اپریل ۲۰۰۹

فہرست مضامین

کتاب نما

| اپریل ۲۰۰۹ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

اقبالیات: تفہیم و تجزیہ، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی۔ ناشر: اقبال اکادمی پاکستان، چھٹی منزل، ایوانِ اقبال، لاہور۔ فون: ۶۳۱۴۵۱۰-۰۴۲۔ صفحات: ۳۲۰۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

اقبالیات ایک وسیع مضمون ہے، جسے بیش تر لوگوں نے پیشہ ورانہ ترقی کے حصول کا ذریعہ یا دانش ورانہ زورآزمائی کے لیے اپنی مشق ستم کا نشانہ بنایا ہے۔ اس فضا میں جن معدودے چند دانش وروں اور تحقیق کاروں نے واقعی اقبالیات کو آگہی کا وسیلہ اور دانش کے سفر کا زینہ بنایا ہے، ان میں ایک اہم نام ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا ہے۔

زیرتبصرہ کتاب ۱۴ مضامین پر مشتمل ہے اور مباحث کا بڑا حصہ فکرِاقبال کے عصری حوالوں کی تعبیر و تشریح پر مبنی ہے۔ مثال کے طور پر: ’خطباتِ اقبال: تفہیم، رجحانات، معنویت‘ ،’فکراقبال اور مغرب کی تمدنی اور استعماری یلغار‘ ،’اقبال اور عالمی نظام کی تشکیلِ نو‘، ’اقبال کے ہاں ذوقِ سحرخیزی‘، ’اقبال کاتصورِ جہاد‘، ’اسلامی نشاتِ ثانیہ اور اقبال‘ وغیرہ ___ وہ تحریریں ہیں، جن کے مطالعے سے فہمِ اقبال میں گہرائی پیدا ہوتی ہے۔ ان موضوعات پر اقبال کے ہاں جو جرأتِ بیان پائی جاتی ہے، ڈاکٹر ہاشمی نے اسے کسی مرعوبیت کے کمبل میں لپیٹنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ جس کے نتیجے میں فکرِاقبال کے داخلی حسن اور ایمانی جہت کو مؤثرطرزِبیان کے ساتھ آشکارا کرنے میں ایک سنگِ میل طے کیا ہے۔ وگرنہ مغربی اسٹیبلشمنٹ کے دھن، دھونس اور غیرمشروط اطاعت کے زیراثر بعض دانش ور  تو اقبال کو بھی ایک سیکولر اور تابع مہمل شاعر بنانے اور علومِ اسلامیہ کی خودساختہ تعبیروتشکیل کا حوالہ بنانے پر زور لگاتے دکھائی دیتے ہیں۔

ڈاکٹر ہاشمی کی اقبالیاتی تحقیق و جستجو کا اعتراف کرتے ہوئے، کتاب کے مقدمے میں  ممتاز دانش ور ڈاکٹر وحید قریشی لکھتے ہیں: ’’مجھے یہ دیکھ کر مسرت ہوتی ہے کہ ہاشمی صاحب نے  ۳۰، ۳۵ برس میںاقبال کو مسلسل سینے سے لگائے رکھا، اور اس سمت میں ان کی تحقیق نئے نئے انکشافات پیش کر کے محققین سے دادِ تحقیق وصول کرتی ہے‘‘ (ص ۱۰)۔ کتاب کے دیگر مضامین مثلاً ’میرانیس اور اقبال‘، ’اقبال صدی کی سوانح عمریاں‘، ’کلامِ اقبال کی تدوین ِ جدید‘ اور ’بالِ جبریل کا غیرمطبوعہ کلام‘ وغیرہ بھی علمی کھوج لگانے اور حقائق کو درست ترتیب کے ساتھ پیش کرنے کی معتبر مثالیں پیش کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ کتاب حسنِ پیش کش، حسنِ بیاں اور حسنِ فکر سے آراستہ ایک مستند حوالہ اور ایک تحقیقی دستاویز ہے۔ (سلیم منصور خالد)


حکمت ِ بالغہ ، (حقیقت علم نمبر)، مدیر: انجینیرمختارحسین فاروقی۔ ملنے کا پتا: قرآن اکیڈمی، گورنمنٹ ایمپلائز کوآپریٹو سوسائٹی، لالہ زار کالونی نمبر۲، جھنگ صدر۔ صفحات: ۹۶۔ قیمت: ۵۰ روپے۔

