اپریل ۲۰۰۹

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| اپریل ۲۰۰۹ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

مصائب کے ہجوم میں ایک مومن کا نقطۂ نظر

سوال: میرا تیسرا بیٹا پونے چار سال کی عمر میں فوت ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنے جوارِرحمت میں جگہ دے۔ یہاں آکر پہلے دو لڑکے فوت ہوئے، اب یہ تیسرا تھا۔ اب کسی نے شبہہ ڈالا تھا کہ جادو کیا گیا ہے۔ جس دن سے یہ بچہ پیدا ہوا اسی دن سے قرآن پاک کی مختلف جگہوں سے تلاوت کر کے دم کرتا رہا۔ فرق صرف یہ ہوا کہ پہلے لڑکے پونے دو سال کی عمر میں فوت ہوتے رہے۔ یہ پونے چار سال کو پہنچ گیا۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ جادو بھی چند الفاظ ہوتے ہیں۔ اس کے توڑنے کو قرآنِ پاک کے الفاظ تھے۔ پھر دعائیں بھی بہت کیں۔ بوقت تہجد گھنٹوں سجدے میں پڑا رہا ہوں لیکن کچھ شنوائی نہیں ہوئی، حالانکہ اللہ تعالیٰ کی ذات حاضر و ناظر اور سمیع و بصیر ہے۔ کیا  حق تعالیٰ جادو کے اثر کے لیے مجبور ہی ہوجاتے ہیں؟ لوگ قبروالوں کے نام کی بودیاں رکھ کر پائوں میں کڑے پہناکر اولاد بچائے بیٹھے ہیں لیکن ہم نے اسے شرک سمجھ کر اس کی طرف رجوع نہ کیا۔ لیکن ہمیں بدستور رنج اٹھانا پڑا۔ اکٹھے تین داغ ہیں جو لگ چکے ہیں۔ براہِ کرم غم و افسوس کے ان لمحات میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب: آپ کے صاحبزادے کی وفات کا حال معلوم کر کے بڑا افسوس ہوا اور اس سے زیادہ افسوس یہ سن کر ہوا کہ اس سے پہلے بھی دو بچوں کا صدمہ آپ کو پہنچ چکا ہے۔ اولاد کے یہ   پے درپے غم آپ کے اور آپ کی اہلیہ کے لیے جیسے ناقابلِ برداشت ہوں گے اس کا مجھے خوب اندازہ ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ دونوں کو صبرعطا فرمائے اور سکینت بخشے۔

آپ کے خط سے مجھے محسوس ہوا کہ دل پر پے درپے چوٹیں کھانے کی وجہ سے آپ غیرمعمولی طور پر متاثر ہوگئے ہیں۔ اگرچہ اس حالت میں نصیحت کرنا زخموں کو ہرا کردیتا ہے، اور مناسب یہی ہوا کرتا ہے کہ رنج و غم کا طوفانی دور ختم ہوجائے۔ مگر مجھے خوف ہے کہ اس دور میں کہیں آپ کے عقائدِ صالحہ پر کوئی آنچ نہ آجائے۔ اس لیے مجبوراً کہتا ہوں کہ آفات اور مصائب اور آلام کا خواہ کیسا ہی ہجوم ہو، مومن کو اپنے ایمان اور اللہ کے ساتھ اپنے تعلق پر آنچ نہ آنے دینی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ اس دنیا میں ہم کو ہر طرح کے حالات میں ڈال کر آزماتا ہے۔ غم بھی آتے ہیں اور خوشیاں بھی آتی ہیں۔ مصیبتیں بھی پڑتی ہیں اور راحتیں بھی میسر آتی ہیں۔ نقصان بھی ہوتے ہیں اور فائدے بھی پہنچتے ہیں۔ یہ سب آزمایشیں ہیں اور ان سب سے ہم کو بخیریت گزرنا چاہیے۔ اس سے بڑھ کر ہماری کوئی بدقسمتی نہیں ہوسکتی کہ ہم مصیبتوں کی آزمایش سے گزرتے ہوئے ایسے مضطرب ہوجائیں کہ اپنا ایمان اور اعتقاد بھی خراب کربیٹھیں۔ کیونکہ اس طرح توہم دنیا اور دین دونوں ہی کے ٹوٹے میں پڑجائیں گے۔

