اگست ۲۰۱۲

فہرست مضامین

آیاتِ سجدہ

ڈاکٹر محمد اقبال خلیل | اگست ۲۰۱۲ | فہم قرآن

Responsive image Responsive image

انتخاب و ترتیب:

وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے

ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات

قرآنِ پاک کی تلاوت کے دوران کچھ متعین ایسی آیات آتی ہیں جن پر سجدہ کرنے کا حکم ہے۔ یہ ہمارے پیارے نبی پاکؐ کی سنت مبارکہ ہے۔ ہم جب تلاوتِ قرآنِ پاک کے دوران ان آیات پر سجدہ کرتے ہیں تو اس سنت پرعمل کرتے ہیں اور اپنے رب کے حضور اپنی بندگی اور عاجزی کا اظہار کرتے ہیں۔ مراسمِ عبودیت میں سجدے کا مقام سب سے بڑھ کر ہے۔ انسان جب اپنی پیشانی کو زمین پر رکھتا ہے تو وہ خالق کائنات کے سامنے اپنی انتہائی کمزوری اور بیچارگی کا اقرار کرتا ہے۔ دین اسلام میں اللہ کے سوا کسی کے سامنے جھکنے اور سجدہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ حدیث پاک ہے: ’’بندہ (دورانِ نماز) سجدے میں اپنے رب کے زیادہ قریب ہوتا ہے، لہٰذا سجدے میں کثرت سے دعا کیا کرو‘‘۔ (مسلم، کتاب الصلوٰۃ)

مولانا مودودیؒ آیاتِ سجدہ کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’قرآنِ مجید میں ایسے ۱۴ مقامات ہیں جہاں آیاتِ سجدہ آئی ہیں۔ ان آیات پر سجدے کا مشروع ہونا تو متفق علیہ ہے مگر اس کے وجوب میں اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہؒ سجدئہ تلاوت کو واجب کہتے ہیں اور دوسرے علما نے اس کو سنت قرار دیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بسااوقات ایک بڑے مجمع میں قرآن پڑھتے اور اس میں جب آیت سجدہ آتی تو آپؐ خود بھی سجدے میں گر جاتے تھے اور جو شخص جہاں ہوتا وہیں سجدہ ریز ہوجاتا تھا، حتیٰ کہ کسی کو سجدہ کرنے کے لیے جگہ نہ ملتی تو وہ اپنے آگے والے شخص کی پیٹھ پر سر رکھ دیتا۔ یہ بھی روایات میں آیا ہے کہ آپؐ نے فتح مکہ کے موقع پر قرآن پڑھا اور اس میں جب آیت سجدہ آئی تو جو لوگ زمین پر کھڑے تھے انھوں نے زمین پر سجدہ کیا اور جو گھوڑوں اور اُونٹوں پر سوار تھے وہ اپنی سواریوں پر ہی جھک گئے۔ کبھی آپؐ نے دورانِ خطبہ میں آیت سجدہ پڑھی ہے تو منبر سے اُتر کر سجدہ کیا ہے اور پھر اُوپر جاکر خطبہ شروع کردیا ہے۔

اس سجدے کے لیے جمہور انھی شرائط کے قائل ہیں جو نماز کی شرطیں ہیں: ’’یعنی، باوضو ہونا، قبلہ رُخ ہونا اور نماز کی طرح سجدے میں زمین پر سر رکھنا۔ لیکن جتنی احادیث سجود تلاوت کے باب میں ہم کو ملی ہیں ان میں کہیں بھی ان شرطوں کے لیے کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ اُن سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ آیت سجدہ سن کر جو شخص جہاں جس حال میں ہو، جھک جائے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۲، ص۱۱۵-۱۱۶)

مولانا اشرف علی تھانویؒ نے بہشتی زیور میں سجدۂ تلاوت کا باب قائم کیا ہے (ص۳۳) جس میں تفصیل سے سجدئہ تلاوت کے مسائل بیان کیے گئے ہیں۔ وہ سب تو یہاں  نقل کرنا ممکن نہیں لیکن چند مفید نکات ملاحظہ فرمائیں: جس طرح نماز کا سجدہ کیا جاتا ہے اسی طرح سجدئہ تلاوت بھی کرنا چاہیے۔ اگر نماز میں سجدے کی آیت پڑھی اور نماز ہی میں سجدہ نہ کیا تو اب   نماز کے بعد سجدہ کرنے سے ادا نہ ہوگا، ایک ہی جگہ بیٹھے بیٹھے سجدے کی آیت کو کئی بار دہرا کر پڑھے تو ایک ہی سجدہ واجب ہے۔ ساری سورت پڑھنا اور سجدے کی آیت کو چھوڑ دینا مکروہ اور منع ہے۔   فقط سجدے سے بچنے کے لیے وہ آیت نہ چھوڑے کہ اس میںسجدے سے گویا انکار ہے۔

رمضان المبارک میں صلوٰۃ التراویح میں ختم قرآن کے دوران اور تلاوتِ قرآن کے  موقع پر سجدۂ تلاوت کے مواقع اور التزام بالعموم بڑھ جاتا ہے اور ہر خاص و عام، بچہ، بوڑھا، جوان، مرد اور عورت سجدۂ تلاوت باجماعت کرتے ہیں۔ اس مضمون میں ان تمام آیاتِ سجدہ کو ترتیب سے  جمع کرکے ان کا ترجمہ و تفسیر اور شانِ نزول بیان کردی ہے جس طرح وہ قرآن میں موجود ہیں۔ زیادہ تر حواشی تفہیم القرآن سے لیے گئے ہیں۔ صرف ایک آیت کی تفسیر، ابن کثیر سے لی گئی ہے۔ اُمید ہے اس مطالعے سے قاری سجدئہ تلاوت کے موقع پر زیادہ خشوع و خضوع کے ساتھ پروردگار عالم کے حضور میں اپنی عجز وانکساری اور کوتاہ دامنی کا اظہار کرسکیں گے، ان شاء اللہ۔

پھلا سجدہ

اِنَّ الَّذِیْنَ عِنْدَ رَبِّکَ لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَ یُسَبِّحُوْنَہٗ وَ لَہٗ یَسْجُدُوْنَo (اعراف ۷:۲۰۶)، جو فرشتے تمھارے رب کے حضور تقرب کا مقام رکھتے ہیں وہ کبھی اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں آکر اس کی عبادت سے منہ نہیں موڑتے، اور اس کی تسبیح کرتے ہیں، اور اس کے آگے جھکے رہتے ہیں۔

