اگست ۲۰۱۰

فہرست مضامین

مدیر کے نام

| اگست ۲۰۱۰ | مدیر کے نام

Responsive image Responsive image

احمد علی محمودی، حاصل پور

’سفینہ حریت اور اسرائیل کا مستقبل‘ (جولائی ۲۰۱۰ئ) حوصلہ افزا تحریر ہے۔ نفرت کی علامت، اسرائیلی ریاست ظلم کی انتہائی بلند چوٹیوں کو چھو رہی ہے۔ خود مغربی مفکرین کی راے میں ۲۰۲۰ء کے بعد دنیا میں اسرائیل نام کی کوئی ریاست نہ رہے گی۔ عالمِ عرب کے مشہور مفکر، ڈاکٹر سفر بن عبدالرحمن الحوالی کا کہنا ہے کہ ’’نفرت کی ریاست کا اختتام یا اختتام کے آغاز کا زمانہ ۲۰۱۲ء کے آس پاس بنتا ہے‘‘۔تاہم، پیش آمدہ حالات کے تناظر میں یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ ارضِ فلسطین کی آزادی اور صہیونی ریاست کی بربادی اب بہت قریب اور یقینی ہے۔


ڈاکٹر طاہر سراج ،ساہیوال

’تعلیمی شعبہ منفی تجربات‘ (جولائی ۲۰۱۰ئ) میں حکومت ِ پنجاب کی تعلیم دشمن پالیسی کو جس طرح    بے نقاب کیا گیا ہے، وہ قابلِ تعریف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت ِ پنجاب عالمی طاقتوں کے ایجنٹ کاکردار  ادا کرکے ہمارے شہروں اور دیہی علاقوں میں رہنے والے مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے نوجوانوں کو دانستہ زیورِتعلیم سے محروم رکھنا چاہتی ہے۔ سرمایہ دارانہ ذہنیت کی عکاس یہ تعلیمی پالیسی پاکستان کے مستقبل کے لیے تباہ کن ہے۔ وطن کے ہمدرد افراد کو حکومت کے اس ظالمانہ قدم کے سامنے بند باندھنا چاہیے۔


محمد ضیا ،ای میل

’علوم کو اسلامیانے کے نام پر‘ (جون ۲۰۱۰ئ) میں محمد رضی الاسلام نے بجا گرفت کی ہے۔ ڈاکٹر   سید وقاراحمد حسینی جس فکر کو فروغ دے رہے ہیں وہ اسلام کی خدمت نہیں ہے۔ اس کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے، اور متعلقہ یونی ورسٹی کو بھی اس طرف توجہ دلانے کی ضرورت ہے۔ اس تحریر میں دیگر اہلِ علم کے لیے بھی توجہ ہے کہ وہ اسلام کے نام پر کی جانے والی ایسی کوششوں سے اجتناب کریں۔


ھم نے آج تراویح میں کیا پڑہا؟

تراویح کے دوران روزانہ پڑھے جانے والے قرآن کریم کے حصے کا خلاصہ مع بنیادی عقائد و دیگر معلومات اور قرآنی و مسنون دعائیں مع آسان ترجمہ دستیاب ہیں۔ خواہش مند خواتین و حضرات کم از کم 15 روپے کے ڈاک ٹکٹ بنام ڈاکٹر ممتاز عمر، 473-T، کورنگی نمبر2، کراچی- 74900 کے پتے پر    روانہ کرکے کتابچے بلامعاوضہ حاصل کرسکتے ہیں۔


عفت زین العابدین ،لاہور

’ہم نے کشمیر کیسے کھویا!‘ (جولائی ۲۰۱۰ئ) ایک چشم کشا تحریر ہے۔ علامہ محمداسد کی تحریر سے انکشاف ہوا کہ برطانیہ کے دبائو پر قادیانی وزیرخارجہ کی یقین دہانی اور نہرو کے استصواب راے کے وعدے پر بھروسا کرکے کس طرح جیتی بازی ہار دی گئی: پاکستانی فوج کے حملے کا خطرہ ٹلتے ہی بھارتی وزیراعظم نہرو فوری استصواب راے کے وعدے سے منحرف ہوگیا اور یہ مسئلہ کشمیر غیرمعینہ عرصے کے لیے معرضِ التوا میں ڈال دیا گیا (ص ۸۵)۔ آج بھی امریکی دبائو پر بے مقصد مذاکرات میں وقت ضائع کیا جا رہا ہے۔ مسئلۂ کشمیر کا   واحد حل استصواب راے یا پھر ہندو جارحیت کے خلاف جہاد ہے۔

 

حافظ محمد ایوب ، اسلام آباد

مولانا معین الدین خٹک سے ایک بار پوچھا کہ تحریک کے ابتدائی کارکنان کے بارے میں کچھ بتائیں۔ کچھ سوچ کر بولے۔ ۱۹۵۲ء کراچی میں جماعت ِ اسلامی کا اجتماعِ عام منعقد ہوا۔ رفقا کے قافلے بسوں اور ٹرینوں کے ذریعے جوق در جوق کراچی کی طرف چل پڑے۔ موضع شیخ سلطان ٹانک (سرحد) کے تین ساتھیوں نے جو بے انتہا غریب تھے، اجتماع میں شرکت کا ارادہ کرلیا۔ کسی دوسرے ساتھی سے نہ مالی تعاون لیا اور نہ جماعت کے بیت المال ہی پر بوجھ بنے۔ یہ مذکورہ تینوں ساتھی کراچی کی جانب پیدل چل پڑے۔ ایک آنہ کی دو روٹیاں اور جی ٹی روڈ پر ایسے ہوٹل بھی ہوا کرتے تھے جہاں آنہ روٹی دال مفت بھی مل جایا کرتی تھی۔ دن بھر سفر کرتے، رات کسی مسجد میں نمازِ عشاء کے بعد آرام کرتے اور نماز فجر پڑھ کر سفر جاری رکھتے۔ استقبالیہ کیمپ سہراب گوٹھ لبِ سڑک تھا۔ ناظم استقبالیہ نے آمدہ قافلہ سے دریافت کیا کہ جناب آپ کہاں سے اور کیسے پہنچے؟ جواب سن کر کیمپ میں موجود کارکنان حیران رہ گئے۔ اجتماع گاہ میں قائد تحریک سیدمودودیؒ کو اطلاع  دی گئی۔ مولانا استقبالیہ میں تشریف لائے اور اس قافلے کا خود استقبال کیا۔ اِس قافلے کو قافلۂ سخت جان کا نام سیدصاحب نے دیا۔ ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھ گئے۔ سب کی آنکھوں سے موتی چھلک پڑے: ’’یااللہ! یہ تیرے بندے صرف تیری رضا اور تیرے دین کی بقا کے لیے جوتکالیف اُٹھا رہے ہیں ان کی قربانیوں کو قبول فرما، آمین!

_______________