قرآن اکیڈمی (انجمن خدام القرآن، جھنگ) کے زیراہتمام شائع ہونے والے ماہنامے کے اس شمارے کا خصوصی موضوع ’علم‘ ہے۔ پورا شمارہ مدیرمحترم ہی کی تحریروں پر مشتمل ہے۔

مدیر/مصنف نے ساری بحث کو پانچ عنوانات کے تحت سمیٹ دیا ہے: مشاہدہ، تجربہ اور عقل، تجرباتی علوم پر تعقل کی حکمرانی، سوشل سائنسز کی تشکیل و ترقی، فکرِ مغرب کا فطری اساسات سے انحراف اور اس کے تباہ کن نتائج اور پس چہ باید کرد___ علاج وغیرہ۔

وہ ذرائع علوم کو تجرباتی اور تدریسی علم میں تقسیم کرتے ہیں (وحی اور الہام کا یہاں ذکر نہیں کرتے) ’’جو ساری دنیا کے انسانوں کا مشترک سرمایہ ہے‘‘ (ص ۱۶-۱۷) اور فطری علوم میں ۱۴ویں صدی عیسوی تک مسلمانوں کی پیش رفت پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اس کے بعد علم کی مشعل مغرب کے بے خدا دانش وروں کے ہاتھ آتی ہے، جس میں ڈارون، میک ڈوگل، سگمنڈ فرائڈ، کارل مارکس اور ایڈلر کے تصورات پر گفتگو کی گئی ہے۔ مصنف کے نزدیک مغرب کی خدابیزار، زوال آمادہ، استحصالی، فاحش تہذیب نے انھی ملحد مفکرین کے تصورات اور فلسفوں سے جنم لیا ہے۔ آج ہمارے کرنے کا کام صرف یہ ہے کہ ’’جدید علوم کے تجرباتی [اطلاقی] حصے کو علیحدہ کرکے اس کا تعلق انبیاے کرام اور آسمانی وحی سے دوبارہ جوڑ دیا جائے۔ اس ٹوٹے ہوئے تعلق کے بحال ہوتے ہی انسان کو باطنی سکون میسر آئے گا، اور دنیا آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمۃ للعالمینی کے سائے میں آجائے گی، جہاں سکون، امن اور عدل و انصاف ہوگا‘‘۔ (ص ۹۳)

ایک جگہ مصنف لکھتے ہیں: ’’ہر بندۂ مومن کو علامہ اقبال کے اس مصرعے کا مصداق   قرار دیا جاسکتا ہے‘‘ ع  لوح بھی تو، قلم بھی تو، تیرا وجود الکتاب (ص ۱۳)۔ حالانکہ یہ اقبال کی نظم ’ذوق و شوق‘ کے اشعار ہیں جن میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عقیدت کانذرانہ پیش کیا گیا ہے، نہ کہ ’ہر بندۂ مومن‘ کے لیے۔ ’جدید تعلیم یافتہ حضرات میں علومِ قرآنی کے فروغ کا نقیب‘___ اگر ان کمزوریوں/ تساہل سے مبرا ہو، تو یقینا زیادہ مفید ہوسکتا ہے۔(پروفیسر عبدالقدیر سلیم)


تذکرہ مولانا محمد حسن جان شہید، مرتبہ: مولانا عبدالقیوم حقانی۔ ناشر: جامعہ ابوہریرہ،  خالق آباد، نوشہرہ، سرحد۔ فون: ۲۰۱۸۵۷-۰۹۲۳۔ صفحات: ۶۱۶۔ قیمت: درج نہیں۔

علمِ دین حاصل کرنے والے لاکھوں سعادت مند ہیں، لیکن تفقہ فی الدین اور جرأتِ اظہار خال خال خوش نصیبوں کو حاصل ہوتا ہے۔ جامعہ اشرفیہ لاہور کے فارغ التحصیل شیخ الحدیث مولانا محمد حسن جان شہید (م: ۲۰۰۷ء) ایسے ہی خوش نصیب انسان ہیں۔ وہ علم دین کی تدریس و تربیت کے ساتھ ملّی سطح پر بے لاگ موقف اختیار کرتے ہوئے رہنمائی کا فریضہ بھی ادا کر رہے تھے۔