’’مطلب یہ ہے کہ بڑائی کا گھمنڈ اور بندگی سے منہ موڑنا شیاطین کا کام ہے اور اس کا نتیجہ پستی و تنزل ہے۔ بخلاف اس کے خدا کے آگے جھکنا اور بندگی میں ثابت قدم رہنا ملکوتی فعل ہے اور اس کا نتیجہ ترقی و بلندی اور خدا سے تقرب ہے۔ اگر تم ترقی کے خواہش مند ہو تو اپنے طرزِعمل کو شیاطین کے بجاے ملائکہ کے طرزِعمل کے مطابق بنائو۔

تسبیح کرتے ہیں، یعنی وہ اللہ تعالیٰ کا بے عیب اور بے نقص اور بے خطا ہونا، ہرقسم کی کمزوریوں سے اس کا منزہ ہونا، اور اس کا لاشریک اور بے مثل اور بے ہمتا ہونا دل سے مانتے ہیں، اس کا اقرار و اعتراف کرتے ہیں اور دائماً اس کے اظہار و اعلان میں مشغول رہتے ہیں۔

اس مقام پر حکم ہے کہ جو شخص اس آیت کو پڑھے یا سنے وہ سجدہ کرے تاکہ اس کا حال ملائکہ مقربین کے حال سے مطابق ہوجائے اور ساری کائنات کا انتظام چلانے والے کارکن جس خدا کے آگے جھکے ہوئے ہیں اسی کے آگے وہ بھی ان سب کے ساتھ جھک جائے، اور اپنے عمل سے فوراً یہ ثابت کردے کہ وہ نہ تو کسی گھمنڈ میں مبتلا ہے اور نہ خدا کی بندگی سے منہ موڑنے والا ہے‘‘۔(تفہیم القرآن، ج۲، ص ۱۱۵)

دوسرا سجدہ

وَ لِلّٰہِ یَسْجُدُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ طَوْعًا وَّ کَرْھًا وَّ ظِلٰلُھُمْ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ o (الرعد ۱۳:۱۵)، وہ تو اللہ ہی ہے جس کو زمین و آسمان کی ہرچیز طوعاً و کرہاً سجدہ کر رہی ہے اور سب چیزوں کے سایے صبح و شام اس کے آگے جھکتے ہیں۔

’’سجدے سے مراد اطاعت میں جھکنا، حکم بجا لانا اور سرتسلیم خم کرنا ہے۔ زمین و آسمان کی ہرمخلوق اس معنی میں اللہ کو سجدہ کر رہی ہے کہ وہ اس کے قانون کی مطیع ہے اور اس کی مشیت سے بال برابر بھی سرتابی نہیں کرسکتی۔ مومن اس کے آگے برضا و رغبت جھکتا ہے تو کافر کو مجبوراً جھکنا پڑتاہے، کیونکہ خدا کے قانونِ فطرت سے ہٹنا اس کی مقدرت سے باہر ہے۔

سایوں کے سجدہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ اشیا کے سایوں کا صبح و شام مغرب اور مشرق کی طرف گرنا اس بات کی علامت ہے کہ یہ سب چیزیں کسی امر کی مطیع اور کسی قانون سے مسخر ہیں‘‘۔(تفہیم القرآن، ج۲،ص ۴۵۱)

اس آیت سجدہ سے پہلے کی آیتوں میں اللہ تبارک و تعالیٰ، کفار کے مشرکانہ طرزِعمل پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اسی کو پکارنا برحق ہے۔رہیں وہ دوسری ہستیاں جنھیں اس کو چھوڑ کر یہ لوگ پکارتے ہیں، وہ اُن کی دعائوں کا کوئی جواب نہیں دے سکتیں۔ انھیں پکارنا تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص پانی کی طرف ہاتھ پھیلا کر اُس سے درخواست کرے کہ تو میرے منہ تک پہنچ جا، حالانکہ پانی اس تک پہنچنے والا نہیں۔ بس اسی طرح کافروں کی دعائیں بھی کچھ نہیں ہیں مگر ایک تیر بے ہدف‘‘۔ اس کے بعد اس اللہ کا ذکر ہے جس کو ہرچیز سجدہ کررہی ہے۔ اس لیے ہم کو بھی اظہارِ عبدیت کے طور پر اور پورے کائنات کے نظام سے ہم آہنگی اختیار کرتے ہوئے اس مقام پر سجدہ کرنا چاہیے۔

تیسرا سجدہ

یَخَافُوْنَ رَبَّھُمْ مِّنْ فَوْقِھِمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ o (النحل ۱۶:۵۰)، اپنے رب سے جو اُن کے اُوپر ہے، ڈرتے ہیں اور جو کچھ حکم دیا جاتا ہے اسی کے مطابق کام کرتے ہیں۔

اگر اس سے پہلے کی آیت ۴۸ کو ساتھ ملا کر پڑھیں تو مضمون واضح ہوجاتا ہے: ’’اور کیا یہ لوگ اللہ کی پیدا کی ہوئی کسی چیز کو بھی نہیں دیکھتے کہ اس کا سایہ کس طرح اللہ کے حضور سجدہ کرتے ہوئے دائیں اور بائیں گرتا ہے۔ سب کے سب اِس طرح اظہار عجز کر رہے ہیں‘‘۔ اس کے بعد فرمایا: ’’زمین اور آسمان میں جس قدر جان دار مخلوقات ہیں اور جتنے ملائکہ ہیں سب اللہ کے آگے سربسجود ہیں۔ وہ ہرگز سرکشی نہیں کرتے۔ اپنے رب سے جو اُن کے اُوپر ہے، ڈرتے ہیں اور جو کچھ حکم دیا جاتا ہے اسی کے مطابق کام کرتے ہیں‘‘۔

’’[یہاں] تمام جسمانی اشیا کے سایے اس بات کی علامت ہیں کہ پہاڑ ہوں یا درخت، جانور ہوں یا انسان، سب کے سب ایک ہمہ گیر قانون کی گرفت میں جکڑے ہوئے ہیں، سب کی پیشانی پر بندگی کا داغ لگا ہوا ہے، اُلوہیت میں کسی کا کوئی ادنیٰ حصہ بھی نہیں ہے۔ سایہ پڑنا ایک چیز کے مادی ہونے کی کھلی علامت ہے، اور مادی ہونا بندہ و مخلوق ہونے کا کھلا ثبوت۔

