آلو پیاز، سب خاتونِ خانہ خود خریدتی ہے۔ صاحب بہادر یا تو دفتر جاتے ہیں یا گھر پر ٹی وی دیکھتے ہیں۔ بچوں پر کون کیا چیک رکھ رہا ہے، اُن کے دوست کون ہیں اور کیسے ہیں، کون سی کتب یا لٹریچر گھر میں آرہا ہے، انٹرنیٹ اور ٹی وی پر کیا دیکھا جا رہا ہے___ اب تو سائبرجرائم کا دور بھی شروع ہوگیا ہے___ کچھ خبر نہیں۔ دین کے لیے ترجیح سے گھبراتے ہیں کہ کہیں مولوی ہونے کا لیبل نہ لگ جائے اور بہت سے کام فقط کم علمی اور ضعف ِارادہ کی وجہ سے بھی غلط ہو رہے ہیں۔ مغربی تہذیب کو بلاسوچے سمجھے گلے لگا لینا بھی ذہنی مرعوبیت کی نشانی ہے۔ اس طرح ہم ہر اُس بیماری کا شکار ہو رہے ہیں جو مغربیت کی وجہ سے ہم میں دَر آئی ہے۔

خرابی کے خارجی اسباب میں سب سے پہلا تو کمزور اور غلط نظامِ حکومت ہے۔ اسی وجہ سے میڈیا، نظامِ تعلیم، ناقص نصاب، سب کسی بھی نوجوان کے اچھا مسلمان بننے کی راہ میں مانع ہیں۔ ہمارے داخلی عوامل بعض اوقات اتنے زیادہ ہوجاتے ہیں کہ ان خارجی عوامل کے لیے وقت ہی نہیں ملتا کہ انھیں ٹھیک رکھا جائے اور یوں معاشرہ بے حسی کا شکار ہوجاتا ہے۔

  •  تربیت کا ذمہ دار کون؟ یہ گھر والوں کی تربیت کا پراجیکٹ ہے تو آخر کوئی اس کا پراجیکٹ ڈائرکٹر بھی ہونا چاہیے۔ اولاد کی تربیت کون کرے؟ ماں کہتی ہے کہ تمھارے ابو دفتر سے آئیں گے تو شکایت لگائوں گی۔ ابو دفتر سے آتے ہیں تو کہتے ہیں ابھی تو تھکا ماندہ آیا ہوں، تو پھر کون ذمہ دار ہے؟ وقت تو رُکے گا نہیں۔ بچے بہرحال والدین کی مشترکہ ذمہ داری ہیں۔ تعلیم و تربیت، صحت، کھیل کود، کچھ بھی سوچ لیں، بہرحال والدین کو ذمہ داری نبھانی ہے۔ یہ مسلمان معاشرہ ہے۔ یہاں مرد عورت میں مسابقت اور تصادم کی فضا نہیں بلکہ تعاون کا ماحول ہے۔ مغرب میں تو خواتین کے اختیارات (women empowerment) کا شوق پھل پھول رہا ہے۔ اسی لیے وہاں ہر جگہ single mothersملیں گی۔ اب فرانس میں خواتین تنگ آکر کہہ رہی ہیں کہ وہ صرف گھر پر والدہ کا کردار ادا کرنا چاہتی ہیں مگر ان کی بیماری اپنی آخری حدوں کو پہنچ گئی ہے۔ ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان والدین اپنی اس مشترکہ ذمہ داری کا احساس کریں اور بطریق احسن نبھائیں کیونکہ اولاد تو دونوں کی ہے، اور دونوں کے لیے صدقۂ جاریہ بھی۔

اس ضمن میں علماے کرام رہنمائی کرتے ہیں کہ بچوں میں یہ خوبیاں تب پیدا ہوں گی جب والدین میں یہ صفات ہوں گی۔ یہ نہ ہو کہ والد نے کہہ دیا کہ باہر کہہ دو گھر پر نہیں ہوں۔ والدہ فون پر جھوٹ بول رہی ہوں۔ پڑوس کی گیند گھر میں آگئی تو جھوٹ بول دیا،والدین خاموش رہے۔ بچہ ٹی وی رات گئے تک دیکھتا رہا، صبح وقت پر نہ اُٹھ سکا، لہٰذا اسکول میں بیماری کی درخواست دے دی___ یہ سب تضادات ہیں۔ بے عملی اور کمزوری کا نتیجہ ہیں۔ بظاہر یہ معمولی باتیں چھوٹی ہیں مگر شیطان تو تاک میں لگا رہتا ہے۔