آپ کو جن صدموں سے دوچار ہونا پڑا ہے، وہ واقعی دل ہلا دینے والے ہیں۔ لیکن    اس حالت میں ثابت قدم رہنے کی کوشش کیجیے اور کوئی مشرکانہ خیال یا شرک کی طرف کوئی میلان، یا اللہ سے کوئی شکایت دل میں نہ آنے دیجیے۔ ہم اور جو کچھ بھی ہمارا ہے، سب کچھ اللہ ہی کا ہے۔ ملکیت بھی اسی کی ہے اور سارے اختیارات بھی اُسی کے۔ ہمارا اس پر کوئی حق یا زور نہیں ہے۔ جو کچھ چاہے عطا کرے اور جو کچھ چاہے چھین لے اور جس حال میں چاہے ہم کو رکھے۔ ہم اس پر اس شرط سے ایمان نہیں لائے ہیں کہ وہ ہماری تمنائیں پوری ہی کرتارہے اور ہم کو کبھی کسی غم یا تکلیف سے دوچار نہ کرے۔ یہ شانِ بندگی نہیں ہے کہ اللہ سے مایوس ہوکر ہم دوسرے آستانوں کی طرف رجوع کرنے لگیں۔ دوسرے کسی آستانے پر سرے سے ہے ہی کچھ نہیں۔ وہاں سے بھی اگر بظاہر کچھ ملتا ہے تو خدا ہی کا دیا ہوا ہوتا ہے۔ البتہ وہاں سے مانگ کر ہم جو کچھ پاسکتے ہیں وہ ایمان کھوکر ہی پاسکتے ہیں۔ اور بہت سے بدقسمت ایسے ہیں جو وہاں ایمان بھی کھوتے ہیں اور مراد بھی نہیں پاتے۔ اس لیے آپ ایسے کسی خیال کو اپنے دل میں ہرگز نہ آنے دیں اور صبروثبات کے ساتھ اللہ ہی کا دامن تھامے رہیں، خواہ غم نصیب ہو یا خوشی۔

جادو اور آسیب اور جفر وغیرہ میں کچھ نہیں رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت سب پر حاوی ہے۔ آپ اللہ سے دعا مانگتے رہیں۔ اسی سے پناہ طلب کرتے رہیں۔ امید ہے کہ آخرکار اس کا فضل آپ کے شاملِ حال ہوگا اور کوئی بلا آپ کو یا آپ کی اولاد کو لاحق نہ ہوگی۔ (سیدابوالاعلیٰ مودودی ،رسائل و مسائل ، حصہ چہارم، ص ۴۲-۴۴)

پیشہ وارانہ ضرورت کے تحت عورتوں سے ہاتھ ملانا

س:  میرا تعلق تحریکِ اسلامی سے ہے۔ معاش کے سلسلے میں ایک ٹیکسٹائل ایکسپورٹر فرم سے وابستہ ہوں۔ میرا شعبہ مارکیٹنگ ہے۔ بسااوقات مجھے بیرونِ ملک دوروں پر جانے کا موقع ملتا ہے، جہاں ان کمپنیوں کے نمایندوں سے ملاقات ہوتی ہے جو ہماری فرم کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں۔یہ لوگ ہمارے ملک بھی آتے ہیں۔ اُن نمایندوں میں خواتین بھی شامل ہیں۔

ایک مسلمان ہونے اور تحریک سے وابستہ ہونے کی بنا پر میں ایسی تقریبات اور مواقع سے دُور بھاگتا ہوں جن میں غیر عورتوں (انگریزوں) سے ہاتھ ملانا اور بے تکلفی سے بات چیت کرنا شامل ہے۔ میرے شعبے کے دوسرے افراد میرے اس طرزِعمل پر  تنقید کرتے ہیں، کیونکہ اُن کے نزدیک کاروباری معاملات میں یہ چیزیں نہ صرف جائز بلکہ ناگزیر ہیں۔ اس رویے کی وجہ سے میری ترقی کے راستے بھی مسدود ہوگئے ہیں۔ اس سلسلے میں آپ سے رہنمائی کی درخواست ہے۔