[اللہ کے آگے سربسجود ہونے سے مراد یہ ہے کہ صرف] زمین ہی کی نہیں، آسمانوں کی بھی وہ تمام ہستیاں جن کو قدیم زمانے سے آج تک لوگ دیوی، دیوتا اور خدا کے رشتہ دار ٹھیراتے آئے ہیں دراصل غلام اور تابع دار ہیں۔ ان میں سے بھی کسی کا خداوندی میں کوئی حصہ نہیں۔ ضمناً اس آیت سے ایک اشارہ اس طرف بھی نکل آیا کہ جان دار مخلوقات صرف زمین ہی میں نہیں ہیں بلکہ عالم بالا کے سیاروں میں بھی ہیں۔ یہی بات سورئہ شوریٰ، آیت ۲۹ میں بھی ارشاد ہوئی ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۲،ص ۵۴۵-۵۴۶)

چوتہا سجدہ

وَ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ یَبْکُوْنَ وَ یَزِیْدُھُمْ خُشُوْعًاo (بنی اسرائیل ۱۷:۱۰۹)، اور وہ منہ کے بل روتے ہوئے گر جاتے ہیں اور اسے سن کر ان کا خشوع اور بڑھ جاتا ہے۔

اگر آیت سجدہ کو پہلے کی دو آیتوں کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو مضمون مکمل ہوجاتا ہے: ’’اے نبی ؐ! ان لوگوں سے کہہ دو کہ تم اسے مانو یا نہ مانو، جن لوگوں کو اس سے پہلے علم دیا گیا ہے، انھیں جب یہ سنایا جاتا ہے تو وہ منہ کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں اور پکار اُٹھتے ہیں: ’’پاک ہے ہمارا رب، اس کا وعدہ تو پورا ہونا ہی تھا‘‘۔ اور وہ منہ کے بل روتے ہوئے گر جاتے ہیں اور اسے سُن کر ان کا خشوع اور بڑھ جاتا ہے‘‘۔

’’یعنی وہ اہلِ کتاب جو آسمانی کتابوں کی تعلیمات سے واقف ہیں اور ان کے اندازِ کلام کو پہچانتے ہیں… قرآن کو سن کر فوراً سمجھ جاتے ہیں کہ جس نبی کے آنے کا وعدہ پچھلے انبیا کے صحیفوں میں کیا گیا تھا وہ آگیا ہے[اور وہ بے ساختہ پکار اُٹھتے ہیں کہ پاک ہے ہمارا رب، اس کا وعدہ تو پورا ہونا ہی تھا۔ اور اس کے بعد اظہارِ تشکر کے طور پر اور اپنی بندگی کا اظہار کرنے کے لیے سجدے میں گر جاتے ہیں]۔ صالحین اہلِ کتاب کے اس رویے کا ذکر قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر کیا گیا ہے‘‘۔(تفہیم القرآن، ج۲،ص ۶۴۹-۶۵۰)

پانچواں سجدہ

اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ مِنْ ذُرِّیَّۃِ اٰدَمَ وَ مِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ وَّ مِنْ ذُرِّیَّۃِ اِبْرٰھِیْمَ وَ اِسْرَآئِ یْلَ وَ مِمَّنْ ھَدَیْنَا وَاجْتَبَیْنَاط اِذَا تُتْلٰی عَلَیْھِمْ اٰیٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَّبُکِیًّاo (مریم ۱۹:۵۸)، یہ وہ پیغمبر ہیں جن پر اللہ نے انعام فرمایا آدم ؑکی اولاد میں سے، اور اُن لوگوں کی نسل سے جنھیں ہم نے نوحؑ کے ساتھ کشتی پر سوار کیا تھا، اور ابراہیم ؑکی نسل سے اور اسرائیل ؑکی نسل سے۔ اور یہ ان لوگوں میں سے تھے جن کو ہم نے ہدایت بخشی اور برگزیدہ کیا۔ ان کا حال یہ تھا کہ جب رحمان کی آیات ان کو سنائی جاتیں تو روتے ہوئے سجدے میں گرجاتے تھے۔

’’اس آیت سجدہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے انبیا کی جماعت کا ذکر کیا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے کہ یہ ہے انبیاؑ کی جماعت جن کا ذکر اس سورۃ میں کیا گیا ہے، جو اللہ کے انعام یافتہ بندے ہیں۔ اس میں انبیاؑ کے چار گروہوں کا ذکر ہے۔ پہلا گروہ اولادِ آدم ؑسے، یعنی حضرت ادریس ؑاور ان کی اولاد۔ دوسرا حضرت نوحؑ کے ساتھ کشتی پر سوار ہونے والوں کی نسل سے مراد حضرت ابراہیم ؑخلیل اللہ ہیں، تیسرا ذُریت حضرت ابراہیم ؑسے مراد حضرت اسحاقؑ، حضرت یعقوب ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ ہیں، اور چوتھا گروہ ذُریت اسرائیل ؑ(یعقوب ؑ) سے مراد حضرت موسٰی ؑ، حضرت ہارون ؑ، حضرت زکریاؑ، حضرت یحییٰ اور حضرت عیسٰی ؑہیں..... فرمانِ الٰہی ہے کہ ان پیغمبروں کے سامنے جب کلام اللہ شریف کی آیتیں تلاوت کی جاتی تھیں تو اس کے دلائل و براہین کو سُن کر خشوع و خضوع کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا شکرواحسان مانتے ہوئے، روتے، گڑگڑاتے سجدے میں گر پڑتے تھے۔ اسی لیے اس آیت پر سجدہ کرنے کا حکم علما کا متفق علیہ مسئلہ ہے تاکہ ان پیغمبروں کی اتباع اور اقتدا ہوجائے۔ امیرالمومنین حضرت عمر بن خطابؓ نے سورئہ مریم کی تلاوت کی اور جب اس آیت پر پہنچے تو سجدہ کیا۔ پھر فرمایا: سجدہ تو کیا لیکن وہ رونا کہاں سے لائیں؟ (ابن ابی حاتم اور ابن جریر)‘‘۔ (تفسیر ابن کثیر، ج۳،ص ۲۳۸)

چہٹا سجدہ

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یَسْجُدُ لَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ وَ الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ وَ النُّجُوْمُ وَ الْجِبَالُ وَ الشَّجَرُ وَالدَّوَآبُّ وَ کَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِط وَکَثِیْرٌ حَقَّ عَلَیْہِ الْعَذَابُ ط وَ مَنْ یُّھِنِ اللّٰہُ فَمَالَہٗ مِنْ مُّکْرِمٍ ط اِنَّ اللّٰہَ یَفْعَلُ مَا یَشَآئُ (الحج ۲۲:۱۸)، کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کے آگے سربسجود ہیں وہ    سب جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں، سورج اور چاند اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان اور بہت سے وہ لوگ بھی جو عذاب کے مستحق ہوچکے ہیں؟ اور جسے اللہ ذلیل و خوار کردے اسے پھر کوئی عزت دینے والا نہیں ہے، اللہ کرتا ہے جو کچھ چاہتا ہے۔