وہ صاحب علم بھی تھے اور اجتماعی زندگی میں قائدانہ کردار ادا کرنے والے مجاہد بھی۔ انھوں نے بالخصوص آخری ایامِ زندگی میں بے خوف و خطر راست موقف اختیار کیا۔ ایک مغربی اسکالر نے لکھا: ’’مولاناحسن جان نہایت صلح جو اور امن پسند شخصیت ہیں۔ وہ بندوق کے نہیں، مکالمے کے آدمی ہیں‘‘ (ص ۴۷)۔ ’’صوبہ سرحد کے طول و عرض میں خودکش حملوں پر مولانا انتہائی رنجیدہ تھے، اور سوات کے مولانا فضل اللہ کو بھی انھوں نے ہدایت کی تھی کہ وہ لال مسجد انتظامیہ کا راستہ اختیار نہ کریں۔ کیونکہ پاکستانی فوج اور عوام کو آپس میں لڑانے کا فائدہ صرف ہندستان اور امریکا کو ہوگا‘‘ (ص ۵۷۷)۔ ’’افسوس کہ مکالمے کی بات کرنے والے شخص کو ہم نے گولیوں کی زبان سے ضائع کردیا‘‘ (ص ۳۲۰)۔ دراصل: ’’وہ پاکستان میں خودکش حملوں کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔ لال مسجد کے سانحے کا انھیں انتہائی دکھ تھا۔ انھیں اپنے ملک اور وطن سے والہانہ محبت تھی، وہ اپنے ملک کے خلاف کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے‘‘ (ص ۴۸)۔ ’’ان پر محدثانہ رنگ غالب تھا، اس لیے اتباعِ سنت بدرجۂ اتم موجود تھی‘‘ (ص ۵۷‘)۔ ’’احادیث ِ ضعیفہ اور موضوعہ کی کتابوں کے حوالے دینے سے منع فرماتے تھے۔ اس سلسلے میں اپنے استاد ناصرالدین البانی سے متاثر تھے‘‘ (ص ۵۸)۔ ۱۹۹۱ء میں قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا: ’’پختون خواہ کے نام سے مجھے نفرت ہے‘‘ (ص ۳۰۰)۔ ان اقتباسات سے مولانا حسن جان شہید کے طرزِ فکر کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

مولانا عبدالقیوم حقانی نے ماہ نامہ القاسم کی اس اشاعت ِ خاص میں اس ممتاز عالمِ دین اور جرأت مند انسان کے احوال کو حلقہ احباب کی مدد سے مرتب کر کے اہم خدمت انجام دی ہے۔(سلیم منصور خالد)


چودھری افضل حق اور ان کی تصنیف زندگی[سوانح اور فکری و فنی مطالعہ]، ڈاکٹر اسلم انصاری۔ ناشر: دارالکتاب، اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۷۲۳۵۰۹۴-۰۴۲ صفحات: ۲۸۰۔ قیمت: ۲۷۵ روپے

اردو ادب کی جو کتابیں اپنے مصنفین کی دائمی شہرت اور مسلم تہذیب پر دُور رَس اثرات کا باعث بنیں، ان میں چودھری افضل حق(۷ جنوری ۱۸۹۳ ء-۸ جنوری ۱۹۴۲ء) کی کتاب زندگی (۱۹۳۰ء) بہت نمایاں ہے۔ بعض گھریلو اور معاشی مجبوریوں کے پیش نظر وہ تعلیم ادھوری چھوڑ کر پولیس میں سب انسپکٹر بھرتی ہو گئے۔ سرکاری ملازمت کے چار پانچ برس انھوں نے دل پر جبر کرکے گزارے، تاہم ایک جلسے میں ڈیوٹی کے دَوران سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے خطاب سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انگریز کی ملازمت سے مستعفی ہو گئے۔ کانگریس، تحریک خلافت اور مجلس احرار سے وابستہ رہے اور گرفتار ہوئے۔ چودھری صاحب اپنی شبانہ روز سیاسی سرگرمیوںاور شعلہ بیانی کے باعث سول نا فرمانی کی تحریک کے دوران گرفتار ہوئے اور انھیں گورکھپور کی جیل میں بند کر دیا گیا۔ قید کے دنوں میں انھیں احساس ہوا کہ زندگی کی حقیقتوں کی نقاب کشائی کرنی چاہیے تاکہ لوگوں میں زندگی کا شعور پیدا ہو۔ زندگی کے نام سے منصہ شہود پر آنے والی یہ کتاب عالمِ مثال، عالمِ ارواح یا جہانِ افلاک کی روحانی یا تخیلی سیر پر مبنی ابو العلا معری کے رسالۃ الغفران ، حکیم سنائی کی مثنوی سیر العباد الی المعاد ، دانتے کی طربیہ ایزدی اور اقبال کی جاوید نامہ کی طرز پر اردو کی اب تک واحد تصنیف ہے۔