اس ساری بحث کے نتیجے میں گھر والوں کی تربیت، اللہ کے سامنے جواب دہی کی اہمیت بخوبی واضح ہوجاتی ہے۔ یہ سب اسی وجہ سے ہے کہ ہمیں اپنے اہلِ خانہ سے محبت ہے اور محبت کے اپنے تقاضے ہیں۔ صورت حال کی بہتری کے لیے ہمارے لیے ضروری ہے کہ یقین محکم، عملِ پیہم کے مصداق اہلِ خاندان کو مسلسل تذکیر و نصیحت کرتے رہیں اور یہ کہ ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ نیکی کے لیے سازگار ماحول فراہم کریں۔ تربیت کا خاطرخواہ انتظام کریں۔ اخلاقی اعتبار سے مضبوط بنائیں اور شخصیت کی تشکیل و تعمیر پر توجہ دیں۔ جبھی تو گھر کے آنگن میں خوب صورت پھول کھلیں گے اور میٹھے پھل لگیں گے۔

  •  اصل کامیابی:کوشش یہی ہونی چاہیے کہ یہ بچے بڑے ہوکر صالح مسلمان مرد/ عورت بن سکیں۔ کل انھی بچوں کو والدین  کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ ان کے لیے ضروری ہے کہ ہم مسلسل دعا کرتے رہیں اور بہترین کوشش بھی___ یہ بچوں کا حق ہے۔ مضبوط ارادہ، مسلسل دعا، عملِ پیہم، بہترین منصوبہ بندی کے بعد ہی ہم کامیابی کی اُمید رکھ سکتے ہیں۔ اگر ارادہ، عمل اور منصوبہ بندی میں بگاڑ ہوگا تو پھر بگاڑ والے نتائج ہی سامنے آئیں گے۔ اور پھر: ’’کامیاب دراصل وہ ہے جو وہاں آتش دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کردیا جائے۔ رہی یہ دنیا، تو یہ محض ایک ظاہر فریب چیز ہے‘‘۔ (اٰل عمرٰن۳:۱۸۵)

کامیابی___ اصل کامیابی تو جنت کا حصول ہے کہ ہم آتشِ دوزخ سے بچ جائیں۔ یہ خوش خبری ملاحظہ ہو: ’’جو لوگ ایمان لائے ہیں اور اُن کی اولاد بھی کسی درجۂ ایمان میں ان کے نقشِ قدم پر چلی ہے ان کی اُس اولاد کو بھی ہم (جنت میں) اُن کے ساتھ ملا دیں گے اور اُن کے عمل میں کوئی گھاٹا ان کو نہ دیں گے۔ ہرشخص اپنے کسب کے عوض رہن ہے‘‘۔ (الطور۵۲:۲۱)

یہ خوش خبری ایک چھوٹ، ایک آسانی کی خبرہے، ایک رعایت (concession) ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اولاد کسی بھی درجہ ایمان پر ہو تو جنت میں ملا دی جائے گی۔ مگر ہمیں    خوب سے خوب تر کی تلاش رہنی چاہیے۔ اسی طرح بچوں کی تربیت کے لیے بھی بلندمعیار پیشِ نظر رہنا چاہیے۔ ہم تو پرہیزگاروں کے امام بننا چاہتے ہیں۔ یہی دعا بھی مانگتے ہیں۔ گویا best of the best کے متلاشی رہیں۔ درجۂ احسان ہمارا مطمح نظر ہونا چاہیے اور حقیقی کامیابی یہ ہے کہ جنت میں ہمارا اور گھروالوں کا ساتھ ہو۔ آمین!

مقام غوروفکر ہے ___ اپنی اور اولاد کی اخروی کامیابی کے لیے ہمیں سنجیدہ ہونا ہے،  کوشش کرنی ہے، کمرہمت باندھ لینی ہے۔

ہمیں اپنے آپ کو اور اہلِ خانہ کو آگ سے بچانا ہے___ اس کے لیے ہم جواب دہ ہیں۔ یہ کیسی روح پرور اور خوش کُن اور قابلِ عمل بشارت ہے کہ اگر ہم صالح ہوں اور صبر سے کام لیں تو ہم اور اہلِ خانہ جنت کے ساتھی بن سکتے ہیں ورنہ یہ افسوس ہی رہے گا کہ مہلتِ عمل تو ملی تھی مگر ہم اِدھر اُدھر وقت ضائع کرتے رہے۔

آیئے! اس دعا کے ساتھ اختتام کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ عزم بھی کرتے ہیں کہ ہمیں اہلِ خانہ کے لیے اور اپنے لیے کوشش کرنی ہے___ اے ہمارے رب! ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا۔ آیئے ہم عزم کریں کہ کوشش میں کسر نہیں اُٹھا رکھیں گے۔ آمین!


(کتابچہ دستیاب ہے۔ منشورات، لاہور قیمت: ۷ روپے، ۵۰۰ روپے سیکڑہ)