[جس طرح پہلی آیات میں گزر چکا ہے کہ ] ’’فرشتے، اجرامِ فلکی اور وہ سب مخلوقات جو زمین کے ماورا، دوسرے جہانوں میں ہیں، خواہ وہ انسان کی طرح ذی عقل و ذی اختیار ہوں، یا حیوانات ، نباتات، جمادات اور ہوا اور روشنی کی طرح بے عقل و بے اختیار۔ [سب اللہ کے سامنے سربسجود ہیں]۔ یعنی وہ نہیں جو محض مجبوراً ہی نہیں بلکہ بالارادہ اور بطوع و رغبت اس کو سجدہ کرتے ہیں۔  ان کے مقابلے میں دوسرا انسانی گروہ جس کا بعد کے فقرے میں ذکر آرہا ہے، وہ ہے جو اپنے ارادے سے خدا کے آگے جھکنے سے انکار کرتا ہے، مگر دوسری بے اختیار مخلوقات کی طرح وہ بھی قانونِ فطرت کی گرفت سے آزاد نہیں ہے اور سب کے ساتھ مجبوراً سجدہ کرنے والوں میں شامل ہے۔ اس کے مستحق عذاب ہونے کی وجہ یہی ہے کہ وہ اپنے دائرۂ اختیار میں بغاوت کی روش اختیار کرتا ہے‘‘۔(تفہیم القرآن، ج۳،ص ۲۱۱-۲۱۲)

اس لیے یہاں اہلِ ایمان کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ وہ اپنی مرضی اور اختیار سے سجدہ کرنے والوں میں شامل ہوجائیں۔ یہاں سجدۂ تلاوت واجب ہے اور یہ سجدہ متفق علیہ ہے۔

ساتواں سجدہ

وَاِِذَا قِیْلَ لَھُمُ اسْجُدُوْا لِلرَّحْمٰنِ قَالُوْا وَمَا الرَّحْمٰنُ اَنَسْجُدُ لِمَا تَاْمُرُنَا وَزَادَھُمْ نُفُوْرًا o (الفرقان ۲۵:۶۰)، ان لوگوں سے جب کہا جاتا ہے کہ     اس رحمان کو سجدہ کرو تو کہتے ہیں: رحمان کیا ہوتا ہے؟ کیا بس جسے تو کہہ دے اسی کو ہم سجدہ کرتے پھریں؟‘‘ یہ دعوت ان کی نفرت میں اُلٹا اور اضافہ کردیتی ہے۔

اس سے پہلے والی آیت (۵۹) میں رحمان کی شان بیان کی گئی ہے، یعنی وہ خدا جو زندہ ہے، کبھی مرنے والا نہیں، وہ باخبر ہے۔ اس نے چھے دنوں میں زمین اور آسمانوں کو بنایا۔ پھر آپ ہی عرش پر جلوہ فرما ہوا۔

جب منکرین یہ بات کہتے کہ رحمان کیا ہوتا ہے تو ’’یہ بات دراصل وہ محض کافرانہ شوخی اور سراسر ہٹ دھرمی کی بنا پر کہتے تھے۔ جس طرح فرعون نے حضرت موسٰی ؑسے کہا تھا: وَمَا رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ، ’’رب العالمین کیا ہوتا ہے؟‘‘ حالانکہ نہ کفارِ مکہ خداے رحمان سے بے خبر تھے اور نہ   فرعون ہی اللہ رب العالمین سے ناواقف تھا۔ بعض مفسرین نے اس کی یہ تاویل کی ہے کہ اہلِ عرب کے ہاں اللہ تعالیٰ کے لیے ’رحمان‘ کا اسمِ مبارک شائع [مقبول] نہ تھا اس لیے انھوں نے یہ اعتراض کیا۔ لیکن آیت کا اندازِ کلام خود بتا رہا ہے کہ یہ اعتراض ناواقفیت کی بنا پر نہیں بلکہ    طُغیانِ جاہلیت کی بنا پر تھا، ورنہ اس پر گرفت کرنے کے بجاے اللہ تعالیٰ نرمی کے ساتھ انھیں سمجھا دیتا کہ یہ بھی ہمارا ہی ایک نام ہے، اس پر کان نہ کھڑے کرو۔ علاوہ بریں یہ بات تاریخی طور پر ثابت ہے کہ عرب میں اللہ تعالیٰ کے لیے قدیم زمانے سے رحمان کا لفظ معروف و مستعمل تھا....

اس جگہ سجدئہ تلاوت مشروع ہے اور اس پر تمام اہلِ علم متفق ہیں۔ ہرقاری اور سامع کو  اس مقام پر سجدہ کرنا چاہیے۔ نیز یہ بھی مسنون ہے کہ آدمی جب اس آیت کو سنے تو جواب میں کہے: زَادَنَا اللّٰہُ خُضُوْعًا مَّا زَادَ لِلْاَعْدَآئِ نُفُورًا، ’’اللہ کرے ہمارا خضوع اتنا ہی بڑھے جتنا دشمنوں کا نفور بڑھتا ہے‘‘۔(تفہیم القرآن، ج۳،ص ۴۶۰-۴۶۱)

آٹہواں سجدہ

اَلَّا یَسْجُدُوْا لِلّٰہِ الَّذِیْ یُخْرِجُ الْخَبْئَ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَیَعْلَمُ مَا تُخْفُوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ o (النمل ۲۷: ۲۵)، اس خدا کو سجدہ کریں جو آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ چیزیں نکالتا ہے اور وہ سب کچھ جانتا ہے جسے تم لوگ چھپاتے اور ظاہر کرتے ہو۔

اس آیت سجدہ سے پہلے ، سورئہ نمل میں حضرت سلیمانؓ کے دربار میں ہُدہُد کا بیان ہے،  جو اس نے ملک سبا کے دورے سے واپس آنے پر دیا۔ اس نے ایک ایسی قوم کا حال سنایا جس کی ایک ملکہ ہے اور وہ اور اس کی قوم اللہ کے بجاے سورج کو سجدہ کرتی ہے۔ شیطان نے ان کے اعمال ان کے لیے خوش نما بنا دیے اور انھیں شاہراہ سے روک دیا۔ اس وجہ سے وہ یہ سیدھا راستہ نہیں پاتے کہ اس خدا کو سجدہ کریں جو آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ چیزیں نکالتا ہے اور وہ سب کچھ جانتا ہے جسے تم لوگ چھپاتے اور ظاہر کرتے ہو۔