ڈاکٹر اسلم انصاری داد کے مستحق ہیں، جنھوں نے اس کتاب کو اپنی تحقیق کے لیے منتخب کیا۔ محقق نے ابو یوسف قاسمی کی تالیف(مفکرِ احرار: چودھری افضل حق) ، محمد امین زبیری کی تصنیف : سیاستِ مِلیہ، مولانا غلام رسول مہر کے مضمون : پیکرِ عزیمت (مطبوعہ روزنامہ آزاد ، لاہور) اور چودھری افضل حق کی خود نوشت: میرا افسانہ کی مدد سے مصنف کی زندگی کا جامع سوانحی خاکہ ترتیب دیا ہے۔ انھوں نے ان کی سیرت و کردار ، اخلاقی ومعاشرتی افکار و حیات سے روشناس کرانے کے لیے تحقیق کی اور کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ محقق نے بڑی عرق ریزی سے زندگی کا بطور تمثیل جائزہ لیا ہے اور عالمِ مثال اور عالمِ بزرخ کے زیرِ عنوان پیش کی گئی عالمِ مثال کی پانچ پاک روحوں اور نو ناپاک روحوں پر بحث کے علاوہ چودھری افضل حق کے تاریخی شعور اور زندگی کی تمثیلی معنویت پر روشنی ڈالی ہے۔ زندگی کے فلسفۂ مذہب اور فلسفۂ اخلاق (نظریۂ خیروشر) کا جائزہ لینے کے بعد زندگی  کا فنی و تکنیکی اور اسلوبیاتی مطالعہ پیش کیا ہے۔یہی وہ مقامات   ہیں، جہاں محقق کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا بھربور موقع مِلا ہے۔ کتاب کے آخر میں زندگی کو عالمی ادب کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ڈاکٹر اسلم انصاری اردو، فارسی اور انگریزی کے معتبر شاعر اور اقبال شناس کی حیثیت سے اپنی انفرادیت کا نقش ثبت کر چکے تھے، اس مقالے کی اشاعت سے وہ ایک سنجیدہ محقق کے طور پر بھی سامنے آئے ہیں۔ یہ بات اطمینان بخش ہے کہ ان کی اس کاوش سے اردو زبان و ادب کے ناقدین و محققین کے لیے نئی منزلوں کی نشان دہی ہورہی ہے ۔ بلند تر تحقیقی معیار، اعلیٰ تنقیدی ذوق اور شگفتہ اسلوب کی حامل یہ کتاب محقق کے مقام و مرتبے کے دوبارہ تعین کا تقاضا کرتی ہے۔(ڈاکٹر خالد ندیم)


کشمیر، تاریخ کے گرداب میں، سید عارف بہار۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، ڈی۳۵، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی۔ صفحات: ۲۳۶۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

جموں و کشمیر جنت نظیر خطے کے ایک کروڑ سے زائد باشندوں کے ساتھ گذشتہ ۶۰ برسوں میں جو سلوک ہوا، اُس کاتجزیہ اگرچہ متعدد ماہرین سیاسیات نے کیا ہے اور اس پر بیسیوں کتابیں چھپ چکی ہیں۔ اس کے باوجود، اس موضوع پر ایک سنجیدہ مطالعے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

سید عارف بہار گذشتہ دو دہائیوں سے کشمیر، پاکستان اور سیاسیاتِ عالم کے حوالے سے مضامین قلم بند کرنے میں مصروف ہیں۔ اُن کے مضامین نے کشمیر کے حوالے سے کئی نئے گوشے وا کیے اور پاکستانی عوام کو کشمیریوں کے حالات و واقعات اور اُن کی جدوجہد ِ آزادی اور بھارت کے مظالم سے روشناس کرایا ہے۔