ج:  غیرمسلم گاہکوں کے ساتھ معاشرتی تعلقات ہوں یا مسلمان گاہکوں کے ساتھ، اسلام نے ہمیں معاشی اخلاقیات کے جو اصول سمجھائے ہیں وہ نہ صرف واضح ہیں بلکہ برکت اور خیر کا باعث ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ جنسِ مخالف کے ساتھ ہاتھ ملانے یا جسم کو ہاتھ لگانے سے مکمل طور پر اجتناب کیا جائے۔ لیکن مغربی انتظامی امور کے علوم پڑھانے والے بعض حضرات یہ خیال کرتے ہیں کہ مارکیٹنگ اسی وقت بہتر ہوگی جب ایک sales person یا کمپنی کا نمایندہ اپنے گاہکوں سے ہاتھ ملا کر بات کرے۔

یہ خیال نظری اور عملی حیثیت سے بالکل درست نہیں ہے، حتیٰ کہ بعض تجارتی نقطۂ نظر سے انتہائی ترقی یافتہ ممالک میں گاہک کے ساتھ ہاتھ ملانے کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ آپ جاپان جاکر خود مشاہدہ کرلیں، صرف وہ حضرات جو امریکی ثقافت سے متاثر ہوں آپ سے ملتے وقت ہاتھ ملائیں گے ورنہ روایتی طور پر ایک جاپانی جسم کو نیم رکوع کی شکل میں جھکا کر آپ کا استقبال کرے گا اور ہاتھ ملانے کی ضرورت محسوس نہیں کرے گا۔ اگر کسی اعلیٰ ترین ادارے کے اعلیٰ عہدے پر فائز کسی خاتون سے آپ کو ملنا ہے اور آپ اس کے دفتر میں داخل ہوں اور جھک کر بغیر ہاتھ ملائے اسے ہیلو کہیں تو ہاتھ ملانے کے مقابلے میں یہ زیادہ مہذب طریقہ شمار کیا جائے گا۔ ہاں، اگر آپ خود سے اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیں تو اسے بھی مجبوراً آپ سے ہاتھ ملانا ہوگا۔ گویا ہاتھ ملانا مارکیٹنگ کے لیے نہ تو شرط ہے، نہ اس بنا پر بزنس کے حصول میں کوئی رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے۔

جہاں تک ترقی کے راستے مسدود ہونے کا سوال ہے، پہلے تو یہ بات سمجھ لیجیے کہ ترقی کے لیے شرط ہاتھ ملانا نہیں بلکہ آپ نے اپنے لیے اور آپ کی کمپنی نے آپ کے لیے جو ہدف مقرر کیا ہو اس کا حصول ہے۔ اگر آپ کمپنی کی توقع سے زیادہ بزنس دے رہے ہیں اور لوگوں سے ہاتھ نہ ملاتے ہوں تو کمپنی آخر کس اخلاقی، کاروباری اور قانونی بنیاد پر آپ کی ترقی کو منجمد کرسکتی ہے؟

اگر آپ خود اپنی نگاہ میں ہاتھ نہ ملانے کی وجہ سے کمزوری محسوس کرتے ہوں تو یہ آپ کا اپنا پیدا کردہ مسئلہ ہے۔ اس کا الزام آپ کمپنی کو نہیں دے سکتے۔ کمپنی کو تو اپنے کاروبار سے غرض ہے۔ جب تک اس کا کاروبار اپنی متوقع رفتار پر چلے گا وہ محض آپ کے ہاتھ ملانے یا نہ ملانے کی بناپر ترقی نہیں روک سکتی۔

آخر میں یہ بھی یاد رکھیے کہ رزق دینے والا رب کریم ہے، کمپنی نہیں۔ اگر آپ خلوصِ نیت اور اللہ پر بھروسا کر کے اس کی خوشی کے لیے ایک کام کریں تو وہ نہ صرف آپ کو زیادہ کاروبار دے گا بلکہ اگر آپ کی موجودہ کمپنی کسی بنا پر آپ کو فارغ بھی کر دے تو وہ آپ کے لیے اس سے بہتر رزق کا بندوبست کر دے گا۔ شرط یہ ہے کہ خلوص، استقامت اور بغیر کسی معذرت کے آپ حق پر قائم ہوں۔ اگر فی الواقع صرف ہاتھ نہ ملانے کی بنا پر آپ کا راستہ بند کیا گیا ہے تو اللہ کی زمین وسیع ہے۔ آپ کا رزق محض اُس کمپنی کے ہاتھ میں نہیں جہاں آپ کام کر رہے ہیں۔ وہ جہاں سے چاہتا ہے بے حساب دیتا ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)