یہاں اللہ کی دو صفات کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے، یعنی جو ہر آن نئی چیزوں کو ظہور میں لارہا ہے جو پوشیدہ تھیں۔ اس کا علم ہرچیز پر حاوی ہے، اس کے لیے ظاہر اور مخفی سب یکساں ہیں۔

’’[یہاں] اللہ تعالیٰ کی ان دو صفات کو بطورِ نمونہ بیان کرنے سے مقصود دراصل یہ   ذہن نشین کرنا ہے کہ اگر وہ لوگ شیطان کے دھوکے میں نہ آتے تو یہ سیدھا راستہ انھیں صاف نظر آسکتا تھا کہ آفتاب نامی ایک دہکتا ہوا کرہ جو بے چارہ خود اپنے وجود کا ہوش بھی نہیں رکھتا، کسی عبادت کا مستحق نہیں ہے بلکہ صرف وہ ہستی اس کا استحقاق رکھتی ہے جو علیم و خبیر ہے اور جس کی قدرت ہرلحظہ نئے نئے کرشمے ظہور میں لارہی ہے۔[اور وہ اللہ ہے جو عبادت کا مستحق ہے اور عرشِ عظیم کا مالک ہے۔]

اس مقام پر سجدہ واجب ہے۔ یہ قرآن کے ان مقامات میں سے ہے جہاں سجدئہ تلاوت واجب ہونے پر فقہا کا اتفاق ہے۔ یہاں سجدہ کرنے سے مقصود یہ ہے کہ ایک مومن اپنے آپ کو آفتاب پرستوں سے جدا کرے اور اپنے عمل سے اس بات کا اقرار و اظہار کرے،کہ وہ آفتاب کو نہیں بلکہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کو اپنا مسجود و معبود مانتا ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۳،ص ۵۷۰-۵۷۱)

نواں سجدہ

اِنَّمَا یُؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَاالَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُوْابِھَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ سَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّھِمْ وَ ھُمْ لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ o (السجدہ ۳۲:۱۵)، ہماری آیات پر تو وہ لوگ ایمان لاتے ہیں جنھیں یہ آیات سنا کر جب نصیحت کی جاتی ہے تو سجدے میں گر پڑتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے۔

اس آیت سجدہ سے پہلے کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کی منظرکشی کی ہے: ’’کاش تم دیکھو وہ وقت جب یہ مجرم سرجھکائے اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گے (اس وقت یہ کہہ رہے ہوں گے) ’’اے ہمارے رب، ہم نے خوب دیکھ لیا اور سن لیا، اب ہمیں واپس بھیج دے تاکہ ہم نیک عمل کریں، ہمیں اب یقین ہوگیا ہے‘‘۔ (جواب میں ارشاد ہوگا) ’’اگر ہم چاہتے تو پہلے ہی ہرنفس کو اس کی ہدایت دے دیتے۔ مگر میری وہ بات پوری ہوگئی جو میں نے کہی تھی کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سب سے بھر دوں گا۔ پس اب چکھو مزا اپنی اس حرکت کا کہ تم نے اس دن کی ملاقات کو فراموش کردیا، ہم نے بھی اب تمھیں فراموش کردیا ہے۔ چکھو، ہمیشگی کے عذاب کا مزا اپنے کرتوتوں کی پاداش میں‘‘۔ (السجدہ ۳۲:۱۲-۱۴)

اس کے بعد آیت سجدہ میں اہلِ ایمان کی شان بیان کی گئی ہے کہ ’’وہ اپنے غلط خیالات کو چھوڑ کر اللہ کی بات مان لینے اور اللہ کی بندگی اختیار کر کے اس کی عبادت بجا لانے کو اپنی شان سے گری ہوئی بات نہیں سمجھتے۔ نفس کی کبریائی انھیں قبولِ حق اور اطاعت رب سے مانع نہیں ہوتی‘‘ (تفہیم القرآن، ج۴، ص۴۵)۔  لہٰذا جب وہ قرآن سنتے ہیں اور ان کو نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سجدے میں گر پڑتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور غرور میں مبتلا نہیں ہوتے۔ اسی لیے تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ اس مقام پر سجدہ کر کے اپنے آپ کو بھی مومنین کے اس گروہ میں شامل کریں۔

دسواں سجدہ

قَالَ لَقَدْ ظَلَمَکَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِکَ اِِلٰی نِعَاجِہِ ط وَاِِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْخُلَطَآئِ لَیَبْغِیْ بَعْضُھُمْ عَلٰی بَعْضٍ اِِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَقَلِیْلٌ مَّا ھُمْط وَظَنَّ دَاوٗدُ اَنَّمَا فَتَنّٰہُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّہٗ وَخَرَّ رَاکِعًا وَّاَنَابَ o (صٓ ۳۸:۲۴)، دائود ؑنے جواب دیا: ’’اِس شخص نے اپنی دُنبیوں کے ساتھ تیری دُنبی ملا لینے کا مطالبہ کرکے یقینا تجھ پر ظلم کیا، اور واقعہ یہ ہے کہ مل جل کر ساتھ رہنے والے لوگ اکثر ایک دوسرے پر زیادتیاں کرتے رہتے ہیں، بس وہی لوگ اس سے بچے ہوئے ہیں جو ایمان رکھتے اور عملِ صالح کرتے ہیں، اور ایسے لوگ کم ہی ہیں‘‘۔ (یہ بات کہتے کہتے) دائود ؑسمجھ گیا کہ یہ تو ہم نے دراصل اس کی آزمایش کی ہے، چنانچہ اس نے اپنے رب سے معافی مانگی اور سجدے میں گر گیا اور رجوع کرلیا۔