انگریزی دور میں بھارتی استبداد میں اور اب عالمی ایوان ہاے سیاست میں مسئلہ کشمیر سے جس طرح غفلت برتی گئی ہے، زیرنظر کتاب میں اُس کا بھرپور جائزہ لیا گیا ہے۔ تہذیب، تعلیم، زراعت، ثقافت، وزراے اعظم، صدور اور تمام ممکنہ تفصیلات کو سمونے کی کوشش کی گئی ہے۔ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر میں سیاسی پنڈتوں کی بازی گری کا بے لاگ تجزیہ کیا گیا ہے اور پاکستان اور بھارت کے حکمرانوں کی مجرمانہ خامشی اور غلط حکمت عملیوں پر بھرپور گرفت کی گئی ہے۔ اس مختصر کتاب میں اہم معلومات کے ساتھ ساتھ اقوامِ متحدہ کی قرارداد میں، الحاق کی دستاویز جسے مہاراجا ہری سنگھ نے ۱۹۴۷ء کو نافذ کیا، معاہدۂ تاشقند، شملہ معاہدہ اور اعلانِ لاہور کو ’دستاویزات‘ کے تحت دیاگیا ہے۔ اگر ان معاہدوں کا اصل عکس بھی شائع کیا جاتا تو بہت اچھا ہوتا۔ کشمیر کے موضوع پر اس کتاب کی اشاعت سے اسلامک ریسرچ اکیڈمی نے ایک مفید علمی خدمت انجام دی ہے۔ (محمد ایوب منیر)


مسلمانوں کی پستی، اسباب اور حل، فضل کریم بھٹی۔ناشر: فیض الاسلام پریس، راولپنڈی۔ صفحات: ۲۸۸۔ قیمت: ۳۷۰ روپے۔

ساتویں صدی عیسوی سے سترھویں صدی عیسوی تک مسلمانوں کے عروج کا زمانہ تھا لیکن اس کے بعد جو زوال شروع ہوا وہ کہیں تھمنے کا نام نہیں لیتا۔ چنانچہ اس زوال کے اسباب کا پتا چلانے کے لیے اور اس سے نکلنے کے لیے دردمنددل کوشاں ہیں۔ جہاں تک حکمران طبقے کی بات ہے انھیں تو اس کا احساس ہی نہیں ہے لیکن ہمارے دانش ور اس کا بخوبی احساس رکھتے ہیں۔

مصنف نے پوری اُمت ِمسلمہ کو پیش نظر رکھا ہے اور اس میں خاص طور پر برعظیم اور پاکستان کے حالات کو مرکزی حیثیت دی ہے۔ ان کے نزدیک اس کا ایک بڑا سبب ہمارا تعلیمی زوال ہے۔ ہمارا نصابِ تعلیم بہت زیادہ اصلاحات چاہتا ہے۔ اس پر علامہ اقبالؒ اور مولانا مودودیؒنے توجہ دلائی لیکن جس سطح پر کام ہونا چاہیے، وہ نہیں ہوا۔ اس پر اسی صورت میں قابو پایا جاسکتا ہے کہ ہم اسلامی علوم کے ساتھ جدید علوم کو بھی سیکھیں اور من حیث القوم ہماری سوچ کا    مرکز و محور ایک ہونا چاہیے۔ یہ کتاب ایک دردمند دل کی پکار ہے۔(محمد ایوب لِلّٰہ)


شگفتہ شگفتہ، فرزانہ چیمہ۔ ناشر: مکتبہ خواتین میگزین، منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ اشاعت اول: جون ۲۰۰۸ء۔ صفحات: ۲۰۴۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔

زندگی کتنی تہہ دار، ہمہ پہلو اور رنگا رنگ ہے، اس میں کتنی جدت اور ندرت ہے اس کا اندازہ فرزانہ چیمہ کی متنوع تحریروں کو پڑھ کر بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ ان کی تازہ کتاب شگفتہ شگفتہ جو ۲۸ مضامین پر مشتمل ہے، واقعتا شگفتگی، مزاح اور دل چسپ انداز لیے ہوئے ہے۔