یہاں پر یہ ممکن نہیں کہ اس واقعے کی تفصیل میں جایا جائے جو حضرت دائود ؑکے ساتھ پیش آیا اور قرآن میں مذکور ہے۔ اس کے لیے تفاسیر سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے لیے اتنا کافی ہے کہ حضرت دائود ؑ سے کوئی قصور سرزد نہیں ہوا تھا جو دُنبیوں والے واقعے سے مماثلت رکھتا تھا۔ اسی لیے فیصلہ سناتے ہوئے معاً ان کو یہ خیال آیا کہ یہ میری آزمایش ہوئی ہے لیکن اس قصور کی نوعیت ایسی شدید نہ تھی کہ اسے معاف نہ کیا جاتا۔ جب انھوں نے سجدے میں گر کر توبہ کی تو  [نہ صرف] یہ کہ انھیں معاف کردیا گیا بلکہ دنیا اور آخرت میں ان کو جو بلند مقام حاصل تھا اس میں بھی کوئی فرق نہ آیا۔

’’اس امر میں اختلاف ہے کہ اس مقام پر سجدئہ تلاوت واجب ہے یا نہیں۔ امام شافعیؒ کہتے ہیں کہ یہاں سجدہ واجب نہیں بلکہ یہ تو ایک نبی کی توبہ ہے۔ اور امام ابوحنیفہ وجوب کے قائل ہیں۔ اس سلسلے میں حضرت ابن عباسؓ سے تین روایتیں محدثین نقل کی ہیں۔ عکرمہؓ کی روایت یہ ہے کہ ابن عباسؓ نے فرمایا:’’ یہ ان آیات میں سے نہیں ہے جن پر سجدہ لازم ہے مگر مَیں نے اس  مقام پر نبیؐ کو سجدہ کرتے دیکھا ہے‘‘ (بخاری).... سعید بن جبیرؓ سے روایت ہے کہ سورئہ صٓ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا اور فرمایا: ’’دائود ؑنے توبہ کے طور پر سجدہ کیا تھا اور ہم شکر کے طور پر سجدہ کرتے ہیں‘‘۔ (نسائی).... حضرت ابوسعید خدریؓ کا بیان یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ خطبے میں سورئہ صٓ پڑھی اور جب آپؐ اس آیت پر پہنچے تو آپؐ نے منبر سے اُتر کر   سجدہ کیا اور آپؐ کے ساتھ سب حاضرین نے بھی کیا (ابوداؤد)۔ ان روایات سے اگرچہ   وجوبِ سجدہ کی قطعی دلیل تو نہیں ملتی لیکن کم از کم اتنی بات تو ضرور ثابت ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقام پر اکثر سجدہ فرمایا ہے، اور سجدہ نہ کرنے کی بہ نسبت یہاں سجدہ کرنا بہرحال افضل ہے‘‘۔(تفہیم القرآن، ج۴، ص۳۲۵-۳۲۶)

گیارہواں سجدہ

فَاِِنِ اسْتَکْبَرُوْا فَالَّذِیْنَ عِنْدَ رَبِّکَ یُسَبِّحُوْنَ لَہٗ بِالَّیْلِ وَالنَّھَارِ وَھُمْ لاَ یَسْئَمُوْنَo(حم السجدہ ۴۱:۳۸) ، لیکن اگر یہ لوگ غرور میں آکر اپنی ہی بات پر اڑے رہیں تو پروا نہیں، جو فرشتے تیرے رب کے مقرب ہیں وہ شب و روز اس کی تسبیح کررہے ہیں اور کبھی نہیں تھکتے۔

اس سے پہلے کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں یہ رات اور دن اور سورج اور چاند۔ سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو بلکہ اس خدا کو سجدہ کرو جس نے انھیں پیدا کیا ہے۔ اگر فی الواقع تم اسی کی عبادت کرتے ہو‘‘(۴۱:۳۷)۔’’یعنی یہ اللہ کے مظاہر نہیں ہیں کہ تم یہ سمجھتے ہوئے ان کی عبادت کرنے لگو کہ اللہ ان کی شکل میں خود اپنے آپ کو ظاہر کر رہا ہے، بلکہ یہ اللہ کی نشانیاں ہیں جن پر غور کرنے سے تم کائنات کی اور ا س کے نظام کی حقیقت سمجھ سکتے ہو اور یہ جان سکتے ہو کہ انبیا علیہم السلام جس توحیدِ خداوندی کی تعلیم دے رہے ہیں وہی امرواقعی ہے۔  سورج اور چاند سے پہلے رات اور دن کا ذکر اس امر پر متنبہ کرنے کے لیے کیا گیا ہے کہ رات کو سورج کا چھپنا اور چاند کا نکل آنا، اور دن کو چاند کا چھپنا اور سورج کا نمودار ہو جانا صاف طور پر یہ دلالت کر رہا ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی خدا یا خدا کا مظہرنہیں ہے بلکہ دونوں ہی مجبورو لاچار بندے ہیں جو خدا کے قانون میں بندھے ہوئے گردش کررہے ہیں… اور جو یہ کہتے ہیں کہ ہم ان چیزوں کو  سجدہ نہیں کرتے بلکہ ان کے واسطے سے اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں، اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اگر تم واقعی  اللہ ہی کے عبادت گزار ہو تو ان واسطوں کی کیا ضرورت ہے، براہِ راست خود اُسی کو سجدہ کیوں نہیں کرتے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۴، ص۴۶۰-۴۶۱)

گویا اب اگر یہ لوگ غرور میں آکر اپنی ہی بات یا جہالت پر اڑے رہیں تو پروا نہیں ہے۔ اللہ کے مقرب فرشتے جن کے ذریعے پوری کائنات کا نظام چل رہا ہے، اللہ کی توحید اور اس کی بندگی اختیار کیے ہوئے ہیں، اور اس نظام کے منتظم فرشتے ہر آن یہ شہادت دے رہے ہیں کہ ان کا رب اس سے پاک ہے کہ کوئی اس کا شریک ہو۔

اس مقام پر سجدہ تو متفق علیہ ہے مگر اس امر میں اختلاف ہے کہ آیت نمبر۳۷ یا ۳۸ میں کس پر سجدہ کرنا چاہیے۔ حضرت علیؓ اور ابن مسعودؓ پہلی آیت پر سجدہ کرتے تھے لیکن حضرات    ابن عمرؓ، سعید بن مسیبؓ و دیگر اکابر وَھُمْ لاَ یَسْئَمُوْنَ پر سجدہ کرتے تھے اور یہی امام ابوحنیفہؒ کا بھی قول ہے۔

بارہواں سجدہ

فَاسْجُدُوْا لِلّٰہِ وَاعْبُدُوْاo (النجم ۵۳:۶۲)، جھک جائو اللہ کے آگے اور بندگی بجا لائو۔

یہ وہ مشہور آیت سجدہ ہے جس پر جب آپ نے بیت اللہ شریف میں سجدہ کیا تو آپ کے ساتھ مسلم و کافر سب سجدے میں گر گئے۔ اس سے پہلے کی آیات میں مکہ کے کفار کے غلط طرزِعمل پر ان کو ٹوکا گیا تھا کہ تم ’’ہنستے ہو اور روتے نہیں ہو؟ اور گابجا کر انھیں ٹالتے ہو؟‘‘ (۵۳:۶۱)۔ یعنی قرآن سن کر اس کا مذاق اُڑاتے ہو اور لوگوں کی توجہ قرآن سے ہٹانے کے لیے زور زور سے گانا شروع کر دیتے ہو، جب کہ صحیح طرزِعمل یہ ہے کہ تم ’’جھک جائو اللہ کے آگے اور بندگی بجا لائو‘‘۔  حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ، ابن عباسؓ اور مُطَّلِب بن ابی وداعہؓ کی متفق علیہ روایات ہیں کہ حضوؐر نے جب پہلی مرتبہ حرمِ پاک میں یہ سورت تلاوت فرمائی تو آپ نے سجدہ کیا اور آپ کے ساتھ مسلم و کافر سب سجدے میں گرگئے۔ (بخاری)

سیرت النبیؐ کی مشہور کتاب الرحیق المختوم میں یہ واقعہ یوں رقم ہے: ہجرتِ حبشہ اوّل کے بعد، اسی سال رمضان شریف میں یہ واقعہ پیش آیا کہ نبیؐ ایک بار حرم تشریف لے گئے۔ وہاں قریش کا بہت بڑا مجمع تھا۔ ان کے سردار اور بڑے بڑے لوگ جمع تھے۔ آپؐ نے ایک دم اچانک کھڑے ہوکر سورئہ نجم کی تلاوت شروع کر دی۔ ان کفار نے اس سے پہلے عموماً قرآن سنا نہ تھا.... اور ان کے کانوں میں ایک ناقابلِ بیان رعنائی و دل کشی اور عظمت لیے ہوئے کلامِ الٰہی کی آواز پڑی تو انھیں کچھ ہوش نہ رہا۔ سب کے سب گوش بر آواز ہوگئے۔ کسی کے دل میں کوئی اور خیال ہی نہیں آیا۔ یہاں تک کہ جب آپؐ نے سورہ کے اواخر میں دل دہلا دینے والی آیات تلاوت فرما کر اللہ کا یہ حکم سنایا کہ فَاسْجُدُوْا… اور اس کے ساتھ ہی سجدہ فرمایا تو کسی کو اپنے آپ پر قابو نہ رہا اور سب کے سب سجدے میں گر پڑے.... بعد میں جب انھیں احساس ہوا کہ  کلامِ الٰہی کے جلال نے ان کی لگام موڑ دی اور وہ ٹھیک وہی کام کربیٹھے جسے مٹانے اور ختم کرنے کے لیے انھوں نے ایڑی سے چوٹی تک زور لگا رکھا تھا۔ اور اس کے ساتھ ہی اس واقعے میں غیرموجود مشرکین نے ان پر ہر طرف سے عتاب اور ملامت کی بوچھاڑ شروع کی تو ان کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے اور انھوں نے اپنی جان چھڑانے کے لیے رسولؐ اللہ پر یہ افتراپردازی کی اور   یہ جھوٹ گھڑا کہ آپؐ نے ان کے بتوں کا ذکر عزت و احترام سے کرکے کہا تھا کہ تِلْکَ العَزَانِیْنُ…   ’’یہ بلندپایہ دیویاں ہیں، اور ان کی شفاعت کی اُمید کی جاتی ہے‘‘۔ حالانکہ یہ صریح جھوٹ تھا جو محض اس لیے گھڑ لیا گیا تاکہ نبیؐ کے ساتھ سجدہ کرنے کی جو ’غلطی‘ ہوگئی ہے اس کے لیے ایک ’معقول‘ عذر پیش کیا جاسکے.... بہرحال مشرکین کے سجدہ کرنے کے اس واقعے کی خبر حبشہ کے مہاجرین کو بھی اس طرح پہنچی کہ قریش مسلمان ہوگئے ہیں چنانچہ انھوں نے ماہِ شوا ل میں مکہ واپسی کی راہ لی.... لیکن جب قریب پہنچے تو حقیقت حال آشکار ہوئی۔(ص ۱۳۳-۱۳۴)

تیرہواں سجدہ

وَاِِذَا قُرِیَٔ عَلَیْہِمُ الْقُرْاٰنُ لاَ یَسْجُدُوْنَo (الانشقاق ۸۴:۲۱)، اور جب قرآن ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے۔

اس آیت سجدہ کے پورے مفہوم کو سمجھنے کے لیے آیت ۱۶ سے پڑھیں: ’’پس نہیں، میں قسم کھاتا ہوں شفق کی، اور رات کی اور جو کچھ وہ سمیٹ لیتی ہے، اور چاند کی جب کہ ماہِ کامل ہوجاتا ہے، تم کو ضرور درجہ بہ درجہ ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف گزرتے چلے جانا ہے۔ پھر   ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ ایمان نہیں لاتے اور جب قرآن ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو  سجدہ نہیں کرتے؟‘‘ ۔’’یعنی [انسان کو] ایک حالت پر نہیں رہنا ہے بلکہ جوانی سے بڑھاپے، بڑھاپے سے موت، موت سے برزخ، برزخ سے دوبارہ زندگی، دوبارہ زندگی سے میدانِ حشر، پھر حساب و کتاب اور پھر جزا و سزا کی بے شمار منزلوں سے لازماً تم کو گزرنا ہوگا۔ اس بات پر تین چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے: سورج ڈوبنے کے بعد شفق کی سرخی، دن کے بعد رات کی تاریکی، اور اس میں ان بہت سے انسانوں اور حیوانات کا سمٹ آنا جو دن کے وقت زمین پر پھیلے رہتے ہیں، اور چاند کا ہلال سے درجہ بہ درجہ بڑھ کر بدرِ کامل بننا۔ یہ گویا چند وہ چیزیں ہیں جو اس بات کی علانیہ شہادت دے رہی ہیں کہ جس کائنات میں انسان رہتا ہے اس کے اندر کہیں ٹھیرائو نہیں ہے، ایک مسلسل تغیر اور درجہ بہ درجہ تبدیلی ہر طرف پائی جاتی ہے، لہٰذا کفار کا یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ موت کی آخری ہچکی کے ساتھ معاملہ ختم ہوجائے گا‘‘۔