مزاحیہ ادب تخلیق کرنا مشکل کام ہے، اور مصروف ترین زندگی میں یہ کام مشکل تر بن جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ گھریلو کام کاج، سرکاری ڈیوٹی اور بچوں کی ذمہ داری کے ساتھ پڑھنے اور لکھنے کے لیے وقت نکالنا اور اپنے اردگرد پھیلے ہوئے واقعات کو کہانی، انشائیہ اور فکاہیہ تحریروں کا روپ دینا کچھ اتنا آسان کام نہیں۔قوتِ تخلیق، مشاہدہ، وسعت ِ مطالعہ، گہری سوچ اور قلم کے ساتھ مضبوط اور پختہ وابستگی کے نتیجے میں ہی یہ ممکن ہے۔ زبان عام فہم اور آسان، پنجابی الفاظ، محاورے اور کتنے ہی اشعار کتاب کا حُسن دوبالا کر رہے ہیں۔ جنٹل مین سیریز کے کرنل اشفاق حسین کے ’جنگ جو لکھاری‘ اور سلمیٰ یاسمین نجمی کی ’اے رہبرِ فرزانہ‘ نے اس کتاب کے کئی خفیہ گوشے وا کیے ہیں۔ ایک خوب صورت اور دل چسپ کتاب۔(عمران ظہور غازی)

تعارف کتب

  •  عہدنبویؐ کا بلدیاتی نظم و نسق  ،نجمہ راجا یٰسین(بنت خلیل)۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، ڈی-۳۵، بلاک ۵، فیڈرل بی ایریا، کراچی ۔ فون: ۶۸۰۹۲۰۱-۰۲۱۔ صفحات: ۱۷۶۔ قیمت: ۱۲۰ روپے۔[عرب تمدن، تاریخی پس منظر، ظہورِ اسلام سے قبل عرب معاشرے کی حالت، عہدنبویؐ میں بلدیاتی اداروں کی تنظیم و تشکیل اور عہدنبویؐ میں بلدیاتی اداروں کی کارکردگی جیسے موضوعات پر قلم اٹھایا گیا ہے۔ عصری سماجیاتی ادب میں ایک قابلِ قدر اضافہ (مفصل تبصرے کے لیے دیکھیے: ترجمان القرآن، اپریل ۲۰۰۷ء)۔]
  •  مولانا مودودی اور محترمہ مریم جمیلہ کی مراسلت، مترجم: ڈاکٹر عبدالغنی فاروق۔ ناشر:کتاب سراے، الحمدمارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۱۲۸۔قیمت: ۸۰ روپے۔ [گذشتہ صدی کے چھٹے عشرے میں، امریکی نژاد نومسلمہ محترمہ مریم جمیلہ نے تلاشِ حق کے لیے مولانا مودودی کے ساتھ خط و کتابت کی۔ اس میں دین اسلام، اسلامی معاشرت، نیز فکری اور سماجی مسائل پر قیمتی نکات زیربحث آئے ہیں۔      یہ مراسلت انگریزی میں تھی۔ اس کا یہ ترجمہ ۲۵ سال بعد دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔]
  •  درخت اور اس کا پھل، امجدحیات ملک۔ ملنے کا پتا: بی/۲۴۳- نیو چوبرجی پارک، لاہور۔ فون: ۷۴۱۸۸۰۴-۰۴۲۔صفحات:۶۴۔ قیمت: ۶۰ روپے۔ [نیو ورلڈ آرڈر کے تمام پہلوئوں، یعنی تاریخی، سیاسی، مذہبی، معاشی و معاشرتی وغیرہ کا مبنی برحقائق احاطہ۔ ان قطعی حقائق اور ناگزیر حقیقتوں سے بے خبری کی وجہ سے ہمارے ملک میں اعلیٰ سطح پر بڑے نازک فیصلوں میں نقص اور بگاڑ پیدا ہوتا رہا ہے۔ ان اہم حقائق سے ہمیں یہ شعور بھی حاصل ہوتا ہے کہ اس دنیا میں طاغوتی طاقتوں کی موجودگی کے علی الرغم قادرِ مطلق ہستی کیسے بنی نوع انسان کو بتدریج اپنے وضع کردہ حقیقی عالمی نظام کی طرف لے جارہی ہے۔ کتاب کے نام سے موضوع واضح نہیں۔]