[اس پر اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے بارے میں تعجب کا اظہار کرتے ہیں جو ایمان نہیں لاتے اور جب ان کے سامنے قرآن پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے] ’’یعنی ان کے دل میں اللہ کا خوف پیدا نہیں ہوتا اور یہ اس کے آگے نہیں جھکتے۔ اس مقام پر سجدہ کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے۔ امام مالکؒ، مسلمؒ اور نسائیؒ نے حضرت ابوہریرہؓ کے بارے میں یہ روایت نقل کی ہے کہ انھوں نے نماز میں یہ سورۃ پڑھ کر اس مقام پر سجدہ کیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں سجدہ کیا ہے۔ بخاری، مسلم، ابودائود، اور نسائی نے ابورافع کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ نے عشا کی نماز میں یہ سورۃ پڑھی اور سجدہ کیا۔ میں نے اس کی وجہ دریافت کی تو انھوں نے فرمایا کہ میں نے ابوالقاسمؐ کے پیچھے نماز پڑھی ہے اور حضوؐر نے اس مقام پر سجدہ کیا ہے، اس لیے میں مرتے دم تک یہ سجدہ کرتا رہوں گا‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۶، ص ۲۹۱-۲۹۲)

چودہواں سجدہ

کَلَّا ط لاَ تُطِعْہُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْo(العلق ۹۶:۱۹)، ہرگز نہیں، اُس کی بات   نہ مانو اور سجدہ کرو اور (اپنے رب کا) قرب حاصل کرو۔

شانِ نزول کے حساب سے یہ پہلی آیت سجدہ ہے لیکن ترتیب کے حساب سے آخری۔  نبی پاکؐ پر وحی کا آغاز غارِحرا میں حضرت جبرئیل ؑکے ذریعے سورئہ علق کی ابتدائی پانچ آیات کی صورت میں ہوا تھا۔ اس کے بعد کی آیات اس وقت نازل ہوئیں جب رسولؐ اللہ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے خانہ کعبہ میں نماز پڑھنا شروع کی اور ابوجہل کو یہ بات ناگوار گزری اور اس نے نبی پاکؐ کو منع کرنا چاہا۔ اس لیے سورئہ علق کی آیت چھے سے آخر (۱۹) تک آیات میں اللہ پاک نے اس کافر کے ردعمل کا جواب دیا: ’’ہرگز نہیں، انسان سرکشی کرتا ہے اس بنا پر کہ وہ اپنے آپ کو بے نیاز دیکھتا ہے (حالانکہ) پلٹنا یقینا تیرے رب ہی کی طرف ہے۔ تم نے دیکھا اُس شخص کو جو ایک بندے کو منع کرتا ہے، جب کہ وہ نماز پڑھتا ہو؟ تمھارا کیا خیال ہے اگر (وہ بندہ) راہِ راست پر ہو یا پرہیزگاری کی تلقین کرتا ہو؟ تمھارا کیا خیال ہے اگر (یہ منع کرنے والا شخص حق کو) جھٹلاتا اور منہ موڑتا ہو؟ کیا وہ نہیں جانتا کہ اللہ دیکھ رہا ہے؟ ہرگز نہیں، اگر وہ باز نہ آیا تو ہم اس کی پیشانی کے بال پکڑ کر اسے کھینچیں گے، اس پیشانی کو جو جھوٹی اور سخت خطاکار ہے۔ وہ بلا لے اپنے حامیوں کی ٹولی کو،ہم بھی عذاب کے فرشتوں کو بلا لیں گے۔ ہرگز نہیں، اس کی بات نہ مانو اور سجدہ کرو اور (اپنے رب کا) قرب حاصل کرو‘‘۔

’’حضرت ابوہریرہؓ کا بیان ہے کہ ابوجہل نے قریش کے لوگوں سے پوچھا: ’’کیا محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) تمھارے سامنے زمین پر اپنا منہ ٹکاتے ہیں؟‘‘ لوگوں نے کہا: ہاں۔ اس نے کہا: ’’لات اور عُزّیٰ کی قسم، اگر میں نے ان کو اس طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھ لیا تو ان کی گردن پر پائوں رکھ دوں گا اور ان کا منہ زمین میں رگڑ دوں گا‘‘۔ پھر ایسا ہوا کہ حضوؐر کو نماز پڑھتے دیکھ کر وہ آگے بڑھا تاکہ آپ کی گردن پر پائوں رکھے، مگر یکایک لوگوں نے دیکھا کہ وہ پیچھے ہٹ رہا ہے اور اپنا منہ کسی چیز سے بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس سے پوچھا گیا کہ یہ تجھے کیا ہوگیا؟ اس نے کہا: میرے اور اُن کے درمیان آگ کی ایک خندق اور ایک ہولناک چیز تھی اور کچھ پَر تھے۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ میرے قریب پھٹکتا تو ملائکہ اس کے چیتھڑے اُڑا دیتے۔ (احمد،مسلم، نسائی)

ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقامِ ابراہیم پر نماز پڑھ رہے تھے۔ ابوجہل کا ادھر سے گزر ہوا تو اس نے کہا: اے محمدؐ! کیا میں نے تم کو اس سے منع نہیں کیا تھا؟ اور اس نے آپؐ کو دھمکیاں دینی شروع کیں۔ جواب میں رسول ؐ اللہ نے اس کو سختی سے جھڑک دیا۔ اس پر اس نے کہا: اے محمدؐ! تم کس بل پر مجھے ڈراتے ہو۔ خدا کی قسم! اس وادی میں میرے حمایتی سب سے زیادہ ہیں‘‘ (احمد، ترمذی)۔ (تفہیم القرآن، ج۶، ص ۳۹۴-۳۹۵)۔ چنانچہ ان آیات کے ذریعے آپؐ کو تسلی دینے کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک بار پھر آپؐ کو حکم دیا کہ تم اس کی بات نہ مانو اور سجدہ کرو۔

[یہاں] ’’سجدہ کرنے سے مراد نماز ہے، یعنی اے نبیؐ! تم بے خوف اُسی طرح نماز پڑھتے رہو جس طرح پڑھتے ہو، اور اس کے ذریعے سے اپنے رب کا قرب حاصل کرو۔ صحیح مسلم وغیرہ میں حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ ’’بندہ سب سے زیادہ اپنے رب سے اس وقت قریب ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہوتا ہے‘‘ اور مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ کی یہ روایت بھی آئی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آیت پڑھتے تھے تو سجدۂ تلاوت ادا فرماتے تھے‘‘۔ (ایضاً، ص۳۹۹)